Kya Biwi shauhar ko talaq de sakti hai?
Islam me talaq aur khula kya hai?
Kya Kisi bhi tanaja ka Wahid faisla Talaq hi hai?
سوال: گھریلو مسلہ طلاق دینا یا خلع لینا بیوی کا ؟
*جواب تحریری
خلع بیوی کے مطالبہ پر ہی ہوتا ہے اور بیوی کے مطالبہ کے بعد خاوند کا علیحدگی پر رضامند ہونے کو خلع کہتے ہے ۔
2 - خاوند سے علیحدگی اختیار کرنے والی ہر عورت پر عدت واجب ہے یا پھر اس کے خاوند نے اسے طلاق یا فسخ نکاح اور یا وفات کی وجہ سے چھوڑ ا ہو لیکن اگر دخول سے قبل طلاق ہوئي ہو تو پھر عورت پر کوئي عدت نہیں اس لیے کہ فرمان باری تعالی ہے :
اے مومنوں ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے قبل ہی طلاق دے دو تو ان پر تہمارا عدت کا کوئي حق نہیں جسے تم شمار کرو الاحزاب ( 49 ) ۔
3 - اور خلع کی عدت کے بارہ میں صحیح یہی ہے کہ وہ ایک حیض عدت گزارے گی اس کی دلیل سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے :
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ثابت بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی نے اپنے خاوند سے خلع کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ۔
سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1185 ) سنن ابوداود
حدیث نمبر ( 2229 ) اور امام نسائي رحمہ اللہ تعالی نے ربیع بنت عفراء سے حدیث بیان کی ہے سنن نسائي حدیث نمبر ( 3497 ) دونوں حدیثوں کو حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے صحیح قرار دیا ہے جس کا ذکر آگے آۓ گا ۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے :
خلع حاصل کرنے والی عورت کو ایک حیض عدت گزارنے کا جو حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اس میں دو حکموں کی دلیل ہے :
پہلا:
یہ کہ اس عورت پر تین حيض عدت نہیں بلکہ اسے ایک حیض بطور عدت گزارنا ہی کافی ہے ، جس طرح کہ حدیث میں واضح اورصریح موجود ہے ۔
امیر المومنین عثمان بن عفان اورعبداللہ بن عمر بن خطاب اورربیع بنت معوذ اوران کے چچا جوکبار صحابہ کرام میں سے ہیں ان سب کا مسلک بھی یہی ہے ، اوران کا کوئي بھی مخالف نہیں ۔
لیث بن سعد ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ کے مولی نافع سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ربیع بنت معوذ بن عفراء رضي اللہ تعالی عنہ سے سنا کہ وہ عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ کوبتا رہی تھیں کہ :
انہوں نے عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ کے دور میں اپنے خاوند سے خلع حاصل کیا تواس کے چچا عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس آ کر کہنے لگے بنت معوذ نے آج اپنے خاوند سے خلع لے لیا ہے تو کیا وہ منتقل ہوجاۓ ؟ توعثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا جی ہاں وہ منتقل ہوجاۓ نہ تو ان دونوں کے درمیان کوئي وراثت ہے اورنہ ہی ایک حیض کے سوا کوئي عدت ہے ، صرف ایک حیض کے آنےتک وہ نکاح نہیں کرسکتی کہ کہيں اسے حمل ہی نہ ہو ، توعبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما کہنے لگے : عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ہم سے زيادہ علم والے اورہم سے بہتر تھے ۔
اسحاق بن راھویہ اورامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی ایک روایت میں جسے شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نےبھی اختیار کیا ہے کا بھی یہی مسلک ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ : اس کی تائید قواعد شرعیہ کا مقتضی ہے کہ تین حیض عدت تواس لیے رکھی گئي ہے کہ رجوع کرنے کی مدت لمبی ہوسکے اورخاوند کواس مدت کے اندرغور وفکر کرنے کا موقع ملے اورعدت کے اندر رجوع کرنا ممکن ہوسکے ۔
اورجب بیوي کےلیے رجعت اورواپسی ہے ہی نہيں توپھرعدت کا مقصد تو صرف استبراء رحم ہے جس کےلیے ایک حیض ہی کافی ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ : اس بارہ میں تین طلاق شدہ عورت کی عدت کےساتھ ہم پر کوئي عیب نہیں لگایا جاسکتا ، اس لیے کہ طلاق کے بارہ میں بائن اوررجعی کے بارہ میں عدت کا حکم ایک ہی رکھا گیا ہے ۔ دیکھیں زاد المعاد ( 5 / 196 / 197 ) ۔
اس کے ساتھ ساتھ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ خلع والی عورت کی عدت بھی مطلقہ کی طرح تین حیض ہی ہے ، امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نےبڑے احسن انداز میں ان کا رد کرتے ہوۓ کہا ہے :
خلع طلاق نہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے دخول کے بعد ہونے والی طلاق جواپنا عدد مکمل نہ کرسکے( یعنی تین طلاق نہ ہوں بلکہ تین سے کم ہوں ) اس پر تین احکام مرتب کیے ہیں جوکہ سب کے سب خلع میں نہيں پاۓ جاتے :
پہلا : یہ کہ خاوند کو اس سے رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے ۔
دوسرا :
اس کی تعداد تین ہے تو تین کا عدد مکمل ہونے پر وہ اس کے لیے حلال نہیں مگرجب وہ کسی اورمرد سے شادی کرے اوردخول کے بعد اس سے بھی طلاق ہوتو پھر پہلے کے لیے حلال ہوسکتی ہے ۔
تیسرا :
اس میں عدت تین حیض ہیں ۔
تویہ سب کچھ خلع میں نہیں ہے ، لھذا اس بنا پر ہم یہ کہيں گے کہ خلع لینے والی عورت کی عدت اتنی ہی رہے گی جس پر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم دلالت کرتی ہے کہ اس کی عدت ایک حیض ہے ۔
محمد وقاص شیرازی فیصل آباد
__________________________
خواتین کےلئے اہم پیغام۔
راستہ الگ کرنے سے پہلے سوچ لیں۔
( *خواتین کے لیے*)
اگر آپ کی نظر میں ازدواجی ذندگی کے مسائل کا آخری حل علیحدگی ہی ہے تو ایک بار ان مسائل کا ادراک بھی کر لیں*۔
📌 میکے میں کیا کیا مسائل پیش آ سکتے ہیں؟
*بسا اوقات خواتین کا روٹھ کر میکے جانے کا مقصد طلاق یا خلع نہیں ہوتا بلکہ وہ چند دن رہنا چاہتی ہیں اور یہ سوچتی ہیں کہ شوہر منا کر لے جائے گا۔کبھی والدین بیٹی کی شکایات کو انا کا مسئلہ بنا کر بیٹی کو روک لیتے ہیں تو کبھی شوہر بیگم کے روٹھ کر جانے کو مسئلہ بنا لیتا ہے اور خود ہی آئے گی اور خود ہی آئے گا سے بات بڑھتے بڑھتے علیحدگی تک جا پہنچتی ہے*۔
*لہذا کبھی بھی اپنا گھر چھوڑ کر جانے کی غلطی نہ کریں*۔
📌 *ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ کیا میکے والے آپ کے اس فیصلے کی تائید کریں گے*؟
📌 *میکے میں والدین کے علاوہ بھائی اور بھابھیاں آپ کے وہاں مستقل قیام سے خوش ہوں گی*؟
📌 *میکے میں بچوں کے درمیان ہونے والی لڑائیوں سے آپ کی وقعت کم تو نہ ہو گی*؟
📌 *جس طرح اب چند گھنٹوں یا چند دنوں کے لیے میکے جانے پر آپ کا استقبال اور آؤ بھگت کی جاتی ہے مستقل رہنے کی صورت میں بھی ایسا ہی ہو گا*؟
📌 *سب سے بڑا مسئلہ اخراجات کا ہو گا کیا میکے والے ہمیشہ آپ کا ساتھ دے پائیں گے*؟
📌 *اگر آپ خود کماتی ہیں تو کیا یہ آمدن کافی ہو گی*؟
📌 *بچوں کا کیا مستقبل ہو گا*؟
📌 *کیا آپ بچوں کے بغیر رہ پائیں گی*؟
*میاں بیوی کے درمیان بہت سنجیدہ قسم کے مسائل بھی ہو جاتے ہیں لیکن علیحدگی کی صورت میں اوپر لکھے گئے مسائل اس سے بھی کہیں شدید ہوتے ہیں جب آہستہ آہستہ میکے میں آپ کی جگہ کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے*۔
علیحدگی کے بعد عموماً والدین دوسری شادی پر زور دیتے ہیں لیکن کیا دوسرا شوہرآپ کے بچوں کو قبول کرے گا۔
( طلاق یافتہ مرد حضرات کی 99% تعداد بغیر بچوں کی خاتون سے شادی کرنا چاہتی ہے کیونکہ وہ اپنے اور خاتون کے بچوں کو ایک جگہ رکھ کر تناؤ کی کیفیت نہیں بنانا چاہتے۔ خاتون کے بچوں کے اخراجات ایک اضافی بوجھ ہوتے ہیں)
اس لیے عزیز بہن اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کریں۔
مکمل دیانت داری کے ساتھ شوہر کی خوبیوں اور خامیوں کو دیکھیں اگر خوبیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے تو ساتھ رہنا ہی بہترین فیصلہ ہے۔
اپنی خامیوں پر بھی قابو پانے کی کوشش کریں۔
اور سب سے اہم یہ کہ ماضی کی تلخ یادوں کو ہمیشہ کے لیے دفن کرتے ہوئے بہت ہمت اور حوصلے کے ساتھ نئی زندگی کا آغاز کیجئے۔
محبت اور خلوص سے اس رشتے کو مضبوط کیجئے۔