find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya Shauhar Apni Biwi ko Parda karne se Mana kar sakta hai?

Agar Shauhar apni Biwi ko Khandan walo se Parda karne se mana kare to biwi ko kya karna chahiye?

सवाल - अगर शौहर सिर्फ खानदान वालो से पर्दा करनेे से मना करे वह भी सिर्फ चेहरे का पर्दा न करे ?
अगर वह परदे करती है तो वह उस पर सख्ती करता है, बात तलाक तक भी पहुंच सकती है। इतनी मजबूर होकर अगर वह चेहरे का पर्दा ना करे तो मजबूरी के तहत शरीयत क्या कहती है?

जानिए दुनिया में बुत परस्ती की शुरुआत कैसे हुई?

जब एक गैर मुस्लिम लड़की ने एक बा पर्दा खातून के नकाब को गलत बताया।

जब इंग्लैंड में एक अरब मुस्लिम लड़की ने कुरान की तिलावत की।

بِـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه

برادر Muhammad Ayoub Salafi

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
سوال۔کا جواب مل گیا تھا الحمدللہ لیکن اس میں مزید کچھ اشکال ہوئی جو آپ سے پوچھ رہا ہوں

شیخ محترم اور مسز اے انصاری

اگر شوہر صرف خاندان والوں سے پردہ کرنے سے منع کرے وہ بھی صرف چہرے کا پردہ نہ کرے ؟
اگر وہ پردے کرتی ہے تو وہ اس پر سختی کرتا ہے بات طلاق تک بھی پہنچ سکتئ ہے
اتنی مجبور ہو کر اگر وہ چہرے کا پردہ نہ کرے تو مجبوری کے تحت شریعت کیا کہتی ہے ؟؟؟

┅━━━━━━━━━━━━━━━━━━━━━

وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

✍ بلا شبہ اسلام عورت کو شوہر کی مکمل فرمانبرداری کا حکم دیتی ہے، شوہر کا بیوی کو کسی بات سے منع کر دینا بیوی کے لیے ماننا لازم ہے، حدیث میں تو یہاں تک ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ روا ہوتا، تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔
لیکن شوہر اگر بیوی کو کسی معصیت کا حکم کرے، تو بیوی کے لیے اس کی بات ماننا جائز نہیں ہے ۔
لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق
اگر شوہر طلاق دیتا ہے تو وہ اللہ کے حکم سے متصادم ہو رہا ہے ۔ وہ طلاق دیتا ہے دینے دیا جائے لیکن اللہ کی اطاعت کے سامنے اسکی معصیت قبول نہیں کی جائے گی ۔ اور ایسی صورت میں شرعاً بیوی شوہر کی نافرمان نہیں کہلائے گی۔
عن أبی ہریرة، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال: لو کنت آمرا أحدا أن یسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجہا (جامع الترمذي: ۱/۲۱۹، أبواب الرضاع والطلاق، باب ما جاء في حق الزوج علی المرأة) وعن النواس بن سمعان رضي اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا طاعة لمخلوق في معصیة الخالق․ (مشکاة المصابیح، ص: ۳۲۱، کتاب الإمارة والقضا، الفصل الثانی)
واللہ تعالیٰ اعلم
( مسزانصاری )

✍شیخ بن باز رحمہ اللہ سے ایک عورت نے یہی سوال پوچھا کہ شوہر خاندان سے پردہ پر مخالفت کرتا ہے اور چہرہ کھلا رکھنے کا حکم دیتا ہے اور طلاق دینے کی دھمکی دیتا ہے ۔ تو الشیخ رحمہ اللہ نے کہا

مرد کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لیے اجنبی مردوں سے بے پردگی کا موقع فراہم کرے ۔اور اسکو یہ بھی زیب نہیں دیتا کہ اس حد تک کمزور اور متساہل ہو کہ اسکی بیوی اسکے بھائیوں ( دیوروں اور جیٹھوں ) یا اسکے چچاوں یا اسکی بہن کے خاوند یا عورت اپنے چچاوں کے بیٹوں وغیرہ جو اسکے محرم رشتہ دار نہیں ہیں انکے سامنے اپنا چہرہ کھولے ۔
پس یہ قطعًا جائز نہیں ہے ، اور نہ ہی اس مسئلے میں عورت کے لیے مرد کی اطاعت کرنا واجب ہے۔

اطاعت تو صرف خیر و بھلائی کے کاموں میں ہوتی ہے ۔ بلکہ عورت پر لازم ہے کہ وہ حجاب اور پردہ اختیار کرے چاہے اسکا خاوند اسے طلاق دے دے ۔اگر اس کا شوہر اسے طلاق دے گا تو ان شاءاللہ تعالیٰ ، اللہ تعالیٰ اسکو اس سے بہتر شوہر عطا فرمائے گا ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَاِنۡ یَّتَفَرَّقَا یُغۡنِ اللّٰہُ کُلًّا مِّنۡ سَعَتِہٖ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ وَاسِعًا حَکِیۡمًا ﴿سورة النساء/۱۳۰﴾

اور اگر میاں بیوی جدا ہو جائیں تو اللہ تعالٰی اپنی وسعت سے ہر ایک کو بے نیاز کر دے گا ، اللہ تعالٰی وسعت والا حکمت والا ہے ۔

اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مِنۡ اَمۡرِہٖ یُسۡرًا ﴿سورةالطلاق / ۴﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی سے ڈرے گا اللہ اس کے ( ہر ) کام میں آسانی کر دے گا ۔

اور خاوند کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو جبکہ وہ پردہ کرے جو پاکدامنی اور سلامتی کے اسباب میں سے ہے ، تو وہ اسے طلاق کی دھمکی دے ، ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت کے طلبگار ہیں ۔
( سماحةالشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن بازرحمہ اللہ )

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّـــــلاَم عَلَيــْـــــكُم وَرَحْمَــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــاتُه

Share:

Agar Biwi Apne Shauhar se Hemesha Jhhagra karti ho to Shauhar ko kya karna chahiye?

Agar Biwi Shauhar ki Nafarmani kare to Shauhar ko kya karna chahiye.

بِسْـــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــلاَم عَلَيــْــكُم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــاتُه

برادر Rehman Ali

وَعَلَيــْـــــــكُم السَّــــلاَم وَرَحْمَـــــةُاللهِ وَبَرَكـَــــاتُه

معزز بھائی ہم آپکو آپکے سوال کی نوعیت پر ہی جواب دے رہے ہیں ۔ لیکن یہ بات آپکو معلوم ہونا چاہیے کہ فریقین کی باتوں کو سن کر ہی کسی بات کا فیصلہ کرنا صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔

کسی ایک فریق کا مئوقف سن کر کوئی حتمی فیصلہ کرنا ، غالب گمان ہے کہ بگاڑ پیدا کرے ، اسی لیے ہم نے آپ سے آپکے سوال کی وضاحت چاہی تھی ۔

ہم آپکے سوال کا جواب محض ایک فریق کے بیان پر دے رہے ہیں ، اگر فریق ثانی یعنی آپکے دوست کی بیوی معصوم ہوئی اور آپکا دوست تنازعہ کا بڑا سبب ہوا تو ہم اپنے جواب سے بری الذمہ ہونگے ، اور وبال آپکے سر پر ہو گا ، کیونکہ آپ ہی ہمارے اور دوست کے بیچ ذریعہ بنے ہو ، لہٰذا ہم اپنے بھائی کو انتباہ کرتے ہیں کہ اس جواب کو دوست تک پہنچانے سے پہلے حتی المقدور کوشش کریں کہ دوست اور اس کی بیوی کے مابین تنازعات میں کون زیادہ قصوروار ہے ۔
جب آپ مطمئین ہو جائیں کہ حقیقتًا آپکا دوست معصوم ہے تب آپ اللہ سے اعانت طلب کر کے ہمارا جواب دوست تک پہنچائیے ۔

✍ کسی تنازعہ میں کبھی بھی کسی ایک فریق کی غلطی نہیں ہوتی ، یقینًا مخالف فریق بھی کسی نہ کسی اعتبار سے اس بدمزگی کا ذمہ دار ہوتا ہے ، ہماری زندگی کے معاملات ایک صورت میں گھر کی چار دیواری سے باہر نہیں نکلتے کہ جب کسی ایک فریق میں قوتِ برداشت اس لیول تک ہو جو معاملے کو سنبھال کر ٹھنڈا کر دے ، لیکن قوتِ برداشت جب اپنی حدود سے تجاوز کر جاتی ہے تو گھروں کی دیواروں کو بھی زبانیں مل جاتی ہیں ۔ فریقین میں بیوی وہ فریق ہے جس کو قوت برداشت کا زیادہ مظاہرہ کرنا چاہیے ، شوہر کی اطاعت گزاری اور فرمانبرداری میں ہی عورت کی جنت ہے ۔

امام ابوبکر ابن ابی شیبہؒ (المتوفی 235ھ) نے اپنی عظیم کتاب " المصنف " میں روایت کیا ہے کہ :
حدثنا جعفر بن عون، قال: أخبرنا ربيعة بن عثمان، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن نهار العبدي وكان من أصحاب أبي سعيد الخدري، عن أبي سعيد، أن رجلا أتى بابنة له إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن ابنتي هذه أبت أن تتزوج، قال: فقال لها: «أطيعي أباك» قال: فقالت: لا، حتى تخبرني ما حق الزوج على زوجته؟ فرددت عليه مقالتها قال: فقال: «حق الزوج على زوجته أن لو كان به قرحة فلحستها، أو ابتدر منخراه صديدا أو دما، ثم لحسته ما أدت حقه» قال: فقالت: والذي بعثك بالحق لا أتزوج أبدا قال: فقال: «لا تنكحوهن إلا بإذنهن»

ترجمہ :

سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی اپنی بیٹی کو لے کر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہا کہ میری یہ بیٹی شادی کرنے سے انکار کررہی ہے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی سے فرمایا کہ اپنے باپ کی بات مان لو۔
اس لڑکی نے کہا کہ میں اس وقت تک شادی نہیں کروں گی جب تک آپ مجھے یہ نہ بتادیں کہ بیوی پر خاوند کا کیا حق ہے ؟

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیوی پر خاوند کا حق یہ ہے کہ اگر خاوند کو جسم میں زخم یا پھوڑا ہو اور اس کی بیوی اس پھوڑے کو چاٹے یا اس سے پیپ اور خون نکلے اس کی بیوی اس کو چاٹے تو پھر بھی اس کا حق ادا نہیں کیا۔ اس پر اس لڑکی نے کہا کہ پھر تو اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں کبھی شادی نہیں کروں گی۔
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے باپ سے ) فرمایا کہ عورتوں کا نکاح ان کی اجازت کے بغیر نہ کرو۔"

رواه ابن أبي شيبة في " المصنف " (3/556)، والنسائي في "السنن الكبرى" (3/283)، والبزار – كما في " كشف الأستار " (رقم/1465) - وابن حبان في " صحيحه " (9/473)، والحاكم في " المستدرك " (2/205)، وعنه البيهقي في " السنن الكبرى " (7/291)
یہ حدیث صحیح ہے ۔علامہ ناصر الدین الالبانی ؒؒ نے اسے ۔حسن صحیح ۔کہا ہے۔۔حسن صحيح - ((التعليق الرغيب))
اور علامہ شعیب ارناوط نے صحیح ابن حبان کی تعلیق و تخریج میں اسے ’‘ حسن ’‘قرار دیا ہے ،لکھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو آدمیوں کی نماز ان کے سروں سے اوپر نہیں جاتی ۔ ایک اپنے آقا سے بھاگا ہوا غلام یہاں تک کہ وہ واپس آ جائے ۔ اور دوسری وہ عورت جو اپنے خاوند کی نافرمان ہو یہاں تک کہ وہ اس کی فرمانبردار بن جائے

( السلسلة الصحيحة : 288 ، ،
صحيح الجامع : 136)
( الألباني: حسن صحیح)​

دو قسم کے لوگوں کی نماز اُن کے سر سے اوپر نہیں تجاوز کرتی (یعنی قبولیت کی طرف نہیں جاتی) (،،، ، ،، ، ، ، ، ، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ) ان میں سے ایک وہ عورت ہے جو اپنے خاوند کی
نا فرمانی کرے ، یہاں تک کہ وہ نا فرمانی سے باز آجائے

(فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)​

(الترغيب والترهيب : 3/82 ، ، 3/103 ، ، الزواجر : 2/83 ، ،
صحيح الترغيب : 1948 ، ، 1888 ، ، مجمع الزوائد : 4/316 ، ،
السلسلة الصحيحة : 288 ، ، صحيح الجامع : 136)​

--------------۔

جو عورتیں اپنے شوہروں کو تکلیف دیتی ہیں ، نافرمانی کرتی ہیں ، شوہر کے حکم کا خلاف کرتی ہیں انکی احساس برتری ضد کی شکل اختیار کر لیتی ہے تو ایسی عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو تین قسم کے ترتیب وار اقدامات کرنے کی اجازت دی ہے ۔

1 اسے نرمی سے سمجھایا جائے کہ اس کے موجودہ رویہ کا انجام برا ہو سکتا ہے ۔

2 اگر وہ اس کا اثر قبول نہ کرے تو خاوند اس سے الگ کسی دوسرے کمرہ میں سونا شروع کر دے ۔

3 اگر وہ سرد جنگ کو نہیں چھوڑتی تو اسے ہلکی پھلکی مار دی جائے ، اس مار کی چند شرائط ہیں کہ اس مار سے ہڈی پسلی نہ ٹوٹے اور چہرے پر نہ مارے ، اگر یہ تمام حربے ناکام ہو جائیں تو طلاق سے قبل فریقین اپنے اپنے ثالث مقرر کریں جو اصلاح کی کوشش کریں ۔

اور اگر اس طرح اصلاح نہ ہو سکے تو آخری حربہ طلاق دینے کا ہے ۔ صورت مسؤلہ میں اگر بیوی نافرمان اور ضدی ہے تو مذکورہ بالا اقدامات سے اصلاح کی جائے بصورت دیگر طلاق دے کر اسے فارغ کر دیا جائے ۔

اللہ تعالیٰ ہر عورت کو اپنے شوہر کا فرمانبردار بنائے ۔ اللہ تعالیٰ بہنوں کو شوہر کا مقام شناس بنائے ۔۔۔
آمین ثم آمین

وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّـــــلاَم عَلَيــْـــكُم وَرَحْمَـــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــاتُه

— with Shaikh Jarjees Ansari.

Share:

Biwi ko Kis ki Baat manani Chahiye Shauhar ki ya Maa Baap ki?

Kisi Aurat par Sabse Jyada Haque kiska hai Shauhar ka ya Waldain ka?
Kya Khawind ki Itaaat Behan aur bhaiyo ki Itaaat par Muqdam hai?
Biwi ko Kis ki Baat manani Chahiye shauhar ki ya Maa Baap ki?



بِسْـــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــلاَم عَلَيـــــكُم وَرَحْمَـــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــاتُه

خاوند كى اطاعت والدين اور بھائيوں كى اطاعت پر مقدم ہے :
﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌

كتاب و سنت كے دلائل سے ثابت ہوتا ہے كہ خاوند كو اپنى بيوى پر بہت زيادہ حق حاصل ہے، اور بيوى كو خاوند كى اطاعت كرنے اور خاوند كے ساتھ حسن معاشرت كا حكم ديا گيا ہے، بيوى كو اپنے والدين اور بہن بھائيوں سے بھى اپنے خاوند كو مقدم ركھنے كا حكم ہے، بلكہ خاوند تو بيوى كى جنت اور جہنم ہے، ان دلائل ميں درج ذيل فرمان بارى تعالى شامل ہے:

{ مرد عورتوں پر نگران و حكمران ہيں، اس ليے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس ليے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں }
   النساء ( 34 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كسى بھى عورت كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنے خاوند كى موجودگى ميں ( نفلى ) روزہ ركھے، اور وہ خاوند كى اجازت كے بغير خاوند كے گھر ميں كسى كو ( آنے كى ) اجازت نہ دے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4899 ).

علامہ البانى رحمہ اللہ اس حديث پر تعليقا رقمطراز ہيں:
" جب عورت پر قضائے شہوت ميں اپنى خاوند كى اطاعت كرنا واجب ہے كہ وہ خاوند كى شہوت پورى كرے تو پھر بالاولى يہ واجب ہے كہ اس سے بھى اہم چيز يعنى خاوند كى اولاد كى تربيت ميں خاوند كى اطاعت كرے، اور اپنے گھر كى اصلاح ميں خاوند كى بات مانے، اور اس طرح دوسرے حقوق اور واجبات ميں بھى خاوند كى اطاعت كرے "
ماخوذ از: آداب الزفاف ( 282 ).

ابن حبان نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب عورت اپنى پانچ نمازيں ادا كرے، اور رمضان كے روزے ركھے اور اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرے، اور اپنے خاوند كى اطاعت كرتى ہو تو اسے كہا جائيگا: تم جنت كے جس دروازے سے بھى چاہو جنت ميں داخل ہو جاؤ "
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 660 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ابن ماجہ رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن ابى اوفى سے بيان كيا ہے كہ جب معاذ رضى اللہ تعالى عنہ شام سے واپس آئے تو انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سجدہ كيا چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا:

معاذ يہ كيا ؟ تو انہوں نے جواب ديا: ميں جب شام گيا تو انہيں ديكھا كہ وہ اپنے پادريوں اور بشپ كو سجدہ كرتے ہيں تو ميرے دل ميں آيا كہ ہميں تو ايسا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ كرنا چاہيے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تم ايسا مت كرو، اگر ميں كسى كو حكم ديتا كہ وہ غير اللہ كو سجدہ كرے تو عورت كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كيا كرے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى جان ہے عورت اس وقت تك اپنے پروردگار كا حق ادا نہيں كر سكتى جب تك كہ وہ اپنے خاوند كا حق ادا نہ كر دے، اگر خاوند اسے بلائے اور بيوى پالان پر بھى ہو تو اسے انكار نہيں كرنا چاہيے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1853 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مسند احمد اور مستدرك حاكم ميں حصين بن محصن ؓ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ان كى پھوپھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس كسى ضرورت كے تحت گئى جب اپنے كام اور ضرورت سے فارغ ہوئيں  تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سے دريافت كيا:

كيا تمہارا خاوند ہے ؟

تو انہوں نے جواب ديا: جى ہاں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اس كے ليے كيسى ہو ؟

تو انہوں نے عرض كيا: ميں اس كے حق ميں كوئى كمى و كوتاہى نہيں كرتى، مگر يہ كہ ميں اس سے عاجز آ جاؤں اور نہ كر سكوں.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم خيال كرو كہ تم اپنے خاوند كے متعلق كہاں ہو، كيونكہ وہ تمہارى جنت اور جہنم ہے "

مسند احمد حديث نمبر ( 19025 ) امام منذرى رحمہ اللہ نے الترغيب و الترھيب ميں اس كى سند كو جيد قرار ديا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى صحيح الترغيب و الترھيب حديث نمبر ( 1933 ) ميں اسے جيد كہا ہے.

اس حديث كا معنى يہ ہے كہ: بيوى اگر خاوند كا حق ادا كرتى ہے تو خاوند بيوى كے جنت ميں داخل ہونے كا سبب ہوگا اور اگر خاوند كے حقوق ميں كوتاہى كرے گى تو خاوند اس كے ليے آگ ميں جانے كا سبب ہوگا.

جب خاوند كى اطاعت والدين كى اطاعت سے معارض ہو تو اس صورت ميں خاوند كى اطاعت مقدم ہوگى، امام احمد رحمہ اللہ نے ايسى عورت جس كى والدہ بيمار تھى كے متعلق كہا:
اس پر ماں كى بجائے اپنے خاوند كى اطاعت زيادہ واجب ہے، ليكن اگر خاوند اسے اجازت ديتا ہے تو پھر نہيں "
ديكھيں: منتہى الارادات ( 3/ 47 ).

اور الانصاف ميں مذكور ہے كہ:
" خاوند سے طلاق لینے کے حکم ميں عورت پر اپنے والدين كى اطاعت لازم نہيں، اور نہ ہى ملاقات وغيرہ، بلكہ خاوند كى اطاعت زيادہ حق ركھتى ہے "
ديكھيں: الانصاف ( 8 / 362 ).

اس سلسلہ ميں مستدرك حاكم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ايك حديث بھى مروى ہے:

سیدہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا:
عورت كے ليے لوگوں ميں حق كے اعتبار سے كون زيادہ حقدار ہے ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" اس كى والدہ "
ليكن يہ حديث ضعيف ہے علامہ البانى رحمہ اللہ نے الترغيب و الترھيب ( 1212 ) ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے اور امام منذرى رحمہ اللہ نے بھى.
الاسلام سوال و جواب

ھذا, واللہ تعالى أعلم, وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم , وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وسلم
وَالسَّــــلاَم عَلَيــْــكُم وَرَحْمَــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــاتُه

Share:

Kya Aurat apne Shauhar ke Bagair Apni Behan ke Ghar rat gujar sakti hai?

Kya Shauhar Apni Biwi ko uske Maike ya Behan ke Ghar jane se Rok sakta hai?

                  Rehman Ali
Sawal: Agar Shauhar apni Biwi par pabandi Lagaye ke wah apni Behan ke Ghar raat nahi Gujar sakti , kya yah Pabandi Sharan Jayez hai?

Kya Aurat ka apne Shauhar ke Bagair apni Behan aur Bahnoi ki Maujudgi me Bagair kisi Majburi ke un ke Ghar Rat gujarna Munasib hai?

السلام عليكم

اگر شوھر اپنی بیوی پر پابندی لگائے کہ وہ اپنی بہن کے گھر رات نہیں گذار سکتی کیا یہ پابندی شرعاً جائز ھے۔
کیا عورت کا اپنے شوھر کے بغیر اپنی بہن اور بہنوئی کی موجودگی میں بغیر کسی مجبوری کے ان کے گھر رات گذارنا مناسب ھے ؟
رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ

۔--------------------------------

وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

: مسز انصاری

جی ہاں شرعًا یہ جائز ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو اس کی بہن کے گھر رات گزارنے سے روک دے ، بلکہ ماں باپ کے گھر سے بھی روکنے کا شوہر کو شرعًا حق حاصل ہے ۔ وہ اس لیے کیونکہ مرد کی اطاعت عورت پر واجب ہے ، اور اس لیے کہ مرد کو عورت پر زیادہ فضیلت حاصل ہے ، گو کہ عورتوں اور مردوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے مرد کے عورت پر حقوق زیادہ رکھے ہیں ، لیکن مردوں کو عورتوں پر بلند مرتبہ اور فضیلت حاصل ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :

﴿وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعر‌وفِ ۚ وَلِلرِّ‌جالِ عَلَيهِنَّ دَرَ‌جَةٌ
﴿سورة البقرة/ ٢٢٨﴾

اور ان عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہيں جیسے ان مردوں کے ہیں معروف طریقے پر ، ہاں مردوں کو ان عورتوں پر درجہ اور فضیلت حاصل ہے ۔

مرد عورتوں پر قوام ہیں ، کیونکہ مرد اپنے اہل و عیال پر مال خرچ کرتے ہیں اور ان کے رہنما ہوتے ہیں ،
جس طرح حکمران اپنی رعایا پر حکمرانی کرتے ہیں اسی طرح مرد کی اپنے اہل و عیال پر حاکمیت ہوتی ہے اور حاکم کا حکم ماننا واجب ہے ، اسی لیے اللہ تعالی نے مرد کو کچھ جسمانی اور عقلی خصائص سے بھی نوازا ہے ، اور اس پر مالی امور بھی واجب کیے ہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿الرِّ‌جالُ قَوّ‌ٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ وَبِما أَنفَقوا مِن أَمو‌ٰلِهِم ۚ
﴿سورة النساء/ ٣٤﴾

مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کو دوسرے پر فضيلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں .

بلا شبہ خاوند کا بیوی پر یہ حق ہے کہ وہ گھر سے خاوند کی اجازت کے بغیر نہ نکلے ، بلکہ شافعیہ اورحنابلہ کے مطابق عورت اپنے بیمار والد کی عیادت کے لیے بھی خاوند کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتی ، اور خاوند کو اسے روکنے اور منع کرنے کا مکمل حق حاصل ہے ۔ اس لیے کیونکہ خاوند کی اطاعت بیوی پر واجب ہے تو واجب کو ترک کرکے غیر واجب کام کرنا جائز نہيں ۔

بیوی پر اس کے شوہر کا یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اس شخص کو داخل نہ ہونے دے جسے اس کا شوہر ناپسند کرتا ہے ۔ ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں ( نفلی ) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے ، اور کسی کو بھی اس کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں لیکن اس کی اجازت ہو تو پھر داخل کرے )
[ صحیح البخاری حدیث : ۴٨٩٩/ صحیح المسلم حدیث : ١٠٢٦ ]

لہٰذا اے سائل بھائی ، خوب جان لیجیے کہ عورت اپنے شوہر کے حکم سے اپنے عزیز و اقارب کے ہاں جانے سے رک جائے گی ، ہر اس حکم کو ماننا اس پر واجب ہوگا جس میں معصیت کا حکم نا دیا گیا ہو ۔جب اللہ تعالیٰ نے عورت کے لیے اس کے شوہر کی فرمانبرداری اس کے والدین کی فرمانبرداری پر مقدم کر دی تو اب شوہر کی اطاعت سے سرکشی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ، اگر عورت شوہر کی حکم عدولی کرے گی تو وہ گناہ کا کام کرے گی ۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :

کسی آدمی کیلئے درست نہیں ہے کہ وہ کسی آدمی کو سجدہ کرے ، اگر کسی آدمی کا کسی آدمی کیلئے سجدہ کرنا درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ، اسلئے کہ اسکا حق بہت بڑا ہے ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شوہر کے سر سے پیر تک زخم ہو جس سے خون و پیپ بہہ رہا ہو ، پھر عورت آگے بڑھکر اسے اپنی زبان سے صاف کرے تو بھی اسکے حق کو ادا نہ کر پائے گی.

(صحيح الجامع : ٧٧٢۵)

فقط اللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 16 Bedi Se Interview Question Answer | Bihar Board Urdu Sawal Jawab

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 16 Bedi Se Interview | |Question Answer | Bihar Board Urdu Question Answer | Class 10 Urdu Question Answer  | Bihar Board Urdu Sawal Jawab | Bedi Se Interview | Bihar Board 10th Urdu Question Answer Chapter 16

#BSEB #10th #Urdu #GuessPaper #UrduGuide #BiharBoard #SawalkaJawab #اردو #مختصر_سوالات #معروضی_سوالات #بہار#  بیدی# اردو_سوال_جواب | Bihar Board 10th Urdu question Answer, 

Bihar 10th ka Math kaise banaye?

Matrice ka OMR Sheet kaise Bharein exam me?

BSEB 10th urdu Darakhashan Sawal o Jawab lesson 16.
BSEB 10th urdu Darakhashan Sawal o Jawab lesson 16.

بہار بورڈ درخشاں اردو سوال و جواب
بیدی سے انٹرویو 16

مختصر ترین سوالات۔

(1) انٹرویو لینے والوں کے نام بتائیے۔
جواب - عصمت چغتائی اور فیاض رفعت

(2) کس کا انٹرویو لیا گیا ہے؟
جواب - راجندرا سنگھ بیدی کا

(3) راجندرا سنگھ بیدی کس شہر میں پیدا ہوئے؟
جواب - لاہور

(4) بیدی کے پہلے افسانہ کا نام کیا ہے؟
جواب - مہارانی کا تحفہ

(5) بیدی کی موت کب ہوئی؟
جواب - 11 نومبر 1984 کو

(6) راجیندر سنگھ بیدی کی پیدائش کہاں ہوئی؟
جواب - ایک ستمبر 1915 کو لاہور میں

مختصر سوالات۔

(1) راجیندر سنگھ بیدی کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟
جواب - راجیندر سنگھ بیدی کی پیدائش یکم ستمبر 1915 کو لاہور میں ہوئی۔

(2) بیدی نے کن کن دفاتر میں کام کیے ؟
جواب - راجیندر سنگھ بیدی درج ذیل دفاتر میں کام کیے۔
آل انڈیا ریڈیو
اسٹیشن ڈائریکٹر
پوسٹ آفس

(3) بیدی لاہور کے کس محکمہ میں کام کرتے تھے؟
جواب - پوسٹ آفس

(4) عصمت آپا کی شخصیت پر پانچ جملے لکھیے۔
جواب - عصمت چغتائی اردو ادب کی مشہور و ممتاز افسانہ نگار اور ناول نگار ہے۔ وہ مشہور مزاح نگار عظیم بیگ چغتائی کی بہن تھی۔ اُن کی شاہکار کہانیوں اور ناولوں نے اردو ادب کے سرمایہ میں کافی اضافہ کیا ہے۔ دونوں اصناف میں فنی اعتبار سے اُن کا مرتبہ و مقام خاصا بلند ہے۔

(5) بیدی اور کرشن چندر میں پہلی ملاقات کہاں ہوئی تھی؟
جواب - پنجاب پبلک لائبریری میں

نوٹ۔ دسویں  جماعت کے اردو ( درخشاں ) کا سوال و جواب پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔ یہاں ہر مضمون پر تحریر پوسٹ کی جاتی ہے۔

Aashiyana-E-Haqeeqat

Share:

Tum is Nakab me Kitni Gandi Najar aarahi ho?

Ek Ba haya khatoon ke Parde par jab ek Modern Aurat ne Galat Comment dala.

जब एक गैर मुस्लिम लड़की ने बुरके पर उठाया सवाल?
बुरखा क्यों पहनती है मुस्लिम महिलाएं इसपर क्या कहता है इस्लाम?
आखिर क्या है मुस्लिम महिलाओं के बुर्का पहनने का राज? बुरके पर क्या कहता है इस्लाम, मुस्लिम औरतें बुरक़ा क्यों पहनती हैं, मुस्लिम महिलाएं बुरखा क्यों पहनती हैं?

ایک باحجاب خاتون میٹرو میں سوار ہوئی دروازے سے گزرتے ہوۓ اسکی چادر ایک جگہ اٹک گئی جس سے خاتون لڑکھڑائی۔

ایک خاتون جس نے نامناسب اور تنگ لباس پہنا ہوا تھا چيخ کر بولی يہ کيا کررہی ہو اور کیسا لباس پہنا ہوا ہے اس گرمی میں؟

میٹرو میں بيٹھے بقیہ افراد بھی متوجہ ہوۓ لیکن اس باحجاب خاتون نے جلدی سے خود کو سمیٹا اور اسی خاتون کے ساتھ جا کر بيٹھ گئی۔

جب میٹرو چل پڑی تو اس باحجاب خاتون نے اس خاتون کو کان میں کہا کہ يہ چادر میں نے تمہاری خاطر پہن رکھی ہے.

يہ سن کر اس خاتون نے کہا کہ ميری خاطر؟ میں نے تمہیں کب کہا کہ میری خاطر تم چادر پہنو اور اس گرمی میں پسینے سے شرابور ہو؟ اس نے کہا بالکل!

میں نے يہ لباس تمہاری خاطر پہنا ہے تاکہ اگر ایک دن تمہارا شوہر کہ جس نے تم سے نکاح کیا ہے اور عہد کیا ہے کہ وہ تمہارے علاوہ کسی اور خاتون کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھے گا کبھی تم سے بے وفائی نہ کرے اور میری طرف متوجہ نہ ہو۔ کبھی میرے حسن کی طرف مائل ہوکر اسکا دل تم سے اچاٹ نہ ہو اور تمہاری ازدواجی زندگی خراب نہ ہو، اسکی توجہ فقط تمہاری ذات تک محدود رہے اس لئے ميں نے اپنے اوپر سختی کرکے تمہارے گھر کو محفوظ کیا ہوا ہے میں گرمی کی شدت میں بھی اپنے جسم کی نمائش نہیں کرتی، تاکہ کوئی مرد اپنے گھر کی خواتین سے خیانت نہ کرے۔

اور يہ مت بھولو کہ میں بھی تمہاری طرح عورت ہوں میرا بھی دل کرتا ہے کہ لوگ میری تعریف کریں اور جب تک میں نظروں سے اوجھل نہ ہو جاؤں لوگ میرے حسن کی مدح کریں لیکن میرا بھی ایک شوہر ہے جس سے میں خیانت نہيں کرنا چاہتی کیونکہ میری نظر میں مجھ پر فقط میرے شوہر کا حق ہے اور میں اس حق میں خیانت نہیں کروں گی اگر اس عہد میں وفا کرتی ہوں تو میرا شوہر بھی مجھ سے کبھی خیانت نہیں کرے گا اور کسی خاتون کی جانب نظریں اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔
.........لیکن تم جیسی عورتوں نے جنکے گھروں کی حفاظت ہم اپنے حجاب سے کرتی ہیں، اپنے جسموں کی نمائش کر کے مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور اپنے حسن کی طرف لبھاتی ہیں، مردوں کی ایک ایک نظر کی بھیک مانگتی ہیں اب تم بتاؤ اعتراض مجھ پر کرنا چاہئے يا مجھے تم پر؟

يہ سن کر وہ خاتون شرمندہ ہوئی اور اس نے کہا کہ کبھی میں نے اس معاملے کو اس زاویے سے نہیں ديکھا تھا۔

اس حقیقت کو مغربی خاتون سمجھ چکی ہے اور وہ حجاب جیسی نعمت کو درک کر کے اسلام کی طرف مائل ہورہی ہے، مغرب میں خاندانی نظام تباہ و برباد ہوچکا ہے مرد کو عورت پر اعتماد نہیں اور عورت کو مرد پر اعتبار نہیں۔

آخر میں یہ کہنا بھی ضروری ہوگا کہ دین اسلام نے فقط عورت کو ہی حجاب کا پابند نہیں کیا بلکہ مرد کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نظریں جھکا کر رہیں۔

آجکل یہ ہمارے لیئے بہت بڑا المیہ ہے جس پہ سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کی ضرورت ہے۔۔

Share:

Jab Ek Modern Arab Muslim Ladki Ne England me Aadhi Raat ko Qurani Aayaton ki tilawat ki.

Ek Arab Muslim Ladki ka waqya
Ek Modern, liberal Arab Ladki ki kahani.

ایک عرب مسلمان لڑکی لندن میں زیرِ تعلیم تھی، ایک دن وہ اپنی سہیلی کے کسی تقریب میں گئی ، کوشش کے باوجود وہ وہاں سے جلدی نہ نکل سکی، جب وہ اس فنگشن سے فارغ ہوکر نکلی تو رات کافی دیر ہوچکی تھی..

اس کا گھر دور تھا، گھر جلدی پہنچنے کا ذریعہ زیرِ زمین چلنے والی ٹرین تھی، لیکن وہ ٹرین سے سفر کرنے سے کچھ خوف محسوس کرہی تھی کیونکہ برطانیہ میں اکثر رات کے وقت ٹرینوں اور اسٹیشنوں پر بہت سے جرائم پیشہ اور نشہ میں دھت افراد ہوتے ہیں، آئے روز ٹی وی چینلز اور اخبارات میں یہاں ہونے والی وارداتوں کا تذکرہ موجود ہوتا ہے...

چونکہ اس لڑکی کو زیادہ دیر ہوچکی تھی اور بس کافی وقت لے سکتی تھی ، اس لئے اس نے بہت سے خدشات و خطرات کے باوجود ٹرین میں جانے کا فیصلہ کر لیا، یہ بات پیشِ نظر رہے کہ یہ لڑکی دیندار نہیں تھی بلکہ بہت زیادہ آزاد خیال اور لبرل تھی...

جب وہ اسٹیشن پر پہنچی تو یہ دیکھ کر اس کے جسم میں خوف کی ایک سرد لہر دوڑ گئی کہ اسٹیشن بالکل سنسان ہے، صرف ایک شخص کھڑا ہے جو حلیہ سے ہی جرائم پیشہ لگتا تھا، وہ انتہائی خوفزدہ ہوگئی، پھر اس نے ہمت کی خود کو سنبھالا، قرآنی آیت کا ورد کرنا شروع کر دیا، اسے جو کچھ زبانی یاد تھا جسے ایک عرصے سے وہ بھولی ہوئی تھی ، سب کچھ پڑھ ڈالا... اتنے میں ٹرین آئی اور وہ اس میں سوار ہو کر بخیریت اپنے گھر پہنچ گئی ...

اگلے دن کا اخبار دیکھ کر وہ چونک اٹھی، اسی اسٹیشن پر اس کے روانہ ہونے کے تھوڑی دیر بعد ایک نوجوان لڑکی کا قتل ہوا اور قاتل گرفتار بھی ہوگیا...

وہ پولیس اٹیشن گئی ، پولیس والوں کو بتایا کہ قتل سے کچھ دیر پہلے وہ اس اسٹیشن پر موجود تھی، میں قاتل کو پہچانتی ہوں ، اس سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں، جب وہ مجرم کے سیل کے سامنے پہنچی تو اس سے پوچھا:" کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟"
اس نے جواب دیا:" ہاں پہچانتا ہوں" رات کو تم بھی اس اسٹیشن پر آئی تھیں..

لڑکی نے پوچھا:" پھر تم نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟"
وہ کہنے لگا:" میں تمہیں کیسے نقصان پہنچاتا؟ ! تمہارے پیچھے تو دو انتہائی صحتمند اور قدآور باڈی گارڈ تھے"

یہ سن کر لڑکی حیران ہوگئ، اسے یقین ہوگیا کہ قرآن کی آیتوں کا ورد کرنے کی وجہ سے اللّٰہ کی طرف سے اسکی حفاظت کی گئی.. وہ وآپسی پر اللّٰہ کے تشکر اور احسان مندی کے جذبات سے مغلوب تھی، اللّٰہ کی مدد اور نصرت پر اس کا بھروسہ مزید بڑھ گیا تھا..

"اگر ہم اپنے دل کی گہرائیوں سے اللّٰہ کو پکاریں اور اللّٰہ کی تائید و نصرت پر بھروسہ رکھیں تو ہم اللّٰہ کی رحمت سے کبھی محروم نہیں رہیں گے۔".

Allah is the greatest only believe on Allah..

Share:

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 15 Maulvi Syed Maqbool Ahmad Samdani Ke Naam Question Answer | Bihar Board Urdu Sawal Jawab

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 15 Maulvi Syed Maqbool Ahmad Samdani Ke Naam | Mehdi Afaadi | Question Answer | Bihar Board Urdu Question Answer | Class 10 Urdu Question Answer  | Bihar Board Urdu Sawal Jawab

Maulvi Syed Maqbool Ahmad Samdani Ke Naam | Bihar Board 10th Urdu Question Answer Chapter 15

#BSEB #10th #Urdu #GuessPaper #UrduGuide #BiharBoard #SawalkaJawab #اردو #مختصر_سوالات 

BSEB 10th Urdu Darakhshan Chapter 15 , bihar board urdu Swal Jawab, Urdu question Answer, Matric Urdu Question Answer, Darakhshan Swal Jawab, Urdu gue
B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 15 Maulvi Syed Maqbool Ahmad Samdani Ke Naam

15 مولوی سید مقبول احمد صمدانی کے نام 
مہدی افادی

مختصر ترین  سوالات

(1) مہدی افادی کب اور کہاں پیدا ہوئے؟
جواب - مہدی افادی کی پیدائش  1828 میں گورکھپور میں ہوئی ۔

(2) مہدی افادي نے کتنی شادیاں کی تھی؟
جواب - تین

(3) مہدی آفادی کو اردو کے علاوہ کن کن زبانوں میں مہارت حاصل تھی؟
جواب - انگریزی اور فارسی میں

(4) مہدی افادی کا اصل نام کیا تھا ؟
جواب - مہدی حسن

(5) مہدی افادی کی بیگم کا نام کیا تھا اور وہ کس نام سے مشہور تھی؟
جواب - مہدی افادی کی تیسری بیگم کا نام عظیم النسا تھی جو بیگم مہدی کے نام سے معروف تھی۔

(6) مہدی افادی کیسے گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے؟
جواب - اُن کا تعلق معزز شیوخ گھرانہ سے تھا۔

(7) مہدی حسن کے والد کیسے شخص تھے؟
جواب - اُن کے والد انتہائی مذہبی آدمی تھے۔ وہ پیشے (Perofessional)  کے اعتبار سے کورٹ انسپکٹر تھے۔

(8) مہدی حسن کیسے شخص تھے؟
جواب - مہدی حسن کے مضامین روشن خیالی کا تصوّر فراہم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اُن میں جذبات اور احساسات کی کیفیات بھی بے پناہ ہیں۔ ان کے مضامین دلکشی بہت زیادہ ہے۔  مہدی کی نظر حسن و عشق کے معاملات پر رہی تھی۔ چناچہ اُنہونے ایک مضمون بعنوان فلسفہ حسن و عشق  یونانیوں کی نظر سے مرتب کیا ہے۔

مختصر سوالات۔

(1) مکتوب کی تعریف کیجئے۔
جواب - مکتوب یا خطوط نگاری خیریت اور ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کا ایک روایتی ذریعہ ہے۔ مکاتب یا خطوط بلکل ذاتی نوعیت کے ہوتے ہے کیونکہ اس میں لکھنے والا اکثر اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور اپنے جذبات کو خطوط کی بیساکھی کے سہارے مخاطب تک پہچانے کی کوشش کرتا ہے۔ مکتوب نگار اپنے احوال و کوائف کے ساتھ ساتھ اپنی روایات، اپنی معاشرتی اور عصری حسیات تک اس میں مقید کر لیتا ہے، جو بعد میں ایک دستاویز کی شکل بن کر محفوظ ہو جاتے ہیں۔

(2)  مہدی افادی کے بارے میں پانچ جملے لکھیے۔
جواب - مہدی افادی کا اصل نام مہدی حسن ہے۔ اُن کی پیدائش 1828 میں گورکھپور میں ہوئی۔ اُن کا تعلق معجز شیوخ گھرانہ سے تھا۔ اُن کے والد انتہائی مذہبی شخص تھے۔ اُن کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ اردو کے علاوہ انگریزی اور فارسی زبان  میں بھی مہارت حاصل رکھتے تھے۔

(3) مہدی نے اپنے خط میں کس کو مخاطب کیا ہے اور وہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
جواب - مہدی افادی اس خط میں اپنے دوست مولوی سید مقبول احمد صمدانی کو مخاطب کیا ہے۔
اس خط میں وہ اپنے دوست سے کہنا چاہتے ہیں کے ہم دونوں حاجی ہوئے جاتے ہیں آپ کے انداز سے ادبی حیثیت سے میری کوششوں کا ، اگر وہ لائق اعتراف ہوں۔ ایک ایسا قیمتی صلہ ہے جس سے دنیا کا سب سے بڑا سے بڑا مصنف بھی مستغنی نہیں ہو سکتا۔ یاد ایّام سے آپ نے میرے دل پر چوٹ لگائی۔ اب پہلے جیسا جوانی کہاں؟ ساتھ ہی انہونے اس خط میں اپنے بڑھاپے کا بھی اظہار کیا ہے اور اپنے دوست کے بڑھاپے میں ملنے والوں کی کمی نہیں ہونے سے خوش ہوئے ہیں اور بعد کے دنوں میں آکر ملنے کی بات بھی کہی ہے۔

Share:

BSEB 10th Urdu Darakhashan Question Answer. (Chapter 14)

BSEB 10th urdu Darakhashan Sawal o Jawab.

Bihar Matric Urdu question answer lesson 14
Objective Question Answer 10th Urdu.

14   اپنی بیٹی صغریٰ کے نام -  شہباز

معروضی سوالات

(1) شہباز کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟
جواب - شہباز کی پیدائش 1860 میں "موضع سر میرا بارہ" میں ہوئی۔

(2) شہباز کی کتنی شادیاں ہوئے اور اُنکی بیویوں کے نام لکھیئے۔
جواب - اُنکی دو شادیاں ہوئی۔
پہلی بیوی کا نام شمس النسا خاتون اور دوسری بیوی کا نام اشرف النسا تھا۔

(3) شہباز کی دو کتابوں کے نام لکھے۔
جواب - مقالات جمالیا
   مقدمہ خیالات آزاد

(4) شہباز نے شاعری میں کن شعراء کی تقلید کی ہے؟
جواب - نظیر اکبر آبادی، الطاف حسین حالی اور اکبر وغیرہ۔

(5) شہباز نے شامل نصاب مکتوب میں جس بچی کو مخاطب کیا ہے اس کا نام لکھیے۔
جواب - صغریٰ

مختصر سوالات

(1) شہباز کی تصنیفات پر روشنی ڈالیے۔
جواب - شہباز نے مختلف اصناف پر طبع آزمائی ہے۔
اُن کے کلام میں رباعیات، خیالات شہباز ، سالگرہ مبارک حضور نظام الدین ، خدا کی رحمت وغیرہ جیسی نظمیں ہے۔ اس کے علاوہ کلیات نظیر اکبر آبادی، مصفہ ڈاکٹر نذیر احمد، مقدمہ خیالات آزاد وغیرہ اُن کی تصنیفات و تالیفات میں شامل ہے۔ شہباز بیرونی مغربی کی دعوت عام دیتے تھے۔

(2) شہباز کے بارے میں پانچ جملے لکھیے۔
جواب - شہباز کا پورا نام محمد عبدالغفور اور شہباز تخلص ہے۔ شہباز موضع سر میرا بارہ کے رہنے والے تھے۔ اُنہونے بہت کم سنی میں لکھنا شروع کیا۔
20 سال کی عمر میں ان کی شادی شمس النسا سے ہوئی۔ ان کی بیگم دس سالوں کی رفاقت ہی دے پائی۔ اس کے بعد انہوں نے اشرف النسا سے 1898 میں کیا۔ ان کی وفات 30 نومبر 1908 کو ہوئی۔

(4) شامل نصاب خط کیا شہباز کا ذاتی خط ہے؟
جواب -  شامل نصاب خط شہباز کا ذاتی خط ہے۔ انہونے یہ خط اپنی بیٹی صغریٰ کے نام لکھا ہے۔ انہونے اس خط میں بشریٰ کو پڑھانے کے لیے صغریٰ کو کہا ہے۔ اس خط میں شہباز اپنی بچوں کی تعلیم و تربیت پر زور دیتے ہوئے یہ بھی بتایا ہے کہ میں نے تمہاری ماں کو پڑھایا اور  وہ اب تمہیں پڑھا رہی ہے۔ تم بھی بشریٰ کو پڑھاؤ تو کیا مضایقہ۔ ساتھ ہی انہونے یہ بھی کہا ہے حقوق اولاد جب تم تمام کر لو گی تو میں تمہیں انعام دوں گا۔ راہ نجات کے تمام ہونے میں ابھی بہت دیر ہے اس کے انعام کا وعدہ ابھی سے کرنا فضول ہے۔

(5) شہباز نے اپنی بیٹی کو جس بات کی تلقین کی ہے اسے اجاگر کیجئے۔
جواب - شہباز نے اپنی بیٹی کو درج ذیل باتوں کی تلقین کی ہے۔
بشریٰ کو تم روز مرۃاللوم پڑھاتی رہو تو اچھی بات ہے۔ میں نے تمہاری ماں کو پڑھایا اور وہ اب ما شاء اللہ تم کو پڑھاتی ہے، تم بھی اگر بشریٰ کو پڑھاؤ تو کیا مضائقہ ہے؟ خدا نے چاہا تو میں محرم میں ضرور آؤنگا اس وقت کہیں ایسا نہ ہو کے تم میرے سامنے ٹھیک سے کتاب نہ پڑھ سکو۔ اخلاق ہندی تم روز نہیں پڑھتی یہ بات اچھی نہیں اگر چھوڑ دو گی تو بھول جاؤ گی اور کی کرائی محنت برباد ہوگی۔

Share:

Islam Aane se Pahle Saudi Arabia me Ladkiyo ko Zinda Dafan kar diya jata hai?

  Islam ke aane se pahle Ladkiyo ko kis tarah Zinda Dafan kar diya jata tha?
Allah ke Nabi ke Aane se pahle Ladkiyo ko Kaise Dafan kar diya jata tha?
अल्लाह के रसूल के आने से पहले महिलाओं को स्थिति कैसी थी?
इस्लाम के आने से पहले औरतों की क्या दुर्दशा थी?

😑 ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺟﮩﺎلت ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ۔
ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺑﭽﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﭨﮑﮍﺍ ﺗﮭﻤﺎ ﺩﯾﺘﮯ یا ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮔﮍﯾﺎ ﺗﮭﻤﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎﺩﯾﺘﮯ ۔
ﺑﭽﯽ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﮭﯿﻞ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﮍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﭨﮑﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻠﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺗﺐ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺘﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺑﭽﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﯿﻞ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﻣﭩﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯾﺘﯽ ﭼﯿﺨﺘﯽ ﭼﻼﺗﯽ ﻣﻨﺘﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﻇﺎﻟﻢ ﺑﺎﭖ ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﺩﯾﺘﺎ ۔ﺍﺱ ﻗﺒﯿﺢ ﻓﻌﻞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺁﺗﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﮐﯽﭼﯿﺨﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺗﮏ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﺮﺗﯽ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﻇﺎﻟﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﺎﻟﮯ ﭘﮍے ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻧﺮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ.
ﺑﻌﺾ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﮔﻨﺎﮦ ﺳﺮﺯد ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﻨﺎﯾﺎ کہ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻟﮯ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﭘﮑﮍ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﻟﻤﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻭﮦ ﺳﺎﺭا ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽﺗﻮﺗﻠﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ۔
ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭا ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋشوں ﮐﻮ ﺑﮩﻼﺗﺎ ﺭﮨﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﺍسے ﻟﮯ ﮐﺮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﯽ ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﯿﭽﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﯾﺖ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ. ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ۔
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻨﮭﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﭩﯽ ﮐﮭﻮﺩﻧﮯ ﻟﮕﯽ ۔ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﺎﭖ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﯾﺖ ﮐﮭﻮﺩﺗﮯ ﺭﮨﮯ ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯﺍﺱ ﺩﻥ ﺻﺎﻑ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻦ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺭﯾﺖ ﮐﮭﻮﺩﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﭙﮍﮮ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺌﮯ ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻗﺒﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﭙﮍﮮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﻗﺒﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﭩﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯼ ۔
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻨﮭﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﻟﮕﯽ ۔
ﻭﮦ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﺘﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﮩﻘﮩﮧ ﻟﮕﺎﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﮐﺮﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮨﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﮭﻮﭨﮯ ﺧﺪﺍﻭں ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﯿﭩﺎ ﺩﯾﮟ۔
ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮨﻮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ
" ﺍﺑﺎ ﺁﭖ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ بهی قربان ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ"؟
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﭘﺘﮭﺮ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﭘﮭﯿﻨﮑﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﻭﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﭼﯿﺨﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﺩﮨﺎئیاں ﺩﯾﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﺩﯾﺎ. ﯾﮧ ﻭﮦ ﻧﻘﻄﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺭﺣﻤﺖ للعالمین ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺿﺒﻂ
ﺑﮭﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ وسلم کی ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ ﺑﻨﺪﮪ ﮔﺌﯽ۔
ﺩﺍﮌﮬﯽ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﺳﮯ ﺗﺮ ﮨﻮﮔﺌﯽ ۔
ﺍﻭﺭ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺣﻠﻖ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻻ ﺑﻦ ﮐﺮ ﭘﮭﻨﺴﻨﮯ ﻟﮕﯽ ۔
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺩﮬﺎﮌﯾﮟ ﻣﺎﺭ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺻﻠﯽﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ ﻟﮯ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ.

Share:

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 13 Syed Shah Karaamat Hussain Hamdani Ke Naam Question Answer | Bihar Board Urdu Sawal Jawab

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 13 Syed Shah Karaamat Hussain Hamdani Ke Naam | Mirza Ghalib | Question Answer | Bihar Board Urdu Question Answer | Class 10 Urdu Question Answer  | Bihar Board Urdu Sawal Jawab | Syed Shah Karaamat Hussain Hamdani Ke Naam | Bihar Board 10th Urdu Question Answer Chapter 13

BSEB 10th Urdu Darakhshan Chapter 13
B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 13

#BSEB #10th #Urdu #GuessPaper #UrduGuide #BiharBoard #SawakJawab #اردو #مختصر_سوالات #معروضی_سوالات #بہار#  Syed ShahKaramatHussanHamdaniKeNam# اردو_سوال_جواب | Bihar Board  #MirzaGhalib 10th Urdu question Answer, 

13  سیّد شاہ کرامت حسین کرامت ہمدانی کے نام

مرزا غالب

معروضی سوالات

(1) غالب کی پیدائش کب ہوئی؟
جواب - 1797 میں
(2) غالب کہاں پیدا ہوئے؟
جواب - اپنے نا نہال آگرہ میں

(3) غالب کے خطوط کے کسی ایک مجموعہ کا نام لکھیے۔
جواب - عود ہند

(4) غالب نے کتنے خطوط لکھیں؟
جواب - 900

مختصر سوالات

(1) مکتوب نگاری کے فن سے اپنی واقفیت کا اظہار کیجئے۔
جواب - مکتوب یا خطوط نگاری خیریت اور ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کا ایک مو ثر اور روایتی ذریعہ ہے۔ دور حاضر میں یہ ایک مقام پر اس لیے بھی مستحکم ہوا کے اسے اور ذاتی طور پر اعتبار بخشا گیا۔ عہد مغل میں فارسی میں مکتوب نویسی کا رواج تھا۔ مکاتب یہ خطوط بلکل ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں کیونکہ اس میں لکھنے والا اکثر اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔

(2) غالب نے اپنے خطوط میں کن باتوں کا اظہار کیا ہے؟
جواب - غالب اپنے خطوط میں اپنے ضعیفی اور دوستوں کی خدمت گذاری میں قاصر نہیں رہنے کی بات کہیں ہے۔

(3) غالب نے اپنے خط میں دوستی اور محبت کا اظہار کن لفظوں میں کیا ہے؟
جواب - غالب اپنے خط میں دوستی اور محبت کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے۔ میں دوستوں کی خدمت گذاری میں کبھی قاصر نہیں رہتا۔ اسے تکلیف کی کیا ضرورت تھی - میں یونہی خدمت گذاری کو حاضر ہوں۔ جب چاہو اپنا کلام بھیجو۔

(5) غالب کے خطوط کی زبان پر پانچ جملے لکھیے۔
جواب - غالب نے اپنے مکتوب کے ذریعے اردو کو بیش بہا دولت سے نوازا ہے۔ اُن کے مکتوب میں بے تکلف اور سادگی سے لبریز ماحول ملتا ہے۔ لہجے کی تندی اور ظریفانہ رنگ سے اُن کے خطوط میں ایک خاص انداز نظر پیدا ہو گیا ہے۔ اُن کے خطوط بلکل مکالمہ انداز کی ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کے میں مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے۔

Share:

School fee maf karane ke liye Headmaster ko letter kaise likhein?

School fee maaf karane ke liye Headmaster ko Application kaise likhe?
स्कूल फीस माफ कराने के लिए अपने प्रधानाध्यापक को चिट्ठी कैसे लिखें उर्दू में?
उर्दू में अपने हेड मास्टर को कैसे चिट्ठी लिखे ?

اپنے ہیڈ ماسٹر کے نام فیس معاف کرنے کی ایک درخواست لکھیے

جنابِ عالی! 
                                                               
گزارش ہےکہ میں آپ کی توجہ اس امر کی اور راغب کروانا چاہتا ہوں میں آپ کے اسکول میں کلاس دسویں جماعت کا ایک طالب علم ہوں میرے والد صاحب کی آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے.
کثیر گھریلوں اخراجات ہونے کی وجہ سے میرا باپ اس سال کی میری سالانہ فیس ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے اس لئے آپ صاحب سے التجا کی جاتی ہے کہ اس سال کی میری سالانہ فیس انسانی ہمدردی کے ناطے معاف فرمائی جائیں تاکہ میں اپنی مزید تعلیمی سرگمیاں بنا کسی رکاوٹ کے جاری و ساری رکھ سکوں.
آپکا فرماں بردار شاگرد

نام۔۔۔
رول نمبر۔۔۔
درجہ۔۔۔
مورخہ۔۔۔

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS