find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya NAbi Qaber Me Jinda HAi?

Nabi-E-Akram Sallahu Alaihe Wasallam Qaber Me Jinda Hai

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم :
سوال : اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اخروی و برزخی زندگی ہے یا دنیاوی زندگی ہے ؟ ادلئہ اربعہ سے جواب دیں، جزاکم اللہ خیرا [ایک سائل 26ربیع الثانی 1426ھ]
جواب : از شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ :
الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد :
اول : اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ دنیا کی زندگی گزار کر فوت ہو گئے ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : انك ميت و انهم ميتون ”بے شک تم وفات پانے والے ہو اور یہ لوگ بھی مرنے والے ہیں۔“ [الزمر : 30]
❀ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
ألامن كان يعبد محمدا فإن محمدا صلى الله عليه وسلم قدمات
’’ الخ سن لو ! جو شخص محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عبادت کرتا تھا تو بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔ [صحيح البخاري : 3668]
↰ اس موقع پر سیدنا ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنہ نے وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل الخ [آل عمران : 144] والی آیت تلاوت فرمائی تھی۔ ان سے یہ آیت سن کر (تمام) صحابہ کرام نے یہ آیت پڑھنی شروع کر دی۔ [البخاري : 1241، 1242] سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسے تسلیم کر لیا۔ [دیکھئے صحیح البخاری 4454]
↰ معلوم ہوا کہ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔
❀ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :
مات النبى صلى الله عليه وسلم الخ
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے“ [صحيح البخاري : 4446]
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا :
ما من نبي يمرض إلا خير بين الدنيا والآخرة
’’ جو نبی بھی بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے۔“ [صحيح البخاري 4586، صحيح مسلم : 2444]
↰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے بدلے آخرت کو اختیار کر لیا۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی زندگی اخروی زندگی ہے جسے بعض علماء برزخی زندگی بھی کہتے ہیں۔
❀ ایک روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كنت أسمع أنه لايموت نبي حتي يخير بين الدنيا والآخرة
’’ میں (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے) سنتی تھی کہ کوئی نبی بھی وفات نہیں پاتا یہاں تک کہ اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دے دیا جاتا ہے۔“ [البخاري : 4435و مسلم : 2444]
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی فرماتی ہیں کہ :
فجمع الله بين ريقي و ريقه فى آخر يوم من الدنيا و أول يوم من الآخرة
’’ پس اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دنیا کے آخری دن اور آخرت کے پہلے دن میرے اور آپ کے لعاب دہن کو (مسواک کے ذریعے) جمع (اکٹھا) کر دیا۔ [صحيح البخاري : 4451]
❀ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ :
لقد مات رسول الله صلى الله عليه وسلم الخ
’’ یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے۔“ [صحيح مسلم : 29؍2974و ترقيم دارالسلام : 7453]
↰ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں۔ ان صحیح و متواتر دلائل سے معلوم ہوا کہ سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فداہ ابی و امی و روحی، فوت ہو گئے ہیں۔
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی نمازکے بارے میں فرماتے تھے کہ :
إن كانت هذه لصلاته حتي فارق الدنيا
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز تھی حتی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) دنیا سے چلے گئے۔ [صحيح البخاري : 803]
❀ ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا :
حتي فارق الدنيا ’’ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے چلے گئے۔“ [صحيح مسلم : 33؍2976و دارالسلام : 7458]
❀ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی فرماتے ہیں کہ :
خرج رسول الله من الدنيا الخ
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے چلے گئے۔“ [صحيح البخاري : 5414]
↰ ان ادلہ قطعیہ کے مقابلے میں :
◈ فرقہ دیوبندیہ کے بانی محمد قاسم نانوتوی (متوفی 1297ھ) لکھتے ہیں کہ :
”ارواح انبیاء کرام علیہم السلام کا اخراج نہیں ہوتا فقط مثل نور چراغ اطراف و جوانب سے قبض کر لیتے ہیں یعنی سمیٹ لیتے ہیں اور سوا ان کے اور وں کی ارواح کو خارج کر دیتے ہیں۔۔۔“ [جمال قاسمي ص 15]
تنبیہ : میر محمد کتب خانہ باغ کراچی کے مطبوعہ رسالے ”جمال قاسمی“ میں غلطی سے ”ارواح“ کی بجائے ”ازواج“ چھپ گیا ہے۔ اس غلطی کی اصلاح کے لئے دیکھئے سرفراز خان صفدر دیوبندی کی کتاب ”تسکین الصدور“ [ص 216] محمد حسین نیلوی مماتی دیوبندی کی کتاب ”ندائے حق“ [ج 1ص572 و ص 635]
نانوتوی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ :
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات دنیوی علی الاتصال ابتک برابر مستمر ہے اس میں انقطاع یا تبدل و تغیر جیسے حیات دنیوی کا حیات برزخی ہو جانا واقع نہیں ہوا۔“ [آب حيات ص 27]
”انبیاء بدستور زندہ ہیں۔۔“ [آب حيات ص 36]
↰ نانوتوی صاحب کے اس خود ساختہ نظریے کے بارے میں :
◈ نیلوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں کہ :
”لیکن سیدنا نانوتوی کا یہ نظریہ صریح خلاف ہے اس حدیث کے جو امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں نقل فرمایا ہے۔۔“ [ندائے حق جلد اول ص636]
◈ نیلوی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ :
”مگر انبیاء کرام علیہم السلام کے حق میں مولانا نانوتوی قرآن و حدیث کی نصوص و اشارات کے خلاف جمال قاسمی ص 15 میں فرماتے ہیں : ارواح انبیاء کرام علیہم السلام کا اخراج نہیں ہوتا۔“ [ندائے حق جلد اول ص 721]
لطیفہ : نانوتوی صاحب کی عبارات مذکورہ پر تبصرہ کرتے ہوئے :
محمد عباس بریلوی لکھتا ہے کہ : ”اور اس کے برعکس امام اہل سنت مجدد دین و ملت مولانا الشاہ احمد رضا خان صاحب وفات (آنی) ماننے کے باوجود قابل گردن زنی ہیں۔“ [والله آپ زندي هيں ص 124]
↰ یعنی بقول رضوی بریلوی، احمد رضا خان بریلوی کا وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وہ عقیدہ نہیں جو محمد قاسم نانوتوی کا ہے۔
دوئم : اس میں کوئی شک نہیں کہ وفات کے بعد، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنت میں زندہ ہیں۔
❀ سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث میں آیا ہے کہ فرشتوں (جبریل و میکائیل علیہما السلام) نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا :
إنه بقي لك عمر لم تستكمله، فلو استكملت أتيت منزلك
’’ بے شک آپ کی عمر باقی ہے جسے آپ نے (ابھی تک) پورا نہیں کیا۔ جب آپ یہ عمر پوری کر لیں گے تو اپنے (جنتی) محل میں آ جائیں گے۔ [صحيح البخاري1؍185ح1386]
↰ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کی عمر گزار کر جنت میں اپنے محل میں پہنچ گئے ہیں۔
❀ شہداء کرام کے بارے میں پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :
أرواحهم فى جوف طير خضر، لها قناديل معلقه بالعرش، تسرح من الجنة حيث شاءت، ثم تأوي إلى تلك القناديل
’’ ان کی روحیں سبز پرندوں کے پیٹ میں ہوتی ہیں، ان کے لئے عرش کے نیچے قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں۔ وہ (روحیں) جنت میں جہاں چاہتی ہیں سیر کرتی ہیں پھر واپس ان قندیلوں میں پہنچ جاتی ہیں۔ [صحيح مسلم : 121؍1887ودار السلام : 4885]
↰ جب شہداء کرام کی روحیں جنت میں ہیں تو انبیاء کرام ان سے بدرجہ ہا اعلیٰ جنت کے اعلیٰ و افضل ترین مقامات و محلات میں ہیں شہداء کی یہ حیات جنتی، اخروی و برزخی ہے، اسی طرح انبیاء کرام کی یہ حیات جنتی، اخروی و برزخی ہے۔
◈ حافظ ذہبی (متوفی 748ھ) لکھتے ہیں کہ :
وهو حي فى لحده حياة مثله فى البرزخ
’’ اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی قبر میں برزخی طور پر زندہ ہیں۔“ [سير اعلام النبلاء9/161]
◈ پھر آگے وہ یہ فلسفہ لکھتے ہیں کہ یہ زندگی نہ تو ہر لحاظ سے دنیاوی ہے اور نہ ہر لحاظ سے جنتی ہے بلکہ اصحاب کہف کی زندگی سے مشابہ ہے۔ [ايضا ص161]
↰ حالانکہ اصحاب کہف دنیاوی زندہ تھے جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہ اعتراف حافظ ذہبی وفات آ چکی ہے لہذا صحیح یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہر لحاظ سے جنتی زندگی ہے۔ یاد رہے کہ حافظ ذہبی بصراحت خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دنیاوی زندگی کے عقیدے کے مخالف ہیں۔
◈ حافظ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں :
لأنه بعد موته و إن كان حيا فهي حياة اخروية لا تشبه الحياة الدنيا، والله اعلم
’’ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے بعد اگرچہ زندہ ہیں لیکن یہ اخروی زندگی ہے دنیاوی زندگی کے مشابہ نہیں ہے، واللہ اعلم“ [فتح الباري ج7ص349تحت ح4042]
↰ معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں لیکن آپ کی زندگی اخروی و برزخی ہے، دنیاوی نہیں ہے۔
اس کے برعکس :
علمائے دیوبند کا یہ عقیدہ ہے کہ :
وحيوته صلى الله عليه وسلم دنيوية من غير تكليف وهى مختصة به صلى الله عليه وسلم وبجميع الأنبياء صلو ات الله عليهم والشهداء لابرزخية۔۔۔
”ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک سیدنا صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا کی سی ہے بلا مکلف ہونے کے اور یہ حیات مخصوص ہے آنحضرت اور تمام ا نبیاء علیہم السلام اور شہداء کے ساتھ برزخی نہیں ہے جو تمام مسلمانوں بلکہ سب آدمیوں کو۔۔۔“ [المهند على المفند فى عقائد ديوبند ص 221پانچواں سوال : جواب]
محمد قاسم نانوتوی صاحب لکھتے ہیں کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات دنیوی علی الاتصال ابتک برابر مستمر ہے اس میں انقطاع یا تبدیل و تغیر جیسے حیات دنیوی کا حیات برزخی ہو جانا واقع نہیں ہوا۔ [آب حيات ص 67، اور يهي مضمون]
دیوبندیوں کا یہ عقیدہ سابقہ نصوص کے مخالف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
◈ سعودی عرب کے جلیل القدر شیخ صالح الفوزان لکھتے ہیں کہ :
الذى يقول : إن حياته فى البرزخ مثل حياته فى الدنيا كاذب وهذه مقالة الخرافيين
’’ جو شخص یہ کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برزخی زندگی دنیا کی طرح ہے وہ شخص جھوٹا ہے۔ یہ من گھڑت باتیں کرنے والوں کا کلام ہے۔“ [التعليق المختصر على القصيد ة النونيه، ج 2ص684]
◈ حافظ ابن قیم نے بھی ایسے لوگوں کی تردید کی ہے جو برزخی حیات کے بجائے دنیاوی حیات کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ [النونيه، فصل فى الكلام فى حياة الأنبياء فى قبور هم2؍154، 155]
◈ امام بیہقی رحمہ اللہ (برزخی) ردا رواح کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں کہ :
فهم أحياء عند ربهم كالشهداء
’’ پس وہ (انبیاء علیہم السلام) اپنے رب کے پاس، شہداء کی طرح زندہ ہیں۔ [رساله : حيات الأنبياء للبيهقي ص 20]
↰ یہ عام صحیح العقیدہ آدمی کو بھی معلوم ہے کہ شہداء کی زندگی اخروی و برزخی ہے، دنیاوی نہیں ہے۔ عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حیاتی و مماتی دیوبندیوں کی طرف سے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں مثلا مقام حیات، آب حیات، حیات انبیاکرام، ندائے حق اور اقامۃ البرھان علی ابطال و ساوس ھدایۃ لحیران، وغیرہ.اس سلسلے میں بہترین کتاب مشہور اہلحدیث عالم مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ کی ”مسئلہ حیاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم“ ہے جو یہاں یونیکوڈ میں موجود ہے۔
سوئم : بعض لوگ کہتے ہیں کہ :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، اپنی قبر مبارک پر لوگوں کا پڑھا ہوا درود بنفس نفیس سنتے ہیں اور بطور دلیل من صلى على عند قبري سمعته والی روایت پیش کرتے ہیں۔
عرض ہے کہ یہ روایت ضعیف و مردود ہے۔ اس کی دو سندیں بیان کی جاتی ہیں۔
① محمد بن مروان السدي عن الأعمش عن أبى صالح عن أبى هريرة۔۔۔ إلخ [الضعفاء للعقيلي 4؍136، 137 وقال : لا اصل له من حديث اعمش و ليس بمحفوظ الخ و تاريخ3؍292ت377 و كتاب الموضوعات لا بن الجوزي 1؍303 وقال : هذا حديث لا يصح الخ]
↰ اس کا راوی محمد بن مروان السدی : متروک الحدیث (یعنی سخت مجروح) ہے۔ [كتاب الضعفاء للنسائي : 538]
اس پر شدید جروح کے لئے دیکھئے امام بخاری کی کتاب الضعفاء [350] مع تحقیقی : تحفۃ الاقویاء [ص102] و کتب اسماء الرجال۔
② حافظ ابن القیم نے اس روایت کی ایک اور سند بھی دریافت کر لی ہے۔
عبدالرحمن بن احمد الاعرج : حدثنا الحسن بن الصباح : حد ثنا ابومعاوية : حد ثنا الاعمش عن ابي صالح عن ابي هريره ’’ الخ [جلاء الافھام ص 54بحوالہ کتاب الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم لابی الشیخ الاصبہانی]
↰ اس کا راوی عبدالرحمن بن احمد الاعرج غیر موثق (یعنی مجہول الحال) ہے۔
سلیمان بن مہران الاعمش مدلس ہیں۔ [طبقات المدلسين : 55؍2والتلخيص الحبير 3؍48ح1181و صحيح ابن حبان، الاحسان طبعه جديده 1؍161و عام كتب اسماء الرجال]
اگر کوئی کہے کہ :
حافظ ذہبی نے یہ لکھا ہے کہ اعمش کی ابوصالح سے معنعن روایت سماع پر محمول ہے۔ [دیکھئے میزان الاعتدال 2؍224]
↰ تو عرض ہے کہ یہ قول صحیح نہیں ہے۔
امام احمد نے اعمش کی ابوصالح سے (معنعن) روایت پر جرح کی ہے۔ دیکھئے سنن الترمذی [207بتحقیقی]
↰ اس مسئلے میں ہمارے شیخ ابوالقاسم محب اللہ شاہ الراشدی رحمہ اللہ کو بھی وہم ہوا تھا۔ صحیح یہی ہے کہ اعمش طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں اور غیر صحیحین میں ان کی معنعن روایات، عدم تصریح و عدم متابعت کی صورت میں، ضعیف ہیں، لہذا ابوالشیخ والی یہ سند بھی ضعیف و مردود ہے۔
↰ یہ روایت من صلى على عند قبري سمعته اس صحیح حدیث کے خلاف ہے جس میں آیا ہے کہ :
إن لله فى الارض ملائكة سياحين يبلغوني من أمتي السلام
’’ بےشک زمین میں اللہ کے فرشتے سیر کرتے رہتے ہیں۔ وہ مجھے میری امت کی طرف سے سلام پہنچاتے ہیں۔ [كتاب فضل الصلوة على النبى صلى الله عليه وسلم للإمام إسماعيل بن إسحاق القاضي : 21 و سنده صحيح، والنسائي 3؍43ح 1283، الثوري صرح بالسماع]
↰ اس حدیث کو ابن حبان [موارد : 2392] و ابن القیم [جلاء الافہام ص 60] وغیرہما نے صحیح قرار دیا ہے۔
خلاصۃ التحقیق : اس ساری تحقیق کا یہ خلاصہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں، وفات کے بعد آپ جنت میں زندہ ہیں۔ آپ کی یہ زندگی اخروی ہے جسے برزخی زندگی بھی کہا جاتا ہے۔ یہ زندگی دنیاوی زندگی نہیں ہے۔ وما علينا إلا البلاغ
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
الشیخ حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

Kya Kisi Shakhs Ke Dar Se MAsjid Me Nahi Jakar Ghar Pe NAmaj Padh Sakte HAi?

Kya Kisi Shakhs Ke Dar Se MAsjid Me Nahi Jakar Ghar Pe NAmaj Padh Sakte HAi?

بہنا میرا سوال ہے محلے کی مسجد میرے گھر کے بہت نزدیک ہے مگر ایک بندا زاتی دشمنی کے تحت مجھے مسجد میں نماز پڑھنے نہیں دیتا کیا میری نماز گھر میں ہوگی جواب فرمادیں جزاک اللہ خیرا
__________________________۔
پنجگانہ نمازیں مسجد میں با جماعت پڑھنا واجب ہے۔ ایک عقلمند مرد کے لئے مسجد میں باجماعت نماز چهوڑنے کے عذروں میں سے یہ ہے کہ بیماری ہے جس کی وجہ سے مسجد تک جانا دشوار ہے، یا کہ کسی کو اپنی جان پر خطرہ ہے کہ اگر وہ مسجد میں نماز پڑهنا جائے گا تو کوئی اس کو راستے میں یا مسجد میں قتل کردے گا، یا اس کو پکڑے گا اور ظلم وزبردستی اس کو جیل میں ڈالے گا، یا کہ ایسا مریض شخص کی عیادت کرے اگر وہ اس مریض کو چهوڑ کر نماز باجماعت ادا کرنے نکلے گا تو یہ مریض ہلاک ہو جائے گا یا اس کو مزید زخم پہنچے گا
اسی طرح کیچڑ یا بارش وغیرہ کے خوف کے پیش نظر سواری پر کهڑے یا چلتے ہوئے نماز پڑهنا درست ہے؛ اس لئے کہ حضرت یعلی بن مرۃ رضی الله عنه نے فرمایا کہ:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ تنگ وادی تک پہنچے تو آپ اپنی سواری پر تھے، آسمان ان کے اوپر اور ان کے پاؤں کے نیچے گیلی زمین تھی اور نماز کا وقت ہوگیا، آپ نے مؤذن کو اذان کا حکم دیا اس نے اذان دی اور اقامت کہی تب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے اور نماز پڑھائی؛ یعنی اشارے کے ساتھـ، سجدے رکوع سے ذرا جھک کر کرتے تھے-
مسند أحمد 4 / 174، سنن ترمذي 2 / 266-267 حدیث نمبر (411)، اوردارقطني 1 / 380-381.
اس حدیث کو امام احمد، اور ترمذی نے روايت كيا ہے، اور انہوں نے کہا ہے کہ: اہل علم کے پاس اس پر عمل ہے ۔
اسی طرح اگر سواری سے اترنے پر اپنے ساتهیوں سے چهوڑنے کا خوف ہے، یا دشمن سے اپنی جان پر خوف ہوتا ہے، یا سواری سے اترنے کے بعد چڑهنے ميں مشکل ہے تووه سواری پر فرض نماز ادا کرنا درست ہے، اور حتی المقدور قبلہ كا رخ استقبال ہونے کی کوشش کرے، رکوع اور سجدہ کرے، اور سجدے میں رکوع سے زیادہ جهکے،
جیساکہ حدیث كے لئے ذكر كيا ہے، اور اس لئے کہ اللہ تعالى کےعموم قول ہے:
ﭘﺲ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﻚ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮨﻮﺳﻜﮯ ﺍس ﺳﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﺭﮨو
لہٰذا درج بالا رعایات کے تناظر میں اگر آپکو اپنی جان کا خطرہ ہے کہ آپ کو راستے میں قتل کر دیا جائے گا ، یا مسجد میں آپکی جان جانے کا ڈر آپکو ہمہ گیر ہے تو آپ پہلے اسکے بچاو کے ہر ممکنہ راستے اختیار کیجیے ۔ مثلاً
➖ آپ اپنے اور فریق کی جانب سے باشعور اور غیر جانبدار منصف مزاج لوگوں کو ایک جگہ جمع کر کے ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھیے اور ان سب کو باجماعت نماز کی اہمیت بتائیے کیونکہ حاضر و موجود شخص وہ سب کچھـ دیکھتا ہے جو غائب نہیں دیکھـ سکتا ہے۔ نیز انہیں بتائیے کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں جہاں صرف اسی کی عبادت کی جاتی ہے اقامتِ نماز اور تلاوتِ قرآن، ذکرو اذکار، دعا التجا کے لئے اور وہاں فضول باتیں شور و غل، لہو و لعب کرنا حرام ہے ۔ اور یہ کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے عبادت گاہیں ہیں ، اللہ تعالیٰ کے وہ گھر ہیں جہاں اس کی عبادت سے کسی مسلمان کو روکنا ظلم ہے اس کے تعلق سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ومن اظلم ممن منع مسجداللہ ان یذکرفیھا اسمہ وسعی فی خرابھا اولئک ماکان لھم ان یدخلوھا الاخائفین لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الاخرۃعذاب عظیم(البقرہ ۲:۱۱۴)
اس شخص سے بڑھ کر ظالم کو ن ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کو شش کرے ، ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہئے ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی اور آخرت میں بھی درد ناک عذاب ہے
سابقہ امم میں بھی ایسے ظالم لوگ گزرے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے گھروں میں اس کی عبادت کرنے سے روکا کرتے تھے خود مکہ کے کفار و مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو کعبۃ اللہ مسجد حرام سے اللہ کی عبادت کرنے سے روکتے تھے تو انہیں سب سے بڑا ظالم کہا گیا ہے۔
لہٰذا آپ لوگ فریق کو سمجھائیے اور ایسا راستہ نکالیے جو مجھے مسجد جانے میں سنسان اور تاریکی میں بھی اس شخص کے شر سے امان کا احساس دے سکے ۔
والله ولي التوفيق
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Share:

​​​​​​​​​​​​​​​​​​​Aazab-E-Qaber KA Tazkera Quran MAjeed Me.

​​​​​​​​​​​​​​​​​​​Aazab-E-Qaber KA Tazkera Quran MAjeed Me

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
🌏 عذاب القبر کا تذکرہ قرآن مجید میں
قرآن میں عذاب قبر سے متعلق روایات کی تصدیق موجود ہے
⚪ (۱) اللہ تعالیٰ کافروں اور مشرکوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْآ اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْآ اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ ٰاٰیتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ (الانعام:۹۳)
’’کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جبکہ وہ سکرات موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ لاؤ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ان باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائیگا جو تم اللہ پر تہمت لگا کر ناحق بکا کرتے تھے اور اسکی آیات کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے‘‘۔
موت کے بعد سے قیامت کے دن تک جو عذاب اللہ کے نافرمان بندوں کو دیا جائے گا اسی کا نام عذاب القبر ہے۔ مرنے کے بعد میت کو عموماً زمین میں ہی گڑھا کھود کر دفن کر دیا جاتا ہے اور پھر قیامت کے قائم ہونے تک نافرمانوں کو قبر کے اندر عذاب میں مبتلا کیا جاتا ہے لہٰذا اسی مناسبت سے اس عذاب کو عذاب القبر کا نام دیا گیا ہے۔
حالانکہ عذاب کا یہ سلسلہ حالت نزع ہی سے جب کہ میت ابھی چارپائی پر ہوتی ہے شروع ہو جاتا ہے اور فرشتے اس کے چہرے اور پیٹھ پر ضربیں لگانی شروع کر دیتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ اس عذاب کا کوئی حصہ دنیا والوں پر ظاہر کر دیتا تو پھر چارپائی نظر آتی اور نہ ہی اس کے آس پاس بیٹھے ہوئے لوگ دکھائی دیتے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس عذاب کا تعلق غیب کے ساتھ ہے اور اللہ تعالیٰ زندہ انسانوں کے سامنے ابھی اسے ظاہر کرنا نہیں چاہتا۔ لہٰذا عموم بلوہ کی وجہ سے اس عذاب کا نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عذاب قبر رکھا ہے۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ ایک شخص ہسپتال میں لوگوں کا علاج کرتا ہے تو لوگ اسے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں اب یہی شخص نماز پڑھے تو لوگ کہتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر صاحب نماز پڑھ رہے ہیں‘‘ حالانکہ نماز پڑھتے ہوئے یہ شخص ڈاکٹری کا کوئی کام نہیں کر رہا ہوتا۔ اب تو اسے نمازی صاحب کہنا زیادہ مناسب تھا لیکن اس شخص کو کوئی عمل کرتے ہوئے کوئی شخص بھی دیکھے گا تو وہ بے ساختہ یہی کہے گا کہ ڈاکٹر صاحب فلاں کام کر رہے ہیں۔ اس مثال سے واضح ہوا کہ اس شخص کا نام ’’ڈاکٹر‘‘ عموم بلوہ کی وجہ سے پڑ گیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین کرام s نے بھی یہ اور اس طرح کی دیگر آیات کو عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ عذاب قبر کا باب یوں قائم کرتے ہیں:
باب ما جاء فی عذاب القبر و قولہ تعالیٰ …… وہ (آیات و احادیث) جو عذاب قبر کے بارے میں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ پھر امام بخاری رحمہ اللہ نے سب سے پہلے اسی آیت کو عذاب قبر کے سلسلہ میں بیان کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا خاص طور پر ذکر ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ موصوف کا دعویٰ ہے کہ وہ امام بخاری و امام ابوحنیفہ کے ساتھ ہیں جبکہ دلائل سے ثابت ہو گا کہ موصوف امام بخاری رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کیا کسی بھی محدث کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ موجودہ دور میں انہوں نے باطل فرقوں کے بوسیدہ دلائل میں پھر سے جان ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
⚪ (۲) دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ وَ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ (الانفال:۵۰)
’’کاش تم اس حالت کو دیکھ سکتے جبکہ فرشتے کافروں کی روحیں قبض کر رہے ہوتے ہیں وہ ان کے چہروں اور ان کے کولہوں پر ضربیں لگاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں ’’لو اب جلنے کی سزا بھگو‘‘۔
⚪ (۳) اسی طرح کا مضمون سورۃ محمد میں بھی ہے:
فَکَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ (محمد:۲۷)
’’پھر اس وقت کیا حال ہو گا جب فرشتے ان کی روحیں قبض کریں گے اور ان کے منہ اور پیٹھوں پر مارتے ہوئے انہیں لے جائیں گے‘‘۔
⚪ (۴) ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
وَ حَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓئُ الْعَذَابِ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْآ ٰالَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ (المؤمن:۴۵، ۴۶)
’’اور آل فرعون خود بدترین عذاب کے پھیر میں آگئے جہنم کی آگ ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کئے جاتے ہیں اور جب قیامت قائم ہو جائے گی تو حکم ہو گا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کر دو‘‘۔
⚪ (۵) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کو بھی عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے۔ فرعون جس کی لاش اللہ تعالیٰ نے عبرت کے لئے محفوظ فرما دی ہے:
فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ ٰاٰیٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ (یونس:۹۲)
’’پس آج ہم تیرے بدن کو نجات دیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لئے نشانی بنے اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو عبرت کے لئے محفوظ فرما دیا جیسا کہ مرتد کاتب وحی جسے زمین نے اپنے اندر جگہ نہیں دی اور دفن کے بعد زمین نے اسے باہر اُگل دیا تھا (صحیح بخاری)۔
اب اگرچہ ان لاشوں پر عذاب کے کوئی اثرات ہمیں نظر نہیں آتے جیسا کہ قبض روح کے وقت مرنے والے پر عذاب یا پٹائی کا کوئی اثر ہم نہیں دیکھتے اور عذاب قبر کی واضح احادیث جن میں دفن کے بعد میت کے مبتلائے عذاب ہونے کا ذکر موجود ہے (اور جن کا بیان تفصیل سے عنقریب کیا جائے گا ان شاء اللہ العزیز) لیکن ان تمام معاملات کا تعلق پردہ غیب سے ہے اس لئے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہیں۔ اس آیت میں آل فرعون صبح و شام جس آگ پر پیش کئے جا رہے ہیں وہی عذاب قبر ہے جس میں اجسام (میتوں) کو آگ پر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ روحیں اول دن سے جہنم میں داخل ہو کر سزا بھگت رہی ہیں۔ اور قیامت کے دن وہ جس اشد العذاب میں داخل ہوں گے اس سے جہنم کا عذاب مراد ہے جس میں وہ روح و جسم دنوں کے ساتھ داخل ہوں گے۔ کیونکہ قیامت کے دن عذاب قبر ختم ہو جائے گا اور صرف عذاب جہنم باقی رہ جائے گا۔
سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ (التوبۃ:۱۰۱)
عنقریب ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے، پھر انہیں بڑے عذاب کے لئے (جہنم کی طرف) لوٹایا جائے گا۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کو بھی عذاب قبر کے باب میں بیان کیا ہے اس آیت میں دوہرے عذاب سے دنیا اور پھر قبر کا عذاب مراد ہے۔ اور عذاب عظیم سے قیامت کے دن کا عذاب مراد ہے۔
⚪ (۶) قوم نوح کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
مِمَّا خَطِیْئٰتِھِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا فَلَمْ یَجِدُوْا لَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْصَارًا
’’اپنے گناہوں کے سبب سے وہ غرق کر دیئے گئے پھر (جہنم کی) آگ میں داخل کر دیئے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ کے سوا انہوں نے اپنے لئے کوئی بھی مددگار نہ پایا‘‘۔ (نوح:۲۵)
اس آیت سے واضح ہوا کہ قوم نوح غرق ہوتے ہی جہنم کی آگ میں داخل ہو گئی اور عذاب کا سلسلہ ان پر جاری ہو گیا۔
⚪ (۷) سیدنا نوح علیہ السلام اور سیدنا لوط علیہ السلام کی بیویوں نے ان پیغمبروں کی بات نہ مانی اور کفر پر مر گئیں۔ چنانچہ موت کے وقت ان سے کہا گیا: وَ قِیْلَ ادْخُلِ النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ
اور ان سے کہا گیا کہ تم دونوں جہنم میں داخل ہو جاؤ داخل ہونے والوں کے ساتھ (التحریم:۱۰)
⚪ (۸) اہل السنۃ والجماعۃ کا عذاب قبر کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ عذاب جسم اور روح دونوں کو ہوتا ہے۔ مرنے کے بعد روح جنت یا جہنم میں داخل کر دی جاتی ہے جبکہ جسم اپنی قبر میں عذاب یا ثواب سے ہمکنار ہوتا رہتا ہے اور یہی عقیدہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ اس لئے کہ اگر روح جسم میں واپس آجائے تو پھر یہ عذاب مردہ کو نہیں بلکہ زندہ کو ہوا جبکہ احادیث صحیحہ وضاحت کرتی ہیں کہ عذاب قبر میت (مردہ) کو ہوتا ہے۔ البتہ سوال و جواب کے لئے میت کی طرف روح کو کچھ دیر کے لئے لوٹایا جاتا ہے اور یہ ایک استثنائی حالت ہے اور روح کے لوٹ جانے کی وہ کیفیت نہیں ہوتی جو دنیا میں تھی بلکہ یہ اعادہ دنیا کے اعادہ کی طرح نہیں ہوتا جیسا کہ عقیدہ طحاویہ کے شارح نے ذکر فرمایا ہے۔
سورۃ نوح کی آیت ۲۵ سے معلوم ہوا کہ پانی میں جسم غرق ہوئے اور جہنم میں جسموں کو نہیں بلکہ ان کی روحوں کو داخل کیا گیا۔ البتہ جسم بھی روح کے ساتھ عذاب میں شریک ہیں۔ جیسا کہ عذاب قبر کی احادیث سے یہ مسئلہ واضح ہے اور ہمارے لئے عذاب کے ان اثرات کو دیکھنا اور محسوس کرنا ناممکن ہے کیونکہ یہ غیب کا معاملہ ہے جسے حواس محسوس کرنے سے قاصر ہیں۔
راحت قبر کے متعلق بھی چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (الفجر:۲۷۔۳۰)۔
’’اے نفس مطمئن: چل اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تو (اپنے انجام نیک سے) خوش (اور اپنے رب کے نزدیک) پسندیدہ ہے۔ شامل ہو میرے (نیک) بندوں میں اور داخل ہو جا میری جنت میں۔
احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ میت سے اس طرح کا خطاب موت کے وقت کیا جاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: (مسند احمد (۲/۳۶۴)، سنن النسائی کتاب الجنائز:۱۸۳۳، صحیح ابن حبان رقم ۳۰۰۳، مستدرک لامام حاکم (۱/۳۵۲، ۳۵۳)،
⚪ (۹) سورۃ یٰسین میں ایک مرد مؤمن کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس نے پیغمبروں کی حمایت کی اور اپنی قوم کے سامنے اپنے ایمان کا برملا اظہار کیا اور جس کی پاداش میں اسے شہید کر دیا گیا۔ آگے ارشاد ہوتا ہے:
قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَ قَالَ ٰیلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ بِمَا غَفَرَ لِیْ رَبِّیْ وَ جَعَلَنِیْ مِنَ الْمُکْرَمِیْنَ (یٰسین:۲۷۔۲۸)
’’اُس شخص سے کہا گیا کہ ’’جنت میں داخل ہو جاؤ‘‘ اس نے کہا کاش میری قوم کو معلوم ہوتا کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے باعزت لوگوں میں کر دیا‘‘ ۔
⚪ (۱۰) الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰھُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ یَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ (سورئہ النحل:۳۲)
وہ پاک (صالح) لوگ کہ جن کی روحیں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں سلام علیکم (تم پر سلام ہو) تم جو عمل کرتے رہے ہو ان کے بدلے میں جنت میں داخل ہو جاؤ۔
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ قبض ارواح کے بعد ہی ارواح کو جنت میں داخل کر دیا جاتا ہے۔ تلک عشرۃ کاملہ۔
قرآن کریم کی ان آیات کو سلف صالحین نے ثواب و عذاب قبر کے سلسلہ میں پیش فرمایا ہے۔
🌏 عذاب القبر کا ذکر احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں
عذاب قبر کی واضح اور مکمل تفصیلات احادیث صحیحہ میں بیان کی گئی ہیں۔
عذاب قبر کے سلسلہ میں بے شمار احادیث موجود ہیں جن میں سے ہم صرف چند ہی احادیث کا یہاں ذکر کرتے ہیں ۔
⚪1 پہلی حدیث: سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت:
یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی‘‘۔ (ابراہیم:۲۷)۔
کے متعلق فرمایا کہ
یہ آیت عذاب القبر کے بارے میں نازل ہوئی۔ (قبر میں میت سے) کہا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ پس وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پس یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ ’’اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ثابت قدم رکھتا ہے قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی‘‘۔
(صحیح مسلم کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا و اھلھا باب عرض المقعد علی المیت و عذاب القبر نیز ملاحظہ فرمائیں صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ما جاء فی عذاب القبر مشکوٰۃ المصابیح کتاب الایمان باب اثبات عذاب القبر)۔
صحیح بخاری میں جناب براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جب مومن کو اس کی قبر میں اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے تو اس کے پاس فرشتے آتے ہیں پھر وہ لا الٰہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ کی گواہی دیتا ہے
پس یہی مطلب ہے آیت: یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِکا۔ (بخاری کتاب الجنائز باب ما جاء فی عذاب القبر)۔
اور ایک روایت میں ہے کہ مسلم سے جب قبر میں سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ لا الٰہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت دیتا ہے اور یہی مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے اس قول کا کہ
’’اللہ تعالیٰ ثابت قدم رکھتا ہے اہل ایمان کو قول ثابت کے ذریعے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں بھی۔
(بخاری کتاب التفسیر باب: یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ ۴۶۹۹)
اس حدیث سے واضح ہوا کہ عذاب القبر کا ذکر قرآن کریم میں بھی موجود ہے اور سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر ۲۷ عذاب القبر ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اور قبر میں میت کو اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے (جیسا کہ صحیح بخاری کی اسی حدیث میں یہ بات موجود ہے) اور اس سے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ قبر کاسوال و جواب حق ہے اور اہل اسلام میں سے کسی نے بھی اس کا انکار نہیں کیا۔ بلکہ تمام اہل ایمان قبر کے سوال و جواب پر ایمان رکھتے ہیں۔ سوال و جواب کے وقت روح کو بھی قبر کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ اور قبر کے مسئلے کا تعلق آخرت کے ساتھ ہے اس لئے اسے دنیا کی زندگی پر قیاس کرنا گمراہی اور جہالت ہے کیونکہ میت کی دنیاوی زندگی ختم ہو چکی ہے اوراب وہ آخرت کے مراحل سے گذر رہی ہے۔
منکرین عذاب القبر احادیث کے انکار میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ وہ حدیث پر تنقید کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا بھی ارتکاب کر جاتے ہیں اور یہ تک نہیں سمجھتے کہ ان کے قلم نے کیا لکھ مارا ہے۔ چنانچہ ڈاکٹر عثمانی صاحب کا ایک انتہائی اندھا مقلد اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتاہے:
’’اسی طرح یہ فرقہ پرست اور قبر پرست قرآن کی مندرجہ ذیل آیت سے ارضی قبر کی زندگی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں … اللہ تعالیٰ ایمان داروں کو دنیا میں بھی ثابت قدم رکھے گا اور آخرت میں بھی۔ یعنی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں ایمانداروں کی مدد کرے گا۔ چونکہ اس آیت کا ذکر بخاری کی حدیث میں عذاب القبر کے ساتھ کیا گیا ہے اس لئے بعض جاہل اور گمراہ بڑے خوش ہوتے ہیں کہ ہمارے عقیدے (مردہ قبر میں زندہ ہو جاتا ہے) (حالانکہ کسی کا بھی یہ عقیدہ نہیں ۔ ابوجابر) کا ثبوت قرآن کی یہ آیت ہے‘‘۔ (دعوت قرآن اور یہ فرقہ پرستی ص۶۷)
یہ ہے ابوانور گدون کی ’’دعوت قرآن‘‘ اور ان کا ’’ایمان خالص‘‘۔ اس آیت کے متعلق خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ اس کا تعلق عذاب القبر کے ساتھ ہے لیکن موصوف نے فتویٰ لگایا ہے ’’فرقہ پرست‘‘ ’’قبر پرست‘‘ ’’جاہل‘‘ ’’گمراہ‘‘ ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر توہین کرنے والا کبھی مومن نہیں ہو سکتا اور ایسے شخص کی موت کفر کے علاوہ کسی اور چیز پر نہیں ہو سکتی۔ اور شیطان رُشدی جیسے لوگوں کا انجام اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ و ذالک جزاء الظالمین۔ تفصیل کے لئے ہماری کتاب ’’دعوت قرآن کے نام سے قرآن و حدیث سے انحراف‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔
⚪ (2)۔ دوسری حدیث: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک جب بندہ قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس کے ساتھی اس سے پیٹھ موڑ کر لوٹتے ہیں اور وہ ابھی ان کی جوتیوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے کہ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اور اس کو اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ تو اس شخص یعنی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس مومن کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ تو اپنا ٹھکانہ جہنم میں دیکھ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے جنت کے ٹھکانے سے بدل دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر وہ اپنے دونوں ٹھکانے دیکھتا ہے۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے ذکر کیا گیا ہے کہ پھر اس کی قبر ستر ہاتھ چوڑی کر دی جاتی ہے اور اسے قیامت تک سرسبز و شادابی سے بھر دیا جاتا ہے۔ پھر سیدنا قتادہ رحمہ اللہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرف پلٹے یعنی سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی بقیہ حدیث بیان کی۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: اور منافق یا کافر سے کہا جاتا ہے کہ تو اس شخص (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے متعلق کیا کہتا ہے؟ پس وہ کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا۔ میں وہی کہتا ہوں جو لوگ کہتے تھے۔ پس اس سے کہا جاتا ہے کہ نہ تو نے عقل سے پہچانا اور نہ قرآن پڑھا (اور اس سے رہنمائی حاصل کی) یہ کہہ کر اُسے لوہے کے گرزوں سے مارا جاتا ہے اور اس کے چیخنے چلانے کی آواز جنوں اور انسانوں کے سوا قریب کی تمام چیزیں سنتی ہیں‘‘۔
(صحیح بخاری کتاب الجنائز۔ باب ما جاء فی عذاب القبر۔ صحیح مسلم کتاب الجنۃ۔ سیدنا قتادہ رحمہ اللہ کا قول صحیح مسلم میں ہے)۔
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ میت کو جب قبر میں رکھا جاتا ہے تو اسے قبر میں اٹھا کر بٹھایا جاتا ہے اور اس سے سوال و جواب ہوتاہے۔ مومن کو قبر میں راحت و آرام ملتا ہے جبکہ منافق و کافر کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔ اس حدیث میںیہ بھی ہے کہ میت دفن کر کے واپس جانے والے ساتھیوں کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے اور یہ ایک استثنائی حالت ہے اور اس کا مقصد صرف یہ ہے کہ میت یہ جان لے کہ جس اہل و عیال کے لئے اس نے آخرت کو فراموش کر رکھا تھا آج وہ اسے تنہا چھوڑ کر جا رہے ہیں اور قبر میں ایمان اور نیک اعمال کے سوا کوئی چیز اسے نجات نہیں دلا سکتی۔
بعض حضرات نے حدیث کے اس حصہ کوخلاف قرآن قرار دے دیا ہے حالانکہ یہ حدیث خلاف قرآن نہیں بلکہ ایک استثنائی صورت ہے۔ جیسا کہ ہم نے مردار کی مثال پچھلے اوراق میں بیان کی تھی۔ نیز قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا ہے کہ ’’آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے‘‘۔ یعنی مردوں کو سنانا آپ کے اختیار میں نہیں ہے لیکن جوتوں کی چاپ مردوں کو اللہ تعالیٰ سناتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے:
ان اللّٰہ یسمع من یشآء
بے شک اللہ تعالیٰ جس کو چاہے سنا دے۔
گویا اللہ تعالیٰ اگر کسی مردے کو کچھ سنانا چاہے تو وہ اس بات پر قادر ہے جیسا کہ وہ مردوں کو دفن کے بعد جوتوں کی آواز سناتا ہے لہٰذا اس حدیث پر منکرین کا اعتراض سرے سے غلط ہے۔ میت کے جوتیوں کی آواز سننے کا ذکر بہت سی احادیث میں ہے اور یہ صحیح ترین احادیث ہیں لہٰذا ان احادیث کا انکار گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے۔
عثمانی فرقہ کے بانی ڈاکٹر مسعود الدین عثمانی نے بھی اس حدیث کو صحیح مانا ہے لیکن اس کی تاویل کی ہے۔ اس کا پہلے یہ کہنا تھا کہ اس حدیث میں حقیقت نہیں بلکہ مجاز بیان کیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جوتیوں کی آواز سنی جا سکتی ہے کہ میت کے پاس فرشتے آجاتے ہیں اور یہ تأویل اس نے بعض دیوبندی علماء کی کتابوں سے اخذ کی ہے۔ کچھ عرصہ بعد اس نے اس حدیث کی دوسری تأویل یہ پیش کی کہ میت فرشتوں کے جوتیوں کی چاپ سنتی ہے۔ لیکن (اول) تو اس حدیث کا سیاق و سباق ہی اس کا ساتھ نہیں دیتا۔ (دوم) اس کے بعد والی صحیح بخاری کی حدیث اس حدیث کی مزید وضاحت و تشریح بیان کرتی ہے۔ اور (سوم) صحیح مسلم کی مختصر حدیث اس بات کی تأویل کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوڑ دیتی ہے اور وہ حدیث یہ ہے:سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ان المیت اذا وضع فی قبرہ انہ لیسمع خفق نعالھم اذا انصرفوا
’’بے شک جب میت کو قبر میں رکھا جاتا ہے تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتی ہے جبکہ وہ (اسے دفنا کر) واپس لوٹتے ہیں‘‘۔
(صحیح مسلم کتاب الجنتہ)۔
اس حدیث میں فرشتوں کے آنے کا ذکر ہی نہیں ہے اور صرف دفن کر کے واپس لوٹنے والوں کا ذکر ہے۔ لہٰذا اس حدیث سے وہ باطل مفروضہ پاش پاش ہو جاتا ہے مگر افسوس کہ جو لوگ قرآن و حدیث کے بجائے ڈاکٹر موصوف پر ایمان رکھتے ہیں تو وہ ڈاکٹر موصوف کی اس باطل تأویل کو درست مانتے ہیں اور صحیح حدیث کو رَدّ کر دیتے ہیں۔ قل بئسما یامرکم بہ ایمانکم ان کنتم مومنین۔
⏪قبر کا حقیقی مفہوم سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
قرآن کریم کی طرح احادیث میں بھی قبر کا لفظ اسی ارضی قبر کے لئے استعمال کیا گیا ہے اگر ہم صرف صحاح ستہ ہی کی احادیث نقل کریں تو مضمون کافی طویل ہو جائے گا لہٰذا ہم عثمانی صاحب کی کتاب ’’یہ قبریں یہ آستانے‘‘ ہی سے چند احادیث نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں
⚪ (3)۔ تیسری حدیث:عن جندب رضی اللہ عنہ قال سمعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یقول الا وان من کان قبلکم کانوا یتخذون قبور انبیائھم و صالحیھم مساجد الا فلا تتخذوا القبور مساجد انی انھاکم عن ذالک (مشکوۃ ص:۶۹ (رواہ مسلم)
جندب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگو! کان کھول کر سن لو کہ تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں، انہوں نے اپنے انبیاء اور اپنے اولیاء کی قبروں کو عبادت گاہ اور سجدہ گاہ بنایا تھا۔ سنو! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا میں اس فعل سے تم کو منع کرتا ہوں۔
⚪ (4)۔ چوتھی حدیث:عن جابر رضی اللہ عنہ قال نھی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ان یجصص القبر و ان یبنی علیہ وان یقعد علیہ (رواہ مسلم۔ مشکوۃ ص:۱۴۸)
جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ کرنے سے منع فرمایا اور اس سے بھی کہ قبر کے اوپر کوئی عمارت بنائی جائے یا قبر پر بیٹھا جائے۔ (مسلم)۔
⚪ (5)۔ پانچویں حدیث: عن ثمامۃ بن شفی قال کنا مع فضالۃ بن عبید رضی اللہ عنہ بارض روم برودس فتوفی صاحب لنا فامر فضالۃ بقبرہ فسوی ثم قال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یامر بتسویتھا (مسلم)
ثمامہ بن شفی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ ہم لوگ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ ارضِ روم کے جزیرہ رودس میں تھے کہ ہمارے ایک ساتھی کا انتقال ہو گیا۔ فضالہ رضی اللہ عنہ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم ان کی قبر کو برابر کر دیں پھر فرمایا کہ میں نے نبی کو ایسا ہی حکم دیتے ہوئے سنا ہے۔ (مسلم جلد ص۳۵ مصری)۔
⚪ (6)۔ چھٹی حدیث: عن ابی الھیاج الاسدی قال قال لی علی الا ابعثک علی ما بعثنی علیہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لا تدع تمثالا الا طمستہ ولا قبرا مشرفا الا سویتہ (رواہ مسلم)
ابو الہیاج اسدی روایت کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ اے ابو الہیاج کیا میں تم کو اس کام کے لئے نہ بھیجوں جس کام کے لئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا اور وہ کام یہ ہے کہ جاؤ اور جو تصویر تم کو نظر آئے اس کو مٹا دو اور جو قبر اونچی ملے اسے برابر کر دو۔ (مشکوۃ ص ۱۴۸، مسلم)۔
(بحوالہ یہ قبریں آستانے ص۲، ۵،۶)
ان احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوا کہ قبروں سے مراد یہی ارضی قبریں ہیں اور کتاب کا نام ’’یہ قبریں یہ آستانے‘‘ بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ’’یہ قبریں‘‘ میں یہ اسم اشارہ قریب کے لئے ہے جو انہیں ارضی قبروں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ موصوف نے یہ کتابچہ بھی قبر پرستی کے خلاف ہی لکھا ہے۔ عوام انہی قبروں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں اور وہاں جا جا کر نذر ونیاز اور چڑھاوتے چڑھاتے ہیں، کوئی شخص بھی کسی برزخی قبر پر یہ سب کچھ کرنے کے لئے نہیں جاتا۔
Share:

Aazab-E-Qaber Haque Hai (Part 2)

Aazab_E_Qaber HAque HAi  (Part 2)

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُهعذاب ِقبر حق ہے ┈┈┈• پارٹ2  
 Aazab-E-Qaber Haque Hai (Part 1)
”ابن حزم رحمہ اللہ وغیرہ کا یہ نظریہ کہ قبر میں صرف روح کو سوال ہو گا، درست نہیں۔ ان کا نظریہ تو اور بھی برا ہے، جو کہتے ہیں کہ عذاب صرف جسم کو ہو گا روح کو نہیں۔ احادیث صحیحہ سے دونوں نظریات کا بطلان ثابت ہوتا ہے۔ اہل سنت کا اجماع ہے کہ عذاب قبر روح اور بدن دونوں کو ہو گا، جزا و سزا روح کو الگ سے بھی ملے گی اور جب بدن کے ساتھ ہو گی تب بھی۔ یاد رکھئے ! کہ عذاب قبر ہی عذاب برزخ ہے، ہر مستحق عذاب مرنے کے بعد اپنی سزا پا لے گا، اسے قبر میںدفنایا جائے، درندوں کی خوراک بن جائے، جل جائے، مٹی بن جائے، ہوا میںبکھر جائے یا پانیوں میں غرق ہو جائے، اس کی روح اور بدن کو وہ عذاب پہنچتا رہے گا جو قبر میں ہونا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر بلا کمی بیشی ایمان لے آئیے، آپ کی حدیث میں بے وجہ احتمالات نہ پیدا کیجئے، اس کے ہدایت پر مبنی مفہوم میں جھول نہ لائیے، اللہ ہی جانتا ہے کہ ان لوگوں کی تعداد کیا ہے ، جو حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس طرح کا رویہ اپنا کر جادہ حق سے بھٹک گئے، یاد رکھئے! الٹا فہم ہی ہر بدعت و ضلالت کی ما ں ہے ، یہ ہر خطا کی اصل ِاصول ہے، گو کہ برا ارادہ بھی ان برائیوں کا موجب ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جہان تین ہیں، دنیا، جہان ِبرزخ اور جہان ِقرار، ہر جہان کے احکام اس کے ساتھ ہی خاص ہیں، انسان بدن و روح کا مرکب ہے، تو احکام دنیا، بدن و روح پر لاگو ہوں گے، احکام برزخ بھی بدن و روح پر لاگو ہیں، جب حشر کا دن ہو گا ، تو عذا ب و ثواب بدن اور روح دونوں پر ہو گا، آپ جان چکے ہیں کہ قبر کا باغیچہ جنت ہونا یا پاتال جہنم ہونا عقل کے عین موافق ہے، حق ہے جس میں شک کی گنجائش نہیں، اسی سے مومن و غیر مومن کی تمییز ہو تی ہے، لازما جا ن لیجئے! کہ قبر کی جزاء و سزاء دنیا کی جزاء و سزاء سے الگ ہیں، ممکن ہے کہ اللہ قبر کی مٹی اور پتھروں ہی کو مرنے والے کے لئے اتنا گرم کر دے کہ وہ انگارے سے زیادہ تکلیف دہ ہو، جب کہ زندہ اسے ہاتھ لگائیں تو انہیں محسوس بھی نہ ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ساتھ لیٹے دو شخص ایک نار جہنم میں ہو دوسرا باغ جنت میں۔ اس کو پڑوس سے جہنم کی آگ نہ لپیٹے، جہنم والے کو پڑوسی کی جنت سے مس نہ ہو، اللہ کی قدرت اس سے بھی بلند اور بالا ہے، لیکن مصیبت ہے کہ انسان ان چیزوں کا انکاری ہو جاتا ہے جو اس کی عقل میں سما نہ پائیں، حالاں کہ اللہ نے ہمیں اس دنیا میں ہی ایسے عجائب دکھا رکھے ہیں جو عذاب قبر سے بھی زیادہ تعجب خیز ہیں، جب اللہ چاہتا ہے اپنے بندوں پر بعض چیزیں ظاہر کر دیتا ہے، اگر اللہ ہر بندے پر یہ چیزیں ظاہر کردے تو مکلف بنانے اور ایمان بالغیب کی حکمت باقی نہ رہتی، لوگ مردوںکو دفنانا چھوڑ دیتے ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ آپ مردوں کو دفنانا چھوڑ دو گے تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ وہ آپ کو قبر میں عذاب دئیے جانے والوں کی آواز سنا دیتا۔”
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ : ٤٠٠، ٤٠١)
( مفسر قرآن، مورخ اسلام، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٧٤ھ) لکھتے ہیں:
وَہٰذِہِ الْآیَۃُ أَصْلٌ کَبِیرٌ فِي اسْتِدْلَالِ أَہْلِ السُّنَّۃِ عَلٰی عَذَابِ الْبَرْزَخِ فِي الْقُبُورِ، وَہِيَ قَوْلُہ، : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) .
”قبر میں برزخی عذاب کے اثبات پر یہ آیت اہل سنت کی عظیم دلیل ہے : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) (وہ صبح و شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں۔)”
(تفسیر ابن کثیر : ٦/١٤٦)
) علامہ مفسر قرطبی رحمہ اللہ (٦٠٠۔٦٧١ھ) لکھتے ہیں:
فَتَضَمَّنَتِ السُّورَۃُ الْقَوْلَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَقَدْ ذَکَرْنَا فِي کِتَابِ التَّذْکِرَۃِ أَنَّ الْإِیمَانَ بِہٖ وَاجِبٌ، وَالتَّصْدِیقَ بِہٖ لَازِمٌ، حَسْبَمَا أَخْبَرَ بِہِ الصَّادِقُ، وَأَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحْيِ الْعَبْدَ الْمُکَلَّفَ فِي قَبْرِہٖ، بِرَدِّ الْحَیَاۃِ إِلَیْہِ، وَیَجْعَلُ لَہ، مِنَ الْعَقْلِ فِي مِثْلِ الْوَصْفِ الَّذِي عَاشَ عَلَیْہِ، لِیَعْقِلَ مَا یُسْأَلُ عَنْہُ، وَمَا یُجِیبُ بِہٖ، وَیَفْہَمَ مَا أَتَاہُ مِنْ رَبِّہٖ، وَمَا أَعَدَّ لَہ، فِي قَبْرِہٖ، مِنْ کَرَامَۃٍ وَّہَوَانٍ، وَہٰذَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَالَّذِي عَلَیْہِ الْجَمَاعَۃُ مِنْ أَہْلِ الْمِلَّۃِ .
”سورۃ عذاب قبر پر دال ہے۔ ہم اپنی کتاب ”التذکرۃ ” میں بیان کر چکے ہیں کہ اس پر ایمان واجب اور اس کی تصدیق لازم ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا کہ اللہ مکلف بندے کو قبر میں زندہ کرے گا، اس کی طرف زندگی لوٹائے گا۔ اسے دنیا جیسی عقل دی جائے گی، تا کہ سوال و جواب سمجھ پائے، اللہ کی عطاؤں کا شعور ہو، اس کی تکریم یا عذاب، جو قبر میں اس کے لئے رکھا گیا ہے ، سمجھ سکے ، یہ اہل سنت کا مذہب ہے، اسی موقف پر اہل ملت کی ایک جماعت ہے۔”
(تفسیر قرطبي :٢٠/١٧٣)
نیز فرماتے ہیں:
أَنْکَرَتِ الْمُلْحِدَۃُ مَنْ تَمَذْہَبَ مِنَ الْـإِسْلَامِیِّینَ بِمَذْہَبِ الْفَلَاسِفَۃِ عَذَابَ الْقَبْرِ وَأَنَّہ، لَیْسَ لَہ، حَقِیقَۃٌ .
”بے دین ملحد فلسفیوں نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔”
(التذکرۃ بأحوال المَوْتٰی وأمورالأخرۃ، ص : ٣٧١)
(٢١) علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ (٦٣٥۔٧٠٢ھ) لکھتے ہیں:
تَصْرِیحُہ، بِإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ عَلٰی مَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَاشْتَہَرَتْ بِہِ الْـأَخْبَارُ .
”انہوں نے مذہب اہل سنت کے مطابق عذاب قبر کے اثبات کی تصریح کی ہے۔ اس بارے میں احادیث مشہور ہیں۔”
(أحکام الأفہام شرح عمدۃ الأحکام : ١/٢٣٢)
(٢٢) علامہ فاکہانی (٦٥٤۔٧٣٤ھ) لکھتے ہیں:
نَصٌّ صَرِیحٌ عَلٰی إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ أَجَارَنَا اللّٰہُ مِنْہُ کَمَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَقَدِ اشْتَہَرَتِ الْـأَخْبَارُ بِذٰلِکَ .
”عذاب قبر کے اثبات پر صریح نص موجود ہے۔ اللہ ہمیں اس سے محفوظ ر کھے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے اور اس بارے احادیث بہت مشہور ہیں۔”
(ریاض الأفہام شرح عمد ۃ الأحکام : ١/٢٣٢)
(٢٣) علامہ ابن العطار رحمہ اللہ (٦٥٤۔٧٢٤ھ) فرماتے ہیں:
دَلِیلٌ عَلٰی إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ؛ وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَہُوَ مِمَّا یَجِبُ اعْتِقَادُ حَقِیقَتِہٖ، وَہُوَ مِمَّا نَقَلَتْہُ الْـأُمَّۃُ مُتَواتِرًا؛ فَمَنْ أَنْکَرَ عَذَابَ الْقَبْرِ، أَوْ نَعِیمَہ،، فَہُوَ کَافرٌ؛ لِـأَنَّہ، کَذَّبَ اللّٰہُ تَعَالٰی، وَرَسُولَہ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ فِي خَبَرِہِمَا .
”یہ عذاب قبر کے اثبات پر دلیل ہے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے۔ اس پر اعتقاد واجب ہے۔ اسے امت نے تواتر کے ساتھ بیان کیا ہے، جس نے عذاب قبر کا انکار کیا، وہ کافر ہے کیوں کہ اس نے اللہ اور رسول کو جھٹلا دیا ہے۔”
(العدۃ في شر ح العمدۃ في أحادیث الأحکام : ١/١٣٩، ١٤٠)
(٢٤) علامہ ابن سید الناس رحمہ اللہ (٦٧١۔٧٣٤ھ) لکھتے ہیں:
فِیہِ التَّصْرِیحٌ بِّإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ عَلٰی مَا ہُوَ الْمَعْرُوفُ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَاشْتَہَرَتْ بِہِ الْـأَخْبَارُ، مِنْہَا قَوْلُہ، : عَلَیْہِ السَّلَامُ لَوْلَا أَنْ تُدَافِنُوا لَدَعَوْتُ أَنْ یُّسْمِعَکُمْ مِّنْ عَذَابِ الْقَبْرِ .
”اس میں تصریح ہے کہ عذاب قبر ثابت ہے، اہل سنت کے ہاں یہی معروف ہے، اس کے بارے میں احادیث مشہور ہیں، ان میں سے ایک حدیث یہ بھی ہے: ‘اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ آپ مردوں کو دفنانا چھوڑ دو گے، تو میں اللہ سے دعا کرتا کہ آپ کو ان کی آواز سنائے، جنہیں قبر میں عذاب دیا جا رہاہے۔”
(النَّفْح الشَّذِي شرح جامع الترمذي : ٢/١٨٢)
(٢٥) شارح بخاری علا مہ کرمانی (٧١٧۔٧٨٦ھ) لکھتے ہیں:
مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ، لِـأَنَّ الْعَقْلَ لَا یَمْنَعُہ، وَالشَّرْعُ وَرَدَ بِہٖ فَوَجَبَ قُبُولُہ، وَلَا یَمْنَعُ مِنْہُ تَفَرُّقَ الْـأَجْزَاءِ فَإِنْ قِیلَ نَحْنُ نُشَاہِدُ الْمَیِّتَ عَلٰی حَالِہٖ فَکَیْفَ یُسْأَلُ وَیُقْعَدُ وَیُضْرَبُ؟ فَالْجَوَابُ أَنَّہ، غَیْرُ مُمْتَنِعٌ کَالنَّائِمِ فَإِنَّہ، یَجِدُ أَلَمًا وَّلَذَّۃً، وَنَحْنُ لَا نُحِسُّہ، وَکَذَا کَانَ جِبْرِیلُ یُکَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَلَمْ یُدْرِکْہُ الْحَاضِرُونَ .
”اہل سنت کا مذہب عذاب قبر کا اثبات ہے۔ اس پر شریعت کی نصوص موجود ہیں اور یہ عقلا محال بھی نہیں، سو اسے قبول کرنا واجب ہے، اعضائے جسمانی کا مختلف ٹکڑوں میں ہونا بھی عذاب قبر کو مانع نہیں۔ اگر کوئی کہے کہ میت ویسے ہی پڑی رہتی ہے، اسے کب بٹھایا جاتا ہے، سوال کیا جاتا ہے یا مارا جاتا ہے ، کبھی مشاہدہ نہیں ہوا؟ تو جو اب یہ ہے کہ مشاہدے کے بغیر ایسا ہو جانا ممکن ہے۔ آپ سوئے ہوئے شخص کو نہیں دیکھتے، وہ تکلیف بھی محسوس کرتا ہے، لذت محسوس کرتا ہے، مگر ہم نہیں دیکھ پاتے، اسی طرح جبریلu نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کیا کرتے تھے، مگر حاضرین سن یا دیکھ نہیںپاتے تھے۔”
(الکوکب الدراري في شرح صحیح البخاري : ٧/١١٨)
(٢٦) علامہ مغلطائی حنفی(٦٨٩۔٧٦٢ھ) لکھتے ہیں:
وَفِي ہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ وَغَیْرِہَا إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ عَلٰی مَا ہُوَ الْمَعْرُوفُ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَاشْتَہَرَتْ بِہِ الْـأَخْبَارُ .
”ان اور دیگر احادیث میں عذاب قبر کا اثبات ہے، جیسا کہ اہل سنت کے ہاں معروف ہے اور اس کے بارے میں روایات مشہور ہیں۔”
(شرح ابن ماجۃ : ١/١٥٩)
علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م : ٧٩٠ھ) لکھتے ہیں:
مَسْأَلَۃُ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَہِيَ أَسْہَلُ وَلَا بُعْدَ وَلَا نَکِیرَ فِي کَوْنِ الْمَیِّتِ یُعَذَّبُ بِرَدِّ الرُّوحِ إِلَیْہِ عَارِیَۃً ثُمَّ تَعْذِیبُہ، عَلٰی وَجْہٍ لَّا یَقْدِرُ الْبَشَرُعَلٰی رُؤْیَتِہٖ کَذٰلِکَ وَلَا سَمَاعِہٖ، فَنَحْنُ نَرٰی الْمَیِّتَ یُعَالِجُ سَکَرَاتِ الْمَوْتِ وَیُخْبِرُ بِآلَامٍ لَّا مَزِیدَ عَلَیْہَا وَلَا نَرٰی عَلَیْہِ مِنْ ذٰلِکَ أَثَرًا وَّکَذٰلِکَ أَہْلُ الْـأَمْرَاضِ الْمُؤْلِمَۃِ، وَأَشْبَاہُ ذٰلِکَ مِمَّا نَحْنُ فِیہِ مِثْلُہَا، فَلِمَاذَا یُجْعَلُ اسْتِبْعَادُ الْعَقْلِ صَادًّا فِي وَجْہِ التَّصْدِیقِ بِأَقْوَالِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟
”عذاب قبر کا مسئلہ عام فہم ہے، بعد از عقل نہیں ہے۔ اس میں کوئی نکارت نہیںکہ عاریۃ روح لوٹا کر ایسی صورت میں عذاب دیا جائے کہ انسان اسے دیکھنے، سننے پر قادر نہ ہوئے۔ ہم قریب المرگ لوگوں کو دیکھتے ہیں، سکرات موت کی حالت میں ہوتا ہے، وہ صرف تکلیف کی خبر دیتا ہے، نہ ہم اس کا اثر اس پر دیکھتے ہیں۔ یہی صورت حال تکلیف میں مبتلا مریضوں کی ہے، ہم دیکھ نہیں پاتے، تو پھر کیوں عقل کو اخبار رسول صلی اللہ علیہ وسلم ٹھکرانے کا ذریعہ بنائیں؟”
(الاعتصام : ٢/٨٤٢۔٨٤٣)
(٢٧) علامہ عراقی رحمہ اللہ (٧٢٥۔٨٠٦ھ) لکھتے ہیں:
وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَقَدْ تَّظَاہَرَتْ عَلَیْہِ أَدِلَّۃُ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ وَلَا یَمْتَنِعُ فِي الْعَقْلِ أَنْ یُّعِیدَ اللّٰہُ تَعَالَی الْحَیَاۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ وَیُعَذِّبَہ،، وَإِذَا لَمْ یَمْنَعْہُ الْعَقْلُ وَوَرَدَ بِہٖ الشَّرْعُ وَجَبَ قَبُولُہ،، وَقَدْ خَالَفَ فِي ذٰلِکَ الْخَوَارِجُ وَمُعْظَمُ الْمُعْتَزِلَۃِ وَبَعْضُ الْمُرْجِئَۃِ وَنَفَوْا ذٰلِکَ .
”یہ اہل سنت کا مذہب ہے۔ اس بارے میں قرآن و سنت کے دلائل واضح ہیں۔ عقل اس بات کا انکار نہیں کرتی کہ اللہ تعالی جسم کے کسی جزو میںز ندگی لوٹا دے اور اسے عذاب دے۔ اس پر قرآن و سنت کے دلائل اور عقل کی موافقت موجود ہے، لہٰذا اسے تسلیم کرنا واجب ہے۔ خوارج، اکثرمعتزلہ اوربعض مرجیہ اس کا انکار کرتے ہیں۔”
(طَرْ ح التقریب في شرح التثریب : ٣/٣٠٦)
(٢٨) علامہ طیبی (م :٧٤٣ھ) لکھتے ہیں:
اعْلَمْ أَنَّ مَذْہَبَ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَقَدْ تَّظَاہَرَتْ عَلَیْہِ الدَّلَائِلُ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا)الْـآیَۃَ، وَأَمَّا الْـأَحَادِیثُ فَلَا تُحْصٰی کَثْرَۃً، وَلَا مَانِعَ فِي الْعَقْلِ أَنْ یَّخْلُقَ اللّٰہُ تَعَالَی الْحَیٰوۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ أَوْ فِي جَمِیعِہٖ عَلَی الْخِلَافِ بَیْنَ الْـأَصْحَابِ فَیُثِیبُہ، وَیُعَذِّبُہ،، وَإِذَا لَمْ یَمْنَعْہُ الْعَقْلُ وَوَرَدَ الشَّرْعُ بِہٖ وَجَبَ قُبُولُہ، وَاعْتِقَادُہ، وَلَا یَمْنَعُ مِنْ ذٰلِکَ کَوْنُ الْمَیِّتِ قَدْ تَّفَرَّقَتْ أَجْزَاؤُہ،، کَمَا یُشَاہَدُ فِي الْعَادَۃِ، أَوْ أَکَلَتْہُ السِّبَاعُ وَالطُّیُورُ وَحِیتَانُ الْبَحْرِِ، کَمَا أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُعِیدُہ، لِلْمَحْشَرِ، وَہُوَ سُبْحَانَہ، قَادِرٌ عَلٰی ذٰلِکَ .
”اہل سنت کا مذہب عذاب قبر کا اثبات ہے۔ اس پر کتا ب و سنت کے دلائل واضح ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) (وہ صبح وشام جہنم پر پیش کئے جاتے ہیں۔) اس پر احادیث تو بے شمار ہیں۔ عقل اس کی انکاری نہیں کہ اللہ جسم کے جزو یا کل جسم میں زندگی پیدا کر کے اسے جزا و سزا دے۔ عقل مانع نہیںاور شرعی دلائل موجود ہیں، سو یہ بات ماننا اور اس کے مطابق اعتقاد رکھنا واجب ہے۔ میت کے اجزا بکھرے ہوں، درند، پرند ، چرند اسے کھا گئے ہوں، پھر بھی اللہ اسے اسی طرح واپس لا ئے گا، جس طرح روز محشر لائے گا اور اللہ اس پر مکمل قدرت رکھنے والا ہے۔”
(شرح الطِیْبِي : ٢/٥٨٩)
علامہ محمد بن ابی بکر دمامینی (م: ٨٢٨ھ) لکھتے ہیں:
وَقَدْ کَثُرَتِ الْـأَحَادِیثُ فِیہِ حَتّٰی قَالَ غَیْرُ وَاحِدٍ إِنَّہَا مُتَوَاتِرَۃٌ لَّا یَصِحُّ عَلَیْہَا التَّوَاطُؤُ وَإِنْ لَّمْ یَصِحَّ مِثْلُہَا لَمْ یَصِحَّ شَيْءٌ مِّنْ أَمْرِ الدِّینِ .
”اس کے بارے میں بکثرت احادیث موجود ہیں، کئی علماء نے ان کے متواتر ہونے کی صراحت کی ہے، جن میں جھوٹ پر متفق ہونا محال ہے۔ اگر ایسی مسائل ثابت نہیں، تو دین کا کوئی مسئلہ صحیح نہیں ہو سکتا۔”
(فیض القدیر للمناوي : ٢/٣٩٧)
(٢٩) علامہ ابن وزیر (٧٧٥۔٨٤٠ھ) لکھتے ہیں:
وَذَکَرَ إِجْمَاعُ أَہْلِ السُّنَّۃِ أَنَّہ، یَجُوزُ وُقُوعُ الِامْتِحَانِ فِي الْبَرْزَخِ کَمَا یَقَعُ فِي الدُّنْیَا .
”اہل سنت کا اجماع ہے کہ برزخ میں اسی طرح امتحان ہو سکتاہے، جس طرح دنیا میں ہوتا ہے۔”
(العواصِم والقواصِم في الذبّ عن سنۃ أبي القاسم : ٥/٣٤٧)
(٣٠) علامہ برمادی (٧٦٣۔٨٣١) لکھتے ہیں:
ثُبُوتُ عَذَابِ الْقَبْرِ کَمَا ہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ .
”عذاب قبر کا ثبوت اہل سنت کا مذہب ہے۔”
(اللامع الصبیح بشرح الجامع الصبیح : ٥/٢٤٧)
(٣١) علامہ محمد بن خلیفہ (م:٨٢٧ھ) لکھتے ہیں:
تَوَاتَرَتِ الْـأَحَادِیثُ بِإِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ .
”عذاب قبر کے اثبات پر احادیث متواتر ہیں ۔”
(إکمال إکمال المعلم شرح صحیح مسلم : ٣/٣٢٥)
(٣٢) شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (٧٧٣۔٨٥٢ھ) لکھتے ہیں :
وَاکْتَفٰی بِإِثْبَاتِ وُجُودِہٖ خِلَافًا لِّمَنْ نَّفَاہُ مُطْلَقًا مِّنَ الْخَوَارِجِ وَبَعْضِ الْمُعْتَزِلَۃِ کَضِرَارِ بْنِ عَمْرٍو وَبِشْرٍ الْمَرِیسِيِّ وَمَنْ وَّافَقَہُمَا وَخَالَفَہُمْ فِي ذٰلِکَ أَکْثَرُ الْمُعْتَزِلَۃِ وَجَمِیعُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَغَیْرِہِمْ .
”عذاب قبر کا وجود کا اثبات موجود ہے، خوارج، بعض ضرار بن عمرو اور بشر مریسی جیسے معتزلہ اور ان کے موافقین نے اس کا انکار کیا ہے، جب کہ اکثر معتزلہ اور جمیع اہل سنت اثبات کے قائل ہیں۔”
(فتح الباري شرح صحیح البخاري : ٣/٢٣٣)
شارح صحیح بخاری علامہ عینی حنفی (٧٢٦۔٨٥٥ھ) لکھتے ہیں:
إِنَّ الْمُلْحِدَۃَ وَمَنْ یَّذْہَبُ مَذْہَبَ الْفَلَاسِفَۃِ انْکَرُوہُ أَیْضًا، وَالْإِیمَانُ بِہٖ وَاجِبٌ لَّازِمٌ حَسْبَ مَا أَخْبَرَ بِہِ الصَّادِقُ، صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ اللّٰہَ یُحْيِ الْعَبْدَ وَیَرُدُّ الْحَیَاۃَ وَالْعَقْلَ، وَہٰذَا نَطَقَتْ بِہِ الْـأَخْبَارُ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃ، وَکَذٰلِکَ یُکْمِلُ الْعَقْلَ لِلصِّغَارِ لِیَعْلَمُوا مَنْزِلَتَہُمْ وَسَعَادَتَہُمْ، وَقَدْ جَاءَ أَنَّ الْقَبْرَ یَنْضَمُّ عَلَیْہِ کَالْکَبِیرِ .
”ملحدین اور فلاسفہ نے بھی اس کا انکار کیا ہے۔ اس پر ایمان واجب اور لازم ہے، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے۔ اللہ بندے کو زندہ کرے گا، اس کی عقل واپس لائے گا۔ احادیث یہی بتاتی ہیں، یہ اہل سنت کا مذہب ہے، اسی طرح بچوں کو اتنی عقل دی جائے گی کہ اپنی منزل و سعادت پہچان لیں، یہ بھی آیا ہے کہ قبر اسے بڑے کی طرح جھٹکا دے گی۔”
(عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري : ٣/١١٨)
نیز فرماتے ہیں:
فِیہِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ، وَأَنْکَرَ ذٰلِکَ ضِرَارُ بْنُ عَمْرٍو وَّبِشْرُ الْمَرِّیسِيُّ وَأکْثَرُ الْمُتَأَخِّرینَ مِنَ الْمُعْتَزلَۃِ .
”اس میں عذاب قبر کا اثبات ہے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے، ضرار بن عمرو اور بشر مریسی نے اس کا انکار کیا ہے۔”
(عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري : ٨/١٤٥)
(٣٤) شارح صحیح بخاری، علامہ احمد قسطلانی رحمہ اللہ (٨٥١۔٩٢٣ھ) لکھتے ہیں:
قَدْ تَّظَاہَرَتِ الدَّلَائِلُ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ عَلٰی ثُبُوتِہٖ، وَأَجْمَعَ عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ، وَلَامَانِعَ فِي الْعَقْلِ أَنْ یُّعِیدَ اللّٰہُ الْحَیَاۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ، أَوْ فِي جَمِیعِہٖ عَلَی الْخِلَافِ الْمَعْرُوفِ، فَیُثِیبُہ، وَیُعَذِّبُہ، وَإِذَا لَمْ یَمْنَعْہُ الْعَقْلُ وَوَرَدَ بِہِ الشَّرْعُ وَجَبَ قُبُولُہ، وَاعْتِقَادُہ، وَلَا یَمْنَعُ مِنْ ذٰلِکَ کَوْنُ الْمَیِّتِ قَدْ تَّفَرَّقَتْ أَجْزَاؤُہ،، کَمَا یُشَاہَدُ فِي الْعَادَۃِ، أَوْ أَکَلَتْہُ السِّبَاعُ وَالطُّیُورُ وَحِیتَانُ الْبَحْرِ کَمَا أَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُعِیدُہ، لِلْحَشْرِ، وَہُوَ سُبْحَانَہ، وَتَعَالٰی، قَادِرٌ عَلٰی ذٰلِکَ، فَلَا یُسْتَبْعَدُ تَعَلُّقُ رُوحِ الشَّخْصِ الْوَاحِدِ فِي آنٍ وَّاحِدٍ بِّکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْ أَجْزَائِہِ الْمُتَفَرِّقَۃِ فِي الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ فِإِنَّ تَعَلُّقَہ، لَیْسَ عَلٰی سَبِیلِ الْحُلُولِ حَتّٰی یَمْنَعَہُ الْحُلُولُ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْحُلُولِ فِي غَیْرِہٖ، قَالَ فِي مَصَابِیحِ الْجَامِعِ وَقَدْ کَثُرَتِ الْـأَحَادِیثُ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ .
”کتاب و سنت کے دلائل عذاب قبر کے ثبوت پر واضح ہیں، اہل سنت کا اس پر اجماع ہے، عقل اس بات کا بالکل انکار نہیں کرتی کہ اللہ جسم کے حصے میں یا تمام جسم میں زندگی پیدا کر کے عذاب و ثواب کا معاملہ کرے، عقل اس کو قبول کرتی اور شریعت کی نصوص اسے بیان کرتی ہیں، لہٰذا عذاب قبر کا اثبات واجب ہے، میت کے اجزاء بکھر جائیں، درندے کھا لیں، یا پرندے کھا لیں اللہ اسی طرح زندہ کر سکتا ہے ، جس طرح حشر میں زندہ کرے گا، ایک ہی شخص کی روح کا اس کے مشرق و مغرب میں بکرے اجزاء سے تعلق نا ممکن نہیں، ہاں روح جسم میں حلول نہیں کرے گی، صاحب مصابیح الجامع کہتے ہیں : عذاب قبر کی احادیث بہت زیادہ ہیں، بہت سے علماء نے ان کے متواتر ہونے کا دعوی کیا ہے ۔”
(إرشاد الساري شرح صحیح البخاري : ٢/٤٦٠)
(٣٥) شارح صحیح بخاری، علامہ ابن ملقن رحمہ اللہ (٧٢٣۔٨٠٤ھ) لکھتے ہیں:
وَفِیہِ دَلَالَۃٌ عَلٰی إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، وَفِیْہِ الْمَسْئَلَۃُ فِي الْقَبْرِ قَالَ أَبُو الْمَعَالِي : تَوَاتَرَتِ الْـأَخْبَارُ وَلَمْ یَزَلْ ذٰلِکَ مُسْتَفِیضًا قَبْلَ ظُہُورِ أَہْلِ الْبِدَعِ، والسُّؤَالُ یَقَعُ عَلٰی أَجْزَاءِ یَعْلَمُہَا اللّٰہُ تَعَالٰی مِنَ الْقَلْبِ وَغَیْرِہٖ یُحْیِیہَا اللّٰہُ تَعَالٰی ویُوَجِّہُ السُّؤَالَ عَلَیْہَا .
”اس میں عذاب قبر کے اثبات کی دلیل ہے۔ یہ اہل سنت کا مذہب ہے۔ قبر میں سوال جواب کا ثبو ت بھی ہے۔ علامہ ابو المعالی کہتے ہیں : اس مسئلے میں متواتر حادیث موجود ہیں۔ اہل بدعت کے ظہور سے پہلے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کرتا تھا۔ سوال کے لئے دل کو یا جسے اللہ چاہے گا، اس عضو کو زندہ کیا جائے گا اور اس سے سوال ہوں گے۔”
(التوضیح لشرح الجامع الصحیح : ٣/٤٣٤)
(٣٦) علامہ ابو یحییٰ زکریا انصاری (٨٢٣۔٩٢٦ھ)لکھتے ہیں:
بَابُ مَا جَاءَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ أَيْ مِنَ الْـآیَاتِ وَالْـأَحَادِیثِ، وَلَا مَانِعَ مِنْ أَنْ یُّعِیدَ اللّٰہُ الْحَیَاۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ، أَوْ فِي جَمِیعِہٖ فَیُثِیبُہ،، أَوْ یُعَذِّبُہ،، وَلَا یَمْنَعُ مِنْ ذٰلِکَ کَوْنُ الْمَیِّتِ قَدْ تَّفَرَّقَتْ أَجْزَاؤُہ،، أَوْ أَکَلَتْہُ السِّبَاعُ وَالطُّیُورُ وَحِیتَانُ الْبَحْرِ، کَمَا أَنَّہ، یُعِیدُہ، لِلْحَشْرِ، وَہُوَ تَعَالٰی قَادِرٌ عَلٰی ذٰلِکَ، فَلَا یُسْتَبْعَدُ تَعَلُّقُ رُوحِ الشَّخْصِ الْوَاحِدِ فِي آنٍ وَّاحِدٍ بِّکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْ أَجْزَائِہِ الْمُتَفَرِّقَۃِ فِي الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِ، فَإِنَّ تَعَلُّقَہ، لَیْسَ عَلٰی سَبِیلِ الْحُلُولِ حتّٰی یَمْنَعَہُ الْحُلُولُ فِي جُزْءٍ آخَرَ، بَلْ ہُوَعَلٰی سَبِیلِ التَّدْبِیرِ .
”عذاب قبر کے بارے میں احادیث و آیات کا بیان، یہ بات عقلا محال نہیں کہ اللہ جسم کے ایک جزء یا تمام جسم میں زندگی پیدا کر کے اسے عذا ب و ثواب دے، میت کے اجزاء بکھر چکے ہوں، درند، پرنداور سمند ر کی مچھلیاں کھا چکی ہوں، اللہ اسے زندہ کرکے عذاب دینے پر قادر ہے، ایک ہی شخص کی روح کا اس کے تمام مشارق و مغارب میں بکھرے اجزاء سے تعلق نا ممکن نہیں، روح اجزاء جسم میں حلول نہیں کرتی بل کہ یہ تعلق اللہ کی طرف سے ایک خاص ہیت میں ہوتا ہے۔”
(مِنْحَۃ الباري بشرح صحیح البخاري : ٣/٤٩٩)
(٣٧) علامہ ،ابن المبرد (٨٤٠۔٩٠٩ھ) کہتے ہیں:
وَجَحَدُوا عَذَابَ الْقَبْرِ، وَأَنَّ الْکُفَّارَ فِي قُبُورِہِمْ یُعَذَّبُونَ، وَقَدْ أَجْمَعَ عَلٰی ذٰلِکَ الصَّحَابَۃُ وَالتَّابِعُونَ .
”اہل بدعت نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے۔ کفار اپنی قبروں میں عذاب دئیے جائیں گے، اس پر صحابہ و تابعین کا اجماع ہے۔”
(جمع الجیوش، ص : ١٤٤)
(٣٨) علامہ ابن حجر ہیتمی(٩٠٩۔٩٧٤ھ) لکھتے ہیں:
ذَہَبَ أَہْلُ السُّنَّۃِ إِلٰی أَنَّ اللّٰہَ یُحْيِ الْمُکَلَّفَ فِي قَبْرِہٖ وَیَجْعَلُ لَہ، مِنَ الْعَقْلِ مِثْلَ مَا عَاشَ عَلَیْہِ لِیَعْقِلَ مَا یُسْأَلُ عَنْہُ وَیُجِیبَ عَنْہُ وَمَا یَفْہَمُ بِہٖ مَا أَتَاہُ مِنْ رَّبِّہٖ وَمَا أُعِدَّ لَہ، فِي قَبْرِہٖ مِنْ کَرَامَۃٍ وَّہَوَانٍ وَبِہٰذَا نَطَقَتِ الْـأَخْبَارُ وَالْـأَصَحُّ أَنَّ الْعَذَابَ عَلَی الرُّوحِ وَالْجَسَدِ .
”اہل سنت کا مذہب ہے کہ اللہ، مکلف کو قبر میں زندہ کر کے اسے دنیا کی عقل جیسی عقل عطا کرے گا تا کہ سوالات سمجھ کر ان کے جوابات دے سکے۔ جو اللہ اسے دے اسے سمجھ سکے۔ اس کی قبر میں کی جانے والی تعظیم یا رسوائی کی پہچان ہو۔ احادیث یہی بتاتی ہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ عذاب روح اور جسد دونوں کو ہو گا۔”
(الفتاوٰی الفقہیۃ الکبرٰي : ٢/٩)
(٣٩) علامہ عبد الروف مناوی (٩٥٢۔١٠٣١ھ) لکھتے ہیں:
فَعَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَہُوَ مَا نُقِلَ مُتَوَاتِرًا فَیَجِبُ اعْتِقَادُہ، وَیُکَفَّرُ مُنْکِرُہ، .
”اہل سنت کے نزدیک عذاب قبر حق ہے۔ اس کے متعلق روایات متواتر ہیں۔ اس پر اعتقاد واجب اور اس کامنکر کافر ہے۔”
(فیض القدیر : ٢/٨٠)
نیز فرماتے ہیں:
وَقَدْ تَّظَاہَرَتِ الدَّلَائِلُ مِنَ الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ عَلٰی ثُبُوتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَجْمَعَ عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ .
”کتاب و سنت کے دلائل ظاہر ہیں کہ عذاب قبر ثابت ہے۔ اس پر اہل سنت کا اجماع ہے۔”
(فیض القدیر : ٢/٣٩٧)
(٤٠) حافظ سیوطی رحمہ اللہ (٨٤٩۔٩١١ھ) لکھتے ہیں:
قَالَ الْعُلَمَاءُ : عَذَابُ الْقَبْرِ ہُوَ عَذَابُ الْبَرْزَخِ أُضِیفَ إِلَی الْقَبْرِ لِـأَنَّہُ الْغَالِبُ وَإِلَّا فَکُلُّ مَیِّتٍ وَّإِذَا أَرَادَ اللّٰہُ تَعَالٰی تَعْذِیبَہ، نَالَہ، مَا أَرَادَ بِہٖ قُبِرَ أَوْ لَمْ یَقْبُرْ وَلَوْ صُلِبَ أَوْ غَرِقَ فِي الْبَحْرِ أَوْ أَکَلَتْہُ الدَّوَابُّ أَوْ حُرِّقَ حَتّٰی صَارَ رَمَادًا أَوْ ذُرِّيَ فِي الرّیحِ وَمَحَلُّہُ الرُّوحُ وَالْبَدَنُ جَمِیعًا بِّاتِّفَاقِ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَکَذَا القَوْلُ فِي النَّعِیمِ .
”علماء کہتے ہیں کہ عذاب قبر ہی عذاب برزخ ہے۔ اس کی نسبت قبر کی طرف اس لئے کی گئی ہے کہ یہ اکثر قبر ہی میں ہوتا ہے۔ میت قبر میں ہو یا نہ ہو، غرق ہو جائے، درندے کھا لیں، جل کرراکھ ہو جائے یا ہوا میں اڑا دیاجائے، جب اللہ چاہے گا اسے عذاب دے گا۔ عذاب روح اور بدن دونوں کو دیا جائے گا۔ اس پر اہل سنت کا اجماع ہے، یہی معاملہ نعمتوں کا ہے۔”
(شرح الصُّدور بشرح حال المَوتٰی، ص : ٨١)
(٤١) ملا علی قاری حنفی (١٠١٩ھ) لکھتے ہیں:
وَالْـأَحَادِیثُ فِي ذٰلِکَ کَثِیرَۃٌ فِي الْمَبْنٰی، وَقَدْ تَّوَاتَرَتْ بِحَسْبِ الْمَعْنٰی، وَأَجْمَعُوا عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ، خِلَافاً لِّبَعْضِ أَہْلِ الْبِدْعَۃِ .
”اس کے بارے میں بہت ساری احادیث موجود ہیں، جو تواتر معنوی کے درجے کی ہیں۔ اس پر اہل سنت کا اجماع ہے، جب کہ اہل بدعت اس کے منکر ہیں۔”
(شرح مسند أبي حنیفۃ، ص : ٣٦٨)
(٤٢) علامہ ابن عابدین شامی حنفی (١١٩٨۔١٢٥٢ھ) لکھتے ہیں:
قَالَ أَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ وَّسُؤَالُ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ وَّضَغْطَۃُ الْقَبْرِ حَقٌّ لٰکِنْ إِنْ کَانَ کَافِرًا فَعَذَابُہ، یَدُومُ إِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَیُرْفَعُ عَنْہُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ وَشَہْرَ رَمَضَانَ فَیُعَذَّبُ اللَّحْمُ مُتَّصِلًا بِّالرُّوحِ وَالرُّوحُ مُتَّصِلًا بِّالْجِسْمِ فَیَتَأَلَّمُ الرُّوحُ مَعَ الْجَسَدِ، وَإِنْ کَانَ خَارِجًا عَنْہُ، وَالْمُؤْمِنُ الْمُطِیعُ لَا یُعَذَّبُ بَلْ لَّہ، ضَغْطَۃٌ یَّجِدُ ہَوْلَ ذٰلِکَ وَخَوْفَہ، وَالْعَاصِي یُعَذَّبُ .
”اہل سنت کے نزدیک عذاب قبر، منکر نکیر کے سوال اور قبر کا جھٹکا حق ہے، لیکن کافر کو دائمی عذاب ہو گا۔ جمعہ اور رمضان میں بہر حال اٹھا لیا جاتا ہے (یہ بے دلیل بات ہے از ناقل)، جسم اور روح دونوں کو عذاب دیا جاتا ہے۔ جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی تکلیف محسوس کرتی ہے، اگرچہ روح جسم میں موجود نہ ہو۔ فرمانبردار مومن کو عذاب نہیںدیا جائے گا۔ اسے صرف جھٹکا دیا جائے گا، اس کا ڈر اور خوف اسے رہے گا، جب کہ گنہگار عذاب دیا جائے گا۔”
(رد المُحتار علی در المُخْتار المعروف بہٖ فتاوٰی شامي : ٢/١٦٥)
یہ عبارت علامہ ابو المعین نسفی حنفی (٤١٨۔٥٠٨ھ) کی ہے، جسے علامہ طحاوی نے ”حاشیۃ الطحاوی علی مراقی الفلاح : ١/٥٢٤) اور علامہ حموی حنفی نے ”غمز عیون البصائر فی شرح الاشباہ والنظائر ۔”میں ذکر کیا ہے۔
فقہ حنفی کی معتبر کتاب، جسے پانچ سو حنفی علما ء نے مرتب کیا ہے، میں ہے :
کُفِّرَ بِإِنْکَارِ رُؤْیَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی عَزَّ وَجَلَّ بَعْدَ دُخُولِ الْجَنَّۃِ وَبِإِنْکَارِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَبِإِنْکَارِ حَشْرِ بَنِي آدَمَ لَا غَیْرُہِمْ وَلَا بِقَوْلِہٖ أَنَّ الْمُثَابَ وَالْمُعَاقَبَ الرُّوحُ فَقَطْ کَذَا فِي الْبَحْرِ الرَّائِقِ .
”جنت میںرویت الٰہی ،عذاب قبر اور حشر کا منکر کافر ہے، لیکن جو کہتا ہے کہ عذاب ثواب صرف روح کو ہو گا وہ کافر نہیں۔ بحر الرائق میں اسی طرح لکھا ہے۔”
(فتاوٰی عالمگیري : ٢/٢٧٤)
(٤٣) علامہ صنع اللہ حنفی (١١٢٠ھ) لکھتے ہیں:
فَإِنْ قِیلَ : عَذَابُ الْقَبْرِ وَثَوَابُہ، ثَابِتٌ لِّلرُّوحِ وَالْبَدَنِ، فَیَلْزَمُ الْإِتِّصَالُ بَیْنَھُمَا بَعْدَ الْمَوْتِ؟ قُلْنَا : ذَالِکَ حَقٌّ، وَالْإِیمَانُ بِہٖ وَاجِبٌ، وَہُوَ مِنَ الْغَیْبِ، وَاتِّصَالُ ذَالِکَ لَا یَعْلَمُ کَیْفِیَّتَہ، إِلَّا الْعَلِیمُ الْخَبِیرُ . وَمَنْ تَأَمَّلَ قُدْرَۃَ اللّٰہِ وَعَجِائِبَ تَدْبِیرِہٖ، وَغَرَائِبَ صُنْعِہٖ لَمْ یَسْتَنْکِفْ عَنْ قُبُولِ الْإِیمَانِ بِہٖ .
”کوئی کہے کہ عذاب قبر کا روح اور جسم کو ماننے سے لازم آتا ہے کہ موت کے بعد بھی ان میں اتصال ہوتا ہے۔ ہماری گزارش ہے کہ یہ حق ہے۔ اس پر ایمان واجب ہے۔ یہ غیبی امور میں سے ہے اور اس کے اتصال کی کیفیت علیم اور خبیر ذات ہی جانتی ہے۔ جو اللہ کی قدرت، اس کے تدبیری عجائبات اور قدرت کے کرشموں میں تدبر کرے، وہ اس پر ایمان لانے سے انکار نہیں کر سکتا۔”
(سیف اللّٰہ علی من کذب علی أولیاء اللّٰہ، ص ٤٥)
(٤٤) حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔٥٧٩ھ) لکھتے ہیں:
وَقَدْ دَّلَّ ہٰذَا الْحَدِیثُ عَلٰی عَذَابِ الْقَبْرِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْإِیمَانَ بِعَذَابِ الْقَبْرِ وَاجِبٌ لِّلْـأَحَادِیثِ الْوَارِدَۃِ فِیہِ، وَہُوَ مَذْکُورٌ فِي الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ أَبِي أَیُّوبَ، وَزَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَۃَ، وَأُمِّ خَالِدٍ .
”یہ حدیث عذاب قبر پر دلالت کرتی ہے۔ ذہن نشین رکھئے کہ عذاب قبر پر احادیث نبویہ کی بنا پر ایمان واجب ہے، اس بارہ میں سیدنا ابوایوب ا نصا ر ی ، سیدنا زید بن ثابت، سیدنا عبداللہ بن عباس، سیدنا جابر، سیدہ عائشہ اور سیدہ ام خالدy سے احادیث بیان ہوئی ہیں۔”
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین : ٢/٨٥)
(٤٥) ابو الوفا بن عقیل (٤٣١۔٥١٣ھ) منکرین عذاب قبر کے شبہات کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
الْإِیمَانُ وَاجِبٌ بِّالتَّعْذِیبِ مِنْ غَیْرِ تَفْصِیلٍ .
”عذاب قبر پر بغیر تفصیل پوچھے ایمان واجب ہے۔”
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین لابن الجوزی : ٢/٨٥)
(٤٦) کورانی حنفی (٨١٣۔٨٩٣ھ) کہتے ہیں:
وَفِي الْحَدِیثُ دَلَالَۃٌ صَرِیحَۃٌ عَلٰی عَذَابِ الْقَبْرِ وَالرُّوحِ عِنْدَ أَہْلِ الْحَقِّ .
”اس حدیث میں عذاب قبر اور روح پر صریح دلالت ہے۔”
(الکوثر الجاري إلی ریاض أحادیث البخاري : ٣/٣٤٨)
(٤٧) حافظ خطابی رحمہ اللہ (٣١٩۔٣٨٨) لکھتے ہیں:
وَفِیہِ إِثْبَاتٌ عَذَابُ الْقَبْرِ .
”اس حدیث میں عذاب قبر کا اثبات ہے۔”
(معالم السنن : ١/١٩)
(٤٨) امام ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ (٢٦٠۔٣٢٤ھ) اہل بدعت کے بارے میں لکھتے ہیں:
وَجَحَدُوا عَذَابَ الْقَبْرِ، وَأَنَّ الْکُفَّارَ فِي قُبُورِہِمْ یُعَذَّبُونَ، وَقَدْ أَجْمَعَ عَلٰی ذٰلِکَ الصَّحَابَۃُ وَالتَّابِعُونَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ أَجْمَعِینَ .
”گمراہوں نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے، نیز کہ کفار اپنی قبروں میں عذاب دئیے جائیں گے، جب کہ اس پر صحابہ اور تابعین کا اجماع ہے۔”
(الإبانۃ عن أصول الدیانۃ، ص : ١٥)
نیز فرماتے ہیں:
وَأَجْمَعُوا عَلٰی أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَإِنَّ النَّاسَ یُفْتَنُونَ فِي قُبُورِہِمْ بَعْدَ أَنْ یُّحْیَوْنَ فِیھَا وَیُسْأَلُونَ، فَیُثَبِّتُ اللّٰہُ مَنْ أَحَبَّ تَثْبِیتَہ، .
”اہل سنت کا اجماع ہے کہ عذاب قبر حق ہے۔ لوگوں کو قبروں میں زندہ کیا جائے گا اور آزمایا جائے گا، اللہ جسے چاہے گا ثابت قدم رکھے گا۔”
(رسالۃ إلی أہل الثغر، ص : ٦٢)
(٤٩) علامہ شاطبی (م :٧٩٠) لکھتے ہیں:
فَرَدُّوا الْـأَحَادِیثَ الْمُتَوَاتِرَۃَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَفِتْنَتِہٖ .
”اہل بدعت نے عذاب قبر اور فتنہ قبر کے بارے میں متواتر احادیث کا انکار کر دیا ہے۔”
(الاعتصام : ٢/٨٤٩)
(٥٠) امام اہل سنت ابو بکر بن ابی داو د (م :٣١٦ھ) اپنے قصیدہ میں فرماتے ہیں:
وَقُلْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ حَقٌّ مُوضِحٌ .
”یہ عقیدہ رکھیں کہ عذاب قبر واضح حق ہے۔”
(الشریعۃ للآجري : ٥/٢٥٦٢، وسندہ، صحیحٌ)
اس قصیدہ کے بارے میں امام ابوبکر بن ابی دواد فرماتے ہیں:
ہٰذَا قَوْلِي وَقَوْلُ أَبِي وَقَوْلُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ وَّقَوْلُ مَنْ أَدْرَکْنَا مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ وَمَنْ لَّمْ نُدْرِکْ مِمَّنْ بَّلَغَنَا عَنْہُ، فَمَنْ قَالَ عَلَیَّ غَیْرَ ہٰذَا، فَہُوَ کَذَّابٌ .
”میرا، میرے والد محترم امام ابوداود، امام احمد بن حنبل، ان اہل علم کا ہے، جن سے ہماری ملاقات ہوئی اور جن سے ملاقات نہیں ہو سکی، صرف ان کے عقیدے پر اطلاع ملی ان سب کا یہی عقیدہ ہے۔ جو اس کے خلاف کوئی عقیدہ میرے متعلق بیان کرے، وہ جھوٹا ہے۔”
(الشریعۃ للآجري : ٥/٢٥٦٢، وسندہ، صحیحٌ)
(٥١) امام ابو الحسین آجری رحمہ اللہ (م : ٣٦٠ھ) فرماتے ہیں:
مَا أَسْوَأَ حَالَ مَنْ کَذَّبَ بِہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ لَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَّعِیدًا وَّخَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِینًا .
”ان احادیث کا انکار ی کتنا برا شخص ہے۔ وہ گمراہی کی گہری کھائی میں جا گرا ہے اور واضح خسارے کا سودا گر ہے۔”
(الشریعۃ للآجري : ٣/١٢٨٥)
مسئلہ عذاب قبر اہل سنت کے عقائد میں سے ہے، جس پر بہت ساری قرآنی آیات اور احادیث متواترہ دلالت کرتی ہیں۔ اس کے حق ہونے پر اہل حدیث کا اجماع و اتفاق ہے، جس نے اہل سنت کا اتفاقی فہم نظر انداز کیا وہ ذلیل اور گمراہ ہے، اس کی رائے بدعت اور گم راہی ہے، فہم و منہج سلف صالحین کو ترک کرنا در حقیقت قرآن و حدیث سے دشمنی ہے ، جس نے قرآن و حدیث کی من پسند تعبیر کی وہ راہ ہدایت سے بھٹک گیا، دنیا میں جتنے گمراہ فرقے پیدا ہوئے سب نے قرآن و حدیث کو نفسانی خواہشات کی بھینٹ چڑھایا، محدثین کے دشمنوں نے قرآن و سنت پر عقلی اعتراضات وارد کئے ہیں، ایسا کوئی مسلمان کر سکتا ہے بھلا؟ جو اپنی نارسا عقل سے وحی کو جھٹلا دے، اگر اسلامی عقائد و اعمال کی بنیاد عقل پر ہوتی، تو بعثت انبیا ئے کرام کا مقصد فوت ہو جاتا۔ صحابہ کرام اور ائمہ عظام کے بارے میں علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م:٧٩٠ھ) لکھتے ہیں:
وَالرَّأْيُ إِذَا عَارَضَ السُّنَّۃَ فَہُوَ بِدْعَۃٌ وَّضَلَالَۃٌ فَالْحَاصِلُ مِنْ مَّجْمُوعِ مَا تَقَدَّمَ أَنَّ الصَّحَابَۃَ وَمَنْ بَّعْدَہُمْ لَمْ یُعَارِضُوا مَا جَاءَ فِي السُّنَنِ بِآرَائِہِمْ، عَلِمُوا مَعْنَاہُ أَوْ جَہِلُوہُ، جَرٰی لَہُمْ عَلٰی مَعْہُودِہِمْ أَوْ لَا، وَہُوَ الْمَطْلُوبُ مِنْ نَقْلِہٖ، وَلْیَعْتَبِرْ فِیہِ مَنْ قَدَّمَ النَّاقِصَ وَہُوَ الْعَقْلُ عَلَی الْکَامِلِ وَہُوَ الشَّرْعُ .
”رائے اور سنت کا تصادم ہو جائے، تو رائے بدعت اور گمراہی کہلائے گی۔ ہماری گزشتہ نگارشات کا حاصل یہ ہے کہ صحابہ و تابعین، احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کامعنی جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، عقل میں آئے یا نہ آئے، حدیث سے عقلیں نہیں لڑاتے تھے۔ یہی مطلوب شریعت ہے۔ شریعت و عقل کے تصادم میں ناقص پر کامل کو مقدم کیا جائے اور کامل شریعت ہی ہے۔”
(الاعتصام : ٢/٨٥٠)
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔٥٩٧ھ) لکھتے ہیں:
وَلَیْسَ ہٰذَا بِأَوَّلِ خَبَرٍ یَّجِبُ عَلَیْنَا الْإِیمَانُ بِہٖ وَإِنْ جَہِلْنَا مَعْنَاہُ، فَإِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ وَنَعِیمِہٖ وَسُؤَالِ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ فِیہِ حَقٌّ، وَلَا یُطَّلَعُ عَلٰی حَقِیقَۃِ ذٰلِکَ، وَمَتٰی ضَاقَتِ الْحِیَلُ فِي کَشْفِ الْمُشْکِلَاتِ لِلْـإِحْسَاسِ لَمْ یَبْقَ إِلَّا فَرْضُ التَّسْلِیمِ .
”یہ کوئی پہلی حدیث تو نہیں کہ جس کے معنی سے عدم واقفیت کے با وجود ہم اسے تسلیم کرتے ہیں، قبر میں جزا و سزا اور منکر نکیر کے سوال جواب حق ہیں، اس کی حقیقت کا ہمیں علم نہیں، جب مشکلات شریعت حد عقل سے ما وراء ہیں، تو سوائے تسلیم و رضا کے کوئی چارہ ہی نہیں۔”
(کشف المشکل من حدیث الصحیحین : ٣/٣٨٣)
عذاب قبر کا انکار بشر بن غیاث مریسی (م : ٢١٨ھ) جیسے زندیق، بدعتی اور گم راہوں نے کیا ہے، اس کے عقائد کفریہ تھے ، قرآن کو مخلوق کہتا تھا، محدثین نے اس کی تکفیر کر رکھی تھی، امام عثمان بن سعید، دارمی نے اس کے رد میں”الرد علی بشر المریسی فیما ابتدعہ من التاویل لمذہب الجہمیہ”نامی کتا ب لکھی ہے۔ امام اسحاق بن اہویہ (١٦٦۔٢٣٨ھ) فرماتے ہیں:
دَخَلَ حُمَیْدٌ الْطُّوسِيُّ عَلٰی أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ، وَعِنْدَہ، بِشْرٌ الْمَرِّیسِيُّ، فَقَالَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ لِحُمَیْدٌ أَتَدْرِي مَنْ ہٰذَا یَا أَبَا غَانِمٍ؟ قَالَ لَا، قَالَ ہٰذَا بِشْرٌ الْمَرِّیسِيُّ، فَقَالَ حُمَیْدٌ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ، ہٰذَا سَیِّدُ الْفُقَہَاءِ ، ہٰذَا قَدْ رَفَعَ عَذَابَ الْقَبْرِ وَمَسْأَلَۃَ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ، وَالْمِیزَانَ، والصِّرَاطَ، أُنْظُرْ ہَلْ یَقْدِرُ أَنْ یَّرْفَعَ الْمَوْتَ، ثُمَّ نَظَرَ إِلٰی بِشْرٍ، فَقَالَ : لَوْ رَفَعْتَ الْمَوْتَ کُنْتَ سَیِّدُ الْفُقَہَاءِ حَقًّا .
”حمید طوسی رحمہ اللہ امیرالمومنین کے ہاں گئے، ان کے پاس بشر مریسی کھڑا تھا۔ امیر المومنین کہنے لگے : حمید جانتے ہو، یہ کون ہیں؟ کہا : نہیں۔ امیر المومنین کہنے لگے : یہ بشر مریسی ہے، تو حمید کہنے لگے : یہ تو فقہا کے سردار ہیں، جناب نے عذاب ِقبر ختم کر دیا اور منکر نکیر، میزان، پل صراط وغیرہ بھی اسلام بدر کر دئیے ہیں۔ دیکھئے ا ب موت ہی بچی ہے، قریب ہے کہ اس کا بھی انکار ہو جائے، پھر بشر سے کہنے لگے، ارے آپ تو فقہاء کے سردار ہوئے، موت کو بھی اسلام سے نکال دیجئے۔”
(تاریخ بغداد للخطیب بغدادي : ٧/٦٠، المنتظم لابن الجوزي : ١١/٣٢، وسندہ، صحیحٌ)
آخر میں علامہ، عبد السلام بن عبد الرحمن بن ابی الرجال ، ابو الحکم المعروف ابن برجان (م : ٥٣٦ھ) کا واقعہ ملاحظہ ہو:
أَنَّہُمْ دَفَنُوا مَیِّتًا بِّقَرْیَتِہِمْ فِي شَرَفِ أَشْبِیلِیَّۃَ فَلَمَّا فَرَغُوا مِنْ دَفْنِہٖ قَعَدُوا نَاحِیَۃً یَتَحَدَّثُونَ وَدَابَّۃٌ تَرْعٰی قَرِیبًا مِّنْہُم فَإِذَا بِالدَّابَّۃِ قَدْ أَقْبَلَتْ مُسْرِعَۃً إِلَی الْقَبْرِ فَجَعَلَتْ أُذُنَہَا عَلَیْہِ کَأَنَّہَا تَسْمَعُ ثُمَّ وَلَّتْ فَارَّۃً ثُمَّ عَادَتْ إِلَی الْقَبْر فَجَعَلَتْ أُذُنَہَا عَلَیْہِ کَأَنَّہَا تَسْمَعُ ثُمَّ وَلَّتْ فَارَّۃً فَعَلَتْ ذٰلِکَ مَرَّۃً بَّعْدَ أُخْرٰی
قَالَ أَبُو الْحَکَمِ فَذَکَرْتُ عَذَابَ الْقَبْرِ وَقَوْلِ النَّبِيِّ أَنَّہُمْ لَیُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُہُ الْبَہَائِمُ .
”انہوں نے اشبیلیہ کی ایک بستی میں ایک میت کی تدفین کی، تدفین سے فارغ ہو کر قریب ہی باتیں کرنے بیٹھ گئے، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک جانور جو پاس ہی چر رہا تھا، تیزی سے اس قبر کے پاس آیا اور کان لگا کے کچھ سننے لگا، پھر اچانک وہاں سے بھاگ گیا، پھر اس ایساکئی بار کیا۔ ابوالحکم کہتے ہیں : یہ منظر دیکھا، تو میرا ذہن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلا گیا کہ انہیں عذاب دیا جاتا ہے ، جسے چوپائے سنتے ہیں۔”
(الروح لابن القیم، ص : ٥٣، وسندہ، صحیحٌ)
سیدنا بسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیںکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے:
اَللّٰہُمَّ أَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِي الْـأُمُورِ کُلِّہَا وَأَجِرْنَا مِنْ خِزْيِ الدُّنْیَا وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ.
”الٰہی! ہمارے تمام معاملات سنوار دے، ہمیں دنیا کی رسوائیوں اور عذاب قبر سے بچا ۔”
(تاریخ ابن عساکر : ٥٢/٤٣٠، وسندہ، صحیحٌ)
✧------------------✦✦✦------------------✧✧------------------
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
فضیلةالشیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

Aazab-E-Qaber Haque Hai. (Part 1)

Aazab-E-Qaber HAque Hai

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
عذاب ِقبر حق ہے ┈┈┈┈ پارٹ 1
عذا ب قبر حق ہے۔ قرآن کریم، احادیث متواترہ اور اجماع امت اس کی دلیل ہے، جب کہ ائمہ سلف کی تصریحات اس پر شاہد ہیں، ہدایت قرآن و حدیث کی پیروی کا نام ہے۔ ائمہ سلف اسی پر گامزن تھے۔ سلف کی مخالفت در حقیقت ہوائے نفس کی پیروی ہے۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوَا ہُ بِغَیْرِ ہُدًی مِّنَ اللّٰہِ . (القَصَص : ٥٠)
”جو اللہ کی نازل کردہ ہدایت چھوڑ کر ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے، اس سے بڑا گمراہ کون ہوگا۔”
شیخ الاسلا م، امام اہل سنت، محمد بن مسلم بن شہاب زہری رحمہ اللہ (م : ١٢٥ھ) فرماتے ہیں:
مِنَ اللّٰہِ الْعِلْمُ وَعَلَی الرَّسُولِ الْبَلَاغُ .
”علم اللہ کی طرف سے ہے اورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ تبلیغ ہے۔”
(الجامع لأخلاق الراوي للخطیب : ١/١١ح : ١٣٣٣، وسندہ، صحیحٌ)
علامہ ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ (٧٣١۔٧٩٢ھ) لکھتے ہیں:
وَہٰذَا کَلَامٌ جَامِعٌ نَّافِعٌ .
”یہ انتہائی جامع اور نفع مند کلام ہے۔”
(شرح عقیدہ الطحاویۃ : ٢١٩)
1 امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ (١٥٠۔٢٠٤ھ) فرماتے ہیں:
وَأَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ وِّمَسْأَلَۃُ أَہْلِ الْقُبُورِحَقٌّ .
”عذاب قبر حق ہے، قبر میں سوال وجوا ب بھی حق ہے۔”
(مَناقب الشافعي للبَیْہَقِي : ١/٤١٥)
2 شیخ الاسلام امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (١٦٤۔٢٤١ھ) فرماتے ہیں:
عَذَابُ الْقَبْرِ حَقٌّ لَا یُنْکِرُہ، إِلَّا ضَالٌّ أَوْ مُضِلٌّ .
”عذاب قبر حق ہے۔ اس کا انکار کوئی گمراہ اور گمراہ گر ہی کر سکتا ہے۔”
(الروح لابن القیم الجوزیۃ، ص : ٥٧)
3 علامہ ابو بکر بن مجاہد رحمہ اللہ (م : ٣٦٦ھ) فرماتے ہیں:
أَجْمَعَ أَہْلُ السُّنَّۃِ أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَأَنَّ النَّاسَ یُفْتَنُونَ فِي قُبُورِہِمْ بَّعْدَ أَنْ یُحْیَوْا فِیہَا وَیُسْأَلُوا فِیہَا، وَیُثَبِّتُ اللّٰہُ مَنْ أَحَبَّ تَثْبِیتَہ، مِنْہُمْ .
”اہل سنت کا اجماع ہے کہ عذا ب قبر حق ہے۔ انسان قبروں میں زندہ کئے جانے کے بعد، سوال و جواب کی آزمائش سے گزارے جائیں گے، پھراللہ جسے اللہ چاہیں گے، ثابت قدم رکھیں گے۔”
(شرح صحیح البخاري لابن بَطّال : ١٠/١٥٤)
امام ابن ابی عاصم رحمہ اللہ (م : ٢٨٧ھ) لکھتے ہیں:
وَفِي الْمُسَائَلَۃِ أَخْبَارٌ ثَابِتَۃٌ، وَالْـأَخْبَارُ الَّتِي فِي الْمُسَائَلَۃِ فِي الْقَبْرِ مُنْکَرٌ وَّنَکِیرٌ أَخْبَارٌ ثَابِتَۃٌ تُوجِبُ الْعِلْمَ .
”قبر میں منکر نکیرکے سوال و جواب کے متعلق صحیح احادیث موجود ہیں۔ یہ علم یقینی کا فائدہ دیتی ہیں۔”
(السّنّۃ : ٢/٣٩٥)
مورخ اسلام ،محدث کبیر الشان، امام ابو جعفر طبری رحمہ اللہ (٢٢٤۔٣١٠) لکھتے ہیں:
…تَظَاہُرُ الْـأَخْبَارِ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہٖ، مَعَ جَوَازِہٖ فِي الْعَقْلِ وَصِحَّتِہٖ فِیہِ، وَذٰلِکَ أَنَّ الْحَیَاۃَ مَعْنیً وَالْـآلَامَ وَاللَّذَّاتِ وَالْمَعْلُومَ مَعَانٍ غَیْرُہ، وَغَیْرُ مُسْتَحِیلٍ وُّجُودُ الْحَیَاۃِ مَعَ فَقْدِ ہٰذِہِ الْمَعَانِي، وَوُجُودُ ہٰذِہِ الْمَعَانِي مَعَ فَقْدِ الْحَیَاۃِ، لَا فَرْقَ بَیْنَ ذٰلِکَ .
”عذاب قبر کی وضاحت احادیث سے ہوتی ہے،عقل بھی اسے درست تسلیم کرتی ہے،یہ زندگی معنوی چیز ہے اور تکالیف و لذات اور معلومات وغیرہ بھی معنوی چیزیں ہیں، جو زندگی کے علاوہ ہیں۔ ان کے بغیر زندگی کا اور زندگی کے بغیر ان کا وجود ناممکن نہیں۔”
(التبصیر في معالم الدین، ص : ٢١٣)
امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ (م : ٣٢١ھ) لکھتے ہیں:
فَکَانَ ہٰذَا الْحَدِیثُ فِیہِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَقَدْ رُوِیَتْ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ آثَارٌ بِّاسْتِعَاذَتِہٖ مِنْہُ مُتَوَاتِرَۃٌ .
”اس حدیث سے عذاب قبر کا اثبات ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب ِقبر سے پناہ کے بارے متواتر احادیث آئی ہیں۔”
(شرح مشکل الآثار : ١٣/٩٨)
4 ابو عثمان بن حداد رحمہ اللہ (٢١٩۔٣٠٢ھ) فرماتے ہیں:
وَإِنَّمَا أَنْکَرَ عَذَابَ الْقَبْرِ بِشْرٌ الْمَرِّیسِيُّ وَالْـأَصَمُّ وَضِرَارٌ .
”عذاب قبر کا انکار بشر مریسی، اصم اور ضرار نے کیا ہے۔”
(شرح صحیح البخاري لابن بَطَّال : ١٠/١٥٤)
5 قاضی ابو بکر باقلانی رحمہ اللہ (م : ٤٠٣ھ) وغیرہ کہتے ہیں:
قَدْ وَرَدَ الْقُرْآنُ بِتَصْدِیقِ الْـأَخْبَارِ الْوَارِدَۃِ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ، قَالَ تَعَالٰی : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) (غافر : ٤٦) وَقَدِ اتَّفَقَ الْمَسْلِمُونَ أَنَّہ، لَا غُدْوَۃَ وَلَا عَشِيَّ فِي الْـآخِرَۃِ، وَإِنَّمَا ہُمَا فِي الدُّنْیَا، فَہُمْ یُعْرَضُونَ مَمَاتَہُمْ عَلَی النَّارِ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَدْخُلُونَ أَشَدَّ الْعَذَابِ، قَالَ تَعَالٰی : (وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ)
(غافِر:٤٦)
”قرآن میں عذاب قبر سے متعلق روایات کی تصدیق موجود ہے، اللہ فرماتے ہیں:(اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) ‘یہ لوگ صبح شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں۔’ مسلمان متفق ہیں کہ آخرت میں دن ہوگا نہ رات، تو اس سے ثابت ہو اکہ دن رات جو عذا ب ان پر پیش کئے جاتے ہیں، وہ آخرت سے پہلے کی دنیا ہے، آخرت کے بارے تو یہ حکم ہے: (وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذََابِ) ‘روز قیامت حکم ہوگا فرعونیوں کو، سخت ترین عذاب سے دوچار کردو۔”
(شرح صحیح البخاري لابن بطال : ١٥٤، ١٥٥)
علامہ، ابوبکر جصاص حنفی رحمہ اللہ (٣٠٥۔٣٧٠) لکھتے ہیں:
وَہٰذَا یُبْطِلُ قَوْلَ مَنْ یُّنْکِرُ عَذَابَ الْقَبْرِ .
”اس سے ثابت ہوا کہ منکرین ِعذاب ِقبر کا مذہب باطل ہے۔”
(أحکا م القرآن للجصّاص : ١/١١٣)
6 علامہ ابومطرف قنازعی رحمہ اللہ (٣٤١۔٤١٣ھ) فرماتے ہیں:
ثُمَّ یُضْرَبُ ضَرْبَۃً تَفْتَرِقُ أَوْصَالُہ،، وَہٰذَا أَصْلٌ صَحِیحٌ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ لَا یَخْتَلِفُونَ فِیہِ، وَمَنْ قَالَ بِخِلاَفِہٖ فَہُو کَاذِبٌ مُُفْتَرٍ .
”پھر فرشتہ اس زور سے مارے گا کہ اس کے جوڑ کھل جائیں گے۔ یہ حدیث باجماع اہل سنت ”صحیح” ہے۔ جو اس کے خلاف کہتا ہے، وہ جھوٹا بہتان باز ہے۔”
(تفسیر الموطّأ، ص : ٢٣٣)
علا مہ ،ابو عمر و دانی (٣٧١۔٤٤٤ھ) کہتے ہیں:
وَمِمَّا یَدُلُّ عَلٰی عَذَابِ الْقَبْرِ مِنْ نَصِّ التَّنْزِیلِ قَوْلُہ، عَزَّ وَجَلَّ : (سَنُعَذِّبُہُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّونَ إِلٰی عَذَابٍ عَظِیمٍ)، یَعْنِي عَذَابَ الدُّنْیَا بِالْقَتْلِ وَغَیْرِہٖ وَعَذَابَ الْقَبْرِ، وَقَوْلُہ، : (یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِي الْـآخِرَۃِ وَیُضِلُّ اللّٰہُ الظَّالِمِینَ) وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِالْـأَسَانِیدِ الصَّحِیحَۃِ أَنَّہ، قَالَ : نَزَلَتْ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ .
”قرآن کی یہ آیت : (سُنَعَذِّبُہُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّونَ إِلٰی عَذَابٍ عَظِیمٍ) ‘ہم انہیں دو ہراعذاب دیں گے، پھر بڑے عذاب سے دوچار کر دیں گے۔’ مراد دنیا میں قتل وغیرہ کا عذاب اور عذاب قبر ہے۔ فرمان ِباری تعالی ہے: (یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِینَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِي الْـآخِرَۃِ وَیُضِلُّ اللّٰہُ الظَّالِمِینَ) ‘اللہ ایمان والوں کو دنیا و آخرت میں کلمہ توحید پر قائم رکھے گا اور ظالموں کو پھسلا دے گا۔’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح اسناد سے ثابت ہے کہ یہ آیت عذاب قبر کے ثبوت میں نازل ہوئی۔”
(الرسالۃ الوافیۃ لمذہب أہل السّنۃ في الاعتقادات وأصول الدیانات : ١/١٩٩)
7 حافظ ِمغرب، ابن عبد البر رحمہ اللہ (٣٦٨۔٤٦٣ھ) لکھتے ہیں:
وَفِي ہٰذَا الْحَدِیثِ الْإِقْرَارُ بِعَذَابِ الْقَبْرِ وَلَا خِلَافَ بَیْنَ أَہْلِ
السُّنَّۃِ فِي جَوَازِ تَصْحِیحِہٖ وَاعْتِقَادِ ذٰلِکَ وَالْإِیمَانِ بِہٖ .
”اس حدیث میں عذاب ِقبر کا اثبات ہے۔ اہل سنت متفق ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے، اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔”
(التمہید لِمَا في الموطّأ من المعاني و الأسانید : ١٢/١٨٦)
نیز فرماتے ہیں:
وَأَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ مُصَدِّقُونَ بِفِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ لِتَوَافُرِ الْـأَخْبَارِ بِذٰلِکَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
”اہل سنت فتنہ عذاب قبر کو تسلیم کرتے ہیں، کیوں کہ اس بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت احادیث وارد ہوئی ہیں۔”
(الِاسْتِذْکَا ر : ٢/٣٣٩)
مزید فرماتے ہیں:
فَرَدُّوا الْـأَحَادِیثَ الْمُتَوَاتِرَۃَ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَفِتْنَتِہٖ .
”گمراہوں نے عذاب ِقبر اور فتنہ قبر کی متواتر احادیث رد کر دی ہیں۔”
(جامع بَیان العلم وفضلہ : ٢/١٠٥٢)
علامہ سرخسی حنفی (م : ٤٨٣ھ) لکھتے ہیں:
دَلِیلٌ لِّـأَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ عَلٰی أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ .
”یہ اہل سنت کی دلیل ہے کہ عذاب قبر حق ہے۔”
(شرح السیر الکبیر، ص : ٨)
8 علامہ مازری رحمہ اللہ (٤٥٣۔٥٣٦ھ) لکھتے ہیں:
عَذَابُ الْقَبْرِ ثَابِتٌ عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَقَدْ وَرَدَتْ بِہِ الْـآثَارُ وَقَالَ تَعَالٰی : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُومُ السَّاعَۃُ) وقال : (قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ) وَلَا یَبْعُدُ فِي الْعَقْلِ أَنْ یُّعِیدَ الْبَارِي الْحَیَاۃَ فِي بَعْضِ أَجْزَاءِ الْجَسَدِ وَلَا یُدْفَعُ ہٰذَا بِالِاسْتِبْعَادِ لِمَا بَیَّنَّاہُ وَلَا بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی (لَا یَذُوقُونَ فِیہَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَۃَ الْـأُولٰی) لِـأَنَّہ، یَحْتَمِلُ أَنْ یُّرِیدَ الْمَوْتَۃَ الَّتِي فِیہَا جُرَعٌ وَّغُصَصٌ، وَّمَوْتَۃُ الْقَبْرِ لَیْسَتْ کَذٰلِکَ وَیَحْتَمِلُ أَیْضًا أَنْ یُّرِیدَ جِنْسَ الْمَوْتِ وَلَمْ یُرِدْ مَوتَۃً وَّاحِدۃً وَّإِذَا احْتَمَلَ لَمْ یُرَدَّ بِہٖ مَا قَدَّمْنَاہُ مِنَ الظَّوَاہِرِ وَالْـأَخْبَارِ .
”اہل ِسنت کا مذہب ہے کہ عذاب ِقبر ثابت ہے۔ بے شمار احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : (اَلنَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) (غافر : ٢٥) ‘وہ صبح و شام جہنم پر پیش کئے جاتے ہیں۔’ اسی طرح فرمان ہے : (قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَأَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ) ‘کہیں گے : ہمارے رب تو نے ہمیں دو زندگیاں اور دو موتیں دیں۔’ یہ بات عقلا بعید نہیں کہ اللہ تعالی بدن کے بعض اجزاء میں زندگی لوٹا دے، اسے ناممکن کہہ کر ٹھکرایا نہیں جا سکتا، نہ ہی قرآن کی یہ آیت : (لَا یَذُوقُونَ فِیہَا الْمَوْتَ إِلَّا الْمَوْتَۃَ الْـأُولٰی) ‘انہیں صرف ایک ہی موت آئے گی۔’ منکرین عذا ب قبر کی دلیل بن سکتی ہے، کیوں کہ اس میں احتمال ہے کہ ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ قبر میں وہ موت نہیں آئے گی، جس میں تکلیف اور غصہ شامل ہو تا ہے۔ اس موت سے جنس موت بھی مراد ہو سکتی ہے، لہٰذا اس محتمل دلیل کی بنا پر واضح احادیث ٹھکرائی نہیں جا سکتیں ۔”
(المعلم بفوائد مسلم : ٣/٣٦٥)
9 علامہ ابن حزم رحمہ اللہ (٣٨٤۔٤٥٦ھ) لکھتے ہیں:
ذَہَبَ ضِرَارُ بْنُ عَمْرٍو الْغَطَفَانِيُّ أَحَدُ شُیُوخِ الْمُعْتَزِلَۃِ إِلٰی إِنْکَارِعَذَابِ الْقَبْرِ وَہُوَ قَوْلُ مَنْ لَّقِینَا مِنَ الْخَوَارِجِ وَذَہَبَ أَہْلُ السُّنَّۃِ وَبِشْرُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ وَالْجُبَائِيُّ وَسَائِرُ الْمُعْتَزِلَۃِ إِلٰی الْقَوْلِ بِہٖ وَبِہٖ نَقُولُ لِصِحَّۃِ الْآثَارِ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِہٖ .
”معتزلی عالم ضرار بن عمرو غطفانی نے عذاب قبر کا انکار کیا ہے، خوارج بھی یہی کہتے ہیں۔ اہل سنت، بشر بن معتمر، جبائی معتزلی اور معتزلہ عذاب قبر کے قائل ہیں۔ صحیح احادیث نبویہ کی وجہ سے ہم بھی اسی کے قائل ہیں۔”
(الفصل في الملل والأہواء والنّحل : ٤/٥٤۔٥٥)
0 قاضی عیاض رحمہ اللہ (٤٧٦۔٥٤٦ھ) لکھتے ہیں:
وَقَدْ تَّرٰی مِنْ ہٰذَا فِي عَذَابِ الْقَبْرِ، وَفِیہِ أَنَّ الْـأَرْوَاحَ بَاقِیَۃٌ لَّاتَفْنٰی، فََیُنْعَمُ الْمُحْسِنُ وَیُعَذِّبُ الْمُسِيْءُ کَمَا جَاءَ فِي الْقُرْآنِ وَالْـاْثَارِ، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ، خِلَافاً لِّغَیْرِہِمْ مِّنْ أَہْلِ الْبِدَعِ الْقَائِلِینَ بِفَنَائِہَا .
”یہاں عذاب قبر کے بارے میں روایات بھی موجود ہیں۔ انہی روایات میں ہے کہ روح باقی رہتی ہے، کبھی فنا نہیں ہوتی۔ نیکو کار کو نعمتیں اور گنہگار کو عذاب دیا جاتا ہے۔ یہی اہل ِسنت کا مذہب ہے، جب کہ اہل ِبدعت اس کے مخالف ہیں، وہ روح کے فنا کے قائل ہیں۔”
(إکمال المعلم بفوائد مسلم : ٦/٣٠٦)
نیز فرماتے ہیں:
وَأَنَّ مَذْہَبَ أَہْلِ السُّنَّۃِ تَصْحِیحُ ہٰذِہِ الْـأَحَادِیثِ وِإِمْرَارُہَا عَلٰی وَجْہِہَا لِصِحَّۃِ طُرُقِہَا وَقُبُولِ السَّلَفِ لَہَاخِلَافًا لِّجَمِیعِ الْخَوَارِجِ، وَمُعْظَمِ الْمُعْتَزِلَۃِ، وَبَعْضِ الْمُرْجِئَۃِ؛ إِذْ لَا اسْتِحَالَۃَ فِیہَا وَلَا رَدَّ لِلْعَقْلِ .
”اہل سنت ان احادیث کو صحیح مانتے ہیں اور جس طرح وارد ہوئی ہے، اسی طرح قبول کرتے ہیں، کیوں کہ اس کی اسانیدصحیح ہیں اور سلف نے انہیں قبول کیا ہے۔ خوار ج، اکثر معتزلہ اور بعض مرجیہ عذاب قبر کے قائل نہیں، حالاں کہ اس میں کوئی عقلی بُعد نہیں۔”
(إکمال المعلم بفوئد مسلم : ٨/٤٠١)
قوام السنۃ، ابو قاسم، اسماعیل بن محمد اصبہانی رحمہ اللہ (٤٥٧۔٥٣٥ھ) لکھتے ہیں:
وَأَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَضَغْطَۃُ الْقَبْرِ حَقٌّ .
”عذاب قبر حق ہے اور قبر کا جھٹکا بھی حق ہے۔”
(الحجۃ في بیان المحجۃ وشرح عقیدۃ أہل السنۃ : ١/٢٤٩)
! علامہ ابوبکر بن العربی (٤٦٨۔٥٤٣ھ) لکھتے ہیں:
فِیہِ دَلِیلٌ عَلٰی أَنَّ فِتْنَۃَ الْقَبْرِ حَقٌّ لَّا رَیْبَ فِیہِ، وَقَدِ اصْطَفَقَتْ عَلَیْہِ أَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ وَالدَّلِیلُ عَلَیْہِ الْحَدِیثُ الصَّحِیحُ وَالْقُرْآنُ الْفَصِیحُ أَمَّا الْـأَحَادِیثُ، فَہِيَ کَثِیرَۃٌ لَّا تُحْصٰی، وَأَبْیَنُ وَأَشْہَرُ مِنْ أَنْ تُسْتَقْصٰی .
”اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ فتنہ قبر بلا شک و شبہ حق ہے، اہل سنت و الجماعت کا اس پر اجماع ہے۔ ان کے دلائل بے شمار احادیث صحیحہ اور آیات قرآنیہ ہیں۔ احادیث تو لاتعداد، واضح اور مشہور ہیں۔”
(المسالک في شرح الموطّأ : ٣/٢٩٧)
علامہ حسین بن حسین حلیمی رحمہ اللہ (٣٣٨۔٤٠٣ھ) لکھتے ہیں:
وَلَمْ یُعْلَمْ أَہْلُ السُّنَّۃِ خِلَافًا أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ .
”عذاب قبر کو حق ماننے میں اہل سنت کے ہاں کوئی اختلاف معلوم نہیں۔”
(المنہاج في شعب الإیمان : ١/٤٨٩)
محمد بن حسین، ابو عبد الرحمن السلمی رحمہ اللہ (م : ٤١٢ھ) لکھتے ہیں:
أَمَّا الْـأَخْبَارُ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ فَبَالِغَۃٌ مَبْلَغَ الِاسْتِفَاضَۃِ .
”عذاب ِقبر کے متعلق روایات حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں۔”
(فیض القدیر للمناوي : ٥/٣٣٢)
شارح صحیح بخاری، علا مہ ابن بطال (م : ٤٤٩ھ) لکھتے ہیں:
إِنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، یَجِبُ الْـإِیمَانُ بِہٖ وَالتَّسْلِیمُ لَہ،، وَہُوَ مَذْہَبُ أَہْلِ السُّنَّۃِ .
”عذاب قبر حق ہے۔ اس پر ایمان لانا اور اسے درست تسلیم کرنا واجب ہے۔ اہل ِسنت کا یہی مذہب ہے۔”
(شرح صحیح البخاري لابن بطال : ١/٣٢٤)
نیز فرماتے ہیں:
وَفِیہِ : أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَأَہْلُ السُّنَّۃِ مُجْمِعُونَ عَلَی الْـإِیمَانِ بِہٖ وَالتَّصْدِیقِ، وَلَا یُنْکِرُہ، إِلَّا مُبْتَدِعٌ .
”اس حدیث کا مستفاد ہے کہ عذاب قبر حق ہے۔ اہل سنت اس پر ایمان لانے اور تصدیق کرنے پر متفق ہیں۔ اس کا منکر بدعتی ہی ہو سکتا ہے۔”
(شرح صحیح البخاري لابن بطال : ٣/٣٨)
علامہ، ابو المظفر اسفرایینی رحمہ اللہ (م : ٤٧١ھ) لکھتے ہیں:
وَفِي عَذَابِ الْقَبْرِ قَدْ بَلَغَتِ الْـأَخْبَارُ حَدَّ التَّوَاتُرِ فِي الْمَعْنٰی وَإِنْ کَانَ کُلُّ وَاحِدٍ مِّنْہَا لَمْ یَبْلُغْ حَدَّ التَّوَاتُرِ فِي اللَّفْظِ فَأَنْکَرُوا مَا فِي ذٰلِکَ مِنْ نُّصُوصِ الْقُرْآنِ .
”عذاب قبر کی احادیث لفظی تو نہیں، البتہ معنوی تواتر کو ضرور پہنچتی ہیں۔ اہل بدعت نے تو اس بارے نصوص قرآنیہ بھی ٹھکرا دی ہیں۔”
(التبصیر في الدین وتمییز الفرقۃ الناجیۃ عن الفرق الہالکین، ص : ٦٧)
نیز فرماتے ہیں:
وَلَا یُنْکِرُ مَا اسْتَفَاضَ بِہِ الْـأَخْبَارُ وَنَطَقَتْ بِہِ الْآیَاُت مِنَ الْـأَحْیَاءَ فِي الْقَبْرِ إِلَّا مَنْ یُّنْکِرُ عُمُومَ قُدْرَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَمَنْ أَنْکَرَ عُمُومَ قُدْرَتِہٖ سُبْحَانَہ، وَتَعَالٰی کَانَ خَارِجًا عَنْ زُمْرَۃِ أَہْلِ الْإِسْلَامِ .
”قرآنی آیات اور احادیث نبویہ پڑھنے والا قبر میں زندگی دئیے جانے کا انکار نہیں کر سکتا۔ اس کا انکار صرف وہی کر سکتا ہے، جو اللہ کو ہر چیز پر قادر نہ مانتا ہو اور جو اللہ کو قادر نہیں مانتا، وہ زمرہ مسلماناں سے خارج ہے۔”
(التبصیر في الدین وتمییز الفرقۃ الناجیۃ عن الفِرَق الہالکین، ص : ١٧٧)
علامہ ابو مظفر سمعانی رحمہ اللہ (٤٢٦۔٤٨٩)لکھتے ہیں:
نَحْنُ إِذَا تَدَبَّرْنَا عَامَّۃَ مَا جَاءَ فِي أَمْرِ الدِّینِ مِنْ ذِکْرِ صِفَاتِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَمَا تَعَبَّدَ النَّاسُ بِہٖ مِنِ اعْتِقَادِہٖ وَکَذٰلِکَ مَا ظَہَرَ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ وَتَدَاوَلُوہُ بَیْنَہُمْ وَنَقَلُوہُ عَنْ سَلَفِہِمْ إِلٰی أَنْ أَسْنَدُوہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ ذِکْرِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَسُؤَالِ الْمَلَکَیْنِ وَالْحَوْضِ وَالْمِیزَانِ وَالصِّرَاطِ وَصِفَاتِ الْجَنَّۃِ وَصِفَاتِ النَّارِ وَتَخْلِیدِ الْفَرِیقَیْنِ فِیہِمَا أُمُورٌ لَّا نُدْرِکُ حَقَائِقَہَا بِعُقُولِنَا وَإِنَّمَا وَرَدَ الْـأَمْرُ بِقُبُولِہَا وَالْإِیمَانِ بِہَا . فَإِذَا سَمِعْنَا شَیْئًا مِنْ أُمُورِ الدِّینِ وَعَقَلْنَاہُ وَفَہِمْنَاہُ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ فِي ذٰلِکَ وَالشُّکْرُ وَمِنْہُ التَّوْفِیقُ وَمَا لَمْ یُمْکِنَّا إِدْرَاکَہ، وَفَہْمَہ، وََلَمْ تَبْلُغْہُ عُقُولُنَا آمَنَّا بِہٖ وَصَدَّقْنَا وَاعْتَقَدْنَا أَنَّ ہٰذَا مِنْ قِبَلِ رُبُوبِیَّتِہٖ وَقُدْرَتِہٖ وَاکْتَفَیْنَا فِي ذٰلِکَ بِعِلْمِہٖ وَمَشِیئَتِہٖ وَقَالَ تَعَالٰی فِي مِثْلِ ہٰذَا (وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِیتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلًا) وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی (وَلَا یُحِیطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖ إِلَّا بِمَا شَائَ) ثُمَّ نَقُولُ لِہٰذَا الْقَائِلِ الَّذِي یَقُولُ بُنِيَ دِینُنَا عَلَی الْعَقْلِ وَأُمِرْنَا بِاتِّبَاعِہٖ أَخْبَرْنَا إِذَا أَتَاکَ أَمْرٌ مِّنَ اللّٰہِ تَعَالٰی یُخَالِفُ عَقْلَکَ فَبِأَیِّہِمَا تَأْخُذُ بِالَّذِي تَعْقِلُ أَوْ بِالَّذِي تُؤْمَرُ فَإِنْ قَالَ بِالَّذِي أَعْقِلُ فَقَدْ أَخْطَأَ وَتَرَکَ سَبِیلَ الْإِسْلَامِ وَإِنْ قَالَ إِنَّمَا آخُذُ بِالَّذِي جَاءَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ فَقَدْ تَرَکَ قَوْلَہ، وَإِنَّمَا عَلَیْنَا أَنْ نَّقْبَلَ مَا عَقَلْنَاہُ إِیمَانًا وَّتَصْدِیقًا وَّمَا لَمْ نَعْقِلْہُ قَبِلْنَاہُ وَتَسْلِیمًا وَاسْتِسْلَامًا . وَہٰذَا مَعْنٰی قَوْلِ الْقَائِلِ مِنْ أَہْلِ السُّنَّۃِ إِنَّ الْإِسْلَامَ قَنْطَرَۃٌ لَا تُعْبَرُ إِلَّا بِالتَّسْلِیمِ فَنَسْأَلُ اللّٰہَ التَّوْفِیقَ فِیہِ وَالثُّبَاتَ عَلَیْہِ وَأَنْ یَّتَوَفَّانَا عَلٰی مِلَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِمَنِّہٖ وَفَضْلِہٖ .
”جب ہم اللہ کی صفات یا اعتقادات میں غور وفکر کرتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی متفقہ نقل اور متواتر سند سے منقول مسئلہ عذاب ِقبر، سوالات منکر نکیر، حوض، میزان، پل صراط، جنت و جہنم کی صفات اور فریقین کا جنت و جہنم میں ہمیشہ رہنا، ایسے امور ہیں کہ عقل ان کے حقائق کے ادراک سے قاصر ہے، قرآنی حکیم انہیں قبول کرنے اور ان پر ایمان لانے کا کہتا ہے۔ اگر ہم کسی دینی حکم کو سمجھ لیتے ہیں توالحمد للہ، اگر نہ سمجھ پائیں، ہماری عقل قاصر رہ جائے، تو بھی اس پر ایمان و اعتقاد لازم ہے۔ ہم تسلیم کریں گے کہ یہ اس کی شان ربوبیت اور اس کی قدرت ہے، ہمیں اس کا علم ہوا اتنا ہی کافی ہے، اللہ فرماتے ہیں: (وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِیتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیلٌ) ‘میرے محبوب! لوگ آپ سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دیجئے! کہ روح میرے رب کا امر ہے، تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔’ اسی طرح فرمان باری تعالی ہے : (وَلَا یُحِیطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖ إِلَّا بِمَا شَائَ) ‘یہ صرف اتنا علم رکھتے ہیں، جتنا اللہ نے انہیں دیا ہے۔’ جو کہتا ہے کہ دین کا ہر معاملہ عقل میں آنے والا ہے، ہمیں عقل ہی کے اتباع کا حکم ہے، ہم اس سے سوال کریں گے کہ اگر قرآن و سنت میں کوئی چیز آپ کی عقل کے خلاف آئے تو کیا کریں گے آپ؟ قرآن و سنت مانیں گے یا عقل؟ اگر تو اس نے کہا کہ عقل کی مانوں گا تو یہ اس کی خطا ہو گی ، گویا اسلا م کے راستے کو چھوڑ چکا اور اگر اس نے کہا کہ قرآن و سنت کی مانوں گا تو عر ض کریں گے کہ آپ تو کہتے تھے کہ عقل ہی میزان ہے، اب عقل کو چھوڑا کیوں ؟ ہم پر لازم ہے کہ ہم وہ حکم بھی مانیں، جسے عقل تسلیم کرتی ہے، وہ بھی مانیں، جسے تسلیم نہیں کرتی۔ اہل سنت کا کہنا ہے کہ اسلام پل ہے، اسے عبور کرنا ہے تو تسلیم ورضا کا پیکر بننا ہو گا۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیںاپنے فضل و احسان سے ملت رسول عربی پر موت نصیب کرے ۔”
(الانتصار لأصحاب الحدیث : ٨١۔٨٣)
علامہ غزالی (٤٥٠۔٥٠٥) لکھتے ہیں:
وَأَمَّا عَذَابُ الْقَبْرِ فَقَدْ دَلَّتْ عَلَیْہِ قَوَاطِعُ الشَّرْعِ إِذْ تَوَاتَرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَعَنِ الصَّحَابَۃِ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ بِّالِاسْتِعَاذَۃِ مِنْہُ فِي الْـأَدْعِیَۃِ، وَاشْتَہَرَ قَوْلُہ، عِنْدَ الْمُرُورِ بِقَبْرَیْنِ إِنَّہُمَا لَیُعَذَّبَانِ وَدَلَّ عَلَیْہِ قَوْلُہ، تَعَالٰی وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءَ الْعَذَابِ . النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا الْـآیَۃَ، وَہُوَ مُمْکِنٌ، فَیَجِبُ التَّصْدِیقُ بِہٖ وَوَجْہُ إِمْکَانِہٖ ظَاہِرٌ، وَإِنَّمَا تُنْکِرُہُ الْمُعْتَزِلَۃُ مِنْ حَیْثُ یَقُولُونَ إِنَّا نَرٰی شَخْصَ الْمَیِّتِ مُشَاہَدَۃً وَّہُوَ غَیْرُ مُعَذَّبٌ وَإِنَّ الْمَیِّتَ رُبَمَا تَفْتَرِسُہُ السِّبَاعُ وَتَأْکُلُہ،، وَہٰذَا ہَوَسٌ؛ أَمَّامُشَاہَدَۃُ الشَّخْصِ فَہُوَ مُشَاہَدَۃٌ لِّظَوَاہِرِ الْجِسْمِ، وَالْمُدْرِکُ لِلْعِقَابِ جُزْءٌ مِّنَ الْقَلْبِ أَوْ مِنَ الْبَاطِنِ کَیْفَ کَانَ وَلَیْسَ مِنْ ضُرُورَۃِ الْعَذَابِ ظُہُورُ حَرَکَۃٍ فِي ظَاہِرِ الْبَدَنِ، بَلِ النَّاظِرُ إِلٰی ظَاہِرِ النَّائِمِ لَا یُشَاہِدُ مَا یُدْرِکُہُ النَّائِمُ مِنَ اللَّذَّۃِ عِنْدَ الِاحْتِلَامِ وَمِنَ الْـأَلَمِ عِنْدِ تَخَیُّلِ الضَّرْبِ وَغَیْرِہٖ، وَلَوِ انْتَبَہَ النَّائِمُ وَأَخْبَرَ عَنْ مُّشَاہَدَاتِہٖ وَآلَامِہٖ وَلَذَّاتِہٖ مَنْ لَّمْ یَجْرِ لَہ، عَہْدٌ بِّالنَّوْمِ لَبَادَرَ إِلَی الْـإِنْکَارِ اغْتِرَاراً بِّسُکُونِ ظَاہِرِ جِسْمِہٖ، کَمُشَاہَدَۃِ إِنْکَارِ الْمُعْتَزِلَۃِ لِعَذَابِ الْقَبْرِ وَأَمَّا الَّذِي تَأْکُلُہُ السِّبَاعُ فَغَایَۃُ مَا فِي الْبَابِ أَنْ یَّکُونَ بَطْنُ السَّبُعِ قَبْرًا، فَإِعَادَۃُ الْحَیَاۃِ إِلٰی جُزْءٍ یُّدْرِکُ الْعَذَابَ مُمْکِنٌ، فَمَا کُلُّ مُتَأَلِّمٍ یُّدْرِکُ الْـأَلَمَ مِنْ جَمِیعِ بَدَنِہٖ، وَأَمَّا سُؤَالُ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ فَحَقٌّ، وَالتَّصْدِیقُ بِہٖ وَاجِبٌ لِّوُرُودِ الشَّرْعِ بِہٖ وَإِمْکَانِہٖ .
”عذاب قبر پر شریعت کے قطعی دلائل موجود ہیں، کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر سے پناہ کی دعائیں متواتر منقول ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا : انہیں عذاب دیا جا رہا ہے۔ یہ حدیث مشہور ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : (وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ، النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِّیًا) ‘آل فرعون کو برے عذاب نے گھیرلیا، وہ صبح شام آگ پر پیش کئے جاتے ہیں۔’ ایسا ہونا ممکن ہے اور اس پر ایمان واجب ہے۔ معتزلہ عذاب قبر کے منکر ہیں، کہتے ہیں : ہم میت کو دیکھتے ہیں، ہم نے آج تک مشاہدہ نہیں کیا کہ کسی کو قبر میں عذاب دیا جا رہا ہو، میت کو درندے نوچ لیتے ہیں۔ یہ معتزلہ کا پاگل پن ہے ۔ حالاں کہ یہ لوگ سمجھتے نہیں کہ جس کا آپ مشاہدہ کرتے ہیں، وہ ظاہری جسم ہے۔ جب کہ عذاب کا تعلق دل اور جسم کے باطنی حصہ سے ہے، تو آپ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ جسم کے اندر عذاب ہو رہا ہو، تو جسم کو حرکت دینے کی حاجت ہی نہیں۔ آپ ظاہری آنکھ سے وہ کچھ نہیں دیکھ سکتے، جو سونے والا خواب میں دیکھتا ہے۔ معتزلہ کو چاہئے کہ جب سونے والا اپنے نیند کے مشاہدے میں احتلام یا تکلیف وغیرہ کی خبر دے، تو انکار کر دیجئے گا کہ ہم نے تو نہیں دیکھا۔ قبر میں مشاہدہ نہیں ہوتا یا درندے کھا لیتے ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں اللہ اس کے ہر جزو میں زندگی بھر کر اسے عذاب دے سکتا ہے، منکر نکیر کے سوال و جواب حق ہیں اور ان پر ایمان واجب ہے۔”
(الاقتصاد في الاعتقاد، ص : ١١٧، ١١٨)
علامہ ابو یعلی رحمہ اللہ (م : ٥٢١ھ) لکھتے ہیں:
ثُمَّ الْـإِیمَانُ بِعَذَابِ الْقَبْرِ، وَبِمُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی (فَإِنَّ لَہ، مَعِیشَۃً ضَنْکاً)(طہٰ : ٢٤) قَالَ أَصْحَابُ التَّفْسِیرِ عَذَابُ الْقَبْرِ…..مَنْ أَنْکَرَ ذٰلِکَ فَہُوَ کَافِرٌ .
”پھر عذاب قبر اور منکر نکیر پر ایمان بھی واجب ہے، اللہ فرماتے ہیں: (فَإِنَّ لَہ، مَعِیشَۃً ضَنْکًا) ‘اس کی قبر تنگ کر دی جائے گی۔’ مفسرین کہتے ہیں : اس سے مراد عذابِ قبر ہے۔ جو اس کا انکار کرتا ہے، وہ کافر ہے۔”
(الاعتقاد : ٣٢)
ابو الحسین، یحییٰ بن ابی الخیر یمنی شافعی رحمہ اللہ (م : ٥٥٨ھ) لکھتے ہیں:
وَأَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَأَنَّ مَسْأَلَۃَ مُنْکَرٍ وَّنَکِیرٍ فِي الْقَبْرِ حَقٌّ .
”عذاب قبر حق ہے اور قبر میں منکر نکیر کے سوال و جوا ب بھی حق ہیں۔”
(الانتصار في الرد علی المعتزلۃ القدریۃ الأشرار : ١/١٠٠)
$ شارح مسلم حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٣١۔٦٧٦ھ) لکھتے ہیں:
أَنَّ مَذْہَبَ أَہْلِ السُّنَّۃِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ وَقَدْ تَّظَاہَرَتْ عَلَیْہِ دَلَائِلُ الْکِتَا بِ وَالسُّنَّۃِ، قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی : (النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) الْـآیَۃَ، تَظَاہَرَتْ بِہِ الْـأَحَادِیثُ الصَّحِیحَۃُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ رِّوَایَۃِ جَمَاعَۃٍ مِّنَ الصَّحَابَۃِ فِي مَوَاطِنَ کَثِیرَۃٍ وَّلَایَمْتَنِعُ فِي الْعَقْلِ أَنْ یُّعِیدَ اللّٰہُ تَعَالَی الْحَیَاۃَ فِي جُزْءٍ مِّنَ الْجَسَدِ وَیُعَذِّبُہ، وَإِذَا لَمْ یَمْنَعْہُ الْعَقْلُ وَوَرَدَ الشَّرْعُ بِہٖ وَجَبَ قَبُولُہ، وَاعْتِقَادُہ، وَقَدْ ذَکَرَ مُسْلِمٌ ہُنَا أَحَادِیثَ کَثِیرَۃً فِي إِثْبَاتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَسَمَاعِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَوْتَ مَنْ یُعَذَّبُ فِیہِ وَسَمَاعِ الْمَوْتٰی قَرْعَ نِعَالِ دَافِنِیہِمْ وَکَلَامِہٖ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِـأَہْلِ الْقَلِیبِ وَقَوْلِہٖ مَا أَنْتُمْ بِّأَسْمَعَ مِنْہُمْ وَسُؤَالِ الْمَلَکَیْنِ الْمَیِّتَ وَإِقْعَادِہِمَا إِیَّاہُ وَجَوَابِہٖ لَہُمَا وَالْفَسْحِ لَہ، فِي قَبْرِہٖ وَعَرْضِ مَقْعَدِہٖ عَلَیْہِ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ وَسَبَقَ مُعْظَمُ شَرْحِ ہٰذَا فِي کِتَابِ الصَّلَاۃِ وَکِتَابِ الْجَنَائِزِ وَالْمَقْصُودُ أَنَّ مَذْہَبَ أَہْلِ السُّنَّۃِ إِثْبَاتُ عَذَابِ الْقَبْرِ کَمَا ذَکَرْنَا خِلَافًا لِّلْخَوَارِجِ وَمُعْظَمِ الْمُعْتَزِلَۃِ وَبَعْضِ الْمُرْجِئَۃِ .
”اہل سنت عذاب قبر کا اثبات کرتے ہیں۔ اس پر کتا ب و سنت سے واضح دلائل موجود ہیں۔ اللہ فرماتے ہیں : (النَّارُ یُعْرَضُونَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا) ‘وہ صبح و شام جہنم پر پیش کئے جاتے ہیں۔’ اثبات عذاب قبر کی روایات بہت سی کتابوں میں بہت سے علاقوں میں موجود صحابہ سے مروی ہیں۔ اللہ بدن کے کسی جزء میں زندگی لٹانے پہ قادر ہے، اس میں کوئی عقلی بُعد نہیں، جب بُعد نہیں اور نصوص شریعت بھی اس کی موید ہیں تو واجب ہوا کہ اثبات عذاب قبر کا عقیدہ رکھا جائے۔ امام مسلم رحمہ اللہ عذاب قبر کے بارے میں بہت سی روایات لائے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صاحب قبر کی آواز سننا، جب اسے عذاب دیا جا رہا تھا، مردوں کا دفنا نے والوں کے قدموں کی چاپ سننا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل قلیب سے گفتگو کرنا اور فرمانا کہ اب یہ آپ سے زیادہ سن رہے ہیں، فرشتوں کا مرنے والے سے سوال کرنا، اسے بٹھانا، میت کا سوالات کے جوابات دینا، قبر کا کشادہ ہونا، صبح و شام اس کا ٹھکانہ دکھایا جانا، یہ سب کچھ شریعت میں موجود ہے۔ جن پر تفصیلی بحث کتاب الصلاۃ اور کتاب الجنائز میں گزر چکی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ عذاب قبر کا اثبات اہل سنت کا مذہب ہے، جب کہ خوارج، اکثر معتزلہ اور بعض مرجیہ اس کے منکر ہیں۔”
(شرح صحیح مسلم ١٧/٢٠٠، ٢٠١)
% علامہ ابن قدامہ مقدسی (٥٤١۔٦٢٠ھ) لکھتے ہیں:
وَعَذَابُ الْقَبْرِ وَنَعِیمِہٖ حَقٌّ وَّقَدِ اسْتَعَاذَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْہُ، وَأَمَرَ بِہٖ فِي کُلِّ صَلَاۃٍ وَّفِتْنَۃُ الْقَبْرِ حَقٌّ، وَسُؤَالُ مُنْکَرٍ وَّنَکِیْرٍ حَقٌّ .
”عذاب قبر اور اس کی نعمتیں حق ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر سے پناہ مانگی ہے اور ہر نماز میں پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ فتنہ قبر حق ہے۔ منکر ونکیر کا سوال جواب کرنا حق ہے۔”
(لمعۃ الاعتقاد، ص : ٣١)
^ علامہ مفسر ابو حیان ، اندلسی (٦٥٤۔٧٤٥ھ) لکھتے ہیں:
وَأَہْلُ السُّنَّۃِ وَالْکَرَّامِیَّۃُ أَثْبَتُوہ، بِلَا خِلَافٍ بَّیْنَہُمْ، إِلَّا أَنَّ أَہْلَ السُّنَّۃِ یَقُولُونَ یَحْیَا الْمَیِِّتُ الْکَافِرُ فَیُعَذَّبُ فِي قَبْرِہٖ، وَالْفَاسِقُ یَجُوزُ أَنْ یُّعَذَّبَ فِي قَبْرِہٖ، وَالْکَرَّامِیَّۃُ تَقُولُ یُعَذَّبُ وَہُوَ مَیِِّتٌ وَّالْـأَحَادِیثُ الصَّحِیحَۃُ قَدِ اسْتَفَاضَتْ بِعَذَابِ الْقَبْرِ، فَوَجَبَ الْقَوْلُ بِہٖ وَاعْتِقَادُہ، .
”اہل ِسنت اور کرامیہ بلا اختلاف عذاب قبر کا اثبات کرتے ہیں، ہاں! اہل سنت کہتے ہیں کہ کافر کی میت زندہ ہو گی، اسے عذاب دیا جائے گا۔ فاسق کو بھی عذاب ہو سکتا ہے اور کرامیہ کہتے ہیں کہ اسے مردہ حالت ہی میں عذاب دیا جائے گا۔ احادیث صحیحہ سے عذاب قبر کا اثبات ہو تا ہے، اس کا اقرار و اعتقاد واجب ہے۔”
(البحرالمحیط في التفسیر : ١/٢١١)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فَاعْلَمْ أَنَّ مَذْہَبَ سَلَفِ الْـأَمَّۃِ وَأَئِمَّتِہَا أَنَّ الْمَیِّتَ إذَا مَاتَ یَکُونُ فِي نَعِیمٍ أَوْ عَذَابٍ، وَأَنَّ ذٰلِکَ یَحْصُلُ لِرُوحِہٖ وَلِبَدَنِہٖ .
”جان لیجئے! سلف اور ائمہ کا مذہب ہے کہ انسان مرنے کے بعد نعمتوں میں ہوتا ہے یا عذاب میں اور یہ عذاب و نعم روح و بدن دونوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔”
(مجموع الفتاوٰی : ٤/٢٦٦)
& شیخ الاسلام ثانی علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ) لکھتے ہیں:
وَہٰذَا کَمَا أَنَّہ، مُقْتَضَی السُّنَّۃِ الصَّحِیحَۃِ فَہُوَ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ بَیْنَ أَہْلِ السُّنَّۃِ .
”صحیح احادیث اسی کا تقاضہ کرتی ہیں۔ یہ اہل سنت کا اجماعی مذہب ہے۔”
(الروح، ص : ٥٧)
نیز لکھتے ہیں:
فَالْـأَخْبَارُ الْوَارِدَۃُ فِي عَذَابِ الْقَبْرِ وَالشَّفَاعَۃِ وَالْحَوْضِ وَرُؤْیَۃِ الرَّبِّ تَعَالٰی وَتَکْلِیمِہٖ عِبَادَہ، یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَأَحَادِیثُ عُلُوِّہٖ فَوْقَ سَمَاوَاتِہٖ عَلٰی عَرْشِہٖ، وَأَحَادِیثُ إِثْبَاتِ الْعَرْشِ، وَالْـأَحَادِیثُ الْوَارِدَۃُ فِي إِثْبَاتِ الْمَعَادِ وَالْجَنَّۃِ وَالنَّارِ نَحْوُ ذٰلِکَ مِمَّا یُعْلَمُ بِالِاضْطِرَارِ أَنَّ الرَّسُولَ جَاءَ بِہَا کَمَا یُعْلَمُ بِالِاضْطِرَارِ أَنَّہ، جَاءَ بِالتَّوْحِیدِ وَفَرَائِضِ الْإِسْلَامِ وَأَرْکَانِہٖ، وَجَاءَ بِإِثْبَاتِ الصِّفَاتِ لِلرَّبِّ تَعَالٰی، فَإِنَّہ، مَا مِنْ بَّابٍ مِّنْ ہٰذِہِ الْـأَبْوَابِ إِلَّا وَقَدْ تَوَاتَرَ فِیہِ الْمَعْنَی الْمَقْصُودُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَوَاتُرًا مَّعْنَوِیًّا لِّنَقْلِ ذٰلِکَ عَنْہُ بِعِبَارَاتٍ مُّتَنَوِّعَۃٍ مِّنْ وُّجُوہٍ مُّتَعَدِّدَۃٍ یَّمْتَنِعُ فِي مِثْلِہَا فِي الْعَادَۃِ التَّوَاطُؤُ عَلَی الْکَذِبِ عَمْدًا أَوْ سَہْوًا، وَإِذَا کَانَتِ الْعَادَۃُ الْعَامَّۃُ وَالْخَاصَّۃُ الْمَعْہُودَۃُ مِنْ حَالِ سَلَفِ الْـأُمَّۃِ وَخَلَفِہَا تَمْنَعُ
التَّوَاطُؤَ عَلَی الِاتِّفَاقِ عَلَی الْکَذِبِ فِي ہٰذِہِ الْـأَخْبَارِ، وَیَمْتَنِعُ فِي الْعَادَۃِ وُقُوعُ الْغَلَطِ فِیہَا، أَفَادَتِ الْعِلْمَ وَالْیَقِینَ .
”عذاب قبر، حوض، شفاعت، جنت میں رؤیت خدا وندی، اللہ کا بندوں سے کلام کرنا، احادیث علو، اللہ کا آسمانوں پر بلند ہونا، اثبات ِعرش اورجنت و جہنم وغیرہ کی احادیث، ان احادیث میں سے ہیں، جن کے متعلق یہ یقین ہو کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین عالیہ ہیں، جیسا کہ یہ مانے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم توحید، فرائض اسلام، ارکان اسلام اور اثبات صفات کرنے کے لیے تشریف لائے۔ ان میں سے ہر مسئلہ میں مروی احادیث متواتر معنوی کے درجہ کی ہیں، کیوں کہ یہ مختلف متون اور متنوع اسانید و طرق سے وارد ہوئی ہیں۔ ایسی صورت میںجان بوجھ کر یا بھولے سے جھوٹ پر متفق ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ جب ایک چیز اتنی عام ہے کہ سلف سے اب تک مسلسل اس پر گفتگو ہو رہی ہے، تو اس صورت میں جھوٹ پر سب کا اتفاق کیسے ہو سکتا ہے؟ اس میں غلطی کا وقوع عادتا محال ہو گا، لہٰذا یہ احادیث علم یقینی کا فائدہ دیتی ہیں۔”
(مختصر الصواعق المرسلۃ علی الجہمیۃ و المعطلۃ، ص : ٥٤٨)
علامہ ابن ابی العز رحمہ اللہ (٧٤١۔٧٩٢ھ) لکھتے ہیں:
قَدْ تَّوَاتَرَتِ الْـأَخْبَارُ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِي ثُبُوتِ عَذَابِ الْقَبْرِ وَنَعِیمِہٖ لِمَنْ کَانَ لِذٰلِکَ أَہْلًا، وَسُؤَالِ الْمَلَکَیْنِ، فَیَجِبُ اعْتِقَادُ ثُبُوتِ ذٰلِکَ وَالْإِیمَانُ بِہٖ، وَلَا یَتَکَلَّمُ فِي کَیْفِیَّتِہٖ، إِذْ لَیْسَ لِلْعَقْلِ وُقُوفٌ عَلٰی کَیْفِیَّتِہٖ، لِکَوْنِہٖ لَا عَہْدَ لَہ، بِہٖ فِي ہٰذِہِ الدَّارِ، وَالشَّرْعُ لَا یَأْتِي بِمَا تُحِیلُہُ الْعُقُولُ، وَلٰکِنَّہ، قَدْ یَأْتِي بِمَا تَحَارُ فِیہِ الْعُقُولُ : فَإِنَّ عَوْدَ الرُّوحِ إِلَی الْجَسَدِ لَیْسَ عَلَی الْوَجْہِ الْمَعْہُودِ فِي الدُّنْیَا، بَلْ تُعَادُ الرُّوحُ إِلَیْہِ إِعَادَۃً غَیْرَ الْإِعَادَۃِ الْمَأْلُوفَۃِ فِي الدُّنْیَا .
”قبر میں عذاب و ثواب اور فرشتوں کے سوال و جواب کے ثبوت پرمتواتر احادیث موجود ہیں۔ انہیں ثابت سمجھنا اور ایمان لانا واجب ہے۔ اس کی کیفیت نہیں پوچھی جائے گی۔ عقل اس کے ادراک سے قاصر ہے، کیوں کہ یہ عقل کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ شریعت کا کوئی حکم خلاف عقل نہیں، لیکن شریعت بعض ایسی چیزیں ضرور بیان کرتی ہے، جن سے عقل حیران ہو جاتی ہے۔ قبر میں روح لوٹائے جانے کی کیفیت دنیا جیسی نہیں، بل کہ اس کی اپنی ایک خاص ہیئت ہے۔”
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ، ص : ٣٩٩)
نیز فرماتے ہیں:
وَذَہَبَ إِلٰی مُوجَبِ ہٰذَا الْحَدِیثِ جَمِیعُ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْحَدِیثِ، وَلَہ، شَوَاہِدُ مِنَ الصَّحِیحِ .
”اس حدیث (اثبات عذاب قبر) کو تمام اہل سنت و الحدیث مانتے ہیں۔ صحیح احادیث میں اس کے شواہد بھی موجو د ہیں۔”
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ، ص : ٣٩٨)
نیز لکھتے ہیں:
وَلَیْسَ السُّؤَالُ فِي الْقَبْرِ لِلرُّوحِ وَحْدَہَا، کَمَا قَالَ ابْنُ حَزْمٍ وَّغَیْرُہ،، وَأَفْسَدُ مِنْہُ قَوْلُ مَنْ قَالَ إِنَّہ، لِلْبَدَنِ بِلَا رُوحٍ وَّالْـأَحَادِیثُ الصَّحِیحَۃُ تَرُدُّ الْقَوْلَیْنِ وَکَذٰلِکَ عَذَابُ الْقَبْرِ یَکُونُ لِلنَّفْسِ وَالْبَدَنِ جَمِیعًا، بِاتِّفَاقِ أَہْلِ السُّنَّۃِ وَالْجَمَاعَۃِ، تَنْعَمُ النَّفْسُ وَتُعَذَّبُ مُفْرَدَۃً عَنِ الْبَدَنِ وَمُتَّصِلَۃً بِّہٖ . وَاعْلَمْ أَنَّ عَذَابَ الْقَبْرِ ہُوَ عَذَابُ الْبَرْزَخِ، فَکُلُّ مَنْ مَّاتَ وَہُوَ مُسْتَحِقٌّ لِّلْعَذَابِ نَالَہ، نَصِیبُہ، مِنْہُ، قُبِرَ أَوْ لَمْ یُقْبَرْ، أَکَلَتْہُ السِّبَاعُ أَوِ احْتَرَقَ حَتّٰی صَارَ رَمَادًا وَُنُسِفَ فِي الْہَوَائِ، أَوْ صُلِبَ أَوْ غَرِقَ فِي الْبَحْرِ وَصَلَ إِلٰی رُوحِہٖ وَبَدَنِہٖ مِنَ الْعَذَابِ مَا یَصِلُ إِلَی الْمَقْبُورِ وَمَا وَرَدَ مِنْ إِجْلَاسِہٖ وَاخْتِلَافِ أَضْلَاعِہٖ وَنَحْوِ ذٰلِکَ فَیَجِبُ أَنْ یُّفْہَمَ عَنِ الرَّسُولِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مُرَادُہ، مِنْ غَیْرِغُلُوٍّ وَّلَا تَقْصِیرٍ، فَلَا یُحَمَّلُ کَلَامُہ، مَا لَا یَحْتَمِلُہ،، وَلَا یُقَصَّرُ بِہٖ عَنْ مُّرَادِہٖ وَمَا قَصَدَہ، مِنَ الْہُدٰی وَالْبَیَانِ، فَکَمْ حَصَلَ بِإِہْمَالِ ذٰلِکَ وَالْعُدُولِ عَنْہُ مِنَ الضَّلَالِ وَالْعُدُولِ عَنِ الصَّوَابِ مَا لَا یَعْلَمُہ، إِلَّا اللّٰہُ بَلْ سُوءُ الْفَہْمِ عَنِ اللّٰہِ وَرَسُولِہٖ أَصْلُ کُلِّ بِدْعَۃٍ وَّضَلَالَۃٍ نَّشَأَتْ فِي الْإِسْلَامِ، وَہُوَ أَصْلُ کُلِّ خَطَأٍ فِي الْفُرُوعِ وَالْـأُصُولِ، وَلَا سِیَّمَا إِنْ أُضِیفَ إِلَیْہِ سُوءُ الْقَصْدِ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ . فَالْحَاصِلُ أَنَّ الدُورَ ثَلَاثٌ، دَارُ الدُّنْیَا، وَدَارُ الْبَرْزَخِ، وَدَارُ الْقَرَارِ، وَقَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ دَارٍ أَحْکَامًا تَخُصُّہَا، وَرَکَّبَ ہٰذَا الْإِنْسَانَ مِنْ بَّدَنٍ وَّنَفْسٍ، وَجَعَلَ أَحْکَامَ الدُّنْیَا عَلَی الْـأَبْدَانِ، وَالْـأَرْوَاحُ تَبَعٌ لَّہَا، وَجَعَلَ أَحْکَامَ الْبَرْزَخِ عَلَی الْـأَرْوَاحِ، وَالْـأَبْدَانُ تَبَعٌ لَّہَا، فَإِذَا جَاءَ یَوْمُ حَشْرِ الْـأَجْسَادِ وَقِیَامِ النَّاسِ مِنْ قُبُورِہِمْ صَارَ الْحُکْمُ وَالنَّعِیمُ وَالْعَذَابُ عَلَی الْـأَرْوَاحِ وَالْـأَجْسَادِ جَمِیعًا فَإِذَا تَأَمَّلْتَ ہٰذَا الْمَعْنٰی حَقَّ التَّأَمُّلِ، ظَہَرَ لَکَ أَنَّ کَوْنَ الْقَبْرِ رَوْضَۃً مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ أَوْ حُفْرَۃً مِّنْ حُفَرِ النَّارِ مُطَابِقٌ لِّلْعَقْلِ، وَأَنَّہ، حَقٌّ لَّا مِرْیَۃَ فِیہِ، وَبِذٰلِکَ یَتَمَیَّزُ الْمُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ مِنْ غَیْرِہِمْ وَیَجِبُ أَنْ یُّعْلَمَ أَنَّ النَّارَ الَّتِي فِي الْقَبْرِ وَالنَّعِیمَ، لَیْسَ مِنْ جِنْسِ نَارِ الدُّنْیَا وَلَا نَعِیمِہَا، وَإِنْ کَانَ اللّٰہُ تَعَالٰی یَحْمِي عَلَیْہِ التُّرَابَ وَالْحِجَارَۃَ الَّتِي فَوْقَہ، وَتَحْتَہ، حَتّٰی یَکُونَ أَعْظَمَ حَرًّا مِّنْ جَمْرِ الدُّنْیَا، وَلَوْ مَسَّہَا أَہْلُ الدُّنْیَا لَمْ یُحِسُّوا بِہَا بَلْ أَعْجَبُ مِنْ ہٰذَا أَنَّ الرَّجُلَیْنِ یُدْفَنُ أَحَدُہُمَا إِلٰی جَنْبِ صَاحِبِہٖ، وَہٰذَا فِي حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ، وَہٰذَا فِي رَوْضَۃٍ مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ . لَا یَصِلُ مِنْ ہٰذَا إِلٰی جَارِہٖ شَيْءٌ مِّنْ حَرِّ نَارِہٖ، وَلَا مِنْ ہٰذَا إِلٰی جَارِہٖ شَيْءٌ مِّنْ نَعِیمِہٖ، وَقُدْرَۃُ اللّٰہِ أَوْسَعُ مِنْ ذٰلِکَ وَأَعْجَبُ، وَلٰکِنَّ النُّفُوسَ مُولَعَۃٌ بِّالتَّکْذِیبِ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ عِلْمًا وَّقَدْ أَرَانَا اللّٰہُ فِي ہٰذِہِ الدَّارِ مِنْ عَجَائِبِ قُدْرَتِہٖ مَا ہُوَ أَبْلَغُ مِنْ ہٰذَا بِکَثِیرٍ وَّإِذَا شَاءَ اللَّہُ أَنْ یُّطْلِعَ عَلٰی ذٰلِکَ بَعْضَ عِبَادِہٖ أَطْلَعَہ، وَغَیَّبَہ، عَنْ غَیْرِہٖ، وَلَوْ أَطْلَعَ اللّٰہُ عَلٰی ذٰلِکَ الْعِبَادَ کُلَّہُمْ لَزَالَتْ حِکْمَۃُ التَّکْلِیفِ وَالْإِیمَانِ بِالْغَیْبِ، وَلَمَا تَدَافَنَ النَّاسُ، کَمَا فِي الصَّحِیحِ عَنْہُ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَوْلَا أَنْ لَّا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللّٰہَ أَنْ یُّسْمِعَکُمْ مِّنْ عَذَابِ الْقَبْرِ مَا أَسْمَعُ ......جاری ہے
-------------✧ ✧------------------✦✦✦----------------
وَبِاللّٰہِ التَّوْفِیْقُ
وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی نَبِیَّنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہ وَصَحْبِہ وَسَلَّمَ
وعلى آله وأصحابه وأتباعه بإحسان إلى يوم الدين۔
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
فضیلةالشیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS