find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts sorted by date for query Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. Sort by relevance Show all posts
Showing posts sorted by date for query Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. Sort by relevance Show all posts

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 03)

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad.


तारिक बिन जियाद बरबर नस्ल से ताल्लुक रखने वाले मुस्लिम सिपेसलार् और बनू उमैय्या के ज़रनेल थे, जिन्होंने 711 मे हिस्पानिया (स्पेन) मे ईसाई हुकूमत को खत्म कर इस्लामी हुकूमत नाफ़िज की.. 
गरनाता से बाहर आँसूओ की वह पहाड़ी है जहाँ खड़े होकर स्पेन के आखिरी बादशाह अबू अब्दुल्ला ने अल्हमरा की तरफ देखा और वह अपने आँसू न संभाल सके। 
जब हिस्पानिया के आखिरी मुसलमान बादशाह अबू अब्दुल्ला को सुकूत ए गरनाता के बाद वहाँ से निकाल दिया गया तो एक पहाड़ की चोटी पर खड़े होकर गरनाता पर आखिरी नज़र डालते हुए रोने लगे। उस वक़्त उनकी वालिदा ने उन्हे यह तरिखि जुमले कहे थे। 
"उसके लिए तुम औरतों की तरह मत रो जिसके लिए तुम मर्दो की तरह लड़ नही सके"
येरुशलम को यहूदियों का दारुल हुकुमत् बनते देख कर दुनिया भर के मुसलमानो की दुहाई पर बादशाह ए गरनाता के वालिदा के जुमले याद आगये  , के आज का मुसलमान किस कदर यहूदियों और ईसाइयों का रखैल बनकर रह गया है, उसके बनाये हुए निजाम को अपनाने के लिए मरे मिटे जा रहे है... ये वो दौर है जब मुसलमान ईसाइयों के लौंडी बने हुए है। 

ऐ गुलिस्तां ए अंदलस वह दिन है याद तुझको
था तेरी डालियों मे जब आशियाना हमारा 
2 जनवरी 1492 सुकुत ए गरनाता

          طارق بِن زِیاد
          تحریر:- صادق حسين
       قسط نبمر 3_________________Part 3

وہ سب اس_کو دیکھ اور اس کا خواب سن رہے تھے-
جب وہ خاموش ہوا تو موسی نے کہا! "
عجیب خواب دیکھا ہے تم نے-"
جولین نے کہا ہاں عجیب خواب ہے زرا ایک بات تو بتائیں؟ "
عبد العزیز؟ "
جولین کیا آپ کبھی اندلس گئے ہیں؟
عبد العزیز:کبھی نہیں گیا-
موسی:آپ نے یہ سوال کیوں کیا؟ "
جولین:اس لیے کہ انہوں نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ اندلس کی سر زمین کے متعلق ہے-"
موسی:کیا وہاں کے پہاڑ اور میدان سر سبز ہیں؟ "
جولین:جی ہاں حقیقت میں اندلس بہشت کا نمونہ ہے-
قدرت نے دنیا کے مختلف حصوں میں جو چیزیں پیدا کی ہیں وہ سب اندلس کو بخش دی ہیں-
وہ پھلوں کی بہتات اور آسمان کے صاف رہنے کے لحاظ سے ملک شام ہے-
آب و ہوا کی عمدگی کے خیال سے یمن یا عرب کا نخلستان ہے-
میوں کی کثرت کی وجہ سے اور تازگی کے اعتبار سے حجاز ہے
زرخیزی اور پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو کے انداز سے ہندوستان ہے-
بیش قیمت کانوں کے باعث کیٹے ہے-
نیز سمندر کے ساحلوں کی خوش قطع اور فائدہ رسانی کے میں عدن ہے-"
موسی:آپ نے تو اس کی بڑی تعریف کر ڈالی ہے-
جولین:وہ ملک ہی تعریف کے قابل ہے مگر آپ کے صاحبزادے نے جو خواب دیکھا ہے، اس نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے-
موسیٰ:کیوں؟ "
جولین: اس لیے کہ انہوں نے کبھی اندلس نہیں دیکھا مگر خواب میں اندلس پہنچ گئے جس بت کا انہوں نے بتایا ہے وہ مریڈا کے کھنڈرات میں ہے نہایت مشہور ہے-
اس کا نام" گلیشا" ہے دنیا بھر میں اتنا بڑا اور اچھا بت کہیں نہیں ہے-
موسی: اور وہ عورت؟
جولین: جس عورت کو انہوں نے خواب میں دیکھا وہ شاہ رازرق کی بیوی نائلہ ہے-
اس کا طوق دنیا بھر میں بے نظیر ہے اور وہ حسین بھی ایسی ہے کہ جیسا کہ انہوں نے بیان کیا ہے سارے اندلس میں وہ طوق والی حسینہ کے نام سے مشہور ہے-
موسی: تعجب ہے میرے بیٹے خواب میں اندلس ہو آئے ہیں-
عبد العزیز: کیا آپ مجھے بیداری میں اندلس جانے کی اجازت دیں گے؟
موسی: نہیں میں نے اس مہم کے لیے اور ہی بہادر کو منتخب کر لیا ہے-
عبد العزیز: نے مایوسی سے کہا اور وہ کون ہے؟
موسی: جب دربار خلافت سے اجازت آ جائے گی تو اس وقت تمہیں اور سب مسلمانوں کو معلوم ہو جائے گا-"
اس وقت ایک خادم نے آ کر اطلاع دی حضور قاصد دمشق سے واپس آ گیا ہے سب یہ خبر سن کر خوش ہو گئے-
موسی نے کہا جلدی سے اسے اندر بلاو-"
خادم واپس چلا گیا اور سب بے چینی سے اس کے آنے کا انتظار کرنے لگے-"
_____________
_______جب قاصد کے آنے میں زرا دیر ہوئی تو ان لوگوں میں قیاس آرائیاں ہونے لگیں-
جولین نے کہا کیا آپ کے خیال میں اعلی حضرت خلیفہ المسلمین نے لشکر کشی کی اجازت دے دی ہو گی؟ "
موسی: میں صحیح طور پر کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ ایک مہم ہندوستان پر بھیجی جا رہی ہے اور وہ اشد ضروری ہے-
جولین: کیوں؟ .موسی: اس لئے کہ سندھ کے مغرور و متکبر راجہ نے چند مسلمانوں کو قید کر لیا ہے-
انہیں چھڑانے کے لیے ہندوستان پر لشکر کشی ضروری ہو گئی ہے-
جولین: آپ مسلمانوں میں بڑا اتفاق ہے و اتحاد ہے-
موسی: کیوں نہ ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے
کل مومن اخواہ
تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں-"
جب ایک بھائی پر مصیبت آئے تو یا اسے تکلیف ہو تو دوسرا بھائی اس سے متاثر نہ ہو گا؟ "
اور اگر مسلمان کسی مسلمان کو تکلیف اور پریشانی میں دیکھے گا تو اس کی مدد نہیں کرتا تو اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و سلم دونوں ناخوش ہوتے ہیں-
یہی وجہ ہے کہ ہر5 مسلمان دوسرے مسلمان کی ہر ممکن امداد کرنے پر مجبور ہے اور اسی وجہ سے مسلمانوں میں یگانگت اور بھائی چارہ ہے-
جولین: ٹھیک فرما رہے ہیں آپ جو محبت جو خلوص اور جو پیار مسلمانوں میں ہے وہ تمام دنیا میں کہیں بھی کسی قوم میں نہیں.
اتنے میں قاصد اندر آ گیا-
اس نے بلند آواز میں کہا السلام علیکم و رحمۃ اللہ-"
موسی نے و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ کہہ کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا-
وہ ایک طرف بیٹھ گیا-
موسی نے دریافت کیا-"
کہو اعلی حضرت خلیفہ المسلمین بخیریت ہیں؟ "
قاصد: جی ہاں اللہ کے فضل و کرم سے.
موسی: اور دوسرے حکومت کے اکابرین ملت-
قاصد: سب خیریت سے ہیں اور سب نے سلام کہا ہے-
موسی: و علیکم السلام اور عام مسلمان؟
قاصد: وہ بھی اچھی طرح ہیں مگر ادنی مسلمانوں سے لے کر اعلی تک حتی کہ خلیفہ بھی ان مسلمانوں کی وجہ سے جنہیں ہندوستان کے مغرور راجہ داہر نے قید کر لیا ہے سخت پریشان اور بے قرار ہیں اور سب کی نگاہیں اس مہم پر لگی ہوئی ہیں جو کہ وہاں بھیجی جا رہی ہے-
موسی: اچھا میری عرض داشت کا جواب ملا؟
قاصد: جی ہاں-"
موسی: لاو !
قاصد نے خلیفہ کا مراسلہ نکال کر پیش کیا-
موسی نے لے کر اول اسے چوما اور پھر کهول کر پڑھا لکھا تھا:::
منجانب ولید بن عبدالملک خلیفہ المسلمین از دمشق بجانب موسیٰ بن نصیر وائسرائے بلاد مغرب:
السلام علیکم و رحمۃ بعد از حمد و صلوٰۃ کے قلمی ہے کہ اسلام اور مسلمان دنیا سے فسق و فجور بدکاری بد امنی کو دور کرنے آئے ہیں اگرچہ ہندوستان کی مہم در پیش ہے مگر اس مہم کی وجہ سے کونٹ جولین کی مدد سے باز نہیں رہ سکتے-
وہ مظلوم ہیں اور مظلوم کی حمایت کرنا مسلمان کا اولین فرض ہے-
ہم اس مہم کا کلی اختیار تم کو دیتے ہیں تم نہایت ہوشیاری سے اسے شروع کرو-
یہاں تجربہ کار لوگوں کو اندلس بھیجو اور کسی ایسے افسر کا انتخاب کرو جو اس مہم کے لیے مناسب اور موزوں ہو-
اول اول زیادہ لشکر بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے-
تھوڑا سا لشکر بھیجو ضرورت لاحق ہو تو کچھ اور لشکر بھیج دینا-
فقط والسلام و رحمۃ اللہ.
اس شاہی مراسلہ کو پڑھ کر اتنی مسرت موسی کو نہ ہوئی ہو گی جتنی یہ سن کر کونٹ جولین اور راہب کو ہوئی-"
راہب نے کہا کہیے اب تو دربار خلافت سے بھی اجازت مل گئی ہے اب کیا ارادہ ہے آپ کا؟ "
موسی: مجھے صرف اسی کا انتظار تھا خلیفہ نے میری عرض داشت منظور کر لی ہے اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے پرسوں جمعہ کی نماز کے بعد ان شاءالله لشکر روانہ ہو جائے گا-"
*جاری ہے.....
..

Share:

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 02)

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. Part 02



          طارق بِن زِیاد
          تحریر:- صادق حسين

     قسط نمبر 2___________________Part 02

طارق بن زیاد نے راہب کی روداد سنی ۔اور ظریف بن مالک سے مشورہ کیا ک کیا کیا جائے ۔دونوں یہ فیصلہ کیا ک اس کو موسی بن نصیر کے پاس بیھج دیا جائے ۔اور وہاں سے جو فرمان شئے گا ہم لوگ اس پر عمل کریں گے ۔
چناچہ دونوں راہبوں کو موسی بن نصیر کے پاس بیھج  دیا گیا اور ساتھ ان کی ساری روداد لکھ کر بھی  بھیج  دی گئی ۔موسی کے پاس پہنچ کر انہوں نے طارق کا لکھا ہوا مراسلہ پیش کیا ۔موسی نے مراسلہ کھول کر پڑھا اور راہبوں سے ہم کلام ہوا۔
  کیا حاکم وقت کو اس وحشیانہ واقعہ کی اطلاع نہیں ہوئی؟
راہب سب کو خبر ہے اور سب کو ہی نہایت رنج وقلق ہے-
موسیٰ=پهر ایسے ابو الہوس اور بدکار بادشاہ کو معزول یا قتل کیوں نہیں کر دیتے؟
راہب=اس لیے کہ سب اس سے ڈرتے ہیں!
موسیٰ=اچھا آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں؟
جولین: صرف یہ کہ آپ اس ظالم سے میرا انتقام لیں-
جولین:آپ ایک مظلوم کی حمایت میں تلوار بلند کر رہے ہیں، اس سے زیادہ اور کیا معقول وجہ ہو گی-
موسیٰ: یہ تمہارا آپس کا مسئلہ ہے خود ہی طے کر لو!
جولین: اگر ہم طے کر سکتے ہوتے تو تمہارا دروازہ کیوں کھٹکھٹاتے!
راہب: مسلمانوں کا قول ہے کہ وہ دنیا میں امن قائم کرنا اور مظلوموں کی حمایت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں-
موسیٰ:بے شک!
راہب: جو بے عزتی جولین کی کی گئی ہے اس سے کیا وہ مظلوم نہیں سمجھے جاتے؟
موسیٰ:بےشک
راہب: اور رازرق؟
موسیٰ: ظالم ہے-
راہب پهر کیا آپ کا یہ فرض نہیں ہو جاتا کہ مظلوم کی حمایت کریں اور ظالم کو کیفرکردار تک پہنچائیں؟
موسی: بےشک میرا یہ فرض ہو جاتا ہے-
راہب: تو اللہ کے لیے آپ مظلوم کی حمایت کیجئے اور ظالم کو سزا دیجئے-
میں شرافت تہزیب اور انسانیت کے نام پر آپ سے اپیل کرتا ہوں-
جولین: اگر آپ نے ہماری امداد نہ کی اور میں اس بدکار و جفا کار سے اپنا انتقام نہ لے سکا تو میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قسم کھاتا ہوں کہ سمندر میں ڈوب کر مروں گا اور میرا خون آپ کی گردن پر ہو گا-
موسی یہ سن کر گھبرا گیا اور انہوں نے جلدی سے کہا-
میں ان شاءالله تمہاری مدد کروں گا لیکن________
راہب:لیکن کیا؟
موسیٰ:میں محض ایک وائسرائے ہوں، خلیفہ کا ماتحت میں خود مختار نہیں ہوں، اگر تم پسند کرو تو میں تمام واقعات لکھ کر اعلی حضرت خلیفۂ کے حضور میں ارسال کر کے ان سے لشکر کشی کی اجازت حاصل کر لوں-
راہب:نہایت مناسب رائے ہے آپ کی-
موسی:اچھا تو میں ابھی لکھتا ہوں--
موسی نے اسی وقت ایک عرض داشت لکھی اور اپنے ایک متمد آدمی کو دے کر خلیفہ کی خدمت میں ارسال کر دی-
کونٹ جولین اور راہب نے ان کا شکریہ ادا کیا اور اجازت لے کر رخصت ہو گئے-
ان کے جاتے ہی موسیٰ اور عبد العزیز آٹھ کر چلے گئے-
ان کے جاتے ہی لوگ جوک در جوک اٹھ کر روانہ ہو گئے-
___________________________
عجیب خواب_______________ہر مسلمان، وائسرائے موسیٰ اور دوسرے اراکین سلطنت خوب جانتے تھے کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک جس قدر رحم دل فیاض اور سخی ہے، اسی قدر یہ بھی چاہتا ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلمانوں کو کسی بھی طرح کی کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اس کے ہمسایہ بادشاہوں اور تاج داروں میں ناچاقی نہ ہو-
تمام ممالک میں امن امان قائم رہے-
جس زمانے میں بلاد مغرب کے وائسرائے موسیٰ بن نصیر تھے-
اسی زمانے میں بلاد مشرق کے وائسرائے حجاج بن یوسف ثقفی تھے-
یہ عراق میں رہنے والے تھے اور موسی افریقہ میں-
موسیٰ کو معلوم تھا کہ ہندوستان کے چند خود سر راجاؤں نے جزیرہ سراندیپ (لنکا) سے آنے والے مسلمانوں کو قید کر لیا ہے اور حجاج بن یوسف نے خلیفہ ہندوستان پر لشکر کشی کی اجازت لی ہے-
موسیٰ کا خیال تھا کہ خلیفہ ہندوستان پر لشکر کشی کی اجازت دے دیں گے کہ وہاں مسلمان قید تھے مگر اندلس پر یورش کی اجازت نہیں دیں گے، کیونکہ وہاں مسلمانوں کا کوئی تعلق نہ تھا بلکہ آپس میں عیسائیوں میں مناقشات تھے-
تاہم انہیں کچھ امید ضرور تھی اور وہ اسی امید پر ہی انہوں نے تیاریاں شروع کر دیں تھیں-
افریقہ سے اندلس جاتے ہوئے راستے میں سمندر کو بغیر جہازوں کے عبور کرنا ممکن نہیں تھا-
بحیرہ روم نے افریقہ کو اندلس سے بالکل جدا کر دیا تھا اور مسلمانوں نے اس وقت سمندر میں جہاز رانی نہیں کی تھی مگر جب کہ اندلس پر چڑھائی کا ارادہ تھا تو یہ ضروری ہو گیا تھا کہ جہاز تیار کروائے جائیں تاکہ بحیرہ روم کو عبور کیا جا سکے-
چنانچہ موسیٰ نے جہاز تیار کروانے شروع کروا دئیے تھے-
یہ بات نہیں تھی کہ مسلمان جہاز چلانا یا بنانا نہیں جانتے تھے فقط اب تک ضرورت لاحق نہیں ہوئی تھی-
چار جہاز تیار کئے جا رہے تھے جو کہ اس قدر بڑے تھے کہ ان میں سے ہر ایک میں دو ہزار آدمی اور اور ان کے کھانے پینے کا پندرہ بیس روز کا سامان با آسانی آ سکتا تھا-
جنگ پر جانے کی ہر مسلمان کی تمنا اور خواہش تھی لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ کتنے آدمی بھیجے جائیں گے اور ان کا افسر کون ہو گا-
البتہ جہاد کے شائقین نے ابھی سے جہاد پر جانے کے لیے درخواستیں دینا شروع کر دیں تھیں-
جو لوگ تجربہ کار تھے اور متعدد لڑائیوں میں لشکر کی قیادت کر چکے تھے انہوں نے افسری کے لیے کہنا اور کوشش کرنا شروع کر دیں تھیں.
عام لوگوں کا خیال تھا کہ موسیٰ اپنے بیٹے عبد العزیز کی سر کردگی میں یہ لشکر بھیجے گا-"
لیکن موسیٰ چپ تھے اس لیے کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا-
علاوہ ازیں جب سے مسلمانوں کو اندلس کے بادشاہ رازرق کی عشرت پسندانہ زندگی کے واقعات کے بارے میں معلوم ہوا تھا وہ سب اس سے بہت ناخوش تھے-
اور چاہتے تھے کہ جلد از جلد اسے اس کی بدکاری اور بو الہوسی کی سزا دیں-
مسلمان نہ خود بدکار تھے اور نہ دوسروں کو بدکار دیکھنا پسند کرتے تھے گویا وہ نیکو کاری کے ٹھیکیدار تھے-
اور چاہتے تھے کہ ساری دنیا انہی کی طرح نیک رہے-"
بدکاری اور بد امنی کا دنیا میں نام تک باقی نہ رہے-"
ایک روز موسیٰ دیوان خانے میں بیٹھے ہوئے تھے اس وقت ان کے پاس کئی معزز اشخاص مثلاً علی بن ربیع طمی ، حیات بن تمیمی ابن عبداللہ ایوب اور عبد العزیز وغیرہ بیٹھے تھے-"
یہ تمام وہ لوگ تھے جو کسی نہ کسی وقت لشکر کی قیادت کر چکے تھے، نیز نہایت مشہور اور شجاع لوگ تھے-
علی بن ربیع طمی نے دریافت کیا-"
آپ نے اس مہم کی افسری کے لیے بھی کوئی شخص تجویز کر لیا ہے؟
مو سی نے جواب دیا ہاں-"
کر لیا ہے ممکن ہے کہ اس کا نام سن کر آپ سب بھی اس کی تائید کریں گے-"
عبد العزیز حضرت میں نے رات کو ایک خواب دیکھا ہے-
موسیٰ:خواب؟ ______کیا خواب دیکھا ہے تم نے؟
ابھی عبد العزیز نے اپنا خواب بیان کرنا شروع بھی نہیں کیا تھا کہ کونٹ جولین اور اشببلیا کا راہب دونوں آ گئے-
یہ دونوں قیروان ہی میں مقیم تھے اور اکثر موسیٰ کے پاس آتے رہتے تھے-
علیک سلیک کے بعد وہ بیٹھ گئے تب موسی نے عبد العزیز سے کہا"-
ہاں بیٹا تم اپنا خواب بیان کرو-"
عبد العزیز:میں نے دیکھا کہ میں بحری سفر کر رہا ہوں اور میرے ساتھ بہت سے آدمی ہیں-
ہم سب ایک سر سبز پہاڑ پر جا کر اترے اور پہاڑ کو عبور کر کے بہشت زار میدانوں کو طے کرنے لگے-
اس کے نواح میں ہزاروں لاکھوں چڑیاں تھیں جو ہمیں دیکھتے ہی اڑ جاتی تھیں-
کبھی کبھی وہ ہمیں چونچیں بھی مارتی تھیں مگر جب ہم ان کی طرف متوجہ ہوتے تو وہ اڑ جاتیں تھیں-
میدانوں کے بعد ہم نے آبادیاں بھی دیکھیں، وہ نہایت خوبصورت اور خوش نما تھیں-
ایک جگہ ہم جب پہنچے تو ہمارے سامنے ایک چوڑا دریا آ گیا-
اس دریا پر ایک اونچا پل باندھا تھا جو نہایت شاندار اور مضبوط اور خوبصورت تھا-
اس کے دروازے جن سے دریا بہہ رہا تھا؛ محرابدار اور اونچے اونچے تھے-
میں نے آج تک کسی پل کے اتنے اونچے دروازے نہیں دیکھے!
ہم نے پل کے ذریعہ سے دریا کو عبور کیا اور خوش نما وادی میں جا اترے-
اس وادی میں بہت سے کھنڈر تھے اور ان کھنڈرات میں ایک پتھر کا بہت اونچا بت نصب تھا اتنا اونچا کہ اس کے نیچے کھڑے ہونے سے اس کا سر نظر نہیں آتا تھا-
ہم سب اس بت کو دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ اس کی پشت کی طرف سے چند عورتیں آئیں-
سب نہایت خوبصورت تھیں اور ریشمی پوشاکیں نیز سونے کے ایسے زیورات جن میں جواہرات جڑے ہوئے تھے پہنے ہوئے تھیں لیکن ان کے درمیان جو عورت تھی وہ ان سب سے زیادہ حسین اور خوبرو تھی نیز اس کی پوشاک بھی ان سب سے زیادہ بیش قیمت اور بھڑک دار تھی-
اس کے زیورات آبدار موتیوں اور جواہرات کے تھے مگر وہ ایک طوق پہنے ہوئے تھی جس میں لعل و یاقوت جڑے ہوئے تھے-
اس کی چمک سے اس عورت کے رخسار دمک رہے تھے اور اس کا چہرہ چاند سے زیادہ جگمگا رہا تھا-
اس عورت نے میری طرف دیکھا اور کچھ اشارہ کیا-
میں اس کے پیچھے چل دیا-
جب ہم سنگی بت سے زرا فاصلے پر پہنچ گئے تو وہ عورت اور اس کے ساتھ والیاں سب ہنسیں اور میں چونک پڑا-
چونکتے ہی میری آنکھ کھل گئی-
موسی، راہب، کونٹ جولین نیز تمام لوگ خاموش بیٹھے حیرت بھری نظروں سے عبد العزیز کو دیکھ رہے تھے..................
*جاری ہے.......*

Share:

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 04)

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad.

      طارق بِن زِیاد
          تحریر:- صادق حسين
       قسط نمبر 4___________________Part 4

راہب اور کونٹ جولین دونوں آداب کر کے اٹھ کر چلے.
موسی نے اسی روز سات ہزار آزمودہ کار اور شیر دل نوجوانوں کا انتخاب کر کے انہیں تیاری کا حکم دیا-
اندلس کی مہم پر جانے کے لیے ہزاروں آدمی تیار بیٹھے تھے-
سب کا خیال تھا کہ کم سے کم پندرہ بیس ہزار لشکر تو بھیجا ہی جائے گا مگر ان کی حیرت اور مایوسی کی کوئی حد نہ رہی، جب انہوں نے دیکھا کہ صرف سات ہزار لشکر بھیجا جانا منظور ہوا ہے جو منتخب ہو گئے انہوں نے خوش ہو کر تیاریاں شروع کر دیں اور منتخب نہ ہوئے وہ ان کی خدمت کرنے لگے-
صرف ایک ہی دن درمیان میں تھا-
آنکھ جھپکتے ہی وہ بھی گزر گیا اور جمعہ کا وہ روز سعید آ گیا جب اندلس پر جانے والا لشکر روانہ ہونے والا تھا-"
حسب معمول مسلمان غسل کر کے اور نئے کپڑے پہن کر مسجد کی طرف جانے لگے-
نماز کے وقت سے بہت پہلے مسجد پر ہو گئی-

وقت پر اذان ہوئی نماز ہوئی اور سنتوں وغیرہ سے فارغ ہو کر موسی مکبر پر آئے-
انہیں دیکھتے ہی سب لوگ اس قدر خاموش ہو گئے کہ سانس لینے کی آواز صاف طور پر سنائی دینے لگی:
موسی نے کہا: مسلمانو قابل تعریف وہی ذات ہے جس نے یہ دنیا بنائی ہے-
جسے ہم دیکھتے ہیں اور وہ عالم جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے، وہ بنائے ہیں-
وہ خالق کل ہے اور قادر مطلق! نہ اسے نیند آتی ہے نہ تهکان محسوس ہوتی ہے، وہ اکیلا ہے، اس کی خدائی میں کوئی شریک نہیں ہے-
وہ ہمیشہ سے ہے اس وقت سے جب کوئی بھی نہ تھا اسی نے سب کچھ بنایا اور وہ ہمیشہ رہے گا، یعنی اس وقت بھی جب کہ تمام عالم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے-
زمین پهٹ جائے گی اور آسمان ٹکرے ٹکڑے ہو جائے گا-
سیاروں کا وجود باقی نہ رہے گا وہی عبادت کے لائق ہے اور یہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ ہم مسلمان اس کی عبادت کرتے ہیں-
یاد رکھو میں صرف مسلمان ہی توحید کے حامل اور مبلغ ہیں اور اب قیامت تک توحید مسلمانوں ہی میں رہے گی-
چونکہ اب کوئی نبی نہیں آئے گا، اس لیے یہی شریعت یہی قرآن شریف اور یہی مزہب توحید کا علمبردار رہے گا-
گزشتہ کتابوں یعنی توریت انجیل اور زبور وغیرہ میں بھی تحریفیں ہوتی رہیں-
انسان ان میں ردو بدل کرتے رہے-
قرآن مجید میں ایک نقطہ اور زیر زبر اور پیش کا بھی فرق نہیں آ سکے گا-
یہ اس لیے کہ اللہ نے خود اس کی حفاظت اپنے ذمہ لی ہے-
اللہ رب العزت قرآن شریف میں ارشاد فرماتا ہے:
ان نحن نزلنا الذکر و انا له لحفظون.
ترجمہ: بے شک ہم نے ہی اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں (سورۃ الحجر آیت نو)
خیال کرو اللہ سے زیادہ حفاظت کرنے والا کون ہے؟ یہی وجہ ہے کہ آج تک اس میں ایک نقطے کا فرق نہیں آیا اور نہ آئندہ آ سکتا ہے-
اس کے بعد قابل تعریف باعث تخلیق عالم فخر بنی آدم احمد مجتبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات گرامی ہے.
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہزاروں صعوبتیں، لاکھوں تکلیفیں برداشت کیں اور دنیا کے سامنے بے ڈهڑک ہو کر اللہ کا پیغام پہنچا دیا-
ہمیں فخر ہے کہ ہم اس رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی امت ہیں جو اللہ کا لاڈلا ہے-
فرشتوں کا حبیب ہے، دنیا والوں کا پیارا ہے-
ان پر درود سلام ایک بار نہیں ہزار بار نہیں لاکھوں بار ان گنت درود سلام-
اسلام کے بہادر فرزندو : دربار خلافت پر کونٹ جولین فریادی بن کر آئے ہیں-
اعلی حضرت خلیفہ المسلمین نے ان کی فریاد سن کر ان کی مدد کرنے کا وعدہ کر لیا ہے اور آج لشکر روانہ ہونے والا ہے جو اندلس سے بدکاری عیش پرستی بد امنی اور انسان پرستی مٹا دے گا-
دعا کرو کہ پروردگار عالم مجاہدین کو فتح عطا فرمائے-"
تمام مسلمانوں نے ہاتھ اٹھا کر نہایت خلوص اور سچے دل سے دعا مانگی-
اب موسی نے کہا:"
غالباً سب لوگوں کو اس بات کے معلوم کرنے کا اشتیاق ہو گا کہ اندلس جانے والے لشکر پر افسر یا سپہ سالار کس کو مقرر کیا جائے گا-
میرے پاس سینکڑوں درخواستیں تحریری اور زبانی آئی ہیں-
ہر شخص چاہتا ہے کہ اسے یہ اعزاز حاصل ہو-
اس میں میرا بیٹا عبد العزیز بھی ہے لیکن میں نے ایسے افسر کا انتخاب کیا ہے جو اس مہم کے لیے ہر طرح سے موزوں اور مناسب ہے-
وہ ایک بربری غلام ہے لیکن میں نے اسے آزاد کر دیا ہے-
اس کا نام طارق ہے"-
طارق بربر کا رہنے والا تھا- جب مسلمانوں نے بربر پر لشکر کشی کی تو وہ اپنے ملک کی حفاظت میں نہایت شجاعت و بسالت سے لڑا اور لڑتے لڑتے گرفتار ہو گیا،
چونکہ جو لوگ لڑائی میں گرفتار ہوتے ہیں وہ غلام بنا لئے جاتے ہیں، اس لیے طارق بھی غلام بن گیا اور موسی کے پاس رہنے لگا،
مسلمانوں کی ہم نشینی نے اسے مسلمان ہونے پر برانگنختہ کر دیا اور وہ مسلمان ہو گیا-
موسی نے اسے فورا آزاد کر کے مراکش کا گورنر بنا دیا-
دنیا کی کوئی قوم بھی ایسے ایثار ایسی مساوات کا مظاہرہ نہیں کرتی کہ ادنیٰ درجہ کے شخص کو جو اچھوت تھا مسلمان ہوتے ہی جلیل القدر عہدہ دے دیا گیا ہو-

ہندوستان میں تو اچھوتوں کی یہ حالت زار ہے کہ مجال نہیں وہ کسی مندر شوالہ اور دهارمک عمارت میں چلے جائیں-
       جاری ہے.......

Share:

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 05)

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad.
        طارق بِن زِیاد
          تحریر:- صادق حسين

      قسط نمبر 5_________________Part 05
یہ سات ہزار کا لشکر جس کا سپہ سالار طارق بن زیاد تھا اور اس کے دست راست طریف بن مالک اور مغیث کی سر کردگی میں  روانہ ہوا اور ساحل سمندر کے کنارے واقع ایک شہر جس کا نام سبتہ تھا پہنچ گیا۔ وہاں پر امیر بحر عبداللہ  اپنے بہری بیڑے کے ساتھ اس لشکر کے انتظار میں  کھڑا تھا ۔کاونٹ جولین لشکر کو دوسرے کنارہ تک پنچانے کے لیے ساتھ ہو لیا۔
سبتہ شہر کا حکم ایک عیسائی تھا جو کے مسلمانوں  کی عملداری میں  تھا۔  لشکر  سبتہ پہنچ کر بہری بیڑے  میں  سوار ہوا ۔اور ہسپانیہ کیطرف روانہ ہوا۔وسرے کنارہ پر پہنچ کر سمندر میں  جہاں تک بہری بیڑا جا سکتا تھا پہنچ گیا ۔جب طارق بن زیاد نے دیکھا کہ آگے بڑھنا نا ممکن ہو گیا تھا، چنانچہ لنگر ڈال دیئے گئے اور جہاز معمولی جھٹکے کے ساتھ رک گئے-
کشتیاں نکال نکال کر سمندر میں ڈال دی گئیں اور سب سے پہلے ان میں سامان بار کیا جانے لگا-
جولین نے کہا ہم آپ کی رہنمائی کے لیے یہاں تک آئے ہیں اب ہم رخصت ہونا چاہتے ہیں-"
طارق: اب آپ کہاں جائے گا؟ "
جولین: سیوطا-"
طارق: بہت اچھا لیکن ہاں ایک بات-
جولین: جی فرمائیے!
طارق: ہم اس ملک کے راستوں سے بالکل نا واقف ہیں اگر کوئی رہبر مل جاتا تو اچھا ہوتا! !!!
جولین: افسوس ہے کہ ایسا کوئی آدمی میرے علم میں نہیں ہے-
طارق: خیر اللہ مالک ہے-
جولین: ان پہاڑوں سے گزر کر آپ کھلے ہوئے میدان میں پہنچیں گے، سیدھے راستے بڑھتے چلے جائیے-
اندلس کے دارالسلطنت ٹولیڈو (طلیطلہ) میں پہنچ جائیں گے-
کسی رہبر کی ضرورت نہیں ہے-
طارق:اللہ خود ہی سبیل نکال دے گا-
جولین: ایک بات اور سن لیجیے-
طارق: کہیے؟ "
جولین: جزیرہ سبز سے جو راستہ اندلس کو گیا ہے وہاں شاہ رازرک کامشہورا سپہ سالار تدمیر کچھ لشکر لے کر ٹھہرا ہوا ہے-
زرا ہوشیار رہنے گا کہیں وہ آپ کو غافل پا کر حملہ نہ کر دے-"
طارق: کیا وہ سرحد کی حفاظت پر مامور ہے؟ "
جولین: نہیں بلکہ وہ اتفاق سے اس طرف آیا ہوا ہے-
طارق: اس کا لشکر کتنا ہے؟ "
جولین: مجھے صحیح تعداد تو معلوم نہیں ہے-
طارق: اور تعداد معلوم کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے-
جب اس ملک میں آ گئے ہیں تو پھر جتنی مرضی تعداد میں لشکر آ جائے مقابلہ پر موت یا فتح دونوں میں ایک حاصل کرنا ہے-"
جولین: اللہ آپ کو فتح دے، میرے سینے میں جو آگ بھڑک رہی ہے وہ اسی وقت بجھ سکتی ہے جب آپ فتح یاب ہوں اور وہ وسیہ کا رازرک مار ڈالا جائے-"
طارق: اطمینان رکھئیے اللہ ہر ظالم کو سزا دیتا ہے-"
جولین: مجھے بھی یہی توقع ہے میری بیٹی______بے عزتی کے غم میں گھل گهل کر مر رہی ہے-
طارق: اسے تسلی دیجئے! !!!
جولین: آپ کے لشکر کا حال جان کر اسے خود ہی تسلی ہو جائے گی"-
اچھا اب رخصت ہونا چاہتا ہوں-
طارق: اللہ حافظ-
جولین: دیکھئے تدمیر ایک چالاک اور تجربہ کار آدمی ہے اس سے ہوشیار رہیے گا-
طارق: ہمارا تو اللہ پاک پر بھروسہ ہے اور وہی ہمارا معاون مددگار ہے-
جولین: خدا آپ کی مدد کرے-
وہ ایک کشتی میں بیٹھ کر اپنے جہاز پر چلا گیا-
اس عرصے میں تمام سامان کشتیوں کے ذریعے ساحل پر پہنچا دیا گیا تھا اب شیر دل سپاہی ساحل پر جا رہے تھے جب تمام لشکر ساحل پر پہنچ گیا، تب طارق اور مغیث الرومی بھی کشتی پر بیٹھ کر کنارے پر جا پہنچے-
یہاں پہنچتے ہی طارق نے کہا-"
مسلمانوں اللہ وحدہ لا شریک بلند و بالا کی مہربانی سے ہم اندلس کے سر سبز ساحل پر پہنچ گئے ہیں-"
تم خوب جانتے ہو کہ مسلمانوں کی مدد اللہ کرتا ہے اور ان شاءالله ہم اس کی مدد سے پورے اندلس پر قابض ہو جائیں گے-
رات جب میں سو رہا تھا تو سرکار دو عالم فخر مدینہ سید المرسلین حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم خواب میں تشریف لائے اور مجھے اندلس کی فتح کی بشارت دی-
جیسا کہ میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہوں ایسا ہی فتح اندلس پر بھی یقین ہو گیا ہے مگر میں کسی پر جبر نہیں کرنا چاہتا-
سوچ لو کہ یہ مہم معمولی نہیں ہے، اس ملک کے چپہ چپہ پر ٹڈی دل عیسائی بکھرے ہوئے ہیں-
ہم راستوں سے نا واقف ہیں پیدل ہیں اور بے سروسامان ہیں، نیز تعداد میں بھی بہت کم ہیں ہم کو زیادہ محنت مشقت کرنا پڑے گی-
اس لیے میں ان کو جو واپس جانا چاہتے ہیں خوشی سے واپس جانے کی اجازت دیتا ہوں شوق سے واپس چلے جائیں بتایئں کتنے لوگ واپس جانا چاہتے ہیں؟ "
تمام مسلمان چپ رہے ایک بھی نہ بولا سب خاموش رہے طارق نے کہا کیا آپ لوگوں میں کوئی واپس نہیں جانا چاہتا؟ "
ہر طرف سے آوازیں آئیں-"
ہرگز نہیں، ہم میں سے ایک بھی واپس نہیں جائے گا-"
طارق: پھر سوچ لیجیے-"
سب نے کہا خوب سوچ لیا ہے ہم مسلمان ہیں اور ایک مسلمان کی آرزو شہادت کے کے سوا کیا ہو سکتی ہے!
طارق: یہی بات ہو سکتی ہے-اچها! جب آپ میں سے کوئی بھی واپس نہیں جانا چاہتا تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ جہاز بے کار ہیں-
ایک شخص: ہاں بالکل بے کار ہیں-
طارق: پھر بے کار کیوں رہنے دیا جائے؟
طارق: نہیں!
مغیث: اور کیا ارادہ ہے آپ کا؟
طارق: میں ان جہازوں کو آگ لگوانا چاہتا ہوں-
سب نے کہا ہاں جب یہ بے کار ہیں تو ضرور انہیں جلوا دیجئے-
طارق: اچھا تو تم جہازوں اور کشتیوں کو جلا دو-
کئی آدمی بڑھے اور انہوں نے کشتیاں، جہازوں میں ڈال کر جہازوں کو آگ لگا دی گئی اور تمام مسلمان ساحل پر کھڑے ہو کر ان کے جلنے کا تماشا دیکھنے لگے-
ممکن ہے کہ موجودہ دور کے لوگ کہیں کہ طارق نے غلطی کی کہ انہوں نے ان کے جہازوں کو جن کے ذریعے سے واپس جانا ممکن تھا، جلوا دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی اس کاروائی سے مسلمانوں ک
کہ ان کی اس کاروائی سے مسلمانوں کے دلوں میں جوش و امنگ کا دریا امڈ آیا تھا اور ہر مجاہد نے تہیہ کر لیا کہ وہ شہید ہو جائے گا یا فتح حاصل کرے گا-
واپسی کا خیال تک دل میں نہیں آنے دے گا-
مسلمان جزیرہ و خضر پر پانچویں رجب 93ہجری سہ شنبہ کے روز وہاں پہنچے تھے-
تھوڑے ہی عرصے میں تمام جہاز جل کر سمندر کی تہہ میں بیٹھ گئے-
طارق نے کہا-
مسلمانوں تمہاری واپسی کا اب کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا ہے-
اب صرف دو ہی باتیں ہیں یا تو شہید ہو جاو یا ملک فتح کرو-"
طارق چو بر کنارہ اندلس سفینہ سوخت
گفتند کار توبہ نکاہ خرد خطا است
دوریم سبب زروئے شریعت کجا ردا است
خندید و دست خویش بہ شمشیرِ بدو گفت
ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست
( اقبال رح)
سب نے کہا ان شاءالله ہم اندلس فتح کر کے ہی رہیں گے-
طارق: جب انسان کسی نیک کام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی مدد کرتی ہے اور وہ کامیاب ہوتا ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے-
سب نے کہا ان شاءالله! !!!!
طارق: اچھا اللہ کا نام لے کر بڑھو-
نصر من اللہ فتح قریب (فتح اللہ کی طرف سے ہے اور وہ قریب ہے)
سب نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا-
اس پر ہیبت نعرہ سے تمام پہاڑ اور ساحل سارا گونج اٹھا، اگرچہ اس جگہ کا نام لائنز
راک یا قلعہ الاسد تھا مگر جب سے طارق اس جگہ آئے اس وقت سے اس کا نام جبل الطارق مشہور ہو گیا اور آج بھی دنیا اسے جبل طارق کے نام سے پکارتی ہے-
اب یہ لوگ آگے بڑھے اور پہاڑ کو طے کرنے لگے-
تمام پہاڑ نہایت سر سبز و شاداب تھے-
طرح طرح کے چھوٹے بڑے درخت قسم قسم کے خوش رنگ اور خوشبو دار پھلوں کے پودے اور نئی نئی وضع کی گھاس تھی جس کی طرف بھی نظر جاتی تھی، گل پوش اور سبزہ زار چٹانیں نظر آتی تھیں-
اس جاذب نظر اور فرحت افزا پہاڑ کو عبور کر کے یہ لوگ دوسری طرف اس کے دامن میں اترے لگے-
ابھی تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ ایک شخص زرد رنگ کا ریشمی جبہ پہنے ملا وہ کچھ پریشان و مضطرب اور بے قرار تھا-
طارق نے اسے دیکھا-
انہوں نے مغیث الرومی سے کہا-"
یہ شخص عیسائی نہیں معلوم ہوتا-"
مغیث: میرا بھی یہی خیال ہے-
طارق: اسے بلوائیں اور دریافت کریں کون کون ہے اور یہاں کیوں پھر رہا ہے-
مغیث:بہتر ہے-
اسے بلوائیں اور پوچھیں کہ کون ہے؟ "
انہوں نے ایک سپاہی کو اسے بلانے کے لیے بھیجا-
سپاہی گیا اور اسے بلا لایا-
اس نے آتے ہی طارق کو سلام کیا-
طارق نے دریافت کیا"-
تم تنہا یہاں کیا کر رہے ہو؟ "
اس نے کہا میں آپ کی تلاش میں تھا"-
طارق نے حیران ہو کر پوچھا ہماری تلاش میں؟ "
وہی شخص جی ہاں!
طارق: گویا تمہیں ہمارے آنے کی توقع تھی؟
وہی شخص: جی ہاں-
طارق: گویا تمہیں ہمارے آنے کی توقع تھی؟ "
وہی شخص: مجھے بتایا گیا تھا! !!
طارق: کس نے بتایا تھا؟ "
وہی شخص:میں سب کچھ عرض کرتا ہوں-
میں مظلوم ہوں ظالم عیسائیوں کا ستایا ہوا ہوں کیا آپ میری داستان سنے گے؟
طارق: ضرور سنو گا ہم مظلوموں کے حامی ہیں-
وہی شخص: آپ میری داد رسی کریں گے؟ "
طارق: ان شاءالله اچھا تم اپنی داستان سناو؟"
وہی شخص: بہتر ہے-
طارق مغیث الرومی کھڑے ہوئے ہمہ تن متوجہ ہو کر اس کی طرف دیکھنے لگے________________________
عیسائی لشکر________یہ زرد پوش اڈهیر عمر کا آدمی تھا-
خوش رنگ اور بیش قیمت پوشاک پہنے تھا-
اس کے گلے میں جواہرات کا نہایت قیمتی ہار پڑا تھا-
اس نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور کہا میں ایک بد بخت یہودی ہوں-
میرا نام امامن ہے-
قرطبہ کا رہنے والا ہوں جواہرات کی تجارت کرتا ہوں میں عرصہ سے یہاں مقیم ہوں اور تمام ملک میں میری ساکھ ہے، عزت ہے-
اللہ کی دی ہوئی دولت بھی کافی ہے مگر اس ملک کا قانون نرالا ہے-کوئی آئین نہیں ہے کوئی ضابطہ نہیں ہے-
حکام جس کے پاس دولت دیکھتے ہیں لوٹ لیتے ہیں جس کی بیوی حسین یا لڑکی دیکھتے ہیں تو اسے چھین لیتے ہیں-"
طارق نے قطع کلام کرتے ہوئے کہا شاید تمہاری دولت چھین لی گئی ہے-"
امامن: جی نہیں دولت چھین لیتے تو مجھے اتنا رنج نہ ہوتا-
طارق: تو کیا بیوی لے اڑا ہے؟ "
امامن: عرصہ ہو گیا میری بیوی کو فوت ہوئے-
طارق: اچھا تو پھر بیٹی کو چھین لیا ہے؟ "
امامن نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا-"
جی ہاں میری مرحومہ بیوی کی نشانی میری نور نظر میرے دل کا چین میرے کلیجے کے ٹکڑے کو چھین لیا ہے-"
یہ کہتے ہوئے امان کا دل بھر آیا، آنکھوں میں آنسو چھلک آئے-
طارق مغیث اور دوسرے لوگوں کو بڑا افسوس ہوا-
طارق نے کہا"-
امامن غم نہ کر-
ان شاءالله تمہاری بیٹی کو واپس لا کر تمہارے دل کو ٹھنڈا کیا جائے گا"-
امامن: مجھے آپ کی ذات سے یہی امید ہے-
طارق: کون لے گیا ہے آپ کی بیٹی کو؟
امامن: حضور جب سے رازرک اس ملک کا بادشاہ بنا ہے تب سے لوگوں کے جذبات جان و مال اور آبرو خطرہ میں پڑ گئے ہیں-
وہ اس درجہ سیہ کار ہے کہ اس نے ان لڑکیوں کی بھی آبرو ریزی کرنا شروع کر دی ہے جو بادشاہ بیگم کے پاس تہزیب و تربیت حاصل کرنے کے لیے آتی ہیں-
ایک لڑکی فلورنڈا کو جو کونٹ جولین کی بیٹی ہے ہوس کاری کی بھینٹ چڑھا گیا ہے-
طارق: ہم کو معلوم ہے! !!!!
امامن: اس نے ملک میں کچھ عورتیں اور لوگ چھوڑ دئیے ہیں وہ جس عورت یا لڑکی کو حسین دیکھتے ہیں لالچ دے کر اور ڈرا دھمکا کر لے جاتے ہیں-"
طارق: رازرک کی عمر کیا ہے؟ "
امامن: بڈھا ہے حضور بڑھاپے میں خبیث کو سیہ کاری کی سوجھی ہے-
طارق: لیکن لوگ اسے سمجھاتے کیوں نہیں-
امامن: حضور ہم یہودیوں کی حالت قابل رحم ہے سب سے زیادہ ہم تیر ستم کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں دولت ہماری لوٹی جا رہی ہے عزت ہماری پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے-
طارق: مگر وہ تباہی اور بربادی کے ساتھ کھیل رہا ہے-
امامن: اللہ کرے کہ وہ کہیں جلد غارت ہو-
طارق: اللہ کی گرفت سخت ہے وہ ہر بدکار قوم کو تباہ کر دیتا ہے-
امامن: ہم یہودیوں کا بھی یہی ایمان ہے-
طارق: تم نے یہ نہیں بتایا کہ تمہاری لڑکی کو کون لے گیا ہے-
امامن: شاہ رازرک کا ایک معتمد خاص لے گیا ہے، میں اس کا نام نہیں جانتا-
طارق: کیا بہکا کر لے گیا ہے-
امامن: نہیں حضور میرے سامنے اور میرے آدمیوں کی موجودگی میں زبردستی لے گیا-
آہ جس وقت اسے لے جایا جا رہا تھا، وہ رحم طلب نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی، اس کی معصومانہ نگاہیں کہہ رہی تھیں کہ اس کی امداد کروں اور اسے ان درندوں سے بچاوں-"
امامن کا دل بھر آیا-
آنکھوں میں آنسو ڈبڈبائے نیز اس کا گلا رندھ گیا-
طارق نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا:
غم نہ کر امامن! !
دیکھو جب انسان زیادہ غمگین زیادہ پریشان اور زیادہ متفکر رہتا ہے تو وہ کچھ نہیں کر سکتا اور تم کو اپنی لڑکی کو رہائی دلانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا ہے-
اپنے دل میں جوش انتقام پیدا کرو اور ظالموں سے انتقام لو"-
امامن: ضرور لوں گا. انتقام لینے کے لیے تو میں نے اسی وقت قسم کھائی تھی جب وہ وحشی میری قرتہ العین کو کو میری آنکھوں کے سامنے لے گئے تھے-
طارق: مجھے افسوس ہے کہ میں تمہاری دل گداز داستان سننے کی فرمائش کر کے تمہارے دل کو دکھانے کا باعث بنا-"
امامن:اگرچہ اس روح فرسا داستان کو سناتے ہوئے مجھ پر غم و اندوہ کا غلبہ تھا مگر اس سے میرے غم کا کچھ بار بھی ہلکا ہو جاتا ہے اور میرے محترم آپ کو تو میں خود اپنی درد انگیز داستان سنانا چاہتا تھا تا کہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ عیسائی کیا بن گئے ہیں-
طارق: جب تو تم سناؤ اگرچہ تمہاری داستاں سن کر ہمارے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں....
      جاری ہے......

Share:

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 09)

Angrez Nahi Jante the ke Tarik kisi Sher ke beta hai.
      طارق بِن زِیاد
          تحریر:- صادق حسين

       قسط نمبر 9__________________Part 9

عیسائی پوری قوت سے لڑ رہے تھے-
طارق اس وقت اپنی ہستی کو بھولے ہوئے تھے نیز لڑائی میں کچھ ایسے مصروف تھے کہ وہ یہ بھی نہیں دیکھ رہے تھے کہ ان کے ساتھ کوئی مسلمان ہے بھی یا اکیلے لڑ رہے ہیں-
اکثر و بیشتر ایسا ہی ہوا کہ وہ تنہا ہو جاتے اور انہوں نے تنہا ہی حملہ کر کے دشمنوں کی صفوں کو الٹ دیا بیسویں عیسائیوں کو مار ڈالا اور دسیوں گھوڑوں کو مجروح کیا-
عیسائی ان کو اس طرح سے لڑتے دیکھ کر تعجب کر رہے تھے-
وہ نہیں جانتے تھے کہ طارق کسی شیر کی اولاد ہے اور کس قدر ان میں جوش و خروش اور قوت ہے-"
وہ جب کسی پر حملہ کرتے اس کی ڈھال کو پھاڑ کر سر دو پھانکیں کر کے حلق سے سینے تک چیر دیتے تھے-
ایک مرتبہ انہوں نے عیسائیوں کے غول پر حملہ کر دیا-
قریب پچاس ساٹھ عیسائی تھے انہوں نے پہلے ہی حملے میں دو کو مار ڈالا اور دوسرے میں بھی ایک کو ختم کر دیا-
عیسائیوں کو یہ دیکھ کر بڑا غصہ آیا چونکہ طارق تنہا تھے اس لیے عیسائیوں کا حوصلہ بڑھ گیا اور انہوں نے طارق کو نرغے میں لے کر چاروں طرف سے تلواروں کا مینہ برسا دیا اگرچہ طارق بری طرح سے گھر چکے تھے مگر وہ گھبرائے نہیں نہ ہی بے اوسان ہوئے بلکہ نہایت استقلال اور ہمت سے ڈٹے رہے-
وہ جس طرح جست لگا کر جاتے اور جس پر حملہ کرتے اسے قتل کئے بغیر نہ چھوڑتے تھے انہوں نے تھوڑی دیر میں دس پندرہ آدمیوں کو مار ڈالا-
یہ دیکھ کر عیسائیوں کے حوصلے پست ہو گئے اور ان سے بچ بچا کر لڑنے لگے لیکن وہ کب بچنے دیتے تھے-
وہ اور بھی تیزی سے جھپٹ جھپٹ کر حملے کرنے لگے-
چونکہ ابھی تک گھمسان کی جنگ ہو رہی تھی اور ہر شخص مصروف پیکار تھا اس لیے کسی کو بھی طارق کے حال سے آگاہی نہ تھی لہذا کوئی بھی ان کی مدد کے لیے نہیں آیا مگر اللہ نے ان کو کچھ ایسی قوت عطا فرمائی تھی کہ ان کو مدد کی ضرورت پیش نہ آئی اور انہوں نے آدھے عیسائیوں کو تو مار ڈالا اور آدھے ڈر کر ادھر ادھر دبک گئے-
انہیں اس معرکہ میں اتنی محنت و مشقت کرنا پڑی کہ جب عیسائی ان کے سامنے سے ہٹے تو وہ پسینے میں نہا رہے تھے-
سارے چہرے پر پسینے کے قطرے اس طرح سے بہہ رہے تھے کہ جیسے کہ انہوں نے وضو کیا ہو اور وضو کر کے منہ پوچھنے کی نوبت نہ آئی ہو-
وہ کھڑے ہو کر سستاتے لگے-
اس وقت ان کے ہاتھ بھی شل ہو چکے تھے کھڑے کھڑے ان کی نگاہ آسمان کی طرف اٹھ گئی-
انہوں نے دیکھا کہ آفتاب مغرب کی جانب جھک گیا ہے اور ظہر کا وقت تنگ ہو رہا ہے چونکہ ہر مسلمان مصروف پیکار تھا اور عیسائی و مسلمان مخلوط ہو رہے تھے اس لیے یہ ناگریز ہو گیا تھا کہ نصف لشکر کو پیچھے ہٹا کر نماز شروع کر دی جائے-"
یہ دیکھ کر طارق نے آہ بھرتے ہوئے کہا-"
آہ-"
آج ظہر کی نماز قضا ہو رہی ہے-"
انہوں نے آسمان کی طرف منہ کر کے کہا اللہ مسلمانوں کی مدد کر دیکھ تیری عبادت کرنے والے آج ظہر کی نماز بھی نہیں پڑھ سکے ہیں-"
چند لمحے سستانے کے بعد وہ پھر سے جنگ کے لیے تیار ہو گئے انہوں نے بلند آواز فرمایا:
مسلمانوں یہ کیا کم ہمتی ہے لڑائی کو کیوں طول دے رہے ہو؟ "
کیوں نہیں کوشش کر کے دشمنوں کو ختم کر ڈالتے؟ "
یہ کہتے ہی انہوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور ہر شخص نے ہر جگہ نئے جوش و جذبے سے حملہ کر دیا-
خود طارق بھی دشمنوں پر جا ٹوٹے اور لڑائی شروع ہو گئی عیسائی بھی شور و غل مچا رہے تھے مگر مسلمانوں کے نعرہ کی آواز میں ان کا غل جذب ہو کر رہ گیا تھا-
طارق نے دور ہی سے دیکھ لیا تھا کہ تدمیر اپنے ساتھیوں کو جوش دلا کر لڑائی کو برانگیختہ کر رہا تھا انہوں نے ان لوگوں پر حملہ کر دیا جو ان کے سامنے تھے اور نہایت صفائی سے سپاہیوں کو مار کر تدمیر کے پاس جانے کا راستہ صاف کر دیا-
تدمیر دور ہی سے کھڑا ان کی لڑائی کی کیفیت دیکھ چکا تھا-"
اسے خود بھی حملہ کرنے کی جرات نہیں ہوئی تھی اب جبکہ طارق خودہی اس کے سامنے آ گئے تو اسے مجبوراً مقابلہ پر آنا پڑا-"
اس نے فوراً حملہ کیا-
طارق کی تلوار نے ڈھال کو پھاڑ ڈالا تدمیر گھبرا گیا اس نے اپنی ڈھال طارق کے سر پر دے ماری-
طارق نے جلدی سے اس کی ڈھال کے وار کو روکا اور دوسرا حملہ کرنے کے لیے آگے بڑھا تدمیر سمجھ گیا کہ اگر وہ زرا سی دیر بھی وہاں رکا تو اس کی موت یقینی ہے-
لہذا اس نے جلدی سے گھوڑا لوٹایا اور نہایت تیزی سے ڈورا کچھ دیر تک طارق نے اس کا پیچھا کیا مگر وہ گھوڑے پر تھا اور یہ پیدل اس لیے وہ دور نکل گیا مجبور ہو کر یہ لوٹے اور لڑنے والے عیسائیوں پر ٹوٹ پڑے-
عیسائیوں نے تدمیر کو بھاگتے ہوئے دیکھ لیا تھا-
ان کی ہمتیں ٹوٹ گئی تھیں حوصلے پست ہو گئے اور وہ بد حواس ہو کر نہایت تیزی سے بڑے بے اوسان ہو کر بھاگے-
مجاہدین اسلام نے ڈور کر ان کا تعاقب کیا اور جہاں تک بھی ان کا بس چلا اور موقع ملا انہیں مارتے کاٹتے ان کے پیچھے لگے چلے گئے؛ لیکن جب عیسائی دور نکل گئے تب طارق نے بلند آواز کہا-"
مسلمانوں واپس لوٹ آو ابھی وقت ہے کہ ہم ظہر کی نماز پڑھ لیں-"
اس آواز کو سنتے ہی جس جس مسلمان نے سنا اس نے پکار کر دوسروں کو اس سے آگاہ کر دیا اس طرح سے تمام مسلمانوں نے سن لیا اور سب واپس لوٹ آئے انہوں نے میدان جنگ میں ایک طرف جا کر نماز کی تیاری شروع کر دی-
وضو کیا اور نماز پڑھنے میں مشغول ہو گئے
★★★★★★★★★★
☆☆☆
گرفتاری☆☆☆
تدمیر میدان جنگ سے بھاگ کر اپنے خیمے میں پہنچا-
جب وہ اپنے خیمے پر آیا تو اس نے بلقیس امامن اور اسمٰعیل کو دیکھا اور دیکھتے ہی کہا-"
اچھا تو تم اس پیکر جمال کو لے جانا چاہتے ہو؟ "
امامن بلقیس اور اسمٰعیل اسے دیکھ کر ٹھٹھک گئے تھے-
تدمیر نے پھر کہا-"
امامن تم اپنی بیٹی کو لے جانا چاہتے تھے؟ "
امامن: جی ہاں! !!!
تدمیر: کیا تم نہیں جانتے تھے کہ اسے شہنشاہ کے پاس لے جانا ہے اور وہ اسے دیکھنے کے لیے بے قرار ہیں-"
امامن: کیا تم نہیں جانتے کہ باپ کو اولاد سے کس قدر محبت ہوتی ہے؟ "
تدمیر: اگر تم اس سے محبت کرتے ہو تو اس کی بہبود کو مد نظر رکھ اس کی فلاح اسی میں ہے کہ یہ شہنشاہ کی منظور نظر بن جائے-"
امامن: نہیں اس کی اور اس کے....
       *جاری ہے.......*

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS