find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Nabi Ki Sunnat.. Show all posts
Showing posts with label Nabi Ki Sunnat.. Show all posts

Seerat un nabi Mohammad Sallahu Alaihe Wasallam. Part 03

Yahudiyat aur isaiyat arab me kaise faila?
Jab koi Yahudi christian religion apna leta tha to yahudi hukamaran kaise kaise saja diya karte they?

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..

قسط 3
پچھلی اقساط میں مشرکین حجاز و عرب کے عقائد اور بت پرستی کی تاریخ بیان کی گئی.. اس قسط میں ھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت سرزمین عرب میں موجود دوسرے مذاھب اور ادیان کا ایک مختصر جائزہ پیش کریں گے..

یہودیت..
عرب میں بت پرستی کے بعد دوسرا اھم ترین مذھب یہودیت تھا.. یہ لوگ دو وجہ سے سرزمین میں آباد ھوۓ.. ایک تو اس لیے کہ حضرت عیسی' علیہ السلام کی پیدائش سے پانچ سو سال پہلے جب بابل کے بادشاہ "بخت نزار" نے فلسطین کو تاراج کیا اور تباہ و برباد کیا تو یہودیوں کے بہت سے قبائل جان بچاکر دنیا کے کئی دوسرے حصوں کی طرف بھاگے.. انہی میں سے چند قبائل عرب کی طرف آ نکلے اور خود کو یہاں محفوظ جان کر آباد ھوگئے..

دوسری بہت اھم وجہ یہ تھی کہ یہودیوں کو تورات و زبور کی پیش گوئیوں کی وجہ سے علم تھا کہ اللہ عنقریب اپنا آخری پیغمبر سرزمین عرب میں مبعوث فرمانے والا ھے.. یہ اس نبی کو اپنا نجات دھندہ جانتے تھے اس لیے یہ لوگ آخری نبی کے انتظار میں یہاں آ کر آباد ھوگئے.. چونکہ حضرت ابراھیم علیہ السلام سے لیکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک جتنے بھی نبی آۓ سب بنی اسرائیل میں سے ھی مبعوث ھوۓ تھے تو اس بناء پر ان کا خیال تھا کہ آخری نبی بھی بنی اسرائیل سے ھی ھوگا مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبوت ملی تو اس بات کے باوجود کہ تورات و زبور اور دوسرے الہامی صحائف میں آخری نبی کی جو نشانیاں بتائی گئی تھیں سب کی سب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کھلم کھلا نظر آ گئیں مگر عرب کے یہود نے محض اس حسد اور تعصب پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنی اسرائیل کے بجاۓ بنی اسمائیل میں سے تھے , آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی ماننے انکار کردیا..

سب سے پہلے یہ لوگ یثرب (مدینہ) اور خیبر کے علاقہ میں آباد ھوۓ.. ان کے اثر سے کچھ مقامی افراد نے بھی یہودیت اختیار کرلی.. پھر 354 قبل مسیح میں یثرب سے دو یہودی مبلغ یمن پہنچے تو ان کے اثر سے یمن کے حمیری بادشاہ "یوسف ذونواس" نے جب یہودی مذھب قبول کرلیا تو یمن میں یہودیت کو بہت فروغ ملا..

یہ لوگ اپنے علم اور دولت کی وجہ سے خود کو عربوں سے بہت برتر خیال کرتے تھے اور عربوں کو اپنے مقابلے میں "امی" یعنی جاھل سمجھتے تھے.. نسلی برتری کا شکار یہ متعصب قوم خود کو خدا کا چہیتا اور برگزیدہ تصور کرتی تھی.. ان کا خیال تھا کہ جہنم کی آگ ان کو چند دن سے زیادہ نہیں چھوۓ گی.. حالاں کہ یہ لوگ اپنے تمام تر اوصاف کھوچکے تھے.. سودخوری ان کا شعار بن چکی تھی.. حسب ضرورت تورات اور مذھبی احکام میں تحریف کرنا ان کے ھاں عام تھا.. مذھب گویا ان کے گھر کی لونڈی جیسا تھا جس کے ساتھ وہ جو چاھیں کریں.. چونکہ خود کو تمام اقوام سے برتر جانتے تھے تو ان سے ھر قسم کا دجل و فریب اور ظلم جائز تھا تاھم اپنی پوری دنیا پرستی کے باوجود مدینہ اور اردگرد کے علاقے میں ان کو الہیات اور خدائی علوم میں اجارہ داری حاصل تھی.. ان کے اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ھے کہ مدینہ کے قبائل اوس و خزرج میں کسی کی اولاد نہ ھوتی تو وہ منت مانتا کہ بیٹا ھونے کی صورت میں اسے یہودی بنادیں گے..

عیسائیت..
عربوں میں تیسرا اھم مذھب عیسائیت تھا.. حضرت عیسی علیہ السلام سے کم و بیش 250 سال بعد روم کی عیسائی حکومت کے زیر اثر شام کی طرف کے عرب قبائل نے عیسائیت قبول کرلی.. دوسری طرف حیرہ کے عرب بادشاہ "نعمان بن منذر" نے دین عیسوی قبول کیا تو وھاں کے بہت سے لوگ عیسائی ھوگئے جبکہ یمن میں جب عیسائی مبلغین کی تبلیغ پر کچھ لوگ عیسائی ھوۓ تو یہودی بادشاہ "یوسف ذونواس" نے ان پر بے پناہ ظلم و ستم کیا اور پھر قتل کرا دیا.. روم کی عیسائی حکومت تک جب یہ خبر پہنچی تو قیصر روم بہت غصبناک ھوا.. اس نے شاہ حبشہ کو جو رومی حلقہ اثر میں ایک عیسائی حکمران تھا , حکم دیا کہ یوسف ذونواس سے اس ظلم و ستم کا بدلہ لیا جاۓ چنانچہ وھاں سے ایک حبشی نژاد لشکر آیا اور یوسف ذونواس کو شکست دیکر یمن پر بھی عیسائی حکومت قائم کردی..

"ابرھہ بن اشرم" اسی لشکر کا ایک فوجی سردار تھا جو بتدریج ترقی کرکے بالآخر یمن کا نیم خودمختار بادشاہ بن بیٹھا.. یہ کٹر عیسائی تھا اور اس نے یمن میں عیسائیت کے فروغ کے لیے بے پناہ کام کیا.. یاد رھے کہ یہ وھی ابرھہ ھے جس نے "صنعاء" میں کعبہ کے مقابلے پر ایک عظیم الشان کلیسا (گرجا) تعمیر کرایا اور پھر خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادہ سے مکہ پر حملہ آور ھوا تھا.. (اس واقعہ کی تفصیل قسط نمبر 6 اور 7 میں گزر چکی ھے..)

اس زمانے کے عیسائی حضرت عیسی' علیہ السلام کی تعلیمات کے بجاۓ "سینٹ پال" کے مذھب کے پیرو ھو چکے تھے.. سینٹ پال پہلے یہودی تھا.. اس نے دعو'ی کیا کہ اسے حضرت عیسی' علیہ السلام نے خواب میں حکم دیا ھے کہ میرا دین پھیلاؤ.. یوں وہ عیسائی ھوا اور پھر اس نے بتدریج عیسائیت کو ایک الہامی مذھب سے شرک و گمراھی سے لتھڑا ھوا مذھب بنا دیا.. اس نے عیسائیت میں عقید تثلیث یعنی تین خداؤں کا عقیدہ شامل کیا.. حضرت عیسی' علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا ٹھہرایا.. اس نے عیسائیوں کو اس فریب میں مبتلا کردیا کہ حضرت عیسی' علیہ السلام سولی چڑھ کر سب عیسائیوں کے گناھوں کا کفارہ ادا کرگئے ھیں اور اب انہیں گناہ کی کھلی چھٹی ھے.. سینٹ پال کے زیر اثر عیسائی صرف پادری کے سامنے اعتراف جرم و گناہ کو ھی کافی سمجھتے.. تاھم یہود کے مقابلے میں ان کی اخلاقی حالت قدرے بہتر تھی اور قبول حق کی صلاحیت سے بھی یہ لوگ بہرہ ور تھے.. اس بات کا اندازہ آج بھی کیا جاسکتا ھے کہ آج بھی اسلام کی حقانیت جان کر مسلمان ھونے والوں میں یہودیوں کے مقابلے میں عیسائیوں کی تعداد بہت زیادہ ھے..

سابقہ صفحات میں مشرکین حجاز و عرب کے عقائد اور بت پرستی کی تاریخ اور مذھب یہودیت و عیسائیت کا تذکرہ کیا گیا.. اس صفحہ میں ھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت سرزمین عرب میں موجود باقی مذاھب اور ادیان کا ایک مختصر جائزہ پیش کریں گے..

آتش پرست..

ایران و عراق کی سرحد کے پاس آباد عرب قبائل ایرانیوں کے مذھب آتش پرستی سے بہت متاثر ھوۓ.. اھل ایران کی طرح یہ بھی نیکی اور بدی کے دو الگ الگ خداؤں کے قائل تھے اور اھل ایران کی طرح آگ کو خدا کا ظہور مانتے اور اس کی پوجا کرتے تھے..

صائبی..
عرب جاھلیت ایسے لوگ بھی تھے جن میں ستارہ پرستی کا چرچا تھا اور یہ ستاروں کی پوجا کرتے تھے.. غالبا" ان کا مذھب وادی دجلہ و فرات کی قدیم تہذیبوں کی باقیات میں سے تھا.. ان کا دعو'ی تھا کہ ان کا مذھب الہامی مذھب ھے اور وہ حضرت شیث علیہ السلام اور حضرت ادریس علیہ السلام کے پیروکار ھیں.. ان کے ھاں سات وقت کی نماز اور ایک قمری مہینہ کے روزے بھی تھے.. ان کو مشرک عرب معاشرہ صابی یعنی بے دین کہہ کر پکارتا تھا.. یمن کا مشھور قبیلہ "حمیر" سورج کی پوجا کرتا تھا.. قبیلہ اسد سیارہ عطارد کی اور قبیلہ لحم و جزام سیارہ مشتری کو دیوتا مان کر پوجتے تھے.. بعض لوگ قطبی ستارہ کے پجاری تھے اور قطب شمالی کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے تھے.. یہ لوگ خانہ کعبہ کی بھی بہت تکریم کرتے تھے..

دھریت..
ان تمام مذاھب کے ساتھ ساتھ عرب میں ایسے لوگ بھی پاۓ جاتے تھے جو سرے سے مذھب اور خدا پر یقین ھی نہ رکھتے تھے.. یہ نہ بت پرست تھے اور نہ کسی الہامی مذھب کے قائل تھے.. ان کے نزدیک خدا , حشر و نشر , جنت دوزخ اور جزا سزا کا کوئی وجود نہ تھا.. یہ دنیا کو ازلی و ابدی قرار دیتے تھے..

مسلک توحید کے علم بردار..

عرب معاشرہ میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود تھے جو اپنی فطرت سلیم اور قلبی بصیرت کی بدولت توحید خالص تک پہنچنے میں کامیاب ھوگئے تھے.. یہ لوگ ایک خدا کے قائل تھے اور شرک و بت پرستی سے نفرت کرتے تھے.. ان میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل , حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سگے چچا زید بن عمر بن نفیل اور عبیداللہ بن حجش مشھور ھیں.. دین حق کی تلاش میں سرگرداں ان لوگوں میں سے ورقہ بن نوفل بلآخر عیسائی ھوگئے.. یہ وھی ورقہ بن نوفل ھیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی نازل ھونے پر آپ کی نبوت کی تصدیق کی تھی.. عبیداللہ بن حجش اسلام کے بعد مسلمان ھوگئے لیکن حبشہ ھجرت کی تو وھاں بدقسمتی سے مرتد ھوکر عیسائی ھوگئے جبکہ ان میں زید بن عمر بن نفیل کو بہت اونچا مقام حاصل ھے.. حالاں کہ ان کو اسلام نصیب نہیں ھوا کیونکہ وہ پہلے ھی وفات پاگئے تھے لیکن ان کی فضیلت کا اندازہ اس حدیث مبارکہ کے مفہوم سے لگایا جاسکتا ھے کہ جب قیامت کے دن ھر امت اپنے نبی کی قیادت میں اٹھاۓ جائی گی تو زید بن عمر بن نفیل اکیلے ایک امت کے طور پر اٹھاۓ جائیں گے..

زید بن عمر بن نفیل نے بت پرستی , مردار خوری , خون ریزی اور دیگر تمام معاشرتی خباثتوں کو اپنے اوپر حرام کرلیا تھا اور جب ان سے ان کے مذھب کے متعلق پوچھا جاتا تو آپ جواب دیتے کہ

" اعبد رب ابراھیم " میں ابراھیم کے رب کی پرستش کرتا ھوں..

آپ بت پرستی سے سخت بیزار تھے اور خانہ کعبہ میں بیٹھ کر قریش کو کہتے کہ میرے سوا تم میں ایک بھی شخص دین ابراھیمی پر نہیں ھے.. آپ قوم کو بت پرستی سے منع کرتے رھتے تھے..

گو عرب میں ھر قسم کے دین موجود تھے مگر ان کی اصلی صورت اتنی مسخ ھوچکی تھی کہ کفر و شرک اور دین میں امتیاز کرنا مشکل ھوچکا تھا.. توحید جو ھر الہامی مذھب کا خاصہ تھا اس کا کسی مذھب میں کہیں نام و نشان تک نہ تھا اور کفر و شرک و توھم پرستی کا اندھیرا صرف عرب ھی نہیں تمام معلوم دنیا پر چھایا ھوا تھا.. غرض تمام ھی دنیا ضلالت و گمراھی کی دلدل میں غرق ھوچکی تھی..

تب خداۓ بزرگ و برتر کو اھل زمیں کی اس پستی و زبوں حالی پر رحم آیا اور اس نے ان میں اپنا عظیم تر پیغمبر مبعوث فرمایا..

پچھلے صفحات میں عربوں میں بت پرستی کی تاریخ اور ولادت نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے وقت سرزمین عرب اور خصوصا" مکہ و مدینہ میں رائج مختلف ادیان اور عقائد کا جائزہ لیا گیا.. اس صفحہ میں ظہور اسلام کے وقت عربوں اور خصوصا" قریش مکہ کے معاشی اور معاشرتی حالات بیان کیے جائیں گے..

ظہور اسلام کے وقت اگر عرب معاشرے کا ایک سرسری سا جائزہ بھی لیا جاۓ تو ایک بات شدت سے محسوس ھوتی ھے کہ تب کا عرب معاشرہ ایک ھی وقت میں اچھی بری متضاد خصلتوں کا شکار تھا.. اور اس سے بھی اھم بات یہ کہ اچھی بری یہ متضاد خصلتیں اپنی پوری شدت سے ان میں سرائیت پذیر تھیں.. ایسے میں اگر ھم ان میں رائج بد عادات و رسوم و رواج کو مدنظر رکھیں تو عرب معاشرہ ایک بدترین معاشرے کی تصویر پیش کرتا ھے..

اور اگر ھم عربوں کے اوصاف حمیدہ کو سامنے رکھیں تو درحقیقت ان سی بہتر انسانی معاشرہ اور معاشرتی اقدار کی نظیر ملنا مشکل ھے..

بنیادی طور پر عرب معاشرہ تین طبقات پر مشتمل تھا..

1 : حضری..

وہ لوگ جو شھروں میں آباد تھے اور مستقل طور پر شھروں میں ھی سکونت پذیر تھے.. ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی.. حضری عربوں کا ذریعہ آمدنی نخلستانوں کی آمدن اور تجارت تھا.. درخقیقت یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے پردادا حضرت ھاشم تھے جنہوں نے روم و ایران اور شام و ھندستان کے حکمرانوں کے ساتھ تجارتی معاھدات کیے.. اس طرح عرب لوگ بڑے بڑے قافلوں کی صورت میں ان ممالک جاتے اور وھاں سے قافلے عرب آتے.. قریش مکہ کو کیونکہ خانہ کعبہ کی تولیت کی وجہ سے مرکزی اھمیت حاصل تھی اس لیے قریش مکہ کے قافلوں کو عرب کے بدوی قبائل لوٹنے سے بھی گریز کرتے..

2 : بدوی..

عرب کی اکثر آبادی بدوی قبائل پر مشتمل تھی جو خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتی تھی.. ان کا اصل ذریعہ معاش گلہ بانی یعنی جانور پالنا تھا.. اس لیے جہاں کہیں چراگاہ نظر آتی وھیں ڈیرے ڈال دیئے جاتے تھے.. جب اس چراگاہ میں ان کے جانوروں کی خوراک ختم ھوجاتی تو وھاں سے کسی اور جگہ کا رخ کرتے.. اس کے علاوہ رھزنی بھی انکی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ تھا.. یہ لوگ عرب کے صحراؤں میں آتے جاتے قافلوں کو لوٹ لیتے.. جو قبائل ڈاکہ کے ذریعے روزی کماتے تھے وہ اس پر بہت فخر کیا کرتے تھے..

3 : لونڈی اور غلام..

معاشرے کا تیسرا اور سب سے نچلا طبقہ لونڈیوں اور غلاموں کا تھا جو حضری و بدوی عربوں کے ساتھ خادم کی حیثیت سے رھتے تھے.. غلاموں میں عرب اور غیر عرب دونوں شامل تھے.. عرب تو قبائل کی آپس کی جنگ میں مغلوب ھونے یا پھر مقروض ھونے کی وجہ سے لونڈی اور غلام بنا لیے جاتے جبکہ غیر عرب بکتے بکاتے سرزمین عرب پہنچتے جہاں باقائدہ منڈیوں اور بازاروں میں انکی خرید و فروخت ھوتی تھی.. مالک کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے غلام پر جسطرح چاھے ظلم ڈھاۓ اور چاھے تو اسے جان سے ھی مار ڈالے.. معمولی معمولی باتوں پر غلاموں کو اتنی سخت سزائیں دی جاتیں کہ انسانیت کی روح بھی کانپ اٹھتی.. غلام کا بیٹا بھی پیدائشی غلام ھوتا تھا.. اسی طرح لونڈیاں بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنتی تھیں.. اور ان سے بدکاری کا پیشہ بھی کرایا جاتا تھا.. ناچ گانے جاننے والی لونڈیوں کی قیمتیں نسبتا" زیادہ ھوتی تھیں.. غرضیکہ غلاموں اور لونڈیوں کی جان و مال ' عزت و آبرو اور اولاد سب کی سب انکے آقا کی ھی ملکیت ھوتی تھی..

عرب معاشرے میں جنگ و جدل کا سلسلہ مسلسل جاری رھتا مگر اس جنگ و جدل ' مسلسل خانہ جنگی اور صدیوں تک جاری رھنے والے باھمی بغض و عناد اور تعصب و عداوت کے باوجود عرب ایک مشترکہ ثقافت رکھتے تھے جس کے بنیادی عناصر میں اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنا ' انکی روایات کو برقرار رکھنا اور مشترکہ زبان عربی کو گنوایا جاسکتا ھے..

عرب نسلی طور پر قحطانی اور عدنانی (بنو اسمائیل) دو گروھوں میں بٹے ھوتے تھے لیکن دونوں کو عربی زبان پر فخر تھا.. شعرو شاعری بچے بچے کی زبان پر تھی اور شعری ذوق اور عرب ثقافت کا بھرپور اظہار طائف کے قریب "عکاظ" کے مقام پر ھر سال لگنے والے میلہ میں کیا جاتا.. عام حالات میں ایک عرب جنگجو سپاھی تھا مگر اس میلے میں وہ بھی ایک شاعر کا روپ دھار لیتا.. شراب خوری کی مجلسیں سجائی جاتیں اور گردش جام کے ساتھ ایسی بلند پایہ غزلیں کہی جاتیں کہ آج تک اس دور کے ادب کو کلاسیکی مانا جاتا ھے.. فاحشہ عورتوں کی موجودگی نے ان مجالس کو بے ھودگی کی انتہائی پستیوں تک پہنچا دیا تھا..

پروفیسر عبدالحمید صدیقی اپنی کتاب " لائف آف محمد" (صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم) میں لکھتے ھیں کہ جب عرب تاجر اپنے تجارتی کارواں لیکر روم و ایران و شام اور ھندستان تک جاتے وہ واپسی پر عیش پرستی اور تمام بری عادات کے کر لوٹتے.. شام و عراق سے لڑکیاں درآمد کی جاتیں جنہیں عیش پرستی کے لیے استعمال کیا جات.. شھوانی خواھشات کے اس چٹخارے نے عربوں کو بلا کا اوباش اور نفس پرست بنا دیا تھا.. اور ان کے ھاں بدکاری اتنی رچ بس گئی تھی کہ اگر کوئی صالح شخص ان بدکاریوں اور بری عادات سے اجتناب برتتا تو اس کا مذاق اڑایا جاتا اور اسی کمینہ ' کنجوس اور غیر ملنسار قرار دے دیا جاتا..

عرب معاشرے کی اخلاق باختگی کا ایک اور تاریک پہلو خاندانی نظام کی گراوٹ تھا.. عرب کے متمول طبقے میں تو پھر بھی حالت کچھ بہتر تھی مگر عمومی طور پر مرد عورت کا اختلاط سواۓ فحاشی اور بدکاری کے اور کچھ نہیں تھا..ایک ھی وقت میں کئی کئی عورتوں کو اپنے حرم میں داخل کرلیا جاتا.. دو سگی بہنوں سے بیک وقت نکاح کرلینا اور باپ کے مرنے کے بعد سوتیلی ماں کو اپنی زوجیت میں لے لینے میں کوئی عار نہ تھا.. دس دس لوگ ایک ھی عورت سے تعلقات قائم کرلیتے.. جگہ جگہ رنڈیوں اور طوائفوں کے گھر زنا اور بدکاری کے اڈے تھے.. شراب نوشی اور جواء عام تھا..

انکی بے حیائی کا یہ عالم تھا کہ انکی بیٹیاں تک نیم عریاں لباس میں قبائلی مخلوط مجالس میں شریک ھوتیں جہاں انکے جسمانی اعضاء پر نہایت فحش شعر پڑھے جاتے.. دنیا کی شائد ھی کوئی برائی ھو جو عربوں میں موجود نہ تھی.. لہو و لعب ' فسق و فجور اور قتل و غارتگری کے دلدادہ.. زنا و بدکاری کے رسیا اور شراب نوشی اس قدر کہ جیسے ھر گھر ایک شراب خانہ تھا..

عرب نہایت شقی القلب اور سنگدل تھے.. جانوروں کو درختوں سے باندھ کر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی.. زندہ جانور کا کوئی حصہ کاٹ کر کھا جاتے.. اسیران جنگ کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا.. ایک ایک عضو کاٹ کر موت کے گھاٹ اتارا جاتا.. دشمنوں کا جگر نکال کر کچا چبا لیا جاتا.. ان کے کاسہ سر میں شراب ڈال کر پی جاتی.. مجرموں کو حد درجہ وحشیانہ سزائیں دی جاتیں..

درحقیقت یہ اسلام کی حقانیت و سچائی کا ایک منہ بولتا ثبوت ھے کہ ایسی وحشی و جاھل قوم کو بدل کر تمام اقوام عالم کا پیشوا بنا دیا اور انکو اخلاقی طور پر فرشتوں کے جیسا پاکیزہ بنا دیا..

تاھم اخلاقی طور پر پستی اور گراوٹ کی اتھاہ گہرایوں میں ڈوبے اس معاشرے میں ایسے سلیم فطرت صالح انسان موجود تھے جو ان قبیح حرکات سے الگ تھلگ تھے..

دوسری طرف جب انہی بدکار و بے حیا عربوں میں کچھ ایسی اخلاقی اچھائیاں بھی پائی جاتی تھیں جو ان عربوں کے لیے وجہ امتیاز تھیں.. شجاعت عربوں میں اپنی معراج پر تھی.. ان کی بہادری درحقیقت سفاکی کے درجہ تک پہنچی ھوئی تھی.. کسی عرب کے لیے میدان جنگ میں تلوار کی دھار پر کٹ مرنا عزت اور شرافت کی بات تھی اور بستر پر ناک رگڑ رگڑ مرنا ذلت اور گالی سمجھا جاتا.. نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی میدان جنگ میں مردوں کے دوش بدوش حصہ لیتیں..

سخاوت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا.. کبھی کبھی تو اپنے پاس کا آخری روپیہ تک سائل کے حوالے کردیا جاتا.. مہمان نواز اس درجے کے تھے کہ اگر کسی کے پاس صرف ایک اونٹ گزر بسر کے لیے ھوتا تو اگر مہمان آ جاتے تو اسے ذبح کرکے مہمانوں کو کھلا دیا جاتا..

عرب آزادی کے دلدادہ تھے اور اپنی آزادی برقرار رکھنے میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرتے تھے.. یہ ایک تاریخی حقیقت ھے کہ روم و ایران کی عظیم سلطنتوں کے بیچ میں ھونے کے باوجود کوئی ان کو محکوم نہ بنا سکا..

عرب آخر درجے کے وفا پیشہ تھے.. عہد و پیمان کی پابندی کو فرض سمجھا جاتا تھا اور ایفاۓ عہد میں اپنی جان و مال اور اولاد تک کو قربان کردیا جاتا تھا.. جب کسی کو پناہ دے دیتے تو اپنی جان قربان کردیتے مگر اپنی پناہ میں آۓ شخص پر ایک آنچ نہ آنے دیتے..

شائد عرب قوم کی یہ امتیازی صفات ھی تھیں کہ جن کی وجہ سے اللہ نے اس قوم کو اسلام کی داعی قوم کے طور پر فضیلت بخشی.. بلاشبہ عرب قوم بدکاری و بے حیائی کی دلدل میں مکمل طور ڈوبی ھوئی تھی مگر یہ سب وہ بری صفات تھیں جو ان کی فطرت میں شامل نہ تھیں اور انہیں ختم بھی کیا جاسکتا تھا اور اسلام کے ظہور کے بعد ختم ھو بھی گئیں مگر کسی قوم کو نہ تو کوشش سے بہادر بنایا جاسکتا ھے نہ ھی امانت دار اور نہ ھی حریت و آزادی کا متوالا.. یہ وہ صفات ھیں جن سے عرب قوم کو اللہ نے خوب خوب نواز رکھا تھا..

اور جب اسلام قبول کرنے کے بعد عرب قوم اپنی اخلاقی گراوٹ سے نکلی اور ان صفات میں جب اسلامی جذبہ جہاد کی روح بھی پھونک دی گئی تو پھر دنیا میں ان کی شجاعت اور تلوار کی بہادرانہ کاٹ کا کسی قوم کے پاس کوئی جواب نہ تھا..

پچھلیے صفحات میں عربوں کے معاشی اور معاشرتی حالات بیان کیے گئے.. اس صفحہ میں مختصرا" اس دور کے سیاسی حالات بیان کیے جارھے ھیں..

ظہور اسلام سے پہلے عرب قبائلی نظام میں تقسیم تھے اور سرزمین عرب کے ریگستانوں میں دانہ ھاۓ تسبیح کی طرح بکھرے ھوۓ تھے.. قبائل کا سیاسی نظام نیم جمہوری تھا.. قبیلہ کا ایک سردار مقرر ھوتا جس کی شجاعت , قابلیت اور فہم و فراست کے علاوہ سابقہ سردار سے قرابت داری کا بھی لحاظ رکھا جاتا.. تمام لوگ اپنے سردار کی اطاعت کرتے تاھم سردار قبیلہ کے بااثر لوگوں سے صلاح مشورہ بھی کرلیتا..

عرب قوم کیونکہ اکھڑ مزاج قوم تھی تو بعض اوقات کسی معمولی سی بات پر اگر دو مختلف قبیلے کے افراد میں جھگڑا ھوجاتا تو اسے پورے قبیلے کی انا کا مسلہ بنا لیا جاتا اور پھر مخالف قبیلے کے خلاف اعلان جنگ کردیا جاتا.. بسا اوقات یہ جنگیں مدتوں جاری رھتیں.. مثلا" بنو تغلب اور بنو بکر میں بسوس نامی ایک اونٹنی کو مار ڈالنے پر جنگ کا آغاز ھوا اور یہ جنگ پھر چالیس برس جاری رھی..

جب ھم جزیرہ نما عرب کے اطراف پر نظر ڈالتے ھیں تو ایک طرف روم کی عظیم بازنطینی سلطنت اور دوسری طرف ایران کی عظیم ساسانی سلطنت نظر آتی ھیں.. جزیرہ نما عرب کو ایک لحاظ سے ان دو عظیم ھمسایہ حکومتوں کے درمیان ایک "بفر سٹیٹ" کا درجہ حاصل تھا..

اھل عرب ان دو ھمسایہ سلطنتوں کو " اسدین غالب" (دو طاقتور غالب شیر) کہا کرتے تھے.. اس وقت یہ دنیا کی دو سب سے طاقتور ترین اقوام تھیں جو کئی صدیوں سے آپس میں بسر پیکار تھیں.. کبھی رومی ایرانیوں کو پامال کرتے ھوۓ شکست فاش سے دوچار کردیتے اور کبھی میدان جنگ میں ایرانیوں کی فتح کے طبل بجتے..

روم کی بازنطینی سلطنت کا حکمران "قیصر" کے لقب سے حکومت کرتا جبکہ ایران کی ساسانی سلطنت کا حکمران "کسری' " کہلاتے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں روم پر قیصر "ھرقل" کی حکومت تھی جبکہ ایران پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بچپن میں مشھور ایرانی بادشاہ "نوشیرواں" کی حکومت تھی جبکہ اس کے بعد "خسرو پرویز" ایران کا شہنشاہ بنا جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبلیغی خط کو پھاڑنے کی گستاخی کی تھی..

یہاں میں عربوں کی تاریخ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت سرزمین عرب کے عمومی حالات کا سلسلہ تمام کرتا ھوں.. ان شاء اللہ اگلی قسط سے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باقاعدہ آغاز ھوگا..

===========> جاری ھے..

Share:

Seerat un nabi Mohammad Sallahu Alaihe Wasallam. Part 05

Abu lahab Aap Sallahu Alaihe Wasallam ka sabse bara mukhalif tha.
हज़रत मोहम्मद साहब की जीवनी, उनके व्यवहार, उनके आचरण।
मोहम्मद साहब कैसे स्वभाव के थे?

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..

قسط 5...
حضرت عبداللہ کی شادی کے وقت عمر تقریبا" سترہ (17) یا بائیس (22) برس تھی.. عرب میں دستور تھا کہ دولہا شادی کے بعد تین ماہ تک اپنے سسرال میں رھائش پذیر رھتا.. چنانچہ حضرت عبداللہ بھی تین ماہ اپنے سسرال میں مقیم رھے.. بعد ازاں حضرت آمنہ کو لیکر مکہ اپنے گھر واپس آگئے..

اسلام سے پہلے دور جہالت میں باقائدہ نکاح کا کوئی عام رواج نہ تھا.. صرف خال خال ھی طبقہ اشرافیہ میں باقائدہ نکاح کیا جاتا ورنہ عام طور پر مرد و زن کے ازدواجی تعلقات زنا کی ھی صورت تھے.. اسلام کے بعد جن کے باقائدہ طریقے سے نکاح ھوۓ تھے ان کی شادیوں کو جائز اور صحیح سمجھا گیا اور ایسے جوڑوں کے اسلام لانے کے بعد ان کے قبل اسلام نکاحوں کو شریعت اسلامی کے مطابق درست قرار دیتے ھوۓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں سمجھی تھی.. ایسا ھی ایک صحیح اور باقائدہ نکاح حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کا ھوا.. اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ھے کہ "میری ولادت باقائدہ نکاح سے ھوئی.. نہ کہ (نعوذباللہ) زنا یا بدکاری سے.."

پہلے کی اقساط میں ذکر کیا جاچکا ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پردادا حضرت ھاشم کے دور سے قریش مکہ کے تجارتی قافلے ایران و شام اور یمن و ھند تک جایا کرتے تھے تو ایسا ھی ایک تجارتی قافلہ لیکر حضرت عبداللہ بھی شام کی طرف گئے.. وھاں سے واپس مکہ کی طرف لوٹتے ھوۓ راستہ میں یثرب (مدینہ) کے قریب وہ شدید بیمار پڑگئے.. چنانچہ وہ مدینہ میں ھی اپنے ننھیال اپنے ماموؤں کے پاس ٹھہر گئے جبکہ ان کے ھمسفر مکہ واپس آگئے..

جب حضرت عبدالمطلب نے ان کے ساتھ اپنے چہیتے بیٹے کو نہ دیکھا تو ان سے حضرت عبداللہ کے بارے میں پوچھا.. انہوں نے جب حضرت عبدالمطلب کو حضرت عبداللہ کی بیماری کا بتایا تو حضرت عبدالمطلب بےحد پریشان ھوگئے.. فورا" اپنے سب سے بڑے بیٹے "حارث" کو یثرب حضرت عبداللہ کی خیریت معلوم کرنے بھیجا لیکن جب جناب حارث یثرب پہنچے تو ان کو یہ اندوھناک خبر ملی کہ حضرت عبداللہ بیماری کی تاب نہ لاکر وفات پا چکے ھیں اور ان کو "دارالغابغہ" میں دفن بھی کیا جاچکا ھے..

جناب حارث جب یہ المناک خبر لیکر مکہ واپس آۓ تو حضرت عبدالمطلب اپنے جان سے پیارے بیٹے کی جواں موت کا سن کر شدت غم سے بےھوش ھوگئے.. حضرت آمنہ پر اپنے محبوب شوھر کی موت کا سن کر سکتہ طاری ھوگیا.. دوسری طرف سب بہن بھائی اپنی اپنی جگہ اس دکھ کے ھاتھوں بے حال تھے.. خاندان بنو ھاشم پر ایک مجموعی سوگ کا عالم چھا گیا کیونکہ حضرت عبداللہ اپنے حسن و جمال , لیاقت , کردار اور نابغہ روزگار شخصیت کی وجہ سے سارے خاندان کی آنکھ کا تارہ تھے مگر یہ روشن ستارہ محض پچیس سال کی عمر میں ھی ڈوب گیا اور یوں تمام جہانوں کے لیے رحمت بننے والے اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی شکم مادر میں ھی تھے کہ یتیم ھوگئے..

جواں سال اور چہیتے بیٹے کی وفات کا غم حضرت عبدالمطلب کے لیے اگر سوھان روح تھا تو دوسری طرف محبوب شوھر کی موت کا دکھ حضرت آمنہ کے لیے لمحہ لمحہ کرب و اذیت کا باعث تھا لیکن اللہ نے ان دونوں کو زیادہ عرصہ غمزدہ نہ رھنے دیا اور حضرت عبداللہ کی وفات سے چند ماہ بعد بروز سوموار 9 ربیع الاول بمطابق 20 اپریل 571 ء کو حضرت آمنہ کے ھاں اللہ کے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ھوۓ..

ایک کنیز کو فورا" حضرت عبدالمطلب کی طرف بھیجا گیا جو خوشی کے مارے دوڑتی ھوئی حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچی جو اس وقت (غالبا") حرم شریف میں موجود تھے.. اتنی بڑی خوش خبری کو سن کر حضرت عبدالمطلب فورا" گھر پہنچے اور جب انہوں نے "ننھے حضور" کو دیکھا تو اپنی جگہ کھڑے کے کھڑے رہ گئے اور پھر اپنے جذبات کا اظہار چند اشعار میں بیان کیا جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو "غلمان" کے حسن و جمال سے برتر بتایا.. پھر خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے آپ کو حضرت عبداللہ کا نعم البدل عطا فرمایا..

یہاں ان چند محیر العقول واقعات کا ذکر ضروری ھے جو آپ کی ولادت مبارکہ سے کچھ پہلے اور وقت ولادت پیش آۓ.. اس ضمن میں ایک وہ واقعہ ھے جب نیم بیداری کے عالم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش سے کچھ پہلے حضرت آمنہ دردزہ میں مبتلا تھیں' آپ فرماتی ھیں کہ ان کے جسم سے ایک نور نکلا جس نے تمام مشرق و مغرب کو روشن کردیا.. اس کے ساتھ ھی انہیں وضع حمل کی تکلیف سے نجات مل گئی.. اس کے بعد وہ نور سمٹ کر ان کے قریب آیا اور انہیں ایسا محسوس ھوا جیسے اس مجسم نور نے زمین سے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر ان کی طرف بڑھائی جو حضرت آمنہ نے اپنے ھاتھ میں لے لی اور اس کے بعد اس نور نے اپنا رخ آسمان کی طرف کرلیا..

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی والدہ فرماتی ھیں کہ حضرت آمنہ کے وضع حمل کے وقت وہ وھاں موجود تھیں اور انہوں نے وھاں سواۓ نور کے کچھ اور نہ دیکھا اور باھر ستارے زمین کے اس قدر نزدیک آ گئے تھے کہ گویا زمین پر گرنے والے ھوں..

حضرت عبدالرحمان بن عوف رضی اللہ عنہ کی والدہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے وقت قابلہ (دائی) کی خدمات سرانجام دے رھی تھیں.. ان کا بیان ھے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ کے بطن سے ان کے ھاتھ میں آۓ تو نومولود کے جسم سے ایسا نور طلوع ھوا کہ جس سے سارا حجرہ اور اس کے در و دیوار چمک اٹھے..

اس ضمن میں ایک یہودی کا واقعہ عجیب و غریب ھے.. ھشام بن عروہ اپنے والد اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طاھرہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے بیان کرتے ھیں کہ ایک یہودی مکہ میں رہ کر تجارت کرتا تھا.. جس روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ھوئی اس روز اس نے ایک مجلس میں قریش سے پوچھا.. "کیا تمہیں معلوم ھے کہ کل رات تمہاری قوم میں ایک عظیم الشان بچہ پیدا ھوا ھے..؟"

وہ بولے.. "نہیں تو.." دریافت کرنے پر معلوم ھوا کہ حضرت آمنہ بنت وھب کے بطن سے حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عبداللہ کے ھاں ایک بچہ پیدا ھوا ھے.. اس یہودی نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ تم مجھے وھاں چل کر وہ بچہ دکھاؤ..

یہودی کی اس درخواست پر وہ لوگ اسے حضرت عبدالمطلب کے مکان تک لے گئے.. جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس یہودی کے سامنے لایا گیا تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روۓ مبارک چاند سے زیادہ روشن ھے.. یہ نور نبوت تھا جس کے آثار اس نور کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے اور پیشانی سے ظاھر ھورھے تھے.. دوسری طرف جب یہودی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت کھول کر دیکھی اور اس کی نظر جب شانوں کے درمیان ایک مسّہ (مہر نبوت ___ جس میں گھوڑے کے ایال کی طرح چند بالوں کی ایک قطار تھی) پر پڑی تو بے ھوش ھوکر گرگیا.. جب اسے ھوش آیا تو قریش کے لوگوں نے اس سے پوچھا.. "ارے تجھے کیا ھوا ..؟"

وہ یہودی رو رو کر کہنے لگا.. "آج ھم بنی اسرائیل سے نبوت کا سلسلہ تمھاری قوم میں منتقل ھوگیا.."

پھر جب اس کی طبیعت سنبھلی تو اس نے قریش کو اس نعمت کی مبارک دی اور کہا کہ تمھاری سطوت کی اب یہ خبر مشرق تا مغرب پھیل جاۓ گی..

حافظ ابو نعیم اپنی کتاب "دلائل النبوۃ" میں عبدالرحمان بن ابی سعید کے حوالے سے بیان کرتے ھیں کہ ایک روز عبدالرحمان ابی سعید بنی اشہل میں ٹھہرے ھوۓ تھے.. انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کی کوئی خبر نہ تھی مگر اگلے روز جب وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ قبیلہ حرب میں مقام ھدنہ پہنچے تو انہوں نے یوشع نام کے ایک یہودی عالم کو کہتے سنا.. "میں دیکھ رھا ھوں کہ "احمد" نام کا ایک نبی مکہ میں پیدا ھونے والا ھے.."

یہ سن کر بنی اشہل کے ایک شخص خلیفہ بن ثعلبہ اشہلی نے یوشع سے کہا.. "تو مذاق تو نہیں کر رھا..؟ اچھا بتا کہ اس نبی کے اوصاف کیا ھوں گے..؟"

یوشع بولا.. "اس کا ظہور حرم کی طرف سے ھوگا.. اس کا قد نہ چھوٹا ھوگا نہ بہت طویل.. اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے ھوں گے.. لباس کے ساتھ اس کے سر پر عمامہ ھوگا.."

جب خلیفہ بن ثعلبہ اشہلی نے اپنے قبیلے میں واپس جاکر یوشع یہودی کی زبان سے سنی ھوئی یہ باتیں سنائیں تو اس کے قبیلے والے یک زبان ھوکر بولے.. "تم ایک یوشع کی بات کرتے ھو.. کل سے یثرب (مدینہ) کے تمام یہودی یہی باتیں کررھے ھیں.."

اس کے علاوہ مالک بن سنان بتاتے ھیں کہ وہ اس روز اپنے گھر سے اتفاقا" قبیلہ بنو قریظہ (یہودی قبیلہ) میں چلے گئے.. انہوں نے وھاں دیکھا کہ بہت سے لوگ اکٹھے ھیں اور ان کا ایک عالم " زبیر بن باطا" کہ رھا ھے.. "آسمان پر ایک سرخ ستارہ نمودار ھوا ھے اور ایسا ستارہ صرف اس وقت نمودار ھوتا ھے جب کہیں کوئی نبی پیدا ھوتا ھے.. آج جو نبی پیدا ھوا ھے اس کا نام احمد ھے جو آخری نبی کا نام ھے اور وہ ھجرت کرکے یہیں آۓ گا.."

یاد رھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق تمام مذاھب کی مذھبی کتابوں میں پیش گوئیاں موجود ھیں جن کے مطابق آپ کا نام مبارک تورات و انجیل میں "احمد" آیا ھے..

جب مدت بعد کسی شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زبیر بن باطا کی یہ باتیں بیان کیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "اگر زبیر بن باطا اپنی زندگی میں مسلمان ھوجاتا تو اس کی ساری قوم ایمان لے آتی کیونکہ وہ بھی اس کا اتباع کرتی.."

ابو نعیم چند دوسرے ثقہ راویوں اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے حوالے سے کہتے ھیں کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے یہودیوں کا کہنا تھا کہ سرخ ستارہ صرف دنیا کے آخری نبی کی ولادت پر طلوع ھوگا.. اس کا نام احمد ھوگا اور وہ ھجرت کرکے یثرب (مدینہ) آۓ گا.. ھمارے لیے اس کی اطاعت لازم ھے..

مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ھجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو وھی یہودی جو اپنی مذھبی کتابوں کی پیشگوئیوں پر کہ ان کا نجات دھندہ نبی عرب میں ظہور پذیر ھوگا اور وہ فلسطین سے اسی انتظار میں یہاں مدینہ آباد ھوگئے تھے , صرف اس حسد کی بنا پر کہ نبی آخرالزماں ان کی قوم بنی اسرائیل کے بجاۓ بنی اسمائیل میں کیوں پیداھوا , نہ صرف اپنے قول سے پھر گئے بلکہ جانتے بوجھتے اپنے کفر پر بھی قائم رھے..

ان واقعات کے علاوہ چند اور عجیب ترین واقعات ولادت مبارکہ کے وقت شہنشاہ ایران "کسر'ی" کے محل میں پیش آۓ جب وھاں زلزلہ آیا اور نہ صرف محل کے چودہ کنگرے گرگئے بلکہ ایک ھزار سال سے روشن شاھی آتش کدے کی آگ بھی یکدم بجھ گئی جبکہ بحیرہ ساوہ جوش کھا کر خشک ھوگیا..

حافظ ابوبکر محمد بن جعفر بن سہل الخرائطی اپنی کتاب "ھواتف الجان" میں مختلف حوالوں سے بیان کرتے ھیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت ایران کے مشھور بادشاہ "نوشیرواں" کے ایوان میں سخت زلزلہ آیا اور اس کے ایوان کے چودہ کنگرے (گنبد) ٹوٹ کر گرپڑے..

اگر بات یہاں تک ھی محدود رھتی تو اسے ایک حادثہ سمجھ کر توجہ کے قابل نہ سمجھا جاتا مگر اس زلزلہ کے ساتھ چند اور بہت ھی غیر معمولی اور چونکا دینے والی باتیں بھی ظہور پذیر ھوئیں جن میں ایک یہ تھی کہ شاھی آتشکدے میں پچھلے ھزار سال سے روشن آگ بھی بنا کسی وجہ کے ٹھنڈی پڑگئی..ایک ھزار سال میں ایسا کبھی نہ ھوا تھا کہ اس مقدس آتشکدے کی آگ بجھی ھو.. دوسری طرف بحیرہ ساوہ بھی حیران کن طور پر جوش (کھا کر ابلنے) والا ھوگیا..

نوشیرواں یہ تمام واقعات دیکھ کر چونک گیا.. اس نے اپنے مشیر "موبذان" کو بلا کر یہ سب واقعات سناۓ اور اس کی راۓ طلب کی..

موبذان نے نوشیرواں کو بتایا کہ کل رات اس نے بھی ایک عجیب خواب دیکھا ھے کہ عرب کی طرف سے انسانوں کے غول کے غول اونٹوں پر سوار فارس (ایران) کی طرف امڈے آرھے ھیں اور انہوں نے دریاۓ دجلہ کو بھی عبور کرلیا ھے..

نوشیرواں جو پہلے ھی ان واقعات کی وجہ سے گہری سوچ میں تھا , یہ خواب سن کر پریشان ھوگیا.. اس نے موبذان سے اس خواب کی تعبیر پوچھی..

موبذان نے جواب میں کہا کہ چونکہ یہ سارے واقعات اور پھر یہ خواب معمولی نہیں ھیں تو بہتر ھے کہ ان کی ٹھیک ٹھیک تعبیر جاننے کے لیے کسی عالم سے رابطہ کرلینا چاھیے.. چنانچہ نوشیرواں نے موبذان کے مشورہ پر ایک خط لکھ کر یمن میں اپنے نائب السلطنت حاکم "نعمان بن منذر" کو بھیجا اور اسے حکم دیا کہ وہ فورا" اس کی خدمت میں حاضر ھو اور اپنے ساتھ کسی ایسے شخص کو لاۓ جو بڑا عالم ھو اور نوشیرواں کے تمام سوالوں کے جواب دے سکے..

کسر'ی ایران (ایران کے بادشاہ کا لقب کسر'ی ھوتا تھا جیسے روم کے حکمران "قیصر" اور مصر کے حکمران "فرعون" کہلاتے تھے) کا یہ شاھی فرمان ملتے ھی نممان بن منذر فورا" نوشیرواں کی خدمت میں حاضر ھوگیا اور کسر'ی کے حسب الحکم ایک بہت بڑے عیسائی عالم شخص "عبدالمسیح بن عمرو بن حیان بن نفیلہ غسانی" کو بھی ساتھ لے آیا..

نوشیرواں نے عبدالمسیح بن عمرو کو تمام واقعات اور موبذان کا خواب سنایا اور پھر انکی تعبیر پوچھی.. عبدالمسیح بن عمرو نے جواب دیا کہ اگر حضور چاھیں تو ان واقعات اور خواب کے بارے میں اپنا خیال ظاھر کرسکتا ھوں لیکن میری گزارش ھے کہ اس کے بارے میں میرے ماموں "سطیح" سے جو شام میں قیصر روم کی طرف سے نائب السلطنت ھیں , دریافت کیا جاۓ کیونکہ وہ مجھ سے کہیں زیادہ علم والے ھیں اور کہانت کے فن میں بھی طاق ھیں اور اس بارے میں مجھ سے بہتر بتاسکتے ھیں..

نوشیرواں کو عبدالمسیح کی بات پسند آئی اور اس نے اپنے کچھ آدمی اس کے ساتھ کرکے اسے اس کے ماموں سطیح کے پاس شام بھیج دیا..

عبدالمسیح بن عمرو شام کے دارالحکومت دمشق اپنے ماموں سطیح کے دربار میں پہنچا جہاں وہ اپنی ذریں مسند پر بڑی تمکنت سے بیٹھا تھا.. عبدالمسیح نے اسے سارے واقعات اور خواب سنا کر کہا کہ وہ شہنشاہ فارس نوشیرواں کی طرف سے آیا ھے اور نوشیرواں کی خواھش پر ان کی تعبیر جاننا چاھتا ھے..

عبدالمسیح کی باتیں سن کر سطیح چپ ھو گیا اور کسی نہائت گہری سوچ میں ڈوب گیا.. عبدالمسیح نے جب کوئی جواب نہ پایا تو یہ سمجھ کر کہ سطیح نے اسکی بات کو کوئی اھمیت نہیں دی ھے شکایتا" چند اشعار پڑھے جن میں سطیح کے عدم التفات کا گلہ کیا..

سطیح اشعار سن کر اپنے استغراق سے باھر آیا اور کہا.. "جو واقعات تم نے بیان کیے ھیں اگر وہ صحیح ھیں اور جو خواب موبذان نے دیکھا ھے وہ اس نے صحیح طور پر بیان کیا ھے تو سمجھ لو کہ ایک دن نہ صرف کسر'ی ایران کے ھاتھ سے سلطنت چھن جاۓ گی بلکہ یہ شام جس پر میں آج کل قیصرروم کی طرف سے حاکم بنا بیٹھا ھوں یہ بھی انہی عرب ناقہ (اونٹ) سواروں کے قبضے میں چلا جاۓ گا جنہیں موبذان نے خواب میں دریاۓ دجلہ عبور کرتے دیکھا ھے.."

جب عبدالمسیح نے اپنے ماموں سطیح کا جواب نوشیرواں کو فارس واپس آ کر سنایا تو نوشیرواں نے کہا کہ ابھی تو میری اولاد میں کئی پشتوں تک حکمرانی چلے گی اس کے بعد جو ھوگا دیکھا جاۓ گا..

بہرکیف تاریخ بتاتی ھے کہ کچھ عرصہ بعد سطیح کی پیشگوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ھوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مقدسہ کے آخری آیام سے فارس و روم کے خلاف جو فوج کشی شروع ھوئی وہ بلآخر تیسرے خلیفہ راشد امیرالمومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی' عنہ کے عہد میں پایہ تکمیل کو پہنچی اور نہ صرف ایران کی تین ھزار ایک سو چونسٹھ سال سے جاری شہنشائیت کو مجاھدیں اسلام نے اپنے گھوڑوں کی سموں تلے روند دیا بلکہ سرزمین شام پر بھی اسلامی علم لہرا دیا گیا..

روایات کے مطابق جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا ھوۓ تو فورا" حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کو اس خوشخبری کی اطلاع حضرت عبدالمطلب کو دینے کے لیے بھیجا گیا.. حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا حضرت عبداللہ کی کنیز تھیں.. ان کا اصل نام برکہ تھا.. ان کی شادی بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے کردی تھی جن سے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ پیدا ھوۓ..

حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا خوشی کے مارے دوڑتی ھوئیں حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچیں اور انہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کی خوشخبری دی.. حضرت عبدالمطلب جو اس وقت حرم کعبہ میں موجود تھے , آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کا سن کر وہ بےحد مسرور ھوۓ اور حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ فورا" گھر پہنچے.. وھاں "ننھے حضور" صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو دیکھ کر ششدر رہ گئے اور پھر اپنے جذبات کا اظہار چند اشعار میں بیان کیا جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کو "غلمان" کے حسن و جمال سے برتر بتایا.. پھر خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے آپ کو حضرت عبداللہ کا نعم البدل عطا فرمایا..

(یاد رھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد حضرت عبداللہ , دادا حضرت عبدالمطلب اور پردادا حضرت ھاشم تینوں ھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح نہائت خوبصورت اور مردانہ وجاھت کا پیکر تھے)

بہقی نے مختلف حوالوں سے یہ بھی بیان کیا ھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش کے بعد حضرت عبدالمطلب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر کی عورتوں کے سپرد کردیا.. وہ ھر صبح کو حضرت عبدالمطلب کو بتاتیں کہ انہوں نے ایسا بچہ کبھی نہیں دیکھا.. وہ بتاتیں کہ نومولود یعنی ننھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کو ھمیشہ بیدار ھی نظر آتے ھیں اور آنکھیں کھولے ٹکٹکی باندھے آسمان کو تکتے رھتے ھیں.. اس پر حضرت عبدالمطلب خوشی کا اظہار فرماتے کہ انہیں امید ھے کہ ان کا پوتا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بڑی شان والا ھوگا..

شروع کے چند دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے دودھ پلایا.. دو تین دن بعد آپ کو دودھ پلانے کا شرف حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا کو نصیب ھوا.. حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا "ابو لہب" کی کنیز تھیں.. ابو لہب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں انھیں آزاد کر دیا.. حضرت ثوبیہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہم عمر چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی دودھ پلایا تھا.. ان کے علاوہ چند اور عورتوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا..

افسوس کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیدائش پر خوشیاں منانے والا ابو لہب بعدازاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بدترین مخالف بن کر سامنے آیا اور وہ اور اس کی بیوی "ام جمیل" ساری زندگی اسلام مخالف سرگرمیوں میں مصروف رھے..

ابولہب شروع اسلام میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شائد سب سے بڑا مخالف تھا.. غالبا" یہی وہ شخص ھے جس نے تب قریش مکہ کو بدراہ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بربادی کی بدعائیں دیں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوہ صفا پر اپنی ساری قوم کو اکٹھا کرکے توحید کی دعوت دی.. اسکی بیوی ام جمیل کی سیاہ کاریوں میں ایک یہ سیاہ عمل بھی شامل تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن راستوں سے گزرنے والے ھوتے یہ ان راستوں پر کانٹے بچھا دیتی.. ان دونوں کی مذمت میں ایک پوری سورہ نازل ھوئی جس کا نام اسی بدبخت کے نام پر سورہ ابی لہب ھے.. اسکا تفصیلی ذکر آگے آۓ گا..

===========>جاری ھے..

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS