find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Sahi Aqeeda Aur Batil Aqeeda Kya Hai?

Sahi Aqeeda Kya Hai Aur Batil Aqeeda Kya Hai?

سوال - صحیح عقیدہ کیا ہے؟ اور میں کچھ باطل عقائد کے بارے میں بھی جاننا چاہتا ہوں۔

الحمد للہ:
1- کتاب وسنت کے شرعی دلائل سے یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ کوئی بھی عمل یا قول اسی وقت صحیح اور قابلِ قبول ہوسکتا ہے جب کرنے والے کا عقیدہ درست ہو، چنانچہ عقیدہ درست نہ ہونے کی وجہ سے تمام اعمال اور اقوال باطل ہو جاتے ہیں، جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
( وَمَن يَكْفُرْ بِالإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ ) المائدة/ 5
ترجمہ: اور جس نے بھی ایمان کے بجائے کفر اختیار کیا اس کا وہ عمل برباد ہوگیا اور آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
( وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ ) الزمر/ 65
ترجمہ: آپ کی طرف یہ وحی کی جا چکی ہے اور ان لوگوں کی طرف بھی جو آپ سے پہلے تھے، کہ اگر آپ نے شرک کیا تو آپ کے عمل برباد ہوجائیں گے اور آپ خسارہ اٹھانے والوں میں شامل ہوجائیں گے۔
اس مفہوم کی بہت زیادہ آیات قرآن مجید میں موجود ہیں۔
2- قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ صحیح عقیدہ: اللہ ، فرشتوں ، کتابوں ، رسولوں ، آخرت کے دن ، اور اچھی بری تقدیر پر ایمان لانے کا نام ہے، یہ چھ ارکان ہیں صحیح عقیدہ کے جسے اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے اور اسی کو دیکر اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا ہے۔
ایمان کے چھ ارکان کے بارے میں کتاب و سنت میں بہت سے دلائل ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:
( لَيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ )البقرة/ 177
ترجمہ: نیکی یہی نہیں کہ تم اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف پھیر لو۔ بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر، روز قیامت پر، فرشتوں پر، کتابوں پر اور نبیوں پر ایمان لائے۔
اسی طرح فرمایا: ( آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللّهِ وَمَلآئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ) الآية البقرة/ 285
ترجمہ: رسول پر جو کچھ اس کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا، اس پر وہ خود بھی ایمان لایا اور سب مومن بھی ایمان لائے۔ یہ سب اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم اللہ کے رسولوں میں سے کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے۔
ایک اور مقام پر فرمایا:( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ آمِنُواْ بِاللّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِيَ أَنزَلَ مِن قَبْلُ وَمَن يَكْفُرْ بِاللّهِ وَمَلاَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً بَعِيداً ) النساء/ 136
ترجمہ: اے ایمان والو! (خلوص دل سے) اللہ پر، اس کے رسول پر اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو اس نے اپنے رسول پر نازل کی ہے۔ نیز اس کتاب پر بھی جو اس سے پہلے اس نے نازل کی تھی۔ اور جو شخص اللہ ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت کا انکار کرے تو وہ گمراہی میں بہت دور تک چلا گیا۔
اسی طرح احادیث کی کافی تعداد دلائل کے طور پر موجود ہے جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
صحیح مسلم میں روایت شدہ حدیث جسے امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، کہ جبریل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ توں اللہ ، اسکے فرشتوں ، اسکی کتابوں، اسکے رسولوں، آخرت کے دن، پر ایمان لائےاور اچھی بری تقدیر پر ایمان لائے۔ الحدیث
بخاری مسلم نے اسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
انہی چھ ارکان سے ایک مسلمان پر اللہ کے بارے میں اعتقاد، آخرت کے دن کے بارے میں اور دیگر غیبی چیزوں پر ایمان کے بارے میں واجبات نکلتے ہیں۔
3- اللہ تعالی پر ایمان: اسکا مطلب ہے کہ وہی سچا معبود ہے، عبادت کا حق دار اکیلا وہی ہے، اس لئے کہ اُسی نے بندوں کو پیدا کیا، وہ ان پر احسان کرتا ہے، وہ انہیں رزق عنائت کرتا ہے، اور وہ انکے ظاہر و باطن سے واقف ہے، وہ اطاعت گزاروں کو ثواب دینے پر قادر ہے، نافرمانوں کو سزا دے سکتا ہے، اسی عبادت کیلئے اس نے جن و انس کو پیدا کیا اور انہیں اپنی عبادت کا حکم بھی دیا۔
جبکہ اس عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ : وہ تمام کام جن کے ذریعے بندے اسکی بندگی کرتے ہیں وہ سارے کے سارے اللہ کیلئے خاص کر دئے جائیں، جیسے : دعا، خوف، امید، نماز ، روزہ، قربانی، نذر و نیاز وغیرہ سب عبادتیں اُسی کیلئے ہوں، ان عبادات میں خشوع و خضوع ہو، اسی کی طرف رغبت ہو، اسی کا ڈر ہو، اللہ تعالی سے کامل محبت بھی ہو، اور اسکی عظمت کے سامنے ہم ناتواں بھی ہوں۔
اللہ پر ایمان لانے میں یہ بھی شامل ہے کہ : جو عبادات اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر فرض اور واجب کی ہیں ان پرایمان لایا جائے، جیسے کہ اسلام کے پانچ ارکان، اور وہ ہیں: گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، جو بیت اللہ کے حج کی استطاعت رکھے اسکے لئے حج بیت اللہ کرنا، اور اسکے علاوہ جو بھی شریعت نے ہم پر فرائض عائد کئے ہیں ان تمام پر ایمان لانا ، اللہ پر ایمان لانے میں شامل ہے۔
اسلام کے ارکان میں سب سے بڑا رکن اس بات کی گواہی ہے کہ "اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں" چنانچہ لا الہ الا اللہ کی گواہی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ عبادت صرف اللہ کیلئے خاص ہو، اور باقی سب کا انکار ہو، لا الہ الا اللہ کا یہ معنی ہے، کیونکہ اس معنی ہی یہ ہے کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں، لہذا اللہ کے علاوہ جس کسی بشر، فرشتے، یا جن وغیرہ کی عبادت کی جائے گی وہ "معبودِ باطل "ہے، جبکہ "معبودِ برحق"صرف اللہ کی ذات ہے، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
( ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ هُوَ الْبَاطِلُ ) الحج/ 62
ترجمہ: یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی حق ہے اور اللہ کے سوا جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سب کچھ باطل ہے ۔
"اللہ پر ایمان "میں یہ بھی شامل ہے کہ : اللہ کے اچھے اچھے ناموں پر ایمان ہو، قرآن مجید میں ذکر شدہ عالی شان صفات پر ایمان ہو، ایسے ہی جو اسماء و صفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ان پر ایمان بغیر تحریف، تعطیل، تکییف، اور تمثیل کے ہو، انہیں ایسے ہی بیان کیا جائے جیسےوہ نصوص میں بیان ہوئے ہیں، انکی کیفیت بیان نہ کی جائے، جو معنی خیزی ان اوصاف میں بیان ہوئی ہے اس پر ایمان لایا جائے، اور اس معنی کو اللہ تعالی کی شان کے مطابق بیان کیا جائے، اور اس بات سے اجتناب کیا جائے کہ اسےمخلوق کے ساتھ تشبیہ دی جائے، اس بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:
( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ ) الشورى/ 11
ترجمہ: کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں اور وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
4- فرشتوں پر ایمان: اجمالی اور تفصیلی ایمان پر مشتمل ہے، چنانچہ ایک مسلمان کا یہ ایمان ہونا چاہئے کہ اللہ تعالی نے فرشتوں کو اپنی اطاعت کیلئے پیدا کیا ہے اور اللہ تعالی نے انہیں "عباد مکرمون" کا وصف دیا ہے، وہ اللہ تعالی کے حکم سے آگے نہیں بڑھتے اور وہ اسی کے حکم سے عمل کرتے ہیں، قرآن مجید میں فرمایا:
( يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى وَهُم مِّنْ خَشْيَتِهِ مُشْفِقُونَ ) الأنبياء/ 28
ترجمہ: اللہ ان بندوں کے سامنے کے (ظاہری) احوال کو بھی جانتا ہے اور پوشیدہ احوال کو بھی۔ اور وہ صرف اسی کے حق میں سفارش کرسکیں گے جس کے لئے اللہ راضی ہو اور وہ ہمیشہ اس کے خوف سے ڈرتے رہتے ہیں۔
ان فرشتوں کی بہت سی اقسام ہیں، کچھ کی ذمہ داری عرش کو اٹھانے کی ہے، کچھ جنت اور جہنم کے داروغے ہیں، اور کچھ لوگوں کے اعمال لکھتے ہیں۔
اللہ تعالی اور اسکے رسول نے جن فرشتوں کا نام لیکر ذکر کیا ہے ہم ان فرشتوں کے بارے میں تفصیلی ایمان رکھتے ہیں، مثلاً: جبریل، میکائیل، مالک آگ کا داروغہ، اسرافیل انکی ذمہ داری صور پھونکنے کی ہے، انکا ذکر صحیح احادیث میں بھی آیا ہے، جیسے کہ صحیح بخاری میں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتی ہیں کہ: (فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا، اور جنوں کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا گیا، اور آدم علیہ السلام کو اس سے پیدا کیا جو تمہیں بتلا دی گئی ہے) مسلم
5- کتابوں پر ایمان: ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اجمالی طور پر ایمان رکھے کہ اللہ تعالی نے اپنے انبیاء اور رسولوں پر کتب نازل فرمائیں، تاکہ لوگوں کو اللہ کا حق بتلا سکیں اور اسکی طرف دعوت بھی دیں، جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
( لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ) الآية الحديد/ 25
ترجمہ: بلاشبہ ہم نے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں۔
اور جن کتب کا اللہ تعالی نام ذکر کیا ہے ان پر تفصیلی ایمان لاتے ہیں، جیسے تورات، انجیل، زبور، اور قرآن مجید۔
قرآن مجید ان تمام کتب میں افضل ترین اور آخری کتاب ہے، یہ دیگر کتابوں کی نگہبان بھی ہے، اور انکی تصدیق بھی کرتی ہے، یہ واحد کتا ب ہے جسکی اتباع پوری امت پر واجب ہے، اور اسی کو قانونی بالادستی حاصل ہے، اسکے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ سنت پر عمل بھی ضروری ہے ، اس لئے کہ اللہ تعالی نے آپکو جن و انس تمام کیلئے رسول بنا کر بھیجا ہے، اور اللہ تعالی نے آپ پر قرآن مجید نازل کیا تا کہ اسی کے ذریعے ان کے فیصلے کریں، اور اللہ تعالی نے اس قرآن مجید کو سینے کی بیماریوں کیلئے شفا بھی بنا یا اور اس میں ہر چیز کا بیان شامل کیا، مؤمنوں کیلئے اس میں ہدایت اور رحمت ہے ، اس بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: ( وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ) الأنعام/ 155
ترجمہ: اور یہ کتاب (قرآن) جو ہم نے نازل کی ہے۔ بڑی بابرکت ہے لہذا اس کی پیروی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تم پر رحم کیا جائے۔
6- رسولوں پر ایمان: رسولوں پر بھی اجمالاً اور تفصیلاً ایمان ضروری ہے، چنانچہ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو رسول بنا کر خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا، انہوں نے حق کی دعوت دی؛ جس نے انکی بات کو مان لیا ، وہ کامیاب ہوگیا، اور جس نے انکی مخالفت کی وہ ناکام و نامراد لوٹا، ان انبیاء میں سب سے افضل اور آخری پیغمبر ہمارے نبی محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اسی بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا: ( وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ ) النحل/ 36
ترجمہ: ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا (جو انھیں یہی کہتا تھا) کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔
اللہ تعالی نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے کسی کا نام لیا تو ہم ان پر تفصیلاً ایمان لاتے ہیں، جیسے : نوح، ہود، صالح، ابراہیم، وغیرہ علیہم الصلاۃ و السلام ہیں۔
7- آخرت کے دن پر ایمان: آخرت کے دن پر ایمان لانے میں وہ تمام اشیاء شامل ہیں جن کے بارے میں ہمیں اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے، کہ موت کے بعد کیا ہوگا، مثلاً قبر کے سوالات، قبر کا عذاب، اور وہاں ملنے والی نعمتیں، پھر قیامت کے دن کے حالات و واقعات، اس دن کی سختیاں، پل صراط، اعمال کے وزن کیلئے ترازو، حساب ، جزا، لوگوں کے نامہ اعمال جو کسی کو دائیں ہاتھ میں ملیں گے اور کسی کو بائیں ہاتھ میں یا کمر کے پیچھے سے دئیے جائیں گے۔
ایمان بالآخرت میں یہ بھی شامل ہے کہ ، حوض پر ہمارا ایمان ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے پانی پلائیں گے، جنت و جہنم پر ایمان ہو، جنت میں مؤمنین اپنے رب کا دیدار کرینگے، اور وہ ان سے ہم کلام بھی ہوگا، اس کے علاوہ جو کچھ بھی قرآن مجید میں یا صحیح احادیث میں آیا ہے ان تمام پر ایمان لانا ضروری ہے، اور اسکی اسی انداز سے تصدیق ضروری ہے جیسے ہمیں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہے۔
8- تقدیر پر ایمان: اچھی بری تقدیر پر ایمان لانا چار چیزوں کو شامل ہے: 1) علم، 2) کتابت، 3) خلق، 4) مشیئت، اسکی تفصیل مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات میں دیکھی جاسکتی ہے: ( 34732 ) اور ( 49004 ) اور ( 20806 )
9- ایمان باللہ میں یہ بات بھی شامل ہے کہ : ایمان زبان سے اقرار اور عمل کانام ہے، اطاعت کرنے سے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے، اور نافرمانی سے ایمان کم ہوتا ہے، اور کسی بھی مسلمان کو شرک وکفر سے چھوٹے گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے کافر نہیں کہا جاسکتا، مثلاً: زنا، چوری، سود خوری، شراب نوشی، والدین کی نافرمانی، وغیرہ جیسے کبیرہ گناہ کرنے کی وجہ سے کافر نہیں ہوگا بشرطیکہ ان گناہوں کو اپنے لئے حلال نہ سمجھے، اس کی دلیل اللہ کا فرمان:
( إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ ) النساء/ 48
ترجمہ: اگر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے تو یہ گناہ وہ کبھی معاف نہ کرے گا اور اس کے علاوہ جو گناہ ہیں، وہ جسے چاہے معاف بھی کردیتا ہے۔
ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے متواتر احادیث میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی جہنم سے ہر اس شخص کو نکال دے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوا۔
10- ایمان باللہ میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ کیلئے محبت کی جائے، اور اللہ ہی کیلئے بغض رکھا جائے، دوستی اور دشمنی صرف اللہ کیلئے ہو، چنانچہ مؤمنوں سے محبت اس لئے ہو کہ وہ مؤمن ہے اور کفار سے دشمنی اس لئے ہو کہ وہ کافر ہے۔
اور اس امت میں سب سے بڑے رتبہ والے مؤمنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ہیں، چنانچہ اہل السنۃ و الجماعۃ ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ انبیاء کے بعد افضل ترین لوگوں میں شامل ہیں، اسکی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بہترین لوگ وہ ہیں جو میری صدی کے لوگ ہیں، پھر اسکے بعد آنے والے اور پھر انکے بعد آنے والے)اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے۔
اہل السنۃ کا عقیدہ ہے کہ افضل ترین صحابی : ابو بکر صدیق پھر عمر فاروق، پھر عثمان ذوالنورین، اور پھر علی المرتضی رضی اللہ عنہم جمیعاً ہیں، انکے بعد باقی عشرہ مبشرہ صحابہ اور پھر انکے بعد دیگر صحابہ کرام کا درجہ ہے، اہل السنۃصحابہ کرام کے اختلافات کے بارےمیں خاموشی اختیار کرتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ صحابہ کرام ان میں مجتہد تھے، جو اپنے اجتہاد میں درست تھا اسے دوہرا اجر ملے گا ، اور جو غلطی پر تھا اسے ایک اجر ضرور ملے گا، اہل السنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے بھی محبت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات امہات المؤمنین سے بھی محبت کرتے ہیں اور سب کیلئے "رضی اللہ عنہ"بھی کہتے ہیں۔
اہل السنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے بغض رکھنے والے رافضیوں سے بالکل بری ہیں، جو اُنہیں سبّ و شتم کا نشانہ بناتے ہیں اور اہل بیت کی شان میں غلو سے کام لیتے ہیں، اور انہیں اس درجہ سے بھی بلند لے جاتے ہیں جو اللہ تعالی نے انہیں عطا فرمایا ، اہل السنۃ ان ناصبیوں سے بھی بری ہیں جو اہل بیت کو اپنی زبان اور عملی طور پر تکلیف پہنچاتے ہیں۔
11- مندرجہ بالا جو کچھ بھی ہم نے بیان کیا ہے یہی صحیح عقیدہ ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے دیکر بھیجا، اور یہی فرقہ ناجیہ کا عقیدہ ہے جو کہ اہل السنۃ والجماعۃ ہیں، جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میری امت کی ایک جماعت حق پر قائم رہے گی، انکی مخالفت کرنے والا انہیں کچھ بھی نقصان نہ پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آجائے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ("یہودی اکہتر (71) فرقوں میں تقسیم ہوئے، عیسائی بہتّر (72) فرقوں میں بٹ گئے، اور یہ امت تہتّر (73) فرقوں میں تقسیم ہوگی ایک جنت میں جائے گا اور باقی جہنم میں جائیں گے "، صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ ! وہ کون ہونگے؟ آپ نے فرمایا: (جو اس راستے پر ہونگے جس پر میں اور میرے صحابہ کرام ہیں) یہی وہ عقیدہ ہے جسے مضبوطی سے تھامنا ہمارے لئے انتہائی ضروری ہے، کہ اس پر استقامت حاصل کریں، اور جو بھی اس عقیدہ کے مخالف ہو اس سے بچ کر رہیں۔
12- اس عقیدہ سے انحراف کرنے والے اور اس کے خلاف چلنے والے لوگ بہت سی اقسام میں ہیں؛ ان میں سے بعض بت پرست، آستانہ پرست، اور کچھ فرشتوں، اولیاء، جن، حجر و شجر کی پوجا کرنے والے لوگ ہیں، ان لوگوں نے انبیاء کرام کی دعوت کو قبول ہی نہیں کیا، بلکہ انبیاء کرام کی دعوت کی مخالفت کی اور ہٹ دھرمی سے کام لیا، جیسے کہ قریش اور دیگر عرب قبائل نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تھا، وہ لوگ اپنے جھوٹے معبودوں سے اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کا سوال کرتے تھے، مریضوں کیلئے شفا انہی سے مانگتے، دشمنوں پر غلبہ بھی انہی سے طلب کرتے، اس کام کیلئے وہ ان کیلئے قربانیاں کرتے، نذریں مانتے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کاموں سے روکا اور ایک اللہ کی عبادت کیلئے دعوت دی تو انہیں یہ بہت ہی عجیب لگا اور اس دعوت کا انکار کر دیا اور کہنے لگے:
( أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلَهاً وَاحِداً إِنَّ هَذَا لَشَيْءٌ عُجَابٌ ) ص/ 5
ترجمہ: اس نے تو سب خداؤں کو ایک ہی الٰہ بنا ڈالا۔ یہ کیسی عجیب بات ہے۔
پھر حالات بدلتے گئے اور اکثر لوگوں پر جہالت کا غلبہ آگیا، تو بہت سے لوگ جاہلیت والے کام کرنے لگے، انبیاء کرام اور اولیاء کی شان میں غلو کرنا، ان سے دعائیں مانگنا، اپنی حاجات کیلئے انہیں کو پکارنا، مختلف شکلوں میں شرکیہ کام ہونے لگے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے لا الہ الا اللہ کا معنی ایسے نہیں سمجھا جیسے عرب کے کفار نے سمجھا تھا، روز بروز لوگوں کے اندر شرک پھیلتا رہا، یہاں تک کہ ہمارا زمانہ آگیا، اور عہد نبوت سے لوگ مزید دور ہوتے چلے گئے۔
13- صحیح عقیدہ کے منافی کفریہ عقائد رکھنے والے لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مخالف ہیں، یہ لوگ اس وقت "مارکس" اور "لینین" وغیرہ بے دین لوگوں کے پیروکار ہیں، یہ اپنے نظریات کو "سوشلزم"، یا "کمیونزم" کا نام دیں یا "بعثیت"، وغیرہ کا ان تمام مُلحد لوگوں کا نظریہ ہے کہ "کوئی معبود نہیں" صرف مادہ پرستی کا نام زندگی ہے، ان لوگوں کے نظریات میں آخرت، جنت ، جہنم کا انکار شامل ہے ، یہ لوگ تمام ادیان کو یکسر مسترد کرتے ہیں، جو شخص انکی کتب کا مطالعہ کرے اسے یقینی طور پر اس بات کا علم ہو جائے گا، اور اس میں کوئی شک نہیں یہ نظریہ تمام آسمانی مذاہب کے مخالف ہے، اور اپنے ماننے والوں کو دنیا و آخرت میں بد تر سے بدترین کی طرف دھکیل دے گا۔
14- حق مخالف نظریات میں باطنی اور کچھ صوفی لوگوں کے افکار بھی شامل ہیں، کیونکہ ان میں سے کچھ لوگ اپنے آپ کو ولی قرار دیکر امورِ کائنات میں اللہ تعالی کے ساتھ شراکت کا دعوی بھی کرتے ہیں، اور پھر انہیں قطب، وتد، غوث وغیرہ سے موسوم کرتے ہیں، یہ ربوبیت میں انتہائی گھٹیا قسم کا شرک ہے، یہ شرک جاہل عربوں کے شرک سے بھی گھناؤنا ہے، اس لئے کہ عرب کفار نے کبھی بھی ربوبیت میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا تھا، بلکہ انہوں نے صرف شرک فی العبادت کا ارتکاب کیا تھا، اور پھر وہ صرف آسودگی کی حالت میں شرک کیا کرتے تھے، جبکہ تنگی و ترشی میں صرف اللہ تعالی کی بندگی کرتے ہوئے اسی کو یاد کرتے اور پکارتے تھے، جیسے کہ ان کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
( فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ ) العنكبوت/ 65
ترجمہ: پھر جب یہ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تو اللہ کی مکمل حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے خالصتاً اسے ہی پکارتے ہیں اور جب وہ انھیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو اس وقت پھر شرک کرنے لگتے ہیں۔
جبکہ ربوبیت کا وہ صرف اللہ تعالی ہی کیلئے اقرار کیا کرتے تھے، جیسے کہ ان کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:
( وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ )الزخرف/ 87
ترجمہ: اور اگر آپ انہیں پوچھیں کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یقینا کہیں گے کہ اللہ نے۔
( قُلْ مَن يَرْزُقُكُم مِّنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ أَمَّن يَمْلِكُ السَّمْعَ والأَبْصَارَ وَمَن يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيَّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَن يُدَبِّرُ الأَمْرَ فَسَيَقُولُونَ اللّهُ فَقُلْ أَفَلاَ تَتَّقُونَ ) يونس/ 31
ترجمہ: آپ ان سے پوچھئے کہ: آسمان اور زمین سے تمہیں رزق کون دیتا ہے؟ یا وہ کون ہے جو سماعت اور بینائی کی قوتوں کا مالک ہے؟ اور کون ہے جو مردہ سے زندہ کو اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے؟ اور کون ہے جو کائنات کا نظام چلا رہا ہے؟ وہ فوراً بول اٹھیں گے کہ ''اللہ'' پھر ان سے کہئے کہ ''پھر تم اس سے ڈرتے کیوں نہیں؟''
اس مفہوم کی اور بھی بہت سی آیات ہیں۔
15- اسماء و صفات کے باب میں صحیح عقیدہ کے مخالف نظریات میں جہمی، معتزلی اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے اہل بدعت کے افکار شامل ہیں ، جو اللہ کی صفات کا انکار کرتے ہیں، اور اللہ سبحانہ وتعالی کو تمام صفاتِ کمال سے عاری سمجھتے ہوئے اللہ تعالی کو معدوم ، جمادات، اور ناممکن اشیاء کی صفات سے متصف مانتے ہیں، اللہ تعالی ان کے نظریات سے کہیں بلند ہے۔
اسی طرح اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اللہ کی کچھ صفات کو ثابت کرتے ہیں اور کچھ کا انکار کرتے ہیں جیسے اشاعرہ ہیں، اس لئے کہ جن صفات کو انہوں نے اللہ کیلئے ثابت کیا ہے انہی صفات وہ کچھ لازم آتا ہے ،جن سے بھاگتے ہوئے دیگر صفات کا انہوں نے انکار کیا ہے، اور اسکے لئے انہوں نے دلائل میں تاؤیل بھی کر ڈالی اور شرعی و عقلی دلائل کو پس پشت ڈال کر واضح تناقض میں پڑ گئے۔
شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کی کتاب" العقيدة الصحيحة وما يضادها " سے اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا۔
واللہ اعلم
Share:

Maa Ke Jaisa Is Duniya Me Koi Nahi.

ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﻮ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ .... ﺍﺱ ﺟﯿﺴﺎ ﻣﮩﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ .... ﮨﺎﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﻣﺎﮞ ﻧﻌﻢ ﺍﻟﺒﺪﻝ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮐﮩﺎ ..میں بہت ہی مہربان رحم کرنے والا ہوں.... ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﮐﮯ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺳﻼﻣﺖ ﺭﮐﮭﮯ ... ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﺮﻭﭦ ﮐﺮﻭﭦ ﺟﻨﺖ ﻧﺼﯿﺐ ﮐﺮﮮ .…. ﺁﻣﯿﻦ
ﺍﻣﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﺌﮯ ﺩﻥ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻝ ﮐﺮﯾﮟ

Share:

Shadi Se Pahle Talluq kayem Karne Ka Anjaam.

Mujhse Nikah Kar Lo

 ﮨﺮ ﻃﺮﻑ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﻮﺉ ﺟﻮﺍﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺍﺳﮑﯽ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﭼﯿﺦ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮ ﻟﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﮕﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﺎ ﺍﺗﻨﺎ ﻇﺮﻑ ﮐﮩﺎﮞ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺉ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺣﻼﻝ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎﺗﺎ۔
ﻭﮦ ﺩﻧﯿﺎﻭﯼ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺗﻨﮓ ﺁ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﺴﯽ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻟﻮﮒ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺣﯿﺎﺀ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻋﺠﯿﺐ ﻟﮍﮐﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺧﻮﺩ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺎ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮩﮧ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﯾﮧ ﺗﻮ ﻭﮦ ﯾﺎ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺧﺪﺍ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺟﺲ ﻋﺎﺷﻖ ﺳﮯ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺑﺤﺎﻝ ﺗﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﮐﺎﻥ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺩﮬﺮﺗﺎ ﮨﻮ ۔
ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﮩﺖ ﻋﺰﺕ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮨﺮ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﺁﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺗﻨﮩﺎﺉ ﮐﻮ ﺩﻭﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ۔ﯾﮧ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ؟؟؟
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﯿﻨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺟﯿﻨﺎ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺮﻧﺎ ﮨﮯ۔ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻧﮑﺎﺡ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﺎ ﮨﮯ۔
ﻣﮕﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﮕﻨﯽ ﺷﺪﮦ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﺩﯼ ﺍُﺱ ﻟﮍﮐﯽ ﺳﮯ ﮐﺮﻭﻧﮕﺎ ﺟﻮ ﻟﮍﮐﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﻧﮯ ﭼُﻦ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﮯ۔
ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺳﺎﺭﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ ﺍﺗﻨﺎ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﮞ۔
ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﺤﺒﺖ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮐﺮ ﻟﯿﻨﺎ ﺟﺎﺋﺰ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﮯ ﺑﻨﺎ ﮐﯿﺎ ﻓﯽ ﺍﻟﻮﻗﺖ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ؟ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﺎﺕ ﺍﭘﻨﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺁ ﮔﺊ .. ﺗﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﭘﺮ ﺁﮔﺊ؟؟
ﮐﯿﻮﮞ؟؟؟؟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﮨﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﻨﮧ ﮐﮯ ﺑَﻞ ﮔﺮﮮ۔
ﻟﮍﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﻧﺎ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﻧﺎﺩﺍﻥ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﯾﮧ ﻭﻗﺖ ﺍُﺱ ﭘﺮ ﺿﺮﻭﺭ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻏﺎﺋﺐ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﮧ ﺑﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮯ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﮐﮭﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺍﻭﺭ ﻋﺎﺭﺿﯽ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﮯ ﭼﻠﻨﮯ ﮐﮧ خواب ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ﻣﮕﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻇﺮﻑ ﮐﺘﻨﺎ ﮐﻢ ﺗﺮ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺨﻠﺼﯽ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺳﮑﺎ۔ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﮨﺮ ﺟﮕﮧ ﮨﺮ ﮔﮭﮍﯼ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺳﺎﺭﯼ ﻋﻤﺮ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﯾﻮﮞ ﺍﮐﯿﻼ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﮨﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﺟﺎﺗﺎ؟
ﺧﺪﺍﺭﺍ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﺮﺑﺎﺩ ﻣﺖ ﮐﯿﺠﯿﮯ ۔ﺍﮔﺮ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﺷﺘﮯ ﻧﺒﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻇﺮﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺑﮭﯽ ﻣﺖ ﺩﯾﺠﯿﮯ۔ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺴﯽ ﻣﺠﺒﻮﺭﯼ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ۔
ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻮ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ۔ﺍﮔﺮ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺷﻮﻕ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ ﻣﮕﺮ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻏﯿﺮ ﻣﺮﺩ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﻣﺖ ﺟﺎﺋﯿﮯ ۔ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ ﮐﻮ ﯾﻮﻧﮩﯽ ﭘﭩﺨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﺭﺷﺘﮯ ﻧﺒﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻇﺮﻑ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ۔ﺁﻣﯿﻦ۔
Share:

Mujhe Acha Lagta Hai Mard Se Mukabla Nahi Karna.

 Apne Shauhar ke Sath Khushgwar Zindagi Gujarne Ke Kuchh Nasihatein

ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﺮﺩ ﺳﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺟﮧ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﺭﮨﻨﺎ "
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﮦ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ " ﺭﮐﻮ ! ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﻮﮞ "
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﺪﻡ ﺁﮔﮯ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﮯ . ﻏﯿﺮ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺍﻭﺭ ﺧﻄﺮﻧﺎﮎ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﺍﺳﮑﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﺍﺳﮑﮯ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺸﺎﻥ ﭘﺮ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﻗﺪﺭﮮ ﮨﻤﻮﺍﺭ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﯿﺎ .
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﮔﮩﺮﺍﺋﯽ ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﭼﮍﮬﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭽﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﮈﮬﻼﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﮦ ﻣﮍ ﻣﮍ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﭼﮍﮬﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺪﺩ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﮍﮬﺎﺗﺎ ﮨﮯ .
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﺳﻔﺮ ﭘﺮ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﺑﻮﺟﮫ ﻭﮦ
ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﺎﻧﺪﮬﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺑﻨﺎ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯿﮯ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ . ﺍﻭﺭ ﺍﮐﺜﺮ ﻭﺯﻧﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺟﮕﮧ ﻣﻨﺘﻘﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﺳﮑﺎ ﯾﮧ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ " ﺗﻢ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭ ﯾﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ "
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻧﺴﺒﺘﺎً ﺳﺎﯾﮧ ﺩﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﻣﻘﺎﻡ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ .
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﯽ ﮨﺮ ﭼﯿﺰ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﮨﯽ ﻣﮩﯿﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻗﺖ ﻧﮧ ﺍﭨﮭﺎﻧﯽ ﭘﮍﮮ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﻣﻨﺎﺳﺐ ﺭﻭﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﮮ .
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺧﻨﮑﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﺗﺎﺭﮮ ﮔﻨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﭨﮭﻨﮉ ﻟﮓ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﮈﺭ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﮐﻮﭦ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ .
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺭﮮ ﻏﻢ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﻈﺒﻮﻁ ﮐﺎﻧﺪﮬﺎ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺮ ﻗﺪﻡ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﯾﻘﯿﻦ ﺩﻻﺗﺎ ﮨﮯ .
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺑﺪﺗﺮﯾﻦ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺘﺎﻉِ ﺣﯿﺎﺕ ﻣﺎﻥ ﮐﺮ ﺗﺤﻔﻆ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺁﮔﮯ ﮈﮬﺎﻝ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ " ﮈﺭﻭ ﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﻭﮞ ﮔﺎ "
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﻏﯿﺮ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﺣﻖ ﺟﺘﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ " ﺗﻢ ﺻﺮﻑ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﻮ "
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺍﮐﺜﺮ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺍﻥ ﺗﻤﺎﻡ ﺧﻮﺷﮕﻮﺍﺭ ﺍﺣﺴﺎﺳﺎﺕ ﮐﻮ ﻣﺤﺾ ﻣﺮﺩ ﺳﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮﯼ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮐﮭﻮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ .
ﺷﺎﯾﺪ ﺳﻔﯿﺪ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﺳﻮﺍﺭ ﺷﮩﺰﺍﺩﻭﮞ ﻧﮯ ﺁﻧﺎ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﻣﺼﻨﻮﻋﺎﺕ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺶ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ .
ﺟﺐ ﻣﺮﺩ ﯾﮧ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﺐ ﻭﮦ ﺍﺳﮑﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﮍﮬﺎﻧﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ . ﺗﺐ ﺍﯾﺴﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻧﻔﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺑﮯ ﺭﻧﮓ ﺍﻭﺭ ﺑﺪﻣﺰﮦ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﺗﻮﺍﺯﻥ ﮐﮭﻮ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﮯ .
ﻣﻘﺎﺑﻠﮧ ﺑﺎﺯﯼ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺩﻭﮌ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻄﯿﻒ ﻟﻤﺤﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﺛﺎﺛﮧ 
 ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮐﺮ ﻟﯿﺠﺌﮯ       

Share:

Khush Akhlaqi Kaisi Ho?

ﻧﺎﺯﯾﮧ ﮐﯽ ﻧﺌﯽ ﻧﺌﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ . ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻞ ﺗﻮ ﺳﺐ ﮨﯽ ﺧﻮﺵ ﺍﺧﻼﻗﯽ ﺳﮯ ﭘﯿﺶ ﺍٓﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺍٓﮨﺴﺘﮧ ﺍٓﮨﺴﺘﮧ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﺑﻮﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﭘﺮﺕ ﺍﺗﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺋﯽ . ﺩﺑﮯ ﺩﺑﮯ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺯﯾﮧ ﮐﯽ ﭘﮑﯽ ﺭﻧﮕﺖ ﭘﺮ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ . ﻧﺎﺯﯾﮧ ﮐﯽ ﭼﺎﺭ ﻧﻨﺪﯾﮟ ﺗﮭﯿﮟ . ﻧﺎﺯﯾﮧ ﮐﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﻃﺎﮨﺮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺗﮭﮯ . ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻭﮦ ﻋﺎﻡ ﺳﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﮯ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻭﺍﻟﯽ ﻧﻨﺪ ﺍﻧﺪ ﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯽ . ’’ ﺍﻭﮦ ! ﯾﮧ ﺍٓﭖ ﮨﯿﮟ ﻧﺎﺯﯾﮧ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ! ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﯽ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﺎﻡ ﻭﺍﻟﯽ ﺍٓﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ . ‘‘ ﻣﺎﺭﯾﮧ ﻧﮯ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍٓﻧﮑﮭﯿﮟ ﺻﺎﻑ ﻣﺬﺍﻕ ﺍﮌﺍﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ . ﻧﺎﺯﯾﮧ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺑﺠﮫ ﮐﺮ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ .
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺩﻥ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺧﺎﺹ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ . ﮨﺮ ﻭﻗﺖ ﺗﯿﺎﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﺗﺎﮐﮧ ﺍٓﺋﻨﺪﮦ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺎﻡ ﻭﺍﻟﯽ ﺧﺎﻟﮧ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﻭﺍﻟﯽ ﺧﺎﻟﮧ ﮐﺎ ﻃﻌﻨﮧ ﻧﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﮯ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺭﻧﮕﺖ ﺑﮯ ﺣﺪ ﮐﺎﻟﯽ ﺗﮭﯽ . ﮐﺎﻟﮯ ﮔﻮﺭﮮ ﺳﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﻇﺎﻟﻢ ﻣﻌﺎﺷﺮﮦ ﯾﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﻭﺍﯾﺎﺕ ﭼﮭﻮﮌﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ . ﺍﮐﺜﺮ ﮐﺎﻟﯽ ﺭﻧﮕﺖ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﻣﺬﺍﻕ، ﻃﻌﻨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻃﻨﺰ ﮐﯽ ﺯﺩ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ . ﺍٓﺝ ﻧﺎﺯﯾﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮩﻦ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ . ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺍﻣﯽ ﮐﮍﮬﺎﺋﯽ ﻭﺍﻻ ﺳﺮﺥ ﺳﻮﭦ ﭘﮩﻦ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ . ﮨﻠﮑﮯ ﭘﮭﻠﮑﮯ ﻣﯿﮏ ﺍﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﮦ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﺑﮩﺖ ﻓﺮﯾﺶ ﺍﻭﺭ ﺍﭼﮭﯽ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ . ﻃﺎﮨﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ . ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﮨﯿﻨﮉ ﺑﯿﮓ ﺳﻨﺒﮭﺎﻟﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﯽ ، ﺍٓﻧﭩﯽ ‏( ﺳﺎﺱ ‏) ﮐﯽ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍﺋﯽ . ’’ ﺍٓﺋﮯ ﮨﺎﺋﮯ ! ﺍﯾﮏ ﺗﻮ .… ‘‘! ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻭﮦ ﻣﻨﮧ ﮨﯽ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺑﺪﺑﺪﺍﺋﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺑﻮﻟﯿﮟ ’’. ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺳﺮﺥ ﺳﻮﭦ . ﺑﭩﯿﺎ ! ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ . ﭼﻠﻮ ﺷﺎﺑﺎﺵ ! ﮐﺴﯽ ﮨﻠﮑﮯ ﺭﻧﮓ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻦ ﮐﺮ ﺟﺎﻭٔ . ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﭻ ﺭﮨﮯ ‘‘. ﯾﮧ ﺳﻨﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻧﺎﺯﯾﮧ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺧﻮﺩ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩﯼ ﮨﻮﺍ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﺑﮯ ﺟﺎﻥ ﺳﯽ ﻟﮕﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ . ’’ ﺍﻑ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ! ﺍٓﭖ ﻧﺎﮞ .. ﺑﺲ ﺩﮬﯿﻤﮯ ﺭﻧﮓ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻨﺎ ﮐﺮﯾﮟ . ﭘﻠﯿﺰ . ﯾﮧ ﺷﻮﺥ ﺭﻧﮓ ﺍٓﭖ ﮐﻮ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺳﻮﭦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ‘‘. ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻧﻨﺪ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﮨﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﻼﺋﯽ . ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺧﻮﺩ ﺑﮯ ﺣﺪ ﮔﻮﺭﯼ ﺭﻧﮓ ﮐﯽ ﻣﺎﻟﮏ ﺗﮭﯽ . ﺍﺱ ﺩﻥ ﻧﺎﺯﯾﮧ ﮐﺎ ﺩﻝ ﭼﮭﻨﺎﮎ ﺳﮯ ﭨﻮﭦ ﮔﯿﺎ . ﻭﮦ ﭨﻮﭨﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﻃﺎﮨﺮ ﮐﻮ ’’ ﭘﺎﻧﭻ ﻣﻨﭧ ﺑﻌﺪ ﺍٓﺋﯽ ‘‘ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ . ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﻧﮑﻠﯽ ﺗﻮ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ . ﺍﺱ ﻧﮯ ﮨﻠﮑﮯ ﺑﺮﺍﻭٔﻥ ﺭﻧﮓ ﮐﺎ ﻻﻥ ﮐﺎ ﺳﻮﭦ ﭘﮩﻦ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ . ﻣﯿﮏ ﺍﭖ ﺑﮭﯽ ﺻﺎﻑ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺭﻭﺋﯽ ﺭﻭﺋﯽ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ . ﺍﯾﮏ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﮐﭽﮫ ﮨﻮﺍ . ﺧﻮﺩ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﮨﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﻃﮯ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ . ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﻧﺎﺯﯾﮧ ﺗﯿﺰ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺳﯽ ﭼﺎﺩﺭ ﺍﻭﮌﮬﮯ ﮔﯿﭧ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ . ’’ ﮨﺎﺋﮯ ﯾﮧ ﮐﺎﻟﯽ ﮐﻠﻮﭨﯽ ﺑﮩﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﯽ ﭘﻠﮯ ﭘﮍﻧﯽ ﺗﮭﯽ . ﺍﻑ ! ﺍﺗﻨﺎ ﮐﺎﻻ ﺭﻧﮓ .. ﺑﮭﺌﯽ ﻭﮦ ﭨﻮﭨﮑﮯ ﮐﻮﻥ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺫﺭﺍ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺘﺎ ﺩﮮ .. ﺍﺭﮮ ﻣﯿﺮﯼ ﺍٓﻧﮑﮭﻮﮞ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﭘﭩﯽ ﺑﻨﺪﮪ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ . ﺟﺐ ﺭﺷﺘﮧ ﻟﯿﻨﮯ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺑﮍﺍ ﻣﯿﮏ ﺍﭖ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ . ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻼ ﮐﮧ ﺍﺻﻞ ﺭﻧﮕﺖ ﺗﻮﮮ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻣﺎﺗﯽ ﮨﮯ ‘‘. ﻧﺎﺯﯾﮧ ﮐﯽ ﺳﺎﺱ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﺑﻮﻟﮯ ﺟﺎﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ . ﺍﺏ ﺗﻮ ﻧﺎﺯﯾﮧ ﺍﻥ ﺍٓﻭﺍﺯﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﻃﻌﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﯼ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ . ﺍﺱ ﺩﻥ ﺑﮭﯽ ﻧﺎﺯﯾﮧ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺎﺯ ﮐﺎﭦ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺎﺱ ﺑﻮﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ . ’’ ﺩﯾﮑﮫ ﻃﺎﮨﺮ ! ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﺗﺠﮭﮯ ﺧﻮﺵ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﻮ ﻭﮨﯽ ﮨﻮﺍ . ﺟﺐ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﻣﻨﮧ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﯾﮩﺎﮞ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﮭﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ . ﻣﺴﮑﺮﺍﮨﭧ ﺗﻮ ﻧﺎﻡ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍٓﺗﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ . ﻣﻨﺤﻮﺳﯿﺖ ﭘﮭﯿﻼﺗﯽ ﮨﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ . ‘‘ ﻃﺎﮨﺮ ﻣﯿﺎﮞ ﻣﺴﻤﯽ ﺳﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺑﻮﻟﮯ . ’’ ﺍﻣﺎﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺧﻮﺵ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﻭ . ﮐﺲ ﭼﯿﺰ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﮨﮯ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ‘‘. ’’ ﺍﺋﮯ ﮨﺌﮯ ! ﺑﮭﺌﯽ ﺍﮔﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻨﺘﯽ ﺗﻮ ﻓﺎﺭﻍ ﮐﺮﻭ ﺍﺳﮯ . ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺷﮩﺰﺍﺩﮮ ﮐﻮ . ‘‘ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺑﯿﺮﻭﻧﯽ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﭩﮑﺎ ﺗﻮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺎﮞ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﺎ ﻧﺎﺯﯾﮧ ﻧﺎﻣﮧ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺯﯾﮧ ﮐﮯ ﺍٓﻧﺴﻮ !.. ﺟﯽ ﻧﮩﯿﮟ ! ﻭﮦ ﺧﺘﻢ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ . ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﯿﺎﺯ ﺑﮩﺖ ﮐﮍﻭﺍ ﺗﮭﺎ ﯾﺎ ﻟﮩﺠﮯ ! ﻋﺎﺋﺸﮧ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍٓﺋﯽ ﺗﮭﯽ . ﻧﺎﺯﯾﮧ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﯼ ﻃﺮﺡ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺗﮭﯽ . ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺮﯾﺎﻧﯽ ﺑﻨﺎﺋﯽ ، ﺳﺎﻟﻦ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻓﺘﮯ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﭩﮭﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻭﭦ ﭨﺮﺍﺋﻔﻞ . ﺟﺐ ﺭﺍﺋﺘﮧ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻓﺮﯾﺞ ﮐﮭﻮﻻ ﺗﻮ ﺩﮨﯽ ﻏﺎﺋﺐ ﺗﮭﺎ . ’’ ﺍﻭﮦ ! ﺍٓﻧﭩﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﻮﮞ . ﺩﮨﯽ ﻣﻨﮕﻮﺍ ﺩﯾﮟ . ﺷﺎﯾﺪ ﺍﻧﮑﻞ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﮯ ﮨﻮﮞ ‘‘. ﯾﮧ ﺳﻮﭼﺘﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻭﮦ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮍﮬﯽ ﺗﻮ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﮐﯽ ﺳﺴﮑﯿﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺪﻡ ﺭﻭﮎ ﻟﯿﮯ . ’’ ﺍﻣﯽ ﺟﯽ ! ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺎﺱ ﮐﮩﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺧﺎﻟﯽ ﮔﻮﺭﺍ ﺭﻧﮓ ﮨﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ . ﺑﻨﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺑﺎﺕ ﮨﻮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ . ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﮯ ﮐﻮﺳﻨﮯ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﯿﮟ . ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺑﮕﺎﮌﺍ ﮨﮯ .
ﺍﺱ ﺩﻥ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺯ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺯﯾﺎﮦ ﺑﺮﺍﻭٔﻥ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮯ ﮨﻨﺮ ، ﮐﻮﮌﮪ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﻮﮨﮍ ﮐﮩﺘﯽ ﺭﮨﯿﮟ . ﺍﮐﺮﻡ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﺑﮭﯽ ﻟﮕﺎ ﺩﯼ . ﺍﮐﺮﻡ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﮭﭙﮍ ﻣﺎﺭﺍ ﺍﻣﯽ ﺟﯽ ‘‘..… ﺍﺗﻨﺎ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﻋﺎﺋﺸﮧ ﭘﮭﺮ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﯽ . ﺑﺎﮨﺮ ﮐﮭﮍﯼ ﻧﺎﺯﯾﮧ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺟﯿﺴﮯ ﺩﮬﮍﮐﻨﺎ ﺑﮭﻮﻝ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ . ﮐﯿﺎ ﻣﮑﺎﻓﺎﺕ ﻋﻤﻞ ﺍﺗﻨﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ . ﯾﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭼﺎ ﺗﮭﺎ . ﺍﺻﻞ ﺭﻧﮓ ﻣﻦ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ . ﻣﻦ ﮐﺎﻻ ﺗﻮ ﺗﻦ ﮐﺎﻻ . ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺍٰﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ’’. ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﺷﺮ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮨﯿﮟ ‘‘.

Share:

Jinhone Apni Zindagi Bagair Allah Ke Yad Me Gujar Di.

 Waise Log Jo Apni Zindagi me Kabhi Allah Ko Yad Nahi Karte 

ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﻋﺮﺏ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﺹ ﻣﻘﺼﺪ ﺣﯿﺎﺕ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺻﺮﻑ ﺩﻧﯿﺎ ﮨﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺗﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﺗﻌﻠﻖ ﺑﮭﯽ ﮐﻢ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ۔ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺪﺕ ﺳﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺟﺎﻧﺎ ﮔﻮﺍﺭﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﻧﮧ ﮨﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﯿﺎ۔ ﻭﮦ ﺑﺮﮮ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﮨﻤﺮﺍﮦ ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﺻﺒﺢ ﺗﮏ ﻟﮩﻮ ﻭﻟﻌﺐ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﮐﺎﺭ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﻐﻮﻝ ﺭﮨﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﮐﯿﻠﮯ ﭼﮭﻮﮌﮮ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺟﻮ ﺍﺱ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﺳﮯ ﺧﺎﺻﯽ ﺗﻨﮕﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮﺗﯽ ﻧﯿﮏ ﺍﻭﺭ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﮯ ﺑﺠﮭﺎﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﯿﺢ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻻﻧﮯ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﮐﻮﺷﺸﯿﮟ ﮐﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺑﮯ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺋﯿﮟ ۔
ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻭﮦ ﻟﮩﻮﻟﻌﺐ ﮐﮯ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺐ ﺑﯿﺪﺍﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ۳ ﺑﺤﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﯾﺎ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺑﭽﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮔﮩﺮﯼ ﻧﯿﻨﺪ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﻧﯿﻨﺪ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﻮﺳﻮﮞ ﺩﻭﺭ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﺴﺘﺮﭘﺮ ﮨﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻓﻠﻤﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺣﯿﺎَﺋﯽ ﮐﮯ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻼ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﺎﻟﮧ ﺑﯿﭩﯽ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﮭﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺗﻌﺠﺐ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﺣﻘﺎﺭﺕ ﺁﻣﯿﺰ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﯽ :
"* ﯾﺎ ﺑﺎﺑﺎ ﻋﯿﺐ ﻋﻠﯿﮏ ﺍﺗﻖ ﺍﻟﻠﮧ " ﺍﺑﺎﺟﺎﺟﺎﻥ -: ‏( ﺁﭖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﯾﮧ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﻣﻌﯿﻮﺏ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﮈﺭﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ *(
ﯾﮧ ﺟﻤﻠﮧ ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﺗﯿﻦ ﺑﺎﺭ ﺩﮨﺮﺍﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ۔
ﺑﺎﭖ ﭘﺮ ﺑﺠﻠﯽ ﺑﻦ ﮔﺮﯼ ﺑﭽﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺳﺨﺖ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﺍﻭﺭ ﭘﺸﯿﻤﺎﻥ ﮨﻮﮐﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻓﻠﻤﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻨﺪ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺩ ﮨﮑﺎ ﺑﮑﺎ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ۔ ﺑﭽﯽ ﮐﺎ ﺟﻤﻠﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﮔﺮﺩﺵ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ﭘﮭﺮ ﻭﮦ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ ﺑﭽﯽ ﺑﺴﺘﺮ ﮨﺮ ﭼﺎﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ۔ﻭﮦ ﺣﻮﺍﺱ ﺑﺎﺧﺘﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﻮﻧﺴﯽ ﺁﻓﺖ ﻧﮯ ﺁﮔﮭﯿﺮﺍ ﮨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﻗﺮﯾﺒﯽ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺁﺫﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭨﮑﺮﺍﺋﯽ ﺟﻮ ﮈﺭﺍﺅﻧﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺳﮑﻮﺕ ﮐﻮ ﺗﻮﮌ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ﻭﮦ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻏﯿﺮ ﺍﺭﺍﺩﯼ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻭﺿﻮ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﺟﺎ ﭘﮩﻨﭽﺎ۔ ﺍﺳﮯ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮯ ﭼﯿﻨﯽ ﺳﮯ ﻧﻤﭩﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ﺍﺑﮭﯽ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﭘﯿﺸﺎﻧﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺑﻼ ﺳﺒﺐ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮّﺅﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﻞ ﺍﻣﮉ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺳﺴﮑﯿﺎﮞ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﺑﻌﺪ ﭘﮩﻠﯽ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﺎﺗﮭﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﺟﮭﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺁﮦ ﻭﺯﺍﺭﯼ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﺩﻻﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺗﺎﺯﮔﯽ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﺁﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﻭ ﺩﻣﺎﻍ ﺳﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻓﺴﻖ ﻭ ﻓﺠﻮﺭ ﺳﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺳﭽﮯ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﯽ۔۔۔۔۔۔۔۔ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﮐﺎﯾﮧ ﭘﻠﭧ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ !!!!!
ﻓﺠﺮ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﻭﮦ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﯿﺲ ﮨﻮﺍ ﮐﭽﮫ ﺳﻮﺋﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﮈﯾﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ۔
ﺟﺐ ﺁﻓﺲ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻨﯿﺠﺮ ﺗﻌﺠﺐ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﮯ ﺟﻠﺪﯼ ﺁﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﭘﻮﭼﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮔﺰﺷﺘﮧ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﺘﺎﯾﺎ
ﻣﻨﯿﺠﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ -: ' ﺗﻢ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻭ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﻌﺼﻮﻡ ﺑﭽﯽ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﻠﮏ ﺍﻟﻤﻮﺕ ﮐﮯ ﺁﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻠﮯﻏﻔﻠﺖ ﮐﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﺳﮯ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔ ﮈﯾﻮﭨﯽ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺟﻠﺪﯼ ﺟﻠﺪﯼ ﮔﮭﺮ ﮐﻮ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﺎﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺳﮯ ﻣﻞ ﺳﮑﮯ ﺟﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺑﻨﯽ۔ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺯﺍﺭ ﻭ ﻗﻄﺎﺭ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻘﺒﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﺭﻭ ﺭﮨﯽ ﮨﻮ۔؟ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﭼﯿﺨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﺣﺮﮐﺖ ﻗﻠﺐ ﺑﻨﺪ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﻓﺎﺕ ﭘﺎﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺧﺒﺮ ﮐﮯ ﺻﺪﻣﮯ ﻧﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺍﻭﺳﺎﻥ ﺧﻄﺎ ﮐﺮﺩﺋﯿﮯ۔۔۔۔۔ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﻮ ﻧﮧ ﭘﺎﺳﮑﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﯿﺦ ﭼﯿﺦ ﮐﺮ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻗﺪﺭﮮ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺳﻤﺠﮫ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﺁﺋﯽ ﮐﮧ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﺑﺘﻼٰ ﻭ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﮨﮯ ۔ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺖ ﮐﻮ ﻓﻮﻥ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺑﻼﯾﺎ ﺑﭽﯽ ﮐﻮ ﻏﺴﻞ ﺩﯾﺎﮔﯿﺎ ﻋﺰﯾﺰ ﻭ ﺍﻗﺎﺭﺏ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮪ ﮐﺮ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﻧﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﭽﯽ ﮐﻮ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭﺍﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺍﺷﮑﺒﺎﺭ ﺗﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﻮﻻ "-: ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﻮ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﯼ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﻮ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺷﻌﺎﻋﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﮐﺎﯾﺎ ﭘﻠﭧ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﻓﺴﻖ ﻭ ﻓﺠﻮﺭ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﮑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭ ﻋﻤﻞ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﺁﺋﯽ ۔ ‏( ﻣﺎﺧّﻮﺫ : ﺳﻨﮩﺮﯼ ﮐﺮﻧﯿﮟ۲۵۵ )
ﺳﺒﻖ -: ﺍﺱ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﮯ ﻋﺒﺮﺕ ﮨﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﻨﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮔﯿﺎﮞ ﮔﺰﺍﺭ ﺩﯼ ﻣﮕﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﻧﻌﻤﺖ ﮨﮯ۔ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﻮ ﺗﺐ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺍَﻟﻠّٰﻪْ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ "
Share:

Beti Ki Khawahish Rakhne Wali Ek Khatoon Ka Waqya (Must Read)

 Beti Allah Ki Rahmat Banker Aati HAi

ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺍﯾﮏ ﻋﺰﯾﺰﮦ ﮨﯿﮟ۔ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﻮ ﭘﻨﺪﺭﮦ ﺳﺎﻝ ﮨﻮﮔﺌﮯ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺗﻠﮯ ﭼﺎﺭ ﺑﯿﭩﮯ ﺩﯾﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺑﯿﭩﮯ ﺑﮩﺖ ﺷﺮﺍﺭﺗﯽ ﺗﮭﮯ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﻧﺎﮎ ﻣﯿﮟ ﺩﻡ ﮐﺮﮐﮯ ﺭﮐﮭﺘﮯ۔ ﻣﺎﮞ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﯼ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﮐﺮﮐﮯ ﮨﻠﮑﺎﻥ ﮨﻮﺟﺎﺗﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﻭﺍﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔ ﺟﺘﻨﺎ ﻭﮦ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﮐﺎ ﮐﮩﺘﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﻭﮦ ﮔﻨﺪ ﻣﭽﺎﺗﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮔﺌﯽ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺷﮑﻮﮦ ﮐﻨﺎﮞ ﮨﯽ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔
ﺩﻭﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﺩﻋﺎ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﯽ ﻋﻄﺎ ﮐﯽ۔ ﻣﺼﺮﻭﻓﯿﺖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﻧﮑﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﺎﻧﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﺳﮑﺎ۔ ﭼﻨﺪ ﺩﻥ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﻧﮯ ﺑﮍﯼ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﺩﯼ ﺗﮭﯽ ۔ ﭼﻨﺪ ﺩﻥ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﭼﻠﻨﺎ ﺳﯿﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﺎﺷﺎﺀﺍﻟﻠﮧ ﺳﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﮔﯽ ﭘﮭﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻭﮦ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﮔﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺏ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ۔ﻣﯿﺮﯼ ﮔﻮﺩ ﺳﮯ ﺍﺗﺮ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﯽ۔ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﻭ ﺗﯿﻦ ﺟﮕﮧ ﭘﺮ ﺑﺴﮑﭧ ﺍﻭﺭ ﭨﺎﻓﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﯾﭙﺮﺯ ﭘﮍﮮ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﮈﯾﮍﮪ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻨﮭﮯ ﻧﻨﮭﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺳﺎﺭﮮ ﺭﯾﭙﺮﺯ ﺍﭨﮭﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺻﺤﻦ ﮐﮯ ﮐﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﯼ ﮈﺳﭧ ﺑﻦ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﮯ۔ ﻣﯿﮟ ﺣﯿﺮﺍﻧﯽ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻭﺍﻟﺪﮦ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﺌﯽ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺳﺘﻔﺴﺎﺭ ﭘﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮩﺎ۔ ﺳﺤﺮﺵ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺑﯿﭩﯽ ﻣﺎﻧﮕﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺍﺑﮭﯽ ﮈﯾﮍﮪ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺑﮭﯽ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﭽﮫ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﭘﻠﯿﭧ ﻭﮨﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺭﯾﭙﺮﺯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺳﺎﺭﮮ ﺍﮐﭩﮭﮯ ﮐﺮﮐﮯ ﮈﺳﭧ ﺑﻦ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﮐﺮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﻓﯿﮉﺭﺯ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺩﮪ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﻓﯿﮉﺭ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﻓﯿﮉﺭ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﺝ ﺗﮏ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﭩﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﺲ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﮍﮬﻨﮯ، ﮐﮭﯿﻠﻨﮯ ﺍﻭﺭﮐﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻣﻄﻠﺐ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﺳﯽ ﻋﻤﺮﺳﮯ ﮨﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺎ۔
ﮐﺘﻨﯽ ﻋﺠﯿﺐ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﻧﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ، ﻭﮦ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺍﻭﻻﺩِ ﻧﺮﯾﻨﮧ ﮐﯽ ﮨﯽ ﺩﻋﺎ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮐﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺩﮮ ﻧﯿﮏ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﺑﺮﺩﺍﺭ ﺩﮮ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﮬﺎﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﻟﺘﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺟﻦ ﮐﮯ ﭼﺎﺭ ﭼﺎﺭ ﺑﯿﭩﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺎﺝ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮞ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﭩﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﮯ ﺭﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺳﮩﯿﻠﯽ ﻣﻞ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ۔
ﯾﮧ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﮯ ﭘﯿﺎﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﻮ ﭘﯿﺎﺭ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﯽ۔ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮨﯽ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺟﺘﻨﺎ ﮨﻮﺳﮑﮯ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ۔
ﺑﯿﭩﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﻮﺟﮫ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﮟ ﮐﮧ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﯿﭩﺎ ﺳﺎﺭﯼ ﻋﻤﺮ ﮨﯽ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺑﯿﭩﺎ ﺭﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺑﯿﭩﯽ ﻣﺮﺗﮯ ﺩﻡ ﺗﮏ ﺑﯿﭩﯽ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ۔
Share:

Raat Me Der Tak Jagne Wale Kitne Qism Ke Log Hai?

ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻟﮍﮐﮯ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﺍﺱ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺟﺎﮔﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻟﮍﮐﮯ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺍﯾﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﻮ ﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺑﻠﮑﻞ ﺁﺧﺮﯼ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺳﮑﯿﮟ۔۔
ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻟﮍﮐﮯ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﮐﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻟﮍﮐﮯ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺭﻭﺯ ﮐﮯ ﺣﺴﺎﺏ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺷﺪﺕ ﺳﮯ ﺗﮩﺠﺪ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮ ﺳﮑﯿﮟ
ﺷﺪﯾﺪ ﺳﺮﺩﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻭﮦ ﺗﮩﺠﺪ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﭨﮭﻨﮉﮮ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﻭﺿﻮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻣﺼﻠﮯ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﮮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ﺟﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﻨﺎ ﻟﮯ ،
ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ ، ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﻃﻠﺐ ﮔﺎﺭ ﮨﻮﮞ۔۔
ﯾﮧ ﺧﻮﺵ ﻧﺼﯿﺐ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻟﮍﮐﮯ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﯾﺎﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻗﺎﺑﻞ ﺑﻨﺎ ﺩﮮ ﮐﮧ ﮐﻞ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺁﭘﮑﺎ ﺩﯾﺪﺍﺭ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﮐﺮ ﺳﮑﻮﮞ۔۔۔۔
ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﻨﻮﮞ !
ﺻﺮﻑ 3 ﺩﻥ ﻃﺒﯿﻌﺖ ﭘﺮ ﺯﻭﺭ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺗﮩﺠﺪ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﺭﺏ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﮐﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﮟ ، ﻃﺒﯿﻌﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﺩﺭﺟﮯ ﮐﺎ ﺳﮑﻮﻥ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ، ﺁﭖ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮑﺎﺭ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺗﻨﺎ ﺭﻭﺷﻦ ، ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺁﭖ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺟﻮ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﯾﮧ ﮐﮩﻨﮯ ﭘﺮ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﮨﮯ،،،
ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﻣﺠﮫ ﺳﻤﯿﺖ ﺁﭖ ﺳﺐ ﺑﮩﻦ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻋﻤﻞ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ۔۔۔
ﺁﻣﯿﻦ ﯾﺎﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ۔۔
Share:

Ek Khwateen ke Khush Rahne Ka Kuchh Aeisa Tarika.

 Khush Rahne Ka Ajib Andaaj

ﺧﻮﺵ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﺎ ﻋﺠﯿﺐ ﺍﻧﺪﺍﺯ
ﭼﮭﻮﭨﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ
ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺳﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﻥ ﺑﮭﺮ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻏﺬ ﭘﺮ ﻟﮑﮫ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﺍﯾﮏ ﺷﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﮐﮧ :
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﮞ  ﮐﮧ * ﻣﯿﺮﺍ ﺷﻮﮨﺮ ﺗﻤﺎﻡ ﺭﺍﺕ ﺯﻭﺭ ﺩﺍﺭ ﺧﺮﺍﭨﮯ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ  ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﮨﮯ ﻧﺎ۔
ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﮨﮯ۔
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﯿﭩﺎ ﺻﺒﺢ ﺳﻮﯾﺮﮮ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ
ﭘﺮ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ  ﮐﮧ ﺭﺍﺕ ﺑﮭﺮ ﻣﭽﮭﺮ،ﮐﮭﭩﻤﻞ ﺳﻮﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ
ﺩﯾﺘﮯ ﯾﻌﻨﯽ ﻭﮦ ﺭﺍﺕ ﮔﮭﺮ ﭘﮧ ﮨﯽ ﮔﺰﺍﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﺁﻭﺍﺭﮦ ﮔﺮﺩﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ۔
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﮨﺮ ﻣﮩﯿﻨﮧ ﺑﺠﻠﯽ، ﮔﯿﺲ، ﭘﺎﻧﯽ،ﭘﭩﺮﻭﻝ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﺧﺎﺻﺎ ﭨﯿﮑﺲ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ  ﯾﻌﻨﯽ ﯾﮧ ﺳﺐ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﻧﺎ۔۔ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﻮﺗﯽ۔
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﮨﮯ۔
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﮞ * ﮐﮧ * ﻣﯿﺮﮮ ﮐﭙﮍﮮ ﺭﻭﺯﺑﺮﻭﺯ ﺗﻨﮓ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﮨﻮﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ * ﯾﻌﻨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻟﻠّٰﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﮭﻼﺗﺎ ﭘﻼﺗﺎ ﮨﮯ۔
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠّٰﻪ ﮐﺎﺷﮑﺮ ﮨﮯ۔
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﮞ * ﮐﮧ * ﺩﻥ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﻧﮯ ﺗﮏ ﻣﯿﺮﺍ ﺗﮭﮑﻦ ﺳﮯ ﺑﺮﺍ ﺣﺎﻝ ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ * ﯾﻌﻨﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﻥ ﺑﮭﺮ ﺳﺨﺖ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻃﺎﻗﺖ ﮨﮯ ﻧﺎ۔۔۔
ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻃﺎﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺖ ﺻﺮﻑ ﺍﻟﻠّٰﻪ ﮨﯽ ﮐﮯ ﻓﻀﻞ ﺳﮯ ﮨﮯ۔
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺟﮭﺎﮌﻭ ﭘﻮﻧﭽﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮭﮍﮐﯿﺎﮞ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺷﮑﺮ ﮨﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﮔﮭﺮ ﺗﻮ ﮨﮯ ﻧﺎ۔۔ ﺟﻦ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺣﺎﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﮨﮯ۔
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﮞ * ﮐﮧ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﺎﺭ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﺻﺤﺖ ﻣﻨﺪ ﮨﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ۔۔
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﮨﮯ۔
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﮞ * ﮐﮧ ﮨﺮ * ﺳﺎﻝ ﻋﯿﺪ ﭘﺮ ﺗﺤﻔﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﯿﺪﯼ ﺩﯾﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﺮﺱ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ * ﯾﻌﻨﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﭼﺎﮬﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻋﺰﯾﺰ ﺭﺷﺘﮧ ﺩﺍﺭ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺗﺤﻔﮧ ﺩﮮ ﺳﮑﻮﮞ۔ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺘﻨﯽ ﺑﮯ ﺭﻭﻧﻖ ﮨﻮ۔
ﺍﺱ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﻟﻠّٰﻪ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﮨﮯ۔
ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ﺍﻻﺭﻡ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﭘﺮ ﺍﭨﮫ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﯾﻌﻨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺍﯾﮏ ﻧﺌﯽ ﺻﺒﺢ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔۔۔
ﻇﺎﮨﺮ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺍﻟﻠّٰﻪ ﮐﺎ ﮨﯽ ﮐﺮﻡ ﮨﮯ۔
ہمیں ﺑﮭﯽ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﺑﯿﺸﯽ ﭘﺮ ﺍﻓﺴﺮﺩﮦ ﮨﻮﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺑﻠﮑﮧ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺍﻧﻤﻮﻝ ﻓﺎﺭﻣﻮﻟﮯ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﮯ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﭘﺮﺳﮑﻮﻥ ﺑﻨﺎﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ۔
Share:

Ager Dil Ko Sukun Nahi Aarahi Ho To Kya Kare?

ﺑِﺴْـــــــــــــــــــــــﻢِ ﺍﻟﻠﮧِ ﺍﻟﺮَّﺣْﻤٰﻦِ ﺍﻟﺮَّﺣِﯿْﻢِ ﺍﻟﺴَّــــــــﻼَﻡ ﻋَﻠَﻴــْـــــــﻜُﻢ ﻭَﺭَﺣْﻤَــــــــــﺔُﺍﻟﻠﻪِ ﻭَﺑَﺮَﻛـَـــــــــﺎﺗُﻪ ۔ ─━══★◐★══━─ ASSALLAM-O-ALAIKUM¤¤ me kuch sawal pochna chahti ho unko alfaz me boht muskil sy sameta ha agr koi galti ho jae to mafi chahti ho 1.kia hr din khud ba khud dil ka mayos hojana or kisi chez me dil na lagna Allah sy dori ki neshani ha agr ha to kesy khatam ho? 2. Gusa bilawja lekn kabhe kabhe ana usko kesy khatam kro. 3.ALLAH sy dori ki kia neshania ha? 4.kia Allah Azojal apny bndy sy naraz hota ha agr g to phr iski neshania kia ha or isko khatam kesy kia jae? JAZAK ALLAH KHAIR¤ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﻭَﻋَﻠَﻴْﻜُﻢ ﺍﻟﺴَّﻠَﺎﻡ ﻭَﺭَﺣْﻤَﺔُ ﺍَﻟﻠﻪِ ﻭَﺑَﺮَﻛﺎﺗُﻪُ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺸﮕﯽ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﭼﺎﮨﻮﮞ ﮔﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺴﭩﺮ ﺳﮯ ﮐﮧ ﮐﭽﮫ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺴﭩﺮ ﮐﯽ ﺩﻵﺯﺍﺭﯼ ﺿﺮﻭﺭ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ۔ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﻧﺎﮔﺰﯾﺮ ﻣﺴﺘﻌﻤﻞ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﮐﻮ ﻣﺜﺒﺖ ﻃﺮﺯِ ﻓﮑﺮ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺩﮐﮫ ﺍﻭﺭ ﺭﻧﺞ ﮐﮯ ﻣﻠﮯ ﺟﻠﮯ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﺴﭩﺮ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺑﺎﻭﺭ ﮐﺮﺍﻭﻧﮕﯽ ﮐﮧ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﻣﯿﺮﺍ ﺗﺠﺮﺑﮧ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﺩﯾﻦ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﮨﯿﮟ ۔ ﺁﭖ ﺩﯾﻦ ﺳﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﻓﺎﺻﻠﮯ ﭘﺮ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺩﯾﻦ ﺁﭘﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﭖ ﺍﺳﮑﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﭼﮭﻮ ﺳﮑﯿﮟ ۔ ﯾﻘﯿﻨًﺎ ﺁﭖ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﯽ ، ﯾﻘﯿﻨًﺎ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ ﭨﻮﭨﯽ ﭘﮭﻮﭨﯽ ﻣﻌﺬﻭﺭ ﻋﺒﺎﺩﺗﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﮑﯿﮧ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻋﻮﮮ ﺳﮯ ﺍﻧﺤﺮﺍﻑ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﯽ ، ﯾﻘﯿﻨًﺎ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﺤﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﺼﻮﺭ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﯽ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﯿﺠﯿﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺩﮬﻮﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ ۔ ﺳﺴﭩﺮ ﺷﻤﺎﺋﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﻟﻐﯿﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺣﻤﺪ ﻭ ﺛﻨﺎﺀ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺭﺏ ﮐﯽ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺗﻨﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﮐﮧ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﺭﻭﺯﻥ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻥ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺟﺲ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﺳﮑﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﻮﺭﺝ ﻧﮑﻼ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﯾﺎ ﭼﺎﻧﺪ ۔۔۔۔ ﺟﺲ ﻭﻗﺖ ﺁﭖ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻣﺤﻮِ ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﭘﮑﮯ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﺁﻧﮯ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻣﻌﺎﻣﻼﺕ ﮐﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﺏ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺭﻭﺯﻥ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﮯ ﺟﻦ ﻣﯿﮟ ﺟﮭﺎﻧﮑﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺠﮭﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﻗﺮﺏِ ﺍﻟﮩٰﯽ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﯽ ۔ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﯿﮯ ﺳﺴﭩﺮ !!! ﻣﺆﻣﻦ ﭼﺎﮨﮯ ﻣﺮﺩ ﮨﻮ ﯾﺎ ﻋﻮﺭﺕ ، ﺑﮯ ﺳﮑﻮﻧﯽ ، ﺑﺪ ﺷﮕُﻮﻧﯽ ﯾﺎ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ ﮐﺎ ﺷِﮑﺎﺭ ﮨﻮ، ﺍﯾﺴﺎ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ۔ ﺍﮔﺮ ﺩﻝ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺩﮦ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﯾﺴﺎ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺩِﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﻣﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺯﻧﺪﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ، ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﺗﻨﮩﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﻭﮦ ﮨﺠﻮﻡ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ، ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﺍﺣﺴﺎﺱِ ﻣﺤﺮﻭﻣﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺒﮑﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﺎﻻ ﻣﺎﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﯾﺴﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺣﯿﺜﯿﺖ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﺳﺮ ﺗﺎ ﭘﯿﺮ ﺗﮑﻠﯿﻔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮﯼ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﻣﺮﻧﺎ ﺍﺳﻠﯿﮯ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺭﻭﺡِ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﺳﮯ ﻣﺤﺮﻭﻡ ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺩﻧﯿﺎﻭﯼ ﮐﺎﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ۔ ﺩﻭ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﭘﺮ ﺩﻭﮌﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﮦ ﻭﮨﯿﻞ ﭼﺌﯿﺮ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﻟﻨﮕﮍﮮ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ۔ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻣﯿﺰ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮐﺮ ﮐﻮﮌﮮ ﮐﮯ ﮈﮬﯿﺮ ﺳﮯ ﭘﯿﭧ ﮐﯽ ﺁﮒ ﺑﺠﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﮑﺴﺮ ﻓﺮﺍﻣﻮﺵ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﻮ ﻧﻌﻤﺘﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺩﯾﮟ ﺍﻥ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺷﺎﮐﺮ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﺎﻝ ﮐﺎ ﺣﺮﯾﺺ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺗﻔﺮﯾﺤﺎﺕ ﮐﻮ ﺑﮯ ﺭﻭﮎ ﭨﻮﮎ ﺍﻧﺠﻮﺍﺋﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻭﮦ ﺁﺋﯽ ﺳﯽ ﯾﻮ ﻣﯿﮟ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺍﻟﻤﺮﮒ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ۔ ﻭﮦ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ ﻭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺘﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻼ ، ﺟﻮ ﺍﮔﺮ ﻧﮧ ﻣﻠﺘﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﻮﺗﺎ ؟ ﺩﺭﺣﻘﯿﻘﺖ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺟﻮ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﻋﺮﻭﺝ ﻣﯿﮟ ﺯﻭﺍﻝِ ﻧﻌﻤﺖ ﮐﮯ ﺷﮑﻮﮮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺩﺭﺣﻘﯿﻘﺖ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮋﻣﺮﺩﮔﯽ ﺍﺳﮑﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﺑﺴﯿﺮﺍ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﭘﺲ ﺍﯾﺴﺎ ﺷﺨﺺ ﻭَﺣﯽ ﺍﻟﮩﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺗﻮﺟﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺘﺎ ۔ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﯿﮯ ۔ ﺍِﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻻ ﺍﭘﻨﮯ ﺍِﺱ ﻻ ﺷﺮﯾﮏ ﻭ ﺑﮯ ﻣﺜﺎﻝ ﺍِﻟﮧَ ، ﺍﻟﻠﮧ ﺳُﺒﺤﺎﻧﮧُ ﻭ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﭘﺮ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺻِﻔﺎﺕ ﭘﺮ ﺍِﯾﻤﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ ﮐﺴﯽ ﺑﺪ ﺷﮕُﻮﻧﯽ ﮐﺴﯽ ﺧﻮﻑِ ﺯﻭﺍﻝ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ، ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﮨﯽ ﮐﺴﯽ ﻣﻤﮑﻨﮧ ﻣﻨﻔﯽ ﻋﻤﻞ ﮐﮯ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺩﮦ ﻧﺘﯿﺠﮯ ﺳﮯ ﺧﻮﻑ ﺯﺩﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ،
ﻭﮦ ﮔﻤﺮﺍﮦ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺭﺏ ﺍُﺳﮯ ﺭﺍﮦ ﺩﮐﮭﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﴿ ﺍﻟَّﺬِﻱ ﺧَﻠَﻘَﻨِﻲ ﻓَﻬُﻮَ ﻳَﻬْﺪِﻳﻦِ ‏( ﻣﯿﺮﺍ ﺍِﻟﮧَ،ﺍﻟﻠﮧ ‏) ﻭﮦ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﭘﺲ ﻭﮦ ﮨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ﴾ ﺳُﻮﺭﺕ ﺍﻟﺸﻌﺮﺍﺀ ‏( 26 ‏) / ﺁﯾﺖ 78 ، ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﴿ﻭَﺍﻟَّﺬِﻱ ﻫُﻮَ ﻳُﻄْﻌِﻤُﻨِﻲ ﻭَﻳَﺴْﻘِﻴﻦِ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐِﮭﻼﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘِﻼﺗﺎ ﮨﮯ ﴾ ﺍﻟﺸﻌﺮﺍﺀ ‏( 26 ‏) / ﺁﯾﺖ 79 ، ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺍِﯾﻤﺎﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﴿ ﻭَﺇِﺫَﺍ ﻣَﺮِﺿْﺖُ ﻓَﻬُﻮَ ﻳَﺸْﻔِﻴﻦِ ::: ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﻤﺎﺭﭘﮍﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺷِﻔﺎﺀ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﴾ ﺳُﻮﺭﺕ ﺍﻟﺸﻌﺮﺍﺀ ‏( 26 ‏) / ﺁﯾﺖ 80 ، ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﮐﺮ ﻟﮯ ، ﮐﻮﺋﯽ ﺟُﺮﻡ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺍِﺱ ﻭﻋﺪﮮ ﭘﺮ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﴿ ﻗُﻞْ ﻳَﺎ ﻋِﺒَﺎﺩِﻱَ ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺃَﺳْﺮَﻓُﻮﺍ ﻋَﻠَﻰ ﺃَﻧْﻔُﺴِﻬِﻢْ ﻟَﺎ ﺗَﻘْﻨَﻄُﻮﺍ ﻣِﻦْ ﺭَﺣْﻤَﺔِ ﺍﻟﻠَّﻪِ ﺇِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﻪَ ﻳَﻐْﻔِﺮُ ﺍﻟﺬُّﻧُﻮﺏَ ﺟَﻤِﻴﻌًﺎ ﺇِﻧَّﻪُ ﮬُﻮَ ﺍﻟْﻐَﻔُﻮﺭُ ﺍﻟﺮَّﺣِﻴﻢُ ‏( ﺍﮮ ﺭﺳﻮﻝ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ‏) ﻓﺮﻣﺎﯾﮯ ، ﺍﮮ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﻇُﻠﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﻨﺪﻭ، ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﺳﮯ ﻣﺎﯾﻮﺱ ﻣﺖ ﮨﻮ ، ﺑﮯ ﺷﮏ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﺎﺭﮮ ﮨﯽ ﮔﻨﺎﮦ ﻣﻌﺎﻑ ﻓﺮﻣﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ ، ﺑﮯ ﺷﮏ ﻭﮦ ﺑﮩﺖ ﺑﺨﺸﺶ ﻭﺍﻻ ﺍﻭﺭ ﺭﺣﻢ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﮯ﴾ ﺳُﻮﺭﺕ ﺍﻟﺰُﻣﺮ‏( 39 ‏) / ﺁﯾﺖ 53 ، ﻭﮦ ﮐﺘﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﺗﻨﮕﯽ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ ﺍﻭﺭﺳﺨﺘﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯﺍُﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺍِﺱ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﭘﺮ ﯾﻘﯿﻦ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﴿ ﻓَﺈِﻥَّ ﻣَﻊَ ﺍﻟْﻌُﺴْﺮِ ﻳُﺴْﺮًﺍ o ﺇِﻥَّ ﻣَﻊَ ﺍﻟْﻌُﺴْﺮِ ﻳُﺴْﺮًﺍ ﭘﺲ ﺑﮯ ﺷﮏ ﺳﺨﺘﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﺮﻣﯽ ﮨﮯ o ﺑﮯ ﺷﮏ ﺳﺨﺘﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﺮﻣﯽ ﮨﮯ ﴾ ﺳُﻮﺭﺕ ﺍﻟﺸﺮﺡ ‏( 94 ‏) / ﺁﯾﺖ 5 ، 6 ﺍﮔﺮ ﺍُﺱ ﭘﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻣُﺼﯿﺒﺖ ﭨﻮﭦ ﭘﮍﮮ ، ﺍُﺱ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ ﯾﺎ ﺍﮨﻞ ﻭﻋﯿﺎﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﺭﮨﯿﮟ ، ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺻﺤﺖ ﺟﺎﺗﯽ ﺭﮨﮯ ، ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﮨﻮ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺑﺪ ﺷﮕُﻮﻧﯽ ﯾﺎ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﺭﺣﻤٰﻦ ﮐﯽ ﻋﻄﺎ ﺀ ﮐﺮﺩﮦ ﺧﻮﺵ ﺧﺒﺮﯼ ﴿ﺍﻟَّﺬِﻳﻦَ ﺇِﺫَﺍ ﺃَﺻَﺎﺑَﺘْﻬُﻢْ ﻣُﺼِﻴﺒَﺔٌ ﻗَﺎﻟُﻮﺍ ﺇِﻧَّﺎ ﻟِﻠَّﻪِ ﻭَﺇِﻧَّﺎ ﺇِﻟَﻴْﻪِ ﺭَﺍﺟِﻌُﻮﻥَ o ﺃُﻭﻟَﺌِﻚَ ﻋَﻠَﻴْﻬِﻢْ ﺻَﻠَﻮَﺍﺕٌ ﻣِﻦْ ﺭَﺑِّﻬِﻢْ ﻭَﺭَﺣْﻤَﺔٌ ﻭَﺃُﻭﻟَﺌِﻚَ ﻫُﻢُ ﺍﻟْﻤُﻬْﺘَﺪُﻭﻥَ ‏( ﺍِﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﮯ ‏) ﻭﮦ ﮨﯿﮟ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣُﺼﯿﺒﺖ ﺁﻥ ﭘﮍﮮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﮯ ﺷﮏ ﮨﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﺷﮏ ﮨﻢ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮨﯽ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﮨﯿﮟ o ﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺟِﻦ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺑﺮﮐﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺭﺣﻤﺘﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﭘﺎﺋﮯ ﮨﻮﺋﮯ﴾ ﺟﺐ ﺑﻨﺪﮦ ﺩﺭﺝ ﺑﺎﻻ ﮐﮯ ﻣُﻄﺎﺑﻖ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺎﺟﺰﯼ ﻭ ﺍﻧﮑﺴﺎﺭﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﻭ ﻣﻌﺬﻭﺭﯼ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﻋﻨﺎﯾﺎﺕ ﻭ ﺭﺣﻤﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺟﺮ ﻣﻠﻨﮯ، ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﮨﺎﮞ ﮨﺪﺍﯾﺖ ﯾﺎﻓﺘﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﻨﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ، ﺗﻮ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺩﻝ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺮﺩﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ۔ ﺍﺳﮑﯽ ﮨﻤﺖ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﺤﺾ ﻭﻗﺘﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ، ﻭﮦ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺤﺮﻭﻣﯿﻮﮞ ﺑﺪﺷﮕُﻮﻧﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ، ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺍُﻥ ﺳﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺧﯿﺎﻟﯽ ﻣﺘﻮﻗﻊ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﻑ ﺯﺩﮦ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺳﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺁﭘﮑﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺳﻮﺍﻻﺕ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﭽﮯ ﺍِﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻻ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺪﺷﮕﻮﻧﯽ ﮐﺎ ﺷِﮑﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﭘﺎﺗﺎ ، ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍُﺳﮯ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺍِﯾﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﻟﮯ ۔ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﺩﺭﺳﺖ ﮐﺮﮮ ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻗﻠﺒﯽ ﺭﺟﺤﺎﻥ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﮐﺮﮮ ، ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻋﺒﺎﺩﺍﺕ ﺩﻧﯿﺎ ﭘﺮ ﺗﺮﺟﯿﺢ ﺩﮮ ۔ ﺍﻣﯿﺪ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺌﻮﻗﻒ ﺳﮯ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﭨﺮﯾﮏ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﯽ ۔ ﻭَﺑِﺎﻟﻠّٰﮧِ ﺍﻟﺘَّﻮْﻓِﯿْﻖُ ﮬٰﺬٙﺍ ﻣٙﺎ ﻋِﻨْﺪِﯼ ﻭٙﺍﻟﻠﮧُ ﺗٙﻌٙﺎﻟﯽٰ ﺍٙﻋْﻠٙﻢْ ﺑِﺎﻟﺼّٙﻮٙﺍب

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS