find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Zina karne wale ko Rajam (رجم) karne ke alawa koi aur tarika Jayez nahi.

Zina karne wale ko Qatal karne ke alawa koi aur Saja dena kaisa hai?
Zani ko Rajam ke badale kisi aur tarike se Qatal Jayez nahi.
इसलाम बलात्कारी के बारे में क्या कहता है?
जानी को रजम के बदले किसी और तरीके से क़त्ल करना जायज नहीं।

*زانى كو رجم كے بدلے كسى اور طريقہ سے قتل كرنا جائز نہيں*
الحمد للہ.
واجب تو يہى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت پر عمل كرتے ہوئے مكلف شادى شدہ زانى كو پتھر مار مار كر سنگسار اور رجم كيا جائے حتى كہ وہ مرجائے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قول اور فعل سے ايسا كرنا ثابت ہے.
چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ماعز اسلمى اور جھينى قبيلہ كى عورت اور غامدى قبيلہ كى عورت اور دو يہوديوں كو مدينہ ميں رجم كيا تھا، اس كا ثبوت صحيح احاديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ملتا ہے، اور صحابہ كرام، اور تابعين عظام، اور ان كے بعد اہل علم كا اس پر اجماع ہے، اس ميں كسى نے بھى مخالفت نہيں كى، صرف چند ايك لوگ اس كے مخالف ہيں جن كى مخالفت كا كوئى وزن نہيں.
امام بخارى اور مسلم نے اپنى صحيحين ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے وہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ:" بلا شبہ اللہ سبحانہ وتعالى نے محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو حق دے كر مبعوث فرمايا، اور ان پر كتاب نازل كى، تو اللہ تعالى كے نازل كردہ ميں رجم كى آيت بھى تھى، ہم نے اسے پڑھا، اور اسے سمجھا اور اچھى طرح حفظ و ياد بھى كيا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے رجم و سنگسار كيا، اور ان كے بعد ہم نے بھى رجم كيا، مجھے خدشہ ہے كہ اگر لوگوں پر لمبا وقت گزر گيا تو كوئى كہنے والا يہ نہ كہنے لگے: اللہ كى قسم ہم تو كتاب اللہ ميں رجم كى آيت نہيں پاتے، تو وہ اللہ تعالى كا نازل كردہ فريضہ ترك كرنے كى بنا پر گمراہ ہو جائينگے، اور اللہ تعالى كى كتاب ميں شادى شدہ زانى مرد و عورت كو رجم كرنا حق ہے، جب اس زنا كى گواہى مل جائے، يا پھر حمل ہو يا اعتراف كر ليا جائے .... " الخ

اور اس بنا پر رجم كى سزا كو تلوار يا گولى مار كر قتل كرنا جائز نہيں، كيونكہ رجم كرنے ميں بہت زيادہ عبرت ہے، اور اس طرح زنا جيسے فحش كام جو كہ شرك اور اللہ تعالى كے حرام كردہ كسى نفس و جان كو قتل كے بعد سب سے عظيم گناہ ہے روكا جا سكتا ہے.
اور اس ليے بھى كہ شادى شدہ زانى كو رجم كرنے كى حد توقيفى امور ميں شامل ہوتى ہے، جس ميں اجتھاد اور رائے كى كوئى گنجائش ہى نہيں اور اگر تلوار يا گولى كے ساتھ شادى شدہ زانى كو قتل كرنا جائز ہوتا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايسا ضرور كرتے، اور اپنى امت كے ليے بھى اسے بيان فرماتے، اور ان كے بعد صحابہ كرام بھى ايسا ضرور كرتے.
*ماخذ: ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 22 / 48 )*

Share:

Jannat ki hooron ki Sifaat. जन्नत की हूरों की सीफात

Jannati hooro ki sifaat
Allah ne Duniya Me jin kamon se bachane ko kaha hai, use Bachane wale ke liye Janmat me inaam rakha gaya hai.
जन्नती हूरों की विशेषता

*جنت کی حوروں کی صفات*

الحمد للہ
اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے اور اس کی صفات اور جنتی لوگوں کی صفات کا کئ جگہ پر قرآن کریم میں تذکرہ فرمایا ہے ان میں سے بعض یہ ہیں :

فرمان باری تعالی ہے :

(اس میں بہتا ہوا چشمہ ہو گا اور اس میں اونچے اونچے تخت ہوں گے اور آبخورے رکھے ہوئےہوں گے اور ایک قطار میں لگے ہوئےتکیۓ ہوں گے اور مخملی مسندیں پھیلی ہوں گی ) الغاشیہ /12- 16

اور فرمان باری تعالی ہے :

( اور اس شخص کے لۓ جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا دو جنتیں ہیں پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ (دونوں جنتیں ) بہت سی ٹہنیوں اور شاخوں والی ہیں پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟ تو ان دونون جنتوں میں دو بہتے چشمے ہیں پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ ان دونوں جنتوں میں ہر قسم کے میووں کی دو قسمیں ہوں گی ) الرحمن / 46 – 52

جنت کی صفات میں بہت سی آیات ہیں اور جنت کی عورتوں کی صفات میں کئ ایک آیات آئی ہیں ۔

ارشاد باری تعالی ہے :

( ان جنتوں میں نیچی (شرمیلی) نگاہ والی حوریں ہیں جنہیں ان سے پہلے کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا پس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟ گویا وہ حوریں یاقوت اور مونگے مرجان ہیں ) الرحمان / 56- 58

اور فرمان ربانی ہے :

( گوری رنگت والی ) حوریں جنتی خیموں میں رہنے والیاں ہیں ) الرحمان / 72

اور ارشاد باری تعالی ہے :

( اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں جو چھپے ہوئے موتیوں کی طرح ہیں یہ اس کا صلہ ہے جو کہ وہ عمل کرتے رہے ہیں ) الواقعۃ /22/24

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنت کی عورتوں کی صفات کے متعلق بہت سی صحیح احادیث ثابت ہیں کہ وہ قیامت کے دن متقی لوگوں کے لۓ تیار کی گئي ہیں ان میں بعض ذکر کی جاتی ہیں :

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جنت میں سب سے پہلا گروہ اسی شکل میں داخل ہو گا جس طرح کہ چودھویں رات کا چاند ہو پھر ان کے بعد اس ستارے کی مانند جو کہ آسمان میں سب سے زیادہ چمکدار اور روشن زیادہ ہے وہ نہ تو پیشاب کریں گے اور نہ ہی پاخانہ اور نہ ہی تھوکیں اور نہ ہی انہیں ناک آئے گی ان کی کنکھیاں سونے اور پسینے کی خوشبو مسک کستوری کی اور ان کی انگیٹھیوں میں اگر کی لکڑی ( ایک خوشبو دار لکڑی) جلتی ہو گی اور ان کی بیویاں حور العین ہوں گیں ان کی پیدائش ایک آدمی کی پیدائش ان کے باپ آدم کی صورت پر آسمان میں ساٹھ ساٹھ ہاتھ ہو گی ) صحیح الجامع حدیث نمبر 2015

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( موتی کا خیمہ جس کی آسمان میں لمبائی ساٹھ میل ہو گی اس کے ہر کونے میں مومن کے لۓ اس کی بیوی ہو گی جنہیں دوسرے نہیں دیکھ سکیں گے ) صحیح الجامع حدیث نمبر 3357

تو ان احادیث میں جنت کی ان عورتوں کے متعلق ذکر کیا گیا ہے جو کہ مومن کے لۓ تیار کی گئیں ہیں اور اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ان کا نام حور رکھا ہے اور حور حوراء کی جمع ہے ۔

احکام ( 17 /122) میں قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ : وہ بہت زیادہ سفید جس کی آنکھیں زیادہ سیاہ ہوں انہیں حور کہا جاتا ہے ۔

تو ہمار اس پر ایمان مطلق ہے جس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں اور یہ ہمارے مضبوط عقیدہ میں سے ہے اس کی مزید تفصیل کے لۓ صحیح بخاری کتاب بدء الخلق میں باب صفۃ الجنۃ اور صحیح مسلم ابواب صفۃ الجنۃ اور اسی طرح ابو نعیم اصفہانی کی کتاب صفۃ الجنۃ جو کہ جنتی عورتوں اور ان کے حسن کے متعلق ہے کا مطالعہ کریں ۔

اور رہا یہ سوال کہ اسلام ان اشیاء کی خوشخبری دیتا اور اس پر ابھارتا ہے جو کہ جنت میں ہیں اور دنیا میں وہ چیزیں حرام ہیں مثلا عورتوں سے شادی کے علاوہ تعلقات رکھنے ۔

تو جواب سے قبل ہم ایک خطرناک معاملے پر تنبیہ کرنا بہتر سمجھتے ہیں وہ یہ کہ بیشک اللہ تعالی اس دنیا میں دنیا والوں پر جو چاہے حرام کرے وہ تو ان اشیاء کا خالق اور مالک ہے تو کسی کو یہ جائز نہیں کہ وہ اللہ تعالی کے حکم پر اپنی بیمار رآئے اور الٹ فہم کے ساتھ اعتراض کرے تو اللہ تعالی ہی کے لۓ پہلے بھی بعد میں بھی حکم ہے اللہ تعالی کے حکم اور فیصلے پر کوئی گرفت نہیں کر سکتا ۔

اور رہا یہ مسئلہ کہ اللہ تعالی نے کچھ ایسی چیزیں جنہیں دنیا میں حرام قرار دی ہے اور پھر اس کے ترک کرنے والے کو آخرت میں اس کا بدلہ دے گا ( مثلا شراب، زنا اور مردوں پر ریشم پہننا وغیرہ ) تو یہ اللہ تعالی چاہتا ہے کہ جو اطاعت کرے اور دنیا میں اپنے نفس کے ساتھ جدوجہد کرے اسے ثواب دے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

( کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ بھی کچھ ہے )

اور حرمت کی علت کیا ہے تو اس کے متعلق ذیل میں چند نقاط دۓ جاتے ہیں :

اول یہ ضروری نہیں کہ ہم حرمت کی ساری علتیں جان سکیں اور ہمیں ان کا علم ہو تو کئ ایک ایسی علتیں ہیں جن کا ہمیں علم تک نہیں ہوتا ۔

تو نصوص میں اصل یہی ہے کہ انہیں تسلیم کیا جائے اگرچہ ہمیں علت کا علم نہ بھی ہو کیونکہ تسلیم کرنا ہی ایک ایسی چیز ہے جس کا تقاضا اسلام کرتا ہے اس لۓ اسلام اللہ تعالی کی مکمل اطاعت پر مبنی ہے ۔

دوم : بعض اوقات ہم پر حرمت کی علت ظاہر ہو جاتی ہے مثلا وہ فساد پیدا کرنے والی اشیاء جو کہ زنا سے مرتب ہوتی ہیں جیسا کہ نسب نامے میں خلط ملط ہونا اور موذی اور مہلک امراض کا پیدا ہونا وغیرہ تو جب شریعت نے غیر شرعی تعلقات کو منع قرار دیا تو اس سے مراد یہی تھی کہ نسب ناموں میں حفاظت ہو سکے جس کا کفار اور اہتمام نہیں کرتے تو وہ گدھوں کی طرح جفتی کرتے ہیں تو دوست اپنی سہیلی اور رشتہ دار اپنی رشتہ دار کے ساتھ زنا کرتا ہے اور اسی طرح گویا کہ وہ جنگلی جانور ہوں بلکہ بعض جانور بھی اس طرح کا کام نہیں کرتے اور یہ لوگ اسے برا نہیں جانتے اور نہ ہی اس کی پرواہ کرتے ہیں تو معاشرہ اس سبب سے انحلال پزیر ہو چکا اور رشتہ داریاں اور تعلقات کٹ چکے ہیں اور معاشرہ جنسی اور مہلک اور موذی بیماریوں سے بھرا پڑا ہے جو کہ اس شخص پر اللہ تعالی کے غضب کی دلالت کرتا ہے جو اللہ کی حرمت کو پامال اور اس کی حرام کردہ اشیاء کو حلال کر لیتا ہے ۔

اور یہ سب کچھ جنت میں بندے اور حور کے تعلق کے خلاف ہے - اور یہی ہے جس کا سوال آپ نے کیا ہے – یہ تو عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ فاحشہ عورت دنیا میں اپنی عزت کو نیلام کرتی پھرتی اور وہ بے دین اور بے حیاء ہوتی ہے اور کسی ایک شخص کے ساتھ صحیح نکاح کی بنا پر مستقل شرعی تعلقات نہیں رکھتی تو مرد جس کے ساتھ چاہے تعلقات قائم کرے اور عورت جس کے ساتھ چاہے پغیر کسی دینی اور اخلاقی لحاظ سے تعلقات بناتی پھرے۔

لیکن جنت میں حوریں تو اپنے ان خاوندوں کے لۓ چھپائی ہوئی ہوں گی جن کو دنیا میں حرام سے بچنے اور صبر کرنے کی بنا پر یہ بدلہ میں ملیں گیں ۔

جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :

(گوری رنگت والی )حوریں جنتی خیموں میں رہنے والیاں ہیں >

اور ان کے متعلق فرمایا :
( جنہیں ان سے پہلے کسی انسان یا جن نے ہاتھ تک نہیں لگایا )

تو یہ حقیقت میں اس کی بیوی ہو گی ۔

جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :

( اور ہم نے ان کی شادی حور عین سے کر دی )

وہ اس پر چھپائی ہوئی ہوں گی جس میں اس کے علاوہ کوئی اور شریک نہیں ہو گا ۔

سوم : بیشک اللہ عزوجل نے آدمی کے لۓ دنیا کے اندر قانون بنایا ہے کہ ایک وقت میں چار سے زیادہ عورتیں جمع نہیں کر سکتا ۔

تو وہ ہی جنتیوں کو بطور انعام جتنی چاہے حوریں عطا کر دے تو دنیا میں حرام ہونا اور آخرت میں نہ اس میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ ان دونوں کے احکام اللہ تعالی کی مشیت کے اعتبار سے مختلف ہیں اور اس میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ آخرت دنیا سے افضل اور باقی رہنے والی ہے ۔

فرمان باری تعالی ہے :

( لوگوں کے لۓ مرغوب چیزوں کی محبت مزین کر دی گئي ہے جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے چاندی کے جمع کۓ ہوئےخزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپآئے اور کھیتی یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانہ تو اللہ تعالی ہی کے پاس ہے ۔ آپ کہہ دیجۓ کیا میں تمہیں اس سے بھی بہت ہی بہتر چیز بتاؤ ؟ جن لوگوں نے تقوی اختیا کیا ان کے لۓ ان کے رب کے پاس ایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ بیویاں اور اللہ تعالی کی رضا مندی ہے اور اللہ تعالی اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے اور وہ اس کی نگاہ میں ہیں ) آل عمران / 14 – 15

چہارم – ہو سکتا ہے کہ یہ حرمت اللہ تعالی کی طرف سے اپنے بندوں کی آزمائش کے لۓ ہو آیا کہ وہ ان احکام پر عمل کرتے ہیں کہ یا نہیں جو انہیں دیۓ جاتے ہیں اور جس سے انہیں روکا جاتا ہے اس سے وہ رکتے ہیں کہ نہیں ۔

اور پھر بات یہ ہے کہ ایسی چیز سے آزمائش نہیں ہوتی جس کی طرف انسان کی میلان ہی نہ ہو اور نہ وہ اسے پسند کرتا ہو آزمائش تو اس کے ساتھ ہوتی ہے جس کی طرف دل کا میلان ہو اور اپنی طرف کھینچے اور اسی آزمائش میں سے ایک چیز مال بھی ہے ۔

تو کیا انسان اسے حلال طریقے سے حاصل کرتا اور اسے حلال میں خرچ کرتا اور اس میں سے اللہ تعالی کا حق ادا کرتا ہے کہ نہیں ۔

اور عورتوں کے ساتھ آزمائش اس لۓ ہے کہ آیا وہ اس پر اقتفاد کرتا ہے جو کہ اللہ تعالی نے اس کے لۓ حلال کی ہیں اور ان سے اپنی نظریں نیچی رکھتا اور ان سے نفع اٹھانے سے بچتا ہے جو کہ اللہ تعالی نے اس کے لۓ حرام کی ہیں یا کہ نہیں ۔

اور اللہ تعالی کی یہ رحمت ہے کہ اس نے ایسی کسی چیز کو حرام نہیں کیا جس کی طرف میلان نفس نہ لیکن اس کے بدلے میں اسی جنس اور قسم سے کئ چیزیں حلال کی ہیں ۔

پنجم- یہ کہ دنیاوی احکام آخرت کے احکام کی طرح نہیں ہیں ۔

تو دنیا کی شراب عقل کو ماؤف کر دیتی ہے آخرت کی شراب اس کے خلاف کہ اس سے نہ تو عقل میں فتور آتا اور نہ ہی سر چکراتا اور نہ ہی پیٹ میں مروڑ پیدا ہوں گے ۔

اور وہ جو اللہ تعالی نے مومنوں کے لۓ قیامت کے دن اس اطاعت کے بدلے میں عورتیں تیار کی ہیں جو وہ کرتے رہے تو وہ زنا کی طرح نہیں کہ ان سے ہتک ہو اور نسب ناموں میں ملاوٹ پیدا ہو جائے اور امراض پھیل جائیں اور اس کے بعد ندامت کا سامنا کرنا پڑے ۔

تو جنت کی عورتیں پاک صاف ہوں گی اور دنیا کی عورتوں کی طرح نہ تو انہیں موت آئے گی اور نہ ہی بوڑھی ہوں گی ۔

فرمان باری تعالی ہے :

( ہم نے ان ( کی بیویوں کو ) خاص طور پر بنایا ہے اور ہم انہیں کنواریاں رکھا ہے محبت والیاں اور ہم عمر ہیں )

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں دنیا اور آخرت کی بھلائی اور خیر نصیحت کرے اور ہمیں اپنے احکام کی اطاعت کر نے کی توفیق اور اس پر ثواب کا یقین کرنے اور اس پر اجر حاصل ہونے اور اپنے عذاب سے امن وامان میں رکھے ۔ آمین

واللہ اعلم .

Share:

Bihar Board 10th history Question answer Lesson 2.

Bihar Board 10th History Classes
Bihar Board 10th history objective Question answer.
10th History Question answer BTBC

        02   समाजवाद और साम्यवाद
     (Socialist and Communist)
वस्तुनिष्ठ प्रश्न उत्तर।
  ( objective Question answer)

(1) रूस में कृषक दास प्रथा का अंत कब हुआ?
जवाब - 1861 ईसवी में

(2) रूस में जार का मतलब क्या होता है?
जवाब - रूस का सम्राट

(3) कार्ल मार्क्स का जन्म कहां हुआ था?
जवाब - जर्मनी

(4) साम्यवादी (कम्युनिस्ट) शासन का पहला प्रयोग कहां हुआ?
जवाब - रूस

(5) यूरोपियन समाजवादी  कौन नहीं था?
जवाब - कार्ल मार्क्स

(6) वार एंड पीस (war and peace)  किसकी रचना है?
जवाब - टालस्टाय

(7) बोलशेविक क्रांति कब हुई?
जवाब - नवंबर 1917 ईसवी

(8) लाल सेना का गठन किसने किया था?
जवाब - ट्रॉटस्की

(9) लेनिन की मौत कब हुई?
जवाब - 1924

(10) ब्रेस्टलिटोवस्क की संधि किन देशों के बीच हुआ था?
जवाब - रूस और जर्मनी

अतिलघु उत्तरीय प्रश्न
(1) पूंजीवाद क्या है?
जवाब - कल कारखानों और उत्पादन के साधनों पर निजी व्यक्तियों का स्वामितव होना पूंजीवाद कहलाता है।

(2) खूनी रविवार क्या है?
जवाब - 9 जनवरी 1905 को रूसी जनता का समूह "जार हमे रोटी दो" के नारों के साथ जार के महल की तरफ बढ़ रही थी। जार ने इन निहत्थे लोगो पर गोलियों कि बौछार करा दी जिसमें हजारों लोग मारे गए।
                                   रूसी कैलेंडर के अनुसार उस दिन रविवार (Sunday) का दिन था, इसी वजह से इसे खूनी रविवार (लाल रविवार) कहा जाता है।

(3) अक्टूबर क्रान्ति क्या है?
जवाब - लेनिन के नेतृत्व में रूसी जनता ने जार क्रेंसकी का तख्ता पलट करने देने का निश्चय किया। रूसी जनता ने डाकघर, बैंक, रेलवे स्टेशन, कचहरी और अन्य सरकारी भवनों पर अधिकार कर लिया, इससे डर कर करेंस्की भाग गया और सत्ता पर लेनिन का अधिकार हो गया , इसे ही अक्टूबर क्रान्ति कहा जाता है।

(4) सर्वहारा वर्ग किसे कहते है?
जवाब - रूसी जनता का वैसा वर्ग जिसमें किसान , मजदूर और गरीब लोग शामिल थे उसे सर्वहारा वर्ग कहा गया।

(5) क्रांति से पहले रूसी किसानों की स्थिति कैसी थी?
जवाब - क्रांति से पहले रूसी किसानों की स्थिति काफी दयनीय थी। खेतो का आकार छोटा हो जाना और पुराने तरीके से खेती करने के कारण उपज नहीं हो पाती थी इसी कारण किसानों की स्थिति काफी दयनीय हो गई थी।

लघु उत्तरीय प्रश्न

(1) रूसी क्रांति के किन्हीं दो कारणों का वर्णन करे।
जवाब -  रूसी क्रांति के किन्हीं दो कारण निम्मलिखित है।
(i) जार की निरंकुशता और अयोग्य शासन - रूसी राजा (सम्राट) को जार कहा जाता था। वह अपने को ईश्वर का प्रतिनिधि मानता था, उसे जनता की कोई फ़िक्र नहीं थी। साथ ही गलत सलाहकारों के कारण जार की सरवेक्ष चारिता बढ़ती गई तथा जनता की स्थिति बद से बदतर होती गई।
(ii) कृषकों की दयनीय स्थिति - रूस में आबादी का बहुसंख्यक भाग कृषक था जिसकी स्थिति काफी दयनीय थी। पुराने ढंग से खेती करने और खेतो का आकार छोटा हो जाने के कारण उपज में काफी कमी आ गई थी। जिस कारण किसान कर्ज के बोझ से दब गया।

(2) रूसिकरण की नीति क्रांति हेतु कहां तक उत्तरदाई थी?
जवाब - सोवियत रूस विभिन्न राष्ट्रीयताओ का देश था यह मुख्यत सलाव जाती के लोग रहते थे। इनके अलावा फिनलैंड, पोल, जर्मन और यहूदी आदि अन्य जातियों के लोग रहते थे, यह लोग अलग अलग भाषा बोलते थे और इनका रस्म व रिवाज भी अलग अलग था, लेकिन जार निकोलस ii ने रुसिकरण की नीति थोप दी इसके अनुसार सभी लोगो पर , शिक्षा और संस्कृति लाद दिया गई  जिस कारण अल्पसंख्यक लोग परेशान हो  गए । इस परेशानी ने रूसी क्रांति का मार्ग प्रशस्त हुआ।

(3) साम्यवाद एक नई आर्थिक और सामाजिक व्यवस्था थी। कैसे?
जवाब - साम्यवाद एक नई आर्थिक और सामाजिक व्यवस्था थी जिसके अनुसार मजदूरों को काम के बदले वेतन (सैलरी) मिलता था उत्पादन के साधनों पर मजदूरों का एकाधिकार था। ऐसी व्यवस्था में उत्पादन किसी व्यक्ति विशेष के लिए ना होकर पूरे वर्ग के लिए था। इस तरह साम्यवाद एक नई आर्थिक और सामाजिक व्यवस्था थी।

(4) नई आर्थिक नीति (New economic policy) मार्क्सवादी सिद्धांतो के साथ समझौता था कैसे?
जवाब - लेनिन एक स्वप्न दर्सी विचारक ही नहीं बल्कि एक कुशल सामाजिक चिंतक तथा व्यावहारिक राजनीतिज्ञ था। वह ट्राटसकी के तरह समाजवादी व्यवस्था लागू कर पूरी पूंजीवादी दुनिया से टकराना नहीं चाहता था। इसलिए उसने मार्क्सवादी मूल्यों से समझौता कर 1921 में एक नई नीति की घोसना की , इस नीति के अनुसार किसानों पर अनाज की जगह कर (टैक्स) लगाया गया तथा जमीन किसानों के बीच बांट दी गई और विभिन्न स्तर पर बैंक खोले गए।

(5) प्रथम विश्व युद्ध ( first world war) में रूस की पराजय क्रांति हेतु मार्ग प्रशस्त किया कैसे?
जवाब - प्रथम विश्व युद्ध 1914 से 1918 तक चला इस ऐतिहासिक युद्ध में एशिया के एक छोटे से देश जापान से रूस बुरी तरह हार गया, उसकी महानता का भ्रम खत्म हो गया। थके फटे हाल सैनिक जापान से हार कर जब रूस वापस लौटे तब उन्हे देख कर जनता स्तब्ध रह गई। इस देख कर रूसी जनता में असंतोष फुट पड़ा जिसने क्रांति हेतु मार्ग प्रशस्त किया।

Share:

Shadi Shuda zindagi ko Behtar banane ke liye yah kam jarur kare.

Shauhar Biwi ka aapasi talluqat kaisa hona chahiye?
Shadi shuda zindagi ko khush gawar banane ke liye miya Biwi ko in baton ka khayal rakhna chahiye.

میاں بیوی کا آپس میں کیسے تعلقات ہونے چاہیے؟
👈 شادی شدہ زندگی کو خوش گوار بنانے کے لیے میاں بیوی کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے؟
(صوفیہ سلیم)

اللہ تعالی نے انسان کو مرد و عورت کی اجناس میں پیدا کرکے مختلف طرح کی فطرت سے نوازا ہے۔اسی وجہ سے ان کے سوچنے ،سمجھنے ،برتاؤ اور ردِعمل کا انداز جداگانہ ہے ۔مرد اور عورت کو بالکل الگ شناخت اور فطرت عطا کرنے کے ساتھ ساتھ مرداور ان میں ایک دوسرے کے لیے فطری کشش بھی رکھی اور اس کی خوب صورت تکمیل کے لیے شادی کا عمل بنایا۔اس کی اولین مثال حضرت آدم اور حواء علیہما السلام تھے ،جن سے اللہ نے انسانیت کو پھیلایا۔ مرد اورعورت اس دنیاوی زندگی کے اکھٹے جان نشین اور وارث ہیں اور زندگی کو بھر پور طریقے سے نہیں گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ ان میں گہرا اور پرسکون رشتہ ہو۔ قرآن پاک میں بیان فرمایا گیا ہے :

’’اسی نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کا جوڑا بنایا تاکہ وہ اس میں سکون پائے۔‘‘(سورۃ الاعراف

میاں بیوی کا رشتہ جو کہ بعض اوقات بہت نازک دکھائی دیتا ہے، اس رشتہ سے زیادہ مضبوط رشتہ اور کوئی بھی نہیں ہوتا بشرطیکہ اس رشتے میں بے پناہ احساس، خلوص اور چاہت ہو ۔آج کل کے تیز رفتار زمانے میں انسان ایک مشین کی طرح اپنی مادی خوشیوں کے لیے بھاگ دوڑ کر رہا ہے اور اس کے پاس نہ صرف اپنی فیملی کے لیے بلکہ اپنے لیے بھی وقت نکالنا مشکل ہو گیا ہے جس کا اثر ازدواجی تعلقات میں بگاڑ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

آئیے جانتے ہیں کہ ازدواجی رشتے کو خوش گوار بنانے کے لیے میاں بیوی کو کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے.

ازدواجی رشتے کی پائیداری کی بنیاد اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے میاں بیوی ایک دوسرے پر اعتماد اور اعتبار کریں ۔

ازدواجی رشتے کی خوب صورتی اس میں ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی عزت کریں۔

ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے ہوئے اپنے مسائل کا حل ڈھونڈیں ۔

ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھیں اور اس کے لیے ایک دوسرے کو وقت دیں ۔

میاں بیوی اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کریں اور بلاوجہ بحث و مباحثہ سے پر ہیز کریں۔

ایک دوسرے کو خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ قبول کریں ۔

اگر اپنے زندگی کے ساتھی کی کچھ عادات نا پسند ہیں تو اس کو تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے آہستہ آہستہ تبدیل کرنے کی کوشش کریں ۔

اگر کسی وقت شریک حیات کا مزاج برہم ہے تو دوسرا کچھ دیر کے لیے خاموشی اختیار کرے تاکہ معاملات میں بگاڑ پیدا نہ ہو۔

ایک دوسرے کو محبت کا احساس دلائیں ،ایک دوسرے کے دکھ و تکلیف میں ساتھ نبھائیں ۔

ایک دوسرے کی بنیادی و جسمانی ضروریات کا خیال رکھیں ۔

Share:

Biwi ko Izzat aur Muhabbat dena ek achhe Shauhar ki pehchan hai.

Biwi ko izzat aur Muhabbat dene se hamari Zindagi khushiyon se bhar jati hai?
बीवी को इज़्ज़त और मुहब्बत देने से हमारी ज़िन्दगी और खुश गवार हो जाती है।

” بیوی کو عزت و محبت دینا ۔۔۔۔!!!!“

کہتے ہیں کہ شادی کے بعد عورت کا چہرہ اور جسمانی حالت بتاتی ہے کہ اُس کے شوہر نے اُسے کس حال میں رکھا ہوا ہے۔ وہ عورتیں کبھی بوڑھی نہیں ہوتیں جن کے شوہر اُن پر جان چھڑکتے ہیں۔ شادی سے قبل لڑکی مناسب شکل صورت کی ہوتی ہے جو پہن اُوڑھ کر اچھا لگتی ہے۔ مگر شادی کے بعد شوہر کی توجہ، محبت اور عزت عورت کے چہرے کو ایسا نکھارتی ہے... کہ وہ مزید خوبصورت ہوتی چلی جاتی ہے۔ شادی کے دس بیس سال بیت جانے کے بعد بھی عورت خوبصورت اور کم عمر لگ سکتی ہے کہ دیکھنے والے دنگ رہ جائیں اور زوجین کی قسمت پر رشک کرتے نہ تھکیں۔ لوگ ہمیشہ عورت کو الزام دیتے ہیں کہ وہ اپنا خیال نہیں رکھتی جس کا شوہر ہی اُسے عزت و اہمیت نہ دیتا ہو تو وہ بھلا کس کے لیے سجے سنورے۔

کہتے ہیں کہ عورت کو تم جیسا کہو گے وہ ویسی ہی بنتی چلی جائے گی، اُسے بدصورت اور پھوہڑ کہو گے تو وہی بنتی جائے گی اور اگر اُسے خوبصورت اور سلیقہ مند کہو گے تو وہ خود بہ خود ویسی ہی بنتی چلی جائے گی۔

● رسول کریم ؐ نے فرماتے ہیں:
” نیک اور بلند مرتبہ لوگ اپنی بیویوں کی عزت کرتے ہیں اور پست ذہنیت اور نیچ لوگ اُن کی توہین کرتے ہیں۔“(1)

● رسول کریم ؐ نے فرماتے ہیں:
” تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنی عورت کے ساتھ سب سے بہتر سلوک کرے۔“(2)

● حضرت امام زین العابدین ؑ نے فرماتے ہیں:
” تم پر عورت کا یہ حق ہے کہ اُس کے ساتھ مہربانی سے پیش آؤ کیونکہ وہ تمھاری دست نگر ہے، اُس کے کھانے پینے کا، کپڑے کا انتظام کرو اور اُس کی نادانیوں کو معاف کردو۔“(3)

● ڈاکٹر علی شریعتی کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔
ﻋﻮﺭﺕ ﺍگر ﭘﺭﻧﺪﮮ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ میں ﺧﻠﻖ ہوتی ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ”ﻣﻮﺭ“ ہوتی۔ ﺍگر چوپائے ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ میں ﺧﻠﻖ ﮐﯽ ﺟﺎتی ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ”ہرﻥ“ ہوتی۔ ﺍگر ﮐﯿﮍﮮ مکوﮌﮮ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ میں ﺧﻠﻖ ﮐﯽ ﺟﺎتی ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ”تتلی“ ہوتی۔ لیکن ﻭﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺧﻠﻖ ہوئی ﺗﺎﮐﮧ ﻣﺎﮞ، بہن ﺍﻭﺭ ﻋﺸﻖ(بیوی) بنے۔۔۔
ﻋﻮﺭﺕ ﺍتنی بڑی ﮨﮯ۔ ﺍﺷﺮﻑ ﺍﻟﻤﺨﻠﻮﻗﺎﺕ ﺧﺪﺍ میں سے ﮨﮯ۔۔۔۔ ﺍِﺱ ﺣﺪ تک ﻧﺎﺯﮎ ﻣﺰﺍﺝ ﮐﮧ ﺍﮎ پھوﻝ ﺍُسے ﺭﺍضی ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺵ ﮐﺭ ﺩیتا ﮨﮯ۔۔ ﺍﻭﺭ ﺍِﮎ ﻟﻔﻆ ﺍُسے ﻣﺎﺭ ﺩیتا ﮨﮯ۔!
ﺗﻮ ﺑﺲ ﺍﮮ ﻣﺮﺩﻭﮞ خیاﻝ ﺭکھو ﻋﻮﺭﺕ تمھاﺭﮮ ﺩﻝ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺑﻨﺎئی گئی ﮨﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺗﻢ ﺍپنے ﺩﻝ میں ﺍُس کو جگہ ﺩﻭ۔
ﺗﻌﺠﺐ ﺁﻭﺭ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺍپنے بچپن ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺮکت ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮭﻮلتی ﮨﮯ۔ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﻮﺍنی ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮہر کا ﺍیماﻥ کاﻣﻞ کرتی ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﻣﺎﮞ بنتی ﮨﮯ ﺗﻮ ﺟﻨﺖ ﺍﺱ کے ﻗﺪﻣﻮﮞ تلے ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﻗﺪﺭ کرﻭ۔

Share:

Islam Me Gana (songs) Music sunna kaisa hai?

Kisi Musalman ke liye Gana aur music sunna kaisa hai?
Islam music ke bare me kya kahta hai?
    Assalamu walaikum
Sawal: Islam Music ke bare me kya kahta hai?
جواب تحریری

وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته.
*موسیقی اسلام میں حرام ہے*

اسلام میں گانا بجانا ، میوزک اور موسیقی کے آلات استعمال کرنا ناجائز اور حرام ہے اور یہ بات قرآن و حدیث کے نصوص قطعیہ اور حضرات آئمہ کرام رحمھم اللہ کے اجماع کی روشنی میں اظہر من الشمس ہے جن سے اس کی حرمت اور ممانعت میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔

چند دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
ومن الناس من یشتری لھو الحدیث لیضل عن سبیل اللہ بغیر علم و یتخذھا ھزوا اولئک لھم عذاب مھین (لقمان: ۶)
اور بعض آدمی ایسا ہے جوان باتوں کا خریدار بنتا ہے جو غافل کرنے والی ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بے سمجھے بوجھے گمراہ کرے اور اس کی ہنسی اڑا دے، ایسے لوگوں کیلئے ذلت کا عذاب ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے تین بار قسم اٹھا کر فرمایا کہ اس آیت میں ’’لھو الحدیث‘‘ سے مراد گانا بجانا ہے اسی طرح حضرت ابن عباس، حضرت جابر رضی اللہ عنھما، حضرت عکرمہ ، سعید بن جبیر، مجاہد، مکحول، عمرو بن شعیب اور علی بن جذیمہ رحمھم اللہ تعالیٰ سے بھی اس آیت کی یہی تفسیر منقول ہے۔ (تفصیل کیلئے تفسیر ابن کثیر ۳/۴۵۷، تفسیر قرطبی ۱۴/۵۱، تفسیر بغوی ۴/۴۰۸، تفسیر مظہری ۷/۲۴۶ ملاحظہ کیجئے)
صحیح بخار شریف کی روایت ہے:
’’لیکونن من امتی اقوام یستحلون الحر والحریر والخمر والمعازف‘‘
میری امت میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو زنا ، ریشم، شراب اور راگ باجوں کو حلال قرار دیں گے۔
اسی طرح ابو داؤد ، ابن ماجہ اور ابن حبان رحمھم اللہ کی روایت ہے۔
’’لیشربن الناس من امتی الخمر یسمونھا بغیر اسمھا یعزف علی رؤسھم بالمعازف والمغنیات یخسف اللّٰہ بھم الارض… الخ
میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے مگر اس کا نام بدل کر ان کی مجلسیں راگ باجوں اور گانے والی عورتوں سے گرم ہوں گی۔ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دے گا۔
قرآن و حدیث کی نصوص کے بعد اگر آئمہ اربعہ رحمھم اللہ کے اجماع کی طرف آئیں تو ہمیں کتب فقہ میں بیسیوں ایسی عبارات ملتی ہیں جن سے گانے بجانے وغیرہ کی حرمت پر ان حضرات کا اجماع ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً
(قولہ او یغنی للناس) لانہ یجمع الناس علی ارتکاب کبیرۃ کذا فی الھدایۃ و ظاہرہ ان الغناء کبیرۃ… الخ، وفی المعراج الملا ھی نوعان محرم وھو آلات المطربۃ من غیر الغناء کالمزمار… الخ (البحر الرائق ۷/۸۸)
قال فی الرعایۃ یکرہ سماع الغناء والنوح بلاالۃ لھو وہو محرم معھا… الخ (الانصاف ۱۲/۵۱)
مختصر طور پر نقلی دلائل کے بعد اگر عقلی لحاظ سے دیکھا جائے تو گانے بجانے اور میوزک و موسیقی کے آلات اور رقص و سرود کے محفلیں جمانے سے سوائے بے دینی، الحادو گمراہی، گناہوں کی کثرت ، بے شرمی و بے حیائی، حیا و پاکدامنی کے فقدان اخلاقی بے راہ روی اور معاشرتی انتشار اور بے سکونی وغیرہ کے علاوہ کوئی چیز نہیں پھیلی۔
بہر کیف مسلمانوں کو اس قسم کے گناہوں سے بچتے ہوئے قرآن مجید کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے، سننے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔”

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS