Gaye ki Qurbani me kitne log Shamil ho sakte hai?
Kya 7 logo ka aqeeqa Ek gaye me ho sakta hai , jaise Qurbani me Saat log sharik hote hai?
Kaise Janwar ki Qurbani jayez hai?
Qurbani ka tarika, Kin logo par Qurbani wazib hai?
Sawal: oont (Camel) aur Gaye ki Qurbani me Jyada se jyada Aur kam se kam kitne log Shamil ho sakte hai? Agar hissedaro me se koi Shakhs Be Namaji ya Mushrik ho, Aamdani (Income) haram ki ho, Hissedaro me se kisi ek shakhs ki Qurbani ke bajaye Sirf Gost ki niyat ho to kya uski wajah se baki logo ki Qurbani bhi jayez hogi?
"سلسلہ سوال و جواب نمبر-67"
سوال_ اونٹ اور گائے کی قربانی میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کتنے لوگ شریک ہو سکتے ہیں؟ اور اگر حصہ داروں میں سے کوئی شخص بے نماز یا مشرک ہو یا اسکی آمدن حرام کی ہو یا حصے داروں میں سے کسی ایک شخص کی قربانی کی بجائے صرف گوشت کی نیت ہو تو کیا اسکی وجہ سے باقی لوگوں کی قربانی بھی نہیں ہو گی؟
Published Date- 31-7-2019
جواب..!!
الحمدللہ!!
*اگر اونٹ يا گائے كى قربانى ہو تو اس ميں ایک سے زائد لوگوں کا حصہ ڈالا جا سكتا ہے، ليكن اگر بكرى اور بھيڑ يا دنبہ كى قربانى كى جائے تو پھر اس ميں حصہ نہيں ڈالا جا سكتا،اور ايک گائے ميں سات حصہ دار شريک ہو سكتے ہيں اور ایک اونٹ میں سات یا دس لوگ بھی شریک ہو سکتے ہیں.
صحابہ كرام رضى اللہ عنہم سے حج يا عمرہ كى ھدى ميں ايک اونٹ يا گائے ميں سات افراد كا شريک ہونا ثابت ہے،
امام مسلم رحمہ اللہ نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہم نے حديبيہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ ايک اونٹ اور ايک گائے سات سات افراد كى جانب سے ذبح كى تھى "
(صحيح مسلم حديث نمبر_1318 )
اور ابو داود كى روايت ميں ہے ،
جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں،
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حج تمتع کرتے تو گائے سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کرتے تھے، اور اونٹ بھی سات آدمیوں کی طرف سے، ہم سب اس میں شریک ہو جاتے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-2807)
جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: گائے سات افراد كى جانب سے ہے، اور اونٹ سات افراد كى جانب سے "
(سنن ابو داود حديث نمبر_ 2808 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ صحیح مسلم كى شرح ميں رقمطراز ہيں:
" ان احاديث ميں قربانى كے جانور ميں حصہ ڈالنے كى دليل پائى جاتى ہے، اور علماء اس پر متفق ہيں كہ بكرے ميں حصہ ڈالنا جائز نہيں، اور ان احاديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ ايك اونٹ سات افراد كى جانب سے كافى ہوگا، اور گائے بھى سات افراد كى جانب سے، اور ہر ايك سات بكريوں كے قائم مقام ہے، حتى كہ اگر محرم شخص پر شكار كے فديہ كے علاوہ سات دم ہوں تو وہ ايك گائے يا اونٹ نحر كر دے تو سب سے كفائت كر جائيگا " انتہى مختصرا.
اور مستقل فتوى كميٹى سے قربانى ميں حصہ ڈالنے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" ايك اونٹ اور ايك گائے سات افراد كى جانب سے كفائت كرتى ہے، چاہے وہ ايك ہى گھر كے افراد ہوں، يا پھر مختلف گھروں كے، اور چاہے ان كے مابين كوئى قرابت و رشتہ دارى ہو يا نہ ہو؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحابہ كرام كو ايك گائے اور ايک اونٹ ميں سات افراد شريک ہونے كى اجازت دى تھى، اور اس ميں كوئى فرق نہيں كيا " انتہى.
(ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 401 )
*گائے اور اونٹ میں سات سات لوگوں کے شریک ہونے کا اصول ہدی کے جانوروں کے لیے ہے، یعنی حاجی جو منی میں قربانی کرتے ہیں وہاں اونٹ ہو یا گائے سات سات لوگ ہی شریک ہو سکتے ہیں،لیکن عام جگہ پر جو قربانی کرتے ہم یہاں اونٹ کی قربانی میں دس لوگ بھی شریک ہو سکتے ہیں*
جیسا کہ سنن ترمذی کی حدیث میں ہے!
سیدنا ابن عباس سے رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ عید الاضحی کا دن آ گیا، چنانچہ گائے میں ہم سات سات لوگ شریک ہوئے اونٹ میں دس دس لوگ شریک ہوئے،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-905)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-3131)
اس حدیث کو امام (ابنِ حبان_4007)نے ''صحیح'' اور امامِ حاکم نے ''امام بخاری کی شرط پر صحیح ''کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے،
لہذا_ اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ اونٹ کی قربانی میں دس افراد بھی شریک ہو سکتے ہیں
_______&________
*ایک سے زائد قربانیان کرنا جائز ہے اور اسی طرح بڑے جانور میں سات سے کم لوگ شریک ہو سکتے ہیں ،یعنی کوئی دو حصے رکھ لے یا تین رکھ لے مگر کوئی بھی سوا ،ڈیڑھ یا ڈھائی قربانی نہیں کر سکتا*
شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"کیا اسلام نے عید کے دن قربانی کرنے کی تعداد مقرر کی ہے؟ اور کی ہے تو یہ کتنی تعداد ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اسلام میں قربانی کی تعداد کیلئے کوئی حد بندی مقرر نہیں کی گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو قربانیاں کیا کرتے تھے، ایک اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے اور دوسری امت محمدیہ میں سے موحدین کی طرف سے، چنانچہ اگر کوئی شخص ایک، یا دو ، یا اس سے بھی زیادہ قربانیاں کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک بکری ذبح کرتے تھے، اور پھر اسی سے خود بھی کھاتے اور لوگوں کو بھی کھلاتے، اس کے بعد لوگوں نے اسے فخر کا ذریعہ بنا لیا"، خلاصہ یہ ہے کہ: اگر کوئی انسان اپنے گھر میں اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے ایک ہی بکری ذبح کر دے تو اس طرح اس کا سنت پر عمل ہو جائے گا، اور اگر کوئی دو ، تین، چار، یا گائے ، یا اونٹ کی قربانی کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔" انتہی
(ماخوذ از ویب سائٹ شیخ ابن باز رحمہ اللہ:)
http://www.binbaz.org.sa/mat/11662
یعنی ایک بڑے جانور مثلا گائے، اونٹ میں سات قربانیاں ہوتی ہیں۔ سات افراد ایک ایک حصہ ڈال لیں یا پھر سات سے کم لوگ ہوں تو وہ قربانی کے اعتبار سے حصے اس طرح ڈالیں کہ ایک بندہ ایک حصہ، دو حصے یا تین حصے یا چار حصے یا پانچ حصے یا چھ حصے یا پھر پورا جانور یعنی چھ لوگ کر رہے ہیں تو ایک بندہ دو حصے ڈال لے اور باقی ایک ایک تاکہ کوئی حصہ ساتویں (1/7) سے کم نہ ہو۔ مراد یہ ہے کہ کوئی سوا، ڈیڑھ یا پونے دو قربانیاں نہیں کرے گا۔ جو بھی کرے مکمل ایک، دو یا اس سے زائد قربانیاں کرے۔ اسی طرح ایک بڑے جانور میں پانچ بندے حصہ ڈالیں تو ایک ایک تو سب کو مکمل قربانی آ جائے گی باقی دو سب پر تقسیم نہیں کی جائیں گی۔ ان دو کو کسی ایک کے ذمہ لگا دیں یا دو بندے دو دو کر لیں۔ اسی طرح ایک بڑے جانور کو دو بندے مل کر قربانی کریں تو ایک بندہ چار حصے کر لے ایک تین، ساڑھے تین تین نہیں کریں گے۔ المختصر یہ کہ جو بھی کرے مکمل قربانیاں کرے، ایک، دو یا زیادہ جتنی بھی،
________&_________
*گائے میں سات سے زیادہ اور اونٹ میں دس سے زائد حصے دار نہیں بن سکتے*
سعودی مفتی شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ اپنی ویبسائٹ(islamqa) پر ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ،
کسی قربانی کرنے والے کیلیے ساتویں حصے سے کم حصہ جائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی محض گوشت ہی حاصل کرنا چاہتا ہے قربانی نہیں کرنا چاہتا تو پھر کوئی حرج نہیں ہے کہ جتنا مرضی حصہ لے لے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "أحكام الأضحية" میں کہتے ہیں کہ:
"ایک بکری ایک شخص کی جانب سے قربانی میں کافی ہوگی، اور اسی طرح گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ بھی ایک بکری کی طرح ایک شخص کی جانب سے قربانی میں کافی ہو گا۔۔۔
اور اگر [بکری کی] قربانی میں ایک سے زیادہ افراد مالک ہوں تو پھر اس کی قربانی نہیں ہو گی، اونٹ اور گائے کی مشترکہ قربانی میں سات سے زائد حصے دار شریک نہیں ہو سکتے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ قربانی عبادت اور قرب الہی کا ذریعہ ہے چنانچہ اس عبادت کا طریقہ کار وہی ہو گا جو شریعت نے بتلایا ہے اس میں وقت، تعداد اور کیفیت ہر چیز کا خیال رکھا جائے گا" ختم شد
("رسائل فقهية"_ص 58، 59)
*اور اگر کوئی قربانی کرنے والا شخص ساتویں حصے سے بھی کم حصہ ملائے تو اس کی قربانی صحیح نہیں ہوگی، تاہم اس کی وجہ سے دوسروں کی قربانی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ ایک گائے میں ساتواں حصہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے ان میں سے کچھ قربانی کریں یا صرف گوشت حاصل کرنے کیلیے حصہ ڈال رہے ہوں*
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اونٹ يا گائے ميں قربانى كے ليے سات افراد حصہ ڈال سكتے ہيں، چاہے وہ سب ايك ہى خاندان سے تعلق ركھتے ہوں يا پھر مختلف خاندانوں سے، يا ان ميں سے بعض افراد صرف گوشت چاہے ہوں تو قربانى كرنے والے كى طرف سے قربانى ہو جائيگى، چاہے وہ قربانى نفلى ہو يا پھر نذر مانى ہوئى ہو، ہمارا يہى مسلك ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ اور جمہور علماء كرام كا بھى يہى قول ہے " انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 8 / 372 )
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اونٹ سات افراد كى جانب سے كافى ہے، اور اسى طرح گائے بھى اكثراہل اعلم كا قول يہى ہے...
پھر اس كے بعد اس كى دليل ميں كچھ احاديث ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:
جب يہ ثابت ہو گيا تو پھر چاہے حصہ دار ايك ہى گھر سے تعلق ركھتے ہوں، يا پھر مختلف گھرانے سے تعلق ركھنے والے ہوں، يا پھر ان كى قربانى فرضى ہو يا نفلى، يا ان ميں سے بعض اللہ كا قرب حاصل كرنے والے ہوں، يا بعض افراد صرف گوشت حاصل كرنا چاہيں تو سب برابر ہيں؛ كيونكہ ان ميں سے ہر ايك انسان كى جانب سے اس كا حصہ كفائت كرے گا، اس ليے كسى كى نيت دوسرے كى نيت كو نقصان نہيں دےگى " انتہى.
(ديكھيں: المغنى ابن قدامہ_ 13 / 363 )
نوٹ_
*اس سے یہ بھی پتا چلا کہ اگر کوئی بے نمازی،مشرک آدمی یا حرام کمائی والا شخص قربانی میں حصے دار ہے تو اسکی نیت یا اسکا عمل باقیوں کی قربانی پر اثر انداز نہیں ہو گا،کیونکہ سب کی اپنی اپنی نیت ہے جس نے جس نیت سے یا جس مال سے قربانی کی ہے اللہ اسکو جانتا ہے،کچھ علماء کا یہ فتویٰ دینا کہ بے نماز یا مشرک یا حرام مال والے حصے دار سے باقیوں کی قربانی بھی ضائع ہو جائے گی یہ بات بے معنی اور بے دلیل ہے اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو کوئی بھی اجتماعی عبادت قبول نا ہو،۔۔۔ لہذا دلیل کے بنا ہم اس فتویٰ کو تسلیم نہیں کرتے،ہاں زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بہتر ہے کہ تمام لوگ موحد اور نمازی پرہیزی قربانی میں شریک ہوں ،کیونکہ مشرک/بے نماز کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور اس لیے بھی تا کہ بے نماز اور مشرک کی حوصلہ شکنی ہو اور انکو دعوت ملے کہ انکے برے عمل کی وجہ سے کوئی انکو قربانی میں بھی شریک نہیں کر رہا۔۔*
(((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))
قربانی کے مسائل کے بارے مزید پڑھنے کے لیے دیکھیں
( سلسلہ نمبر- 59 سے 78 تک)
اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!
*الفرقان اسلامک میسج سروس*
آفیشل واٹس ایپ نمبر
+923036501765
آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/
آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/