Musalman Allah ke Nabi Isa Alaihe Salam ka Jashn-E-Wiladat Nabi-E-Akram Sallahu Alaihe wasallam ke Jashn-E-Wiladat ke Jaisa Kyu Nahi mnata?
सवाल: मुसलमान अल्लाह के नबी ﷺ की जश्ने पैदाइश के जैसा इसा अलैहे सलाम की पैदाइश का जश्न क्यों नहीं मनाता?
जब मुसलमान मोहम्मद सल्ल्लाहू अलैहे वसल्लम के पैदाइश का जश्न मनाता है तो इसा अलैहे सलाम भी तो उनके नबी है तो उनके पैदाइश का जश्न (25 December) क्यों नहीं मनाते है?
عیسیٰ علیہ السلام اور نبی پاک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جشنِ ولادت منانا دونوں بدعت ہیں |
لماذا لا يحتفل المسلمون بمولد نبي الله عيسى كما يحتفلون بمولد نبي الله محمد عليهما الصلاة والسلام ؟
« باللغة الأردية »
شیخ محمد صالح المنجد ۔حفظہ اللہ۔
ترجمہ:اسلام سوال وجواب ویب سائٹ
تنسیق:اسلام ہا ؤس ویب سائٹ
ترجمة: موقع الإسلام سؤال وجواب تنسيق:
مموقع islamhous
---------------------------------------------
سوال: مسلمان اللہ کے نبی عیسیٰ علیہ السلام کی جشنِ وِلادت نبی پاک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جشنِ ولادت کی طرح کیوں نہیں مناتے ہیں؟
جواب:
الحمد للہ:
اوّل:
اس بات پر ایمان لانا کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے نبی و رسول ہیں جنہیں اللہ عزوجل نے بنی اسرائیل کی طرف بھیجا ہے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے میں سے ہے، اور کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا ہے جب تک کہ وہ اللہ کے تمام مبعوث کردہ رسولوں پر ایمان نہ لائے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ ) ] البقرة:285 [
’’ رسول ایمان ﻻیا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان ﻻئے، یہ سب اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان ﻻئے، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے ‘‘۔]البقرة:285 [
ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ: ’’بے شک مومنین اللہ واحد پر ایمان رکھتے ہیں، جو اکیلا ہے، تنہا وبے نیاز ہے ،اس کے علاوہ نہ کوئی برحق معبود ہے اور نہ کوئی رب ہے۔ اسی طرح ان تمام رسولوں ،نبیوں اور آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہیں جو رسولوں اور نبیوں پر نازل ہوئی ہیں، ان میں سے وہ کسی کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے کہ بعض پر ایمان لائیں اور بعض کا کفر کریں۔ بلکہ ان کے نزدیک تمام لوگ سچے،نیکوکار، ہدایت یافتہ ،صاحب رُشد اور خیر کی راہوں کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں‘‘ (تفسیر ابن کثیر:۱؍۷۳۶)۔
اور امام سعدیؒ فرماتے ہیں کہ ’’ ان میں سے بعض(نبی ) کا انکاروکفر تمام (انبیاء)کے کفر کی طرح ہے،، بلکہ اللہ رب العالمین کا انکاراورکفر ہے‘‘۔ (تفسیر سعدی:ص ۱۲۰)۔
دوم:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا جشن منانا بدعت ہے، اسے نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے، اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم)کے بعد کسی صحابی نے کیا ہے،اور ائمہ مسلمین میں سے کسی سے یہ معروف نہیں کہ اس کی اجازت دی ہو، یا اسے مستحب گردانا ہو چہ جائیکہ اس میں شرکت کی ہو، کیونکہ یہ سب حرام کام اور ناپسندیدہ بدعت میں سےہے۔
دائمی کمیٹی کے علماء کا کہنا ہے کہ: ’’عید میلاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بدعت ہے، کیونکہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور نہ ہی اسے قرون مفضلہ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے کیا ہے‘‘۔ا.ھ.(دائمی کمیٹی کا فتوی ۲؍۲۴۴)۔
چنانچہ مسلم عوام ، اور جاہلوں کی طرف سے منایا جانے والا میلاد النبی(صلی اللہ علیہ وسلم)کاجشن ایسی بدعات میں سے ہے جسکا مقابلہ کرنا اور اس سے روکنا ضروری ہے، اور جشن میلاد النبی(صلی اللہ علیہ وسلم)سے نئے سال کی ابتداء کے جشن پر استدلال کرنا سرے سے باطل ہے؛ اس لئے کہ عید میلاد النبی(صلی
اللہ علیہ وسلم) جائز نہیں ہے؛ کیونکہ یہ خود ساختہ بدعت ہے، اور جو بدعت کسی دوسری بدعت پر قیاس کر کے ایجاد کی جائے تو وہ بھی بدعت ہی ہوگی۔
سوم:
نصاریٰ کا جشن کریسمس شرک وبدعت پر مبنی جشن ہے، مسلمانوں کے لئے اس میں ان کی مشابہت جائز نہیں ہے، اور عیسیٰ علیہ السلام اس سے اور ان (عیسائیوں) سے (خود)بری ہیں۔
عیسائیوں کی طرف سے منعقد کی جانےوالی کرسمس کی تقریبات بذات خود شرک اور بدعت پرمبنی ہے، کسی بھی مسلمان کو انکی مشابہت اختیار کرنے کی اجازت نہیں ہے، اور عیسی علیہ السلام عیسائیوں کی اس شرکیہ تقریب سے بری الذمہ ہیں۔
اور مسلمانوں کی نسبت( کرسمس کی تقریب منانا) بدعت پر مستزاد یہ کہ کفار کے مخصوص دینی شعائر میں ان کی مشابہت اختیار کرنا ہے،اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
’’ جس نے کسی قوم کی مشاہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے ‘‘۔اسے ابوداود نےحدیث نمبر(3512) کے تحت روایت کیا ہے، اور علامہ البانی نے اسے صحیح سنن ابو داد میں صحیح کہا ہے، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس حدیث کی سند کو جید قرار دیتے ہوئے کہا کہ:
"اس حدیث کا کم از کم یہ معنی ضرور ہے کہ کفار سے مشابہت اختیار کرنا حرام ہے، اگرچہ اس حدیث کا ظاہری معنی کفار کی مشابہت اختیار کرنے والے کے کافر ہونے کا تقاضا کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی ٰکا یہ فرمان تقاضا کرتا ہے) وَمَن يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ((اقتضاء الصراط:ص 82- 83)
اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مزید کہا کہ:
" کفر ، گناہ، اور کفار سے مشابہت کا سر عام ہونا دین الہی اور شریعت کے خاتمے کی اصل وجہ ہے، جیسے مسلمانوں کے تمام ترامور کی بھلائی انبیائے کرام کی سنتوں اور شریعت پر کار بند رہنے میں ہے، اسی لئے جب کفار کی مشابہت کئے بغیر دین میں بدعات ایجاد کرنا سنگین ترین جرم ہے، تو اگر بدعت کے ساتھ کفار کی مشابہت بھی اس میں شامل ہو تو پھر کتنا سنگین گناہ ہوگا؟!"انتہی دیکھیں(اقتضاء الصراط المستقیم:ص 116)۔
ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کفار کو ان کے مذہبی تہوار کرسمس وغیرہ پر مبارکباد دینا بالاتفاق حرام ہے؛ کیونکہ انہیں مبارکباد دینے میں انکے کفریہ نظریات کا اقرار اور ان سے رضا مندی کا اظہار ہے، گرچہ مسلمان اس قسم کے کفریہ نظریات کواپنے لئے پسند نہیں کرتا، لیکن مسلمان کیلئے یہ حرام ہے کہ وہ کفریہ شعائر سے راضی ہو،یا اس کی دوسرے کو مبارکبادی دے،اسی طرح اس پر یہ بھی حرام ہے کہ وہ اس موقع پر جشن قائم کرکے ،یاتحائف کا تبادلہ کرکے، یا مٹھائیاں تقسیم کرکے،یا کھانے کی ڈش تیار کرکے، یا چھٹیاں وغیرہ کرکے کفار کی مشابہت اختیار کرے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے کہ: ’’جس نے کسی قوم کی مشاہت اختیار کی وہ انہیں میں سے ہے‘‘۔(اسےابو داود نے روایت کیا ہے).انتہی(مجموع فتاوى ورسائل ابن عثیمین:3 /45-46)
خلاصہ یہ ہے کہ : عیسوی سال کی ابتدا میں جشن منانا مسلمانوں کیلئے کئی اعتبار سے نقصان دہ ہے جن میں سے کچھ یہ ہیں:
۱۔اس میں مشرکوں اور کفار کی مشابہت ہے جو ان تقریبات کو اپنے شرکیہ اور کفریہ نظریات کی بنا پر مناتے ہیں، بلکہ عیسی علیہ السلام کی شریعت کی رو سے بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس بات کو سب تسلیم کرتے ہیں کہ اس قسم کی تقریبات ان کے دین میں بھی جائز نہیں ہیں، چنانچہ یہ تقریب اور تہوار شرک و بدعت کا ملا جلا شاخسانہ ہے، مزید برآں کہ اس کے ساتھ ساتھ ان محفلوں میں منعقد کیے جانے والے فسق و فجور کے کام بھی انکی برائی میں مزید اضافہ کر دیتے ہیں، تو ان سب امور میں ہم کفار کی مشابہت کیسے کر سکتے ہیں؟
۲۔جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد منانا خود ساختہ بدعت ہے، اس لئے عید میلاد النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) پر اسے قیاس نہیں کیا جا سکتا؛ کیونکہ جس وقت قیاس کی اصل ہی فاسد ہوگئی تو قیاس بھی فاسد ہو جائے گا۔
۳۔کرسمس کا تہوار منانا ہر حال میں گناہ کا کام ہے، کسی بھی انداز سے اسے جائز نہیں کہا جا سکتا؛ کیونکہ یہ اصل کے اعتبار سے ہی غلط ہے؛ اسلئے کہ اس میں کفر، فسق، اور گناہ کے کام کیے جاتے ہیں، چنانچہ اس جیسے فعل کا کسی چیز پر قیاس کرنا درست نہیں، اور نہ ہی کسی بھی صورت میں اس کے جواز کا قول نکالا جا سکتا ہے۔
۴۔اس فاسد قیاس کو درست ماننے سے یہ لازم آئے گا کہ ہم کہیں: کہ ہم سارے نبی کا جشن ولادت کیوں نہیں مناتے؟ کیا وہ سارے اللہ کے مبعوث کردہ پیغمبر نہیں تھے؟! اور اس بات کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
۵۔ کسی بھی نبی کی ولادت کا دن قطعی طور پر ثابت کرنا مشکل ہے، حتی کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ پیدائش بھی متعین کرنا مشکل ہے، اس لئے کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش یقینی طور پر معلوم نہیں ہے، اور اس دن کی تعیین کے سلسلے میں مؤرخین کی مختلف آراء ہیں؛ جن کی تعداد نو یا اس سے بھی زیادہ ہے، چنانچہ تاریخی اور شرعی دونوں اعتبار سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ پیدائش منانا باطل ہوجاتا ہے، اس لئے عیدمیلاد چاہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو یا عیسی علیہ السلام کی ،اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کی رات جشن منانا تاریخی اور شرعی دونوں اعتبار سے درست نہیں ہے"انتہی
"فتاوى نور على الدرب" (19 /45)۔
واللہ اعلم.