Dusri qaum ka hal kaisa tha?
Seerat-un-nabi Mohammad Sallahu Alaihe Wasallam.
سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..
قسط 21
دوسری قوم (یعنی مدینے کے اصل مشرک باشندے) کا حال یہ تھا کہ انہیں مسلمانوں پر کوئی بالادستی حاصل نہ تھی.. کچھ مشرکین شک وشبہے میں مبتلا تھے اور اپنے آبائی دین کو چھوڑنے میں تردّد محسوس کررہے تھے لیکن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے دل میں کوئی عداوت اور داؤ گھات نہیں رکھ رہے تھے.. اس طرح کے لوگ تھوڑے ہی عرصے کے بعد مسلمان ہوگئے اور خالص اور پکے مسلمان ہوئے..
اس کے برخلاف کچھ مشرکین ایسے تھے جو اپنے سینے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف سخت کینہ وعداوت چھپائے ہوئے تھے لیکن انہیں مَدّمقابل آنے کی جرأت نہ تھی بلکہ حالات کے پیشِ نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت وخلوص کے اظہار پر مجبور تھے.. ان میں سرِفہرست عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا..
یہ وہ شخص ہے جس کو جنگ ِ بعاث کے بعد اپنا سربراہ بنانے پر اوس وخزرج نے اتفاق کرلیا تھا حالانکہ اس سے قبل دونوں فریق کسی کی سربراہی پر متفق نہیں ہوئے تھے لیکن اب اس کے لیے مونگوں کا تاج تیار کیا جارہا تھا تاکہ اس کے سر پر تاج شاہی رکھ کر اس کی باقاعدہ بادشاہت کا اعلان کردیا جائے.. یعنی یہ شخص مدینے کا بادشاہ ہونے ہی والا تھا کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد آمد ہوگئی اور لوگوں کا رُخ اس کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہوگیا.. اِس لیے اسے احساس تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے اس کی بادشاہت چھینی ہے لہٰذا وہ اپنے نہاں خانہ ٔ دل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف سخت عداوت چھپائے ہوئے تھا..
اس کے باوجود جب اس نے جنگ ِ بدر کے بعد دیکھا کہ حالات اس کے موافق نہیں ہیں اور وہ شرک پر قائم رہ کر اب دنیاوی فوائد سے بھی محروم ہوا چاہتا ہے تو اس نے بظاہر قبول اسلام کا اعلان کردیا لیکن وہ اب بھی درپردہ کا فر ہی تھا.. اسی لیے جب بھی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف کسی شرارت کا موقع ملتا وہ ہرگز نہ چوکتا.. اس کے ساتھ عموماً وہ رؤساء تھے جو اس کی بادشاہت کے زیرِ سایہ بڑے بڑے مناصب کے حصول کی توقع باندھے بیٹھے تھے مگر اب انہیں اس سے محروم ہوجانا پڑا تھا.. یہ لوگ اس شخص کے شریکِ کار تھے اور اس کے منصوبوں کی تکمیل میں اس کی مدد کرتے تھے اور اس مقصد کے لیے بسا اوقات نوجوانوں اور سادہ لوح مسلمانوں کو بھی اپنی چابکدستی سے اپنا آلۂ کار بنا لیتے تھے..
تیسری قوم یہود تھی.. جیسا کہ گزرچکا ہے یہ لوگ اشوری اور رومی ظلم وجبر سے بھاگ کر حجاز میں پناہ گزین ہوگئے تھے.. یہ درحقیقت عبرانی تھے لیکن حجاز میں پناہ گزین ہونے کے بعد ان کی وضع قطع ، زبان اور تہذیب وغیرہ بالکل عربی رنگ میں رنگ گئی تھی.. یہاں تک کہ ان کے قبیلوں اور افراد کے نام بھی عربی ہوگئے تھے اور ان کے اور عربوں کے آپس میں شادی بیاہ کے رشتے بھی قائم ہوگئے تھے لیکن ان سب کے باوجود ان کی نسلی عصبیت برقرار تھی اور وہ عربوں میں مدغم نہ ہوئے تھے بلکہ اپنی اسرائیلی یہودی قومیت پر فخر کرتے تھے اور عربوں کو انتہائی حقیر سمجھتے تھے.. حتیٰ کہ انہیں اُمیّ کہتے تھے جس کا مطلب ان کے نزدیک 'بدھو ، وحشی ، رذیل ، پسماندہ اور اچھوت' تھا.. ان کا عقیدہ تھا کہ عربوں کا مال ان کے لیے مباح ہے.. جیسے چاہیں کھائیں.. چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے..
قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ O
''انہوں نے کہا ہم پر اُمیوں کے معاملے میں کوئی راہ نہیں..'' (۳: ۷۵)
یعنی امیوں کا مال کھانے میں ہماری کوئی پکڑ نہیں.. ان یہودیوں میں اپنے دین کی اشاعت کے لیے کوئی سرگرمی نہیں پائی جاتی تھی.. لے دے کر ان کے پاس دین کی جو پونجی رہ گئی تھی وہ تھی فال گیری ، جادو اور جھاڑ پھونک وغیرہ.. انہیں چیزوں کی بدولت وہ اپنے آپ کو صاحبِ علم وفضل اور روحانی قائد وپیشوا سمجھتے تھے..
یہودیوں کو دولت کمانے کے فنون میں بڑی مہارت تھی.. غلّے ، کھجور ، شراب اور کپڑے کی تجارت انہیں کے ہاتھ میں تھی.. یہ غلے ، کپڑے اور شراب درآمد کرتے تھے اور کھجور برآمد کرتے تھے.. اس کے علاوہ بھی ان کے مختلف کام تھے جن میں وہ سرگرم رہتے تھے.. وہ اموالِ تجارت میں عربوں سے دوگنا تین گنا منافع لیتے تھے اور اسی پر بس نہ کرتے تھے بلکہ وہ سود خور بھی تھے.. اس لیے وہ عرب شیوخ اور سرداروں کوسودی قرض کے طور پر بڑی بڑی رقمیں دیتے تھے جنہیں یہ سردار حصولِ شہرت کے لیے اپنی مدح سرائی کرنے والے شعراء وغیرہ پر بالکل فضول اور بے دریغ خرچ کردیتے تھے.. ادھر یہود ان رقموں کے عوض ان سرداروں سے ان کی زمینیں ، کھیتیاں اور باغات وغیرہ گروی رکھوا لیتے تھے اورچند سال گزرتے گزرتے ان کے مالک بن بیٹھے تھے..
یہ لوگ دسیسہ کاریوں ، سازشوں اور جنگ وفساد کی آگ بھڑکانے میں بھی بڑے ماہر تھے.. ایسی باریکی سے ہمسایہ قبائل میں دشمنی کے بیج بوتے اور ایک کو دوسرے کے خلاف بھڑکاتے کہ ان قبائل کو احساس تک نہ ہوتا.. اس کے بعد ان قبائل میں پیہم جنگ برپا رہتی اور اگر خدانخواستہ جنگ کی یہ آگ سرد پڑتی دکھائی دیتی تو یہود کی خفیہ انگلیاں پھر حرکت میں آجاتیں اور جنگ پھر بھڑک اٹھتی.. کمال یہ تھا کہ یہ لوگ قبائل کو لڑا بھڑا کر چپ چاپ کنارے بیٹھ رہتے اور عربوں کی تباہی کا تماشا دیکھتے.. البتہ بھاری بھرکم سودی قرض دیتے رہتے تاکہ سرمائے کی کمی کے سبب لڑائی بند نہ ہونے پائے اور اس طرح دوہرا نفع کماتے رہتے.. ایک طرف اپنی یہودی جمعیت کو محفوظ رکھتے اور دوسری طرف سود کا بازار ٹھنڈا نہ پڑنے دیتے بلکہ سود در سود کے ذریعے بڑی بڑی دولت کماتے
یثرب میں ان یہود کے تین مشہور قبیلے تھے..
بنو قینقاع _____ یہ خزرج کے حلیف تھے اور ان کی آبادی مدینے کے اندر ہی تھی..
بنو نضیر اور بنو قریظہ _____ یہ دونوں قبیلے اوس کے حلیف تھے اور ان دونوں کی آبادی مدینے کے اطراف میں تھی..
ایک مدت سے یہی قبائل اوس وخزرج کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکا رہے تھے اور جنگ بعاث میں اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ خود بھی شریک ہوئے تھے..
فطری بات ہے کہ ان یہود سے اس کے سوا کوئی اور توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ یہ اسلام کو بغض وعداوت کی نظر سے دیکھیں کیونکہ پیغمبر ان کی نسل سے نہ تھے کہ ان کی نسلی عصبیت کو جو اُن کی نفسیات اور ذہنیت کا جزولاینفک بنی ہوئی تھی ، سکون ملتا.. پھر اسلام کی دعوت ایک صالح دعوت تھی جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتی تھی.. بغض وعداوت کی آگ بجھاتی تھی.. تمام معاملات میں امانتداری برتنے اور پاکیزہ اور حلال مال کھانے کی پابند بناتی تھی.. اِس کا مطلب یہ تھا کہ اب یثرب کے قبائل آپس میں جُڑ جائیں گے اور ایسی صورت میں لازماً وہ یہود کے پنجوں سے آزاد ہوجائیں گے.. لہٰذا ان کی تاجرانہ سرگرمی ماند پڑجائے گی اور وہ اس سودی دولت سے محروم ہو جائیں گے جس پر ان کی مالداری کی چکی گردش کررہی تھی بلکہ یہ بھی اندیشہ تھا کہ کہیں یہ قبائل بیدار ہو کر اپنے حساب میں وہ سودی اموال بھی داخل نہ کرلیں جنہیں یہود نے ان سے بلاعوض حاصل کیا تھا اور اس طرح وہ ان زمینوں اور باغات کو واپس نہ لے لیں جنہیں سود کے ضمن میں یہودیوں نے ہتھیا لیا تھا..
جب سے یہود کو معلوم ہوا تھا کہ اسلامی دعوت یثرب میں اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے تب ہی سے انہوں نے ان ساری باتوں کو اپنے حساب میں داخل کر رکھا تھا.. اسی لیے یثرب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے وقت ہی سے یہود کو اسلام اور مسلمانوں سے سخت عداوت ہوگئی تھی.. اگرچہ وہ اس کے مظاہرے کی جسارت خاصی مدت بعد کرسکے..
اس کیفیت کا بہت صاف صاف پتا ابن ِ اسحاق کے بیان کیے ہوئے ایک واقعے سے لگتا ہے.. ان کا ارشاد ہے کہ مجھے اُمّ المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بنت حیی بن اخطب سے یہ روایت ملی ہے کہ انہوں نے فرمایا..
"میں اپنے والد اور چچا ابو یاسر کی نگاہ میں اپنے والد کی سب سے چہیتی اولاد تھی.. میں چچا اور والد سے جب کبھی ان کی کسی بھی اولاد کے ساتھ ملتی تو وہ اس کے بجائے مجھے ہی اُٹھاتے.. جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور قباء میں بنو عمرو بن عوف کے یہاں نزول فرما ہوئے تو میرے والد حیی بن اخطب اور میرے چچا ابو یاسر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں صبح تڑکے حاضر ہوئے اور غروب ِ آفتاب کے وقت واپس آئے.. بالکل تھکے ماندے ، گرتے پڑتے , لڑکھڑاتی چال چلتے ہوئے.. میں نے حسب ِ معمول چہک کر ان کی طرف دوڑ لگائی لیکن انہیں اس قدر غم تھا کہ واللہ ! دونوں میں سے کسی نے بھی میری طرف التفات نہ کیا اور میں نے اپنے چچا کو سنا وہ میرے والد حیی بن اخطب سے کہہ رہے تھے..
کیا یہ وہی ہے..؟
انہوں نے کہا.. ہاں ! اللہ کی قسم..
چچا نے کہا.. آپ انھیں ٹھیک ٹھیک پہچان رہے ہیں..؟
والد نے کہا.. ہاں..
چچانے کہا.. تو اب آپ کے دل میں ان کے متعلق کیا ارادے ہیں..؟
والد نے کہا.. عداوت ! اللہ کی قسم ! جب تک زندہ رہوں گا.."
( ابن ہشام ۱/۵۱۸ ، ۵۱۹)
اسی کی شہادت صحیح بخاری کی اس روایت سے بھی ملتی ہے جس میں حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے.. موصوف ایک نہایت بلند پایہ یہودی عالم تھے.. آپ کو جب بنو النجار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر ملی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بہ عجلت تمام حاضر ہوئے اور چند سوالات پیش کیے جنہیں صرف نبی ہی جانتا ہے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے ان کے جوابات سنے تو وہیں اسی وقت مسلمان ہوگئے.. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ یہود ایک بہتان باز قوم ہے.. اگر انہیں اس سے قبل کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ دریافت فرمائیں ، میرے اسلام لانے کا پتا لگ گیا تو وہ آپ کے پاس مجھ پر بہتان تراشیں گے.. لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو بلا بھیجا..
وہ آئے اور ادھر عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ گھر کے اندر چھپ گئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ "عبداللہ بن سلام تمہارے اندر کیسے آدمی ہیں..؟"
انہوں نے کہا.. ''ہمارے سب سے بڑے عالم ہیں اور سب سے بڑے عالم کے بیٹے ہیں.. ہمارے سب اچھے آدمی ہیں اور سب سے اچھے آدمی کے بیٹے ہیں..'' ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمارے سردار ہیں اور ہمارے سردار کے بیٹے ہیں اور ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ہمارے سب سے اچھے آدمی ہیں اور سب سے اچھے آدمی کے بیٹے ہیں اور ہم میں سب سے افضل ہیں اور سب سے افضل آدمی کے بیٹے ہیں..
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. ''اچھا یہ بتاؤ اگر عبداللہ مسلمان ہوجائیں تو..؟''
یہود نے دو تین بار کہا.. "اللہ ان کو اس سے محفوظ رکھے.."
اس کے بعد حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ برآمد ہوئے اور فرمایا.. "أشہد أن لا إلٰہ إلا اللہ وأشہد أن محمداً رسول اللہ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں)"
اتنا سننا تھا کہ یہود بول پڑے.. ''یہ ہمارا سب سے بُرا آدمی ہے اور سب سے برے آدمی کا بیٹا ہے.." اور (اسی وقت) ان کی برائیاں شروع کردیں..
ایک روایت میں ہے کہ اس پر حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے فرمایا.. ''اے جماعتِ یہود ! اللہ سے ڈرو.. اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ! تم لوگ جانتے ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حق لے کر تشریف لائے ہیں.."
لیکن یہودیوں نے کہا کہ تم جھوٹ کہتے ہو..
( صحیح بخاری ۱/۴۵۱ ، ۵۵۶ ، ۵۶۱)
بیرون ِ مدینہ مسلمانوں کے سب سے کٹر دشمن قریش تھے اور تیرہ سال تک جب کہ مسلمان ان کے زیر دست تھے ، دہشت مچانے ، دھمکی دینے اور تنگ کرنے کے تمام ہتھکنڈے استعمال کرچکے تھے.. طرح طرح کی سختیاں اور مظالم کرچکے تھے.. منظم اور وسیع پروپیگنڈے اور نہایت صبر آزما نفسیاتی حربے استعمال میں لاچکے تھے.. پھر جب مسلمانوں نے مدینہ ہجرت کی تو قریش نے ان کی زمینیں ، مکانات اور مال ودولت سب کچھ ضبط کرلیا اور مسلمانوں اور اس کے اہل وعیال کے درمیان رکاوٹ بن کر کھڑے ہوگئے.. بلکہ جس کو پایا , قید کرکے طرح طرح کی اذیتیں دیں..
پھر اسی پر بس نہ کیا بلکہ سربراہِ دعوت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کو بیخ وبُن سے اکھاڑنے کے لیے خوفناک سازشیں کیں اور اسے رُوبہ عمل لانے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں صرف کردیں.. بایں ہمہ جب مسلمان کسی طرح بچ بچا کر کوئی پانچ سو کیلو میٹر دور مدینہ کی سرزمین پر جاپہنچے تو قریش نے اپنی ساکھ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گھناؤنا سیاسی کردار انجام دیا یعنی یہ چونکہ حرم کے باشندے اور بیت اللہ کے پڑوسی تھے اور اس کی وجہ سے انہیں اہلِ عرب کے درمیان دینی قیادت اور دنیاوی ریاست کا منصب حاصل تھا اس لیے انہوں نے جزیرۃ العرب کے دوسرے مشرکین کو بھڑکا اور ورغلا کر مدینے کا تقریباً مکمل بائیکاٹ کرادیا جس کی وجہ سے مدینہ کی درآمدات نہایت مختصر رہ گئیں.. جب کہ وہاں مہاجرین پناہ گیروں کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی تھی..
درحقیقت مکے اور مسلمانوں کے اس نئے وطن کے درمیان حالت جنگ قائم ہوچکی تھی اور یہ نہایت احمقانہ بات ہے کہ اس جھگڑے کا الزام مسلمانوں کے سرڈالاجائے.. مسلمانوں کو حق پہنچتا تھا کہ جس طرح ان کے اموال ضبط کیے گئے تھے اسی طرح وہ بھی ان سرکشوں کے اموال ضبط کریں.. جس طرح انہیں ستایا گیا تھا اسی طرح وہ بھی ان سرکشوں کو ستائیں.. اور جس طرح مسلمانوں کی زندگیوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھیں اسی طرح مسلمان بھی ان سرکشوں کی زندگیوں کے آگے رکاوٹیں کھڑی کریں اور ان سرکشوں کو ''جیسے کا تیسا'' والا بدلہ دیں تاکہ انہیں مسلمانوں کو تباہ کرنے اور بیخ وبن سے اکھاڑنے کا موقع نہ مل سکے..
یہ تھے وہ قضایا اور مسائل جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ تشریف لانے کے بعد بحیثیت رسول وہادی اور امام وقائد واسطہ درپیش تھا..
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام مسائل کے تئیں مدینہ میں پیغمبرانہ کردار اور قائدانہ رول ادا کیا اور جو قوم نرمی ومحبت یا سختی ودرشتی ___ جس سلوک کی مستحق تھی اس کے ساتھ وہی سلوک کیا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رحمت ومحبت کا پہلو سختی اور درشتی پر غالب تھا.. یہاں تک کہ چند برسوں میں زمامِ کار اسلام اور اہل اسلام کے ہاتھ آگئی
ہم بیان کر چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینے میں بنو النجار کے یہاں جمعہ 12 ربیع الاول 1ھ مطابق 28 ستمبر 622ء کو حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان کے سامنے نزول فرمایا تھا اور اسی وقت فرمایا تھا کہ ان شاء اللہ یہیں منزل ہوگی.. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر منتقل ہوگئے تھے.. اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پہلا قدم یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد ِ نبوی کی تعمیر شروع کی اور اس کے لیے وہی جگہ منتخب کی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی بیٹھی تھی..
اس زمین کے مالک دو یتیم بچے تھے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے یہ زمین قیمتاً خریدی اور بنفس ِنفیس مسجد کی تعمیر میں شریک ہوگئے.. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اینٹ اور پتھر ڈھوتے تھے.. اس زمین میں مشرکین کی چند قبریں بھی تھیں.. کچھ ویرانہ بھی تھا.. کھجور اور غَرْقَد کے چند درخت بھی تھے.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرکین کی قبریں ہٹوا دیں ، ویرانہ ختم کرا دیا اور کھجوروں اور درختوں کو کاٹ کر قبلے کی جانب لگا دیا..
اس وقت قبلہ بیت المقدس تھا.. دروازے کے بازو کے دونوں پائے پتھر کے بنائے گئے.. دیواریں کچی اینٹ اور گارے سے بنائی گئیں.. چھت پر کھجور کی شاخیں اور پتے ڈلوا دیئے گئے اور کھجور کے تنوں کے کھمبے بنا دیے گئے.. زمین پر ریت اور چھوٹی چھوٹی کنکریاں (چھریاں) بچھا دی گئیں.. تین دروازے لگائے گئے.. قبلے کی دیوار سے پچھلی دیوار تک ایک سو ہاتھ لمبائی تھی.. چوڑائی بھی اتنی یا اس سے کچھ کم تھی.. بنیاد تقریباً تین ہاتھ گہری تھی..
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد کے بازو میں چند مکانات بھی تعمیر کیے جن کی دیواریں کچی اینٹ کی تھیں اور چھتیں کھجور کے تنوں کی کڑیاں دے کر کھجور کی شاخ اور پتوں سے بنائی گئی تھی.. یہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات کے حجرے تھے.. ان حجروں کی تعمیر مکمل ہوجانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان سے یہیں منتقل ہوگئے..
صحیح بخاری ۱ /۷۱ ، ۵۵۵ ، ۵۶۰
زاد المعاد ۲/۵۶
مسجد محض ادائے نماز ہی کے لیے نہ تھی بلکہ یہ ایک یونیورسٹی تھی جس میں مسلمان اسلامی تعلیمات وہدایات کا درس حاصل کرتے تھے اور ایک محفل تھی جس میں مدتوں جاہلی کشاکش ونفرت اور باہمی لڑائیوں سے دوچار رہنے والے قبائل کے افراد اب میل محبت سے مل جل رہے تھے.. نیز یہ ایک مرکز تھا جہاں سے اس ننھی سی ریاست کا سارا نظام چلایا جاتا تھا اور مختلف قسم کی مہمیں بھیجی جاتی تھیں.. علاوہ ازیں اس کی حیثیت ایک پارلیمنٹ کی بھی تھی جس میں مجلسِ شوریٰ اور مجلس ِ انتظامیہ کے اجلاس منعقد ہوا کرتے تھے..
ان سب کے ساتھ ساتھ یہ مسجد ہی ان فقراء مہاجرین کی ایک خاصی بڑی تعداد کا مسکن تھی جن کا وہاں پر نہ کوئی مکان تھا نہ مال اور نہ اہل وعیال..
پھر اوائل ہجرت ہی میں اذان بھی شروع ہوئی.. یہ ایک لاہوتی نغمہ تھا جو روزانہ پانچ بار اُفق میں گونجتا تھا اور جس سے پورا عالمِ وجود لرز اٹھتا تھا.. یہ روزانہ پانچ مرتبہ اعلان کرتا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی ہستی لائق عبادت نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے پیغامبر ہیں.. یہ اللہ کی کبریائی کو چھوڑ کر ہر کبریائی کی نفی کرتا تھا اور اس کے بندے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو چھوڑ کر اس وجود سے ہر دین کی نفی کرتا تھا..
اسے خواب میں دیکھنے کا شرف ایک صحابی حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے برقرار رکھا اور یہی خواب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی دیکھا.. تفصیل جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد ، مسند احمد اور صحیح ابنِ خزیمہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے..
جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کا اہتمام فرماکر باہمی اجتماع اور میل ومحبت کے ایک مرکز کو وجود بخشا , اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاریخ ِ انسانی کا ایک اور نہایت تابناک کارنامہ انجام دیا جسے مہاجرین وانصار کے درمیان مواخات اور بھائی چارے کے عمل کا نام دیا جاتا ہے.. امام ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں..
"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے مکان میں مہاجرین وانصار کے درمیان بھائی چارہ کرایا.. کل نوے آدمی تھے ، آدھے مہاجرین اور آدھے انصار.. بھائی چارے کی بنیاد یہ تھی کہ یہ ایک دوسرے کے غمخوار ہوں گے اور موت کے بعد نسبتی قرابتداروں کے بجائے یہی ایک دوسرے کے وارث ہوں گے.. وراثت کا یہ حکم جنگ ِ بدر تک قائم رہا.. پھر یہ آیت نازل ہوئی کہ ''نسبتی قرابتدار ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں(یعنی وراثت میں)" توانصار ومہاجرین میں باہمی توارُث کا حکم ختم کردیا گیا لیکن بھائی چارے کا عہد باقی رہا.. کہا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اور بھائی چارہ کرایا تھا جو خود باہم مہاجرین کے درمیان تھا لیکن پہلی بات ہی ثابت ہے.. یوں بھی مہاجرین اپنی باہمی اسلامی اخوت ، وطنی اخوت اور رشتہ وقرابتداری کی اخوت کی بنا پر آپس میں اب مزید کسی بھائی چارے کے محتاج نہ تھے جبکہ مہاجرین اور انصار کا معاملہ اس سے مختلف تھا.."
(زاد المعاد , 2/56)
اس بھائی چارے کا مقصود یہ تھا کہ جاہلی عصبیتیں تحلیل ہوجائیں , نسل ، رنگ اور وطن کے امتیاز ات مٹ جائیں , موالات اور براءت کی اساس اسلام کے علاوہ کچھ اور نہ ہو..
اس بھائی چارے کے ساتھ ایثار وغمگساری اور موانست اور خیر وبھلائی کرنے کے جذبات مخلوط تھے اسی لیے اس نے اس نئے معاشرے کو بڑے نادر اور تابناک کارناموں سے پُر کردیا تھا..
چنانچہ صحیح بخاری میں مروی ہے کہ مہاجرین جب مدینہ تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ کرادیا.. اس کے بعد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے کہا.. ''انصار میں میں سب سے زیادہ مال دار ہوں.. آپ میرا مال دوحصوں میں بانٹ کر (آدھا لے لیں) اور میری دو بیویاں ہیں.. آپ دیکھ لیں جو زیادہ پسند ہو , مجھے بتادیں.. میں اسے طلاق دے دوں اور عدت گزرنے کے بعد آپ اس سے شادی کرلیں..''
حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا.. "اللہ آپ کے اہل اور مال میں برکت دے.. آپ لوگوں کا بازار کہا ں ہے..؟ لوگوں نے انہیں بنو قینقاع کا بازار بتلادیا.. (جہاں تجارتی کاموں میں لگ کر کچھ ہی مدت میں وہ خود ہی دولت مند ہوگئے اور پھر گھر بھی بسا لیا)
(صحیح بخاری , 1/553)
اسی طرح حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت آئی ہے کہ انصار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا.. "آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان اور ہمارے بھائیوں کے درمیان ہمارے کھجور کے باغات تقسیم فرما دیں.." آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.. "نہیں.." انصار نے کہا.. "تب آپ لوگ یعنی مہاجرین ہمارا کام کردیا کریں اور ہم پھل میں آپ لوگوں کو شریک رکھیں گے.." انہوں نے کہا.. "ٹھیک ہے ہم نے بات سنی اور مانی.."
(صحیح بخاری, باب اذا قال اکفنی مؤنۃ النخل , 1/213)
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انصار نے کس طرح بڑھ چڑھ کر اپنے مہاجر بھائیوں کا اعزاز واکرام کیا تھا اور کس قدر محبت ، خلوص ، ایثار اور قربانی سے کام لیا تھا اور مہاجرین ان کی اس کرم ونوازش کی کتنی قدر کرتے تھے.. چنانچہ انہوں نے اس کا کوئی غلط فائد ہ نہیں اٹھایا بلکہ ان سے صرف اتنا ہی حاصل کیا جس سے وہ اپنی ٹوٹی ہوئی معیشت کی کمرسیدھی کرسکتے تھے.. اور حق یہ ہے کہ بھائی چارہ ایک نادر حکمت ، حکیمانہ سیاست اور مسلمانوں کو درپیش بہت سارے مسائل کا ایک بہترین حل تھا..
جارھے.....