find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Ramzan. Show all posts
Showing posts with label Ramzan. Show all posts

Agar Ramzan ke mahine me Shaitan ko Kaid kar liya jata hai to fir Makka ke Mushrik ki madad karne kaise aaya tha Shaitan?

Kya Ramzan ke mahine me Shaitan ko bandh diya jata hai?

Agar Ramzan ke mahine Shaitan ko bandh diya jata hai to fir makka ke Mushriqo ki madad karne kaise aaya tha?

Kya Mariz ko khoon dene se ya Blood test karane se Roza toot jata hai?

Agar Ramzan ke mahine me Shaitan ko kaid kar liya jata hai, tab bhi log Gunah kyon karte hai?

Kya Ramzan ke mahine me Inteqal hone wale direct Jannat me jayenge?

Agar Iftari ke kuchh minute pahle Haiz aana shuru ho jaye to kya Roza durust hoga?

"رمضان میں سرکش شیاطین کا باندھا جانا"

تحریر: حافظ زبیر علی زئی رحمه الله

سوال:
حدیث میں آیا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں شیاطین کو باندھ دیا جاتا ہے جبکہ قرآن مجید، سورۃ الانفال (48) سے ثابت ہوتا ہے کہ غزوۂ بدر (رمضان) میں شیطان اپنے پیروکاروں (مشرکین مکہ) کے ساتھ بطور مددگار آیا تھا، پھر بھاگ گیا۔ حدیث اور قرآن میں کیا تطبیق ممکن ہے؟

*الجواب:*
شیاطین کی تین قسمیں ہیں:

1- بڑا شیطان یعنی ابلیس: جس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا تھا۔
2- مردۃ الشیاطین: انتہائی سرکش شیاطین (جو کہ دوسرے شیطانوں کے سردار ہیں)
3- عام شیاطین

❀ بڑے شیطان یعنی ابلیس نے الله تعالیٰ سے قیامت تک کی مہلت مانگی اور الله تعالیٰ نے اسے یہ مہلت دے دی ہے جیسا کہ قرآن مجید سے ثابت ہے۔ (سورۃ الاعراف:14۔18)

لہٰذا ابلیس کو رمضان میں باندھا نہیں جاتا۔

أبو هريرة رضي الله عنه سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
((وَتُغَلُّ فِیْہِ مَرَدَۃُ الشَّیَاطِینِ))
اور رمضان کے مہینے میں مردۃ الشیاطین کو باندھا جاتا ہے۔
(سنن نسائی 4/ 129، ح 2108، وسندہ ضعیف، مسند احمد ج 2 ص 230، 385، 425)
اس روایت کے سارے راوی ثقہ ہیں۔ مگر ابو قلابہ تابعی رحمه الله کا سیدنا ابو ہریرہ رضي الله عنه سے سماع ثابت نہیں ہے۔ (دیکھئے الترغیب والترہیب ج 2 ص 98)
لیکن اس حدیث کے متعدد شواہد ہیں مثلاً: حدیث عتبۃ بن فرقد وفیہ:
((وَیُصَفَّدُ فِیْہِ کُلُّ شَیْطَانٍ مَرِیدٍ))
اور اس (رمضان) میں ہر شیطان مرید (سرکش شیطان) کو باندھ دیا جاتا ہے۔
(سنن النسائی: 2110، و مسند احمد 4/ 311، 312، واسنادہ حسن)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مردۃ الشیاطین (سرکش شیطانوں) کو رمضان میں باندھ دیا جاتا ہے۔
امام ابن خزیمہ کی بھی یہی تحقیق ہے۔ (دیکھئے صحیح ابن خزیمہ ج3ص 188، قبل ح 1883)
یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ خاص عام پر اور مقید مطلق پر مقدم ہوتا ہے۔
عام شیاطین کے باندھے جانے کے بارے میں کوئی صریح دلیل میرے علم میں نہیں ہے۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ قرآن اور حدیث میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ والحمدلله

……………… اصل مضمون ………………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے فتاویٰ علمیہ للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمه الله (جلد 2 صفحہ 137 اور 138)

------------------------------------------

☀️  بصیرت افروز ☀️

Share:

Kya Iftaar se kuchh minute pahle Haiz Aane par Roza mukammal hoga ya toot jayega?

Kya Haiz ke Dauraan Koi Aurat Roza rakh sakti hai?

Sawal : Agar Roze ki haalat me iftari se kuchh minute pahle Aurat ko Haiz ka khoon aana shuru ho jaye to kya Wah us din ka Roza Mukammal karegi ya nahi? Haiz (Period) aur Nafas me Roze chhodne ki hikmat kya hai?

Iftari se Pahle Dua Padhni chahiye ya bad me? Sehri ki dua. 

Roze me Haiz o nafas ke Ahem (important) Masail.

Wah kaun kaun se Kam hai jisse roza toot jata hai?

Haiz aane par Roze Rakhna chahiye ya tod dena chahiye?

Haiza Aurat Aietekaf me baith sakti hai ya nahi?

Namaj, Roza aur Hajj ke mutalliq Haiz ke Masail.

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-245"
سوال_اگر روزہ کی حالت میں افطاری سے کچھ منٹ پہلے عورت کو حیض کا خون آنا شروع ہوجائے تو کیا وہ اس دن کا روزہ مکمل کرے گی یا نہیں؟نیز حیض و نفاس میں روزہ چھوڑنے کی حکمت کیا ہے؟

Published Date: 16-5-2019

جواب :
الحمد للہ:

*کچھ کم علم لوگوں نے یہ بات مشہور کر رکھی ہے کہ اگر عورت کو عصر کے بعد حیض کا خون آئے تو اسکا روزہ ٹھیک ہو گا یا وہ روزہ مکمل کرے گی*

*جب کہ یہ فضول اور من گھڑت بات ہے، کیونکہ عورت کو روزہ کی حالت میں ماہواری شروع ہو جائے تو اس کا روزہ باطل ہو جاتا ہے ،اگرچہ وہ خون غروب شمس سے چند لمحہ قبل ہی آنا شروع ہوجائے،تو اسکا روزہ ختم ہو جائے گا اور اگر روزہ واجبی تھا تو اس پر بعد میں قضا بھی واجب ہو گی، اور حالت حیض میں عورت کا روزہ جاری رکھنا حرام ہے*

ام المومنین سیدہ عا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہمیں حیض آتا توہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ ہم روزے قضاء کریں اورنماز کی قضاء کا حکم نہیں دیا جاتا تھا،
(صحیح مسلم حدیث نمبر-335)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-263)

اور ابو سعید رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا کہ،
کیا تم میں سے جب کسی ایک حیض آتا ہے وہ نہ تو نماز ادا کرتی ہے اورنہ ہی روزہ رکھتی ہے ، یہ اس کے دین میں کمی ہے، (صحیح بخاری حدیث نمبر-304)

امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
حائضہ اورنفاس والی عورت کے روزہ کی حرمت میں امت کا اجماع ہے ، لھذا اس بنا پر اس کا روزہ صحیح نہیں ۔۔۔۔ امت کا اس پربھی اجماع ہے کہ اسے اس روزہ کی قضاء میں روزہ رکھنا ہوگا ، امام ترمذی ، ابن مندر ، اورابن جریر اورہماے اصحاب وغیرہ نے یہ اجماع نقل کیا ہے ۔ باختصار
دیکھیں المجموع للنووی ( 2 / 386 )

اور ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
اہل علم کا اجماع ہے کہ حائضہ اورنفاس والی عورت کا روزہ رکھنا حلال نہیں ، بلکہ وہ رمضان کے روزے نہیں رکھیں گي بلکہ وہ بعد میں اس کی قضاء کریں گی ، اوراگر وہ روزہ رکھ بھی لیں تو ان کا روزہ صحیح نہیں ہوگا ۔

شیخ ابن عثیمین اللہ تعالی کا کہنا ہے :
روزہ کی حالت میں حیض آنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے ، چاہے غروب شمس سے ایک لمحہ قبل ہی کیوں نہ آئے ، اگر توفرضی روزہ ہوتواس دن کی قضاء واجب ہوگي ۔
لیکن اگر اس نے مغرب سے قبل حیض کے خون کے انتقال کومحسوس کیا اورخون آنا شروع نہیں ہوا بلکہ مغرب کے بعد خون آنا شروع ہوا تواس کا روزہ صحیح اورمکمل ہے اورصحیح قول یہی ہے کہ باطل نہيں ہوگا ۔ ا ھـ
دیکھیں : الدماء الطبیعیۃ للنساء صفحہ نمبر ( 28 ) ۔

مستقل فتوی کمیٹی ( اللجنۃ الدائمۃ ) سے مندرجہ ذیل سوال کیاگيا :
ایک عورت نے روزہ رکھا لیکن غروب شمس اور اذان سے کچھ دیر قبل حیض آنا شروع ہوجائے تو کیا اس کا روزہ باطل ہوجائے گا ؟
کمیٹی کا جواب تھا :
اگرتو حیض مغرب سے قبل آئے توروزہ باطل ہوگا اوراس کی قضاء کرے گي لیکن اگر مغرب سے بعد حیض آنے کی صورت میں اس کا روزہ صحیح اورمکمل ہے اس پر کوئي قضاء نہيں ۔ ا ھـ
دیکھیں : فتاوی اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء ( 10 / 155 )

شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ کہتے ہیں؛
حائضہ اورنفاس والی عورت برابر ہے کیونکہ نفاس کا خون ہی حیض کا خون ہے اوراس کا حکم بھی وہی ہے ، جب دن کے کسی بھی حصہ میں حیض آجائے تو اس دن کا روزہ فاسد ہوجائےگا ، چاہے دن کی ابتداء میں حیض آئے یا پھر شام کے وقت ، اورحائضہ عورت نے جب حالت حیض میں روزہ رکھنے کی حرمت کا علم ہونے کے باوجود روزہ کی نیت کی اورکچھ نہ کھایا پیا تو وہ گنہگار ہوگی ، اوراس کا یہ روزہ رکھنا کافی نہیں ہوگا ۔ اھـ
(( سعودی فتاویٰ کمیٹی الاسلام سوال وجواب))

*حائضہ عورت کا روزہ چھوڑنے کی حکمت*

امام الحرمین کا کہنا ہے : اس کا روزہ صحیح نہ ہونے کے معنی کا ادراک نہيں کیا جاسکتا ، اس لیے کہ روزے کے لیے طہارت وپاکيزگي شرط نہيں ۔ اھـ
دیکھیں : المجموع ( 2 / 386 )

اورکچھ دوسرے علماء کرام کا کہنا ہے : بلکہ اس میں حکمت یہ ہے کہ : اللہ تعالی نے حائضہ عورت پر رحم کرتے ہوئے اسے روزہ رکھنے سے منع کیا ہے ، اس لیے کہ خون کے اخراج سے کمزوری ہوجاتی ہے ، اوراگر وہ روزہ بھی رکھے تواس میں اورزيادہ کمزوری ہوگی کیونکہ حیض اورروزہ دونوں کی کمزوری جمع ہوجائے گی جس کی بنا پر روزہ اسے اعتدال پرقائم نہيں رہنے دے گا ، اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسے اس سے نقصان پہنچے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی مجموع الفتاوی میں کہتے ہيں :

ہم حیض کی حکمت اوراس کا قیاس کے مطابق ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں :

یقینا شریعت اسلامیہ ہر چيز میں عدل وانصاف لائي ہے اورعبادات میں اسراف ظلم وزيادتی ہے جس سے شریعت نے منع فرمایا ہے اورعبادات میں میانہ روی کا حکم دیا ہے ، اسی لیے شارع نے افطاری میں جلدی اورسحری میں تاخیر کا حکم دیا اوروصال ( یعنی بغیر افطاری کیے دوسرا روزہ رکھنا ) منع کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( افضل اورعادلانہ روزے داود علیہ السلام کے روزے ہیں وہ ایک دن روزہ رکھتے اورایک دن نہيں رکھتے تھے ) ۔

لھذا عبادات میں عدل مقاصد شریعت کا سب سےبڑا مقصدہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

اورجب معاملہ یہی ہے توروزہ دار کوبھی مقوی اشیاء یعنی کھانے پینے سے منع کردیا گيا ، اوراسے ان اشیاء کے اخراج سے بھی منع کردیا گيا جس کے خارج ہونے سے کمزوری لاحق ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔
اورحیض میں آنے والے خون میں خون کا اخراج ہے ، اور پھر حائضہ عورت کے لیے ممکن ہے کہ وہ حیض کے علاوہ کسی اوروقت جب اسے خون نہ آتا ہو توروزہ رکھ لے کیونکہ ایسی حالت میں اس کے لیے روزہ رکھنا اعتدال پسندی ہوگي کیونکہ اس حالت میں خون نہيں نکلتا جوبدن کوقوت دینے والا مادہ ہے ۔
اورحالت حیض میں روزہ رکھنے میں کہ اس کا خون خارج ہوتا ہے جوبدن کوتقویت دینے کا باعث ہے ، جس کے اخراج سے بدن کو نقصان اورکمزوری ہوتی ہے جس کی وجہ سے روزہ اعتدال کی حالت سے نکل ہوجائے گا لھذا عورت کویہ حکم دیا گیا کہ وہ حالت حیض کےعلاوہ دوسرے اوقات میں روزہ رکھے ۔ اھـ مختصر

(دیکھیں : مجموع الفتاوی لابن تیمیہ ( 25 / 234 )

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))
-------------------------------
اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
                      +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Kya Ramzan ke mahine me Inteqal (faut/Death) hone wale Direct Jannat me Jayenge unse Sawal o jawab nahi hoga?

Kya Ramzan ke mahine me Faut hone wale se Qabar me Sawal o jawab nahi kiya jayega aur unhein Jannat ki Basharat mili hai?
Sawal: Kya Ramzan ke mahine me Faut hone walo ko Jannat ki Basharat mili hai? Jo Shakhs Ramzan me inteqal farmaayega Wah Direct Jannat me jayega?

سلسلہ سوال و جواب نمبر-336"
سوال-کیا رمضان میں فوت ہونے والوں کو جنت کی بشارت ملی ہے؟ کہ جو شخص رمضان میں فوت ہو وہ سیدھا جنت میں جاتا ہے؟

Published Date:17-05-2020

جواب :
الحمدللہ:

*رمضان کے فضائل کے حوالے سے بہت سی من گھڑت باتوں کی طرح ایک یہ بات بھی لوگوں میں مشہور ہے کہ رمضان میں فوت ہونے والے سیدھے جنت میں جاتے ہیں،ان سے کوئی حساب کتاب نہیں لیا جاتا،*

*جبکہ یہ بات کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں اور  ایسے تمام دلائل کمزور اور من گھڑت ہیں*

آئیے ان دلائل کا جائزہ لیتے ہیں،

📚پہلی دلیل
حضرتِ سَیِّدُنا عبد اللہ ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ،کہ نبی اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: ''جسکو رَمَضان کے اختِتام کے وَقت موت آئی وہ جنّت میں داخِل ہوگا اور جسکی موت عَرَفہ کے دن (یعنی ٩ ذُوالحجّۃُ الحرام ) کے خَتْم ہوتے وَقت آئی وہ بھی جنّت میں داخِل ہوگااور جسکی موت صَدَقہ دینے کی حالت میں آئی وہ بھی داخِلِ جنّت ہوگا۔ ''
(حِلْیۃُ ا لْاولیَاء ،ج٥،ص٢٦،حدیث٦١٨٧)

🚫تبصرہ
یہ روایت مکمل سند کے ساتھ یہ ہے،

امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
حدثنا عبدالله بن محمد ثنا ابن سعيد الواسطي ثنا محمد بن حرب الواسطي ثنا نصر بن حماد ثنا همام ثنا محمد بن جحادة عن طلحة بن مصرف قال سمعت خيثمة بن عبدالرحمن يحدث عن ابن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من وافق موته عند انقضاء رمضان دخل الجنة ومن وافق موته عند انقضاء عرفة دخل الجنة ومن وافق موته عند انقضاء صدقة دخل الجنة غريب من حديث طلحة لم نكتبه إلا من حديث نصر عن همام
[حلية الأولياء 5/ 23]۔

*یہ روایت سخت ضعیف ہے اس کی سند میں ''نصر بن حماد بن عجلان'' ہے اور یہ متروک ہے*

📒امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
متروك الحديث
[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 470]۔

بلکہ بعض محدثین نے تو اسے کذاب کہاہے چنانچہ:

📒امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
كذاب
[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 300 واسنادہ صحیح]۔


📚دوسری دلیل
اُمُّ الْمُؤ منین سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدِّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشادِ ہے: ''جس کا روزہ کی حالت میں اِنْتِقال ہوا، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اُسکو قِیامت تک کے روزوں کا ثواب عطا فرماتا ہے۔''
(الفردوس بماثورالخطاب ،ج٣،ص٥٠٤،حدیث٥٥٥٧)

🚫تبصرہ
یہ روایت مکمل سند کے ساتھ کچھ اس طرح ہے،

📒امام أبو منصور الديلمي رحمه الله (المتوفى558)نے کہا:
أخبرناه الامام والدي رحمه الله، أخبرناعبدالملک بن عبدالغفاربن البصري، حدثنا بشري الفاتني، أخبرنا عمربن محمدبن سيف، حدثناالحسن بن علي بن الحسن القطان،حدثنا محمدبن عبدالله بن بشر أبوالفضل، حدثنا اسماعيل بن بشربن خالد الهلالي، حدثنا عمروبن الحصين،حدثناأرطاة بن أرطاة عن هشام بن عروه عن أبيه عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: من مات صائما أوجب الله له الصيام إلى يوم القيامة
[ بحوالہ فردوس الأخبار رقم 9567]۔

*یہ روایت بھی سخت ضعیف ہے اس کی سند میں ’’عمرو بن الحصين‘‘ ہے اور یہ متروک ہے*

📒حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
عمرو بن الحصين العقيلي بضم أوله البصري ثم الجزري متروك
[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم 5012]۔



📚تیسری دلیل
حضرت  سیدنا اَنس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا ،''یہ رمضان تمہارے پاس آگیا ہے ،اس میں جنّت کے دروازے کھول دیئے جا تے ہیں اور جہنَّم کے دروازے بندکردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے ،محروم ہے وہ شخص جس نے رَمضا ن کو پایا اور اس کی مغفِرت نہ ہوئی کہ جب اس کی رَمضا ن میں مغفِرت نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی ؟
(مجمع الزوائد ،ج ٣ ،ص ٣٤٥،حدیث ٤٧٨٨ )

🚫تبصرہ
اس روایت کی مکمل سند متن یہ ہے،

📒امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
وَعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَقُولُ: «هَذَا رَمَضَانُ قَدْ جَاءَ، تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ النَّارِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، بُعْدًا لِمَرْءٍ أَدْرَكَ رَمَضَانَ فَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ، إِذَا لَمْ يُغْفَرْ لَهُ فِيهِ فَمَتَى؟!».
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَفِيهِ الْفَضْلُ بْنُ عِيسَى الرَّقَاشِيُّ، وَهُوَ ضَعِيفٌ.
[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 3/ 143]

ایک جگہ پر یہ ہے،

📒امام طبراني رحمه الله (المتوفى360)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمَرْزُبَانِ الْأَدَمِيُّ، نَا نُوحُ بْنُ أَنَسٍ الْمُقْرِئُ الرَّازِيُّ، نَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عِيسَى الرَّقَاشِيِّ، عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «هَذَا رَمَضَانُ قَدْ جَاءَ، تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ النَّارِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، بُعْدًا لِمَنْ أَدْرَكَ رَمَضَانَ وَلَمْ يُغْفَرْ لَهُ، إِذَا لَمْ يُغْفَرْ لَهُ فِيهِ فَمَتَى؟»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ إِلَّا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَغْرَاءَ "
[المعجم الأوسط للطبراني: 7/ 323]۔

*یہ روایت بھی ضعیف ہے،*

📒امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اسے نقل کرنے بعد خود اس کی سند کے ایک راوی
’’الْفَضْلُ بْنُ عِيسَى الرَّقَاشِيُّ،‘‘ کو ضعیف قرار دیا ہے۔

اور دوسری بات اس میں رمضان میں فوت ہونے والے کے لئے مغفرت کی بات نہیں ہے

*واضح رہے کہ شیطان کے قید ہونے والی بات دیگر صحیح احادیث سے ثابت ہے*



📚چوتھی دلیل
جو خوش نصیب مُسلمان ماہِ رَمَضان میں اِنْتِقال کرتا ہے اُس کو سوالاتِ قَبْر سے اَمان مِل جاتی ، عذابِ قَبرسے بچ جاتا اور جنّت کا حَقدار قرار پاتا ہے۔چُنانچِہ حضراتِ مُحَدِّثین کِرام رحمَہم اللّٰہُ المبین کاقَول ہے، ''جو مؤمِن اِس مہینے میں مرتا ہے وہ سیدھا جَنّت میں جاتا ہے،گویا اُس کے لئے دوزخ کا دروازہ بند ہے۔ ''
(انیسُ الواعِظِین ،ص٢٥)

🚫تبصرہ
محدثین کی طرف یہ قول غلط منسوب کیا گیا ہے انیس الواعظین معلوم نہیں کس کی کتاب ہے اس نام کی کتاب ایک شیعہ کی بھی ہے اگر اسی کتاب سے یہ منقول ہے تو اہل تشیع کی کتب کا کوئی اعتبار نہیں ۔
مزید یہ کہ یہ بات بے دلیل ہے۔

*خلاصہ کلام یہ کہ رمضان میں وفات پانے والے کی فضیلت سے متعلق ایک بھی روایت صحیح نہیں ہے۔

نہ تو پیش کردہ احادیث میں سے کوئی صحیح ہے اور نہ ہی اس سلسلے کی دیگر روایات میں سے کوئی صحیح ہے*

_________&_________

📒سعودی مفتی شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا فتویٰ

سوال
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (جب رمضان آ جائے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے) تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص رمضان میں فوت ہو گا وہ جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو جائے گا؟

📚جواب از شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ

الحمد للہ:

"نہیں معاملہ ایسے نہیں ہے، اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جنت کے دروازے نیکیاں کرنے والوں کو مزید سرگرم رکھنے کیلیے کھول دئیے جاتے ہیں، تا کہ ان کے لیے جنت میں داخلہ ممکن ہو، اور جہنم کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں ؛ کیونکہ اہل ایمان گناہ سے دور ہوتے ہیں اور تا کہ اہل ایمان ان دروازوں سے داخل نہ ہوں۔ اور اس کا معنی یہ بالکل نہیں ہے کہ جو بھی رمضان میں فوت ہو گا وہ جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو گا۔ جنت میں بغیر حساب کے وہی لوگ داخل ہوں گے جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہ وہ لوگ ہیں جو دم کا مطالبہ نہیں کرتے، اپنے جسموں پر داغ نہیں لگواتے، وہ فال نہیں نکالتے اور وہ اپنے پروردگار پر توکل کرتے ہیں) اس کے ساتھ ساتھ وہ تمام کام بھی کرتے ہیں جو اللہ تعالی نے ان پر واجب کیے ہیں" ختم شد

(فضیلۃ الشیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ
ماخوذ از: فتاوی اسلامیہ: (2/162)

*اللہ پاک صحیح معنوں میں دین اسلام پر عمل کی توفیق عطا فرمائیں آمین*

(((واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب)))

📚کہا جاتا ہےکہ جب کوئی آدمی جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن فوت ہوجائے تو اللہ عزوجل اس سے قیامت تک کا عذاب ہٹا لیتا ہے، کیا یہ بات ٹھیک ہے؟ اور صحیح حدیث سے ثابت ہے؟

((جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-264))


📲اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📝آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر
واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

📖سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.یا آفیشل ویب سائٹ سے تلاش کریں،

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                  +923036501765

آفیشل فیس بک پیج

https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

آفیشل ویب سائٹ
Alfurqan.info

Share:

Kya Ramzan ke mahine me Shaitan ko Kaid (Zakar) kar liya Jata hai, tab bhi logo se Gunah kyu hote hai?

Agar Ramzan ke mahine me Shaitan ko kaid kar liya jata hai to fir Log Gunah kyu karte hai?

Sawal: Hadees me hai ke Ramzan ke mahine me Shaitan ko Zakar diya jata hai to fir Ramzan me bhi Gunah kyu hote hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-335"
سوال: حدیث میں ہے کہ ماہ رمضان میں شیاطین کو  جکڑ دیا جاتا ہے تو پھر رمضان میں بھی گناہ کیوں ہوتے ہیں؟

Date: 16-5-2020
جواب..!
الحمدللہ..!

*رمضان میں شیاطین کو جکڑنا، قید کرنا متعدد احادیث سے ثابت ہے، جن میں سے چند یہ ہیں*

📚ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ ".
جب رمضان شروع ہو تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو زنجیروں میں باندھ دیا جاتا ہے
(صحیح بخاری حدیث نمبر-3277)
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1079)

📚 مسلم کی ایک روایت  میں ہے کہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ ؛ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ  وَصُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ
جب رمضان آتا ہے جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کےدروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین بیڑیوں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں ۔
(صحیح مسلم حدیث نمبر-1079)

📚سنن ترمذی میں ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ صُفِّدَتْ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ وَيُنَادِي مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنْ النَّارِ وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ
جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اورسرکش جن جکڑ دیئے جاتے ہیں،جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھولا نہیں جاتا۔اورجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بندنہیں کیاجاتا، پکارنے والا پکارتاہے: خیر کے طلب گار!آگے بڑھ ، اور شرکے طلب گار! رُک جا اور آگ سے اللہ کے بہت سے آزادکئے ہوئے بندے ہیں (توہوسکتاہے کہ تو بھی انہیں میں سے ہو) اور ایسا(رمضان کی) ہررات کو ہوتا ہے
(سنن ترمذی حدیث نمبر-682)
( سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-1642)
اسے البانی رحمہ اللہ نے  "صحیح الجامع": (759) میں صحیح قرار دیا ہے

(یعنی اسی ندا کا اثر ہے کہ رمضان میں اہل ایمان کی نیکیوں کی جانب توجہ بڑھ جاتی ہے اور وہ اس ماہ مبارک میں تلاوت قرآن ذکر و عبادات خیرات اور توبہ و استغفار کا زیادہ اہتمام کرنے لگتے ہیں،)

*یہاں ایک اشکال یہ ہے کہ جب شیاطین اور مردۃ الجن قید کر دیئے جاتے ہیں تو پھر گناہ کیوں ہوتے ہیں؟*

1-اس کا ایک جواب تو یہ کہ معصیت کے صدور کے لیے تحقق اور شیاطین کا وجود ضروری نہیں،انسان گیارہ مہینے شیطان سے متاثر ہوتا رہتا ہے رمضان میں بھی اس کا اثرباقی رہتاہے،

2- دوسرا جواب یہ ہے کہ لیڈر قید کر دیئے جاتے لیکن انکے رضاکار اور والنیٹر کھُلے رہتے ہیں

3- تیسرا جواب یہ ہے کہ قید سے مراد ہے کہ شیاطین کو کمزور کر دیا جاتا ہے،

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے رمضان المبارک  کے ایام سے متعلق استفسار کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (اس ماہ میں شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں) لیکن اس کے با وجود لوگوں کو جنوں کے دورے پڑتے ہیں؛ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ لوگوں کے دورے بھی پڑیں اور شیاطین جکڑے ہوئے بھی ہوں؟ 

تو انہوں نے جواب دیا:
"اس حدیث کے بعض الفاظ میں یہ بھی ہے کہ : (سرکش شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں) اور نسائی کی حدیث میں ہے کہ(بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں) اس قسم کی احادیث غیبی امور سے متعلق ہیں ، اور غیبی امور کے بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ جیسے بیان ہوں ویسے ہی تسلیم  کر لیا جائے اور انہیں مبنی بر حق مانا جائے، نیز اس بارے میں اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائے جائیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسی موقف کی بنا پر ہر آدمی کا دین سلامت اور انجام بہتر ہوگا، یہی وجہ ہے کہ جب عبد اللہ بن امام احمد بن حنبل نے اپنے والد سے کہا: "انسان کو رمضان میں بھی جنات کے دورے پڑتے ہیں" تو انہوں نے کہا: "حدیث میں ایسے ہی آیا ہے، اس بارے میں مزید بات مت کرو" ویسے بھی لوگوں کو گمراہ کرنے سے انہیں روک دیا جاتا ہے اور یہ بات مشاہدے میں بھی ہے کہ لوگ کثرت کیساتھ خیر چاہتے ہیں، اور رمضان میں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں" انتہی
(" مجموع فتاوى ابن عثیمین" (20/ 75)

*مندرجہ بالا بیان کے بعد شیاطین کو جکڑنا حقیقت پر مبنی ہے، اور اللہ تعالی کو اس بارے میں حقیقی علم ہے، تاہم اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ شیاطین  کی تاثیر بالکل ختم کر دی جاتی ہے، یا اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے جناتی دورے، یا جنوں کی وجہ سے انسانوں کا نقصان  نہ ہو، یا لوگ بالکل ہی گناہ کرنا چھوڑ دیں، بلکہ یہاں مطلب یہ ہے کہ رمضان میں انہیں کمزور کر دیا جاتا ہے، اور رمضان میں ان کی قوت اتنی نہیں ہوتی جیسے رمضان سے پہلے ہوتی ہے*

📒چنانچہ ابو العباس قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر یہ کہا جائے کہ: ہم رمضان میں بھی بہت سے برائیاں اور گناہ کے کام ہوتے دیکھتے ہیں، اگر شیاطین حقیقت میں  جکڑے ہوئے ہوتے تو برائی سرے سے نہ ہوتی!؟

اس کا جواب کئی انداز سے دیا جا سکتا ہے:

1- شیاطین کو ایسے روزے  داروں تک رسائی سے روک دیا جاتا ہے جنہوں نے روزے کی شرائط اور مکمل آداب کو ملحوظ رکھا، چنانچہ ایسے روزے دار جنہوں نے شرائط یا آداب  کا خیال نہیں رکھا ان سے شیاطین کو نہیں روکا جاتا۔

2- اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ تمام روزے داروں تک شیاطین کی رسائی نہیں ہوتی ، لیکن پھر بھی تمام شیاطین کے جکڑے جانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ گناہ سرے سے ہی ختم ہو جائیں، کیونکہ گناہوں کے رونما ہونے کے شیاطین کے علاوہ بھی بہت سے  اسباب ہیں، جن میں خبیث لوگ، بری عادات، اور انسانی  شکل میں شیاطین  بھی شامل ہیں۔

3- یہ بھی ممکن ہے کہ اس حدیث میں اکثر شیاطین اور سرکش قسم کے شیطانوں کے بارے میں کہا گیا ہو، چنانچہ یہ ممکن ہے کہ غیر  سرکش  شیطان کو نہ جکڑا جاتا ہو۔

مطلب اور مفہوم یہ ہے کہ: شر کے ذرائع کم سے کم ہو جاتے ہیں اور یہ بات رمضان میں بالکل واضح ہوتی ہے؛ کیونکہ دیگر مہینوں کی بہ نسبت اس ماہ میں گناہوں کی مقدار بہت کم ہوتی ہے" انتہی
(" المفهِم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم"3/ 136)

*اہل علم نے رمضان میں شیاطین کو جکڑنے کی حکمتیں بھی بیان کی ہیں جن میں کچھ یہ ہیں*

لوگوں کو گمراہ کرنے کے واقعات اور شر میں کمی ہونا، مسلمانوں کو ایذا رسانی اور روزہ  خراب کرنے سے روکنا، تا کہ رمضان کے علاوہ دیگر مہینوں میں جہاں تک ان کی رسائی ہوتی ہے وہاں تک رمضان میں ان کی رسائی ممکن نہ ہو، کیونکہ شیاطین دیگر مہینوں میں لوگوں کو گمراہ کر کے بہت سی نیکیوں  سےان کا منہ موڑ دیتے ہیں، جبکہ رمضان میں ان کے جکڑے جانے سے لوگ اطاعت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور ماہ رمضان میں  ہر قسم کی شہوت پرستی سے باز رہتے ہیں۔

📒شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ اس لیے ہے کہ ماہ رمضان میں دل  نیکی، اور اعمال صالح کی طرف لپکتے ہیں، جن کی وجہ سے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور دل گناہوں سے بچتے ہیں اسی وجہ سے جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے، چنانچہ وہ ایسے کار نامے سر انجام نہیں دے پاتے جو غیر رمضان میں کر دکھاتے ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جکڑا ہوا قید ہوتا ہے، اور شیاطین کیلئے بنی آدم کو گمراہ کرنے کا موقع اسی وقت ملتا ہے جب بنی آدم شہوت کی گرفت  آجائے، چنانچہ جس قدر بنی آدم شہوت سے دور رہتے ہیں شیاطین جکڑ بندی کی حالت میں ہی رہتے ہیں" انتہی
("مجموع الفتاوى"14/167)

📒ابن تیمیہ رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں کہ:
"یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب رمضان شروع ہو جائے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند  کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے)؛ کیونکہ شیاطین کے چلنے کی جگہ خون  ہوتا ہے، اور شیاطین کیلئے وہی تنگ کر دیا جاتا ہے، جب شیاطین تنگ ہوتے ہیں تو دل نیکی کرنے کیلئے لپکتے ہیں، اور انہی نیکیوں کی وجہ سے ہی جنت کے دروازے کھلتے ہیں، اور دل برائی سے بچتے ہیں جس کی وجہ سے جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو پا بند سلاسل کر دیے جانے کی وجہ سے ان کی قوت، نشاط کمزور پڑ جاتی ہے، چنانچہ رمضان میں وہ کچھ نہیں کر پاتے جو غیر رمضان میں کر دکھاتے ہیں، [غور کی بات یہ ہے کہ] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ انہیں قتل کر دیا جاتا ہے، یا مار دیا جاتا ہے، بلکہ فرمایا: (جکڑ دیا جاتا ہے) اور جکڑا ہوا شیطان بھی اذیت پہنچا سکتا ہے اگرچہ یہ اذیت غیر رمضان کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے؛ اور شیطانی اذیت میں کمی روزے کے معیار پر منحصر ہے، چنانچہ جس شخص کا روزہ کامل ہوگا شیطان اس سے دور بھاگے گا، لیکن ناقص روزے والے سے زیادہ دور نہیں جائے گا، یہ بات روزے دار کو کھانے پینے سے روکنے کیلئے بالکل واضح معلوم ہوتی ہے" انتہی
("مجموع الفتاوى" (25/246)

*اللہ پاک صحیح معنوں میں دین اسلام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین،*

(مآخذ: الاسلام سوال وجواب )

(((واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب)))
------------------------

📲اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📝آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر
واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

📖سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہمارا فیسبک پیج وزٹ کریں۔۔.یا آفیشل ویب سائٹ سے تلاش کریں،

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                  +923036501765

آفیشل فیس بک پیج

https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

آفیشل ویب سائٹ
Alfurqan.info

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS