Husn Bin Sba aur Uski Masnui Jannat.
Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 07)
حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت
۔
قسط نمبر/7
اسلام کا قافلہ ساڑھے چار صدیوں کی مسافت طے کرچکا تھا۔
اس قافلے نے لق و دق صحرا ،جسموں کا پانی چوس لینے والے ریگزار اور خون کے دریا پار کیے تھے۔
اس قافلے نے جوش میں آئی ہوئی جوئے کہستاں کی مانند چٹانوں کے جگر چاک کیے تھے۔
اس قافلے نے دشوار گزار جنگلوں کے سینے چیر دیے تھے۔
اس قافلے نے تیروں اور برچھیوں کی بوچھاڑوں میں بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دیے تھے۔
اور زرتشت کے پجاری اپنی سلطنت مجاہدین کے اس قافلے کے قدموں میں پھینک کر بھاگ گئے تھے۔
اس قافلے نے تیزوتند طوفانوں کے منہ موڑ دیے تھے۔
مگر کذب و ارتداد کی ایسی آندھی آئی کہ یہ قافلہ بکھرنے اور بھٹکنے لگا۔
حسن بن صباح بڑے ہی خوفناک طوفان کا ہراول تھا ،اس کا خطرہ روزبروز شدید ہوتا جارہا تھا ،کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ آنے والا وقت کس کے عروج اور کس کے زوال کی داستان سنائے گا۔
داستان گو نے خیر اور شر کی اس داستان کو قلعہ شاہ در تک پہنچایا تھا، اس قلعے پر ایک اسماعیلی احمد بن عطاش نے ایک بڑی حسین و جمیل دوشیزہ زرّین کے ذریعے قبضہ کیا تھا۔
قلعہ فوج فتح کیا کرتی ہے، قلعے کا محاصرہ کیا جاتا ہے، محاصرہ طول بھی پکڑ لیا کرتا ہے، قلعے میں داخل ہونے کے لیے کمند پھینکنے اور دروازے توڑنے کی کوششیں ہوتی ہیں، اوپر سے تیروں اور برچھیوں کا مینہ برستا ہے، محاصرہ کرنے والے لہولہان ہوتے ہیں تڑپتے ہیں اور مرتے ہیں اور خون کے دریا بہا کر ایک قلعہ سر ہوتا ہے۔
لیکن قلعہ شاہ در ایک نوخیز لڑکی نے بڑے ہی پیارے انداز سے قلعے کے والی کی چہیتی بیوی بن کر فتح کرلیا، اس والی قلعہ کا نام ذاکر تھا ،جس کی تفصیلی داستانِ رومان پہلے سنائی جاچکی ہے، قلعہ احمد بن عطاش کے قبضے میں آگیا۔
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح اس قلعے میں کس طرح پہنچا تھا، اس کے ساتھ فرح نام کی ایک لڑکی بھی تھی ،حسن بن صباح اور فرح اس محبت کی زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے جس کا تعلق دلوں اور روحوں سے ہوتا ہے، احمد بن عطاش نے دونوں کی تربیت شروع کر دی تھی، یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ احمد بن عطاش نے ان تمام اسماعیلیوں کو جو قلعہ شاہ در کے قید خانے میں بند تھے رہا کردیا تھا اور پھر قافلے لوٹنے لگے، رہزنی کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا۔
تاریخ بتانے سے قاصر ہے کہ حسن بن صباح اس استاد کی شاگردی میں کتنا عرصہ گزار چکا تھا، غالباً دو اڑھائی سال گزر گئے تھے، ایک تو حسن بن صباح دنیا میں آیا تو شیطانی اوصاف اپنے ساتھ لایا تھا ،اس کے بعد اس نے انہیں اوصاف کو ابھارا اور پھر ابن عطاش اور احمد بن عطاش نے ان اوصاف کو پختہ تر کرکے اسے پکا ابلیس بنا دیا تھا، اسے علم سحر بھی سکھا دیا اور غالباً اسے احمد بن عطاش کچھ ایسی تربیت بھی دے رہا تھا جو زمین دوز تخریب کاری کے لئے کارآمد ہوتی ہے۔ ان لوگوں کا اصل مقصد یہ تھا کہ اسلام کو اسلام ہی رہنے دیں لیکن اللہ کے اس دین کو اپنی نظریات اور اپنی نفسانی خواہشات کے سانچے میں ڈھال لیں۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جو ان لوگوں نے زمین کے نیچے جاکر لڑنی تھی۔
کسی عمارت کو گرانا ہو تو اسے اوپر سے نہیں توڑا جاسکتا وقت لگتا ہے، اور توڑنے والے منڈیر کی ایک دو اینٹیں ہی اکھاڑ پھینکے تو پکڑے جائیں گے، عمارت کی بنیادوں میں پانی چھوڑ دیا جائے تو عمارت ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہے اور لوگ اس کے سوا کچھ نہیں کہتے کہ عمارت کی بنیادوں میں پانی چلا گیا تھا۔
اسلام کی فلک بوس عمارت کو مسمار کرنے کا یہی طریقہ اختیار کیا جارہا تھا، اس طریقہ جنگ کے لیے ہتھیاروں کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی مال و دولت کی ہوتی ہے، اس میں انسان خریدے جاتے ہیں، دینداروں کے دین و ایمان کی قیمت دی جاتی ہے، احمد بن عطاش نے زرو جواہرات کی فراہمی کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ قافلوں کو لوٹنا شروع کردیا۔
سلطنت اسلامیہ میں قافلوں کو لوٹنے کا سلسلہ کبھی کا ختم ہوچکا تھا، کوئی لٹیرا رہزنی کی بھی جرات نہیں کرتا تھا، قافلے کے ساتھ بے شمار لوگ ہوتے ہیں، اکیلا آدمی مال ودولت لیے پا پیادہ دشت و بیابان میں بے دھڑک سفر کرتا تھا۔
سلجوقی تو اس معاملے میں اور زیادہ سخت تھے، لیکن سلجوقی سلطان ملک شاہ کے دور میں آکر قافلے لوٹنے لگے، یہ سراغ نہیں ملتا تھا کہ اچانک لٹیروں کے یہ گروہ کہاں سے آگئے ہیں، یہ تو تاریخ سے بھی پتا نہیں چلتا کہ سرکاری طور پر اس کا کیا سدباب ہوا تھا۔ البتہ یہ واضح ہے کہ قافلوں کی آمد ورفت تقریباً بند ہو گئی تھی۔
ایک روز احمد بن عطاش سے ملنے ایک آدمی آیا ،حسن بن صباح بھی اسکے پاس بیٹھا تھا، دربان نے جونہی احمد بن عطاش کو اس آدمی کی اطلاع دی تو احمد بن عطاش نے چونک کر کہا اسے جلدی اندر بھیجو۔
خوش آمدید میرے بھائی !،،،،، احمد بن عطاش نے اس آدمی کو دیکھتے ہی پرمسرت لہجے میں پوچھا ؟،،،،،بیٹھنے سے پہلے یہ سناؤ کہ کوئی خوشخبری لائے ہو؟
بہت بڑی خوشخبری۔۔۔ اس آدمی نے بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ ایک بہت بڑا قافلہ آ رہا ہے اور جوں جوں یہ آگے بڑھتا آ رہا ہے اس کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
اور مال و دولت میں اضافہ ہوتا آرہا ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اس شخص نے جو قافلے کی خبر لایا تھا یہ بتانا شروع کردیا کہ قافلہ کہاں ہے اور یہ کس راستے پر جا رہا ہے، یہ راستہ شاہ در سے بہت دور سے گزرتا تھا ،وہ علاقہ پہاڑی بھی تھا اور یہ پہاڑ اور وادیاں درختوں سے اٹی پڑی تھیں، اور جو علاقہ میدانی تھا وہ سب جنگلاتی تھا ،چونکہ قافلے جو پہلے لوٹے جا چکے تھے وہ شاہ در سے بہت دور لوٹے تھے اس لیے کسی کو ذرا سا بھی شبہ نہیں ہوتا تھا کہ یہ قافلے لوٹنے والے احمد بن عطاش کے آدمی ہیں اور یہ ساری دولت احمد بن عطاش کے قبضے میں جا رہی ہے۔
کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس قافلے میں کیا کچھ ہے؟،،،،، احمد بن عطاش نے پوچھا ۔
کیوں نہیں۔۔۔ اس شخص نے فاتحانہ انداز میں جواب دیا۔۔۔ میں نے اس قافلے کے ساتھ دو پڑاؤ سفر کیا ہے، اور پوری تفصیلات اپنی آنکھوں دیکھ کر اور کچھ قافلے والوں سے سن کر آیا ہوں۔
ہمیں تم جیسے آدمیوں کی ضرورت ہے ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔اب بتاؤ کیا دیکھ آئے ہو ۔
زیادہ تر تاجر ہیں۔۔۔ اس شخص نے جواب دیا۔۔۔ ان میں بعض تو بہت ہی امیر کبیر لگتے ہیں ،بیس بیس تیس تیس اونٹوں پر ان کا مال جا رہا ہے ۔
مال کیا ہے؟
اناج بھی ہے۔۔۔ اس شخص نے جواب دیا۔۔۔کپڑا ہے، چمڑا ہے اور سونے چاندی کے زیورات بھی ہیں، چند ایک کُنبے بھی قافلے کے ساتھ ہیں۔
نوجوان لڑکیاں بھی ہونگی؟،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔
زیادہ تو نہیں۔۔۔ اس شخص نے جواب دیا۔۔۔ سات آٹھ اچھی خاصی خوبصورت اور نوخیز لڑکیاں ہیں ،چھوٹی عمر کی بچیاں بھی ہیں۔
یہ تو اور زیادہ اچھا ہے۔۔۔ احمد بن عطاش ۔۔۔نے کہا ۔۔۔ہمیں پنیری چاہیے جسے ہم اپنی مرضی سے جہاں چاہیں گے وہاں لگا دیں گے، اور اپنے انداز سے اس کی آبیاری کریں گے۔
سوچنے والی ایک بات ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔کئی ایک قافلے لوٹے جا چکے ہیں پھر ان تاجروں وغیرہ نے یہ جرات کیسے کی ہے کہ وہ اتنا مال و دولت اور اتنا بڑا قافلہ لے کر چل پڑے ہیں، شاید ان لوگوں نے یہ سوچا ہوگا کہ کچھ عرصے سے قافلوں کو لوٹنے کا سلسلہ بند ہے اس لیے لٹیرے کسی اور علاقے میں چلے گئے ہونگے۔
میرا خیال کچھ اور ہے۔۔۔قافلے کی خبر لانے والے آدمی نے کہا ۔۔۔قافلے میں جو کوئی بھی شامل ہوتا ہے اسے کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس تلوار اور برچھی لازمی طور پر ہونی چاہیے، اور اس میں حملے کی صورت میں لڑنے کا جذبہ بھی ہونا چاہیے، میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جہاں پڑاؤ ہوتا ہے وہاں کئی ایک نوجوان رضاکارانہ طور پر پورے پڑاؤ کے اردگرد گھوم پھر کر پہرے دیتے ہیں، قافلے میں نوجوان آدمیوں کی تعداد ذرا زیادہ ہے۔
میں یہی بات آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ قافلے کے ساتھ حفاظت کا انتظام بھی موجود ہے اس لئے ہمیں زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے ،اور سب سے بڑی ضرورت احتیاط کی ہے۔
ہاں یہ سوچنے والا معاملہ ہے ۔۔۔احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ اور گہری سوچ میں گم ہو گیا ۔
ہم اس قافلے کو محافظ دیں گے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا، اور قافلے کی خبر لانے والے سے مخاطب ہوا ۔۔۔تم کچھ دیر میرے پاس بیٹھنا،،،،، اور استاد محترم یہ کوئی پریشان کرنے والا معاملہ نہیں۔
اس شخص نے بتایا کہ اس وقت تک قافلہ کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے اور جس بستی اور شہر کے قریب سے یہ قافلہ گزرتا ہے اس میں لوگ شامل ہوتے جا رہے ہیں۔
میں اس کی وجہ سمجھتا ہوں۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ ایک عرصے بعد لوگوں نے ایک قافلہ دیکھا ہے اس لیے لوگ اس قافلے کے ساتھ چل پڑے ہیں۔
یہ قافلہ منزل پر نہیں پہنچنا چاہیے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔
اسی لیے تو میں اتنی دور سے آیا ہوں۔۔۔ اس شخص نے کہا ۔۔۔مجھے فوراً بتائیں کہ میں نے کیا کرنا ہے؟،،،، مجھے جلدی روانہ ہو جانا چاہیے۔
احمد بن عطاش اور حسن بن صباح نے اسے ہدایت دینی شروع کر دیں۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
یہ شخص گھوڑے پر سوار قلعے سے اس طرح نکلا کہ کسی نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں کہ یہ کون ہے اور کہاں جارہا ہے، شہر سے کچھ دور جاکر اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دیکھتے ہی دیکھتے سرسبز ٹیکریوں اور جنگل میں غائب ہو گیا۔
اس کے جانے کے فوراً بعد احمد بن عطاش نے اپنے دو خاص مصاحبین کو بلایا اور انہیں کچھ ہدایات دیں، دونوں بڑی تیزی سے چلے گئے، پہلے تو وہ شاہ در میں کچھ لوگوں سے ملے اور پھر دیہات میں نکل گئے۔
اسی شام کو سورج غروب ہونے کے بعد شاہ در سے سات آٹھ میل دور کم و بیش پچاس گھوڑسوار اکٹھے ہوگئے، انہوں نے احمد بن عطاش کی ہدایات کے مطابق اپنا ایک امیر یا کمانڈر مقرر کر لیا اور اس طرف چل پڑے جس طرف سے قافلہ نے گزرنا تھا ،انھیں راستہ وغیرہ سمجھا دیا گیا تھا ان کے سامنے دو اڑھائی دنوں کی مسافت تھی۔
قافلے کا راستہ وہاں سے تقریباً ساٹھ میل دور تھا ،اس وقت تک قافلے کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے تجاوز کرگئی تھی، اس میں بوڑھے آدمی بھی تھے بوڑھی عورتیں بھی تھیں، جوان اور نوجوان لڑکے زیادہ تھے، نوجوان لڑکیاں اور بچے بھی تھے، اونٹ بے شمار تھے، تجارتی مال اور گھریلو سامان سے لدی ہوئی چار پانچ بیل گاڑیاں اور مال بردار گھوڑا گاڑیاں بھی تھیں ،قافلے کے زیادہ تر آدمی گھوڑوں پر سوار تھے۔
ایک پڑاؤ سے علی الصبح قافلہ چلا ،ابھی چند میل ہی طے کیے ہوں گے کہ قافلے کے آگے آگے جانے والے رک گئے۔
ڈاکو۔۔۔ ڈاکو۔۔۔ قافلے کے آگے سے بڑی بلند آواز سے اعلان ہوا ۔۔۔ھوشیار ہوجاؤ جوانو!،،،، ڈاکو آ گئے ہیں۔۔۔ تیار ہو جاؤ۔
قافلے کی لمبائی ایک میل سے کہیں زیادہ تھی، اعلان کئی بار دہرایا گیا، اس کے جواب میں قافلے میں جتنے بھی نوجوان لڑکے جوان اور ادھیڑ عمر آدمی تھے تلواریں اور برچھیاں تان کر ایسی ترتیب میں ہو گئے کے قافلے کو محاصرے میں لے لیا، تب پتہ چلا کہ قافلے میں کئی ایک ایسے لوگ ہیں جن کے پاس کمانیں اور تیروں سے بھری ہوئی ترکشیں ہیں۔
لڑکیوں اور بچیوں کو درمیان میں کرلو ۔۔۔اعلان ہوا۔۔۔ کچھ آدمی لڑکیوں کے ساتھ رہیں۔
ایک طرف سے کم و بیش پچاس گھوڑسوار قافلے کی طرف آ رہے تھے، ان کے آنے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ حملہ کرنے نہیں آ رہے، ان کے پاس تلواریں تھیں لیکن تلواریں نیاموں میں تھیں، بعض کے پاس برچھیاں تھیں اور کچھ ایسے تھے جن کے پاس جنگی کلہاڑے تھے، گھوڑوں کی رفتار حملے والی یا ہلہ بولنے والی نہیں تھی، وہ جب قریب آئے تو ان کے آگے آگے جو دو سوار تھے ان دونوں نے ہاتھ اوپر کر کے لہرائے جو ایک پرامن اشارہ تھا۔
قافلہ میں جو تیر انداز تھے وہ ایک صف میں کھڑے ہوگئے اور کمانوں میں ایک ایک تیر ڈال لیا۔
ہم دوست ہیں۔۔۔ آنے والے ایک سوار نے کہا۔۔۔ ہمیں دشمن نہ سمجھو۔
پھر وہیں رک جاؤ۔۔۔ قافلے میں سے ایک آدمی نے کہا ۔۔۔۔صرف ایک آدمی آگے آکر بتاؤ کہ تم کیا چاہتے ہو ،ہمارے تیر اندازوں کو تیغ زنوں اور برچھی بازوں کو دیکھ لو ،تم اتنے تھوڑے ہو کہ تھوڑی سی دیر میں تم اپنے خون میں ڈوب جاؤ گے اور تمہارے گھوڑے اور ہتھیار ہمارے پاس ہوں گے۔
مشکوک گھوڑ سواروں کے آگے آگے آنے والے دونوں سواروں نے پیچھے مڑ کر اپنے ہاتھ اٹھائے جو اشارہ تھا کہ باقی سوار پیچھے ہی رک جائیں، تمام سوار رک گئے اور یہ دونوں سوار قافلے کے قریب آ گئے ۔
اب بتاؤ تمہارا ارادہ کیا ہے ؟،،،،،،قافلے کے اس معزز آدمی نے کہا جس نے اپنے آپ کو خود ہی میر کارواں بنا لیا تھا۔
ڈرو نہیں دوستو !،،،،،،ایک سوار نے کہا۔۔۔ ہم پیشہ ور لوگ ہیں ،ہمارا پیشہ امیر لوگوں کی حفاظت کرنا ہے، ہم میں اتنی جرات اور طاقت نہیں کہ اتنے بڑے قافلے پر حملہ کریں، ہمیں پتہ چلا کہ ایک قافلہ جا رہا ہے اور ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ قافلوں کو لوٹنے والے بھی موجود ہیں، تو ہم نے اپنے ان دوستوں کو اکٹھا کیا اور کہا کہ چلو اس قافلے کے پیچھے جاتے ہیں اور امیر لوگوں کو حفاظت مہیا کریں گے اور حلال کی روزی کمائیں گے، تمہارا سفر ابھی بہت لمبا باقی ہے قافلے پر کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ حملہ ہو سکتا ہے، ہماری التجا ہے کہ ہمیں قافلے کی حفاظت کے لیے اپنے ساتھ لے چلو ،ہم راتوں کو پہرہ بھی دیں گے۔
کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ہمارے ساتھ کتنے آدمی ہیں ؟،،،،،،میر کارواں نے کہا ۔۔۔کیا تم انہیں اپنی حفاظت خود کرنے کے قابل نہیں سمجھتے؟
نہیں!،،،، ایک سوار نے جواب دیا۔۔۔ ان میں ہمیں ایک بھی ایسا نظر نہیں آرہا جس نے کبھی لڑائی لڑی ہو، کیا آپ نہیں جانتے کہ قافلوں کو لوٹنے والے لڑنے اور مارنے کی مہارت رکھتے ہیں؟ تمہارے یہ آدمی جب اپنے ساتھیوں کے جسموں سے خون کے فوارے پھوٹتے دیکھیں گے تو یہ سب بھاگ جائیں گے، ہمیں اپنا محافظ بنا کر اپنے ساتھ لے چلیں، ہم اتنی زیادہ اجرت نہیں مانگیں گے جو تم دے ہی نہ سکو، تم میں بڑے بڑے امیر تاجر بھی ہیں، جوان لڑکیوں کے باپ بھی ہیں اور پھر آپ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں، آپ سب مل جل کر ہمیں اتنی سی اجرت تو دے ہی سکتے ہو جس سے کچھ دن ہمارے بچے بھی روٹی کھا لیں گے۔
ایک بات میں بھی کہوں گا ۔۔۔دوسرے سوار نے کہا ۔۔۔اگر آپ ہمیں حلال روزی مہیا نہیں کریں گے، اور ہمیں کہیں سے بھی روزی نہیں ملے گی تو ایک روز ہم بھی رہزنی شروع کر دیں گے اور قافلوں کو لوٹنے کا گروہ بنا لیں گے۔
روزی دینے والا خدا ہے۔۔۔ ایک بزرگ نے آگے آکر کہا۔۔۔ میرے ہم سفرو معلوم ہوتا ہے خدا نے ان کی روزی ہمارے ذمے کردی ہے، نہ جانے یہ بیچارے کتنی دور سے ہمارے پیچھے آئے ہیں، اور یہ حلال کی روزی کے پیچھے آئے ہیں ،انہیں مایوس نہ کرو اور ان کے ساتھ اجرت طے کر لو، انہیں ساتھ لے لینے سے ہماری حفاظتی طاقت میں اضافہ ہو جائے گا، ان سے بات کر لو۔
ان سے اجرت پوچھی گئی جو انہوں نے بتائی اور انکے ساتھ سودا طے کر لیا گیا، ان محافظ سواروں نے دو شرطیں پیش کیں ایک یہ کہ انھیں اجرت پیشگی دے دی جائے، اور دوسری یہ کہ ان کا کھانا پینا قافلہ کے ذمے ہو گا ۔
ان کی دونوں شرائط مان لی گئیں، قافلے کے ہر فرد نے اتنی رقم دے دی جو حساب کے مطابق ہر ایک کے ذمے آتی تھی۔
قافلہ چل پڑا ان پچاس محافظوں نے اپنے آپ کو اس طرح تقسیم کرلیا کہ کچھ قافلے کے آگے ہو گئے، کچھ قافلے کے پیچھے اور باقی کچھ دائیں اور کچھ بائیں ہو گئے، ان کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں، اور وہ پیشہ ور چوکیدار اور محافظ ہیں۔
پہلا پڑاؤ آیا تو ان میں سے بہت سے آدمیوں نے رات بھر دو دو ہوکر پڑاؤ کے چاروں طرف پہرہ دیا، اس سے قافلے والے ان سے مطمئن اور متاثر ہو گئے، اگلی رات بھی انہوں نے اسی طرح پہرہ دیا۔
تیسرے پڑاؤ تک پہنچتے قافلے میں ڈیڑھ دو سو مزید افراد کا اضافہ ہو چکا تھا۔
قافلہ ایک اور پڑاؤ کے لئے رک گیا، سورج غروب ہو چکا تھا لوگ رات بسر کرنے کے لیے اپنے اپنے انتظامات میں مصروف ہوگئے، عورتیں کھانا تیار کرنے لگیں، پانی کی وہاں کوئی قلت نہیں تھی، علاقہ سرسبز اور پہاڑی تھا ،پہاڑیاں ذرا پیچھے ہٹی ہوئی تھیں، اور ان کے درمیان ہری بھری گھاس کا میدان تھا، قریب ہی سے شفاف پانی کی ندی گذرتی تھی، پڑاؤ کے لیے یہی جگہ موزوں تھی۔
قافلے والے دن بھر کے تھکے ہوئے تھے کھانا کھا کر لیٹے، اور لیٹتے ہی سو گئے ،محافظ سوار پہرے پر کھڑے ہوگئے اور ہر رات کی طرح پڑاؤ کے اردگرد گھوم پھر کر پہرہ دینے لگے، آدھی رات سے کچھ پہلے تھوڑی دور سے اُلّو کے بولنے کی آواز آئی، ایک اُلّو پڑاؤ کے بالکل قریب سے بولا، ایک بار پھر دور کے اُلّو کی آواز آئی۔
قافلے والے گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ پچاس ساٹھ گھوڑسوار قافلے کے پڑاؤ کی طرف آرہے تھے، جب پہاڑوں میں پہنچے اور پڑاؤ انہیں اپنے سامنے نظر آنے لگا تو وہ وہیں رک گئے، گھوڑوں سے اترے اور آہستہ آہستہ چلتے پڑاؤ کی طرف بڑھنے لگے، ان کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں چند ایک کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں، وہ جو پچاس محافظ تھے ان میں سے کچھ پہرے پر کھڑے تھے اور باقی سوئے ہوئے تھے، ان کے جو ساتھی پہرے پر کھڑے تھے ان میں سے کچھ آہستہ آہستہ آئے اور انہیں جگایا۔
تمام سوئے ہوئے محافظ آہستہ آہستہ اٹھے، انہوں نے تلوار نکالی پھر یہ سب ایک جگہ اکٹھا ہوئے، ادھر سے وہ بھی آگئے جنہوں نے گھوڑے پہاڑیوں کے پیچھے کھڑے کیے تھے، یہ سب یعنی محافظ بھی اور ادھر سے آنے والے بھی ایک جگہ آپس میں ملے ،محافظوں میں سے ایک نے نئے آنے والوں کو بتانا شروع کردیا کہ کون کہاں ہے، یعنی فلاں جگہ امیرکبیر تاجر ہیں، اور فلاں جگہ نوجوان لڑکیاں ہیں وغیرہ وغیرہ ،یہ سب محافظ بھی اور ادھر سے آنے والے بھی تعداد میں ایک سو سے زیادہ ہو گئے، محافظ دراصل لٹیرے ہی تھے جنھوں نے دھوکہ دے کر قافلے کے ساتھ رہنا تھا اور ان کے پچاس ساٹھ ساتھیوں نے راستے میں آ کر ان سے ملنا تھا، یہ محافظ اس لیے قافلے میں شامل ہوئے تھے کہ انہوں نے پیچھے دیکھ لیا تھا کہ قافلے میں لڑنے والے جوانوں کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔
جو آدمی احمد بن عطاش کو اس قافلے کی اطلاع دینے گیا تھا اس نے بتایا تھا کہ اس قافلے پر حملہ ناکام بھی ہو سکتا ہے، کیوں کہ اس میں لڑنے والے آدمیوں کی تعداد زیادہ ہے ،احمد بن عطاش یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا تھا، لیکن حسن بن صباح کے دماغ نے فوراً یہ ترکیب سوچی تھی کہ لٹیرے گروہ کے آدھے آدمی پیشہ ور محافظ بن کر قافلے میں شامل ہو جائیں گے، تاکہ قافلے والے راتوں کو خود پہرا نہ دیں، اور وہ اپنی حفاظت سے بے فکر ہو جائیں، حسن بن صباح نے اطلاع لانے والے کو یہ ترکیب بڑی اچھی طرح سمجھا دی تھی۔
یہ شخص بڑی تیزی سے لٹیروں کو اکٹھا کرتا پھرا اور ان کا جو لیڈر تھا اسے اس نے یہ ترکیب سمجھا دی ،لیڈر نے بڑی خوش اسلوبی سے اس ترکیب پر عمل کیا ۔
قافلے والے سمجھ ہی نہ سکے کہ جنہیں وہ محافظ سمجھ بیٹھے ہیں وہ رہزن ہیں ،ان رہزنوں نے قافلے کے بچے بچے پر اپنا اعتماد قائم کر لیا تھا۔
ان ایک سو سے زیادہ رہزنوں نے پڑاؤ کے ایک طرف سے قتل عام شروع کیا ،انہیں بتایا گیا تھا کہ نوجوان لڑکیوں، کمسن بچیوں اور بچوں کو زندہ لانا ہے، جب قافلے والوں کا قتل عام شروع ہوا تو دوسروں کی آنکھ کھل گئی لیکن رہزنوں نے انہیں سنبھلنے کی مہلت نہ دی، اس کے بعد ایک ہڑبونگ قیامت کا سما تھا ،جو کوئی ہڑبڑا کر اٹھتا تھا اس کے جسم میں برچھی اتر جاتی یا تلوار اس کی گردن صاف کاٹ دیتی، وہاں ان کی چیخ و پکار سننے والا اور سن کر مدد کو پہنچنے والا کوئی نہ تھا، لڑکیوں اور بچوں کی دلدوز چیخیں تھیں، جو رہزنوں اور قاتلوں کے دلوں کو موم نہیں کر سکتی تھیں۔
کچھ زیادہ دیر نہ لگی کہ قافلے کا صفایا ہوگیا، لٹیروں نے سامان سمیٹنا شروع کر دیا، پھر انہوں نے یہ سامان اونٹوں بیل گاڑیوں اور گھوڑا گاڑیوں پر لاد لیا، نوجوان لڑکیوں، بچیوں، اور بچوں کو ہانک کر ایک طرف لے جانے لگے۔
قیامت کی اس خون ریزی میں ایک دو اونٹ اور ایک دو گھوڑے کھل کر ادھر ادھر ہو گئے تھے، شاید چند انسان بھی زندہ بچ گئے ہوں، رہزن بڑی جلدی میں تھے انہوں نے لڑکیوں اور بچوں کو ایک گھوڑا گاڑی پر سوار کر لیا اور چار پانچ آدمی ان کے ساتھ سوار ہوگئے اور وہ پہاڑیوں کے پیچھے غائب ہو گئے۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
صبح کا اجالا سفید ہوا تو آسمان نے اس میدان میں لاشوں پر لاشیں پڑی دیکھیں، لاشوں کے سوا وہاں کچھ بھی نہ تھا، قریب کی ایک ٹیکری کے اوپر ایک بوڑھا آدمی لیٹا ہوا تھا ،اس نے آہستہ آہستہ سر اٹھایا اور میدان کی طرف دیکھا اس نے اپنی اتنی لمبی عمر میں ایسے منظر پہلے بھی دیکھے ہونگے، وہ کوئی تجربے کار آدمی تھا، وہ اسی قافلے کا ایک فرد تھا، رات کو جب قتل عام شروع ہوا تو وہ کسی طرح وہاں سے بھاگ نکلا اور ٹیکری پر چڑھ کر اونچی گھاس میں چھپ گیا ،وہ رات بھر اپنے ہم سفروں اور ان کے بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار سنتا رہا ،وہ آہستہ آہستہ اٹھا اور ٹیکری سے اترا ،اسے ایسا کوئی ڈر نہ تھا کہ ڈاکو پھر آجائیں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔
وہ آہستہ آہستہ ان لاشوں کو دیکھتا گیا، وہ یوں محسوس کررہا تھا جیسے خواب میں چل رہا ہو، وہ اپنے کنبے کو ڈھونڈ رہا تھا ،وہاں تو کوئی کہاں، اور کوئی کہاں پڑا تھا ،اسے بہت ہی چھوٹے سے ایک بچے کی لاش پڑی نظر آئی، بچے کی عمر چند مہینے ہی ہوگی وہ کچھ دیر اس غنچے کو دیکھتا رہا جو بن کھلے مرجھا گیا تھا، بچے سے نظر ہٹا کر اس نے ہر طرف دیکھا اسے کچھ دور ایک اونٹ نظر آیا جو بڑی بے پرواہی سے اس خونیں منظر سے بے نیاز گھاس چر رہا تھا۔
بوڑھے نے آسمان کی طرف دیکھا جیسے خدا کو ڈھونڈ رہا ہو، اچانک اسے ایک خیال آیا وہ بڑی تیزی سے اونٹ کی طرف چل پڑا، اونٹ کے پاس جا کر اس کی مہار پکڑی اور وہیں بٹھا دیا، پھر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا اسے ایک کجاوا ایک جگہ پڑا دکھائی دیا ،وہ گیا اور کجاوا اٹھا کر اونٹ کے پاس لے گیا، اونٹ کی پیٹھ پر رکھ کر اس نے کجاوا کس دیا، دودھ پیتے بچے کی خون آلود لاش اٹھا کر لے گیا لاش کو کجاوے میں رکھا اور خود بھی اونٹ پر سوار ہو گیا، اور اونٹ کو اٹھایا ،اس نے اونٹ کا رخ مَرو کی طرف کردیا ،اس وقت مرو سلجوقی سلطنت کا دارالحکومت تھا ،سلطان ملک شاہ وہیں ہوتا تھا۔
ملک شاہ روایتی بادشاہوں جیسا بادشاہ نہیں تھا ،لیکن جہاں وہ رہتا تھا وہ محل سے کم نہ تھا ،ایک روز وہ اپنے مصاحبوں وغیرہ میں بیٹھا ہوا تھا۔
میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔۔۔ ملک شاہ نے کہا اور کچھ دیر سوچ کر بولا۔۔۔ قافلوں کے لوٹنے کا خطرناک سلسلہ ختم ہو گیا ہے، ہم کسی کو پکڑ تو نہیں سکے لیکن پکڑنے اور سزا دینے والا اللہ ہے، یہ اللہ ہی ہے جس نے میری مدد کی اور قافلے محفوظ ہوگئے۔
سلطان محترم !،،،،دربان نے اندر آ کر کہا۔۔۔ ایک ضعیف العمر شخص سوار آیا ہے، آپ سے ملنا چاہتا ہے۔
کہاں سے آیا ہے؟،،،، سلطان نے پوچھا ۔۔۔کیا چاہتا ہے؟،،، کچھ پوچھا تم نے؟
نہیں سلطان عالی مقام!،،،، دربان نے جواب دیا۔۔۔ اس کی حالت اچھی نہیں ،معلوم ہوتا ہے بڑی لمبی مسافت طے کرکے آیا ہے، اس نے بہت چھوٹے سے بچے کی لاش اٹھا رکھی ہے، لاش کو جیسے خون سے نہلایا گیا ہے ۔
لاش !،،،،،ملک شاہ نے چونک کر کہا۔۔۔ چھوٹے سے بچے کی لاش، اسے فوراً اندر بھیجو ،یہ فریادی معلوم ہوتا ہے۔
ضعیف العمر ہانپتا کانپتا جھکا جھکا بازوؤں پر چند ماہ عمر کے بچے کی خون آلود لاش اٹھائے ملک شاہ کے سامنے آیا ،اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اس کی آنکھوں کا نور بجھ چکا تھا ۔
او میرے بزرگ!،،،، ملک شاہ اٹھ کھڑا ہوا اور پوچھا ۔۔۔کیا مشکل تمہیں یہاں لے آئی ہے؟
ایک بچے کی لاش لایا ہوں ،ائے سلطان !،،،،بوڑھے نے کہا۔۔۔ یہ آپ کا بچہ ہے، اس نے آگے بڑھ کر لاش سلطان کے قدموں میں رکھ دی، اونٹ کی پیٹھ پر تین دن اور تین رات سفر کیا ہے، نہ اونٹ نے کچھ کھایا ہے نہ میں نے، یہ اللہ کی امانت تھی جس میں سلجوقی سلطان نے خیانت کی، دیکھ،،،، سلطان،،،، دیکھ ،،،،اس بِن کھلی کلی کو دیکھ، اس ننھے سے بچے میں ابھی یہ احساس بھی پیدا نہیں ہوا تھا کہ یہ زندہ ہے، اور مرتے وقت اسے یہ احساس نہیں ہوا ہوگا کہ موت نے اسے ماں کی آغوش سے اٹھا کر اپنی گود میں لے لیا ہے ۔
سلطان ملک شاہ نے دربان کو بلوایا اور کہا کہ وہ بچے کی لاش لے جائے اور اسے غسل دے کر کفن پہنایا جائے۔
اے بزرگ انسان!،،،، سلطان نے بوڑھے سے کہا ۔۔۔کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ شکوہ اور شکایت سے پہلے یہ بتا دو کہ یہ بچہ کس کا ہے ؟،،،اور اسے کس نے قتل کیا ہے؟
یہ میرے کسی ہمسفر کا بچہ تھا ۔۔۔بوڑھے نے کہا ۔۔۔میں اس کے باپ کو نہیں جانتا ،اس کی ماں کو نہیں جانتا ،انہیں میں کبھی بھی نہیں جان سکوں گا، وہ بھی قتل ہو گئے ہیں، وہ کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے ؟کہاں جا رہے تھے؟ میں نہیں جانتا ،میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ ہمارے قافلے کے ساتھ تھے، قافلے پر ڈاکوؤں کا حملہ ہو گیا۔
بوڑھے نے تفصیل سے سنایا کہ قافلہ کہاں سے چلا تھا کس طرح اس میں مسافروں کا اضافہ ہوتا گیا اور پھر کس طرح اور کہاں قافلے پر اس وقت حملہ ہوا جب سب گہری نیند سو رہے تھے۔
سلطان غصےکےعالم میں کمرے میں ٹہلنے لگا ،وہ بار بار ایک ہاتھ کا گھونسہ دوسرے کی ہتھیلی پر مارتا تھا ،اس کے چہرے پر قہر اور عتاب کے آثار گہرے ہوتے جا رہے تھے۔
کچھ عرصہ پہلے قافلوں پر حملے شروع ہوئے تھے۔۔۔ بوڑھے نے کہا ۔۔۔پھر یہ حملے خود ہی ختم ہوگئے، ان کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ نے ڈاکوؤں کی سرکوبی کا کوئی بندوبست کر دیا تھا ،بلکہ لوگوں نے سفر کرنا چھوڑ دیا تھا ،ہم بدقسمت اس خوش فہمی میں نکل کھڑے ہوئے کہ منزل پر پہنچ جائیں گے۔
اس بچے کی لاش یہاں کیوں لے آئے ہو؟،،،،، سلطان ملک شاہ نے پوچھا ۔
سلطان کو یہ دکھانے کے لئے کہ سلطانوں کے گناہوں کی سزا رعایا کو ملا کرتی ہے۔۔۔ بوڑھے نے کہا۔۔۔ میں عقیدے کا سنی ہوں، آپ مجھے معاف کریں یا نہ کریں مجھے اس کا کوئی ڈر نہیں، میں خلفاء راشدین کی بات کروں گا جن کے دور میں ہر طرف مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ ہر مذہب کے لوگوں کی عزت محفوظ ہو گئی تھی، جان محفوظ ہو گئی تھی، اور لوگوں کے مال و اموال محفوظ ہوگئے تھے، رعایا کو اور رعایا کے بچوں کو اللہ کی امانت سمجھتے تھے، میں بچے کی لاش اس لیے یہاں لایا ہوں کہ سلطان اس معصوم کی کھلی اور ٹھہری ہوئی آنکھوں میں اپنے گناہوں کا عکس دیکھ لیں۔
دیکھ لیا ہے میرے بزرگ!،،،، سلطان نے کہا۔۔۔ ہم ان قزاقوں کو پکڑیں گے۔
ہمارے قافلے سے تمام نوجوان لڑکیوں اور بچوں کو قزاق اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔۔۔ بوڑھے نے کہا۔۔۔ انہیں وہ قتل نہیں کریں گے، انھیں امراء کے گھروں میں فروخت کیا جائے گا ،انھیں عیش و عشرت کا ذریعہ بنایا جائے گا، امت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بچیاں رقاصہ بنیں گی، عصمت فروش بنیں گی، اور ساری عمر اپنے سلطان کے اس گناہ کی سزا بھگتتی رہیں گی کہ سلطان نے اپنے فرائض سے نظر پھیر لی تھیں، سلطان کی نیندیں حرام ہو جانی چاہیے، میں قافلے والوں کی روحوں کا یہ پیغام لے کر آیا ہوں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سلجوقی سلطان اسلام کے سچے پیروکار تھے ،ان میں روایتی بادشاہوں والی خو نہیں تھی ،اس بوڑھے نے ایسی سخت باتیں بھی کہہ ڈالی تھیں جو کوئی معمولی سا حاکم بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا ،لیکن سلطان ملک شاہ نے نہ صرف یہ کہ بوڑھے کا غصہ بھی برداشت کیا ،اور طنز بھی، بلکہ حکم دیا کہ اسے مہمان خانے میں رکھا جائے ،اور جب تک یہاں قیام کرنا چاہے اسے سلطان کے ذاتی مہمان کی حیثیت سے رکھا جائے۔
<=======۔=========>
جاری ہے بقیہ قسط۔8۔میں پڑھیں
<=======۔=========>