find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Biddat kya hai, Iski Qismein. Teri Biddat Teri Barbadi.

Biddat aur Uski Qismein.

"Teri Biddat Teri Barbadi" Kaise?
Eid Miladunnabi manana Sunnat ya Biddat?
https://findmrf.blogspot.com/2018/11/eid-miladunnabi-mnane-ki-barailwi-ki.html

Eid Miladunnabi manane ke Dalail ki Haqeeqat. 


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ

تیری بدعت، تیری بربادی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️: مسز انصاری

اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کے لیے جس دینِ اسلام کو کامل فرمایا وہ دین اس کی سعادت اور ہدایت کا منبع و مرکز ہے، اذہان و قلوب کی مثال آنکھ کی ہے جو روشنی میں اپنی قوت اور استعداد کے مطابق دیکھتی ہے، تاریکی میں کوئی بھی آنکھ چیزوں کو دیکھنے اور ان کی حقیقت و نوعیت کو جاننے سے معذور ہوجاتی ہے ۔ انسانی عقل کے لیے بھی کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک روشنی ہے جو اشیاء کی حقیقت اور پہچان کے لیے ضروری ہے ، مگر جب انسان اس روشنی سے دور ہوجاتا ہے تو شرک و بدعت کی پہچان سے بھی محروم ہوجاتا ہے ۔ یہ شرک و بدعات ہی شیطان کے وہ خطرناک اور مہلک ہتھیار ہیں جن کے وار سے وہ لوگوں کو سبیل اللہ سے ہٹا کر سبیل الشیطان کی راہ پر ڈال دیتا ہے، اور شرک و بدعت ، سبیل الشیطان ہے ، بدعت ان عقائد و عبادات کا نام ہے جو کتاب اللہ ، سنتِ رسول اللہﷺ اور اجماع امت کے خلاف ہو ،

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’دین اسلام میں بدعت ہر اس امر کو کہتے ہیں جسے نہ اللہ تعالیٰ نے مشروع کیا ہو، نہ ہی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ، یعنی جس کی کوئی شرعی حیثیت نہ ہو، نہ  واجب نہ مستحب‘‘
[ دیکھیے : فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃاللہ علیہ ، ۴/۱۰۷-۱۰۸۔]

ائمہ کرام کے نزدیک اعمال دو قسم کے ہوتے ہیں :
-عادات اور ،
-عبادات۔
عبادات میں اصل اللہ کی مشروع کردہ عبادات میں اضافہ نہ کرنا ہے، جبکہ عادات میں اصل اللہ تعالیٰ کے منع کردہ احکامات کے علاوہ کسی بات سے منع نہ کرنا ہے  ، عادات چونکہ عام امور زندگی سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ان میں بدعت نہیں ہوتی، البتہ جب انھیں عبادت سمجھ کر انجام دیا جائے ، یا عبادت کے قائم مقام سمجھا جائے تب ان میں بدعت داخل ہوجاتی ہے۔

بدعت کی دو قسمیں ہیں :
۱- بدعت مکفرہ: یہ وہ بدعت ہے جس کا مر تکب دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔
۲- بدعت مفسقہ : یہ وہ بدعت ہے جس کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا ۔
[دیکھئے: الاعتصام ،از امام شاطبی، ۲/۵۱۶ ]

بدعات عام گناہوں کی بہ نسبت زیادہ خطرناک ہوتی ہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مشرک اور بدعتی پر زجر و توبیخ فرمائی :

شَرَ‌عوا لَهُم مِنَ الدّينِ ما لَم يَأذَن بِهِ اللَّهُ وَلَولا كَلِمَةُ الفَصلِ لَقُضِىَ بَينَهُم
﴿سورةالشورىٰ : ٢١﴾
انہوں (مشرکوں) نے دین میں لوگوں کے لیے ایسے کام مشروع قرار دیے جن کا اللہ نے حکم نہیں فرمایا تھا۔ اگر (اللہ رب العزت کا) یہ طے شدہ امر نہ ہوتا (کہ روزِ قیامت انہیں اس کی سزا دی جائے گی) تو (دنیا ہی میں) ان کا فیصلہ کر دیا جاتا (یعنی ان پر عذابِ الہٰی نازل ہو جاتا)"

اور اس سنگینی کی وجہ یہ بھی ہے کہ شیطان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ وہ ابنِ آدم کو مختلف گھاٹیوں میں سے کسی گھاٹی میں اترنے کی دعوت دیتا رہے ، اس کی سب سے پہلی گھاٹی شرک باللہ ہے، اگر بندئہ مومن اس گھاٹی سے نجات پا لیتا ہے، تو وہ اسے بدعت کی گھاٹی پر طلب کرتا ہے اور دعوت دیتا ہے ، اگر تو مسلمان دینی احکام سے لا علمی ہوجائے، خواہشات کی پیروی کرے، حق کی دعوت دینے والوں سے تعصب برتے اور کفار سے مشابہت اختیار کرنے لگے تو وہ بہت جلد بدعت کی اس گھاٹی میں اوندھے منہ گر پڑتا ہے ، اور پھر دین کو ناقص سمجھ کر اس میں کمی بیشی کرنا شروع کردیتا ہے، جبکہ اللہ رب العزت نے انسان سے اپنے کامل دین میں کمی زیادتی کا مطالبہ ہرگز نہیں کیا، بلکہ اس کے برعکس فرمایا:

﴿اَليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَ‌ضيتُ لَكُمُ الإِسلـٰمَ دينًا...﴿سورة المائدة : ٣﴾
میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اپنی نعمت تم پر پوری کر دی اور تمہارے لیے دینِ اسلام کو پسند فرما لیا ہے"

اپنی رحلت سے قبل نبی کریمﷺ نے امت کو بھلائی کے تمام امور کی وضاحت فرما دی، اور یہ باور فرمایا کہ جو کام میرے عہدِ مسعود میں دین نہیں تھے ، وہ میرے بعد بھی دین نہیں ہو سکتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبۂ جمعہ میں اللہ کی حمد وثناء بیان کرنے کے بعدارشاد فرمایا کرتے تھے:

’’من یھدہ اللّٰه فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلا ھادي لہ، إن أصدق الحدیث کتاب اللّٰه ، وأحسن الھدي ھدي محمد ، وشر الأمور محدثاتھا، وکل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ، وکل ضلالۃ في النار‘‘

جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دیدے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں ، اور جسے گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، بیشک سب سے سچی بات اللہ کی کتاب ہے ،اور سب سے اچھا طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، اور بدترین امور نئی ایجاد کردہ چیزیں ہیں ، اور ہر نئی چیز بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے۔
[ اس حدیث کی اصل صحیح مسلم کی مذکورہ حدیث میں ہے، اِن الفاظ کے ساتھ سنن نسائی میں ہے ، دیکھئے:کتاب صلاۃ العیدین، باب کیف الخطبۃ، ۳/۱۸۸، حدیث نمبر(۱۵۷۸)۔]

علامہ ابن سعد رحمہ اللہ نے اپنی سند سے ذکرکیا ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’لوگو! میں متبع سنت ہوں ،بدعتی نہیں ہوں ، لہٰذا اگر درست کروں تو میری مددکرو، اور اگر انحراف کروں تو میری اصلاح کرو‘‘
[ دیکھیے : الطبقات الکبری ،از ابن سعد، ۳/۱۳۶۔ ]

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ اصحاب الرائے (بدعتیوں ) سے بچو، کیونکہ یہ سنتوں کے دشمن ہیں ، ان سے حدیثیں نہ یاد ہوسکیں تو انہوں نے اپنی من مانی کہنا شروع کردیا،خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا‘‘
[ دیکھیے : شرح أصول اعتقاد أھل السنۃ والجماعۃ، از لالکائی، ۱/۱۳۹، نمبر(۲۰۱)،وسنن الدارمی، ۱/۴۷، اثرنمبر(۱۲۱)،وجامع بیان العلم وفضلہ، از ابن عبد البر، ۲/۱۰۴۱، نمبر(۲۰۰۱،۲۰۰۳و ۲۰۰۵)۔ ]

(۳) عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’(سنت کی) اتباع کرو، بدعت نہ ایجاد کرو، سنت ہی تمہارے لئے کافی ہے،ہربدعت گمراہی ہے‘‘
[ في ماجاء في البدع، از ابن وضاح، ص:۴۳، نمبر(۱۴،۱۲)، والمعجم الکبیر ، از،امام طبرانی، ۹/۱۵۴، حدیث نمبر(۸۷۷۰)، امام ہیثمی رحمۃاللہ علیہ ’’مجمع الزوائد‘‘ (۱/۱۸۱)میں فرماتے ہیں :’’اس حدیث کے راویان صحیح بخاری کے ہیں ‘‘،نیز، شرح أصول اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ، از لالکائی، ۱/۹۶،حدیث نمبر(۱۰۲)، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی دیگر آثار کے لئے دیکھئے: في ماجاء في البدع، از ابن وضاح، ص:۴۵، ومجمع الزوائد، از امام ہیثمی رحمۃاللہ علیہ ، ۱/۱۸۱۔ ]

تابعین وتبع تابعین میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ایک شخص کے پاس ایک خط میں لکھا:
’’امابعد : میں تمہیں اللہ کے تقویٰ، اس کے معاملہ میں اعتدال کی راہ اپنانے،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے بعد جو کچھ بدعتیوں نے ایجاد کررکھا ہے اسے ترک کرنے کی وصیت کرتاہوں ‘‘
[سنن أبی داؤد، کتاب السنۃ، باب لزوم السنۃ، ۴/۲۰۳، حدیث نمبر(۴۶۱۲)، نیز دیکھئے:صحیح سنن ابوداؤد، از علامہ البانی رحمۃاللہ علیہ ، ۳/۸۷۳ ]

بدعت کا سب سے بھیانک اور تباہ کن نقصان یہ ہوتا ہے کہ بدعتی سنت اور اہل سنت سے بغض رکھتا ہے ،

امام اسماعیل بن عبد الرحمن صابونی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''اہل بدعت کی نشانیاں ظاہر وباہر ہیں ، ان کی سب سے واضح علامت یہ ہے کہ وہ حاملین سنت رسول ﷺسے شدید دشمنی اور عداوت رکھتے ہیں، اور انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں''
[ دیکھیے : عقیدۃ اھل السنۃ واصحاب الحدیث" صفحہ:299۔ ]

شرک وبدعت کے گناہ ہر روز اپنی نسل بڑھاتے ہیں، ہر روز ان کے گندے انڈوں سے بدتر سے بدتر نسل باہر آتی ہے، ان ہی شیطانی نسلوں نے مسلمان گھروں میں عابد و معبود کا فرق مٹادیا، تبلیغِ دین کو قوالیوں کا رنگ دے کر دین کا مقصد تفریح بنادیا،  مسجدوں میں بندروں کی طرح ناچنے، گانے، داڑھیوں کی سنت منڈانے مٹانے اور حشیش (بھنگ) پینے کو عبادت کا درجہ دے دیا ، گھروں کی چار دیواری میں محفوظ بنتِ حوا کو بازاروں اور مزاروں پر محوِ رقص کر دیا ، اللہ کے دین نے عورت کے جسم پر حلال رشتوں کو حلال کیا، مگر شرک و بدعت نے اسے مجاوروں کےہاتھوں کاکھلونا بنادیا، جہاں عورت کے محارم مجاوروں کی گندی ہوس کو دین سمجھ کر اپنی عورتوں کو ان کے شیطانی نفوس کے حوالے کردیتے ہیں ، یہ اور اس طرح کی دیگر وہ ساری خو دساختہ عبادتیں ان بدعات میں سے ہیں جنھیں کتاب و سنت کے مخالفین عبادت سمجھ کر انجام دیتے ہیں ۔ سنت پر قلیل عمل سے ماجور ہونے کے بجائے بدعت کی کثیر مشقت کو عبادت کا اعلیٰ درجہ سمجھنا بدعتی کا فضول زعم ہی دراصل شیطان کی فتح ہے ۔

وھٰذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

اے بدعتی، اے بدنصیب !!

زمین کے سینے پر تو جب تلک چل رہا ہے
اور تیرے سینے میں تیرا دل دھڑک رہا ہے

ہر روز دنیا کے کھیل تماشوں میں
پیسوں کے زور پہ یاروں کے شور میں

بازؤوں کی طاقت پر
جوانی کی اٹھان پر

جب تلک تو پنپ رہا ہے
اور دنیا کے مزے لوٹ رہا ہے

مگر جب جائے گا تو اس جگہ
نہیں کسی زور آور کا زور اس جگہ

حکمرانی نہیں کسی کے تخت و تاج کی
وقعت نہی جہاں کسی سرکش مہاراج کی

لگتا نہیں دربار کسی شاہ کا جہاں
سجتا نہیں مزار کسی مجاور کا جہاں

جہاں بادشاہوں کے قہر نہیں ٹوٹتے
کمزور پر پہاڑ عہدوں کے نہیں ٹوٹتے

اس شاہانِ شاہ کے دربار میں
خالق و مالک کے دربار میں

جائے گا جب تو ساتھ بدعتوں کی نجاست کے
جرم یہ بڑا ہے بہت مقابلے میں سارے گناہ کے

سوختہ جاں آگ بنے گی ٹھکانہ تیرا
درد جہنم کا بنے گا مقدر تیرا

اس سے پہلے کہ موت تجھے آن دبوچے
ملائک تجھ سے قبر میں کچھ پوچھے

قبر تیری انگاروں کا مسکن بنے
شعلوں میں ہرروز تو راکھ بنے

غور کر شریعت میں صاحبِ شریعتﷺ کی
کر تحقیق رب کے قرآن اور نبیﷺ کےفرمان کی

منہ موڑ گیا گر تو ہدایت سے خالی
نہیں گر رب نے تیرے دل میں ہدایت ڈالی

پہنچے گا تو انجام اُس بڑے بھیانک کو
تصور نا کیا ہو کسی قلب نے جس کو

نسبت تجھ سے اس پاک کلمہ کی ہے میری
اس رشتہ سے ایک التجا ہے تجھ سے میری

گرا نہیں سکتا تو قصرِ اسلام کو مگر
اٹھائے گا خسارہ نا کی تو نے توبہ اگر

بدعت کے انگاروں سے خود کو بچالے
وقت ہے ابھی، عذاب سے خود کو چھڑالے

کل رب کی عدالت میں بہت پچھتائے گا
تیری آہ وزاری چیخ پکار کچھ کام نا آئے گا.

Share:

Khatna Kya hai? Khatna kyu karate hai Musalman?

Khatna kya hai? Aur Khatna kaise hota hai?
What is Khatna and What is Circumcision Penis?
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

📚  ختنہ کا لُغوی اور اصطلاح مفہوم : 📚

ختنہ (Circumcision)کا لغوی معنی ''قلفہ'' یعنی عضو تناسل کے اگلے حصہ کی جلد، جس کو انگلش (Prepuce)میں کہتے ہیں، کاٹ کر علیحدہ کرنا ہے۔ عام اصطلا ح میں یہ لفظ جلدکے اس حصے کے لیے بولا جاتا ہے جو حشفہ (Glans Penis)کے نچلے حصہ میں سمٹی ہوئی ہوتی ہے،جسے وہاں سے کاٹ کر جسم سے جدا کیا جاتا ہے۔ ختنہ ایک معمولی عمل جراحی ہے، کسی آلہ یا معدنی سلائی کی مدد سے حشفہ کے اوپر کی تمام جلد کو آگے کی جانب سمیٹ کر استرے سے کاٹ دیا جاتا ہے، خون روکنے اور جلد زخم بھرنے کے لیے کوئی دوا، پاؤڈر یا مرہم لگا کر پٹی باندھ دی جاتی ہے۔ یہ زخم عموماً ایک ہفتہ میں مندمل ہوجاتا ہے۔برصغیر ہندوستان و پاکستان کے اکثر مقامات پر یہ خدمت حجام، عام جراح یا ہسپتال کا عمل انجام دیتا ہے۔

شریعت میں ختنہ یا ختان اس عمل جراحی کے علاوہ اعضائے پوشیدہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے او راس کے متعلق ہمیں سنت نبویؐ میں واضح طور پرمرتب شدہ احکامات بھی ملتے ہیں۔ مثلاً ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:
''إذا التقی الختانان فقد وجب الغسل'' 1
''جب (مرد او رعورت کے )ختنے مل جائیں تو غسل واجب ہوگیا۔''

ایک اور روایت میں ہے:
''إذا التقی الختانان و غابت الحشفة فقد وجب الغسل أنزل أولم ینزل'' 2
یعنی ''جب (مرد عورت کے) ختنے اس طرح مل جائیں کہ حشفہ غائب ہوجائے تو غسل واجب ہوگیا خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔''

امام بخاریرحمة اللہ نے بھی اپنی صحیح میں ایک باب اس ضمن میں مقرر فرمایا ہے:
''إذا التقی الختانان'' یعنی ''جب (مرد عورت کے)ختنے مل جائیں'' 3

برصغیر ہندوستان و پاکستان میں عموماً ختنہ کو کسی شخص کے مسلمان ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں اور بعض عیسائیوں میں بھی ختنہ کروانے کا رواج ہے۔ عصر حاضر میں اکثر غیر مسلم قومیں بھی اس کے طبی فوائد کے پیش نظر ختنہ کرواتی ہیں۔

ختنہ کب کروانا واجب ہے؟
اکثر اسلامی ممالک میں ختنہ پیدائش کےبعد سات سے لے کر تیرہ سال تک مختلف عمروں میں کیا جاتا ہے مکة المکرمہ میں، جہاں رسم ختنہ کو ''طہار'' کہا جاتا ہے، بچوں کا ختنہ تین سے سات سال کی عمر میں ہوجاتا ہے۔بعض کے نزدیک ولادت کے بعد ساتویں دن ختنہ کروانا مستحب اور زیادہ افضل ہے۔ ان کی دلیل حضرت جابر ؓ کی یہ روایت ہے:
''عق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن الحسن والحسن و ختنھما لسبعة أیام''
یعنی ''رسول اللہ ﷺ نے حسن و حسین ؓ کے عقیقے اور ان کے ختنے (پیدائش کے بعد) ساتویں دن کئے۔''
(( رواہ البیہقی ))

لیکن امام محمد غزالی رحمة اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:
''ختنوں کے باب میں یہودیوں کی عادت ہے کہ پیدائش کے ساتویں روز کردیتے ہیں۔ اس باب میں اُن کی مخالفت کرنی او راگلے دانت نکلنے تک تاخیر کرنی مستحب ہے۔''
(( احیاء العلوم للغزالی ج1 ص243، مترجم محمد احسن صدیقی نانوتوی طبع اوّل اس دارالاشاعت کراچی))

ختنہ کتنی عمر میں کروانا واجب ہے؟ اس سلسلہ میں اہل علم حضرات میں سے ایک کثیر تعداد اس طرف گئی ہے کہ ختنہ اس وقت واجب ہے جب بچہ سن بلوغ سے مشرف ہو۔ کیونکہ اس وقت وہ خدا تعالیٰ کے احکامات اور احکام شرعیہ سے واقف اور شرعاً اس کا مکلف ہوتا ہے۔ اگر بچہ سن بلوغ میں داخل ہوتے وقت ختنہ شدہ ہوتو اس کی عبادات، اسلامی طور طریقہ اور شرع حنیف کے مطابق صحیح ہوں گی۔ ولی کے حق میں افضل ہے کہ ختنہ کا آپریشن بچہ کی پیدائش کے بعد ساتویں دن یا شروع کے ایام میں ہی کروا دے تاکہ جب اس میں عقل آئے اور فہم امور کی صلاحیت پیدا ہو اور وہ بھلے بُرے کی تمیز کرنے کے مرحلہ میں داخل ہو تو اپنے آپ کو ختنہ شدہ پائے۔

📚 ختنہ شدہ پیدا ہونے والے بچے: 📚

اکثر مشاہدہ میں آیا ہے کہ بعض نومولود قدرتی طور پر پیدائش کے وقت بغیر قلفہ یا نصف قلفہ یا بہت قلیل قلفہ کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ان بچوں کا حشفہ مکمل کھلا ہوا ہو تو ایسی صورت میں ان کے ختنہ کی حاجت نہیں ہوتی ہے، لیکن جن بچوں کا قلفہ نصف حشفہ سے کچھ کم یا نصف یا نصف سے بھی کچھ اوپر تک ہوتا ہے ایسے بچوں کی ختنہ ضرور کروانا چاہیے کیونکہ حشفہ پر قلفہ کی موجودگی سے غلیظ رہنے کا احتمال ہے۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ''جو بچے اس طرح یعنی ختنہ شدہ پیدا ہوتے ہیں ان کی ختنہ چاند کرتا ہے۔'' علامہ ابن قیم رحمة اللہ علیہ نے اسے لوگوں کا واہمہ اور خرافات قرار دیا ہے۔
(( المعاد لامام ابن القیم ج1 ص35 مطبعة السنة المحمدیة ))

قدرتی طور پر مختون پیدا ہونے والے بچوں کی یہ صفت ان کے کسی جسمانی عیب یا ان کی کسی خصوصیت یا بزرگی کی علامت نہیں ہوتی، جیسا کہ بعض لاعلم لوگوں کا خیال ہے، یہ محض ایک امر ِرب اور مشیت الٰہی ہے۔ بہت سے غیر مسلم بچے بھی ایسی کیفیت میں پیدا ہوتے دیکھے گئے ہیں۔

📚  ختنہ کی دعوت اور مروجہ رسومات: 📚

ہندوستان و پاکستان میں عام طور پر غیر تعلیم یافتہ طبقہ میں بچہ کے ختنہ اور عقیقہ کے مواقع پر بعض بُری رسومات دیکھنے میں آتی ہیں۔مثلاً ناچ رنگ و ڈھول، گانے باجے یا مجلس میلاد کا اہتمام، گھوڑے پر بچہ کو سوار کرا کر کسی مسجد یا بزرگ کے مزار تک لے جانا، بچہ کے سر پر پھول و سہرا باندھنا، نظر بد سے بچانے کے لیے اس کے چہرے پرکالا ٹیکہ لگانا، منت کے طور پر لڑکے کے کان چھیدنا، سرخ و پیلے رنگ یا کالے رنگ کا دھاگا گلے میں لٹکانا یا بازو اور کمر پرباندھنا، کوئی سکہ یا ہڈی کا ٹکڑا یا لوہے یا چاندی یاسونے کا چاقو گلے میں لٹکانا، بچہ کے سر کے چاروں طرف روپیہ کئی بار گھما کر اس کا صدقہ اور بلائیں اتارنا، بچہ کے بازو پر امام ضامن باندھنا، کمر میں پٹہ اور تلوار لٹکانا، نیاز و فاتحہ کرنا اور اس کی شیرینی تقسیم کرنا وغیرہ، یہ سب غیر شرعی اور جاہلانہ رسوم و اختراعات ہیں۔ ان سے خود بچنا اور دوسروں کو بھی روکنا چاہیے
(( تفصیل کے لیے راقم الحروف کا مضمون ''اسلام اور حقوق اطفال''دوسری قسط ماہنامہ
''میثاق'' لاہور صفحہ 73 جلد30 عدد2،1 مجریہ ماہ جنوری و فروری 1981ء ملاحظہ فرمائیں۔))

البتہ ختنہ کے موقع پراللہ کے نام پر ذبیحہ کرکے دوست و احباب اور اعزاء و اقرباء کی دعوت (جس کو طعام الغدیرہ یا طعام الختان بھی کہتے ہیں) کے اہتمام اور فقراء و مساکین میں اس کا صدقہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

جس کے یہاں بچہ ہوا ہے، اس شخص کے حق میں مستحب یہ ہے کہ وہ اپنے اس بچے کی طرف سے اگر لڑکا ہے تو دو، اور لڑکی ہے تو ایک بکری ذبح کرے، اور افضل یہ ہے کہ پیدائش کے ساتویں دن یہ جانور ذبح کیا جائے، اور اسی دن ختنہ بھی کر دیا جائے، اور اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کیا گیا ہے، یا ختنہ نہ کیا گیا ہے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اور اپنے رشتے داروں اور پڑوسیوں کو عقیقے کی دعوت دینا جائز ہے۔

📚 اسلام میں ختنہ کی مشروعیت: 📚

احادیث میں جہاں فطرتi کے خصائل کا بیان ہے، وہاں ختنہ کا ذکر بھی موجود ہے۔ اس کی مشروعیت پربہت سی احادیث دلالت کرتی ہیں جن میں سے چند یہاں پیش کی جاتی ہیں:

1۔ حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''الفطرة خمس أو خمس من الفطرة الختان والاستحداد ونتف الإبط و تقلیم الأطفار و قص الشارب''
''فطرت پانچ چیزیں ہیں یاپانچ چیزیں فطرت کے تقاضوں سے ہیں۔ یعنی ختنہ کروانا، موئے زیر ناف صاف کرنا، بغل کے بال اکھارنا، ناخن تراشنا اور مونچھیں چھوٹی کرنا۔''
((صحیح البخاری کتاب اللباس و صحیح مسلم))

2۔عمار بن یاسرؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
''من الفطرة: المضمضة والاستنشاق وقص الشارب والسواك و تقلیم الأظفار و نتف الإبط والاستحداد والاختتان'' 5
یعنی ''(یہ چیزیں) فطرت میں سے ہیں، کلی کرنا، ناک صاف کرنا، مونچھیں چھوٹی کرنا، مسواک کرنا، ناخن تراشنا، بغل کے بال اکھارنا، موئے زیر ناف صاف کرنا او رختنہ کروانا۔''
(( مسند احمد ))
منقول
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

Share:

Halat-E-Haiz me Biwi ke Sath Sex karna kaisa hai? Kya Periods ke Dauran Biwi se mil sakte hai?

Periods Ke Dauran Biwi se Mubashirat karna kaisa hai?

Kya Haiz ke Dauran Biwi se Jima karna jayez hai?


حالت حیض و نفاس میں جماع کی ممانعت

خالق کائنات نے مرد اور عورت کے اندر ایک دوسرے کی صحبت سے سکون
حاصل کرنے اور لطف اندوز ہونے کی جو خواہش رکھی ہے اس کو پورا کرنے کیلئے
شرع اسلامی نے نکاح کا طریقہ بتایا ہے اور اسی لئے نکاح حضور نبی کریم کی نہایت اہم سنت ہے.
اس کے ذریعہ انسان زنا جیسے مذموم گناہ سے بچتا
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نکاح کو نصف الایمان بھی کہا گیا ہے۔
نکاح کے ذریعہ
جہاں انسان حرام کاری سے بچتا ہے وہاں اس کو بدن کی صحت ، ذہنی سکون محبت
اور ایک دوسرے کی سچی ہمدردی اور راز داری وغیرہ مختلف قسم کے فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں۔

نکاح رخصتی کے بعد جب مرد وعورت تنہائی میں یکجا ہوتے ہیں تو مرد کے
اندر بالعموم مباشرت کا جذ بہ بڑی شدت کے ساتھ ابھرتا ہے اور اس وقت بعض
مرد بڑی بے صبری کے ساتھ عورت پر ٹوٹ پڑتے ہیں بسا اوقات بیوی بحالت
حیض ہوتی ہے تو اس درندگی سے بہت تکلیف ہوتی ہے اور وہ منع بھی کرتی ہے مگر
احکام الہی کی ناواقفیت اور اس کے نقصانات کا علم نہ ہونے کے باعث عورت کے انکار کا لحاظ نہ کرتے ہوئے صحبت کر لیتے ہیں۔
جبکہ قرآن عظیم نے صاف
الفاظ میں حالت حیض میں صحبت کرنے سے روکا ہے۔ اور حرام قرار دیا ہے:

وَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ. (سورة بقره)
ترجمہ: حالت حیض میں عورت سے الگ تھلگ رہو۔

قرآن حکیم کے اس حکم کے بارے میں جدید علم طب نے اس بات کا
انکشاف کیا ہے کہ حیض سے خارج شدہ خون میں ایک قسم کا زہریلا مادہ ہوتا ہے
جو اگر جسم کے اندر رہ جائے تو صحت کیلئے مضر ہوتا ہے۔ اس طرح حالت حیض
میں جماع سے اجتناب کرنے کے راز سے پردہ ہٹا دیا ہے۔ دوران حیض عورت
کے خاص اعضا خون حیض کے مجتمع ہونے سے سکڑے ہوئے ہوتے ہیں اور
اعصاب داخلی غدود کے سیلان کے باعث اضطراب میں ہوتے ہیں۔ اس لئے
حالت حیض میں جنسی اختلاط مضرت اور کبھی حیض کی رکاوٹ کا سبب بن جاتا ہے اور بعد میں مزید خرابیاں سوزش
رحم وغیرہ پیدا ہو جاتی ہیں اور موجودہ زمانے میں AIDS ایڈز نام کی انتہائی خطر ناک بیماری جو معرض وجود میں آئی ہے وہ بھی اس قسم کی
بدعنوانیوں کا نتیجہ ہے۔

قربان جائیے شریعت محمدی - نے ہم کو احکام الہی کے ذریعہ
ایسی مذموم حرکات سے روکا جن سے
فریقین کو طرح طرح کی بیماریاں اور امراض
خبیثہ سوزاک و آتشک وغیرہ لاحق ہو جاتے ہیں جن کا خمیازہ تمام عمر بھگتنا پڑتا
ہے۔ بلکہ اولا د پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے۔ اولا د مجزوم یعنی کوڑھی ہو جاتی ہے .

Share:

Chowk Chuarahe Par Mangane wale ko dena jayez hai? Kya Allah ka wasta dekar mangane wale ko inkar nahi kar sakte hai?

Chowk Chauraho par, Muhalle ke Samne khade hokar, Station ya Airport ke samne baith kar Mangane wale ke bare me kya hukm hai?
Sawal: Fakiro ke bare me Kya hukm hai Shariyat me? Chowk par jo log Bhik mangate hai kya unko Sadqa Dena jayez hai? Kya Allah ka Wasta dekar jo mange usse inkar nahi karna chahiye?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-387"
سوال- گداگروں یعنی فقیروں کے بارے شرعی حکم کیا ہے.؟ چوکوں چوراہوں پر جو لوگ بھیک مانگتے ہیں انکے بارے بتائیں کہ کن کو صدقہ دینا جائز ہے؟ کہتے ہیں اللہ کا واسطہ دیکر جو مانگے اسے انکار نہیں کرنا چاہیے ؟ کیا یہ بات صحیح ہے.؟

Published Date: 27-8-2024

جواب..!
الحمدللہ..!

*اللہ وحدہ لا شریک لہ نے صدقات و خیرات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:*

اعوذباللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

📚﴿وَما تُنفِقوا مِن خَيرٍ فَلِأَنفُسِكُم وَما تُنفِقونَ إِلَّا ابتِغاءَ وَجهِ اللَّهِ وَما تُنفِقوا مِن خَيرٍ يُوَفَّ إِلَيكُم وَأَنتُم لا تُظلَمونَ ﴿٢٧٢﴾ لِلفُقَراءِ الَّذينَ أُحصِروا فى سَبيلِ اللَّهِ لا يَستَطيعونَ ضَربًا فِى الأَرضِ يَحسَبُهُمُ الجاهِلُ أَغنِياءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعرِفُهُم بِسيمـٰهُم لا يَسـَٔلونَ النّاسَ إِلحافًا وَما تُنفِقوا مِن خَيرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَليمٌ ﴿٢٧٣﴾...

ترجمہ!
"اور جو بھی تم بھلی چیز اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اس کا فائدہ خود پاؤ گے۔ تمہیں صرف اللہ کی رضا مندی طلب کرنے کے لیے خیرات کرنی چاہیے اور جو بھی تم بھلی چیز خرچ کرو گے تمہیں اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ صدقات کے مستحق صرف وہ فقراء ہیں جو اللہ کی راہ (جہاد) میں روک دیے گئے۔ جو زمین میں (کاروبار وغیرہ) کے لیے چل پھر نہیں سکتے، نادان لوگ ان کی بے سوالی کی وجہ سے انہیں مال دار خیال کرتے ہیں، آپ ان کی علامت سے انہیں پہچان لیں گے۔ وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے اور تم جو کچھ مال خرچ کرو گے بےشک اللہ تعالیٰ اسے جاننے والا ہے۔( سورةالبقرة_ 272،273)

*اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ ہمارے صدقات و خیرات اور اموال کے مستحق وہ لوگ ہیں جو جہاد فی سبیل اللہ میں روکے گئے ہیں اور اتنے فقراء و محتاج ہیں کہ ضرورت کے ہوتے ہوئے بھی لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر دست سوال دراز نہیں کرتے کیونکہ دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانا ان کی خودداری اور عزت نفس کے خلاف ہے اس آیت کریمہ میں فقیر و غریب کے وصف جو ذکر کیے گئے ہیں وہ انتہائی قابل توجہ ہیں۔*

(1) التعفف
(2) الحاف

پہلے ہم تعفف کے بارے سمجھتے ہیں،

*تعفف کا مطلب سوال سے بچنا یعنی فقر و غربت کے باوجود لوگوں سے سوال کرنے سے گریز کریں گے۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ میں بھیک مانگنے کو پسند نہیں کیا گیا۔*

جیسے کہ احادیث میں ہے!

📚زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
" لأن يأخذ أحدكم حبله فيأتي بحزمة الحطب على ظهره فيبيعها، فيكف الله بها وجهه، خيرٌ له من أن يسأل الناس أعطوه أو منعوه "
"تم میں سے کوئی شخص اپنی رسی پکڑ کر پہاڑ پر جائے اور اپنی پشت پر لکڑیوں کا گٹھا لاد کر لائے اور اسے فروخت کر کے اس کی قیمت پر قناعت کرے تو اس کے حق میں لوگوں سے سوال کرنے سے بہتر ہے لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔"
(سنن ابن ماجہ، کتاب الزکاۃ، باب کراھیۃ المسئلۃ (1836) واللفظ لہ۔ صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسئلۃ (1471) مسند احمد 1/164'167)

📚یہی حدیث ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ سے:
(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسئلۃ (1470 وغیرہ) مسلم، المؤطا للمالک، نسائی، کتاب الزکاۃ، باب المسئلۃ (2583)
(مسند احمد 2/257'300'395'418'496 وغیرہ میں بھی موجود ہے۔

📚ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"وَمَنْ يَتَقَبَّلْ لِي بِوَاحِدَةٍ أَتَقَبَّلْ لَهُ الْجَنَّةَ " ، قَالَ : قَالَ ثَوْبَانُ : أَنَا ، قَالَ : " لا تَسْأَلِ النَّاسَ شَيْئًا " . قَالَ : فَإِنْ كَانَ سَوْطُهُ يَقَعُ ، فَمَا يَقُولُ لأَحَدٍ نَاوِلْنِيهِ ، حَتَّى يَنْزِلَ فَيَأْخُذَهُ"
"جو شخص میری ایک بات قبول کر لے میں اس کے لیے جنت کا ذمہ لیتا ہوں۔ میں نے کہا میں قبول کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں سے کسی چیز کا بھی سوال نہ کر، ثوبان رضی اللہ عنہ کی حالت یہ تھی کہ وہ سوار ہوتے اور ان کو کوڑا گر جاتا تو وہ کسی سے یہ نہ کہتے کہ میرا کوڑا مجھے پکڑا دو بلکہ خود اتر کر اٹھاتے۔"
(سنن ابن ماجہ، کتاب الزکاۃ، باب کراھیۃ المسئلۃ (1837) واللفظ لہ،
(ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب کراھیۃ المسئلۃ (1643)
(نسائی، کتاب الزکاۃ، باب فضل من لا یسال الناس شیئا (2591)
(مستدرک حاکم /1412،
( الترغیب والترھیب 1/581)

📚عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" من سأل وله ما يغنيه جاءت مسألته يوم القيامة خدوشاً أو خموشاً أو كدوحاً في وجهه" قيل : يا رسول الله وما يغنيه ؟ قال : خمسون درهما، أو قيمتها من الذهب "
"جس شخص نے سوال کیا اور اس کے پاس اتنا مال ہو جو اسے کفایت کرتا ہے تو قیامت کے دن وہ سوال اس کے چہرے پر چھلا ہوا نشان بن کر آئے گا۔ سوال کیا گیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آدمی کو کتنا مال کفایت کرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پچاس درھم یا اتنی قیمت کا سونا۔"
(سنن ابن ماجہ، کتاب الزکاۃ، باب من یسال عن ظھر غنی (1840) سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ (499) نسائی، کتاب الزکاۃ، باب حد الغنی (2593) ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب من یعطی من الصدقۃ وحد الغنی (1626)
ترمذی، کتاب الزکاۃ، باب ما جاء من تحل لہ الزکاۃ (650'651)

*مذکورہ بالا احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ شریعت کی نظر میں لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنا معیوب ہے کوئی خود دار انسان اسے پسند نہیں کرتا جس شخص کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ اسے کفایت کرتا ہو پھر بھی وہ بھیک مانگے تو اس کا بھیک مانگنا قیامت کے دن اس کے منہ پر زخم کا نشان ہو گا اور جو آدمی مسلسل بھیک مانگتا رہتا ہے قیامت والے دن اس کے چہرے پر گوشت نہیں ہو گا۔*

📚عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" ما يزال الرجل يسأل الناس حتى يأتي يوم القيامة ليس في وجهه مزعة لحم "
"آدمی لوگوں سے ہمیشہ سوال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت والے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا ایک ٹکڑا بھی نہ ہو گا۔"
(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب من سال الناس تکثرا (1474)
(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب کراھۃ المسئلہ للناس 103' 104 /1040)
(نسائی، کتاب الزکاۃ، باب المسئلۃ (2587)

*لہذا لوگوں سے بھیک مانگنے سے بچنا چاہیے، جو آدمی لوگوں سے بھیک مانگنے سے بچتا ہے اللہ تعالیٰ اسے توفیق عطا فرما دیتا ہے۔*

📚ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بعض انصاری صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دیا انہوں نے پھر سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دیا۔ انہوں نے پھر سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دے دیا، یہاں تک کہ جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا ختم ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ ، وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ ، وَمَنْ يَتَصَبَّرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً خَيْرًا وَأَوْسَعَ مِنْ الصَّبْرِ"
"جو کچھ میرے پاس مال ہوتا ہے میں اسے یتیم سے روک کر نہیں رکھتا جو شخص سوال سے بچاؤ طلب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بچا لیتا ہے اور جو غنا طلب کرتا ہے اللہ اسے غنا دے دیتا ہے اور جو صبر کرنے کی کوشش کرتا ہے اللہ اسے صبر کی توفیق دے دیتا ہے۔ کسی شخص کو صبر سے بڑھ کر وسیع اور خیر والی چیز نہیں دی گئی۔"
(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسئلۃ 1469، صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فضل التعفف والصبر (124/1053) ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی الصبر (2024) نسائی، کتاب الزکاۃ، باب الاستعفاف عن المسئلہ (2587) ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب فی الاستعفاف (1644)

*لہذا ہر مسلم کو اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنے اور بھیک مانگنے سے بچا کر رکھے اور وہ مسلم کامیاب ہے جو اپنے رزق پر قناعت کرے اور کسی سے سوال نہ کرے۔*

📚جیسا کہ عبداللہ بن عمر بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ وَرُزِقَ كَفَافًا وَقَنَّعَهُ الله بما آتاه "
"کامیاب ہو گیا وہ شخص جو اسلام لایا اور حسب ضرورت روزی دیا گیا اور جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا اس پر اسے قناعت کی توفیق بخشی۔"
(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب فی الکفاف والقناعۃ (125/154، سنن ابن ماجہ (4138) ترمذی (2348) شرح السنۃ 14/240، مسند احمد 2/168'173، بیہقی 4/196، حلیۃ الاولیاء 6/129)

*لہذا بہترین مسلمان وہ بھی ہے جو حسب ضرورت روزی دیا گیا تو اس نے اس پر ہی قناعت کی اور لوگوں سے بھیک نہیں مانگی، اللہ تعالیٰ ہمیں بھیک مانگنے سے محفوظ فرمائے اور جتنی روزی وہ عطا کرے اس پر قناعت کی توفیق بھی عطا کرے۔ آمین*

اور اگر ماتحت الاسباب سوال کرنے سے کوئی چارہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں سے سوال کر لیا جائے کیونکہ نیک لوگ جو صدقہ و خیرات سے کام لیتے ہیں وہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے فقراء و مساکین کا تعاون کرتے ہیں اور سائل کو محروم نہیں کرتے۔ عام دنیا دار لوگ اگر ایک آدھ بار تعاون کر بھی دیں تو وہ لوگ انسان کی عزت نفس اور خودداری کو مجروح بھی کر دیتے ہیں جب کہ خوف خدا رکھنے والے لوگ انسان کی محتاجی اور فقر سے ناجائز فائدہ نہیں اٹھاتے حتی کہ کسی موقع پر کئے ہوئے اپنے تعاون کو جتلانے تک نہیں۔ اس سے انسان کی حرمت و عزت بھی محفوظ رہتی ہے جس طرح انصار صحابہ (رضی اللہ عنھم) نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ (واللہ اعلم)

ــــــ&ــــــــــ

2 *الحاف*

سورۃ البقرہ کی آیت کریمہ میں مسکین کی دوسری صفت "الحاف" بیان ہوئی ہے یعنی وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ بعض مفسرین نے الحاف کے معنی کیے ہیں، بالکل سوال نہ کرنا کیونکہ ان کی پہلی صفت "عفت" بیان کی گئی ہے۔ (فتح القدیر) اور بعض نے کہا ہے کہ وہ سوال میں الحاح و زاری نہیں کرتے اور جس چیز کی انہیں ضرورت نہیں ہے اسے لوگوں سے طلب نہیں کرتے اس لیے کہ الحاف یہ ہے کہ ضرورت نہ ہونے کے باوجود (بطور پیشہ) لوگوں سے مانگے (تفسیر احسن البیان ص 154)

📚نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
" لَيْسَ الْمِسْكِينُ بِهَذَا الطَّوَّافِ الَّذِي يَطُوفُ عَلَى النَّاسِ فَتَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ، وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ. قَالُوا: فَمَا الْمِسْكِينُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟. قَالَ: الَّذِي لَا يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ، وَلَا يُفْطَنُ لَهُ فَيُتَصَدَّقَ عَلَيْهِ، وَلَا يَسْأَلُ النَّاسَ شَيْئًا "
"مسکین وہ نہیں ہے جو ایک ایک دو دو لقمے یا ایک ایک دو دو کھجور کے لئے لوگوں کے در پر جا کر سوال کرتا ہے۔ صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر مسکین کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "مسکین وہ ہے جو حسبِ ضرورت مال نہیں پاتا اور اس کا ادراک نہیں کیا جاتا کہ اس پر صدقہ کیا جائے اور نہ ہی وہ لوگوں سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے۔"
(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب المسکین الذی لا یجد غنی ولا یفطن لہ فیتصدق علیہ (11/1039) واللفظ لہ صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب قول اللہ عزوجل (لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا) (1476)

📚صحیح مسلم میں مذکورہ باب کے تحت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے اس طرح بھی روایت مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" ليس المسكينُ الّذي تردُّه التّمرةُ، والتّمرتانِ، ولا اللُّقمةُ، ولا اللُّقمتانِ، إنّما المسكينُ الذي يَتَعفّفُ، واقرؤُوا إنْ شِئتُم (لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا)."
"مسکین وہ نہیں جو ایک ایک دو دو کھجور یا ایک ایک دو دو لقمے کے لیے در در پھرتا ہے مسکین تو وہ ہے جو سوال کرنے سے بچتا ہے اگر تم چاہو تو یہ آیت کریمہ پڑھو (کہ وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے)"۔
نیز دیکھیں صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب  لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا (4539)

*الحاف کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چند ایک احادیث صحیحہ ملاحظہ ہوں۔*

📚معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" لا تلحفوا في المسألة , فوالله لا يسألني أحد منكم شيئا , فتخرج له مسألته مني شيئا وأنا له كاره , فيبارك له فيما أعطيته ""
"گڑگڑا کر اور چمٹ کر سوال نہ کرو، اللہ کی قسم! تم میں سے جو کوئی مجھ سے کوئی چیز مانگتا ہے اور اس کا سوال مجھ سے کوئی چیز نکلوا لیتا ہے اور میں اسے ناپسند کر رہا ہوتا ہوں تو جو میں اس کو دیتا ہوں اللہ اس میں برکت نہ دے گا۔"
(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ، باب النھی عن المسئلۃ (99/1038) نسائی، کتاب الزکاۃ، باب الالھاف فی المسئلۃ (2595) مسند احمد 4/98، بیہقی 4/196، مستدرک حالم 2/62، طبرانی کبیر 19/348، حلیۃ الاولیاء 4/81)

*اس حدیث سے معلوم ہوا کہ الحاف یعنی کسی کے سامنے الحاح و زاری کر کے اور چمٹ کر سوال کرنا منع ہے جس شخص کے پاس چالیس درہم ہوں پھر وہ لوگوں سے گریہ و زاری کر کے سوال کرے تو وہ ملحف ہے۔*

📚ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
"سرحتني أمي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأتيته وقعدت فاستقبلني وقال: من استغنى أغناه الله عز وجل ومن استعفَّ أعفَّه الله عزَّ وجلَّ، ومن استكفى كفاه الله عزَّ وجلَّ، ومن سأل وله قيمة أوقية، فقد ألحف. فقلت: ناقتي الياقوتة خير من أوقية فرجعت ولم أسأله"
"میری ماں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بیٹھ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف منہ کر کے بیٹھ گئے اور فرمایا "جو شخص لوگوں سے بے پرواہی کرے گا اللہ تعالیٰ اسے بے پرواہ کر دے گا اور جو شخص سوال سے بچے گا اللہ تعالیٰ اسے بچائے گا اور جو تھوڑے پر کفایت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے کفایت دے گا اور جو شخص سوال کرے گا اور اس کے پاس ایک اوقیہ (چالیس درہم) کے برابر مال ہو گا تو اس نے الحاف کیا۔ میں نے دل میں کہا میری یاقوتہ اونٹنی ایک اوقیہ سے بہتر ہے میں واپس پلٹ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہ کیا۔"
(نسائی، کتاب الزکاۃ، باب من الملحف (2597) ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب من یعطی من الصدقۃ و ھد الغنی (1628) صحیح ابن خزیمہ (2447) صحیح ابن حبان (846 موارد) مسند احمد 3/7، بیہقی 7/24)
حسن صحیح

📚عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" من سال وله اربعون درهماً، فهو الملحف "
"جس شخص نے سوال کیا اور اس کے پاس چالیس درھم ہوں تو وہ ملحف ہے یعنی لوگوں سے چمٹ کر سوال کرنے والا ہے۔"
(نسائی، کتاب الزکاۃ، باب من الملحف (2596) بیہقی 7/24) حسن صحیح

📚بنو اسد میں سے ایک آدمی نے کہا میں اور میرے گھر والے بقیع الغرقد (مدینہ کے قبرستان کا نام) میں اترے تو میری اہلیہ نے مجھے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر کھانے کے لیے کسی چیز کا سوال کر۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو میں نے پایا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کر رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کہہ رہے تھے میرے پاس کچھ نہیں ہے جو تجھے دوں۔ وہ ناراض ہو کر پیٹھ پھیر کو چلا اور کہنے لگا قسم ہے مجھے عمر دینے والے کی! تم اسی کو دیتے ہو جس کو چاہتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ شخص مجھ پر غصے ہوتا ہے اس بات پر کہ میرے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
" من سال منكم وله اوقية او عذلها فقال سال إلحافا " جس آدمی نے تم میں سے سوال کیا اور اس کے پاس ایک اوقیہ (40 درھم) یا اس کے برابر مال ہوا تو اس نے چمٹ کر (ناحق) سوال کیا۔ اسدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے دل میں کہا: میرے پاس تو ایک اونٹنی چالیس درھم سے بہتر ہے میں واپس پلٹ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال نہ کیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جَو اور خشک انگور آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بھی اس میں سے ایک حصہ دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غنی کر دیا۔
"(نسائی، کتاب الزکاۃ، باب اذا لم یکن عندہ دراھم وکان لہ عدلھا (2598)
ابوداؤد، کتاب الزکاۃ، باب من یعطی الصدقۃ و حد الغنی (1627) مسند احمد 4/36، 5/430 بیہقی 7/24، المؤطا للمالک، کتاب الصدقۃ، باب ما جاء فی التعفف من المسئلہ)
صحیح

*مذکورہ بالا احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ مسکین اور فقیر وہ ہے جس کے پاس حسب ضرورت اخراجات نہیں ہیں اور وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال بھی نہیں کرتا اور ناواقف و نادان اس کے چہرے کی چمک دیکھ کر اسے مالدار تصور کر لیتا ہے اور عام طور پر معلوم بھی نہیں ہوتا کہ یہ آدمی صدقہ و خیرات کے لائق ہے اور جس شخص کے پاس 40 درھم یا اس کی مقدار مالیت ہو تو وہ اس کی ضرورت کو کفایت کر جاتا ہے اور وہ ملحف یعنی (چمٹ کر سوال کرنے والا) نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے دئیے ہوئے مال پر قناعت کر لیتا ہے۔*

*عصر حاضر میں لاری اڈوں، بازاروں اور گلی کوچوں میں گھومنے والے بھکاری اور گداگر پیشہ ور لوگ ہیں اور ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو محنت مزدوری کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کے بدن میں اتنی سکت اور ہمت تکھی ہے کہ اگر وہ اسے کام میں لائیں تو سوال کرنے سے بچ سکتے ہیں لیکن یہ لوگ حصول مال کے لیے محنت و مزدوری سے جی چرا کے آسان راستہ اختیار کرتے ہیں اور حرام و حلال کی تمیز کے بغیر ہر طریقے سے مال اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں اور بہت سارے ایسے لوگ ہیں جن کا پورا کنبہ ہی در در کا بھکاری اور سوالی بنا ہوا ہے۔*

*نوجوان عورتیں اپنے بچوں کو اٹھائے لائے لاری اڈوں کی خاک چھان رہی ہیں۔ شریعت اسلامیہ کی رو سے یہ لوگ صدقات و عطیات کے مستحق معلوم نہیں ہوتے۔ مال و زر والے افراد اور احسان و نیکی کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ صاحب حاجات اور صدقات و خیرات کے مستحق افراد کو پہچان کر ان پر اپنے اموال صرف کریں اور یقینا حاجت مند مسلم افراد اللہ کے دین کے حامل ہوں گے اور نماز، روزہ وغیرہ جیسی عبادات سر انجام دیتے ہوں گے کیونکہ وہ تو ذلت و خواری سے بچنے کے لیے کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی خودداری اور عزت نفس انہیں اس بات کی اجازت دیتی ہے جب کہ پیشہ ور بھکاریوں میں تو بہت سارے ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو کہ مسکر اور نشہ آور اشیاء خرید کر استعمال کرتے ہیں۔*

*جانتے بوجھتے ایسے لوگوں سے تعاون تو گناہ پر تعاون ہے جو کہ شرعا حرام ہے۔*

📒امام نووی نے شرح صحیح مسلم 7/113 میں فرمایا ہے کہ:
"واختلف أصحابنا في مسألة القادر على الكسب على وجهين: أصحهما أنها حرام لظاهر الأحاديث، والثاني حلال مع الكراهة بثلاثة شروط أن لا يذل نفسه ولا يلح في السؤال ولا يؤذي المسؤول فإن فقد واحد من هذه الشروط فهى حرام بالاتفاق"
"جو شخص کمائی پر قادر ہے اس کے سوال کرنے کے متعلق دو وجھوں سے ہمارے اصحاب نے اختلاف کیا ہے ان سے صحیح ترین بات یہ ہے کہ اس کے لیے سوال کرنا حرام ہے ظاہر احادیث کی وجہ سے، دوسری بات یہ ہے کہ کراہت کے باوجود تین شرطوں کے ساتھ حلال ہے: (1) وہ اپنے آپ کو ذلیل نہ کرے۔
(2) اور نہ ہی سوال کرنے میں گریہ و زاری سے کام لے
(3) اور نہ ہی جس سے سوال کرتا ہے اسے تنگ کرے۔
اگر تین شرطوں میں سے ایک بھی مفقود ہو گئی تو سوال کرنا بالاتفاق حرام ہے۔

*ایک مشہور حدیث کہ اللہ کے نام کا واسطہ دے تو دینا چاہیے*

📚 ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  جو اللہ کے نام پر پناہ مانگے اسے پناہ دو، جو اللہ کے نام پر سوال کرے اسے دو، جو تمہیں دعوت دے اسے قبول کرو، اور جو تمہارے ساتھ بھلائی کرے تم اس کا بدلہ دو، اگر تم بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ پاؤ تو اس کے حق میں اس وقت تک دعا کرتے رہو جب تک کہ تم یہ نہ سمجھ لو کہ تم اسے بدلہ دے چکے ۔ 
( سنن ابو داؤد -1672)
تخریج دارالدعوہ:
( سنن النسائی/الزکاة ٧٢ (٢٥٦٨)،
( تحفة الأشراف: ٧٣٩١)،
وقد أخرجہ: مسند احمد (٢/٦٨، ٩٥، ٩٩، ١٧٢)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ نسائي (2568) والحديث الآتي (5109)¤ الأعمش مدلس وعنعن¤

*اکثر لوگ اس حدیث کیوجہ سے کہتے ہیں کہ جی اللہ کا واسطہ دیا ہے تو اسکو لازمی دینا چاہیے ، بھلے نشہ کرے یا ٹیکہ لگائے یا سگریٹ پئیے یا حقدار نہیں ہے تو بھی دینا چاہیے*

*جب کہ یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ قرآن و حدیث میں یہ بات صاف لکھی ہے کہ ایسے چمٹنا اور پیشہ ورانہ مانگنا جائز نہیں ہے، ہاں جو حقیقی حقدار ہو اور پھر اللہ کے نام کا واسطہ دے کر جو مانگے  اسکو لازمی دینا چاہیے کچھ نا کچھ۔۔ یا جسکے بارے آپ نہیں جانتے اور پہلی دفعہ دیکھا اور اسکی حالت سے کچھ ظاہر نہیں ہو رہا کہ وہ حقدار یا نہیں تو اسکی مدد کر دینی چاہیے، لیکن ساتھ سمجھانا بھی چاہیے کہ یہ صدقہ خیرات  فقیروں کا حق ہے، آپ تندرست صحت مند ہیں تو کام کریں، اور اپنا کمائیں*
*اور پھر عصر حاضر کے بھکاری تو در در کی ذلت و رسوائی بھی اٹھاتے ہیں اور مانگتے وقت انتہاء درجے کی گریہ و زاری کرتے ہیں اور لوگوں کو تنگ بھی کرتے ہیں، انہیں اگر کہا جائے بھائی معاف کرو تو پھر بھی جان نہیں چھوڑتے لہذا ان کا سوال کرنا تو کسی صورت بھی صحیح نہیں، اور یہ پیشہ ور حضرات بھلے اللہ کا واسطہ دیں تو بھی انکو دینا ٹھیک نہیں ، اس لیے ہمیں چاہیے کہ جو صحیح شرعی لحاظ سے فقیر اور مسکین ہو اس کی معاونت کریں تاکہ اللہ تعالیٰ بھی راضی ہو اور پیشہ ور گداگروں کی حوصلہ شکنی ہو۔*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))))

*ماخوز از *
آپ کے مسائل اور ان کا حل
جلد3۔کتاب الزکوٰۃ-صفحہ257
محدث فتویٰ

          ـــــــــــــــــــــــ&&ـــــــــــــــــــــ

ملتے جلتے سوالات ۔۔۔۔۔!

سوال_کیا قبروں،مزاروں،درباروں پر اللہ کے نام پر یا غیراللہ کے نام پر کوئی چیز صدقہ خیرات کرنا جائز ہے؟
(دیکھیں سلسلہ نمبر -20)

سوال-كيا غير مسلم ضرورت مندوں کو صدقہ، زکوٰۃ وغیرہ دينا جائز ہے؟ قرآن و سنت سے وضاحت کریں!
(دیکھیں سلسلہ نمبر -319)

      --------------------&-------

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS