Aazan Ka Byan
*((باب: اس بارے میں کہ امام کو سلام کرنے کی ضرورت نہیں، صرف نماز کے دو سلام کافی ہیں))*
*CHAPTER:Whoever did not say (a Taslim) in addition to the Taslim of the Imam but thought that Taslim of the Salat (prayer) was sufficient.
اردو:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی کہا کہ ہمیں معمر نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے محمود بن ربیع نے خبر دی، وہ کہتے تھے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوری طرح یاد ہیں اور آپ ﷺ کا میرے گھر کے ڈول سے کلی کرنا بھی یاد ہے (جو آپ ﷺ نے میرے منہ میں ڈالی تھی).
English:
Narrated Mahmud bin Ar-Rabi`: I remember Allah's Apostle and also the mouthful of water which he took from a bucket in our house and ejected (on me).
*《حديث نمبر: 840》*
قَالَ: سَمِعْتُ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ الْأَنْصارِيَّ، ثُمَّ أَحَدَ بَنِي سَالِمٍ، قَالَ: كُنْتُ أُصَلِّي لِقَوْمِي بَنِي سَالِمٍ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: "إِنِّي أَنْكَرْتُ بَصَرِي وَإِنَّ السُّيُولَ تَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَ مَسْجِدِ قَوْمِي، فَلَوَدِدْتُ أَنَّكَ جِئْتَ فَصَلَّيْتَ فِي بَيْتِي مَكَانًا حَتَّى أَتَّخِذَهُ مَسْجِدًا، فَقَالَ: أَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللهُ، فَغَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ مَعَهُ بَعْدَ مَا اشْتَدَّ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنْتُ لَهُ فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى، قَالَ: أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟ فَأَشَارَ إِلَيْهِ مِنَ الْمَكَانِ الَّذِي أَحَبَّ أَنْ يُصَلِّيَ فِيهِ، فَقَامَ فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ، ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ".
اردو:
انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری سے سنا، پھر بنی سالم کے ایک شخص سے اس کی مزید تصدیق ہوئی. عتبان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اپنی قوم بنی سالم کی امامت کیا کرتا تھا. میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! میری آنکھ خراب ہو گئی ہے اور (برسات میں) پانی سے بھرے ہوئے نالے میرے اور میری قوم کی مسجد کے بیچ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں. میں چاہتا ہوں کہ آپ (ﷺ) میرے مکان پر تشریف لا کر کسی ایک جگہ نماز ادا فرمائیں تاکہ میں اسے اپنی نماز کے لیے مقرر کر لوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ میں (تمہاری خواہش پوری) کروں گا صبح کو جب دن چڑھ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے. ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ (ﷺ) کے ساتھ تھے. آپ (ﷺ) نے (اندر آنے کی) اجازت چاہی اور میں نے اجازت دے دی. آپ (ﷺ) بیٹھے نہیں بلکہ پوچھا کہ گھر کے کس حصہ میں نماز پڑھوانا چاہتے ہو؟ ایک جگہ کی طرف جسے انہوں نے نماز پڑھنے کے لیے پسند کیا تھا. اشارہ کردیا. آپ ﷺ (نماز کے لیے) کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ (ﷺ) کے پیچھے صف بنائی. پھر آپ (ﷺ) نے سلام پھیرا اور جب آپ (ﷺ) نے سلام پھیرا تو ہم نے بھی پھیردیا.
English:
I heard from `Itban bin Malik Al-Ansari, who was one from Bani Salim, saying, "I used to lead my tribe of Bani Salim in prayer. Once I went to the Prophet and said to him, 'I have weak eyesight and at times the rainwater flood intervenes between me and the masjid of my tribe and I wish that you would come to my house and pray at some place so that I could take that place as a place for praying (masjid). He said, "Allah willing, I shall do that." Next day Allah's Apostle along with Abu Bakr, came to my house after the sun had risen high and he asked permission to enter. I gave him permission, but he didn't sit till he said to me, "Where do you want me to pray in your house?" I pointed to a place in the house where I wanted him to pray. So he stood up for the prayer and we aligned behind him. He completed the prayer with Taslim and we did the same simultaneously."
شیخ الحديث مولانا محمد داؤد راز رحمه الله تعالى
✍ جمہور فقہاءکے نزدیک نماز میں دو سلام ہیں. لیکن امام مالک رحمہ اللہ تعالى کے نزدیک تنہا نماز پڑھنے والے کے لیے صرف ایک سلام کافی ہے اور نماز با جماعت ہو رہی ہو تو دو سلام ہونے چاہئیں. امام کے لیے بھی اور مقتدی کے لیے بھی. لیکن اگر مقتدی امام کے بالکل پیچھے ہے یعنی نہ دائیں جانب نہ بائیں جانب تو اسے تین سلام پھیرنے پڑیں گے. ایک دائیں طرف کے مصلیوں کے لیے دوسرا بائیں طرف والوں کے لیے اور تیسرا امام کے لیے. گویا اس سلام میں بھی انہوں نے ملاقات کے سلام کے آداب کا لحاظ رکھا ہے امام بخاری رحمہ اللہ جمہور کے مسلک کی ترجمانی کر رہے ہیں. (تفہیم البخاری)
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کئی جگہ لائے ہیں اور اس سے متعدد مسائل کا استنباط فرمایا ہے. یہاں اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ ظاہر یہ ہے کہ مقتدیوں کا سلام بھی انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کی طرح تھا اور اگر مقتدیوں نے کوئی تیسرا سلام کہا ہوتا تو اس کا ضرور بیان کرتے یہ بھی حدیث سے نکلا کہ معذورین کے لیے اور نوافل کے لیے گھر کے کسی حصہ میں نماز کی جگہ متعین کر دیجائے تو اس کی اجازت ہے. یہ بھی ثابت ہے کہ کسی واقعی اہل اللہ بزرگ سے اس قسم کی درخواست جائز ہے.
والله تعالى أعلم.