find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Wuzu Kin Chijo se toot jata hai?

Wuzu kin kin chijo se toot jata hai 
وضو جن چیزوں سے ٹوٹتا ہے ۔ 

1_پیشاب،پاخانہ سے وضو ٹوٹ جاتا ہے
2_ہوا خارج ہونے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ۔ 
3_مرد یا عورت کی شرمگاہ سے مذی کے قطرے نکلنے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا، بیوی سے بوس و کنار یا گلے لگانے یا جنسی وڈیوز وغیرہ دیکھنے سے جو گاڑھے مادے جیسا پانی یا قطرے نکلتے، اسکو مذی کہتے ہیں، (مذی نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا،جب منی خارج ہو تب غسل واجب ہوتا ہے)*
4_شرمگاہ سے خون نکلنے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے،*
*جسیے عورت کو استحاضہ کا خون آتا ہے،* *استحاضہ وہ خون جو عورت کو حیض کے علاوہ ایام میں بیماری کی وجہ سے آتا ہے،
اکثر خواتین استحاضہ کے خون کو بھی حیض سمجھ کر نماز چھوڑ دیتی ہیں جو کے بالکل غلط ہے،*

*5_شرمگاہ کو کپڑے کے بنا چھونے سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا، 
6_گہری نیند سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے جو ٹیک لگا کر یا لیٹ کر آ جائے،*
7_اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد بھی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا،*
*8_ مرتد ہونے یعنی دین اسلام سے خارج ہونے والے کے پچھلے تمام اسلامی اعمال ختم ہو جاتے ہیں،*

9_ پاگل/غم یا نشہ وغیرہ سے بیہوش ہونے سے بھی وضو ٹوٹ جائے گا، کیوں کہ بیہوشی نیند سے زیادہ بے حس کر دیتی ہے،*
10_جن چیزوں سے غسل فرض ہو جاتا ہے،یعنی بیوی سے جماع،احتلام ہونے ،حیض و نفاس کا خون وغیرہ آنے سے،یقیناً ان سب سے وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے،*
انکے علاوہ کسی چیز سے وضو نہیں ٹوٹتا،
Share:

Kisi Shakhs ko Sharmgaah ke baal kitne Dino Par Saaf karni chahiye?

Sharmgaah ki Baal hme kaise aur Kitne Din par Saaf karni chahiye?

एक मुसलमान को अपने गुप्त अंग की सफाई किस तरह और कितने दिनों पर करनी चाहिए?
زیر ناف بالوں کو کاٹنا واجب اور ضروری ہے اور اس کا مقصد نجاست سے صفائی اور پاکیزگی ہے۔ چالیس دن تک یا اس سے زائد بلاوجہ چھوڑنا مکروہ ہے، اس کی حد ناف کے نیچے پیڑوکی ہڈی سے لیکر شرم گاہ اور اس کے آس پاس کا حصہ، خصیتین، اسی طرح پاخانہ کے مقام کا آس پاس کاحصہ اور رانوں کا وہ حصہ جہاں نجاست ٹھہرنے یا لگنے کا خطرہ ہو ،یہ تمام بال کاٹنے کی حد ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ " فتح البارى " ميں كہتے ہيں:
امام نووى كا كہنا ہے كہ: ( العانۃ ) زيرناف بالوں سے مراد وہ بال ہيں جو عضو تناسل پر اور اس كے ارد گرد بال ہيں، اور اسى طرح عورت كى شرمگاہ كے ارد گرد بال زيرناف بال كہلاتے ہيں.
اور ابو العباس بن سريج سے منقول ہے كہ: دبر كے سوراخ كے ارد گر پائے جانے والے بال.
تو اس مجموعى كلام سے يہ حاصل ہوا كہ قبل اور دبر اور ان كے ارد گرد پائے جانے والے سارے بال مونڈنا مستحب ہيں، وہ كہتے ہيں كہ: مونڈنے كا ذكر اس ليے كيا ہے كہ يہ غالب طور پر ہوتا ہے، وگرنہ پاؤڈر كے ساتھ يا اكھاڑ كر يا كسى اور طريقہ سے بھى اتارنے جائز ہيں.
اور ابو شامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
العانۃ: وہ بال ہيں جو الركب ( راء اور كاف پر زبر كے ساتھ ) يعنى پيٹ كے نچلے حصہ اور شرمگاہ كے اوپر ہوں، اور ايك قول يہ بھى ہے كہ ہر ران كى ركب ہوتى ہے، اور يہ بھى قول ہے كہ شرمگاہ كے اوپر والے، اور يہ بھى كہا گيا ہے گہ مرد يا عورت كى بنفسہ شرگاہ پر اگے ہوئے بال.
وہ كہتے ہيں: قبل اور دبر سے بال ختم كرنے مستحب ہيں، بلكہ دبر سے زائل كرنا اولى ہيں كہ كہيں ان ميں پاخانہ وغيرہ نہ اٹك جائے، كہ پانى سے استنجاء كيے بغير وہ گندگى ختم ہى نہ ہو، اور پتھر اور ڈھيلے استمال كرنے سے وہ گندگى ختم نہيں ہوگى.
اور ان كا كہنا ہے كہ: مونڈنے كى جگہ پاؤڈر بھى استعمال كيا جا سكتا ہے، اور اسى طرح اكھاڑنے اور كاٹ كر بھى صاف كرنے صحيح ہيں.
امام احمد رحمہ اللہ سے زيرناف بال قينچى كے ساتھ كاٹنے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:
مجھے اميد ہے كہ يہ كفائت كرےگا، تو ان سے عرض كيا گيا: تو پھر اكھاڑنا كيسا ہے ؟
تو انہوں نے جواب ديا: آيا كيا كوئى اس كى طاقت ركھتا ہے ؟
اور ابن دقيق العيد كہتے ہيں كہ: اہل لغت كا كہنا ہے:
العانۃ: وہ بال ہيں جو شرمگاہ پر اگے ہوں، اور ايک قول يہ بھى ہے كہ: وہ بال اگنے والى جگہ ہے.
وہ كہتے ہيں: اور حديث سے مراد بھى يہى ہے، اور ابو بكر بن عربى كہتے ہيں: اتارے جانے بالوں ميں زيرناف بال اتارے جانے كا زيادہ حق ركھتے ہيں، كيونكہ ان ميں گندگى اور ميل كچيل پھنس جاتى ہے.
اور ابن دقيق العيد كہتے ہيں: دبر كے ارد گرد بال صاف كرنے كو مستحب كرنے والے لگتا ہے كہ انہوں نے بطور قياس ايسا كہا ہے. اھـ
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب
Share:

Private Parts (Jer-E-Naaf) ki balon Ko kab tak hme saaf kar leni chahiye?

Private Parts Ke bal ko kis tarah Saf Karni Chahiye aur ager koi Shakhs  40 din ke bad karta hai to kya uska Koi bhi Ebadat Qubool nahi hoga?
اسلام‘ انتہائی پاک، نفیس اور صاف ستھرا دین ہے اور شریعتِ اسلامیہ میں ظاہر و باطن کی طہارت اور پاکیزگی پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاللّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ.
اور اﷲ طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتا ہے۔
التَّوْبَة، 9: 108
مُطہرین (صفائی پسند) سے اللہ پاک کا اظہارِ محبت فرمانا‘ اسلام میں صفائی اور پاکیزگی کی اہمیت کی دلیل ہے۔ اسلام نے جسم کے غیرضروری بالوں کی صفائی کو طہارت کا حصہ اور انسانی فطرت کا تقاضا قرار دیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
الْفِطْرَةُ خَمْسٌ: الْخِتَانُ وَالِاسْتِحْدَادُ وَنَتْفُ الْإِبْطِ وَقَصُّ الشَّارِبِ وَتَقْلِيمُ الْأَظْفَارِ.
پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں: ختنہ کروانا، زیر ناف بال صاف کرنا، بغلوں کی صفائی کرنا، مونچھیں تراشنا اور ناخن کاٹنا۔

بخاری، صحیح، كتاب الاستئذان، باب الختان بعد الكبر ونتف الإبط، 5: 2320، رقم:5939، دار ابن کثير اليمامة بيروت

مسلم، الصحیح، كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، 1: 222، رقم: 257، دار احياء التراث العربي بيروت

اس حدیثِ مبارکہ میں جسم کے غیرضروری بالوں کی صفائی کو انسانی فطرت سے تعبیر کیا گیا ہے، لہٰذا فطرت کا تقاضا تو یہی ہے کہ کم از کم ہفتہ میں ایک بار ضرور ان بالوں کی صفائی کی جائے، حسب ضرورت کمی بیشی کی جا سکتی ہے لیکن چالیس دن کی مدت سے زیادہ انہیں چھوڑے رکھنا جائز نہیں ہے۔ حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ:
وُقِّتَ لَنَا فِي قَصِّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمِ الْأَظْفَارِ، وَنَتْفِ الْإِبِطِ، وَحَلْقِ الْعَانَةِ، أَنْ لَا نَتْرُكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً.
ہمارے لیے مونچھیں ترشوانے، ناخن کاٹنے، بغلوں کے اور زیر ناف بال صاف کرنے کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن مقرر کی گئی ہے۔
مسلم، الصحیح، كتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، 1: 222، رقم: 258
امام ترمذی، امام نسائی، ابو یعلی اور ابن جعد نے بھی کچھ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  کی روایت نقل کی ہے۔ ذیل میں دئیے گئے الفاظ سنن ترمذی کے ہیں:
وُقِّتَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ  صلی الله علیه وآله وسلم  قَصَّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمَ الْأَظْفَارِ، وَحَلْقَ الْعَانَةِ، وَنَتْفَ الْإِبْطِ، لَا يُتْرَكُ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ يَوْمًا.
نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ہمارے لیے مونچھیں کترنے، ناخن کاٹنے، زیر ناف بال مونڈنے اور بغلوں کے بال صاف کرنے میں وقت مقرر کیا  کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔

ترمذي، السنن، كتاب الأدب عن رسول الله  صلی الله علیه وآله وسلم، باب في التوقيت في تقليم الأظفار وأخذ الشارب، 5: 92، رقم: 2759، دار احياء التراث العربي بيروت

أبو يعلى، المسند، 7: 198، رقم: 4185، دمشق: دار المأمون للتراث

شیخ نظام اور ان کی جماعت نے فتاوی عالمگیری میں جسم کے غیر ضروری بالوں کی صفائی کے حوالے سے لکھا ہے:
وَيَحْلِقَ عَانَتَهُ وَيُنَظِّفَ بَدَنَهُ بِالِاغْتِسَالِ في كل أُسْبُوعٍ مَرَّةً فَإِنْ لم يَفْعَلْ فَفِي كل خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا وَلَا يُعْذَرُ في تَرْكِهِ وَرَاءَ الْأَرْبَعِينَ فَالْأُسْبُوعُ هو الْأَفْضَلُ وَالْخَمْسَةَ عَشَرَ الْأَوْسَطُ وَالْأَرْبَعُونَ الْأَبْعَدُ وَلَا عُذْرَ فِيمَا وَرَاءَ الْأَرْبَعِينَ وَيَسْتَحِقُّ الْوَعِيدَ.
اور زیر ناف بالوں کی صفائی اور غسل کے ذریعے پورے بدن کی صفائی، ہفتہ میں ایک مرتبہ کرے، اگر نہ کرسکے تو ہر پندرہ دن بعد کرے اور چالیس دن کے بعد کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔ لہٰذا ہفتہ میں ایک مرتبہ کرنا افضل اور پندرہ دن میں ایک بار کرنا اوسط اور چالیس دن میں ایک مرتبہ کرنا بعید کا درجہ ہے اور چالیس دن کے بعد کوئی عذرقبول نہیں اور وہ وعید کا مستحق ہوگا۔
مزید فرماتے ہیں:
وَيَبْتَدِئُ في حَلْقِ الْعَانَةِ من تَحْتِ السُّرَّةِ وَلَوْ عَالَجَ بِالنُّورَةِ في الْعَانَةِ يَجُوزُ
زیر ناف بالوں کی صفائی، ناف کے نیچے سے شروع کرے اور اگر بالوں کی صفائی کے لیےنورہ (پاؤڈر یا کریم) کا استعمال کرے تب بھی جائز ہے۔
الشيخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاويى الهندية، 5: 358، بيروت: دارالفکر
ان تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ زیرِ ناف بالوں کی صفائی مرد و عورت کی جسمانی صفائی کا حصہ ہے۔ جسم کے غیرضروری بالوں کی ہفتے میں ایک بار صفائی کرنا مستحب، پندرہ دن میں ایک بار کرنا مباح اور چالیس دن میں ایک بار کرنا لازم ہے۔ اس سے زائد عرصہ کی ممانعت ہے، چالیس دن سے زائد عرصے تک جسم کے غیرضروری بالوں کو چھوڑے رکھنا مکروہ تحریمی ہے۔ ایسا کرنے والے کی نماز ہو جائے گی مگر کراہت کے ساتھ اور وہ سخت گنہگار بھی ہوگا۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

Share:

Ek Bahut hi Hasin-o-jameel Khatoon ki kahani jisne Shadi nahi Ki?

لڑکیوں کے ﺍﺳﮑﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻧﺌﯽ ﭨﯿﭽﺮ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﻠﯿﻤﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺷﺎﺩﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ...
ﺗﻤﺎﻡ ﻟﮍﮐﯿﺎﮞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺭﺩ ﮔﺮﺩ ﺟﻤﻊ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻣﺬﺍﻕ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﮉﻡ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ... ؟
ﻣﯿﮉﻡ ﻧﮯ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ - ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﯽ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﺗﮭﯿﮟ، ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﮬﻤﮑﯽ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﺴﯽ ﺳﮍﮎ ﯾﺎ ﭼﻮﮎ ﭘﺮ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺁﺅﮞ ﮔﺎ، ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﻭﮦ ﮨﯽ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮧ ﭼﮭﭩﯽ ﺑﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮨﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﮨﺮ ﻧﮯ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺑﯿﭽﻮﮞ ﺑﯿﭻ ﭼﻮﮎ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﺁﯾﺎ، ﻣﺎﮞ ﭘﻮﺭﯼ ﺭﺍﺕ ﺍﺱ ﻧﻨﮭﯽ ﺳﯽ ﺟﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺳﭙﺮﺩ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ .
ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺩﻥ ﺻﺒﺢ ﻭﺍﻟﺪ ﺟﺐ ﭼﻮﮎ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺍ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﭽﯽ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ، ﺑﺎﭖ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﮔﮭﺮ ﻻﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺭﺍﺕ ﭘﮭﺮ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﭼﻮﮎ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﺁﯾﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﻭﺯ ﯾﮩﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﺭﮨﺎ، ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﻭﺍﻟﺪ ﺑﺎﮨﺮ ﺭﮐﮫ ﺁﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﻮ ﻣﺠﺒﻮﺭﺍ ﻭﺍﭘﺲ ﺍﭨﮭﺎ ﻻﺗﺎ، ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺎﭖ ﺗﮭﮑﺎ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﻣﺮﺿﯽ ﭘﺮ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ .
ﭘﮭﺮ ﺧﺪﺍ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﻣﺎﮞ ﭘﮭﺮ ﭘﯿﭧ ﺳﮯ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺑﺎﺭ ﺍﻥ ﺑﯿﭩﺎ ﮨﻮﺍ، ﻟﯿﮑﻦ ﭼﻨﺪ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﺑﯿﭩﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﯽ ﻣﻮﺕ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ، ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﻣﺎﮞ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﺎﺭ ﭘﯿﭧ ﺳﮯ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﯿﭩﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎﮞ ﺳﮯ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺗﯽ .
ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺯﻧﺪﮦ ﺑﭽﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻭﮨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﺑﺎﭖ ﺟﺎﻥ ﭼﮭﮍﺍﻧﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ، ﻣﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎﮞ ﺳﮯ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﺩﮬﺮ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﯿﭩﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﭩﯽ ﺳﺐ ﺑﮍﮮ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ .
ﭨﯿﭽﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﭘﺘﮧ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺑﯿﭩﯽ ﺟﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮨﯽ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟ " ﻭﮦ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ " ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺷﺎﺩﯼ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ، ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﻭﺍﻟﺪ ﺍﺗﻨﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﺮﯾﮟ . ﺑﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﭘﺎﻧﭻ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺁﮐﺮ ﺑﺎﭖ ﮐﺎ ﺣﺎﻝ ﭼﺎﻝ ﭘﻮﭼﮫ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ .
ﻭﺍﻟﺪ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺷﺮﻣﻨﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﻭ - ﺭﻭ ﮐﺮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻣﯿﺮﯼ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﭽﭙﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﻧﺎ .
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﯽ ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺳﯽ ﻗﺼﮧ ﭘﮍﮬﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺑﺎﭖ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻓﭧ ﺑﺎﻝ ﮐﮭﯿﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﺎ ﺣﻮﺻﻠﮧ ﺑﮍﮬﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﺎﻥ ﺑﻮﺟﮫ ﮐﺮ ﮨﺎﺭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ . ﺩﻭﺭ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﺑﺎﭖ ﮐﯽ ﺷﮑﺴﺖ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﭙﭧ ﮐﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﻮﻟﯽ ﺑﺎﺑﺎ ﺁﭖ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﮭﯿﻠﯿﮟ، ﺗﺎﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺟﯿﺖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮨﺎﺭ ﺳﮑﻮﮞ .
ﺳﭻ ﮨﯽ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﯿﭩﯽ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﺣﻤﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
Share:

Khane me Namak Km Hone Par Gussa hone walo ko Paigam.

Waise log jo Chhoti Chooti Baton Pe Apni Ghar ki Auraton Par Aape Se Baher Aa Jate Hai.
Assalamu Alaikum wa rahmatullah hi wa barakatahu……
Hamara yeh message wo walid, wo bête , wo bhai aur wo Shauhar ke liye hai jo zara si bat par apne maa, bahen biwi aur beti par apni zubaan ki, hathon ki taqat aazmate hain…..
Aur wo wajah hai ……………
GHAR ME PAKWAAN SAHI NAHI PAKANA
Hum me se har kisi ke ghar mein hota hai na yeh.
Ke khaane mein thoda sa Namak Jyada ho gaya
Ya curry mein namak Jyada ho gaya basss ……..
Shuru ho jate hai apni haiwaniyat dikhana…..
Please iss message ko aakhir tak parhna uske baad bhi aap na badal pao apne aap ko to Ek dafa Aaina zaroor dekhna ke aap INSAN hi ho ya kuch aur?
Kabhi Apne unn sarak par signal ke pass chote chote bachon ko dekha
Jo kisi ka bhi bachaya hua rizq (Khana) maang maang kar khate hain???
Ya phir kabhi aap ne us resturant aur 5star hotel ke piche side ( back side ) jaa ke dekha jismein aap bade mazedaar khana khake apni tummy tight kar ke uth”te ho.
Nahi dekha ho to zaroor dekhna ek dafa ….
Wahan jo log wahan par phenka gaya rizq ( khana ) utha ke khate hain na to unse poochna kabhi kisi se shikayat ki ke uske zaiqe mein Namak Jyada hua ho to ya mirch ziada hui ho to????
Nahi balke wo aap par hans padenge
Pata hai kiun ????
Kiun ke unhe pata hai rizq kya hai???
Zara sochiye aap kis par pukaar rahe hain ?
Apni Maa par jo aap ko zaiqa kia cheez hai batayi hai ????
Pata hai jab aap nanhe se the wo maa hi thi wo thoda thoda karke zuban ko wo zaiqa dikhayi hai jiski aap ko aaj aadat padhi hai…………
Aap thook diya karte the mere bhai jab maa zari si mirch wala loqma aap ke muhh mein rakhe to wo thakti nahi thi balki aaj iss waqt tak aap ko le aayi hai
Aap usi Maa par chillate ho zara sa namak ziada hone par ???
Zari si mirchi ziada hone par zara sa zaeqa badal jaane par ????
Ya phirr apni wo bahen par chillate ho jo aap se badi ya choti hai????
Zara sonchiye wo apne masoom mulayam aur nanhe hathon se aap ko khana banake deti hai
Kabhi aap gaye ho Coker ke pas nahi to ek dafa jaana zaroor abhi
Aur phirr apne bahen ke hathon ko dekhna yeh dawe ke sath kahenge 2 se chaar jagah jala hua hoga…………..
Par wo kabhi aap se yeh nahi kahi na ke bhai teri wajah se , Abbu aap ke liye khana banana ki wajah se ya apne Shauhar se ke
ji suniye aap ki wajah se mera hath ya ungliyan jali hain .
Balki unhi hanthon se aap ke liye agle waqt ka khana banati hain.
Mere bhai apni behnen apne ghar ke Mehmaan hain wo zidagi bhar aap ke yahan nahi rahengi wo phool hain unhe murjhaane mat dena Aeisi baten karke.
Har kisi ka dil hota hai aap ko palat ke nahi bolti hain iska matlab yeh nahi ke wo dil nahi rakhti hain apne seene mein.
Jab aap ke jism par 50 se 60 saal chadh jayenge na to ek kursi par baithe hue jab aap ki wahi pyaari bahen milne aayi to sonchoge ke hum yahin khela karte the yahin bade hue hain
Aur usmen yeh lamha bhi Aa jata hai jab aap usko daant’te ho, to agar achi yadon se muskurana chahte ho to Bra-E-Meharbani ab unse MOHABBAT se pesh Aana.
Aaj kal to riwaaj ho gaya hai
Zara koi galti kardo to apne walid, bhai sab milke bolte
kya Malum Yah Hmari Izzat Ka Khyal Rakhti Hai Ya Jnaza Nikalti Hai?
Apne bahen se aise baten karoge ???
Kuch to lehaaz karo bhai yaad rakhna jo apni bahen ki izzat nahi karta wo aane wali apni biwi ki bhi nahi karta…
Ab biwi ka number………..
Aap us biwi par chillaoge jo ek anjaan duniya mein tum jaise khote sikke par yaqeen kar ke Aeitebar Karke aayi hai raai ke daane ke barbar hota hai yaqeen usko. badi mushkil se ulajhti hai dheere dheere har kaam se
Itni si baat ko leke raaii ka Pahar banaoge aap ????
Sharm kijiye mere bhai wo biwi hai aap ka Nisf imaan…..
Aap ke aane wali nasl ki buniyaad
Jab aap uski izzat nahi karoge aap uska sath nahi doge to kya aap ki aulaad khaq degi????
Wo bechaari ghar par bhi nahi bata paati ke Abbu Aisa hua hai itni bat par wo mujh par chillaye hain
Pata hai kyu?
Kyu ke wo baap wo bhai khud bhi wahi karte the uske maike rehte waqt
MERE BHAIYO KUCH NAHI HOGA THHODA SA ZAEQA khARAAB HONE PAR
MAR NAHI JAOGE WO RIZQ HI HAI ZAHER NAHI HOGA
Ek hadees Mubarak mein aya hai
( sunain abu dawood aur tirmidhi ki hadees hai )
Ek dafa apne Nabi ek ilaaqe mein gaye wahan ke log ko pahle hi pata tha ke apne nabi Aa rahe hain wahan to ek sahabi ne socha nabi ke liye kuch tohfa le jaunga
To wo saara din mehnat kiye kaam kiye aur Tohfe ke taur par wo angoor ( grapes ) liye aur nabi ke pas gaye aur wo angoor pesh kiye nabi ko.
Nabi ne saare angoor kha liye.
Jo baqi Sahaba nabi ke sath the wo hairan reh gaye.
Baad mein wo sahaba saare Nabi se fariyad kiye
Aye Allah Nabi yeh kya tha aap ko Aeisa karte hue kabhi nahi dekha ke
Aap koi cheez bina sath walon ko diye kha liye ho to iss dafa aisa kyu hua?
Sadqe jawoo mere Nabi par
Aap ﷺ ne Jawab Diya
Jab maine angoor khana shuru kiya to wo angoor khatte the
To maine saare isliye kha liye agar wo main aap ko deta to aap Mooh teda karte angoor khatte hone ki waajah se
Aur unke dil ko taqleef hoti jinhone mere liye wo angoor itni Mehnat se aur bade pyaar se laaye hain.
Zra sochiye wo to Nabi the: mere bhai jinka Muqaam Itna Aala
Emam-E-Qayenat, khatm-U--Nabiyin, Saiyad-ul-Mursalin, Saiyd-ul-Ambiya, Tajdar-E-Madina, Mahboob-E-Khuda, Imaam-ul-Ambiya ho ke wo kisi ke ehsas ki qadar kiye hain
Aap to sage bhai ho Nanhi si Bahen par is Tarah Gussa Ho Jate Ho?
Yeh Allah ke pas pakad bhi ho sakti hai
Aur yah Muashare (Society) ko kya kahen Aeise jalladon ko kehte hain....
HAMARA BACHE KI ZUBAAN CHATPATI HAI ZAEQA ACHA HONA KHANA BANANE TO ATA NA BACHI KO……..
Ab wahi chat pate ko bolo banane ke liye to rizaq ko zaher bana dega ……
Agar aap mein zari si bhi girat ho na to abhi jaa ke apne Maa se Behan se BIWI se muafi mangiye agar aap ka ego uski ijazat nahi dega na to kam az kam unhe dekh ke muskuraiye aur ALLAH se muafi mangiye
Aur khabardaar dubara aeisi harkat ki to ……
ALLAH HUM SAB KO RIZQ KI AHMIYAT SAMJHNE WALA BANAYE NA KE ZAEQO KO AHMIYAT DENE WALA
KIUN KE PATA NAHI HUM ME SE KITNE JANNATI HAIN KITNE JAHANNUMI
ALLAH NA KARE AGAR DOZAQ MILE TO KYA WAHAN BHI ZAEQA ZAEQA KAROGE
ALLAH WAHAN KHOON AUR jakhem ka Pani DEGA PEENE KE LIYE JAB?
TASAWWUR BHI NI KAR PAOGE AAP
ALLAH HAR WALID, BHAI, BETE AUR SHAUHR KO HIDAYAT DE KE WO
APNE BIWI , BAHEN , BETI AUR MAA KE EHSAASON KA LEHAAZ KARE. Aameen Summa Aamen  آمین یارب العالمین

Share:

Muharram ke mahine Me Tajiya Nikalna Islam Nahi Sikhata?

Muharram Ke Mahine Me Julus Aur Tajiya Lekar Ghumna Kya Islam Sikhata Hai?
BismillahirRahmanNirRaheem
Muharram ke mahine me ye sab karna bidaat hai. ❌❌❌
----------------------------------------------------
❌ *Tazia banana*
❌ *Matam karna.*
❌ *Special koi Pakwan pakana
❌ *logo me sharbat baatna* (Specially khaas din)
❌ *Kisi bhi din ya Ebadat ko makhsoos khud se kar lena jisko Rasoolullah ﷺ ya Sahaba ,Tabaee ne nahi kiya hoto wo Bidaat hai.*
➡ *Deen me koi bhi nayi cheez Shamil krna bidat hai*
🔰 *[Sahih al bukhari:2697]
___________________

Share:

Larkiyo ke Liye Jaldi Shadi Karne ko Kyu Kaha Jata Hai?

Aakhir Log kyu kahte hai ke umer ho gayi ab shadi kar deni chahiye?
ﺳﻮﺍﻝ . ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﺗﺮﮔﯿﺐ ﮐﯿﻮﮞ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ؟
*********************************
ﺝ .. ﻭﺍﻟﺪﯾﻦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ . ﺑﭽﯿﺎﮞ ﺟﺐ ﺟﻮﺍﻥ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺍﮦ ﻣﺨﻮﺍﮦ ﺗﺎﺧﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ، ﺑﺎﻟﺨﺼﻮﺹ ﺩﻭﺭ ﺣﺎﺿﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﮐﮧ ﻓﺘﻨﮯ ﻋﺎﻡ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﭘﺮ ﺍﺑﮭﺎﺭﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﮨﯿﮟ ، ﺍﮔﺮ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻣﮩﯿﺎ ﻓﺮﻣﺎﺩﯾﮯ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﮐﺎﻡ ﯾﮧ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﭽﯽ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﻓﺮﯾﻀﮯ ﺳﮯ ﺳﺒﮑﺪﻭﺵ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ ، ﺭﺳﻮﻝ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﺌﯽ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺯﻭﺭ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ :
ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﮨﺮﯾﺮﮦ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﺳﮯ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﷲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
" ﺟﺐ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﮐﺴﯽ ﺍﯾﺴﮯ ﺷﺨﺺ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﭘﯿﻐﺎﻡ ِﻧﮑﺎﺡ ﺁﺋﮯ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺩﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﻼﻕ ﺳﮯ ﺗﻢ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮ ، ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ‏( ﺍﭘﻨﯽ ﺑﭽﯽ ﮐﺎ ‏) ﻧﮑﺎﺡ ﮐﺮﺩﻭ ، ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﻓﺘﻨﮧ ﻭﻓﺴﺎﺩ ﺑﺮﭘﺎ ﮨﻮﮔﺎ “ ۔ ‏( ﺗﺮﻣﺬﯼ ‏)
ﻋﻤﻮﻣﺎً ﻟﻮﮒ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﯾﻦ ﺩﺍﺭ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﺎﻟﺪﺍﺭ ﻟﮍﮐﮯ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ . ﺟﺒﮑﮧ ﺩﯾﻦ ﺩﺍﺭ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﻟﺪﺍﺭ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯾﺎﮞ ﻋﻤﻮﻣًﺎ ﻏﯿﺮ ﭘﺎﺋﯿﺪﺍﺭ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ، ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺬﺍﺭﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﷲ ﺻﻠﻰ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺩﯾﻦ ﺩﺍﺭ ﻟﮍﮐﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺻﯿﺖ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ :
ﻋﻮﺭﺕ ﺳﮯ ﭼﺎﺭ ﭼﻴﺰﻭﮞ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﺮ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ،
ﺍﺳﮑﮯ ﻣﺎﻝ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ،
ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ،
ﺣُﺴﻦ ﺍﻭﺭ ﺩﻳﻦ ﮐﮯ ﺳﺒﺐ ﺳﮯ، ﺗﻢ ﺩﻳﻦ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﺮﻟﻮ ، ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﭩﯽ ﻟﮕﮯ “ ﻣﺘﻔﻖ ﻋﻠﻴﮧ
ﻋﻤﻮﻣﺎً ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻏﺮﯾﺐ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯾﺎﮞ ﺟﻠﺪ ﮐﺮﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻧﮧ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺻﺎﺣﺐِ ﺧﯿﺮ ﺣﻀﺮﺍﺕ ﮐﮯ ﺗﻌﺎﻭﻥ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﻓﺮﺽ ﺳﮯ ﺳﺒﮑﺪﻭﺵ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ،
ﺟﺐ ﮐﮧ ﺧﻮﺷﺤﺎﻝ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﮈﺍﮐﭩﺮ، ﺍﻧﺠﻨﺌﯿﺮ، ﺗﺎﺟﺮ ، ﻣﻼﺯﻡ ﭘﯿﺸﮧ ،ﮔﺎﮌﯼ ﮐﻮﭨﮭﯽ ﮐﮯ ﭼﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﺗﺎﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﮐﺎﻡ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ،ﺣﺘﯽ ﮐﮧ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺑﭽﯿﺎﮞ ﺳﻦ ﯾﺎﺱ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ ،
ﺍﯾﺴﮯ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﺳﮯ ﻋﺮﺽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺳﮯ ﮈﺭﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺮ ﻧﮧ ﮐﺮﯾﮟ ﺍﺳﻠﯿﮯ ﮐﮧ ﺑﻌﺾ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﮍﮮ ﮨﯽ ﺑﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯿﺎﻧﮏ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮞﺎﻭﺭ ﺁﮒ ﮐﮯ ﻟﮕﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺪﺑﯿﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﺮ ﻋﻘﻞ ﻣﻨﺪ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ،ﺍﺳﻠﯿﮯ ﮐﮧ :
ﺍﮮ ﭼﺸﻢ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﺫﺭﺍ ﺩﯾﮑﮫ ﺗﻮ ﺳﮩﯽ ﯾﮧ ﮔﮭﺮ ﺟﻮ ﺟﻞ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺗﯿﺮﺍ ﮔﮭﺮ ﻧﮧ ﮨﻮ .
ﺩﻋﺎﮨﮯ ﮨﺮ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﺎ ﺍﻟﻠﻪ ﻧﺼﯿﺐ ﺍﭼﮭﺎ ﮐﺮﮮ - ﺁﻣﯿﻦ !

Share:

Tashahud Me Shahadat ki Ungali ko Harkat Dena Chahiye ya Nahi?

Tashahud Me Ungali Ko Harkat dena Kaisa Hai aur ise Kaise Harkat dena chahiye?
میرا سوال ہے کیا التحیات کے لیے قعدہ میں بیٹھتے ہیں تو شہادت کی انگلی لگا تار حرکت کرتے ہیں قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس کا جواب دیں اس کی جو حدیث ہیں وہ بھی مطلوب ہے عین نوازش ہوگی
جواب تحریری
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال: تشہد میں انگشت شہادت کو حرکت دینا چاہیے یا نہیں؟اگر دیناچاہے تو کب ااور کیسے ہو؟اس مسئلے کے متعلق تفصیل سے روشنی ڈالیں۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دوران نماز تشھد کی حالت میں انگشت شہادت کو حرکت دینا نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے بلکہ تمام انبیاء علییہ السلام کا طریقہ مبارکہ ہے۔ چنانچہ امام حمیدی نے ایک آدمی کے حوالہ سے بیان کیا ہے۔کہ اس نے شام کے کسی گرجا میں انبیاء کے مجسموں کودیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور اپن انگشت شہادت کو اٹھائے ہوئے تھے۔)مسند حمیدی:ص 183 حدیث نمبر 6489
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے بھی اس سنت کو زندہ رکھا بلکہ اگر کسی سے اس سلسلے میں کوتاہی ہوجاتی۔ تو یہ حضرات اس کا مواخذہ کرتے۔)مصنف اب ابی شیبہ :ج2/ص 368(
لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں اس سنت کو باہمی اختلاف کی نزر کردیا گیا اس اختلاف کی بدترین صورت یہ ہے کہ اس سنت کو صحت نماز کے منافی قرار دیا گیا چنانچہ خلاصہ کیدانی احناف کے ہاں ایک معروف کتاب ہے جس کے متعلق سرورق پر لکھا ہے۔
اگر طریق صلوۃ کہہ وانی اگر نخوانی خلاصہ کیدانی
اگر تو نے خلاصہ کیدانی نہ پڑھا تو نماز کے طریقہ کے متعلق تجھے کچھ پتہ نہیں ہوگا۔ا س کتاب کا پانچواں باب ''محرمات'' کے متعلق ہے اس میں ان چیزوں کی نشان دہی کی گئی ہے جس کا ارتکاب دوران نمازحرام اور ناجائز ہے۔بلکہ ان کے عمل میں لانے سے نماز باطل قرار پاتی ہے۔ان میں سر فہرست باآواز بلند آمین اور رفع الیدین کو بیان کیاگیا ہے اس کی مذید وضاحت بایں الفاظ کی ہے۔الاشارۃ بالسبابۃ کامل الحدیث )خلاصہ کیدانی :ص11(
سبابہ انگلی کے ساتھ اشارہ کرنا جیسا کہااہل حدیث کرتے ہیں۔یعنی یہ عمل ان کے ہاں نماز کو باطل کردیتا ہے۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ مذکورہ بالاعربی عبارت کا فارسی زبان میں بایں الفاظ ترجمہ کیا ہے۔''اشارہ کردن بانگشت شہادت مانند قصہ خواناں''اس عبارت میں اہلحدیث کا ترجمہ''قصہ خواناں'' کیا گیا ہے گویا اہل حدیث محض داستان گو اور قصہ خوان ہیں۔مصنف خلاصہ کی ا س ناروا جسارت کے پیش نظر احناف کے معروف فقیہ اور عالم دین ملا علی قاری نے اس آڑے ہاتھوں لیا لکھتے ہیں کہ مصنف نے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا جس کی وجہ قواعد اصول اور مراتب فروع سے ناواقفیت ہے اگر اس کے متعلق حسن ظن سے کام نہ لیں اور اس کے کلام کی تاویل نہ کریں تو اس کا کفر واضح اور ارتداد صریح ہے۔کیا کسی مسلمان کے لئے جائز ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ثابت شدہ سنت کو حرام کہے اور ایسی چیز سے منع کرے جس پرعامۃ العلماء پشت در پشت عمل کرتے چلے آتے ہیں۔)تزبین العبارۃ لتحسن الاشارہ :ص 67(
بہرحال دوران تشہد انگشت شہادت کو حرکت دینا مصنف خلاصہ کیدانی کے نزدیک ''خام بدہن''ایک نازیباحرکت ہے جس سے نماز باطل ہوتی ہے۔نعوذ بالله من هفوات الفهم والقلم۔جب کے تشہد کی انگلی اٹھانا بڑی بابرکت اور عظمت و الی سنت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:'' کہ تشہد میں انگلی اٹھانا شیطان کے لئے دہکتے لوہے سے زیادہ ضرب کاری کا باعث ہے۔'')مسند امام احمد :3 ص119(
حضرت امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب نمازی اپنی انگشت شہادت کو حرکت دیتا ہے تو شیطان سے دور رہتا ہے اس وجہ سے نمازی گو خارجی وساوس اور نماز کے منافی سوچ وبچار سے محفوظ رہتا ہے کیوں کہ انگشت شہادت کا براہ راست دل سے تعلق ہے اس کے حرکت کرنے سے دل بھی رکا رہتا ہے جیسا کہ حدیث بالا میں اس کا اشارہ موجود ہے۔حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ دوران نماز شیطان کو اپنے سے دور رکھنے کے لئے انگشت شہادت کی یہ حرکت بہت کارگر ہے۔)مسند ابی یعلی :ص275/27(
ایک روایت میں ہے کہ شیطان اس سے بہت پریشان ہوتاہے۔)سنن بیہقی :ص 132/27(
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی ترغیب بایں الفاظ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز )کے قعدہ( میں بیٹھتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور اپنے دایئں ہاتھ کی وہ انگلی اٹھا لیتے جو انگوٹھے سے متصل ہے پھر اس کے ساتھ دعا مانگتے۔)صحیح مسلم :المساجد 580(
جو حضرات اس اشارہ اور حرکت کے قائل ہیں ان میں سے بعض کا موقف یہ ہے کہ تشہد میں''اشهد ان لا الٰه الا الله’’كہتے وقت انگشت شہادت اٹھائی جائے۔ اور جب یہ شہادت توحید ختم ہوجائے تو اپنی انگلی کو نیچے کرلیا جائے ان کی دلیل مندرجہ زیل حدیث ہے۔
حضرت خفاف بن ایما رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد کے لئے بیٹھے تو انگلی سے اشارہ کرتے جس سے آپ کی مراد توحید ہوتی۔)بیہقی :ج2 ص 133(
علامہ صنعانی لکھتے ہیں کہ دوران تشہد اشارے کا مقام لا الٰہ الا اللہ کہتے وقت ہے۔کیوں کہ امام بیہقی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک نقل فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ اس اشارہ سے مراد توحید واخلاص ہے۔)سبل السلام :ج1 ص 319(
لیکن اس حدیث میں کسی قسم کی صراحت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا الٰہ الا اللہ کہنے پر اشارہ کرتے تھے پھر یہ حدیث معیار محدثین پر پوری بھی نہیں اُترتی۔اس لئے محل اشارہ کی تعین کےلئے کوئی صریح اور صحیح حدیث مروی نہیں ہے بلکہ بظاہر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع تشہد سے انگلی اٹھانا چاہیے اور سلام پھیرنے تک اسے حرکت دیتے رہنا چاہیے چنانچہ حضرت وائل بن حجر رحمۃ اللہ علیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل مبارک بایں الفاظ بیان کرتے ہیں ''ہم نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انگلی ہلا رہے تھے اور اس کےساتھ دعا کررہے تھے۔'')ابودائود :الصلاۃ 727(
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں'' کہ اس حدیث میں انگشت شہادت کے متعلق مسنون طریقہ بیان ہوا کہ اس کا اشارہ اور حرکت سلام تک جاری رہے کیوں کہ دعا سلام سے متصل ہے۔'')صفۃ الصلاۃ : 158(
برصغیر کےنامور محدثین کا بھی یہی موقف ہے کہ انگشت شہادت کی حرکت شروع تشہد سے آخر تشہد تک جاری رہنی چاہیے۔)عون المعبود:ج1 ص 374:تحفۃ الاحوذی :ج1ص 241 مرعاۃ المفاتیح :ج2 ص 468(
بعض روایات میں ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوران تشہد انی انگلی کو حرکت نہیں دیتے تھے۔)ابو دائود :الصلواۃ 989(
لیکن عدم حرکت کا یہ اضافہ شاذ ہے کیوں کہ مذکورہ روایت محمد بن عجلان کی بیاں کردہ ہے جو متکلم فیہ راوی ہے اس کے بیان کرنے والے خالد الاحمر عمرو بن دینار یحیٰ اور زیادہ چار راوی ہیں۔ مذکورہ اضافہ بیان کرنے والے صرف زیاد ہیں جو باقی رواۃ کی مخالفت کرتے ہیں۔اگرثقہ راوی دوسرے ثقات کی مخالفت کرے تو اس کی بیاں کردہ روایت کو شاذ قرار دیا جاتا ہے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔)تمام المنہ :صفۃ الصلواۃ(
محمد بن عجلان کے علاوہ حضرت عامر بن عبد اللہ سے جب دیگر ثقہ راوی بیان کرتے ہیں تو وہ اس اضافہ کو نقل نہیں کرتے پھر اس اضافہ کے شاذ اور ناقابل حجت ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عجلان سے اس روایت کو مذکورہ حدیث کے بغیر ہی بیان کیا ہے۔)صحیح مسلم :المساجد 579(
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں '' کہ اضافہ والی روایت نافی ہے اور جن رواایت میں اشارہ کا زکر ہے وہ مثبت ہیں اور محدثین کے بیان کردہ اصول کے مطابق مثبت روایت نافی پر مقدم ہوتی ہے۔'')ذادالمعاد:ج 1 ص 238(
مختصر یہ ہے کہ تشہد بیٹھتے ہی انگشت شہادت کو اٹھا کر اسے مسلسل ہلاتے رہنا چاہیے اور اس عمل کے منافی جو روایات ہیں وہ شاذ منکر اور ناقابل حجت ہیں اب ہم تشہد بیٹھتے وقت دایئں ہاتھ اور اس کی انگلیوں کی کیفیت بیان کرتے ہیں محدثین کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے اس تین طرح سے بیان کیا ہے جو حسب زیل ہے۔
© دایئں ہاتھ کی تین انگلیوں کو بند کرلیا جائے پھر انگوٹھے کو انگشت شہادت کی جڑ میں رکھ کر انگشت شہادت سے اشارہ حرکت ہو۔حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد بیٹھتے تو اپنا بایاں ہاتھ بایئں گھٹنے پر رکھتے اور دایاں ہاتھ دایئں گھٹنے پر رکھتے اور تریپن کی گرہ لگاتے پھر انگشت شہادت سے اشارہ کرتے۔)صحیح مسلم ؛المساجد 580(
عرب کے ہاں ایک معروف طریقہ ہے کہ تریپن کا عدد بتانے کےلئے پہلی تین انگلیوں کو بند کرکے انگوٹھے کو انگشت شہادت کی جڑ میں رکھ دیتے حدیث میں تریپن کی گرہ لگانے کا یہی مطلب ہے تمام انگلیوں کو بند کرکے انگوٹھے کو درمیانی انگلی پر رکھا جائے اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا جائے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوران تشہد اپنے دایئں ہاتھ کی تمام انگلیاں بند کر لیتے پھر انگوٹھے کے ساتھ متصل انگلی سے اشارہ کرتے۔)صحیح مسلم :المساجد 58(
©ایک روایت میں مذید وضاحت ہے کہ انہی انگشت شہادت سے اشارہ کرکے انگوٹھے کو درمیانی انگلی پر رکھ لیتے۔)صحیح مسلم المساجد :579(
© پہلی دو انگلیوں کو بند کرلیا جائے پھر درمیانی انگلی اور انگوٹھے سے حلقہ بنا کر انگشت شہادت سے اشارہ کیا جائے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ '' کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دایئں ہاتھ کی دوانگلیوں کو بند فرمایا پھر درمیانی انگلی اورانگوٹھے کے ساتھ حلقہ بنایا اور انگشت شہادت سے اشارہ فرمایا۔'')ابو دائود الصلواۃ 726(
اور تین صورتوں کو گاہے بگاہے کرتے رہنا چاہیے اب ہم اس کا فلسفہ بیا کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں محمد صادق سیالکوٹی مرحوم کے الفاظ مستعار لیتے ہیں مولانا فرماتے ہیں کہ ''جب انگلی کو کھڑا کرکے اس نے توحید کی گواہی دی کہ اللہ ایک ہے پھر جب انگلی کو بار بار ہلانا شروع کیا تو اس نے بار بار ایک ایک ہونے کااعلان کیا مثلا دوران تشہد اگر انگلی کو سات بار ہلایا تو اتنی ہی مرتبہ انگلی نے توحید کا اعلان کیا گویا انگلی کھڑی ہوئی اور بول بول کر ایک اللہ ایک اللہ کہتی رہی اور نمازی ک کیف کا یہ عالم ہو کہ نظر انگلی ک رفع اور حرکت پر اوردماغ وحدانیت کو صلواۃ آبشار دل پر گرائے اور قلب عطشاں ر آب حیات پیا جائے۔)صلواۃ لرسول( حاصل لام یہ ہے کہ انگشت شہادت کو دوران تشہد حرکت دینا چاہیے اور حرکت سلام پھیرنے تک برقرار رہے حرکت نہ دینے کے متعلق جو روایات ہیں شاذ اور ناقابل حجت ہیں نیز نمازی کی نظر دوران حرکت انگلی اور اس کے اشارہ پر مرکوز رہو اور اس سے تجاوز نہ کرے اس کا فائدہ یہ ہے کہ نمازی داخلی انتشار اور خارجی خیالات سے محفوظ رہتا ہے۔)واللہ اعلم بالصواب(
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS