find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya Murda Insan Ki rooh Duniya me wapas aati hai?

Kya Murda Insan ki rooh duniya me waapas aati hai?
Kya Insan ki rooh maut ke bad bhi idhar udhar bhatakati hai?

*کیا مردہ انسان کی روح دنیا میں واپس آتی ہے ؟*

ہندو مذہب کے پیرو کار مردہ انسانوں کی ارواح کی دنیا میں واپسی کے قائل ہیں اور دیگر کچھ مذاہب کے لوگ بھی اس نظریہ کے قائل ہیں ۔
جبکہ اسلام کسی انسان کے مرنے کے بعد اس کی روح کی دنیا میں واپسی کی نفی کرتا ہے ، اسلام کی تعلیم تو یہ ہے جسے قرآن نے پیش کیا ہے ۔
ہر مرنے والے کی روح عالم دنیا سے روز محشر تک عالَم برزخ منتقل کردی جاتی ہے ،جہاں سے واپسی ناممکن ہے ، قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے :
حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (100)
ترجمہ :
(نافرمانوں کی ساری زندگی ایسے ہی غفلت میں گزرتی ہے ) حتی کہ جب ان میں سے کسی ایک کوموت آتی ہے ( تو) کہتا ہے اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے، تاکہ میں نیک عمل کروں جسے میں چھوڑ آیا ہوں، ( اللہ تعالی فرماتا ہے ) ہزگز نہیں، یہ تو محض ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے ، اور ان سب کے پیچھے ایک آڑ ہے اٹھائے جانے والے دن تک ''( المومنون ۹۹۔۱۰۰ )
شرح : جب کفار و مشرکین اور نافرمانوں کو اپنی موت کے آثار آنے لگیں گے اور ان کے گناہوں کے سیاہ بادل ان کی آنکھوں کے سامنے منڈلانے لگیں گے، تو کہیں گے کہ میرے رب ! مجھے مہلت دے، تاکہ دنیا میں رہ کر نیک کام کروں، تو اللہ تعالیٰ ان کی طلب کو رد کردے گا اور کہے گا کہ اب ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔(کلا انھا کلمۃ ھو قائلھا) کا ایک مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ بات یونہی ان کی زبان سے نکل رہی ہے، اگر ایسا کر بھی دیا جائے تو بھی وہ اپنے کفر پر جمے رہیں گے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانعام آیت (28) میں فرمایا ہے : (ولو ردوا لعادوا لما نھوا عنہ) اگر وہ دنیا کی طرف لوٹا بھی دیئے جائیں گے تو جس کفر و شرک سے انہیں روکا گیا تھا وہی دوبارہ کرنے لگیں گے۔ (تیسیر الرحمن )
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (سورۃ الزمر آیت 24)
ترجمہ :اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرا نہ ہو اس کی روح نیند کی حالت میں قبض کرلیتا ہے پھر جس کی موت کا فیصلہ ہوچکا ہو اس کی روح کو تو روک لیتا ہے اور دوسری روحیں ایک مقررہ وقت تک کے لئے واپس بھیج دیتا ہے۔ غور و فکر کرنے والے لوگوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ ۔

یہ واضح اور سیدھا اصولی عقیدہ قرآن نے اہل اسلام کو دیا ہے ۔
لیکن جب کسی امت میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو وہ اپنے اصلی نظریات سے انحراف کر جاتی ہے ۔ ہندؤ مذہب کا نظریہ اب نام نہاد مسلمانوں میں موجود ہے کیونکہ Indo-Pak Nation culture متفرق Relationship اور مخلوط طرز زندگی کی وجہ سے ہندو مذہب کےکچھ نظریات کچھ جاہل بدعتی مسلمانوں میں بھی آ گئے ہیں ،اور اب یہ مستقل عقیدہ کاحصہ بن چکے ہیں ۔
ہندؤں کے ہاں ایک نظریہ پایا جاتا ہے ایک انسان مرنے کے بعد کسی نہ کسی روپ میں آ سکتا ہے "سات جنم والا عقیدہ "۔
ان کی دیکھا دیکھی ان کے ماحول میں بسنے والے بے خبر مسلمانوں نے یہ عقیدہ گھڑلیا کہ ہر جمعرات کو ‛‛ مردہ انسانوں ‛‛ کی روحیں آتی ہیں اور گھر سے کچھ کھا کر جاتی ہیں ۔

اس حوالہ سے ہندستان کے اسلامی تعلیم سے بے خبر ایک مسلم گھرانے کا واقعہ۔
ایک بندہ اپنے دور کے رشتے دار کے ہاں گیا کچھ دن کے بعد جمعرات ‛‛ کا دن آگیا تو اس کی کزن نے کچھ پکانا شروع کیا تو اس نے پوچھا آج آپ لوگ کس کے لیئے کھانا پکا رہے ہو ؟ اس کی کزن نے جواب دیا ؛ کہ کوئی مہمان نہیں آ رہا ہے بلکہ آج جمعرات ہے ہمارے جو آباؤاجداد مر گئے ہیں ان کی روحیں آئیں گی ہم ان کے لیئے کھانا بنا رہے ہیں ۔ اس نے پو چھا وہ تو مر گئے ہیں گئے اب وہ کیسے کھا سکتے ہیں ؟ اس کی کزن نے جواب دیا وہ کسی بھی روپ میں آکے کھا سکتے ہیں ہمارا عقیدہ ہے ۔ بس شام ہوئی اس کی کزن نے کھانا پکا ہوا دروازہ کی چوکھٹ پر رکھ دیا اور ساتھ دیا بھی جلا دیا ۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک کتا Dog " آیا وہ سارا کھانا کھا کے چلا گیا تو اس کی کزن نے پوچھا وہ کھانا تو ایک کتا ‛‛ کھا کر چلا گیا ہے اور آپ کے دادا GrandFather " تو نہیں آئے ۔ اس نے جواب دیا ‛ وہ کسی بھی روپ میں آسکتے ہیں یعنی اس کے دادا ایک کتے ‛‛ کے روپ میں اور کھانا کھا گئے ۔"

اصلی دین اور شریعت سے بے خبری اور جہالت کا یہ عالم گذشتہ کئی صدیوں سے پاک و ہند کے خطہ میں بسنے والے مسلمانوں پر طاری ہے ،
بعض سادہ لوح لوگ جمعرات کا جمعہ کو کھانا پکا کر اپنے محلہ کے امام مسجد کوبلاتے ہیں اور ختم وغیرہ مروجہ طریق پر دلاتے اور مرنے والوں کی ارواح کو ثواب پہنچاتے ہیں ان لوگوں کو ان کے ائمہ مساجد یہ کہتے ہیں کہ ہر جمعرات کور وح قبروں یا گھروں میں آتی اور اپنے ورثاء سے توقع کرتی ہیں کہ انہیں کچھ نہ کچھ دیا جائے۔ طبعی طور پر ہر شخص کے دل پر اثر پڑتا ہے کہ جن لوگوں نے ہمارے لیے اچھے طریق پر دنیا میں کاوش کی اب وہ بے بس ہیں ان کو کچھ دینا چاہیے۔
یہ تو ہیں عوام میں جذباتی تخیلات، بلکہ یوں کہیئے کہ موہوم خیالات۔
مگر افسوس مردوں کی ارواح کی اپنے گھروں کو واپسی کا عقیدہ رکھنے والوں کے دل میں اس عقیدہ کی حقیقت جاننے کی کبھی خواہش پیدا نہیں ہوتی ،حالانکہ ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایسی باتوں کی تصدیق یا تکذیب قرآن و سنت کو بنیاد بنا کر کی جائے، جو بات قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو اسے دین و شریعت کا حصہ بالکل نہ بنایا جائے۔
بات درحقیقت یہ ہے کہ جو لوگ مر جاتے ہیں وہ دوبارہ اس دنیا میں نہیں آتے۔
اور اگر وہ مرنے کے بعد بھی اپنے گھروں کا چکر لگاتے رہتے ہیں تو مرنا کیسا ؟ اور ان کی موت پر رونا پیٹنا اور جنازہ تعزیت کس لئے ؟
قرآن پاک کا ارشاد ہے:
{ حَرَامٌ عَلیٰ قَرْیَۃٍ اَھْلَکْنَھَا اَنَّھُمْ لَا یَرْجِعُوْن }
’’ جس بستی والوں کو ہم نے ہلاک کر دیا وہ دنیا میں واپس نہ آئیں گے ۔‘‘
" اور جس بستی کو ہم نے ہلاک کردیا اس پر لازم ہے کہ وہاں کے لوگ پلٹ کر نہیں آئیں گے" ترجمہ جونا گڑھی

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کا مفہوم یوں ادا کرتے ہیں:
((قال ابن عباس: وجب، يعني: قدرا مقدرا أن أهل كل قرية أهلكوا أنهم لا يرجعون إلى الدنيا قبل يوم القيامة. هكذا صرح به ابن عباس، وأبو جعفر الباقر، وقتادة، وغير واحد )) تفسیرابن کثیر))
’’ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ مقدر کر دیا گیا ہے کہ ہر بستی والے پر جو لوگ ہلاک کر دیے گئے ہیں۔ وہ دنیا کی طرف قیامت سے پہلے واپس نہ آئیں گے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے علاوہ جناب امام ابو جعفر باقرؒ ،امام قتادہؒ اور دیگر کئی ایک اہل علم نے اس کی تصریح کی ہے۔‘‘

اورصحیح مسلم میں حدیث شریف ہے:
عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْنَا عَبْدَ اللهِ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ} [آل عمران: 169] قَالَ: أَمَا إِنَّا قَدْ سَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:«أَرْوَاحُهُمْ فِي جَوْفِ طَيْرٍ خُضْرٍ، لَهَا قَنَادِيلُ مُعَلَّقَةٌ بِالْعَرْشِ، تَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ
شَاءَتْ، ثُمَّ تَأْوِي إِلَى تِلْكَ الْقَنَادِيلِ، فَاطَّلَعَ إِلَيْهِمْ رَبُّهُمُ اطِّلَاعَةً»، فَقَالَ: " هَلْ تَشْتَهُونَ شَيْئًا؟ قَالُوا: أَيَّ شَيْءٍ نَشْتَهِي وَنَحْنُ نَسْرَحُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ شِئْنَا، فَفَعَلَ ذَلِكَ بِهِمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا رَأَوْا أَنَّهُمْ لَنْ يُتْرَكُوا مِنْ أَنْ يُسْأَلُوا، قَالُوا: يَا رَبِّ، نُرِيدُ أَنْ تَرُدَّ أَرْوَاحَنَا فِي أَجْسَادِنَا حَتَّى نُقْتَلَ فِي سَبِيلِكَ مَرَّةً أُخْرَى، فَلَمَّا رَأَى أَنْ لَيْسَ لَهُمْ حَاجَةٌ تُرِكُوا "
ترجمہ
مشہور تابعی مسروقؒ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے جناب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے (سورۃ آل عمران )اس آیت کی تفسیر دریافت کی: "جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھو، وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں، ان کو رزق دیا جاتا ہے۔"
تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے بھی اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا، آپ نے فرمایا: "ان کی روحیں سبز پرندوں کے اندر رہتی ہیں، ان کے لیے عرش الہیٰ کے ساتھ قبدیلیں لٹکی ہوئی ہیں، وہ روحیں جنت میں جہاں چاہیں کھاتی پیتی ہیں، پھر ان قندیلوں کی طرف لوٹ آتی ہیں، ان کے رب نے اوپر سے ان کی طرف جھانک کر دیکھا اور فرمایا: "کیا تمہیں کس چیز کی خواہش ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہم (اور) کیا خواہش کریں، ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں گھومتے اور کھاتے پیتے ہیں۔ اللہ نے تین بار ایسا کیا (جھانک کر دیکھا اور پوچھا۔) جب انہوں نے دیکھا کہ ان کو چھوڑا نہیں جائے گا، ان سے سوال ہوتا رہے گا تو انہوں نے نے کہا: اے ہمارے رب! ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں لوٹا دیا جائے (تاکہ ہم واپس دنیا میں جائیں اور ) ہم دوبارہ تیری راہ میں شہید کیے جائیں۔ جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھے گا کہ ان کو کوئی حاجت نہیں ہے تو ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔"(صحیح مسلم ،کتاب الامارۃ )
٭٭٭
یعنی اللہ کے محبوب شہداء جنت میں اللہ تعالی کے پوچھنے پر کہ تمہاری کوئی خواہش ہو جو ہم پورا کریں تو ہمیں بتاؤ ۔تو شہداء جو اللہ کے بہت پیارے ہیں وہ خواہش کرتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں واپس بھیجا جائے تاکہ تیری راہ میں لڑ کر پھر شہید ہوں اور شہادت کالطف اٹھائیں کیوں کہ وہ اگلے جہان پہنچ کر شہادت کا عظیم ثواب اور مزہ دیکھ چکے ہیں۔ لیکن ان کا مطالبہ یا خواہش قبول نہیں ہوتی‘‘
تو شہداء جیسے محبوب حضرات کی ارواح کو دنیا میں واپسی کی اجازت نہیں ،تو باقی ارواح کی واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
*یہ وہ مضبوط عقیدہ ہے جو قرآن و حدیث صحیح سے ثابت ہے اور عقل سلیم بھی اسے تسلیم کرتی ہے۔*
ـــــــــــــــــــــــ​

Share:

Un aayaton ka matlab jiske bare me Wasim Rizvi ne Badalne ko kaha hai?

wasim Rizvi ne Quran Ki kin aayaton ke bare me badalne ko kaha hai?
wah aayat jiske bare me wasim Rizvi ne badalne ko kaha.
un Ayaton ka matlab jiske bare me wasim Rizvi ne Supreme court me apill kiya hai.

Qur'an:7:176
अगर हम चाहते तो उसे उन आयतों के ज़रिए से बुलन्दी अता करते, मगर वह तो ज़मीन ही की तरफ़ झुककर रह गया और अपनी मन की ख़ाहिश ही के पीछे पड़ा रहा. इसलिए उसकी हालत कुत्ते की-सी हो गई कि तुम उस पर हमला करो तब भी ज़बान लटकाए रहे और उसे छोड़ दो तब भी ज़बान लटकाए रहे. यही मिसाल है उन लोगों की जो हमारी आयतों को झुठलाते हैं.
तुम ये क़िस्से इनको सुनाते रहो, शायद कि ये कुछ ग़ौर-फ़िक्र करें.
وَ لَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰہُ بِہَا وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۚ فَمَثَلُہٗ  کَمَثَلِ الۡکَلۡبِ ۚ اِنۡ  تَحۡمِلۡ عَلَیۡہِ یَلۡہَثۡ اَوۡ تَتۡرُکۡہُ یَلۡہَثۡ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاقۡصُصِ الۡقَصَصَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۱۷۶﴾
اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کر دیتے لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا سو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی وہ ہانپے یا اسکو چھوڑ دے تب بھی ہانپے  یہی حالت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ۔  سو آپ اس حال کو بیان کر دیجئے شاید وہ لوگ کچھ سوچیں۔
Qur'an:2:16
ये वो लोग हैं जिन्होंने हिदायत के बदले गुमराही ख़रीद ली है, मगर इस सौदे ने इन्हें कोई फ़ायदा नहीं दिया और ये हरगिज़ सही रास्ते पर नहीं हैं।
اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ اشۡتَرَوُا الضَّلٰلَۃَ بِالۡہُدٰی ۪  فَمَا رَبِحَتۡ تِّجَارَتُہُمۡ وَ مَا کَانُوۡا مُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۶﴾
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو ہدایت کے بدلے میں خرید لیا پس نہ تو ان کی تجارت  نے ان کو فائدہ پہنچایا اور نہ یہ ہدایت والے ہوئے۔
Qur'an:2:26
इस तरह अल्लाह एक ही बात से बहुतों को गुमराही में डाल देता है और बहुतों को सीधा रास्ता दिखा देता है और गुमराही में वो उन्हीं को डालता है जो फ़ासिक़ हैं।

یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا ؕ وَ مَا یُضِلُّ بِہٖۤ  اِلَّا الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾
اس بات کے ذریعہ بیشتر کو گُمراہ کرتا ہے اور اکثر لوگوں کو راہ راست پر لاتا ہے اور گمراہ تو صرف فاسقوں کو ہی کرتا ہے۔

Qur'an:11:19
जो लोगों को ख़ुदा के रास्ते से रोकते हैं, उसके रास्ते में टेढ़ापन तलाश करना चाहते हैं ये ही आख़िरत के इन्कारी  हैं।

الَّذِیۡنَ یَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ یَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا ؕ وَ ہُمۡ بِالۡاٰخِرَۃِ ہُمۡ کٰفِرُوۡنَ ﴿۱۹﴾
جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور اس میں کجی تلاش کر لیتے ہیں  یہی آخرت کے منکر ہیں ۔

Qur'an:7:9
हक़ीक़त ये है कि ये क़ुरआन वो राह दिखाता है जो बिलकुल सीधी है। जो लोग इसे मानकर भले काम करने लगें उन्हें ये ख़ुशख़बरी देता है कि उनके लिये बड़ा अच्छा बदला है।

اِنَّ ہٰذَا  الۡقُرۡاٰنَ  یَہۡدِیۡ  لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ وَ یُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا کَبِیۡرًا ۙ﴿۹﴾
  یقیناً یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے ۔

#WaseemRizviToubaKaro
#islam_is_the_best_religion_challenge
#IslamophobiaInIndia

Share:

Nikah Insano ka Tarika hai Bagair Nikah ke Janwar Rahte hai?

Nikah Ko Aasan banaye taki Zena mushkil ho jaye.
Nikah Insano ka tarika hai, bagair Nikah ke Janwar Rahte hai.
Janwar Bagair Nikah ke rahte hai aur Rah sakte hai lihaja Janwar se Muqabla na kare aur Nikah kare.

نکاح انسانوں کا طریقہ ہے۔

جانور بغیر نکاح کے رہتے ہیں اور رہ سکتے ہیں۔

*نکاح* .....

اپنی بچیوں کے سروں پہ دوپٹہ ڈالنے کا مقصد تب پورا ہوگا جب ان کا نکاح وقت پہ ہوگا۔

*نکاح*....

بھوک پیاس کے بعد بالغ انسان کی تیسری اہم ضرورت جنسی تسکین ہے. اور جب جائز ذریعہ نہ ہو تو بچہ / بچی گناہ اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔

*نکاح*.....

اللّه تعالی نے معاشرتی اعمال میں سے نکاح کو سب سے آسان رکھا ہے۔

*نکاح*....

ہر غیر شادی شدہ جوان لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کی طلب رکھتے ہیں اور یہ ایک فطری ضرورت ہے لہذا اپنے بالغ بچے / بچیوں کے نکاح کا بندوبست کریں۔۔

*نکاح*.....

بلوغت کے بعد مرتے دم تک نکاح انسان کے حیا کی حفاظت کرتا ہے-

*نکاح*....

بدقسمتی کی انتہا، مدارس، یونیورسٹیز میں بڑی بڑی لڑکیاں / لڑکے بغیر نکاح علم حاصل کر رہے ہیں، اور والدین کو نکاح کی پرواہ ہی نہیں۔

*نکاح*....

بغیر نکاح کے انسان " باولے کتے " کی مانند ہوتا ہے۔

*نکاح*.....

والدین اپنی اولاد پہ رحم کریں اور وقت پہ نکاح کا بندوبست کریں

*نکاح*.....

انسان کی جنسی ضرورت کا واحد باعزت حل نکاح ہے۔ اور  اگر نکاح نہیں تو زنا عام ہوگا یہ عام فہم نتیجہ ہے۔

*نکاح*....

وقت پہ نکاح اولاد کا حق ہے۔ اس میں تاخیر والدین کو گناہ گار کرتی ہے۔

*نکاح* ......

اگر بارہ تیرہ سال میں بچے بچیاں بالغ ہورہے ہیں اور 25، 30 سال تک نکاح نہیں ہورہا تو یہ جنسی مریض بھی بنیں گے اور گناہ بھی کریں گے ۔

*نکاح*....

نوجوانوں کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ "جنسی زندگی " ہے اور اس پہ بات کرنا ہمارے معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے ۔

جو والدین اولاد سے دوستی نہیں کرتے یا جو بچے والدین سے دوستی نہیں کرتے وہ مستقل نقصان کرتے رہتے ہیں۔۔

مسجد کے ممبر سے نکاح کی تحریک شروع کریں..

نکاح کو آسان بنائیں اگر اپنی معاشرت عزیز ہے ۔ بصورت دیگر معاشرے کے بگڑنے کا انتظار کریں۔۔۔

#NikahAsanFoundation

Share:

kya Kam ki wajah se Koi aurat Ghar se bahar nikal sakti hai?

Kya iddat ki halat me Koi kam kar sakti hai?
Sawal : Kya koi Aurat Iddat ki Halat me Kam ki garj se Ghar se nikal sakti hai?

سوال: عورت عدت میں ہے کام کی غرض سے گھر سے نکل سکتی ؟

*جواب تحریری

Sahih Muslim Hadees # 3721

وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، ح وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ يَقُولُ: طُلِّقَتْ خَالَتِي، فَأَرَادَتْ أَنْ تَجُدَّ نَخْلَهَا، فَزَجَرَهَا رَجُلٌ أَنْ تَخْرُجَ، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «بَلَى فَجُدِّي نَخْلَكِ، فَإِنَّكِ عَسَى أَنْ تَصَدَّقِي، أَوْ تَفْعَلِي مَعْرُوفًا

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں :  میری خالہ کو طلاق ہو گئی ،  انہوں نے  ( دورانِ عدت )  اپنی کھجوروں کا پھل توڑنے کا ارادہ کیا ،  تو ایک آدمی نے انہیں  ( گھر سے )  باہر نکلنے پر ڈانٹا ۔  وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں ،  تو آپ نے فرمایا : کیوں نہیں ،  اپنی کھجوروں کا پھل توڑو ،  ممکن ہے کہ تم  ( اس سے )  صدقہ کرو یا کوئی اور اچھا کام کرو۔
Sahih Hadees

Share:

Tin Jagahon par Jhoot (false) bolna jayez hai?

Kin Halaton me jhoot bolna jayez hai?
Kaun si jagah par Jhoot bola ja sakta hai?

تین جگہوں پر جھوٹ بولنے کے حدود*

الحمد للہ.
تين مقام پر جھوٹ بولنے كى رخصت آئى ہے جيسا كہ ترمذى اور ابو داود كى درج ذيل حديث ميں وارد ہے:

اسماء بنت يزيد رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تين جگہوں كے علاوہ كہيں جھوٹ بولنا حلال نہيں: خاوند اپنى بيوى كو راضى كرنے كے ليے بات كرے، اور جنگ ميں جھوٹ، اور
لوگوں ميں صلح كرانے كے ليے جھوٹ بولنا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1939 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4921 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور صحيح مسلم ميں ام كلثوم بنت عقبہ بن ابى معيط رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:

" جو شخص لوگوں كے مابين صلح كرانے كے ليے خير كى بات كہے اور اچھى بات نقل كرے وہ جھوٹا نہيں ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2065 ).

ابن شھاب رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" لوگ جسے جھوٹ كہتے ہيں ميں نے انہيں تين جگہوں پر بولنے كى رخصت دى گئى ہے: جنگ ميں، اور لوگوں كے مابين صلح كرانے كے ليے، اور آدمى كا اپنى بيوى اور بيوى كا اپنے خاوند سے بات چيت كرنے ميں "

خاوند اور بيوى كا آپس ميں جھوٹ بولنے سے مقصود يہ ہے كہ: آپس ميں محبت و مودت اور دائمى الفت پيدا كرنے كے ليے جھوٹ بولنا تا كہ خاندان كا شيرازہ نہ بكھرے.

مثلا خاوند اپنى بيوى سے كہتا ہو: تم تو ميرے ليے بہت قيمتى ہو.

يا پھر كہتا ہو: ميرے ليے تو تجھ سے زيادہ كوئى اور پيارا نہيں ہے.

يا پھر يہ كہے: ميرے ليے تو تم ہى سب عورتوں سے زيادہ خوبصورت ہو، اس طرح كے الفاظ كہے.

اس سے وہ جھوٹ مراد نہيں ہے جس حقوق مارنے كا باعث بنتا ہو، يا پھر واجبات و فرائض سے فرار ہونے كا باعث بنتا ہو.

امام بغوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ابو سليمان خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں: ان امور ميں بعض اوقات انسان كو زيادہ بات كہنے كى ضرورت پيش آ جاتى ہے، اور سلامتى حاصل كرنے اور ضرر و نقصان كو دور كرنے كے ليے سچائى و صدق سے تجاوز كرنا پڑ جاتا ہے.

بعض حالات ميں تھوڑے اور قليل سے فساد كى اجازت دى گئى ہے، كيونكہ اس سے اصلاح كى اميد ہوتى ہے، چنانچہ دو اشخاص كے مابين صلح كرانے كے ليے جھوٹ بولنا: يعنى ايك شخص كى جانب سے دوسرے شخص كے سامنے اچھى بات كہنا، اور اسے اچھى بات پہنچانا جائز ہے، چاہے اس نے وہ بات اس شخص سے نہ تو سنى ہو اور نہ ہى اس نے كہى ہو اس سے وہ ان دونوں ميں اصلاح كرانا چاہتا ہے.

اور جنگ ميں جھوٹ بولنا يہ ہے كہ: وہ اپنى جانب سے قوت و طاقت ظاہر كرے، اور ايسى بات چيت كرے جس سے اس كے ساتھى اور فوجى طاقتور ہو جائيں، اور اپنے دشمن كے خلاف تدبير كرے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" الحرب خدعۃ "
جنگ دھوكے كا نام ہے "

ديكھيں: شرح السنۃ ( 13 / 119 ).

اور خاوند كا اپنى بيوى كے ساتھ جھوٹ يہ ہے كہ وہ بيوى سے وعدہ كرے اور اسے اميد دلائے، اور اپنے دل ميں موجود محبت سے بھى زيادہ محبت كا اظہار كرے تا كہ ان دونوں كى زندگى صحيح بسر ہو سكے، اور اس طرح وہ بيوى كے اخلاق كى بھى اصلاح كر سكے "
واللہ اعلم.

سفيان بن عيينہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اگر كسى شخص نے كسى دوسرے شخص سے معذرت كى اور اسے راضى كرنے كے ليے وہ كلام ميں تبديلى كر كے اچھى كلام پيش كرتا ہے تو وہ جھوٹا نہيں كہلائيگا كيونكہ حديث ميں ہے:

" لوگوں كے مابين صلح كرانے والا شخص جھوٹا نہيں ہے"

ان كا كہنا ہے: چنانچہ اس دوسرے شخص كے مابين اصلاح كا ہونا دوسرے لوگوں ميں صلح كرانے سے افضل ہے.

بيان كيا جاتا ہے كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور ميں ايك شخص نے اپنى بيوى سے كہا:

" ميں تمہيں اللہ كى قسم دے كر پوچھتا ہوں كيا تم مجھ سے محبت كرتى ہو ؟

تو بيوى نے جواب ديا: جب تم مجھے اللہ كى قسم دے كر پوچھ رہے ہو تو پھر ميرا جواب يہ ہے كہ ميں تم سے محبت نہيں كرتى.

تو وہ شخص عمر رضى اللہ تعالى عنہ كے پاس آيا اور واقعہ بيان كيا تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس كى بيوى كو بلا كر دريافت كيا:

كيا تم اپنے خاوند سے كہتى ہو كہ ميں تجھ سے محبت نہيں كرتى ؟
اس عورت نے جواب ديا:

اے امير المومين اس نے مجھے اللہ كى قسم دے كر پوچھا تھا تو كيا ميں جھوٹ بولتى ؟

عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا: ہاں تم جھوٹ بول ديتى، كيونكہ سارے گھر محبت پر قائم نہيں ہيں، ليكن لوگ اسلام اور احساب پر ايك دوسرے سے معاشرت كرتے ہيں " انتہى

صحيح مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" رہا خاوند كا اپنى بيوى سے جھوٹ بولنا اور بيوى كا اپنے خاوند سے جھوٹ بولنا تو اس سے محبت كا اظہار ہے، اور جو چيز لازم نہيں اس كا وعدہ كرنا مراد ہے.

ليكن اپنے ذمہ بيوى يا خاوند كے حقوق كى ادائيگى نہ كرنے ميں دھوكہ دينا، يا پھر خاوند يا بيوى كا حق غصب كرنا بالاجماع حرام ہے "

واللہ تعالى اعلم " انتہى

اور فتح البارى ميں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہيں:

" اس پر اتفاق ہے كہ خاوند اور بيوى كے حق ميں جھوٹ سے مراد يہ ہے كہ اس ميں نہ تو حق ساقط ہوتا ہو اور نہ ہى كسى دوسرے كا حق غصب ہوتا ہو " انتہى

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اسى طرح خاوند كا اپنى بيوى اور بيوى كا اپنے خاوند سے بات چيت كرنا جس ميں محبت و الفت اور مودت پيدا ہوتى ہو مصلحت ميں سے، مثلا وہ بيوى سے كہے:

تم ميرے ليے بہت قيمتى ہو، اور تم سب عورتوں سے زيادہ ميرے ليے محبوب ہو، چاہے وہ اس ميں جھوٹا بھى ہو ليكن محبت و مودت اور دائمى الفت و پيار پيدا كرنے كے ليے اور پھر مصلحت بھى اس كى متقاضى ہے " انتہى

ديكھيں: شرح رياض الصالحين ( 1 / 1790 ).

واللہ اعلم .

Share:

Insan ko Sabr kab tak Karna chahiye? "Marsmallow theory"

Sabar ka daman kabhi mat chhore.

Sabar Aisa sawari hai jo apne upar sawar musafir ko kabhi girne nahi deta.

स्कूल में टीचर ने अपने क्लास के सभी बच्चों को एक-एक टॉफ़ी दी और फिर एक अजीब बात कही 

सुनो, बच्चों ! आप सभी को दस मिनट तक अपनी टॉफ़ी नहीं खानी है और यह कहकर वह क्लास रूम से बाहर चले गए ।
कुछ वक्त के लिए क्लास में खामोशी छाया रहा, हर बच्चा अपने सामने रखी टॉफ़ी को देख रहा था और हर गुज़रते पल के साथ खुद को रोकना मुश्किल पा रहा था ।
दस मिनट पूरे हुए और टीचर क्लास रूम में आ गए।

टीचर ने क्लास में सभी बच्चों का जायेजा लिया जिससे उन्होंने पाया के पूरी क्लास में सात बच्चे ऐसे थे, जिनकी टॉफ़ियां जैसे के तैसी  थी, जबकि बाकी के सभी बच्चे टॉफ़ी खाकर उसके रंग और स्वाद पर बातें कर रहे थे।
टीचर ने चुपके से इन सात बच्चों के नाम अपनी डायरी में लिख लिये । किसी को कुछ नहीं कहा और पढ़ाना शुरू कर दिया ।इस टीचर का नाम Walter Mischel था ।
कुछ वर्षों के बाद टीचर वाल्टर ने अपनी वही डायरी खोली और सातों बच्चों के नाम निकाल कर उनके बारे में जानकारी हासिल  की।
उन्हें पता चला कि सातों बच्चों ने अपने जिंदगी में कई कामयाबियां को हासिल किया है और अपनी - अपनी फील्ड के लोगों में सबसे कामयाब  रहे हैं।
टीचर वाल्टर ने अपनी उसी क्लास के बाकी स्टूडेंट्स की भी जानकारी हासिल की तो उन्होंने इस नतीजे पे पहुंचा कि उनमें से ज्यादातर बच्चे साधारण जीवन जी रहे हैं, जबकि उनमें कुछ ऐसे भी थे जिन्हें कठिन आर्थिक और सामाजिक परिस्थितियों का सामना करना पड़ रहा है।

इस तहकीक (Research) का  नतीजा टीचर वाल्टर ने एक वाक्य में यह निकाला कि -
"जो व्यक्ति केवल दस मिनट धैर्य नहीं रख सकता, वह जीवन में कभी आगे नहीं बढ़ सकता।"
इस शोध को दुनिया भर में शोहरत मिली और इसका नाम "मार्श मेलो थ्योरी" रखा गया था क्योंकि टीचर वाल्टर ने बच्चों को जो टॉफ़ी दी थी उसका नाम "मार्श मेलो" था।
इस थ्योरी के मुताबिक दुनिया के सबसे सफल लोगों में कई गुणों के साथ एक गुण 'धैर्य' यानी सब्र जरूर पाया जाता है, क्योंकि यह खूबी इंसान में बर्दाश्त करने की सलाहियत को बढ़ाता है, जिसकी बदौलत आदमी मुश्किल हालात में भी मायूस नहीं होता और वह एक कामयाब शख्स बन जाता है।
इसलिए कामयाब जिंदगी और सुखद भविष्य के लिए बचपन से ही बच्चों में धैर्य के गुण का विकास करें।

धैर्य, सब्र (Patience) धैर्य सभी को करना पड़ता है। कोई भी सीधा और इतनी आसानी से अपने मकसद में कामयाब नही होता। उसे मेहनत करना पड़ता है साथ सब्र का लगाम भी लगाना चाहिए।

जैसे- आप पढ़ाई करते है तो सीधी कॉलेज में नही पहुँच जाते है। आपको पहली, दूसरी कक्षों से होते हुए धीरे-धीरे कॉलेज में पहुँचते है या आप खाना बनाते है तो वह तुरंत नही बन जाता आपको कुछ वक्त इंतजार करना पड़ता है खाना के पकने के लिए। 
वैसे ही जिंदगी में कामयाबी के लिए आपको सब्र रखना पड़ता है। 
अपने असफलताओं से निराश नही होना चाहिए, सब्र और मेहनत करते रहे आपको सफलता जरुर मिलेगा।

सब्र आपको ऐसा मौका देता है जिससे आप आसानी से अपने लक्ष्यों तक पहुँच जाए।  इसलिए सब्र करते रहे। 

दोस्तों अगर आप जिंदगी में कामयाबी चाहते हो तो आपके अंदर सब्र का होना बहुत ज़रूरी है, जिस शख्स में सब्र करने की सलाहियत नहीं होता वो व्यक्ति बहुत ही कमज़ोर होता है |

एक बहादुर व्यक्ति वही होता है जिसमें सब्र होता है किसी भी काम में कामयाबी हासिल करने के लिए सबसे पहले आपको  सब्र करना होगा, दोस्तों सब्र करना सीखो जिंदगी में वक़्त के साथ सब कुछ ठीक हो जाता है बस आपके अंदर सब्र करने की सलाहियत होना चाहिए, सब्र का फ़ल भले ही थोड़ी देर से मिले लेकिन इसके जरिए मिला हुआ फ़ल मुकम्मल तौर परे मीठा ही होता है !

अगर किसी ने आपका दिल दुखाया तो सब्र करो यकीन मानो उसका जवाब खुद वक़्त देगा जिस इंसान में मुश्किल से मुश्किल वक्त में भी सब्र करने की ताक़त होती है यकीन मानो वो दुनियां का सबसे ताक़तवर इंसान होता है, जल्दबाज़ी में लिया गया हर फैसला नुकसान ही देता है इसलिए ही तो कहा जाता है की सब्र करो। 
✍️सब्र एक ऐसी सवारी है जो अपने सवार को कभी गिरने नहीं देती ना किसी के क़दमों में ना किसी के नज़रों में। 

✍️जैसे सोना आग में चमकता है, वैसे ही धैर्यवान आपदा में दमकता है।

✍️जिन्दगी दो दिन की हैं! एक दिन आप के हक़ में, एक दिन आप के खिलाफ। जिस दिन हक़ में हो तो गुरूर मत करना और जिस दिन खिलाफ हो तो थोड़ा सा सब्र जरूर करना… ।
✍️धैर्य एक गुण है, और मैं धैर्य सीख रहा हूं, यह एक मुश्किल सबक है मगर नामुमकिन भी नही
✍️धैर्य का एक मिनट, शांति के दस साल
✍️दुश्मन का लोहा भले ही गरम हो, लेकिन हथोड़ा ठण्डा रह कर ही काम दे सकता है !!
✍️वो शख्स बहुत ही गरीब होता है जिसके पास बर्दास्त करने की ताकत नहीं होता।
✍️जो व्यक्ति सब्र का मालिक है वो दुनियां में सभी चीज़ो का मालिक बनेगा जो वह हासिल करना चाहता है।

✍️हर इंसान सब्र की तारीफ तो करता है, लेकिन कोई भी इस पर अमल करने को तैयार नहीं होता है इसलिए खुद भी अमल करे और दूसरो को भी नसीहत करे।

कभी कभी इंसान दिल हल्का करने के चक्कर में बहुत सारे बोझ रूह पर भी डाल देता है.... किसी से अपना दुख कहने से कहीं बेहतर है दुख को अंदर ही दफन कर दिया जाए।

अपने दोस्त वा अहबाब तक इस पैगाम को जरूर पहुचाए।

नोट: यह लेख कही और से कॉपी किया गया है,एडमिन के तरफ से इसमें कुछ परिवर्तन भी किया गया।

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS