Kya Quran Ko Chumna,Peshani Se Lagana Aur Aankhon Se Lagana Sahi Hai?
الجواب بعون رب العياد:
كتبه:ابوزهير محمد.يوسف بٹ بزلوی ریاضی۔
خریج جامعہ ملک سعود ریاض سعودی عرب۔
تخصص:فقہ واصولہ۔
☪☪☪☪☪☪☪☪
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وبعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم رب کریم کی آخری مقدس کتاب ہے اسے محبت کرنا اسے محبت کرنا اسکے احکام ومسائل پر عمل کرنا ہر مسلمان مردوعورت کے لئے لازمی ہے۔
لیکن اس رب کی کتاب کو چومنا اسے اپنی پیشانی کے ساتھ لگانا نبی علیہ السلام کا فعل نہیں ہے۔
علامہ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کو چومنا اسے اپنی پیشانی کے ساتھ لگانا مشروع عمل نہیں اسلئے کہ ایسا کرنا نبی اکرم علیہ السلام سے ثابت نہیں ہے۔
البتہ اگر کوئی شخص قرآن کریم کو چومے اور اسے اپنی پیشانی کے ساتھ محبتا اور تعظیما لگائے تو ایسا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن اسکا ترک ہی افضل واولی ہے۔
اسلئے کہ عکرمہ بن ابی جھل رضی اللہ عنہ کے بارے میں ثابت ہے کہ وہ مصحف کو چومتے اور فرماتے کہ یہ میرے رب کا کلام ہے۔[ فتاوى نور على الدرب ، حكم تقبيل المصحف ووضعه على الجبهة ، الأثر:كشاف القناع عن متن الاقناع137/1].
علامہ ابن عثیمن رحمہ اللہ نے قرآن کریم کو چومنا اسے بدعت کہا ہے اسلئے کہ ایسا کرنا نبی علیہ السلام سے ثابت نہیں ہے۔[فتاوی ابن عثیمن]۔
علامہ شیخ البانی رحمہ اللہ بھی اسے بدعت قرار دیتے ہیں اسلئے کہ ایسا کرنا نبی علیہ السلام سے ثابت نہیں ہے ، نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر ندعت گمراہی ہے اور بدعت کا انجام جہنم ہے۔[صحيح الترغيب والترهيب1/92/34]۔
اگے فرماتے ہیں کہ دین میں ہر کسی عمل کے قبول ہونے کے لئے دو اہم شرط ہیں: ایک اخلاص دوسری شرط اتباع اور قرآن کو چومنا جب نبی علیہ السلام سے ثابت ہی نہیں اسلئے اسے بدعت کہنا صحیح ہے۔[شریط الشیخ ، كيف نفسر القرآن].
فتوی لجنہ میں یہ فتوی موجود ہے کہ قرآن کو چومنا اسکی کوئی اصل قرآن وسنت میں موجود نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ [فتاوى اللجنة الدائمة رقم4172]۔
علامہ ابن باز ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ قرآن کو چومنا من باب عبادت بدعت ہے البتہ اگر صرف تعظیم وغیرہ کے لئے چومے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔[فتوى لسماحة الشيخ عبد العزيز بن باز رحمه الله من فتاوى مجلة الدعوة العدد:1643]۔
**************************
خلاصہ کلام: قرآن کو چومنا وغیرہ کسی بھی صحیح دلیل سے ثابت نہیں نہ ایسا نبی علیہ السلام نے کیا اور نہ صحابہ نے نہ ہی ایسا سلف صالحین سے ثابت ہے علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے جو عکرمہ کا فعل نقل کیا ہے اسے بعض علماء ومحدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
اسلئے بہتر اور افضل یہی ہے کہ قرآن کو نہ چوما جائے اسلئے کہ اگر ایسا کرنے میں خیر وبھلائی ہوتی تو ضرور ایسا خود نبی علیہ السلام کرتے۔
هذا ماعندي والله أعلم بالصواب.