find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts sorted by date for query Dusri shadi. Sort by relevance Show all posts
Showing posts sorted by date for query Dusri shadi. Sort by relevance Show all posts

Dusri Shadi ke Masail. Dusri, Tisri aur Chauthi Shadi karne ki Haisiyat rakhte hue bhi Shadi nahi karna.

Dusri Shadi ke Masail aur Muashera.

Kya Dusri shadi ki Haisiyat rakhte hue bhi agar Biwi razi na ho to Shauhar Dusri Shadi kar sakta hai?

Nikah se jude masayel janne ke liye click kare. 

Aaj jyada Umar hone ke bawjood bhi Padhi likhi ladkiyo ki Shadi kyo nahi ho rahi hai? 

Kya Hame Dusri Shadi ko Aam nahi kar dena chahiye? 

Mard ke Liye 4 Shadiya kyu jaruri hai? 

Dusri Shadi ki Haisiyat rakhte hue bhi Biwi Shadi karne nahi deti. 

 


بِسْـــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّـــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَـــــةُاللهِ وَبَرَكـَــــــاتُه

➖ دوسری شادی کے مسائل ➖

شادی انبیائے کرام کی سنت ہے ، اللہ کا فرمان ہے :
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّن قَبْلِكَ وَجَعَلْنَا لَهُمْ أَزْوَاجًا وَذُرِّيَّةً وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلاَّ بِإِذْنِ اللَّهِ لِكُلِّ أَجَلٍ كِتَابٌ(الرعد: 38)

ترجمہ: ہم آپ سے پہلے بھی بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا ،کسی رسول سے نہیں ہوسکتا کہ کوئی نشانی بغیر اللہ کی اجازت کے لے آئے ،ہر مقررہ وعدہ کی ایک لکھت ہے ۔
جو مسلمان نبی کی اس سنت سے اعراض کرے وہ مسلمان نہیں ہے ۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انِّكاحُ من سنَّتي ، فمن لم يعمَل بسنَّتي فليسَ منِّي ، وتزوَّجوا ، فإنِّي مُكاثرٌ بِكُمُ الأممَ ، ومن كانَ ذا طَولٍ فلينكَح ، ومن لم يجِد فعلَيهِ بالصِّيامِ ، فإنَّ الصَّومَ لَهُ وجاءٌ(صحيح ابن ماجه:1508)

ترجمہ: نکاح میرا طریقہ ہے اور جو شخص میرے طریقے پر عمل نہیں کرتا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ شادیاں کیا کرو کیونکہ میں تمہاری کثرت کی بنا پر دوسری امتوں پر فخر کروں گا، جو (مالی طور پر) استطاعت رکھتا ہو وہ (ضرور) نکاح کرے اور جسے (رشتہ) نہ ملے، وہ روزے رکھا کرے کیونکہ روزہ خواہش کو کچل دیتا ہے۔

جس نے طاقت رکھتے ہوئے شادی کرلی اس نے سنت پر عمل کیا ،جو طاقت رکھنے کے باوجود شادی نہیں کرتا وہ تارک سنت ہے ،اس میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو شادی کی عمر کو پہنچ گئے اور گناہ میں واقع ہونے کا خطرہ ہے مگر بعض دنیاوی مقاصد کی برآوری کے لئے شادی میں ٹال مٹول کرتے ہیں ۔ مخلوط تعلیم حاصل کرنے والے یا اختلاط کی جگہوں پہ رہنے سہنے والے اس قسم کے بہت سے لوگ ناجائز طریقے سے شہوت رانیاں کرتے ہیں۔ اس مرحلے میں سرپرست کی ذمہ داری ہے کہ وقت پہ اپنے ماتحت کی شادی کرا دے تاکہ شرمگاہ کی حفاظت ہوسکے جوکہ نکاح کے ایک اہم مقاصد میں سے ہے ۔

نبی ﷺ نے فرمایا:
يا معشرَ الشبابِ ! من استطاع منكم الباءةَ فليتزوجْ . فإنه أغضُّ للبصرِ ، وأحصنُ للفرجِ . ومن لم يستطعْ فعليه بالصومِ . فإنه له وجاءٌ(صحيح مسلم:1400)

ترجمہ : اے جوانوں کے گروہ! تم میں سے جو کوئی شادی کی استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کر لے، یہ نگاہ کو زیادہ جھکانے والی اور شرمگاہ کی زیادہ حفاظت کرنے والی ہے اور جو استطاعت نہیں رکھتا تو وہ روزے کو لازم کر لے ،یہ خواہش کو قابو میں کرنے کا ذریعہ ہے۔

اگر مرد نے ایک خاتون سے شادی کرلی تو اس نے سنت پر عمل کرلیا ، رہا مسئلہ دوسری شادی کا تو یہ بھی مردوں کے لئے مباح ہے ۔ قرآن میں اللہ نے پہلے دو شادی کا ہی ذکر کیا ہے پھر تین، پھر چار، ان میں انصاف نہ کرسکنے کی صورت میں ایک کو اختیار کرنے کا حکم ملا۔

فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً(النساء:3)

ترجمہ: اور عورتوں میں سے جوبھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو، دو دو، تین تین ، چار چار سے ،لیکن اگر تمہیں برابری نہ کرسکنے کا خوف ہوتو ایک ہی کافی ہے ۔

تعدد ازدواج کی حکمت :
۔ • ─┅━━━━━━━┅┄ •
پہلے دھیان میں یہ رہے کہ شادی کی حکمت مسلمانوں کی تعداد بڑھانا جس پر نبی ﷺ بروز قیامت فخر کریں گے ، اسی طرح شرمگاہ کی حفاظت بھی شادی کے مقصد میں سے ہے ۔
٭ایک سے زائد شادی حکم الہی ہے اور اللہ کا کوئی حکم کسی مصلحت کے بغیر نہیں خواہ ہماری محدود عقل اس کا ادراک کرے یا نہ کرے۔

٭ قدرتی طور پر دنیا میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہے اور باہر مردوں کے کام کاج ،مسائل ،جھگڑا لڑائی ،قتل و فساد کے سبب مرد ہی کا زیادہ نقصان ہوتا ہے، اگر ہر آدمی ایک شادی پر اکتفا کرے تو بقیہ عورتوں کی شادی کا مسئلہ پیچیدہ ہوجائے گا۔ آج جہیز کی لعنت کا ایک سبب لڑکیوں کی کثرت ہے ، اگر لڑکیاں کم ہوتیں تو لڑکے پیسہ دے دے کر شادی کرتے۔ لڑکیوں کی کثرت کوئی مسئلہ نہیں ہے بشرطیکہ لوگ متعدد شادیاں کرے ، آج لوگوں نے شادی چھوڑ کر زنا کا راستہ تلاش کیا تو اللہ نے ان میں ایڈز کی بیماری پھیلا دی۔
٭ خواتین پہ بعض مخصوص مراحل آتے ہیں اس وقت مرد اپنی بیوی سے دور رہتا ہے اس صورت میں کثرت جماع والا شخص یا تو دوسری شادی کرے گا یا زنا کا راستہ اختیار کرے گا یا پھر بیوی ہی سے ناجائز طریقے سے فائد ہ اٹھائے گا ، ان تمام صورتوں میں دوسری شادی جائزو اولی ہے ۔

٭ بعض مردوں میں قدرتی طور پر شہوت زیادہ ہوتی ہے ایسے حضرات کے لئے بھی جائز راستہ دوسری شادی ہی ہے ورنہ غلط راستہ اختیار کرے گا۔

٭بعض لوگوں کو ایک بیوی سے اولاد نہیں ہوتی رہتی ہے ، مایوسی میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے مگر دوسری شادی سے بہت سارے لوگ صاحب اولاد ہوجاتے ہیں۔
٭ بیوہ یا مطلقہ یا عمر رسیدہ عورت (کسی بیماری کے سبب یا عیب کے سبب یا رشتہ طے کرتے کرتے کافی وقت گزرگیا اور آج ایسا بہت دیکھنے کو ملتا ہے خصوصا جو لڑکی کالی یا معذور یا غریب ہو)سے شادی کرنا لوگ معیوب سمجھتے ہیں ، اگر ان سے کوئی شادی کرلے تو ایسے مرد کو حقارت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ ایسی عورتوں سے شادی کرنا جہاں ان کے ساتھ احسان وسلوک ہوتا ہے وہیں شادی کے مقاصد بھی پورے ہوتے ہیں۔
٭ تعدد ازدواج سے پر فتن دور میں شرمگاہوں کی حفاظت پر قوی مدد ملتی ہے ۔
فضیلةالشیخ مقبول احمد سلفی حفظہ اللہ

کیا دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لازم ہے
─┅━━━━━━━━━━━━━━━┅
ایک سے زيادہ شادی کرنے کے لیے پہلی بیوی کی رضامندی شرط نہيں ، اور نہ ہی خاوند پر فرض ہے کہ وہ جب دوسری شادی کرنا چاہے تو اپنی پہلی بیوی کو راضی کرے ، لیکن یہ مکارم اخلاق اور ایک اخلاقی فریضہ اور اس سے حسن معاشرت ہے کہ وہ اس کا بھی خیال رکھے اور اس کی تکلیف کوکم کرنے کی کوشش کرے جوکہ اس جیسے معاملے میں عورت کی طبیعت میں شامل ہوتی ہے ۔
اور اسے اچھی اور بہتر ملاقات اور ملنے میں مسکراتے چہرے اور اچھی بات کہہ کر اور اگر کچھ مال میسر ہو اور اس کی ضرورت تو وہ بھی دے کر راضی کیا جائے ۔ دیکھیں فتاوی اسلامیۃ
( 3 / 204 ) ۔
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كا كہنا ہے:
" خاوند پر فرض نہيں كہ اگر وہ دوسرى شادى كرنا چاہتا ہے تو پہلى بيوى كو راضى كرے، ليكن يہ مكارم اخلاق اور حسن معاشرت ميں شامل ہے كہ وہ پہلى بيوى كو راضى كرے، اور اس كے احساسات كو سمجھ كر اس تكليف كو كم كرنے كى كوشش كرے، كيونكہ عورتوں كى طبيعت ميں شامل ہے كہ وہ اس كو راضى و خوشى تسليم نہيں كرتيں، خاوند پہلى بيوى سے خوش رہے اور بہتر طريقہ سے ملے اور اچھى بات چيت كے ذريعہ اس كا دل بہلائے اور اسے راضى كرے، اور اسى طرح اگر اسے مال دينے كى ضرورت ہو اور اس كے پاس مال ہو تو بيوى كو مال دے كر اسے راضى كرے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے " انتہى
الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 18 / 402 ).

مرد کو دوسری شادی کی ضرورت ہے ۔ جبکہ پہلی بیوی دیندار ، فاضلہ اور
حقوق نبھانے والی وفا شعار ہے ، لیکن دوسری شادی کی بات پر طلاق مانگتی ہے
  ─┅━━━━━━━━━━━━━━

عورت كے ليے يہ جاننا ضرورى ہے كہ اس كا اللہ سبحانہ و تعالى كے احكام ميں سے كسى حكم كو ناپسند كرنا بعض اوقات كفر بھى ہو سكتا ہے، يا پھر وہ اسے كفر كى حد تك لے جا سكتا ہے جس كى بنا پر دين اسلام سے ہى خارج ہو جائے.
شيخ صالح فوزان حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

جو شخص خود بھى چار شادياں كرنا ناپسند كرے اور دوسروں كو بھى اسے ناپسند كرنے كى ترغيب دلائے ايسے شخص كا حكم كيا ہو گا ؟

شيخ كا جواب تھا:
" كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ اللہ سبحانہ و تعالى كے مشروع كردہ كو ناپسند كرے اور لوگوں كو اس سے نفرت دلائے، ايسا كرنا دين اسلام سے ارتداد كہلاتا ہے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
يہ اس ليے كہ انہوں نے اللہ تعالى كے نازل كردہ كو ناپسند كيا تو اللہ نے ان كے اعمال ضائع كر دے محمد ( 9 ).
چنانچہ معاملہ بڑ خطرناك ہے، اور اس كا سبب يہ ہے كہ ايسے لوگ كفار كى باتوں سے متاثر ہوتے ہيں، حالانكہ كفار كا تو كام ہى دين اسلام سے نفرت دلانا ہوتا ہے، اور وہ ايسے شبھات پيدا كرنے كى كوشش كرتے ہيں جو مسلمان كے ليے نقصان دہ ہوں اور بے وقوف قسم كے ايسے مسلمانوں ميں رواج پائيں جن پر دين اسلام كے احكام مخفى ہيں.
اور ان دينى احكام و قوانين ميں چار شادياں كرنا بھى شامل ہے، كيونكہ اس ميں مرد سے پہلے عورت كے ليے مصلحت پائى جاتى ہے "
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 3 / 251 ).

ليكن يہ لازم نہيں كہ جب خاوند دوسرى شادى كرنے لگے تو وہ غيرت كھاتے ہوئے يا پھر ناراض ہو كر وہ اس شرعى قانون كو ہى ناپسند كرنے لگے؛ بلكہ كچھ عورتيں تو ايسى بھى ہيں جنہيں يہ معلوم ہے كہ يہ چيز اللہ كى شريعت ميں سے ہے اور اللہ نے جو شريعت نازل كى ہے اس پر ايمان بھى ركھتى ہے اور اس كے دين كو بھى پسند كرتى ہے.
ليكن پھر وہ نفس كى كمزورى كى اور اللہ كى حلال كردہ كو حرام كيے يا پھر اس كى شريعت كو ناپسند كيے بغير خاوند كى ايك سے زائد شادياں كرنے كو ناپسند كرتى ہے.
خاوند كى جو يہ نيت ہے كہ وہ كسى بيوہ يا مطلقہ يا كسى ايسى عورت سے شادى كر لے جس كى شادى كى عمر جاتى رہى ہے اس پر اس كا مشكور ہونا چاہيے، يہ نيت قابل تعريف ہے، اور لوگوں كى جانب سے اسے ايسا كرنے كى ترغيب دلائى جانى چاہيے تھى، اور اسى طرح بيوى بھى اسے ابھارتى كہ تم ايسا ضرور كرو، كيونكہ يہ تو بہت ہى اچھے اخلاق ميں شامل ہوتا ہے.

بيوى كو چاہيے كہ وہ جو كچھ اپنے ليے پسند كرتى ہے وہى دوسرے كے ليے بھى پسند كرے، وہ اپنے ليے تو پسند كرتى ہے كہ اس كا خاوند بھى ہو اور اولاد بھى، تو اسى طرح اسے يہ اپنے علاوہ كسى دوسرى عورت كے ليے پسند كرنا چاہيے.

بلكہ اگر اس كى بيٹى اس حالت ميں ہوتى جس ميں دوسرى خواتين ہيں تو وہ تمنا كرتى كہ كاش اس كا بھى كوئى خاوند ہو جو اس كى سترپوشى كرے چاہے وہ شادى شدہ ہى ہو، اور چاہے ايك سے زائد شاديوں والا ہى ہو، اس ليے اسے علم ہونا چاہيے كہ عورتوں اور ان كى ماؤں كا احساس اور جذبہ يہى ہوتا ہے.
ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس عورت نے بھى بغير كسى حرج كے اپنے خاوند سے طلاق طلب كى تو اس پر جنت كى خوشبو حرام ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2226 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2055 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ حديث نمبر ( 1685 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ہم عورت كو نصيحت كرتے ہيں بلكہ ہر اس عورت كو جس كے خاوند نے دوسرى شادى كر لى ہے كہ پہلى بيوى كو اللہ كے حكم پر راضى ہونا چاہيے، اور اللہ تعالى سے دعا كرنى چاہيے كہ اس سلسلہ ميں اس كے دل ميں جو غيرت پائى جاتى ہے اسے ختم كر دے، اور اسے صبر و تحمل سے كام ليتے ہوئے اپنے خاوند كے پاس ہى رہنا چاہيے.

کیا خاوند کے لیے چھپ کر شادی کرنا جائز ہوگا
۔❖ • ─┅━━━━━━━━━━━━┅┄ • ❖
خاوند پر واجب نہيں كہ وہ اپنى بيويوں كو بتائے كہ وہ اور شادى كريگا، ليكن اگر شادى كر لے تو پھر اسے بتانا واجب ہے؛ كيونكہ بيويوں كو شادى كے بارہ ميں نہ بتانے سے وہ سوء ظن اختيار كر كے سمجھيں گى كہ اس كے كسى سے غلط تعلقات ہيں؛ اور اس ليے بھى كہ بيويوں كو تقسيم ميں عدل كا مطالبہ كرنے كا حق حاصل ہے.
اور يہ اسى صورت ميں ہو سكتا ہے جب انہيں علم ہو كہ ان كے علاوہ اور بھى بيوى ہے، اور نئى بيوى كو بھى پہلى بيويوں جيسا ہى حق حاصل ہے.
اس ليے كسى بھى مسلمان شخص كے شايان شان اور لائق نہيں كہ وہ نكاح كے مقاصد اور حكمت اور احكام كو بھول جائے، اور اپنى شہوت كے پيچھے پڑ كر يہاں اور وہاں شہوت پورى كرتا پھرے، اور پھر مصيبت تو يہ ہے كہ وہ اپنے اس عمل كو اسلام كى طرف منسوب كرتا پھرے!!

پہلى بيوى کا واپس آنے كیليے دوسرى بيوى كوطلاق دينےكى شرط
─┅━━━━━━━━━━━━━━┅┄
پہلى بيوى كے ليے اپنى سوكن كى طلاق طلب كرنا حلال نہيں، سنت نبويہ صلى اللہ عليہ وسلم ميں اس كى بالنص ممانعت موجود ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كسى بھى عورت كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنى بہن كى طلاق كا مطالبہ كرے تا كہ اس كا برتن الٹ دے اسے تو وہ كچھ ملے گا جو اس كے مقدر ميں ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4857 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1413 ).

اور ايك روايت كے الفاظ ہيں:
" اور كوئى عورت بھى اپنى بہن كى طلاق كا مطالبہ مت كرے تا كہ وہ اس كے برتن ميں جو كچھ ہے وہ الٹ لے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2574 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1413 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" قولہ ( لا يحل ) اس كى حرمت واضح اور ظاہر ہے " انتہى ديكھيں: فتح البارى ( 9 / 220 ).
اور ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" عورت كے شايان شان اور لائق نہيں كہ وہ اپنى سوكن كى طلاق كا مطالبہ كرے تا كہ وہ اكيلى ہى خاوند كى زوجيت ميں ہو، بلكہ اس كے ليے تو وہ كچھ ہے جو تقدير سبقت لے جا چكى ہے نہ تو سوكن كى طلاق كى وجہ سے كوئى نقصان ہو سكتا ہے جو اس كے مقدر ميں تھا اور نہ ہى اس ميں كوئى زيادتى ہو سكتى ہے " انتہى
ديكھيں: التمھيد ( 18 / 165 ).

اور شيخ عبد اللہ البسام رحمہ اللہ اس حديث كے فوائد بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
" اس حديث ميں سوكن كى طلاق كا مطالبہ كرنے كى حرمت بيان ہوئى ہے، اور اسى طرح سوكن كے بارہ ميں كينہ و بغض ركھنا اور خاوند كو اس پر ابھارنا، يا سوكن اور خاوند كے مابين فتنہ و خرابى پيدا كرنا تا كہ ان ميں شر اور خرابى پيدا ہو اور وہ اسے چھوڑ دے تو يہ حرام ہے.

اگر دوسرى شادى كا نتيجہ پہلے گھر كى تباہى ہو تو كيا دوسرى شادى كر لے ؟
─┅━━━━━━━━━━━━━┅┄
دين اسلام نے كوئى بھى ايسا عمل مشروع نہيں كيا جس سے فرد يا معاشرے كو ضرر اور نقصان ہوتا ہو، بلكہ دين اسلام نے جتنے بھى امور مشروع كيے ہيں ان ميں زندگى و تعمير اور اجتماعيت و طہارت و پاكيزگى اور عفت و عصمت اور بلندى كا قيمتى معنى پايا جاتا ہے، خليل اور كوتاہى تو ان مسلمانوں ميں ہوتى ہے جو اللہ كى شريعت كى صحيح سمجھ نہيں ركھتے، يا پھر سمجھتے تو ہيں ليكن وہ اس پر عمل نہيں كرتے، اور اپنى خواہشات كے پيچھے چل نكلنے كى بنا پر بدعملى كا شكار ہوتے ہيں.

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے ہم اس كى مثال يہ دے سكتے ہيں كہ ايك سے زائد شادياں كرنا بعض اوقات اس كے پہلے گھر اور بيوى كى تباہى كا سبب بن سكتا ہے، اس كا سبب پہلى بيوى پر ظلم كرنا اور اپنى خواہش كے پيچھےچلنا اور پہلى بيوى كو اس كے حقوق ادا نہ كرنا ہوتا ہے.
يا پھر اس كا سبب يہ ہوتا ہے كہ وہ اپنى پہلى بيوى كو اپنى دوسرى شادى كرنے كى خبر دينے ميں صحيح طريقہ اور تصرف اختيار نہيں كرتا،

ان عورتوں پر تعجب ہے كہ ايك عورت اپنا گھر اجاڑنے پر راضى ہو جاتى ہیں جسے اس نے اپنے پسينہ اور برسہا برس كى جدوجہد كر كے بنايا تھا، اور اپنى اولاد كى تباہى بھى اپنے سامنے ديكھ رہى ہوتى ہے، اور اپنے ميكے ميں ذليل ہونے پر راضى ہونا برداشت كر ليتى ہے، اور وہ اپنى بھابھيوں كى ملازمہ بن كر بھائيوں كے گھر ميں رہنے پر تو راضى ہو جاتى ہے، حالانكہ وہ خود اپنے گھر ميں ملكہ تھى ليكن صرف اس ليے وہ اس گھر كو چھوڑنا چاہتى ہے كہ اس كے خاوند نے دوسرى شادى كر لى ہے!

عقل و دانش كى مالك عورت كے ليے ممكن نہيں كہ وہ خاوند كى دوسرى شادى كى نيت معلوم ہوجانے كے بعد كوئى ايسا عمل كرے جو عقل كے منافى ہو، يا پھر خاوند ايسا اقدام كرے تو بيوى عقل كے منافى كوئى عمل سرانجام دے، بلكہ اسے صبر و تحمل سے كام ليتے ہوئے اللہ سے اجر وثواب كى نيت كرنى چاہے كہ اللہ اسے اس كے صبر كا اجر عطا كريگا، اور بيوى كو چاہيے كہ وہ خاوند كے ساتھ حسن معاشرت كے ساتھ پيش آئے اور خاوند كے پورے حقوق ادا كرتى رہے، اور اپنا گھر تباہ كرنے پر راضى مت ہو، اور نہ ہى اپنا خاندان خاوند كى دوسرى شادى كرنے كى وجہ سے تباہ كرنے پر تل جائے، كيونكہ دوسرى شادى تو اس كے ليے اللہ نے مباح كى ہے، اور اس كى بہت عظيم حكمتيں پائى جاتى ہيں، اگر خاوند اپنى بيوى كے حقوق پورے نہيں كرتا اور ان ميں عدل نہيں كرتا تو اللہ عزوجل كے ہاں وہ مجرم ہے.

دوسری شادی کب واجب یا حرام ہو جاتی ہے ؟
• ─┅━━━━━━━━━━━━┅┄

بعض اوقات يہ واجب بھى ہو جاتى ہے اور واجب اس وقت ہو گى جب اسے خدشہ ہو كہ وہ كسى حرام ميں پڑ جائيگا، اور وہ دونوں بيويوں كے مابين عدل كرنے پر قادر ہو تو اس كے ليے دوسرى شادى كرنا واجب ہے.
شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ميں كئى سالوں سے شادى شدہ ہوں اور ميرے كئى ايك بچے بھى ہيں، اور خاندانى زندگى بھى اچھى گزر رہى ہے، ليكن ميں ايك اور بيوى كى ضرورت محسوس كرتا ہوں؛ كيونكہ سيدھا رہنا چاہتا ہوں اور ميرے ليے ايك بيوى كافى نہيں، كيونكہ ايك مرد ہونے كے ناطے مجھ ميں عورت سے زيادہ قوت پائى جاتى ہے، اور دوسرى چيز يہ كہ ميں كچھ مخصوص والى بيوى چاہتا ہوں جو ميرى پہلى بيوى ميں نہيں ہيں؛ اور اس ليے بھى كہ ميں حرام ميں نہيں پڑنا چاہتا،
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

اگر تو واقعتا ايسا ہى ہے جيسا آپ نے سوال ميں بيان كيا ہے تو آپ كے ليے حسب قدرت و استطاعت دوسرى اور تيسرى اور چوتھى شادى كرنا مشروع ہے، تا كہ آپ اپنى عفت و عصمت كو بچا سكيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اگر آپ عدل كر سكتے ہوں تو درج ذيل فرمان بارى تعالى پر عمل كرتے ہوئے دوسرى شادى كريں:
فرمان بارى تعالى ہے:
 اور اگر تمہيں ڈر ہو كہ يتيم لڑكيوں سے نكاح كر كے تم انصاف نہ ركھ سكو گے تو اور عورتوں سے جو بھى تمہيں اچھى لگيں تم ان سے نكاح كر لو، دو دو، تين تين، چار چار سے، ليكن اگر تمہيں ڈر ہو 
كہ عدل نہ كر سكو گے تو ايك ہى كافى ہے ۔ النساء ( 3 )
لیکن اگر بيويوں كے نان و نفقہ لباس و رات بسر كرنے ميں عدل و انصاف نہيں كر سكتا تو اس كے ليے دوسرى شادى كرنا حرام ہے.

کیا ایک دن میں مرد دو نکاح کر سکتا ہے ؟
❖ •─┅━━━━━━━━━━━━━┅┄ • ❖
انسان ایک دن میں دو خواتین سے نکاح کر سکتا ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

( فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ )تم دو، دو، تین، تین ، یا چار ، چار جتنی تمہیں اچھی لگیں خواتین سے شادی کرو۔ النساء : 3
دو خواتین سے یکبار نکاح کرنا یا مختلف اوقات میں؛ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن اہل علم دونوں خواتین کی رخصتی ایک ہی دن ؛ اچھی نہیں سمجھتے؛ کیونکہ ان میں سے ایک کا حق مارا جائے گا۔
امام یحی بن ابو الخیر عمرانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایک ہی رات میں دو بیویوں کو خاوند کے پاس بھیجنا مکروہ ہے، کیونکہ دونوں کا حق اکٹھا ادا کرنا ممکن ہی نہیں، اس لئے اگر ایک کے ساتھ رات گزارے گا تو دوسری اجنبیت محسوس کریگی۔
اور اگر دونوں اسکے پاس آجائیں تو جس کیساتھ نکاح پہلے ہوا تو پہلے اسی کا حق ہوگا، پھر بعد میں دوسری کا، کیونکہ پہلے والی سبقت لے چکی ہے، اور اگر دونوں کیساتھ برابر عقد ہوا تو قرعہ اندازی کریگا، کیونکہ دونوں میں سے کسی کو کسی لحاظ سے بھی فوقیت حاصل نہیں ہے"انتہی
ماخوذ از کتاب:" البيان" از: عمرانی (9/520)

شیخ منصور بہوتی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی نے دو خواتین سے شادی کی تو دونوں کو ایک ہی رات میں خاوند کے پاس بھیجنا مکروہ ہے، چاہے دونوں کنواری ہوں یا بیوہ، یا ایک کنواری اور یک بیوہ؛ کیونکہ خاوند دونوں کا حق پورا نہیں کرسکتا، اور جسکی باری بعد میں آئے گی اسے نقصان اٹھانا پڑے گا، اور اجنبیت محسوس کرے گی، [لیکن پھر بھی]جو بیوی سب سے پہلے داخل ہوئی اسکا حق پہلے بنتا ہے، اسکا حق ادا کرنے کے بعد دوسری کے پاس جائے گا اور اسکا حق ادا کریگا؛ کیونکہ دوسری کا حق بھی اس پر واجب ہے، خاوند نے اس کے حق کی ادائیگی اس لئے نہیں کی کہ درمیان میں [پہلی بیوی کی وجہ سے]رکاوٹ تھی ، جسکی وجہ سے تاخیر ہوئی چنانچہ جب رکاوٹ زائل ہوگئی تو واجب ادا کرنا ضروری ہوگیا، اس کے بعد دنوں کی تقسیم شروع ہوجائے گی، اور جسکی باری ہوگی اسی کے حقوق ادا کریگا، اگر دونوں ہی بیویاں برابر داخل ہوئیں تو دونوں میں سے ایک کو قرعہ کے ذریعے ترجیح دیگا، اس لئے کہ دونوں ہی سبب استحقاق میں برابر ہوگئیں ہیں، اور قرعہ ایسی حالت میں باعث ترجیح ہوتا ہے"
ماخوذ از: " كشاف القناع " (5/208) ، اور دیکھیں: " المغنی- از ابن قدامہ " (7/242)
فضیلةالشیخ محمدصالح المنجد حفظہ اللہ تعالیٰ

طلاق کی نیت سے معینہ مدت کے لیے نکاح کرنا
۔❖ • ─┅━━━━━━━━━━━━━┅┄ • ❖
طلاق کی نیت سے شادی متعین وقت کے لئے شادی ہے، اور مؤقتا شادی کرنا غلط و باطل ہے، کیونکہ یہ متعہ ہے، اور متعہ بالاجماع حرام ہے، اور صحیح شادی کی تعریف یہ ہے کہ ہمیشگی اور رشتے کو برقرار رکھنے کی نیت سے شادی کی جائے، اب اگر بیوی صالح اور مناسب نہ ہو تو وہ اسے طلاق دے سکتا ہے، الله تعالى نے فرمايا: "فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ" [پھر یا تو اچھائی سے روکنا یا عمدگی کے ساتھـ چھوڑ دینا ہے]۔

لوگ ویزا لینے کا آسان طریقہ اپناتے ہیں کہ انسان امریکی عورت کے ساتھـ شادی کرلے، چنانچہ اکثر لوگ کسی عورت کے ساتھـ شکلی طور پر کسی عورت کو نکاح کرنے پر راضی کرلیتے ہیں، اور اس نکاح نامہ کے عوض اس عورت کو مال دیتے ہیں، اور ہمبستری کے بغیر شہریت کے حصول کے لئے آسان طریقہ اختیار کرتے ہیں، جس کا کسی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا ہے، یہ شادی جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ جھوٹ اور دھوکہ ہے، نیز غیر اسلامی ملک کی شہریت لینا جائز نہیں ہے، اور غیر اسلامی ممالک کی شہریت کے بارے میں ہم نے ایک فتوی جاری کیا ہے، اور اس کی عبارت یہ ہے: "کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی ایسے ملک کی شہریت لے جس کی حکومت کافر ہو؛ کیونکہ یہ ان کے ساتھـ دوستی اور جس باطل پر وہ قائم ہیں اس پر رضامندی کے اظہار کا ذریعہ ہے"۔

لہٰذا وقتی شادی متعہ ہے، اور یہ نکاح قرآن و حدیث اور اہل سنت و جماعت کے اجماع کی رُو سے باطل ہے،
➖چنانچہ صحيحين میں علی بن ابی طالب رضي الله عنه سے روایت ہے:
" بے شک رسول الله صلى الله عليه وسلم نے خیبر کے زمانے
میں نکاحِ متعہ اور پالتو گدھے کے گوشت سے منع فرمایا ہے "
صحيح بخاری،الحيل (6961) ، صحيح مسلم،النكاح (1407) ، سنن ترمذی،النكاح (1121) ، سنن نسائی،الصيد والذبائح (4334) ، سنن ابن ماجہ،النكاح (1961) ، مسند أحمد بن حنبل (1/79) ، موطأ مالك،النكاح (1151) ، سنن دارمی،النكاح (2197). بے

➖اور ايک روايت ميں ہے:
" خیبر کے دن آپ نے عورتوں سے متعہ کرنے سے منع فرمایا "
صحيح بخاری،المغازي (4216) ، صحيح مسلم،النكاح (1407) ، سنن ترمذی،النكاح (1121) ، سنن نسائی،النكاح (3366) ، سنن ابن ماجہ،النكاح (1961) ، مسند أحمد بن حنبل (1/142) ، موطأ مالك،الصيد (1080) ، سنن دارمی،الأضاحي (1990).

➖ اور صحیح مسلم میں نبي کریم صلى الله عليه وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
میں نے تمہیں اجازت دی تھی کہ تم عورتوں سے متعہ کرسکتے ہو، اور اب یقیناً اللہ تعالی نے متعہ کو قیامت كے دن تک حرام کردیا ہے، تو کسی کے پاس اس قسم کی کوئی چيز(عورت) ہے، تو وہ اس کو چھوڑدے، اور جو کچھـ اس کو دے دیا ہے وہ اس سے واپس نہ لے۔
صحيح مسلم،النكاح (1406) ، سنن نسائی،النكاح (3368) ، سنن أبو داود،النكاح (2072) ، سنن ابن ماجہ،النكاح (1962) ، مسند أحمد بن حنبل (3/405) ، سنن دارمی،النكاح (2195).

یاد رکھیے وقتی شادی میں ازدواجی تعلقات زنا شمار ہوتے ہیں، اور جو اس کے باطل ہونے کے علم کے باوجود اس پر عمل کرے، تو اس پر زنا کے احکام لاگو ہوں گے، اور شرعی نکاح یہ ہے کہ انسان کسی عورت کے ساتھـ ہمیشہ کے لئے بیوی بنانے کی نیت سے شادی کرے، اور اگر وہ صالح بیوی نہ رہی، تو اسے طلاق دے سکتا ہے، چنانچہ الله تعالى نے فرمايا:

فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُ‌وفٍ أَوْ تَسْرِ‌يحٌ بِإِحْسَانٍ ۗ ﴿٢٢٩﴾البقرة
ﭘﮭﺮ ﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﭼﮭﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﺭﻭﻛﻨﺎ ﯾﺎ ﻋﻤﺪﮔﯽ ﻛﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ

الشيخ عبد العزيز بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن قعود.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( فتاوٰی/21140/12087/

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

Share:

Muslim ladakiya na kisi Gair ko apne dil me basati hai aur na Basti hai?

Momin Ladkiyaan Na kisi ko mayel karti hai aur nahi Kisi se mayel hoti hai?
Bagair nikah ke kisi na mehram ka dil se talluq hona kaisa hai?

مومنات نہ مائل ہونے والی ہوتی ہیں اور نہ ہی مائل کرنے والی ہوتی ہیں۔۔۔!!✨
انکا اندازِ گفتگو ، انکی چال ڈھال، انکا لباس ، انکی نظریں اور انکے معاملات سب حیا کے دائرے میں ہوتے ہیں.

وہ نہ ہی ہر غیر محرم کے دل میں بسنے والی ہوتی ہیں...‏اور نہ ہی ہر ایک کو اپنے دل میں بسانے والی ہوتی ہیں۔۔۔!!

یہ کردار صرف مومن عورتوں کیلیے ہی نہیں بلکہ مومن مردوں کا بھی یہی کردار ہوتا ہے.🎀                                                                   #حوا_کی_بیٹیاں

Aaj kal Mislim ladke ladkiya ishq baji me Diploma Kiye hue hai?

Islam aur Homosexuality: kya Koi Aurat Dusri Aurat se Shadi kar sakti hai?

Kya Ek Aurat Apne sath Char Mardo ko Jahannum  me le jayegi?

Ghar me Sharai parda Kaise kare aur Kis se Kare?

Muslim Ladkiya Gair Muslim ladko ke sath bhag kar Kyu court Marriage kar rahi hai?

السلام علیکم ورحمةاللہ ۔۔۔۔۔

بغرض نکاح نامحرم سے دل کا معلق ہونا کوئی حرج کی بات نہیں ہے بشرطیکہ شرعئی حدود و قیود کی پابندی کی جائے اور نکاح کے لیے کوشش کی جائے ۔

اور جو مرد عورت کو چھپ چھپ کر یا تنہائی میں ملنے پر ابھارے ، تو عورت کو جان لینا چاہیے وہ اللہ کی حدود کو توڑ رہا ہے ، ایسا مرد خود بھی آگ پر چلتا ہے اور عورت کو بھی آگ کے راستے پر چلاتا ہے ۔

پس نادان ہیں اور عظیم خسارے میں ہیں وہ دونوں مرد و عورت جو عارضی دنیا کے وقتی مزوں کی خاطر آگ کو اپنے اوپر حلال کر لیتے ہیں ۔ اور بے شک ہر جن و انس کو عنقریب اپنے رب کے سامنے حاضر ہونا ہے ، جہاں اگر باز پرس ہوگئی تو خسارہ ہی خسارہ ہے ، اور بے شک جہنم کا ٹھاٹیں مارتا آگ کا سمندر اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کے لیے تیار کیا ہے جو اللہ کی بنائی ہوئی حدودوں کو تجاوز کرتے ہیں ۔

اللہ سے دعا ہے کہ ہم مسلمان تو بن گئے ہیں لیکن اللہ ہمیں مومن بھی بنادے جو گناہوں سے ڈرنے والا متقی اور پرہیزگار ہوتا ہے ۔۔۔۔

آمین یارب العالمین
🖊: مسز انصاری

Share:

Iddat Ke Masail: Aurat Iddat kab tak aur Kahan Gujaregi, Kisi Jaruri kam ke liye Ghar se bahar ja Sakti hai ya Nahi?

Aurat iddat kahan Gujaregi? Apne Waldain ke ghar ya Shauhar ke Ghar?
Kya Iddat ke Dauran Aurat Ghar se bahar Ja sakti hai?
Sawal: Agar Kisi Aurat ka Shauhar Faut ho jaye to wah iddat kahan Gujaregi? Waldain Ke Ghar iddat gujar sakti hai? Iddat ke Dauran jaruri kamo ke liye ghar se bahar nikalne ka kya hukm hai? Kya Jaruri Kamkaz ya Dars sunne Ke liye ja sakti ?
Kya Ladki Dusri Ladki se Shadi kar Sakti hai? Homosexuality and Islam.

Kya Ladki Apni marzi se Shadi kar sakti hai?

Kya Auraten Qabristaan, Eidgaah aur Masjid me Ja Sakti hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر -383"
سوال- اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہو جائے تو وہ عدت کہاں گزارے۔۔؟والدین کے گھر عدت گزار سکتی.؟ نیز شوہر کی عدت وفات میں گھر سے باہر نکلنے کا کیا حکم؟ کیا وہ کسی ضروری کام کاج، اور علاج یا درس وغیرہ سننے کیلئے گھر سے باہر جا سکتی ہے.؟

Published Date: 28-12-2022

جواب!
الحمدللہ..!

*جس عورت کا خاوند فوت ہو جائے تو اسے عدت اپنے اسی گھر میں گزارنی چاہیے جس میں وہ شوہر کی رفاقت کے وقت قیام پذیر تھی ، یعنی اپنے شوہر کے گھر میں ہی گزارے گی، ہاں اگر اسکی جان یا مال کو بہت زیادہ خطرہ ہو کہ وہاں رہنا مشکل ہو جائے تو وہ کسی اور محفوظ جگہ پر عدت گزار سکتی ہے، اور بغیر کسی وجہ کے دوران عدت عورت کیلئے گھر سے نکلنا جائز نہیں، ہاں البتہ وہ بہت ضرورت کے تحت گھر سے نکل سکتی ہے، کسی کام وغیرہ کیلئے جیسے کوئی اور نہیں باہر جانے والا تو سودا سلف لینے، یا ڈاکٹر پاس جانا، کسی کا پیپر/امتحان ہو، یا انٹرویو جاب کا یا ایسی کوئی اور اہم بات جس سے مالی یا جانی نقصان کا خدشہ ہو، یا آس پاس درس و تدریس کیلۓ، یا دل بہلانے کیلئے آس پاس کسی پڑوسن گھر جا سکتی مگر شرط یہ ہے کہ رات اپنے گھر میں گزارے، یہ جائز ہے*

*دلائل درج ذیل ہیں...!*

📚جامع ترمذی
کتاب: طلاق اور لعان کا بیان
باب: شوہر فوت ہوجائے تو عورت عدت کہاں گزارے
حدیث نمبر: 1204
حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، أَنْبَأَنَا مَعْنٌ، أَنْبَأَنَا مَالِكٌ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِسْحَاق بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، عَنْ عَمَّتِهِ زَيْنَبَ بِنْتِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، أَنَّ الْفُرَيْعَةَ بِنْتَ مَالِكِ بْنِ سِنَانٍ، وَهِيَ أُخْتُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَتْهَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ تَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهَا فِي بَنِي خُدْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ زَوْجَهَا خَرَجَ فِي طَلَبِ أَعْبُدٍ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَبَقُوا حَتَّى إِذَا كَانَ بِطَرَفِ الْقَدُومِ، ‏‏‏‏‏‏لَحِقَهُمْ فَقَتَلُوهُ. قَالَتْ:‏‏‏‏ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي فَإِنَّ زَوْجِي لَمْ يَتْرُكْ لِي مَسْكَنًا يَمْلِكُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَفَقَةً، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  نَعَمْ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَانْصَرَفْتُ حَتَّى إِذَا كُنْتُ فِي الْحُجْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ فِي الْمَسْجِدِ نَادَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ أَمَرَ بِي فَنُودِيتُ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏  كَيْفَ قُلْتِ ؟  قَالَتْ:‏‏‏‏ فَرَدَدْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ الَّتِي ذَكَرْتُ لَهُ مِنْ شَأْنِ زَوْجِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏  امْكُثِي فِي بَيْتِكِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَابُ أَجَلَهُ . قَالَتْ:‏‏‏‏ فَاعْتَدَدْتُ فِيهِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ أَرْسَلَ إِلَيَّ فَسَأَلَنِي عَنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَاتَّبَعَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَضَى بِهِ.
ترجمہ:

زینب بنت کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ  فریعہ بنت مالک بن سنان ؓ جو ابو سعید خدری کی بہن ہیں نے انہیں خبر دی کہ وہ رسول اللہ  ﷺ  کے پاس آئیں، وہ آپ سے پوچھ رہی تھیں کہ وہ اپنے گھر والوں کے پاس بنی خدرہ میں واپس چلی جائیں  (ہوا یہ تھا کہ)  ان کے شوہر اپنے ان غلاموں کو ڈھونڈنے کے لیے نکلے تھے جو بھاگ گئے تھے، جب وہ مقام قدوم کے کنارے پر ان سے ملے، تو ان غلاموں نے انہیں مار ڈالا۔ فریعہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ  ﷺ  سے پوچھا کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤں؟ کیونکہ میرے شوہر نے میرے لیے اپنی ملکیت کا نہ تو کوئی مکان چھوڑا ہے اور نہ کچھ خرچ۔ تو رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  ہاں ، چناچہ میں واپس جانے لگی یہاں تک کہ میں حجرہ شریفہ یا مسجد نبوی ہی میں ابھی تھی کہ رسول اللہ  ﷺ  نے مجھے آواز دی۔  (یا آپ نے حکم دیا کہ مجھے آواز دی جائے)  پھر آپ نے پوچھا:  تم نے کیسے کہا؟ میں نے وہی قصہ دہرا دیا جو میں نے آپ سے اپنے شوہر کے بارے میں ذکر کیا تھا، آپ نے فرمایا:  تم اپنے گھر ہی میں رہو یہاں تک کہ تمہاری عدت ختم ہوجائے ، چناچہ میں نے اسی گھر میں چار ماہ دس دن عدت گزاری۔ پھر جب عثمان ؓ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مجھے بلوایا اور مجھ سے اس بارے میں پوچھا تو میں نے ان کو بتایا۔ چناچہ انہوں نے اس کی پیروی کی اور اسی کے مطابق فیصلہ کیا۔ محمد بن بشار کی سند سے بھی اس جیسی اسی مفہوم کی حدیث آئی ہے۔
(ترمذی، کتاب الطلاق واللعان باب ما جاء این تعتد المتوفی عنہا زوجھا_1204)

(موطا مالک، احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ، نسائی، دارمی وغیرھا)
(الألباني (ت ١٤٢٠)، صحيح الترمذي ١٢٠٤)
(ابن عبد البر (ت ٤٦٣)، التمهيد ٢١‏/٢٧  •  مشهور معروف ثابت)

📙امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اسی حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اکثر اہل علم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وغیرھم کا عمل ہے انہوں نے عدت گزارنے والی عورت کے لیے جائز نہیں رکھا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر سے عدت پوری ہونے سے پہلے منتقل ہو۔

امام سفیان ثوری، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق بن راھویہ کا یہی موقف ہے اور بعض اہل علم صحابہ وغیرھم نے کہا کہ عورت جہاں چاہے عدت گزار لے اگر وہ اپنے خاوند کے گھر عدت نہ گزارنا چاہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں پہلی بات صحیح ترین ہے یعنی عورت اسی گھر میں عدت گزارے جہاں وہ اپنے شوہر کی رفاقت میں قیام پذیر تھی۔
(ترمذی مع تحفۃ الاحوذی 4/441،442)

📚سئل شيخ الإسلام ابن تيمية – رحمه الله - :
عن امرأة عزمت على الحج هي وزوجها فمات زوجها في شعبان : فهل يجوز لها أن تحج ؟
فأجاب :
ليس لها أن تسافر في العدة عن الوفاة إلى الحج في مذهب الأئمة الأربعة .
" مجموع الفتاوى " ( 34 / 29 ) 
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ايك عورت اور اس كے خاوند نے حج كا عزم كيا تو شعبان كے مہينہ ميں اس كے خاوند كى وفات ہوگئى تو كيا اس كے ليے حج كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
شيخ الاسلام كا جواب تھا:
آئمہ اربعہ كے ہاں بيوہ عورت دوران عدت حج كے ليے سفر نہيں كر سكتى "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 29 )

📙ایک اور جگہ پر شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

المعتدة عدة الوفاة تتربص أربعة أشهر وعشراً ، وتجتنب الزينة والطِّيب في بدنها وثيابها ، ولا تتزين ولا تتطيب ولا تلبس ثياب الزينة ، وتلزم منزلها فلا تخرج بالنهار إلا لحاجة ولا بالليل إلا لضرورة ... .
ويجوز لها سائر ما يباح لها في غير العدة : مثل كلام من تحتاج إلى كلامه من الرجال إذا كانت مستترة وغير ذلك .
وهذا الذي ذكرتُه هو سنَّة رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي كان يفعله نساء الصحابة إذا مات أزواجهن ونساؤه صلى الله عليه وسلم .
" مجموع الفتاوى " ( 34 / 27 ، 28 )
" بيوہ عورت چار ماہ دس دن عدت گزارےگى، اور وہ عدت كے عرصہ ميں زينت و زيبائش اور بدن و لباس ميں خوشبو لگانے سے اجتناب كريگى، نہ تو وہ زينت اختيار كرے گى اور نہ ہى خوشبو لگائيگى، اور نہ ہى خوبصورت لباس زيب تن كريگى، اور اپنے گھر ميں ہى رہےگى، بغير حاجت كے دن كے وقت باہر نہيں نكلےگى، اور رات كو بھى ضرورت كے بغير باہر نہيں جائيگى....
اس كے ليے ہر وہ چيز جائز ہے جو عدت كے علاوہ عرصہ ميں جائز ہے؛ مثلا اگر باپرد ہو كر اسے كسى مرد سے بات چيت كرنا پڑے تو كر سكتى ہے.
ميں نے جو كچھ بيان كيا ہے وہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے اگر كوئى صحابى فوت ہو جاتا تو صحابہ كرام كى بيوياں يہى كيا كرتى تھيں، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں نے بھى ايسا ہى كيا "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 34 / 27 - 28 ).

*لہذا عورت عدت اپنے شوہر کے گھر میں ہی گزارے اور بغیر عذر کے گھر سے باہر نا نکلے، لیکن مجبوری کے تحت کام کاج کے لئے دن کے وقت گھر سے نکل سکتی ہے اور رات اسی گھر میں آ کر بسر کرے گی اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے*

📚صحیح مسلم
کتاب: طلاق کا بیان

كِتَابُ الطَّلَاقِ (بَابُ جَوَازِ خُرُوجِ الْمُعْتَدَّةِ الْبَائِنِ، وَالْمُتَوَفَّى عَنْهَا زَوْجُهَا فِي النَّهَارِ لِحَاجَتِهَا
باب: باب: طلاق بائن کی عدت گزرنے والی اور جس کا شوہر فوت ہوگیا ہو ‘اس کے لیے اپنی کسی ضرورت کے تحت دن کے وقت گھر سے نکلنا جائز ہے،
انٹرنیشنل حدیث نمبر -1483
اسلام 360حدیث نمبر: 3721
و حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ح و حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَاللَّفْظُ لَهُ حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُا طُلِّقَتْ خَالَتِي فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ فَأَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بَلَی فَجُدِّي نَخْلَکِ فَإِنَّکِ عَسَی أَنْ تَصَدَّقِي أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا
ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں: میری خالہ کو طلاق ہو گئی، انہوں نے (دورانِ عدت) اپنی کھجوروں کا پھل توڑنے کا ارادہ کیا، تو ایک آدمی نے انہیں (گھر سے) باہر نکلنے پر ڈانٹا۔ وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، تو آپﷺ نے فرمایا: ’’کیوں نہیں، اپنی کھجوروں کا پھل توڑو، ممکن ہے کہ تم (اس سے) صدقہ کرو یا کوئی اور اچھا کام کرو۔‘‘
(صحیح مسلم، ابوداؤد، مسند احمد، نسائی، دارمی، ابن ماجہ وغیرھا)

*آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث میں مطلقہ عورت کو عدت کے دوران بوقت ضرورت گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے لہذا وفات کی عدت والی عورت کو اسی پر قیاس کیا جائے گا۔*

📚اس کی تائید مجاہد تابعی کے اس اثر سے بھی ہوتی ہے کہ
12077 - ﻋﻦ اﺑﻦ ﺟﺮﻳﺞ، ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻛﺜﻴﺮ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﻣﺠﺎﻫﺪ: اﺳﺘﺸﻬﺪ ﺭﺟﺎﻝ ﻳﻮﻡ ﺃﺣﺪ ﻋﻦ ﻧﺴﺎﺋﻬﻢ، ﻭﻛﻦ ﻣﺘﺠﺎﻭﺭاﺕ ﻓﻲ ﺩاﺭﻩ، ﻓﺠﺌﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻘﻠﻦ: ﺇﻧﺎ ﻧﺴﺘﻮﺣﺶ ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺑﺎﻟﻠﻴﻞ، ﻓﻨﺒﻴﺖ ﻋﻨﺪ ﺇﺣﺪاﻧﺎ، ﺣﺘﻰ ﺇﺫا ﺃﺻﺒﺤﻨﺎ ﺗﺒﺪﺩﻧﺎ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﻮﺗﻨﺎ؟ ﻓﻘﺎﻝ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: «ﺗﺤﺪﺛﻦ ﻋﻨﺪ ﺇﺣﺪاﻛﻦ ﻣﺎ ﺑﺪا ﻟﻜﻦ، ﺣﺘﻰ ﺇﺫا ﺃﺭﺩﺗﻦ اﻟﻨﻮﻡ ﻓﻠﺘﺄﺕ ﻛﻞ اﻣﺮﺃﺓ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﺘﻬﺎ»
اُحد کے دن بہت سے لوگ شہید ہو گئے۔ ان کی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں اور کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم رات کے وقت وحشت محسوس کرتی ہیں اس لئے چاہتی ہیں کہ کسی دوسری عورت کے ہاں رات بسر کر لیں یہاں تک کہ جب ہم صبح کریں تو اپنے گھروں کو جلدی سے آ جائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
تم جس کسی کے ہاں چاہو بات چیت کرو اور جب سونا چاہو تو ہر عورت اپنے اپنے گھر چلی جائے۔
(مصنف عبدالرزاق _ ج7، ص35 /ح12077)
(بیہقی 5ج/ ص436)

*معلوم ہوا کہ عورت بوقت مجبوری کام کاج کی غرض سے گھر سے باہر نکل سکتی ہے اور رات اپنے گھر میں ہی بسر کرے گی۔حضرت عمر، زید بن ثابت، اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم کا یہی مذہب ہے۔*

📚 اور مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ
12064 - ﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ، ﻭﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﺃﻳﻮﺏ، ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ ﻗﺎﻝ: «ﻛﺎﻧﺖ ﺑﻨﺖ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﺗﻌﺘﺪ ﻣﻦ ﻭﻓﺎﺓ ﺯﻭﺟﻬﺎ، ﻓﻜﺎﻧﺖ ﺗﺄﺗﻴﻬﻢ ﺑﺎﻟﻨﺎﺭ ﻓﺘﺤﺪﺙ ﻋﻨﺪﻫﻢ، ﻓﺈﺫا ﻛﺎﻥ اﻟﻠﻴﻞ ﺃﻣﺮﻫﺎ ﺃﻥ ﺗﺮﺟﻊ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﺘﻬﺎ»
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی کا شوہر فوت ہو گیا تو وہ دن کی روشنی میں اپنے  والد سے ملنے کے لیے آ جایا کرتی تھیں، اور جب رات ہو جاتی تو وہ انہیں حکم دیتے کہ اپنے گھر چلی جائے۔
(مصنف عبدالرزاق:31ص/ج7،حدیث:12064)

📚مصنف عبدالرزاق ہی میں ہے کہ
12068 - ﻋﻦ اﻟﺜﻮﺭﻱ، ﻋﻦ ﻣﻨﺼﻮﺭ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ، ﻋﻦ ﻋﻠﻘﻤﺔ ﻗﺎﻝ: ﺳﺄﻝ اﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻧﺴﺎء ﻣﻦ ﻫﻤﺪاﻥ ﻧﻌﻲ ﺇﻟﻴﻬﻦ ﺃﺯﻭاﺟﻬﻦ، ﻓﻘﻠﻦ: ﺇﻧﺎ ﻧﺴﺘﻮﺣﺶ. ﻓﻘﺎﻝ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ: «ﺗﺠﺘﻤﻌﻦ ﺑﺎﻟﻨﻬﺎﺭ، ﺛﻢ ﺗﺮﺟﻊ ﻛﻞ اﻣﺮﺃﺓ ﻣﻨﻜﻦ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﺘﻬﺎ ﺑﺎﻟﻠﻴﻞ»
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان عورتوں کو جن کے شوہر وفات پا گئے ہوتے اور وہ اکیلے بیٹھنے سے پریشان ہوتیں، اجازت دیتے تھے کہ وہ کسی ایک کے گھر میں اکٹھی ہو جایا کریں، حتی کہ جب رات ہو جاتی تو ہر ایک سونے کے لیے اپنے گھر چلی جاتی تھی۔
(مصنف عبدالرزاق:32ص/ج7،حدیث:12068)

*لہذا ضرورت و حاجت كى خاطر عورت کیلئے دوران عدت دن كے وقت اپنے گھر سے باہر جانا جائز ہے، مثلا ضرورى اشياء كى خريدارى كے ليے بازار جانا، يا پھر كام کاج كے ليے*

__________&_____________

*سعودی فتاویٰ ویبسائٹ Islamqa.info پر اس طرح ایک سوال کیا گیا کہ،*

📙سوال:
ايك عورت كا خاوند فوت ہوگيا اور وہ كرايہ كے گھر ميں رہتى ہے، اس كے ميكے والے بھى اسى علاقے ميں رہتے ہيں ليكن گھر ان سے دور ہے، اور اس كا بھائى بھى كام كاج كى بنا پر اس كے گھر آ كر نہيں رہ سكتا، اور عورت مكان كا كرايہ بھى ادا نہيں كر سكتى، كيا يہ عورت عدت گزارنے كے ليے ميكے منتقل ہو سكتى ہے ؟

📚جواب.. !
الحمد للہ..!

بيوہ عورت كے ليے اپنے اسى گھر ميں عدت گزارنى واجب ہے جس گھر ميں رہائش ركھے ہوئے اسے خاوند فوت ہونے كى اطلاع ملى تھى؛ كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہى حكم ديا ہے.
كتب سنن ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى درج ذيل حديث مروى ہے كہ:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فريعۃ بنت مالك رضى اللہ تعالى عنہا كو فرمايا تھا:
" تم اسى گھر ميں رہو جس گھر ميں تمہيں خاوند فوت ہونے كى اطلاع ملى تھى، حتى كہ عدت ختم ہو جائے.
فريعۃ رضى اللہ تعالى عنہا كہتى ہيں:
چنانچہ ميں نے اسى گھر ميں چار ماہ دس دن عدت بسر كى تھى "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2300 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 1204 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 200 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2031 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ابن ماجہ ميں صحيح قرار ديا ہے.

اس حديث پر عمل كرتے ہوئے اكثر اہل علم كا بھى يہى مسلك ہے، ليكن انہوں نے يہ اجازت دى ہے كہ اگر كسى عورت كو اپنى جان كا خطرہ ہو يا پھر اس كے پاس اپنى ضروريات پورى كرنے كے ليے كوئى دوسرا شخص نہ ہو اور وہ خود بھى اپنى ضروريات پورى نہ كر سكتى ہو تو كہيں اور عدت گزار سكتى ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" بيوہ كے ليے اپنے گھر ميں ہى عدت گزارنے كو ضرورى قرار دينے والوں ميں عمر اور عثمان رضى اللہ تعالى عنہما شامل ہيں، اور ابن عمر اور ابن مسعود اور ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہم سے بھى مروى ہے، اور اما مالك امام ثورى اور امام اوزاعى اور امام ابو حنيفہ اور امام شافعى اور اسحاق رحمہم اللہ كا بھى يہى قول ہے.

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
حجاز شام اور عراق كے فقھاء كرام كى جماعت كا بھى يہى قول ہے "
اس كے بعد لكھتے ہيں:
" چنانچہ اگر بيوہ كو گھر منہدم ہونے يا غرق ہونے يا دشمن وغيرہ كا خطرہ ہو... تو اس كے ليے وہاں سے دوسرى جگہ منتقل ہونا جائز ہے؛ كيونكہ يہ عذر كى حالت ہے...
اور اسے وہاں سے منتقل ہو كر كہيں بھى رہنے كا حق حاصل ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: المغنى ( 8 / 127 ).

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك عورت كا خاوند فوت ہو گيا ہے اور جس علاقے ميں اس كا خاوند فوت ہوا ہے وہاں اس عورت كى ضرورت پورى كرنے والا كوئى نہيں، كيا وہ دوسرے شہر جا كر عدت گزار سكتى ہے ؟

كميٹى كے علماء كرام كا جواب تھا:
" اگر واقعتا ايسا ہے كہ جس شہر اور علاقے ميں خاوند فوت ہوا ہے وہاں اس بيوہ كى ضروريات پورى كرنے والا كوئى نہيں، اور وہ خود بھى اپنى ضروريات پورى نہيں كر سكتى تو اس كے ليے وہاں سے كسى دوسرے علاقے ميں جہاں پر اسے اپنے آپ پر امن ہو اور اس كى ضروريات پورى كرنے والا ہو وہاں منتقل ہونا شرعا جائز ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتا ( 20 / 473 ).

اور فتاوى جات ميں يہ بھى درج ہے:
" اگر آپ كى بيوہ بہن كو دوران عدت اپنے خاوند كے گھر سے كسى دوسرے گھر ميں ضرورت كى بنا پر منتقل ہونا پڑے مثلا وہاں اسے اكيلے رہنے ميں جان كا خطرہ ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، وہ دوسرے گھر ميں منتقل ہو كر عدت پورى كريگى " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 473 ).

اس بنا پر اگر يہ عورت اكيلا رہنے سے ڈرتى ہے، يا پھر گھر كا كرايہ نہيں ادا كر سكتى تو اپنے ميكے جا كر عدت گزارنے ميں كوئى حرج نہيں ہے.
واللہ اعلم .

(ماخذ: الاسلام سوال و جواب)

_________&___________

*پاکستانی فتاویٰ ویبسائٹ "محدث اردو فتویٰ" پر ایسا ایک فتویٰ ملاحظہ فرمائیں!

📙 (192) عدت گزارنے والی عورت کام پر جاسکتی ہے؟
سوال:
لندن سے مسز شمیم لودھی لکھتی ہیں

’’ خاوند کے فوت ہونے پر بیوی کو عدت کے دن پورے کرنے ہوتے ہیں اور کافی شرائط بھی ہیں کہ وہ یہ نہیں کرسکتی ‘ وہ نہیں کر سکتی‘ باہر نہیں جا سکتی۔ اگر عورت کے اوپر سب گھربار کا بوجھ پڑھ جائے اور مجبوراً اسے باہر نکلنا بھی پڑتا ہے جیسے اس ملک میں ایک دو ہفتے کے بعد عورت کام پر جانے لگتی ہے۔ اگر نہ جائے تو سارے گھر کا نظام رک جاتا ہے۔ توایسی حالت میں عورت کے لئے کیا حکم ہے؟
ذرا روشنی ڈالئے‘بہت سی بہنوں کا سوال ہے۔

📚الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہوجائے تو ایسی عورت کے لئے چار مہینے دس دن ہے ۔ اس مدت کےمتعین کرنے کے مختلف اسباب یا حکمتیں ہوسکتی ہیں۔ بہرحال غرض یہی  ہے کہ عورت کو اتنا وقت دیا جائے کہ وہ خاوند کی موت کا صدمہ بھی برداشت کرلے اور استبرائے رحم بھی ہوجائے۔ شریعت اسلامی میں عورت کے لئے بہتر اور مناسب تو یہی ہے کہ وہ اس دوران گھر کے اندر ہی رہے اور ہر قسم کی زیب و زینت سے مکمل پرہیز کرے۔ قرآن حکیم کی سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۳۶ میں عدت کا ذکر ہوا ہے۔

خاوند کی وفات کے علاوہ طلاق کی شکل میں عدت کے دوران بھی عورت کے لئے باہر نکلنا ممنوع قرار دی گیا ہے۔ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت نمبر ۱ میں مردوں کو اس بات سے روکا گیا کہ وہ عورتوں کو طلاق کے بعد عدت کے دوران ہی گھر سے نکال دیں اور عورتوں کو بھی اس بات سےمنع کیاگیا کہ وہ خود گھروں نکل جائیں۔اسلام سے پہلے جاہلیت کےزمانے میں مطلقہ عورتوں خصوصاً جن کے خاوند فوت ہوجاتے تھے انہیں سخت ذہنی اذیت سے دوچار ہوناپڑتا تھا انہیں تمام معاشرے سے الگ تھلگ کرکے ایک غلیظ و تاریک کمرے میں رہنے پر مجبور کیا جاتاتھا ا ور گندے کپڑے پہننے کی پابندیا ں لگائی جاتی تھی اور پھر اس کے بعد جاہلیت کی بعض فضول قسم کی رسمیں ادا کرنے کے بعد اس گھر یا کمرے سے باہر آتی تھیں۔ اسلام نے جہاں ان تمام پابندیوں کو ختم کیا اور اسے عزت و وقار کے ساتھ اسی گھر میں رہنے کا حق دیا ۔ وہاں خوشبو اور زیب و زینت  کی دوسری اشیاء استعمال کرنے سےمنع کیا۔

جہاں تک کام یا دوسری کسی ضرورت کے تحت باہر نکلنے کا تعلق ہے تو قرآن کی تعلیمات اور احادیث میں جو تفصیل آئی ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں تو اس کی اجازت نہیں اور خیر و برکت اسی میں ہے کہ اسلامی احکام پر عمل کرکے عورت چار ماہ دس دن گھر میں گزارے لیکن شدید ضرورت کے تحت عورت کو گھر سے باہر جانے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ام سلمہؓ کے پاس ایک عورت آئی جس کا خاوند فوت ہوچکا تھا اور وہ عدت گزار رہی تھی۔ اس نے پوچھا کہ میرا والد بیمار ہے کیا میں اس کے یہاں جاسکتی ہوں ؟ ام سلمہ نے دن کے وسطہ میں جانے کی اجازت دے دی۔

ایک اور روایت میں ہے: ’’شہدائے احد کی بیویوں نے رسول اللہﷺ سے یہ شکایت کی کہ گھر میں وہ تنہائی محسوس کرتی ہیں تو کیا ہم کبھی ایک دوسری کے پاس رات گزار سکتی ہیں؟ تو آپﷺ نے انہیں ایک دوسری کے گھر میں جانے کی اجازت دی اورفرمایا کہ سونے کےوقت اپنے گھروں میں آجایا کرو۔‘‘ (نیل الاوطار)

اس طرح کی متعدد روایا ت اور صحابہ کرام ؓ کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی عورتیں ضرورت کے مطابق اپنے گھروں سے باہر نکل سکتی ہیں۔

اس لئے آپ نے کام کرنے کے بارےمیں جو دریافت کیا ہے یہ بھی ایک ضرورت  اور مجبوری ہے جس کی  وجہ سے عدت گزارنے والی عورت کو کچھ دیر کےلئے باہر نکلنا پڑتا ہے ۔ لہٰذا جس عورت کا اور کوئی ذریعہ معاش نہیں کوئی کمانے والا بھی نہیں چھٹی بھی نہیں مل سکتی اور کوئی متبادل بھی نہیں تو ایسی صورت میں وہ کام پر جاسکتی ہےلیکن عام سادہ اور باوقار لباس میں جانا چاہئے اور زیب و زینت اور آرائش سےمکمل پرہیز کرنا ہوگا۔

حضرت جابرؓ سےایک حدیث مروی ہے ’’ میری خالہ کو تین طلاقیں ہوچکی تھیں (وہ حالت عدت میں تھی) تو وہ کھجور کاٹنے کےلئے باہر گئی۔ اسے ایک آدمی نے منع کیا تو وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور یہ بات ذکر کی توآپ ﷺ نے فرمایا تو باہر جاکر کھجوریں کاٹ سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے تو اس طرح اللہ کی راہ میں صدقہ کرے یا کوئی خیرو بھلائی کرے۔‘‘ (مسلم شریف)

اب اس حدیث سے بھی ہم یہ استدلال کرسکتے ہیں کہ ضرورت اور کام کےلئے عورت باہر جاسکتی ہےکیونکہ عام حالت میں تو مطلقہ عورت کو بھی عدت کےدوران باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
( ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب)
فتاویٰ صراط مستقیم
ص409محدث فتویٰ

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 👇

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS