Zamin,Zewrat ya koi Saman Girwi rakhne ke bare me Sharai hukm kya hai?
Sawal: zamin, Zewrat ya Makan wagairah girwi rakhne ke bare me Islam kya kahta hai? Kya Musalman koi Chij girwi rakh kar Paise le sakta hai? Kya Girwi rakhi hui chij istemal karna ya us se fayeda uthana Jayez hai?"سلسلہ سوال و جواب نمبر -386"
سوال- زمین/ زیورات یا مکان وغیرہ گروی رکھنے کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟ کیا ہم کوئی چیز گروی رکھوا کر پیسے لے سکتے ہیں؟نیز کیا گروی رکھی ہوئی چیز استمعال کرنا یا اس سے فائیدہ اٹھانا جائز ہے؟
Published Date: 25-8-2024
جواب...!
الحمدللہ..!!
*کسی سے کوئی چیز خریدنے یا قرضہ لینے پر بطور ضمانت کوئی چیز رکھوانے کو گروی یا رہن کہا جاتا ہے۔ جو گروی رکھتا ہے اسے راہن کہتے ہیں اور جس کے پاس گروی رکھیں اسے مرتہن کہتے ہیں، لہٰذا راہن کوئی چیز سونا یا جانور یا مکان وغیرہ مرتہن کے پاس امانت رکھواتا ہے کہ مجھے اتنے پیسے قرض دے دو جب قرض ادا کر دوں گا تو میری چیز مجھے واپس مل جائے گی۔ جائز مقصد کےلیے کوئی چیز گروی رکھنے میں کوئی خرابی یا قباحت نہیں لیکن گروی رکھی ہوئی چیز سے مرتہن کا فائدہ اٹھانا ناجائز اور حرام ہے، کیونکہ قرضے یا ادھار قیمت کے عوض کوئی بھی فائدہ اٹھانا سود ہے۔*
جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے!
کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان
باب: باب: عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3814
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَلَا تَجِيءُ فَأُطْعِمَكَ سَوِيقًا وَتَمْرًا وَتَدْخُلَ فِي بَيْتٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّكَ بِأَرْضٍ الرِّبَا بِهَا فَاشٍ إِذَا كَانَ لَكَ عَلَى رَجُلٍ حَقٌّ، فَأَهْدَى إِلَيْكَ حِمْلَ تِبْنٍ أَوْ حِمْلَ شَعِيرٍ أَوْ حِمْلَ قَتٍّ فَلَا تَأْخُذْهُ، فَإِنَّهُ رِبًا، وَلَمْ يَذْكُرِ النَّضْرُ، وَأَبُو دَاوُدَ، وَوَهْبٌ عَنْ شُعْبَةَ الْبَيْت.
ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے سعید بن ابی بردہ نے اور ان سے ان کے والد نے کہ میں مدینہ منورہ حاضر ہوا تو میں نے عبداللہ بن سلام ؓ سے ملاقات کی، انہوں نے کہا، آؤ تمہیں میں ستو اور کھجور کھلاؤں گا اور تم ایک (باعظمت) مکان میں داخل ہو گے (کہ رسول ﷺ بھی اس میں تشریف لے گئے تھے)
پھر آپ نے فرمایا تمہارا قیام ایک ایسے ملک میں ہے جہاں سودی معاملات بہت عام ہیں اگر تمہارا کسی شخص پر کوئی حق ہو اور پھر وہ تمہیں ایک تنکے یا جَو کے ایک دانے یا ایک گھاس کے برابر بھی ہدیہ دے تو اسے قبول نہ کرنا کیونکہ وہ بھی سود ہے۔
*اس لیے سلف صالحین بدلے میں کوئی چیز نہیں لیتے تھے*
سالم بن ابی الجعد فرماتے ہیں:
ہمارا ایک پڑوسی مچھلی فروش تھا اس کے ذمے کسی آدمی کے پچاس درہم تھے وہ قرض دینے والے کو مچھلی ہدیہ بھیجتا تھا ابن عباس رضی اللہ عنہ آئے تو اس نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا "جو وہ تجھے تحفے میں دے رہا ہے اسے حساب میں شمار کر۔"
(بیہقی، باب کل قرض جر منفعۃ فھو رباہ 5/350، کتاب التحقیق مع تنقیح 3/8 (1572)
*اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرض لینے والے شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مقروض کی کسی چیز سے فائدہ اٹھائے یا اس سے تحفے قبول کرے، لہذا اگر کسی شخص کے پاس کوئی چیز گروی رکھی گئی ہو تو وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور اگر وہ فائدہ اٹھائے تو اصل رقم سے حساب کر کے اتنی رقم کم کر دی جائے گی اور اگر حق سے زائد فائدہ اٹھایا تو واپس کرنا ہو گا وگرنہ سود ہو گا*
*ہاں گروی رکھی ہوئی چیز پر خرچ کرنا پڑتا ہو تو خرچ کے عوض تھوڑا بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ مثلاً کسی نے حقدار کے پاس بطور ضمانت کوئی جانور وغیرہ گروی رکھا ہو تو اسے گھاس یا چارہ ڈال کر اس پر سواری کی جا سکتی ہے یا اس کا دودھ پیا جا سکتا ہے۔*
جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
صحیح بخاری
کتاب: رہن کا بیان
باب: باب: گروی جانور پر سواری کرنا اس کا دودھ پینا درست ہے۔
حدیث نمبر: 2512
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الرَّهْنُ يُرْكَبُ بِنَفَقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، وَلَبَنُ الدَّرِّ يُشْرَبُ بِنَفَقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، وَعَلَى الَّذِي يَرْكَبُ وَيَشْرَبُ النَّفَقَةُ.
ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں زکریا نے خبر دی، انہیں شعبی نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، گروی جانور پر اس کے خرچ کے بدل سواری کی جائے۔ اسی طرح دودھ والے جانور کا جب وہ گروی ہو تو خرچ کے بدل اس کا دودھ پیا جائے اور جو کوئی سواری کرے یا دودھ پئے وہی اس کا خرچ اٹھائے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر کسی کے پاس گروی شدہ بکری ہے تو چارے کی قیمت کے مطابق اس کا دودھ پینے میں کوئی حرج نہیں، قیمت سے زیادہ دودھ حاصل کرنا سود ہے۔‘‘ (فتح الباری، ج5/ص178)
اور سود یقیناً باطل طریقہ ہے مال کھانے کا ،
اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَأكُلوا أَموٰلَكُم بَينَكُم بِالبـٰطِلِ ...
"اے ایمان والو اپنے مالوں کو آپس میں ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ۔" (سورہ نساء -29)
,رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے: (إن دماءَكم وأموالكم حرامٌ عليكم)
"بلاشبہ تمہارے خون اور اموال تم پر حرام ہیں"
(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (1218)
*ان نصوص صریحہ سے معلوم ہوا کہ مسلمان کا مال مسلمان پر اصلا حرام ہے جواز تصرف کے لئے کسی شرعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے جو یہاں مفقود ہے گروی رکھنے والا شخص اپنی گروی شدہ چیز کا مالک ہے اور اس کا اپنی چیز سے فائدہ اٹھانا تو معقول ہے جب کہ جس کے پاس گروی رکھی گئی ہے اس کی حیثیت امین کی ہے اور اس کے پاس پڑی ہوئی چیز امانت ہے جو کہ رقم کے تحفظ کے لیے ہے کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت اور ناجائز ہے۔*
اور حدیث میں جو خرچ کے عوض جانور کے دودھ اور سواری کرنے کی اجازت موجود ہے اس سے استدلال کرنا درست نہیں کیونکہ یہ حدیث عمومی شرعی اصول کے منافی ہے یہ صرف سواری یا دودھ کے ساتھ خاص ہے۔ اس پر عام قیاس کرنا درست نہیں۔
صحیح بخاری میں امام بخاری کا فہم بھی یہی ہے حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں۔
ایک گروہ نے کہا ہے کہ جس کے پاس گروی رکھی گئی ہے وہ خرچ کے عوض گروی جانور پر سواری کر سکتا ہے اور دودھ دوھ سکتا ہے اس حدیث کی وجہ سے دو فائدوں کے علاوہ فائدہ حاصل نہیں کر سکتا۔
(فتح الباری 5ج/ص144)
اسی طرح مرھونہ زمین ( یعنی گروی رکھی ہوئی زمین) کی صورت میں اگر مرتھن( جو گروی پر زمین لیتا ) وہ زمین آگے ٹھیکے پر دے تو ٹھیکے کی رقم گروی رکھنے والے کے قرضے سے منہا کر دی جائے۔ اگر مرتھن خود کاشت کرے تو پیداوار تقسیم کر کے مالک کے حصہ کے مطابق اس کا قرضہ کم کر دے۔
اسی طرح اگر کسی نے قرضہ کے بدلے اپنا مکان گروی رکھا ہے اگر قرضدار اس میں رہائش رکھنا چاہتا ہے تو اس کا کرایہ طے کیا جائے اور اس کرائے کی رقم کو قرضے سے کم کرتا رہے، اگر کرایہ کی رقم کو قرض سے منہا نہیں کرتا تو یہ صریح سود ہے۔
ہمارا رجحان یہ ہے کہ ایسی چیز گروی رکھی جائے جس پر خرچ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ جیسے زیورات وغیرہ تاکہ وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ گروی چیز کی حیثیت ایک امانت کی سی ہے، جب ادھار یا قرض چکا دیا جائے تو وہ چیز مالک کو اصل حالت میں واپس کر دی جائے گی۔
*مذکورہ بالا دلائل کی بنا پر ہر وہ مرتھن چیز جس کی دیکھ بھال نہ کرنے سے تلف ہوجانے کا خدشہ ہو اس سے بقدر خرچ اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔*
لیکن مکان کی صورت حال کچھ اور نوعیت کی ہے۔ مکان گروی رکھنے والا اسے استعمال نہیں کرسکتا اگر استعمال کرنا چاہے تو اس کا راہن سے کرایہ وغیرہ کا طے کرلے کیونکہ آج کل صورت حال یوں ہےکہ ایک آدمی مکان رہن رکھ کے مرتھن سے کچھ رقم لیتا ہے اور مرتھن اس مکان سے فائدہ اٹھاتا ہے یعنی اس میں سکونت اختیار کرتا ہے جبکہ راہن اس کی رقم استعمال کرتا ہے حالانکہ مکان کو جانور وغیرہ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جانور کا اگر دودھ وغیرہ نہ دھویا جائے گا اور چارہ وغیرہ نہ ڈالا جائے گا تو اس کے تلف و ضرر کا خدشہ ہے جبکہ مکان میں ایسی کوئی صورت نہیں ہاں اگر وہ راہن سے مکان کا کرایہ طے کرلیتا ہے تو اس میں سکونت اختیار کرسکتا ہے وگرنہ اس کا اس سے فائدہ اٹھانا سود کے زمرے میں آئے گا۔
*ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر راہن گروی رکھی چیز استعمال کرنے کی اجازت دے دے تو کیا پھر بھی یہ ناجائز ہے؟*
جیسا کہ اوپر دلائل سے یہ بات طے ہو چکی کہ مرتہن کا راہن کی چیز کو قرض کے بدلے میں استعمال کرنا ’’ سود ‘‘ میں داخل ہے تو پھر اقرب یہی لگتا ہے کہ یہ ناجائز ہی رہے گا ۔
کیونکہ سودی کار و بار ناجائز ہے چاہے وہ فریق کی مرضی سے ہو یا فریقین کی رضا مندی سے ۔۔ واللہ اعلم
۔اصل میں مسئلہ صرف اجازت دینے نہ دینے کا بھی نہیں ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ آپ ایک ایسی چیز سے فائدہ اٹھارہے ہیں جس سے شریعت نے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی ۔
ویسے بھی راہن عموما اس لیے اجازت دے دیتا ہے کیونکہ وہ مرتہن کا مقروض ہوتا ہے ۔ گویا کہ مرتہن راہن کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتا ہے ۔
کیونکہ اگر ان کے درمیان اتنے اچھے تعلقات ہوتے تو ’’ راہن ‘‘ کو اپنی ضرورت کے لیے ’’ قرض ‘‘ لینے کے لیے اپنے استعمال کی چیز مثلا گاڑی یا گھر وغیرہ اس کے پاس نہ رکھوانا پڑتا۔
یہ تو گروی چیز کا معاملہ ہے ، سلف صالحین سے یہ بات منقول ہے کہ اگر انہوں نے کسی کو قرض دیا ہوتا تو وہ اس قدر احتیاط کیا کرتےتھے کہ مقروض کے گھر یا درخت کے سایہ کے نیچے بھی نہیں بیٹھا کرتے تھے کہ کہیں وہ ’’ قرض ‘‘ کے بدلے میں ’’ نفع ‘‘ اٹھانے والوں میں شمار نہ ہوں ۔
مآخذ :
محدث فتویٰ/ محدث فورم
(فتاویٰ ارکان اسلام/ آپکے مسائل اور انکا حل )
((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))
ملتے جلتے سوالات ۔۔۔۔۔!!
سوال_سود کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ بینک یا سودی لین دین والے کاروبار میں جاب کرنا کیسا ہے؟ دیکھیں سلسلہ نمبر -169
سوال_سود خور خاوند كے ساتھ رہنے كا کیا حكم ہے؟كيا بینک میں ملازمت کرنے والے یا سود پر قرض لينے/دینے والے خاوند كے ساتھ رہنے والى بيوى اور سکے بچے بھى گنہگار شمار ہوں گے؟
دیکھیں سلسلہ نمبر -170
سوال_کسی کافر،مشرک سے تعلقات رکھنا، اسکی دعوت قبول کرنا ،اس سے لین دین کرنا یا قرض لینا کیسا ہے؟ اور ایسے مسلمان رشتے دار جنکی آمدن حرام کی ہو جیسے سود وغیرہ تو کیا انکا دیا ہوا تحفہ یا دعوت قبول کر سکتے ہیں؟
دیکھیے سلسلہ نمبر -104
سوال- اسلام ميں مالی سزاؤں كا كيا حكم ہے ؟ اگر سکول یا گورنمنٹ کی فیس/چالان وغیرہ لیٹ ادا کریں تو اس پر جرمانہ ہوتا ہے، کیا یہ بھی سود ہے؟
دیکھیے سلسلہ نمبر -352
اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/
No comments:
Post a Comment