find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Husn Bin Saba aur Uski Banayi hui Dunyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 07)

Husn Bin Sba aur Uski Masnui Jannat.

Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 07)


حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت
۔
قسط نمبر/7

اسلام کا قافلہ ساڑھے چار صدیوں کی مسافت طے کرچکا تھا۔
اس قافلے نے لق و دق صحرا ،جسموں کا پانی چوس لینے والے ریگزار اور خون کے دریا پار کیے تھے۔
اس قافلے نے جوش میں آئی ہوئی جوئے کہستاں کی مانند چٹانوں کے جگر چاک کیے تھے۔
اس قافلے نے دشوار گزار جنگلوں کے سینے چیر دیے تھے۔
اس قافلے نے تیروں اور برچھیوں کی بوچھاڑوں میں بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دیے تھے۔
اور زرتشت کے پجاری اپنی سلطنت مجاہدین کے اس قافلے کے قدموں میں پھینک کر بھاگ گئے تھے۔
اس قافلے نے تیزوتند طوفانوں کے منہ موڑ دیے تھے۔
مگر کذب و ارتداد کی ایسی آندھی آئی کہ یہ قافلہ بکھرنے اور بھٹکنے لگا۔
حسن بن صباح بڑے ہی خوفناک طوفان کا ہراول تھا ،اس کا خطرہ روزبروز شدید ہوتا جارہا تھا ،کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ آنے والا وقت کس کے عروج اور کس کے زوال کی داستان سنائے گا۔
داستان گو نے خیر اور شر کی اس داستان کو قلعہ شاہ در تک پہنچایا تھا، اس قلعے پر ایک اسماعیلی احمد بن عطاش نے ایک بڑی حسین و جمیل دوشیزہ زرّین کے ذریعے قبضہ کیا تھا۔
قلعہ فوج فتح کیا کرتی ہے، قلعے کا محاصرہ کیا جاتا ہے، محاصرہ طول بھی پکڑ لیا کرتا ہے، قلعے میں داخل ہونے کے لیے کمند پھینکنے اور دروازے توڑنے کی کوششیں ہوتی ہیں، اوپر سے تیروں اور برچھیوں کا مینہ برستا ہے، محاصرہ کرنے والے لہولہان ہوتے ہیں تڑپتے ہیں اور مرتے ہیں اور خون کے دریا بہا کر ایک قلعہ سر ہوتا ہے۔
لیکن قلعہ شاہ در ایک نوخیز لڑکی نے بڑے ہی پیارے انداز سے قلعے کے والی کی چہیتی بیوی بن کر فتح کرلیا، اس والی  قلعہ کا نام ذاکر تھا ،جس کی تفصیلی داستانِ رومان پہلے سنائی جاچکی ہے، قلعہ احمد بن عطاش کے قبضے میں آگیا۔
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح اس قلعے میں کس طرح پہنچا تھا، اس کے ساتھ فرح نام کی ایک لڑکی بھی تھی ،حسن بن صباح اور فرح اس محبت کی زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے جس کا تعلق دلوں اور روحوں سے ہوتا ہے، احمد بن عطاش نے دونوں کی تربیت شروع کر دی تھی، یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ احمد بن عطاش نے ان تمام اسماعیلیوں کو جو قلعہ شاہ در کے قید خانے میں بند تھے رہا کردیا تھا اور پھر قافلے لوٹنے لگے، رہزنی کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا۔
تاریخ بتانے سے قاصر ہے کہ حسن بن صباح اس استاد کی شاگردی میں کتنا عرصہ گزار چکا تھا، غالباً دو اڑھائی سال گزر گئے تھے، ایک تو حسن بن صباح دنیا میں آیا تو شیطانی اوصاف اپنے ساتھ لایا تھا ،اس کے بعد اس نے انہیں اوصاف کو ابھارا اور پھر ابن عطاش اور احمد بن عطاش نے ان اوصاف کو پختہ تر کرکے اسے  پکا ابلیس بنا دیا تھا، اسے علم سحر بھی سکھا دیا اور غالباً اسے احمد بن عطاش کچھ ایسی تربیت بھی دے رہا تھا جو زمین دوز تخریب کاری کے لئے کارآمد ہوتی ہے۔ ان لوگوں کا اصل مقصد یہ تھا کہ اسلام کو اسلام ہی رہنے دیں لیکن اللہ کے اس دین کو اپنی نظریات اور اپنی نفسانی خواہشات کے سانچے میں ڈھال لیں۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جو ان لوگوں نے زمین کے نیچے جاکر لڑنی تھی۔
کسی عمارت کو گرانا ہو تو اسے اوپر سے نہیں توڑا جاسکتا وقت لگتا ہے، اور توڑنے والے منڈیر کی ایک دو اینٹیں ہی اکھاڑ پھینکے تو پکڑے جائیں گے، عمارت کی بنیادوں میں پانی چھوڑ دیا جائے تو عمارت ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہے اور لوگ اس کے سوا کچھ نہیں کہتے کہ عمارت کی بنیادوں میں پانی چلا گیا تھا۔
اسلام کی فلک بوس عمارت کو مسمار کرنے کا یہی طریقہ اختیار کیا جارہا تھا، اس طریقہ جنگ کے لیے ہتھیاروں کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی مال و دولت کی ہوتی ہے، اس میں انسان خریدے جاتے ہیں، دینداروں کے دین و ایمان کی قیمت دی جاتی ہے، احمد بن عطاش نے زرو جواہرات کی فراہمی کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ قافلوں کو لوٹنا شروع کردیا۔
سلطنت اسلامیہ میں قافلوں کو لوٹنے کا سلسلہ کبھی کا ختم ہوچکا تھا، کوئی لٹیرا رہزنی کی بھی جرات نہیں کرتا تھا، قافلے کے ساتھ بے شمار لوگ ہوتے ہیں، اکیلا آدمی مال ودولت لیے پا پیادہ دشت و بیابان میں بے دھڑک سفر کرتا تھا۔
سلجوقی تو اس معاملے میں اور زیادہ سخت تھے، لیکن سلجوقی سلطان ملک شاہ کے دور میں آکر قافلے لوٹنے لگے، یہ سراغ نہیں ملتا تھا کہ اچانک لٹیروں کے یہ گروہ کہاں  سے آگئے ہیں، یہ تو تاریخ سے بھی پتا نہیں چلتا کہ سرکاری طور پر اس کا کیا سدباب ہوا تھا۔ البتہ یہ واضح ہے کہ قافلوں کی آمد ورفت تقریباً بند ہو گئی تھی۔
ایک روز احمد بن عطاش سے ملنے ایک آدمی آیا ،حسن بن صباح بھی اسکے پاس بیٹھا تھا، دربان نے جونہی احمد بن عطاش کو اس آدمی کی اطلاع دی تو احمد بن عطاش نے چونک کر کہا اسے جلدی اندر بھیجو۔
خوش آمدید میرے بھائی !،،،،، احمد بن عطاش نے اس آدمی کو دیکھتے ہی پرمسرت لہجے میں پوچھا ؟،،،،،بیٹھنے سے پہلے یہ سناؤ کہ کوئی خوشخبری لائے ہو؟
بہت بڑی خوشخبری۔۔۔ اس آدمی نے بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ ایک بہت بڑا قافلہ آ رہا ہے اور جوں جوں یہ آگے بڑھتا آ رہا ہے اس کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
اور مال و دولت میں اضافہ ہوتا آرہا ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اس شخص نے جو قافلے کی خبر لایا تھا یہ بتانا شروع کردیا کہ قافلہ کہاں ہے اور یہ کس راستے پر جا رہا ہے، یہ راستہ شاہ در سے بہت دور سے گزرتا تھا ،وہ علاقہ پہاڑی بھی تھا اور یہ پہاڑ اور وادیاں درختوں سے اٹی پڑی تھیں، اور جو علاقہ میدانی تھا وہ سب جنگلاتی تھا ،چونکہ قافلے جو پہلے لوٹے جا چکے تھے وہ شاہ در سے بہت دور لوٹے تھے اس لیے کسی کو ذرا سا بھی شبہ نہیں ہوتا تھا کہ یہ قافلے لوٹنے والے احمد بن عطاش کے آدمی ہیں اور یہ ساری دولت احمد بن عطاش کے قبضے میں جا رہی ہے۔
کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس قافلے میں کیا کچھ ہے؟،،،،، احمد بن عطاش نے پوچھا ۔
کیوں نہیں۔۔۔ اس شخص نے فاتحانہ انداز میں جواب دیا۔۔۔ میں نے اس قافلے کے ساتھ دو پڑاؤ سفر کیا ہے، اور پوری تفصیلات اپنی آنکھوں دیکھ کر اور کچھ قافلے والوں سے سن کر آیا ہوں۔
ہمیں تم جیسے آدمیوں کی ضرورت ہے ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔اب بتاؤ کیا دیکھ آئے ہو ۔
زیادہ تر تاجر ہیں۔۔۔ اس شخص نے جواب دیا۔۔۔ ان میں بعض تو بہت ہی امیر کبیر لگتے ہیں ،بیس بیس تیس تیس اونٹوں پر ان کا مال جا رہا ہے ۔
مال کیا ہے؟
اناج بھی ہے۔۔۔ اس شخص نے جواب دیا۔۔۔کپڑا ہے، چمڑا ہے اور سونے چاندی کے زیورات بھی ہیں، چند ایک کُنبے بھی قافلے کے ساتھ ہیں۔
نوجوان لڑکیاں بھی ہونگی؟،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔
زیادہ تو نہیں۔۔۔ اس شخص نے جواب دیا۔۔۔ سات آٹھ اچھی خاصی خوبصورت اور نوخیز لڑکیاں ہیں ،چھوٹی عمر کی بچیاں بھی ہیں۔
یہ تو اور زیادہ اچھا ہے۔۔۔ احمد بن عطاش ۔۔۔نے کہا ۔۔۔ہمیں پنیری چاہیے جسے ہم اپنی مرضی سے جہاں چاہیں گے وہاں لگا دیں گے، اور اپنے انداز سے اس کی آبیاری کریں گے۔
سوچنے والی ایک بات ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔کئی ایک قافلے لوٹے جا چکے ہیں پھر ان تاجروں وغیرہ نے یہ جرات کیسے کی ہے کہ وہ اتنا مال و دولت اور اتنا بڑا قافلہ لے کر چل پڑے ہیں، شاید ان لوگوں نے یہ سوچا ہوگا کہ کچھ عرصے سے قافلوں کو لوٹنے کا سلسلہ بند ہے اس لیے لٹیرے کسی اور علاقے میں چلے گئے ہونگے۔
میرا خیال کچھ اور ہے۔۔۔قافلے کی خبر لانے والے آدمی نے کہا ۔۔۔قافلے میں جو کوئی بھی شامل ہوتا ہے اسے کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس تلوار اور برچھی لازمی طور پر ہونی چاہیے، اور اس میں حملے کی صورت میں لڑنے کا جذبہ بھی ہونا چاہیے، میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جہاں پڑاؤ ہوتا ہے وہاں کئی ایک نوجوان رضاکارانہ طور پر پورے پڑاؤ کے اردگرد گھوم پھر کر پہرے دیتے ہیں، قافلے میں نوجوان آدمیوں کی تعداد ذرا زیادہ ہے۔
میں یہی بات آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ قافلے کے ساتھ حفاظت کا انتظام بھی موجود ہے اس لئے ہمیں زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے ،اور سب سے بڑی ضرورت احتیاط کی ہے۔
ہاں یہ سوچنے والا معاملہ ہے ۔۔۔احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ اور گہری سوچ میں گم ہو گیا ۔
ہم اس قافلے کو محافظ دیں گے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا، اور قافلے کی خبر لانے والے سے مخاطب ہوا ۔۔۔تم کچھ دیر میرے پاس بیٹھنا،،،،، اور استاد محترم یہ کوئی پریشان کرنے والا معاملہ نہیں۔
اس شخص نے بتایا کہ اس وقت تک قافلہ کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے اور جس بستی اور شہر کے قریب سے یہ قافلہ گزرتا ہے اس میں لوگ شامل ہوتے جا رہے ہیں۔
میں اس کی وجہ سمجھتا ہوں۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ ایک عرصے بعد لوگوں نے ایک قافلہ دیکھا ہے اس لیے لوگ اس قافلے کے ساتھ چل پڑے ہیں۔
یہ قافلہ منزل پر نہیں پہنچنا چاہیے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔
اسی لیے تو میں اتنی دور سے آیا ہوں۔۔۔ اس شخص نے کہا ۔۔۔مجھے فوراً بتائیں کہ میں نے کیا کرنا ہے؟،،،، مجھے جلدی روانہ ہو جانا چاہیے۔
احمد بن عطاش اور حسن بن صباح نے اسے ہدایت دینی شروع کر دیں۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
یہ شخص گھوڑے پر سوار قلعے سے اس طرح نکلا کہ کسی نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں کہ یہ کون ہے اور کہاں جارہا ہے، شہر سے کچھ دور جاکر اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دیکھتے ہی دیکھتے سرسبز ٹیکریوں اور جنگل میں غائب ہو گیا۔
اس کے جانے کے فوراً بعد احمد بن عطاش نے اپنے دو خاص مصاحبین کو بلایا اور انہیں کچھ ہدایات دیں، دونوں بڑی تیزی سے چلے گئے، پہلے تو وہ شاہ در میں کچھ لوگوں سے ملے اور پھر دیہات میں نکل گئے۔
اسی شام کو سورج غروب ہونے کے بعد شاہ در سے سات آٹھ میل دور کم و بیش پچاس گھوڑسوار اکٹھے ہوگئے، انہوں نے احمد بن عطاش کی ہدایات کے مطابق اپنا ایک امیر یا کمانڈر مقرر کر لیا اور اس طرف چل پڑے جس طرف سے قافلہ نے گزرنا تھا ،انھیں راستہ وغیرہ سمجھا دیا گیا تھا ان کے سامنے دو اڑھائی دنوں کی مسافت تھی۔
قافلے کا راستہ وہاں سے تقریباً ساٹھ میل دور تھا ،اس وقت تک قافلے کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے تجاوز کرگئی تھی، اس میں بوڑھے آدمی بھی تھے بوڑھی عورتیں بھی تھیں، جوان اور نوجوان لڑکے زیادہ تھے، نوجوان لڑکیاں اور بچے بھی تھے، اونٹ بے شمار تھے، تجارتی مال اور گھریلو سامان سے لدی ہوئی چار پانچ بیل گاڑیاں اور مال بردار گھوڑا گاڑیاں بھی تھیں ،قافلے کے زیادہ تر آدمی گھوڑوں پر سوار تھے۔
ایک پڑاؤ سے علی الصبح قافلہ چلا ،ابھی چند میل ہی طے کیے ہوں گے کہ قافلے کے آگے آگے جانے والے رک گئے۔
ڈاکو۔۔۔ ڈاکو۔۔۔ قافلے کے آگے سے بڑی بلند آواز سے اعلان ہوا ۔۔۔ھوشیار ہوجاؤ جوانو!،،،، ڈاکو آ گئے ہیں۔۔۔ تیار ہو جاؤ۔
قافلے کی لمبائی ایک میل سے کہیں زیادہ تھی، اعلان کئی بار دہرایا گیا، اس کے جواب میں قافلے میں جتنے بھی نوجوان لڑکے جوان اور ادھیڑ عمر آدمی تھے تلواریں اور برچھیاں تان کر ایسی ترتیب میں ہو گئے کے قافلے کو محاصرے میں لے لیا، تب پتہ چلا کہ قافلے میں کئی ایک ایسے لوگ ہیں جن کے پاس کمانیں اور تیروں سے بھری ہوئی ترکشیں ہیں۔
لڑکیوں اور بچیوں کو درمیان میں کرلو ۔۔۔اعلان ہوا۔۔۔ کچھ آدمی لڑکیوں کے ساتھ رہیں۔
ایک طرف سے کم و بیش پچاس گھوڑسوار قافلے کی طرف آ رہے تھے، ان کے آنے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ حملہ کرنے نہیں آ رہے، ان کے پاس تلواریں تھیں لیکن تلواریں نیاموں میں تھیں، بعض کے پاس برچھیاں تھیں اور کچھ ایسے تھے جن کے پاس جنگی کلہاڑے تھے، گھوڑوں کی رفتار حملے والی یا ہلہ بولنے والی نہیں تھی، وہ جب قریب آئے تو ان کے آگے آگے جو دو سوار تھے ان دونوں نے ہاتھ اوپر کر کے لہرائے جو ایک پرامن اشارہ تھا۔
قافلہ میں جو تیر انداز تھے وہ ایک صف میں کھڑے ہوگئے اور کمانوں میں ایک ایک تیر ڈال لیا۔
ہم دوست ہیں۔۔۔ آنے والے ایک سوار نے کہا۔۔۔ ہمیں دشمن نہ سمجھو۔
پھر وہیں رک جاؤ۔۔۔ قافلے میں سے ایک آدمی نے کہا ۔۔۔۔صرف ایک آدمی آگے آکر بتاؤ کہ تم کیا چاہتے ہو ،ہمارے تیر اندازوں کو تیغ زنوں اور برچھی بازوں کو دیکھ لو ،تم اتنے تھوڑے ہو کہ تھوڑی سی دیر میں تم اپنے خون میں ڈوب جاؤ گے اور تمہارے گھوڑے اور ہتھیار ہمارے پاس ہوں گے۔
مشکوک گھوڑ سواروں کے آگے آگے آنے والے دونوں سواروں نے پیچھے مڑ کر اپنے ہاتھ اٹھائے جو اشارہ تھا کہ باقی سوار پیچھے ہی رک جائیں، تمام سوار رک گئے اور یہ دونوں سوار قافلے کے قریب آ گئے ۔
اب بتاؤ تمہارا ارادہ کیا ہے ؟،،،،،،قافلے کے اس معزز آدمی نے کہا جس نے اپنے آپ کو خود ہی میر کارواں بنا لیا تھا۔
ڈرو نہیں دوستو !،،،،،،ایک سوار نے کہا۔۔۔ ہم پیشہ ور لوگ ہیں ،ہمارا پیشہ امیر لوگوں کی حفاظت کرنا ہے، ہم میں اتنی جرات اور طاقت نہیں کہ اتنے بڑے قافلے پر حملہ کریں، ہمیں پتہ چلا کہ ایک قافلہ جا رہا ہے اور ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ قافلوں کو لوٹنے والے بھی موجود ہیں، تو ہم نے اپنے ان دوستوں کو اکٹھا کیا اور کہا کہ چلو اس قافلے کے پیچھے جاتے ہیں اور امیر لوگوں کو حفاظت مہیا کریں گے اور حلال کی روزی کمائیں گے، تمہارا سفر ابھی بہت لمبا باقی ہے قافلے پر کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ حملہ ہو سکتا ہے، ہماری التجا ہے کہ ہمیں قافلے کی حفاظت کے لیے اپنے ساتھ لے چلو ،ہم راتوں کو پہرہ بھی دیں گے۔
کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ہمارے ساتھ کتنے آدمی ہیں ؟،،،،،،میر کارواں نے کہا ۔۔۔کیا تم انہیں اپنی حفاظت خود کرنے کے قابل نہیں سمجھتے؟
نہیں!،،،، ایک سوار نے جواب دیا۔۔۔ ان میں ہمیں ایک بھی ایسا نظر نہیں آرہا جس نے کبھی لڑائی لڑی ہو، کیا آپ نہیں جانتے کہ قافلوں کو لوٹنے والے لڑنے اور مارنے کی مہارت رکھتے ہیں؟ تمہارے یہ آدمی جب اپنے ساتھیوں کے جسموں سے خون کے فوارے پھوٹتے دیکھیں گے تو یہ سب بھاگ جائیں گے، ہمیں اپنا محافظ بنا کر اپنے ساتھ لے چلیں، ہم اتنی زیادہ اجرت نہیں مانگیں گے جو تم دے ہی نہ سکو، تم میں بڑے بڑے امیر تاجر بھی ہیں، جوان لڑکیوں کے باپ بھی ہیں اور پھر آپ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں، آپ سب مل جل کر ہمیں اتنی سی اجرت تو دے ہی سکتے ہو جس سے کچھ دن ہمارے بچے بھی روٹی کھا لیں گے۔
ایک بات میں بھی کہوں گا ۔۔۔دوسرے سوار نے کہا ۔۔۔اگر آپ ہمیں حلال روزی مہیا نہیں کریں گے، اور ہمیں کہیں سے بھی روزی نہیں ملے گی تو ایک روز ہم بھی رہزنی شروع کر دیں گے اور قافلوں کو لوٹنے کا گروہ بنا لیں گے۔
روزی دینے والا خدا ہے۔۔۔ ایک بزرگ نے آگے آکر کہا۔۔۔ میرے ہم سفرو معلوم ہوتا ہے خدا نے ان کی روزی ہمارے ذمے کردی ہے، نہ جانے یہ بیچارے کتنی دور سے ہمارے پیچھے آئے ہیں، اور یہ حلال کی روزی کے پیچھے آئے ہیں ،انہیں مایوس نہ کرو اور ان کے ساتھ اجرت طے کر لو، انہیں ساتھ لے لینے سے ہماری حفاظتی طاقت میں اضافہ ہو جائے گا، ان سے بات کر لو۔
ان سے اجرت پوچھی گئی جو انہوں نے بتائی اور انکے ساتھ سودا طے کر لیا گیا، ان محافظ سواروں نے دو شرطیں پیش کیں ایک یہ کہ انھیں اجرت پیشگی دے دی جائے، اور دوسری یہ کہ ان کا کھانا پینا قافلہ کے ذمے ہو گا ۔
ان کی دونوں شرائط مان لی گئیں، قافلے کے ہر فرد نے اتنی رقم دے دی جو حساب کے مطابق ہر ایک کے ذمے آتی تھی۔
قافلہ چل پڑا ان پچاس محافظوں نے اپنے آپ کو اس طرح تقسیم کرلیا کہ کچھ قافلے کے آگے ہو گئے، کچھ قافلے کے پیچھے اور باقی کچھ دائیں اور کچھ بائیں ہو گئے، ان کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں، اور وہ پیشہ ور چوکیدار اور محافظ ہیں۔
پہلا پڑاؤ آیا تو ان میں سے بہت سے آدمیوں نے رات بھر دو دو ہوکر پڑاؤ کے چاروں طرف پہرہ دیا، اس سے قافلے والے ان سے مطمئن اور متاثر ہو گئے، اگلی رات بھی انہوں نے اسی طرح پہرہ دیا۔
تیسرے پڑاؤ تک پہنچتے قافلے میں ڈیڑھ دو سو مزید افراد کا اضافہ ہو چکا تھا۔
قافلہ ایک اور پڑاؤ کے لئے رک گیا، سورج غروب ہو چکا تھا لوگ رات بسر کرنے کے لیے اپنے اپنے انتظامات میں مصروف ہوگئے، عورتیں کھانا تیار کرنے لگیں، پانی کی وہاں کوئی قلت نہیں تھی، علاقہ سرسبز اور پہاڑی تھا ،پہاڑیاں ذرا پیچھے ہٹی ہوئی تھیں، اور ان کے درمیان ہری بھری گھاس کا میدان تھا، قریب ہی سے شفاف پانی کی ندی گذرتی تھی، پڑاؤ کے لیے یہی جگہ موزوں تھی۔
قافلے والے دن بھر کے تھکے ہوئے تھے کھانا کھا کر لیٹے، اور لیٹتے ہی سو گئے ،محافظ سوار پہرے پر کھڑے ہوگئے اور ہر رات کی طرح پڑاؤ کے اردگرد گھوم پھر کر پہرہ دینے لگے، آدھی رات سے کچھ پہلے تھوڑی دور سے اُلّو کے بولنے کی آواز آئی، ایک اُلّو پڑاؤ کے بالکل قریب سے بولا، ایک بار پھر دور کے اُلّو کی آواز آئی۔
قافلے والے گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ پچاس ساٹھ گھوڑسوار قافلے کے پڑاؤ کی طرف آرہے تھے، جب پہاڑوں میں پہنچے اور پڑاؤ انہیں اپنے سامنے نظر آنے لگا تو وہ وہیں رک گئے، گھوڑوں سے اترے اور آہستہ آہستہ چلتے پڑاؤ کی طرف بڑھنے لگے، ان کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں چند ایک کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں، وہ جو پچاس محافظ تھے ان میں سے کچھ پہرے پر کھڑے تھے اور باقی سوئے ہوئے تھے، ان کے جو ساتھی پہرے پر کھڑے تھے ان میں سے کچھ آہستہ آہستہ آئے اور انہیں جگایا۔
تمام سوئے ہوئے محافظ آہستہ آہستہ اٹھے، انہوں نے تلوار نکالی پھر یہ سب ایک جگہ اکٹھا ہوئے، ادھر سے وہ بھی آگئے جنہوں نے گھوڑے پہاڑیوں کے پیچھے کھڑے کیے تھے، یہ سب یعنی محافظ بھی اور ادھر سے آنے والے بھی ایک جگہ آپس میں ملے ،محافظوں میں سے ایک نے نئے آنے والوں کو بتانا شروع کردیا کہ کون کہاں ہے، یعنی فلاں جگہ امیرکبیر تاجر ہیں، اور فلاں جگہ نوجوان لڑکیاں ہیں وغیرہ وغیرہ ،یہ سب محافظ بھی اور ادھر سے آنے والے بھی تعداد میں ایک سو سے زیادہ ہو گئے، محافظ دراصل لٹیرے ہی تھے جنھوں نے دھوکہ دے کر قافلے کے ساتھ رہنا تھا اور ان کے پچاس ساٹھ ساتھیوں نے راستے میں آ کر ان سے ملنا تھا، یہ محافظ اس لیے قافلے میں شامل ہوئے تھے کہ انہوں نے پیچھے دیکھ لیا تھا کہ قافلے میں لڑنے والے جوانوں کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔
جو آدمی احمد بن عطاش کو اس قافلے کی اطلاع دینے گیا تھا اس نے بتایا تھا کہ اس قافلے پر حملہ ناکام بھی ہو سکتا ہے، کیوں کہ اس میں لڑنے والے آدمیوں کی تعداد زیادہ ہے ،احمد بن عطاش یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا تھا، لیکن حسن بن صباح کے دماغ نے فوراً یہ ترکیب سوچی تھی کہ لٹیرے گروہ کے آدھے آدمی پیشہ ور محافظ بن کر قافلے میں شامل ہو جائیں گے، تاکہ قافلے والے راتوں کو خود پہرا نہ دیں، اور وہ اپنی حفاظت سے بے فکر ہو جائیں، حسن بن صباح نے اطلاع لانے والے کو یہ ترکیب بڑی اچھی طرح سمجھا دی تھی۔
یہ شخص بڑی تیزی سے لٹیروں کو اکٹھا کرتا پھرا اور ان کا جو لیڈر تھا اسے اس نے یہ ترکیب سمجھا دی ،لیڈر نے بڑی خوش اسلوبی سے اس ترکیب پر عمل کیا ۔
قافلے والے سمجھ ہی نہ سکے کہ جنہیں وہ محافظ سمجھ بیٹھے ہیں وہ رہزن ہیں ،ان رہزنوں نے قافلے کے بچے بچے پر اپنا اعتماد قائم کر لیا تھا۔
ان ایک سو سے زیادہ رہزنوں نے پڑاؤ کے ایک طرف سے قتل عام شروع کیا ،انہیں بتایا گیا تھا کہ نوجوان لڑکیوں، کمسن بچیوں اور بچوں کو زندہ لانا ہے، جب قافلے والوں کا قتل عام شروع ہوا تو دوسروں کی آنکھ کھل گئی لیکن رہزنوں نے انہیں سنبھلنے کی مہلت نہ دی، اس کے بعد ایک ہڑبونگ قیامت کا سما تھا ،جو کوئی ہڑبڑا کر اٹھتا تھا اس کے جسم میں برچھی اتر جاتی یا تلوار اس کی گردن صاف کاٹ دیتی، وہاں ان کی چیخ و پکار سننے والا اور سن کر مدد کو پہنچنے والا کوئی نہ تھا، لڑکیوں اور بچوں کی دلدوز چیخیں تھیں، جو رہزنوں اور قاتلوں کے دلوں کو موم نہیں کر سکتی تھیں۔
کچھ زیادہ دیر نہ لگی کہ قافلے کا صفایا ہوگیا، لٹیروں نے سامان سمیٹنا شروع کر دیا، پھر انہوں نے یہ سامان اونٹوں بیل گاڑیوں اور گھوڑا گاڑیوں پر لاد لیا، نوجوان لڑکیوں، بچیوں، اور بچوں کو ہانک کر ایک طرف لے جانے لگے۔
قیامت کی اس خون ریزی میں ایک دو اونٹ اور ایک دو گھوڑے کھل کر ادھر ادھر ہو گئے تھے، شاید چند انسان بھی زندہ بچ گئے ہوں، رہزن بڑی جلدی میں تھے انہوں نے لڑکیوں اور بچوں کو ایک گھوڑا گاڑی پر سوار کر لیا اور چار پانچ آدمی ان کے ساتھ سوار ہوگئے اور وہ پہاڑیوں کے پیچھے غائب ہو گئے۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
صبح کا اجالا سفید ہوا تو آسمان نے اس میدان میں لاشوں پر لاشیں پڑی دیکھیں، لاشوں کے سوا وہاں کچھ بھی نہ تھا، قریب کی ایک ٹیکری کے اوپر ایک بوڑھا آدمی لیٹا ہوا تھا ،اس نے آہستہ آہستہ سر اٹھایا اور میدان کی طرف دیکھا اس نے اپنی اتنی لمبی عمر میں ایسے منظر پہلے بھی دیکھے ہونگے، وہ کوئی تجربے کار آدمی تھا، وہ اسی قافلے کا ایک فرد تھا، رات کو جب قتل عام شروع ہوا تو وہ کسی طرح وہاں سے بھاگ نکلا اور ٹیکری پر چڑھ کر اونچی گھاس میں چھپ گیا ،وہ رات بھر اپنے ہم سفروں اور ان کے بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار سنتا رہا ،وہ آہستہ آہستہ اٹھا اور ٹیکری سے اترا ،اسے ایسا کوئی ڈر نہ تھا کہ ڈاکو پھر آجائیں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔
وہ آہستہ آہستہ ان لاشوں کو دیکھتا گیا، وہ یوں محسوس کررہا تھا جیسے خواب میں چل رہا ہو، وہ اپنے کنبے کو ڈھونڈ رہا تھا ،وہاں تو کوئی کہاں، اور کوئی کہاں پڑا تھا ،اسے بہت ہی چھوٹے سے ایک بچے کی لاش پڑی نظر آئی، بچے کی عمر چند مہینے ہی ہوگی وہ کچھ دیر اس غنچے کو دیکھتا رہا جو بن کھلے مرجھا گیا تھا، بچے سے نظر ہٹا کر اس نے ہر طرف دیکھا اسے کچھ دور ایک اونٹ نظر آیا جو بڑی بے پرواہی سے اس خونیں منظر سے بے نیاز گھاس چر رہا تھا۔
بوڑھے نے آسمان کی طرف دیکھا جیسے خدا کو ڈھونڈ رہا ہو، اچانک اسے ایک خیال آیا وہ بڑی تیزی سے اونٹ کی طرف چل پڑا، اونٹ کے پاس جا کر اس کی مہار پکڑی اور وہیں بٹھا دیا، پھر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا اسے ایک کجاوا ایک جگہ پڑا دکھائی دیا ،وہ گیا اور کجاوا اٹھا کر اونٹ کے پاس لے گیا، اونٹ کی پیٹھ پر رکھ کر اس نے کجاوا کس دیا، دودھ پیتے بچے کی خون آلود لاش اٹھا کر لے گیا لاش کو کجاوے میں رکھا اور خود بھی اونٹ پر سوار ہو گیا، اور اونٹ کو اٹھایا ،اس نے اونٹ کا رخ مَرو کی طرف کردیا ،اس وقت مرو سلجوقی سلطنت کا دارالحکومت تھا ،سلطان ملک شاہ وہیں ہوتا تھا۔
ملک شاہ روایتی بادشاہوں جیسا بادشاہ نہیں تھا ،لیکن جہاں وہ رہتا تھا وہ محل سے کم نہ تھا ،ایک روز وہ اپنے مصاحبوں وغیرہ میں بیٹھا ہوا تھا۔
میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔۔۔ ملک شاہ نے کہا اور کچھ دیر سوچ کر بولا۔۔۔ قافلوں کے لوٹنے کا خطرناک سلسلہ ختم ہو گیا ہے، ہم کسی کو پکڑ تو نہیں سکے لیکن پکڑنے اور سزا دینے والا اللہ ہے، یہ اللہ ہی ہے جس نے میری مدد کی اور قافلے محفوظ ہوگئے۔
سلطان محترم !،،،،دربان نے اندر آ کر کہا۔۔۔ ایک ضعیف العمر شخص سوار آیا ہے، آپ سے ملنا چاہتا ہے۔
کہاں سے آیا ہے؟،،،، سلطان نے پوچھا ۔۔۔کیا چاہتا ہے؟،،، کچھ پوچھا تم نے؟
نہیں سلطان عالی مقام!،،،، دربان نے جواب دیا۔۔۔ اس کی حالت اچھی نہیں ،معلوم ہوتا ہے بڑی لمبی مسافت طے کرکے آیا ہے، اس نے بہت چھوٹے سے بچے کی لاش اٹھا رکھی ہے، لاش کو جیسے خون سے نہلایا گیا ہے ۔
لاش !،،،،،ملک شاہ نے چونک کر کہا۔۔۔ چھوٹے سے بچے کی لاش، اسے فوراً اندر بھیجو ،یہ فریادی معلوم ہوتا ہے۔
ضعیف العمر ہانپتا کانپتا جھکا جھکا بازوؤں پر چند ماہ عمر کے بچے کی خون آلود لاش اٹھائے ملک شاہ کے سامنے آیا ،اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اس کی آنکھوں کا نور بجھ چکا تھا ۔
او میرے بزرگ!،،،، ملک شاہ اٹھ کھڑا ہوا اور پوچھا ۔۔۔کیا مشکل تمہیں یہاں لے آئی ہے؟
ایک بچے کی لاش لایا ہوں ،ائے سلطان !،،،،بوڑھے نے کہا۔۔۔ یہ آپ کا بچہ ہے، اس نے آگے بڑھ کر لاش سلطان کے قدموں میں رکھ دی، اونٹ کی پیٹھ پر تین دن اور تین رات سفر کیا ہے، نہ اونٹ نے کچھ کھایا ہے نہ میں نے، یہ اللہ کی امانت تھی جس میں سلجوقی سلطان نے خیانت کی، دیکھ،،،، سلطان،،،، دیکھ ،،،،اس بِن کھلی کلی کو دیکھ، اس ننھے سے بچے میں ابھی یہ احساس بھی پیدا نہیں ہوا تھا کہ یہ زندہ ہے، اور مرتے وقت اسے یہ احساس نہیں ہوا ہوگا کہ موت نے اسے ماں کی آغوش سے اٹھا کر اپنی گود میں لے لیا ہے ۔
سلطان ملک شاہ نے دربان کو بلوایا اور کہا کہ وہ بچے کی لاش لے جائے اور اسے غسل دے کر کفن پہنایا جائے۔
اے بزرگ انسان!،،،، سلطان نے بوڑھے سے کہا ۔۔۔کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ شکوہ اور شکایت سے پہلے یہ بتا دو کہ یہ بچہ کس کا ہے ؟،،،اور اسے کس نے قتل کیا ہے؟
یہ میرے کسی ہمسفر کا بچہ تھا ۔۔۔بوڑھے نے کہا ۔۔۔میں اس کے باپ کو نہیں جانتا ،اس کی ماں کو نہیں جانتا ،انہیں میں کبھی بھی نہیں جان سکوں گا، وہ بھی قتل ہو گئے ہیں، وہ کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے ؟کہاں جا رہے تھے؟ میں نہیں جانتا ،میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ ہمارے قافلے کے ساتھ تھے، قافلے پر ڈاکوؤں کا حملہ ہو گیا۔
بوڑھے نے تفصیل سے سنایا کہ قافلہ کہاں سے چلا تھا کس طرح اس میں مسافروں کا اضافہ ہوتا گیا اور پھر کس طرح اور کہاں قافلے پر اس وقت حملہ ہوا جب سب گہری نیند سو رہے تھے۔
سلطان غصےکےعالم میں کمرے میں ٹہلنے لگا ،وہ بار بار ایک ہاتھ کا گھونسہ دوسرے کی ہتھیلی پر مارتا تھا ،اس کے چہرے پر قہر اور عتاب کے آثار گہرے ہوتے جا رہے تھے۔
کچھ عرصہ پہلے قافلوں پر حملے شروع ہوئے تھے۔۔۔ بوڑھے نے کہا ۔۔۔پھر یہ حملے خود ہی ختم ہوگئے، ان کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ نے ڈاکوؤں کی سرکوبی کا کوئی بندوبست کر دیا تھا ،بلکہ لوگوں نے سفر کرنا چھوڑ دیا تھا ،ہم بدقسمت اس خوش فہمی میں نکل کھڑے ہوئے کہ منزل پر پہنچ جائیں گے۔
اس بچے کی لاش یہاں کیوں لے آئے ہو؟،،،،، سلطان ملک شاہ نے پوچھا ۔
سلطان کو یہ دکھانے کے لئے کہ سلطانوں کے گناہوں کی سزا رعایا کو ملا کرتی ہے۔۔۔ بوڑھے نے کہا۔۔۔ میں عقیدے کا سنی ہوں، آپ مجھے معاف کریں یا نہ کریں مجھے اس کا کوئی ڈر نہیں، میں خلفاء راشدین کی بات کروں گا جن کے دور میں ہر طرف مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ ہر مذہب کے لوگوں کی عزت محفوظ ہو گئی تھی، جان محفوظ ہو گئی تھی، اور لوگوں کے مال و اموال محفوظ ہوگئے تھے، رعایا کو اور رعایا کے بچوں کو اللہ کی امانت سمجھتے تھے، میں بچے کی لاش اس لیے یہاں لایا ہوں کہ سلطان اس معصوم کی کھلی اور ٹھہری ہوئی آنکھوں میں اپنے گناہوں کا عکس دیکھ لیں۔
دیکھ لیا ہے میرے بزرگ!،،،، سلطان نے کہا۔۔۔ ہم ان قزاقوں کو پکڑیں گے۔
ہمارے قافلے سے تمام نوجوان لڑکیوں اور بچوں کو قزاق اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔۔۔ بوڑھے نے کہا۔۔۔ انہیں وہ قتل نہیں کریں گے، انھیں امراء کے گھروں میں فروخت کیا جائے گا ،انھیں عیش و عشرت کا ذریعہ بنایا جائے گا، امت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بچیاں رقاصہ بنیں گی، عصمت فروش بنیں گی، اور ساری عمر اپنے سلطان کے اس گناہ کی سزا بھگتتی رہیں گی کہ سلطان نے اپنے فرائض سے نظر پھیر لی تھیں، سلطان کی نیندیں حرام ہو جانی چاہیے، میں قافلے والوں کی روحوں کا یہ پیغام لے کر آیا ہوں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سلجوقی سلطان اسلام کے سچے پیروکار تھے ،ان میں روایتی بادشاہوں والی خو نہیں تھی ،اس بوڑھے نے ایسی سخت باتیں بھی کہہ ڈالی تھیں جو کوئی معمولی سا حاکم بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا ،لیکن سلطان ملک شاہ نے نہ صرف یہ کہ بوڑھے کا غصہ بھی برداشت کیا ،اور طنز بھی، بلکہ حکم دیا کہ اسے مہمان خانے میں رکھا جائے ،اور جب تک یہاں قیام کرنا چاہے اسے سلطان کے ذاتی مہمان کی حیثیت سے رکھا جائے۔
<=======۔=========>
جاری ہے بقیہ قسط۔8۔میں پڑھیں
<=======۔=========>


Share:

Husn Bin Saba aur Uski Banayi hui Dunyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 05)

Jab Husn Bin Sba aur Uski Mahbooba Farhat ne kila Shah dar me dakhil hua.
Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 05)
Saljoki Saltnat Me Dakhil hone ke liye Ahmad Bin Ataas Ka Kile Dar Zakir ko Mohabbat ke nam par Zehar pilana.

حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت
۔
قسط نمبر/5
۔
دو دونوں کی مسافت کے بعد حسن بن صباح، فرحی اور اپنے رہبر کے ساتھ ایران کے جس قلعے میں داخل ہوا وہ قلعہ اصفہان تھا، عام طور پر اسے قلعہ شاہ در کہا جاتا تھا، یہ سلجوقی سلطان ملک شاہ نے تعمیر کروایا اور ذاکر نام کے ایک سرکردہ فرد کو امیر قلعہ یا والی قلعہ مقرر کیا تھا۔
ذاکر سلجوقیوں کی طرح پکا مسلمان اور اسلام کا شیدائی تھا ،یہ کوئی بڑا قلعہ نہیں تھا کہ اس کے اندر شہر آباد ہوتا، اندر آبادی تو تھی لیکن چند ایک معزز اور اچھی حیثیت اور سرکاری رتبہ اور عہدوں والے لوگ انتظامیہ کے اور لوگوں کے ذاتی ملازم رہتے تھے، آبادی  قلعے سے باہر اور ذرا دور دور تھی، اس آبادی میں فرقہ باطنیہ کے لوگ بھی تھے لیکن وہ اپنی اصلیت ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔
ذاکر کی عمر کم و بیش پچاس سال تھی اور اس کی دو بیویاں تھیں دونوں کی عمریں چالیس سال سے اوپر ہو گئی تھیں ،ذاکر کوئی عیاش آدمی تو نہ تھا ،پابند صوم و صلات تھا، لیکن انسانی فطرت کی کمزوریاں تو ہر انسان میں موجود ہوتی ہیں، ایک روز وہ ہرن کے شکار کو گیا وہ ہرا بھرا سر سبز علاقہ تھا، پیڑ پودوں نے جنت کا منظر بنا رکھا تھا، شفاف پانی کی دو ندیوں نے کچھ اور ہی بہار بنا رکھی تھی۔
ذاکر گھوڑے پر سوار ایک ندی کے کنارے کنارے جا رہا تھا اس کے ساتھ چار محافظ اور دو مصاحب تھے، ذاکر ان کے آگے آگے جا رہا تھا، ندی کا موڑ تھا ،درخت تو بہت تھے لیکن دو درخت اس کے قریب تھے، ایک خودرو بیل دونوں کے تنوں سے اس طرح لپٹی اور پھیلی ہوئی تھی کہ چھت سی بن گئی تھی، اور اس کی شکل مٹی کے ٹیلے میں گف جیسی بنی ہوئی تھی، نیچے خشنما گھاس تھی ۔
ذاکر نے وہاں جاکر گھوڑا روک لیا، پہلے تو اس کے چہرے پر حیرت کا تاثر آیا پھر ہونٹوں پر تبسم آیا۔
پھولدار بیل کی چھت کے نیچے ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی، جس کی عمر سترہ سال سے ذرا کم یا ذرا ہی زیادہ تھی، اس کی گود میں ہرن کا بچہ تھا ،لڑکی کی آنکھیں ہرن کے بچے جیسی نشیلی سیاہ اور موہنی تھی، اور اس کا حسین چہرہ بیل کے پھولوں کی طرح کھلا ہوا تھا، اس کے ریشمی بالوں میں سے دوچار بال اس کے سرخی مائل سفید چہرے پر آئے ہوئے تھے۔
یہ بچّہ کہاں سے لائی ہو لڑکی!،،،،، ذاکر نے پوچھا ؟۔
جنگل میں اکیلا بھٹکتا پھر رہا تھا لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔بہت دن ہو گئے ہیں ماں کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔
کھڑی ہو کر بات کر لڑکی!،،،، ایک محافظ نے لڑکی کو ڈانٹ کر کہا۔۔۔ امیر قلعہ کے احترام میں کھڑی ہو جا۔
ذاکر نے اس محافظ کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔
تم سب آگے چلو۔۔۔۔۔۔ ذاکر نے محافظوں اور مصاحبوں کو حکم دیا۔۔۔ پل پر میرا انتظار کرو۔
لڑکی کے چہرے پر خوف کا تاثر آ گیا اور وہ آہستہ آہستہ اٹھنے لگی، ذاکر گھوڑے سے اتر آیا اور لڑکی کے قریب جا کر ہرن کے بچے کی طرف ہاتھ بڑھائے ،لڑکی نے ہرن کا بچہ پیچھے کر لیا اس کے ہونٹوں پر جو لطیف سا تبسم تھا وہ غائب ہو گیا اور خوف کی جھلک اس کی غزالی آنکھوں میں بھی ظاہر ہونے لگا، ذاکر نے اپنے ہاتھ پیچھے کر لئے۔
ڈر کیوں گئی لڑکی!،،،،، ذاکر نے لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔ اس بدبخت نے تمہیں ڈرا دیا ہے ،میرے دل کو تم اور ہرن کا یہ بچہ ایسا اچھا لگا کہ میں رک گیا میں امیر قلعہ ضرور ہوں لیکن تم پر میں کوئی حکم نہیں چلاؤں گا۔
میں ہرن کا بچہ نہیں دونگی۔
میں تم سے یہ بچہ لونگا بھی نہیں۔۔۔ ذاکر نے کہا ۔۔۔اور اس سے اس کا نام پوچھا۔
زریں۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا۔
کیا اس بچے کے ساتھ تمہیں بہت پیار ہے؟،،،،،، ذاکر نے پوچھا، اور لڑکی کا جواب سنے بغیر بولا ۔۔۔یہ بچہ اتنا پیارا ہے کہ ہر کسی کو اس پر پیار آتا ہے۔
نہیں امیر!،،،،، لڑکی نے خوف سے نکل کر کہا۔۔۔یہ پیارا اور خوبصورت تو ہے لیکن میں اس سے کسی اور وجہ سے پیار کرتی ہوں، میں نے آپ کو بتایا ہے کہ یہ ماں کے بغیر جنگل میں بھٹکتا پھر رہا تھا، اسے دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آگیا جب میں بھی بھٹک گئی تھی، اور میں اپنی ماں کو ڈھونڈتی پھرتی تھی۔
ذاکر اس لڑکی میں اتنا محو ہو گیا کہ لڑکی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے بٹھا دیا اور خود اس کے پاس بیٹھ گیا، لڑکی نے اس سے پرے ہٹنے کی کوشش نہ کی ۔
پھر تمہیں ماں کہاں ملی تھی؟،،،، ذاکر نے پوچھا۔
آج تک نہیں ملی ۔۔۔زرّیں نے جواب دیا۔۔۔ اس وقت میری عمر تین چار سال تھی ،چھوٹا سا ایک قافلہ تھا جس کے ساتھ ہم جا رہے تھے، میرے ماں باپ غریب لوگ تھے ،ان کی عمر خانہ بدوشی میں گزر رہی تھی، میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو ان کے ساتھ جنگلوں پہاڑوں اور بیابانوں میں چلتے پھرتے اور نقل مکانی کرتے پایا ۔
تم ان سے بچھڑ کس طرح گئی تھی؟
بڑا ہی تیز و تند طوفان باد باراں آگیا تھا ۔۔۔۔ زرّیں نے جواب دیا ۔۔۔قافلے والے نفسا نفسی کے عالم میں تتربتر ہو گئے چند ایک گھوڑے تھے اور دو تین اونٹ تھے، سب سامان سمیت ادھر ادھر بھاگ گئے، میرے چار اور بہن بھائی بھی تھے کسی کو کسی کی خبر نہیں تھی، ہر کوئی جدھر کو منہ آیا ادھر پناہ لینے کو اٹھ دوڑا ،میں اکیلی رہ گئی طوفان کے تھپیڑے اس قدر تنگ تھے کہ میرے پاؤں اکھڑ گئے میں چھوٹی سی تو تھی طوفان نے مجھے اپنے ساتھ اڑانا شروع کر دیا ،اب میں باد باراں کے رحم و کرم پر تھی۔
وہ شاید ندی نہیں تھی جس میں میں گر پڑی تھی ،وہ ایسے ہی پانی کا ریلا تھا جو مجھے اپنے ساتھ بہا لے گیا، میں نے چیخنا چلانا اور ماں کو پکارنا شروع کر دیا ،لیکن طوفان کی چیخیں اتنی بلند تھیں کہ میری چیخ اس میں دب جاتی تھی، پھر اس طرح یاد آتا ہے جیسے بڑا ڈراؤنا خواب دیکھا تھا، میں پوری طرح بیان نہیں کر سکتی، یہ بڑی اچھی طرح یاد ہے کہ میں ڈوب رہی تھی اور دو ہاتھوں نے مجھے پانی سے نکال لیا، میں اس وقت کچھ ہوش میں اور کچھ بیہوش تھی، اتنا یاد ہے کہ وہ ایک بزرگ صورت آدمی تھا جس نے مجھے اس طرح اپنے سینے سے لگا لیا تھا جس طرح ماں اس بچے کو گود میں اٹھائے رکھتی ہو، بس یہی وجہ ہے کہ میں نے کچھ دن پہلے اس بچے کو جنگل میں بھٹکتے دیکھا تو اسے اٹھا لیا، میں اسے اپنے ہاتھ سے دودھ پلاتی ہوں۔
تو کیا اس شخص نے تمہیں پالا پوسا ہے؟۔۔۔ ذاکر نے پوچھا۔۔۔ یا تمہیں ماں باپ مل گئے تھے؟
نہیں امیر!،،،،،، زریں نے جواب دیا ۔۔۔وہ کہاں ملتے، معلوم نہیں بے چارے خود بھی زندہ ہیں یا نہیں، مجھے اس بزرگ ہستی نے اپنی بیٹی سمجھ کر پالا پوسا ہے، میں انہیں اپنا باپ اور ان کی بیوی کو اپنی ماں سمجھتی ہوں، ان سے مجھے بہت پیار ملا اور ایسی زندگی ملی ہے جیسے میں شہزادی ہوں۔
کون ہے یہ لوگ؟
احمد بن عطاش!،،،،، زریں نے جواب دیا ۔۔۔قلعے کے باہر رہتے ہیں ،مذہب کے عالم ہیں اور پکے اہل سنت ہیں۔
زریں کا انداز بیاں ایسا معصوم اور بھولا بھالا تھا کہ ذاکر اس میں جذب ہو کے رہ گیا، جیسے اس کی اپنی کوئی حیثیت ہی نہ رہی ہو ،کچھ تو لڑکی بڑی پیاری تھی اور کچھ یہ وجہ بھی تھی کہ لڑکی نے اپنی زندگی کی ایسی کہانی سنائی تھی جس سے ذاکر کے دل میں اس کی ہمدردی پیدا ہو گئی تھی، اس نے لڑکی کے ساتھ ایسے انداز سے اور اس قسم کی باتیں شروع کر دیں جیسے ہم جولی کیا کرتے ہیں ،ان میں اتنی معصومیت اور سادگی تھی کہ وہ بچوں کی طرح ذاکر میں گھل مل گئی۔
زریں!،،،،ذاکر نے بڑے پیار سے کہا۔۔۔ اس پھول میں میرا پیار ہے، یہ تم لے لو۔
زریں نے پھول لے لیا، اور چھوٹے سے بچے کی طرح ہنس پڑی، اس کی ہنسی ایسی تھی جیسے جل ترنگ سے نغمہ پھوٹا ہو۔
ایک بات بتاؤ زریں!،،،،، ذاکر نے کہا۔۔۔ کیا تم نے میرا یہ پھول دل سے قبول کر لیا ہے؟
ہاں تو !،،،،زریں نے کہا۔۔۔ پیار کون قبول نہیں کرتا۔
تو کیا تم میرے گھر آنا پسند کروں گی؟،،،،، ذاکر نے کچھ التجا کے لہجے میں پوچھا۔
وہ کیوں ؟
میں تمہیں ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گا، زندگی کا ساتھی بنانا چاہتا ہوں۔
تو پھر میں کیوں آؤں ۔۔۔۔زریں نے بڑے شگفتہ لہجے میں کہا۔۔۔ آپ کیوں نہیں آتے؟
نہیں زریں۔۔۔ ذاکر نے کہا ۔۔۔تم اتنی معصوم ہو کہ میری بات سمجھ نہیں سکی، میں تمہیں اپنے گھر لانا چاہتا ہوں ،تم مجھے اس پھول جیسی پیاری لگتی ہو۔
پھول کسی کے پاس چل کر نہیں جایا کرتے امیر محترم !،،،،،زریں نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ پھولوں کے شیدائی خود چل کر پھولوں کے پاس جایا کرتے ہیں، اور وہ کانٹوں میں سے بھی پھول توڑ لیا کرتے ہیں، آپ نے یہ پھول جو مجھے دیا ہے ہاتھ لمبا کرکے توڑا ہے، آپ کسی پھول کو حکم دیں کہ وہ آپ کے پاس آجاۓ تو کیا پھول آپ کے حکم کی تعمیل کرے گا؟
ذاکر نے قہقہ لگایا اور اس کے ساتھ ہی لڑکی کو اپنے بازو کے گھیرے میں لے کر اپنے قریب کر لیا، زرین نے مزاحمت نہ کی۔
تم جتنی حسین ہوں اتنی ہی دانش مند ہو۔۔۔ذاکر نے کہا ۔۔۔اب تو میں تمہیں ہر قیمت پر حاصل کروں گا۔
اور میں اپنی جان کی قیمت دے کر بھی آپ سے بھاگوں گی ۔۔۔زریں نے پہلے جیسی شگفتگی سے کہا۔
وہ کیوں ؟
میں نے بادشاہوں کی بہت کہانیاں سنی ہے۔۔۔ زرین نے کہا۔۔۔ آپ جیسے امیر بھی بادشاہ ہوتے ہیں، مجھ جیسی لڑکی پر فریفتہ ہو کر اسے زروجواہرات میں تول کر اپنے حرم میں ڈال لیتے ہیں، اور جب انہیں ایسی ہی ایک اور لڑکی مل جاتی ہے تو وہ پہلی لڑکی کو حرم کے کباڑ خانے میں پھینک دیتے ہیں، میں فروخت نہیں ہونا چاہتی ،ائے امیر قلعہ !،،،ہاں اگر آپ کے سپاہی مجھے زبردستی اٹھا کر آپ کے محل میں پہنچا دیں تو میں کچھ نہیں کر سکوں گی، میرا بوڑھا باپ احمد بن عطاش بھی سوائے آنسو بہانے کے کچھ نہیں کر سکے گا، وہ بوڑھا بھی ہے عالم دین بھی ہے، اور وہ شاید تلوار بھی نہیں چلا سکتا۔
نہیں زریں!،،،، ذاکر نے کہا ۔۔۔احمد بن عطاش کی طرح میں بھی سنی مسلمان ہوں، کیا تم نے کبھی مسلمانوں میں کوئی بادشاہ دیکھا ہے، پھر میں کسی ملک کا حکمران نہیں میں سلجوقی سلطان کا ملازم ہوں ،حکومت سلطان ملک شاہ کی ہے، وہ بھی اپنے آپ کو بادشاہ نہیں سمجھتے، میرے پاس کوئی حرم نہیں دو بیویاں ہیں جو جوانی سے آگے نکل گئی ہیں، وہ تمہاری خدمت کیا کریں گی، اور وہ تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہونگی۔
اس دور میں عربوں میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا رواج تھا، اس وقت سوکن کا تصور نہیں تھا، بیویاں ایک دوسرے کے ساتھ خوش و خرم رہتی تھیں، یہاں تک بھی ہوتا تھا کہ خاوند عیاش طبیعت ہو تو کبھی کبھی کوئی بیوی اپنی کسی سہیلی کو ایک ادھ رات کے لئے اپنے خاوند کو تحفے کے طور پر پیش کرتی تھیں، داستان گو جس دور اور جس خطے کی کہانی سنا رہا ہے وہاں سلجوقی سلاطین کی حکومت تھی، سلجوقی ترک تھے ان کے یہاں بھی یہی رواج تھا، اسلام قبول کر کے انھوں نے بھی اپنے آپ کو پابند کر لیا تھا کہ ایک آدمی زیادہ سے زیادہ چار بیویاں رکھ سکتا ہے، حرم کا تصور عربوں کی طرح ان کے یہاں بھی ناپید تھا ،بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ سلجوقی بیویوں کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھتے تھے۔
زریں نے جب ذاکر سے یہ سنا کہ اس کی دو بیویاں ہیں اور دونوں جوانی سے آگے نکل گئی ہیں تو اس پر ایسا کوئی اثر نہ ہوا کہ اس کی دو سو کنیں ہوں گی۔
میں تمہیں زبردستی نہیں اٹھاؤں گا زریں!،،،،،، ذاکر نے کہا۔۔۔ میں تمہیں زروجواہرات میں تولونگا ،میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق تم سے نکاح پڑھواؤنگا، فیصلہ تم کرو گی۔
تو پھر اس پودے کے پاس جائیں جس کا پھول توڑنا ہے۔۔۔ زریں نے کہا۔
ہاں زریں! ۔۔۔۔۔ذاکر نے کہا۔۔۔ میں تمہاری بات سمجھ گیا ہوں، میں احمد بن عطاش کے ساتھ بات کروں گا، میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں زریں پہلے تو مجھے تمہارا یہ معصوم حسن اچھا لگا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ تم میں عقل و دانش بھی ہے تو میں نے کہا تھا کہ میں تمہیں ہر قیمت پر حاصل کروں گا، یہ اس لئے کہا تھا کہ میں اس قلعے کا حاکم ہوں، تم جیسی دانشمند بیوی میرے لیے سود مند ثابت ہو گی، تم مجھے سوچ بچار میں مدد دو گی۔
میرے باپ سے فیصلہ لے لیں۔۔۔ زریں قدر سنجیدگی سے کہا۔۔۔ میں نے آپ کو ٹھکرایا نہیں، لیکن میں آپ کو یہ بتا دیتی ہوں کہ مجھے دولت نہیں محبت چاہیے۔
ذاکر نے زریں کا ایک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر ذرا ملا اور کچھ دبایا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔
زریں!،،،،، ذاکر نے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا ۔۔۔میری فطرت بادشاہوں جیسی ہوتی تو میں درہم و دینار کی ایک تھیلی تمہارے قدموں میں رکھ دیتا، لیکن نہیں میں محبت کو محبت سے خریدوں گا ۔
ذاکر گھوڑے پر سوار ہوا اور ایڑ لگادی ،اسکے محافظ اور مصاحب ندی کے پل پر اسکے منتظر تھے۔
ایک بات غور سے سن لو۔۔۔ ذاکر نے کہا۔۔۔ اگر کوئی ہرن سامنے آئے تو مجھے دیکھ کر یہ ضرور بتا دیا کرو کہ یہ نر ہے یا مادہ، کبھی کسی ہرنی کو نہیں مارنا، ہوسکتا ہے وہ بچے والی ہو۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
ذاکر شکار سے واپس آ رہا تھا اس نے ایک ہی ہرن مارا تھا ،لیکن اس روز وہ بہت بڑا شکار کھیل آیا تھا، وہ زریں تھی جو ادھ کھلے پھول کی طرح معصوم تھی، ذاکر کو ابھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ وہ شکار کرکے آیا ہے یا خود شکار ہو گیا ہے۔
زریں نے اسے اپنی بستی بتادی تھی جو تھوڑی ہی دور تھی، اس بستی کے قریب ذاکر نے گھوڑا روک لیا اور اپنے ایک مصاحب سے کہا کہ یہاں احمد بن عطاش نام کا ایک عالم دین رہتا ہے اسے میرا سلام پہنچایا جائے۔
ایک مصاحب نے گھوڑا دوڑا دیا اور وہ بستی کی گلیوں میں غائب ہو گیا۔
جب وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک آدمی تھا جو سرسے پاؤں تک سفید چغے میں ملبوس تھا ،اس کے سر پر سلجوقی ٹوپی تھی اور ٹوپی پر سفید رومال تھا جو کندھوں تک لٹک رہا تھا، اس کی داڑھی لمبی تھی اور اس کے لباس کی طرح سفید، ذاکر نے اسے بستی سے نکلتے دیکھا تو گھوڑے سے کود کر اترا اور بہت ہی تیز چلتا اس شخص تک پہنچا،
جھک کر سلام کیا پھر اس کے گھٹنے چھو کر مصافحہ کیا۔
احمد بن عطاش؟
ہاں امیر قلعہ!۔۔۔ اس شخص نے کہا۔۔۔ احمد بن عطاش میں ہی ہوں، میرے لیے حکم۔
کوئی حکم نہیں ائے عالم دین!،،،، ذاکر نے التجا کے لہجے میں کہا۔۔۔ ایک درخواست ہے کیا آپ آج کا کھانا میرے ہاں کھانا پسند فرمائیں گے۔
زہے نصیب ۔۔۔احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔حاضر ہو جاؤں گا مغرب کی نماز کے بعد۔
ذاکر نے ایک بار پھر جھک کر اس سے مصافحہ کیا اور واپس آ گیا۔
مغرب کی نماز کے بعد احمد بن عطاش ذاکر کے محل نما مکان میں اس کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھا تھا، کھانے کے دوران ہی ذاکر نے درخواست کے لہجے میں احمد بن عطاش سے کہا کہ وہ اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے، اس نے یہ بھی بتایا کہ زریں اسے کہاں ملی تھی، اور یہ بھی کہ زریں نے اسے بتایا تھا کہ وہ احمد بن عطاش کی بیٹی کس طرح بنی تھی۔
اللہ نے میری دعائیں قبول کرلی ہیں۔۔۔ احمد بن عطاش نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کہا۔۔۔ میں نے اس بچی کو طوفان میں سے نکالا تھا اور اسے بڑے پیار سے پالا ہے، میں دعائیں مانگا کرتا تھا کہ اس بچی کی زندگی خانہ بدوشوں جیسی نہ ہو، اور اس کا مستقبل روشن ہو ، اگر آپ نے اسے اپنی رفاقت کے قابل سمجھا ہے تو بچی کے لئے اور میرے لیے اور خوش نصیبی کیا ہوگی۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
دو چار ہی دنوں بعد زریں دلہن کے لباس میں ذاکر کی زندگی میں داخل ہو گئی، ذاکر کی دونوں بیویوں نے بڑے پیار سے اس کا استقبال کیا ،ذاکر نے دو خادمائیں زریں کے لئے وقف کر دیں۔
مجھے کسی خادمہ کی ضرورت نہیں۔۔۔ زریں نے ذاکر سے کہا ۔۔۔میں آپ کی خدمت اپنے ہاتھوں کرنا چاہتی ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ رات کو آپ دودھ پیتے ہیں تو وہ خادمہ آپ کو دیتی ہے، آئندہ یہ دودھ میں خود آپ کے لیے تیار کیا کروں گی، میں جانتی ہوں آپ دودھ میں شہد ملا کر پیتے ہیں۔
ذاکر کی عمر پچاس سال ہو چکی تھی اسے غالبا توقع نہیں تھی کہ سترہ سال عمر کی اتنی حسین لڑکی اس پر فریفتہ ہوجائے گی، اس نے زریں کو اجازت دے دی کہ رات کا دودھ وہ خود اسے پلایا کرے گی۔
کچھ دنوں بعد زریں نے ذاکر سے کہا کہ جس شخص نے اسے طوفان سے بچایا اور اتنے پیار سے پالا ہے اس کے بغیر وہ اپنی زندگی بے مزہ سی محسوس کرتی ہے، ذاکر احمد بن عطاش کو اجازت دے دے کہ وہ ایک دو دنوں بعد کچھ وقت یہاں گزارا کریں۔
مختصر یہ کہ یہ نوخیز لڑکی ذاکر کے دل و دماغ پر چھا گئی، ذاکر نے احمد بن عطاش کو بلا کر بڑے احترام سے کہہ دیا تھا کہ وہ جب چاہے اسکے گھر آ جایا کرے، اور جتنے دن چاہے رہا کرے، ذاکر کو ذرا سا بھی شک نہ ہوا کہ احمد بن عطاش چاہتا ہی یہی ہے کہ اسے ذاکر کے گھر میں داخلہ مل جائے اور احمد اپنی سازش کو اگلے مرحلے میں داخل کرے، وہ اجازت مل گئی اور احمد ذاکر کے گھر جانے لگا۔
ذاکر کو یہ شک بھی نہ ہوا کہ احمد بن عطاش کٹر باطنی ہے اور فرقہ باطنیہ کا پیشوا اور اس فرقے کی زمین دوز تنظیم کا بڑا ہی خطرناک لیڈر ہے، وہ جس بستی میں رہتا تھا وہاں باقاعدہ خطیب بنا ہوا تھا، اور ہر کوئی اسے اہلسنت سمجھتا تھا۔
تاریخ نویس ابوالقاسم رفیق دلاوری مرحوم نے مختلف مورخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک طرف ایک نوجوان لڑکی امیر قلعہ کے اعصاب پر غالب آگئی، اور دوسری طرف احمد بن عطاش نے مذہب کے پردے میں اپنی زبان کا جادو چلانا شروع کر دیا ، ذاکر احمد بن عطاش سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے بعض سرکاری امور میں بھی اس سے مشورے لینے شروع کر دیئے، زریں کو خصوصی ٹریننگ دی گئی تھی جس کے مطابق وہ ذاکر کو ہپناٹائز کیے رکھتی تھی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس لڑکی نے ذاکر کو جو یہ پیشکش کی تھی کہ اسے وہ خود دودھ پلایا کرے گی اس سازش کی ایک اہم کڑی تھی، وہ دودھ میں اسے ہر روز کچھ گھول کر پلاتی تھی جس کے فوری طور پر اثرات ظاہر ہونے کا کوئی خطرہ نہیں تھا، یہ اثرات اندر ہی اندر اپنا کام کر رہے تھے، اس دوائی میں نشے کا بھی کچھ اثر تھا جو کچھ اس طرح تھا کہ ذاکر کے مزاج میں بڑی خوشگوار تبدیلی آجاتی تھی اور وہ زریں کے ساتھ ہم عمر ہمجولیوں کی طرح کھیلنے لگتا تھا۔
صرف ایک بار ایسا ہوا کہ ذاکر کی ایک بیوی نے زریں کو یہ دوائی دودھ میں ڈالتے دیکھ لیا اور زریں سے پوچھا بھی کہ اس نے دودھ میں کیا ڈالا ہے؟،،، زریں نے بڑی خود اعتمادی سے کہا کہ اس نے کچھ بھی نہیں ڈالا ،اس بیوی نے ذاکر کو بتایا اور کہا کہ اسے شک ہے کہ زریں ذاکر کو دودھ میں کوئی نقصان دہ چیز ملا رہی ہے، ذاکر کا ردعمل یہ تھا کہ اس نے اس بیوی کو طلاق تو نہ دی لیکن اسے یہ سزا دی کہ اسے الگ کر دیا اور اس کے ساتھ کچھ عرصے کے لئے میاں بیوی کے تعلقات ختم کر دیئے۔
کم و بیش تین مہینوں بعد ذاکر صاحب فراش رہنے لگا ،لیکن وہ یہ بیان نہیں کر سکتا تھا کہ بیماری کیا ہے اور تکلیف کس نوعیت کی ہے، طبیبوں نے اس کے علاج میں اپنا پورا علم صرف کر ڈالا لیکن نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ اٹھ کر ایک قدم بھی چلنے کے قابل نہ رہا، اس کے بستر کے قریب احمد بن عطاش اور زریں ہر وقت موجود رہتے تھے، اس کیفیت میں مریض کو وہ انسان فرشتہ لگتا ہے جو اس کی ذمہ داری پوری ہمدردی سے کرے، اسے یہ احساس دلاتا رہے کہ وہ جلدی ٹھیک ہو جائے گا۔
احمد بن عطاش نے اس کے پاس بیٹھ کر بڑی ہی پرسوز آواز میں تلاوت قرآن پاک شروع کر دی، ذاکر کو اس سے کچھ سکون ملتا تھا.
پھر وہ وقت بھی آگیا کہ ذاکر نے کہا کہ وہ زندہ نہیں رہ سکے گا، اس نے سلطان ملک شاہ کے نام ایک پیغام لکھوایا جس میں اس نے احمد بن عطاش کی دانشمندی اور علم و فضل کا ذکر کیا ،اور اس کی آخری خواہش ہے کہ اس قلعے کا امیر احمد بن عطاش کو مقرر کیا جائے۔
ذاکر مرتے دم تک احمد بن عطاش کو سنی سمجھتا رہا ، دو چار روز بعد وہ اللہ کو پیارا ہو گیا، اس کی موت کی اطلاع سلطان ملک شاہ کو ملی تو اس نے پہلا حکم نامہ یہ جاری کیا کہ آج سے قلعہ شاہ در کا امیر احمد بن عطاش ہے۔
اس وقت تک بہت سے باطنیوں کو قید میں ڈالا جا چکا تھا، سلجوقی چونکہ اہل سنت والجماعت ہیں اس لیے انہیں جونہی پتہ چلتا تھا کہ فلاں شخص اسماعیلی یا باطنی ہے اسے قید میں ڈال دیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ زیادہ تر باطنی اپنے آپ کو سنی کہلاتے تھے، لیکن خفیہ طریقوں سے وہ بڑی ہی خوفناک سازشیں تیار کر رہے تھے۔
احمد بن عطاش نے امیر قلعہ بنتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ ان تمام باطنیوں کو جو قلعے کے قید خانے میں بند تھے رہا کر دیا، پھر اس نے درپردہ باطنیوں کو قلعے کے اندر آباد کرنا شروع کر دیا، اور باطنیوں پر جو پابندی عائد تھی وہ منسوخ کر دی ۔
اس کے فوراً بعد قافلے لوٹنے لگے اور رہزنی کی وراداتیں بڑھنے لگی، ان وراداتوں کا مقصد پیسہ اکٹھا کرنا تھا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ احمد بن عطاش علم نجوم اور علم سحر کا ماہر تھا، خطابت میں اس کی مہارت ایسی تھی کہ سننے والے پر طلسماتی سا تاثر طاری ہو جاتا تھا۔
یہ تھا وہ قلعہ شاہ در جس میں حسن بن صباح، فرحی اور اپنے رہبر کے ساتھ داخل ہوا تھا۔ رہبر اسے سیدھا امیر قلعہ احمد بن عطاش کے گھر لے گیا ،یہ گھر محل جیسا مکان تھا، احمد بن عطاش کو اطلاع ملی کہ رے سے حسن بن صباح آیا ہے تو اس نے کہا کہ اسے فوراً اندر بھیجا جائے۔
آ نوجوان !،،،،،،احمد بن عطاش نے حسن بن صباح کو اپنے سامنے دیکھ کر کہا ۔۔۔میں نے تیری بہت تعریف سنی ہے، آج آرام کر لو کل صبح سے تمہیں بتایا جائے گا کہ کیا کرنا ہے، اور اب تک کیا ہو چکا ہے۔
حسن بن صباح نے جھک کر سلام کیا اور باہر نکل آیا ، اہلسنت سلطان ملک شاہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کی سلطنت میں ابلیس اتر آیا ہے۔
<======۔==========>
جاری ہے بقیہ قسط۔6۔میں پڑھیں
<=====۔===========>
Share:

Namaj Me Sine Par Haath Bandhne Ke Motalluq 50 Ahadees, Sine Par Niyat Bandhne Ki Hadees

NamajMe Sine Par Haath Bandhne Ki 50 Hadees, Sine Par Niyat Bandhne Ki Hadees, Namaj Me Niyat bandhne ki hadees  

نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے سے متعلق(50) پچاس احادیث‌۔


نمازمیں سینے پرہاتھ باندھنااحادیث صحیحہ وصریحہ سے ثابت ہے اس کے باوجود بھی احناف حضرات لوگوں کواس سنت پرعمل کرنے سے روکتے ہیں بلکہ اس کامذاق بھی اڑاتے ہیں ،اس سلسلے میں درج ذیل نکات انتہائی غورطلب ہیں :

(١): نمازمیں سینے پرہاتھ باندھنے کافتوی احناف کے بقول امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی دے رکھاہے جیساکہ فقہ حنفی کی سب سے مستندکتاب''ہدایة''میں بھی اس بات کاذکرہے (دیکھئے ہدایہ:ج ١ص٤٧)،اورایک روایت کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ کابھی یہی فتوی ہے جیساکہ احناف کے بہت بڑے عالم علامہ محمدحیات سندی رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ ''فتح الغور'' میں ص٦٦پر لکھاہے،اوراحناف حضرات لوگوں کوسمجھاتے رہتے ہیںکہ چاروں اماموں کی تمام باتیں حق ہیں ،اگرمعاملہ ایساہی ہے توپھراحناف کواس مسئلہ کے خلاف اپنی زبان بند رکھنی چاہئے کیونکہ احناف ہی کے بقول یہ امام شافعی اورامام احمدرحمہمااللہ کابھی فتوی ہے اوریہ دونوں امام ان ائمہ اربعہ میںسے ہیں جن کی ساری باتیں احناف کے نزدیک حق ہواکرتی ہے ۔

(٢):نمازمیں زیرناف ہاتھ باندھنے کی احادیث کوائمہ حدیث میں سے کسی نے بھی صحیح نہیں کہاہے بلکہ ان احادیث کے ضعیف ہونے پرپوری امت کااجماع ہوچکاہے جیساکہ امام نووی رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے (شرح مسلم:ج١ص١١٥)،اورامت کااجماعی فیصلہ کبھی غلط نہیں ہوسکتا(مستدرک حاکم )۔
اس کے برخلاف سینے پرہاتھ باندھنے کی احادیث کوائمہ حدیث میں سے کئی ایک نے صحیح قراردیاہے مثلاًامام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے (صحیح ابن خزیمہ ج 1ص243)۔

(٣):نمازمیں زیرناف ہاتھ باندھنے کی بنسبت سینے پرہاتھ باندھنے کی احادیث نہ صرف یہ کہ صحیح ہیں بلکہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں جیساکہ اس رسالے کے مطالعہ سے معلوم ہوگا۔

(٤):احناف کاکہناہے کہ خواتین سینے پرہاتھ باندھیں (منیة المصلی :ص107)۔کوئی ان سے پوچھے کہ خواتین کے لئے اس خصوصی عمل کاثبوت کہاں ہے؟قیامت کی صبح تک کوئی حنفی اس کاثبوت نہیں دے سکتا،کیونکہ جن احادیث میں سینے پرہاتھ باندھنے کاذکرہے ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافعل منقول ہے ،اوریہ حدیثیں اگرخواتین کے لئے سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہیں تومردوں کے لئے بدرجہ اولی دلیل ہوں گی۔
نمازمیں سینے پرہاتھ باندھنے کی احادیث صحیحہ بہت زیادہ ہیں جبکہ زیرناف ہاتھ باندھنے کی ایک بھی صحیح حدیث موجود نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ احناف حضرات مجبور ہوکر باجماع امت ضعیف اورمردود قرار دی گئی روایات کوپیش کرتے ہیں حتی موضوع ومن گھڑت روایت تک کوبھی ہاتھوں ہاتھ لے لیتے ہیں ،اوراسی پربس نہیں بلکہ عوام کودھوکہ دینے کے لئے بعض اہل علم کے اقوال کوحدیث کے نام سے پیش کرتے ہیں اوران سب سے بھی کام نہیں چلتا توخود ہی حدیث گھڑکے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کردیتے ہیں ، چنانچہ ''جاء الحق''نامی کتاب کے مؤلف نے نمازمیں زیرناف ہاتھ باندھنے کی چودہ احادیث پیش کرنے کادعوی کیاہے ان میں :

نمبر(١)کے تحت جوحدیث ہے وہ حنفیوں کی گھڑی ہوئی ہے کیونکہ اس کے لئے مصنف ابن ابی شیبہ کاحوالہ دیاگیاہے جبکہ اس کتاب میں یہ حدیث موجود ہی نہیں ہے ۔
نمبر(٢)اورنمبر(١٣)کے تحت جواحادیث ہیں وہ بھی موضوع ومن گھڑت ہیں ،ان کی اسنادمیں ایسے رواة ہیں جن پرمن گھڑت احادیث بیان کرنے کاالزام ہے۔
نمبر(٣)سے نمبر(١٠)جوروایات مذکورہیں وہ درحقیقت ایک ہی حدیث ہے جو''عبدالرحمن بن اسحاق الواسطی الکوفی '' کی بیان کردہ ہے،اس راوی اور اس کی بیان کردہ اس حدیث کے ضعیف ہونے پرپوری امت کااتفاق ہے۔
نمبر(١١)،(١٢)،(١٤)کے تحت جن باتوں کواحادیث کہاگیاہے وہ درحقیقت احادیث نہیں بلکہ ابراہیم نخعی کاقول ہے جسے جھوٹ بول کرحدیث کے نام سے پیش کیاگیاہے۔

قارئین کرام یہ احناف کی کل کائنات ہے جسے ''جاء الحق'' کے مرتب نے پیش کیاہے اس کے اس مؤلف نے یہ باورکرانے کی کوشش کی ہے کہ سینے پرہاتھ باندھنے کی احادیث نہ توکتب ستہ میں ہیں اورنہ ہی اورکسی کتاب میں بلکہ یہ حدیث صرف بلوغ المرام میں ہے جوکہ تیس یاچالیس اوراق کارسالہ ہے ،حلانکہ یہ ساری باتیں جھوٹ اورمحض جھوٹ ہیںکیونکہ نمازمیں سینے پرہاتھ باندھنے کی احادیث کتب ستہ کی بعض کتابوں اوردیگربہت سی کتب احادیث میں موجودہیں ، جاء الحق کے مؤلف ہی کی طرح ''حدیث اوراہل حدیث '' کے مؤلف نے بھی زیرناف ہاتھ باندھنے کی بے بنیاد احادیث کی فہرست پیش کی ہے۔
ہم نے اس مضمون میں کوشش کی ہے کہ سینے پرہاتھ باندھنے کی احادیث جن جن کتابوں میں وارد ہوئی ہیں ان تمام کتابوں کے حوالے سے ان ساری احادیث کویکجا کردیاجائے ،چنانچہ ہمارے علم کی حد تک حدیث کی جس کتاب میں بھی سینے پرہاتھ باندھنے کی احادیث نظر آئیں ہم نے اس کتاب کانام لکھ کراس کی یہ احادیث مع اسناد نقل کردی ہیں ،واضح رہے کہ کتب احادیث کے بہت سے مصادر تک ہماری رسائی نہیں ہے ورنہ ان احادیث کی تعدادمزید ہوتی ،لہٰذا تمام اہل علم حضرات سے گذارش ہے کہ انہیں حدیث کی کسی کتاب میں بھی اس باب کی کوئی اورحدیث ملے توہمیں ضرور آگاہ فرمائیں ہم ان کے شکریہ کے ساتھ اس مضمون میں اس حدیث کو بھی شامل کرلیں گے۔
واضح رہے کہ ہم نے احادیث کی گنتی احناف ہی کے طرز واصول پر کی ہے ، دراصل زیرناف ہاتھ باندھنے والی ایک ہی روایت جو کئی کتب میں موجودہے اسے احناف الگ الگ روایت شمارکرتے ہیں جیسا کہ جاء الحق کے مؤلف نے کیا ہے اورایسا ہی طرزعمل ''حدیث اوراہل حدیث '' کے مؤلف نے بھی اختیار کیا ہے، دراصل اپنے امام کی طرح یہ حضرات بھی حدیث میں یتیم ہیں اوران کا پوراسرمایہ فاسد قیاسات اورمردوداقوال ہی ہیں اس لئے یہ حضرات ایک حدیث کے مختلف کتب آنے سے اسے الگ الگ شمارکرتے ہیں،اورعوام کویہ مغالطہ دیتے ہیںکہ ہمارے پاس ایک مسئلہ پرکئی احادیث ہیں ۔
بلکہ ان حضرات نے اسی فارمولے سے اپنے امام کوبھی حدیث داں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

چانچہ محمدسرفرازصاحب نے اپنے امام کوچالیس ہزاراحادیث کا جانکاربتلایاہے اس کے بعداس گنتی کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
نوٹ :محدثین کرام رحمہم اللہ کی یہ اصطلاح ہے کہ سند کے بدلنے سے اوراسی طرح سندکے کسی راوی کے بدلنے سے حدیث کی گنتی اورتعدادبدل جاتی ہے۔
(مقام ابی حنیفہ: ص١١٥ تالیف محمد سرفراز خان)

جناب حبیب الرحمن اعظمی لکھتے ہیں :
ضروری تنبیہ:اس موقعہ پر یہ علمی نکتہ پیش نظررہے کہ یہ چالیس ہزارمتون حدیث کا ذکرنہیں بلکہ اسانیدکا ذکرہے پھر اس تعداد میں صحابہ واکابرین کے آثارواقوال بھی داخل ہیں کیونکہ سلف کی اصطلاح میں ان سب کے حدیث واثرکا لفظ استعمال ہوتاتھا۔
(علم حدیث میں امام ابوحنیفہ کا مقام ومرتبہ: ص٨ تالیف حبیب الرحمن اعظمی)

اب اسی اصطلاح کے مطابق ہم بھی نمازمیں سینے پرہاتھ باندھنے کی احادیث کا شمار کرتے ہوئے کل پچاس احادیث پیش کرتے ہیں ، قارئین ملاحظہ فرمائیں:

حديث نمبر (1):
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك ، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال: «كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة» قال أبو حازم لا أعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم قال إسماعيل: ينمى ذلك ولم يقل ينمي

ہم سے عبد اللہ بن مسلمة نے بیان کیاانہوں نے، مالک سے روایت کیاانہوں نے ،ابوحازم سے روایت کیاانہوں نے،سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کیاکہ :''لوگوں کوحکم دیاجاتاتھاکہ نمازمیں ہرشخص دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ذراع(کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ)پررکھے۔

حوالہ جات:
بخاری:ـکتاب الأذان:باب وضع الیمنی علی ذراعہ الیسری فی الصلوٰة،حدیث نمبر740۔
بخاری(ترجمہ وحید الزماں):ـج 1ص 371پارہ نمبر3باب نمبر477حدیث نمبر703۔
بخاری(ترجمہ داؤدراز،مکتبہ قدوسیہ،ومرکزی جمعیت اہل حدیث):ـج 1ص679حدیث نمبر740۔

وضاحت:ـ
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازمیںدائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ''ذراع''پررکھنے کاحکم دیاہے اور''ذراع'' کہتے ہیں''کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ کو''۔
چنانچہ غریب الحدیث للحربی :(277/1)میں ہے :
''الذراع'' من طرف المرفق الی طرف الاصبع الوسطی،یعنی ''ذراع'' کہتے ہیں ''کہنی کے سرے سے لیکر درمیانی انگلی کے سرے تک کے حصہ کو''

نیز کتب لغت میں بھی ''ذراع '' کایہی معنی درج ہے مثلادیکھئے :لسان العرب :93/8،تاج العروس :5217/1کتاب العین :96/2،المعجم الوسیط:311/1تہذیب اللغہ :189/2،کتاب الکلیات :730/1وغیرہ۔

اوردارالعلوم دیوبند کے سابق استاذ ادب مولاناوحید الزماں قاسمی کیرانوی رحمہ اللہ'' ذراع ''کایہ معنی لکھتے ہیں :
''کہنی سے بیچ کی انگلی تک''دیکھئے موصوف کی تالیف کردہ لغت کی کتاب ''القاموس الجدید،عربی اردو'' ما دہ ''ذرع ''ص308 کتب خانہ حسینیہ دیوبند ،یوپی۔

لغت کی مذکورہ کتابوں سے معلوم ہواکہ عربی زبان میں ''ذراع'' کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ کوکہتے ہیں اوربخاری کی مذکورہ حدیث میں بائیں ہاتھ کے''ذراع''یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصہ پردائیں ہاتھ کورکھنے کاحکم ہے ،اب اگر اس حدیث پرعمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کوبائیںہاتھ کے ''ذراع'' (یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے،لہٰذا بخاری کی یہ حدیث سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ۔

محدث کبیرعلامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ومما يصح أن يورد في هذا الباب حديث سهل بن سعد، وحديث وائل - المتقدِّمان -،ولفظه:وضع يده اليمنى على ظهر كفه اليسرى والرسغ والساعد. ولفظ حديث سهل:كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعه اليسرى في الصلاة.فإن قلت: ليس في الحديثين بيان موضع الوضع!قلت: ذلك موجود في المعنى؛ فإنك إذا أخذت تُطَبِّق ما جاء فيهما من المعنى؛فإنك ستجد نفسك مدفوعاً إلى أن تضعهما على صدرك، أو قريباً منه، وذلك ينشأ من وضع اليد اليمنى على الكف والرسغ والذراع اليسرى، فجرِّب ما قلتُه لك تجدْه صواباً.فثبت بهذه الأحاديث أن السنة وضع اليدين على الصدر،
سینے پرہاتھ باندھنے کے سلسلے میں سھل بن سعد اوروائل بن حجررضی اللہ عنہماکی مذکورہ دونوں حدیثوں کوپیش کرنابھی صحیح ہے ،وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں ''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیںہاتھ کوبائیں ہاتھ کی ہتھیلی ،کلائی اوربازوکے اوپررکھا''اورسھل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث کے الفاظ یہ ہیں ''لوگوں کوحکم دیاجاتاتھا کہ نمازمیں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے ذراع(یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں ''۔اگر کوئی کہے کہ ان دونوں حدیثوں میں ہاتھ رکھنے کی جگہ کابیان نہیں ہے توعرض ہے کہ معنوی طوراس کاذکرموجود ہے کیونکہ جب آپ اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کی ہتھیلی ،کلائی اوربازوپر رکھیںگے توآپ کے دونوں ہاتھ لازمی طور پرسینے پر یااس کے قریب آئیںگے ،ذراآپ ہماری بات کا تجربہ کرکے دیکھئے آپ کوسچائی معلوم ہوجائے گی ،پس ان احادیث سے ثابت ہواکہ نمازمیںدونوں ہاتھ کاسینے پررکھناہی سنت ہے''
(أصل صفة صلاة النبی صلی اللہ علیہ وسلم للألبانی:ج1ص218).

تنبیہ :۔
بعض حضرات اعتراض کرتے ہیں کہ ''ذراع '' پررکھنے سے یہ کہاں لازم آتاہے کہ پورے ''ذراع'' پررکھا جائے ، اگرذراع کے ایک حصہ یعنی'' کف'' ہتھیلی پر رکھ لیاجائے تب بھی توذراع پر رکھنے کا عمل ہوجاتاہے۔
عرض ہے کہ بخاری کی یہ حدیث ملاحظہ ہو:
عن ميمونة قالت: «وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم وضوءا لجنابة، فأكفأ بيمينه على شماله مرتين أو ثلاثا، ثم غسل فرجه، ثم ضرب يده بالأرض أو الحائط، مرتين أو ثلاثا، ثم مضمض واستنشق، وغسل وجهه وذراعيه، ثم أفاض على رأسه الماء، ثم غسل جسده، ثم تنحى فغسل رجليه» قالت: «فأتيته بخرقة فلم يردها، فجعل ينفض بيده» (صحیح البخاری :1 63 رقم 274)
میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت کے لئے پانی رکھا گیا آپ نے اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر دو مرتبہ یا تین مرتبہ پانی ڈالا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا، پھر اپنا ہاتھ زمین میں یا دیورا میں دو مرتبہ مارا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈلا اور اپنے دونوں ہاتھ اور کہنیاں دھوئیں، پھر اپنے (باقی) بدن کو دھویا، پھر (وہاں سے) ہٹ گئے اور اپنے دونوں پیر دھوئے، میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں پھر میں آپ کے پاس ایک کپڑا لے گئی آپ نے اسے نہیں لیا اور اپنے ہاتھ سے پانی نچوڑتے رہے۔

اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضوء کا طریقہ بیان ہے اور بازودھلنے کے لئے یہ الفاظ ہیں :'' وغسل وجہہ وذراعیہ'' یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے اوراپنے دونوں بازؤں کا دھلا ۔
اب کیا یہاں بھی ''ذراع '' سے بعض حصہ مراد ہے؟ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکمل ذراع کو نہیں دھلا بلکہ صرف بعض کو دھلا؟ فماکان جوابکم فہوجوابنا۔

حديث نمبر (2):   
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ يَعْنِي ابْنَ حُمَيْدٍ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى، ثُمَّ يَشُدُّ بَيْنَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ»
ہم سے ابوتوبہ نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے ہیثم یعنی ابن حمید نے بیان کیاانہوں نے ، ثور سے روایت کیاانہوں نے ، سلیمان بن موسی سے روایت کیاانہوں نے طاؤوس کے حوالہ سے نقل کیا ، انہوں نے کہا کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران میں اپنا دایاں ہا تھ بائیں کے اوپر رکھتے اورانہیں اپنے سینے پر باندھا کرتے تھے۔

حوالہ :
سنن ابوداؤد:ـکتاب الصلوٰة:باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلوٰة،حدیث نمبر759۔
سنن ابوداؤد(ترجمہ مجلس علمی دار الدعوة):ـ ج1ص363 حدیث نمبر759۔
سنن ابوداؤد(مع تحقیق زبیرعلی زئی):ـ ج1ص570 حدیث نمبر759۔
ابوداؤد مع عون المعبود:ـسیٹ نمبر1جلدنمبر2ص327حدیث نمبر775۔

حديث نمبر (3):
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ فِيهِ: ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ، وَقَالَ فِيهِ: ثُمَّ جِئْتُ بَعْدَ ذَلِكَ فِي زَمَانٍ فِيهِ بَرْدٌ شَدِيدٌ فَرَأَيْتُ النَّاسَ عَلَيْهِمْ جُلُّ الثِّيَابِ تَحَرَّكُ أَيْدِيهِمْ تَحْتَ الثِّيَابِ
ہم سے حسن بن علی نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے ابوالولید نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے زائدہ نے بیان کیاانہوں نے ، عاصم بن کلیب سے اسی سند اوراسی مفہوم کی حدیث روایت کی اس میں ہے کہ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ بائیں ہتھیلی کی پشت ،کلائی اوربازوکے اوپررکھا...،

حوالہ :
سنن ابوداؤد:ـکتاب الصلوٰة:باب رفع الیدین فی الصلوٰة،حدیث نمبر727۔
سنن ابوداؤد(ترجمہ وحید الزماں):ـج 1ص 290پارہ نمبر5باب نمبر266حدیث نمبر722۔
سنن ابوداؤد(ترجمہ مجلس علمی دار الدعوة):ـج1ص348حدیث نمبر727۔
سنن ابوداؤد(مع تحقیق زبیرعلی زئی):ـج1ص549 حدیث نمبر727۔
٭ابوداؤد مع عون المعبود:ـسیٹ نمبر1جلدنمبر2ص294حدیث نمبر723۔

وضاحت:ـ
اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کی ہتھیلی ، کلائی اور بازوکے اوپر رکھتے تھے،اس حدیث کے مطابق اگردائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے اس پورے حصے پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرہی آئیں گے لہذایہ حدیث بھی نمازمیں سینہ پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
''وهذه الکيفية تستلزم أن يکون الوضع علي الصدر؛ اذا أنت تأملت ذلک وعملت بها، فجرب ان شئت''
اس حدیث میں مذکورکیفیت کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہاتھ سینے پر رکھیں جائیں ،اگرآپ اس کیفیت پرغور کریں اور اس پرعمل کریں ،پس اگر چاہیں توتجربہ کرکے دیکھ لیں (ھدایة الرواة:ج1ص367)۔

اورایک مقلد پررد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
''فلوأنه حاول يوماما أن يحقق هذاالنص الصحيح في نفسه عمليا -وذلک بوضع اليمني علي الکف اليسري والرسغ والساعد، دون أي تکلف- وجد نفسه قد وضعهماعلي الصدر! ولعرف أنه يخالفه هو ومن علي شاکلته من الحنفية حين يضيعون أيديهم تحت السرة،وقريبامن العورة،
اگر یہ شخص کسی دن خود اس صحیح حدیث پرعمل کرکے دیکھے ،بایں طورکہ دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کہ ہتھیلی ،کلائی اوربازوپربغیر کسی تکلف کے رکھے ،تووہ خود ہی ہاتھوں کواپنے سینے پررکھے ہوئے پائے گا،اور اسے معلوم ہوجائے گاکہ وہ اور اس جیسے احناف جب اپنے ہاتھوں کو ناف کے نیچے اورشرمگاہ کے قریب رکھتے ہیں تو اس حدیث کی مخالفت کرتے ہیں '' (مقدمہ صفة صلاة النبی :ص16)۔

حديث نمبر (4):   
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ يَعْنِي ابْنَ أَعْيَنَ، عَنْ أَبِي بَدْرٍ، عَنْ أَبِي طَالُوتَ عَبْدِ السَّلَامِ، عَنِ ابْنِ جَرِيرٍ الضَّبِّيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: «رَأَيْتُ عَلِيًّا، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُمْسِكُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ عَلَى الرُّسْغِ فَوْقَ السُّرَّةِ»

حوالہ :
سنن ابوداؤد:ـکتاب الصلوٰة:باب وضع الیمنی علی الیسری فی الصلوٰة،حدیث نمبر757۔

المجتبى من السنن = السنن الصغرى للنسائي​

حديث نمبر (5):
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ زَائِدَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ أَخْبَرَهُ قَالَ: " قُلْتُ لَأَنْظُرَنَّ إِلَى صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ فَقَامَ فَكَبَّرَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا بِأُذُنَيْهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ،
ہمیں سویدبن نصر نے خبر دی انہوں نے کہا: ہم سے عبداللہ بن المبارک نے بیان کیاانہوں نے ، زائدہ سے روایت کیاانہوں نے کہا: ہم سے عاصم بن کلیب نے بیان کیا انہوں نے کہا: مجھ سے میرے والد نے بیان کیا: کہ انہیں وائل بن حجر نے بتایااورکہاکہ : پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناداہناہاتھ بائیں ہتھیلی کی پشت ،کلائی اوربازوکے اوپررکھا.

حوالہ :
سنن نسائی:ـکتاب الافتتاح:باب موضع الیمین من الشمال فی الصلوٰة،حدیث نمبر889۔
سنن نسائی(ترجمہ وحید الزماں):ـج 1ص 310پارہ نمبر باب نمبر حدیث نمبر892۔

وضاحت:ـ
اس حدیث میں بھی دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کی ہتھیلی ، کلائی اور بازوکے اوپر رکھنے کی بات ہے ،لہٰذااس حدیث کے مطابق اگردائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے اس پورے حصے (ہتھیلی ، کلائی اور بازو)پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے ،لہذایہ حدیث بھی نمازمیں سینہ پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے،مزیدتفصیل کے لئے دیکھئے حدیث نمبر 2کے تحت وضاحت۔

حديث نمبر (6):
مَالِكٌ، عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ؛ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلاَةِ
امام مالک نے ابوحازم بن دینارسے روایت کیاانہوں نے،سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کیاکہ :''لوگوں کوحکم دیاجاتاتھاکہ نمازمیں ہرشخص دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ذراع(کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ)پررکھے۔

حوالہ :   
مؤطاامام مالک:ـکتاب النداء للصلوٰة:باب وضع الیدین علی الأخری فی الصلوٰة،حدیث نمبر376۔

وضاحت:ـ
اس حدیث میں بھی دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے''ذراع''(یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصہ) پر رکھنے کاحکم ہے ،اب اگر اس حدیث پرعمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کوبائیںہاتھ کے ''ذراع'' (یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے،لہٰذا یہ حدیث بھی نمازمیں سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ، مزید تفصیل کے لئے دیکھئے حدیث نمبر 1کے تحت وضاحت۔

موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني​

حديث نمبر (7):
أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: «كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ، أَنْ يَضَعَ أَحَدُهُمْ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلاةِ» ،
ہم سے مالک نے بیان کیا انہوں نے کہا ہم سے ابوحازم نے بیان کیاانہوں نے، سھل بن سعدساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت کیاکہ :''لوگوں کوحکم دیاجاتاتھاکہ نمازمیں ہرشخص دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ذراع(کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ)پررکھے۔

حوالہ :
مؤطاامام محمد:ـأبواب الصلوٰة:باب وضع الیمین علی الیسارفی الصلوٰة،حدیث نمبر290۔

وضاحت:ـ
اس حدیث میں بھی دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے''ذراع''(یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصہ) پر رکھنے کاحکم ہے ،اب اگر اس حدیث پرعمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کوبائیںہاتھ کے ''ذراع'' (یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے،لہٰذا یہ حدیث بھی نمازمیں سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے، مزید تفصیل کے لئے دیکھئے حدیث نمبر 1کے تحت وضاحت۔

مسند الإمام أحمد بن حنبل​

حديث نمبر (8):
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي سِمَاكٌ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ، وَرَأَيْتُهُ، قَالَ، يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ " وَصَفَّ يَحْيَى: الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَوْقَ الْمِفْصَلِ
ہم سے یحیی بن سعید نے بیان کیاانہوں نے ، سفیان سے روایت کیاانہوں نے کہا: ہم سے سماک نے بیان کیاانہوں نے ، سماک سے روایت کیاانہوں نے ، قبیصة بن ھلب سے روایت کیاانہوں نے ، اپنے والدھلب رضی اللہ عنہ سے روایت کیاکہ انہوں نے کہا:''میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں اوربائیں ہردواطراف سے پھرتے تھے اورمیں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ہاتھ کواس ہاتھ پررکھ کراپنے سینے پر رکھتے تھے،یحیی بن سعید نے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پررکھ کرسینے پررکھ کربتایا''

حوالہ جات:
مسند أحمد:ـمسند الأنصار:حدیث ھلب الطائی ،حدیث نمبر22017۔
مسند أحمد(مؤسسة قرطبة):ـ ج 5ص 226 ،حدیث نمبر22017۔
مسند أحمد(مؤسسة الرسالة):ـ ج 36ص 299،حدیث نمبر21967۔
مسند أحمد(أحمدشاکر):ـ ج 36ص 299،حدیث نمبر21967۔
مسند أحمد:ـترقیم العالمیة20961،ترقیم احیاء التراث21460۔

حديث نمبر (9):
حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيَّ، أخْبَرَهُ قَالَ: قُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَيْفَ يُصَلِّي؟ قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ قَامَ فَكَبَّرَ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا أُذُنَيْهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى، وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ،...،
ہم سے عبد الصمدنے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے زائدہ نے بیان کیاانہو ں نے کہا: ہم سے عاصم بن کلیب نے بیان کیاانہو ں نے کہا: مجھ سے میرے والد نے بیان کیا: کہ انہیں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے بتایااورکہاکہ : ''میں نے سوچاذرا دیکھوںکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نمازپڑھتے ہیں ،(وائل بن حجررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) میں نے دیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اوراللہ أکبر کہااوراپنے دونو ںہاتھوں کواٹھایایہاں تک کہ کانوں کی لوتک پہنچایا پھرداہنے ہاتھ کو بائیں ہتھیلی ،کلائی اوربازو پررکھا...،

حوالہ جات:
مسند أحمد:ـمسند الأنصار:حدیث ھلب الطائی ،حدیث نمبر22017۔
مسند أحمد(مؤسسة قرطبة):ـ ج 5ص 226 ،حدیث نمبر22017۔
مسند أحمد(مؤسسة الرسالة):ـ ج 36ص 299،حدیث نمبر21967۔
مسند أحمد(أحمدشاکر):ـ ج 36ص 299،حدیث نمبر21967۔
مسند أحمد:ـترقیم العالمیة20961،ترقیم احیاء التراث21460۔

وضاحت:ـ
اس حدیث میں بھی دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کی ہتھیلی ، کلائی اور بازوکے اوپر رکھنے کی بات ہے ،لہٰذااس حدیث کے مطابق اگردائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے اس پورے حصے (ہتھیلی ، کلائی اور بازو)پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے ،لہذایہ حدیث بھی نمازمیں سینہ پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے،مزیدتفصیل کے لئے دیکھئے حدیث نمبر 2کے تحت وضاحت۔

صحيح ابن حبان​

حديث نمبر (10):
أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ الْحُبَابِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيَّ أَخْبَرَهُ، قَالَ: قُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ حِينَ قَامَ، فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا أُذُنَيْهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى، وَالرُّسْغِ، وَالسَّاعِدِ،...،
ہم سے الفضل بن الحباب نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے ابوالولید الطیالسی نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے زائدہ بن قدامةنے بیان کیاانہو ں نے کہا: ہم سے عاصم بن کلیب نے بیان کیاانہو ں نے کہا: مجھ سے میرے والد نے بیان کیا: کہ انہیں وائل بن حجرحضرمی رضی اللہ عنہ نے بتایااورکہاکہ : ''میں نے سوچاذرا دیکھوںکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نمازپڑھتے ہیں ،(وائل بن حجرصکہتے ہیں کہ)جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تومیں نے دیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ أکبر کہااوراپنے دونو ںہاتھوں کواٹھایایہاں تک کہ کانوں کی لوتک پہنچایا پھرداہنے ہاتھ کو بائیں ہتھیلی ،کلائی اوربازو پررکھا...،

حوالہ:
صحيح ابن حبان - 5/ 170 رقم1860۔

وضاحت:ـ
اس حدیث میں بھی دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کی ہتھیلی ، کلائی اور بازوکے اوپر رکھنے کی بات ہے ،لہٰذااس حدیث کے مطابق اگردائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے اس پورے حصے (ہتھیلی ، کلائی اور بازو)پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے ،لہذایہ حدیث بھی نمازمیں سینہ پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے،مزیدتفصیل کے لئے دیکھئے حدیث نمبر 2کے تحت وضاحت۔

صحيح ابن خزيمة​

حديث نمبر (11):
نا أَبُو مُوسَى، نا مُؤَمَّلٌ، نا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى صَدْرِهِ»
ہم سے أبوموسی نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے مؤمل بن اسماعیل نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے سفیان نے بیان کیاانہوں نے : عاصم بن کلیب سے روایت کیاانہوں نے ، اپنے والد سے روایت کیاانہوں نے، وائل بن حجر سے روایت کیاکہ انہوں نے کہا:''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازپڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھ کرانہیں اپنے سینے پررکھ لیا''۔

حوالہ:
صحیح ابن خزیمة (ج 1ص243):ـکتاب الصلوة:باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلوةقبل افتتاح الصلوٰة،حدیث نمبر479۔

حديث نمبر (12):
نا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، نا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، نا زَائِدَةُ، نا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ الْجَرْمِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ أَخْبَرَهُ قَالَ: قُلْتُ: " لَأَنْظُرَنَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ، قَامَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا أُذُنَيْهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهَرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغَ وَالسَّاعِدَ "...،
ہم سے محمد بن یحییٰ نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے معاویة بن عمرو نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے زائدہ بن قدامةنے بیان کیاانہو ں نے کہا: ہم سے عاصم بن کلیب نے بیان کیاانہو ں نے کہا: مجھ سے میرے والد نے بیان کیا: کہ انہیں وائل بن حجر صنے بتایااورکہاکہ : ''میں نے سوچا دیکھوںکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نمازپڑھتے ہیں ، وائل بن حجرصکہتے ہیں کہ میں نے دیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اوراللہ أکبر کہااوراپنے دونو ںہاتھوں کواٹھایایہاں تک کہ کانوں کی لوتک پہنچایا پھرداہنے ہاتھ کو بائیں ہتھیلی ،کلائی اوربازو پررکھا...،

حوالہ:
صحیح ابن خزیمة (ج 1ص243):ـکتاب الصلوة:باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلوةقبل افتتاح الصلوٰة،حدیث نمبر480۔

وضاحت:ـ
اس حدیث میں بھی دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کی ہتھیلی ، کلائی اور بازوکے اوپر رکھنے کی بات ہے ،لہٰذااس حدیث کے مطابق اگردائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے اس پورے حصے (ہتھیلی ، کلائی اور بازو)پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے ،لہذایہ حدیث بھی نمازمیں سینہ پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے،مزیدتفصیل کے لئے دیکھئے حدیث نمبر 2کے تحت وضاحت۔

سنن البيهقي الكبرى​

حديث نمبر (13):
أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصُّوفِيُّ، أنبأ أَبُو أَحْمَدَ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ، ثنا ابْنُ صَاعِدٍ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: حَضَرْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَوْ حِينَ نَهَضَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَدَخَلَ الْمِحْرَابَ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ بِالتَّكْبِيرِ، ثُمَّ وَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى يُسْرَاهُ عَلَى صَدْرِهِ "
ہم سے أبوسعید أحمد بن محمد الصوفی نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے أبوبکر نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے أبوأحمد بن عدی الحافظ نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے بن صاعد نے بیان کیاانہوں نے کہا : ہم سے ابراہیم بن سعید بن عبدالجباربن وائل نے بیان کیاانہوں نے ، اپنے والد سے روایت کیاانہوں نے، اپنی والد ہ سے روایت کیا انہوں نے وائل بن حجر سے روایت کیاکہ انہوں نے کہا:''میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہو اجب آپ مسجد کارخ فاچکے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسندامامت پر پہنچ تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کواپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنے سینے پررکھ لیا''۔

حوالہ جات:
سنن البیہقی الکبریٰ(تحقیق محمد عبدالقادر عطا):ـج 2ص30،کتاب الحیض::باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلوةقبل افتتاح الصلوٰة،حدیث نمبر2166۔
سنن البیہقی الکبریٰ(أبوعبداللہ عبدالسلام بن محمد):ـج 2ص44،کتاب الحیض::باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلوةقبل افتتاح الصلوٰة،حدیث نمبر2383۔

حديث نمبر (14):   
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ الْحَارِثِ، ثنا أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، ثنا مُؤَمَّلُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلٍ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ، ثُمَّ وَضَعَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ
ہم سے أبوبکر بن حارث نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے أبومحمد بن حیان نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے محمد بن عباس نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے مؤمل بن اسماعیل نے بیان کیاانہوں نے : ثوری سے روایت کیاانہوں نے : عاصم بن کلیب سے روایت کیاانہوں نے ، اپنے والد سے روایت کیاانہوں نے، وائل بن حجر سے روایت کیاکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نمازمیں)اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھا پھران دونوں کو اپنے سینے پررکھ لیا''۔

حوالہ جات:
سنن البیہقی الکبریٰ(تحقیق محمد عبدالقادر عطا):ـج 2ص30،کتاب الحیض::باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلوةقبل افتتاح الصلوٰة،حدیث نمبر2166۔
سنن البیہقی الکبریٰ(أبوعبداللہ عبدالسلام بن محمد):ـج 2ص44،کتاب الحیض::باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلوةقبل افتتاح الصلوٰة،حدیث نمبر2384۔

حديث نمبر (15):
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ، أنبأ أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ الْفَقِيهُ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِسْحَاقَ، وَإِسْحَاقُ بْنُ الْحَسَنِ قَالَا: ثنا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّهُ قَالَ: " كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ "
ہم سے محمد بن عبداللہ الحافظ نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے أبوبکرأحمدبن سلیمان الفقیہ نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے اسماعیل بن اسحاق واسحاق بن الحسن نے بیان کیاان دونوں نے کہا: ہم سے القعنبی نے بیان کیاانہوں نے ، مالک سے روایت کیاانہوں نے ، ابوحازم سے روایت کیاانہوں نے، سھل بن سعدص سے روایت کیاکہ : ''لوگوں کوحکم دیاجاتاتھاکہ نمازمیں ہرشخص دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ذراع(کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ)پررکھے۔

حوالہ:
سنن البیہقی الکبریٰ(تحقیق محمد عبدالقادر عطا):ـ ج 2ص28،کتاب الحیض:باب وضع الید الیمنی علی الیسری فی الصلوٰة،حدیث نمبر2158۔

وضاحت:ـ
اس حدیث میں بھی دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے''ذراع''(یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصہ) پر رکھنے کاحکم ہے ،اب اگر اس حدیث پرعمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کوبائیںہاتھ کے ''ذراع'' (یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے،لہٰذا یہ حدیث بھی نمازمیں سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے، مزید تفصیل کے لئے دیکھئے حدیث نمبر 1کے تحت وضاحت۔

حديث نمبر (16):
أَخْبَرَنَا أَبُو زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، أنبأ الْحَسَنُ بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ الْبُخَارِيِّ، أنبأ يَحْيَى بْنُ أَبِي طَالِبٍ، أنبأ زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، ثنا رَوْحُ بْنُ الْمُسَيَّبِ قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ النُّكْرِيُّ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الكوثر: 2] قَالَ: " وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ عِنْدَ النَّحْرِ "
ہم سے أبوزکریا بن أبی اسحاق نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے الحسن بن یعقوب بن البخاری نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے یحیی بن أبی طالب نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے زید بن الحباب نے بیان کیاانہوں نے ،کہا ہم سے روح بن المسیب نے بیان کیاانہوں نے کہا: مجھ سے عمرو بن مالک النکری نے بیان کیاانہوں نے ، أبی الجوزاء سے روایت کیاانہوں نے، ابن عباس ص سے روایت کیاکہ آپ نے اللہ عزوجل کے قول (فصل لربک ونحر)(الکوثر:2/108) کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے نمازمیں دائیںہاتھ کوبائیںہاتھ پر رکھ کرسینے پررکھنامراد ہے ،

حوالہ جات:
سنن البیہقی الکبریٰ(تحقیق محمد عبدالقادر عطا):ـ ج 2ص31،کتاب الحیض:باب وضع الید ین علی الصدر فی الصلوٰةمن السنة،حدیث نمبر2168۔
سنن البیہقی الکبریٰ(أبوعبداللہ عبدالسلام بن محمد):ـ ج 2ص44،کتاب الحیض::باب وضع الید ین علی الصدر فی الصلوٰةمن السنة،حدیث نمبر2387۔

حديث نمبر (17):
أَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَارِثِ الْفَقِيهُ، أنبأ أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ حَيَّانَ أَبُو الشَّيْخِ، ثنا أَبُو الْحَرِيشِ الْكِلَابِيُّ، ثنا شَيْبَانُ، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، ثنا عَاصِمٌ الْجَحْدَرِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ صُهْبَانَ كَذَا قَالَ: إِنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الكوثر: 2] قَالَ: " وَضْعُ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى وَسَطِ يَدِهِ الْيُسْرَى، ثُمَّ وَضَعَهَا عَلَى صَدْرِهِ "
ہم سے أبوبکر بن حارث الفقیہ نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے أبومحمد بن حیان أبوالشیخ نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے ابوالحریش الکلابی نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے شیبان نے بیان کیاانہوں نے کہا : ہم سے حماد بن سلمةنے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے عاصم الجحدری نے بیان کیاانہوں نے ، انہوں نے اپنے والد سے روایت کیاانہوں نے، عقبة بن صبھان سے روایت کیاانہوں نے کہا: کہ علی نے اللہ عزوجل کے قول (فصل لربک ونحر)(الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں)اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھنا پھران دونوں کو اپنے سینے پررکھنامرادہے ''۔

حوالہ جات:
سنن البیہقی الکبریٰ(تحقیق محمد عبدالقادر عطا):ـ ج 2ص30،کتاب الحیض:باب وضع الید ین علی الصدر فی الصلوٰةمن السنة،حدیث نمبر2167۔
سنن البیہقی الکبریٰ(أبوعبداللہ عبدالسلام بن محمد):ـ ج 2ص44،کتاب الحیض::باب وضع الید ین علی الصدر فی الصلوٰةمن السنة،حدیث نمبر2385۔
سنن البیہقی الکبریٰ(طبع حیدرآباد):ـج 2ص30،کتاب الحیض:باب وضع الید ین علی الصدر فی الصلوٰةمن السنة،حدیث نمبر2431۔

حديث نمبر (18):
وَقَالَ: وَثنا أَبُو الْحَرِيشِ، ثنا شَيْبَانُ، ثنا حَمَّادٌ، ثنا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ أَنَسٍ مِثْلَهُ أَوْ قَالَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اور اسی سند سے مذکور ہے کہ، ہم سے ابوالحریش الکلابی نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے شیبان نے بیان کیاانہوں نے کہا : ہم سے حماد نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے عاصم الأحول نے بیان کیاانہوں نے ، ایک شخص سے روایت کیاانہوں نے، أنسصسے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی تفسیرروایت کی (یعنی (فصل لربک وانحر)(الکوثر:2/108) سے (نمازمیں) دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھنا پھران دونوں کو اپنے سینے پررکھنامرادہے )۔   

حوالہ جات:
سنن البیہقی الکبریٰ(تحقیق محمد عبدالقادر عطا):ـج 2ص30،کتاب الحیض:باب وضع الید ین علی الصدر فی الصلوٰةمن السنة،حدیث نمبر2167۔
سنن البیہقی الکبریٰ(أبوعبداللہ عبدالسلام بن محمد):ـج 2ص44،کتاب الحیض::باب وضع الید ین علی الصدر فی الصلوٰةمن السنة،حدیث نمبر2386۔
سنن البیہقی الکبریٰ(طبع حیدرآباد):ـج 2ص30،کتاب الحیض:باب وضع الید ین علی الصدر فی الصلوٰةمن السنة،حدیث نمبر2431۔

حديث نمبر (19):
أَخْبَرَنَاهُ أَبُو بَكْرٍ الْفَارِسِيُّ أنبأ أَبُو إِسْحَاقَ الْأَصْبَهَانِيُّ أنبأ أَبُو أَحْمَدَ بْنُ فَارِسٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيُّ رَحِمَهُ اللهُ قَالَ: أنبأ مُوسَى، ثنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ سَمِعَ عَاصِمًا الْجَحْدَرِيَّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ ظَبْيَانَ، عَنْ عَلِيٍّ {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الكوثر: 2] وَضْعُ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى وَسَطِ سَاعِدِهِ عَلَى صَدْرِهِ "
ہم سے أبوبکر الفارسی نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے أبوالاسحاق الأصبھانی نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے أبومحمد بن فارس نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے محمدبن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ نے بیان کیاانہوں نے کہا : ہم سے موسی نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے حماد بن سلمةنے بیان کیاانہوں نے ، عاصم الجحدری سے سنا انہوں نے، اپنے والد سے روایت کیاانہوں نے، عقبة بن ظبھان سے روایت کیاانہوں نے کہا: کہ علی صنے (فصل لربک ونحر)(الکوثر:2/108)کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں)اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنے سینے پررکھنامرادہے ''۔

حوالہ جات:
سنن البیہقی الکبریٰ(تحقیق محمد عبدالقادر عطا):ـج 2ص29،کتاب الحیض:باب وضع الید ین علی الصدر فی الصلوٰةمن السنة،حدیث نمبر2163۔
سنن البیہقی الکبریٰ(طبع حیدرآباد):ـج 2ص29،کتاب الحیض:باب وضع الید ین علی الصدر فی الصلوٰةمن السنة،حدیث نمبر2425۔

المُعْجَمُ الكَبِير للطبراني​

حديث نمبر (20):
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُوسَى، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حُجْرِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنِي عَمِّي سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْجَبَّارِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ يَحْيَى، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: (الحديث إلي أن قال) ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ بِالتَّكْبِيرِ إِلَى أَنْ حَازَتَا شَحْمَةَ أُذُنَيْهِ ثُمَّ وَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى يَسَارِهِ عَلَى صَدْرِهِ۔۔۔۔۔۔
ہم سے بشر بن موسی نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے محمد بن حضربن عبدالجباربن وائل الحضرمی نے بیان کیاانہوں نے کہا: مجھ سے میرے چچا سعید بن عبدالجبارنے بیان کیاانہوں نے ، اپنے والد سے روایت کیاانہوں نے، اپنی والد ہ أم یحیی سے روایت کیا انہوں نے وائل بن حجر سے روایت کیاکہ انہوں نے کہا:''میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہو ا...(پھرایک لمبی حدیث بیان کی جس میں یہ بھی ہے کہ ) پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا یہاں تک کہ کانوں کی لوتک پہنچایا پھرداہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنے سینے پررکھ لیا...(آگے لمبی حدیث ہے)''۔

حوالہ:
المعجم الکبیر للطبرانی :ـ ج 22ص49،حدیث نمبر17969۔

حديث نمبر (21):   
حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْمُثَنَّى، ثنا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: «كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعَهِ الْيُسْرَى»
ہم سے معاذ بن المثنی نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے القعنبی نے بیان کیاانہوں نے ، مالک سے روایت کیاانہوں نے ، ابوحازم سے روایت کیاانہوں نے، سھل بن سعدص سے روایت کیاکہ :''لوگوں کوحکم دیاجاتاتھاکہ( نمازمیں) ہرشخص دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ذراع(کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ)پررکھے۔

حوالہ:
المعجم الکبیر للطبرانی :ـج 6ص140،حدیث نمبر5782۔

وضاحت:ـ
اس حدیث میں بھی دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے''ذراع''(یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصہ) پر رکھنے کاحکم ہے ،اب اگر اس حدیث پرعمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کوبائیںہاتھ کے ''ذراع'' (یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے،لہٰذا یہ حدیث بھی نمازمیں سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ،مزیدتفصیل کے لئے دیکھئے حدیث نمبر 1کے تحت وضاحت۔

حديث نمبر (22):
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ الصَّلْتِ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ، فَكَبَّرَ، ثُمَّ وَضَعَ سَاعِدَهُ الْيُمْنَى عَلَى سَاعِدِهِ الْيُسْرَى»
ہم سے محمد بن عثمان بن أبی شیبہ نے بیان کیاانہوں نے کہا: مجھ سے میرے والدنے بیان کیاانہوں نے کہا ، ہم سے سعد بن ا الصلت نے بیان کیاانہوں نے ، أعمش سے روایت کیاانہوں نے ، أبو اسحاقسے روایت کیاانہوں نے، عبد الجبار بن وائل سے رویت کیاانہوں نے، انہو ں نے اپنے والد سے روایت کیاکہ انہوں نے کہا:'' میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازمیں داخل ہوئے اوراللہ أکبرکہاپھراپنے دائیں بازوکواپنے بازوپررکھ لیا۔

حوالہ:
المعجم الکبیر للطبرانی :ـ ج 22ص25،حدیث نمبر17901۔

وضاحت:ـ
اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں دائیں (ساعد) کو بائیں (ساعد) پررکھا، اورعربی زبان میں ساعد'' ذراع ''یعنی بازو(کہنی کے سرے سے لیکر درمیانی انگلی کے سرے تک کے حصہ )کوبھی کہتے ہیں ،چنانچہ غریب الحدیث للحربی :(277/1)میں ہے :
''الذراع والساعد شیء واحد '' یعنی ذراع اور ساعد ایک ہی چیزہے ،اورذراع کے معنی کی وضاحت حدیث نمبر1 کے تحت ہوچکی ہے۔
اوردارالعلوم دیوبند کے سابق استاذ ادب مولاناوحید الزماں قاسمی کیرانوی رحمہ اللہ '' ساعد'' کایہ معنی لکھتے ہیں :''بازو،ہاتھ ،ہتھیلی سے کہنی تک کاحصہ ''دیکھئے موصوف کی تالیف کردہ لغت کی کتاب ''القاموس الجدید،عربی اردو'' ما دہ ''سعد ''ص411 کتب خانہ حسینیہ دیوبند ،یوپی۔
لغت کی مذکورہ کتابوں سے معلوم ہواکہ عربی زبان میں ''ساعد'' بازو(کہنی کے سرے سے لیکر درمیانی انگلی کے سرے تک کے حصہ )کوبھی کہتے ہیں اورطبرانی کی مذکورہ حدیث میںدائیں ہاتھ کے بازو کو بائیں ہاتھ کے بازوپررکھنے کی سنت منقول ہے ،اب اگر اس حدیث پرعمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کے بازو کو بائیں ہاتھ کے بازوپرپررکھیں گے تو دونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے،لہٰذا طبرانی کی یہ حدیث سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ۔

مسند البزار المنشور باسم البحر الزخار​

حديث نمبر (23):
حَدَّثنا إبراهيم بن سَعِيد، قَال: حَدَّثنا مُحَمد بْنُ حُجْر، قَالَ: حَدَّثني سَعِيد بْنُ عَبد الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْر، عَن أَبيهِ، عَن أُمِّهِ عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْر، رَضِي اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ شَهِدْتُ النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم ...(الحديث إلي أن قال) ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا بِشَحْمَةِ أُذُنَيْهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى يَسَارِهِ عِنْدَ صَدْرِهِ۔۔۔۔۔
ہم سے ابراہیم بن سعید نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے محمد بن حضر نے بیان کیاانہوں نے کہا: مجھ سے سعید بن عبدالجباربن وائل بن حجرنے بیان کیاانہوں نے ، اپنے والد سے روایت کیاانہوں نے، اپنی والد ہ سے روایت کیا انہوں نے وائل بن حجر صسے روایت کیاکہ انہوں نے کہا:''میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ا...(پھرایک لمبی حدیث بیان کی جس میں یہ بھی ہے کہ ) پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا یہاں تک کہ کانوں کی لوتک پہنچایا پھرداہنے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنے سینے پررکھ لیا...(آگے لمبی حدیث ہے)''۔

حوالہ:
مسند البزار :ـج 10ص356،حدیث نمبر4488۔

مراسيل أبي داود​

حديث نمبر (24):
حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ، عَنْ ثَوْرٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدَهُ الْيُسْرَى ثُمَّ يَشُدُّ بِهِمَا عَلَى صَدْرِهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ»
ہم سے ابوتوبہ نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے ہیثم یعنی ابن حمید نے بیان کیاانہوں نے ، ثور سے روایت کیاانہوں نے ، سلیمان بن موسی سے روایت کیاانہوں نے طاؤوس کے حوالہ سے نقل کیا ، انہوں نے کہا کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے دوران میں اپنا دایاں ہا تھ بائیں کے اوپر رکھتے اورانہیں اپنے سینے پر باندھا کرتے تھے۔

حوالہ:
مراسیل أبوداؤد:ـج 1ص89 حدیث نمبر33۔

مستخرج أبي عوانة​

حديث نمبر (25):
أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى قَالَ: أنبا ابْنُ وَهْبٍ، أَنَّ مَالِكًا، حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّهُ قَالَ: «كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ»
ہم سے یونس بن عبدالأعلی نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے ابن وھب نے بیان کیاانہوں نے کہا: مالک نے ان سے بیان کیااورانہوں نے ،ابوحازم سے روایت کیاانہوں نے،سھل بن سعدص سے روایت کیاکہ :''لوگوں کوحکم دیاجاتاتھاکہ نمازمیں ہرشخص اپنے دائیں ہاتھ کواپنے بائیں ہاتھ کے ذراع(کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ)پررکھے۔

حوالہ:
مستخرج أبي عوانة (ج 1ص429):ـباب اباحة الالتحاف بثوب بعد تکبیرة الافتتاح ووضع یدہ الیمنی علی الیسری...،حدیث نمبر1597۔

وضاحت:ـ
اس حدیث میں بھی دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے''ذراع''(یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصہ) پر رکھنے کاحکم ہے ،اب اگر اس حدیث پرعمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کوبائیںہاتھ کے ''ذراع'' (یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے،لہٰذا یہ حدیث بھی نمازمیں سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ،مزیدتفصیل کے لئے دیکھئے حدیث نمبر 1کے تحت وضاحت۔

التحقيق في أحاديث الخلاف
جمال الدين أبو الفرج عبد الرحمن بن علي بن محمد الجوزي (المتوفى : 597هـ)​

حديث نمبر (26):
أَخْبَرَنَا ابْنُ الْحُصَيْنِ قَالَ أَنْبَأَنَا ابْنُ الْمُذْهِبِ قَالَ أَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ قَالَ حَدَّثَنِي سِمَاكٌ عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضَعُ هَذِهِ عَلَى هَذِهِ على صَدره وَوصف يَحْيَى الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَوْقَ الْمِفْصَلِ
ہم سے ابن الحصین نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے ابن المذھب نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے أحمد بن جعفر نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے عبداللہ بن أحمدنے بیان کیاانہوں نے کہا: مجھ سے میرے والد نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے یحیی بن سعید نے بیان کیاانہوں نے ، سفیان سے روایت کیاانہوں نے کہا: ہم سے سماک نے بیان کیاانہوں نے ، قبیصة بن ھلب سے روایت کیاانہوں نے ، اپنے والدھلب صسے روایت کیاکہ انہوں نے کہا:''میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس ہاتھ کواس ہاتھ پررکھ کراپنے سینے پر رکھتے تھے،یحیی بن سعید نے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پررکھ کرسینے پررکھ کربتایا''

حوالہ:
التحقیق فی أحادیث الخلاف:ـ ج 1ص338 ،حدیث نمبر434، تحقیق مسعد عبد الحمید محمد السعدنی ، دار الکتب العلمیة ،بیروت۔

التاريخ الكبير
المؤلف: محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله (المتوفى: 256هـ)​

حديث نمبر (27):
قَالَ مُوسَى حَدَّثَنَا حماد بْن سلمة: سَمِعَ عاصما الجحدري عَنْ أَبِيهِ عَنْ عقبة بْن ظبيان: عَنْ عَلِيّ رَضِيَ اللَّهُ عنه: " فصل لربك وانحر " وضع يده اليمني على وسط ساعده على صدره   
موسی نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے حماد بن سلمةنے بیان کیاانہوں نے ، عاصم الجحدری سے سنا انہوں نے، اپنے والد سے روایت کیاانہوں نے، عقبة بن ظبھان سے روایت کیاانہوں نے کہا: کہ علی صنے (فصل لربک ونحر)(الکوثر:2/108) کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنے سینے پررکھنامرادہے ''۔

حوالہ:
التاریخ الکبیرللبخاری:ـج 6ص437،حدیث نمبر2163،تحقیق السید ہاشم ،دارالفکر۔

الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف
المؤلف: أبو بكر محمد بن إبراهيم بن المنذر النيسابوري (المتوفى: 319هـ) ​

حديث نمبر (28):

حديث نمبر (29):
حَدَّثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قَالَ: ثنا حَجَّاجٌ، قَالَ: ثنا حَمَّادٌ، عَنْ عَاصِمٍ الْجَحْدَرِيِّ، عَنْ أَبِي عُقْبَةَ بْنِ ظَبْيَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِ: " أَنَّهُ قَالَ فِي الْآيَةِ {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الكوثر: 2] فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى سَاعِدِهِ الْيُسْرَى ثُمَّ وَضَعَهَا عَلَى صَدْرِهِ "
ہم سے علی بن عبدالعزیز نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے حجاج نے بیان کیاانہوں نے کہا : ہم سے حماد نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے عاصم الجحدری نے بیان کیاانہوں نے ، انہوں نے اپنے والد سے روایت کیاانہوں نے، عقبة بن ظبیان سے روایت کیاانہوں نے کہا: کہ علی بن طالب رضی اللہ عنہ نے اس آیت (فصل لربک و انحر) (الکوثر:2/108) کی تفسیربیان کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھا، پھران دونوں کو اپنے سینے پررکھ لیا ''۔

حوالہ:
الأوسط(ج 4ص179):ـکتاب الصلوة:باب ذکر وضع الیمین علی الشمال فی الصلوة ،حدیث نمبر1236،ترقیم المکتبة الشاملة۔

حديث نمبر (30):
حَدَّثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: ثنا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامٌ، قَالَ: ثنا زَائِدَةُ، قَالَ: ثنا عَاصِمُ بْنُ كُلَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ الْحَضْرَمِيَّ أَخْبَرَهُ، قَالَ: " قُلْتُ: لَأُبْصِرَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ حَتَّى قَامَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفَّهُ الْيُسْرَى، وَالرُّسْغِ، وَالسَّاعِدِ "...،
ہم سے ابراہیم بن محمد بن اسحاق نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے ابوالولید ھشام نے بیان کیاانہوں نے کہاہم سے زائدہ بن قدامةنے بیان کیاانہو ں نے کہا: ہم سے عاصم بن کلیب نے بیان کیاانہو ں نے کہا: مجھ سے میرے والد نے بیان کیا: کہ انہیں وائل بن حجرحضرمی رضی اللہ عنہ نے بتایااورکہاکہ : ''میں نے سوچاذرا دیکھوںکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نمازپڑھتے ہیں ،(وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ)جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تومیں نے دیکھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ أکبر کہااوراپنے دونو ںہاتھوں کواٹھایایہاں تک کہ کانوں کی لوتک پہنچایا پھرداہنے ہاتھ کو بائیں ہتھیلی ،کلائی اوربازو پررکھا...،

حوالہ:
الأوسط(ج 4ص185):ـکتاب الصلوة:باب ذکر وضع الیمین علی الشمال فی الصلوة ،حدیث نمبر1241،ترقیم المکتبة الشاملة۔

وضاحت:ـ
اس حدیث میں بھی دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کی ہتھیلی ، کلائی اور بازوکے اوپر رکھنے کی بات ہے ،لہٰذااس حدیث کے مطابق اگردائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے اس پورے حصے (ہتھیلی ، کلائی اور بازو)پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے ،لہذایہ حدیث بھی نمازمیں سینہ پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے،مزیدتفصیل کے لئے دیکھئے حدیث نمبر 2کے تحت وضاحت۔

حديث نمبر (31):
حَدَّثنا أَبُو دَاوُدَ الْخَفَّافُ، قَالَ: ثنا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّهُ قَالَ: «كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ»
ہم سے أبوداؤد الخفاف نے بیان کیاانہو ں نے کہا: ہم سے عبد اللہ بن مسلمة نے بیان کیاانہوں نے، مالک سے روایت کیاانہوں نے ،ابوحازم سے روایت کیاانہوں نے،سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کیاکہ :''لوگوں کوحکم دیاجاتاتھاکہ نمازمیں ہرشخص دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ذراع(کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ)پررکھے۔

حوالہ:
الأوسط(ج 4ص181):ـکتاب الصلوة:باب ذکر وضع الیمین علی الشمال فی الصلوة ،حدیث نمبر1238،ترقیم المکتبة الشاملة۔

وضاحت:ـ
اس حدیث میں بھی دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے''ذراع''(یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصہ) پر رکھنے کاحکم ہے ،اب اگر اس حدیث پرعمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کوبائیںہاتھ کے ''ذراع'' (یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے،لہٰذا یہ حدیث بھی نمازمیں سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ،مزیدتفصیل کے لئے دیکھئے حدیث نمبر 1کے تحت وضاحت۔

طبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها
المؤلف: أبو محمد عبد الله بن محمد بن جعفر بن حيان الأنصاري المعروف بأبِي الشيخ الأصبهاني (المتوفى: 369هـ)​

حديث نمبر (32):
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَاصِمٍ , قَالَ: ثنا مُؤَمَّلٌ , قَالَ: ثنا سُفْيَانُ , عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ , قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «وَضَعَ يَدَهُ عَلَى شِمَالِهِ عِنْدَ صَدْرِهِ»
ہم سے محمد بن یحیی نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے محمد بن عاصم نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے مؤمل نے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے سفیان نے بیان کیاانہوں نے : عاصم بن کلیب سے روایت کیاانہوں نے ، اپنے والد سے روایت کیاانہوں نے، وائل بن حجر سے روایت کیاکہ انہوں نے کہا:''میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھ کراپنے سینے پررکھ لیا''۔

حوالہ:
طبقات المحدثین بأصبھان :ـج 2ص268،مؤسسة الرسالة ،بیروت۔

شرح السنة
المؤلف: محيي السنة، أبو محمد الحسين بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوي الشافعي (المتوفى: 516هـ)​

حديث نمبر (33):   
أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الشِّيرَزِيُّ، أَنَا زَاهِرُ بْنُ أَحْمَدَ، أَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْهَاشِمِيُّ، أَنَا أَبُو مُصْعَبٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: «كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلاةِ» .
ہم سے ابوالحسن الشیرز ی نے بیان کیاانہو ں نے کہا: ہم سے زاھر بن أحمدنے بیان کیاانہو ں نے کہا: ہم سے أبواسحاق الھاشمی نے بیان کیاانہو ں نے کہا: ہم سے أبومصعب نے بیان کیاانہوں نے، مالک سے روایت کیاانہوں نے ،ابوحازم سے روایت کیاانہوں نے،سھل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہو ں نے کہا :''لوگوں کوحکم دیاجاتاتھاکہ نمازمیں ہرشخص دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے ذراع(کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے حصہ)پررکھے۔

حوالہ:
شرح السنةللبغوی(ج 3ص30):ـکتاب الطھارة:باب وضع الیمین علی الشمال فی الصلوة ،حدیث نمبر568۔

وضاحت:ـ
اس حدیث میں بھی دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ کے''ذراع''(یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصہ) پر رکھنے کاحکم ہے ،اب اگر اس حدیث پرعمل کرتے ہوئے دائیں ہاتھ کوبائیںہاتھ کے ''ذراع'' (یعنی کہنی سے بیچ کی انگلی تک کے پورے حصے )پررکھیں گے تودونوں ہاتھ خود بخود سینے پرآجائیں گے ،تجربہ کرکے دیکھ لیجئے،لہٰذا یہ حدیث بھی نمازمیں سینے پرہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ،مزیدتفصیل کے لئے دیکھئے حدیث نمبر 1کے تحت وضاحت۔

المنتقى من السنن المسندة
المؤلف: أبو محمد عبد الله بن علي بن الجارود النيسابوري المجاور بمكة (المتوفى: 307هـ)​

حديث نمبر (34):
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ بْنِ قُدَامَةَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي أَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ: لَأَنْظُرَنَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ يُصَلِّي قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ قَامَ فَكَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى حَاذَتَا بِأُذُنَيْهِ ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ...،
ہم سے اسحاق بن منصورنے بیان کیاانہوں نے کہا: ہم سے عبدالرحمن یعنی ابن مھدینے بیان کیاانہوں نے ، زائدہ بن قدامةسے روا.

والله اعلم.















*نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا*                                تحریر : حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

حدیث : ((عن سھل بن سعد قال: کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل یدہ الیمنٰی علیٰ ذراعہ الیسریٰ فی الصلوٰۃ))سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں کہ لوگوں کو (رسول اللہ ﷺ کی طرف سے) حکم دیاجاتاتھا کہ ہر شخص نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنے بائیں بازوں پر رکھے۔ (بخاری: ۱۰۲/۱ ح ۷۴۰، و موطأ امام مالک ۱۵۹/۱ ح ۳۷۷ باب وضع الیدین احداہما علی الاخریٰ فی الصلوٰۃ، وروایۃ ابن القاسم بتحقیقی: ۴۰۹)​
فوائد:

۱: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہئیں، آپ اگر اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں “ذراع” (بازو) پر رکھیں گے تو دونوں ہاتھ خودبخود سینہ پر آجائیں گے ۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ نے اپنا دائیاں ہاتھ اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت ، رُسغ (کلائی ) اور ساعد(کلائی سے لیکر کہنی تک) پر رکھا (سنن نسائی مع حاشیۃ السندھی : ج۱ ص ۱۴۱ ح ۸۹۰، ابوداود: ج۱ ص۱۱۲ ح ۷۲۷) اسے ابن خزیمہ (۲۴۳/۱ ح ۴۸) اور ابن حبان (الاحسان : ۲۰۲/۲ ح ۴۸۵) نے صحیح کہا ہے ۔
سینے پر ہاتھ باندھنے کی تصدیق اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں آیا ہے کہ :​
“یضع ھٰذہ علیٰ صدرہ…. إلخ“
آپﷺ یہ (ہاتھ) اپنے سینے پر رکھتے تھے …..إلخ​
(مسند احمد ج ۵ ص ۲۲۶ ح ۲۲۳۱۳، واللفظ لہ ، التحقیق لا بن الجوزی ج ۱ ص ۲۸۳ ح ۴۷۷ و فی نسخۃ ج ۱ ص ۳۳۸ و سندہ حسن)

۲: سنن ابی داود (ح ۷۵۶) وغیرہ میں ناف پر ہاتھ باندھنے والی جو روایت آئی ہے وہ عبدالرحمٰن بن اسحاق الکوفی کی وجہ سے ضعیف ہے، اس شخص پر جرح ، سنن ابی داود کے محولہ باب میں ہی موجود ہے ، علامہ نووی نے کہا :
“عبدالرحمٰن بن اسحاق بالاتفاق ضعیف ہے ” (نصب الرایۃ للزیلعی الحنفی۳۱۴/۱)
نیموی فرماتے ہیں: “وفیہ عبدالرحمٰن بن إسحاق الواسطي وھو ضعیف” اور اس میں عبدالرحمٰن بن اسحاق الواسطی ہے اور وہ ضعیف ہے ۔ (حاشیہ آثار السنن ح ۳۳۰)
مزید جرح کے لئے عینی حنفی کی البنایۃ فی شرح الہدایۃ (۲۰۸/۲) وغیرہ کتابیں دیکھیں، ہدایہ اولین کے حاشیہ ۱۷، (۱۰۲/۱) میں لکھا ہوا ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہے ۔

۳: یہ مسئلہ کہ مرد ناف کے نیچے او رعورت سینے پر ہاتھ باندھیں کسی صحیح حدیث یا ضعیف حدیث سے قطعاً ثابت نہیں ہے ، یہ مرد اور عورت کی نماز میں جو فرق کیاجاتا ہے کہ مرد ناف کے نیچے ہاتھ باندھیں اور عورتیں سینے پر ، اس کے علاوہ مرد سجدے کے دوران بازو زمین سے اٹھائے رکھیں اور عورتیں بالکل زمین کے ساتھ لگ کر بازو پھیلا کر سجدہ کریں ،یہ سب اہل الرائے کی موشگافیاں ہیں۔ رسول اللہﷺ کی تعلیم سے نماز کی ہیئت ، تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک مرد و عورت کے لئے ایک ہی ہے ، صرف لباس اور پردے میں فرق ہے کہ عورت ننگے سر نماز نہیں پڑھ سکتی اور اس کے ٹخنے بھی ننگے نہیں ہونے چاہئیں۔ اہل حدیث کے نزدیک جو فرق و دلیل نص صریح سے ثابت ہوجائے تو برحق ہے ، اور بے دلیل و ضعیف باتیں مردود کے حکم میں ہیں۔

۴: سیدنا انسؓ سے منسوب تحت السرۃ (ناف کے نیچے) والی روایت سعید بن زربی کی وجہ سے سخت ضعیف ہے ۔ حافظ ابن حجر نے کہا : منکر الحدیث (تقریب التہذیب : ۲۳۰۴)
(دیکھئے مختصر الخلافیات للبیہقی: ۳۴۲/۱، تالیف ابن فرح الاشبیلی و الخلافیات مخطوط ص ۳۷ ب و کتب اسماء الرجال)

۵: بعض لوگ مصنف ابن ابی شیبہ سے “تحت السرۃ” والی روایت پیش کرتے ہیں حالانکہ مصنف ابن ابی شیبہ کی اصل قلمی اور مطبوعہ نسخوں میں “تحت السرۃ” کے الفاظ نہیں ہیں جبکہ قاسم بن قطلوبغا (کذاب بقول البقاعی / الضوء اللامع ۱۸۶/۶) نے ان الفاظ کا اضافہ گھڑ لیا تھا۔ انور شاہ کشمیری دیوبندی فرماتے ہیں:
“پس بے شک میں نے مصنف کے تین (قلمی) نسخے دیکھے ہیں، ان میں سے ایک نسخے میں بھی یہ (تحت السرۃ والی عبارت) نہیں ہے” (فیض الباری ۲۶۷/۲)

۶: حنبلیوں کے نزدیک مردوں اور عورتوں دونوں کو ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعۃ ۲۵۱/۱)!!

۷: تقلیدی مالکیوں کی غیر مستند اور مشکوک کتاب “المدونۃ” میں لکھا ہوا ہے کہ امام مالکؒ نے ہاتھ باندھنے کے بارے میں فرمایا :”مجھے فرض نماز میں اس کا ثبوت معلوم نہیں” امام مالکؒ اسے مکروہ سمجھتے تھے۔ اگرنوافل میں قیام لمبا ہوتو ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، اس طرح و ہ اپنے آپ کو مدد دے سکتا ہے ۔ (دیکھئے المدونۃ ۷۶/۱) اس غیر ثابت حوالے کی تردید کے لئے موطأ امام مالک کی تبویب اور امام مالکؒ کی روایت کردہ حدیثِ سہل بن سعدؓ ہی کافی ہے ۔

۸: جولوگ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں ان کی دلیل المعجم الکبیر للطبرانی (۷۴/۲۰ ح ۱۳۹) کی ایک روایت ہے جس کا ایک راوی خصیب بن حجدر کذاب ہے ۔ (دیکھئے مجمع الزوائد ۱۰۲/۲) معلوم ہوا کہ یہ روایت موضوع ہے لہٰذااس کا ہونا اور نہ ہونا برابر ہے ۔

۹: سعید بن جبیر (تابعی) فرماتےہیں کہ نماز میں “فوق السرۃ” یعنی ناف سے اوپر (سینے پر ) ہاتھ باندھنے چاہئیں۔ (امالی عبدالرزاق / الفوائد لابن مندۃ ۲۳۴/۲ ح ۱۸۹۹ و سندہ صحیح )

۱۰: سینے ہر ہاتھ باندھنے کے بارے میں مزید تحقیق کے لئے راقم الحروف کی کتاب “نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام”ملاحظہ فرمائیں۔ اس کتاب میں مخالفین کے اعتراضات کے مدلل جوابات دیئے گئے ہیں۔ والحمدللہ!


قرآن وحدیث اسلامک گروپ

03452457937
Share:

Muslim Larko ka Pub G Game se Apni Zindagi Barbad Karna.

Pub g game aur Hmare Muslim Naw jwano ka Rawaiya.
Pub G Aur Tik Tok jaise Waqt Jaya Karne wale Applications.
Waldain itne Sharif hai ya fir Bacho ki Barbadi ko Dekhte hue bhi khamosh hai aur Ek Gair Jimmedar Waldain ke jaisa Apne aulad ke sath suluk kar rahe hai?
پب جی گیم کے نقصانات اور اس کے پھیلتی برائیوں کا ہمارے مسلم نوجوانوں پر اثر۔
पबजी (Pub g) का मुस्लिम समाज के लड़कों पर असर।
जवानों की महफ़िल में हमेशा कुछ ना कुछ चर्चे में रहता है, अभी एक मोबाइल गेम है "पबजी" जिस के पीछे घंटो बर्बाद किये जा रहे है,
इस क़दर दीवाने हैं इस गेम के, के घर मे पबजी, बाहर पबजी, दिन में पबजी, रात में पबजी!
खेलते तो हैं ही और जब दोस्तो से मुलाकात करते है तो बस इसी की बाते करते है।

जितनी मेहनत, वक़्त और दिमाग इस खेल में खर्च किया जाता है, अगर उस का आधा भी पढ़ाई में लगाया जाए तो बहुत फायदा होगा,
जितनी मुहब्बत इस खेल से है अगर उतनी मुहब्बत किताबो से की जाए तो जिंदगी सवर जाए।
कई ऐसे है के पबजी मे बन्दूक में गोली भरने का तरीका, हथियार बदलने का तरीका और फालतू के फर्ज़ी दुश्मनो को मारने का तरीका तो मालूम है लेकिन अफसोस के इस्लाम के बुनियादी अक़ाइद नही मालूम!

पबजी गेम तो आज आया है, इस से पहेले कैंडी क्रश, मारियो, कॉण्ट्रा, लूडो, कैरम बोर्ड वगैरा के मजनू पाए जाते थे और आज भी है यानी हमेशा कोई ना कोई फ़ुज़ूल काम मिल ही जाता है।

नौजवान नस्ल को इन चीज़ों में मुब्तला करने के पीछे कई लोगो का हाथ है, अब किसी लड़के के वालिद को ही देख लीजिए, वो खुद बेनमाज़ी, बेइल्म और गाफिल है तो बेटे को "जुनैद व शिब्ली" कैसे बनायेगा।
बाप माँ को लगता है के बेटा नौकरी करने लगा है और हज़ारो रुपये कमा रहा है बस तरक़्क़ी काफी हो गयी, अब शादी कर दो ताकि इस के बच्चे भी यही तरक़्क़ी का मंजन खरीदने के लिए निकल पड़े।
ये नही देखा जाता है के बेटे के मोबाइल, उस के कम्प्युटर, उस के फेसबुक प्रोफ़ाइल, उस के व्हाट्सएप्प मैसेंजर पर कौन से फूल खिल रहे है, अब हो सकता है के आप सोचे के माँ बाप तो भोले होते है, उन्हें क्या मालूम बेटा क्या कर रहा है?
हम कहेंगे के माँ बाप भोले नही बल्कि गैरज़िम्मेदार है और बच्चो की तरबियत के इस्लामी तरीके से बेखबर है।
बच्चो को स्कूल का रास्ता दिखाया, कॉलेजेस के चक्कर कटवाए हत्ता के एक आधार कार्ड के लिए लाइन में घंटो खड़े रहेना सिखाया लेकिन मदरसे में तालीम हासिल करने के नाम पर खामोशी इख़्तेयार की, उलमा की खिदमत में हाज़िर हो कर फ़ैज़ हासिल करने की बात आयी तो कान पर जू तक ना रेंगी।

लापरवाही की ही वजह है के औलाद कभी पबजी मे चिकन डिनर कर रही है तो कभी फेसबुक पर एक हज़ार फ़ॉलोवेर्स जमा करने की खुशी मना रही है,
अल्लाह त'आला हमारे नौजवानों को इन फ़ुज़ूल चीज़ों से बचाये और आने वाली नस्लो की तरबियत पर काम करने की सलाहियत अता फरमाए।
copy/paste
अब्दे मुस्तफ़ा

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS