find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Baccho ke name kaise Rakhne chahiye? Kya Name badalne se Taqdeer Badal jayegi?

Bacho ke Nam kaise rakhne chahiye?
Sawal. Baccho ke nam kaise rakhne chahiye? Kya yah bat Sahi hai ke Nam Shakshiyat par Asar Andaz hote hai? Agar koi baccha Bimar rahta ho to kya uska nam tabdil karne se wah thik ho jayega, Kya Nam Badalne se Taqdeer badal jayegi?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-385"
سوال_بچوں کے نام کیسے رکھنے چاہیے؟ کیا یہ بات ٹھیک ہے کہ نام شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ اور اگر کوئی بچہ بیمار رہتا ہو تو کیا اسکا نام تبدیل کرنے سے وہ ٹھیک ہو جائے گا؟ نیز کیا نام بدلنے سے تقدیر بدل جائیگی.؟

Published Date- 22-08-2024

جواب۔۔۔!
الحمدللہ۔۔!

*بچے کی پیدائش کے بعد جو اسکے حقوق شرعی طور پر شروع ہوتے ہیں، ان میں سے ایک حق بچے کا اچھا نام رکھنے کا بھی ہے، یعنی بچے کا مسنون وقت میں نام رکھا جائے اور نام ایسا رکھا جائے کہ جس نام کا معنی اچھا ہو،یا کسی صحابی یا پیغمبر کا نام ہو، یا کسی مجاہد یا عالم کہ جس نے اسلام کے لیے قربانیاں دی ہوں یا کوئی بھی اچھے معنی والا خوبصورت نام ہو،تا کہ اس نام کی تاثیر بھی اچھی ہو، اور برے نام رکھنے سے صاحب شریعت نے منع کیا ہے، اور اگر کوئی لا علمی میں برا نام رکھ لے تو جب معلوم ہو تو اسکو اچھے نام سے بدل دے، کیونکہ برے ناموں کی تاثیر بھی بری ہوتی ہے،جسکے دلائل آگے آ رہے ہیں*  ان شاءاللہ

*بچے کی پیدائش سے ساتویں دن تک اسکا نام رکھنا مسنون عمل ہے*

📚جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كُلُّ غُلَامٍ رَهِينَةٌ بِعَقِيقَتِهِ : تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ سَابِعِهِ، وَيُحْلَقُ، وَيُسَمَّى "
ہر لڑکا اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے، ساتویں روز اس کی طرف سے ذبح کیا جائے، اس کا سر منڈایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-2838)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1522)
(سنن نسائی حدیث نمبر-4220,4221)

📚امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث دلیل ہے کہ ساتویں دن بچے کا سر مونڈنا اور نام رکھنا مستحب عمل ہے،
(المغنی لابن قدامہ،8ج/ص22)

📚امام شوکانی رحمہ اللہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ،
حدیث میں وارد لفظ "یسمی" ساتویں روز بچے کا نام تجویز کرنے کے مستحب ہونے کی دلیل ہے،
(نیل الاوطار،ج 5/ص194 )

*لیکن ضروری نہیں کہ ساتویں روز رکھا جائے،اگر کوئی پہلے دن نام رکھ لے تو بھی کوئی حرج نہیں،*

📚جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
وُلِدَ لِي اللَّيْلَةَ غُلَامٌ، فَسَمَّيْتُهُ بِاسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ،
میرے ہاں آج رات ایک بچہ پیدا ہوا ہے ۔ میں نے اس کا نام اپنے والد کے نام پر ” ابراہیم “ رکھا ہے،
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2315)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3126)

📚ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے یہاں ایک لڑکا پیدا ہوا تو میں اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام ابراہیم رکھا اور کھجور کو اپنے دندان مبارک سے نرم کر کے اسے چٹایا اور اس کے لیے برکت کی دعا کی پھر مجھے دے دیا۔ یہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے سب سے بڑے لڑکے تھے،
(صحیح بخاری حدیث نمبر-5467)

📚امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر باب باندھا ہے کہ:
بَابُ تَسْمِيَةِ الْمَوْلُودِ غَدَاةَ يُولَدُ، لِمَنْ لَمْ يَعُقَّ عَنْهُ، وَتَحْنِيكِهِ:
باب: اگر بچے کے عقیقہ کا ارادہ نہ ہو تو پیدائش کے دن ہی اس کا نام رکھنا اور اس کی تحنیک کرنا جائز ہے۔

*لہذا ان دلائل سے ثابت ہوا کہ بچے کی پیدائش والے دن اور پیدائش کے ساتویں روز نام رکھنا مسنون ہے*

📚 چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ،
ألسنة أن يسمى المولود أليوم السابع من ولادته أو يوم الولادة،
نومولود کا ولادت کے ساتویں دن یا ولادت کے دن نام رکھنا مسنون ہے،
(شرح النووی، ج14/ص165)

📚ابن علان رحمہ اللہ " المواہب الدینیۃ" میں لکھتے ہیں کہ،
ان احادیث کو اس معنی پر مجہول کیا جائے گا کہ ولادت کے ساتویں دن سے نام رکھنے میں تاخیر مشروع نہیں، (یعنی ساتویں روز ہی نام رکھ لینا چاہیے) اسکا یہ مطلب یہ نہیں کہ ساتویں روز ہی نام رکھا جائے بلکہ پیدائش سے لیکر ساتویں روز تک نام تجویز کرنا مشروع ہے،
(الفتوحات الربانیه،ج6/ص97)

*ناموں کا انتخاب*
بچوں کے نام رکھتے وقت آپس میں مشورہ کر لیں، والدہ، والد اور دادا دادی اور نانا نانی وغیرہ سب سے مشورہ کر کے جس پر سب متفق ہو جائیں وہ نام رکھا جائے اور  ان ناموں کو ترجیح دی جائے جو اللہ کے پسندیدہ نام ہیں یا شرعاً مستحب ہیں، اور ایسے ناموں سے پرہیز کرنا چاہیے جو شرعاً حرام یا مکروہ ہیں، جنکا معنی اچھا نہیں یا جنکی نسبت یہود و نصارٰی کی طرف ہوتی ہو وغیرہ، ایسے نام نہیں رکھنے چاہیے*

*اللہ کے پسندیدہ افضل نام*

📚نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:‏‏‏‏
إِنَّ أَحَبَّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ عَبْدُ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ”
اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں“
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2132)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-2834)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر4949)

📚عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں،
اس حدیث میں یہ دو نام( عبداللہ اور عبدالرحمن ) رکھنے کی ترغیب ہے اور یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دو نام تمام ناموں سے افضل ہیں،
(تحفة الاحوذى، ج8/ص99٫100)
(عون المعبود ،ج13/ص199)

📚حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ،
علماء کا ان ناموں کے مستحسن ہونے پر اتفاق ہے جو نام اللہ کی طرف منسوب ہیں، جیسے عبداللہ اور عبدالرحمن، اور ان جیسے دوسرے نام بھی، (جن میں بندے کی نسبت اللہ کی طرف ہو)
(مراتب الاجماع،ص154)

📚سعید بن مسیب رحمہ اللہ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ،
أحب الأسماء إليه أسماء الأنبياء
اللہ کے ہاں پسندیدہ ترین نام انبیاء کے نام ہیں،
(مصنف ابن شیبہ،حدیث نمبر-26430)

*یہ قول سندا تو صحیح ہے مگر اوپر موجود صحیح حدیث کے مقابلے میں یہ قول کوئی حیثیت نہیں رکھتا،لہذا افضل نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہی ہیں،*

📚حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ "فتح الباری" میں اسکی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں،
ان دو ناموں کے ساتھ انکے ہم مثل نام مثلاً عبدالمالک، عبد الصمد، عبد الرحیم وغیرہ بھی شامل ہیں ان ناموں کا اللہ کے پسندیدہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں اللہ کے لازم وصف معبود اور بندے کے لازم وصف یعنی عبودیت کو شامل ہے۔۔۔۔انہتی۔۔! انکے علاوہ دیگر علماء فرماتے ہیں کہ ان دو ناموں کی فضیلت اس لیے ہے کہ قرآن مجید میں عبد کی نسبت بھی اللہ تعالیٰ کے ان دو ناموں کی طرف ہی ہے۔۔!

*یاد رہے عبد کی نسبت کر کے نام رکھنے کی فضیلت میں کچھ احادیث بھی نقل کی گئیں ہیں مگر ان میں سے کوئی روایت بھی صحیح سند سے ثابت نہیں،*

📚جیسا کہ ابو ثقفی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
إذا سميتم فعبدوا،
جب تم نام رکھو تو اس میں عبد کا لفظ شامل کرو،
(معجم طبرانی کبیر، (٢٠/١٧٩) (٣٨٣)
(أبو نعيم في «معرفة الصحابة» (٦٨٠١)

🚫(الهيثمي مجمع الزوائد ٨/٥٣ • فيه أبو أمية بن يعلى وهو ضعيف جدا‏‏ )
(الألباني السلسلة الضعيفة ٦٩٩٠ • ضعيف جدا •)

📚ایک روایت میں آتا ہے کہ
ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
أحَبُّ الأسماءِ إلى اللهِ: ما تُعُبِّدَ،
اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ نام وہ ہیں جن میں عبد کے الفاظ ہوں،
(الطبراني (١٠/٨٩) (٩٩٩٢)
🚫(الألباني ضعيف الجامع ١٥٦ • موضوع)
(ابن حجر العسقلاني فتح الباري لابن حجر ١٠/٥٨٦ • إسناده ضعيف)

📚ایک اور روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
أحبُّ الأسماءِ إلى اللهِ ما عُبِّدَ وما حُمِّدَ
اللہ تعالیٰ کے انتہائی پسندیدہ نام وہ ہیں جنکے اندر عبد اور حمد کے الفاظ آئیں،

🚫یہ روائیت بغیر سند کے ہے اسکی کوئی اصل نہیں
(الألبانی السلسلة الضعيفة ٤١١ • لا أصل له)

*اگرچہ یہ روایات ضعیف ہیں لیکن اوپر بیان کردہ صحیح احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی طرف عبدیت کی نسبت کر کے نام رکھنا افضل ہے،*

*انبیاء و صالحین کے نام پر نام رکھنا*

اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کی طرف عبدیت کی نسبت کر کے نام رکھنا تو افضل و مسنون ہے ہی ہے اسکے ساتھ ساتھ انبیاء کے نام پر نام رکھنا بھی مسنون و مستحب ہے،

احادیث ملاحظہ فرمائیں،

📚جیسا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،
وُلِدَ لِي اللَّيْلَةَ غُلَامٌ، فَسَمَّيْتُهُ بِاسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ،
میرے ہاں آج رات ایک بچہ پیدا ہوا ہے ۔ میں نے اس کا نام اپنے والد کے نام پر ” ابراہیم “ رکھا ہے،
(صحیح مسلم حدیث نمبر-2315)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3126)

📚عبدالمحسن العباد سنن ابو داؤد کی شرح میں لکھتے ہیں یہ حدیث دلیل ہے کہ انبیاء کے نام پر نام رکھنا جائز ہے،
(شرح سنن ابو داؤد 16ج/ص444)

📚یوسف بن سلام بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرا نام یوسف رکھا اور میرے سر پر ہاتھ پھیرا،
(مسند احمد حدیث نمبر- 16404)
• إسناده صحيح

*لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں بچوں کا نام رکھتے ہوئے ٹی وی اداکاروں کو دیکھا جاتا ہے، جسکا جو پسندیدہ ایکٹر ہے اسکا نام اسے پسند ہوتا ، وہ بھلے ہندوؤں کا ہو یا عیسائیوں کا ، اسکا معنی اچھا ہو یا نا ہو اس سے انکو کوئی فرق نہیں پڑتا، اسی طرح ہمارے ہاں بچوں کے نام رکھنے کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں*

مثلاً

(1) اگر بچہ شرارتی ہو تو کہا جاتا ہے کہ نام بدل لو اس کی قسمت بدل جائے گی !

(2) ایسے ہی بچہ بیمار رہتا ہو تو اسے نام بدلنے کو کہا جاتا ہے تاکہ ٹھیک ہوجائے۔

(3) ایک بڑی بھیانک غلط فہمی یہ ہے کہ اگر گھر میں ایک بچہ مرجائے تو اس کا نام دوسرے بچے کو رکھنا منحوس سمجھاجاتا ہے بلکہ یہ سوچا جاتا ہے کہ اگر یہ نام رکھ لیا گیا تو دوسرا بچہ بھی مرجائے گا۔

(4) بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کے اونچے اونچے لوگوں کا نام رکھنے سے بچہ انہیں جیسا بلند ہوگا۔

📒ان خیالات کے پس منظر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اچھے نام واقعی قیمتی جوہر ہیں، اس لئے اسلام میں نام رکھنے کے طریقے ہیں۔
اسلام میں سب سے بہتر نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔

٭ان کے علاوہ اللہ کی صفتوں کی طرف عبدیت کا انتساب کرکے نام رکھنا مثلا عبدالرحیم، عبدالجبار وغیرہ ۔ 
٭اسی طرح نبیوں، رسولوں اور ان کی اولاد کے نام پہ ، صحابہ کرام اور ان کی اولاد کے نام پہ نام رکھنا مستحب ہے!!
اور ان ناموں سے بچا جائے جن میں شرک ، معصیت، کراہت اورخرابی کاکوئی پہلو نکلتا ہو۔

*اب میں یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ ناموں سے فرق پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب صلح حدیبیہ کے موقع پہ سہل بن عمرو بات چیت کے لئے تو آپ نے فرمایاکہ معاملہ سہل ہوگا۔*
*اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ نے سہل کے نام سے نیک فالی لی ہے*

📚سعید بن مسیب بیان کرتے ہیں کہ ان کے دادا حزن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میرا نام حزن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سہل ہو، انہوں نے کہا کہ میں تو اپنے باپ کا رکھا ہوا نام نہیں بدلوں گا۔ سعید بن مسیب نے کہا اس کے بعد سے اب تک ہمارے خاندان میں سختی اور مصیبت ہی رہی۔ («حزونة» سے صعوبت مراد ہے)
(صحیح بخاری حدیث نمبر-6193)

اس کے علاوہ دیگر احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ نے بعض ناموں کو ناپسند فرمایا اور بعض ناموں کو بدل دیا۔
لہذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ناموں میں تاثیر پائی جاتی ہے مگر یہ تاثیر انسان کی صحت/ شخصیت اور اس کے کردار کو نہیں بدل سکتی ۔زیادہ سے زیادہ اچھے ناموں سے اچھا تصور کرسکتے ہیں ۔ اگر کچھ تاثیر ظاہر بھی ہوئی تو یہ اللہ کی قدرت سے ہے ،
احادیث کے مجموعہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں نیک فالی ہے لیکن بدفالی نہیں ہے ۔

مثلاً جب نبی علیہ السلام کسی جگہ سفر پر روانہ ہوتے تو راستوں کا نام پوچھتے ، جس راستے کا نام برا ہوتا ،اس کے متعلق کچھ نہیں فرماتے اور جس راستے کا نام اچھا ہوتا اس پر چل پڑتے ۔کہ اللہ تعالیٰ ہم کو اس راستہ میں خیر وبرکت دیں گے ان شاءاللہ ۔

📚ایک غزوہ سے واپسی پر آپ دو پہاڑوں کے درمیان سے گزر رہے تھے۔ آپ نے دونوں پہاڑوں کے نام دریافت کیے پتہ چلا کہ ایک کا نام ”فاضح“ اور دوسرے کا نام ”مخز“ (ذلیل و رسوا کرنے والا) ہے۔، آپ صلى الله عليه وسلم نے وہ راستہ فوراً بدل دیا۔
(زاد المعاد ۲/۵، سیرت ابن ہشام2-253)

📚رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اپنی دودھاری اونٹنی کے دودھ نکالنے کے لیے چند لوگوں کو بلایا، ایک ”مرّہ“ (کڑواہٹ) نامی آدمی اس کے لیے کھڑاہوا، آپ ﷺنے اس کو بٹھادیا، دوسرا شخص کھڑاہوا،اس کا نام بھی حرب (جنگ وجدال) تھا، آپ ﷺنے اس کو بھی کہا بیٹھ جاؤ۔ تیسرا شخص کھڑاہوا،جس کا نام تھا ’یعیش“ (زندگی) آپ نے اس کو دوہنے کی اجازت دی۔
( زاد المعاد ۲/۴، موطا امام مالک ۲/۷۴۱، الادب المفرد حدیث نمبر ۸۳۵)

📚صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں سہیل بن عمرو آئے۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے محض ان کے نام سے استدلال کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ فرمایا کہ ”ان شاء اللہ مشرکین مکہ کے ساتھ جاری ہماری مصالحتی کوشش بھی ”سہل“ رہے گی اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا“(زاد المعاد۲/۴)

📒مشہور اسلامی سائیٹ ۔۔اسلام ویب ‘‘
پر ایک سوال کے جواب میں ایک مفصل فتوی دیا گیا ہے ؛
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :
خلاصة الفتوى:
إن تأثير الاسم على صاحبه قد أكدته الدراسات النفسية، ويدل له تحديد النبي -صلى الله عليه وسلم- لخير الأسماء، وتغييره لبعضها وتفاؤله بالبعض.
علم النفس کے مطالعہ اور تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ناموں کا اثر نام والے پر ہوتا ہے ۔۔ اور اس بات پر دلیل ہے رسول اللہ ﷺ اچھے ناموں کے اختیار کرنا ،اور کچھ ناموں کو اچھے ناموں سے بدل دینے ،اور بعض ناموں سے اچھی صورت حال اخذ کرنا۔۔

تأثير الأسماء في نفوس أصحابها
الأربعاء 21 محرم 1429 - 30-1-2008
(رقم الفتوى: 104126التصنيف: أحكام المولود)

📒علامہ شمس الدين ابن قيم الجوزیہ
(المتوفى: 751هـ)
زاد المعاد میں لکھتے ہیں :
[اخْتِيَارُ الْأَسْمَاءِ الْحَسَنَةِ لِأَنَّ الْأَسْمَاءَ قَوَالِبُ لِلْمَعَانِي]
فَصْلٌ فِي فِقْهِ هَذَا الْبَابِ
لَمَّا كَانَتِ الْأَسْمَاءُ قَوَالِبَ لِلْمَعَانِي، وَدَالَّةً عَلَيْهَا، اقْتَضَتِ الْحِكْمَةُ أَنْ يَكُونَ بَيْنَهَا وَبَيْنَهَا ارْتِبَاطٌ وَتَنَاسُبٌ، وَأَنْ لَا يَكُونَ الْمَعْنَى مَعَهَا بِمَنْزِلَةِ الْأَجْنَبِيِّ الْمَحْضِ الَّذِي لَا تَعَلُّقَ لَهُ بِهَا، فَإِنَّ حِكْمَةَ الْحَكِيمِ تَأْبَى ذَلِكَ، وَالْوَاقِعُ يَشْهَدُ بِخِلَافِهِ، بَلْ لِلْأَسْمَاءِ تَأْثِيرٌ فِي الْمُسَمَّيَاتِ، وَلِلْمُسَمَّيَاتِ تَأَثُّرٌ عَنْ أَسْمَائِهَا فِي الْحُسْنِ وَالْقُبْحِ، وَالْخِفَّةِ وَالثِّقَلِ، وَاللَّطَافَةِ وَالْكَثَافَةِ كَمَا قِيلَ:
وَقَلَّمَا أَبْصَرَتْ عَيْنَاكَ ذَا لَقَبٍ ... إِلَّا وَمَعْنَاهُ إِنْ فَكَّرْتَ فِي لَقَبِهْ
( «وَكَانَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَحِبُّ الِاسْمَ الْحَسَنِ، وَأَمَرَ إِذَا أَبْرَدُوا إِلَيْهِ بَرِيدًا أَنْ يَكُونَ حَسَنَ الِاسْمِ حَسَنَ الْوَجْهِ» )
وَكَانَ يَأْخُذُ الْمَعَانِيَ مِنْ أَسْمَائِهَا فِي الْمَنَامِ وَالْيَقَظَةِ كَمَا ( «رَأَى أَنَّهُ وَأَصْحَابَهُ فِي دَارِ عقبة بن رافع، فَأُتُوا بِرُطَبٍ مِنْ رُطَبِ ابْنِ طَابَ، فَأَوَّلَهُ بِأَنَّ لَهُمُ الرِّفْعَةَ فِي الدُّنْيَا، وَالْعَاقِبَةَ فِي الْآخِرَةِ، وَأَنَّ الدِّينَ الَّذِي قَدِ اخْتَارَهُ اللَّهُ لَهُمْ قَدْ أَرْطَبَ وَطَابَ، وَتَأَوَّلَ سُهُولَةَ أَمْرِهِمْ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ مِنْ مَجِيءِ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو إِلَيْهِ» ) .
اچھے ،پیارے نام منتخب کرنا چاہئیے کیونکہ نام دراصل معانی کے قالب ہوتے ہیں ؛
اس باب کی فقہ یہ ہے کہ :
" جب نام معانى كے قالب اور اس پر دلالت كرنے والے ہوتے ہيں ؛
تو حكمت كا تقاضہ ہے كہ نام اور معانى كے درميان ارتباط اور مناسبت ہو، اور اس كے ساتھ معنى اس طرح محض اجنبى نہ ہو كہ اس كے ساتھ تعلق اور مناسبت ہى نہ ركھے؛ كيونكہ حكمت والے حكيم كى حكمت اور واقع اس كے خلاف گواہى ديتا ہے.
بلكہ ناموں كى مسميات پر ضرور تاثير ہوتى ہے، اور مسميات يعنى جن كا نام ركھا گيا ہو ان پر اچھے اور برے، اور ہلكے اور بھارى، اور لطيف و كثيف ناموں كى تاثير ضرور ہوتى ہے، جيسا كہ كہا جاتا ہے:
آپ كى آنكھوں نے لقب والا ايسا بہت ہى كم ديكھا ہے كہ اگر اسكے لقب ميں آپ غور كريں تو كوئى معنى ضرور پايا جاتا ہے.اسی لئے نبی کریم ﷺ کو یہ بات پسند تھی جب کوئی سفیر اور پیغام رساں انکے پاس بھیجا جائے ،تو اچھے نام ،اور خوبصورت چہرے والا ہونا چاہیئے ؛
آپ نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں ناموں سے معانی کو اخذ کرتے تھے
جیسا آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ اور آپ صحابہ عقبہ بن رافع کے گھر میں ہیں
اور انکے پاس ابن طاب کی تر کھجوریں پیش کی گئیں ،تو آپ نے اس کی یہ تعبیر و تاویل فرمائی ،کہ دنیا میں کامیابی و سرخ روئی ۔اور آخرت کی فوز و فلاح ملے گی؛
اور حدیبیہ کے دن ۔سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو ۔کے آنے سے آپ نے اخذ فرمایا کہ آسانی اور سہولت ملے گی ۔۔..!!!
(( ديكھيں: زاد المعاد ( 2 / 336 )

📒 اسی طرح سعودی فتاویٰ ویبسائٹ islamqa پر  سوال کیا گیا کہ..!

السؤال
هل تغيير الاسم يغير القدر ؟.
کیا نام تبدیل کرنے سے تقدیر بدل جاتی ہے.؟

الجواب
الحمد لله.
تغيير الأسماء لا يغير القدر ، لكن قد يكون له تأثير في الشخص وحياته .
نام بدلنے سے تقدیر نہیں بدلتی لیکن اسکا اثر ضرور ہوتا ہے شخصیت اور اسکی زندگی پر۔۔!

(( آگے انہوں نے وہی دلائل دیے جو ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں.!!))

والله اعلم .
(https://islamqa.info/ar/answers/14626)
(تقدیر کے بارے مزید تفصیل کیلیے دیکھیے سلسلہ نمبر ـ322)

*عام روٹین میں بھی ہم دیکھیں تو نام سے بھی آدمی کی شان اور شخصیت کا اظہار ہوتا ہے اور نفسیاتی طور پر نام کا بڑا اثر پڑتا ہے آپ کسی خاتون کو کسی بھدے اور برے نام سے خطاب کیجیئے اور پھر دیکھیئے اس خاتون کی ناگواری اور غم و غصے کا کیا حال ہوتا ہے ۔۔۔۔!!*
آپ نے اسے اس کو برے نام سے پکار کے اس کے دل میں اپنے لئے برے جذبات ابھار دیئے ۔ اسکے برخلاف کسی خاتون کو کسی اچھے نام سے پکاریئے اور پھر دیکھیئے جواب میں وہ خاتون کس طرح شکر ومحبت کے جذبات پیش کرتی ہے اپنا اچھا نام سن کر وہ یہ محسوس کرتی ہے کہ پکارنے والی نے میری عزت کی اور برا خطاب سن کر یہ محسوس کرتی ہے کہ پکارنے والی نے میری توہین کی ،یہ اس لئے کہ الفاظ کے معنی اور مفہوم کا آدمی کے جذبات واحساسات پر اثر پڑتا ہے ۔
فطری طور پر ماں باپ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ لوگ ان کے بچے کو اچھے نام سے پکاریں جس سے بچہ خوش ہو یہ جب ہی ہوگا جب آپ اپنے پیارے بچے کا اچھا سا نام تجویز کریں
آپ کے پیارے بچے کا آپ پر حق ہے کہ آپ اس کا اچھا اور پاکیزہ نام رکھیں ۔ نبی ﷺ نے اپنی امت کو ہدایت دی ہے کہ اچھے اور پاکیزہ نام رکھو صحابی اور صحابیات اپنے بچے کا نام رکھنے کے لئے آپ ﷺ سے درخواست کرتے تو آپﷺ
نہایت پاکیزہ اور با مقصد نام تجویز فرماتے ،آپ ﷺ کسی سے نام پوچھتے اور وہ اپنا کوئی بے معنی اور ناپسندیدہ نام بتاتا تو آپﷺ ناپسند فرماتے اور اپنا کام اس کے حوالے نہ کرتے ، جب کسی بستی میں داخل ہوتے تو اس کا نام معلوم فرماتے پسند آتا تو بہت مسرور ہو تے اکثر ایسا بھی ہوتا کہ آپﷺ نا پسندیدہ نام کو بدل دیتے برا نام کسی چیز کے لئے گوارا نہ کرتے خواہ وہ کوئی زمین ہو یا گھاٹی ، کوئی بستی ہو یا خود انسان ،ایک گھاٹی کو لوگ شعب ضالہ (گمراہی کی گھاٹی) کہتے تھے آپﷺ نے اس کا نام شعب ہدیٰ رکھ دیا۔

اچھا نام رکھنے میں ہدایت وحکمت بھی ہے نبیﷺ نے فرمایا تم لوگ قیامت کے روز اپنے اور اپنے باپوں کے ناموں سے پکارے جاؤگے لہذا اچھے نام رکھا کرو۔
پسندیدہ نام وہ ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول نے پسندیدہ بتایا ہو مثلاً اللہ کے ذاتی صفاتی نام کے ساتھ عبد یا امتہ کا لفظ ملا کر ترکیب کیا گیا ہو جیسے عبداللہ عبدالرحمٰن عبدالغفار امتہ اللہ امتہ الرحمٰن وغیرہ یا ایسا نام ہو جس سے اللہ کی تعریف کا اظہار ہو ۔
یا کسی پیغمبر کے نام پر ہو جیسے یعقوب یوسف ادریس ابراہیم اسمٰعیل احمد وغیرہ
یا کسی مجاہد اور خادم دین کے نام پر ہو جس نے دین کے لئے قربانیاں دی ہوں جیسے عمر فاروق خالد ہاجرہ مریم ام سلمیٰ سمیہّ وغیرہ
یا آپ کے دینی جذبات نیک خواہشات اور پاکیزہ آرزؤں کا آئینہ دار ہو مثلاً ملت کی موجودہ پستی دیکھ کر آپ اپنے ننھے کا نام عمر بن عبدالعزیز یا صلاح الدین وغیرہ رکھیں اور یہ تمنا ہو کہ آپ کا ننھا مجاہد ملت کی ہچکولے لیتی ناؤ کو پار لگائے گا ۔
کچھ نام ایسے بھی ہیں جن سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے یعنی ایسا نام جو اسلامی عقائد ونظریات کے خلاف ہو جس سے عقیدہ توحید مجروح ہو جیسے نبی بخش عبدالرسول وغیرہ نہ ہی کوئی ایسا نام رکھیں جس سے فخروغرور اور بڑائی کا اظہار ہوتا ہو یا وہ غیر اسلامی ہو یا اللہ کی رحمت سے دور کرنے والا ہو جیسے ملک الاملاک یا شہنشاہ جیسے نام بھی بدترین ناموں میں شمارکئے جاتے ہیں ۔

*لہٰذا شریعت نے اولاد کے اچھے نام رکھنے کا حکم دیا  ہے، نام اچھا ہونے کے باوجود اگر بچہ بیمار ہو  یا زیادہ روئے تو یہ اللہ کی طرف سے ہے، اس کا  نام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا؛ لہٰذا نام کے اثر  کا انسان کی صحت پر اثر انداز ہونے کا یا نام کے بھاری ہونے کا عقیدہ  رکھنا شرعاً درست نہیں ہے ، البتہ نام کا معنی درست نہ ہو تو اس کو تبدیل کرنا چاہیے*

*اللہ رب العزت ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے بچوں کا نام تجویز کرتے وقت اللہ اور اسکے رسولﷺ کی خوشنودی کا خیال رکھیں آمین*

مآخذ -
محدث فورم/ نسرین فاطمہ و شیخ اسحاق سلفی و شیخ مقبول سلفی/ الاسلام سوال وجواب/ الاسلام ویب/ دار الافتاء دیوبند

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📒سوال_ کیا اکیلا محمد نام رکھنا جائز ہے؟ کئی لوگ کہتے ہیں کہ اکیلا محمد نام نہیں رکھنا چاہیے؟ اور کیا محمد نام رکھنے کی کوئی فضیلت و برکت صحیح احادیث سے ثابت ہے؟ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ محمد نام والے سب لوگوں کو بخش دیا جائے گا..؟
دیکھیے
(( “سلسلہ سوال و جواب نمبر -307”))

📒سوال_قیامت کے دن لوگوں کو انکے باپ کے نام سے پکارا جائے گا یا ماں کے نام سے؟
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ماں کے نام سے پکارا جائے گا اسکی حقیقت کیا یے؟
((دیکھیے“سلسلہ سوال و جواب نمبر-292″))

📒سوال : تقدیر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ اگر کسی کی تقدیر ہی میں برائی لکھی ہے تو پھر اس برائی کے کرنے پر عذاب اور گناہ کیوں ملے گا ؟ حالانکہ وہ تو مجبور تھا۔؟ نیز کیا دعاؤں سے تقدیر بدل جاتی ہے؟
((دیکھیے سلسلہ نمبر ـ322))

        ..ــــــــ&ـــــــــــــ

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Kya Kisi Musalman ke liye Qawwali Sunna Jayez hai? Islam me Qawwali ya Maushiqi sunna kaisa hai?

Kya Qawwali Sunana Jayez hai kyunke Hamare Buzurgo se Sunna Sabit hai?

کیا قوّالی سننا جائز ہے جبکہ بعض بزرگوں سے سننا ثابت ہے؟

س… قوّالی کے جواز یا عدمِ جواز کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ اور راگ کا سننا شرعاً کیسا ہے؟

ج… راگ کا سننا شرعاً حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، شریعت کا مسئلہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو وہ ہمارے لئے دِین ہے، اگر کسی بزرگ کے بارے میں اس کے خلاف منقول ہو، اوّل تو ہم نقل کو غلط سمجھیں گے، اور اگر نقل صحیح ہو تو اس بزرگ کے فعل کی کوئی تأویل کی جائے گی، اور قوّالی کی موجودہ صورت قطعاً خلافِ شریعت اور حرام ہے، اور بزرگوں کی طرف اس کی نسبت بالکل غلط اور جھوٹ ہے۔

آپکے مسائل اور انکا حل جلد 7.

Share:

Socialism and Islam. Islamic Socialism se kya Murad hai aur Islam me is ki Haisiyat.

Islamic Socialism se kya Murad hai aur iski Sharai Haisiyat.
Sawal. Islamic Socialism kya hai? Kya Maujuda Halat me Ise Qubool karna Jayez hai?
Kya Islamic Repubilc, Islamic Bank, Islamic Nations ya Islamic Socialism Deen-E-Islam me jayez hai?

اسلامی سوشلزم سے کیا مراد ہے اور اس کی شرعی حیثیت.

سوال: اسلامی سوشلزم کیا ہے؟ اور کیا موجودہ حالات میں اس کو قبول کرنا ہمارے لئے درست ہے؟

قاضی نذیر احمد سونڈاضلع ٹھٹہ

جواب: کچھ عرصے سے ہمارے معاشرے میں یہ وبا چل نکلی ہے مغرب سے آئے ہوئے ہر غلط یا صحیح نظریئے کے ساتھ صرف "اسلامی" کا نام لگا کر اسے بزعم خود "مشرف بہ اسلام" کر لیا جاتا ہے، پھر اس کی تبلیغ شروع کر دی جا تی ہے اسلامی سوشلزم کا نعرہ بھی ایسا ہی ہے۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور سوشلزم زندگی کے دو بالکل مختلف نظام ہیں جن میں مطابقت ممکن نہیں، سوشلزم درحقیقت سرمایہ دارانہ نظام کی ہلاکت آفرینیوں کا ایک جذباتی رد عمل ہے جو بجائے خود اتنا ہی مضر اور خطرناک ہے جتنا سرمایہ دارانہ نظام، سوشلزم کی بنیاد انفرادی ملکیت کے انکار پر ہے، سرمایہ دارانہ نظام میں غریبوں کے خون چوسنے کا جو ظالمانہ کھیل کھیلا گیا، اس سے متاثر ہو کر سوشلزم کے علمبرداروں نے انفرادی ملکیت کا سرے سے انکار کر دیا، حالانکہ اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہو سکا کہ چھوٹے چھوٹے سرمایہ دار ختم ہو گئے، ان سب کی جگہ ایک بڑا سرمایہ دار وجود میں آگیا، جو پورے استبداد کے ساتھ دولت کے ایک بڑے ذخیرے سے کھیلتا ہے، رہا بیچارہ مزدور سو وہ سوشلزم میں بھی اتنا ہی بے بس ہے جتنا سرمایہ داری میں تھا۔
اسلامی نقطۂ نظر سے سرمایہ داری کی خرابیوں کا علاج انفرادی ملکیت کا خاتمہ نہیں ہے، بلکہ انفرادی ملکیت کی خود غرضی اور بے لگامی کو ختم کرنا ہے، چنانچہ اسلام میں انفرادی ملکیت کو تسلیم کیا گیا ہے، لیکن سود کی حرمت اور زکوٰۃ، صدقات، نفقات، کفارات، عشر و خراج اور وراثت وغیرہ کے احکام کے ذریعہ اس نے اس ملکیت کو حدود کا پابند بنا دیا ہے۔
اس سے واضح ہو گیا کہ سوشلزم کی بنیاد جس نظرئیے پر قائم ہے، اسلام اس بنیاد ہی کو تسلیم نہیں کرتا، اس لئے دونوں میں نظریاتی مصالحت کا کوئی امکان نہیں، اسلام سوشلزم نہیں بن سکتا اور سوشلزم اسلام نہیں کہلا سکتا، لہذا "اسلامی سوشلزم " کا نعرہ ایک مہمل نعرہ ہے جو دونوں معاشی نظاموں یا کم از کم اسلامی نظام معیشت سے نا واقفیت پر مبنی ہے۔ پاکستان میں ہماری ضرورت "اسلام" ہے "سوشلزم" نہیں۔

واللہ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
۲۰ شوال ۱۳۸۷ھ(۱)

(۱) یہ فتویٰ ماہنامہ البلاغ کے شمارہ ذیقعدہ ۱۳۸۷ھ سے لیا گیا ہے۔ (مرتب)

Share:

Qurbani ka Mazak banane wale, Show-off karne wale kya Apne bete Zibah kar sakte hai?

Kya koi Musalman Apne bete ko Zibah kar payega.

Aaj Jis tarah se Sunnat-E-Ibrahimi ka mazak kiya ja raha hai, Showoff ho raha hai, Dikhawa kiya ja raha hai..... Kya kisi ko apne ki Qurbani deni Padegi to de payega?




Qurbani ka Ghost kitne dino tak rakhna chahiye? 

کیا تم اپنے بیٹے ذبح کرسکتے ہو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️: مسز انصاری

یہ ہمارے نہایت مہربان اور رحم کرنے والے رب کا ہم پر احسان عظیم ہے کہ اس نے ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے کی قربانی کرنے کے واقعہ کی یاد میں ہمیں جانور ذبح کرنے کا حکم دیا ، اگر تو اللہ تعالیٰ خلیل اللہ کے اس عظیم واقعے کی یاد میں قربانی کی سنت کے لیے جانور کے بجائے بیٹے ہی ذبح کرنے کا حکم دے دیتا تو بھلا بتاؤ کہ تم ابراہیم خلیل اللہ جیسا وہ جگر کہاں سے لاتے کہ اپنے ہاتھوں سے بیٹوں کو ذبح کرتے ، پھر بھی تم اس عظیم سنت کے ساتھ مذاق کرتے ہو اور اسے ریاکاری کی نظر کردیتے ہو ......

قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ .....{الملک آية ۲۳}
تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو
۔

Share:

Kya Democracy aur Khilafat dono ek hai? Maujuda Democracy aur Islamic Khilafat.

Kya Democracy Aur khilafat dono ek hai?

Kya Umar Raziallahu anahu ke daur me aaj ke jaisa hi "Secular" Nam ki hukumat thi?
America aur Europe Sari duniya par Democracy kyo thopna chahate hai?
Agar Khilafat aur Maujuda Democracy ek hai to Europe kyu Khilafat ke khilaf hamesha Military opration Karta hai lakho Musalmano ka Qatl-E-Aam karta hai koi Human Right nahi bolta fir Democracy ki bat karta hai?
Palestinian ke Huqooq ki bat kyo nahi karta hai jaha 35000 se Jyada Filistini Shaheed ho gaye Israeli bombari me?
Uspar koi Secular, Human Right wa
tch ya European Products  feminists nahi Bol rahe hai?

مسلمانوں کے ذہنوں سے "نظامِ خلافت" کا لفظ تک ختم کردینے کیلئے "جمہوریت اور آمریت" کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور اس قدر استعمال کی گئی ہے تاکہ مسلمان جمہوریت کے علاوہ صرف آمریت کے نام سے مانوس ہوں اور پھر آمریت کو تو بہت ہی بدنام کیا گیا ہے۔ نتیجتاً مسلمان جمہوریت کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ جمہوریت کے مقابلے میں خلافت کا نام ذہن میں آنا چاہیے۔

الحمدللّٰہ میں مسلمان ہوں اور میرا سیاسی نظام جمہوریت نہیں بلکہ خلافت ہے، معاشی نظام سُودی اور IMF والا نہیں بلکہ سُود سے پاک اسلامی معاشی نظام ہے، میرا معاشرتی نظام مغربی نہیں بلکہ اسلامی تہذیب ہے، میرا آئین اور منشور انسانوں کا لکھا دستور اور اقوامِ متحدہ پر مبنی نہیں بلکہ قرآن و سنت و صحابہؓ کی بنیاد پر قائم ہے۔

اسلامی ادوارِ حکومت بالخصوص خلافتِ راشدہ کے حوالے دے کر کہا جاتا ہے کہ اُس دور میں معاشرتی مساوات، باہمی مشاورت، غیر مسلموں کے ساتھ مذہبی رواداری کا سلوک وغیرہ وغیرہ جیسے اوصاف موجود تھے اور یہی چیزیں جمہوریت میں پائی جاتی ہیں تو یوں جمہوریت اسلامی ہی ہے۔

سوال ہے کہ:

کیا اُن اسلامی ادوارِ حکومت بالخصوص خلافتِ راشدہ میں لاکھوں مربع میل پر پھیلی اسلامی حکومت میں انتخابات ہوتے تھے؟
سارے عوام، مرد و عورت، عالم و جاہل، متقی و فاسق و فاجر حصہ لیتے تھے؟
اور کیا ہر پانچ سال بعد انتخابات ہوتے تھے؟
کیا حکمرانِ وقت نے قرآن و سنت کے بجائے اپنی قائم کردہ کمیٹی کا بنایا ہوا آئین نافذ کر رکھا تھا؟
کیا مرتدین کے خلاف قتال نہیں کیا گیا تھا؟
کیا حکومت غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں میں خود شرکت کرتی تھی یا سرکاری سطح پر ان کے تہوار مناتی تھی؟
کیا قرآنی سزاؤں (حدود و قصاص) کو منسوخ کرکے اپنی تجاویز کردہ سزائیں جاری کی جاتی تھیں؟

جمہوریت کو زبردستی اسلامی کہنے، ماننے اور سادہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کے شر سے اللّٰه پاک ہمیں محفوظ رکھیں، آمین!

یورپی و امریکی کفار یہ بَکتے رہتے ہیں کہ:

ہم جمہوریت کے نظام کو پوری دنیا میں قائم کریں گیں؛
پاکستان میں جب تک جمہوری نظام قائم نہیں کیا جائے گا امداد نہیں دی جائے گی؛
ہم جمہوریت کے دشمنوں کو اچھی طرح جانتے ہیں؛

امریکی صدر اوباما نے کہا تھا کہ:
جمہوریت کی بقاء کے لیے شام پر حملہ ضروری ہے!

امریکی صدر بش نے کہا تھا کہ:
ہم خلافت کے قیام کی کہیں بھی اور کوئی بھی کوشش طاقت سے کچل دیں گے!

اگر نظامِ جمہوریت واقعی ہی اسلامی نظام ہے اور خلافت مسلمانوں کا نظام نہیں ہے تو پھر یورپ و امریکہ (کفری دجالی اسلام دشمن تہذیب) جمہوریت کی بقا اور خلافت کے خاتمے کے لیے کیوں جنگیں کر رہا ہے؟
جہاں لالچ اور دھمکیوں سے کام نہیں چلتا وہاں فوجی آپریشن کرکے لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے والا بدترین کافر یہود و نصاریٰ آپ کے اس "اسلامی" نظام جمہوریت کو کیوں قائم کرتا چلا جا رہا ہے؟ اور جو حقیقی اسلامی نظام یعنی خلافت کا نام بھی لیتا ہے اس کو کیوں قتل کر دیتا ہے؟
ہم جنس پرستی کو روکنے کی بات کرو؛ عورت کے پردے کی بات کرو؛ مرتدین کے قتل کی بات کرو؛ قادیانی شیعہ زندیقوں کافروں کی سازشوں کی بات کرو؛ نصاب تعلیم میں غیر اسلامی اور الحادی افکار و نظریات کے خلاف بات کرو؛ برطانوی کافروں کے تھوپے گئے نظام جمہوریت کو نہ ماننے کی بات کرو کے … تو انسانیت، انسانی حقوق اور آزادیِ نسواں خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔ البتہ کشمیر و فلسطین و برما و مشرقی ترکستان میں مسلمانوں کی ہونے والی نسل کشی سے انسانیت اور انسانی حقوق کو کوئی مسئلہ پیش نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو اکیسویں صدی میں، جو زمین تو زمین پر خلا کو بھی مسخر کرنے کی صدی ہے، ایسے مناظر دیکھنے
کو نہیں ملتے۔

Share:

Kya Ek Aurat Kisi Riyasat, Mulk ka Hakim Ban Sakti hai? Can a women be a PM, cM and Head of State in Islam?

Islam me Aurat ki Sarbarahi ke bare me kya kaha gaya hai?

Kya Aurat PM, CM, DM ban sakti hai?
Kya Mulk ka Hakim Ek Aurat ban sakti hai?


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️ : مسز انصاری ۔۔۔۔۔۔۔

بلا شبہ پاکستان کا طرزِ حکومت جمہوری ہے اور خود پاکستان کی عوام آمریت کی مخالف اور جمہوریت پسند عوام ہے، اور واضح رہے کہ مغربی جمہوریت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، جمہوریت میں تو حکمران کا مسلمان ہونا یا مرد ہونا ہی ضروری نہیں ،  حاکمیت کے لیے مرد و زن کی بھی تخصیص نہیں ہوتی  ۔
اگر جمہوریت کی تاریخ اور سفر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ یہ ہمیشہ جنگوں اور خانۂ جنگی کے بعد (Colonolization) اور اقتصادی بحرانوں کے نتیجے میں ہی نافذ ہوئی۔ جیسے جنگ عظیم اول کے بعد آسٹریا، ہنگری اور ترکی وغیرہ میں، جنگ عظیم دوم کے بعد جرمنی اور جاپان میں، ’’کلو نائیزیشن‘‘ کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں، اقتصادی بحرانوں کے بعد روس اور ایسٹ یورپ میں ۔ موجودہ دور میں ہم نے دیکھا کہ2001ء میں ڈیڑھ مہینے کی شدید بمباری کے بعد میں افغانستان اور پھر 2003ء میں اسی طرح عراق میں جمہوریت نافذ کی گئی اور یوں جمہوریت کے نفاذ کے لئے ہمیں دو خونریز جنگیں دیکھنی پڑیں اور اب مشرق وسطیٰ میں اسی جمہوریت کے نفاذ کے لئے بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ پس جان لیجئے کہ کہ موجودہ جمہوریت کبھی بھی جمہوری اصولوں پر رائج نہیں ہوئی(ابو معاذ القرنی)

لہٰذا مغربی جمہوری طرزِ حکومت میں عورت کی سربراہی کو اسلامی اصولوں کے خلاف قرار دینا اسلامی اصولوں کی تشریح و تعبیر نہیں بلکہ یہ اسلامی اوامر میں تحریف اور اسلامی اصولوں سے انحراف ہے ۔
لہٰذا عورت کی سربراہی کا عدم جواز اسلامی نظامِ حکومت سے مشروط ہے، اور یہ بھی ملحوظ رکھا جائے کہ اسلامی نظام کے لیے زندگی کے تمام شعبوں میں شریعت کی بالفعل بالادستی اولین شرط ہے ، پاکستان میں سربراہی محترمہ بےنظیر بھٹو صاحبہ کی ہو یا محترمہ مریم نواز صاحبہ کی، مغرب کے سیلیولر ڈیموکریسی سسٹم میں تو جائز ہوسکتی ہے مگر اسلامی نظام میں نہیں ۔

لیکن قطع نظر مغربی جمہوریت کی ان دفعات کے جب ہم پاکستان کے آئین کی طرف جاتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت مغربی جمہوریت سے یکسر جدا حیثیت رکھتی ہے، ان دستوری دفعات کا تجزیہ کیا جائے تو خود عورت کو حکمران بنانا آئین کی خلاف ورزی قرار پاتا ہے کیونکہ دستور میں کسی عورت کو صدر یا وزیراعظم بنائے جانے کا جواز صریحاً‌ مذکور نہیں ہے ، کیونکہ پاکستان کے آئین کی کئی دفعات لبرل ڈیموکریسی کے منافی ہیں مثلاً
- پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا۔۔۔۔۔
- پاکستان کا مملکتی مذہب اسلام ہوگا ۔۔۔۔۔
- صدر کے عہدے کے لیے مسلمان صدر لازم ہے ۔۔۔۔
- صدر اور وزیرِ اعظم دونوں کے حلف نامے میں توحید، ختم نبوت اور قرآن و سنت کی جملہ تعلیمات پر ایمان رکھنا اور اسلامی نظریے کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔۔
- پارلیمنٹ کے مسلم اراکین کے لیے شرائط ہیں کہ وہ

1- اسلامی احکامات سے انحراف کرنے میں مشہور نا ہوں
2- اسلام کے فرائض کے پابند ہوں ۔
3- کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے والے ہوں ۔
4- فاسق نا ہوں ۔
5- اسلامی تعلیمات کا علم رکھتے ہوں ۔

اسی طرح دستور میں اسلامی احکام سے متعلق دفعات بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ آئینِ پاکستان میں جمہوریت کے مفہوم کو اختیار نہیں کیا گیا ۔ لہٰذا ایسی شخصی حکومت جس کے آئین کی خاص دفعات اسلامی ہوں، جس میں اقتدارِ اعلیٰ مسلمان ہو اور اسے کلی اختیارات حاصل ہوتے ہیں، ایسی حکومت کی سربراہ عورت کو بنانا عدمِ فلاح کا موجب ہے

کتاب وسنت اورجمہور علمائے امت کے فیصلوں کی روشنی میں عورت کی حکمرانی کو قطعاً حرام اور ناجائز سمجھتے ہیں اسلام میں عورت کی سر براہی کی قطعاًکوئی گنجائش نہیں ۔ خاتون کو ملک یا جماعت کا سربراہ بنانے کی اللہ تعالیٰ یا اس کے رسولﷺنے اجازت نہیں دی ہے , اسلامی قوانین کی رو سے بتقاضہ عورتوں کی کچھ فطرتی عقلی کمزوریوں اور شرعی حدود کے پیش نظر مسلمان عورت کسی ملک کی سربراہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور نہ ہی قاضی بن سکتی ہے، کیونکہ ان دونوں عہدوں کے فرائض کی ادائیگی کے لیے ، اور ان کے حقوق ادا کرنے کے لئے عورت کو کھلے عام عوام کے درمیان آنا پڑتا ہے تاکہ مسلم معاشرے اور عوام کے معاملات نمٹائے جائیں، جبکہ نا تو عورت مردوں کے شانہ بشانہ مجالس و تقاریب میں حاضر ہوسکتی ہے اور نہ ہی سکیورٹی اور پروٹوکول کی مجبوریوں کے پیش نظر ہمہ وقت اجنبی مردوں سے اختلاط کر سکتی ہے ، جبکہ سنن الترمذی میں ہے:
’’عَنْ عَبْدِ اللہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْمَرْاَۃُ عَوْرَۃٌ، فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ۔‘‘                              (سنن الترمذی ، رقم الحدیث:۱۱۷۳)
ترجمہ: ’’حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: عورت سراپا پردہ ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانکتا ہے۔‘‘
عورت کو پردے کا حکم ہے ، اور اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ عورت پردے میں رہے ، جتنا عورت پردے میں رہتی ہے اور جتنا زیادہ اپنے آپ کو نا محرم مردوں سے مخفی رکھتی ہے تو اتنا ہی اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے
یا ایھالناس !! اہل خرد جانتے ہیں کہ مسلم مملکت میں جب بحیثیت مسلمان کوئی حکمرانی قائم کرنا ہماری غرض وغایت اور فلاح وبہبود کے مقاصد ہوں تو اس فلاح وبہبود کا طریقہ وذریعہ ازروئے اسلام صرف دو ہی چیزیں ہیں ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب اور دوسری رسول اللہﷺ کی سنت وحدیث۔

اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں صراحت کر دی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی پیغمبر بھیجے گئے وہ سب مرد تھے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

- اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰەُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔
’’مرد حکمران ہیں عورتوں پر، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔‘‘

- وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ۔
’’اور ہم نے آپؐ سے قبل رسول بنا کر نہیں بھیجا مگر صرف مردوں کو جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔‘‘

عورت کی سربراہی احادیث کی نظر میں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب نبی صرف اور صرف مرد آئے ہیں تو ان کی نیابت بھی صرف مردوں میں ہی محدود رہے گی۔
اور شرع سے متصادم، عورت کو حکمران بنانے والے سب ہی گنہگار ہوں گے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:

لن یفلح قوم ولو امرھم امرأۃ۔

بعض روایت میں یہ الفاظ ہیں:

لن یفلح قوم اسند وامرھم الی امرأۃ۔

اور بعض روایت میں ہے:

لن یفلح قوم تملکھم امرأۃ۔

اور ایک روایت میں ہے:

مخرج قوم الا یفلحون قائدھم امرأۃ فی الجنۃ۔ (اعلاء السنن ص ۳۱ ج ۵)

رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے ارشادات میں اس امر کی صراحت کی ہے کہ عورت کی حکمرانی نہ صرف عدم فلاح اور ہلاکت کا موجب ہے بلکہ مردوں کے لیے موت سے بدتر ہے۔ ان میں سے چند احادیث ذیل میں درج کی جا رہی ہیں:

امام بخاریؒ کتاب المغازی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کی خبر دی گئی کہ فارس کے لوگوں نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا حکمران بنا لیا ہے تو آنحضرتﷺ نے فرمایا:

- لن يُفْلِحَ قومٌ ولَّوْا أمرَهَمُ امرأَةً
وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی، جس نے حکمرانی کسی عورت کے سپرد کی ہو"۔

الراوي : أبو بكرة نفيع بن الحارث | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الجامع | الصفحة أو الرقم : 5225 | خلاصة حكم المحدث : صحيح | التخريج : أخرجه البخاري (4425)

- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا كانت أمراؤكم خيارَكم وكان أغنياؤكم سمحاءَكم وكانت أموركُم شورى بينكم فظَهْرُ الأرضُ خيرٌ لكم من بطنها وإذا كانت أمراؤكم شرارُكم وكان أغنياؤكم بخلاءكم وكانت أمورُكم إلى نسائِكم فبطنُ الأرضِ خيرٌ لكم من ظهْرها
الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن جرير الطبري | المصدر : مسند عمر
الصفحة أو الرقم : 1/113 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
التخريج : أخرجه الترمذي (2266)، والبزار (9529)، وأبو نعيم في ((حلية الأولياء)) (6/176)

’’جب تمہارے حکمران تم میں سے اچھے لوگ ہوں، تمہارے مالدار سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشورہ سے طے پائیں تو تمہارے لیے زمین کی پشت اس کے پیٹ سے بہتر ہے۔ اور جب تمہارے حکمران تم میں سے برے لوگ ہوں، تمہارے مال دار بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہو جائیں تو تمہارے لیے زمین کا پیٹ اس کی پشت سے ہے۔‘‘

امام حاکمؒ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے اور اس کی سند کو امام ذہبی نے صحیح تسلیم کیا ہے کہ جناب رسول اکرمؐ کی خدمت میں مسلمانوں کا ایک لشکر فتح و نصرت حاصل کر کے آیا اور اپنی فتح کی رپورٹ پیش کی۔ آنحضرتؐ نے مجاہدین سے جنگ کے احوال اور ان کی فتح کے ظاہری اسباب دریافت کیے تو آپؐ کو بتایا گیا کہ کفار کے لشکر کی قیادت ایک خاتون کر رہی تھی۔ اس پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

- ھَلَکَتِ الـرِّجَالُ حِـیْنَ اَطَاعَتِ النِّسَآءَ۔
(مستدرک حاکم ج ۴ ص ۲۹۱)
مرد جب عورتوں کی اطاعت قبول کریں گے تو ہلاکت میں پڑیں گے۔

- علامہ ابن حجر الہتیمیؒ حضرت ابوبکرؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ کی مجلس میں ملکہ سبا بلقیسؓ کا ایک دفعہ ذکر ہوا تو آنحضرتؐ نے فرمایا:

لَا یُـقْدِسَ اللّٰەُ اُمَّـةً قَادَتْـھُمْ اِمْـرَاَۃٌ۔
(مجمع الزوائد ج ۵ ص ۲۱۰)
اللہ تعالیٰ اس قوم کو پاکیزگی عطا نہیں فرماتا جس کی قیادت عورت کر رہی ہو۔

- امام طبرانیؒ حضرت جابر بن سمرۃؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا:

لَنْ یُّـفْلِحَ قَوْمٌ یَمْلِکُ رَاْبَـھُمْ اِمْرَاَۃٌ۔ (مجمع الزوائد ج ۵ ص ۲۰۹)
وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جن کی رائے کی مالک عورت ہو۔

- امام ابوداؤد طیاسیؒ حضرت ابوبکرؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآبؐ نے فرمایا:

لَنْ یُّـفْلِحَ قَوْمٌ اَسْنَدُوْا اَمْرَھُمْ اِلٰی اِمْرَاَۃٍ۔ (طیاسی ص ۱۱۸)
وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جس نے اپنی حکمرانی عورت کے حوالہ کر دی۔

- امام ابن الاثیرؒ اس روایت کو ان الفاظ سے نقل کرتے ہیں:

مَا اَفْلَحَ قَوْمٌ قَیِّمُھُمْ اِمْرَاَۃٌ ۔ (النہایۃ ج ۴ ص ۱۳۵)
وہ قوم کامیاب نہیں ہوگی جس کی منتظم عورت ہو۔

- مسند احمد میں ہے:

لَنْ یُّـفْلِحَ قَوْمٌ تَمْلِکُھُمْ اِمْرَاَۃٌ۔ (مسند احمد ج ۵ ص ۴۳)
وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جس کی حکمران عورت ہو۔

اجماع امت :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قاضی ابوبکر ابن العربیؒ حدیث بخاری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وھذا نص فی ان الامراۃ لا تکون خلیفۃ ولا خلاف فیہ۔ (احکام القرآن ص ۱۴۴۵ ج ۳)
’’یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ عورت خلیفہ نہیں ہو سکتی اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘

ابن العربی کا یہ اقتباس علامہ قرطبی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل فرمایا ہے اور اس کی تاکید فرمائی ہے، ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ علماء کے درمیان اس میں اختلاف نہیں ہے۔
ان ہی اسباب و وجوہ کی بنا پر کسی اسلامی مملکت میں عورت کی حکمرانی و سربراہی موجب عدم فلاح اور علماء، محدثین و فقہائے کرام کے نزدیک بالاتفاق ناجائز ہے

علامہ بغویؒ جو مشہور مفسر و محدث گزرے ہیں وہ لکھتے ہیں:

اتفقوا علی ان المراۃ لا تصلح ان تکون امامًا لان الامام یحتاج الی الخروج لاقامۃ امر الجہاد والقیام بأمر المسلمین ۔۔۔ والمرأۃ عورۃ لا تصلح المبروز (شرح السنۃ للبغوی ص ۷۷ ج ۱۰ ۔ باب کراھیۃ تولیۃ النساء)

’’امت کا اس پر اتفاق ہے کہ عورت حکومت کی سربراہ نہیں بن سکتی کیونکہ امام کو جہاد کے معاملات انجام دینے اور مسلمانوں کے معاملات نمٹانے کے لیے باہر نکلنے کی ضرورت پڑتی ہے اور عورت پوشیدہ (پردہ میں) رہنی چاہیئے، مجمع عام میں اس کا جانا جائز نہیں۔‘‘

علامہ ابن حزمؒ نے اجماعی مسائل پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں وہ تحریر فرماتے ہیں:

واتفقوا ان الامامۃ لا تجوز لامراۃ۔ (مراتب الاجماع لابن تیمیہ ص ۱۲۶)
’’تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ حکومت کی سربراہی کسی عورت کے لیے جائز نہیں۔‘‘

نویں صدی ہجری کا ایک واقعہ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ مصر میں بنی ایوب خاندان کی ایک خاتون ’’شجرۃ الدر‘‘ حکمران بن گئی۔ اس وقت بغداد میں خلیفہ ابوجعفر مستنصر باللہؒ کی حکومت تھی، انہوں نے یہ واقعہ معلوم ہونے پر امراء کے نام تحریری پیغام بھیجا کہ

اعلمونا ان کان ما بقی عند کم فی مصر من الرجال من یصلح للسلطنۃ فنحن نرسل لکم من یصلح لھا اما سمعتم فی الحدیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لا افلح قوم ولوا امرھم امراۃ۔ (اعلام السناء ج ۲ ص ۲۸۶)
ہمیں بتاؤ اگر تمہارے پاس مصر میں حکمرانی کے اہل مرد باقی نہیں رہے تو ہم یہاں سے بھیج دیتے ہیں۔ کیا تم نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ وہ قوم کامیاب نہیں ہوگی جس نے اپنا حکمران عورت کو بنا لیا۔

خلیفہ وقت کے اس پیغام پر ’’شجرۃ الدر‘‘ منصب سے معزول ہوگئی اور اس کی جگہ سپہ سالار کو مصر کا حکمران بنا لیا گیا

امام بغویؒ (شرح السنۃ ج ۷۷) میں فرماتے ہیں کہ سب علماء کا اتفاق ہے کہ عورت حکمران نہیں بن سکتی۔

امام ابوبکر بن العربیؒ (احکام القرآن ج ۳ ص ۴۴۵) حضرت ابوبکرؓ والی حدیث نقل کر کے فرماتے ہیں:

وھذا نص فی الامراۃ لا تکون خلیفۃ ولا خلاف فیہ۔
یہ حدیث اس بارے میں نص ہے کہ عورت خلیفہ نہیں بن سکتی اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

امام ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں:

اجمع المسلمون علیہ۔ (حجۃ اللہ البالغہ ج ۲ ص ۱۴۹)
مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے۔

امام الحرمین الجوینیؒ فرماتے ہیں:

واجمعوا ان المراۃ لایجوز ان تکونا اماما۔ (الارشاد فی اصول الاعتقاد ص ۲۵۹)
اور علماء کا اس پر اجماع ہے کہ عورت کا حکمران بننا جائز نہیں۔

حافظ ابن حزمؒ امت کے اجماعی مسائل کے بارے میں اپنی معروف کتاب ’’مراتب الاجماع‘‘ میں فرماتے ہیں:

واتفقوا ان الامامۃ لا تجوز لامراۃ۔ (مراتب الاجماع ص ۱۲۶)
اور علماء کا اتفاق ہے کہ حکمرانی عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔

دورِ حاضر کے معروف محقق ڈاکٹر منیر عجلانی لکھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں میں سے کسی عالم کو نہیں جانتے جس نے عورت کی حکمرانی کو جائز کہا ہو۔

فالاجماع فی ھذہ القضیۃ تام لم یشذ عنہ۔ (عبقریۃ الاسلام فی اصول الحکم ص ۷۰)
اس مسئلہ میں اجتماع اتنا مکمل ہے کہ اس سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔

پاکستان میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے ۱۹۵۱ء میں ۲۲ دستوری نکات پر اتفاق کیا اور ان میں حکومت کے سربراہ کے لیے مرد کی شرط کو لازمی قرار دیا۔(عورت کی حکمرانی کی شرعی حیثیت : ابوعمار زاھدالراشدی )

مختلف مذہبی طبقہ فکر :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقہ حنفی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقہ حنفی کی معروف و مستند کتاب ’’الدر المختار‘‘ اور اس کی شرح ’’رد المحتار‘‘ میں اس امر کی تصریح ہے کہ حکمران کے لیے دوسری شرائط کے ساتھ مرد ہونا بھی ضروری ہے اور

لا یصح تقریر المراۃ فی وظیفۃ الامامۃ۔ (شامی ج ۴ ص ۳۹۵، ج ۱ ص ۵۱۲)
عورت کو حکمرانی کے کام پر مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔

فقہ شافعی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقہ شافعیؒ کی مستند کتاب ’’المجموع شرح المہذب‘‘ میں لکھا ہے:

القضاء لایجوز لامراۃ۔
قضا کا منصب عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔

فقہ حنبلی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقہ حنبلیؒ کی مستند کتاب المغنی (ج ۱۱ ص ۳۸۰) میں ہے:

المراۃ لا تصلح للامامۃ ولا لتولیۃ البلد ان ولھذا لم یول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا احد من خلفاء ولا من بعدھم قضاء ولا ولایۃ ولو جاز ذلک لم تخل منہ جمیع الزمان غالباً۔
عورت نہ ملک کی حاکم بن سکتی ہے اور نہ شہروں کی حاکم بن سکتی ہے۔ اسی لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت کو مقرر نہیں کیا، نہ ان کے خلفاء نے کسی کو مقرر کیا اور نہ ہی ان کے بعد والوں نے قضا یا حکمرانی کے کسی منصب پر کسی عورت کو فائز کیا اور اگر اس کا کوئی جواز ہوتا تو یہ سارا زمانہ اس سے خالی نہ ہوتا۔

فقہ مالکی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقہ مالکیؒ کی مستند کتاب ’’منحۃ الجلیل‘‘ میں نماز کی امامت، لوگوں کے درمیان فیصلوں، اسلام کی حفاظت، حدود شرعیہ کے نفاذ اور جہاد جیسے احکام کی بجا آوری کے لیے شرائط بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

فیشترط فیہ العدالہ والذکورۃ والفطنۃ والعلم۔
پس اس کے لیے شرط ہے کہ عادل ہو، مرد ہو، سمجھدار ہو اور عالم ہو۔

فقہ ظاہری :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل ظاہر کے معروف امام حافظ ابن حزمؒ فرماتے ہیں:

ولا خلاف بین واحد فی انھا لاتجوز لامراۃ۔ (المحلی ج ۹ ص ۳۶۰۔ الملل ج ۴ ص ۱۶۷)
اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ حکمرانی عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔

اہل تشیع :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معروف شیعہ محقق الاستاذ الشیخ جعفر السبحانی لکھتے ہیں:

فقد اجمع علماء الامامیۃ کلھم علی عدم انعقاد القضاء للمراۃ وان استکملت جمیع الشرائط الاخریٰ۔ (معالم الحکومۃ الاسلامیۃ ص ۲۷۸)
امامیہ مکتب فکر کے تمام علماء کا اس امر پر اجماع ہے کہ قضاء کا منصب عورت کے سپرد کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ اس میں دوسری تمام شرائط پائی جاتی ہوں۔

اہل حدیث

معروف اہلحدیث عالم قاضی شوکانیؒ حضرت ابوبکرؓ والی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فیہ دلیل علی ان المراۃ لیست من اھل الولایات ولایحل لقوم تولیتھا۔ (نیل الاوطار ج ۸ ص ۲۷۴)
اس میں دلیل ہے کہ عورت حکمرانی کے امور کی اہل نہیں ہے اور کسی قوم کے لیے اس کو حکمران بنانا جائز نہیں ہے۔

الغرض قرآن کریم اور حدیث نبویؐ کی واضح نصوص، اجماع امت اور تمام مسلم مکاتب فکر کے فقہاء کے صریح ارشادات سے یہ بات بالکل بے غبار ہو جاتی ہے کہ کسی عورت کا مسلمان ملک میں حکمرانی کے منصب پر فائز ہونا شرعی طور پر بالکل ناجائز ہے۔

عورت کی سربراہی کے لیے جنگ جمل میں حضرت عائشہؓ کی شرکت سے استدلال :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض حضرات نے عورت کی سربراہی پر جنگِ جمل کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اس جنگ میں قیادت کی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو حضرت عائشہؓ نے کبھی قیادت کا دعوٰی کیا، نہ ان کے ساتھیوں نے آپ کو جنگ میں قائد و سربراہ بنایا، نہ ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت عائشہؓ کا مقصد نہ کوئی سیاست و حکومت تھی نہ ہی وہ جنگ کرنے کے ارادہ سے نکلی تھیں بلکہ روایات سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ محض حضرت عثمانؓ کے قصاص کے جائز مطالبے کی تقویت اور اس سلسلہ میں مسلمانوں کے درمیان مصالحت کرانے کے مقصد سے گئی تھیں۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:

’’جب حضرت عائشہؓ بصرہ جا رہی تھیں تو راستہ میں ایک جگہ قیام کیا، رات میں وہاں کتے بھونکنے لگے۔ حضرت عائشہؓ نے لوگوں سے پوچھا یہ کون سا مقام ہے؟ لوگوں نے بتایا ’’حؤاب‘‘ نامی چشمہ ہے۔ حوأب کا نام سنتے ہی حضرت عائشہؓ چونک اٹھیں، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ہم ازواج مطہرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم میں سے ایک کا اس وقت کیا حال ہو گا جب اس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے؟‘‘ (مسند احمد ص ۵۲ ج ۱)

حضرت عائشہؓ نے حوأب کا نام سن کر آگے جانے سے انکار کر دیا اور اپنے ساتھیوں سے اصرار کیا کہ مجھے مدینہ واپس لوٹا دو لیکن بعض حضرات نے آپ کو چلنے کے لیے اصرار کیا اور کہا کہ آپ کی وجہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح ہو جائے گی۔ بہرحال حضرت عائشہؓ نے دوبارہ سفر شروع کیا اور بصرہ پہنچیں اور جو مقدّر تھا وہ پیش آیا۔ (البدایہ والنہایہ ص ۱۳۱ ج ۷)

عورت کی سربراہی پر ملکہ سبا بلقیس کے واقعہ سے استدلال :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بارے میں مولانا مفتی حبیب الرحمٰن خیرآبادی لکھتے ہیں :

کچھ لوگ عورت کی سربراہی پر جواز کے لیے ملکۂ سبا یعنی بلقیس کی حکمرانی کا واقعہ پیش کرتے ہیں یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط لکھنے پر جب وہ مطیع اور فرمانبردار ہو کر آگئی اور اسلام قبول کر لیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی بادشاہت کو برقرار رکھا جیسا کہ بعض کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے، حالانکہ قرآن پاک کے الفاظ پر نظر ڈالنے سے معاملہ برعکس معلوم ہوتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کی حکومت تسلیم نہیں کی بلکہ اس کے نام جو خط لکھا اس کے الفاظ یہ ہیں:

انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ان لا تعلوا علیّ واتونی مسلمین۔ (نمل)

’’یعنی تم میرے مقابلہ میں سر نہ اٹھاؤ اور میرے پاس میری مطیع اور فرمانبردار بن کر آجاؤ۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی حکومت کو نہ صرف یہ کہ تسلیم نہیں فرمایا بلکہ اسے اپنا ماتحت بن کر آنے کا حکم دیا، نیز اس کا بھیجا ہوا تحفہ قبول نہیں فرمایا، اس کا تختہ بھی اٹھوا کر منگوا لیا، اس کی ہیئت بھی بدل ڈالی اور بلقیس جب حضرت سلیمانؑ کے محل میں آئی تو اس نے کہا:

’’پروردگار! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کے آگے جھک گئی۔‘‘ (نمل ۴۴)

قرآن پاک کے بیان سے دور تک بھی بلقیس کی سربراہی اور اس کی حکومت برقرار رکھنے کا شائبہ تک نظر نہیں آتا، بلکہ قرآن کے پڑھنے سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے اسلام کے بعد اس کی حکومت کو جائز نہیں رکھا نہ اسے تسلیم فرمایا بلکہ اس کی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

مزید مفصل مواد کے لیے درج ذیل پی ڈی ایف مطالعہ کیجیے :

https://kitabosunnat.com/kutub-library/oratkisarbrahikaislammekoitasawwarnahi

https://kitabosunnat.com/kutub-library/aourat-ki-sarbrahi-quran-w-sunnat-ki-roshni-me

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS