find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Baccho ke name kaise Rakhne chahiye? Kya Name badalne se Taqdeer Badal jayegi?

Bacho ke Nam kaise rakhne chahiye?
Sawal. Baccho ke nam kaise rakhne chahiye? Kya yah bat Sahi hai ke Nam Shakshiyat par Asar Andaz hote hai? Agar koi baccha Bimar rahta ho to kya uska nam tabdil karne se wah thik ho jayega, Kya Nam Badalne se Taqdeer badal jayegi?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-385"
سوال_بچوں کے نام کیسے رکھنے چاہیے؟ کیا یہ بات ٹھیک ہے کہ نام شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ اور اگر کوئی بچہ بیمار رہتا ہو تو کیا اسکا نام تبدیل کرنے سے وہ ٹھیک ہو جائے گا؟ نیز کیا نام بدلنے سے تقدیر بدل جائیگی.؟

Published Date- 22-08-2024

جواب۔۔۔!
الحمدللہ۔۔!

*بچے کی پیدائش کے بعد جو اسکے حقوق شرعی طور پر شروع ہوتے ہیں، ان میں سے ایک حق بچے کا اچھا نام رکھنے کا بھی ہے، یعنی بچے کا مسنون وقت میں نام رکھا جائے اور نام ایسا رکھا جائے کہ جس نام کا معنی اچھا ہو،یا کسی صحابی یا پیغمبر کا نام ہو، یا کسی مجاہد یا عالم کہ جس نے اسلام کے لیے قربانیاں دی ہوں یا کوئی بھی اچھے معنی والا خوبصورت نام ہو،تا کہ اس نام کی تاثیر بھی اچھی ہو، اور برے نام رکھنے سے صاحب شریعت نے منع کیا ہے، اور اگر کوئی لا علمی میں برا نام رکھ لے تو جب معلوم ہو تو اسکو اچھے نام سے بدل دے، کیونکہ برے ناموں کی تاثیر بھی بری ہوتی ہے،جسکے دلائل آگے آ رہے ہیں*  ان شاءاللہ

*بچے کی پیدائش سے ساتویں دن تک اسکا نام رکھنا مسنون عمل ہے*

📚جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كُلُّ غُلَامٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ : تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ سَابِعِهِ، وَيُحْلَقُ، وَيُسَمَّى "
ہر لڑکا اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے، ساتویں روز اس کی طرف سے ذبح کیا جائے، اس کا سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-2838)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1522)
(سنن نسائی حدیث نمبر-4220,4221)

📚امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دلیل ہے کہ ساتویں دن بچے کا سر مونڈنا اور نام رکھنا مستحب عمل ہے،
(المغنی لابن قدامہ،8ج/ص22)

📚امام شوکانی رحمہ اللہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ،
حدیث میں وارد لفظ "یسمی" ساتویں روز بچے کا نام تجویز کرنے کے مستحب ہونے کی دلیل ہے،
(نیل الاوطار،ج 5/ص194 )

*لیکن ضروری نہیں کہ ساتویں روز رکھا جائے،اگر کوئی پہلے دن نام رکھ لے تو بھی کوئی حرج نہیں،*

📚جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
وُلِدَ لِي اللَّيْلَةَ غُلَامٌ، فَسَمَّيْتُهُ بِاسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ،
میرے ہاں آج رات ایک بچہ پیدا ہوا ہے ۔ میں نے اس کا نام اپنے والد کے نام پر ” ابراہیم “ رکھا ہے،
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2315)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3126)

📚ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور کھجور کو اپنے دندان مبارک سے نرم کر کے اسے چٹایا اور اس کے لیے برکت کی دعا کی پھر مجھے دے دیا۔ یہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے سب سے بڑے لڑکے تھے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5467)

📚امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر باب باندھا ہے کہ:
بَابُ تَسْمِيَةِ الْمَوْلُودِ غَدَاةَ يُولَدُ، لِمَنْ لَمْ يَعُقَّ عَنْهُ، وَتَحْنِيكِهِ:
باب: اگر بچے کے عقیقہ کا ارادہ نہ ہو تو پیدائش کے دن ہی اس کا نام رکھنا اور اس کی تحنیک کرنا جائز ہے۔

*لہذا ان دلائل سے ثابت ہوا کہ بچے کی پیدائش والے دن اور پیدائش کے ساتویں روز نام رکھنا مسنون ہے*

📚 چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ،
ألسنة أن يسمى المولود أليوم السابع من ولادته أو يوم الولادة،
نومولود کا ولادت کے ساتویں دن یا ولادت کے دن نام رکھنا مسنون ہے،
(شرح النووی، ج14/ص165)

📚ابن علان رحمہ اللہ " المواہب الدینیۃ" میں لکھتے ہیں کہ،
ان احادیث کو اس معنی پر مجہول کیا جائے گا کہ ولادت کے ساتویں دن سے نام رکھنے میں تاخیر مشروع نہیں، (یعنی ساتویں روز ہی نام رکھ لینا چاہیے) اسکا یہ مطلب یہ نہیں کہ ساتویں روز ہی نام رکھا جائے بلکہ پیدائش سے لیکر ساتویں روز تک نام تجویز کرنا مشروع ہے،
(الفتوحات الربانیه،ج6/ص97)

*ناموں کا انتخاب*
بچوں کے نام رکھتے وقت آپس میں مشورہ کر لیں، والدہ، والد اور دادا دادی اور نانا نانی وغیرہ سب سے مشورہ کر کے جس پر سب متفق ہو جائیں وہ نام رکھا جائے اور  ان ناموں کو ترجیح دی جائے جو اللہ کے پسندیدہ نام ہیں یا شرعاً مستحب ہیں، اور ایسے ناموں سے پرہیز کرنا چاہیے جو شرعاً حرام یا مکروہ ہیں، جنکا معنی اچھا نہیں یا جنکی نسبت یہود و نصارٰی کی طرف ہوتی ہو وغیرہ، ایسے نام نہیں رکھنے چاہیے*

*اللہ کے پسندیدہ افضل نام*

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:‏‏‏‏
إِنَّ أَحَبَّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَبْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ”
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں“
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2132)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2834)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر4949)

📚عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں،
اس حدیث میں یہ دو نام( عبداللہ اور عبدالرحمن ) رکھنے کی ترغیب ہے اور یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دو نام تمام ناموں سے افضل ہیں،
(تحفة الاحوذى، ج8/ص99٫100)
(عون المعبود ،ج13/ص199)

📚حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ،
علماء کا ان ناموں کے مستحسن ہونے پر اتفاق ہے جو نام اللہ کی طرف منسوب ہیں، جیسے عبداللہ اور عبدالرحمن، اور ان جیسے دوسرے نام بھی، (جن میں بندے کی نسبت اللہ کی طرف ہو)
(مراتب الاجماع،ص154)

📚سعید بن مسیب رحمہ اللہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ،
أحب الأسماء إليه أسماء الأنبياء
اللہ کے ہاں پسندیدہ ترین نام انبیاء کے نام ہیں،
(مصنف ابن شیبہ،حدیث نمبر-26430)

*یہ قول سندا تو صحیح ہے مگر اوپر موجود صحیح حدیث کے مقابلے میں یہ قول کوئی حیثیت نہیں رکھتا،لہذا افضل نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہی ہیں،*

📚حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ "فتح الباری" میں اسکی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
ان دو ناموں کے ساتھ انکے ہم مثل نام مثلاً عبدالمالک، عبد الصمد، عبد الرحیم وغیرہ بھی شامل ہیں ان ناموں کا اللہ کے پسندیدہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں اللہ کے لازم وصف معبود اور بندے کے لازم وصف یعنی عبودیت کو شامل ہے۔۔۔۔انہتی۔۔! انکے علاوہ دیگر علماء فرماتے ہیں کہ ان دو ناموں کی فضیلت اس لیے ہے کہ قرآن مجید میں عبد کی نسبت بھی اللہ تعالیٰ کے ان دو ناموں کی طرف ہی ہے۔۔!

*یاد رہے عبد کی نسبت کر کے نام رکھنے کی فضیلت میں کچھ احادیث بھی نقل کی گئیں ہیں مگر ان میں سے کوئی روایت بھی صحیح سند سے ثابت نہیں،*

📚جیسا کہ ابو ثقفی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
إذا سميتم فعبدوا،
جب تم نام رکھو تو اس میں عبد کا لفظ شامل کرو،
(معجم طبرانی کبیر، (٢٠/١٧٩) (٣٨٣)
(أبو نعيم في «معرفة الصحابة» (٦٨٠١)

🚫(الهيثمي مجمع الزوائد ٨/٥٣ • فيه أبو أمية بن يعلى وهو ضعيف جدا‏‏ )
(الألباني السلسلة الضعيفة ٦٩٩٠ • ضعيف جدا •)

📚ایک روایت میں آتا ہے کہ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
أحَبُّ الأسماءِ إلى اللهِ: ما تُعُبِّدَ،
اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ نام وہ ہیں جن میں عبد کے الفاظ ہوں،
(الطبراني (١٠/٨٩) (٩٩٩٢)
🚫(الألباني ضعيف الجامع ١٥٦ • موضوع)
(ابن حجر العسقلاني فتح الباري لابن حجر ١٠/٥٨٦ • إسناده ضعيف)

📚ایک اور روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
أحبُّ الأسماءِ إلى اللهِ ما عُبِّدَ وما حُمِّدَ
اللہ تعالیٰ کے انتہائی پسندیدہ نام وہ ہیں جنکے اندر عبد اور حمد کے الفاظ آئیں،

🚫یہ روائیت بغیر سند کے ہے اسکی کوئی اصل نہیں
(الألبانی السلسلة الضعيفة ٤١١ • لا أصل له)

*اگرچہ یہ روایات ضعیف ہیں لیکن اوپر بیان کردہ صحیح احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی طرف عبدیت کی نسبت کر کے نام رکھنا افضل ہے،*

*انبیاء و صالحین کے نام پر نام رکھنا*

اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی طرف عبدیت کی نسبت کر کے نام رکھنا تو افضل و مسنون ہے ہی ہے اسکے ساتھ ساتھ انبیاء کے نام پر نام رکھنا بھی مسنون و مستحب ہے،

احادیث ملاحظہ فرمائیں،

📚جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
وُلِدَ لِي اللَّيْلَةَ غُلَامٌ، فَسَمَّيْتُهُ بِاسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ،
میرے ہاں آج رات ایک بچہ پیدا ہوا ہے ۔ میں نے اس کا نام اپنے والد کے نام پر ” ابراہیم “ رکھا ہے،
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2315)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3126)

📚عبدالمحسن العباد سنن ابو داؤد کی شرح میں لکھتے ہیں یہ حدیث دلیل ہے کہ انبیاء کے نام پر نام رکھنا جائز ہے،
(شرح سنن ابو داؤد 16ج/ص444)

📚یوسف بن سلام بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا نام یوسف رکھا اور میرے سر پر ہاتھ پھیرا،
(مسند احمد حدیث نمبر- 16404)
• إسناده صحيح

*لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں بچوں کا نام رکھتے ہوئے ٹی وی اداکاروں کو دیکھا جاتا ہے، جسکا جو پسندیدہ ایکٹر ہے اسکا نام اسے پسند ہوتا ، وہ بھلے ہندوؤں کا ہو یا عیسائیوں کا ، اسکا معنی اچھا ہو یا نا ہو اس سے انکو کوئی فرق نہیں پڑتا، اسی طرح ہمارے ہاں بچوں کے نام رکھنے کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں*

مثلاً

(1) اگر بچہ شرارتی ہو تو کہا جاتا ہے کہ نام بدل لو اس کی قسمت بدل جائے گی !

(2) ایسے ہی بچہ بیمار رہتا ہو تو اسے نام بدلنے کو کہا جاتا ہے تاکہ ٹھیک ہوجائے۔

(3) ایک بڑی بھیانک غلط فہمی یہ ہے کہ اگر گھر میں ایک بچہ مرجائے تو اس کا نام دوسرے بچے کو رکھنا منحوس سمجھاجاتا ہے بلکہ یہ سوچا جاتا ہے کہ اگر یہ نام رکھ لیا گیا تو دوسرا بچہ بھی مرجائے گا۔

(4) بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کے اونچے اونچے لوگوں کا نام رکھنے سے بچہ انہیں جیسا بلند ہوگا۔

📒ان خیالات کے پس منظر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اچھے نام واقعی قیمتی جوہر ہیں، اس لئے اسلام میں نام رکھنے کے طریقے ہیں۔
اسلام میں سب سے بہتر نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔

٭ان کے علاوہ اللہ کی صفتوں کی طرف عبدیت کا انتساب کرکے نام رکھنا مثلا عبدالرحیم، عبدالجبار وغیرہ ۔ 
٭اسی طرح نبیوں، رسولوں اور ان کی اولاد کے نام پہ ، صحابہ کرام اور ان کی اولاد کے نام پہ نام رکھنا مستحب ہے!!
اور ان ناموں سے بچا جائے جن میں شرک ، معصیت، کراہت اورخرابی کاکوئی پہلو نکلتا ہو۔

*اب میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ ناموں سے فرق پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے موقع پہ سہل بن عمرو بات چیت کے لئے تو آپ نے فرمایاکہ معاملہ سہل ہوگا۔*
*اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے سہل کے نام سے نیک فالی لی ہے*

📚سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ ان کے دادا حزن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرا نام حزن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سہل ہو، انہوں نے کہا کہ میں تو اپنے باپ کا رکھا ہوا نام نہیں بدلوں گا۔ سعید بن مسیب نے کہا اس کے بعد سے اب تک ہمارے خاندان میں سختی اور مصیبت ہی رہی۔ («حزونة» سے صعوبت مراد ہے)
(صحیح بخاری حدیث نمبر-6193)

اس کے علاوہ دیگر احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ نے بعض ناموں کو ناپسند فرمایا اور بعض ناموں کو بدل دیا۔
لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ناموں میں تاثیر پائی جاتی ہے مگر یہ تاثیر انسان کی صحت/ شخصیت اور اس کے کردار کو نہیں بدل سکتی ۔زیادہ سے زیادہ اچھے ناموں سے اچھا تصور کرسکتے ہیں ۔ اگر کچھ تاثیر ظاہر بھی ہوئی تو یہ اللہ کی قدرت سے ہے ،
احادیث کے مجموعہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں نیک فالی ہے لیکن بدفالی نہیں ہے ۔

مثلاً جب نبی علیہ السلام کسی جگہ سفر پر روانہ ہوتے تو راستوں کا نام پوچھتے ، جس راستے کا نام برا ہوتا ،اس کے متعلق کچھ نہیں فرماتے اور جس راستے کا نام اچھا ہوتا اس پر چل پڑتے ۔کہ اللہ تعالیٰ ہم کو اس راستہ میں خیر وبرکت دیں گے ان شاءاللہ ۔

📚ایک غزوہ سے واپسی پر آپ دو پہاڑوں کے درمیان سے گزر رہے تھے۔ آپ نے دونوں پہاڑوں کے نام دریافت کیے پتہ چلا کہ ایک کا نام ”فاضح“ اور دوسرے کا نام ”مخز“ (ذلیل و رسوا کرنے والا) ہے۔، آپ صلى الله عليه وسلم نے وہ راستہ فوراً بدل دیا۔
(زاد المعاد ۲/۵، سیرت ابن ہشام2-253)

📚رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اپنی دودھاری اونٹنی کے دودھ نکالنے کے لیے چند لوگوں کو بلایا، ایک ”مرّہ“ (کڑواہٹ) نامی آدمی اس کے لیے کھڑاہوا، آپ ﷺنے اس کو بٹھادیا، دوسرا شخص کھڑاہوا،اس کا نام بھی حرب (جنگ وجدال) تھا، آپ ﷺنے اس کو بھی کہا بیٹھ جاؤ۔ تیسرا شخص کھڑاہوا،جس کا نام تھا ’یعیش“ (زندگی) آپ نے اس کو دوہنے کی اجازت دی۔
( زاد المعاد ۲/۴، موطا امام مالک ۲/۷۴۱، الادب المفرد حدیث نمبر ۸۳۵)

📚صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں سہیل بن عمرو آئے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے محض ان کے نام سے استدلال کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ فرمایا کہ ”ان شاء اللہ مشرکین مکہ کے ساتھ جاری ہماری مصالحتی کوشش بھی ”سہل“ رہے گی اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا“(زاد المعاد۲/۴)

📒مشہور اسلامی سائیٹ ۔۔اسلام ویب ‘‘
پر ایک سوال کے جواب میں ایک مفصل فتوی دیا گیا ہے ؛
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
خلاصة الفتوى:
إن تأثير الاسم على صاحبه قد أكدته الدراسات النفسية، ويدل له تحديد النبي -صلى الله عليه وسلم- لخير الأسماء، وتغييره لبعضها وتفاؤله بالبعض.
علم النفس کے مطالعہ اور تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ناموں کا اثر نام والے پر ہوتا ہے ۔۔ اور اس بات پر دلیل ہے رسول اللہ ﷺ اچھے ناموں کے اختیار کرنا ،اور کچھ ناموں کو اچھے ناموں سے بدل دینے ،اور بعض ناموں سے اچھی صورت حال اخذ کرنا۔۔

تأثير الأسماء في نفوس أصحابها
الأربعاء 21 محرم 1429 - 30-1-2008
(رقم الفتوى: 104126التصنيف: أحكام المولود)

📒علامہ شمس الدين ابن قيم الجوزیہ
(المتوفى: 751هـ)
زاد المعاد میں لکھتے ہیں :
[اخْتِيَارُ الْأَسْمَاءِ الْحَسَنَةِ لِأَنَّ الْأَسْمَاءَ قَوَالِبُ لِلْمَعَانِي]
فَصْلٌ فِي فِقْهِ هَذَا الْبَابِ
لَمَّا كَانَتِ الْأَسْمَاءُ قَوَالِبَ لِلْمَعَانِي، وَدَالَّةً عَلَيْهَا، اقْتَضَتِ الْحِكْمَةُ أَنْ يَكُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَهَا ارْتِبَاطٌ وَتَنَاسُبٌ، وَأَنْ لَا يَكُونَ الْمَعْنَى مَعَهَا بِمَنْزِلَةِ الْأَجْنَبِيِّ الْمَحْضِ الَّذِي لَا تَعَلُّقَ لَهُ بِهَا، فَإِنَّ حِكْمَةَ الْحَكِيمِ تَأْبَى ذَلِكَ، وَالْوَاقِعُ يَشْهَدُ بِخِلَافِهِ، بَلْ لِلْأَسْمَاءِ تَأْثِيرٌ فِي الْمُسَمَّيَاتِ، وَلِلْمُسَمَّيَاتِ تَأَثُّرٌ عَنْ أَسْمَائِهَا فِي الْحُسْنِ وَالْقُبْحِ، وَالْخِفَّةِ وَالثِّقَلِ، وَاللَّطَافَةِ وَالْكَثَافَةِ كَمَا قِيلَ:
وَقَلَّمَا أَبْصَرَتْ عَيْنَاكَ ذَا لَقَبٍ ... إِلَّا وَمَعْنَاهُ إِنْ فَكَّرْتَ فِي لَقَبِهْ
( «وَكَانَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَحِبُّ الِاسْمَ الْحَسَنِ، وَأَمَرَ إِذَا أَبْرَدُوا إِلَيْهِ بَرِيدًا أَنْ يَكُونَ حَسَنَ الِاسْمِ حَسَنَ الْوَجْهِ» )
وَكَانَ يَأْخُذُ الْمَعَانِيَ مِنْ أَسْمَائِهَا فِي الْمَنَامِ وَالْيَقَظَةِ كَمَا ( «رَأَى أَنَّهُ وَأَصْحَابَهُ فِي دَارِ عقبة بن رافع، فَأُتُوا بِرُطَبٍ مِنْ رُطَبِ ابْنِ طَابَ، فَأَوَّلَهُ بِأَنَّ لَهُمُ الرِّفْعَةَ فِي الدُّنْيَا، وَالْعَاقِبَةَ فِي الْآخِرَةِ، وَأَنَّ الدِّينَ الَّذِي قَدِ اخْتَارَهُ اللَّهُ لَهُمْ قَدْ أَرْطَبَ وَطَابَ، وَتَأَوَّلَ سُهُولَةَ أَمْرِهِمْ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ مِنْ مَجِيءِ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو إِلَيْهِ» ) .
اچھے ،پیارے نام منتخب کرنا چاہئیے کیونکہ نام دراصل معانی کے قالب ہوتے ہیں ؛
اس باب کی فقہ یہ ہے کہ :
" جب نام معانى كے قالب اور اس پر دلالت كرنے والے ہوتے ہيں ؛
تو حكمت كا تقاضہ ہے كہ نام اور معانى كے درميان ارتباط اور مناسبت ہو، اور اس كے ساتھ معنى اس طرح محض اجنبى نہ ہو كہ اس كے ساتھ تعلق اور مناسبت ہى نہ ركھے؛ كيونكہ حكمت والے حكيم كى حكمت اور واقع اس كے خلاف گواہى ديتا ہے.
بلكہ ناموں كى مسميات پر ضرور تاثير ہوتى ہے، اور مسميات يعنى جن كا نام ركھا گيا ہو ان پر اچھے اور برے، اور ہلكے اور بھارى، اور لطيف و كثيف ناموں كى تاثير ضرور ہوتى ہے، جيسا كہ كہا جاتا ہے:
آپ كى آنكھوں نے لقب والا ايسا بہت ہى كم ديكھا ہے كہ اگر اسكے لقب ميں آپ غور كريں تو كوئى معنى ضرور پايا جاتا ہے.اسی لئے نبی کریم ﷺ کو یہ بات پسند تھی جب کوئی سفیر اور پیغام رساں انکے پاس بھیجا جائے ،تو اچھے نام ،اور خوبصورت چہرے والا ہونا چاہیئے ؛
آپ نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں ناموں سے معانی کو اخذ کرتے تھے
جیسا آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ اور آپ صحابہ عقبہ بن رافع کے گھر میں ہیں
اور انکے پاس ابن طاب کی تر کھجوریں پیش کی گئیں ،تو آپ نے اس کی یہ تعبیر و تاویل فرمائی ،کہ دنیا میں کامیابی و سرخ روئی ۔اور آخرت کی فوز و فلاح ملے گی؛
اور حدیبیہ کے دن ۔سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو ۔کے آنے سے آپ نے اخذ فرمایا کہ آسانی اور سہولت ملے گی ۔۔..!!!
(( ديكھيں: زاد المعاد ( 2 / 336 )

📒 اسی طرح سعودی فتاویٰ ویبسائٹ islamqa پر  سوال کیا گیا کہ..!

السؤال
هل تغيير الاسم يغير القدر ؟.
کیا نام تبدیل کرنے سے تقدیر بدل جاتی ہے.؟

الجواب
الحمد لله.
تغيير الأسماء لا يغير القدر ، لكن قد يكون له تأثير في الشخص وحياته .
نام بدلنے سے تقدیر نہیں بدلتی لیکن اسکا اثر ضرور ہوتا ہے شخصیت اور اسکی زندگی پر۔۔!

(( آگے انہوں نے وہی دلائل دیے جو ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں.!!))

والله اعلم .
(https://islamqa.info/ar/answers/14626)
(تقدیر کے بارے مزید تفصیل کیلیے دیکھیے سلسلہ نمبر ـ322)

*عام روٹین میں بھی ہم دیکھیں تو نام سے بھی آدمی کی شان اور شخصیت کا اظہار ہوتا ہے اور نفسیاتی طور پر نام کا بڑا اثر پڑتا ہے آپ کسی خاتون کو کسی بھدے اور برے نام سے خطاب کیجیئے اور پھر دیکھیئے اس خاتون کی ناگواری اور غم و غصے کا کیا حال ہوتا ہے ۔۔۔۔!!*
آپ نے اسے اس کو برے نام سے پکار کے اس کے دل میں اپنے لئے برے جذبات ابھار دیئے ۔ اسکے برخلاف کسی خاتون کو کسی اچھے نام سے پکاریئے اور پھر دیکھیئے جواب میں وہ خاتون کس طرح شکر ومحبت کے جذبات پیش کرتی ہے اپنا اچھا نام سن کر وہ یہ محسوس کرتی ہے کہ پکارنے والی نے میری عزت کی اور برا خطاب سن کر یہ محسوس کرتی ہے کہ پکارنے والی نے میری توہین کی ،یہ اس لئے کہ الفاظ کے معنی اور مفہوم کا آدمی کے جذبات واحساسات پر اثر پڑتا ہے ۔
فطری طور پر ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگ ان کے بچے کو اچھے نام سے پکاریں جس سے بچہ خوش ہو یہ جب ہی ہوگا جب آپ اپنے پیارے بچے کا اچھا سا نام تجویز کریں
آپ کے پیارے بچے کا آپ پر حق ہے کہ آپ اس کا اچھا اور پاکیزہ نام رکھیں ۔ نبی ﷺ نے اپنی امت کو ہدایت دی ہے کہ اچھے اور پاکیزہ نام رکھو صحابی اور صحابیات اپنے بچے کا نام رکھنے کے لئے آپ ﷺ سے درخواست کرتے تو آپﷺ
نہایت پاکیزہ اور با مقصد نام تجویز فرماتے ،آپ ﷺ کسی سے نام پوچھتے اور وہ اپنا کوئی بے معنی اور ناپسندیدہ نام بتاتا تو آپﷺ ناپسند فرماتے اور اپنا کام اس کے حوالے نہ کرتے ، جب کسی بستی میں داخل ہوتے تو اس کا نام معلوم فرماتے پسند آتا تو بہت مسرور ہو تے اکثر ایسا بھی ہوتا کہ آپﷺ نا پسندیدہ نام کو بدل دیتے برا نام کسی چیز کے لئے گوارا نہ کرتے خواہ وہ کوئی زمین ہو یا گھاٹی ، کوئی بستی ہو یا خود انسان ،ایک گھاٹی کو لوگ شعب ضالہ (گمراہی کی گھاٹی) کہتے تھے آپﷺ نے اس کا نام شعب ہدیٰ رکھ دیا۔

اچھا نام رکھنے میں ہدایت وحکمت بھی ہے نبیﷺ نے فرمایا تم لوگ قیامت کے روز اپنے اور اپنے باپوں کے ناموں سے پکارے جاؤگے لہذا اچھے نام رکھا کرو۔
پسندیدہ نام وہ ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول نے پسندیدہ بتایا ہو مثلاً اللہ کے ذاتی صفاتی نام کے ساتھ عبد یا امتہ کا لفظ ملا کر ترکیب کیا گیا ہو جیسے عبداللہ عبدالرحمٰن عبدالغفار امتہ اللہ امتہ الرحمٰن وغیرہ یا ایسا نام ہو جس سے اللہ کی تعریف کا اظہار ہو ۔
یا کسی پیغمبر کے نام پر ہو جیسے یعقوب یوسف ادریس ابراہیم اسمٰعیل احمد وغیرہ
یا کسی مجاہد اور خادم دین کے نام پر ہو جس نے دین کے لئے قربانیاں دی ہوں جیسے عمر فاروق خالد ہاجرہ مریم ام سلمیٰ سمیہّ وغیرہ
یا آپ کے دینی جذبات نیک خواہشات اور پاکیزہ آرزؤں کا آئینہ دار ہو مثلاً ملت کی موجودہ پستی دیکھ کر آپ اپنے ننھے کا نام عمر بن عبدالعزیز یا صلاح الدین وغیرہ رکھیں اور یہ تمنا ہو کہ آپ کا ننھا مجاہد ملت کی ہچکولے لیتی ناؤ کو پار لگائے گا ۔
کچھ نام ایسے بھی ہیں جن سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے یعنی ایسا نام جو اسلامی عقائد ونظریات کے خلاف ہو جس سے عقیدہ توحید مجروح ہو جیسے نبی بخش عبدالرسول وغیرہ نہ ہی کوئی ایسا نام رکھیں جس سے فخروغرور اور بڑائی کا اظہار ہوتا ہو یا وہ غیر اسلامی ہو یا اللہ کی رحمت سے دور کرنے والا ہو جیسے ملک الاملاک یا شہنشاہ جیسے نام بھی بدترین ناموں میں شمارکئے جاتے ہیں ۔

*لہٰذا شریعت نے اولاد کے اچھے نام رکھنے کا حکم دیا  ہے، نام اچھا ہونے کے باوجود اگر بچہ بیمار ہو  یا زیادہ روئے تو یہ اللہ کی طرف سے ہے، اس کا  نام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا؛ لہٰذا نام کے اثر  کا انسان کی صحت پر اثر انداز ہونے کا یا نام کے بھاری ہونے کا عقیدہ  رکھنا شرعاً درست نہیں ہے ، البتہ نام کا معنی درست نہ ہو تو اس کو تبدیل کرنا چاہیے*

*اللہ رب العزت ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے بچوں کا نام تجویز کرتے وقت اللہ اور اسکے رسولﷺ کی خوشنودی کا خیال رکھیں آمین*

مآخذ -
محدث فورم/ نسرین فاطمہ و شیخ اسحاق سلفی و شیخ مقبول سلفی/ الاسلام سوال وجواب/ الاسلام ویب/ دار الافتاء دیوبند

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📒سوال_ کیا اکیلا محمد نام رکھنا جائز ہے؟ کئی لوگ کہتے ہیں کہ اکیلا محمد نام نہیں رکھنا چاہیے؟ اور کیا محمد نام رکھنے کی کوئی فضیلت و برکت صحیح احادیث سے ثابت ہے؟ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ محمد نام والے سب لوگوں کو بخش دیا جائے گا..؟
دیکھیے
(( “سلسلہ سوال و جواب نمبر -307”))

📒سوال_قیامت کے دن لوگوں کو انکے باپ کے نام سے پکارا جائے گا یا ماں کے نام سے؟
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ماں کے نام سے پکارا جائے گا اسکی حقیقت کیا یے؟
((دیکھیے“سلسلہ سوال و جواب نمبر-292″))

📒سوال : تقدیر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ اگر کسی کی تقدیر ہی میں برائی لکھی ہے تو پھر اس برائی کے کرنے پر عذاب اور گناہ کیوں ملے گا ؟ حالانکہ وہ تو مجبور تھا۔؟ نیز کیا دعاؤں سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
((دیکھیے سلسلہ نمبر ـ322))

        ..ــــــــ&ـــــــــــــ

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

No comments:

Post a Comment

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS