Koi ladka Shadi hone wali Mangetar ke Sath Sex kar le aur Hamal (Pregnant) se ho to uska kya Solution hai?
Kya Shadi se Pahle Ladki Ladka sex krne ke bad Hamila hone par Dono Nikah kar sakte hai?
Nikah ke Bad Is bacche ke bare me kya hukm hai?
Kya wah Baccha jo Nikah se Pahle ka hai wah Najayez hoga?
السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
۔─━══★◐★══━─
کوئی لڑکا اپنی منگیتر کے ساتھ سیکس کر لے اور حمل ٹھہر جائے تو کیا حل ہے اس کا؟؟؟
نکاح کر لے؟؟؟
نکاح کے بعد یہ بچہ کیا ہوگا؟؟؟
اس بات کا تفصیلی جواب دیں.
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُه
سب سے پہلے ہم اپنے اس مسلمان بھائی کے لیے اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بھائی کو ایمان چھن جانے کے درد سے آشنا فرمائے ۔ اس متاع کے چھن جانے سے مغموم فرمائے جسے اس نے زنا کرتے وقت کھو دیا تھا اور اس سے درگزر فرمائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے :
زانی جب زنا کر رہا ہوتا ہے تو وہ زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا ، اورشرابی جب شراب نوشی کرتا ہے وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا ، اورچوری کے وقت چور بھی مومن نہیں رہتا ، اورنہ ہی چھیننے اور لوٹنے والا لوٹتے وقت مومن ہوتا ہے جسے لوٹنے کی بنا پرلوگ اس کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں )
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2475 )
کیا اس بھائی نے اللہ تعالیٰ کے جزاء و سزا کو بھلا دیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ اپنی مکمل قدرتِ کاملہ کے ساتھ کائینات کی ہر ذی روح کے عمل سے باخبر ہے۔ بندہ رزق اسی سے پاتا ہے ، بیمار ہو جائے تو کوئی ذات نہیں اسکے سوا جو شِفاء عطا کرے ، اسکے بجز کوئی بھوک نہیں مٹا سکتا ، کوئی پیاس نہیں بجھا سکتا ۔ سب سے بڑھ کر اس رب نے اسلام کی نعمت سے نوازا جو بلا شبہ ایک عظیم نعمت ہے ۔ پھر ان عظیم نعمتوں کے بدلے میں ہم اس عزت والے رب کی نافرمانی کے کام کریں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہم اس رب کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہاں اہنی جانوں پر ہمارا یہ ظلم ہمیں خسارے میں ڈال دے گا ۔
حدیث معراج کےنام سے حدیث جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان مذکور ہے کہ
( پھر ہم آگے چلے تو ایک تنور جیسی عمارت کے پاس پہنچے ، راوی کہتے ہيں کہ مجھے یاد آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس تنور میں سے شور و غوغا اور آوازيں سنائي دے رہی تھیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہم نے اس تنور میں جھانکا تو اندر مرد و عورتیں سب ننگے تھے ، اور ان کے نیچے سے آگ کے شعلے رہے تھے اور جب وہ شعلے آتے وہ لوگ شور و غوغا اور آہ و بکا کرتے میں نے ان ( فرشتوں ) سے سوال کیا یہ کون ہيں ؟
انہوں نے مجھے جواب دیا چليں آگے چلیں ۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے انہیں کہا کہ میں آج رات بہت عجیب چيزیں دیکھی ہيں تو یہ سب کچھ کیا ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہيں :
ان فرشتوں نے مجھے کہا کہ ہم آپ کو سب کچھ بتائيں گے ۔۔۔۔ اور وہ مرد اور عورتیں جو تنور میں بے لباس تھے وہ سب زانی مرد و عورتیں تھیں )
صحیح بخاری باب اثم الزناۃ حدیث نمبر ( 7047 )
اللہ تعالیٰ ہمارے اس بھائی کے اندر اپنا خوف پیدا فرمائے کہ زنا جیسے قبیح گناہوں سے وہ دور رہے اور اپنی محبت پیدا فرمائے کہ اعمالِ صالح پر اسے اپنے رب کی طرف سے انعامات پر مکمل بھروسہ ہو ۔
زانی کا زانیہ سے نکاح
۔•┈┈┈┈┈••••┈┈┈┈┈•
﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَآءَ ذَٰلِكُمۡ أَن تَبۡتَغُواْ بِأَمۡوَٰلِكُم مُّحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَۚ﴾--النساء24
’’اور حلال کیا گیا واسطے تمہارے جو کچھ سوائے اسی کے ہے یہ کہ طلب کرو تم بدلے مالوں اپنے کے قید میں رکھنے والے نہ پانی ڈالنے والے یعنی بدکار‘‘ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے مرد کا محصن عفیف اور غیر زانی ہونا ضروری ہے اللہ تعالیٰ کا ہی فرمان ہے :
﴿ٱلۡيَوۡمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ حِلّٞ لَّكُمۡ وَطَعَامُكُمۡ حِلّٞ لَّهُمۡۖ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ إِذَآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِيٓ أَخۡدَانٖۗ﴾--مائدة5
’’آج کے دن حلال کی گئیں واسطے تمہارے پاکیزہ چیزیں اور کھانا ان لوگوں کا کہ دیئے گئے ہیں کتاب حلال ہے واسطے تمہارے اور کھانا تمہارا حلال ہے واسطے ان کے اور پاکدامن مسلمانوں میں سے اور پاک دامنیں ان لوگوں میں کہ دئیے گئے ہیں کتاب پہلے تم سے جب دو تم ان کو مہر ان کے نکاح میں لانے والے نہ بدکاری کرنے والے اور نہ پکڑنے والے چھپے آشنا‘‘
اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے عورت کا محصنہ عفیفہ غیر زانیہ ہونا ضروری ہے پھر یہ آیت کریمہ حلت نکاح میں مرد کے محصن عفیف غیر زانی ہونے پر بھی دلالت کر رہی ہے تو ان آیتوں کو ملانے سے ثابت ہوا کہ جس جوڑے کا آپس میں نکاح ہونا طے پایا ہے دونوں محصن عفیف ہیں تو نکاح حلال ورنہ نکاح حلال نہیں خواہ دونوں ہی غیر محصن وغیر عفیف ہوں خواہ ایک غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ مرد غیر محصن وغیر عفیف ہوخواہ عورت غیر محصنہ وغیر عفیفہ ہو۔توان تینوں صورتوں میں نکاح حلال نہیں۔
زانی مرد کا زانیہ عورت سے شادی کرناجائز نہیں ہے اور نہ ہی وہ عورت اس مرد سے شادی کرسکتی ہے صرف ایک صورت میں یہ ہوسکتا ہے کہ جب دونوں توبہ کرلیں تو ان کی شادی ہو سکتی ہے ۔
اس لیے اس عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں اگرچہ وہ عورت یھودی یا عیسائي ہی کیوں نہ ہو ، اور اگر مسلمان بھی ہ وپھر بھی نکاح نہیں ہوسکتا اس لیے کہ وہ زانیہ ہے اور نہ ہی اس عورت کیلیےجائز ہے کہ وہ اس مرد کو بطور خاوند قبول کرے اسلیےکہ وہ مرد بھی زانی ہے۔
فرمان باری تعالی ہے :
{ زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عورت کے علاوہ کسی اور سے نکاح نہیں کرتا ، اور زانیہ عورت بھی زانی یا پھر مشرک مرد کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتی اورایمان والوں پر حرام کردیا گيا ہے } النور ( 3 ) ۔
اوراس آیت میں اللہ تعالی نے جویہ فرمایا ہے کہ { اورایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے } اس نکاح کے حرام ہونے کی دلیل ہے ۔
لھذا ان دونوں پر یہ واجب اورضروری ہے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے ہوۓ اس کے سامنے توبہ کریں اور اس گناہ کو ترک کرتے ہوۓ جو فحش کام ان سے سرزد ہوا ہے اس پر نادم ہوں ، اور اس کا عزم کریں کہ آئندہ اس کام کو دوبارہ نہيں کريں۔
زانی کی اس زانیہ سے شادی کا حکم جس سے اس نے زنا کیا ہو' ان کے گناہوں کا کفارہ شمار ہوگی؟ کیا شادی کر لینے سے حد معاف ہو جائے گی؟
۔•┈┈••┈┈┈•••┈┈┈•
زانی کے زانیہ سے شادی کفارہ شمار نہیں ہوگی کیونکہ زنا کا کفارہ دو ہی باتیں ہیں تو اس پر حد قائم کی جائے' جبکہ بات حاکم وقت کے پاس پہنچ گئی ہو یا وہ اس جرم (زنا) سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے اپنے عمل کی اصلاح کرے اور فتنہ و فحاشی کے مقامات سے دور رہے۔ جہاں تک شادی کا تعلق ہے تو اس زانی مرد و عورت کی آپس میں شادی حرام ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿الزّانى لا يَنكِحُ إِلّا زانِيَةً أَو مُشرِكَةً وَالزّانِيَةُ لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ ﴿٣﴾... سورة النور
''بدکار مرد سوائے زانیہ یا مشرکہ عورت کے کسی (پاک باز عورت) سے نکاح نہیں کر سکتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا اور یہ (بدکار عورت سے نکاح کرنا) مومنوں پر حرام ہے''۔
ہاں البتہ اگر وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی جناب میں خالص توبہ کر لیں' جو کچھ ہوا' اس پر ندامت کا اظہار کریں اور نیک عمل کریں تو پھر آپس میں شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں' جس طرح دوسرے مرد کیلئے اس عورت سے شادی کرنا جائز ہوگا اسی طرح اس کیلئے بھی اس صورت میں جائز ہوگا۔ زنا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اولاد اپنی ماں کی طرف منسوب ہو گی۔ یہ اپنے باپ کی طرف منسوب نہیں ہوتی کیونکہ نبی ﷺ کے حسب ذیل ارشاد کے عموم کا یہی تقاضا ہے:
«الولد للفراش وللهاهر الحجر»(صحيح البخاري)
''بچہ صاحب بستر کیلئے اور زانی کیلئے پتھر ہے''۔
''عاہر'' کے معنی زانی کے ہیں اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ یہ بچہ اس کا نہیں ہوگا خواہ وہ توبہ کے بعد اس عورت سے شادی بھی کر لے کیونکہ شادی سے پہلے زنا کے پانی سے پیدا ہونے والا بچہ اس کا نہیں ہوگا اور نہ وہ اس کا وارث ہوگا خواہ وہ یہ دعویٰ ہی کیوں نہ کرے کہ وہ اس کا بیٹا ہے کیونکہ یہ اس کا شرعی بیٹا نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ / جلد 3/ صفحہ404
﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَآءَ ذَٰلِكُمۡ أَن تَبۡتَغُواْ بِأَمۡوَٰلِكُم مُّحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَۚ﴾--النساء24
’’اور حلال کیا گیا واسطے تمہارے جو کچھ سوائے اسی کے ہے یہ کہ طلب کرو تم بدلے مالوں اپنے کے قید میں رکھنے والے نہ پانی ڈالنے والے یعنی بدکار‘‘ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے مرد کا محصن عفیف اور غیر زانی ہونا ضروری ہے اللہ تعالیٰ کا ہی فرمان ہے :
﴿ٱلۡيَوۡمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ حِلّٞ لَّكُمۡ وَطَعَامُكُمۡ حِلّٞ لَّهُمۡۖ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ إِذَآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِيٓ أَخۡدَانٖۗ﴾--مائدة5
’’آج کے دن حلال کی گئیں واسطے تمہارے پاکیزہ چیزیں اور کھانا ان لوگوں کا کہ دیئے گئے ہیں کتاب حلال ہے واسطے تمہارے اور کھانا تمہارا حلال ہے واسطے ان کے اور پاکدامنیں مسلمانوں میں سے اور پاک دامنیں ان لوگوں میں کہ دئیے گئے ہیں کتاب پہلے تم سے جب دو تم ان کو مہر ان کے نکاح میں لانے والے نہ بدکاری کرنے والے اور نہ پکڑنے والے چھپے آشنا‘‘
اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے عورت کا محصنہ عفیفہ غیر زانیہ ہونا ضروری ہے پھر یہ آیت کریمہ حلت نکاح میں مرد کے محصن عفیف غیر زانی ہونے پر بھی دلالت کر رہی ہے تو ان آیتوں کو ملانے سے ثابت ہوا کہ جس جوڑے کا آپس میں نکاح ہونا طے پایا ہے دونوں محصن عفیف ہیں تو نکاح حلال ورنہ نکاح حلال نہیں خواہ دونوں ہی غیر محصن وغیر عفیف ہوں خواہ ایک غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ مرد غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ عورت غیر محصنہ وغیر عفیفہ ہو ۔ تو ان تینوں صورتوں میں نکاح حلال نہیں۔
عدالت نے صرف لڑکی کے بیان پرکاروائی کی ہے اس لیے اس کا کوئی اعتبار نہیں فریقین کے بیان سنے بغیر فیصلہ کرنے سے شریعت نے منع فرمایا ہے
چنانچہ ملاحظہ فرمائیں۔ ارواء الغليل حديث نمبر2600
ہاں اگر دونوں تائب ہو جائیں اور توبہ واقعتا درست ہو حقیقت پر مبنی ہو اور گواہوں کی موجودگی میں ولی کے اذن سے اسلامی اصولوں کے مطابق شروط نکاح کی پابندی میں ان کا نیا نکاح ہو تو آئندہ گناہ سے محفوظ ہو جائیں گے۔
احکام و مسائل / نکاح کے مسائل
جلد1/صفحہ 304
اس ثیبہ عورت سے نکاح کرنے کے متعلق حکم جو زنا کی وجہ سے حاملہ ہو اور حمل آٹھ ماہ کا ہو، کیا اس صورت میں نکاح باطل یا فاسد یا صحیح ہو گا؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب کوئی آدمی زنا سے حاملہ عورت سے نکاح کرے تو اس کا یہ نکاح باطل ہے اور اس حالت میں اس کے لئے اس عورت سے مباشرت حرام ہے کیونکہ اس ارشاد باری تعالیٰ کے عموم کا یہی تقاضا ہے:
﴿وَلا تَعزِموا عُقدَةَ النِّكاحِ حَتّىٰ يَبلُغَ الكِتـٰبُ أَجَلَهُ...٢٣٥﴾... سورة البقرة
’’اور جب تک عدت پوری نہ ہو لے نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا۔‘‘
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأُولـٰتُ الأَحمالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعنَ حَملَهُنَّ...٤﴾... سورة الطلاق
’’اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (بچہ جننے) تک ہے۔‘‘
اور نبی اکرمﷺ کے اس ارشاد کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔
((لا يحل لأمرىء بالله واليوم الآخر أن يسقي ماءه زرع غيره )) ( سنن أبي داؤد)
’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن ایمان پر رکھتا ہو تو اس کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی دوسرے کی کھیتی کو اپنے پانی سے سیراب کرے۔‘
نیز حسب ذیل ارشاد نبویﷺ کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔
((لا تبؤطا حامل حتى تضع )) ( سنن أبي داؤد)
’’حاملہ عورت سے وضع حمل تک مباشرت نہ کی جائے۔‘‘
اس حدیث کو ابو دائودؒ اور ایک روایت کے مطابق امام ابو حنیفہ ؒ کا بھی یہ قول ہے کہ اس حالت میں عقد صحیح ہے ہاں البتہ مذکورہ احادیث کے پیش نظر امام ابو حنیفہؒ نے وضع حمل تک مباشرت کو حرام قرار دیا ہے جبکہ امام شافعیؒ نے مباشرت کو بھی جائز قرار دیا ہے کیونکہ زنا کے پانی کی کوئی حرمت نہیں ہوتی اور نہ ہی بچے کو زانی کی طرف سے منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے۔
((وللعاهر الحجر ))
( صحيح البخاري )
’’زانی کے لئے پتھر ہیں۔‘‘
اس بچے کو اس عورت سے شادی کرنے والے کی طرف بھی منسوب نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ عورت تو حمل کے بعد اس کا بچھونا بنی ہے۔ اس تفصیل سے مذکورہ علماء میں اختلاف کا سبب واضح ہو گیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے وہ بات کہی ہے جو اس کے اس امام نے کہی جس کی اس نے تقلید کی ہے لیکن ان میں سے صحیح بات یہی ہے کہ یہ نکاح باطل ہے کہ مذکورہ بالا دونوں آیتوں اور ممانعت پر ولالت کرنے والی احادیث کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔
فتاویٰ اسلامیہ/جلد 3/صفحہ171
صورت مسئولہ جس میں منگیتر نے زنا کیا جس سے اسکی منگیتر یعنی زانی عورت حاملہ ہے ۔ تواس کے بارے میں آپ کو علم ہونا چاہیے کہ زانیہ عورت سے شادی نہيں ہوسکتی لیکن اگر وہ توبہ کرلے تو پھر شادی کرنی جائز ہے ، اور اگر مرد اس کی توبہ کے بعد اس سے شادی کرنا بھی چاہے تو پھر ایک حیض کے ساتھ استبراء رحم کرنا واجب ہے یعنی اس کے ساتھ نکاح کرنے سے قبل یہ یقین کرلیا جائے کہ اسے حمل تو نہیں اگر اس کا حمل ظاہر ہو تو پھر اس سے وضع حمل سے قبل شادی جائز نہیں ۔ انتھی ۔
شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ تعالی کا فتوی ۔ دیکھیں کتاب : الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 584 ) ۔
اور شیخ صالح المنجد کے بقول اس مسئلہ ( زانی کا زانیہ سے نکاح ) کا جواب یہ ہے کہ :
زانی مرد کا زانیہ عورت سے شادی کرناجائز نہیں ہے اور نہ ہی وہ عورت اس مرد سے شادی کر سکتی ہے صرف ایک صورت میں یہ ہوسکتا ہے کہ جب دونوں توبہ کرلیں تو ان کی شادی ہوسکتی ہے ۔
اس لیے اس عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں اگرچہ وہ عورت یھودی یا عیسائي ہی کیوں نہ ہو ، اوراگر مسلمان بھی ہوپھر بھی نکاح نہیں ہوسکتا اس لیے کہ وہ زانیہ ہے اورنہ ہی اس عورت کیلیےجائز ہے کہ وہ اس مردکو بطور خاوند قبول کرے اسلیےکہ وہ مرد بھی زانی ہے۔
فرمان باری تعالی ہے :
{ زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عورت کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتا ، اورزانیہ عورت بھی زانی یا پھرمشرک مرد کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتی اورایمان والوں پر حرام کردیا گيا ہے } النور ( 3 ) ۔
اوراس آیت میں اللہ تعالی نے جویہ فرمایا ہے کہ { اورایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے } اس نکاح کے حرام ہونے کی دلیل ہے ۔
لھذا ان دونوں پر یہ واجب اورضروری ہے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے ہوۓ اس کے سامنے توبہ کریں اوراس گناہ کوترک کرتے ہوۓ جو فحش کام ان سے سرزد ہوا ہے اس پر نادم ہوں ، اوراس کا عزم کریں کہ آئندہ اس کام کودوبارہ نہيں کريں گے ۔
تو اس بنا پر اس عورت سے نکاح کرنا باطل ہے جو زنا سے حاملہ ہوئی ہو ۔ اور اگر کسی نے اس سے شادی کی بھی ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ فوری طور پر اس سے علیحدہ ہوجائے وگرنہ وہ بھی زانی شمار ہوگااوراس پر حد زنا قائم ہوگی ۔
پھر جب وہ اسے علیحدگی کرلے اوروہ عورت اپنا حمل بھی وضع کرلے اوررحم بری ہوجائے اورپھر وہ عورت سچی توبہ بھی کرلے توپھر وہ خود بھی توبہ کرلے تواس کا اس عورت سے شادی کرنا جائز ہوگا ۔
رہا مسئلہ کہ ولدالزنا کس سے منسوب کیا جائے تو اس ضمن میں الشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر عورت شادی شدہ ہوتو زانی کے بچے کووالد سے ملحق کرنے کے بارہ میں علماء کرام اس کے بارہ میں دو قول رکھتے ہیں کہ آیا بچے کی نسبت والد کی طرف ہوگی یا نہیں ؟
اس کا بیان کچھ اس طرح ہے :
اگرعورت شادی شدہ ہو اور شادی کے چھ ماہ بعد بچے کی پیدائش ہوجاۓ تواس بچے کی نسبت خاوند کی طرف ہی ہوگی اوراس سے بچے کی نفی نہیں ہوگی الا یہ کہ وہ اپنی بیوی سے لعان کرے ۔
اوراگر کوئ شخص یہ دعوی کرے کہ اس نے اس عورت سے زنا کیا ہے اوریہ بچہ اس زنا سے ہے تواجماع کے اعتبارسے اس کی بات تسلیم نہیں ہوگی اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( بچہ بستر والے ( یعنی خاوند ) کے لیے ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2053 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1457 ) ۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
علماء کرام کا اجماع ہے کہ اگر بچہ مرد کے بستر پر پیدا ہواورکوئ دوسرا شخص اس کا دعوی کرے تو بچے کی نسبت دعوی کرنے والے کی طرف نہیں کی جاۓ گی ، لیکن اگر بچہ بستر کے علاوہ ( شادی کے بغیر ) پیدا ہو تواس میں اختلاف ہے ۔
اگر عورت بیوی نہ ہو اورزنا سے بچہ پیدا ہوجاۓ اورزانی اس کا دعوی کرے توکیا اس بچے کی نسبت اس کی طرف کی جاۓ گی ؟
جمہور علماء کرام کا کہنا ہے کہ اس حالت میں بچہ کی نسبت اس کی طرف نہیں کی جاۓ گی ۔
حسن اورابن سیرین اورعروہ ، امام نخعی ، اسحاق ، سلیمان بن یسار رحمہم اللہ سے منقول ہے کہ بچہ اس ( زانی کی طرف منسوب ہوگا ۔
اورشيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے ۔
اورابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا قول نقل کیا ہے
( علی بن عاصم نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی سے راویت کیا ہے کہ ان کا قول ہے : میرے خیال میں اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ جب کوئی مرد کسی عورت سے زنی کرے اوراس سے وہ حاملہ ہو اوروہ اس حمل میں ہی اس سے شادی کرلے اوراس پر پردہ ڈالے رکھے اوروہ بچہ اسی کا ہوگا ) ۔ المغنی ( 9 / 122 ) ۔
اورابن مفلح رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
ہمارے شیخ اوراستاد ( ابن تیمیہ رحمہ اللہ ) نے یہ اختیار کیا ہے کہ اگر کسی مرد نے اپنے زنا کی بچے کی نسبت اپنی کرنے کا مطالبہ کیا اوروہ عورت اس کی بیوی نہ ہوتواس بچے کے الحاق اس کی طرف کر دیا جاۓ گا ۔ ا ھـ دیکھیں : الفروع ( 6 / 625 ) ۔
اورابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :
( جمہور کے قول کے مطابق اگرعورت زانی کی بیوی نہ ہوتو اس کے بچے کا الحاق زانی سے نہیں ہوگا ، اورحسن ، ابن سیرین رحمہم اللہ تعالی کا قول ہے جب وطی کرنے والے کوحد لگا دی جاۓ توبچہ اس سے ملحق ہوگا اوروارث بھی ہوگا ۔
اورابراھیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں : جب اسے حد لگا دی جاۓ اوریا پھر وہ زنی کی جانے والی عورت کا مالک بن جاۓ توبچے کی نسبت اس کی طرف کردی جاۓ گی ، اوراسحاق رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے : اس کا الحاق کر دیا جاۓ گا ۔
اوراسی طرح عروہ ، اورسلیمان بن یسار رحمہم اللہ تعالی سے بھی یہی قول منقول ہے ) ۔
شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :
اوراسی طرح اگر عورت زانی کی بیوی نہ ہوتو اس کےبچے کی زانی کی طرف نسبت کرنے میں اہل علم کے دو قول ہيں :
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( بچہ خاوند کا ہے اورزانی کے لیے پتھر ہیں ) ۔
اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ صاحب فراش یعنی جس کی بیوی ہے اس کا قرار دیا ہے نہ کہ زانی کا ، اوراگر عورت کسی کی بیوی نہ ہو تو حدیث اسے بیان نہیں کرتی ۔
اورعمررضي اللہ تعالی عنہ نے جاھلیت میں پیدا ہونے والے بچوں کوان کے باپوں کی طرف ہی منسبوب کیا تھا ، اوراس مقام پر اس مسئلہ کی تفصیل کا موقع نہیں ۔ دیکھیں : الفتاوی الکبری ( 3 / 178 ) ۔
جمہور علماء کرام نے زنا سے پیدا شدہ بچے کی نسبت زانی کی طرف نہ کرنے میں مندرجہ ذيل حدیث سے استدلال کیا ہے :
عمروبن شعیب اپنے باپ وہ اپنے دادا سےبیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ :
( بلاشبہ جو کسی ایسی لونڈی سے ہوجواس کی ملکیت نہیں اوریا پھر کسی آزاد عورت سے ہو جس سے اس نے زنا کيا تواس کا الحاق اس سے نہیں کیا جاۓ گا اورنہ ہی وہ اس کا وارث ہوگا ، اوراگر وہ جس کا دعوی کررہا ہے وہ صرف اس کا دعوی ہی ہے اوروہ ولد زنا ہی ہے چاہے وہ آزاد عورت سے ہو یا پھر لونڈی سے )۔
مسنداحمد حدیث نمبر ( 7002 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2746 )، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود میں اور شیخ ارناؤوط رحمہ اللہ نے تحقیق المسند میں اسے حسن قرار دیا ہے ، اورابن مفلح رحمہ اللہ تعالی نے اس سے جمہور کے مذھب کی دلیل لی ہے ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ولد زنا زانی سے ملحق نہيں ہوگا اورنہ ہی اس کا وارث بنے گا چاہے زانی اس کا دعوی بھی کرتا رہے ۔
اوراس میں شک نہیں کہ بچے کوکسی بھی شخص کی طرف منسوب کرنا بہت ہی عظيم اوربڑا معاملہ ہے جس کے بارہ میں بہت سے احکام مرتب ہوتے ہیں مثلا وراثت ، عزیزو اقارب ، اور اس کے لیے محرم وغیرہ ۔
بہرحال اس بحث کا لب لباب یہ ہے کہ زنا سے پیدا شدہ بچے کی نسبت زانی کی طرف نہ کرنے کا فتوی جمہور علماء کرام کے موافق ہے ۔
اوررہا مسئلہ شیخ ابن جبرین حفظہ اللہ تعالی کے بارہ میں توہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی اس کلام کی بنیاد دوسرے قول پر رکھی ہو جوکہ اوپربیان کیا جا چکا ہے ۔
لھذا جمہور علماء کرام کے قول کے مطابق زنی سے پیدا شدہ بچہ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی زانی کی طرف منسوب نہيں کیا جاۓ گا اورنہ ہی یہ کہا جاۓ گا وہ بچہ زانی کا ہے بلکہ اس کی نسبت ماں کی طرف کی جاۓ گی اور وہ بچہ ماں کا محرم ہوگا اورباقی بچوں کی طرح وارث بھی ہوگا ۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
( وہ بچہ جو زنا سے پیدا ہوا ہووہ اپنی ماں کا بچہ ہوگا اورباپ کا نہيں ، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمومی فرمان ہے :
( بچہ بیوی صاحب فراش ( بیوی والے کا ہے ) اور زانی کے لیے پتھر ہيں )
اورعاھر زانی ہے جس کا بچا نہیں ، حدیث کا معنی تو یہی ہے ، اوراگر وہ توبہ کے بعد اس عورت سے شادی بھی کرلے کیونکہ بچہ توپہلے پانی سے پیدا ہوا ہے اس لیے وہ اس کا بیٹا نہیں ہوگا اورنہ وہ بچہ زانی کا وارث ہوگا اوراگروہ اس کا دعوی بھی کرے کہ وہ اس کا بچہ ہے پھر نہیں اس لیے کہ اس کا وہ شرعی طور پربچہ ہی نہیں ) انتھی ۔ یہ قول فتاوی اسلامیہ ( 3 / 370 ) سے نقل کیا گیا ہے ۔
اورشیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کے فتاوی میں ہے کہ زانی کے پانی سے پیدا شدہ بچہ زانی کا شمار نہیں ہوگا ۔
دیکھیں فتاوی شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ ( 11 / 146 ) ۔
زنا کے گناہ کی تلافی
۔*•┈┈┈••✦✿✦••┈┈┈•*
لھذا آپ دونوں پر یہ واجب اورضروری ہے کہ آپ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے ہوۓ اس کے سامنے توبہ کریں اوراس گناہ کوترک کرتے ہوۓ جوفحش کام آپ سے سرزد ہوا ہے اس پر نادم ہوں ، اوراس کا عزم کریں کہ آئندہ اس کام کودوبارہ نہيں کريں گے ۔
اوراس کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ کثرت کے ساتھ کریں ہوسکتا ہے اللہ تعالی آپ کی توبہ قبول کرے اورآپ کے سب گناہوں کونیکیوں سے بدل ڈالے اسی کے بارہ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
{ اوروہ لوگ جواللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کونہیں پکارتے اورکسی ایسے شخص کوجسے اللہ تعالی نے قتل کرنا حرام قرار دیا اسے وہ حق کے سوا قتل نہیں کرتے ، اورنہ ہی وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور جوکوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لاۓ گا ۔
اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جاۓ گا اوروہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی عذاب میں رہے گا ، سواۓ ان لوگوں کے جوتوبہ کریں اورایمان لائيں اورنیک وصالح اعمال کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دیتا ہے ، اوراللہ تعالی بخشنے والا اورمہربانی کرنے والا ہے ، اورجوتوبہ کرلے اوراعمال صالحہ کرے توبلا شبہ وہ حقیقتااللہ تعالی کی طرف سچی توبہ اوررجوع کرتا ہے }
الفرقان ( 68 – 71 ) ۔
اور توبہ کے بعد اگر آپ اس لڑکی سے شادی کرنا چاہیں تونکاح سے قبل آپ پر ضروری اور واجب ہے کہ اس کا ایک حیض کے ساتھ استبراء رحم کریں ، اور اگر حمل ظاہر ہوجاۓ تو پھر آپ حدیث پر عمل کرتے ہوۓ اس حالت میں اس سے نکاح نہیں کرسکتے جب وضع حمل ہوجاۓ تو آپ نکاح کر سکتے ہیں ۔
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه