find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts sorted by date for query Qurbani ka gost. Sort by relevance Show all posts
Showing posts sorted by date for query Qurbani ka gost. Sort by relevance Show all posts

Qurbani ka Gost kitne dino tak rakh kar Kha Sakte hai, kya Jyada dino tak istemal karne se Qurbani jayez nahi hota?

Kya Qurbani ka Gost 4-5 dino tak jama kar sakte hai?

Kya Qurbani ka Gost Jyada dino tak Freeze me ya kisi tarah rakh kar istemal karne se Qurbani jayez nahi hoga?

Sawal: Qurbani ka Gost jyada se jyada kitne dino tak istemal kar sakte hai? Kya Qurbani ka Gost 3 din se jyada Istemal karne se Pyare Nabi Sallahu Alaihe wasallam ne mana farmaya tha?

" मै इतने पैसे लगाकर कुर्बानी नही करूँगा बल्कि इसी पैसे से किसी गरीब की मदद कर दूंगा .

Aqeeqa ke liye Cow aur Camel me kitne baccho ka aqeeqa ho sakta hai?

Eid Ki Namaj padhne ka Sunnat tarika?

Kya Aeibdar Janwaro ki Qurbani Ho sakti hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-345"

سوال- قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ کتنے دن تک استعمال کر سکتے ہیں؟ نیز کیا قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ استعمال کرنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا تھا؟

Published Date 7-8-2020

جواب..!
الحمدللہ..!

*کچھ لوگ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں، یا برا محسوس کرتے ہیں، اور دلیل دیتے ہیں کہ صاحب شریعت نے اس سے منع کیا تھا،جب کہ وہ ممانعت وقتی تھی، بعد میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اسکی اجازت دے دی تھی ، کہ قربانی کا گوشت کھاؤ بھی اور صدقہ بھی کرو اور  ذخیرہ بھی کرو، پھر اس حکم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قربانی کے گوشت کو کئی کئی دنوں اور مہینوں تک ذخیرہ کرتے اور کھاتے تھے*

دلائل درج ذیل ہیں..!

صحیح بخاری
کتاب: قربانیوں کا بیان
باب: قربانی کا گوشت کس قدر کھایا جائے اور کس قدر جمع کیا جاسکتا ہے
حدیث نمبر: 5569
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ فَلَا يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبَقِيَ فِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ الْمَاضِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُلُوا، ‏‏‏‏‏‏وَأَطْعِمُوا، ‏‏‏‏‏‏وَادَّخِرُوا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ ذَلِكَ الْعَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا.
ترجمہ:
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن الاکوع ؓ نے بیان کیا کہ  نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا کہ جس نے تم میں سے قربانی کی تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو۔ دوسرے سال صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا۔  (کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت بھی نہ رکھیں) ۔ نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا کہ اب کھاؤ، کھلاؤ اور جمع کرو۔ پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے، اس لیے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرو۔

صحیح مسلم
کتاب: قربانی کا بیان
باب: ابتدائے اسلام میں تین دن کے بعد قربانیوں کا گوشت کھانے کی ممانعت اور پھر اس حکم کے منسوخ ہونے اور پھر جب تک چاہئے قربانی کا گوشت کھاتے رہنے کے جواز کے بیان میں
حدیث نمبر: 1971
(اسلام360 حدیث نمبر-5103)
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ نَهَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَکْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَکْرٍ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِعَمْرَةَ فَقَالَتْ صَدَقَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ حَضْرَةَ الْأَضْحَی زَمَنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادَّخِرُوا ثَلَاثًا ثُمَّ تَصَدَّقُوا بِمَا بَقِيَ فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذَلِکَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ النَّاسَ يَتَّخِذُونَ الْأَسْقِيَةَ مِنْ ضَحَايَاهُمْ وَيَجْمُلُونَ مِنْهَا الْوَدَکَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا ذَاکَ قَالُوا نَهَيْتَ أَنْ تُؤْکَلَ لُحُومُ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ فَقَالَ إِنَّمَا نَهَيْتُکُمْ مِنْ أَجْلِ الدَّافَّةِ الَّتِي دَفَّتْ فَکُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا
ترجمہ:
اسحاق بن ابرہیم حنظلی، روح، مالک، عبداللہ بن ابی بکر، عبداللہ بن واقد ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تین دنوں کے بعد قربانیوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے حضرت عبداللہ بن ابی بکر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرہ ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن واقد نے سچ کہا ہے میں نے حضرت عائشہ ؓ کو فرماتے ہوئے سنا آپ فرماتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں عیدالاضحی کے موقع پر کچھ دیہاتی لوگ آگئے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قربانیوں کا گوشت تین دنوں کی مقدار میں رکھو پھر جو بچے اسے صدقہ کردو پھر اس کے بعد صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ لوگ اپنی قربانیوں کی کھالوں سے مشکیزے بناتے ہیں اور ان میں چربی بھی پگھلاتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اور اب کیا ہوگیا ہے؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا آپ ﷺ نے تین دنوں کے بعد قربانیوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا میں نے ان ضرورت مندوں کی وجہ سے جو اس وقت آگئے تھے تمہیں منع کیا تھا لہذا اب کھاؤ اور کچھ چھوڑ دو اور صدقہ کرو۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کی شرح کرتے ہیں ہوئے کہتے ہيں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان :
( میں نے تو تمہيں ان آنے والوں کی وجہ سےروکا تھا ) یہاں پران کمزور اورغریب دیھاتی لوگوں کی غمخواری کرنے کے لیے روکنا مراد ہے ،
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : ( میں نے توتمہيں ان آنےوالوں کی وجہ سے روکا تھا جوآئے تھے لھذا کھاؤ اور ذخیرہ کرو اورصدقہ بھی کرو ) یہ قربانی کا گوشت تین دن سے زيادہ جمع کرنے کی ممانعت ختم ہونے کی صراحت ہے ، اور اس میں کچھ گوشت صدقہ کرنے اورکھانے کا بھی حکم ہے ۔
(شرح مسلم للنووی )

جامع ترمذی
کتاب: قربانی کا بیان
باب: تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 1510
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ،‏‏‏‏ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ،‏‏‏‏ وَغَيْرُ وَاحِدٍ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ،‏‏‏‏ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  كُنْتُنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثٍ لِيَتَّسِعَ ذُو الطَّوْلِ عَلَى مَنْ لَا طَوْلَ لَهُ،‏‏‏‏ فَكُلُوا مَا بَدَا لَكُمْ وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَنُبَيْشَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ وَقَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ،‏‏‏‏ وَأَنَسٍ،‏‏‏‏ وَأُمِّ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،‏‏‏‏ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ.
ترجمہ:
بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  میں نے تم لوگوں کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع کیا تھا تاکہ مالدار لوگ ان لوگوں کے لیے کشادگی کردیں جنہیں قربانی کی طاقت نہیں ہے، سو اب جتنا چاہو خود کھاؤ دوسروں کو کھلاؤ اور  (گوشت)  جمع کر کے رکھو ١ ؎۔  
امام ترمذی کہتے ہیں:
١ - بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
٢ - اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے،  ٣ - اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، نبیشہ، ابوسعید، قتادہ بن نعمان، انس اور ام سلمہ ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔  
تخریج دارالدعوہ:
صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٧/١٠٦)، والأضاحي ٥ (٩٧٧/٣٧)،
سنن ابی داود/ الأشربة ٧ (٣٦٩٨)،
سنن النسائی/الجنائز ١٠٠ (٢٠٣٤)،
سنن ابی داود/ الأضاحي ٣٦ (٤٤٣٤، ٤٤٣٥)، والأشربة ٤٠ (٥٦٥٤- ٥٦٥٦) (تحفة الأشراف: ١٩٣٢)، و مسند احمد (٥/٣٥٠، ٣٥٥، ٣٥٦، ٣٥٧، ٣٦١) (صحیح  )  
وضاحت: ١ ؎:
کیونکہ اب اللہ نے عام مسلمانوں کے لیے بھی کشادگی پیدا کردی ہے اور اب اکثر کو قربانی میسر ہوگئی ہے لہذا گوشت ذخیرہ کر سکتے ہو،
قال الشيخ الألباني:  صحيح، الإرواء (4 / 368 - 369)  
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1510

صحیح بخاری
کتاب: کھانے کا بیان
باب: اگلے لوگ اپنے گھروں اور سفر میں کسی قسم کا کھانا اور گوشت وغیرہ ذخیرہ کر کے رکھتے تھے اور حضرت عائشہ (رض) اور اسماء (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) کے لئے ایک سفرہ (توشہ دان) بنایا تھا
حدیث نمبر: 5423
حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَائِشَةَ:‏‏‏‏ أَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُؤْكَلَ لُحُومُ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثٍ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا فَعَلَهُ إِلَّا فِي عَامٍ جَاعَ النَّاسُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرَادَ أَنْ يُطْعِمَ الْغَنِيُّ الْفَقِيرَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كُنَّا لَنَرْفَعُ الْكُرَاعَ فَنَأْكُلُهُ بَعْدَ خَمْسَ عَشْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ مَا اضْطَرَّكُمْ إِلَيْهِ ؟ فَضَحِكَتْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ بُرٍّ مَأْدُومٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ. وَقَالَ ابْنُ كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَابِسٍ بِهَذَا.
ترجمہ:
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ  میں نے عائشہ ؓ سے پوچھا کیا نبی کریم  ﷺ  نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نبی کریم  ﷺ  نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ صرف ایک سال اس کا حکم دیا تھا جس سال قحط پڑا تھا۔ نبی کریم  ﷺ  نے چاہا تھا  (اس حکم کے ذریعہ)  کہ جو مال والے ہیں وہ  (گوشت محفوظ کرنے کے بجائے)  محتاجوں کو کھلا دیں اور ہم بکری کے پائے محفوظ رکھ لیتے تھے اور اسے پندرہ پندرہ دن بعد کھاتے تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کرنے کے لیے کیا مجبوری تھی؟ اس پر ام المؤمنین ؓ ہنس پڑیں اور فرمایا آل محمد  ﷺ  نے سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی تین دن تک برابر کبھی نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے۔ اور ابن کثیر نے بیان کیا کہ ہمیں سفیان نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے یہی حدیث بیان کی

سنن ابن ماجہ
کتاب: کھانوں کے ابواب
باب: دھوپ میں خشک کیا ہوا گوشت
حدیث نمبر: 3313
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبِي،‏‏‏‏ عَنْعَائِشَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ لَقَدْ كُنَّا نَرْفَعُ الْكُرَاعَ فَيَأْكُلُهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ بَعْدَ خَمْسَ عَشْرَةَ مِنَ الْأَضَاحِيِّ.
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ  ہم لوگ قربانی کے گوشت میں سے پائے اکٹھا کر کے رکھ دیتے پھر رسول اللہ ﷺ پندرہ روز کے بعد انہیں کھایا کرتے تھے۔  
تخریج دارالدعوہ:
صحیح البخاری/الأطعمة ٢٧ (٥٤٢٣)،
( سنن الترمذی/الأضاحي ١٤ (١٥١١)،
(تحفة الأشراف: ١٦١٦٥)،
وقد أخرجہ: مسند احمد (٦/١٢٨، ١٣٦)، (حدیث مکرر ہے، دیکھے: ٣١٥٩) (صحیح  )

صحیح بخاری
کتاب: کھانے کا بیان
باب: اگلے لوگ اپنے گھروں اور سفر میں کسی قسم کا کھانا اور گوشت وغیرہ ذخیرہ کر کے رکھتے تھے اور حضرت عائشہ (رض) اور اسماء (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) کے لئے ایک سفرہ (توشہ دان) بنایا تھا
حدیث نمبر: 5424
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا نَتَزَوَّدُ لُحُومَ الْهَدْيِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ. تَابَعَهُ مُحَمَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَطَاءٍ:‏‏‏‏ أَقَالَ حَتَّى جِئْنَا الْمَدِينَةَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا.
ترجمہ:
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے عطاء نے اور ان سے جابر ؓ نے بیان کیا کہ  (مکہ مکرمہ سے حج کی)  قربانی کا گوشت ہم نبی کریم  ﷺ  کے زمانہ میں مدینہ منورہ لاتے تھے۔ اس کی متابعت محمد نے کی ابن عیینہ کے واسطہ سے اور ابن جریج نے بیان کیا کہ میں نے عطاء سے پوچھا کیا جابر ؓ نے یہ بھی کہا تھا کہ یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ آگئے؟ انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا تھا۔

حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنِي الْحَارِثُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَنْصَارِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي يَزِيدَ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنِ امْرَأَتِهِ ، أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ : قَدِمَ عَلَيْنَا عَلِيٌّ مِنْ سَفَرٍ فَقَدَّمْنَا إِلَيْهِ مِنْهُ، فَقَالَ : لَا آكُلُهُ حَتَّى أَسْأَلَ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَتْ : فَسَأَلَهُ عَلِيٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كُلُوهُ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ إِلَى ذِي الْحِجَّةِ ".
۔ یزید بن ابی یزید انصاری اپنی بیوی سے بیان کرتے ہیں کہ اس نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے قربانیوں کے گوشت کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کسی سفر سے ہمارے پاس واپس آئے، ہم نے ان کو قربانی کا گوشت پیش کیا، انھوں نے کہا: میں اس وقت تک یہ نہیں کھاؤں گا، جب تک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھ نہیں لوں گا، پھر جب انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اس گوشت کو ایک ذوالحجہ سے دوسرے ذوالحجہ تک کھا سکتے ہو،
(مسند احمد حدیث نمبر-25218)
یہ سند ضعیف ہے مگر روائیت حسن ہے،
(شعيب الأرنؤوط تخريج المسند 25218 • حسن )
(والطحاوي في شرح معاني الآثار6282)
(صحیح ابن حبان حدیث نمبر-5933)
(الألبانی السلسلة الصحيحة ٧‏/٢٩٨ • إن كان يزيد سمعه من عائشة فصحيح وإلا فحسن لغيره)
(حكم الحديث: صحیح او حسن لغیرہ)

*مذکورہ تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت بندہ خود بھی کھائے دوست ، احباب کو تحفہ بھی دے اور صدقہ بھی کرے۔ ذخیرہ بھی کرے، وہ ذخیرہ تین دن کے لیے کرے یا تین مہینے کے لیے یا سال کیلئے کرے جائز ہے،*

*لیکن ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے آس پاس لوگوں کی ضروریات کو دیکھ لے اگر لوگ قربانیاں کم کرتے ہیں اور ضرورت مند زیادہ ہیں تو بہتر ہے زیادہ تر صدقہ کرے، لیکن اگر قربانیاں کرنے والے زیادہ ہیں اور محتاج کم ہیں تو جتنے دن کیلئے چاہے جتنا چاہے ذخیرہ کر سکتا ہے،اس میں کوئی گناہ اور کوئی حرج نہیں،*

*قربانی کا گوشت تھوڑا یا زیادہ خود کھانا یا ذخیرہ کرنا جائز ہے لیکن بہتر ہے کہ تین حصے کرے اور پھر اپنا حصہ جتنے دن مرضی کھائے اور ذخیرہ کرے*

 امام احمد رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں:
ہم عبداللہ بن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث کا مذھب رکھتے ہيں جس میں ہے ( وہ خود ایک تہائي کھائے اورایک تہائي جسے چاہے کھلائے ، اورایک تہائي مساکین وغرباء پرتقسیم کردے ) ۔
اسے ابوموسی اصفہانی نے الوظائف میں روایت کیا ہے اوراسے حسن کہا ہے ، اورابن مسعود ، ابن عمررضي اللہ تعالی عنہم کا قول بھی یہی ہے ، اورصحابہ کرام میں سے کوئي ان دونوں کا مخالف نہيں ۔
(دیکھیں : المغنی ( 8 / 632 )

*بعض لوگ بلاوجہ گوشت ذخیرہ کرنے والوں پر تنقید کرتے ہیں، اور لطیفے بناتے ہیں، یہ سرا سر جہالت ہے*

جب قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے مستحب ہیں، اور  پھر اپنا حصہ چاہے تو سال بھر کھائے یا چاہے تو ایک دن میں کھا لے، اس پر بلا وجہ کا اعتراض نہیں کرنا چاہیے،

اور آخری بات کہ گوشت ذخیرہ وہی کرتے ہیں ، جو درمیانے طبقے کے لوگ ہیں، جو بازار سے خرید نہیں سکتے،اور ان درمیانے طبقہ کے لوگوں اور حالیہ دور کے غرباء اور مساکین میں اتنا زیادہ فرق نہیں ہے،

فرق اتنا ہے کہ فقیر /غرباء مہینے میں ایک بار گوشت کھاتے ہونگے

تو یہ درمیانے طبقے والے ہفتے میں ایک بار،۔

 غرباء پاؤ خریدتے ہیں تو وہ کلو خرید لیتے ہونگے، بس...؟

لیکن سچ یہ ہے کہ غرباء اور مساکین کی طرح قربانی کرنے والے اکثر درمیانے طبقے کے  لوگ بھی سال بعد قربانی پر ہی جی بھر کے گوشت کھاتے ہیں، اور وہ بھی اپنے تیسرے حصے کا، حالانکہ اس تیسرے حصے میں سے بھی وہ کچھ حصہ ان لوگوں کو بانٹ دیتے ہیں جو مساکین گوشت لینے دیر سے پہنچتے ہیں،
لہذا گوشت ذخیرہ کرنے والوں پر بلاوجہ تنقید نہیں کرنی چاہیے،

سوال_ اونٹ اور گائے کی قربانی میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کتنے لوگ شریک ہو سکتے ہیں؟ اور اگر حصہ داروں میں سے کوئی شخص بے نماز یا مشرک ہو یا اسکی آمدن حرام کی ہو یا حصے داروں میں سے کسی ایک شخص کی قربانی کی بجائے صرف گوشت کی نیت ہو تو کیا اسکی وجہ سے باقی لوگوں کی قربانی بھی نہیں ہو گی؟

نوٹ_

*یاد رہے کہ پوسٹ کا اصل مقصد گوشت کو ذخیرہ کرنے کی ترغیب دینا نہیں، بلکہ  مقصد ان لوگوں کے اعتراض کا جواب دینا ہے جو بلاوجہ قربانی کے گوشت کو ذخیرہ کرنے سے منع کرتے ہیں.

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

((قربانی کے گوشت کی تقسیم کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیں سلسلہ نمبر-75))

(قربانی کے باقی تمام مسائل کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-59 سے 77 تک))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦         سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Qurbani ke Gaye (cow) me Kitne log Shamil ho sakte hai, Haram tarike se kamane walo ki Us hisse me Qurbani hogi ya nahi?

Gaye ki Qurbani me kitne log Shamil ho sakte hai?

Kya 7 logo ka aqeeqa Ek gaye me ho sakta hai , jaise Qurbani me Saat log sharik hote hai?

Kaise Janwar ki Qurbani jayez hai?

Qurbani ka tarika, Kin logo par Qurbani wazib hai?

Sawal: oont (Camel) aur Gaye ki Qurbani me Jyada se jyada Aur kam se kam kitne log Shamil ho sakte hai? Agar hissedaro me se koi Shakhs Be Namaji ya Mushrik ho, Aamdani (Income) haram ki ho, Hissedaro me se kisi ek shakhs ki Qurbani ke bajaye Sirf Gost ki niyat ho to kya uski wajah se baki logo ki Qurbani bhi jayez hogi?


"سلسلہ سوال و جواب نمبر-67"

سوال_ اونٹ اور گائے کی قربانی میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کتنے لوگ شریک ہو سکتے ہیں؟ اور اگر حصہ داروں میں سے کوئی شخص بے نماز یا مشرک ہو یا اسکی آمدن حرام کی ہو یا حصے داروں میں سے کسی ایک شخص کی قربانی کی بجائے صرف گوشت کی نیت ہو تو کیا اسکی وجہ سے باقی لوگوں کی قربانی بھی نہیں ہو گی؟

Published Date- 31-7-2019

جواب..!!
الحمدللہ!!

*اگر اونٹ يا گائے كى قربانى ہو تو اس ميں ایک سے زائد لوگوں کا حصہ ڈالا جا سكتا ہے، ليكن اگر بكرى اور بھيڑ يا دنبہ كى قربانى كى جائے تو پھر اس ميں حصہ نہيں ڈالا جا سكتا،اور ايک گائے ميں سات حصہ دار شريک ہو سكتے ہيں اور ایک اونٹ میں سات یا دس لوگ بھی شریک ہو سکتے ہیں.

صحابہ كرام رضى اللہ عنہم سے حج يا عمرہ كى ھدى ميں ايک اونٹ يا گائے ميں سات افراد كا شريک ہونا ثابت ہے،

امام مسلم رحمہ اللہ نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہم نے حديبيہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ ايک اونٹ اور ايک گائے سات سات افراد كى جانب سے ذبح كى تھى "
(صحيح مسلم حديث نمبر_1318 )

اور ابو داود كى روايت ميں ہے ،

جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں،
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حج تمتع کرتے تو گائے سات آدمیوں کی طرف سے ذبح کرتے تھے، اور اونٹ بھی سات آدمیوں کی طرف سے، ہم سب اس میں شریک ہو جاتے،
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر-2807)

جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:  گائے سات افراد كى جانب سے ہے، اور اونٹ سات افراد كى جانب سے "
(سنن ابو داود حديث نمبر_ 2808 )
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ صحیح مسلم كى شرح ميں رقمطراز ہيں:
" ان احاديث ميں قربانى كے جانور ميں حصہ ڈالنے كى دليل پائى جاتى ہے، اور علماء اس پر متفق ہيں كہ بكرے ميں حصہ ڈالنا جائز نہيں، اور ان احاديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ ايك اونٹ سات افراد كى جانب سے كافى ہوگا، اور گائے بھى سات افراد كى جانب سے، اور ہر ايك سات بكريوں كے قائم مقام ہے، حتى كہ اگر محرم شخص پر شكار كے فديہ كے علاوہ سات دم ہوں تو وہ ايك گائے يا اونٹ نحر كر دے تو سب سے كفائت كر جائيگا " انتہى مختصرا.

اور مستقل فتوى كميٹى سے قربانى ميں حصہ ڈالنے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
" ايك اونٹ اور ايك گائے سات افراد كى جانب سے كفائت كرتى ہے، چاہے وہ ايك ہى گھر كے افراد ہوں، يا پھر مختلف گھروں كے، اور چاہے ان كے مابين كوئى قرابت و رشتہ دارى ہو يا نہ ہو؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحابہ كرام كو ايك گائے اور ايک اونٹ ميں سات افراد شريک ہونے كى اجازت دى تھى، اور اس ميں كوئى فرق نہيں كيا " انتہى.
(ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 401 )

*گائے اور اونٹ میں سات سات لوگوں کے شریک ہونے کا اصول ہدی کے جانوروں کے لیے ہے، یعنی حاجی جو منی میں قربانی کرتے ہیں وہاں اونٹ ہو یا گائے سات سات لوگ ہی شریک ہو سکتے ہیں،لیکن عام جگہ پر جو قربانی کرتے ہم یہاں اونٹ کی قربانی میں دس لوگ بھی شریک ہو سکتے ہیں*

جیسا کہ سنن ترمذی کی حدیث میں ہے!

سیدنا ابن عباس سے رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے کہ عید الاضحی کا دن آ گیا، چنانچہ گائے میں ہم سات سات لوگ شریک ہوئے اونٹ میں دس دس لوگ شریک ہوئے،
(سنن ترمذی،حدیث نمبر-905)
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر-3131)
اس حدیث کو امام (ابنِ حبان_4007)نے ''صحیح'' اور امامِ حاکم نے ''امام بخاری کی شرط پر صحیح ''کہا ہے ، حافظ ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے،

لہذا_ اس صحیح حدیث سے ثابت ہوا کہ اونٹ کی قربانی میں دس افراد بھی شریک ہو سکتے ہیں
_______&________

*ایک سے زائد قربانیان کرنا جائز ہے اور اسی طرح بڑے جانور میں سات سے کم لوگ شریک ہو سکتے ہیں ،یعنی کوئی دو حصے رکھ لے یا تین رکھ لے مگر کوئی بھی سوا ،ڈیڑھ یا ڈھائی قربانی نہیں کر سکتا*

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"کیا اسلام نے عید کے دن قربانی کرنے کی تعداد مقرر کی ہے؟ اور کی ہے تو یہ کتنی تعداد ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"اسلام میں قربانی کی تعداد کیلئے کوئی حد بندی مقرر نہیں کی گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو  قربانیاں کیا کرتے تھے، ایک اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے اور دوسری امت محمدیہ میں سے موحدین کی طرف سے، چنانچہ اگر کوئی شخص ایک، یا دو ، یا اس سے بھی زیادہ قربانیاں کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک بکری ذبح کرتے تھے، اور پھر اسی سے خود بھی کھاتے اور لوگوں کو بھی کھلاتے، اس کے بعد لوگوں نے اسے فخر کا ذریعہ  بنا لیا"، خلاصہ یہ ہے کہ: اگر کوئی انسان اپنے گھر میں اپنی اور اہل خانہ کی طرف سے ایک ہی بکری ذبح کر دے تو اس طرح اس کا سنت پر عمل ہو جائے گا، اور اگر کوئی دو ، تین، چار،  یا گائے ، یا اونٹ کی قربانی کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔۔۔" انتہی
(ماخوذ از ویب سائٹ شیخ ابن باز رحمہ اللہ:)
http://www.binbaz.org.sa/mat/11662

یعنی ایک بڑے جانور مثلا گائے، اونٹ میں سات قربانیاں ہوتی ہیں۔ سات افراد ایک ایک حصہ ڈال لیں یا پھر سات سے کم لوگ ہوں تو وہ قربانی کے اعتبار سے حصے اس طرح ڈالیں کہ ایک بندہ ایک حصہ، دو حصے یا تین حصے یا چار حصے یا پانچ حصے یا چھ حصے یا پھر پورا جانور یعنی چھ لوگ کر رہے ہیں تو ایک بندہ دو حصے ڈال لے اور باقی ایک ایک تاکہ کوئی حصہ ساتویں (1/7) سے کم نہ ہو۔ مراد یہ ہے کہ کوئی سوا، ڈیڑھ یا پونے دو قربانیاں نہیں کرے گا۔ جو بھی کرے مکمل ایک، دو یا اس سے زائد قربانیاں کرے۔ اسی طرح ایک بڑے جانور میں پانچ بندے حصہ ڈالیں تو ایک ایک تو سب کو مکمل قربانی آ جائے گی باقی دو سب پر تقسیم نہیں کی جائیں گی۔ ان دو کو کسی ایک کے ذمہ لگا دیں یا دو بندے دو دو کر لیں۔ اسی طرح ایک بڑے جانور کو دو بندے مل کر قربانی کریں تو ایک بندہ چار حصے کر لے ایک تین، ساڑھے تین تین نہیں کریں گے۔ المختصر یہ کہ جو بھی کرے مکمل قربانیاں کرے، ایک، دو یا زیادہ جتنی بھی،

________&_________

*گائے میں سات سے زیادہ اور اونٹ میں دس سے زائد حصے دار نہیں بن سکتے*

سعودی مفتی شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ اپنی ویبسائٹ(islamqa) پر ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ،
کسی قربانی کرنے والے کیلیے ساتویں حصے سے کم حصہ جائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی محض گوشت ہی حاصل کرنا چاہتا ہے قربانی  نہیں کرنا چاہتا تو پھر کوئی حرج نہیں ہے کہ جتنا مرضی حصہ لے لے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "أحكام الأضحية"  میں کہتے ہیں کہ:
"ایک بکری ایک شخص کی جانب سے قربانی میں کافی ہوگی، اور اسی طرح گائے یا اونٹ کا ساتواں حصہ  بھی ایک بکری کی طرح ایک شخص کی جانب سے قربانی میں کافی ہو گا۔۔۔

اور اگر [بکری کی] قربانی میں ایک سے زیادہ افراد مالک  ہوں تو پھر اس کی قربانی نہیں ہو گی، اونٹ اور گائے کی مشترکہ قربانی  میں سات سے زائد حصے دار شریک نہیں ہو سکتے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ قربانی عبادت  اور قرب الہی کا ذریعہ ہے چنانچہ اس عبادت کا طریقہ کار وہی ہو گا جو شریعت نے بتلایا ہے اس میں وقت، تعداد اور کیفیت ہر چیز کا خیال رکھا جائے گا" ختم شد
("رسائل فقهية"_ص 58، 59)

*اور اگر کوئی قربانی کرنے والا شخص ساتویں حصے سے بھی کم حصہ ملائے تو اس کی قربانی صحیح نہیں ہوگی، تاہم اس کی وجہ سے دوسروں کی قربانی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ ایک گائے میں ساتواں حصہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے چاہے ان میں سے کچھ قربانی کریں یا صرف گوشت حاصل کرنے کیلیے حصہ ڈال رہے ہوں*

امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اونٹ يا گائے ميں قربانى كے ليے سات افراد حصہ ڈال سكتے ہيں، چاہے وہ سب ايك ہى خاندان سے تعلق ركھتے ہوں يا پھر مختلف خاندانوں سے، يا ان ميں سے بعض افراد صرف گوشت چاہے ہوں تو قربانى كرنے والے كى طرف سے قربانى ہو جائيگى، چاہے وہ قربانى نفلى ہو يا پھر نذر مانى ہوئى ہو، ہمارا يہى مسلك ہے، اور امام احمد رحمہ اللہ اور جمہور علماء كرام كا بھى يہى قول ہے " انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 8 / 372 )

 ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اونٹ سات افراد كى جانب سے كافى ہے، اور اسى طرح گائے بھى اكثراہل اعلم كا قول يہى ہے...
پھر اس كے بعد اس كى دليل ميں كچھ احاديث ذكر كرنے كے بعد كہتے ہيں:
جب يہ ثابت ہو گيا تو پھر چاہے حصہ دار ايك ہى گھر سے تعلق ركھتے ہوں، يا پھر مختلف گھرانے سے تعلق ركھنے والے ہوں، يا پھر ان كى قربانى فرضى ہو يا نفلى، يا ان ميں سے بعض اللہ كا قرب حاصل كرنے والے ہوں، يا بعض افراد صرف گوشت حاصل كرنا چاہيں تو سب برابر ہيں؛ كيونكہ ان ميں سے ہر ايك انسان كى جانب سے اس كا حصہ كفائت كرے گا، اس ليے كسى كى نيت دوسرے كى نيت كو نقصان نہيں دےگى " انتہى.
(ديكھيں: المغنى ابن قدامہ_ 13 / 363 )

نوٹ_

*اس سے یہ بھی پتا چلا کہ اگر کوئی بے نمازی،مشرک آدمی یا حرام کمائی والا شخص قربانی میں حصے دار ہے تو اسکی نیت یا اسکا عمل  باقیوں کی قربانی پر اثر انداز نہیں ہو گا،کیونکہ سب کی اپنی اپنی نیت ہے جس نے جس نیت سے یا جس مال سے قربانی کی ہے اللہ اسکو جانتا ہے،کچھ علماء کا یہ فتویٰ دینا کہ بے نماز یا مشرک یا حرام مال والے حصے دار سے باقیوں کی قربانی بھی ضائع ہو جائے گی یہ بات بے معنی اور بے دلیل ہے اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو کوئی بھی اجتماعی عبادت قبول نا ہو،۔۔۔ لہذا دلیل کے بنا ہم اس فتویٰ کو تسلیم نہیں کرتے،ہاں زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بہتر ہے کہ تمام لوگ موحد اور نمازی پرہیزی قربانی میں شریک ہوں ،کیونکہ مشرک/بے نماز کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور اس لیے بھی تا کہ بے نماز اور مشرک کی حوصلہ شکنی ہو اور انکو دعوت ملے کہ انکے  برے عمل کی وجہ سے کوئی انکو قربانی میں بھی شریک نہیں کر رہا۔۔*

(((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

قربانی کے مسائل کے بارے مزید پڑھنے کے لیے دیکھیں
( سلسلہ نمبر- 59 سے 78 تک)

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Kya Qurbani ka Gosht Gair Muslim ko De Sakte Hai? (AUR DEENI MASHAIL KE JWABAT)

Jab Hichki  aaye to kaun si dua Padhe? 

Islam me 2 saal se jyada Bacche ko Doodh pilane ki hukm? 
Har Namaj ke Bad Aayat Al Kursi Padhna kaisa hai?
Ager Juma ke Din Khatib Na Ho To kya Zoher Ki Namaj Padh Sakte Hai? 
Kya Qurbani ka Gost Gair Muslim ko De Sakte Hai?


*آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل*
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

جوابات از شیخ مقبول احمد سلفی  

اسلامک دعوۃ سنٹر،شمالی طائف(مسرہ)


*1/ اس کلام کی کیا حقیقت ہے "جب تمہیں ہچکی لگے تو پہلی ہچکی پر کلمہ طیبہ پڑھ لو ان شاءاللہ ہچکی رک ہو جائے گی اور اس عمل کو اپنی عادت بنا لو اور جب موت آئے گی جو برحق ہےتو موت سے پہلے ایک ہچکی آئے گی اور تماری عادت کی وجہ سے تمہاری زبان سے کلمہ طیبہ جاری ہو جائے گا ان شاءاللہ "۔*
جواب : ہچکی انسانی فطرت ہے جسے بعض اطباء نے بیماری کی علامت یا کھاتے پیتے وقت کسی خرابی کے سبب آتی ہے اس سے نجات پانے کے لئے بہت سے نسخے ہیں جسے عمل میں لاکر اسے بند کیا جاسکتا ہے۔ذکر تو ہروقت مشروع ہے لیکن اگر کوئی ہچکی کے وقت کلمہ پڑھنے کو خاص کرتا ہے تو اس سے بدعت ظاہر ہوتی ہے کیونکہ ایسی کوئی تعلیم رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ طبی نسخہ اختیار کیا جائے اور عافیت ملنے پر اللہ کی حمد بیان کی جائے ۔
*2/ فرض نمازوں کے بعد آیۃ الکرسی اور معوذات پڑھنے کی کیا فضیلت ہے ؟*
جواب : فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھنے سے متعلق رسول اللہ کا فرمان ہے :
مَنْ قرأَ آيةً الكُرسِيِّ دُبُرَ كلِّ صلاةٍ مكتوبةٍ ، لمْ يمنعْهُ من دُخُولِ الجنةَ إلَّا أنْ يمُوتَ (صحيح الجامع:6464)
ترجمہ: جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھتا ہے تو اسے جنت میں داخل ہونے سے موت کے علاوہ کوئی چیز نہیں روکتی ۔
اور معوذات یعنی سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورہ ناس یہ تینوں عظیم سورتیں ہیں ۔ پہلی سورت رحمن کی صفات پر مشتمل ہے تو بقیہ دوجن و شیطان اور شروحسد سے پناہ مانگنے پر البتہ فرض نمازوں کے بعد انہیں پڑھنے کی خاص فضیلت وارد نہیں ، رسول اللہ ﷺ کی تعلیم ہے کہ انہیں پڑھی جائے۔
*3/ بچے کو دو سال سے زائد دودھ پلانے کا کیا شرعا کیا حکم ہے ؟*
جواب : مدت رضاعت دوسال ہے جو اللہ کے اس فرمان میں موجودہے :
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ ۖ لِمَنْ أَرَادَ أَن يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ(البقرۃ :233)
ترجمہ : مائیں اپنی اولاد کو دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا ارادہ دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو۔
دو سال سے زیادہ دودھ پلانا جائز ہے اگر اسے ماں کے دودھ کی حاجت ہو۔ اس کی متعدد مثالیں ہوسکتی ہیں مثلا بچہ لاغر ہو اور ماں کے دودھ سے اسے فائدہ پہنچتا ہویا اسی طرح دانہ پانی نہ کھاتا پیتا ہو وغیرہ ۔ اللہ کا فرمان ہے : لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (البقرة:279 )۔
ترجمہ: نہ تم کسی پر زیادتی کرواور نہ ہی تم پر کوئی زیادتی کرے ۔
*4/ اگر جمعہ کے دن خطیب نہ ہو تو کیا جمعہ کے بدلے ظہر کی نماز پڑھ لی جائے ؟*
جواب : اگر کسی دن رسمی خطیب جمعہ کو حاضر نہ ہوسکے اور مسجد میں کوئی عالم دین بھی موجود نہ ہو تو عوام میں سے ہی کوئی جمعہ کا مختصر خطبہ دے جس میں حمدوثنا کے بعد معمولی سی نصیحت کردے اور درود پڑھ کر خطبہ ختم کردے کفایت کرجائے گاپھر دو رکعت جمعہ کی نماز پڑھادے۔ آج تو تقریبا تمام مساجدمیں خطبات کی کتابیں رکھی ہوتی ہیں اسے دیکھ کر پڑھ لیا جائے اور پھر جمعہ کی نماز پڑھی جائے یاقریب کی کسی جامع مسجد میں چلے جائیں مگر جمعہ چھوڑ کر اس کے بدلے میں ظہر پڑھنا صحیح نہیں ہے ۔
*5/ ووٹ دینے کی شرعا کیا حیثیت ہے ؟*
جواب : جمہوریت اپنی جگہ بلاشبہ اسلام سے متصادم ہے ساتھ ہی ووٹنگ کا مروجہ طریقہ جس ادنی اور اعلی سب برابر ہوں سوفیصد غلط ہے مگر چونکہ جمہوری نظام کے تحت رہنے والوں پر حکمرانی کرنے والاووٹنگ سے ہی چنا جاتا ہے ایسے میں ہمارا حق بنتا ہے کہ ووٹ کا صحیح استعمال کرکےاور رشوت ودباؤ سے بالاتر ہوکر مفاد عامہ کی خاطر کام کرنے والے نمائندہ کا انتخاب کریں اور زیادہ نقصان پہنچانے والے عناصر سے قوم کو بچائیں۔
*6/ اٹیچ باتھ روم میں وضو کرنا کیسا ہے ؟*
جواب : اٹیچ باتھ روم میں وضو کرسکتے ہیں اور وضو کرتےوقت بسم اللہ کہنا چاہئے اور بیت الخلاء میں اللہ کانام لینا منع ہے اس وجہ سے اللہ کانام زبان سے نہ لے بلکہ دل میں پڑھ لے اور وضو کرکے وضو کی دعا باہر آکر پڑھے ۔ ویسے شروع میں بسملہ کہنے کے متعلق اختلاف ہے بعض نے واجب اور بعض نے سنت کہا ہے۔
*7/ جمعہ کے دن خطیب کو ممبر سے اترنے کے بعد مقتدی کھڑا ہو یا اقامت کے دوران ہی؟*
جواب : اقامت کے دوران کسی بھی وقت مقتدی کھڑا ہوسکتا ہے ، کھڑا ہونے کاکوئی وقت متعین نہیں ہے۔
*8/ کیا خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ؟*
جواب: خون بہنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب زخمی ہوئے اور خون بہہ رہاتھا تو اسی حالت میں نماز پوری کی ۔
*9/ قربانی کا گوشت غیر کو دے سکتے ہیں یا نہیں ؟*
جواب : غیرمسلم دوست، پڑوسی ، نرم اخلاق والوں، مانگنے والوں، اسلام کی طرف میلان رکھنے والوں یا مسلمانوں کی مدد کرنے والوں یعنی جو کافر ہمارے احسان وسلوک کے حقدار ہیں کو قربانی کا گوشت دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
*10/ اگر امام کے پیچھے مقتدی سے ایسی کوئی غلطی ہوجائے جس سے سجدہ سہو کرنا پڑتا ہے تو کیا نماز کے آخر میں سجدہ سہو کرنا ہوگا؟*
جواب : مقتدى بھول جائے تو اس كى كئى ايک حالتيں ہيں:
1-اگر مقتدى اپنى نماز ميں بھول جائے اور وہ مسبوق بھى نہ ہو يعنى اس نے سب ركعات امام كے ساتھ ادا كى ہوں، مثلا ركوع ميں سبحان ربى العظيم بھول جائے تو اس پر سجدہ نہيں ہے كيونكہ اس كى جانب سے امام متحمل ہے، ليكن فرض كريں اگر مقتدى سے ايسى غلطى ہو گئى جس سے كوئى ايك ركعت باطل ہو جاتى ہو، مثلا سورۃ فاتحہ پڑھنا بھول گيا تو اس حالت ميں امام كے سلام پھيرنے كے بعد وہ ركعت ادا كرنا ضرورى ہے جو باطل ہوئى تھى پھر تشھد پڑھ كر سلام كے بعد سجدہ سہو كرے.
2- اگر مقتدى نماز ميں بھول جائے اور وہ مسبوق ہو يعنى اس كى كوئى ركعت رہتى ہو تو وہ سجدہ سہو ضرور كرے گا چاہے وہ امام كے ساتھ نماز ادا كرتے ہوئے بھولا ہو يا باقى مانندہ نماز ادا كرتے ہوئے بھول جائے؛ كيونكہ اس كے سجدہ كرنے ميں امام كى مخالفت نہيں ہوتى اس ليے كہ امام اپنى نماز مكمل كر چكا ہے.(رسالۃ فى احكام سجود السھو تاليف شيخ ابن عثيمين بحوالہ الاسلام سوال وجواب فتوی رقم :72290)
*11/ سالی کی بیٹی سے شادی کا حکم بتائیں ۔*
جواب : جس طرح بیوی کے ہوتے ہوئے سالی سے نکاح حرام ہے اسی طرح سالی کی بیٹی سے بھی نکاح حرام ہے ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أن يجمعَ الرجلُ بين المرأةِ وعمَّتِها ، وبين المرأةِ وخالتِها .(صحيح مسلم:1408)
ترجمہ: کسی عورت اور اس کی پھوپھی کو، اور کسی عورت اور اس کی خالہ کو (نکاح میں) اکٹھا نہ کیا جائے۔
جب بیوی کی وفات ہوجائے یا طلاق ہوجائے تو عدت گزرنے کے بعد سالی کی بیٹی سے شادی کرسکتے ہیں۔
*12/ ہمارے علاقے میں حجاج حج پر نکلنے سے پہلے کسی عالم کو گھر بلاکر ان سے دعا کرواتے ہیں ، اس عمل کا کیا حکم ہے؟*
جواب : کسی زندہ نیک آدمی سے دعا کروانا جائز ہے لیکن دعا کروانے کا کوئی مخصوص طریقہ رائج کرلیا جائے تو پھر غلط ہے مثلا حج پر جانے سے پہلے لوگ اپنے گھر عالم بلابلاکر دعا کروانے لگے تو پھر اس صورت میں یہ کام ممنوع ہوگا۔
*13/ دوران حج وعمرہ صفا ومروہ پر جو دعائیں کرنی ہے ان میں ہاتھ اٹھانا ہے یا بغیر اٹھائے دعا کرنی ہے ؟*
جواب : صفا ومروہ پر یہ دعا بغیر ہاتھ اٹھائےتین تین دفعہ پڑھنی ہے" لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شيء قدير، لا إله إلا الله وحده أنجز وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده۔" اوردرمیان میں ہاتھ اٹھاکر قبلہ رخ ہوکر جو جی میں آئے تین دفعہ دعا کرے ۔
اور کنکری مارتے وقت جمرہ اولی کی رمی کے بعد اس سے ہٹ کر قبلہ رخ ہوکر ہاتھ اٹھا کر دعا کرے اور ایسا ہی جمرہ وسطی کی رمی کے بعد بھی کرے مگر جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد دعا کے لئے نہ ٹھہرے ۔
*14/ لڑکی کے والد نہیں ہیں ،والدہ ہے مگر وہ شادی کے لئے راضی نہیں ہے جبکہ لڑکی اور لڑکا نیز لڑکا کے گھروالے راضی ہیں ۔ کیا اس صورت میں ماں ولی بن سکتی ہے یا اس کی جگہ کوئی دوسرا ولی بن سکتا ہے ؟*
جواب : نکاح میں ماں کی ولایت قبول نہیں ہے ، مردوں کو یہ حق حاصل ہے اور حقیت کے اعتبار سے ولایت کی ترتیب ہے ۔ پہلے باپ پھر دادا، پھر بیٹا، پھر سگے بھائی ،، اس طرح سوتیلا بھائی (باپ کی جانب سے)، پھر سگے اور سوتیلے بھائی کی اولاد ، پھر حقیقی چچا ،پھر باپ کی طرف سے سوتیلا چچا ۔اس ترتیب کے ساتھ ان میں سے جو زندہ ہو اس کی ولایت میں لڑکی کی شادی ہوگی ۔
*15/ہم طالب علم جامعہ کے اندر جس روم میں رہتے ہیں اس میں پیسے کی چوری کثیر تعداد میں ہوتی ہے اورکسی کا کہنا ہے کہ کوئی آدمی ہے جو جن کے ذریعہ سے پتہ لگا لیتا ہے تو کیا اس پر عمل کرنا صحیح ہوگا ؟*
جواب : گم شدہ سامان کی برآمدگی کے لئے جنات کی مدد لینا جائز نہیں ہے ، آپ کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ سے اس کی واپسی کی دعا کریں، پوچھ تاچھ کریں اور قانونی کاروائی کریں ۔
*16/زید نے پانچ لاکھ موٹی رقم حامد کو بطور قرض دیا اور ادائیگی کی مدت دو سال مقرر کی اور زید نے دوسال تک اس مال کی زکاۃ دی ، اب ادائیگی وقت ہو گیا مگر حامد قرض کی ادائیگی کی طاقت نہیں رکھتا ٹال مٹول کرتے ہوئے مزید ایک سال ہوگیا تو کیا زید پر اس دیے ہوئے مال کی زکاۃ اس سال واجب ہے؟*
جواب : ہاں تیسرے سال کی بھی زکوۃ ادا کرے گا۔
*17/کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟*** فیضانِ حدیث *** قیامت کے روز اللہ کریم کے عرش کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا، تین شخص اللہ پاک کے عرش کے سایے میں ہوں گے (1) وہ شخص جو میرے امتی کی پریشانی دُور کرے (2) میری سنت کو زندہ کرنے والا (3) مجھ پر کثرت سے درود پڑھنے والا.( البدور السافرہ حدیث 366 )
جواب : ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت ملتی ہے مگر اس کی کوئی اصل نہیں ہے ۔
"ثلاثةٌ تحت ظلِّ عرشِ اللهِ يومَ القيامةِ ، يومَ لا ظلَّ إلَّا ظلُّه . قيل : من هم يا رسولَ اللهِ ! قال : مَن فرَّج على مكروبٍ من أمَّتي وأحيَا سنَّتي ، وأكثر الصَّلاةَ عليَّ"
سخاوی نے کہا کہ اس کی معتمد اصل پہ مجھے اطلاع نہیں مل سکی ۔( القول البديع:181)
*18/ یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے سجدہ کیا تھا یہ کون سا سجدہ تھا؟*
جواب : یوسف علیہ السلام نے بچپن میں خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے او ر چاند وسورج انہیں سجدہ کررہے ہیں ،یہی خواب اس وقت تعبیر بن کر حقیقت میں تبدیل ہوگیا جب انہیں مصر کی بادشاہت ملی کہ ان کے والدین اورسارے  بھائی بطور سلام وتکریم سجدہ ریز ہوگئے ۔ دراصل یہ یوسف علیہ السلام کی شریعت میں جائز تھا جبکہ امت محمدیہ میں کسی قسم کا سجدہ غیراللہ کے لئے جائز نہیں ہے ۔
*19/ میاں بیوی میں جھگڑا لڑائی ہونے کی وجہ سے تقریبا تیس سال تک دوری رہی اب وہ دونوں اکٹھا ہونا چاہتے ہیں اس کے لئے کیا نکاح تجدید کرنے کرنے کی ضرورت ہے ؟*
جواب : جھگڑا لڑائی سے میاں بیوی میں دوری ہوجانے پر نکاح نہیں ٹوٹتا ہے خواہ کتنے بھی سال ہوگئے ہوں البتہ اس طرح  دوری نہیں اختیار کرنی چاہئے تھی اس پہ اللہ تعالی سے توبہ واستغفار کریں۔ وہ دونوں ابھی بھی میاں بیوی ہیں لہذا نکاح کی ضرورت نہیں ہے بغیر نکاح کے اکٹھے ہوسکتے ہیں ۔
*20/ دربار پر چڑھائے ہوئے بکرے منڈی یا قریبی بازار میں اس کے متولیان بیج دیتے ہیں ایسے بکرے کا گوشت یا قیمہ خریدنا کیسا ہے ؟*
جواب : دربار پر چڑھایا ہوا جانور غیراللہ کے لئے ہے جس کا کھانا ، خریدنا، بیچنا کچھ بھی جائز نہیں ہے۔
*21/ میں ایک مسجد میں امام ہوں وہاں لوگوں نے رمضان میں تراویح اور وتر کی نماز کے بعد جنازہ کی نماز پڑھی جبکہ حدیث میں وتر کو آخری نماز بنانے کا حکم ہے ؟*
جواب : صحیحین کی روایت سے ثابت ہے کہ رات کی آخری نماز وتر کو بنانا چاہئے لیکن نبی ﷺ سے وتر کے بعد بھی دو رکعت نماز پڑھنا ثابت ہےجیساکہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ وتر کے بعد رسول اللہ ﷺ  بیٹھ کردو رکعت ادا کیا کرتے تھے (مسلم:738) اس لئے وتر کے بعد بھی نوافل یا دوسری نماز (نماز جنازہ) پڑھ سکتے ہیں ۔
*22/ تکافل مروجہ کی شرعی کیا حیثیت ہے ؟*
جواب : مروجہ تکافل بھی بیمہ کی طرح ناجائز ہے کیونکہ یہ بھی بیمہ ہی کی ایک شکل ہے ۔
_________________________
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS