find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Mai Eid miladunnabi nahi manata lekin Ghar wale manate hai aur wah mujhe Bhi manane ko kahte hai mai kya karu?

Nabi se sabse jyada Mohabbat karne wala kaun hai Eid Miladunnabi manane wale ya nahi Manane wale?

Aashiq-E-Rasool ke liye jaruri kya hai Dj bajana raksh karna ya Nabi ke hukm ki tamil karna?
Sawal: Mai Eid Miladunnabi  ka Jashn nahi manata, lekin ghar ke dusre log manate hai, unka mere bare me kahna hai ke "Mera Islam anokha Islam hai aur mai nabi Sallahu Alaihe wasallam se mohabbat nahi karta" Kya Is bare me mujhe koi Nasihat kar sakte hai?

 اے بارہ ربیع الاول کیسا دیا تو نے فراق کہ سرکار دو جہاں دنیا سے جا رہے ہیں ۔
غمگین ہیں کون و مکاں فلک بھی ہے اشک بار 

مگر ابلیس کے حواری خوشیاں منا رہے ہیں ۔

اپنے گھر میں عید میلاد منانے والے افراد کے ساتھ کیسے پیش آئے؟ اُن کی طرف سے عید میلاد النبی کے جشن میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔

  ألســـؤال
میں عید میلاد النبی کا جشن نہیں مناتا، لیکن گھر کے بقیہ تمام افراد جشن مناتے ہیں، اور انکا میرے بارےمیں کہنا ہے کہ: "میرا اسلام انوکھا اسلام ہے، اور میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں کرتا" کیا اس بارے میں مجھے کوئی نصیحت کرسکتے ہیں؟

الجـــــــواب
اول: محترم بھائی آپ نے لوگوں میں اس عام رائج شدہ  بدعت کو مسترد کر کے بہت اچھا  کام کیا ہے ۔

آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع اور اسلامی تعلیمات  پر ڈٹ جانے کی وجہ سے   طعن زنی پر کان بھی نہ دھریں؛ کیونکہ جتنے بھی رسول  اللہ تعالی کی طرف سے مبعوث کیے گئے  سب کا انکی اقوام نے مذاق اڑایا ، انہیں نا سمجھ اور بے و قوف(معاذاللہ) بھی کہا اور دین کے بارے میں طعنے بھی دیئے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: ( كَذَلِكَ مَا أَتَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا قَالُوا سَاحِرٌ أَوْ مَجْنُونٌ ) ترجمہ: اسی طرح ان سے پہلے جتنے بھی رسول آئے، سب کے بارے میں انہوں نے کہا: "یہ تو جادو گر یا پاگل ہیں"[الذاريات: 52] اس لئے آپ کو بھی اگر اس قسم کی باتیں سننی پڑتی ہیں تو  انبیائے کرام آپ کے لئے بہترین نمونہ ہیں، آپ ان  تکالیف پر صبر کریں، اور اللہ کے ہاں ثواب کی امید رکھیں۔

⬅️دوم:  آپ کے لئے نصیحت یہ ہے کہ: جب تک آپ کو ان میں سے کوئی سنجیدہ گفتگو کرنے والا اور حق کی چاہت رکھنے والا نظر نہ آئے  آپ ان سے بحث اور مناظرہ   سے باز رہیں،  اس کی بجائے آپ ان میں سے اس قسم کے چند لوگوں کو چُن کر عید میلاد  النبی کی حقیقت، اس کا حکم اور اس کی ممانعت پر موجود دلائل انہیں بتلائیں، انہیں یہ بھی واضح کریں کہ  اتباعِ نبوی کی فضیلت کیا ہے، اور بدعات ایجاد کرنے کا نقصان کیا ہے،اس طرح  اگر آپکو کوئی سنجیدہ گفتگو کرنے والا ملتا ہے تو آپ اسے درج ذیل  انداز سے بات چیت کر سکتے ہیں ، امید ہے آپکے لئے مفید ہوگی:

⬅️1- سب سے پہلے ہم  وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں انہوں نے اپنی بات ختم کی تھی کہ انہوں نے کہا : "تمہارا اسلام انوکھا اسلام ہے!" تو ہم انہیں کہتے ہیں کہ:  سب سے پہلے دین اور اسلام کس نے قبول کیا؟ عید میلاد النبی منانے والوں نے یا جنہوں نے عید میلاد نہیں منائی؟

اسکا جواب ہر عقل مند یہی دے گا کہ جنہوں نے عید میلاد نہیں منائی وہی  پہلے دیندار اور مسلمان تھے، چنانچہ صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  ، تابعین، تبع تابعین، اور انکے بعد سے لیکر مصر میں عہد عبیدی  تک  کسی نے عید میلاد کا جشن نہیں منایا، بلکہ انکے بعد ہی یہ جشن منایا گیا، تو کس کا اسلام انوکھا ہوا؟!

⬅️2- ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ساتھ زیادہ محبت کرنے والے کون ہیں؟
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا انکے بعد کے آنے والے لوگ؟
یہاں پر بھی عقلمند اور منصف شخص کا جواب یہی ہوگا کہ صحابہ کرام زیادہ محبت کرتے تھے، تو کیا صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی میلاد کا جشن منایا ؟!(نہیں منایا ) تو  کیا میلاد منانےوالے   نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے  صحابہ کی نسبت زیادہ محبت  کر تے ہیں؟

⬅️3- ہم یہ پوچھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کا مطلب کیا ہے؟
تو ہر عقلمند شخص کا جواب یہی ہوگا کہ:  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع کی جائے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقے پر عمل پیرا رہا جائے، چنانچہ اگر  یہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقہ کار پر چلتے اور آپکی اتباع کرتے ، تو یہ بھی اسی طرح عمل کرتے جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ محبت کرنے والے اور آپکی اتباع کرنے والے صحابہ کرام نے کیا، اور انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ سلف کی اتباع کرنے میں ہی خیر ہے، اور برے لوگوں کی اتباع کرنے  کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔

⬅️قاضی عیاض رحمہ اللہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کی علامت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "یہ بات ذہن نشین کرلو کہ: جو شخص جس سے محبت کرتا ہے، اسی کو ترجیح دیتا ہے، اور اسی کے نقش قدم پر چلتا ہے، اگر ایسے نہ کرے تو وہ اپنی  محبت میں  سچا  نہیں ہے، بلکہ صرف زبانی جمع خرچ ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے سچی محبت کرنے والے شخص پر جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان میں سب سے پہلے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتدا ، آپکی سنتوں پر عمل، آپ کی باتوں اور آپکے افعال  پر عمل، آپکے احکامات، اور ممنوعات کی پاسداری، آپ کی جانب سے ملنے والے آداب پر تنگی ترشی، آسانی فراوانی، سستی چستی ہر حالت میں  کار بند رہنا ہے، اس کی دلیل اللہ تعالی کےاس  فرمان میں ہے: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ ترجمہ: کہہ دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تعالی تم سے محبت کریگا" [آل عمران : 31] اسیطرح شریعتِ محمدی کو ترجیح دینا،اسے  نفسانی خواہشات پر  مقدم کرنا، اور  آپکی  چاہت  کے مطابق عمل کرنا آپ سے محبت کی دلیل ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ترجمہ: جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ایمان لا کر دارالہجرت میں مقیم ہیں یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آتے ہیں۔ اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے۔ اس کی کوئی حاجت اپنے دلوں میں نہیں پاتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ وہ اپنی جگہ ضرورت مند ہوتے ہیں ۔[الحشر : 9] اور رضائے الہی کی خاطر  لوگوں کی ناراضگی مول لینا آپ سے سچی محبت کی علامت ہے ۔۔۔، چنانچہ  جو شخص ان صفات سے متصف ہو وہی اللہ ، اور اس کے رسول سے کامل محبت کرتا ہے، اور جو  کچھ امور میں مخالفت کرے تو اسکی محبت ناقص ہے،  اگرچہ وہ محبت کے دائرے میں ہے۔ " الشفا بتعريف حقوق المصطفى " ( 2 / 24 ، 25 )

⬅️4- اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تاریخ پیدائش پر غور و فکر کرتے ہیں، کیا اس بارے میں کوئی ثبوت ہے؟ پھر اس  کے بعد ہم دوسری جانب نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ کیا آپکی وفات کا دن ثابت ہے؟ ان دونوں سوالات کا جواب باشعور اور منصف شخص یہی دے گا کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تاریخ ولادت ثابت نہیں ہے، لیکن یقینی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کا دن ثابت ہے۔
⬅️اور جب ہم کتب سیرتِ نبویہ  میں غور کریں تو ہمیں  سیرت نگار آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تاریخ پیدائش  درج ذیل مختلف  اقوال  بیان کرتے ہوئے ملتے ہیں:

1- بروز سوموار، 2 ربیع الاول
2- آٹھ ربیع الاول
3- 10 ربیع الاول
4- 12 ربیع الاول
5- جبکہ زبیر بن بکار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آپکی پیدائش رمضان  المبارک میں ہوئی۔

⬅️  اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش کے دن  پر کوئی حکم مرتب ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ سے ضرور پوچھتے،  یا کم از کم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  خود ہی انہیں بتلا دیتے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں  ہوا۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے بارے میں دیکھیں تو  سب اس بات پر متفق ہیں کہ 11 سن ہجری  کی ابتدا میں  12 ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات ہوئی۔

⬅️اب ذرا غور کریں کہ بدعتی لوگ کس دن جشن مناتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ  یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے دن جشن مناتے ہیں، آپکی پیدائش کے دن نہیں! خاندانِ عبیدی - جنہوں نے اپنا نسب نامہ تبدیل کر کے اپنے آپ کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کرتے ہوئے"فاطمی" کہلوایا-  جو کہ فرقہِ باطنیہ   سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے  اس بدعت  کا آغاز کیا ، اور بدعتی لوگوں نے بھی بڑی آسانی سے اسے قبول کر لیا، حالانکہ عبیدی لوگ زندیق ، ملحد تھے، ان کا مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے دن جشن منانا تھا، اور اس کیلئے انہوں نے عید میلاد کا ڈھونگ رچایا، اور اسی لیے تقریبات منعقد کیں،  دراصل ان لوگوں کا مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات پر خوشی مناناتھا، جسے انہوں نے سادہ مسلمانوں کو چکما دے  کر پور اکیا کہ جو بھی ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کرےگا  وہ حقیقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا محب ہو گا!، چنانچہ اس انداز سے وہ اپنے مکروہ مقاصد میں کامیاب ہوگئے، اور ساتھ میں انہیں یہ بھی کامیابی ملی کہ "محبت" کا معنی ہی تبدیل کر کے رکھ دیں، اور "نبی سے محبت" کو صرف  عید میلاد پر مخصوص قصیدے پڑھنے، کھانے کی سبیلیں لگانے، مٹھائیوں کی تقسیم، ناچ گانے کی محفلوں کا انعقاد، مرد و زن کا مخلوط ماحول، آلات موسیقی، بے پردگی، اور بے ہودگی میں محصور کر  دیں، مزید برآں بدعتی وسیلے ، اور ان مجالس میں کہے جانے والے شرکیہ کلمات  وغیرہ کا رواج  اس کے علاوہ  ہیں۔ ہماری ویب سائٹ پر  اس بدعت  کی تردید میں متعدد جوابات موجود ہیں چنانچہ آپ : (10070)، (13810)، اور (70317) کا مطالعہ کریں۔ ساتھ میں اس بدعت کے رد میں شیخ صالح الفوزان کی کتاب   " حكم الاحتفال بالمولد النبوي " درج ذیل لنک سے حاصل کریں۔

⬅️سوم: محترم سائل بھائی! آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی اتباع کیلئے ڈٹ جائیں، مخالفین کی تعداد  زیادہ دیکھ کر آپ گھبرانا مت، ہم آپ کو مزید علم حاصل کرنے ، اور لوگوں کو فائدہ پہنچانے کی نصیحت کرتے ہیں، اور اس قسم کے اعمال کو بنیاد بنا کر آپ  اپنے اہل خانہ سے قطع تعلقی مت کریں، کیونکہ وہ کچھ ایسے لوگوں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں جو انہیں اس کام کو جائز بتلاتے ہیں، بلکہ اسے مستحب [!]قرار  دیتے ہیں، چنانچہ آپ انہیں اس کام  سےروکتے ہوئے نرم لہجہ اختیار کریں، کوشش کریں کہ میٹھے بول، عمدہ کردار، حسن اخلاق  سےپیش آئیں، روز مرہ کے امور ہوں یا عبادت سے متعلق انہیں اپنے اندر اتباع نبوی کے اثرات باور کروائیں، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپکو نیک مقاصد میں کامیاب فرمائے۔ واللہ اعلم

ماخذ : السلام سوال جواب

اللهـم إنّ نسـألك الإخـلاص في نشرنا وفي  عملنا وفي سعينا  مـحتسباً للاجـر والثــواب خالصاً لوجهك الكريم. 
          *يــارب

Share:

Eid miladunnabi (12 Rabiawwal) Kin wajaho se Biddat hai? Jashn-E-Eid Miladunnabi manana Sunnat ha Biddat?

Eid miladun-nabi manane ke Biddat hone ki Daleelein.

12 Rabi awwal kin Wajaho se Biddat hai?

جشنِ عید میلاد النبی ﷺ درج ذیل وجوہات کی بنا پر ممنوع اور مردود ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1۔ یہ رسول ﷺ کی سنت نہیں ہے اور نہ ہی آپ کے خلفاء کی اور جو چیز ایسی ہے وہ ممنوع بدعات میں سے ہے کیونکہ رسول ﷺ نے فرمایا:

فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا، وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ ؛ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ، وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ "

"تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا، تم اس سے چمٹ جانا، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے"

﴿سنن ابی داؤد:4607﴾

★جشنِ عید میلاد النبی ﷺ کا ایجاد شیعہ فاطمہ (فاطمیوں)نےقرونِ مفضلہ کے بعد دین اسلام کو بگاڑنے کے لیے کیا ہے(عجیب بات یہ ہے کہ شیعۂ فاطمہ کی ایجاد کی ہوئی چیز کو سنیوں نے اپنا لیا ہے) ۔ اور جس نے اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے کوئی ایسا کام کیا جسے اللہ کے رسول ﷺ نے نہیں کیا نہ کرنے کا حکم دیا اور نہ نبی ﷺ کے بعد خلفاء راشدین نے کیا ، تو اس نے نبی ﷺ پر یہ الزام لگایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے لیے ان کے دین کو کھل کر نہیں بیان کیا، نیز اس نے اللہ تعالی کے اس قول کو جھٹلایا:

  "الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ"
"آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا"
﴿سورۃ المائدۃ:3﴾

کیونکہ دین میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دین میں سے ہے اور رسول ﷺ نے اسے بیان نہیں کیا.

2۔ نبیﷺ کی پیدائش کے دن محفلیں لگانے میں نصاریٰ کی مشابہت ہے کیونکہ وہ عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے یوم پیدائش کی یاد میں محفلیں لگاتے ہیں اور نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنا سخت حرام ہے، حدیث میں کفار کی مشابہت اختیار کرنے سے روکا گیا ہے اور ان کی مخالفت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا:
" مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ "
"جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار تو وہ انہیں میں سے ہے"

﴿سنن ابی داؤد:4031﴾

اور فرمایا:
     "خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ"
"مشرکین کی مخالفت کرو"

﴿صحیح بخاری:5892﴾

اور خاص طور سے ان چیزوں میں جو ان کے دین کے شعائر میں سے ہیں۔

3۔ جشنِ میلاد النبی ﷺ بدعت اور تشبہ بالنصاری  تو ہے ہی اور دونوں ہی حرام ہیں (بدعت، نصاریٰ کی مشابہت)، مزید یہ کہ یہ نبی ﷺ کی تعریف و تعظیم میں غلو اور مبالغہ کا ایک وسیلہ ہے یہاں تک کہ یہ اللہ کو چھوڑ کر نبی ﷺ سے  دعا مانگنے اور مدد طلب کرنے کی طرف لے جاتا ہے، جیسا کہ آج ان میں سے اکثر لوگ جو نبی کریم ﷺ کی پیدائش کا دن مناتے ہیں اللہ کو چھوڑ کر رسول ﷺ سے دعا کرتے ہیں اور ان کی تعریف میں شرکیہ قصیدے  و نعت گاتے ہیں جیسے قصیدۂ بردہ۔
اور نبی ﷺ نے اپنی تعریف میں غلو (حد سے بڑھانا) سے روکا ہے۔

چنانچہ نبی ﷺ نے فرمایا:

" لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ، فَقُولُوا : عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ "

”مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔“

﴿صحیح بخاری:3445﴾

یعنی تم لوگ میری تعریف و تعظیم میں غلو نہ کرو جیسا کہ نصاریٰ نے مسیح ابن مریم کی تعظیم میں غلو کیا یہاں تک کہ اللہ کو چھوڑ کران کی عبادت کرنے لگے۔

اور نبی ﷺ نے ہمیں غلو سے اس ڈر سے روکا ہے کہ ہمیں بھی وہ لاحق نہ ہو جائے ہم سے پہلے غلو کرنے والوں کو لاحق ہوئی۔
چنانچہ رسول ﷺ نے فرمایا:

إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ ؛ فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ "

”لوگو! دین میں غلو سے بچو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو دین میں اسی غلو نے ہلاک کیا“

﴿سنن ابن ماجہ:3029﴾

4۔ بدعتِ میلاد النبی ﷺ کو زندہ کرنا دوسری بدعات کا دروازہ کھولتا ہے اور سنتوں سے غافل کرتا ہے، اسی لئے آپ بدعتیوں کو پائیں گے کہ وہ بدعات کو زندہ کرنے چست رہتے ہیں اور سنت کو زندہ کرنے میں سست پڑ جاتے ہیں اور سنت، اہل سنت سے نفرت و دشمنی رکھتے ہیں یہاں تک کہ ان کا پورا دین یہی ہو گیا ہے کہ وہ بدعات کو انجام دیتے ہیں اور ایامِ پیدائش منانے میں لگے رہتے ہیں، اور یہ لوگ کئی فرقوں میں منقسم ہو گئے ہر فرقہ اپنے اپنے ائمہ کے ایامِ پیدائش مناتا ہے۔ جیسے بدوی، ابن عربی، دسوقی، شاذلی وغیرہ کے ایامِ پیدائش۔ اس طرح سے وہ ایک کے یومِ پیدائش سے فارغ نہیں ہوتے کہ دوسرے کے یومِ پیدائش میں مشغول ہو جاتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان مُردوں کے سلسلے میں غلو کرتے ہیں، اللہ کو چھوڑ کر ان سے دعا کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھنے لگتے ہیں کہ یہ نفع و نقصان پہنچاتے ہیں یہاں تک کہ دین اسلام سے الگ ہوگئےاور دین جاہلیت کی طرف لوٹ گئے جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

"وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ"

"اور وہ اللہ کے سوا ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ انھیں نقصان پہنچاتی ہیں اور نہ انھیں نفع دیتی ہیں اور کہتے ہیں یہ لوگ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں"

﴿سورۃیونس:18﴾

اور اللہ تعالی نے فرمایا:

"وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى"
"ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگراس لیے کہ یہ ہمیںاللہ سے قریب کر دیں"

﴿سورۃ الزمر:3﴾

﴿ الخطب المنبرية في المناسبات العصرية للشيخ صالح الفوزان حفظه الله، الجزء الثالث، ص١٢٨-٢٩-٣٠﴾
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ ہم سب کو سنت کو مضبوطی سے تھامنے  اور بدعات و خرافات سے بچنے کی توفیق دے ۔ آمین یا رب العالمین

:مقصود الخيري

Share:

Shadi se Pahle Ladke aur Ladki Jina (Sex) kar lene par Agar Ladki Pregnant ho jaye to Kya Ladka Ladki Nikah Kar sakta hai?

Koi ladka Shadi hone wali Mangetar ke Sath Sex kar le aur Hamal (Pregnant) se ho to uska kya Solution hai?

Kya Shadi se Pahle Ladki Ladka sex krne ke bad Hamila hone par Dono Nikah kar sakte hai?
Nikah ke Bad Is bacche ke bare me kya hukm hai?
Kya wah Baccha jo Nikah se Pahle ka hai wah Najayez hoga?


السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
    ۔─━══★◐★══━─
کوئی لڑکا اپنی منگیتر کے ساتھ سیکس کر لے اور حمل ٹھہر جائے تو کیا حل ہے اس کا؟؟؟
نکاح کر لے؟؟؟
نکاح کے بعد یہ بچہ کیا ہوگا؟؟؟
اس بات کا تفصیلی جواب دیں.

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُه
سب سے پہلے ہم اپنے اس مسلمان بھائی کے لیے اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس بھائی کو ایمان چھن جانے کے درد سے آشنا فرمائے ۔ اس متاع کے چھن جانے سے مغموم فرمائے جسے اس نے زنا کرتے وقت کھو دیا تھا اور اس سے درگزر فرمائے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے :
زانی جب زنا کر رہا ہوتا ہے تو وہ زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا ، اورشرابی جب شراب نوشی کرتا ہے وہ اس وقت مومن نہیں ہوتا ، اورچوری کے وقت چور بھی مومن نہیں رہتا ، اورنہ ہی چھیننے اور لوٹنے والا لوٹتے وقت مومن ہوتا ہے جسے لوٹنے کی بنا پرلوگ اس کی طرف نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں )
صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2475 )

کیا اس بھائی نے اللہ تعالیٰ کے جزاء و سزا کو بھلا دیا تھا ۔ اللہ تعالیٰ اپنی مکمل قدرتِ کاملہ کے ساتھ کائینات کی ہر ذی روح کے عمل سے باخبر ہے۔ بندہ رزق اسی سے پاتا ہے ، بیمار ہو جائے تو کوئی ذات نہیں اسکے سوا جو شِفاء عطا کرے ، اسکے بجز کوئی بھوک نہیں مٹا سکتا ، کوئی پیاس نہیں بجھا سکتا ۔ سب سے بڑھ کر اس رب نے اسلام کی نعمت سے نوازا جو بلا شبہ ایک عظیم نعمت ہے ۔ پھر ان عظیم نعمتوں کے بدلے میں ہم اس عزت والے رب کی نافرمانی کے کام کریں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہم اس رب کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہاں اہنی جانوں پر ہمارا یہ ظلم ہمیں خسارے میں ڈال دے گا ۔

حدیث معراج کےنام سے حدیث جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان مذکور ہے کہ

( پھر ہم آگے چلے تو ایک تنور جیسی عمارت کے پاس پہنچے ، راوی کہتے ہيں کہ مجھے یاد آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس تنور میں سے شور و غوغا اور آوازيں سنائي دے رہی تھیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہم نے اس تنور میں جھانکا تو اندر مرد و عورتیں سب ننگے تھے ، اور ان کے نیچے سے آگ کے شعلے رہے تھے اور جب وہ شعلے آتے وہ لوگ شور و غوغا اور آہ و بکا کرتے میں نے ان ( فرشتوں ) سے سوال کیا یہ کون ہيں ؟
انہوں نے مجھے جواب دیا چليں آگے چلیں ۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے انہیں کہا کہ میں آج رات بہت عجیب چيزیں دیکھی ہيں تو یہ سب کچھ کیا ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہيں :
ان فرشتوں نے مجھے کہا کہ ہم آپ کو سب کچھ بتائيں گے ۔۔۔۔ اور وہ مرد اور عورتیں جو تنور میں بے لباس تھے وہ سب زانی مرد و عورتیں تھیں )
صحیح بخاری باب اثم الزناۃ حدیث نمبر ( 7047 )

اللہ تعالیٰ ہمارے اس بھائی کے اندر اپنا خوف پیدا فرمائے کہ زنا جیسے قبیح گناہوں سے وہ دور رہے اور اپنی محبت پیدا فرمائے کہ اعمالِ صالح پر اسے اپنے رب کی طرف سے انعامات پر مکمل بھروسہ ہو ۔

            زانی کا زانیہ سے نکاح
۔•┈┈┈┈┈••••┈┈┈┈┈•

﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَآءَ ذَٰلِكُمۡ أَن تَبۡتَغُواْ بِأَمۡوَٰلِكُم مُّحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَۚ﴾--النساء24

’’اور حلال کیا گیا واسطے تمہارے جو کچھ سوائے اسی کے ہے یہ کہ طلب کرو تم بدلے مالوں اپنے کے قید میں رکھنے والے نہ پانی ڈالنے والے یعنی بدکار‘‘ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے مرد کا محصن عفیف اور غیر زانی ہونا ضروری ہے اللہ تعالیٰ کا ہی فرمان ہے :

﴿ٱلۡيَوۡمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ حِلّٞ لَّكُمۡ وَطَعَامُكُمۡ حِلّٞ لَّهُمۡۖ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ إِذَآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِيٓ أَخۡدَانٖۗ﴾--مائدة5

’’آج کے دن حلال کی گئیں واسطے تمہارے پاکیزہ چیزیں اور کھانا ان لوگوں کا کہ دیئے گئے ہیں کتاب حلال ہے واسطے تمہارے اور کھانا تمہارا حلال ہے واسطے ان کے اور پاکدامن مسلمانوں میں سے اور پاک دامنیں ان لوگوں میں کہ دئیے گئے ہیں کتاب پہلے تم سے جب دو تم ان کو مہر ان کے نکاح میں لانے والے نہ بدکاری کرنے والے اور نہ پکڑنے والے چھپے آشنا‘‘

اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے عورت کا محصنہ عفیفہ غیر زانیہ ہونا ضروری ہے پھر یہ آیت کریمہ حلت نکاح میں مرد کے محصن عفیف غیر زانی ہونے پر بھی دلالت کر رہی ہے تو ان آیتوں کو ملانے سے ثابت ہوا کہ جس جوڑے کا آپس میں نکاح ہونا طے پایا ہے دونوں محصن عفیف ہیں تو نکاح حلال ورنہ نکاح حلال نہیں خواہ دونوں ہی غیر محصن وغیر عفیف ہوں خواہ ایک غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ مرد غیر محصن وغیر عفیف ہوخواہ عورت غیر محصنہ وغیر عفیفہ ہو۔توان تینوں صورتوں میں نکاح حلال نہیں۔

زانی مرد کا زانیہ عورت سے شادی کرناجائز نہیں ہے اور نہ ہی وہ عورت اس مرد سے شادی کرسکتی ہے صرف ایک صورت میں یہ ہوسکتا ہے کہ جب دونوں توبہ کرلیں تو ان کی شادی ہو سکتی ہے ۔
اس لیے اس عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں اگرچہ وہ عورت یھودی یا عیسائي ہی کیوں نہ ہو ، اور اگر مسلمان بھی ہ وپھر بھی نکاح نہیں ہوسکتا اس لیے کہ وہ زانیہ ہے اور نہ ہی اس عورت کیلیےجائز ہے کہ وہ اس مرد کو بطور خاوند قبول کرے اسلیےکہ وہ مرد بھی زانی ہے۔

فرمان باری تعالی ہے :
{ زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عورت کے علاوہ کسی اور سے نکاح نہیں کرتا ، اور زانیہ عورت بھی زانی یا پھر مشرک مرد کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتی اورایمان والوں پر حرام کردیا گيا ہے } النور ( 3 ) ۔

اوراس آیت میں اللہ تعالی نے جویہ فرمایا ہے کہ { اورایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے } اس نکاح کے حرام ہونے کی دلیل ہے ۔
لھذا ان دونوں پر یہ واجب اورضروری ہے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے ہوۓ اس کے سامنے توبہ کریں اور اس گناہ کو ترک کرتے ہوۓ جو فحش کام ان سے سرزد ہوا ہے اس پر نادم ہوں ، اور اس کا عزم کریں کہ آئندہ اس کام کو دوبارہ نہيں کريں۔

 زانی کی اس زانیہ سے شادی کا حکم جس سے اس نے زنا کیا ہو' ان کے گناہوں کا کفارہ شمار ہوگی؟ کیا شادی کر لینے سے حد معاف ہو جائے گی؟
۔•┈┈••┈┈┈•••┈┈┈•

زانی کے زانیہ سے شادی کفارہ شمار نہیں ہوگی کیونکہ زنا کا کفارہ دو ہی باتیں ہیں تو اس پر حد قائم کی جائے' جبکہ بات حاکم وقت کے پاس پہنچ گئی ہو یا وہ اس جرم (زنا) سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرے اپنے عمل کی اصلاح کرے اور فتنہ و فحاشی کے مقامات سے دور رہے۔ جہاں تک شادی کا تعلق ہے تو اس زانی مرد و عورت کی آپس میں شادی حرام ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿الزّانى لا يَنكِحُ إِلّا زانِيَةً أَو مُشرِ‌كَةً وَالزّانِيَةُ لا يَنكِحُها إِلّا زانٍ أَو مُشرِ‌كٌ ۚ وَحُرِّ‌مَ ذ‌ٰلِكَ عَلَى المُؤمِنينَ ﴿٣﴾... سورة النور

''بدکار مرد سوائے زانیہ یا مشرکہ عورت کے کسی (پاک باز عورت) سے نکاح نہیں کر سکتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا اور یہ (بدکار عورت سے نکاح کرنا) مومنوں پر حرام ہے''۔

ہاں البتہ اگر وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی جناب میں خالص توبہ کر لیں' جو کچھ ہوا' اس پر ندامت کا اظہار کریں اور نیک عمل کریں تو پھر آپس میں شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں' جس طرح دوسرے مرد کیلئے اس عورت سے شادی کرنا جائز ہوگا اسی طرح اس کیلئے بھی اس صورت میں جائز ہوگا۔ زنا کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی اولاد اپنی ماں کی طرف منسوب ہو گی۔ یہ اپنے باپ کی طرف منسوب نہیں ہوتی کیونکہ نبی ﷺ کے حسب ذیل ارشاد کے عموم کا یہی تقاضا ہے:

«الولد للفراش وللهاهر الحجر»(صحيح البخاري)

''بچہ صاحب بستر کیلئے اور زانی کیلئے پتھر ہے''۔
''عاہر'' کے معنی زانی کے ہیں اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ یہ بچہ اس کا نہیں ہوگا خواہ وہ توبہ کے بعد اس عورت سے شادی بھی کر لے کیونکہ شادی سے پہلے زنا کے پانی سے پیدا ہونے والا بچہ اس کا نہیں ہوگا اور نہ وہ اس کا وارث ہوگا خواہ وہ یہ دعویٰ ہی کیوں نہ کرے کہ وہ اس کا بیٹا ہے کیونکہ یہ اس کا شرعی بیٹا نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ / جلد 3/ صفحہ404

﴿وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَآءَ ذَٰلِكُمۡ أَن تَبۡتَغُواْ بِأَمۡوَٰلِكُم مُّحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَۚ﴾--النساء24

’’اور حلال کیا گیا واسطے تمہارے جو کچھ سوائے اسی کے ہے یہ کہ طلب کرو تم بدلے مالوں اپنے کے قید میں رکھنے والے نہ پانی ڈالنے والے یعنی بدکار‘‘ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے مرد کا محصن عفیف اور غیر زانی ہونا ضروری ہے اللہ تعالیٰ کا ہی فرمان ہے :

﴿ٱلۡيَوۡمَ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَٰتُۖ وَطَعَامُ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ حِلّٞ لَّكُمۡ وَطَعَامُكُمۡ حِلّٞ لَّهُمۡۖ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلۡمُؤۡمِنَٰتِ وَٱلۡمُحۡصَنَٰتُ مِنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ إِذَآ ءَاتَيۡتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحۡصِنِينَ غَيۡرَ مُسَٰفِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِيٓ أَخۡدَانٖۗ﴾--مائدة5

’’آج کے دن حلال کی گئیں واسطے تمہارے پاکیزہ چیزیں اور کھانا ان لوگوں کا کہ دیئے گئے ہیں کتاب حلال ہے واسطے تمہارے اور کھانا تمہارا حلال ہے واسطے ان کے اور پاکدامنیں مسلمانوں میں سے اور پاک دامنیں ان لوگوں میں کہ دئیے گئے ہیں کتاب پہلے تم سے جب دو تم ان کو مہر ان کے نکاح میں لانے والے نہ بدکاری کرنے والے اور نہ پکڑنے والے چھپے آشنا‘‘

اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حلت نکاح کے لیے عورت کا محصنہ عفیفہ غیر زانیہ ہونا ضروری ہے پھر یہ آیت کریمہ حلت نکاح میں مرد کے محصن عفیف غیر زانی ہونے پر بھی دلالت کر رہی ہے تو ان آیتوں کو ملانے سے ثابت ہوا کہ جس جوڑے کا آپس میں نکاح ہونا طے پایا ہے دونوں محصن عفیف ہیں تو نکاح حلال ورنہ نکاح حلال نہیں خواہ دونوں ہی غیر محصن وغیر عفیف ہوں خواہ ایک غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ مرد غیر محصن وغیر عفیف ہو خواہ عورت غیر محصنہ وغیر عفیفہ ہو ۔ تو ان تینوں صورتوں میں نکاح حلال نہیں۔

عدالت نے صرف لڑکی کے بیان پرکاروائی کی ہے اس لیے اس کا کوئی اعتبار نہیں فریقین کے بیان سنے بغیر فیصلہ کرنے سے شریعت نے منع فرمایا ہے
چنانچہ ملاحظہ فرمائیں۔ ارواء الغليل حديث نمبر2600
ہاں اگر دونوں تائب ہو جائیں اور توبہ واقعتا درست ہو حقیقت پر مبنی ہو اور گواہوں کی موجودگی میں ولی کے اذن سے اسلامی اصولوں کے مطابق شروط نکاح کی پابندی میں ان کا نیا نکاح ہو تو آئندہ گناہ سے محفوظ ہو جائیں گے۔

احکام و مسائل​ / نکاح کے مسائل
جلد1/صفحہ 304​

اس ثیبہ عورت سے نکاح کرنے کے متعلق حکم جو زنا کی وجہ سے حاملہ ہو اور حمل آٹھ ماہ کا ہو، کیا اس صورت میں نکاح باطل یا فاسد یا صحیح ہو گا؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی آدمی زنا سے حاملہ عورت سے نکاح کرے تو اس کا یہ نکاح باطل ہے اور اس حالت میں اس کے لئے اس عورت سے مباشرت حرام ہے کیونکہ اس ارشاد باری تعالیٰ کے عموم کا یہی تقاضا ہے:

﴿وَلا تَعزِموا عُقدَةَ النِّكاحِ حَتّىٰ يَبلُغَ الكِتـٰبُ أَجَلَهُ...٢٣٥﴾... سورة البقرة
’’اور جب تک عدت پوری نہ ہو لے  نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا۔‘‘

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَأُولـٰتُ الأَحمالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعنَ حَملَهُنَّ...٤﴾... سورة الطلاق
’’اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (بچہ جننے) تک ہے۔‘‘

اور نبی اکرمﷺ کے اس ارشاد کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔

((لا يحل لأمرىء بالله واليوم الآخر أن يسقي ماءه زرع غيره )) ( سنن أبي داؤد)

’’جو شخص  اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن ایمان پر رکھتا ہو تو اس کے لئے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی دوسرے کی کھیتی کو اپنے پانی سے سیراب کرے۔‘

نیز حسب ذیل ارشاد نبویﷺ کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔

((لا تبؤطا حامل حتى تضع )) ( سنن أبي داؤد)
’’حاملہ عورت سے وضع حمل تک مباشرت نہ کی جائے۔‘‘

اس حدیث کو ابو دائودؒ اور ایک روایت کے مطابق امام ابو حنیفہ ؒ کا بھی یہ قول ہے کہ اس حالت میں عقد صحیح ہے ہاں البتہ مذکورہ احادیث کے پیش نظر امام ابو حنیفہؒ نے وضع حمل تک مباشرت کو حرام قرار دیا ہے جبکہ امام شافعیؒ نے مباشرت کو بھی جائز قرار دیا ہے کیونکہ زنا کے پانی کی کوئی حرمت نہیں ہوتی اور نہ ہی بچے کو زانی کی طرف سے منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے۔
((وللعاهر الحجر ))
( صحيح البخاري )
’’زانی کے لئے پتھر ہیں۔‘‘

اس بچے کو اس عورت سے شادی کرنے والے کی طرف بھی منسوب نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ عورت تو حمل کے بعد اس کا بچھونا بنی ہے۔ اس تفصیل سے مذکورہ علماء میں اختلاف کا سبب واضح ہو گیا ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے وہ بات کہی ہے جو اس کے اس امام نے کہی جس کی اس نے تقلید کی ہے لیکن ان میں سے صحیح بات یہی ہے کہ یہ نکاح باطل ہے کہ مذکورہ بالا دونوں آیتوں اور ممانعت پر ولالت کرنے والی احادیث کے عموم کا بھی یہی تقاضا ہے۔
فتاویٰ اسلامیہ/جلد 3/صفحہ171

صورت مسئولہ جس میں منگیتر نے زنا کیا جس سے اسکی منگیتر یعنی زانی عورت حاملہ ہے ۔ تواس کے بارے میں آپ کو علم ہونا چاہیے کہ زانیہ عورت سے شادی نہيں ہوسکتی لیکن اگر وہ توبہ کرلے تو پھر شادی کرنی جائز ہے ، اور اگر مرد اس کی توبہ کے بعد اس سے شادی کرنا بھی چاہے تو پھر ایک حیض کے ساتھ استبراء رحم کرنا واجب ہے یعنی اس کے ساتھ نکاح کرنے سے قبل یہ یقین کرلیا جائے کہ اسے حمل تو نہیں اگر اس کا حمل ظاہر ہو تو پھر اس سے وضع حمل سے قبل شادی جائز نہیں ۔ انتھی ۔
شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ تعالی کا فتوی ۔ دیکھیں کتاب : الفتاوی الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 584 ) ۔

اور شیخ صالح المنجد کے بقول اس مسئلہ ( زانی کا زانیہ سے نکاح ) کا جواب یہ ہے کہ :

زانی مرد کا زانیہ عورت سے شادی کرناجائز نہیں ہے اور نہ ہی وہ عورت اس مرد سے شادی کر سکتی ہے صرف ایک صورت میں یہ ہوسکتا ہے کہ جب دونوں توبہ کرلیں تو ان کی شادی ہوسکتی ہے ۔

اس لیے اس عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں اگرچہ وہ عورت یھودی یا عیسائي ہی کیوں نہ ہو ، اوراگر مسلمان بھی ہوپھر بھی نکاح نہیں ہوسکتا اس لیے کہ وہ زانیہ ہے اورنہ ہی اس عورت کیلیےجائز ہے کہ وہ اس مردکو بطور خاوند قبول کرے اسلیےکہ وہ مرد بھی زانی ہے۔
فرمان باری تعالی ہے :

{ زانی مرد زانیہ یا مشرکہ عورت کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتا ، اورزانیہ عورت بھی زانی یا پھرمشرک مرد کے علاوہ کسی اورسے نکاح نہیں کرتی اورایمان والوں پر حرام کردیا گيا ہے } النور ( 3 ) ۔

اوراس آیت میں اللہ تعالی نے جویہ فرمایا ہے کہ { اورایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا ہے } اس نکاح کے حرام ہونے کی دلیل ہے ۔
لھذا ان دونوں پر یہ واجب اورضروری ہے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے ہوۓ اس کے سامنے توبہ کریں اوراس گناہ کوترک کرتے ہوۓ جو فحش کام ان سے سرزد ہوا ہے اس پر نادم ہوں ، اوراس کا عزم کریں کہ آئندہ اس کام کودوبارہ نہيں کريں گے ۔
تو اس بنا پر اس عورت سے نکاح کرنا باطل ہے جو زنا سے حاملہ ہوئی ہو ۔ اور اگر کسی نے اس سے شادی کی بھی ہے تو اس پر واجب ہے کہ وہ فوری طور پر اس سے علیحدہ ہوجائے وگرنہ وہ بھی زانی شمار ہوگااوراس پر حد زنا قائم ہوگی ۔
پھر جب وہ اسے علیحدگی کرلے اوروہ عورت اپنا حمل بھی وضع کرلے اوررحم بری ہوجائے اورپھر وہ عورت سچی توبہ بھی کرلے توپھر وہ خود بھی توبہ کرلے تواس کا اس عورت سے شادی کرنا جائز ہوگا ۔

رہا مسئلہ کہ ولدالزنا کس سے منسوب کیا جائے تو اس ضمن میں الشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر عورت شادی شدہ ہوتو زانی کے بچے کووالد سے ملحق کرنے کے بارہ میں علماء کرام اس کے بارہ میں دو قول رکھتے ہیں کہ آیا بچے کی نسبت والد کی طرف ہوگی یا نہیں ؟

اس کا بیان کچھ اس طرح ہے :

اگرعورت شادی شدہ ہو اور شادی کے چھ ماہ بعد بچے کی پیدائش ہوجاۓ تواس بچے کی نسبت خاوند کی طرف ہی ہوگی اوراس سے بچے کی نفی نہیں ہوگی الا یہ کہ وہ اپنی بیوی سے لعان کرے ۔

اوراگر کوئ شخص یہ دعوی کرے کہ اس نے اس عورت سے زنا کیا ہے اوریہ بچہ اس زنا سے ہے تواجماع کے اعتبارسے اس کی بات تسلیم نہیں ہوگی اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( بچہ بستر والے ( یعنی خاوند ) کے لیے ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2053 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1457 ) ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

علماء کرام کا اجماع ہے کہ اگر بچہ مرد کے بستر پر پیدا ہواورکوئ دوسرا شخص اس کا دعوی کرے تو بچے کی نسبت دعوی کرنے والے کی طرف نہیں کی جاۓ گی ، لیکن اگر بچہ بستر کے علاوہ ( شادی کے بغیر ) پیدا ہو تواس میں اختلاف ہے ۔

اگر عورت بیوی نہ ہو اورزنا سے بچہ پیدا ہوجاۓ اورزانی اس کا دعوی کرے توکیا اس بچے کی نسبت اس کی طرف کی جاۓ گی ؟

جمہور علماء کرام کا کہنا ہے کہ اس حالت میں بچہ کی نسبت اس کی طرف نہیں کی جاۓ گی ۔

حسن اورابن سیرین اورعروہ ، امام نخعی ، اسحاق ، سلیمان بن یسار رحمہم اللہ سے منقول ہے کہ بچہ اس ( زانی کی طرف منسوب ہوگا ۔

اورشيخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے ۔

اورابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا قول نقل کیا ہے

( علی بن عاصم نے ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی سے راویت کیا ہے کہ ان کا قول ہے : میرے خیال میں اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ جب کوئی مرد کسی عورت سے زنی کرے اوراس سے وہ حاملہ ہو اوروہ اس حمل میں ہی اس سے شادی کرلے اوراس پر پردہ ڈالے رکھے اوروہ بچہ اسی کا ہوگا ) ۔ المغنی ( 9 / 122 ) ۔

اورابن مفلح رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :

ہمارے شیخ اوراستاد ( ابن تیمیہ رحمہ اللہ ) نے یہ اختیار کیا ہے کہ اگر کسی مرد نے اپنے زنا کی بچے کی نسبت اپنی کرنے کا مطالبہ کیا اوروہ عورت اس کی بیوی نہ ہوتواس بچے کے الحاق اس کی طرف کر دیا جاۓ گا ۔ ا ھـ دیکھیں : الفروع ( 6 / 625 ) ۔

اورابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

( جمہور کے قول کے مطابق اگرعورت زانی کی بیوی نہ ہوتو اس کے بچے کا الحاق زانی سے نہیں ہوگا ، اورحسن ، ابن سیرین رحمہم اللہ تعالی کا قول ہے جب وطی کرنے والے کوحد لگا دی جاۓ توبچہ اس سے ملحق ہوگا اوروارث بھی ہوگا ۔

اورابراھیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں : جب اسے حد لگا دی جاۓ اوریا پھر وہ زنی کی جانے والی عورت کا مالک بن جاۓ توبچے کی نسبت اس کی طرف کردی جاۓ گی ، اوراسحاق رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے : اس کا الحاق کر دیا جاۓ گا ۔

اوراسی طرح عروہ ، اورسلیمان بن یسار رحمہم اللہ تعالی سے بھی یہی قول منقول ہے ) ۔

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی عنہ کا قول ہے :

اوراسی طرح اگر عورت زانی کی بیوی نہ ہوتو اس کےبچے کی زانی کی طرف نسبت کرنے میں اہل علم کے دو قول ہيں :

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( بچہ خاوند کا ہے اورزانی کے لیے پتھر ہیں ) ۔

اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ صاحب فراش یعنی جس کی بیوی ہے اس کا قرار دیا ہے نہ کہ زانی کا ، اوراگر عورت کسی کی بیوی نہ ہو تو حدیث اسے بیان نہیں کرتی ۔

اورعمررضي اللہ تعالی عنہ نے جاھلیت میں پیدا ہونے والے بچوں کوان کے باپوں کی طرف ہی منسبوب کیا تھا ، اوراس مقام پر اس مسئلہ کی تفصیل کا موقع نہیں ۔ دیکھیں : الفتاوی الکبری ( 3 / 178 ) ۔

جمہور علماء کرام نے زنا سے پیدا شدہ بچے کی نسبت زانی کی طرف نہ کرنے میں مندرجہ ذيل حدیث سے استدلال کیا ہے :

عمروبن شعیب اپنے باپ وہ اپنے دادا سےبیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ :

( بلاشبہ جو کسی ایسی لونڈی سے ہوجواس کی ملکیت نہیں اوریا پھر کسی آزاد عورت سے ہو جس سے اس نے زنا کيا تواس کا الحاق اس سے نہیں کیا جاۓ گا اورنہ ہی وہ اس کا وارث ہوگا ، اوراگر وہ جس کا دعوی کررہا ہے وہ صرف اس کا دعوی ہی ہے اوروہ ولد زنا ہی ہے چاہے وہ آزاد عورت سے ہو یا پھر لونڈی سے )۔

مسنداحمد حدیث نمبر ( 7002 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2746 )، علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح ابوداود میں اور شیخ ارنا‎ؤوط رحمہ اللہ نے تحقیق المسند میں اسے حسن قرار دیا ہے ، اورابن مفلح رحمہ اللہ تعالی نے اس سے جمہور کے مذھب کی دلیل لی ہے ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ولد زنا زانی سے ملحق نہيں ہوگا اورنہ ہی اس کا وارث بنے گا چاہے زانی اس کا دعوی بھی کرتا رہے ۔

اوراس میں شک نہیں کہ بچے کوکسی بھی شخص کی طرف منسوب کرنا بہت ہی عظيم اوربڑا معاملہ ہے جس کے بارہ میں بہت سے احکام مرتب ہوتے ہیں مثلا وراثت ، عزیزو اقارب ، اور اس کے لیے محرم وغیرہ ۔

بہرحال اس بحث کا لب لباب یہ ہے کہ زنا سے پیدا شدہ بچے کی نسبت زانی کی طرف نہ کرنے کا فتوی جمہور علماء کرام کے موافق ہے ۔

اوررہا مسئلہ شیخ ابن جبرین حفظہ اللہ تعالی کے بارہ میں توہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی اس کلام کی بنیاد دوسرے قول پر رکھی ہو جوکہ اوپربیان کیا جا چکا ہے ۔

لھذا جمہور علماء کرام کے قول کے مطابق زنی سے پیدا شدہ بچہ چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی زانی کی طرف منسوب نہيں کیا جاۓ گا اورنہ ہی یہ کہا جاۓ گا وہ بچہ زانی کا ہے بلکہ اس کی نسبت ماں کی طرف کی جاۓ گی اور وہ بچہ ماں کا محرم ہوگا اورباقی بچوں کی طرح وارث بھی ہوگا ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :

( وہ بچہ جو زنا سے پیدا ہوا ہووہ اپنی ماں کا بچہ ہوگا اورباپ کا نہيں ، اس کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمومی فرمان ہے :

( بچہ بیوی صاحب فراش ( بیوی والے کا ہے ) اور زانی کے لیے پتھر ہيں )

اورعاھر زانی ہے جس کا بچا نہیں ، حدیث کا معنی تو یہی ہے ، اوراگر وہ توبہ کے بعد اس عورت سے شادی بھی کرلے کیونکہ بچہ توپہلے پانی سے پیدا ہوا ہے اس لیے وہ اس کا بیٹا نہیں ہوگا اورنہ وہ بچہ زانی کا وارث ہوگا اوراگروہ اس کا دعوی بھی کرے کہ وہ اس کا بچہ ہے پھر نہیں اس لیے کہ اس کا وہ شرعی طور پربچہ ہی نہیں ) انتھی ۔ یہ قول فتاوی اسلامیہ ( 3 / 370 ) سے نقل کیا گیا ہے ۔

اورشیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کے فتاوی میں ہے کہ زانی کے پانی سے پیدا شدہ بچہ زانی کا شمار نہیں ہوگا ۔
دیکھیں فتاوی شیخ محمد بن ابراھیم رحمہ اللہ ( 11 / 146 ) ۔

          زنا کے گناہ کی تلافی
۔*•┈┈┈••✦✿✦••┈┈┈•*

لھذا آپ دونوں پر یہ واجب اورضروری ہے کہ آپ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرتے ہوۓ اس کے سامنے توبہ کریں اوراس گناہ کوترک کرتے ہوۓ جوفحش کام آپ سے سرزد ہوا ہے اس پر نادم ہوں ، اوراس کا عزم کریں کہ آئندہ اس کام کودوبارہ نہيں کريں گے ۔

اوراس کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ کثرت کے ساتھ کریں ہوسکتا ہے اللہ تعالی آپ کی توبہ قبول کرے اورآپ کے سب گناہوں کونیکیوں سے بدل ڈالے اسی کے بارہ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

{ اوروہ لوگ جواللہ تعالی کے ساتھ کسی دوسرے معبود کونہیں پکارتے اورکسی ایسے شخص کوجسے اللہ تعالی نے قتل کرنا حرام قرار دیا اسے وہ حق کے سوا قتل نہیں کرتے ، اورنہ ہی وہ زنا کا ارتکاب کرتے ہیں اور جوکوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لاۓ گا ۔

اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جاۓ گا اوروہ ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی عذاب میں رہے گا ، سواۓ ان لوگوں کے جوتوبہ کریں اورایمان لائيں اورنیک وصالح اعمال کریں ، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دیتا ہے ، اوراللہ تعالی بخشنے والا اورمہربانی کرنے والا ہے ، اورجوتوبہ کرلے اوراعمال صالحہ کرے توبلا شبہ وہ حقیقتااللہ تعالی کی طرف سچی توبہ اوررجوع کرتا ہے }
الفرقان ( 68 – 71 ) ۔

اور توبہ کے بعد اگر آپ اس لڑکی سے شادی کرنا چاہیں تونکاح سے قبل آپ پر ضروری اور واجب ہے کہ اس کا ایک حیض کے ساتھ استبراء رحم کریں ، اور اگر حمل ظاہر ہوجاۓ تو پھر آپ حدیث پر عمل کرتے ہوۓ اس حالت میں اس سے نکاح نہیں کرسکتے جب وضع حمل ہوجاۓ تو آپ نکاح کر سکتے ہیں ۔

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب

وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Share:

Biddat kya hai, Iski Qismein. Teri Biddat Teri Barbadi.

Biddat aur Uski Qismein.

"Teri Biddat Teri Barbadi" Kaise?
Eid Miladunnabi manana Sunnat ya Biddat?
https://findmrf.blogspot.com/2018/11/eid-miladunnabi-mnane-ki-barailwi-ki.html

Eid Miladunnabi manane ke Dalail ki Haqeeqat. 


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ

تیری بدعت، تیری بربادی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️: مسز انصاری

اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کے لیے جس دینِ اسلام کو کامل فرمایا وہ دین اس کی سعادت اور ہدایت کا منبع و مرکز ہے، اذہان و قلوب کی مثال آنکھ کی ہے جو روشنی میں اپنی قوت اور استعداد کے مطابق دیکھتی ہے، تاریکی میں کوئی بھی آنکھ چیزوں کو دیکھنے اور ان کی حقیقت و نوعیت کو جاننے سے معذور ہوجاتی ہے ۔ انسانی عقل کے لیے بھی کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک روشنی ہے جو اشیاء کی حقیقت اور پہچان کے لیے ضروری ہے ، مگر جب انسان اس روشنی سے دور ہوجاتا ہے تو شرک و بدعت کی پہچان سے بھی محروم ہوجاتا ہے ۔ یہ شرک و بدعات ہی شیطان کے وہ خطرناک اور مہلک ہتھیار ہیں جن کے وار سے وہ لوگوں کو سبیل اللہ سے ہٹا کر سبیل الشیطان کی راہ پر ڈال دیتا ہے، اور شرک و بدعت ، سبیل الشیطان ہے ، بدعت ان عقائد و عبادات کا نام ہے جو کتاب اللہ ، سنتِ رسول اللہﷺ اور اجماع امت کے خلاف ہو ،

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’دین اسلام میں بدعت ہر اس امر کو کہتے ہیں جسے نہ اللہ تعالیٰ نے مشروع کیا ہو، نہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ، یعنی جس کی کوئی شرعی حیثیت نہ ہو، نہ  واجب نہ مستحب‘‘
[ دیکھیے : فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃاللہ علیہ ، ۴/۱۰۷-۱۰۸۔]

ائمہ کرام کے نزدیک اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں :
-عادات اور ،
-عبادات۔
عبادات میں اصل اللہ کی مشروع کردہ عبادات میں اضافہ نہ کرنا ہے، جبکہ عادات میں اصل اللہ تعالیٰ کے منع کردہ احکامات کے علاوہ کسی بات سے منع نہ کرنا ہے  ، عادات چونکہ عام امور زندگی سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ان میں بدعت نہیں ہوتی، البتہ جب انھیں عبادت سمجھ کر انجام دیا جائے ، یا عبادت کے قائم مقام سمجھا جائے تب ان میں بدعت داخل ہوجاتی ہے۔

بدعت کی دو قسمیں ہیں :
۱- بدعت مکفرہ: یہ وہ بدعت ہے جس کا مر تکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
۲- بدعت مفسقہ : یہ وہ بدعت ہے جس کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا ۔
[دیکھئے: الاعتصام ،از امام شاطبی، ۲/۵۱۶ ]

بدعات عام گناہوں کی بہ نسبت زیادہ خطرناک ہوتی ہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرک اور بدعتی پر زجر و توبیخ فرمائی :

شَرَ‌عوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ وَلَولا كَلِمَةُ الفَصلِ لَقُضِىَ بَينَهُم
﴿سورةالشورىٰ : ٢١﴾
انہوں (مشرکوں) نے دین میں لوگوں کے لیے ایسے کام مشروع قرار دیے جن کا اللہ نے حکم نہیں فرمایا تھا۔ اگر (اللہ رب العزت کا) یہ طے شدہ امر نہ ہوتا (کہ روزِ قیامت انہیں اس کی سزا دی جائے گی) تو (دنیا ہی میں) ان کا فیصلہ کر دیا جاتا (یعنی ان پر عذابِ الہٰی نازل ہو جاتا)"

اور اس سنگینی کی وجہ یہ بھی ہے کہ شیطان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ ابنِ آدم کو مختلف گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں اترنے کی دعوت دیتا رہے ، اس کی سب سے پہلی گھاٹی شرک باللہ ہے، اگر بندئہ مومن اس گھاٹی سے نجات پا لیتا ہے، تو وہ اسے بدعت کی گھاٹی پر طلب کرتا ہے اور دعوت دیتا ہے ، اگر تو مسلمان دینی احکام سے لا علمی ہوجائے، خواہشات کی پیروی کرے، حق کی دعوت دینے والوں سے تعصب برتے اور کفار سے مشابہت اختیار کرنے لگے تو وہ بہت جلد بدعت کی اس گھاٹی میں اوندھے منہ گر پڑتا ہے ، اور پھر دین کو ناقص سمجھ کر اس میں کمی بیشی کرنا شروع کردیتا ہے، جبکہ اللہ رب العزت نے انسان سے اپنے کامل دین میں کمی زیادتی کا مطالبہ ہرگز نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس فرمایا:

﴿اَليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...﴿سورة المائدة : ٣﴾
میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے دینِ اسلام کو پسند فرما لیا ہے"

اپنی رحلت سے قبل نبی کریمﷺ نے امت کو بھلائی کے تمام امور کی وضاحت فرما دی، اور یہ باور فرمایا کہ جو کام میرے عہدِ مسعود میں دین نہیں تھے ، وہ میرے بعد بھی دین نہیں ہو سکتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبۂ جمعہ میں اللہ کی حمد وثناء بیان کرنے کے بعدارشاد فرمایا کرتے تھے:

’’من یھدہ اللّٰه فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، إن أصدق الحدیث کتاب اللّٰه ، وأحسن الھدي ھدي محمد ، وشر الأمور محدثاتھا، وکل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ، وکل ضلالۃ في النار‘‘

جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دیدے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ، اور جسے گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، بیشک سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے ،اور سب سے اچھا طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، اور بدترین امور نئی ایجاد کردہ چیزیں ہیں ، اور ہر نئی چیز بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
[ اس حدیث کی اصل صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث میں ہے، اِن الفاظ کے ساتھ سنن نسائی میں ہے ، دیکھئے:کتاب صلاۃ العیدین، باب کیف الخطبۃ، ۳/۱۸۸، حدیث نمبر(۱۵۷۸)۔]

علامہ ابن سعد رحمہ اللہ نے اپنی سند سے ذکرکیا ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’لوگو! میں متبع سنت ہوں ،بدعتی نہیں ہوں ، لہٰذا اگر درست کروں تو میری مددکرو، اور اگر انحراف کروں تو میری اصلاح کرو‘‘
[ دیکھیے : الطبقات الکبری ،از ابن سعد، ۳/۱۳۶۔ ]

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ اصحاب الرائے (بدعتیوں ) سے بچو، کیونکہ یہ سنتوں کے دشمن ہیں ، ان سے حدیثیں نہ یاد ہوسکیں تو انہوں نے اپنی من مانی کہنا شروع کردیا،خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا‘‘
[ دیکھیے : شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ، از لالکائی، ۱/۱۳۹، نمبر(۲۰۱)،وسنن الدارمی، ۱/۴۷، اثرنمبر(۱۲۱)،وجامع بیان العلم وفضلہ، از ابن عبد البر، ۲/۱۰۴۱، نمبر(۲۰۰۱،۲۰۰۳و ۲۰۰۵)۔ ]

(۳) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’(سنت کی) اتباع کرو، بدعت نہ ایجاد کرو، سنت ہی تمہارے لئے کافی ہے،ہربدعت گمراہی ہے‘‘
[ في ماجاء في البدع، از ابن وضاح، ص:۴۳، نمبر(۱۴،۱۲)، والمعجم الکبیر ، از،امام طبرانی، ۹/۱۵۴، حدیث نمبر(۸۷۷۰)، امام ہیثمی رحمۃاللہ علیہ ’’مجمع الزوائد‘‘ (۱/۱۸۱)میں فرماتے ہیں :’’اس حدیث کے راویان صحیح بخاری کے ہیں ‘‘،نیز، شرح أصول اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ، از لالکائی، ۱/۹۶،حدیث نمبر(۱۰۲)، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی دیگر آثار کے لئے دیکھئے: في ماجاء في البدع، از ابن وضاح، ص:۴۵، ومجمع الزوائد، از امام ہیثمی رحمۃاللہ علیہ ، ۱/۱۸۱۔ ]

تابعین وتبع تابعین میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ایک شخص کے پاس ایک خط میں لکھا:
’’امابعد : میں تمہیں اللہ کے تقویٰ، اس کے معاملہ میں اعتدال کی راہ اپنانے،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بعد جو کچھ بدعتیوں نے ایجاد کررکھا ہے اسے ترک کرنے کی وصیت کرتاہوں ‘‘
[سنن أبی داؤد، کتاب السنۃ، باب لزوم السنۃ، ۴/۲۰۳، حدیث نمبر(۴۶۱۲)، نیز دیکھئے:صحیح سنن ابوداؤد، از علامہ البانی رحمۃاللہ علیہ ، ۳/۸۷۳ ]

بدعت کا سب سے بھیانک اور تباہ کن نقصان یہ ہوتا ہے کہ بدعتی سنت اور اہل سنت سے بغض رکھتا ہے ،

امام اسماعیل بن عبد الرحمن صابونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''اہل بدعت کی نشانیاں ظاہر وباہر ہیں ، ان کی سب سے واضح علامت یہ ہے کہ وہ حاملین سنت رسول ﷺسے شدید دشمنی اور عداوت رکھتے ہیں، اور انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں''
[ دیکھیے : عقیدۃ اھل السنۃ واصحاب الحدیث" صفحہ:299۔ ]

شرک وبدعت کے گناہ ہر روز اپنی نسل بڑھاتے ہیں، ہر روز ان کے گندے انڈوں سے بدتر سے بدتر نسل باہر آتی ہے، ان ہی شیطانی نسلوں نے مسلمان گھروں میں عابد و معبود کا فرق مٹادیا، تبلیغِ دین کو قوالیوں کا رنگ دے کر دین کا مقصد تفریح بنادیا،  مسجدوں میں بندروں کی طرح ناچنے، گانے، داڑھیوں کی سنت منڈانے مٹانے اور حشیش (بھنگ) پینے کو عبادت کا درجہ دے دیا ، گھروں کی چار دیواری میں محفوظ بنتِ حوا کو بازاروں اور مزاروں پر محوِ رقص کر دیا ، اللہ کے دین نے عورت کے جسم پر حلال رشتوں کو حلال کیا، مگر شرک و بدعت نے اسے مجاوروں کےہاتھوں کاکھلونا بنادیا، جہاں عورت کے محارم مجاوروں کی گندی ہوس کو دین سمجھ کر اپنی عورتوں کو ان کے شیطانی نفوس کے حوالے کردیتے ہیں ، یہ اور اس طرح کی دیگر وہ ساری خو دساختہ عبادتیں ان بدعات میں سے ہیں جنھیں کتاب و سنت کے مخالفین عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں ۔ سنت پر قلیل عمل سے ماجور ہونے کے بجائے بدعت کی کثیر مشقت کو عبادت کا اعلیٰ درجہ سمجھنا بدعتی کا فضول زعم ہی دراصل شیطان کی فتح ہے ۔

وھٰذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

اے بدعتی، اے بدنصیب !!

زمین کے سینے پر تو جب تلک چل رہا ہے
اور تیرے سینے میں تیرا دل دھڑک رہا ہے

ہر روز دنیا کے کھیل تماشوں میں
پیسوں کے زور پہ یاروں کے شور میں

بازؤوں کی طاقت پر
جوانی کی اٹھان پر

جب تلک تو پنپ رہا ہے
اور دنیا کے مزے لوٹ رہا ہے

مگر جب جائے گا تو اس جگہ
نہیں کسی زور آور کا زور اس جگہ

حکمرانی نہیں کسی کے تخت و تاج کی
وقعت نہی جہاں کسی سرکش مہاراج کی

لگتا نہیں دربار کسی شاہ کا جہاں
سجتا نہیں مزار کسی مجاور کا جہاں

جہاں بادشاہوں کے قہر نہیں ٹوٹتے
کمزور پر پہاڑ عہدوں کے نہیں ٹوٹتے

اس شاہانِ شاہ کے دربار میں
خالق و مالک کے دربار میں

جائے گا جب تو ساتھ بدعتوں کی نجاست کے
جرم یہ بڑا ہے بہت مقابلے میں سارے گناہ کے

سوختہ جاں آگ بنے گی ٹھکانہ تیرا
درد جہنم کا بنے گا مقدر تیرا

اس سے پہلے کہ موت تجھے آن دبوچے
ملائک تجھ سے قبر میں کچھ پوچھے

قبر تیری انگاروں کا مسکن بنے
شعلوں میں ہرروز تو راکھ بنے

غور کر شریعت میں صاحبِ شریعتﷺ کی
کر تحقیق رب کے قرآن اور نبیﷺ کےفرمان کی

منہ موڑ گیا گر تو ہدایت سے خالی
نہیں گر رب نے تیرے دل میں ہدایت ڈالی

پہنچے گا تو انجام اُس بڑے بھیانک کو
تصور نا کیا ہو کسی قلب نے جس کو

نسبت تجھ سے اس پاک کلمہ کی ہے میری
اس رشتہ سے ایک التجا ہے تجھ سے میری

گرا نہیں سکتا تو قصرِ اسلام کو مگر
اٹھائے گا خسارہ نا کی تو نے توبہ اگر

بدعت کے انگاروں سے خود کو بچالے
وقت ہے ابھی، عذاب سے خود کو چھڑالے

کل رب کی عدالت میں بہت پچھتائے گا
تیری آہ وزاری چیخ پکار کچھ کام نا آئے گا.

Share:

Khatna Kya hai? Khatna kyu karate hai Musalman?

Khatna kya hai? Aur Khatna kaise hota hai?
What is Khatna and What is Circumcision Penis?
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

📚  ختنہ کا لُغوی اور اصطلاح مفہوم : 📚

ختنہ (Circumcision)کا لغوی معنی ''قلفہ'' یعنی عضو تناسل کے اگلے حصہ کی جلد، جس کو انگلش (Prepuce)میں کہتے ہیں، کاٹ کر علیحدہ کرنا ہے۔ عام اصطلا ح میں یہ لفظ جلدکے اس حصے کے لیے بولا جاتا ہے جو حشفہ (Glans Penis)کے نچلے حصہ میں سمٹی ہوئی ہوتی ہے،جسے وہاں سے کاٹ کر جسم سے جدا کیا جاتا ہے۔ ختنہ ایک معمولی عمل جراحی ہے، کسی آلہ یا معدنی سلائی کی مدد سے حشفہ کے اوپر کی تمام جلد کو آگے کی جانب سمیٹ کر استرے سے کاٹ دیا جاتا ہے، خون روکنے اور جلد زخم بھرنے کے لیے کوئی دوا، پاؤڈر یا مرہم لگا کر پٹی باندھ دی جاتی ہے۔ یہ زخم عموماً ایک ہفتہ میں مندمل ہوجاتا ہے۔برصغیر ہندوستان و پاکستان کے اکثر مقامات پر یہ خدمت حجام، عام جراح یا ہسپتال کا عمل انجام دیتا ہے۔

شریعت میں ختنہ یا ختان اس عمل جراحی کے علاوہ اعضائے پوشیدہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے او راس کے متعلق ہمیں سنت نبویؐ میں واضح طور پرمرتب شدہ احکامات بھی ملتے ہیں۔ مثلاً ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
''إذا التقی الختانان فقد وجب الغسل'' 1
''جب (مرد او رعورت کے )ختنے مل جائیں تو غسل واجب ہوگیا۔''

ایک اور روایت میں ہے:
''إذا التقی الختانان و غابت الحشفة فقد وجب الغسل أنزل أولم ینزل'' 2
یعنی ''جب (مرد عورت کے) ختنے اس طرح مل جائیں کہ حشفہ غائب ہوجائے تو غسل واجب ہوگیا خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔''

امام بخاریرحمة اللہ نے بھی اپنی صحیح میں ایک باب اس ضمن میں مقرر فرمایا ہے:
''إذا التقی الختانان'' یعنی ''جب (مرد عورت کے)ختنے مل جائیں'' 3

برصغیر ہندوستان و پاکستان میں عموماً ختنہ کو کسی شخص کے مسلمان ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں اور بعض عیسائیوں میں بھی ختنہ کروانے کا رواج ہے۔ عصر حاضر میں اکثر غیر مسلم قومیں بھی اس کے طبی فوائد کے پیش نظر ختنہ کرواتی ہیں۔

ختنہ کب کروانا واجب ہے؟
اکثر اسلامی ممالک میں ختنہ پیدائش کےبعد سات سے لے کر تیرہ سال تک مختلف عمروں میں کیا جاتا ہے مکة المکرمہ میں، جہاں رسم ختنہ کو ''طہار'' کہا جاتا ہے، بچوں کا ختنہ تین سے سات سال کی عمر میں ہوجاتا ہے۔بعض کے نزدیک ولادت کے بعد ساتویں دن ختنہ کروانا مستحب اور زیادہ افضل ہے۔ ان کی دلیل حضرت جابر ؓ کی یہ روایت ہے:
''عق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن الحسن والحسن و ختنھما لسبعة أیام''
یعنی ''رسول اللہ ﷺ نے حسن و حسین ؓ کے عقیقے اور ان کے ختنے (پیدائش کے بعد) ساتویں دن کئے۔''
(( رواہ البیہقی ))

لیکن امام محمد غزالی رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:
''ختنوں کے باب میں یہودیوں کی عادت ہے کہ پیدائش کے ساتویں روز کردیتے ہیں۔ اس باب میں اُن کی مخالفت کرنی او راگلے دانت نکلنے تک تاخیر کرنی مستحب ہے۔''
(( احیاء العلوم للغزالی ج1 ص243، مترجم محمد احسن صدیقی نانوتوی طبع اوّل اس دارالاشاعت کراچی))

ختنہ کتنی عمر میں کروانا واجب ہے؟ اس سلسلہ میں اہل علم حضرات میں سے ایک کثیر تعداد اس طرف گئی ہے کہ ختنہ اس وقت واجب ہے جب بچہ سن بلوغ سے مشرف ہو۔ کیونکہ اس وقت وہ خدا تعالیٰ کے احکامات اور احکام شرعیہ سے واقف اور شرعاً اس کا مکلف ہوتا ہے۔ اگر بچہ سن بلوغ میں داخل ہوتے وقت ختنہ شدہ ہوتو اس کی عبادات، اسلامی طور طریقہ اور شرع حنیف کے مطابق صحیح ہوں گی۔ ولی کے حق میں افضل ہے کہ ختنہ کا آپریشن بچہ کی پیدائش کے بعد ساتویں دن یا شروع کے ایام میں ہی کروا دے تاکہ جب اس میں عقل آئے اور فہم امور کی صلاحیت پیدا ہو اور وہ بھلے بُرے کی تمیز کرنے کے مرحلہ میں داخل ہو تو اپنے آپ کو ختنہ شدہ پائے۔

📚 ختنہ شدہ پیدا ہونے والے بچے: 📚

اکثر مشاہدہ میں آیا ہے کہ بعض نومولود قدرتی طور پر پیدائش کے وقت بغیر قلفہ یا نصف قلفہ یا بہت قلیل قلفہ کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان بچوں کا حشفہ مکمل کھلا ہوا ہو تو ایسی صورت میں ان کے ختنہ کی حاجت نہیں ہوتی ہے، لیکن جن بچوں کا قلفہ نصف حشفہ سے کچھ کم یا نصف یا نصف سے بھی کچھ اوپر تک ہوتا ہے ایسے بچوں کی ختنہ ضرور کروانا چاہیے کیونکہ حشفہ پر قلفہ کی موجودگی سے غلیظ رہنے کا احتمال ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ''جو بچے اس طرح یعنی ختنہ شدہ پیدا ہوتے ہیں ان کی ختنہ چاند کرتا ہے۔'' علامہ ابن قیم رحمة اللہ علیہ نے اسے لوگوں کا واہمہ اور خرافات قرار دیا ہے۔
(( المعاد لامام ابن القیم ج1 ص35 مطبعة السنة المحمدیة ))

قدرتی طور پر مختون پیدا ہونے والے بچوں کی یہ صفت ان کے کسی جسمانی عیب یا ان کی کسی خصوصیت یا بزرگی کی علامت نہیں ہوتی، جیسا کہ بعض لاعلم لوگوں کا خیال ہے، یہ محض ایک امر ِرب اور مشیت الٰہی ہے۔ بہت سے غیر مسلم بچے بھی ایسی کیفیت میں پیدا ہوتے دیکھے گئے ہیں۔

📚  ختنہ کی دعوت اور مروجہ رسومات: 📚

ہندوستان و پاکستان میں عام طور پر غیر تعلیم یافتہ طبقہ میں بچہ کے ختنہ اور عقیقہ کے مواقع پر بعض بُری رسومات دیکھنے میں آتی ہیں۔مثلاً ناچ رنگ و ڈھول، گانے باجے یا مجلس میلاد کا اہتمام، گھوڑے پر بچہ کو سوار کرا کر کسی مسجد یا بزرگ کے مزار تک لے جانا، بچہ کے سر پر پھول و سہرا باندھنا، نظر بد سے بچانے کے لیے اس کے چہرے پرکالا ٹیکہ لگانا، منت کے طور پر لڑکے کے کان چھیدنا، سرخ و پیلے رنگ یا کالے رنگ کا دھاگا گلے میں لٹکانا یا بازو اور کمر پرباندھنا، کوئی سکہ یا ہڈی کا ٹکڑا یا لوہے یا چاندی یاسونے کا چاقو گلے میں لٹکانا، بچہ کے سر کے چاروں طرف روپیہ کئی بار گھما کر اس کا صدقہ اور بلائیں اتارنا، بچہ کے بازو پر امام ضامن باندھنا، کمر میں پٹہ اور تلوار لٹکانا، نیاز و فاتحہ کرنا اور اس کی شیرینی تقسیم کرنا وغیرہ، یہ سب غیر شرعی اور جاہلانہ رسوم و اختراعات ہیں۔ ان سے خود بچنا اور دوسروں کو بھی روکنا چاہیے
(( تفصیل کے لیے راقم الحروف کا مضمون ''اسلام اور حقوق اطفال''دوسری قسط ماہنامہ
''میثاق'' لاہور صفحہ 73 جلد30 عدد2،1 مجریہ ماہ جنوری و فروری 1981ء ملاحظہ فرمائیں۔))

البتہ ختنہ کے موقع پراللہ کے نام پر ذبیحہ کرکے دوست و احباب اور اعزاء و اقرباء کی دعوت (جس کو طعام الغدیرہ یا طعام الختان بھی کہتے ہیں) کے اہتمام اور فقراء و مساکین میں اس کا صدقہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

جس کے یہاں بچہ ہوا ہے، اس شخص کے حق میں مستحب یہ ہے کہ وہ اپنے اس بچے کی طرف سے اگر لڑکا ہے تو دو، اور لڑکی ہے تو ایک بکری ذبح کرے، اور افضل یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن یہ جانور ذبح کیا جائے، اور اسی دن ختنہ بھی کر دیا جائے، اور اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کیا گیا ہے، یا ختنہ نہ کیا گیا ہے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اور اپنے رشتے داروں اور پڑوسیوں کو عقیقے کی دعوت دینا جائز ہے۔

📚 اسلام میں ختنہ کی مشروعیت: 📚

احادیث میں جہاں فطرتi کے خصائل کا بیان ہے، وہاں ختنہ کا ذکر بھی موجود ہے۔ اس کی مشروعیت پربہت سی احادیث دلالت کرتی ہیں جن میں سے چند یہاں پیش کی جاتی ہیں:

1۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''الفطرة خمس أو خمس من الفطرة الختان والاستحداد ونتف الإبط و تقلیم الأطفار و قص الشارب''
''فطرت پانچ چیزیں ہیں یاپانچ چیزیں فطرت کے تقاضوں سے ہیں۔ یعنی ختنہ کروانا، موئے زیر ناف صاف کرنا، بغل کے بال اکھارنا، ناخن تراشنا اور مونچھیں چھوٹی کرنا۔''
((صحیح البخاری کتاب اللباس و صحیح مسلم))

2۔عمار بن یاسرؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''من الفطرة: المضمضة والاستنشاق وقص الشارب والسواك و تقلیم الأظفار و نتف الإبط والاستحداد والاختتان'' 5
یعنی ''(یہ چیزیں) فطرت میں سے ہیں، کلی کرنا، ناک صاف کرنا، مونچھیں چھوٹی کرنا، مسواک کرنا، ناخن تراشنا، بغل کے بال اکھارنا، موئے زیر ناف صاف کرنا او رختنہ کروانا۔''
(( مسند احمد ))
منقول
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

Share:

Halat-E-Haiz me Biwi ke Sath Sex karna kaisa hai? Kya Periods ke Dauran Biwi se mil sakte hai?

Periods Ke Dauran Biwi se Mubashirat karna kaisa hai?

Kya Haiz ke Dauran Biwi se Jima karna jayez hai?


حالت حیض و نفاس میں جماع کی ممانعت

خالق کائنات نے مرد اور عورت کے اندر ایک دوسرے کی صحبت سے سکون
حاصل کرنے اور لطف اندوز ہونے کی جو خواہش رکھی ہے اس کو پورا کرنے کیلئے
شرع اسلامی نے نکاح کا طریقہ بتایا ہے اور اسی لئے نکاح حضور نبی کریم کی نہایت اہم سنت ہے.
اس کے ذریعہ انسان زنا جیسے مذموم گناہ سے بچتا
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نکاح کو نصف الایمان بھی کہا گیا ہے۔
نکاح کے ذریعہ
جہاں انسان حرام کاری سے بچتا ہے وہاں اس کو بدن کی صحت ، ذہنی سکون محبت
اور ایک دوسرے کی سچی ہمدردی اور راز داری وغیرہ مختلف قسم کے فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں۔

نکاح رخصتی کے بعد جب مرد وعورت تنہائی میں یکجا ہوتے ہیں تو مرد کے
اندر بالعموم مباشرت کا جذ بہ بڑی شدت کے ساتھ ابھرتا ہے اور اس وقت بعض
مرد بڑی بے صبری کے ساتھ عورت پر ٹوٹ پڑتے ہیں بسا اوقات بیوی بحالت
حیض ہوتی ہے تو اس درندگی سے بہت تکلیف ہوتی ہے اور وہ منع بھی کرتی ہے مگر
احکام الہی کی ناواقفیت اور اس کے نقصانات کا علم نہ ہونے کے باعث عورت کے انکار کا لحاظ نہ کرتے ہوئے صحبت کر لیتے ہیں۔
جبکہ قرآن عظیم نے صاف
الفاظ میں حالت حیض میں صحبت کرنے سے روکا ہے۔ اور حرام قرار دیا ہے:

وَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ. (سورة بقره)
ترجمہ: حالت حیض میں عورت سے الگ تھلگ رہو۔

قرآن حکیم کے اس حکم کے بارے میں جدید علم طب نے اس بات کا
انکشاف کیا ہے کہ حیض سے خارج شدہ خون میں ایک قسم کا زہریلا مادہ ہوتا ہے
جو اگر جسم کے اندر رہ جائے تو صحت کیلئے مضر ہوتا ہے۔ اس طرح حالت حیض
میں جماع سے اجتناب کرنے کے راز سے پردہ ہٹا دیا ہے۔ دوران حیض عورت
کے خاص اعضا خون حیض کے مجتمع ہونے سے سکڑے ہوئے ہوتے ہیں اور
اعصاب داخلی غدود کے سیلان کے باعث اضطراب میں ہوتے ہیں۔ اس لئے
حالت حیض میں جنسی اختلاط مضرت اور کبھی حیض کی رکاوٹ کا سبب بن جاتا ہے اور بعد میں مزید خرابیاں سوزش
رحم وغیرہ پیدا ہو جاتی ہیں اور موجودہ زمانے میں AIDS ایڈز نام کی انتہائی خطر ناک بیماری جو معرض وجود میں آئی ہے وہ بھی اس قسم کی
بدعنوانیوں کا نتیجہ ہے۔

قربان جائیے شریعت محمدی - نے ہم کو احکام الہی کے ذریعہ
ایسی مذموم حرکات سے روکا جن سے
فریقین کو طرح طرح کی بیماریاں اور امراض
خبیثہ سوزاک و آتشک وغیرہ لاحق ہو جاتے ہیں جن کا خمیازہ تمام عمر بھگتنا پڑتا
ہے۔ بلکہ اولا د پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ اولا د مجزوم یعنی کوڑھی ہو جاتی ہے .

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS