find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 39)

Jab Musalmanon ne Andalas ko fateh kiya?
Char Hazar Lashkar (4,000) Se Muqabla Karne wala Shakhs Aaj 15,000 Ke lashkar ke Sath hote hue bhi Hamla Kyu nahi kar raha hai?
<فاتح اندلس>

          طارق بِن زِیاد

          تحریر:- صادق حسين

    قسط نمبر 39________Part 39 ________
تدمیر کی چالاکی____عبدالعزیز اور اس کے لشکر نے رات نہایت اطمینان سے گزاری-
چونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ کہیں عیسائی رات کو قلعہ سے باہر نکل کر شب خون نہ ماریں، اس لیے ایک بڑا دستہ پہرے پر مقرر کر دیا گیا اور وہ ساری رات گشت کرتا رہا-
صبح ہونے ہی سب نے جماعت کے ساتھ نماز پڑهی اور نماز پڑھتے ہی مسلح ہو کر قلعہ کی طرف چلے-
ابهی وہ فصیل کے قریب بھی نہ پہنچے تھے کہ عیسائیوں کا ٹڈی دل لشکر چاروں طرف فصیل کے اوپر پھیل گیا-
عبدالعزیز اور تمام مسلمان حیران تھے کہ قلعہ کے اندر اس قدر لشکر ہوتے ہوئے تدمیر اتنا تھوڑا لشکر لے کر ان کے مقابلے کے لئے کیوں آیا تھا؟ "
عیسائیوں کے سپاہی چاروں طرف فصیل پر کھڑے تھے اور اس قدر تهے کہ ان کا شمار نہ ہو سکتا تھا -
کم سے کم دس پندرہ ہزار ہوں گے-
مسلمانوں کو یہ بھی حیرت تھی کہ تدمیر اتنا عظیم لشکر رکھتے ہوئے محصور ہو کر کیوں لڑ رہا تھا، جو شخص صرف چار ہزار سپاہیوں سے مسلمانوں کا مقابلہ کر سکتا ہے وہ دس پندرہ ہزار لشکر کے ہوتے ہوئے کیوں نہیں لڑ رہا.
کچھ دیر مسلمانوں نے کھڑے ہو کر اس بات کا انتظار کیا کہ عیسائیوں کی طرف سے جنگ کا آغاز ہو تو وہ بھی لڑائی شروع کریں.
لیکن عیسائی سپاہی تھے کہ خاموش کھڑے تھے کمانیں ان کے ہاتھوں میں تهیں اور ان میں تیر جڑے ہوئے تھے غالباً وہ اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ جونہی مسلمان آگے بڑھیں وہ تیروں کی بارش کر دیں-
تهوڑی انتظار کے بعد عبدالعزیز نے اللہ اکبر کے تین نعرے لگائے تیسرے نعرے کی تکرار تمام لشکر نے کی-
اب مسلمانوں نے ہر طرف سے بڑھنا شروع کر دیا عبدالعزیز باب جبل پر تهے جو شمالی جانب تھا -
جنوب کی طرف عثمان اور مغرب کی سمت حبیب بن عبیدہ اور مشرق کی طرف ادریس بن میسرا تهے -
یہ تینوں سردار نہایت پر جوش اور تجربہ کار تھے -
متعدد لڑائیوں میں شریک ہو کر فتح یاب ہو چکے تھے -
مگر بڑے استقلال اور نہایت ضبط سے انہوں نے ڈھالوں کا سایہ کر کے اپنے آپ کو اور گھوڑوں کو محفوظ کر لیا تھا-
عبدالعزیز گھوڑے پر سوار ایک ہاتھ میں علم اور دوسرے میں تلوار بلند کیے سب سے آگے جا رہے تھے -
ان کی نگاہیں دروازے پر تهیں -
غالباً وہ دروازے پر پہنچ کر اسے توڑ ڈالنے کی فکر میں تهے -
دروازہ کهلا اور ایک بوڑها آدمی جس کی لمبی اور سفید ڈاڑھی تهی پادریوں کا سا جنہوں پہنے اور سفید علم ہاتھ میں لئے ہوئے پھاٹک سے نکلا-
مسلمانوں نے سمجھ لیا کہ وہ قلعے والوں کا قاصد ہے، عبد العزیز اسے دیکھتے ہی رک گئے اور ان کے رکتے ہی تمام لشکر بھی رک گیا-
بوڑها قاصد گهوڑا دوڑاتے ہوئے ان کی طرف آ رہا تھا اس کے علم کا سفید پھریرا ہوا میں لہرا رہا تھا -
وہ عبدالعزیز کے پاس آ کر رکا اور عربی زبان میں کہا-
میں قاصد ہوں اور آپ کے سردار عبد العزیز سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں - "
عبدالعزیز نے کہا میرا نام ہی عبدالعزیز ہے کہو کیا کہنا ہے میں تمہارے سامنے موجود ہوں.
قاصد: میں صلح کا پیغام لے کر آیا ہوں -
عبد العزیز: میں تم کو خوش آمدید کہتا ہوں.
قاصد کیا آپ مہربانی کر کے اپنے تمام لشکر کو یورش کرنے سے روک لیں گے جب تک کہ میں اور آپ گفتگو مصالحت میں مصروف رہیں؟
عبد العزیز: ہاں میں روک دوں گا -
قاصد: تو مہربانی کر کے روک دیجئے-
عبد العزیز نے فوراً تین سواروں کو دوڑایا اور انہیں ہدایت دے دی کہ وہ ہر سہ اطراف کے افسروں کو یہ پیغام دیں کہ جب تک ان کے پاس دوسرا حکم نہ پہنچے وہ جس جگہ پہنچ گئے ہیں اسی جگہ پر رک جائیں-
سواروں کو روانہ کرتے ہی عبد العزیز نے قاصد سے کہا-
کہو اب تم کیا کہنا چاہتے ہیں قاصد: پہلے میں یہ عرض کروں گا کہ میں اہل قلعہ کی طرف سے مختار کل بن کر آیا ہوں گویا جن شرائط کو مناسب سمجھوں گا ان پر صلح نامہ لکھ دوں-
عبدالعزیز: جب تو تدمیر نے عقلمندی کی ہے.
قاصد: تدمیر زی فہم اور خدا ترس آدمی ہے وہ نہیں چاہتا کہ خون ریزی کا بازار گرم ہو-
عبدالعزیز خون ریزی تو ہم مسلمانوں کو بھی پسند نہیں ہے ہماری تلواریں بہ امر مجبوری میانوں سے باہر نکلتی ہیں -
قاصد: یہ درست ہے اور اب میں عرض کروں گا کہ صلح کی شرائط ایسی ہونی چاہیے کہ جو فیاض اور شجاع مسلمانوں کی فیاضی اور دریا دلی نیز صلح جو جنرل تدمیر کی توقیر و منزلت کے شایان شان ہوں.
عبدالعزیز: اطمینان رکھو ہم غیر مناسب شرائط پیش نہیں کریں گے -
قاصد: اچھا تو فرمائیے کہ کن شرائط پر صلح ہو سکتی ہے ۔
عبد العزیز سب سے پہلی بات تو یہ کہ تدمیر اور تمام قلعہ والے مسلمان ہو جائیں اسلام قبول کرنے سے وہ عالم اسلام کے بهائی بن جائیں گے نیز اسلامی حکومت میں بھی انہیں وہی حقوق حاصل ہو جائیں گے جو ہمیں حاصل ہیں.
قاصد: معاف کیجئے یہ تو نا ممکن ہے.
عبدالعزیز: تو اسلامی حکومت کے تابع دار بن جاؤ اور حفاظت کے صلہ میں حکومت اسلام کو جزیہ دو-
: عبدالعزیز: تو اسلامی حکومت کے تابع دار بن جاؤ اور حفاظت کے صلہ میں حکومت اسلام کو جزیہ دو-
قاصد: اگر یہ بات منظور کر لی جائے تو ہم پر کوئی اور سختی تو نہ ہو گی؟
عبدالعزیز: بالکل نہیں!
قاصد ہماری مذہبی آزادی.
عبدالعزیز ہاں تمہارے مزہب میں کوئی دست اندازی نہ کی جائے گی -
قاصد: گرجے محفوظ رہیں گے؟
عبدالعزیز قطعی محفوظ رہیں گے!
قاصد اور جزیہ کس قدر ہو گا؟
عبدالعزیز بہت معمولی تدمیر اور اس کے افسران کو ایک ایک دینار سالانہ چار پیمانے جو گیہوں چار پیمانے شربت اور شہد اور ہر قسم کا روغن چار چار پیمانے دینا ہو گا اور عوام کو اس کا نصف ادا ہو گا -
قاصد ہمیں منظور ہے.
عبدالعزیز ان باتوں کا حلف دینا ہو گا کہ ہم مسلمانوں سے وفاداری کریں گے ہمارے کسی دشمن کو پناہ نہیں دیں گے ہمارے دشمنوں کی جو بات تمہیں معلوم ہو جائے تم ہمیں فوراً آگاہ کرو گے اور. تم میں سے جو لوگ اپنی خوشی سے مسلمان ہو جائیں گے، ان پر سختی نہ کرو گے اور نہ انہیں ستاوں گے -
قاصد : ہم ان باتوں کا حلف اٹھائیں گے اور ان پر قائم رہیں گے -
عبدالعزیز ہمارا ایک افسر معہ دو سو سواروں کے تمہارے قلعے میں رہے گا جن کے اخراجات تمہارے ذمہ ہوں گے اور ان کی حفاظت کے تم ہی ذمہ دار ہو گے-
قاصد : ہمیں یہ بھی منظور ہے-
عبدالعزیز اچھا نامہ لکھ لو-
قاصد : بہتر ہے -
عبدالعزیز اتنے میں کہ صلح نامہ لکھا جائے تم تدمیر کو بلا لاو کیونکہ صلح نامے پر اس کے ہی دستخط ہوں گے-
قاصد : آپ صلح نامہ تیار کیجئے میں اس کو بلا لوں گا!
اب عبدالعزیز نے اپنے خیمے کے سامنے جا کر صلح نامہ تیار کروانا شروع کیا-
یہ صلح نامہ تمام تاریخوں میں مرقوم ہے ہم اس کا اقتباس ذیل میں درج کئے دیتے ہیں-
شرائط صلی میاں عبدالعزیز بن موسیٰ بن نصیر و تدمیر بن گو یدوز بادشاہ ارض تدمیر خدائے ذوالجلال و جبار اور کریم کے نام سے عبدالعزیز اور تدمیر یہ صلح نامہ لکھتے ہیں وہی اس کا پورا کرنے والا اور نگہبانی کرنے والا ہے-
تدمیر کی حکومت بدستور قائم رہے گی.
عرب اس کی رعایا سے کی تمام رعایا کو مذہبی آزادی ہو گی اور کبھی ان کے مذہبی رسوم میں دخل اندازی نہیں کی جائے گی نہ ان کے گرجے جلائے جائیں یا منہدم کئے جائیں گے اور نہ ان سے کوئی بیگار لی جائے گی نیز تدمیر اور اس کی رعایا کو درج زیل شرائط کا پابند رہنا پڑے گا -
1.ہمارے دشمنوں کی کوئی بات نہیں چھپائیں گے.
2.ہمارے دشمنوں کو پناہ نہیں دیں گے نہ ان کی مدد کریں گے -
3 . ہمیشہ مسلمانوں اور اسلامی حکومت کے وفادار رہیں گے -
4 . جزیہ سال بہ سال ادا کریں گے -
مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہیں کریں گے -
جو لوگ مسلمان ہو جائیں گے ان پر سختی نہیں کی جائے گی -
7.
مسجدوں کے لیے جگہ دیں گے اور ان کی تعمیر میں مداخلت نہیں کریں گے نہ ان کی بے حرمتی کریں گے -
8.جو مسلمان قلعہ میں رہیں گے ان کے ساتھ دشمنی کریں گے نہ فریب کریں گے جب یہ صلح نامہ تیار ہو گیا تو عبدالعزیز نے کہا.
اب تم تدمیر کو بلا لاو تا کہ وہ بھی صلح نامہ کی شرائط پڑھ کر دستخط کر دے-"
قاصد : بہتر پہلے آپ دستخط کر دیں پھر میں ان کو بلا لوں گا!
عبد العزیز دستخط اسی وقت ہوں گے جب وہ آ کر یہ پڑھ لیں گے-
قاصد نے فوراً اپنی ڈاڑھی کھینچ کر الگ کر دی اور جبہ بھی اتار ڈالا اب عبدالعزیز اور دوسرے مسلمانوں نے اسے دیکھا-
وہ تدمیر ہی تھا تمام مسلمان اور عبدالعزیز اسے دیکھ کر نقش بدیوار اور آئینہ دار حیران رہ گئے_______تدمیر کی دانش مندی______
 
________

تدمیر کی دانشمندی____تدمیر کی ہوشیاری کا تذکرہ تمام تاریخوں میں مذکور ہے-
عیسائی اور عربی مورخین نے بالتفصیل اسے لکھا ہے اور اس کی ہوشیاری پر اسے داد دی ہے -
اس میں شک نہیں کہ اس نے نہایت جرات اور ہمت سے کام لیا-
دشمنوں کے بیچ میں اس طرح چلے آنا نہایت شجاعت و بسالت کا کام. عبدالعزیز اور ان کے پاس بیٹھ والے مسلمان بھی اس کی ہوشیاری اور ہمت کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے-
عبدالعزیز نے اس سے کہا-"
تدمیر اس میں شک نہیں کہ تم نہایت دانائی اور بڑی جرات سے کام لیا ہے مگر اس کے باوجود کچھ بیوقوفی بھی کی ہے-"
تدمیر : وہ کیا؟ "
عبدالعزیز: تم خوب جانتے ہو کہ مسلمانوں کے ساتھ تم نے آ کر مقابلہ کیا تھا-
تدمیر : ہاں میں جانتا ہوں!
عبد العزیز: اور تم نے اسمٰعیل کو گرفتار کیا تھا-
تدمیر : جی ہاں!
عبد العزیز پهر تم نے شاہ رازرق کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے جنگ کی.
تدمیر : بے شک یہی درست ہے-
عبدالعزیز پهر تم نے میرے لشکر کے ساتھ مقابلہ کیا.
تدمیر : یہ تو کل کی بات ہے -
عبدالعزیز کیا تمہاری ان باتوں کو دیکھتے ہوئے ہم سب تمہارے خون کے پیاسے نہیں؟
تدمیر : بے شک ہیں -
عبدالعزیز تو کیا دشمنوں کے نرغے میں اس طرح چلے آنا اور اپنے آپ کو ظاہر کر دینا عقل مندی ہے؟
تدمیر : مگر آپ جانتے ہیں کہ میں نے ایسا کیوں کیا!
عبد العزیز نہیں.
تدمیر : تو مجھ سے سنئے مجھے بالکل یقین ہو چکا ہے کہ مسلمان صادق القول اور عہد پورا کرنے والے ہیں چنانچہ صلح کی دستاویزات مکمل ہو گئی تو میں نے ایسا کر دیا -
عبدالعزیز اچھا اب دستاویزات لے کر اس پر دستخط کر کر دو.
تدمیر نے دستخط کر دیئے اور کہا کہ مہربانی کر کے اس کی ایک نقل مجھے بھی دے دیجئے-'
عبدالعزیز اچھا
انہوں نے اس کی ایک نقل کرا کے اس کے حوالے کی اس نے کہا اب ہم آپ کی دعوت کرنا چاہتے ہیں.
عبدالعزیز: ہمیں منظور ہے لیکن اگر تم نے کوئی فریب دیا تو؟
تدمیر : اطمینان رکھئے میں فریب کر ہی نہیں سکتا!
عبد العزیز کس وجہ سے؟
تدمیر آپ وجہ کل قلعہ میں آ کر معلوم ہو جائے گی!
عبد العزیز مگر ہم شرط پر قلعہ کے اندر جا سکیں گے.
تدمیر : کس شرط پر؟
عبدالعزیز تم قلعہ کے تمام دروازے کھلے رکھو گے -
تدمیر : مجھے منظور ہے دروازے صبح ہی کهلوا دوں گا -
تدمیر : بہت اچھا اب ہم کو دعوت منظور ہے.
تدمیر نے اٹھنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ غلام نے آ کر کہا حضور کهانا تیار ہے لہٰذا کها کر جائیے گا -
تدمیر : بہت بہتر-
تهوڑی دیر میں غلام کهانا لا کر چن دیا کهانا نہایت سادہ تها -
دونوں نے دوستوں کی طرح بیٹھ کر کهانا کهایا کهانا کها کر تدمیر اٹها سلام کر کے چلا گیا-
اس کے جاتے ہی عبدالعزیز نے عثمان حبیب اور ادریس کے پاس قاصد روانہ کر دیا کہ تدمیر کے ساتھ صلح ہو گئی ہے تینوں سردار اپنا اپنا لشکر لے کر خیموں میں واپس آ گئے.
چونکہ اب صلح ہو گئی تھی اس لیے مسلمانوں نے کمریں کهول دیں ہتھیار اتار لئے اور کهانا کها کر میدان میں پھیل گئے-
وہ دس بیس آدمیوں کے گروہوں میں تقسیم ہو کر جگہ جگہ سبزہ زار پر بیٹھ گئے اور مختلف کاموں میں مصروف ہو گئے.
وہ دن انہوں نے قلعہ کے باہر کھلے میدان میں گزارا.
دوسرے دن آفتاب نکلتے ہی قلعہ کے تمام دروازے کهل گئے اور کچھ ہی دیر میں تدمیر چند سواروں کے ساتھ پھاٹک سے نکل کر اسلامی لشکر کی طرف چلا -
مسلمانوں نے پھاٹک کھلتے اور اسے آتے ہوئے دیکھ لیا

عبدالعزیز نے مسلمانوں کو اس کی دلیری اور ہوشیاری کا واقعہ سنایا.
چونکہ مسلمان بہادر تھے اس لیے وہ بہادروں کی قدر و منزلت کرتے تھے -
چنانچہ وہ اس کے استقبال کے لئے تیار ہو گئے اور انہوں نے خیمہ سے باہر نکل کر اس کا پر تپاک خیر مقدم کیا-
تدمیر مسلمانوں کے اس طرح استقبال کرنے سے نہایت خوش ہوا اور اس نے خلوص دل سے ان کا شکریہ ادا کیا. عبدالعزیز بهی اسے لینے کے لیے چند قدم آئے تھے وہ انہیں دیکھتے ہی گھوڑے سے اتر پڑا.
اس کے ساتھ ہی اس کے ساتهی بھی اتر آئے اور سب نے عبدالعزیز کو سلام کیا اور خیمہ پر پہنچے اور خیمے کے باہر ہی فرش پر بیٹھ گئے-
تدمیر نے کہا شریف فاتح آپ نے اس وقت میرا استقبال کر کے میرے دل میں اپنی عزت و وقار کا جب ہی پیدا کر دیا ہے ۔
عبدالعزیز نے کہا مسلمان اخلاق کا پتلا ہے-
ہمیں ہمارے محترم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش اخلاقی کی تلقین کی ہے-
اس لیے ہر مسلمان ہر انسان کے ساتھ خلق و مروت سے پیش آتا ہے-
جو مسلمان خلیق نہیں اس کا ایمان مکمل نہیں.
کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے ہم پیرو کار ہیں دنیا ان کے اخلاق حسنہ کی مداح ہے، ہم دنیائے جہاں کو تلوار کے زور سے مطیع نہیں کرنا چاہتے بلکہ حسن خلق سے حلقہ بگوش اسلام کرنا چاہتے ہیں.
تدمیر یہی وجہ ہے کہ عیاش آپ کو دشمن سمجھتے ہوئے بھی آپ کی طرف جهکے ہیں -
عبدالعزیز یاد رکھئے تلوار کے زور سے فتح کیا ملک اسی وقت تک قبضہ میں رہتا ہے جب تک کہ اس کے باشندوں کے سروں پر تلوار لٹکتی رہتی ہے اور خلق و مروت سے فتح کیا ہوا ملک ہمیشہ مطیع رہتا ہے
تدمیر یہی بات ہے - اچھا کیا اب آپ میرے ساتھ قلعہ میں تشریف لے چلیں گے؟
عبدالعزیز میں وعدہ کر چکا ہوں اس لئے ضرور چلوں گا -
تدمیر چلئے!
عبد العزیز نے حبیب، ادریس دوسرے چند سرداروں اور سو سواروں کے ہمراہ تدمیر کے ہمراہ قلعہ کی طرف چلے -
انہوں نے قلعہ کے قریب پہنچ کر یہ دیکھ لیا کہ آج تمام فصیلیں خالی تهیں -
ایک سپاہی بھی نظر نہیں بهی نہیں تھا نظر آ رہا.
عبدالعزیز کو اندیشہ ہوا کہ کہیں تدمیر نے کوئی فریب دینے کا قصد نہ کیا ہو لیکن انہوں نے اس کی دعوت منظور کر لی تھی اس لیے اب وہ رد نہ کر سکتے تھے -
چنانچہ باوجود یہ اندیشہ لاحق ہونے کے وہ اس کے ساتھ نہایت اطمینان سے چلے جا رہے تھے -
جب وہ پھاٹک کے قریب پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ نہایت عالی شان اور مضبوط پھاٹک تها قلعہ کا.
وہ دروازہ عبور کر کے اندر داخل ہوئے.
ان کے قلعہ میں داخل ہوتے ہی نہایت سریلے ساز بجنے لگے انہوں نے دیکھا کہ باجا کم سن لڑکیاں بجا رہی تهیں -
تمام لڑکیاں نہایت حسین اور اچھی پوشاکیں پہنے ہوئے تهیں.
باجے کی سریلی آواز کانوں کے ذریعے سے دلوں پر اترتی جا رہی تھی -
عبدالعزیز اور مسلمانوں نے صرف ایک نظر انہیں دیکھا اور اپنی نظریں فورا جھکا لیں-
تدمیر ان کی طرف دیکھ رہا تھا اس کا خیال تھا کہ وہ ان مہوشوں کو دیکھ کر ان کے گرویدہ ہو جائیں گے مگر جب اس نے انہیں نظر جھکاتے ہوئے دیکھا تو ان کے زہد و تقویٰ کی تعریف کئے بنا نہ رہ سکا-
عبدالعزیز نے اس سے کہا ہمارے مزہب میں گانا سننا جائز نہیں اس لئے مہربانی کر کے اسے بند کروا دیں.
تدمیر نے کہا بیت اچھا تدمیر باجا بند کرا دیا تمام مسلمان تدمیر کے ہمراہ چلتے رہے لیکن انہیں وہاں ایک بهی سپاہی نظر نہ آتا تھا تدمیر کچھ سمجھ گیا اس نے دریافت کیا ۔
کیا دیکھ رہے ہو؟
عبدالعزیز میں اس لشکر کو دیکھ رہا ہوں جو کل فصیل پر کهڑا تھا -
تدمیر نے مسکرا کر کہا -
میں نے اسے رخصت کر دیا ہے صلح کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہی.
عبدالعزیز لیکن میں نے تو ایک سپاہی کو قلعہ کو بھی قلعہ سے نکل کر باہر جاتے ہوئے نہیں دیکھا!
تدمیر ان میں سے کوئی بھی باہر نہیں گیا.
عبدالعزیز تو سب کہاں چلے گئے ہیں؟
تدمیر قلعہ کے اندر ہی ہیں لیکن وہ سپاہی نہیں تهے.
عبدالعزیز اور کون تھے؟
یہ بات بھی آپ کو معلوم ہو جائے گی!
وہ چلتے رہے بازاروں سڑکوں پر عیسائی عورتوں کا اژدہام تھا -
مرد بھی تهے مگر بہت کم البتہ عورتیں بہت زیادہ تهیں وہ ان بہادر فاتحین کا خوش ہو ہو کر استقبال کر رہیں تھیں
کچھ دور چل کر انہوں نے سپاہیوں کا ایک دستہ دیکھا تقریباً پانچ سو سپاہی تھے لیکن سب کے قد زرا چھوٹے تھے -
جب مسلمان ان سپاہیوں کے پاس پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہ سب نازک اندام عورتیں تھیں _
انہوں نے مردانہ لباس پہن رکهے تهے اور ہتھیار لگائے مردوں کی طرح تنے ہوئے کھڑی تھیں _
عبدالعزیز نے پوچھا-
کیا یہی لشکر ہے جو فصیل پر متعین تھا؟
تدمیر جی ہاں !
جب میں قلعہ کے اندر آیا تو میں نے دیکھا کہ مرد بہت کم ہیں اور سپاہی تو دو سو سے بھی زیادہ نہیں تهے.
چنانچہ میں نے آتے ہی سب سے پہلا کام یہی کیا کہ عورتوں کو مردانہ لباس پہنا کر ان کے بالوں کے چہرے کے گرد اس طرح لپیٹ دیا کہ وہ ڈاڑھی معلوم ہو یہی میرا لشکر تها جسے میں نے رخصت کر دیا ہے.
اور خود بهیس بدل کر قاصد کا روپ لے کر آپ لوگوں کے پاس پہنچ گیا.
تمام مسلمان تدمیر کی دانش مندی دیکھ کر نہایت مسرور ہوئے عبدالعزیز نے کہا" حقیقت یہ ہے کہ تم نہایت ہوشیار اور دور اندیش ہو-
تم نے عورتوں کو مردانہ لباس پہنا کر اور خود بهیس بدل کر قاصد بنا کر خود کو ہمیں مغالطہ دیا تمہاری یہ دانش مندی تمہارے ملک کو بچا لے گئی-
تدمیر صرف میری دور اندیشی ہی نہیں بلکہ آپ کی انصاف پسندی نے بچایا ہے اگر آپ کل میرے ظاہر ہونے پر مجھے پکڑ کر قتل کر ڈالتے تو ملک پر آپ کا قبضہ ہو جاتا-
عبدالعزیز: مگر میں مسلمان ہوں اور مسلمان عہد کر کے توڑتے نہیں.
تدمیر : مجھے معلوم تھا اسی لیے میں نے جرات کی تهی آنے کی.
اب یہ قصر شاہی کے سامنے جا رکے اور گھوڑوں سے اتر کر محل میں داخل ہو گئے -
کچھ دیر بیٹھے پهر کهانا کهایا کهانا کها کر واپس لوٹ آئے-
دوسرے روز تدمیر نے زر جزیہ مع گیہوں اور جو کے پیمانوں کے پیش کیا-
مسلمانوں نے تمام چیزیں سنبھالیں اور اگلے ہی روز وہاں سے کوچ کر کے طلیطلہ کی طرف روانہ ہوئے_____آرزو بر آوری______
     جاری ہے.......

Share:

Allah Kaha hai aur Hamari Duwayein Kaise Sunta hai?

Allah Kaha hai aur Wah Hamari Batein kaise Sunta Hai?
اللّہ تعالیٰ کہاں
*اللہ تعالی عرش پر مستوی اور اپنے علم کے ساتھ وہ ہمارے قریب ہے!*

الحمدللہ وحده والصلاة والسلام على سيدنا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين:

کتاب وسنت اور امت کے سلف سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالی اپنے آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے اور وہ بلند و بالا اور ہر چیز کے اوپر ہے اس کے اوپر کوئی چیز نہیں ۔

فرمان باری تعالی ہے :

< اللہ تعالی وہ ہے جس نے آسمان وزمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان سب کو چھ دنوں میں پیدا کر دیا پھر عرش پر مستوی ہوا تمہارے لۓ اس کے سوا کوئی مدد گار اور سفارشی نہیں کیا پھر بھی تم نصیحت حاصل نہیں کرتے >

ارشاد باری تعالی ہے :

< بلاشبہ تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہوا وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے >

< تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل کو بلند کرتا ہے >

فرمان باری تعالی ہے :

وہی پہلے ہے اور وہی پیچھے ، وہی ظاہر ہے اور وہی مخفی ہے >

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( اور ظاہر ہے تیرے اوپر کوئی چیز نہیں )

اس معنی میں آیات اور احادیث ہیں اس کے باوجود اللہ تعالی نے خبر دی ہے کہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ ہے وہ جہاں بھی ہوں ۔

فرمان باری تعالی ہے :

< کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ اللہ تعالی آسمانوں اور زمین کی ہر چیز سے واقف ہے تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر اللہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ ہی پانچ کی مگر وہ ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم اور نہ زیادہ کی مگر وہ جہاں بھی ہوں وہ ساتھ ہوتا ہے >

بلکہ اللہ تعالی نے اپنے عرش پر بلند ہونے اور بندوں کے ساتھ اپنی معیت کو ایک ہی آیت میں اکٹھا ذکر کیا ہے ۔ فرمان بار تعالی ہے:

< وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر مستوی ہو گیا وہ اس چیز کو جانتا ہے جو زمین میں جائے اور جو اس سے نکلے اور جو آسمان سے نیچے آۓ اور جو کچھ چڑھ کر اس میں جائے اور جہاں کہیں بھی تم ہو وہ تمہارے ساتھ ہے >

تو اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ مخلوق کے ساتھ خلط ملط ہے بلکہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ علم کے اعتبار سے ہے اور اس کے عرش پر ہونے کے باوجود ان کے اعمال میں سے اس پر کوئی چیز مخفی نہیں ۔

اللہ تعالی کا یہ فرمان کہ : < اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں >

تو اکثر مفسرین نے اس کی تفسیر میں یہ کہا ہے کہ : اللہ تعالی کا یہ قریب ان فرشتوں کے ساتھ ہے جن کے ذمہ ان کے اعمال کی حفاظت لگائی گئ ہے اور جس نے اس کی تفسیر اللہ تعالی کہ قرب کی ہے وہ اس اللہ تعالی کے علم کے ساتھ قریب ہے جس طرح کی معیت میں ہے ۔

اہل سنت والجماعت کا مذہب یہ ہے کہ وہ اللہ تعالی کو اس کی مخلوق پر بلندی اور معیت کو ثابت کرتے ہیں اور مخلوق میں حلول سے اللہ تعالی کو پاک قرار دیتے ہیں ۔ لیکن معطلۃ یعنی جہمیہ اور ان کے پیروکار اللہ تعالی کی مخلوق پر اس کے علو اور اس کے عرش پر مستوی ہونے کا انکار کرتے اور وہ یہ کہتے کہ اللہ تعالی ہر جگہ پر ہے ۔

ہم اللہ تعالی سے مسلمانوں کی ہدایت کے طلبگار ہیں ۔ .

Share:

Kya Abu Sayyad Dajjal tha?

Assalam O Alaikum Wa Rehmatullah hi wabarakatukh
I hope that you are good with the blessing of Allah
Sir ibne sayyad ne apne bachpan me Nabi (S.A.W) se batmeezi ki thi is ka hadees no Aap bata sakte hai please....  yah hadees kaunse book me aur kitna number hai iska?

جواب تحریری
الحمدللہ

ابن صیاد کا نام صافی، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ عبداللہ بن صیاد یا صائد ہے ۔

یہ مدینہ کے یہودیوں میں سے تھا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انصار میں سے تھا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو یہ چھوٹا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلمان ہو گیا تھا ۔

ابن صیاد دجال تھا اور بعض اوقات کہانت کرتا تو جھوٹ اور سچ بولتا رہتا تھا اس کی خبر لوگوں میں پھیل گئي اور یہ مشہور ہو گیا کہ یہ دجال ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ کیا کہ اس کے حالات کی خبر لیں تا کہ اس کے معاملے کی وضاحت ہو جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھپ کر اس کی طرف گۓ تا کہ اس کی کوئی بات سن سکیں اور اس پر کچھ سوال کرتے تھے جن سے ان کی حقیقت منکشف ہوتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہا اور حرہ کی لڑائی والے دن غائب ہو گیا ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ابن صیاد کے ساتھ قصہ :

امام بخاری بیان کرتے ہیں کہ ہمیں عبدان نے عبداللہ سے حدیث بیان کی وہ یونس سے اور یونس زہری سے بیان کرتے ہیں اور زہری بیان کرتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ نے مجھے بتایا کہ انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک گروپ میں ابن صیاد کی طرف گۓ تو اسے بنو غلم کے قلعہ کے پاس بچوں میں کھیلتے ہوئے پایا اور ابن صیاد بلوغت کے قریب پہنچ چکا تھا تو اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا کچھ پتہ نہ چلا حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ہاتھ سے مارا پھر ابن صیاد کو کہنے لگے کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو ابن صیاد نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ امیوں کے رسول ہیں تو ابن صیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہنے لگا کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا اور رفض کر دیا اور کہنے لگے میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا کہ تو کیا دیکھتا ہے ابن صیاد کہنے لگا میرے پاس سچا اور جھوٹا آتا ہے.

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھ پر معاملہ الٹ پلٹ ہو گیا ہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا میں تیرے لۓ ایک چھپانے والی چیز چھپائی ہے تو ابن صیاد کہنے لگا وہ الداخ ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ذلیل ہو جا تیری قدر بڑھ نہیں سکتی تو عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اتار دوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ رہنے والا ہے تو تو اس پر مسلط نہیں ہو سکتا اور اگر نہیں تو اس کے قتل میں آپ کی کوئی بھلائی نہیں اور سالم کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہہ رہے تھے اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کھجوروں کے باغ میں گۓ جہاں ابن صیاد موجود تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بہت زیادہ کوشش تھی کہ ابن صیاد کے دیکھنے سے قبل ان کی چوری چھپے بات سنی جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا کہ وہ اپنی چھو درا چادر میں لپٹا ہوا تھا اور اس کی نہ سمجھ آنے والی آواز تھی جس سے اس کے ہونٹ ہل رہے تھے تو ابن صیاد کی ماں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کہ کھجور کے تنوں کے پیچھے پیچھے چھپ چھپ کر چل رہے تھے دیکھ کر ابن صیاد کو کہا اے صاف جو کہ ابن صیاد کا نام ہے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو ابن صیاد کود کر اٹھ بیٹھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اگر وہ اسے چھوڑ دیتی تو اس کا معاملہ واضح ہو جاتا ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر 1255

قولہ اطم : دونوں کے ضمہ کے ساتھ قلعہ کی طرح عمارت کو کہتے ہیں ۔

ان کا یہ قول : مغالۃ: انصار میں ایک قبیلہ

اور ان کا یہ قول : فرفضہ : یعنی اسے چھوڑ دیا ۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ تھا کہ اس کے علم کے بغیر اس کی کلام سن سکیں ۔

اور یہ قول کہ : ( لہ فیہا رمزۃ او زمرۃ ) اور ایک روایت میں زمزمۃ کے لفظ ہیں ۔

پوشیدہ اور دھیمی آواز کے معنی میں ، یا بات کرنے میں ہونٹوں کا حرکت کرنا ، یا بے معنی کلام ۔

مندرجہ بالا حدیث کی شرح کے لۓ صحیح بخاری کی شرح فتح الباری کتاب الجنائز دیکھیں۔

کیا ابن صیاد ہی دجال اکبر ہے ؟

مندرجہ بالا حدیث جس میں ابن صیاد کے بعض حالات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے امتحان میں ڈالنا مذکور ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابن صیاد کے معاملے میں توقف اختیار کۓ ہوئے تھے کیونکہ ان کی طرف یہ وحی نہیں کی گئي تھی کہ وہ دجال اکبر وغیرہ ہے ۔

اور صحابہ میں اکثر کا خیال تھا کہ ابن صیاد ہی دجال ہے اور عمر بن خطاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی موجودگی میں حلفا کہا کرتے تھے کہ وہ دجال ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار نہیں کیا ۔

محمد بن منکدر کی حدیث میں موجود ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ اللہ کی قسم اٹھا کر کہتے تھے کہ ابن صیاد دجال ہے تو میں نے کہا کہ آپ اللہ کی قسم اٹھاتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قسم اٹھا رہے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا انکار نہیں کیا ۔

صحیح بخاری شریف حدیث نمبر ( 6808)

اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کو ابن صائد کے ساتھ ایک عجیب قصہ پیش آیا جو کہ صحیح مسلم میں موجود ہے :

نافع بیان کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ابن صائد کو مدینہ کے کسی راستے میں ملے تو اسے ایسی بات کہی جس سے وہ غصہ میں آ گیا اور اس کی رگیں پھول گئیں حتی کہ گلی ( لوگوں سے) بھر گئي تو ابن عمر رضی اللہ عنہما حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گۓ تو انہیں یہ خبر پہنچ چکی تھی تو وہ کہنے لگیں اللہ تجھ پر رحم کرے ابن صیاد سے تو کیا چاہتا ہے کیا تجھے اس کا علم نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس غصہ کی بنا پر نکلے گا جو اسے غصہ دلآئے گا ۔

صحیح بخاری حدیث نمبر (2932)

تو اس کی باوجود ابن صیاد جب بڑا ہوا تو اس نے اپنے دفاع کی کوشش کی اور اس کا انکار کرنے لگا کہ وہ دجال ہے اور اس تہمت سے اسے تنگی محسوس ہونے لگی کہ وہ دجال ہے اور اس میں وہ دلیل یہ لیتا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو دجال کی صفات بتائیں ہیں وہ اس میں نہیں پائی جاتیں ۔

اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ :

وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حج یا عمرے کے لۓ نکلے تو ہمارے ساتھ ابن صائد بھی تھا تو ابو سعید رضي اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو سب لوگ بکھر گۓ تو میں اور وہ باقی رہے تو مجھے اس سے اس وجہ کی بنا پر جو کچھ اس کے متعلق کہا جاتا تھا بہت زیادہ وحشت ہونے لگی ۔

ابو سعید ( رضي اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ اس نے اپنا سامان لا کر میرے سامان کے ساتھ رکھ دیا تو میں نے کہا : گرمی بہت سخت ہے اگر تو اس درخت کے نیچے رکھ دیتا ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس نے ایسا ہی کیا ، ابو سعید رضي اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے سامنے ایک بکری لائی گئي تو وہ ایک بڑا پیالہ لایا اور کہنے لگا اے ابو سعید ( رضی اللہ عنہ ) پیو میں نے کیا کہ گرمی بہت سخت ہے اور دودھ گرم ہے میں تو صرف اس کے ہاتھ سے لے کر پینا اور پکڑنا نا پسند کرتا تھا تو وہ کہنے لگا : اے ابو سعید ( رضي اللہ عنہ ) لوگ جو کچھ مجھے کہتے ہیں اس کی بنا پر میں نے یہ ارادہ کیا ہے کہ رسی لے کر درخت کے ساتھ باندھوں اور اس سے لٹک کر پھانسی لے لوں ۔

اے ابو سعید ( رضی اللہ عنہ ) کون ہے جس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پوشیدہ ہو اے انصار کی جماعت تم پر تو پوشیدہ نہیں کیا آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو زیادہ نہیں جانتے؟ کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ کافر ہو گا اور میں مسلمان ہوں؟ کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ اس بانجھ اور اس کی کوئی اولاد نہیں ہوگی اور میں تو اپنا بیٹا مدینہ چھوڑ کے آرہا ہوں ؟

کیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ وہ مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوگا اور میں مدینہ سے آرہا اور مکے کا ارادہ ہے ؟

ابو سعید ( رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ قریب ہے کہ میں اسے معذور سمجھتا پھر وہ کہنے لگا اللہ کی قسم میں اسے جانتا ہوں اور اس کی پیدائش کو بھی اور وہ اس وقت کہاں ہے اس کا بھی مجھے علم ہے ۔

ابو سعید ( رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ میں نے اسے کہا ساری عمر تیری تباہی ہو ۔

صحیح مسلم حدیث نمبر (4211)

اور ایک روایت میں ہے کہ : ابن صیاد نے کہا : اللہ کی قسم مجھے یہ علم ہے کہ وہ اس وقت کہاں ہے اور اس کے ماں اور باپ کو بھی جانتا ہوں اور اسے یہ کہا گیا تجھے یہ پسند ہے کہ وہ آدمی تو ہی ہو ؟ تو وہ کہنے لگا اگر مجھ پر یہ پیش کیا گیا تو میں نا پسند نہیں کروں گا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر (5210)

ابن صیاد کے متعلق جو کچھ آیا ہے وہ علماء پر خلط ملط اور اس کے معاملے میں انہیں اشکال ہے ۔

کچھ تو کہتے ہیں کہ وہ دجال ہے اور کچھ کہتے ہیں کہ وہ دجال نہیں اور ہر ایک فریق کے پاس دلیل ہے تو ان کے اقوال آپس میں بہت مختلف ہیں اور ابن جحر رحمہ اللہ نے ان اقوال کے درمیان جمع کرنے کی کوشش کی ہے ان کا کہنا ہے کہ :

تمیم الداری رضی اللہ عنہ والی حدیث میں جو کچھ ہے وہ اور یہ کہ ابن صیاد ہی دجال ہے کے درمیان جمع اس طرح ہے کہ تمیم الدارمی رضي اللہ عنہ نے جسے دیکھا ہے بعینہ دجال تو وہی ہے اور ابن صیاد شیطان ہے جو کہ دجال کی شکل میں اس مدت کے درمیان ظاہر ہوا یہاں تک کہ وہ اصبہان کی طرف جا نکلا اور وہاں اپنے قرین کے ساتھ جا چھپا یہاں تک کہ اللہ تعالی وہ وقت لے آئے جس میں اس کا خروج ہو گا ۔

فتح الباری ( 13 / 328)

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ : ابن صیاد دجالوں میں سے ایک دجال ہے وہ دجال اکبر نہیں ۔

واللہ اعلم

Share:

insaniyat ka Sabak Khana Khilao aur Salam Karo.

Sabhi ko Khana Khilao aur Salam Karo.
ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي يَزِيدُ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَجُلًا سَأَل النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ ؟ قَالَ :    تُطْعِمُ الطَّعَامَ ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ ، وَعَلَى مَنْ لَمْ تَعْرِفْ.

एक साहब ने नबी करीम ﷺ से पूछा: इस्लाम की कौन सी हालत अफ़ज़ल है? नबी करीम ﷺ ने फ़रमाया ये कि ( अल्लाह की मख़लूक़ को ) खाना खिलाओ और सलाम करो, उसे भी जिसे तुम पहचानते हो और उसे भी जिसे नहीं पहचानते।

Ek sahab ne Nabi kareem ﷺ se poocha: islam ki kaun si halat afzal hai? nabi kareem ﷺ ne farmaya yeh ke (Allah ki makhlooq ko) khana khilao aur salam karo, usay bhi jisay tum pehchante ho aur usay bhi jisay nahi pehchante.

ایک صاحب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اسلام کی کون سی حالت افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کہ ( اللہ کی مخلوق کو ) کھانا کھلاؤ اور سلام کرو، اسے بھی جسے تم پہچانتے ہو اور اسے بھی جسے نہیں پہچانتے۔

A man asked the Prophet ﷺ, What Islamic traits are the best? The Prophet said, Feed the people, and greet those whom you know and those whom you do not know.

Sahih Bukhari: jild 8, kitab Al-Astaydhan 79, hadith no. 6236
●•~•~•~•~•~•~•~•~•~•~•~•~•~●

Share:

Qayamat ke Din Jahannum se Ek Garden Nikalegi.

Qayamat Ke Din Jahannum Se ek Gardan Nikalegi.
ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْجُمَحِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    يَخْرُجُ عُنُقٌ مِنَ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهَا عَيْنَانِ تُبْصِرَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَأُذُنَانِ تَسْمَعَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَلِسَانٌ يَنْطِقُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِنِّي وُكِّلْتُ بِثَلَاثَةٍ:‏‏‏‏ بِكُلِّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبِكُلِّ مَنْ دَعَا مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَبِالْمُصَوِّرِينَ

नबी करीम ﷺ ने फ़रमाया: क़यामत के दिन जहन्नुम से एक गर्दन निकलेगी उस की दो आँखें होंगी जो देखेंगी, दो कान होंगे जो सुनेंगे और एक ज़बान होगी जो बोलेगी, वो कहेगी: मुझे तीन लोगों पर मुक़र्रर किया गया है: हर सरकश ज़ालिम पर, हर उस आदमी पर जो अल्लाह के सिवा किसी दूसरे को पुकारता हो, और मुजस्समा ( तसवीर ) बनाने वालों पर।

Nabi kareem ﷺ ne farmaya: Qayamat ke din jahannum se ek gardan niklegi uski do ankhen hongi jo dekhengi, do kaan honge jo sunenge aur ek zabaan hogi jo bolegi, woh kahegi: mujhe teen logon par muqarrar kiya gaya hai: har sarkash zalim par, har us admi par jo Allah ke sewa kisi dusre ko pukarta ho, aur mujasma ( tasweer ) banane walon par.

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، قیامت کے دن جہنم سے ایک گردن نکلے گی اس کی دو آنکھیں ہوں گی جو دیکھیں گی، دو کان ہوں گے جو سنیں گے اور ایک زبان ہو گی جو بولے گی، وہ کہے گی: مجھے تین لوگوں پر مقرر کیا گیا ہے: ہر سرکش ظالم پر، ہر اس آدمی پر جو اللہ کے سوا کسی دوسرے کو پکارتا ہو، اور مجسمہ بنانے والوں پر“۔

The Messenger of Allah ﷺ said: Some of the Fire (in the shape of a long neck) will come out of the Fire on the Day of judgment. It will have two eyes which can see, two ears which can hear, and a tongue which can speak. It will say: 'I have been left in charge of three: Every obstinate oppressor, everyone who called upon a deity besides Allah, and the image makers.

Jamiat Tirmidhi: jild 4, kitab Sifat Jahannam 39, hadith no. 2574
Grade Sahih
●•~•~•~•~•~•~•~•~•~•~•~•~•~●

Share:

Yunus Alaihe Salam Ne kaun si Dua Padhi thi.

Jo Bhi Musalman Yah Dua Padh kar Allah se Maangta hai to Allah use ata kar deta hai.
ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    دَعْوَةُ ذِي النُّونِ إِذْ دَعَا وَهُوَ فِي بَطْنِ الْحُوتِ _*لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ،*_ *فَإِنَّهُ لَمْ يَدْعُ بِهَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ فِي شَيْءٍ قَطُّ إِلَّا اسْتَجَابَ اللَّهُ لَهُ.*

नबी करीम ﷺ ने फ़रमाया: युनुस अलैहिस-सलाम की दुआ जो उन्होंने मछली के पेट में रहने के दौरान की थी वो ये थी: _*ला ईलाहा इल्ला अन्ता सुब्हानाका इन्नी कुन्तुम्मिनज़-ज़ालिमीन*_ तेरे सिवा कोई माबूद बरहक़ नहीं, तू पाक है, में ही ज़ालिम ( ख़ताकार ) हूँ, क्योंकि ये ऐसी दुआ है की जब भी कोई मुसलमान शख़्स इसे पढ़ कर दुआ करेगा तो अल्लाह ताला उस की दुआ क़बूल फ़रमाएगा।

Nabi kareem ﷺ ne farmaya: ( Yunus alaihe salaam ) ki dua jo unho ne machhli ke pait mein rehne ke douraan ki thi woh yeh thi : _*« Lā ilāha illā anta subḥānaka innī kuntu minaẓ-ẓālimīn »*_ "tere siwa koi mabood barhaq nahi, tu paak hai, mein hi zalim ( khatakaar ) hon", *kyun ke yeh aisi dua hai ke jab bhi koi musalman shakhs usay parh kar dua karega to Allah taala iski dua qubool farmayega".

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ( یونس علیہ السلام ) کی دعا جو انہوں نے مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے دوران کی تھی وہ یہ تھی: *_«لا إله إلا أنت سبحانك إني كنت من الظالمين»_* ”تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تو پاک ہے، میں ہی ظالم ( خطاکار ) ہوں“، *کیونکہ یہ ایسی دعا ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان شخص اسے پڑھ کر دعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا“۔

the Messenger of Allah (ﷺ) said: “The supplication of Dhun-Nun (Prophet Yunus AS) when he supplicated, while in the belly of the whale was: _*Lā ilāha illā anta subḥānaka innī kuntu minaẓ-ẓālimīn*_’ ‘There is none worthy of worship except You, Glory to You, Indeed, I have been of the transgressors. *So indeed, no Muslim man supplicates with it for anything, ever, except Allah responds to him.”

Jame at Tirmidhi: jild 6, kitab Al dua 48, hadith no. 3505
*Grade Sahih
●•~•~•~•~•~•~•~•~•~•~•~•~•~●

Share:

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. (Part 01)

Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad.

Tarik Bin Jeyad Kaun they aur unhone Musalmanon ke liye kya kiya?


          طارق بِن زِیاد
          تحریر:- صادق حسين
    قسط نمبر 1__________________Part 1

طارق بن زیاد بَربَر نسل سے تعلق رکھنے والے مسلم سپہ سالار اور بَنو اُمیّہ کے جرنیل تھے ،جنہوں نے 711ء میں ہسپانیہ (اسپین) میں عیسائی حکومت کا خاتمہ کرکے یورپ میں مسلم اقتدار کا آغاز کیا۔ انہیں اسپین کی تاریخ کے اہم ترین عسکری رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ شروع میں وہ اُموی صوبے کے گورنر موسیٰ بن نصیر کے نائب تھے ،جنہوں نے ہسپانیہ میں وزیگوتھ بادشاہ کے مظالم سے تنگ عوام کے مطالبے پر طارق کو ہسپانیہ پر چڑھائی کا حکم دیا۔ طارق بن زیاد نے مختصر فوج کے ساتھ یورپ کے عظیم علاقے اسپین کو فتح کیا اور یہاں دینِ اسلام کا عَلم بلند کیا۔ اسپین کی فتح اور یہاں پر اسلامی حکومت کا قیام ایک ایسا تاریخی واقعہ ہے، جس نے یورپ کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی پسماندگی سے نکال کر ایک نئی بصیرت عطا کی اور اس پر ناقابل فراموش اثرات مرتب کیے تھے۔ طارق بن زیاد کی تعلیم و تربیت موسیٰ بن نصیر کے زیر نگرانی ہوئی تھی، جو ایک ماہرِ حرب اور عظیم سپہ سالار تھے۔اسی لیے طارق بن زیاد نے فن سپہ گری میں جلد ہی شہرت حاصل کرلی۔ ہرطرف اُن کی بہادری اور عسکری چالوں کے چرچے ہونے لگے۔ طارق بن زیاد بن عبداللہ نہ صرف دُنیا کے بہترین سپہ سالاروں میں سے ایک تھے بل کہ وہ متّقی، فرض شناس اور بلندہمت انسان بھی تھے۔ اُن کے حُسنِ اَخلاق کی وجہ سے عوام اور سپاہی انہیں احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ افریقا کی اسلامی سلطنت کو اندلس کی بحری قوّت سے خطرہ لاحق تھا، جب کہ اندلس کے عوام کا مطالبہ بھی تھا۔ اسی لیے گورنر موسیٰ بن نصیر نے دشمن کی طاقت اور دفاعی استحکام کا جائزہ لے کر طارق بن زیاد کی کمان میں سات ہزار (بعض مؤرخین کے نزدیک بارہ ہزار) فوج دے کر اُنہیں ہسپانیہ کی فتح کے لیے روانہ کیا۔ 30 اپریل 711ء کو اسلامی لشکر ہسپانیہ کے ساحل پر اُترا اور ایک پہاڑ کے نزدیک اپنے قدم جمالیے ،جو بعد میں طارق بن زیاد کے نام سے جبل الطارق کہلایا۔ طارق بن زیاد نے جنگ کے لیے محفوظ جگہ منتخب کی۔ اس موقع پر اپنی فوج سے نہایت ولولہ انگیز خطاب کیا اور کہا کہ ہمارے سامنے دشمن اور پیچھے سمندر ہے۔ جنگ سے قبل اُنہوں نے اپنے تمام بحری جہازوں کو جلا دینے کا حکم دیا تاکہ دشمن کی کثیر تعداد کے باعث اسلامی لشکر بددِل ہو کر اگر پسپائی کا خیال لائے تو واپسی کا راستہ نہ ہو۔ اسی صورت میں اسلامی فوج کے پاس صرف ایک ہی راستہ باقی تھا کہ یا تو دشمن کو شکست دے دیں یا اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دیں۔ یہ ایک ایسی زبردست جنگی چال تھی کہ جس نے اپنی اہمیت کی داد آنے والے عظیم سپہ سالاروں سے بھی پائی۔ 7 ہزار کے مختصر اسلامی لشکر نے پیش قدمی کی اور عیسائی حاکم کے ایک لاکھ کے لشکر کا سامنا کیا، گھمسان کا رَن پڑا، آخر کار دشمن فوج کو شکست ہوئی اور شہنشاہ راڈرک مارا گیا، بعض روایتوں کے مطابق وہ بھاگ نکلا تھا ،جس کے انجام کا پتا نہ چل سکا۔ اس اعتبار سے یہ جنگ فیصلہ کن تھی کہ اس کے بعد ہسپانیوی فوج کبھی متحد ہو کر نہ لڑ سکی۔ فتح کے بعد طارق بن زیاد نے بغیر کسی مزاحمت کے دارالحکومت طلیطلہ پر قبضہ کر لیا۔ طارق بن زیاد کو ہسپانیہ کا گورنر بنا دیا گیا۔ طارق بن زیاد کی کامیابی کی خبر سُن کر موسیٰ بن نصیر نے حکومت اپنے بیٹے عبداللہ کے سپرد کی اور خود طارق بن زیاد سے آملے۔ دونوں نے مل کر مزید کئی علاقے فتح کیے۔ اسی دوران خلیفہ ولید بن عبدالملک نے اپنے قاصد بھیج کر دونوں کو دمشق بلوا لیا اور یوں طارق بن زیادہ کی عسکری زندگی کا اختتام ہوا جب کہ اسلامی دُنیا کے اس عظیم فاتح نے 720ء وفات پائی۔ زیر نظر کتابچہ ’’ طارق بن زیاد ‘‘ فاتح اندلس طارق بن زیاد ہی کے متعلق ہے ۔جو کہ اپنے موضوع میں ہر لحاظ سے مکمل اور معلوماتی ہے ۔
سورج کی کرنیں دن بھر سفر کرنے کے بعد تھک کر سمٹنے لگی تھی اور شام کے سائے اپنے پر پھیلانے لگے تھے ۔
شمعیں  جلنے لگی تھی اور پرندے دن بھر اڑنے اور دانہ چگنے کے بعد اپنے اپنے مسکن کی طرف لوٹ رہے تھے۔
شام کے اس سائے میں دو سائے طنجہ  شہر کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ان کے قدم کبھی تیزی اور کبھی آہستہ آہستہ آٹھ رہے تھے۔
شکل سے یہ دونوں راہب لگتے تھے۔ چلتے چلتے یہ لوگ طنجہ شہر جانے والے راستے پر پہنچ گے ۔وہاں ان کی ملاقات چوکی پر موجود سپاہیوں سے ہوئی ۔ان دونوں نے سپاہیوں  کو سلام کیا ۔
اور کہا کہ وہ والیے طنجہ طارق بن زیاد سے ملاقات ہونا چاہتے ہیں  ۔سپاہیوں  نے ملاقات  کی وجہ پوچھی جو ان راہبوں نے بتا دی
ان میں  سے ایک سپاہی ان لوگوں کے ساتھ ہو لیا ۔اور وہ شہر کی طرف روانہ ہو گے۔ مغرب  کا وقت تھا جب یہ لوگ
شہر پہنچ گے اور شہر کی جامع مسجد کے باہر جا کر کھڑے ہو گے۔ تھوڑی دیر کے بعد  مسجد سے طارق بن زیاد اور ظریف بن مالک نماز پڑھ کر باہر نکلے تو دیکھا کے ایک سپاہی کے ساتھ دو راہب کھڑے  ہیں ۔انہوں نے سلام کیا تو سپاہی نے کہا کہ یہ دونوں راہب آپ سے ملنا چاہتے تھے۔ تو میں ان کو اپنے ساتھ یہاں لے آیا۔
طارق بن زیاد نے راہبوں کو ملاقات کی وجہ پوچھی  ۔تو ان میں  سے ایک راہب جس کا نام کونٹجولین تھا نے کہا کہ
ہم الویرا کے علاقہ سے آئے ہیں  اور وہ علاقہ آپ کی عملداری میں آتا ہے
ہمارے چرچ کی راہبہ جس کا نام لوسیہ ہے کو ہسپانیہ ایک شخص اٹھا کر لے گیا ہے اور وہ طاقتور خاندان سے تعلق رکھتا ہے ہم شکایت لے کر وہاں کے حاکم کے پاس گئے۔ مگر اس نے ہماری فریاد نہیں سنی اس کے بعد ہم آپ کے پاس آئے ہیں ۔
طارق نے کہا اب آپ لوگ کیا چاہتے ہے، تو راہب نے کہا کہ ہماری راہبہ کو ہمیں واپس دلوایا جائے ۔
جاری  ہے......
--------------------------------------
واضح رہے کہ یہ فتح اندلس اور طارق بِن زِیاد کی چالیس قسطیں ہے، اس موضوع کا یہ پہلا قسط ہے، اگر آپ دوسری تیسری اور آخری قسط تک پڑھنا چاہتے ہیں تو سرچ باکس میں

( Fateh Andalas Aur Tarik Bin Jeyad. )

ٹائپ کریں، یہ تحریر اردو زبان میں لکھا ہوا ہے مگر اسکا ٹائٹل رومن اردو میں اس لیے ہے کے آپ سب کو سرچ کرنے میں آسانی ہو اور جلد ہی اگلے قسط کو پڑھا جا سکے، سارے تحریر اردو میں ہے صرف اور صرف اسکا ٹائٹل رومن میں ہے لہذا اس سے پریشان نہیں ہوں، اسکا مکمل (40) قسط سایہ کیا جا چکا ہے۔
اللہ ہم مسلمانوں کو دین پے چلنے کی توفیق دے، جیتنے بھی لوگ گنہگار ہے یہ اللہ تو انہیں معاف کر اور اُن سارے لوگو کو ہدایت کی روشنی و اخلاق کی پاکیزگی سے نواز، اللہ تو ہمیں کافروں کے سازش سے بچا اور جو لوگ مسلمانوں میں فحاشی پھیلانے میں لگے ہے تو اس پے اپنا عذاب نازل کر۔ آمین ثمہ آمین

امت مسلمہ جب جہاد سے غافل ہوئی....مسلمان نوجوانوں کے دلوں سے شہادت کی تمنا ختم ہوئی...جہاد کا جذبہ جب دل سے نکل گیا...تو اس کا نتیجہ پھر یہ ہوا کہ کفار ہم پر غالب آگئے...کفار ہمارے خلاف جمع ہونے لگے اور ان کی حالت بالکل شیروں جیسی ہوگئی اور مسلمانوں کی حالت بالکل لونڈیوں کی سی ہوگئی.........

Share:

Hindu Mushrekin Ki Haqeeqat, Kya Gaay(Cow)Ke Gobar Ya Peshab Se Shifa Milti Hai

Hindu Mushrekin Ki Haqeeqat, Kya Gaay(Cow)Ke Gobar Ya Peshab Se Shifa Milti Hai, reality of Hinduism, ruling of cow urine in Islam

Hindu Mushrekin Ki Haqeeqat, Kya Gaay(Cow)Ke Gobar Ya Peshab Se Shifa Milti Hai, 

reality of Hinduism, ruling of cow urine in Islam

یہ #ہندو (مشرکین) ہیں
یہ بھی ایک عقیدہ ہے
یہ بھی ایک سوچ ہے

جس میں #مشرکین نے معصوم بچوں کو گندگی کے ڈھیر (گاؤ ماتا کے گوبر) پر لیٹا کر صحت و تندرستی اور بری آتماؤں سے بچانے کا عقیدہ گھڑ رکھا ہے
ان کے ساتھ رہنے والے مسلمانوں پر بھی ان کی صحبت کے بُرے اثرات مرتب ہوئے اور مسلمانوں نے بھی مشرکین کے مقابلے میں گندگی سے شفا کا حصول ممکن بنایا اس کی اک مثال غالبا بھارت ہی میں ایک دربار جس کا نام "حسین ٹھیکری سرکار" ہے، سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے

اور مشرکین کے لیے خالق کا فرمان ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ  مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی  اِثۡمًا عَظِیۡمًا ﴿۴۸﴾

یقیناً اللہ تعالٰی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سِوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالٰی کے ساتھ شریک مُقّرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بُہتان باندھا۔

اور پھر دوسری جگہ فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ  ضَلَّ  ضَلٰلًۢا  بَعِیۡدًا ﴿۱۱۶﴾

اسے اللہ تعالٰی قطعًا نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیا جائے، ہاں شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرما دیتا ہے اور اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جا پڑا۔
(سورة النساء: ٤٨، ١١٦)

https://youtu.be/xkV0_UstNm0
#دعوت_حق
#رد_فرقہ_واریت
Share:

Shauhar Agar Bura Rawaiya Ekhtiyar Kare to Kya Karna Chahiye islmic urdu post

Shauhar Agar Bura Rawaiya Ekhtiyar Kare to Kya Karna Chahiye islmic urdu post


_*اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎*_

*✍🤕سبق آموز کہانیاں🎭🤔*

*شوہر کا برا رویہ.............. حل کیا ہے⁉*

اکثر اوقات جب بھی کوئی بہن مجھ سے اکیلے میں اپنے ازدواجی زندگی کے معاملات نصیحت لیتی ہے، بے شمار کا *ایک ہی مسئلہ! میرے شوہر بہت غصہ کرتے ہے ،بات بات پر بہت چڑتے ہے، طعنہ دیتے ہے* میں تو کہو گی دوسری ساس کا کردار با خوبی نبھانے کا شوق رکھتے ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر صبر نہیں کر پاتے ۔۔۔

 *قسم سے میں بہت اب دل برداشتہ ہو چکی ہو ! میرا دل ایسے لگتا ہے پھٹ جائے گا ، دن میں کئی بار ایسا محسوس ہوتا مجھے دل کا دورہ ہی نہ پڑ جائے ۔۔۔ میرے جسم سے جان نکل رہی ہوتی ہے !!! پر انہیں میرا کوئی خیال نہیں ہے !!! میں نہیں برداشت کر سکتی شوہر کا یہ رویہ ، بتائے میں کیا کرو ؟* ⁉

سب سے پہلے تو دعا کریں۔ یقینا بہت زیادہ تکلیف پہنچتی ہے ایسے بد اخلاقی سے آزمائے جانے پر۔ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ

🌹 *درگزر سے کام لیں* : معاملات بہت حکمت سے کریں کہ شوہر کو مزید غصہ کرنے کی گنجائش ہی نہ ملے۔ یاد رکھیں! جو حق بات پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑے سے پیچھے ہٹ جائے ﷲﷻ کا اس شخص کے لیے جنت کے گھر کا وعدہ ہے۔

🌹 *مٹی ڈال دو* : شوہر آپ کا دل دکھائیں تو إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ پڑھیں۔ اور اس بات کو بار بار نہ سوچیں بس اپنے آپ کو مصروف کریں جیسے کہ کسی اچھے سے لیکچر سننے میں یہ اپنی پسند کا کوئی بھی کام کرلیں جتنا جلدی اپ اس دکھ کی کیفیت سے نکلے گی اتنا آپ آہستہ آہستہ کر کے بہت مضبوط عورت بن جائے گئ۔ مختصرا اپنی زندگی بے مقصد نہیں گزاریں۔۔۔

🌹 *شوہر کا مزاج سمجھیں* :

شوہر جب گھر داخل ہو آپ ان کو خاص توجہ دیں۔ بہت اچھا استقبال کریں اور بتائے آپ نے کتنا انتظار کیا اور چاہت کے ساتھ ان کے کام کریں، ایسی باتوں کو شوہر کے سامنے نہ دوہرایں جن پر وہ غصہ کریں۔

🌹 *شوہر کے لیے ہدایت کی دعا* : جب شوہر بہت جزباتی اور حد سے زیادہ غصہ میں ہو تو اکثر خواتین تنگ آ کر بددعا دینا شروع کر دیتی ہے ! بہتر ہوگا، آپ اس وقت خاموش رہیں اور صرف خاص دعا کریں وہ بھی اپنی اور ان کی ہدایت کے لیے۔ ان کے رویے پر جلے کوڑے نہیں۔ خیر کی دعا کریں اور اچھے اخلاق سے معاملہ کی ہر ممکن کوشش کریں۔ ان شاء الله ضرور حالات پہلے سے بہتری کی طرف جائے گیں۔

🌹 *جتنا غصہ اتنا زیادہ خیال کریں* : اپنے آپ کو بہت organize رکھیں، سب کام طریقے اور سلیقے سے کریں۔ جن دنوں میاں زیادہ غصہ کریں آپ ان کی خدمت اور زیادہ کرنا شروع کر دیں ان کے کام first priority اوّل فہرست ہو۔شوہر کے لاڈ اٹھائے ! ان کو hug کریں۔


🌹 *شوہر کی تعریف کریں* : جب وہ اپنی تعریف آپ سے سنے گیں تو بہت اچھا محسوس کریں گے اور نتیجتاً ان کا دل چاہے گا کہ غصہ کرنا چھوڑ دیں کیونکہ ان کو آپ کی خوشی اور مطمئن رویہ مجبور کریں گا، شوہر کے اندر خود اعتمادی لائے گا کہ وہ اچھے شوہر بنیں۔

🌹 *الحمدلله يارب العالمين* :شوہر میں اگر ایک خوبی بھی موجود ہے تو اپ آج سے اس پر شکر ادا ( الحمدلله ) کہنا شروع کریں، جب دل میں شکر ہو گا تو زبان پر بھی آئے گا! اور آہستہ آہستہ زندگی ایک الگ موڑ لے گی ان شاء الله ۔

🌹 *ﷲﷻ  سے مضبوط تعلق* : اپنی نماز کی حفاظت کریں حقیقی معنوں میں، اپنا محاسبہ کریں !!! کیا میں نماز سے سکون حاصل کرتی ہو؟ کیا مجھے نماز سے سکینت ملتی، یا جلدی جلدی پڑھی کر بس سر سے ایک بوجھ اتارا؟ میری پیاری بہن اگر آپ کی نماز صحیح نہیں تو سمجھ لیجئے کہ آپ پھر کسی بھی فتنے میں پر سکتی ہے!!! ﷲﷻ مومن کی حفاظت فرماتا ہے ایک نماز سے دوسری تک بے شک وہ شوہر سے لڑائی ہی کیوں نہ ہو ، ﷲﷻ اس پر بھی آپ کی حفاظت فرمائے۔ *سبحان الله وبحمده* 

🌹 *کچھ تسبیح لازم پکڑ لیں*
سارا وقت کثرت سے استغفار کریں۔
سو 💯 مرتبہ دن میں لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير پڑھیں۔
سو 💯 مرتبہ لاحول ولا قوة إلا بالله پڑھیں۔
سو 💯 مرتبہ سبحان الله وبحمده کی تسبیح پڑھیں۔
صبح شام کے اذکار کی پابندی لازمی کریں۔
سورہ البقرہ کی تلاوت کریں بہت برکت ہے اس سورة میں سبحان الله اور آیت ۱۰۲ کی تکرار بھی کی جا سکتی جیسے ۳ بار پڑھ لیں۔ آپ رقیہ یعنی شرعی دم کر کے گھر کا ماحول بہت خوش گوار بنا سکتی ہے۔ ان شاء الله

🌹 *آزمائش*
شوہر کی بداخلاقی بہت بڑی آزمائشی ہے۔ جن پر بیتے وہی جانتے ہے کہ کیا کچھ روز سہنا پڑتا ہے! پیاری بہن میری طرف خاص متوجہ ہو جاؤ ! ذرا سوچو کیا میں اللہ کی حدود کا خیال رکھتی ہو! میں خود اپنا جائزہ لوں کہ میں اپنے رب کے بتائے احکامات کو اپنی زندگی میں کس حد تک اپناتی ہو! اگر فجر قضا ہو جائے تب بھی دل پھٹنے والا ہو جاتا ہے؟ جب کسی کی غیبت کرتی ہو تب بھی چکر آتے ہے؟ جب بے پردہ گھومتی ہو تو تب بھی سینا گھٹتا ہے؟ پیاری بہن ذرا سوچو یہ سب دل کی کیفیت تب ہی صرف ہوتی ہے جب شوہر دل دکھاتا ہے! الله اكبر
اپنی اصلاح کی طرف آؤ !
اگر ہم ﷲﷻ کی اطاعت کریں گیں تبہی شوہر کی اصلاح خود با خود آسان ہو جائے گی۔ اپنی اصلاح ہی پہلا step ہے !

 *❀ آنکھوں کی ٹھنڈک بننے والے زوج کی دعا کرنا ❀*

رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّةَ أَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا۝ *اے ہمارے رب! ہمیں ہمارے ازواج اور ہماری اولادوں سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا* ۔(الفرقان:74)
آمين يا حي يا قيوم

اوپر بیان کی گئی باتوں پر عمل کرنا آسان نہیں کیونکہ انسان چاہتا ہے کہ میرا مخالف مجھے اگنور کر رہا ہے بے رخی برت رہا ہے تو میں بھی بدلے میں برا رویہ رکھوں گی مگر یاد رکھیں اگر آپ نے اپنے نفس کو مار کر اس پر عمل کر لیا جیت آپ کی ہو گی کیونکہ میرے رب کا وعدہ ہے

ادفع بالتی ھی احسن فاذ الذی بینک و بینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم.
 *برائی کا جواب اچھائی کے ساتھ دو اس کا فائدہ یہ ہے کہ تمہارے دشمن اور تمہارے درمیان جو دشمنی ہے اللہ اسے دوستی میں بدل دے گا.*


*جزاك الله خيرا كثيرا*


*اگر آپ کو یہ تحریر (Post) پسند آئی ہو تو اپنے دوست و احباب کو ضرور شیئر کریں*
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS