find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Ashre Zilhijja (ذی الحجہ ) Ke 10 Dino ki Fazilat.

Ashre Zilhijja Ki 10 Dino Fazilat Aur In dino Ki jane wale Amal.

عشرۃ ذی الحجۃ۔۔۔۔ ذوالحجہ کا پہلا عشرہ۔
Kaise Janwer Ki Qurbani Hoti hai?
 یوں تو اللہ ذوالجلال والاکرام کی رحمت کی بارش ہمیشہ ہوتی رہتی ہے۔ شب و روز کے چوبیس گھنٹوں میں کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں جب اللہ ارحم الراحمین کے رحم و کرم کے سمندر سے دیا سیراب نہ ہوتی ہو، مگر بعض ایام، بعض عشرے اور بعض ماہ ایسی خصوصیتیں رکھتے ہیں جو دوسرے دِنوں میں موجود نہیں۔
منجملہ ان کے عشرۂ ذی الحجہ ہے اس میں خدائے ذوالجلال والاکرام کے بحرِ رحمت کی امواج میں بے انتہا تلاطم پیدا ہو جاتا ہے اور رحمت کی فراوانی خشک وادیوں کو سیراب اور مردہ بیابانوں کو زندہ کر دیتی ہے۔ قارئین کے فائدہ کے لئے قرآن و حدیث سے کچھ عرض کرتا ہوں۔ ممکن ہے کوئی تشنۂ ثواب اس سے فائدہ اُٹھائے اور میرے لئے باعثِ اجر و ثواب بن جائے۔
یہ وہ عشرہ ہے جس کی بزرگی اور فضیلت قرآن اور حدیث سےثابت ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس عشرہ کی قسم کھائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:۔
﴿وَالفَجرِ‌ ﴿١﴾ وَلَيالٍ عَشرٍ‌ ﴿٢﴾... سورة الفجر
قسم ہے صبح (یوم النحر) کی اور (ذی الحجہ) دس راتوں کی۔
جس چیز کی قسم کھائی جائے وہ مکرم و معظم ہوتی ہے۔ تو عشرہ ذی الحجہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مکرم و معظم ہوا۔ لہٰذ ااس میں اللہ تعالیٰ کے فیوض و برکات سے مستفیض ہونا چاہئے، جیسا کہ ارشاد ہے:
﴿وَيَذكُرُ‌وا اسمَ اللَّهِ فى أَيّامٍ مَعلومـٰتٍ...﴿٢٨﴾... سورة الالحج
یعنی یاد کریں اللہ تعالیٰ کا نام معلوم دنوں میں۔
معلوم دنوں سے مراد عشرہ ذی الحجہ ہے جیسا کہ بخاری میں ابن عباسؓ سے مروی ہے۔
پس قرآن مجید سے اس عشرہ کی عظمت اور بزرگی ثابت ہوئی اور اس میں کثرتِ ذکر و عبادت کی ترغیب بھی ثابت ہوئی۔
اور فریضہ حج جو ارکانِ خمسہ میں داخل ہے اور بے انتہائ محاسن و فضائل کا حامل ہے۔ یہ بھی اسی عشرہ میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ بھی اس کی فضیلت پر دال ہے۔
اور قربانی جو حب خلیلؑ کی یادگار اور خالق پر مخلوق کے ایثار اور جاں فشانی کی بے مثال دلیل ہے۔ اسی عشرہ میں کی جاتی ہے۔ یہ بھی اس عشرہ کی فضیلت کی دلیل ہے۔
عشرہ ذوالحجہ کی فضیلت احادیث سے
پہلی حدیث:۔
بخاری شریف میں ہے:
عن ابن عباس قال قال رسول الله صلی اللہ علیه وسلم ما من أیام ۔۔۔۔ العمل الصالح فیهن أحب الی الله ۔۔۔۔ من هذہ الأیام العشرة، قالوا: یا رسول الله ولا الجهاد في سبیل اللہ؟ قال: ولا الجهاد في سبیل الله إلا رجل خرج بنفسه وما له فلم یرجع من ذلك بشيء (رواہ البخاری)
یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ان دس دنوں کے اعمال صالحہ جتنے اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں اتنے اور دِنوں کے نہیں یعنی ان دنوں کے اعمال نماز روزہ، تسبیح، تہلیل، تکبیر اور صدقہ خیرات وغیرہ اللہ عزوجل کو بہت ہی محبوب ہیں لہٰذا ان دنوں میں بندگی و عبادت میں زیادہ کوشش کرنی چاہئے۔
صحابہ نے عرض کیا کہ جہاد بھی ان دنوں کے اعمال صالحہ کے برابر نہیں ہوتا؟ فرمایا: جہاد بھی برابر نہیں ہو سکتا۔ ہاں وہ مجاہد جو جان مال لے کر جہاد کے لئے نکلے اور پھر کوئی چیز واپس نہ لائے یعنی خود بھی شہید ہو جائے اور مال بھی خرچ ہو جائے۔ ایسا جہاد ان دِنوں کے اعمال صالحہ کے برابر ہو سکتا ہے۔
اس صحیح حدیث میں اس عشرہ کی کتنی بزرگی اور عظمت ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ جو بندہ کی ایک ایک نیکی کو اتنا محبوب رکھتا ہے کہ ایک ایک نیکی پر اس کو دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ ہزاروں گا تک ثواب دیتا ہے۔ اس عشرہ کی نیکی کو بہت محبوب رکھتا ہے۔ یہ بحرِ رحمت کی موجیں ہیں جو عاجز بندہ کو اسکے بحرِ رحمت س خطِ وافر لینے کے لئے پکار رہی ہیں۔ کاش کہ انسان ایسے وقتوں کی قدر کرے اور کمربستہ ہو کر کچھ کما لے۔ خوش قسمت ہی وہ لوگ جو ایسے وقتوں میں بحرِ رحمت میں غوط لگاتے ہیں۔
دوسری حدیث:
عن ابن عمر قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم ما من أیام أعظم عند الله ولا العمل فیهن أحب الی الله عزوجل من هذہ الأیام یعنی من العشر
یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان دِس دنوں سے بزرگ و برتر اور کوئی دن نہیں ہیں نہ ان دنوں کے عمل کے برابر کسی اور دنوں کا عمل اللہ کو محبوب ہے۔
تیسری حدیث:
عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی الله علیه وسلم ما من أیام أعظم عند الله سبحانه ولا أحب إلیه العمل فیهن من هذه الأیام العشر فأکثروا فیهن من التهلیل والتکبیر والتحمید (رواہ احمد)
ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عشرہ ذی الحجہ سے بڑھ کر اللہ سبحانہٗ کے نزدیک اور کوئی دن نہیں ہیں اور ان دنوں کے اعمال جیسے اللہ کو پیارے ہیں اور کوئی عمل نہیں۔ لہٰذا ان دِنوں میں لا إلہ إلا اللہ، اللہ أکبر اور الحمد للہ کثرت سے پڑھنا چاہئے۔
چوتھی حدیث:
عن ابی هریرة قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم ما من أیام أحب الی الله ان یتعبد له فیها من عشر ذی الحجة، یعدل صیام كل یوم منها بصیام سنة وقیام كل لیلة منها بقیام لیلة القدر، رواہ الترمذي وابن ماجۃ وقال الترمذي إسنادہ ضعیف
یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عشرہ ذی الحجہ کی بندگی باقی ایام کی بندگی سے بہت محبوب ہے۔ عشرہ ذی الحجہ کے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور اس کی رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے۔ اگرچہ اس حدیث کو امام ترمذی نے ضعیف کہا ہے۔
Share:

Ashre Zilhijja (ذی الحجہ) Me 10 me Roza Rakhne Ki Kya Fazilat Hai? (Aeise 20 Sawalat)

Kya Maiyyat ke Taraf Se #Qurbani Ki Ja Sakti Hai?

Ashre Zilhijja Se Joode Aeise 20-25 Sawalat aur unke jawabat, Qurbani Ke Mutalluq Sawal.
Qurbani ke Liye Janwer
 سوال١: دنوں میں سب سے افضل دن کون سا ہے؟
جواب: اللہ تعالیٰ نے جمعہ کو ہفتہ میں افضل دن بنایا، رمضان کو سال میں، اورتمام دنوں میں ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں کو خصوصی فضیلت بخشی ہے۔اور انہی دنوں میں سب سے افضل عرفہ کا دن ہے کیونکہ اسی دن ہمارا دین اسلام مکمل ہوا۔اور اللہ نے بھی سورة الفجرمیں ان دس دنوں کی قسم کھائی ہے۔فرمایا: ”والفجر ولیال عشر” ۔” قسم ہے فجر کی اور قسم ہے مجھے دس راتوں کی ”۔ اور آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ سے زیادہ لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہو”۔ (صحیح مسلم/١٣٤٨)
سوال٢: ذی الحجہ کے پہلے دس دنو کی فضیلت کیا ہے؟
جواب: آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ:” کوئی عمل ان دس دنوں کے عمل سے افضل نہیں”۔صحابہ نے عرض کیا کہ: ”جہاد بھی نہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ:” جہاد بھی نہیں ہاں! مگر وہ آدمی جو اپنا مال اور جان لے کر اللہ کے راستے میں نکلا اور سب کچھ لٹا دیا”۔ (صحیح بخاری/٩٢٦)
سوال٣: ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں میں روزہ رکھنا کیسا ہے؟
جواب: روزہ نیک اعمال میں سے ایک نیک عمل ہے ۔ اور مسنون یہ ہے کہ ذی الحجہ کے نویں تاریخ کا روزہ رکھے۔ کیونکہ آپ ۖنے اس عشرہ میں نیک عمل کرنے کی ترغیب دی ہے۔آپۖ ذی الحجہ کے نویں تاریخ، یوم عاشورا اور ہر مہینے تین دن اور ہرماہ کے پہلے سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھاکرتے تھے۔ (صحیح سنن النسائی /٢٢٣٦)
سوال٤: عشرۂ ذی الحجہ میں تکبیر کہنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: ارشاد ربانی ہے: ”وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ فِیْ أَیَّامٍ مَّعْلُومَات”(الحج/٢٨)
”وہ لوگ معلوم دنوں میں اللہ کا ذکر کریں”۔
اس عشرہ کے شروع ہونے سے لے کرایام تشریق کے آخری دن کے غروب آفتاب تک حاجیوں اور غیر حاجیوں کواللہ کا ذکر ہروقت کرتے رہنا چاہیے۔ صحابہ کرام ث ان دس دنوں میں تکبیر کہتے ہوئے بازار نکلتے اورعام لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کردیتے۔ (فتح الباری ج٢/٥٣١)
سوال٥: قربانی کرنے والے پرذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد بال،ناخن کاٹنے کا کیا حکم ہے؟اور اگر کاٹ دیئے تو کفارہ کیا ہے؟
جواب: جس شخص کے پاس جانور ہو وہ اسے قربان کرنا چاہتا ہو اور ذوالحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے تو اس کے لیے قربانی کرنے تک بال یا ناخن کاٹنا جائز نہیں کیوں آپۖ نے فرمایا: ”مَنْ کَانَ لَہُ ذِبْح یَّذْبَحُہُ، فَاِذَا أُہِلَّ ہِلَال ذِی الْحَجَّةِ، فَلاَ یَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِہِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِہِ شَیْئاً” (صحیح مسلم/١٩٧٧)
” جس شخص کے پاس ذبح کرنے کے لیے جانور موجود ہواور وہ قربانی کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہونے سے لے کر قربانی کرنے تک بال اور ناخن نہ کاٹے”۔
اب اگر کوئی شخص اس حکم کی مخالفت کرتے ہوئے بال یا ناخن کاٹ لے تو وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے، لیکن اس پر کوئی فدیہ(جرمانہ) وغیرہ نہیں ہے خواہ اس نے جان بوجھ کر ہی ایسا کیا ہو۔ (فتاویٰ اسلامیہ /فتویٰ کمیٹی ٤١٩)
سوال٦: اگر گھر کے مالک کی طرف سے قربانی ہورہی ہے تو کیا پورے گھر والے ناخن،بال کاٹنے سے رکے رہیںگے؟
جواب: اگرگھر کے سارے لوگوں کا مال مشترکہ ہے اور گھر کے مالک کی طرف سے قربانی ہورہی ہے تو پھر سارے لوگ قربانی کرنے والے شمار ہوں گے۔ لہذا ماہ ذوالحجہ کے آغاز کے بعد کسی کے لیے بھی بال یا ناخن کاٹنا جائز نہیں کیونکہ آپۖ نے فرمایا:” اِذَا رَأَیْتُمْ ہِلَالَ ذِی الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُکُمْ أَنْ یُّضَحِّیَ، فَلْیُمْسِکْ عَنْ شَعْرِہِ وَأَظْفَارِہِ”۔ (صحیح مسلم/١٩٧٧)
”جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے”۔
سوال٧: عشرہ ذی الحجہ میں اگر سردھونے، سرکے بال یا داڑھی میں خلال کرنے یا کنگھی کرنے سے بال گرجائیں تو کیا حکم ہے؟
جواب: عشرۂ ذوالحجہ میں اگر سردھونے یا سرکے بال یاداڑھی میں خلال کرنے یا کنگھی کرنے سے بال گرجائیں تو کوئی حرج نہیں۔ اس سے قربانی کے اجروثواب میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی ۔اور اگرکوئی شخص جان بوجھ کر بھی بال یا ناخن کاٹ لے تو اس کی وجہ سے بھی وہ قربانی ترک نہ کرے۔ ان شاء اللہ قربانی کا اسے پورا پورا ثواب ملے گا۔ (شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ ،فتاویٰ اسلامیہ ٤١٨)
سوال ٨: عشرۂ ذی الحجہ میں کون سا عمل مستحب ہے؟
جواب: عشرۂ ذی الحجہ میں فرض نمازوں کے بعد بلند آواز سے تکبیریں کہنا،نفل روزے رکھنا،اٹھتے بیٹھتے چلتے پھرتے تکبیر، تحلیل، تحمید پڑھنا، خاص طور پریوم عرفہ کا روزہ رکھنا اور قربانی کرنا وغیرہ اعمال مستحب ہیں۔
سوال٩: یوم عرفہ کا روزہ رکھنے کی فضیلت کیا ہے؟
جواب: حاجی کے علاوہ یوم عرفہ کا روزہ رکھنا مستحب ہے۔ آپ ۖ سے یوم عرفہ کے روزہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ”صوم یوم عرفة احتسب علی اللہ ان یکفر السنة التی قبلہ ،والسنة التی بعدہ”۔ (صحیح مسلم/١١٦٢)
”عرفہ کے ایک دن کے روزہ کے بارے میں، میں اللہ تعالیٰ سے امید کرتا ہوںکہ پچھلے سال اور آئندہ سال کے گناہوں کاکفارہ بنادے گا ”۔
سوال١٠: یوم عرفہ کے دن حاجی روزہ رکھ سکتا ہے یا نہیں؟
جواب: عرفہ کا روزہ حاجیوں کے لیے رکھنا مسنون نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کریمۖ نے (حجة الوداع کے موقع پر)عرفہ میں روزہ نہیں رکھا تھا۔ اور آپۖ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے میدان عرفات میں عرفہ کے روزے سے منع فرمایا ہے۔ (مسند احمد/٨٠١٨، احمد شاکر نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے)
سوال ١١: یوم النحر کی فضیلت کیا ہے؟
جواب: آپ ۖ نے فرمایا ”اِنَّ اَعْظَمَ الْاَیَّامِ عِنْدَ اﷲِ یَوْمُ النَّحْرِ ثُمَّ یَوْمُ الْقَرِّ”(صحیح سنن ابوداؤد/١٧٦٥،امام البانی اس حدیث کو صحیح کہا ہے)
”اﷲ کے نزدیک سب سے فضیلت والادن قربانی کا دن(یعنی دس ذی الحجہ) ،پھر گیارہ ذی الحجہ ہے”۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں اللہ کے ہاں افضل ترین دن یوم النحر ہے اور یہی حج اکبر کا دن ہے۔
سوال١٢: قربانی کس کو کہتے ہیں؟
جواب: یوم النحر اور ایام تشریق کے دنوں میں اللہ کاقرب حاصل کرنے کی خاطرجو اونٹ، گائے ،بکری ذبح کی جا ئے اسے قربانی کہتے ہیں۔
سوال١٣: قربانی اور ہدی میں کیا فرق ہے؟
جواب: قربانی عام لوگوں کے لیے ہے جب کہ ہدی صرف قارن اور متمتع حاجی کے لیے ہے۔ قربانی جہاں چاہیں ذبح کردیں جب کہ ہدی صرف منی یا مکہ میں ذبح ہوگی ۔ہدی ہر حاجی کی طرف سے ہوتی ہے جب کہ ایک قربانی پورے خاندان کی طرف سے ہوتی ہے۔ قربانی کے جانور کے لیے جو شرائط مقرر ہیں وہ ہدی کے جانور کے لیے ضروری نہیں۔
سوال١٤: قربانی کا کیا حکم ہے؟
جواب: اہل علم کے صحیح قول کے مطابق قربانی سنت مؤکدہ ہے۔ جس کے پاس مالی استطاعت ہو اسے قربانی ضرورکرنی چاہیے کیونکہ یہ عیدالاضحی اور ایام تشریق کی عبادات میں سے اہم ترین عبادت ہے۔ نبی کریم ۖ نے مدینہ منورہ میں ہمیشہ قربانی کی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ” آپ ہر سال سفید وسیاہ رنگ کے بڑے بڑے سینگوں والے دو مینڈھوں کی قربانی دیا کرتے تھے”۔ (صحیح بخاری/٥٢٣٤ وصحیح مسلم/١٩٦٦)
سوال١٥: قربانی کی فضیلت کیا ہے؟
جواب: قربانی کی فضیلت یہ ہے کہ” دس ذوالحجہ کو خون بہانے سے بڑھ کر ابن آدم اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی بہتر عمل نہیں کرتا، یہ جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت آئیں گے اور خون کے زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے یہاں اس کا ایک مقام ہوتا ہے سو تم یہ قربانی خوش دلی سے دیا کرو”۔ (ضعیف سنن ابن ماجہ/٦٧١وضعیف سنن الترمذی/٢٥٣ بتحقیق الالبانی)
نوٹ: واضح رہے کہ مذکورہ بالاحدیث معمولی ضعیف ہے چونکہ علماء کی ایک بڑی اکثریت ضعیف احادیث کو فضائل میں مقبول سمجھتی ہے لہذا ہم نے ذکر کردی ہے۔
سوال١٦: قربانی کی حکمت کیا ہے؟
جواب: پہلی حکمت یہ ہے کہ ہم اپنے جد امجد حضرت ابراہیم ں کی اقتدا میں قربانی کرتے ہیںجنہیں اپنے جگر کے ٹکڑے کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔دوسری حکمت یہ ہے کہ عید کے دن لوگوں پر کشادگی کرنا مقصد ہے کیونکہ جب ایک مسلمان قربانی کرتا ہے تو خود اپنے اوپر اور اپنے گھروالوں پر کشادگی کرتا ہے اور جب وہ گوشت ہدیہ کرتا ہے تو اپنے دوستوں، پڑوسیوں اور قرابتداروں پر کشادگی کرتا ہے۔
سوال١٧: قربانی کن لوگوں پر ہے؟
جواب: ہر صاحب استطاعت کے لیے قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے۔اگرکوئی شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا ہے تو وہ بہت بڑے فضل وبرکت سے محروم رہے گا۔ آپ ۖ نے فرمایا:”مَنْ وَّجَدَ سَعَةً فَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَقْرُبَنَّ مُصَلَّا نَا” (مسند احمد: ج٢/٣٢١،امام البانی نے حسن قرار دیا ہے،صحیح الترغیب / ١٠٨٧)
”جس کے پاس استطاعت ہو اورپھر بھی وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے”۔
سوال١٨: قربانی کرنا افضل ہے یا اس کی قیمت کو صدقہ کرنا افضل ہے؟
جواب: قربانی کرنااوراس کے گوشت کو تقسیم کرنا افضل ہے، کیونکہ قربانی کا اہم مقصد اللہ کا قرب حاصل کرناہوتاہے۔ اللہ رب العزت کا ارشادہے:”لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُمْ ”۔(الحج/٣٧)
”اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے”۔(الشرح الممتع ٧/٤٨٠)
سوال١٩: قربانی کتنے دنوں تک کرسکتے ہیں؟
جواب: قربانی کرنے کے چار دن ہیں۔١٠ـ١١ـ١٢ـ١٣ ذی الحجہ تک، نبی کریم ۖ سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ”کل ایام تشریق ذبح” ”تمام ایام تشریق میں ذبح کرنا ہے”۔(السلسة الصحیحة /٢٤٧٦)
سوال٢٠: کن جانوروں کی قربانی دی جاسکتی ہے۔ اورکون سا جانور قربانی میں دینا افضل ہے؟
جواب: اونٹ ،گائے بکری یابھیڑ کی قربانی دی جائے گی اورسب سے افضل قربانی اونٹ کی ہے، پھر گائے کی، پھر بکری کی، پھر اونٹ میں دسواں حصہ یاگائے میں ساتواں حصہ۔ اور پالتوجانوروں میں سب سے بہتر اس جانور کی قربانی ہے جس میں ساری اچھی صفتیں موجودہوںمثلاً سینگ والا، نَر، فربہ اور ایسا سفید مینڈھا ہو جس کے پائوں اور آنکھوں کے اردگردکالے نشان ہوں، اور یہ وہ وصف ہے جس کو رسول اللہۖ نے پسند فرمایا ہے۔ اور ایسے ہی جانور کی قربانی کی ہے۔ (صحیح مسلم/١٩٦٦)
اہل علم کے نزدیک خصی جانور کیونکہ عمدہ گوشت والا ہوتا ہے اس لیے اس کی قربانی افضل ہے۔(الشرح الممتع ٧/٤٣٧)
سوال٢١: قربانی کا جانور کیسا ہونا چاہیے؟
جواب: قربانی کا جانور عیوب سے بالکل پاک ہو کیونکہ رسول اللہۖ نے فرمایا: ”چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں: ١۔ جس جانور کا اندھاپن ظاہر ہو۔٢۔ جس جانور کا مرض ظاہر ہو۔٣۔جس جانور کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔٤۔دبلا جانور جس کو چلنے میں بھی مشکل پیش آتی ہو”۔ (صحیح سنن ابو دائود/٢٨٠٢)
سوال٢٢: قربانی کے جانور کی عمر کتنی ہونی چاہیے؟
جواب: رسول اللہ ۖ کا فرمان ہے: ”لا تذبحوا الا مسنة الا ان یعسر علیکم فتذبحوا جذعة من الضأن” (صحیح مسلم/١٩٦٣)
”مُسِنَّہ ہی ذبح کرو اِلّا یہ کہ تم کو ملنا دشوار ہو تو بھیڑ کا” جذع” ذبح کرسکتے ہو”۔
مسنہ:وہ جانور ہے جو دانٹ توڑ چکا ہو۔ اور صحاح میں بھی ہے کہ ثنی وہ جانور جو دانت توڑچکا ہو۔ بکری دوسرے سال میں دانت توڑتی ہے، اور گائے تیسرے سال میں ، اور اونٹ پانچویں سال میں۔جذع: بھیڑ کا وہ بچہ جو کم سے کم چھ ماہ پورے کرچکا ہو، بھیڑ کے علاوہ بکری، گائے اور اونٹ میں مسنہ (یعنی دانتا ہونا ضروری ہے)
سوال٢٣:آپۖ نے کیسے جانور کی قربانی دی تھی؟
جواب: رسول اللہ ۖ نے جو مینڈھا قربانی کیا تھا وہ سینگ والا تھا ، پیٹ سیاہ تھا، ٹانگوں کا نچلا حصہ سیاہ تھا اور آنکھوں کا ارد گرد سیاہ تھا۔(صحیح مسلم/١٩٦٧)
سوال٢٤:قربانی کا وقت کب ہے؟
جواب: قربانی کا وقت نماز عید کے بعد ہے اس لیے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا: ”جس نے نماز عید سے پہلے قربانی ذبح کی اس نے اپنے لیے گوشت کھانے کے لیے جانور ذبح کیا اورجو نماز عید کے بعد ذبح کرتا ہے اس کی عبادت پوری ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ اپنایا”۔(مسلم/١٩٦٠)
سوال٢٥: قربانی میت کی طرف سے کرنا جائز ہے یا نہیں؟
Qurbani Maiyyat ke taraf se Karna Jayez Hai Ya nahi
 جواب: قربانی دراصل زندہ انسان سے مطلوب ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اپنی طرف سے اور اپنے اہل خانہ کی طرف سے قربانی کرے، لیکن وہ اپنی قربانی کے ثواب میں زندہ اور مردہ انسانوں میں سے جس کو چاہے شریک کرسکتا ہے۔ لیکن اگر میت نے یہ وصیت کی ہو کہ اس کے مال کے تہائی حصے میں سے قربانی کی جائے تو وارثوں پر قربانی کرنا واجب ہوجائے گا کہ اس کی وصیت اور وقف کو اس کی خواہش کے مطابق عملی جامہ پہنائیں۔اور اگر وصیت ووقف کی شکل کی صورت نہ ہو اور کوئی انسان اپنے ماں باپ یا کسی اور کی طرف سے قربانی کرنا چاہے تو یہ ایک اچھا عمل ہے، اسے میت کی طرف سے صدقہ شمار کیا جائے گا۔ اور اہل سنت والجماعت کے قول کے مطابق میت کی طرف سے صدقہ صحیح ہے۔(شیخ ابن باز رحمہ اللہ فتاویٰ اسلامیہ/٤٢٠)
{پیشکش :مکتب توعیۃ الجالیات الغاط: www.islamidawah.com }
Share:

Ashre Zilhijja (ذی الحجہ) Ke 10 Dino Me Kiye Jane wale Ache Amal kaun Kaun Se Hai?

Ashre Zilhijja (ذی الحجہ) ke Dauran Kiye Jane wale Amal.

عشرہ ذی الحجہ میں مستحب اعمال
Kaise Janwer Ki Qurbani Hoti hai?
اللہ کریم نے اہل اسلام کیلئے سال میں کچھ مخصوص بابرکت اوقات و احوال مقرر فرمائے ہیں
جن میں تھوڑی سی محنت اور عمل سے بے شمار اجر و ثواب سمیٹا جاسکتا ہے ،
ایسے مبارک اوقات میں ذوالحجہ کے دس دن بھی شامل ہیں جن کی فضیلت قرآنِ کریم اور احادیث میں وارد ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَٱلْفَجْرِ‌ ﴿١﴾ وَلَيَالٍ عَشْرٍ‌ۢ﴿٢﴾...سورة الفجر
''قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔''
امام ابن کثیر رحمة اللہ علیہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے مراد ذوالحجہ کے دس دن ہیں ۔
اور اِرشادِ ربانی ہے:وَيَذْكُرُ‌وا ٱسْمَ ٱللَّهِ فِىٓ أَيَّامٍ مَّعْلُومَـٰتٍ...﴿٢٨﴾...سورة الحج
'' ا ن معلوم دِنوں میں اللہ کے نام کا ذکر کریں ۔''
ابن عباسؓ کا قول ہے: ''أیام معلومات سے ذوالحجہ کے دس دن مراد ہیں ۔''
امام بخاری رحمة اللہ علیہ رحمة اللہ علیہ اپنی صحیح میں ابن عباسؓ سے روایت لائے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا:
(ما العمل في أیام أفضل من ھذہ) قالوا: ولا الجهاد؟ قال: (ولا الجهاد إلا رجل خرج یخاطر بنفسه وماله فلم یرجع بشيء) صحیح بخاری:969
''(ذوالحجہ) کے دِنوں میں کئے گئے اعمال سے کوئی عمل افضل نہیں ۔صحابہؓ نے عرض کی: جہادبھی نہیں ؟ آپؐ نے فرمایا: جہاد بھی نہیں ، مگر وہ شخص جواپنی جان اور مال لے کر اللہ کے رستے میں نکلا اور کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹا۔''
ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ما من أیام أعظم عند اﷲ ولا أحب إلیه العمل فیھن من ھذہ الأیام العشر فأکثروا فیھن من التھلیل والتکبیر والتحمید(i)) مسند احمد: 2؍75، مسند ابو عوانہ
''اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے نزدیک ان دس دنوں سے زیادہ کوئی دن برتر نہیں اور نہ ہی ان ایام میں کئے گئے اعمال سے کوئی عمل زیادہ پسندیدہ ہے۔ پس ان دنوں میں کثرت کے ساتھ اللہ کی تہلیل،کبریائی اور تعریف کرو۔''
مشہور جلیل القدر تابعی سعید بن جبیر رحمة اللہ علیہ کے متعلق آتا ہے کہ جب ذوالحجہ کے دس دن شروع ہوتے تو آپ رحمة اللہ علیہ اعمال میں اپنی طاقت سے بڑھ کر محنت کرتے اور آپ رحمة اللہ علیہ کا یہ فرمان بھی ہے کہ ''اس عشرے کی راتوں میں اپنے چراغوں کو بجھنے نہ دو۔'' (یعنی قراء ت اور قیام کا اہتمام کرو)
ابن حجر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
والذي یظھر أن السبب في امتیاز عشر ذي الحجة لمکان اجتماع أمھات العبادة فیه،وھي الصلاة والصیام والصدقة والحج،ولا یتأتي ذلي في غیرہ 4فتح الباری:2؍460
' 'عشرئہ ذوالحجہ کی برتری کا سبب یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نماز، روزہ، زکوٰة اور حج جیسی اساسی عبادات جمع ہوچکی ہیں جبکہ دوسرے دنوں میں ایسا نہیں ۔''
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ
وسئل: (*)
عن عشر ذي الحجة والعشر الأواخر من رمضان. أيهما أفضل؟
فأجاب:
أيام عشر ذي الحجة أفضل من أيام العشر من رمضان والليالي العشر الأواخر من رمضان أفضل من ليالي عشر ذي الحجة.
یعنی شیخ الاسلام امام ابن تینیہ سے پوچھا گیا کہ ذوالحجہ کے دس دن افضل ہیں یا رمضان المبارک کے آخری دس دن؟ تو آپ رحمة اللہ علیہ نے جواب دیا:''
ذوالحجہ کے دس دن رمضان المبارک کے آخری دس دنوں سے افضل ہیں اور رمضان کے آخری دنوں کی راتیں ذوالحجہ کے عشرہ کی راتوں سے افضل ہیں ۔'' (مجموع فتاویٰ:6؍100 )
مسلمان بھائیو ! اپنے وقت کو کارآمد بنانے اور قیمتی گھڑیوں کے فوائد سمیٹنے میں جلدی کیجئے تاکہ آپ کی باقی ماندہ عمر کامول پڑ جائے اور اللہ سے آئندہ وقت ضائع کرنے کی معافی مانگئے،بلاشبہ ان مبارک ایام میں نیک اعمال کی چاہت میں رہنا بھلائی کی طرف پیش رفت ہے اور تقویٰ پردلالت کرتا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ذَ‌ٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَـٰٓئِرَ‌ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى ٱلْقُلُوبِ ﴿٣٢﴾...سورة الحج
جو اللہ کی نشانیوں کی عزت و تکریم کرے تو یہ اس کے دلی تقویٰ کی وجہ سے ہے۔''
اِن ایام میں مستحب افعال
ایک مسلمان کو یہی زیبا ہے کہ وہ اس عام بھلائی کے موسموں کا سچی توبہ کے ساتھ استقبال اور خیرمقدم کرے۔کیونکہ دنیاو آخرت میں اگر کوئی خیر سے محروم ہوتا ہے تو صرف اپنے گناہوں کی وجہ سے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَآ أَصَـٰبَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوا عَن كَثِيرٍ‌ۢ ﴿٣٠﴾...سورة الشوری
''تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کابدلہ ہے، وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرمالیتاـہے۔ ''
گناہ دِلوں پرقدیم اثرات چھوڑ جاتے ہیں ۔ جس طرح زہرجسموں کو نقصان پہنچاتا ہے اور جسم سے ان کانکالنا ضروری ہوجاتا ہے بعینہٖ گناہ بھی دلوں پر مکمل طور پر اثر چھوڑتے ہیں ، اسی طرح سیاہ کاریاں الگ کھیتی اُگا دیتی ہیں اورگناہوں کی دوسری آلائشوں کو بھی دعوت دیتی ہیں ، جس سے ان کی نمو ہوتی رہتی ہے حتیٰ کہ ان آلائشوں کو انسان کے لئے دلوں سے نکالنا یا علیحدہ کرنا انتہائی دشوار ہوجاتا ہے۔ لہٰذا مسلمانو!سچی توبہ کرتے ہوئے،سیاہ کاریوں اورگناہوں سے دامن بچاتے ہوئے اللہ سے بہ اصرا ربخشش طلبی کے ساتھ ان ایام کا استقبال کیجئے اور اللہ عزوجل کے ذکر پر ہمیشگی اختیار کرلیں ۔ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اچانک کب اس کو موت کا بلاوا آجائے اور وہ اس دنیاے فانی سے کوچ کرجائے۔ اَب ہم ان چند نیک اعمال کا ذکر کرتے ہیں :
عام نیک اعمال کثرت کے ساتھ بجا لانا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ما من أیام أعظم عند اﷲ ولا أحب إلیه العمل فیھن من ھذہ الأیام العشر۔۔۔)6
اور وہ نیک اعمال جن کے بارے میں عام طور پر لوگ غفلت کاشکار رہتے ہیں ،ان میں قرآن کی تلاوت، بہت زیادہ صدقہ کرنا، مساکین پر خرچ کرنا، أمربالمعروف ونھی عن المنکر پر عمل کرنا وغیرہ شامل ہیں ۔
Share:

Hajj Quran Aur Hajj Tamta ( تمتع ) me kya Fark hai?

Hajj Quran Aur Hajj tamta ke bare me Tafseel Se wazahat.
حج قران اور حج تمتع کے بارے میں‌ تفصیل سے مع حوالہ جواب دیں؟ اور یہ ان کے درمیان کیا فرق ہیں ؟
جواب: حج قران سے مراد حج اور عمرے کا ایک ساتھ احرام باندھ کر دونوں کے ارکان کو ادا کرنے کا نام قران ہے، عازم حج مکہ پہنچ کر پہلے عمرہ کرتا ہے پھر اسی احرام میں اسے حج ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس دوران احرام میلا یا ناپاک ہونے کی صورت میں تبدیل تو ہو سکتا ہے مگر جملہ پابندیاں برقرار رہیں گی۔

حج تمتع سے مراد ایسا طریقہ حج جس میں حج اور عمرہ کو الگ الگ ادا کیا جاتا ہے اور اس صورت میں مکہ مکرمہ میں عمرہ ادا کرنے کے بعد عازم حج احرام کی حالت سے باہر آ سکتا ہے۔ اس طرح اس پر آٹھ ذوالحجہ یعنی حج کے ارادے سے احرام باندھنے تک احرام کی پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ آٹھ ذوالحجہ سے حج کے لیے دوسرا احرام باندھنا پڑتا ہے۔

Share:

Hajj Tamta ( تمتع) karne wale alag se Tawaf karenge ya Umra wala hi kafi hai?

Hajj Tamta karne wale ko Hajj ke liye Alag se Tawaf karna hoga Ya umre ka tawaf hi kafi hai?
سوال : حج تمتع کرنے والے کو حج کے لئے الگ سے طواف اور سعی کرنا ہوگی یا عمرے کا طواف اور سعی کافی ہوگی؟  جواب کا متن
الحمد للہ:
حج تمتع کرنے والے کیلئے دو طواف اور دو سعی کرنا لازمی ہے، طواف اور سعی عمرہ کیلئے اور اسی طرح طواف اور سعی حج کیلئے، یہ جمہور علمائے کرام کا موقف ہے جن میں امام مالک، اما م شافعی، اور امام احمد صحیح ترین روایت کے مطابق شامل ہیں۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حج تمتع کے بارے میں پوچھا گیا ، تو انہوں نے کہا:
"حجۃ الوداع کے موقع پر مہاجرین ، انصار، اور امہات المؤمنین  نے احرام باندھا  تھا ہم بھی انہی کیساتھ تھے، چنانچہ جب ہم مکہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اپنے حج کے احرام کو عمرہ کے احرام میں تبدیل کر لو، لیکن جو قربانی ساتھ لایا ہے وہ نہ کرے) تو  ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا، اور صفا مروہ کی سعی کی  [عمرہ مکمل کرنے کے بعد ] ہم نے اپنی بیویوں سے ہمبستری بھی کی اور پھر عام کپڑے زیب تن کر لیے"، انہوں نے مزید کہا کہ: "جو شخص قربانی کا جانور لیکر آیا ہے اس کیلئے حلال ہونا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ قربانی اپنے ٹھکانے پہنچ جائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آٹھ ذو الحجہ کو حج کا احرام باندھنے کا حکم دیا، چنانچہ جب ہم [مشاعر میں] مناسک سے فارغ ہو گئے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ  کی سعی کی اس طرح ہمارا حج مکمل ہوا اور ہم نے حج کی قربانی بھی کی"
اس پورے اثر کو امام بخاری  نے کتاب الحج باب: قول اللہ تعالی: ذلك لمن لم يكن أهله حاضري المسجد الحرام کے تحت ذکر کیا ہے۔

شیخ شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"صحیح بخاری میں ثابت شدہ اس حدیث سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے حج تمتع کیا تھا اور وہ اپنے عمرے سے حلال بھی  ہوئے انہوں نے اپنے عمرے کیلئے طواف و سعی الگ کی اور اپنے حج کیلئے دوسری بات طواف سعی الگ سے کی، اور یہ اختلاف ختم کرنے کیلئے واضح ترین نص ہے" انتہی
" أضواء البيان " ( 5 / 178 )

اسی طرح ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ:
"مذکورہ بالا دلائل سے واضح ہو گیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث  اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ تمتع کرنے والا  شخص  وقوف عرفہ کے بعد اپنے حج کیلئے الگ سے طواف اور سعی کریگا، چنانچہ اپنے عمرے کے طواف اور سعی پر اکتفاء نہیں کریگا، ہر اعتبار سے یہ حدیث قول فیصل ہے" انتہی
" أضواء البيان " ( 5 / 182 )

اور عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ:
"عمرے کا احرام باندھنے والوں نے طواف کیا اور پھر احرام کھول دیا، اس کے بعد منی سے واپسی پر بھی انہوں نے طواف کیا، لیکن جن لوگوں نے حج اور عمرہ اکٹھا [یعنی حج قران] کیا تھا، انہوں نے صرف ایک طواف [مراد سعی]ہی کیا"
بخاری: (1557) مسلم: (1211)

شیخ شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ متفق علیہ واضح نص ہے، جس سے حج قران اور حج تمتع میں فرق معلوم ہوتا ہے، یعنی حج قران کرنے والا ایسا ہی کریگا جیسے حج مفرد کرنیوالا کرتا ہے، جبکہ حج تمتع کرنے والا عمرے کیلئے طواف کریگا اسی طرح حج کیلئے بھی طواف کریگا، چنانچہ اس حدیث کے بعد اس مسئلے میں کوئی تنازعہ باقی ہی نہیں رہتا، ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مذکورہ  صحیح بخاری میں موجود ہے۔

اور جو شخص یہ کہتا ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ایک طواف سے مراد سعی ہے، یہ موقف نظری طور پر مضبوط ہے، اور ابن قیم نے اسی کو پسند کیا ، میرے نزدیک بھی یہی موقف ٹھوس ہے۔
ان تمام نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ قران اور حج تمتع  میں فرق کرنے والوں کا موقف درست ہے، اور یہی جمہور اہل علم  کی رائے ہے اور یہی ان شاء اللہ درست ہے۔" انتہی
" أضواء البيان " ( 5 / 185 )

دائمی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"حج تمتع کرنے والے پر دو سعی  ہیں، ایک سعی عمرہ کی اور دوسری سعی حج کی"
شیخ عبد العزیز بن عبد الله بن باز ، شیخ  عبد الرزاق عفیفی ، شیخ  عبد الله بن غدیان ۔

" فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء " ( 11 / 258 )

اسی موقف کو شیخ محمد بن ابراہیم  نے اپنے فتاوی: (6/65) میں راجح قرار دیا ہے، اور شیخ ابن عثیمین نے "الشرح الممتع"(7/374) میں راجح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ:
"حج تمتع کرنیوالا حاجی: وہ شخص ہے جو حج کے مہینوں میں عمرے کا احرام باندھ کر  عمرہ مکمل کر کے احرام کھول دے، اور پھر اسی سال  حج کا احرام باندھے ، تو اسے مطلق طور پر سعی لازمی کرنا ہوگی، یعنی ایسے شخص کو دو سعی اور دو طواف کرنے ہونگے، ایک طواف عمرے کا اور دوسرا حج کا، اسی طرح ایک سعی عمرے کی اور دوسری سعی حج کی" انتہی
واللہ اعلم.

Share:

Shirk Aur Kufr Me Kya Fark Hai? What is the Different between Shirk And Kufr?

Shirk aur Kufr Me kya Fark Hota hai?

शिरक और कुफ्र में क्या फर्क है और मुशरिक और काफिर कौन है

Shirk Ki Jahalat
شرک اور کفر میں کیا فرق ہے؟
'کفر' کا لغوی معنیٰ: چھپانا، سینہ زوری کرنا، مکر جانا، بے دید اور ناشکرا ہونا، مان کرنہ دینا۔ اصطلاحاً: خدا یا اس کے فرشتوں یا اس کی کتابوں یا اس کے رسولوں یا یومِ آخرت یا تقدیر وغیرہ ایسے اسلامی مسلمات کی بابت قول یا فعل یا اعتقاد کی صورت میں کوئی ایسا رویہ رکھنا جو عدم تسلیم سے عبارت ہو، کفر کہلاتا ہے۔
شرک خدا کی وحدانیت سے انکار یا اعراض ہے۔ شرک کا تعلق اسلام کے رکنِ اول (ایمان باللہ) سے ہے۔ جبکہ کفر کا تعلق ایمان کے سب ارکان سے۔
مگر ایک دوسرے لحاظ سے شرک ایمان کے رکن اول کے ساتھ ہی خاص نہیں؛ بلکہ اسلام کے کسی بھی مسلمہ کا کفر کرنا شرک ہی بنتا ہے۔ مثلاً سورۃ الانعام میں بتایا گیا ہے کہ مسلمان اگر صرف اس ایک مسئلہ (حرمتِ مردار) میں خدا کی بتائی ہوئی بات چھوڑ کر کفار کی بات تسلیم کرلیتے ہیں تو وہ مشرک ہیں:
وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَآئِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ (الانعام: ١٢١)
شیاطین اپنے ساتھیوں پر (شکوک واعتراضات) القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑیں۔ لیکن اگر تم نے ان کی بات تسلیم کرلی تو پھر یقیناً تم مشرک ہو۔
چنانچہ ایک مردار کی حرمت وحلت کے معاملہ میں خدا کے سوا کسی اور ہستی کی بات تسلیم کرلینا اگر شرک ہے تو پھر کفر کی کوئی بھی بات تسلیم کرنا شرک ہی کہلائے گا۔ (اس لحاظ سے) ہر کفر شرک ہی شمار ہوگا خواہ وہ فرشتوں یا رسولوں یا کتابوں یا آخرت وغیرہ کے ساتھ انسان کا کفر کرنا ہو یا دین کے کسی اور مسلمہ کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کرنا۔
یہ ہوا کفر کا شرک ہونا۔ رہ گیا شرک کا کفر ہونا تو – جیساکہ گزشتہ فصل کے پانچویں بند میں بیان ہوا – آسمانی شرائع کے ساتھ کوئی سب سے بڑا تصادم ہے تو وہ شرک ہے۔ نبیوں نے سب سے زیادہ کھول کر کوئی بات بتائی تو وہ شرک کی حرمت ہے۔ اب اگر کوئی آدمی شرک کو ہی روا کرلیتا ہے تو وہ نبیوں اور کتابوں کے ساتھ سب سے بڑے کفر کا مرتکب ہوتا ہے۔
 Budhist
اس اعتبار سے... کفر اور شرک عملاً ہم معنی ہو جاتے ہیں۔ ایک کافر، جب اس کا کافر ہونا ثابت ہو جائے، خودبخود مشرک بھی ہوتا ہے (کیونکہ وہ خدا کے سوا کسی اور ہستی کی بات تسلیم کرتا ہے)۔ اسی طرح ایک مشرک، جب اس کا مشرک ہونا ثابت ہوجائے، آپ سے آپ کافر بھی ہوتا ہے (کیونکہ اس نے اسلام کے سب سے بڑے مسلمہ یعنی خدا کی وحدانیت کا کفر کیا ہوتا ہے) ۔
یہ وجہ ہے جو ’’نواقضِ اسلام‘‘ میں ہم نے پڑھا کہ مشرکین کو کافر نہ ماننا بذاتِ خود کفر ہے۔ کیونکہ ''کفر'' اور ''شرک'' میں نتیجہ اور حکم کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ ہردو کی سنگینی ایک درجے کی ہے۔
صحیح مسلم کی ایک حدیث کی شرح میں امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:
الشرکُ والکفرُ قد یُطلَقان بمعنیً واحدٍ وهو الکفرُ باﷲ تعالی، وقد یفرَّق بینهما فیخَص الشرکُ بعبادةِ الاوثانِ وغیرِها من المخلوقات مع اعترافِهم باﷲ تعالیٰ ككفارِ قریش، فیکون الکفرُ اَعمَّ من الشرک۔
(شرح صحیح مسلم للنووی: کتاب الایمان حدیث ١١٦)
شرک اور کفر کسی وقت ہم معنی بولے جاتے ہیں اور اس سے مراد ہوتی ہے خدا کے ساتھ کفر کرنا۔ اور کسی وقت یہ الگ الگ معنی میں آتے ہیں اس صورت میں شرک سے مراد خاص بتوں اور دیگر مخلوقات کی عبادت ہوتی ہے اگرچہ ایسا کرنے والے خدا کو مانتے ہوں جیسا کہ کفار قریش کا معاملہ تھا۔ اس (دوسرے) لحاظ سے کفر کا لفظ شرک کی نسبت زیادہ عموم رکھتا ہے۔
S. N. Salafi
Share:

Kaise Janwer Ki Qurbani Ho Sakti Hai Aur Inke Tarike Kya Hai?

Qurbani Ka Janwer Kaisa Hona Chahiye #Qurbani Ki Shartein

قربانی کے لیے چھ شرائط کا ہونا ضروری ہے :

Kaise Janwer Ki Qurbani Hoti hai?
 پہلی شرط :وہ قربانی "بھیمۃ الانعام" [یعنی گھریلو پالتو جانوروں]میں سے ہو جو کہ اونٹ ، گائے ، بھیڑ بکری ہیں ؛فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ )
ترجمہ:  اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا طریقہ مقرر فرما دیا ہے تا کہ وہ اللہ کے عطا کردہ [بھیمۃ الانعام یعنی]پالتو جانوروں پر اللہ کا نام لیں۔[الحج:34]
اور "بھیمۃ الانعام" سے مراد اونٹ گائے بھیڑ اور بکری ہیں عرب کے ہاں یہی معروف ہے نیز حسن  اور قتادہ سمیت دیگر اہل علم کا بھی یہی موقف ہے ۔
دوسری شرط :قربانی کا جانور شرعی طور پر معین عمر کا ہونا ضروری ہے ، وہ اس طرح کہ بھیڑ کی نسل میں جذعہ [چھ ماہ کا بچہ ] قربانی کیلیے ذبح ہو سکتا ہے جبکہ دیگر جانوروں میں سے ان کے اگلے دو دانت گرنے کے بعد قربانی ہو گی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( مسنہ [یعنی جس کے اگلے دو دانت گر گئے ہیں اس ] کے علاوہ کوئی جانور ذبح نہ کرو، تاہم اگر تمہیں ایسا جانور نہ ملے تو بھیڑ کا جذعہ[یعنی چھ ماہ کا بچہ ] ذبح کر لو ) صحیح مسلم ۔
حدیث میں مذکور : "مسنہ"  کا لفظ  ایسے جانور پر بولا جاتا ہے جس کے اگلے دو دانت گر چکے ہوں یا اس سے بھی بڑے جانور کو "مسنہ" کہتے ہیں جبکہ "جذعہ" اس سے کم عمر کا  ہوتا ہے۔
لہذا اونٹ پورے پانچ برس کا ہو تو  اس کے اگلے دو دانت گرتے ہیں۔
گائے کی عمر دو برس ہو تو اس کے اگلے دو دانت گرتے ہیں۔
جبکہ بکری ایک برس کی ہو تو وہ تو اس کے اگلے دانت گرتے ہیں۔
اور جذعہ چھ ماہ کے جانور کو کہتے ہیں ، لہذا اونٹ گائے اور بکری میں سے آگے والے دو دانت گرنے سے کم عمر کے جانور کی قربانی نہیں ہوگی ، اور اسی طرح بھیڑ میں سے جذعہ سے کم عمر [یعنی چھ ماہ سے کم ] کی قربانی صحیح نہیں ہوگی ۔
تیسری شرط :قربانی کا جانور چار ایسے عیوب سے پاک ہونا چاہیے  جو قربانی ہونے میں رکاوٹ ہیں:
1-  آنکھ میں واضح طور پر عیب : مثلاً: جس کی آنکھ بہہ کر دھنس چکی ہو یا پھر بٹن کی طرح ابھری ہوئی ہو ، یا پھر آنکھ مکمل سفید ہو کر کانے پن کی واضح دلیل ہو۔
2-  واضح طور بیمار جانور : اس سے بیمار جانور مراد ہیں مثلاً: جانور کو بخار ہو جس کی بنا پر جانور گھاس نہ کھائے اور اسے بھوک نہ لگے، اسی طرح جانور کی بہت زیادہ خارش جس سے گوشت متاثر ہو جائے، یا خارش جانور کی صحت پر اثر انداز ہو ، ایسے ہی گہرا زخم اور اسی طرح کی دیگر بیماریاں ہیں جو جانور کی صحت پر اثر انداز ہوں۔
3-  واضح طور پر پایا جانے والا لنگڑا پن : ایسا لنگڑا پن جو صحیح سالم جانوروں کے ہمراہ چلنے میں رکاوٹ بنے۔
4- اتنا لاغر  کہ ہڈیوں میں گودا باقی نہ رہے: کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ پوچھا گیا کہ قربانی کا جانور کن عیوب سے پاک ہونا چاہیے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا چار عیوب سے : ( وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو ، اور آنکھ کے عیب والا جانور جس کی آنکھ کا عیب واضح ہو ، اور بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو، اور وہ کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں گودا ہی نہ ہو)  ۔اسے امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔
اور سنن میں برا‏ء بن عازب رضی اللہ عنہ ہی سے ایک روایت مروی ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ( چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں ) اور پھر آگے یہی حدیث ذکر کی ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل (1148)میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
لہذا یہ چار عیب ایسے ہیں جن کے پائے جانے کی بنا پر قربانی نہیں ہوگی ، اور ان چار عیوب کے ساتھ دیگر عیوب بھی شامل ہیں جو ان جیسے یا ان سے بھی شدید ہوں تو ان کے پائے جانے سے بھی قربانی نہیں ہوگی ، جیسے کہ درج ذیل عیوب ہیں:
1-  نابینا  جانور جس کو آنکھوں سے نظر ہی نہ آتا ہو ۔
2-  وہ جانور جس نے اپنی طاقت سے زیادہ چر لیا ہو؛ اس کی قربانی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک وہ صحیح نہ  ہو جائے  اور اس سے خطرہ ٹل نہ جائے۔
3-  وہ جانور جسے بچہ جننے میں کوئی مشکل در پیش ہو جب تک اس سے خطرہ زائل نہ ہو جائے ۔
4-  زخم وغیرہ لگا ہوا جانور جس سے اس کی موت واقع ہونے کا خدشہ ہو ،  گلا گھٹ کر یا بلندی سے نیچے گر کریا اسی طرح کسی اور وجہ سے ؛ اس وقت تک ایسے جانور کی قربانی نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس سے یہ خطرہ زائل نہیں ہو جاتا ۔
5- دائمی بیمار، یعنی ایسا جانور جو کسی بیماری کی وجہ سے چل پھر نہ سکتا ہو۔
6-  اگلی یا پچھلی ٹانگوں میں سے کوئی ایک ٹانگ کٹی ہوئی ہو ۔
جب ان چھ عیوب کو حدیث میں بیان چار عیوب کے ساتھ ملایا جائے تو ان کی تعداد دس ہو جائے گی  ؛ چنانچہ ان کی قربانی نہیں کی جائے گی۔

چوتھی شرط : وہ جانور قربانی کرنے والے کی ملکیت میں ہو یا پھر اسے شریعت یا مالک کی جانب سے اجازت ملی ہو۔
لہذا جو جانور ملکیت میں  نہ ہو اس کی قربانی صحیح نہیں ، مثلاً غصب یا چوری کردہ جانور اور اسی طرح باطل اور غلط دعوے سے ہتھیایا  گیا جانور ، کیونکہ اللہ تعالی کی معصیت و نافرمانی کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا ۔
اور یتیم کا سر پرست یتیم کی جانب سے ایسی صورت میں قربانی کر سکتا ہے جب یتیم  اپنے مال سے قربانی نہ ہونے پر مایوس ہو جائے اور عرف عام میں یتیم کی طرف سے قربانی کرنے کا رواج بھی ہو۔
اسی طرح موکل کی جانب سے اجازت کے بعد وکیل کا قربانی کرنا بھی صحیح ہے ۔
پانچویں شرط :کہ جانور کا کسی دوسرے کے ساتھ تعلق نہ ہو ، لہذا رہن رکھے گئے جانور کی قربانی نہیں ہو سکتی ۔

چھٹی شرط :قربانی کو شرعاً محدود وقت کے اندر اندر ذبح کیا جائے ، اور یہ وقت دس ذوالحجہ کو نماز عید کے بعد سے شروع ہو کر ایام تشریق کے آخری دن سورج غروب ہونے تک باقی رہتا ہے ، ایام تشریق کا آخری دن ذوالحجہ کی تیرہ تاریخ بنتا ہے ، تو اس طرح ذبح کرنے کے چار دن ہیں  یعنی: عید کے دن نماز عید کے بعد ، اور اس کے بعد تین دن یعنی گیارہ ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کے ایام  قربانی کے دن ہیں۔
لہذا جس نے بھی نماز عید سے قبل قربانی ذبح کر لی یا پھر تیرہ ذوالحجہ کو غروب شمس کے بعد کوئی شخص قربانی کرتا ہے تو اس کی یہ قربانی صحیح نہیں ہوگی ۔
جیسے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جس نے نماز [عید ]سے قبل ذبح کر لیا وہ صرف گوشت ہے جو وہ اپنے اہل عیال کو پیش کر رہا ہے اور اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں ) ۔
اور جندب بن سفیان بَجَلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ حاضر تھا تو آپ نے فرمایا : ( جس نے نماز عید سے قبل ذبح کر لیا وہ اس کے بدلے میں دوسرا جانور ذبح کرے ) ۔
اسی طرح نبیشہ ھذیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (ایام تشریق کھانے پینے اور ذکر الہی کے ایام ہیں ) اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے ۔
لیکن اگر ایام تشریق سے قربانی کو مؤخر کرنے کا کوئی عذر پیش آ جائے مثلاً قربانی کا جانور بھاگ جائے، اور اس کے بھاگنے میں مالک کی کوئی کوتاہی نہ ہو اور وہ جانور ایام تشریق کے بعد ہی واپس ملے ، یا اس نے کسی کو قربانی ذبح کرنے کا وکیل بنایا تو وکیل ذبح کرنا ہی بھول گیا اور وقت گزر گیا ، تو اس عذر کی بنا پر وقت گزرنے کے بعد ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ، اور [اس کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح]نماز کے وقت میں سویا ہوا یا بھول جانے والا شخص جب سو کر اٹھے یا اسے یاد آئے تو نماز ادا کرے گا [بالکل اسی طرح یہ بھی قربانی ذبح کرے گا]۔
اور مقررہ وقت کے اندر دن یا رات میں کسی بھی وقت قربانی کی جاسکتی ہے ، قربانی دن کے وقت ذبح کرنا اولی اور بہتر ہے ، اور عید والے دن نماز عید کے خطبہ کے بعد ذبح کرنا زیادہ افضل اور اولی ہے ، اور ہر آنے والا دن گزشتہ دن سے کم تر ہو گا، کیونکہ جلد از جلد قربانی کرنے میں خیر و بھلائی کیلیے سبقت ہے "
Share:

Bhains Ki Qurbani Jayez Hai ya Nahi? Kaun Se Janwer Halal Kiye Gye Hai?

Kya Bhains Ki Qurbani Ki Ja Sakti hai Yah Haram Hai Ya Halal?

Kaun Si Janwer Ki Qurbani ki Ja Sakti Hai Aur Kaise Janwer Haram hai?
بھینس کی قربانی کا ححک
بھینس کی قربانی جائز ہے یا نہیں، اس بارے میں ایک تحقیق پر مبنی تحریر ملاحظہ فرمائیں
Kaise Janwer Ki Qurbani Hoti hai?
قربانی کے جانور​
قرآنِ کریم نے قربانی کے لیے بَھِیمَۃ الْـأَنْعَام کا انتخاب فرمایا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ِگرامی ہے :
(وَیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِيْۤ اَیَّامٍ مَّعْلُومٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِّنْ بَہِیْمَۃِ الْـاَنْعَامِ فَکُلُوْا مِنْہَا وَاَطْعِمُوْا الْبَائِسَ الْفَقِیْرَ) (الحج 22:28)
''اور وہ معلوم ایام میں بَھِیمَۃ الْـأَنْعَام پر اللہ کا نام ذکر (کر کے انہیں ذبح) کریں، پھر ان کا گوشت خود بھی کھائیں اور تنگ دستوں اور محتاجوں کو بھی کھلائیں۔''
خود قرآنِ کریم نے الْـأَنْعَام کی توضیح کرتے ہوئے ضَاْن(بھیڑ)، مَعْز(بکری)، اِبِل(اونٹ) اور بَقَر(گائے)،چار جانوروں کا تذکرہ فرمایا۔اور ان کے مذکر و مؤنث کو ملا کر انہیں ثَمَانِیَۃ أَزْوَاج (جوڑوں کے لحاظ سے آٹھ )کہا۔(الأنعام 6:144-142)
جانوروں کی نسل کا اعتبار ہو گا،علاقائی ناموں کا نہیں​
انہی چار جانوروں کی قربانی پوری امت ِمسلمہ کے نزدیک اجماعی و اتفاقی طور پر مشروع ہے۔ان جانوروں کی خواہ کوئی بھی نسل ہو اور اسے لوگ خواہ کوئی بھی نام دیتے ہوں، اس کی قربانی جائز ہے۔مثلاً بھیڑ کی نسل میں سے دنبہ ہے۔اس کی شکل اور نام اگرچہ بھیڑسے کچھ مختلف بھی ہے،لیکن چونکہ وہ بھیڑ کی نسل اور قسم میں شامل ہے،لہٰذا اس کی قربانی مشروع ہے۔اسی طرح مختلف ملکوں اور علاقوں میں بھیڑ کی اور بھی بہت سی قسمیں اور نسلیں ہیںجو دوسرے علاقوں والوں کے لیے اجنبی ہیں اور وہ انہیں مختلف نام بھی دیتے ہیں۔اس کے باوجود ان سب کی قربانی بھیڑ کی نسل و قسم ہونے کی بنا پر جائز اور مشروع ہے۔اسی طرح اونٹوں وغیرہ کا معاملہ ہے۔
قربانی کے جانوروں میں سے ایک ''بقر''(گائے)بھی ہے۔اس کی قربانی کے لیے کوئی نسل قرآن و سنت نے خاص نہیں فرمائی۔اللہ تعالیٰ نے موسیٰu کی زبانی ان کی قوم کو ''بقر'' ذبح کرنے کا حکم دیا،لیکن قومِ موسیٰ نے اس کی ہیئت و کیفیت کے بارے میں سوال پر سوال شروع کر دیے جس کی بنا پر انہیں سختی کا سامنا کرنا پڑا۔سورہئ بقرہ کی کئی آیات اس کی تفصیل بیان کرتی ہیں۔
انہی آیات کی تفسیر میں امام المفسرین،علامہ ابوجعفر، محمد بن جریر بن یزید بن غالب، طبریa(310-224ھ)صحابہ و تابعین اور اہل علم کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں : إِنَّھُمْ کَانُوا فِي مَسْأَلَتِھِمْ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مُوسٰی ، ذٰلِکَ مُخْطِئِینَ، وَأَنَّھُمْ لَو کَانُوا اسْتَعْرَضُوا أَدْنٰی بَقَرَۃٍ مِّنَ الْبَقَرِ، إِذْ أُمِرُوا بِذَبْحِھَا، ۔۔۔۔۔، فَذَبَحُوھَا، کَانُوا لِلْوَاجِبِ عَلَیْھِمْ، مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ فِي ذٰلِکَ، مُؤَدِّینَ، وَلِلْحَقِّ مُطِیعِینَ، إِذْ لَمْ یَکُنِ الْقَوْمُ حُصِرُوا عَلٰی نَوْعٍ مِّنَ الْبَقَرِ دُونَ نَوْعٍ، وَسِنٍّ دُونَ سِنٍّ، ۔۔۔۔۔، وَأَنَّ اللَّازِمَ کَانَ لَھُمْ، فِي الْحَالَۃِ الْـأُولٰی، اسْتِعْمَالُ ظَاھِرِ الْـأَمْرِ، وَذَبْحُ أَيِّ بَھِیمَۃٍ شَاءُ وا، مِمَّا وَقَعَ عَلَیْھَا اسْمُ بَقرة
''قومِ موسیٰ،گائے کے بارے میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے سوالات کرنے میں غلطی پر تھی۔جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیاتھا،اس وقت وہ گائے کی کوئی ادنیٰ قسم بھی ذبح کر دیتے تو حکم الٰہی کی تعمیل ہو جاتی اور ان کا فرض ادا ہو جاتا،کیونکہ ان کے لیے گائے کی کسی خاص قسم یا کسی خاص عمرکا تعین نہیں کیا گیا تھا۔۔۔ ان کے لیے ضروری تھا کہ پہلی ہی دفعہ ظاہری حکم پر عمل کرتے ہوئے کوئی بھی ایسا جانور ذبح کر دیتے ،جس پر 'بقر' کا لفظ بولا جاتا تھا۔''(جامع البیان عن تأویل آي القرآن [تفسیر الطبري] : 100/2)
معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ گائے ذبح کرنے کا حکم فرمائے تو گائے کی کوئی بھی قسم یا نسل ذبح کرنے سے حکم الٰہی پر عمل ہو جاتا ہے اور یہ بات لغت ِعرب میں اور اہل علم کے ہاں طَے ہے کہ جس طرح بختی،اِبِل(اونٹ)کی ایک نسل ہے، اسی طرح بھینس، بقر (گائے)کی ایک نسل و قسم ہے ۔
اس سلسلے میں ہم ہر دور کے چیدہ چیدہ علمائے لغت ِعرب کے اقوال پیش کرتے ہیں:
1 لیث بن ابوسلیم تابعی(اختلط في آخر عمرہٖ)(م : 138/148ھ)کا قول ہے :
اَلْجَامُوسُ وَالْبُخْتِيُّ مِنَ الْـأَزْوَاجِ الثَّمَانِیَۃِ
''بھینس(گائے کی ایک قسم) اور بختی(اونٹ کی ایک قسم)ان آٹھ جوڑوںمیں سے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے۔''(تفسیر ابن أبي حاتم : 1403/5، وسندہ، حسنٌ)
2 لغت و ادب ِعربی کے امام،ابومنصور،محمدبن احمد،ازہری،ہروی(370-282ھ) فرماتے ہیں :
وَأَجْنَاسُ الْبَقَرِ، مِنْھَا الْجَوَامِیسُ، وَاحِدُھَا جَامُوسٌ، وَھِيَ مِنْ أَنْبَلِھَا، وَأَکْرَمِھَا، وَأَکْثَرِھَا أَلْبَانًا، وَأَعْظَمِھَا أَجْسَامًا .
''گائے کی نسلوں میں سے جوامیس(بھینسیں)ہیں۔اس کی واحد جاموس ہے۔یہ گائے کی بہترین اورعمدہ ترین قسم ہے۔یہ گائے کی سب اقسام میں سے زیادہ دودھ دینے والی اور جسمانی اعتبار سے بڑی ہوتی ہے۔''(الزاھر في غریب ألفاظ الشافعي، ص : 101)
3 امامِ لغت ،علامہ، ابوالحسن،علی بن اسماعیل،المعروف بہ ابن سیدہٖ(458-398ھ) لکھتے ہیں :
وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .
''بھینس،گائے کی ایک نسل ہے۔''(المحکم والمحیط الأعظم : 283/7)
4 عربی زبان کے ادیب اور لغوی ،ابوالفتح،ناصربن عبد السید،معتزلی،مطرزی (610-538ھ)لکھتے ہیں :
وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .
''بھینس،گائے ہی کی نسل سے ہے۔''(المغرب في ترتیب المعرب، ص : 89)
5 مشہور فقیہ ومحدث ،علامہ عبد اللہ بن احمدبن محمد،المعروف بہ ابن قدامہ، مقدسی a(620-541ھ)فرماتے ہیں :
وَالْجَوَامِیسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَالْبَخَاتِي نَوْعٌ مِّنَ الْإِبِلِ .
''بھینسیں،گائے کی نوع(نسل)سے ہیںاور بختی،اونٹوں کی نوع(نسل)سے۔''(الکافي في فقہ الإمام أحمد : 390/1)
6 شیخ الاسلام ابن تیمیہaکے جد امجد،محدث و مفسر،ابوالبرکات،عبد السلام بن عبد اللہ،حرانیa(652-590ھ)فرماتے ہیں:
وَالْجَوَامِسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .
''بھینسیں،گائے کی ایک نوع (نسل) ہیں۔''
(المحرّر في الفقہ علٰی مذہب الإمام احمد بن حنبل : 215/1)
7 شارحِ صحیح مسلم،معروف لغوی،حافظ ابوزکریا،یحییٰ بن شرف،نوویa (676-631ھ)،ابواسحاق شیرازی(474-393ھ)کی کتاب التنبیہ في الفقہ الشافعي کی تشریح و تعلیق میں فرماتے ہیں :
وَیُنْکَرُ عَلَی الْمُصَنِّفِ کَوْنُہ، قَالَ : وَالْجَوَامِسُ وَالْبَقَرُ، فَجَعَلَہُمَا نَوْعَیْنِ لِلبَقَرِ، وَکَیْفَ یَکُونُ الْبَقَرُ أَحَدَ نَوْعَيِ الْبَقَرِ ۔۔۔۔۔، قَالَ الْـأَزْھَرِيُّ : أَنْوَاعُ الْبَقَر، مِنْھَا الجَوَامِیسُ، وَھِيَ أَنْبَلُ الْبَقَرِ .
''مصنف کا [وَالْجَوَامِیسُ وَالْبَقَرُ] کہنا قابل اعتراض ہے، انہوں نے گائے اور بھینس کو گائے کی نسلیں قرار دیا ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ گائے ہی گائے کی دو نسلوں(بھینس اور گائے میں سے)ایک نسل ہو؟۔۔۔ازہری کہتے ہیں کہ بھینس،گائے کی ایک نوع ہے اور یہ گائے کی تمام نسلوں سے عمدہ ترین نسل ہے۔ ''
(تحریر ألفاظ التنبیہ، : 106)
8 لغت ِعرب میں امام وحجت کا درجہ رکھنے والے علامہ،ابوالفضل،محمدبن مکرم، انصاری،المعروف بہ ابن منظور افریقی(711-630ھ)فرماتے ہیں :
وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .
''بھینس،گائے کی ایک نسل ہے۔''
(لسان العرب : 43/6)
9 معروف لغوی،علامہ ابوالعباس،احمدبن محمدبن علی،حموی(م:770ھ) لکھتے ہیں :وَالجامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ
''بھینس،گائے کی ایک نسل ہے۔''
(المصباح المنیر في غریب الشرح الکبیر : 108/1)
0 لغت ِعرب کی معروف و مشہور کتاب ''تاج العروس'' میں مرقوم ہے : اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .
''بھینس ،گائے کی نسل سے ہے۔''
(تاج العروس من جواھر القاموس لأبي الفیض الزبیدي : 513/15)
! لغت ِعرب کی معروف کتاب ''المعجم الوسیط'' میں ہے :
اَلْجَامُوسُ حَیَوَانٌ أَھْلِيٌّ، مِنْ جِنْسِ الْبَقَرِ .
''بھینس،گائے کی نسل سے ایک گھریلوجانور ہے۔''(المعجم الوسیط : 134/1)
نیز اسی کتاب میں لکھا ہے :
اَلْبَقَرُ : جِنْسٌ مِّنْ فَصِیلَۃِ الْبَقَرِیَّاتِ، یَشْمَلُ الثَّوْرَ وَالْجَامُوسَ .
''بَقَر،گائے کے خاندان سے ایک جنس ہے جو کہ بَیل(گائے) اور بھینس پر مشتمل ہے۔''(المعجم الوسیط : 65/1)
اس سے معلوم ہوا کہ چودھویں صدی کے بعض انتہائی قابل احترام اہل علم کا یہ کہنا کہ 'بھینس کاگائے کی نسل سے ہونا اہل علم سے واضح طور پر ثابت نہیں،بلکہ بھینس بعض احکام میں گائے کی طرح تھی اور اس کے لیے لفظکَالْبَقَرِ/بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ(گائے جیسی)مستعمل تھا۔اور کسی لغوی کو غلطی لگنے کی وجہ سے اس نے کَالْبَقَرِ/بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ(گائے جیسی)کے بجائے نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَر(گائے کی نسل) لکھ دیا۔۔۔'قطعاًدرست نہیں،کیونکہ غلطی کسی ایک اہل علم یا لغوی کو لگنی تھی یا سارے اہل علم اور لغویوں کو؟بہت سے معروف لغویوں اور اہل علم نے اپنی مشہور زمانہ کتب میں بھینس کے گائے کی نسل ہونے کی تصریح کی اور ہمارے علم کے مطابق تیرہویں صدی ہجری تک کسی ایک بھی لغوی نے اس کی تردید یا انکار نہیں کیا۔اگر یہ بات غلط ہوتی تو ماہرین لغت ِعرب ضرور اس کی وضاحت کرتے۔
کیا اہل لغت کا کوئی اعتبار ہے؟​

بعض لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ کیا شریعت میں لغت ِعرب دلیل بن سکتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآنِ کریم اور سنت ِرسول کا سارا ذخیرہ عربی زبان میں ہے۔قرآن و سنت پر عمل تب ہی ہو گا،جب اس کا معنیٰ و مفہوم سمجھا جائے گا اور قرآن و سنت کا معنیٰ و مفہوم تب ہی سمجھا جا سکتا ہے،جب لغت ِعرب کو سمجھا جائے گا۔کوئی شخص اگر قرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کا ترجمہ کرتا ہے تو وہ لغت ِعرب کو پڑھ اور سمجھ کر ہی اپنی کاوش میں کامیاب ہو سکتا ہے اور اس کے ترجمے کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کے لیے لغت ِعرب ہی راہنمائی کرے گی۔جو لوگ لغت ِعرب کا اعتبار نہیں کرتے،ان سے سوال ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ ''بقر'' کا معنیٰ ''گائے''کیوں ہے؟
بھینس کا نام ہی گائے ہے
بعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ گائے اور بھینس کے نام ہی میں فرق ہے۔اگر بھینس ،گائے کی نسل سے ہوتی تو اس کا نام گائے ہوتا،نہ کہ کچھ اور۔جب عرف میں اسے کوئی گائے کہتا اور سمجھتا ہی نہیں تو یہ گائے ہے ہی نہیں۔ان کے لیے عرض ہے کہ بھینس کے لیے عربی میں لفظ ِ''جاموس''استعمال ہوتا ہے جو کہ فارسی سے منتقل ہو کر عربی میں گیاہے۔فارسی میں یہ نام ''گاؤمیش''تھا۔عربی زبان کی اپنی خاص ہیئت کی بنا پر اس کا تلفظ تھوڑا سا بدل گیا اور یہ ''جاموس'' ہو گیا۔اس بات کی صراحت لغت ِعرب کی قریباً تمام امہات الکتب میں لفظ ''جاموس'' کے تحت موجود ہے۔اس فارسی نام میں واضح طور پر لفظ ''گاؤ''(گائے) موجود ہے۔اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھینس اصل میں گائے ہی کی ایک نسل ہے۔چونکہ گائے کی یہ نسل(بھینس)عربی علاقوں میں موجود نہیں تھی،بلکہ عجمی علاقوں میں ہوتی تھی،عربوں کے ہاں معروف نہ تھی،اسی لیے اس کا نام فارسی سے عربی میں لانا پڑا۔
اس کی وضاحت کے لیے ہم معروف عرب عالم ومفتی،شیخ محمدبن صالح عثیمین رحمہ اللہ (1421-1347ھ) کا قول نقل کرتے ہیں۔ان سے بھینس کی قربانی کے بارے میں سوال ہوا اور پوچھا گیا کہ جب بھیڑ اور بکری دونوں کا ذکر قرآنِ کریم نے کیا ہے (حالانکہ یہ ایک ہی نسل [غنم] سے ہیں)تو بھینس اور گائے دونوں کا ذکر کیوں نہیں کیا(اگر یہ بھی ایک ہی نسل ہیں)؟تو انہوں نے فرمایا : اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَاللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذَکَرَ، فِي الْقُرْآنِ، الْمَعْرُوفَ عِنْدَ الْعَرَبِ الَّذِینَ یُحَرِّمُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَیُبِیحُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَالْجَامُوسُ لَیْسَ مَعْرُوفًا عِنْدَ الْعَرَبِ .
''بھینس،گائے ہی کی نسل ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں صرف ان جانوروں کا ذکر کیا ہے،جو عربوں کے ہاں معروف تھے۔(دور جاہلیت میں)عرب اپنے پسندیدہ جانوروں کو حلال اور اپنے ناپسندیدہ جانوروں کو حرام قرار دےتے تھے۔بھینس تو عربوں کے ہاں معروف ہی نہ تھی(اور مقصد حلت و حرمت بتانا تھا،نہ کہ نسلیں)۔''
(مجموع فتاوی ورسائل فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین : 34/25)
تنبیہ : ​
بعض لوگوں کا یہ کہنا درست نہیں کہ چونکہ نبی اکرمeاور صحابہ کرام نے بھینس کی قربانی نہیں کی،لہٰذا اس کی قربانی سے احتراز بہتر ہے اور یہ احوط واولیٰ ہے۔ہمارا ان اہل علم سے مؤدبانہ سوال ہے کہ ان کی یہ احتیاط صرف گائے کی ایک نسل ''بھینس''ہی کے بارے میں کیوں ہے؟ان کو چاہیے کہ گائے کی جو جو نسلیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے قربانی میں ذبح کیں،صرف انہی کی اجازت دیں۔کیا بھینس کے علاوہ موجودہ دور میں پائے جانے والی گائے کی تمام نسلیں نبی اکرمeاور صحابہ کرام نے قربانی میں ذبح کی تھیں؟ اس طرح تو دیسی،ولائتی،فارسی،افریقی،تمام قسم کی گائے کی قربانی سے احتراز کرنا ہو گا اور اسی طرح بھیڑ و بکری اور اونٹ کا بھی معاملہ ہو گا۔پھر ہر شخص قربانی کے لیے عربی گائے،عربی اونٹ،عربی بھیڑ اور عربی بکرا کہاں سے لائے گا؟اگر کوئی عربی نسل سے کوئی جانور تلاش بھی کر لے تو اسے تحقیق کرنا پڑے گی کہ یہ بعینہٖ اسی نسل سے ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے قربانی کی تھی یا بعد میں پیدا ہونے والی کوئی نسل ہے!!!
پھر یہ احتیاط والی بات اس لیے بھی عجیب سی ہے کہ اگر بھینس،گائے نہیں تو اس کی قربانی سرے سے جائز ہی نہیںاور اگر یہ گائے ہے تو اس کی قربانی بالکل جائز ہے۔اس میں کوئی درمیانی راستہ تو ہے ہی نہیں۔
الحاصل : ​
بھینس،گائے کی ایک نسل ہے۔اس کی قربانی بالکل جائز ہے۔اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں۔
[ واللّٰہ أعلم بالصواب وعلمہ أبرم وأحکم۔
Share:

Kya Qurbani Farz hai aur iski Tarika Fazai o Masail tafseel se.

Qurbani ki Tarikh Uske Fazail O Masail.
کیا فربانی فرض هے
جزاک اللہ
جواب تحریری  قربانی ۔ تاریخ، فضائل اور مسائل
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃ وَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
قربانی ۔ تاریخ، فضائل اور مسائل
قربانی کی تاریخ:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا کہ وہ اپنے بیٹے (اسماعیل علیہ السلام )کو ذبح کررہے ہیں۔ نبی کا خواب سچا ہوا کرتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام فلسطین سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ جب باپ نے بیٹے کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہیں ذبح کرنے کا حکم دیا ہے تو فرمانبردار بیٹے اسماعیل علیہ السلام کا جواب تھا : ابا جان! جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے، اسے کرڈالئے۔ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ (سورۂ الصٰفٰت ۱۰۲)بیٹے کے اس جواب کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جب مکہ مکرمہ سے ذبح کرنے کے لئے لے کر چلے تو شیطان نے منیٰ میں تین جگہوں پر انہیں بہکانے کی کوشش کی، جس پر انہوں نے سات سات کنکریاں اس کو ماریں جس کی وجہ سے وہ زمین میں دھنس گیا ۔ آخرکار رضاء الہی کی خاطر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دل کے ٹکڑے کو منہ کے بل زمین پر لٹادیا، چھری تیز کی، آنکھو ں پر پٹی باندھی اور اُس وقت تک چھری اپنے بیٹے کے گلے پر چلاتے رہے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ صدا نہ آگئی۔ اے ابراہیم! تو نے خواب سچ کر دکھایا، ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔ (سورۂ الصٰفٰت۱۰۴۔۱۰۵) چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ جنت سے ایک مینڈھا بھیج دیا گیا جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کردیا۔ (سورۂ الصٰفٰت ۱۰۷) اس واقعہ کے بعد سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جانوروں کی قربانی کرنا خاص عبادت میں شمار ہوگیا۔ چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی امت کے لئے بھی ہر سال قربانی نہ صرف مشروع کی گئی، بلکہ اس کو اسلامی شعار بنایا گیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اتباع میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقہ پر جانوروں کی قربانی کا یہ سلسلہ کل قیامت تک جاری رہے گاان شاء اللہ ۔
قربانی کا حکم:
تمام فقہاء وعلماء کرام قرآن وسنت کی روشنی میں قربانی کے اسلامی شعار ہونے اور ہر سال قربانی کا خاص اہتمام کرنے پر متفق ہیں، البتہ قربانی کو واجب یا سنت مؤکدہ کا Titleدینے میں زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ہر صاحب حیثیت پر اس کے وجوب کافیصلہ فرمایا ہے۔ حضرت امام مالک ؒ بھی قربانی کے وجوب کے قائل ہیں، حضرت امام احمد بن حنبلؒ کا ایک قول بھی قربانی کے وجوب کا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی قربانی کے واجب ہونے کے قول کو ہی راجح قرار دیا ہے۔ البتہ فقہاء وعلماء کی دوسری جماعت نے بعض دلائل کی روشنی میں قربانی کے سنت مؤکدہ ہونے کا فیصلہ فرمایا ہے، لیکن عملی اعتبار سے امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ قربانی کا اہتمام کرنا چاہئے اور وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنا غلط ہے خواہ اس کو جو بھیTitleدیا جائے۔ "جواہر الاکلیل شرح مختصر خلیل" میں امام احمد بن حنبلؒ کا موقف تحریر ہے کہ اگر کسی شہر کے سارے لوگ قربانی ترک کردیں تو ان سے قتال کیا جائے گا کیونکہ قربانی اسلامی شعار ہے۔۔۔۔ صحابہ وتابعین عظام سے استفادہ کرنے والے حضرت امام ابوحنیفہ ؒ (۸۰ھ۔۱۵۰ھ) کی قربانی کے وجوب کی رائے احتیاط پر مبنی ہے۔
قربانی کے وجوب کے دلائل: قرآن وسنت میں قربانی کے واجب ہونے کے متعدد دلائل ہیں،یہاں اختصار کی وجہ سے چند دلائل ذکر کئے جارہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ(سورۂ الکوثر ۲) نماز پڑھئے اپنے رب کے لئے اور قربانی کیجئے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کرنے کاحکم ( امر) دیا ہے، عربی زبان میں امر کا صیغہ عموماً وجوب کے لئے ہوا کرتا ہے۔ وَانْحَرْ کے متعدد مفہوم مراد لئے گئے ہیں مگر سب سے زیادہ راجح قول قربانی کرنے کا ہی ہے۔ اردو زبان میں تحریر کردہ تراجم وتفاسیر میں قربانی کی ہی معنی تحریر کئے گئے ہیں۔ جس طرح فَصَلِّ لِرَبِّکَ سے نماز عید کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے اسی طرح وَانْحَرْ سے قربانی کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ (اعلاء السنن(
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد ۲/۳۲۱، ابن ماجہ۔ باب الاضاحی واجبہ ھی ام لا؟ حاکم ۲/۳۸۹) عصر قدیم سے عصر حاضر کے جمہور محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے قربانی کی وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر سخت وعید کا اعلان کیا ہے اور اس طرح کی وعید عموماً ترک واجب پر ہی ہوتی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے نماز عید سے قبل قربانی کرلی تو اسے اس کی جگہ دوسری قربانی کرنی ہوگی۔ قربانی نماز عید الاضحی کے بعد بسم اللہ پڑھ کر کرنی چاہئے۔ (بخاری۔کتاب الاضاحی۔باب من ذبح قبل الصلاۃ اعاد، مسلم۔کتاب الاضاحی۔باب وقتہا) اگر قربانی واجب نہیں ہوتی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عیدالاضحی سے قبل قربانی کرنے کی صورت میں دوسری قربانی کرنے کا حکم نہیں دیتے، باوجودیکہ اُس زمانہ میں عام حضرات کے پاس مال کی فراوانی نہیں تھی۔
نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکر فرمایا : اے لوگو! ہر سال ہر گھر والے پر قربانی کرنا ضروری ہے۔ (مسند احمد ۴/۲۱۵، ابوداؤد ۔باب ماجاء فی ایجاب الاضاحی، ترمذی۔ باب الاضاحی واجبۃ ہی ام لا(
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دس سال مدینہ منورہ میں قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی ۱/۱۸۲) مدینہ منورہ کے قیام کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایک سال بھی قربانی نہ کرنے کا کوئی ثبوت احادیث میں نہیں ملتا، اس کے برخلاف احادیث صحیحہ میں مذکور ہے کہ مدینہ منورہ کے قیام کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہر سال قربانی کی، جیساکہ مذکورہ حدیث میں وارد ہے۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ مسافر پر قربانی واجب نہیں ہے۔ (محلیٰ بالآثارج ۶ ص ۳۷، کتاب الاضاحی) معلوم ہوا کہ مقیم پر قربانی واجب ہے۔
قرآنِ کریم میں قربانی کا ذکر:
نماز پڑھئے اپنے رب کے لئے اور قربانی کیجئے۔(سورۂ الکوثر ۲)
قربانی کا حکم جو اس امت کے لوگوں کو دیا گیا ہے کوئی نیا حکم نہیں ، پہلی امتوں کے بھی ذمہ قربانی کی عبادت لگائی گئی تھی۔۔۔ ہر امت کے لئے ہم نے قربانی کا طریقہ مقرر کیا ہے تاکہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں۔۔۔ (سورۂ الحج ۳۴)نسک کے مختلف معنی ہیں، مفسرین کی ایک بڑی جماعت نے اس سے مراد قربانی لی ہے۔
ہم نے ہر امت کے لئے ذبح کرنے کا طریقہ مقرر کیا ہے کہ وہ اس طریقہ پر ذبح کیا کرتے تھے۔(سورۂ الحج ۶۲)
آپ فرمادیجئے کہ یقیناًمیری نماز، میری قربانی اور میرا جینا و مرنا سب خالص اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے جو سارے جہاں کا مالک ہے۔  (سورۂ الانعام ۱۶۲)
اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ اُن کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔(سورۂ الحج ۳۷)
وضاحت: قربانی میں اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کو قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا ہے بلکہ جتنے اخلاص اور اللہ سے محبت کے ساتھ قربانی کی جائے گی اتنا ہی اجروثواب اللہ تبارک وتعالیٰ عطا فرمائے گا اور یہ اصول صرف قربانی کے لئے نہیں بلکہ نماز، روزہ،زکاۃ،حج یعنی ہر عمل کے لئے ہے لہذا ہمیں ریا، شہرت، دکھاوے سے بچ کر خلوص کے ساتھ اللہ کی رضا کیلئے اعمال صالحہ کرنے چاہئیں۔
وضاحت: ان آیات سے معلوم ہوا کہ ہر زمانے اور ہر امت میں اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے جانوروں کی قربانی مشروع رہی ہے، اور یہ ایک اہم عبادت ہے اس کی مشروعیت، تاکید، اہمیت اور اس کے اسلامی شعار ہونے پر عصر حاضر کے بھی تمام مکاتب فکر متفق ہیں۔
قربانی کرنے کی فضیلت:
ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذی الحجہ کی ۱۰تاریخ کو کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کرنے والا اپنے جانور کے بالوں ، سینگوں اور کھروں کو لے کر آئے گا۔ (اور یہ چیزیں اجروثواب کا سبب بنیں گی) ۔ نیز فرمایا کہ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے نزدیک شرفِ قبولیت حاصل کرلیتا ہے ، لہذا تم خوش دلی کے ساتھ قربانی کیا کرو ۔ ( ترمذی۱/۱۸۰،،،، ابن ماجہ(
حضرت زید بن ارقم ؓ سے روایت ہے کہ صحابۂ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیا کہ یہ قربانی کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابۂ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوال کیا کہ ہمارے لئے اس میں کیا اجروثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔ (ابن ماجہ، ترمذی، مسند احمد۔۔۔۔۔ الترغیب والترھیب(
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد ۲/۳۲۱، ابن ماجہ۔ باب الاضاحی واجبہ ھی ام لا؟ حاکم ۲/۳۸۹(
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور اس عرصۂ قیام میں آپ مسلسل قربانی فرماتے تھے۔ (ترمذی ۱/۱۸۲(
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : اے فاطمہ! جاؤ۔ اپنی قربانی پر حاضری دو، کیونکہ اس کے خون سے جونہی پہلا قطرہ گرے گاتمہارے سارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ نیز وہ جانور (قیامت کے دن) اپنے خون اور گوشت کے ساتھ لایا جائے گا۔ اور پھر اسے ستر گنا (بھاری کرکے)تمہارے میزان میں رکھا جائے گا۔ حضرت ابوسعید الخدریؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ (فضیلت) آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ خاص ہے یا آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم  اور تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: یہ فضیلت آل محمد کے لئے تو بطور خاص ہے اور تمام مسلمانوں کے لئے بھی عام ہے۔ (یعنی ہر مسلمان کو بھی قربانی کرنے کے بعد یہ فضیلت حاصل ہوگی) (الترغیب والترہیب(
وضاحت: قربانی کے فضائل میں متعدد احادیث کتب احادیث میں مذکور ہیں، بعض احادیث کی سند میں ضعف بھی ہے مگر قربانی کا حکم قرآن کریم واحادیث صحیحہ سے ثابت ہے، جس پر پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے، لہذا اصول حدیث کے مطابق فضائل قربانی میں احادیث ضعیفہ معتبر ہوں گی۔
ان مبارک ایام میں خون بہانے کی فضیلت:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  بذات خود نماز عید الاضحی سے فراغت کے بعد قربانی فرماتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی قربانی کرنے کا ذکر حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں ہے۔ آپ نہ صرف اپنی طرف سے بلکہ اپنے گھر والوں اور امت مسلمہ کے ان احباب کی طرف سے بھی قربانی کرتے تھے جو قربانی نہیں کرسکتے تھے۔ (بخاری ومسلم، ترمذی، ابن ماجہ ، نسائی، ابوداؤد ، مسند احمد وغیرہ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر انہیں قربانی کے ایام میں ۱۰۰ اونٹوں کی قربانی دی، ان میں سے ۶۳اونٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے بذاتِ خود نحر (ذبح) کئے اور باقی ۳۷ اونٹ حضرت علیؓ نے نحر (ذبح) کئے۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے عید الاضحی کے دن سینگوں والے ،دھبے دار خصی دو مینڈھے ذبح کئے۔ (ابوداؤد۔باب مایستحب من الضحایا) غرضیکہ ان ایام میں خون بہانا ایک اہم عبادت ہے۔
قربانی نہ کرنے پر وعید:
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: مَنْ کَانَ لَہ سَعَۃٌ وَلَمْ ےُضَحِّ فَلا ےَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا۔۔ جس شخص میں قربانی کرنے کی وسعت ہو پھر بھی قربانی نہ کرے تو (ایسا شخص) ہماری عیدگاہ میں حاضر نہ ہو۔ (مسند احمد۲/۳۲۱، ابن ماجہ۔ باب الاضاحی واجبہ ھی ام لا؟ حاکم ۲/۳۸۹) عصر قدیم سے عصر حاضر کے جمہور محدثین نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
قربانی کا وقت:
قربانی کا وقت نماز عید الاضحی سے شروع ہوتا ہے اور ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک رہتا ہے۔ نماز عیدالاضحی سے قبل قربانی کی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دوسری قربانی کرنے کا حکم دیا ہے جیساکہ حدیث میں گزرا، اس سے قربانی کا ابتدا ئی وقت معلوم ہوا۔قربانی کے آخری وقت کی تحدید میں فقہاء وعلماء کے درمیان زمانۂ قدیم سے اختلاف چلا آرہا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ ، حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام احمد بن حنبلؒ (ایک روایت) نے ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک تحریر کیا ہے جبکہ بعض علماء نے ۱۳ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک وقت تحریر کیا ہے۔ پہلا قول احتیاط پر مبنی ہونے کے ساتھ دلائل کے اعتبار سے بھی قوی ہے کیونکہ کسی بھی حدیث میں یہ مذکور نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  یا کسی صحابی نے ۱۳ ذی الحجہ کو قربانی کی ہو، البتہ بعض احادیث وآثار کے مفہوم سے دوسرے قول کی تایید ضروری ہوتی ہے مگر اُن احادیث وآثار کے دوسرے معنی بھی مراد لئے جاسکتے ہیں مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا : کل فجاج مکہ منحر وکل ایام التشریق ذبح (طبرانی وبیہقی)۔ اولاً اس حدیث کی سندمیں ضعف ہے،احادیث ضعیفہ فضائل کے حق میں تو معتبر ہیں، لیکن ان سے حکم ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ثانیاًبعض کتب حدیث میں یہ حدیث "وکل ایام التشریق ذبح" کے الفاظ کے بغیر مروی ہے۔
قربانی کا وقت ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ہے، اس کے چند دلائل پیش ہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ابتدائی سالوں میں صحابۂ کرام کے اقتصادی حالات کے پیش نظر قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ ذخیرہ کرنے سے منع فرمادیا تھا، بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی۔ اگر چوتھے دن قربانی کی جاسکتی ہے تو پھر تین دن سے زیادہ قربانی کا ذخیرہ کرنے سے منع کرنے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ (کتب حدیث میں یہ حدیثیں موجود ہیں(
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ ایام معلومات‘ یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) اور اسکے بعد دو دن (۱۱ و ۱۲ ذی الحجہ) ہیں۔ (احکام القرآن للجصاص ۔ باب الایام المعلومات / تفسیر ابن ابی حاتم رازی ج ۶ ص ۲۶۱(
مشہور ومعروف تابعی حضرت قتادہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : الذِّبْحُ بَعْدَ النَّحرِ ےَوْمَان۔ قربانی دسویں ذی الحجہ کے بعد صرف دو دن ہے۔ (سنن کبری للبیہقی ۔ باب من قال الاضحی یوم النحر) حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت انسؓ کے علاوہ حضرت علیؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت سعید بن الجبیرؓ اور سعید بن المسیبؒ کے اقوال بھی کتب حدیث میں مذکور ہیں جسمیں وضاحت کے ساتھ تحریر ہے کہ قربانی صرف تین دن ہے۔
وضاحت: امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ نماز عید الاضحی سے فراغت کے بعد فوری طور پر قربانی کرنا سب سے زیادہ بہتر ہے،بلکہ کچھ کھائے بغیر نماز عیدالاضحی کے لئے جانا اور سب سے پہلے قربانی کا گوشت کھانا عیدالاضحی کی سنن میں سے ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابۂ کرام کا یہی معمول تھا۔ اس وجہ سے ہمیں پہلے ہی دن قربانی کرنی چاہئے، اگر کسی وجہ سے پہلے دن قربانی نہ کرسکتے یا چند قربانیاں کرنی ہیں تو ۱۲ ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک ضرور فارغ ہوجا نا چاہئے کیونکہ جن بعض علماء نے ۱۳ذی الحجہ کو قربانی کی اجازت دی ہے انہوں نے بھی یہی تحریر کیا ہے کہ ۱۲ ذی الحجہ سے قبل ہی بلکہ ۱۰ ذی الحجہ کو ہی قربانی کرلینی چاہئے۔
قربانی کے جانور کی عمر:
بکرا، بکری، بھیڑ ایک سال کی ہو، بھیڑ اوردنبہ جو ہو تو چھ ماہ کا لیکن دیکھنے میں ایک سال کا معلوم ہو اور گائے ، بھینس دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہو ان سب جانوروں پر قربانی کرنا جائز ہے۔
قربانی کے جانور میں شرکاء کی تعداد:
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے فرمایا کہ قربانی میں بکرا (بکری، مینڈھا، دنبہ) ایک شخص کی طرف سے ہے۔ (اعلاء السنن ۔ باب ان البدنہ عن سبعۃ(
حضر ت جابرؓ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ حج کا احرام باندھکر نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات (آدمی) شریک ہوجائیں۔ (مسلم ۔ باب جواز الاشتراک(
حضرت جابرؓ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ حدیبیہ کے سال قربانی کی، اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور گائے سات آدمیوں کی طرف سے ۔ (مسلم۔ باب جواز الاشتراک فی الہدی(
قربانی کے جانور کا عیوب سے پاک ہونا:
عیب دار جانور (جس کے ایک یا دو سینگ جڑ سے اکھڑ گئے ہوں، اندھا جانور، ایسا کانا جانور جس کا کاناپن واضح ہو، اس قدر لنگڑا جو چل کر قربان گاہ تک نہ پہنچ سکتا ہو، ایسا بیمار جس کی بیماری بالکل ظاہر ہو ، وغیرہ وغیرہ) کی قربانی کرنا جائز نہیں ہے۔
بھینس کی قربانی کا حکم:
جمہور علماء کا اتفاق ہے کہ گائے واونٹ کی طرح بھینس پر بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ گائے واونٹ کی طرح بھینس کی قربانی میں بھی سات حضرات شریک ہوسکتے ہیں۔
خود قربانی کرنا افضل ہے:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی قربانی خود کیا کرتے تھے، اس وجہ سے قربانی کرنے والے کا خود ذبح کرنا یا کم از کم قربانی میں ساتھ لگنا بہتر ہے، جیساکہ حدیث میں گزرا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو قربانی پر حاضررہنے کو فرمایا۔
قربانی کا گوشت:
قربانی کے گوشت کو آپ خود بھی کھاسکتے ہیں، رشتہ داروں کو بھی کھلاسکتے ہیں اور غرباء ومساکین کو بھی دے سکتے ہیں۔ علماء کرام نے بعض آثار کی وجہ سے تحریر کیا ہے کہ اگر گوشت کے تین حصے کرلئے جائیں تو بہتر ہے۔ ایک حصہ اپنے لئے، دوسرا حصہ رشتہ داروں کے لئے اور تیسرا حصہ غرباء ومساکین کے لئے، لیکن اس طرح تین حصے کرنے ضروری نہیں ہیں۔
میت کی جانب سے قربانی:
جمہور علماء امت نے تحریر کیا ہے کہ میت کی جانب سے بھی قربانی کی جاسکتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی طرف سے قربانی کرنے کے علاوہ امت کے افراد کی طرف سے بھی قربانی کیا کرتے تھے، اس قربانی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  زندہ افراد کے لئے خاص نہیں کیا کرتے تھے۔ اسی طرح حدیث میں ہے کہ حضرت علیؓ نے دو قربانیاں کی اور فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی اور اسی لئے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بھی قربانی کرتا ہوں۔ (ابوداؤد، ترمذی)
قربانی کرنے والے کے لئے مستحب عمل:
حضرت ام المؤمنین ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہوجائے، اور تم میں سے جو قربانی کرنے کا ارادہ کرے تو وہ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ ( مسلم) اس حدیث اور دیگر احادیث کی روشنی میں‘ قربانی کرنے والوں کے لئے مستحب ہے کہ ذی الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد قربانی کرنے تک جسم کے کسی حصے کے بال اور ناخن نہ کاٹیں۔
ایک شبہ کا ازالہ:
مغربی تہذیب سے متاثر ہوکر بعض حضرات نے ایک نیا فتنہ شروع کردیا ہے کہ جانوروں کے خون بہانے کے بجائے صدقہ وخیرات کرکے لوگوں کی مدد کی جائے ۔ اسمیں کوئی شک وشبہ نہیں کہ اسلام نے زکوۃ کے علاوہ صدقہ وخیرات کے ذریعہ غریبوں کی مدد کی بہت ترغیب دی ہے مگر قربانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس عظیم الشان کارنامہ کی یادگار ہے جس میں انہوں نے اپنے لخت جگر کو ذبح کرنے کے لئے لٹادیا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے بلا چوں وچرا حکم الہی کے سامنے سرتسلیم خم کرکے ذبح ہونے کے لئے اپنی گردن پیش کردی تھی ۔مگر اللہ تعالی نے اپنا فضل فرماکر جنت سے دنبہ بھیج دیا، اِس عظیم الشان کارنامہ پر عمل قربانی کرکے ہی ہو سکتا ہے محض صدقہ وخیرات سے اِس عمل کی یاد تازہ نہیں ہوسکتی۔ نیز ۱۴۰۰ سال قبل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس امر کو واضح کردیا :
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: عید کے دن قربانی کا جانور (خریدنے) کے لئے پیسے خرچ کرنا اللہ تعالیٰ کے یہاں اور چیزوں میں خرچ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔ (طبرانی، دار قطنی)
قربانی کا مقصد محض غریبوں کی مدد کرنا نہیں ہے جو صدقہ وخیرات سے پورا ہوجائے بلکہ قربانی میں مقصود جانورکا خون بہانا ہے ، یہ عبادت اسی خاص طریقہ سے ادا ہوگی، محض صدقہ وخیرات کرنے سے یہ عبادت ادا نہ ہوگی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرامؓ کے دور میں غربت دورحاضر کی نسبت بہت زیادہ تھی، اگر جانور ذبح کرنا مستقل عبادت نہ ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرامؓ جانور ذبح کرنے کے بجائے غریبوں کی مدد کرتے مگر تاریخ میں ایسا ایک واقعہ بھی نہیں ملتا ۔
قربانی سے کیا سبق حاصل کریں؟
جانور کی قربانی کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کو یاد کریں کہ دونوں اللہ کے حکم پر سب سے محبوب چیز کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوگئے، لہذا ہم بھی احکام الہی پر عمل کرنے کے لئے اپنی جان ومال ووقت کی قربانی دیں ۔
قربانی کی اصل روح یہ ہے کہ مسلمان اللہ کی محبت میں اپنی تمام نفسانی خواہشات کو قربان کردے ۔ لہذا ہمیں من چاہی زندگی چھوڑ کر رب چاہی زندگی گزارنی چاہئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں صرف یہی ایک عظیم واقعہ نہیں بلکہ انہوں نے پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت وفرمانبرداری میںگزاری ،جو حکم بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو ملا فوراً اس پر عمل کیا۔ جان ،مال ،ماں باپ، وطن اور لخت جگر غرض سب کچھ اللہ کی رضا میں قربان کردیا، ہمیں بھی اپنے اندر یہی جذبہ پیدا کرنا چاہئے کہ اللہ تعالی کا جو حکم بھی سامنے آئے اس پر ہم خوش وخرم عمل کریں ۔
محمد نجیب سنبھلی قاسمی

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS