find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Eid (Eid Ul Fitar aur Eid Ul Azaha) ki Namaj agar Qaza ho jaye to Use kaise Ada kiya ja sakta hai?

Eid ki Namaj ke Qaza ka kya hukm hai?

Sawal: Eid (Eid Ul Fitar ya Eid Ul Azaha) ki Namaj e Qaza ka kya hukm hai? Agar koi Mard aur Aurat kisi wajah se Eidgaah nahi pahuch saken, ya koi Shakhs takhir se pahuche ke uski ek ya dono Rakat qaza ho jaye aur Khutba shuru ho to wah Eid ki Namaj kaise Ada karega?

Kya Aeibdar Janwaro ki Qurbani jayez hai?

Gaye aur Oont me Kitne Baccho ka Aqeeqa ho sakta hai?

Eid ki Namaj Padhne ka sahi tarika?

" मै इतने पैसे लगाकर कुर्बानी नही करूँगा बल्कि इसी पैसे से किसी गरीब की मदद कर दूंगा "

سلسلہ سوال و جواب  نمبر-250
سوال_ عید کی نماز کی قضاء کا کیا حکم ہے؟ اگر کوئی مرد و عورت کسی عذر کی بنا پر  عیدگاہ نا پہنچ سکیں، یا کوئی شخص تاخیر سے پہنچے کہ اسکی ایک یا دونوں رکعت قضاء ہو جائیں اور خطبہ شروع ہو تو وہ عید کی نماز کیسے ادا کرے گا؟

Published Date: 11-8-2019

جواب:
الحمدللہ:

*کسی وجہ سے عیدین کی نماز قضاء ہو جائے تو اسکو چاہیے کہ باقی نمازوں کی طرح اسکی بھی قضا دے،یعنی عید کی دو رکعت نماز زائد تکبیرات کے ساتھ ادا کرے، اگر ایک سے زائد لوگ ہوں تو وہ جماعت کروا لیں،کہ پہلے جماعت سے نماز پڑھیں اور پھر خطبہ دے ایک شخص،اور اگر کوئی اکیلا شخص آئے اور خطبہ شروع ہو تو پہلے وہ خطبہ سنے اور پھر بعد میں عید کی نماز کی قضاء دے*

*یعنی جس کی نماز عید جماعت کے ساتھ فوت ہو جائے تو وہ اسکی قضائی دے گا، اور علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ وہ قضاء کیسے دے گا،اور کہا گیا ہے کہ وہ چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھے گا یا دو سلام کے ساتھ اور راجح وہ ہے جسکی طرف جمہور علماء گئے ہیں وہ یہ ہے کہ عید کی نماز کی قضاء بھی اسی طریقے پر ادا کرے گا جس طریقے پر عید کی نماز ادا کرتے ہیں، پس وہ دو رکعت پڑھے گا پہلی رکعت سات تکبیرات کے ساتھ اور دوسری رکعت پانچ زائد تکبیرات کے ساتھ اور اسکے لیے جائز ہے کہ وہ تنہا قضاء پڑھے یا کچھ لوگ مل کر جماعت کے ساتھ قضاء پڑھ لیں،*
 
دلائل درج ذیل ہیں:

📚 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ :    إِذَا سَمِعْتُمُ الْإِقَامَةَ فَامْشُوا إِلَى الصَّلَاةِ وَعَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ وَالْوَقَارِ وَلَا تُسْرِعُوا ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا ، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا،
ابو ھریرہ رض سے مروی ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لیے ( معمولی چال سے ) چل پڑو۔ سکون اور وقار کو ( بہرحال ) پکڑے رکھو اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے پڑھ لو، اور جو نہ مل سکے اسے بعد میں پورا کر لو۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-636)

یہ حدیث دلیل ہے ہر ایک نماز کے لیے،
کہ جب بھی کوئی شخص نماز باجماعت سے لیٹ ہو جائے تو جتنی نماز جماعت سے مل جائے وہ پڑھ لے اور جو رہ جائے وہ بعد میں پوری کر لے، یعنی جو شخص  عید کی نماز میں تاخیر سے پہنچے کہ ایک رکعت نکل ہو گئی تو جو وہ امام کے ساتھ پڑھے گا وہ اس کی پہلی رکعت ہو گی اور جب امام سلام پھیر دے تو وہ کھڑا ہو کر دوسری رکعت پڑھے گا، کیوں کہ یہہ صحیح ترتیب ہے اگر وہ پہلے دوسری رکعت پڑھ لے اور پھر پہلی رکعت پڑھے تو یی ترتیب غلط اور نماز نبوی کے خلاف ہو گی، اور  اگر کسی کی دونوں رکعتیں فوت ہو جائیں تو وہ بعد میں اکیلا یا با جماعت عید کی دونوں رکعت زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھے گا،

📚قال الإمام البخاري في صحيحه
:[ باب إذا فاتته صلاة العيد يصلي ركعتين ، وكذلك النساء ومن كان في البيوت والقرى لقول النبي صلى الله عليه وسلم : هذا عيدنا أهل الإسلام وأمر أنس بن مالك
مولاه ابن أبي عتبة بالزاوية فجمع أهله وبنيه وصلى كصلاة أهل المصر وتكبيرهم . وقال عكرمة : أهل السواد يجتمعون في العيد يصلون ركعتين كما يصنع الإمام .
وقال عطاء : إذا فاته العيد صلى ركعتين]

ترجمہ:
امام بخاری صحیح بخاری میں فرماتے ہیں،
صحیح بخاری /کتاب:
عیدین کے مسائل کے بیان میں
بَابُ إِذَا فَاتَهُ الْعِيدُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ۔۔۔۔۔!
باب: اگر کسی کو جماعت سے عید کی نماز نہ ملے تو پھر دو رکعت پڑھ لے،اور عورتیں بھی ایسا ہی کریں اور وہ لوگ بھی جو گھروں اور دیہاتوں وغیرہ میں ہوں اور جماعت میں نہ آ سکیں (وہ بھی ایسا ہی کریں) کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اسلام والو! یہ ہماری عید ہے۔

📚 انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے غلام ابن ابی عتبہ زاویہ نامی گاؤں میں رہتے تھے۔ انہیں آپ نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں اور بچوں کو جمع کر کے شہر والوں کی طرح نماز عید پڑھیں اور تکبیر کہیں۔ عکرمہ نے شہر کے قرب و جوار میں آباد لوگوں کے لیے فرمایا کہ جس طرح امام کرتا ہے یہ لوگ بھی عید کے دن جمع ہو کر دو رکعت نماز پڑھیں۔ عطاء نے کہا کہ اگر کسی کی عید کی نماز(جماعت) چھوٹ جائے تو دو رکعت (تنہا) پڑھ لے۔
(صحیح بخاری قبل الحدیث-987)
 

📚وذكر الحافظ ابن حجر أن أثر أنس المذكور قد وصله ابن أبي شيبة في المصنف وقوله الزاوية اسم موضع بالقرب من البصرة كان به لأنس قصر وأرض وكان يقيم هناك كثيراً . وقول عكرمة وعطاء وصلهما
ابن أبي شيبة أيضاً ]
(صحيح البخاري مع شرحه فتح الباري 3/127-128 )
ترجمہ:
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ  انس رض کا اثر جو مذکور ہے بخاری میں اسکو ابن ابی شیبہ نے متصل بیان کیا ہے اپنی مصنف کے ساتھ، اور جو زاویہ کا بیان آیا یے وہ ایک جگہ کا نام ہے جو بصرہ کے قریب واقع ہے، اور وہاں انس رض کا محل تھا اور زمین تھی انکی،وہ اکثر وہاں رہا کرتے تھے اور عکرمہ اور عطاء کا جو قول ہے ان دونوں کو ابن ابی شیبہ نے متصل بیان کیا ہے اپنی مصنف میں،

 

📚وروى البيهقي بإسناده عن عبيد الله بن أبي بكر بن أنس بن مالك خادم رسول الله صلى الله عليه وسلم قال :[ كان أنس إذا فاتته صلاة العيد مع الإمام ، جمع أهله فصلى بهم مثل صلاة الإمام في العيد ]. ثم قال البيهقي :[ ويذكر عن أنس بن مالك أنه كان بمنزله بالزاوية فلم يشهد العيد بالبصرة جمع مواليه وولده ثم يأمر مولاه عبد الله بن أبي عتبة فيصلي بهم كصلاة أهل المصر ركعتين ويكبربهم كتكبيرهم].
ترجمہ:
اور بیھقی میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم انس بن مالک رض کی جب عید کی نماز فوت ہو جاتی تو وہ اپنے گھر والوں کو جمع کرتے اور امام(جماعت) کی طرح انکے ساتھ نماز عید کی نماز پڑھتے،
بیھقی کہتے ہیں کہ انس رض اپنے گھر زاویہ نامی جگہ میں رہتے تھے جب وہ عید کی نماز کے لیے بصرہ نا جا پاتے تو اپنے غلاموں اور بچوں کو جمع کرتے اور اپنے غلام عبداللہ بن ابی عتبہ کو حکم دیتے کہ وہ انکو شہر والوں کی طرح دو رکعت عید کی نماز پڑھاتے اور انکی طرح ہی ان  میں تکبیرات کہتے
( سنن البيهقي3/305)

📚وذكر البيهقي أن عكرمة قال :
[ أهل السواد – أهل الريف – يجتمعون في العيد يصلون ركعتين كما يصنع الإمام
بیھقی نے ذکر کیا کہ عکرمہ کہتے ہیں اھل السواد سے مراد اھل الریف ہیں (کسی بستی کا نام) وہ عید کے دن جمع ہوتے اور امام کی طرح دو رکعت پڑھتے،
( سنن البيهقي3/305)

 
📚وعن محمد بن سيرين قال :
كانوا يستحبون إذا فات الرجل الصلاة في العيدين أن يمضي إلى الجبان فيصنع كما يصنع الإمام . وعن عطاء إذا فاته العيد صلى ركعتين ليس فيهما تكبيرة ]
محمد بن سیرین کہتے ہیں وہ پسند کرتے ہیں کہ جسں آدمی کی عید کی  نماز  فوت ہو جائے تو وہ کھلی جگہ کی طرف نکلے اور اسی طرح کرے جیسے امام کرتا ہے (یعنی ویسے عید کی نماز پڑھے) اور عطا کہتے ہیں کہ جب عید کی نماز فوت ہو جائے تو وہ دو رکعت پڑھے گا اور ان میں تکبیرات نہیں کہے گا،
( سنن البيهقي3/305)

📚وروى عبد الرزاق بإسناده عن قتادة قال :[ من فاتته صلاة يوم الفطر صلى كما يصلي الإمام . قال معمر : إن فاتـت إنساناً الخطبة أو الصلاة يوم فطر أو أضحى ثم حضر بعد ذلك فإنه يصلي ركعتين ]
قتادہ کہتے ہیں جسکی عید کی نماز فوت ہو جائے وہ اسی طرح نماز پڑھے جیسے امام پڑھتا ہے، معمر کہتے ہیں اگر انسان کا خطبہ فوت ہو جائے یا عیدالفطر کی نماز یا عید الاضحی کی نماز اور وہ بعد میں حاضر ہو تو وہ دو رکعت ادا کرے گا
(مصنف عبد الرزاق 3/300-301 )

📚وروى ابن أبي شيبة أيضاً بإسناده عن الحسن البصري قال :[ فيمن فاته العيد يصلي مثل صلاة الإمام.
اور ابن ابی شیبہ نے حسن بصری رحمہ اللہ سے اسی طرح نقل کیا ہے کہ جسکی عید کی نماز فوت ہو جائے تو وہ امام کی طرح نماز پڑھے گا،

 

📚وروى أيضاً عن إبراهيم النخعي قال : إذا فاتتك الصلاة مع الإمام فصل مثل صلاته ]. قال إبراهيم :[ وإذا استقبل الناس راجعين فلتدخل أدنى مسجد ثم فلتصل صلاة الإمام ومن لا يخرج إلى العيد فليصل مثل صلاة الإمام ]. وروى عن حماد في من لم يدرك الصلاة يوم العيد قال :[ يصلي مثل صلاته ويكبر مثل تكبيره ] مصنف ابن أبي شيبة 2/183-184 .
اور اسی طرح یہ روائیت کی گئی ہے امام  ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے کہ وہ فرماتے ہیں،جب تیری نماز امام کے ساتھ فوت ہو جائے تو تو نماز پڑھ امام کی طرح ہی، (یعنی اتنی ہی) اور ابرہیم کہتے ہیں جب وہ لوگوں کو واپس آتے دیکھتے تو وہ کہتے کہ تو قریبی مسجد میں داخل ہو اور امام کی طرح (دو رکعت عید کی) نماز پڑھ، اور جو عیدگاہ کی طرف نا جانے وہ بھی امام کی طرح عید کی نماز پڑھ لے،
اور حماد سے روایت ہے اس بارے کہ جو عید کی نماز نا پا سکے،
وہ کہتے ہیں کہ وہ انہی (امام) کی طرح نماز پڑھے اور انہیں کی طرح زائد تکبیرات کہے (عید کی نماز میں)
 

📚وبمقتضى هذه الآثار قال جمهور أهل العلم أن من فاتته صلاة العيد صلى ركعتين كما صلى الإمام مع التكبيرات الزوائد . ومن العلماء من قال : يصليها أربعاً واحتج بأثر وارد عن عبد الله بن مسعود رضي
الله عنه أنه قال : من فاته العيد فليصل أربعاً ] ولكنه منقطع كما قال الشيخ الألباني في إرواء الغليل 3/121 .
اور ان تمام آثار کا تقاضا ہے کہ جمہور اہل علم نے کہا ہے کہ جسکی عید کی نماز فوت ہو جائے تو وہ دو رکعت عید کی نماز پڑھے گا جس طرح امام زائد تکبیرات کے ساتھ دو رکعت پڑھتا ہے،
اور بعض علماء نے جو یہ کہا ہے کہ وہ چار رکعت پڑھے گا تو وہ اس دلیل کی بنا پر کہتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جسکی عید کی نماز فوت ہو جائے تو وہ چار رکعت ادا کرے،
 لیکن اس روایت کی سند منقطع ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے إرواء الغليل میں کہا ہے،

 
📚قال الشيخ ابن قدامة المقدسي:
[وإن شاء صلاها على صفة صلاة العيد بتكبير ، نقل ذلك عن أحمد إسماعيل بن سعد واختاره الجوزجاني وهذا قول النخعي ومالك والشافعي وأبي ثور وابن المنذر لما
روي عن أنس : أنه كان إذا لم يشهد العيد مع الإمام بالبصرة جمع أهله ومواليه ثم قام عبد الله بن أبي عتبة مولاه فصلى بهم ركعتين يكبر فيهما ولأنه قضاء صلاة فكان على صفتها كسائر الصلوات وهو
إن شاء صلاها وحده وإن شاء في جماعة . قيل لأبي عبد الله : أين يصلي ؟ قال : إن شاء مضى إلى المصلى وإن شاء حيث شاء ] المغني 2/290.
شیخ ابن قدامہ مقدسی کہتے ہیں
اور اگر وہ چاہتا ہے کہ وہ عید کی طرح زائد تکبیرات کے ساتھ نماز پڑھے تو وہ اسی طرح سے پڑھ لے،
نقل کیا ہے اس قول کو احمد اسماعیل بن سعد سے، اور اس قول کو اختیار کیا ہے جوزجانی نے، اور یہی امام نخعی کا قول  ہے، اور یہی قول مالک، شافعی، ابی ثور اور  ابن منذر رحمھما اللھم کا ہے،
اور انس رض سے مروی ہے کہ جب وہ بصرہ میں امام کے ساتھ عید کی نماز میں حاضر نا ہو پاتے تو وہ اپنے اہل وعیال اور غلاموں کو جمع کرتے اور پھر عبداللہ بن ابی عتبہ جو انکا غلام تھا وہ کھڑا ہوا اور انکو دو رکعتیں نماز پڑھائی، اور انکے اندر تکبیرات بھی کہیں،
اور کیونکہ یہ نماز کی قضائی ہے تو یہ اسی طریقے پر ہو گی جس طرح اصل نماز پڑھی جاتی ہے، اور اگر وہ اکیلا پڑھنا چاہے تو اکیلا پڑھ لے اور اگر چاہے تو جماعت سے پڑھ لے،
اور ابی عبداللہ کے لیے کہا گیا کہ وہ کہاں پر عید کی (قضا) نماز پڑھے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ چاہے تو عیدگاہ میں چلا جائے اور چاہے تو جہاں مرضی پڑھ لے،
 
📚ونقل القرافي أن مذهب الإمام مالك كما في المدونة أنه يستحب لمن فاتته صلاة العيد مع الإمام أن يصليها على هيئتها .
(الذخيرة 2/423 )
اور اسی طرح قرافی نے نقل کیا ہے کہ امام مالک کا مذھب یہ ہے جیسے کہ مدونہ میں ہے  کہ جس کی عید کی نماز امام کے ساتھ پڑھنے سے رہ جائے تو وہ اسی طرح اس کی اصل پر نماز پڑھے جیسے عید کی نماز پڑھی جاتی ہے

 
📚وقال الإمام الشافعي:
[ونحن نقول: إذا صلاها أحد صلاها كما يفعل الإمام يكبر في الأولى سبعاً وفي الآخرة خمساً قبل القراءة ]
(معرفة السنن والآثار 5/103)
ترجمہ:
اور امام شافعی کہتے ہیں کہ ہمارا قول یہ ہے کہ جب وہ اکیلا ( عید کی قضاء) نماز پڑھے گا تو تو وہ اسی طرح نماز پڑھے گا جس طرح امام پڑھتا ہے، پہلی رکعت میں سات تکبیرات کہے گا اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہے گا قرآت سے پہلے،

📚وذكر المرداوي الحنبلي أن المذهب عند الحنابلة هو أنها تقضى على صفتها . (الإنصاف 2/433 )
ترجمہ:
اور مرداوی حنبلی نے بھی  ذکر کیا ہے کہ حنبلی مسلک بھی یہ ہے کہ وہ عید کی نماز اسی طریقے پر قضا پڑھے گا،

📒بارش کی شدت کے باعث علامہ البانی رحمہ اللہ کااپنےگھر والوں کو جمع کرکے عید پڑھتے تھے،

صلاة العلامة الألباني العيد في منزله لتعذّر الوصول إلى المصلّى.
ذكرت إحدى زوجات العلامة الألباني رحمه الله: أنه في يوم عيد كانت السماء تمطر مطراً شديداً، ولا سبيل للوصول إلى المصلّى إلا بمشقة.
*فجمع الشيخ الألباني أهلَه في البيت وصلّى ركعتين مع التكبيرات، ثم خطب بهم خطبة.*
( كناشة البيروتي (4/1943)

________&________

*سعودی فتاویٰ کمیٹی کا فتویٰ*

📚واختارت هذا القول اللجنة الدائمة للإفتاء بالسعودية برئاسة العلامة الشيخ عبد العزيز بن باز – رحمه الله –
فقد جاء في فتواها:
[ومن فاتته وأحب قضاءها استحب له ذلك فيصليها على صفتها من دون خطبة بعدها وبهذا قال الإمام مالك والشافعي وأحمد والنخعي وغيرهم من أهل العلم،
والأصل في ذلك قوله صلى الله عليه وسلم : ( إذا أتيتم الصلاة فامشوا وعليكم السكينة والوقار فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فاقضوا ) وما روي عن أنس رضي الله عنه أنه كان إذا فاتته صلاة العيد مع الإمام جمع أهله ومواليه ثم قام عبد الله بن أبي عتبة مولاه فيصلي بهم ركعتين يكبر فيهما . ولمن حضر يوم العيد والإمام يخطب أن يسـتمع الخطبة ثم يقضي الصلاة بعد ذلك حتى يجمع بين المصلحتين ] (فتاوى اللجنة الدائمة 8/306 )
ترجمہ:
سعودی فتاویٰ کمیٹی الجنة دائمہ نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے جس  کے سرپرست شیخ عبداللہ بن باز رحمہ اللہ ہیں، وہ اپنے فتویٰ میں کہتے ہیں کہ جسکی عید کی نماز رہ جائے تو وہ اسی طریقے پر پڑھے گا جس طرح عید کی نماز پڑھی جاتی ہے لیکن(تنہا کیلے) اس میں خطبہ نہیں ہو گا ، اور امام مالک، شافعی، احمد اور نخعی اور دوسروں کا قول ہے اور علماء میں سے دیگر اہل علم کا بھی یہی قول ہے،
اور اصل میں یہ قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے جب تم نماز كے ليے آؤ تو تم وقار اور سكون سے آؤ جو تمہيں مل جائے اسے ادا كرو، اور جو رہ جائے اس كى قضاء كرو "
اور انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:" جب ان كى امام كے ساتھ نماز عيد رہ جاتى تو وہ اپنے اہل و عيال اور غلاموں كو جمع كيا پھر ان كے غلام عبد اللہ بن ابى عتبہ اٹھ كر انہيں دو ركعت پڑھاتے اور ان ميں تكبريں كہتے.
جو شخص عيد كے روز آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو وہ خطبہ سنے اور پھر اس كے بعد نماز ادا كرے تا كہ دونوں مصلحتوں كو جمع كر سكے"

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے. انتہى

مستقل فتوى اينڈ علمى ريسرچ كميٹى.
الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 306 )

*ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ ویسے تو عیدگاہ جا کر تمام مرد و عورت اجتماعی نماز ادا کریں، لیکن کسی عذر بارش،یا خوف وغیرہ یا کسی وجہ سے عیدگاہ نا جا سکیں یا تاخیر سے پہنچیں تو اپنے گاؤں محلے کی مسجد یا کسی کھلی جگہ یا گھر میں بھی کچھ افراد اکٹھے ہو کر عید کی نماز پڑھ سکتے ہیں، طریقہ وہی ہو گا پہلے نماز اور پھر خطبہ،اور اگر کوئی اکیلا شخص عیدگاہ نہیں پہنچ پایا یا کسی جگہ کوئی خطبہ دینے والا نہیں تو وہ بغیر خطبہ کے جماعت ساتھ یا تنہا ہی عید کی نماز دو رکعت زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھ لیں،اور اگر کوئی اس وقت عیدگاہ پہنچے کہ نماز کی جماعت ہو رہی ہو تو وہ اسی وقت شامل ہو جائے نماز میں اور جتنی نماز رہ جائے اسکو امام کے سلام کے پھیرنے کے بعد پوری کر لے،*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📚قضائے عمری کا کیا حکم ہے؟ جس شخص کی بھول سے یا جان بوجھ کر بہت سی نمازیں رہ جائیں تو وہ انکی قضا کیسے دے گا؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-122))

📚(عیدین کی نماز عیدگاہ یا مسجد اور گھر میں بھی پڑھ سکتے ؟ نیز نماز عید کا مسنون طریقہ کیا ہے؟دیکھیں، سلسلہ نمبر-124)

📚(قربانی کے مسائل کے بارے مزید جاننے کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-59 تا 77)

📚رمضان کے مسائل کے لیے دیکھیں سلسلہ نمبر-108 سے لیکر 126 تک)

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Qurbani ka Gost kitne dino tak rakh kar Kha Sakte hai, kya Jyada dino tak istemal karne se Qurbani jayez nahi hota?

Kya Qurbani ka Gost 4-5 dino tak jama kar sakte hai?

Kya Qurbani ka Gost Jyada dino tak Freeze me ya kisi tarah rakh kar istemal karne se Qurbani jayez nahi hoga?

Sawal: Qurbani ka Gost jyada se jyada kitne dino tak istemal kar sakte hai? Kya Qurbani ka Gost 3 din se jyada Istemal karne se Pyare Nabi Sallahu Alaihe wasallam ne mana farmaya tha?

" मै इतने पैसे लगाकर कुर्बानी नही करूँगा बल्कि इसी पैसे से किसी गरीब की मदद कर दूंगा .

Aqeeqa ke liye Cow aur Camel me kitne baccho ka aqeeqa ho sakta hai?

Eid Ki Namaj padhne ka Sunnat tarika?

Kya Aeibdar Janwaro ki Qurbani Ho sakti hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-345"

سوال- قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ کتنے دن تک استعمال کر سکتے ہیں؟ نیز کیا قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ استعمال کرنے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا تھا؟

Published Date 7-8-2020

جواب..!
الحمدللہ..!

*کچھ لوگ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں، یا برا محسوس کرتے ہیں، اور دلیل دیتے ہیں کہ صاحب شریعت نے اس سے منع کیا تھا،جب کہ وہ ممانعت وقتی تھی، بعد میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود اسکی اجازت دے دی تھی ، کہ قربانی کا گوشت کھاؤ بھی اور صدقہ بھی کرو اور  ذخیرہ بھی کرو، پھر اس حکم کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قربانی کے گوشت کو کئی کئی دنوں اور مہینوں تک ذخیرہ کرتے اور کھاتے تھے*

دلائل درج ذیل ہیں..!

صحیح بخاری
کتاب: قربانیوں کا بیان
باب: قربانی کا گوشت کس قدر کھایا جائے اور کس قدر جمع کیا جاسکتا ہے
حدیث نمبر: 5569
حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ ضَحَّى مِنْكُمْ فَلَا يُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبَقِيَ فِي بَيْتِهِ مِنْهُ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ نَفْعَلُ كَمَا فَعَلْنَا عَامَ الْمَاضِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُلُوا، ‏‏‏‏‏‏وَأَطْعِمُوا، ‏‏‏‏‏‏وَادَّخِرُوا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ ذَلِكَ الْعَامَ كَانَ بِالنَّاسِ جَهْدٌ فَأَرَدْتُ أَنْ تُعِينُوا فِيهَا.
ترجمہ:
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن الاکوع ؓ نے بیان کیا کہ  نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا کہ جس نے تم میں سے قربانی کی تو تیسرے دن وہ اس حالت میں صبح کرے کہ اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ بھی باقی نہ ہو۔ دوسرے سال صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس سال بھی وہی کریں جو پچھلے سال کیا تھا۔  (کہ تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت بھی نہ رکھیں) ۔ نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا کہ اب کھاؤ، کھلاؤ اور جمع کرو۔ پچھلے سال تو چونکہ لوگ تنگی میں مبتلا تھے، اس لیے میں نے چاہا کہ تم لوگوں کی مشکلات میں ان کی مدد کرو۔

صحیح مسلم
کتاب: قربانی کا بیان
باب: ابتدائے اسلام میں تین دن کے بعد قربانیوں کا گوشت کھانے کی ممانعت اور پھر اس حکم کے منسوخ ہونے اور پھر جب تک چاہئے قربانی کا گوشت کھاتے رہنے کے جواز کے بیان میں
حدیث نمبر: 1971
(اسلام360 حدیث نمبر-5103)
حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ أَخْبَرَنَا رَوْحٌ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَکْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ نَهَی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَکْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَکْرٍ فَذَکَرْتُ ذَلِکَ لِعَمْرَةَ فَقَالَتْ صَدَقَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ تَقُولُ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ حَضْرَةَ الْأَضْحَی زَمَنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادَّخِرُوا ثَلَاثًا ثُمَّ تَصَدَّقُوا بِمَا بَقِيَ فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذَلِکَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ النَّاسَ يَتَّخِذُونَ الْأَسْقِيَةَ مِنْ ضَحَايَاهُمْ وَيَجْمُلُونَ مِنْهَا الْوَدَکَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا ذَاکَ قَالُوا نَهَيْتَ أَنْ تُؤْکَلَ لُحُومُ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ فَقَالَ إِنَّمَا نَهَيْتُکُمْ مِنْ أَجْلِ الدَّافَّةِ الَّتِي دَفَّتْ فَکُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا
ترجمہ:
اسحاق بن ابرہیم حنظلی، روح، مالک، عبداللہ بن ابی بکر، عبداللہ بن واقد ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے تین دنوں کے بعد قربانیوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے حضرت عبداللہ بن ابی بکر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرہ ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن واقد نے سچ کہا ہے میں نے حضرت عائشہ ؓ کو فرماتے ہوئے سنا آپ فرماتی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں عیدالاضحی کے موقع پر کچھ دیہاتی لوگ آگئے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قربانیوں کا گوشت تین دنوں کی مقدار میں رکھو پھر جو بچے اسے صدقہ کردو پھر اس کے بعد صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ لوگ اپنی قربانیوں کی کھالوں سے مشکیزے بناتے ہیں اور ان میں چربی بھی پگھلاتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اور اب کیا ہوگیا ہے؟ صحابہ ؓ نے عرض کیا آپ ﷺ نے تین دنوں کے بعد قربانیوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا میں نے ان ضرورت مندوں کی وجہ سے جو اس وقت آگئے تھے تمہیں منع کیا تھا لہذا اب کھاؤ اور کچھ چھوڑ دو اور صدقہ کرو۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کی شرح کرتے ہیں ہوئے کہتے ہيں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان :
( میں نے تو تمہيں ان آنے والوں کی وجہ سےروکا تھا ) یہاں پران کمزور اورغریب دیھاتی لوگوں کی غمخواری کرنے کے لیے روکنا مراد ہے ،
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : ( میں نے توتمہيں ان آنےوالوں کی وجہ سے روکا تھا جوآئے تھے لھذا کھاؤ اور ذخیرہ کرو اورصدقہ بھی کرو ) یہ قربانی کا گوشت تین دن سے زيادہ جمع کرنے کی ممانعت ختم ہونے کی صراحت ہے ، اور اس میں کچھ گوشت صدقہ کرنے اورکھانے کا بھی حکم ہے ۔
(شرح مسلم للنووی )

جامع ترمذی
کتاب: قربانی کا بیان
باب: تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 1510
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ،‏‏‏‏ وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ،‏‏‏‏ وَغَيْرُ وَاحِدٍ،‏‏‏‏ قَالُوا:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‏‏‏‏ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ،‏‏‏‏ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  كُنْتُنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثٍ لِيَتَّسِعَ ذُو الطَّوْلِ عَلَى مَنْ لَا طَوْلَ لَهُ،‏‏‏‏ فَكُلُوا مَا بَدَا لَكُمْ وَأَطْعِمُوا وَادَّخِرُوا ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب،‏‏‏‏ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ،‏‏‏‏ وَعَائِشَةَ،‏‏‏‏ وَنُبَيْشَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي سَعِيدٍ،‏‏‏‏ وَقَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ،‏‏‏‏ وَأَنَسٍ،‏‏‏‏ وَأُمِّ سَلَمَةَ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،‏‏‏‏ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ.
ترجمہ:
بریدہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  میں نے تم لوگوں کو تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع کیا تھا تاکہ مالدار لوگ ان لوگوں کے لیے کشادگی کردیں جنہیں قربانی کی طاقت نہیں ہے، سو اب جتنا چاہو خود کھاؤ دوسروں کو کھلاؤ اور  (گوشت)  جمع کر کے رکھو ١ ؎۔  
امام ترمذی کہتے ہیں:
١ - بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
٢ - اہل علم صحابہ اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے،  ٣ - اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، نبیشہ، ابوسعید، قتادہ بن نعمان، انس اور ام سلمہ ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں۔  
تخریج دارالدعوہ:
صحیح مسلم/الجنائز ٣٦ (٩٧٧/١٠٦)، والأضاحي ٥ (٩٧٧/٣٧)،
سنن ابی داود/ الأشربة ٧ (٣٦٩٨)،
سنن النسائی/الجنائز ١٠٠ (٢٠٣٤)،
سنن ابی داود/ الأضاحي ٣٦ (٤٤٣٤، ٤٤٣٥)، والأشربة ٤٠ (٥٦٥٤- ٥٦٥٦) (تحفة الأشراف: ١٩٣٢)، و مسند احمد (٥/٣٥٠، ٣٥٥، ٣٥٦، ٣٥٧، ٣٦١) (صحیح  )  
وضاحت: ١ ؎:
کیونکہ اب اللہ نے عام مسلمانوں کے لیے بھی کشادگی پیدا کردی ہے اور اب اکثر کو قربانی میسر ہوگئی ہے لہذا گوشت ذخیرہ کر سکتے ہو،
قال الشيخ الألباني:  صحيح، الإرواء (4 / 368 - 369)  
صحيح وضعيف سنن الترمذي الألباني: حديث نمبر 1510

صحیح بخاری
کتاب: کھانے کا بیان
باب: اگلے لوگ اپنے گھروں اور سفر میں کسی قسم کا کھانا اور گوشت وغیرہ ذخیرہ کر کے رکھتے تھے اور حضرت عائشہ (رض) اور اسماء (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) کے لئے ایک سفرہ (توشہ دان) بنایا تھا
حدیث نمبر: 5423
حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَائِشَةَ:‏‏‏‏ أَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُؤْكَلَ لُحُومُ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثٍ ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا فَعَلَهُ إِلَّا فِي عَامٍ جَاعَ النَّاسُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرَادَ أَنْ يُطْعِمَ الْغَنِيُّ الْفَقِيرَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كُنَّا لَنَرْفَعُ الْكُرَاعَ فَنَأْكُلُهُ بَعْدَ خَمْسَ عَشْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ مَا اضْطَرَّكُمْ إِلَيْهِ ؟ فَضَحِكَتْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ بُرٍّ مَأْدُومٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ. وَقَالَ ابْنُ كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَابِسٍ بِهَذَا.
ترجمہ:
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ  میں نے عائشہ ؓ سے پوچھا کیا نبی کریم  ﷺ  نے تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نبی کریم  ﷺ  نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ صرف ایک سال اس کا حکم دیا تھا جس سال قحط پڑا تھا۔ نبی کریم  ﷺ  نے چاہا تھا  (اس حکم کے ذریعہ)  کہ جو مال والے ہیں وہ  (گوشت محفوظ کرنے کے بجائے)  محتاجوں کو کھلا دیں اور ہم بکری کے پائے محفوظ رکھ لیتے تھے اور اسے پندرہ پندرہ دن بعد کھاتے تھے۔ ان سے پوچھا گیا کہ ایسا کرنے کے لیے کیا مجبوری تھی؟ اس پر ام المؤمنین ؓ ہنس پڑیں اور فرمایا آل محمد  ﷺ  نے سالن کے ساتھ گیہوں کی روٹی تین دن تک برابر کبھی نہیں کھائی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جا ملے۔ اور ابن کثیر نے بیان کیا کہ ہمیں سفیان نے خبر دی، ان سے عبدالرحمٰن بن عابس نے یہی حدیث بیان کی

سنن ابن ماجہ
کتاب: کھانوں کے ابواب
باب: دھوپ میں خشک کیا ہوا گوشت
حدیث نمبر: 3313
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ،‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ،‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَابِسٍ،‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي أَبِي،‏‏‏‏ عَنْعَائِشَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ لَقَدْ كُنَّا نَرْفَعُ الْكُرَاعَ فَيَأْكُلُهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ بَعْدَ خَمْسَ عَشْرَةَ مِنَ الْأَضَاحِيِّ.
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ  ہم لوگ قربانی کے گوشت میں سے پائے اکٹھا کر کے رکھ دیتے پھر رسول اللہ ﷺ پندرہ روز کے بعد انہیں کھایا کرتے تھے۔  
تخریج دارالدعوہ:
صحیح البخاری/الأطعمة ٢٧ (٥٤٢٣)،
( سنن الترمذی/الأضاحي ١٤ (١٥١١)،
(تحفة الأشراف: ١٦١٦٥)،
وقد أخرجہ: مسند احمد (٦/١٢٨، ١٣٦)، (حدیث مکرر ہے، دیکھے: ٣١٥٩) (صحیح  )

صحیح بخاری
کتاب: کھانے کا بیان
باب: اگلے لوگ اپنے گھروں اور سفر میں کسی قسم کا کھانا اور گوشت وغیرہ ذخیرہ کر کے رکھتے تھے اور حضرت عائشہ (رض) اور اسماء (رض) نے بیان کیا کہ ہم نے نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر (رض) کے لئے ایک سفرہ (توشہ دان) بنایا تھا
حدیث نمبر: 5424
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا نَتَزَوَّدُ لُحُومَ الْهَدْيِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ. تَابَعَهُ مُحَمَّدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِعَطَاءٍ:‏‏‏‏ أَقَالَ حَتَّى جِئْنَا الْمَدِينَةَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَا.
ترجمہ:
مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے عطاء نے اور ان سے جابر ؓ نے بیان کیا کہ  (مکہ مکرمہ سے حج کی)  قربانی کا گوشت ہم نبی کریم  ﷺ  کے زمانہ میں مدینہ منورہ لاتے تھے۔ اس کی متابعت محمد نے کی ابن عیینہ کے واسطہ سے اور ابن جریج نے بیان کیا کہ میں نے عطاء سے پوچھا کیا جابر ؓ نے یہ بھی کہا تھا کہ یہاں تک کہ ہم مدینہ منورہ آگئے؟ انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ نہیں کہا تھا۔

حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، حَدَّثَنِي الْحَارِثُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَنْصَارِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي يَزِيدَ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنِ امْرَأَتِهِ ، أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ : قَدِمَ عَلَيْنَا عَلِيٌّ مِنْ سَفَرٍ فَقَدَّمْنَا إِلَيْهِ مِنْهُ، فَقَالَ : لَا آكُلُهُ حَتَّى أَسْأَلَ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَتْ : فَسَأَلَهُ عَلِيٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " كُلُوهُ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ إِلَى ذِي الْحِجَّةِ ".
۔ یزید بن ابی یزید انصاری اپنی بیوی سے بیان کرتے ہیں کہ اس نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے قربانیوں کے گوشت کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا: سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کسی سفر سے ہمارے پاس واپس آئے، ہم نے ان کو قربانی کا گوشت پیش کیا، انھوں نے کہا: میں اس وقت تک یہ نہیں کھاؤں گا، جب تک رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھ نہیں لوں گا، پھر جب انھوں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پوچھا تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اس گوشت کو ایک ذوالحجہ سے دوسرے ذوالحجہ تک کھا سکتے ہو،
(مسند احمد حدیث نمبر-25218)
یہ سند ضعیف ہے مگر روائیت حسن ہے،
(شعيب الأرنؤوط تخريج المسند 25218 • حسن )
(والطحاوي في شرح معاني الآثار6282)
(صحیح ابن حبان حدیث نمبر-5933)
(الألبانی السلسلة الصحيحة ٧‏/٢٩٨ • إن كان يزيد سمعه من عائشة فصحيح وإلا فحسن لغيره)
(حكم الحديث: صحیح او حسن لغیرہ)

*مذکورہ تمام احادیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کا گوشت بندہ خود بھی کھائے دوست ، احباب کو تحفہ بھی دے اور صدقہ بھی کرے۔ ذخیرہ بھی کرے، وہ ذخیرہ تین دن کے لیے کرے یا تین مہینے کے لیے یا سال کیلئے کرے جائز ہے،*

*لیکن ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے آس پاس لوگوں کی ضروریات کو دیکھ لے اگر لوگ قربانیاں کم کرتے ہیں اور ضرورت مند زیادہ ہیں تو بہتر ہے زیادہ تر صدقہ کرے، لیکن اگر قربانیاں کرنے والے زیادہ ہیں اور محتاج کم ہیں تو جتنے دن کیلئے چاہے جتنا چاہے ذخیرہ کر سکتا ہے،اس میں کوئی گناہ اور کوئی حرج نہیں،*

*قربانی کا گوشت تھوڑا یا زیادہ خود کھانا یا ذخیرہ کرنا جائز ہے لیکن بہتر ہے کہ تین حصے کرے اور پھر اپنا حصہ جتنے دن مرضی کھائے اور ذخیرہ کرے*

 امام احمد رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں:
ہم عبداللہ بن عباس رضي اللہ تعالی عنہما کی حدیث کا مذھب رکھتے ہيں جس میں ہے ( وہ خود ایک تہائي کھائے اورایک تہائي جسے چاہے کھلائے ، اورایک تہائي مساکین وغرباء پرتقسیم کردے ) ۔
اسے ابوموسی اصفہانی نے الوظائف میں روایت کیا ہے اوراسے حسن کہا ہے ، اورابن مسعود ، ابن عمررضي اللہ تعالی عنہم کا قول بھی یہی ہے ، اورصحابہ کرام میں سے کوئي ان دونوں کا مخالف نہيں ۔
(دیکھیں : المغنی ( 8 / 632 )

*بعض لوگ بلاوجہ گوشت ذخیرہ کرنے والوں پر تنقید کرتے ہیں، اور لطیفے بناتے ہیں، یہ سرا سر جہالت ہے*

جب قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے مستحب ہیں، اور  پھر اپنا حصہ چاہے تو سال بھر کھائے یا چاہے تو ایک دن میں کھا لے، اس پر بلا وجہ کا اعتراض نہیں کرنا چاہیے،

اور آخری بات کہ گوشت ذخیرہ وہی کرتے ہیں ، جو درمیانے طبقے کے لوگ ہیں، جو بازار سے خرید نہیں سکتے،اور ان درمیانے طبقہ کے لوگوں اور حالیہ دور کے غرباء اور مساکین میں اتنا زیادہ فرق نہیں ہے،

فرق اتنا ہے کہ فقیر /غرباء مہینے میں ایک بار گوشت کھاتے ہونگے

تو یہ درمیانے طبقے والے ہفتے میں ایک بار،۔

 غرباء پاؤ خریدتے ہیں تو وہ کلو خرید لیتے ہونگے، بس...؟

لیکن سچ یہ ہے کہ غرباء اور مساکین کی طرح قربانی کرنے والے اکثر درمیانے طبقے کے  لوگ بھی سال بعد قربانی پر ہی جی بھر کے گوشت کھاتے ہیں، اور وہ بھی اپنے تیسرے حصے کا، حالانکہ اس تیسرے حصے میں سے بھی وہ کچھ حصہ ان لوگوں کو بانٹ دیتے ہیں جو مساکین گوشت لینے دیر سے پہنچتے ہیں،
لہذا گوشت ذخیرہ کرنے والوں پر بلاوجہ تنقید نہیں کرنی چاہیے،

سوال_ اونٹ اور گائے کی قربانی میں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم کتنے لوگ شریک ہو سکتے ہیں؟ اور اگر حصہ داروں میں سے کوئی شخص بے نماز یا مشرک ہو یا اسکی آمدن حرام کی ہو یا حصے داروں میں سے کسی ایک شخص کی قربانی کی بجائے صرف گوشت کی نیت ہو تو کیا اسکی وجہ سے باقی لوگوں کی قربانی بھی نہیں ہو گی؟

نوٹ_

*یاد رہے کہ پوسٹ کا اصل مقصد گوشت کو ذخیرہ کرنے کی ترغیب دینا نہیں، بلکہ  مقصد ان لوگوں کے اعتراض کا جواب دینا ہے جو بلاوجہ قربانی کے گوشت کو ذخیرہ کرنے سے منع کرتے ہیں.

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

((قربانی کے گوشت کی تقسیم کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیں سلسلہ نمبر-75))

(قربانی کے باقی تمام مسائل کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-59 سے 77 تک))

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦         سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Jab Bagdad ke Khalifa ne apne Bete ki Shadi ke liye pure Shahar me Hafija ladki ki talash karwa diya.

Aaj ki Khawateen ne Deen se doori ikhtiyaar ki to use Deen se door kar diya gaya.
Jin Auraton ne Sahi raste se Bhatakna chaha unhe gumrah Kar diya gaya.

آج کی عورت نے بھٹکنا پسند کیا تو اسے بھٹکا دیا گیا ہے*...

بغداد کے ایک خلیفہ کو اپنےبیٹوں بیٹے کی شادی کرنا تھی... انہوں نے پورے شہر میں اعلان کروا دیا کہ جس گھر میں جوان لڑکی ہے اور قرآن کی حافظہ ہے... وہ اپنے گھر کی کھڑکی میں رات کو ایک شمع روشن کر دے... اس رات پورے شہر کی کھڑکیوں میں شمعیں روشن تھیں...

ان کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا... اگلے دن اعلان کروایا کہ جس گھر میں موجود لڑکی حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ موطا امام مالک کی بھی حافظہ ہے... وہ رات کو اپنے گھر کی کھڑکی میں شمع روشن کرے...

اور اس رات بھی آدھے سے زیادہ شہر کی کھڑکیوں پہ شمعیں روشن تھیں...

کتنا حسین منظر ہو گا نا... ہر گھر میں کھڑکی پہ روشن شمع صرف روشنی کی نوید نہیں سنا رہی تھیں بلکہ بتا رہی تھیں کہ اسلام کا مستقبل بھی بہت روشن ہے...

وہ شمعیں اس بات کی نوید تھیں کہ ایک بہترین نسل کو پروان چڑھانے کے لیے مناسب اور بہترین تعلیم دی جا چکی ہے... ان تمام جلنے والی روشنیوں کے لرزتے شعلوں میں ایک مضبوط اسلامی معاشرے کی جھلک نمایاں ہو رہی تھی...

آج اگر ایسا اعلان کر دیا جائے تو بہت کم گھروں میں شمع روشن ہو گی اور اگر دوسرے اعلان والی شرط ساتھ رکھ دی جائے تو یقینا پورا شہر ہی تاریک پڑا ہو گا...

پتا ہے ایسا کیوں ہوا ہے... کیونکہ آج ہمیں فضول اور بے بنیاد تعلیم کے چکروں میں پھنسا دیا گیا ہے ... آج کی عورت کو مرد کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے خواب دکھا کر اسے حساب کتاب کے بھنور میں دھنسا دیا گیا ہے...

آج کی عورت کو ایک مضبوط کردار کی حامل نسل کی تربیت اور ایک اسلامی معاشرے کی بنیاد میں اہم کردار ادا کرنے جیسے اہم مقاصد سے بھٹکا دیا گیا ہے...

آج کی عورت کو ٹی وی پہ بیٹھ کے مارننگ شوز میں فضول عنوانات پہ مباحث اور فضول اور بےمقصد کاموں کی طرف اپنی ہی جیسی عورتوں کو راغب کرنے پر لگا دیا گیا ہے...

آج کی عورت کو انعامی مقابلوں میں چھینا جھپٹی کر کے دو ٹکے کے تحفے حاصل کرنے پر لگا دیا گیا ہے...

آج کی عورت نے بھٹکنا پسند کیا تو اسے بھٹکا دیا گیا ہے۔

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS