find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Chowk Chuarahe Par Mangane wale ko dena jayez hai? Kya Allah ka wasta dekar mangane wale ko inkar nahi kar sakte hai?

Chowk Chauraho par, Muhalle ke Samne khade hokar, Station ya Airport ke samne baith kar Mangane wale ke bare me kya hukm hai?
Sawal: Fakiro ke bare me Kya hukm hai Shariyat me? Chowk par jo log Bhik mangate hai kya unko Sadqa Dena jayez hai? Kya Allah ka Wasta dekar jo mange usse inkar nahi karna chahiye?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-387"
سوال- گداگروں یعنی فقیروں کے بارے شرعی حکم کیا ہے.؟ چوکوں چوراہوں پر جو لوگ بھیک مانگتے ہیں انکے بارے بتائیں کہ کن کو صدقہ دینا جائز ہے؟ کہتے ہیں اللہ کا واسطہ دیکر جو مانگے اسے انکار نہیں کرنا چاہیے ؟ کیا یہ بات صحیح ہے.؟

Published Date: 27-8-2024

جواب..!
الحمدللہ..!

*اللہ وحدہ لا شریک لہ نے صدقات و خیرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:*

اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

📚﴿وَما تُنفِقوا مِن خَيرٍ فَلِأَنفُسِكُم وَما تُنفِقونَ إِلَّا ابتِغاءَ وَجهِ اللَّهِ وَما تُنفِقوا مِن خَيرٍ يُوَفَّ إِلَيكُم وَأَنتُم لا تُظلَمونَ ﴿٢٧٢﴾ لِلفُقَراءِ الَّذينَ أُحصِروا فى سَبيلِ اللَّهِ لا يَستَطيعونَ ضَربًا فِى الأَرضِ يَحسَبُهُمُ الجاهِلُ أَغنِياءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعرِفُهُم بِسيمـٰهُم لا يَسـَٔلونَ النّاسَ إِلحافًا وَما تُنفِقوا مِن خَيرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَليمٌ ﴿٢٧٣﴾...

ترجمہ!
"اور جو بھی تم بھلی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا فائدہ خود پاؤ گے۔ تمہیں صرف اللہ کی رضا مندی طلب کرنے کے لیے خیرات کرنی چاہیے اور جو بھی تم بھلی چیز خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ صدقات کے مستحق صرف وہ فقراء ہیں جو اللہ کی راہ (جہاد) میں روک دیے گئے۔ جو زمین میں (کاروبار وغیرہ) کے لیے چل پھر نہیں سکتے، نادان لوگ ان کی بے سوالی کی وجہ سے انہیں مال دار خیال کرتے ہیں، آپ ان کی علامت سے انہیں پہچان لیں گے۔ وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے اور تم جو کچھ مال خرچ کرو گے بےشک اللہ تعالیٰ اسے جاننے والا ہے۔( سورةالبقرة_ 272،273)

*اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ہمارے صدقات و خیرات اور اموال کے مستحق وہ لوگ ہیں جو جہاد فی سبیل اللہ میں روکے گئے ہیں اور اتنے فقراء و محتاج ہیں کہ ضرورت کے ہوتے ہوئے بھی لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر دست سوال دراز نہیں کرتے کیونکہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا ان کی خودداری اور عزت نفس کے خلاف ہے اس آیت کریمہ میں فقیر و غریب کے وصف جو ذکر کیے گئے ہیں وہ انتہائی قابل توجہ ہیں۔*

(1) التعفف
(2) الحاف

پہلے ہم تعفف کے بارے سمجھتے ہیں،

*تعفف کا مطلب سوال سے بچنا یعنی فقر و غربت کے باوجود لوگوں سے سوال کرنے سے گریز کریں گے۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ میں بھیک مانگنے کو پسند نہیں کیا گیا۔*

جیسے کہ احادیث میں ہے!

📚زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
" لأن يأخذ أحدكم حبله فيأتي بحزمة الحطب على ظهره فيبيعها، فيكف الله بها وجهه، خيرٌ له من أن يسأل الناس أعطوه أو منعوه "
"تم میں سے کوئی شخص اپنی رسی پکڑ کر پہاڑ پر جائے اور اپنی پشت پر لکڑیوں کا گٹھا لاد کر لائے اور اسے فروخت کر کے اس کی قیمت پر قناعت کرے تو اس کے حق میں لوگوں سے سوال کرنے سے بہتر ہے لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔"
(سنن ابن ماجہ، کتاب الزکاۃ، باب کراھیۃ المسئلۃ (1836) واللفظ لہ۔ صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسئلۃ (1471) مسند احمد 1/164'167)

📚یہی حدیث ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے:
(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسئلۃ (1470 وغیرہ) مسلم، المؤطا للمالک، نسائی، کتاب الزکاۃ، باب المسئلۃ (2583)
(مسند احمد 2/257'300'395'418'496 وغیرہ میں بھی موجود ہے۔

📚ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وَمَنْ يَتَقَبَّلْ لِي بِوَاحِدَةٍ أَتَقَبَّلْ لَهُ الْجَنَّةَ " ، قَالَ : قَالَ ثَوْبَانُ : أَنَا ، قَالَ : " لا تَسْأَلِ النَّاسَ شَيْئًا " . قَالَ : فَإِنْ كَانَ سَوْطُهُ يَقَعُ ، فَمَا يَقُولُ لأَحَدٍ نَاوِلْنِيهِ ، حَتَّى يَنْزِلَ فَيَأْخُذَهُ"
"جو شخص میری ایک بات قبول کر لے میں اس کے لیے جنت کا ذمہ لیتا ہوں۔ میں نے کہا میں قبول کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں سے کسی چیز کا بھی سوال نہ کر، ثوبان رضی اللہ عنہ کی حالت یہ تھی کہ وہ سوار ہوتے اور ان کو کوڑا گر جاتا تو وہ کسی سے یہ نہ کہتے کہ میرا کوڑا مجھے پکڑا دو بلکہ خود اتر کر اٹھاتے۔"
(سنن ابن ماجہ، کتاب الزکاۃ، باب کراھیۃ المسئلۃ (1837) واللفظ لہ،
(ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب کراھیۃ المسئلۃ (1643)
(نسائی، کتاب الزکاۃ، باب فضل من لا یسال الناس شیئا (2591)
(مستدرک حاکم /1412،
( الترغیب والترھیب 1/581)

📚عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" من سأل وله ما يغنيه جاءت مسألته يوم القيامة خدوشاً أو خموشاً أو كدوحاً في وجهه" قيل : يا رسول الله وما يغنيه ؟ قال : خمسون درهما، أو قيمتها من الذهب "
"جس شخص نے سوال کیا اور اس کے پاس اتنا مال ہو جو اسے کفایت کرتا ہے تو قیامت کے دن وہ سوال اس کے چہرے پر چھلا ہوا نشان بن کر آئے گا۔ سوال کیا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آدمی کو کتنا مال کفایت کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پچاس درھم یا اتنی قیمت کا سونا۔"
(سنن ابن ماجہ، کتاب الزکاۃ، باب من یسال عن ظھر غنی (1840) سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ (499) نسائی، کتاب الزکاۃ، باب حد الغنی (2593) ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب من یعطی من الصدقۃ وحد الغنی (1626)
ترمذی، کتاب الزکاۃ، باب ما جاء من تحل لہ الزکاۃ (650'651)

*مذکورہ بالا احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ شریعت کی نظر میں لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنا معیوب ہے کوئی خود دار انسان اسے پسند نہیں کرتا جس شخص کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ اسے کفایت کرتا ہو پھر بھی وہ بھیک مانگے تو اس کا بھیک مانگنا قیامت کے دن اس کے منہ پر زخم کا نشان ہو گا اور جو آدمی مسلسل بھیک مانگتا رہتا ہے قیامت والے دن اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہو گا۔*

📚عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" ما يزال الرجل يسأل الناس حتى يأتي يوم القيامة ليس في وجهه مزعة لحم "
"آدمی لوگوں سے ہمیشہ سوال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت والے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہو گا۔"
(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب من سال الناس تکثرا (1474)
(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب کراھۃ المسئلہ للناس 103' 104 /1040)
(نسائی، کتاب الزکاۃ، باب المسئلۃ (2587)

*لہذا لوگوں سے بھیک مانگنے سے بچنا چاہیے، جو آدمی لوگوں سے بھیک مانگنے سے بچتا ہے اللہ تعالیٰ اسے توفیق عطا فرما دیتا ہے۔*

📚ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بعض انصاری صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دیا انہوں نے پھر سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دیا۔ انہوں نے پھر سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دیا، یہاں تک کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا ختم ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنْ الصَّبْرِ"
"جو کچھ میرے پاس مال ہوتا ہے میں اسے یتیم سے روک کر نہیں رکھتا جو شخص سوال سے بچاؤ طلب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بچا لیتا ہے اور جو غنا طلب کرتا ہے اللہ اسے غنا دے دیتا ہے اور جو صبر کرنے کی کوشش کرتا ہے اللہ اسے صبر کی توفیق دے دیتا ہے۔ کسی شخص کو صبر سے بڑھ کر وسیع اور خیر والی چیز نہیں دی گئی۔"
(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسئلۃ 1469، صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فضل التعفف والصبر (124/1053) ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی الصبر (2024) نسائی، کتاب الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسئلہ (2587) ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی الاستعفاف (1644)

*لہذا ہر مسلم کو اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنے اور بھیک مانگنے سے بچا کر رکھے اور وہ مسلم کامیاب ہے جو اپنے رزق پر قناعت کرے اور کسی سے سوال نہ کرے۔*

📚جیسا کہ عبداللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ الله بما آتاه "
"کامیاب ہو گیا وہ شخص جو اسلام لایا اور حسب ضرورت روزی دیا گیا اور جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا اس پر اسے قناعت کی توفیق بخشی۔"
(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فی الکفاف والقناعۃ (125/154، سنن ابن ماجہ (4138) ترمذی (2348) شرح السنۃ 14/240، مسند احمد 2/168'173، بیہقی 4/196، حلیۃ الاولیاء 6/129)

*لہذا بہترین مسلمان وہ بھی ہے جو حسب ضرورت روزی دیا گیا تو اس نے اس پر ہی قناعت کی اور لوگوں سے بھیک نہیں مانگی، اللہ تعالیٰ ہمیں بھیک مانگنے سے محفوظ فرمائے اور جتنی روزی وہ عطا کرے اس پر قناعت کی توفیق بھی عطا کرے۔ آمین*

اور اگر ماتحت الاسباب سوال کرنے سے کوئی چارہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے سوال کر لیا جائے کیونکہ نیک لوگ جو صدقہ و خیرات سے کام لیتے ہیں وہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے فقراء و مساکین کا تعاون کرتے ہیں اور سائل کو محروم نہیں کرتے۔ عام دنیا دار لوگ اگر ایک آدھ بار تعاون کر بھی دیں تو وہ لوگ انسان کی عزت نفس اور خودداری کو مجروح بھی کر دیتے ہیں جب کہ خوف خدا رکھنے والے لوگ انسان کی محتاجی اور فقر سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتے حتی کہ کسی موقع پر کئے ہوئے اپنے تعاون کو جتلانے تک نہیں۔ اس سے انسان کی حرمت و عزت بھی محفوظ رہتی ہے جس طرح انصار صحابہ (رضی اللہ عنھم) نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ (واللہ اعلم)

ــــــ&ــــــــــ

2 *الحاف*

سورۃ البقرہ کی آیت کریمہ میں مسکین کی دوسری صفت "الحاف" بیان ہوئی ہے یعنی وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ بعض مفسرین نے الحاف کے معنی کیے ہیں، بالکل سوال نہ کرنا کیونکہ ان کی پہلی صفت "عفت" بیان کی گئی ہے۔ (فتح القدیر) اور بعض نے کہا ہے کہ وہ سوال میں الحاح و زاری نہیں کرتے اور جس چیز کی انہیں ضرورت نہیں ہے اسے لوگوں سے طلب نہیں کرتے اس لیے کہ الحاف یہ ہے کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود (بطور پیشہ) لوگوں سے مانگے (تفسیر احسن البیان ص 154)

📚نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
" لَيْسَ الْمِسْكِينُ بِهَذَا الطَّوَّافِ الَّذِي يَطُوفُ عَلَى النَّاسِ فَتَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ، وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ. قَالُوا: فَمَا الْمِسْكِينُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟. قَالَ: الَّذِي لَا يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ، وَلَا يُفْطَنُ لَهُ فَيُتَصَدَّقَ عَلَيْهِ، وَلَا يَسْأَلُ النَّاسَ شَيْئًا "
"مسکین وہ نہیں ہے جو ایک ایک دو دو لقمے یا ایک ایک دو دو کھجور کے لئے لوگوں کے در پر جا کر سوال کرتا ہے۔ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر مسکین کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "مسکین وہ ہے جو حسبِ ضرورت مال نہیں پاتا اور اس کا ادراک نہیں کیا جاتا کہ اس پر صدقہ کیا جائے اور نہ ہی وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے۔"
(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب المسکین الذی لا یجد غنی ولا یفطن لہ فیتصدق علیہ (11/1039) واللفظ لہ صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب قول اللہ عزوجل (لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا) (1476)

📚صحیح مسلم میں مذکورہ باب کے تحت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے اس طرح بھی روایت مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" ليس المسكينُ الّذي تردُّه التّمرةُ، والتّمرتانِ، ولا اللُّقمةُ، ولا اللُّقمتانِ، إنّما المسكينُ الذي يَتَعفّفُ، واقرؤُوا إنْ شِئتُم (لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا)."
"مسکین وہ نہیں جو ایک ایک دو دو کھجور یا ایک ایک دو دو لقمے کے لیے در در پھرتا ہے مسکین تو وہ ہے جو سوال کرنے سے بچتا ہے اگر تم چاہو تو یہ آیت کریمہ پڑھو (کہ وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے)"۔
نیز دیکھیں صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب  لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا (4539)

*الحاف کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند ایک احادیث صحیحہ ملاحظہ ہوں۔*

📚معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لا تلحفوا في المسألة , فوالله لا يسألني أحد منكم شيئا , فتخرج له مسألته مني شيئا وأنا له كاره , فيبارك له فيما أعطيته ""
"گڑگڑا کر اور چمٹ کر سوال نہ کرو، اللہ کی قسم! تم میں سے جو کوئی مجھ سے کوئی چیز مانگتا ہے اور اس کا سوال مجھ سے کوئی چیز نکلوا لیتا ہے اور میں اسے ناپسند کر رہا ہوتا ہوں تو جو میں اس کو دیتا ہوں اللہ اس میں برکت نہ دے گا۔"
(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب النھی عن المسئلۃ (99/1038) نسائی، کتاب الزکاۃ، باب الالھاف فی المسئلۃ (2595) مسند احمد 4/98، بیہقی 4/196، مستدرک حالم 2/62، طبرانی کبیر 19/348، حلیۃ الاولیاء 4/81)

*اس حدیث سے معلوم ہوا کہ الحاف یعنی کسی کے سامنے الحاح و زاری کر کے اور چمٹ کر سوال کرنا منع ہے جس شخص کے پاس چالیس درہم ہوں پھر وہ لوگوں سے گریہ و زاری کر کے سوال کرے تو وہ ملحف ہے۔*

📚ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
"سرحتني أمي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأتيته وقعدت فاستقبلني وقال: من استغنى أغناه الله عز وجل ومن استعفَّ أعفَّه الله عزَّ وجلَّ، ومن استكفى كفاه الله عزَّ وجلَّ، ومن سأل وله قيمة أوقية، فقد ألحف. فقلت: ناقتي الياقوتة خير من أوقية فرجعت ولم أسأله"
"میری ماں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بیٹھ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف منہ کر کے بیٹھ گئے اور فرمایا "جو شخص لوگوں سے بے پرواہی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بے پرواہ کر دے گا اور جو شخص سوال سے بچے گا اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو تھوڑے پر کفایت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے کفایت دے گا اور جو شخص سوال کرے گا اور اس کے پاس ایک اوقیہ (چالیس درہم) کے برابر مال ہو گا تو اس نے الحاف کیا۔ میں نے دل میں کہا میری یاقوتہ اونٹنی ایک اوقیہ سے بہتر ہے میں واپس پلٹ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہ کیا۔"
(نسائی، کتاب الزکاۃ، باب من الملحف (2597) ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب من یعطی من الصدقۃ و ھد الغنی (1628) صحیح ابن خزیمہ (2447) صحیح ابن حبان (846 موارد) مسند احمد 3/7، بیہقی 7/24)
حسن صحیح

📚عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" من سال وله اربعون درهماً، فهو الملحف "
"جس شخص نے سوال کیا اور اس کے پاس چالیس درھم ہوں تو وہ ملحف ہے یعنی لوگوں سے چمٹ کر سوال کرنے والا ہے۔"
(نسائی، کتاب الزکاۃ، باب من الملحف (2596) بیہقی 7/24) حسن صحیح

📚بنو اسد میں سے ایک آدمی نے کہا میں اور میرے گھر والے بقیع الغرقد (مدینہ کے قبرستان کا نام) میں اترے تو میری اہلیہ نے مجھے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کھانے کے لیے کسی چیز کا سوال کر۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو میں نے پایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کہہ رہے تھے میرے پاس کچھ نہیں ہے جو تجھے دوں۔ وہ ناراض ہو کر پیٹھ پھیر کو چلا اور کہنے لگا قسم ہے مجھے عمر دینے والے کی! تم اسی کو دیتے ہو جس کو چاہتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ شخص مجھ پر غصے ہوتا ہے اس بات پر کہ میرے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
" من سال منكم وله اوقية او عذلها فقال سال إلحافا " جس آدمی نے تم میں سے سوال کیا اور اس کے پاس ایک اوقیہ (40 درھم) یا اس کے برابر مال ہوا تو اس نے چمٹ کر (ناحق) سوال کیا۔ اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے دل میں کہا: میرے پاس تو ایک اونٹنی چالیس درھم سے بہتر ہے میں واپس پلٹ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہ کیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جَو اور خشک انگور آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھی اس میں سے ایک حصہ دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غنی کر دیا۔
"(نسائی، کتاب الزکاۃ، باب اذا لم یکن عندہ دراھم وکان لہ عدلھا (2598)
ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب من یعطی الصدقۃ و حد الغنی (1627) مسند احمد 4/36، 5/430 بیہقی 7/24، المؤطا للمالک، کتاب الصدقۃ، باب ما جاء فی التعفف من المسئلہ)
صحیح

*مذکورہ بالا احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ مسکین اور فقیر وہ ہے جس کے پاس حسب ضرورت اخراجات نہیں ہیں اور وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال بھی نہیں کرتا اور ناواقف و نادان اس کے چہرے کی چمک دیکھ کر اسے مالدار تصور کر لیتا ہے اور عام طور پر معلوم بھی نہیں ہوتا کہ یہ آدمی صدقہ و خیرات کے لائق ہے اور جس شخص کے پاس 40 درھم یا اس کی مقدار مالیت ہو تو وہ اس کی ضرورت کو کفایت کر جاتا ہے اور وہ ملحف یعنی (چمٹ کر سوال کرنے والا) نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال پر قناعت کر لیتا ہے۔*

*عصر حاضر میں لاری اڈوں، بازاروں اور گلی کوچوں میں گھومنے والے بھکاری اور گداگر پیشہ ور لوگ ہیں اور ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو محنت مزدوری کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے بدن میں اتنی سکت اور ہمت تکھی ہے کہ اگر وہ اسے کام میں لائیں تو سوال کرنے سے بچ سکتے ہیں لیکن یہ لوگ حصول مال کے لیے محنت و مزدوری سے جی چرا کے آسان راستہ اختیار کرتے ہیں اور حرام و حلال کی تمیز کے بغیر ہر طریقے سے مال اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں اور بہت سارے ایسے لوگ ہیں جن کا پورا کنبہ ہی در در کا بھکاری اور سوالی بنا ہوا ہے۔*

*نوجوان عورتیں اپنے بچوں کو اٹھائے لائے لاری اڈوں کی خاک چھان رہی ہیں۔ شریعت اسلامیہ کی رو سے یہ لوگ صدقات و عطیات کے مستحق معلوم نہیں ہوتے۔ مال و زر والے افراد اور احسان و نیکی کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ صاحب حاجات اور صدقات و خیرات کے مستحق افراد کو پہچان کر ان پر اپنے اموال صرف کریں اور یقینا حاجت مند مسلم افراد اللہ کے دین کے حامل ہوں گے اور نماز، روزہ وغیرہ جیسی عبادات سر انجام دیتے ہوں گے کیونکہ وہ تو ذلت و خواری سے بچنے کے لیے کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی خودداری اور عزت نفس انہیں اس بات کی اجازت دیتی ہے جب کہ پیشہ ور بھکاریوں میں تو بہت سارے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو کہ مسکر اور نشہ آور اشیاء خرید کر استعمال کرتے ہیں۔*

*جانتے بوجھتے ایسے لوگوں سے تعاون تو گناہ پر تعاون ہے جو کہ شرعا حرام ہے۔*

📒امام نووی نے شرح صحیح مسلم 7/113 میں فرمایا ہے کہ:
"واختلف أصحابنا في مسألة القادر على الكسب على وجهين: أصحهما أنها حرام لظاهر الأحاديث، والثاني حلال مع الكراهة بثلاثة شروط أن لا يذل نفسه ولا يلح في السؤال ولا يؤذي المسؤول فإن فقد واحد من هذه الشروط فهى حرام بالاتفاق"
"جو شخص کمائی پر قادر ہے اس کے سوال کرنے کے متعلق دو وجھوں سے ہمارے اصحاب نے اختلاف کیا ہے ان سے صحیح ترین بات یہ ہے کہ اس کے لیے سوال کرنا حرام ہے ظاہر احادیث کی وجہ سے، دوسری بات یہ ہے کہ کراہت کے باوجود تین شرطوں کے ساتھ حلال ہے: (1) وہ اپنے آپ کو ذلیل نہ کرے۔
(2) اور نہ ہی سوال کرنے میں گریہ و زاری سے کام لے
(3) اور نہ ہی جس سے سوال کرتا ہے اسے تنگ کرے۔
اگر تین شرطوں میں سے ایک بھی مفقود ہو گئی تو سوال کرنا بالاتفاق حرام ہے۔

*ایک مشہور حدیث کہ اللہ کے نام کا واسطہ دے تو دینا چاہیے*

📚 ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  جو اللہ کے نام پر پناہ مانگے اسے پناہ دو، جو اللہ کے نام پر سوال کرے اسے دو، جو تمہیں دعوت دے اسے قبول کرو، اور جو تمہارے ساتھ بھلائی کرے تم اس کا بدلہ دو، اگر تم بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ پاؤ تو اس کے حق میں اس وقت تک دعا کرتے رہو جب تک کہ تم یہ نہ سمجھ لو کہ تم اسے بدلہ دے چکے ۔ 
( سنن ابو داؤد -1672)
تخریج دارالدعوہ:
( سنن النسائی/الزکاة ٧٢ (٢٥٦٨)،
( تحفة الأشراف: ٧٣٩١)،
وقد أخرجہ: مسند احمد (٢/٦٨، ٩٥، ٩٩، ١٧٢)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ نسائي (2568) والحديث الآتي (5109)¤ الأعمش مدلس وعنعن¤

*اکثر لوگ اس حدیث کیوجہ سے کہتے ہیں کہ جی اللہ کا واسطہ دیا ہے تو اسکو لازمی دینا چاہیے ، بھلے نشہ کرے یا ٹیکہ لگائے یا سگریٹ پئیے یا حقدار نہیں ہے تو بھی دینا چاہیے*

*جب کہ یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ قرآن و حدیث میں یہ بات صاف لکھی ہے کہ ایسے چمٹنا اور پیشہ ورانہ مانگنا جائز نہیں ہے، ہاں جو حقیقی حقدار ہو اور پھر اللہ کے نام کا واسطہ دے کر جو مانگے  اسکو لازمی دینا چاہیے کچھ نا کچھ۔۔ یا جسکے بارے آپ نہیں جانتے اور پہلی دفعہ دیکھا اور اسکی حالت سے کچھ ظاہر نہیں ہو رہا کہ وہ حقدار یا نہیں تو اسکی مدد کر دینی چاہیے، لیکن ساتھ سمجھانا بھی چاہیے کہ یہ صدقہ خیرات  فقیروں کا حق ہے، آپ تندرست صحت مند ہیں تو کام کریں، اور اپنا کمائیں*
*اور پھر عصر حاضر کے بھکاری تو در در کی ذلت و رسوائی بھی اٹھاتے ہیں اور مانگتے وقت انتہاء درجے کی گریہ و زاری کرتے ہیں اور لوگوں کو تنگ بھی کرتے ہیں، انہیں اگر کہا جائے بھائی معاف کرو تو پھر بھی جان نہیں چھوڑتے لہذا ان کا سوال کرنا تو کسی صورت بھی صحیح نہیں، اور یہ پیشہ ور حضرات بھلے اللہ کا واسطہ دیں تو بھی انکو دینا ٹھیک نہیں ، اس لیے ہمیں چاہیے کہ جو صحیح شرعی لحاظ سے فقیر اور مسکین ہو اس کی معاونت کریں تاکہ اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو اور پیشہ ور گداگروں کی حوصلہ شکنی ہو۔*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))))

*ماخوز از *
آپ کے مسائل اور ان کا حل
جلد3۔کتاب الزکوٰۃ-صفحہ257
محدث فتویٰ

          ـــــــــــــــــــــــ&&ـــــــــــــــــــــ

ملتے جلتے سوالات ۔۔۔۔۔!

سوال_کیا قبروں،مزاروں،درباروں پر اللہ کے نام پر یا غیراللہ کے نام پر کوئی چیز صدقہ خیرات کرنا جائز ہے؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر -20)

سوال-كيا غير مسلم ضرورت مندوں کو صدقہ، زکوٰۃ وغیرہ دينا جائز ہے؟ قرآن و سنت سے وضاحت کریں!
(دیکھیں سلسلہ نمبر -319)

      --------------------&-------

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Muslim ladkiyo ka Gair Muslim Ladko ke sath bhag kar Shadi karne ka riwaaz. Hindu Ladke Muslim ladkiyo ko kaise Bhaga kar Shadi kar rahe hai?

Muslim ladkiyo ko Bhagakar Shadi karne ki muhim shuru ki gayi hai jisse Musalmano ke gharo ko barbad kiya ja sake.

Muslim ladkiyo ko Gair Muslim ladko ke sath bhagne ya shadi karne se rokne ke tarike.

मुस्लिम लड़कियो को भगा कर शादी का झासा देकर उससे गलत काम कैसे करवाया जाता है? 

⚙ فتنہ ارتداد پر قابو پانے کے لیے مندرجہ ذیل طریقے اپنائے جائیں۔۔!

ایمان والے جب اپنے ایمان و عمل میں کمزور ہوجاتے ہیں تو انہیں باطل قوتیں مختلف طریقوں سے دین سے پھیرنے کی کوشش کرتی ہیں، یہ کوششیں مختلف طرح کی ہوتی ہیں جیسے بداعتقادی کے ذریعہ ارتداد، اور فکری ارتداد یا مذہب کی تبدیلی۔

(١) کبھی تو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر بد اعتقادی کے فتنے پیدا کئے جاتے ہیں، جیسے مرزا غلام احمد قادیانی کے مانے والے ختم نبوت کا انکار کرکے دین اسلام کی بنیاد کو منہدم کرتے ہیں اور مسلمانوں کو مالی تحریص (لالچ) کے ذریعہ قادیانی بناکر مرتد کرتے ہیں، یا جیسے موجودہ دور میں شکیل بن حنیف نے ہندوستان میں اپنے آپ کو مسیح موعود، یا مہدی موعود بناکر پیش کیا ہے اور وہ دین کے لبادہ میں مسلم نوجوانوں کو گمراہ کر کے مرید بناتا ہے۔

(۲) اسی طرح فکری ارتداد جیسے کمیونزم ، نیچریت ، یا انکار حدیث ، یا انکار رسالت وغیرہ۔

(۳) اور کبھی براہ راست دین اسلام سے ہٹاکر ایمان والوں کو ہندو، عیسائی وغیرہ بناکر مرتد کرتے ہیں۔

یہ فتنے ہر زمانہ میں ہوتے رہتے ہیں مگر اس وقت کئی طبقے متاثر ہیں، جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ دین کی تعلیمات سے ناواقف ہے، یا غربت و افلاس میں مبتلا طبقہ جو کئی نسلوں سے دینی تعلیم سے محروم ہے، جیسے جھگی جھونپڑی میں رہنے والے، یا مختلف کمزور برادریوں کے افراد، مرد وخواتین، اسی طرح وہ بچے جو شرک و بت پرستی کے ماحول میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور دینی تعلیم سے محروم ہیں، اسی طرح مسلمان نوجوانوں خاص طور پر مسلم لڑکیوں کو ہندؤ تنظیموں سے وابستہ افراد ورغلا کر ہندو لڑکوں سے شادی کراکر مرتد کر رہے ہیں غور کرنے پر اس کے مندرجہ ذیل وجوہ و اسباب سامنے آتے ہیں، جیسے:

»  ملک کی فرقہ پرست تنظیموں بالخصوص آر ایس ایس کی طرف سے منظم سازش کے ذریعہ غیرمسلم لڑکوں کا مسلم لڑکیوں سے رابطہ کرانے کی تحریک چلانا اور ترغیب دے کر ان سے شادی کرلینا۔

»  مسلم لڑکیوں کا دین وشریعت سے نا واقفیت کی بنیاد پر ارتداد کی راہ اختیار کر لینا

» مسلم لڑکے اور ان کے والدین کی طرف سے تلک و جہیز کا مطالبہ کرنا اور مسلم لڑکیوں کے سرپرستوں کا اپنی غربت کی وجہ سے بے دست و پا ہونا۔

»  مسلم لڑکیوں اور لڑکوں کا تاخیر سے شادی ہونا۔
»  ہاسٹلوں میں لڑکیوں کا آزادانہ طریقے پر زندگی گزارنا۔

»  اسکول، کالج اور کو چنگ سنٹر میں مخلوط تعلیم کی وجہ سےلڑکے اور لڑکیوں کے درمیان راه ور سم کا بڑھ جانا۔
»  والدین کا اولاد کی دینی تعلیم و تربیت سے بے تو جہی برتنا۔
»  لڑکے اور لڑکیوں کا موبائل،ٹی وی اور انٹرنیٹ پر عریاں تصاویر کو دیکھنا۔

»  سماجی طور پر بے حیائی اور عریانیت کا پھیلاؤ اور لڑ کے ولڑکیوں کا غیر شرعی لباس پہننا۔

موجودہ ملکی قانون سے سہارا پا کر ارتداد کی راہ اختیار کرنا،یا باہمی رضامندی سے نا جائز رشتوں کو اختیار کرنا۔
»  مسلم مردوں کا ایک لمبے عرصہ تک ملازمت کے لیے گھر اور وطن سے دور رہنا اور ان کی بیویوں کا شہروں، یا قصبوں میں علاحدہ مکان لے کر رہنا۔

»  مسلم لڑکیوں کا مردوں کے ساتھ مخلوط جگہوں پر ملازمت اور نوکری کرنا ۔

اس فتنہ پر قابو پانے کے لیے مندرجہ ذیل طریقے اپنائے جائیں:

(الف) غیر مسلم لڑکوں کا مسلم لڑکیوں سے رابطہ ختم ، یا کم کرنے کی کوشش۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کی جائیں:-

(۱) گاؤں اور محلہ کے مسلم و غیر مسلم دانشور حضرات مل بیٹھ کر سماجی طور پر دباؤ بنائیں کہ اس طرح کے عمل سے سماج تناؤ کا شکار ہوتا ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ختم ہوتی ہے۔

(۲) ہر پندرہ دن پر خواتین بالخصوص اسکول اور کالج میں پڑھنے والی لڑکیوں کا دینی اجتماع کسی محفوظ مقام پر کیا جائے اور اس میں پردہ و حیا کے شرعی احکام، ایمان و عمل صالح اور دین کی باتیں بتائی جائیں۔

(۳) آر ایس ایس کی ترغیبی مہم کے فتنہ سے عام لوگوں کو واقف کرایا جائے اور اس سے بچنے کی ترغیب دیجائے۔

(۴) اور خواص کو بھی اس تحریک سے جوڑا جائے اور ان سے ان کے اپنے حلقہ اثر میں اس کام کو مہم کے طور پر کرنے کی ضرورت بتلائی جائے۔

(٥) مسلم گھرانے کے اندرونی حالات کی اصلاح پر توجہ دی جائے۔

(٦) ان کاموں کے لئے محلہ کی سطح پر نگراں کمیٹی بنائی جائے، جو گاؤں اور محلہ میں غیر مسلم لڑکوں کی آمد و رفت، تعلقات وغیرہ پر نگاہ رکھیں۔

(٧) غیر مسلم لڑکوں کی کوچنگ سے جہاں مخلوط تعلیم ہوتی ہو حتیٰ المقدور بچنے کی کوشش کی جائے۔

(ب) دین و شریعت سے نا واقفیت دور کرنے کے لیے مندرجہ ذیل طریقہ اختیار کئے جائیں۔

(١) بچیوں کی ابتدائی دینی تعلیم و تربیت کو فوقیت دی جائے۔

نیز گھر میں اسلامی ماحول کو بنانے کے لئے نماز کا قیام روزانہ تلاوت کلام پاک کا معمول اور ۱۰ ، ۱۵ منٹ کوئی دینی کتاب پڑھی جائے۔

(٢) اسکول و کالج میں ماہانہ دینی و تربیتی پروگرام کا نظام بنایا جائے اور تمام اقلیتی اسکول کے نصاب تعلیم میں دینیات کو بھی داخل درس کرانے کی کوشش کی جائے۔

علماء مدارس ذمہ داران اور ائمہ کرام کے نام خطوط ارسال کئے جائیں اور انہیں اس پر متوجہ کیا جائے، تاکہ عوام و خواص کو بچے بچیوں کی دینی تعلیم دینے کی ترغیب دینے پر آمادہ کریں-

(٤) اسلام کا تعارف آسان کتابوں کے ذریعہ بھی کیا جائے۔ وہ اگر اردو پڑھنا نہیں جانتی ہیں تو ہندی زبان کی مفید کتابیں انہیں فراہم کی جائیں۔

(٥) سیرت نبی صل اللہ علیہ وسلم کو عام کرنے کے لیے ماہ ربیع الاول یا دیگر مہینوں میں مرد و خواتین کے الگ الگ سیرت کے جلسے منعقد کئے جائیں۔

(ج) تلک و جہیز کو روکنے کے لے مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کرنی چاہئے۔

(١) تلک وجہیز کی قباحت پر ائمہ کرام جمعہ کے خطبات میں تقریر کریں اور سال میں کم سے کم تین چار مرتبہ اس کو موضوع سخن بنائیں اور قوم کو سمجھائیں کہ تلک و جہیز کی رسم حرام ہے، اس سے بچنے میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

(٢) بلاک کی سطح سے کام کو شروع کیا جائے اور پہلے مرحلہ میں کسی ایک بلاک کو مثالی بنا کر شادی وںیاہ میں ہونے والے بے جا رسومات، فضول خرچی، ریا و نمائش وغیرہ سے پر ہیز کرنے کی تلقین کی جائے۔

(٣) نکاح کی مجلس مسجد میں منعقد کرنے کی تحریک چلائی جائے، اس کے لیے لوگوں کا مزاج بنایا جائے ۔

(٤) بارات کی رسم کو بھی ختم کیا جائے۔
(٥) لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دینے کا شرعی طریقہ بتلایا جائے  اور نص قطعی سے اس کو مستدل کیا جائے۔

(ه)  تاخیر سے شادی نہ کی جائے۔
(١)  شرعی اعتبار سے جب لڑکے و لڑکیاں جوان ہو جائیں تو مناسب رشتہ تلاش کر کے ان کی شادی کردی جائے ، اس میں بےجا تاخیر نہ کی جائے اور اس کے لئے  لوگوں میں بیداری مہم چلائی جائے۔

(د) مخلوط تعلیم کے نقصانات سے بچا جائے۔
مسلم اسکولوں کے ذمہ داروں سے گزارش کی جائے کہ چوتھے کلاس سے بچوں کے سیکشن علاحدہ کر دیں۔
(کمپوزر حافظ آفاق عادل)

Share:

Nawjawano (young) ka waqt par Shadi nahi hone se Muashare me failti Buraiya iske zimmedar kaun?

Aaj ke Nawjawano me Jinsi hajit itni kyu badh gayi hai?
🍁 جنسی حاجت اور نوجوان !

انسان کے بالغ ہونے سے بھی بہت پہلے جنسی جبلت اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔

کچھ خوراک اور ماحول بھی قبل از وقت بلوغت میں کرادر ادا کرتے ہیں۔

جنسی جبلت کی تسکین کا صحیح اور محفوظ راستہ جسے نکاح کہا جاتا ہے۔ وہ اتنا طویل اور مشکلات بھرا کر دیا گیا ہے کہ محض ایک جذبہ کی تسکین کے لئے اتنا لمبا انتظار دل پر بوجھ بن جاتا ہے۔ مالی خود مختاری،  بہت سی رسومات، دکھاوا، شور شرابا اور لڑکی یا لڑکے والوں کی طرف سے نخروں نے نوجوان کے نکاح کو ایک ڈراونا خواب بنائے ہوئے ہیں۔

اب دین کا علم عمومی طور پر عوام میں نہایت سطحی ہے اور عمل اس سے بھی کم ہے۔

تصویر، گندی فلم اور پھر تصورات تک رسائی۔۔ ۔۔۔

بڑوں کی نگرانی یا راھنمائی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ والدین کو پتہ ہے نہ پروا کہ اولاد کیا کر رہی ہے۔

اس سب میں ناپختہ ذھن بعض جگہ پر بے حوصلہ ہو جاتے ہیں کئی جگہ بے رحم اور پھر کردار بھی خراب کر لیتے ہیں۔ بس موقع اور ماحول یہ طے کرتے ہیں کہ کون کتنا خراب ہو گا۔
اس دور کی نوجوان نسل میں پانی کم ہے لیکن آگ بہت زیادہ ہیں جس کی وجہ ہماری خوراک اور فلم انڈسٹری ہے۔
تو لازمی بات ہے فساد اور بگاڑ یقینی امر ہے اور ناگزیر بھی.. بگاڑ ایک نیم شعوری تسلسل  سے پیدا ہوتا ہے جبکہ سدھار ہمیشہ ایک شعوری کوشش کا نتیجہ۔

ملکی اور معاشرتی انحطاط اور انتشار نے نوجوانوں کی زندگی پر گہرے اثرات ثبت کیے ہیں۔ 

ہمارے ملک میں نوجوان خود رو جھاڑیوں کی طرح ہیں جنکی کوئی کانٹ چھانٹ دیکھ بھال نہیں کرتا۔ یہ پیدا بھی بغیر منصوبہ بندی اور مقصدیت کے ہوتے ہیں ۔

ہماری بقا اسی میں ہے کہ ہم لوگ وضاحت کیساتھ آرزو کریں۔
الله تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ نے جو جنسی جبلت کی تسکین کا صحیح اور محفوظ راستہ دیا ہے جسے نکاح کہا جاتا ہے۔ ہمیں اسے آسان کرنا ہوگا فضول کی رسومات ختم کرنی ہونگیں ماں ماب اپنے پرائم ٹائم کو یاد کریں اور اپنے بچوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔

رب تعالیٰ لکھنے اور پڑھنے والوں کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
منقول

Share:

Palestin ki Auratein Duniya ki Sabse Azim khawateen hai.

Filistin ki khawateen : Duniya ki Azim Khawateen.

Jab Zermany world war ii me hara tha to waha ki Auratein kabiz fauj ko khush karne me lagi thi.


فلسطینی خواتین - دنیا کی عظیم خواتین ۔

(قطری اخبار 'الراية' میں ایک قطری مصنف کا مضمون)

فلسطینی خواتین وہ عظیم مرتبے کی حامل خواتین ہیں جن کا مقام دنیا کے مرد حضرات بھی اکثر حاصل نہیں کر پاتے۔
حالیہ جنگ کے دوران انہوں نے جو قربانیاں دی ہیں اور جس عزم و حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے، وہ غیر معمولی ہے اور اس کی مثال دنیا کی دوسری قوموں میں نہیں ملتی۔

فلسطینی خواتین کے عزم کے سامنے مردوں کو بھی شرم سے سر جھکا لینا چاہئے اور چاند کو بھی چاہیے کہ کہیں دور جا کر چھپ جائے۔ میں پورے ادب اور احترام کے ساتھ ہر فلسطینی خاتون کی خدمت میں سلام پیش کرتا ہوں، چاہے وہ غریب ہو، یتیم ہو، بیوہ ہو، کسی شہید کی ماں ہو، زخمی یا قیدی ہو۔

جب سوویت یونین ٹوٹا تھا تو ملک کے سارے نائٹ کلب روسی خواتین اور لڑکیوں سے بھر گئے تھے جو وہاں اس غرض سے جمع کی گئی تھیں کہ اپنے ہی ملک کے مارے جانے والے لوگوں کی لاشوں پر ناچ کر دشمن فوج کا دل بہلائیں۔ جب جرمنی ہارا تھا تو بیشمار جرمن خواتین قابض فوج کی گود میں جا گری تھیں۔ فرانس کی آزادی کے بعد ملک کے ہر گلی کوچے میں درجنوں فرانسیسی خواتین کے بال کاٹے گئے تھے کیونکہ وہ نازیوں کے ساتھ تعاون کر رہی تھیں۔ زیادہ تر مقبوضہ ممالک میں شراب خانے بھر گئے اور مقامی خواتین قابض فوجیوں کو خوش کر رہی تھیں۔

مگر ائے فلسطین کی پاکیزہ خواتین! تم نے خود کو صرف پاکیزگی اور عزت کی ماں کے طور پر پیش کیا!!

ائے زیتون کی شاخ، ائے عظمت کا درخت، ائے عزت و عفت کا سرچشمہ، تمہیں مشکلات نے دبایا اور ہتھوڑوں نے مارا، مگر تم نہ دبیں اور نہ ٹوٹیں۔ ائے میری ماں، میری بیٹی، میری بہن! اپنے اس بھائی کو اجازت دو کہ وہ تمہیں یاد کرے، کیونکہ بہت سارے لوگ تمہیں بھول چکے ہیں۔

ائے صابر، ائے پاکباز، ائے محلات میں رہنے والیوں سے زیادہ امیر خواتین، وہ مٹی اور گرد و غبار جو تمہارے چہروں کو چھو لے، وہ میری نظر میں چاند کے چہرے کو چومنے والے بادلوں سے زیادہ خوبصورت اور شاندار ہے۔ تمہاری پھٹی ہوئی چادریں، میں نہیں جانتا کہ انہیں کس نے پھاڑا! کیا دشمن کی گولیاں تمہاری پیٹھ پر لگی تھیں یا پھر لوگوں کی حاسد نظریں تھیں جو تمہاری پاکیزگی کو تار تار کر رہی تھیں؟

ائے شریف زادیو! تم بھوکی تھیں، مگر تم نے کفایت سے کام لیا، تم ننگی تھیں مگر تم نے عفت کا لباس پہنا۔ تم عظیم ہو، خواتین میں سب سے اعلیٰ ہو، چاہے تم اپنے گھروں کی چھتوں پر اپنے وطن کی نگرانی کر رہی ہو یا ملبے کے نیچے دبی ہوئی اپنے روتے بچوں کو سنبھال رہی ہو۔ جنت کا راستہ تمہارے قدموں کے نیچے ہے اور قدس کی چابی تمہارے ہاتھوں میں ہے، ائے عزت دار خواتین! اللہ تمہیں ہمیشہ خوش رکھے، اور تمہارے اوقات کو خوشگوار بنائے۔

Share:

Social Media par Khawateen Apne Pairo, zoote, Ring, Mehandi wale Hatho ki Tasweer kyu upload kar rahi hai?

Social Media par Be Pardagi failane me Aalimat ki tadad jyada hai?
Aeisi Khawateen jo Social Media par apne Hatho, kano, Pairo aur Zoote ki tasweer upload karti hai?.

🥀 عالمات ہوش میں آجائیں ۔

کئ سالوں سے مسلسل مشاہدے میں آ رہا ہے کہ اسٹیٹس پر تصاویر لگانے والی بھاری بھرکم تعداد عالمات کی بھی ہے، طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ چہرے کے آدھے حصہ پر اسٹیکر لگا کر ہاتھوں پر مہندی، انگلیوں میں انگوٹھی، کلائیوں میں چوڑیاں اور کپڑے بھی عمدہ سے عمدہ ترین، کبھی آنکھوں کو مکمل آراستہ کر کے کبھی کچھ نہیں ملا تو اپنا جوتا چپل ہی پہن کر لوگوں کو دکھا دیا اور لوگ دیکھ بھی رہے ہیں۔ اگر ان سے یہ کہا جاۓ کہ آپ  اسٹیٹس پر تصاویر رکھتی ہیں؟

تو جواب ملتا ہے چہرا چھپا ہوتا ہے کبھی کہتی ہیں مرد حضرات کو پرائویسی کر دیتی ہوں کبھی کہتی ہیں صرف سہیلیاں ہی دیکھتی ہیں اللہ بہتر جانے کہ کیا سچ ہے۔
صرف اتنا ہی نہیں حج و عمرہ کے مقدس سفر میں بھی ان کی یہ حرکت بدستور قائم ہے۔

میں نے چند عالمات کو  اس تعلق سے ٹوکا انہوں نے مجھے ہائڈ کردیا مگر لگانے سے باز نہیں رہیں_ 

خود کا تماشا کراکے ملتا کیا ہے اللہ ہی جانے!

  پھر جب عوام خواتین یہی کام کریں تو یہی عالمات اسٹیج پر جاکر لمبی لمبی تقریریں کرتیں ہیں جہنم کے سب سے سخت عذاب سنائیں جاتے ہیں  خدارا ہوش کے ناخن لیں اللہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین یا رب العالمین

منقول

اس تحریر کو جتنا ہو سکے آگے شئر کیجئے آپ سب بہت ہی پر اثر ہیں۔

Share:

Parda karne wali Khawateen Aur Ladkiyaa Social media par Short videos me Dance kar rahi hai.

Aaj Parde me dikhne wali Khawateen Kal Social Media par Nangi Nazar aayegi.
Aeise Ladkiya jo Deen ki dawat bhi deti hai aur Yutube par Short Videos me Raksh bhi karti hai.

🥀 آج پردہ ہے، کل کھل جاۓ گا۔

میری یہ بات شاید بہت سی لڑکیوں کے دل پہ لگ جاۓ، مگر جو دیکھا ہے وہی بول رہا ہوں، تکلیف معاف۔۔!
شوسل میڈیا پر مختلف قسم کے ویڈیوز حجاب و نقاب میں ڈالی جارہی ہیں، جن میں کوئی اداکاری والی ویڈیو ہے تو کوئی دعوتِ دین کو لے کر مفکر ویڈیو نظر آتی ہے، ہمیں اس پر اعتراض نہیں، لیکن اندیشہ ہے۔

کئی ایک ایسی لڑکیوں کا شوسل پلیٹ فارم دیکھا، جس میں ابتداء دعوتِ دین، نغماتِ حسنہ اور حمدِ باریﷻ سے ہوئی، لیکن آج انہیں چینلوں پر ہم شاٹ ویڈیوز کو گانے اور ناچنے کی شکل میں دیکھتے ہیں، کیا یہ ممکن نہیں، کہ جب وہ حیا سے بے حیائی تک آ پہنچی تو وہی علامات قیامت میں سے ایک علامت بن جائیں گی، یوں کہ قیامت کے نزدیک زنا عام ہوجاۓ گا، میرے علم کے مطابق واٹس ایپ پر ایک یا دو چینل ایسے ہیں جن کی آنر عالمہ حافظہ قاریہ ہیں لیکن وہاں خود اونر نقاب میں اپنی تصویریں لے کر ان کے ساتھ کہانیاں یا اقوالِ زریں لگا کر نشر کرتی ہیں، جب کہ ان باحجاب تصاویر میں آنکھوں کی نمائش مقصود ہوتی ہے، کاجل آئی لائنر لگا کر نشیلی نگاہوں کو بانقاب قید کرنا، کیا یہ نمائش نہیں۔؟

جب ان کو سمجھانے کے طور پر کچھ کہا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے، کہ تم کیوں دیکھتے ہو؟

چلیے ہم نہیں دیکھیں گے، لیکن آپ کس کس کو روکیں گی؟
اگر تصویریں نہیں ڈالیں گی تو کیا آپ کے پوسٹ کیے ہوۓ الفاظ کا وزن کم ہوجاۓ گا؟
یہاں تصویریں ڈالنے کا مقصد ہی نمائش ہے، آج صرف آنکھوں کی نمائش کی جارہی ہے، کل شاید نقاب بھی اتر جاۓ۔

ہر پڑھنے والا یہ سوچ رہا ہوگا تا آں کہ میں بھی، کہ ہم ایسے نہیں ہیں، ہم نہیں بدلنے والے، پیارے عزیزو!

جب فین فالوئنگ بڑھتی ہے اور لائکز زیادہ ملنے لگتے ہیں، تو پھر کنٹرول اور حیا برداشت سے نکل جاتی ہے، اس لیے پہلے ہی حد میں رہیں، مشکل نہیں کہ وہ وقت آجاۓ: جب آپ خود کو چاہ کر بھی نہ روک پائیں، چینل چلائیے، فین فالوئنگ بڑھائیے، لیکن نمائش سے جہاں تک ممکن ہو بچنے کی کوشش کیجیے۔!

لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کو کنٹرول کی ضرورت ہے، کیوں کہ لڑکیاں گھاس نہ ڈالیں تو کسی مائی کے لال میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ آپ کی طرف آنکھ بھی اٹھا سکے، خدارا پردے کے ساتھ آنکھوں کی نمائش سے بچیے۔! پردہ براۓ پردہ ہی ہو، برائے ریا نہ ہو۔!

✍🏻 عاقل ابنِ افتخار ؛

Share:

Kya Musalman apna koi Saman Girwi rakh kar Paise le sakta hai? Zamin, Makan ya Sone chandi Girwi rakhna kaisa hai?

Zamin,Zewrat ya koi Saman Girwi  rakhne ke bare me Sharai hukm kya hai?

Sawal: zamin, Zewrat ya Makan wagairah girwi rakhne ke bare me Islam kya kahta hai? Kya Musalman koi Chij girwi rakh kar Paise le sakta hai? Kya Girwi rakhi hui chij istemal karna ya us se fayeda uthana Jayez hai?


"سلسلہ سوال و جواب نمبر -386"

سوال- زمین/ زیورات یا مکان وغیرہ گروی رکھنے کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟ کیا ہم کوئی چیز گروی رکھوا کر پیسے لے سکتے ہیں؟نیز کیا گروی رکھی ہوئی چیز استمعال کرنا یا اس سے فائیدہ اٹھانا جائز ہے؟

Published Date: 25-8-2024

جواب...!
الحمدللہ..!!

*کسی سے کوئی چیز خریدنے یا قرضہ لینے پر بطور ضمانت کوئی چیز  رکھوانے کو گروی یا رہن کہا جاتا ہے۔ جو گروی رکھتا ہے اسے راہن کہتے ہیں اور جس کے پاس گروی رکھیں اسے مرتہن کہتے ہیں، لہٰذا راہن کوئی چیز سونا یا جانور یا مکان  وغیرہ مرتہن کے پاس امانت رکھواتا ہے کہ مجھے اتنے پیسے قرض دے دو جب قرض ادا کر دوں گا تو میری چیز مجھے واپس مل جائے گی۔ جائز مقصد کےلیے کوئی چیز گروی رکھنے میں کوئی خرابی یا قباحت نہیں لیکن گروی رکھی ہوئی چیز سے مرتہن کا  فائدہ اٹھانا ناجائز اور حرام ہے، کیونکہ قرضے یا ادھار قیمت کے عوض کوئی بھی فائدہ اٹھانا سود ہے۔*

جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے!
کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان
باب: باب: عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے فضائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3814
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَا تَجِيءُ فَأُطْعِمَكَ سَوِيقًا وَتَمْرًا وَتَدْخُلَ فِي بَيْتٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكَ بِأَرْضٍ الرِّبَا بِهَا فَاشٍ إِذَا كَانَ لَكَ عَلَى رَجُلٍ حَقٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَأَهْدَى إِلَيْكَ حِمْلَ تِبْنٍ أَوْ حِمْلَ شَعِيرٍ أَوْ حِمْلَ قَتٍّ فَلَا تَأْخُذْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ رِبًا،‏‏‏‏ وَلَمْ يَذْكُرِ النَّضْرُ،‏‏‏‏ وَأَبُو دَاوُدَ،‏‏‏‏ وَوَهْبٌ عَنْ شُعْبَةَ الْبَيْت.
ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، ان سے سعید بن ابی بردہ نے اور ان سے ان کے والد نے کہ  میں مدینہ منورہ حاضر ہوا تو میں نے عبداللہ بن سلام ؓ سے ملاقات کی، انہوں نے کہا، آؤ تمہیں میں ستو اور کھجور کھلاؤں گا اور تم ایک  (باعظمت)  مکان میں داخل ہو گے  (کہ رسول  ﷺ  بھی اس میں تشریف لے گئے تھے)
پھر آپ نے فرمایا تمہارا قیام ایک ایسے ملک میں ہے جہاں سودی معاملات بہت عام ہیں اگر تمہارا کسی شخص پر کوئی حق ہو اور پھر وہ تمہیں ایک تنکے یا جَو کے ایک دانے یا ایک گھاس کے برابر بھی ہدیہ دے تو اسے قبول نہ کرنا کیونکہ وہ بھی سود ہے۔

*اس لیے سلف صالحین بدلے میں کوئی چیز نہیں لیتے تھے*

 سالم بن ابی الجعد فرماتے ہیں:
ہمارا ایک پڑوسی مچھلی فروش تھا اس کے ذمے کسی آدمی کے پچاس درہم تھے وہ قرض دینے والے کو مچھلی ہدیہ بھیجتا تھا ابن عباس رضی اللہ عنہ آئے تو اس نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا "جو وہ تجھے تحفے میں دے رہا ہے اسے حساب میں شمار کر۔"
(بیہقی، باب کل قرض جر منفعۃ فھو رباہ 5/350، کتاب التحقیق مع تنقیح 3/8 (1572)

*اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرض لینے والے شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مقروض کی کسی چیز سے فائدہ اٹھائے یا اس سے تحفے قبول کرے، لہذا اگر کسی شخص کے پاس کوئی چیز گروی رکھی گئی ہو تو وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور اگر وہ فائدہ اٹھائے تو اصل رقم سے حساب کر کے اتنی رقم کم کر دی جائے گی اور اگر حق سے زائد فائدہ اٹھایا تو واپس کرنا ہو گا وگرنہ سود ہو گا*

*ہاں گروی رکھی ہوئی چیز پر خرچ کرنا پڑتا ہو تو خرچ کے عوض تھوڑا بہت فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ مثلاً کسی نے حقدار کے پاس بطور ضمانت کوئی جانور وغیرہ گروی رکھا ہو تو اسے گھاس یا چارہ ڈال کر اس پر سواری کی جا سکتی ہے یا اس کا دودھ پیا جا سکتا ہے۔*

جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:

صحیح بخاری
کتاب: رہن کا بیان
باب: باب: گروی جانور پر سواری کرنا اس کا دودھ پینا درست ہے۔
حدیث نمبر: 2512
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الرَّهْنُ يُرْكَبُ بِنَفَقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَبَنُ الدَّرِّ يُشْرَبُ بِنَفَقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى الَّذِي يَرْكَبُ وَيَشْرَبُ النَّفَقَةُ.
ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں زکریا نے خبر دی، انہیں شعبی نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا، گروی جانور پر اس کے خرچ کے بدل سواری کی جائے۔ اسی طرح دودھ والے جانور کا جب وہ گروی ہو تو خرچ کے بدل اس کا دودھ پیا جائے اور جو کوئی سواری کرے یا دودھ پئے وہی اس کا خرچ اٹھائے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اگر کسی کے پاس گروی شدہ بکری ہے تو چارے کی قیمت کے مطابق اس کا دودھ پینے میں کوئی حرج نہیں، قیمت سے زیادہ دودھ حاصل کرنا سود ہے۔‘‘ (فتح الباری، ج5/ص178)

اور سود یقیناً باطل طریقہ ہے مال کھانے کا ،

 اور ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَأكُلوا أَمو‌ٰلَكُم بَينَكُم بِالبـٰطِلِ ...
"اے ایمان والو اپنے مالوں کو آپس میں ناجائز طریقے سے نہ کھاؤ۔" (سورہ نساء -29)

,رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے: (إن دماءَكم وأموالكم حرامٌ عليكم)
"بلاشبہ تمہارے خون اور اموال تم پر حرام ہیں"
(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (1218)

*ان نصوص صریحہ سے معلوم ہوا کہ مسلمان کا مال مسلمان پر اصلا حرام ہے جواز تصرف کے لئے کسی شرعی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے جو یہاں مفقود ہے گروی رکھنے والا شخص اپنی گروی شدہ چیز کا مالک ہے اور اس کا اپنی چیز سے فائدہ اٹھانا تو معقول ہے جب کہ جس کے پاس گروی رکھی گئی ہے اس کی حیثیت امین کی ہے اور اس کے پاس پڑی ہوئی چیز امانت ہے جو کہ رقم کے تحفظ کے لیے ہے کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت اور ناجائز ہے۔*

اور حدیث میں جو خرچ کے عوض جانور کے دودھ اور سواری کرنے کی اجازت موجود ہے اس سے استدلال کرنا درست نہیں کیونکہ یہ حدیث عمومی شرعی اصول کے منافی ہے یہ صرف سواری یا دودھ کے ساتھ خاص ہے۔ اس پر عام قیاس کرنا درست نہیں۔

صحیح بخاری میں امام بخاری کا فہم بھی یہی ہے حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں۔
ایک گروہ نے کہا ہے کہ جس کے پاس گروی رکھی گئی ہے وہ خرچ کے عوض گروی جانور پر سواری کر سکتا ہے اور دودھ دوھ سکتا ہے اس حدیث کی وجہ سے دو فائدوں کے علاوہ فائدہ حاصل نہیں کر سکتا۔
(فتح الباری 5ج/ص144)

اسی طرح مرھونہ زمین ( یعنی گروی رکھی ہوئی زمین) کی صورت میں اگر مرتھن( جو گروی پر زمین لیتا ) وہ زمین آگے ٹھیکے پر دے تو ٹھیکے کی رقم گروی رکھنے والے کے قرضے سے منہا کر دی جائے۔ اگر مرتھن خود کاشت کرے تو پیداوار تقسیم کر کے مالک کے حصہ کے مطابق اس کا قرضہ کم کر دے۔
اسی طرح  اگر کسی نے قرضہ کے بدلے اپنا مکان گروی رکھا ہے اگر قرضدار اس میں رہائش رکھنا چاہتا ہے تو اس کا کرایہ طے کیا جائے اور اس کرائے کی رقم کو قرضے سے کم کرتا رہے، اگر کرایہ کی رقم کو قرض سے منہا نہیں کرتا تو یہ صریح سود ہے۔
ہمارا رجحان یہ ہے کہ ایسی چیز گروی رکھی جائے جس پر خرچ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ جیسے زیورات وغیرہ تاکہ وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ گروی چیز کی حیثیت ایک امانت کی سی ہے، جب ادھار یا قرض چکا دیا جائے تو وہ چیز مالک کو اصل حالت میں واپس کر دی جائے گی۔

*مذکورہ بالا دلائل کی بنا پر ہر وہ مرتھن چیز جس کی دیکھ بھال نہ کرنے سے تلف ہوجانے کا خدشہ ہو اس سے بقدر خرچ اس سے فائدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں۔*
لیکن مکان کی صورت حال کچھ اور نوعیت کی ہے۔ مکان گروی رکھنے والا اسے استعمال نہیں کرسکتا اگر استعمال کرنا چاہے تو اس کا راہن سے کرایہ وغیرہ کا طے کرلے کیونکہ آج کل صورت حال یوں ہےکہ ایک آدمی مکان رہن رکھ کے مرتھن سے کچھ رقم لیتا ہے اور مرتھن اس مکان سے فائدہ اٹھاتا ہے یعنی اس میں سکونت اختیار کرتا ہے جبکہ راہن اس کی رقم استعمال کرتا ہے حالانکہ مکان کو جانور وغیرہ پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جانور کا اگر دودھ وغیرہ نہ دھویا جائے گا اور چارہ وغیرہ نہ ڈالا جائے گا تو اس کے تلف و ضرر کا خدشہ ہے جبکہ مکان میں ایسی کوئی صورت نہیں ہاں اگر وہ راہن سے مکان کا کرایہ طے کرلیتا ہے تو اس میں سکونت اختیار کرسکتا ہے وگرنہ اس کا اس سے فائدہ اٹھانا سود کے زمرے میں آئے گا۔

*ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر راہن گروی رکھی چیز استعمال کرنے کی اجازت دے دے تو کیا پھر بھی یہ ناجائز ہے؟*

جیسا کہ اوپر دلائل سے یہ بات طے ہو چکی کہ مرتہن کا راہن کی چیز کو قرض کے بدلے میں استعمال کرنا ’’ سود ‘‘ میں داخل ہے تو پھر اقرب یہی لگتا ہے کہ یہ ناجائز ہی رہے گا ۔
کیونکہ سودی کار و بار ناجائز ہے چاہے وہ فریق کی مرضی سے ہو یا فریقین کی رضا مندی سے ۔۔ واللہ اعلم
۔اصل میں مسئلہ صرف اجازت دینے نہ دینے کا بھی نہیں ہے ۔

مسئلہ یہ ہے کہ آپ ایک ایسی چیز سے فائدہ اٹھارہے ہیں جس سے شریعت نے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دی ۔

ویسے بھی راہن عموما اس لیے اجازت دے دیتا ہے کیونکہ وہ مرتہن کا مقروض ہوتا ہے ۔ گویا کہ مرتہن راہن کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتا ہے ۔

کیونکہ اگر ان کے درمیان اتنے اچھے تعلقات ہوتے تو ’’ راہن ‘‘ کو اپنی ضرورت کے لیے ’’ قرض ‘‘ لینے کے لیے اپنے استعمال کی چیز مثلا گاڑی یا گھر وغیرہ اس کے پاس نہ رکھوانا پڑتا۔

یہ تو گروی چیز کا معاملہ ہے ، سلف صالحین سے یہ بات منقول ہے کہ اگر انہوں نے کسی کو قرض دیا ہوتا تو وہ اس قدر احتیاط کیا کرتےتھے کہ مقروض کے گھر یا درخت کے سایہ کے نیچے بھی نہیں بیٹھا کرتے تھے کہ کہیں وہ ’’ قرض ‘‘ کے بدلے میں ’’ نفع ‘‘ اٹھانے والوں میں شمار نہ ہوں ۔

مآخذ :
محدث فتویٰ/  محدث فورم
(فتاویٰ ارکان اسلام/ آپکے مسائل اور انکا حل )

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

ملتے جلتے سوالات ۔۔۔۔۔!!

سوال_سود کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ بینک یا سودی لین دین والے کاروبار میں جاب کرنا کیسا ہے؟ دیکھیں سلسلہ نمبر -169

سوال_سود خور خاوند كے ساتھ رہنے كا کیا حكم ہے؟كيا بینک میں ملازمت کرنے والے یا سود پر قرض لينے/دینے والے خاوند كے ساتھ رہنے والى بيوى اور سکے بچے بھى گنہگار شمار ہوں گے؟
دیکھیں سلسلہ نمبر -170

سوال_کسی کافر،مشرک سے تعلقات رکھنا، اسکی دعوت قبول کرنا ،اس سے لین دین کرنا یا قرض لینا کیسا ہے؟ اور ایسے مسلمان رشتے دار جنکی آمدن حرام کی ہو جیسے سود وغیرہ تو کیا انکا دیا ہوا تحفہ یا دعوت قبول کر سکتے ہیں؟
دیکھیے سلسلہ نمبر -104

سوال- اسلام ميں مالی سزاؤں كا كيا حكم ہے ؟ اگر سکول یا گورنمنٹ کی فیس/چالان وغیرہ لیٹ ادا کریں تو اس پر جرمانہ ہوتا ہے، کیا یہ بھی سود ہے؟
دیکھیے سلسلہ نمبر -352

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS