find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 02)

Husn Bin Sba ka Apne Ustad ke Pas Talim hasil karne ke liye jana.
Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 02)
Aurat me itni Taqat hoti hai ke wah Taqatwar, Zalim aur Zabir Badshah ko Uske Takht-o-Taaj se utha kar apne Pairon me Baitha sakti hai.
حسن بن صباح اور اسکی  مصنوعی جنت
۔
قسط نمبر/2 Part
۔
داستان گو اس داستان کو وہاں تک لے گیا ہے جہاں حسن بن صباح خواجہ طوسی نظام الملک کی سفارش سے سلجوقی سلطان ملک شاہ کا معتمد خاص بن جاتا ہے، حسن اور خواجہ طوسی امام مؤافق کے مدرسے سے فارغ التحصیل ہوکر نکلے تو ان کی ملاقات بیس اکیس سال بعد سلطان ملک شاہ کے محل میں ہوئی تھی، اگر اس بیس اکیس سال کے عرصے کی روئیداد نہ سنائی جائے تو تاریخ کی یہ ہولناک اور شرمناک داستان ادھوری رہ جائے گی، یہی وہ عرصہ ہے جس میں حسن بن صباح حسن بن ابلیس بنا تھا ،اسی عرصے میں اس نے علم نجوم اور علم سحر میں دسترس حاصل کی تھی۔
کیا یہ اچھا نہ ہو گا کہ داستان گو آپ کو بیس اکیس سال پیچھے لے جائے جب حسن کے باپ علی بن احمد نے اسے امام مؤافق کے مدرسے میں داخل کرانے سے بہت پہلے ایک اسماعیلی عالم عبدالملک بن عطاش کی شاگردی میں بٹھایا تھا۔
کوئی انسان اپنے آپ ہی گناہ گار نہیں بن سکتا، اور کوئی انسان اپنے آپ ہی زاہد اور متقی نہیں بن سکتا، کچھ حالات اور چند انسان مل کر ایک انسان کو بگاڑتے یا بناتے ہیں۔
حسن بن صباح کا کردار اسی روز ایک خاص سانچے میں ڈھلنا شروع ہو گیا تھا جس روز باپ اسے عبدالملک بن عطاش کے پاس لے گیا تھا۔ عبدالملک حسن کے باپ کو اچھی طرح جانتا تھا جس طرح ایک جسم کے دو ہاتھ ایک دوسرے کو جانتے پہچانتے ہیں، عبدالملک علی ابن احمد کی عیاریوں سے بھی واقف تھا اور وہ علم جوتش اور نجوم کی بھی سوجھ بوجھ رکھتا تھا۔
اے ابن عطاش !،،،،،حسن کے باپ نے اسے عبدالملک بن عطاش کے سامنے بٹھا کر کہا ۔۔۔یہ میرا ایک ہی بیٹا ہے ،میں نہیں چاہتا کہ میرے مرنے کے بعد یہ گمنام ہو جائے، یہ اس سے زیادہ شہرت حاصل کرے جو میں نے حاصل کی تھی۔
ایک پہلو اپنی زندگی کا یہ بھی سامنے رکھ علی!،،،،،ابن عطاش نے کہا ۔۔۔تو نے شہرت تو اتنی حاصل کی ہے کہ اِس جگہ کے حاکم کے ساتھ بھی تیرا اٹھنا بیٹھنا ہے، لیکن یہ کوئی اچھی شہرت نہیں۔
شہرت تو ہے ابن عطاش!،،،،، علی بن احمد نے کہا۔۔۔ میں کہتا ہوں یہ نام پیدا کرے اچھا یا برا۔
بچے کو اندر لے آ۔
علی بن احمد اپنے بیٹے حسن بن صباح کو اندر لے گیا اور عبدالملک ابن عطاش کے سامنے بٹھا دیا ،عبدالملک نے حسن کے سر سے دستار اتار دی اور اس کے سر پر اس طرح ہاتھ رکھا کہ اس کی انگلیاں حسن کی پیشانی پر تھیں، عبدالملک نے انگلیاں اس کی پیشانی پر آہستہ آہستہ پھیری ، پھر اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں تھام کر ذرا اوپر کیا اور حسن کی آنکھوں میں بڑی غور سے دیکھا، پھر اس کے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں پھیلا کر دیکھیں، ہتھیلیوں کو غور سے دیکھتے دیکھتے عبدالملک نے اپنا چہرہ یوں تیزی سے پیچھے کر لیا جیسے اس بچے کی ہتھیلیوں سے اچانک سانپ نکل آیا ہو۔
عبدالملک بن عطاش نے کاغذ قلم لے کر کاغذ پر قلم سے خانے بنائے، اور ہر خانے میں کچھ لکھا وہ وقفے وقفے سے حسن کے چہرے کو دیکھتا تھا۔
بچے!،،،، ابن عطاش نے حسن سے کہا ۔۔۔تو باہر جا بیٹھ ۔
حسن بن صباح باہر نکل گیا تو ابن عطاش نے اس کے باپ کی طرف دیکھا اور دیکھتا ہی رہا۔
جو کہنا ہے کہہ دے ابن عطاش!،،،،، علی نے کہا ۔۔۔میں جانتا ہوں کہ جو تو کہے گا وہ تجھے تیرے علم اور ستاروں نے بتایا ہے۔
تیری بیوی کی کوکھ سے ایک نبی پیدا ہوا ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا ۔
نبی !،،،،،علی بن احمد نے حیران ساہو کے پوچھا؟،،،، نبوت کا سلسلہ تو ختم ہوچکا ہے۔
نبوت کا سلسلہ اللہ کی طرف سے ختم ہوا ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا ۔۔۔۔اللہ کے بندوں کی طرف سے  یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا، نہ کبھی ختم ہوگا، اب تک کتنے ہی آدمی نبوت کا دعویٰ کر چکے ہیں، کیا تو نے صاف ابن صیاد مدنی کی نبوت کا قصہ نہیں سنا ،وہ یہودی تھا اس نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی زندگی میں ہی نبوت کا دعوی کردیا تھا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ملاقاتیں بھی ہوئیں تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار اس سے پوچھا ،،،کیا تجھ پر وحی نازل ہوتی ہے ؟،،،،
صاف ابن صیاد نے جواب دیا۔۔۔ میرے پاس ایک صادق اور ایک کاذب آتا ہے ۔
صادق اور کاذب کا کیا مطلب؟،،،، علی بن احمد نے پوچھا۔
مطلب سمجھنے کی کوشش کرو علی!،،،، ابن عطاش نے جواب دیا۔۔۔ مطلب یہ کہ میرے پاس ایک فرشتہ آتا ہے ،اور ایک ابلیس ۔
وہ کہنا یہ چاہتا تھا کہ فرشتہ بھی اور ابلیس بھی اس کے دماغ میں اپنے اپنے اشارے اور اپنے اپنے امور غیب ڈال جاتے ہیں، در اصل بات یہ تھی کہ صاف ابن صیاد علم سحر میں مہارت رکھتا تھا، ساحر ہم بھی ہیں ،اس علم کے اسرارورموز میرے پاس بھی ہیں، لیکن یہ علم یہودیوں کو اتنا مرغوب ہے کہ انہوں نے اسے بہت ہی طاقتور بنا دیا ہے، اور اس میں ابلیسیت بھر دی ہے، ان کے ساحر بالکل صحیح پیشین گوئی کر سکتے ہیں، صاف ابن صیاد بھی پیشن گوئی کرسکتا تھا ،اسے اس نے یوں بیان کیا کہ ایک فرشتہ اس کے پاس آتا ہے جو اسے خدا کا پیغام دیتا ہے، اور ابلیس بھی آتا ہے جو اسے آنے والے حالات بتا جاتا ہے۔
تم میرے بیٹے کی بات کر رہے تھے ۔۔۔ حسن بن صباح کے باپ نے کہا۔۔۔ یہ کس قسم کا نبی بنے گا؟
جیسے کئی اور نبی بنے۔۔۔ابن عطاش نے کہا۔۔۔ تم محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو آخری نبی مانو نہ مانو ،میں اس حدیث کا منکر نہیں ہوسکتا،،،،،،،،،جھوٹے نبی آتے رہیں گے اور تمہارے سامنے ایسی ایسی باتیں کریں گے جو تم نے ہی نہیں تمہارے باپ دادا نے بھی نہ سنی ہوں گی، ان سے خبردار رہنا اور اپنے ایمان کو ان سے محفوظ رکھنا، یہ تم میں گمراہی اور فتنہ پھیلائیں گے،،،،،،، طلیحہ اسدی نے نبوت کا دعوی کیا تھا، تم نے مسیلمہ کذاب کا نام سنا ہوگا ،پھر ایک عورت سجاح بنت حارث نے بھی نبوت کا دعوی کیا تھا،،،،، پھر ہوا کیا؟،،،،، صاف ابن صیاد نے اسلام قبول کر لیا تھا، طلیحہ مسلمان ہو گیا تھا ،اس نے نبی بن کر اتنی شہرت حاصل نہیں کی تھی جتنا مسلمان ہو کر میدان جنگ میں اسے ملی۔
اگر تو آنے والے وقت کے پردے اٹھا سکتا ہے تو بتا۔۔۔ علی بن احمد نے کہا ۔۔میرے بیٹے کا مستقبل کیا ہوگا ؟،،،یہ کس انجام کو پہنچے گا۔
انسان کو اپنی فطرت انجام کو پہنچایا کرتی ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا ۔۔۔انجام اچھا بھی ہوسکتا ہے برا بھی، اس کا انحصار انسان کے اپنے اعمال پر ہے، اگر میں تیرے بیٹے کی آنکھوں میں عکس غلط نہیں دیکھ رہا تو یہ اتنی زیادہ طاقت کا مالک ہوگا کہ یہ جس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھے گا وہ اس کے آگے سجدہ ریز ہو جائے گا ،اور یہ جس عورت پر نگاہ ڈالے گا وہ عورت اپنے آپ کو اس کی ملکیت میں دے دی گی ، لیکن یہ طاقت نبیوں والی نہیں ہوگی بلکہ یہ ابلیسی طاقت ہوگی۔
کیا یہ طاقت میرے بیٹے کے حق میں اچھی ہو گی؟،،،،، علی بن احمد نے پوچھا ۔
کیا تیری فطرت تیرے حق میں اچھی نہیں ؟،،،،،،ابن عطاش نے کہا ۔۔۔حاکمِ وقت تک تیری رسائی ہے، تیرے جاننے والوں میں کون ایسا ہے جس کا دل تجھے پسند کرتا ہے، لیکن کون ہے جو تیرے آگے تعظیم سے جھک نہیں جاتا، کون ہے جو سانپ سے پیار کرتا ہے لیکن ہر کوئی سانپ سے ڈرتا ہے۔
کیا تو اس کا راستہ بدل سکتا ہے؟،،،، علی بن احمد نے پوچھا؟،،،، کیا تو اس کے دل میں خوف خدا پیدا کر سکتا ہے۔
دنیا کا بادشاہ خدا ہے ۔۔۔ابن عطاش نے کہا۔۔۔ سب مانتے ہیں کہ یہ دنیا خدا نے بنائی ہے اور ایک روز خدا اسے تباہ کر دے گا ،اور یہ قیامت ہوگی، لیکن خدا کے بندوں کے دلوں پر ابلیس کی حکمرانی ہے اسے کہتے ہیں ابلیسی قوت۔
میں کہتا ہوں میرا بیٹا نام پیدا کرے۔۔۔ علی بن احمد نے کہا ۔
نام پیدا کرے گا۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔۔نام بھی ایسا پیدا کرے گا کہ رہتی صدیوں تک دنیا اسے یاد کرے گی ،لیکن اس کی تاریخ خون سے لکھی جائے گی، اس پر گناہوں کی سیاہی کے حاشیئے ہونگے۔
پارسائی میں کیا رکھا ہے ابن عطاش!،،،،،علی بن احمد نے ایسی مسکراہٹ سے کہا جو مسرت سے خالی تھی ۔۔۔میں بچہ تیری شاگردی میں بٹھا رہا ہوں ،اسے ایسے راستے پر ڈال کہ تجھ جیسا عالم بن جائے۔
علی بن احمد اپنے بیٹے حسن کو عبدالملک بن عطاش کے حوالے کرکے چلا گیا۔
   =÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ عبدالملک علی بن احمد کے گھر گیا، ان دونوں کی ملاقاتیں تو ہوتی ہی رہتی تھیں، لیکن اس رات عبدالملک بن عطاش کسی خاص مقصد سے وہاں گیا تھا۔
ابن احمد !،،،،،ابن عطاش نے کہا۔۔۔ میں نے تیرے بیٹے کو دینی اور معاشرتی علوم میں رواں کرنے کا قصد کیا تھا لیکن لڑکے کو ذہن کسی اور طرف لے جا رہا ہے ،میں تیرے ساتھ یہ بات کرنے آیا ہوں کہ تیرا بیٹا اپنے فرقے کے لیے مفید ثابت ہو سکتا ہے، اگر تو اجازت دے دے تو میں اسے اسی راستے پر ڈال دوں اور ان علوم اور عملیات کا اسے ماہر بنا دوں جو اس کے لیے ضروری ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ حسن بن صباح کا باپ جیسا خود تھا ویسا ہی اپنے بیٹے کو بنانا چاہتا تھا۔ عبد الملک ابن عطاش اپنے فرقے کا صرف مذہبی پیشوا ہی نہ تھا ، بلکہ وہ اپنے عقیدے کی تبلیغ اور فرقے کی سربلندی کے لئے زمین دوز کارروائیوں میں بھی لگا رہتا تھا، اس کا اپنا ایک بیٹا احمد جوان ہو رہا تھا ،اس بیٹے کا نام محمد بن عبدالملک ہونا چاہیے تھا لیکن اس نے اپنے آپ کو احمد بن عطاش کہلانا زیادہ پسند کیا ،عبدالملک نے اسے اپنے فرقے کی تبلیغ اور دیگر کارروائیوں کے لئے بھیج دیا تھا، اس نے حسن بن صباح کو جو تربیت دینی شروع کی تو اس کے پیش نظر اسکا یہی مشن تھا، اس نے اس کمسن لڑکے میں بڑے کام کے جوہر دیکھ لیے تھے۔
عبدالملک نے حسن کو علم نجوم اور سحر کے سبق دینے شروع کر دیے تھے، اس نے دیکھا کہ یہ لڑکا بڑی تیزی اور پورے انہماک سے یہ علوم سیکھ رہا تھا ،یہ اس کی اضافی تعلیم تھی، اصل تعلیم تو دینی اور معاشرتی علوم کی تھی۔
داستان گو پہلے سنا چکا ہے کہ اس شہر کے حاکم ابو مسلم رازی کو پتہ چل گیا کہ علی بن احمد کا بیٹا عبد الملک ابن عطاش کی شاگردی میں بیٹھا ہے، رازی جانتا تھا کہ عبدالملک اسماعیلی ہے، علی بن احمد نے رازی کو حلفیہ طور پر یقین دلا رکھا تھا کہ وہ اہل سنت ہے ،ایک روز ابو مسلم رازی نے اس سے پوچھا کہ وہ اہلسنت ہے تو اس نے اپنے بیٹے کو اسماعیلی اتالیق کی شاگردی میں کیوں بٹھایا ہے؟
علی بن احمد نے جواب دیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو نیشاپور امام مؤافق کی شاگردی میں بٹھانا چاہتا تھا، لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہیں، ابو مسلم رازی نے اسے سرکاری خزانے سے اتنی رقم دلوا دی ،اس نے اپنے بیٹے کو نیشاپور امام مؤافق کے پاس بھیج دیا ۔
حسن بن صباح فارغ التحصیل ہو کر اپنے گھر چلا گیا۔
پھر وہ بیس اکیس برس بعد اپنے ہم جماعت اور دوست خواجہ حسن طوسی کے پاس مرو گیا تھا ،اس وقت خواجہ طوسی سلجوقی سلطنت کا وزیر اعظم بن کر سلجوقی سلطان سے نظام الملک کا خطاب بھی حاصل کر چکا تھا، حسن نے نظام الملک سے کہا تھا کہ اس نے اپنی عمر کا یہ اتنا لمبا اور اتنا قیمتی عرصہ روزگار کی تلاش میں دربدر ٹھوکریں کھاتے گزارا ہے، اور اب اسے پتہ چلا ہے کہ خواجہ طوسی وزیراعظم ہے۔
حسن بن صباح نے جھوٹ بولا تھا، یہی وہ عرصہ تھا جس عرصے میں وہ ایک طاقت اور ایک انتہائی خطرناک انسان بن گیا تھا، وہ آگ میں سے گزر کر کندن بن گیا تھا، اس نے ہزارہا پیروکار ہی نہیں بنا لیے تھے بلکہ ان پر اپنی عقیدت کا پاگل پن طاری کر دیا تھا ،اور اس کے یہ جنونی پیروکار کسی ایک شہر یا قصبے میں نہیں بلکہ بڑے وسیع علاقوں میں جنگلوں میں پھیل گئے تھے ۔
اس نے یہ مقبولیت اور یہ طاقت کس طرح حاصل کی تھی؟
=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷
نیشا پور سے رے پہنچتے ہی وہ اپنے پہلے اتالیق کے یہاں گیا ،اتالیق عبدالملک ابن عطاش اسے ایسے تپاک سے ملا کہ اسے گلے سے لگایا اور کچھ دیر گلے سے ہی لگائے رکھا۔
مجھے پوری امید تھی کہ تم ایسے ہی خوبصورت جوان نکلو گے۔۔۔ ابن عطاش نے اسے اپنے سامنے بٹھا کر کہا۔۔۔ اور اس کے بازوؤں پر کندھوں کو ہاتھوں سے دباتے ہوئے بولا۔۔۔۔  پٹھوں میں جوانی کی طاقت آ گئی ہے، پھر اس کے سر کے دائیں اور بائیں ہاتھ رکھ کر کہنے لگا۔۔۔ میں کیسے جان سکتا ہوں کہ تیرے دماغ میں ابھی کچھ گیا ہے یا نہیں۔
محترم اتالیق !،،،،،حسن نے کہا ۔۔۔دماغ میں تو بہت کچھ بھر لایا ہوں ، یہ علم ہے ، یوں کہہ لیں کہ علم کے الفاظ ہیں جو دماغ میں ٹھونس لایا ہوں، لیکن ایک تشنگی ہے جو بے قراری بن کر دماغ کو ایک سوچ پر قائم نہیں رہنے دیتی۔
کیا تو علم کی تشنگی محسوس کرتا ہے؟
عمل کی ۔۔۔حسن نے کہا۔۔۔ میں کچھ کرنا چاہتا ہوں، پیٹ بھرنے کے لئے نہیں، میں کیا چاہتا ہوں میں اپنے آپ کو اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا ،آپ کی شاگردی میں بیٹھا تو آپ نے بتایا کہ مذہب اور فرائض کیا ہیں، پھر آپ نے مجھے ستاروں سے روشناس کرایا ،اور مجھ پر سحر کے بھید کھولے، وہ بولتے بولتے چپ ہو گیا اور اس طرح دائیں بائیں دیکھنے لگا جیسے بے چینی اور اضطراب پر اس کا قابو نہ رہا ہو، کچھ دیر بعد بولا ،،،آپ بتائیں محترم اتالیق!،،،،، میں کیا چاہتا ہوں، میری منزل کیا ہے، کہاں ہے میری منزل۔
تیری منزل تیرے اپنے دماغ میں ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ دماغ کو کھوج۔
یہ کام آپ کریں ۔۔۔حسن نے کہا۔۔۔۔ ہاں دو تین بار خیال آیا جیسے میں فرعون بننا چاہتا ہوں۔
عبدالملک ابن عطاش نے زور دار قہقہہ لگایا، حسن حیرت سے اس کے منہ کو دیکھنے لگا۔ تو نے اپنی منزل کا سراغ پا لیا ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ اب تیری بے قراری کو ختم کرنا میرا کام ہے ،کچھ وقت لگے گا حسن!،،،، محنت مشقت اور ریاض کی ضرورت ہے، وہ میں کراؤں گا ، تیرے اندر ایک ایسی طاقت ہے جو ہر کسی میں نہیں ہوتی ،یہی طاقت ہے جو تجھے بے قرار اور بے چین رکھتی ہے، تو اس کا تابع ہے لیکن تو اس سے نہ آشنا ہے، اگر تو نےاسے نہ ابھارا تو ایک دن تو اپنے ہاتھوں اپنا گلا گھونٹ لے گا، یا تو اپنے ماں باپ کو قتل کردے گا، اور تیری گردن جلاد کے ہاتھوں کٹے گی۔
ہاں اتالیق!،،،،، حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔آپ کے اس انکشاف نے میرے دل میں شمع روشن کر دی ہے، میں کچھ ایسا ہی محسوس کیا کرتا ہوں کہ میں قتل کروں گا یا قتل ہو جاؤں گا ،،،،،،کیا آپ میری رہنمائی کر سکتے ہیں؟
صرف میں ہوں۔۔۔۔ ابن عطاش نے کہا ۔۔۔میرے سوا اور کوئی نہیں جو تیری رہنمائی کر سکے، لیکن حسن تجھے اپنے باپ سے اجازت لینی پڑے گی۔
مجھے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں میرے بزرگ اتالیق !،،،،،حسن نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔۔۔ میں یہ جانتا ہوں کے میں وہ سیلابی دریا ہوں کہ میرے سامنے جو رکاوٹ آئی وہ تنکوں کی طرح بہہ جائے گی،،،،، یہ بھی سوچئے کہ میرا باپ کہاں کا زاہد اور پارسا ہے، اس نے عیاری اور مکاری میں شہرت پائی ہے، میری فطرت اسی کے سانچے میں ڈھلی ہے ،مجھے بھروسہ ہے تو صرف آپ کی ذات پر ہے۔
=÷=÷=÷=۔=÷=÷=÷=÷
مورخ لکھتے ہیں کہ عبدالملک ابن عطاش کو حسن بن صباح کے مستقبل کے ساتھ کوئی ایسی دلچسپی نہیں تھی کہ اپنی توجہ اور کاوشیں اسی پر مرکوز کر لیتا، اس کی دلچسپی اپنے فرقے کی تبلیغ اور فروغ کے ساتھ تھی، اسلام نے اولین مسلمانوں کے حسن اخلاق سے مقبولیت حاصل کی تھی ،وہ دَور دُور پیچھے رہ گیا تھا، پانچویں صدی گزر رہی تھی فرقہ بندی نے اسلام کی بنیادیں ہلا ڈالی تھیں۔
اسلام اگر کھانے پینے والی کوئی چیز تھا تو اس میں زہریلی ملاوٹی گھول لی گئیں، اسلام اگر پیرہن تھا تو اس کا گریبان بھی اس کا دامن بھی تار تار ہوا جا رہا تھا ،اس کی صرف آستینیں محفوظ تھیں اور ان آستینوں میں سانپ پرورش پا رہے تھے۔
عبد الملک ابن عطاش انہیں سانپوں میں سے تھا ،حسن بن صباح کے باپ کی بات تو داستان گو سنا چکا ہے کہ حاکم شہر ابو مسلم رازی کی دوستی قائم رکھنے کی خاطر قسم کھا کر کہتا تھا کہ وہ اہل سنت و جماعت ہے ،لیکن وہ اسماعیلی تھا بلکہ وہ اسماعیلی فرقے کے لیے بھی سراپا توہین تھا، اس کا اگر کوئی مذہب تھا تو وہ فریب کاری تھی، اس کا عقیدہ اگر تھا تو وہاں عیاری تھی۔
تاریخ ایک دلچسپ بات بتاتی ہے حسن بن صباح علی بن احمد کا بیٹا تھا اس لئے اس کا نام حسن بن علی ہونا چاہیے تھا ،لیکن حسن نے حسن بن صباح کہلانا زیادہ پسند کیا ،اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس کے پردادا کا نام صباح تھا، اس کے کردار کے متعلق جو روایت سینہ بسینہ حسن تک پہنچی تھی وہ عیاری اور فریب کاری کی وارادتیں تھیں، اس وقت کی معاشرے میں اس کا کوئی مقام اور کوئی رتبہ نہیں تھا، لیکن بادشاہ اور بڑے بڑے حاکموں تک اس کی رسائی تھی، اور لوگ اس کی فطرت سے آگاہ ہوتے ہوئے اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔
حسن بن صباح کو اپنے پر دادا کی یہ فطرت اور اس کی یہ شہرت اتنی اچھی لگی کہ اس نے اپنا نام حسن بن علی کے بجائے حسن بن صباح رکھ لیا، تاریخوں میں اس کا نام حسن بن صباح دمیری لکھا گیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حسن بن صباح کس فطرت کا انسان تھا۔
اس نے ایک بار پھر عبدالملک ابن عطاش کی شاگردگی کر لی، لیکن اب یہ شاگردی درپردہ تھی کیونکہ ابن عطاش اسے بڑے ہی پراسرار راستے پر ڈال رہا تھا، ابن عطاش اسے کہا کرتا تھا کہ اس کا کام شہروں اور قصبوں میں نہیں ہو گا بلکہ اس کی زیادہ تر زندگی جنگل و ویرانوں اور غاروں میں گزرے گی۔
اگر حسن بن صباح کے ماں باپ دیکھ لیتے کے عبد الملک ابن عطاش ان کے نوجوان بیٹے کو کس قسم کی تربیت دے رہا ہے تو وہ اسے اس استاد کی شاگردی سے فوراً اٹھا لیتے، ابن عطاش اسے کئی کئی گھنٹے مسلسل ایک ٹانگ پر کھڑا رکھتا تھا ،وہ گرنے لگتا تو اسے ایک دو کوڑے لگا دیتا تھا۔
دو دو تین تین دن اسے بھوکا رکھتا اور اس کے بعد اسے کھانے کو جَو کہ کچھ دانے دیتا تھا ،اپنے آپ کو پوری طرح قابو میں رکھنے کے لئے ابن عطاش نے اسے اس امتحان میں بھی ڈالا کے ایک کمرے میں ایک انتہائی خوبصورت اور نوخیز لڑکی کو برہنہ کر کے اس کے سامنے بٹھا دیا ،اس کے سامنے دیوار پر ایک چھوٹا سا سیاہ دائرہ بنا کر کہا کہ وہ اپنی نظریں اس دائرے پر مرکوز رکھے اور ایک لمحے کے لیے بھی لڑکی کی طرف نہ دیکھے۔
علم سحر کے عامل لکھتے ہیں کہ تربیت کے اس مرحلے سے کامیاب نکلنا تقریبا ناممکن ہوتا ہے، خصوصا نوجوانی کی عمر میں یہ مرحلہ اور زیادہ مشکل ہو جاتا ہے، حسن بن صباح جیسے کردار کا نوجوان اس مرحلے کو برداشت ہی نہیں کر سکتا ،استاد اس مشق کو اس طرح اور زیادہ مشکل بنا دیا کرتا تھا کہ حسن دیوار کے دائرے پر نظریں مرکوز رکھتا تو لڑکی کبھی اس کا ایک ہاتھ پکڑ لیتی، کبھی اس کے قریب ہو جاتی اور کبھی اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگتی، کمرہ بند ہوتا تھا اور کمرے میں ایک حَسن ہوتا اور یہ حسین لڑکی۔
اپنے آپ کو قابو میں رکھنے کی یہ مشق حسن سے بار بار کروائی گئی اور حسن سوئی کے اس ناکے میں سے بھی گزر گیا۔ حسن کو معلوم نہیں تھا کہ اس کمرے کے دروازے کے ایک کیواڑ میں چھوٹا سا ایک سوراخ تھا جس میں سے اس کا استاد اسے دیکھتا رہتا تھا۔
تو ساری دنیا کو فتح کرنے کی طاقت اور صلاحیت رکھتا ہے۔۔۔ ایک روز عبدالملک بن عطاش نے اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا۔۔۔ عورت میں اتنی طاقت ہے کہ وہ جابر بادشاہ کو تخت سے اٹھا کر اپنے قدموں میں بٹھا سکتی ہے ،معلوم نہیں امام مؤافق نے تجھے ایسی کوئی کہانی سنائی ہے یا نہیں، جولیس سیزر روم کا بڑا ہی زبردست طاقتور اور جنگجو بادشاہ تھا، اس زمانے میں روم ایک جنگی طاقت تھی جس کے خوف سے دنیا لرزتی تھی، جولیس سیزر نے مصر پر فوج کشی کی، اس وقت قلوپطرہ مصر کی ملکہ تھی، اسے اطلاع ملی کہ روم کی فوج شہر کے باہر پہنچ گئی ہے، قلوپطرہ نے جولیس سیزر کی طرف اپنا ایلچی اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ وہ اس سے ملنا چاہتی ہے۔
جولیس سیزر نے سن رکھا تھا کہ قلوپطرہ کے ہاتھ میں کوئی ایسا جادو ہے جو ہر حملہ آور بادشاہ کو اس کا غلام بنا دیتا ہے، جولیس سیزر کو یہ بھی بتایا گیا تھا کہ قلوپطرہ کے ہاتھ میں کوئی جادو ہے یا نہیں وہ اپنی پر شباب نسوانیت کا ایسا جادو چلاتی ہے کہ حملہ آور بادشاہ کتنا ہی پتھر دل کیوں نہ ہو اس کے آگے موم ہوجاتا ہے، ان حکایات و روایات کے پیش نظر جولیس سیزر نے قلوپطرہ سے ملنے سے انکار کر دیا، اس نے تہیہ کرلیا تھا کہ ملکہ مصر کو اس وقت دیکھے گا جب رومی فوج شہر میں داخل ہوکر مصری فوج سے ہتھیار ڈلوا چکی ہوگی۔
جولیس سیزر نے شہر کو محاصرے میں لینے کا حکم دے دیا، وہ بادشاہ تھا اس کا خیمہ ایک سفری محل تھا، محاصرہ مکمل ہونے کے ایک دو روز بعد ایک ادھیڑ عمر آدمی جو مصری تھا اپنے کندھے پر ایک قالین اٹھائے جولیس سیزر کے خیمے کے سامنے آ رکا ، قالین گولائی میں رول کیا ہوا تھا جو اس مصری نے کندھے پر اٹھا رکھا تھا، اس نے جولیس سیزر کے محافظوں سے کہا وہ قالین باف ہے اور یہ قالین جو بہت ہی قیمتی اور بہت ہی خوبصورت ہے بادشاہ کو دکھانا چاہتا ہے ہوسکتا ہے بادشاہ کو قالین پسند آجائے اور وہ اسے خرید لے، اس سے غریب آدمی کا بھلا ہو جائے گا۔
رومی محافظ اسے دھکے دے کر پیچھے ہٹانے لگے کہ بادشاہ کے آرام میں مخل نہ ہو۔ مصری قالین باف نے بڑی اونچی آواز میں بولنا شروع کر دیا ،وہ کہہ رہا تھا کہ میں یہ قالین تمہارے بادشاہ کو دے کر ہی جاؤں گا، یہ شور شرابہ خیمے میں جولیس سیزر کے کانوں میں پڑا تو اس نے وہیں سے حکم دیا کہ جو کوئی بھی ہے اسے اندر بھیج دو۔ محافظوں نے اسے خیمے میں بھیج دیا۔
خیمے میں جا کر مصری نے جولیس سیزر سے کہا کہ وہ ایک بار قالین دیکھ لے، یہ قالین روم کے بادشاہ کے لیے ہی موزوں ہے ،جولیس سیزر نے کہا کہ قالین کھول کر دکھاؤ، اس آدمی نے کندھے سے قالین زمین پر رکھا یہ چوڑائی میں رول کیا ہوا تھا جب اسے کھولا تو اس میں سے قلوپطرہ نکلی ،جولیس سیزر کا چہرہ عتاب شاہی سے سرخ ہوگیا، لیکن قلوپطرہ نے جب اپنی پرکشش نسوانیت کا جادو چلایا تو کچھ ہی دیر بعد روم کا اتنا زبردست اور طاقتور بادشاہ جیسے بھول ہی گیا ہو کہ وہ بحیرہ روم کی لہروں کو چیرتا مصر میں کیوں آیا تھا؟،،،،،،،
پھر جانتے ہو حسن کیا ہوا ؟،،،،جولیس سیزر جو حملہ آور تھا ایک شاہی مہمان کی حیثیت سے قلوپطرہ کے ساتھ شہر میں داخل ہوا ،بہت دنوں بعد جولیس سیزر اپنی فوج کو ساتھ لے کر واپس چلا گیا، اس کے جرنیلوں نے روم میں اپنے ساتھی جرنیلوں کو بتایا کہ مصر میں ان کے بادشاہ نے کیا کیا تھا ،ایک روز جولیس سیزر محل میں بیٹھا تھا کہ اسے اطلاع دی گئی کہ فلاں جگہ فوراً پہنچے، وہ اٹھ کر چل دیا ،محل کے قریب ہی ایک اور عمارت تھی جس میں اسے جانا تھا ،وہ جونہی اس عمارت میں داخل ہوا دس بارہ آدمیوں نے اسے گھیر لیا اور خنجروں سے اسے بڑی ہی بے دردی سے قتل کر دیا ۔
ہاں محترم اتالیق!،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ میں آپ کی بات سمجھ گیا ہوں ،اس سبق کو نہیں بھولوں گا۔
لیکن حسن !،،،،،ابن عطاش نے کہا ۔۔۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ تجھے عورت سے دور رہنا پڑے گا ،عورت انتہائی حسین اور نوجوان لڑکیوں کی صورت میں تیرے ساتھ رہے گی، یہ تیرا ایک ہتھیار ہوگا، لیکن ابھی نہیں ابھی تو میں نے تجھے کہیں اور بھیجنا ہے، اگر تو اس مرحلے سے بھی زندہ و سلامت نکل آیا تو پھر تجھ میں ایسی طاقت آجائے گی کہ آسمان کی طرف دیکھ کر تو جس ستارے کی طرف اشارہ کرے گا وہ تیری جھولی میں آ گرے گا۔
=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
ابن عطاش نے حسن بن صباح کو تربیت کے اگلے مرحلے میں ڈال دیا ،جس میں اسے قبروں میں مدفون انسانوں کی مختلف ہڈیوں کا استعمال سکھایا جاتا تھا ،ابن عطاش نے اسے پہلی بار آدھی رات کے وقت کہا کہ وہ قبرستان میں جائے اور کوئی ایسی قبر تلاش کرے جو بہت ہی پرانی ہو۔
پرانی قبر کی نشانی کیا ہو گی؟،،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔
کوئی ایسی قبر دیکھ جو نیچے کو دھنس گئی ہو ۔۔۔ابن عطاش نے کہا۔۔۔ تجھے کچھ قبر ایسی بھی نظر آ جائیں گی جو پوری طرح نیچے کو دھنسی ہوئی ہوں گی، اور ان میں مُردوں کی ہڈیاں نظر آتی ہونگی، ایسی کسی قبر میں سے ایک کھوپڑی اور کندھے سے کہنی تک دائیں اور بائیں بازو کی دو ہڈیاں بھی لانی ہے۔
حسن بن صباح قبرستان میں چلا گیا ،وہ جنگ و جدل کا زمانہ تھا لڑائیاں ہوتی ہی رہتی تھیں، اس لیے قبرستان بہت ہی وسیع وعریض تھے۔ آدھی رات کے وقت چاند پورا تھا حسن بن صباح قبرستان میں دھنسی ہوئی قبر تلاش کرنے لگا ،استاد نے اسے تلوار ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی تھی۔
قبرستان کو شہر خاموشہ کہا جاتا ہے، لیکن وہاں یہ عالم تھا کہ زندہ انسانوں کا شہر خاموش تھا، اور مرے ہوئے انسانوں کی اس بستی میں کئی ایک آوازیں سنائی دے رہی تھیں، علاقہ سرسبز تھا پیڑ پودے بہت زیادہ تھے ،دو تین الو باری باری بولتے تھے ،جھینگروں اور مینڈکوں کی آوازیں بھی مسلسل آ رہی تھیں، اسے بھاگتے قدموں کی آواز سنائی دی اس نے ڈر کے ادھر دیکھا ایک بلی بہت تیز بھاگتی آرہی تھی، دو بھیڑیے اس کے تعاقب میں تھے، وہ اس کے قریب سے گزر گئے اور آگے جا کر غائب ہو گئے۔
وہ اپنا دل مضبوط کر کے چل پڑا ،وہ ہر قبر کو دیکھ رہا تھا اسے دھنسی ہوئی کوئی قبر نظر نہیں آرہی تھی، کچھ دور جا کر اسے ایک گڑھا نظر آیا جو قبر کی طرح لمبوترا تھا، یہ قبر ہی ہو سکتی تھی، اس کے ہر طرف قبریں تھیں یہ قبر اس کے مطلب کی تھی، قبر کے کنارے پہنچ کر اس نے نیچے دیکھا تو پہلے اس نے ایسی آوازیں سنیں جیسے کتے غرّایا کرتے ہیں، پھر یکلخت قبر میں سے دو کتے اچھل کر اوپر آئے، تب اس نے دیکھا کہ یہ بھیڑیے ہیں۔
اس نے فوراً تلوار نکالی اور زور زور سے گھمانے لگا، بھیڑیے سمتیں بدل بدل کر اس پر جھپٹنے کی کوشش کرتے تھے، لیکن اس کی گھومتی ہوئی تلوار بھیڑیوں کو قریب نہیں آنے دے رہی تھی، ایک بار وہ اس دھنسی ہوئی قبر کے کنارے پر اس طرح چلا گیا کہ اس کی پیٹھ قبر کی طرف تھی، بھیڑیوں سے بچنے کے لئے وہ ذرا سا پیچھے ہٹا تو قبر میں جا پڑا اس کی ایک ٹانگ گھٹنے تک مٹی میں دھنس گئی، اسے مری ہوئی ایک بلی نظر آئی جو قبر میں پڑی تھی، وہ سمجھ گیا کہ یہ وہی بلی ہے جس کے پیچھے بھیڑیے دوڑ رہے تھے ،بلی شاید اس قبر میں گر پڑی یا چھپنے کے لئے اس میں اتر گئی تھی، بھیڑیوں نے اسے وہیں دبوچ لیا، بھیڑیے اس وقت بلی کو کھا رہے تھے جب حسن وہاں پہنچا۔
بھیڑیے یہ سمجھے کہ یہ شخص ان سے ان کا شکار چھیننے آیا ہے، حسن نے فوراً چیری پھاڑی ہوئی بلی کو ٹانگ سے پکڑا اور اٹھا کر باہر پھینک دیا، اگر وہ ایک لمحہ اور بھیڑیوں کا شکار باہر نہ پھینکتا تو وہ اوپر سے اس پر حملہ کر کے اسے چیر پھاڑ دیتے، بھیڑیے اپنا شکار اٹھا کر چلے گئے، لیکن حسن بن صباح پر ایسا خوف طاری ہوگیا کہ وہ اپنے جسم میں لرزاں محسوس کر رہا تھا، اس نے تو یہ بھی سوچ لیا تھا کہ وہاں سے بھاگ آئے لیکن استاد کے ڈر سے اس نے بھاگنے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔
اس نے کچھ اس قسم کی کہانیاں سن رکھی تھیں کہ بعض لوگ اللہ کو اتنے عزیز ہوتے ہیں کہ وہ مر جائیں اور کوئی ان کی قبروں کی توہین کرے تو اللہ اس پر اسی وقت عذاب نازل کرتا ہے، اس خیال نے اس کے خوف میں اضافہ کر دیا، لیکن ابن عطاش نے اسے کہا تھا کہ مطلوبہ ہڈیاں ہر حالت میں لانی ہیں اور خوف پر قابو پانا ہے ،حسن نے اپنی دھنسی ہوئی ٹانگ باہر کھینچی، یہ لحد تھی جس میں ہڈیاں ہونی چاہیے تھیں۔
اس نے دیکھا کہ وہاں سے ایک سل نیچے کو گری ہوئی تھی، اس نے ہاتھوں سے مٹی باہر پھینکی پھر سل اٹھا کر الگ رکھ دی، چاندنی میں مردے کی ہڈیاں صاف نظر آرہی تھیں یہ مردے کا اوپر والا حصہ تھا ،اس نے کھوپڑی اٹھائی اور دونوں بازوؤں کی ہڈیاں بھی اٹھا لی، عین وقت اس نے دیکھا کہ چاندنی بجھ گئی ہے اور ایک سایہ اس کے اوپر سے گزر رہا ہے، اس نے گھبرا کر اوپر دیکھا کالی گھٹا آگے کو بڑھ رہی تھی اور رات تاریک ہوتی چلی جا رہی تھی، حسن کھوپڑی اور ہڈیاں اٹھا کر تیزی سے قبر سے نکلا اچانک بجلی بڑی زور سے چمکی، دو تین سیکنڈ بعد بجلی کی کڑک سنائی دی، جو اتنی خوفناک تھی کہ حسن بن صباح جیسا دلیر نوجوان بھی سُن ہو کے رہ گیا اور اسے اپنے دل کی دھڑکن صاف سنائی دینے لگی۔
اس علاقے میں بارش کا اچانک آ جانا کوئی عجیب چیز نہیں تھی لیکن حسن کے دل پر یہ خوف سوار ہوا کہ یہ کسی برگزیدہ بزرگ کی قبر ہے جس کی توہین پر آسمان اپنی بجلیاں گرانے پر اُتر آیا ہے۔
حسن کو پھر وہی خیال آیا کہ یہ کھوپڑی اور دونوں ہڈیاں لحد میں واپس رکھ دے، لیکن اسے اپنے استاد کی یہ بات بھی یاد آ گئی کہ اگر تو ڈر گیا یا ویسے ہی ناکام لوٹا تو پھر یہ علم سیکھنے کے لیے نہ جانے کتنے سال درکار ہوں گے، اس نے بڑی مشکل سے اپنا حوصلہ مضبوط کیا اور وہاں سے چل پڑا۔
اچانک تیز بارش شروع ہو گئی، بارش کے قطرے کنکریوں کی طرح جسم کو لگتے تھے، وہ دوڑ پڑا ایک جگہ اس نے سامنے دیکھا تو اسے تین چار قدم دور ایک آدمی کھڑا نظر آیا ،جس کے خدوخال صاف نظر نہیں آتے تھے، وہ دھندلا سا سایہ تھا جو سیدھا کھڑا تھا اس کا قد اتنا لمبا تھا کہ عام انسان سے زیادہ تھا، اس نے دونوں بازو کندھوں کے سیدھ میں دائیں بائیں پھیلا رکھے تھے جیسے حسن کو آگے بڑھنے سے روک رہا ہو، اس کا سر گول نہیں بلکہ لمبوترا تھا وہ بالکل خاموش تھا۔
حسن رک گیا، دل پر خوف کی گرفت ایسی جیسے ایک مضبوط ہاتھ اس کے دل سے خون کا آخری قطرہ بھی نچوڑ نے کے لئے شکنجے کی طرح دباتا جا رہا ہو، اس نے فیصلہ کر لیا کہ کھوپڑی اس خوفناک آدمی کے قدموں میں رکھ دے گا ،بجلی بار بار چمکتی اور کڑکتی تھی، اس چمک سے حسن کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی تھیں، بارش بڑی ہی تیز تھی، یوں پتہ چلتا تھا جیسے یہ غیر معمولی طور پر لمبا تڑنگا انسان اوپر نیچے اور دائیں بائیں حرکت کر رہا ہو، پھر ایک بار اسے یوں لگا جیسے یہ آدمی آگے بڑھ رہا ہو۔
اچانک حسن کی مردانگی بیدار ہو گئی یہ شاید موت سے بچنے کی آخری کوشش تھی، اس نے تلوار نکالی اور بڑی ہی تیزی سے آگے بڑھ کر تلوار اس آدمی کے پیٹ میں گھونپی، اسے امید تھی کہ جس طاقت سے اس نے یہ وار کیا ہے تلوار اس پراسرار آدمی کے پیٹ میں سے گزر کر پیٹھ کی طرف سے نکل جائے گی، لیکن تلوار کی نوک بھی پیٹ میں نہ گئی ،حسن نے بجلی کی سی تیزی سے تلوار پیچھے کھینچی اور اس طرح تلوار پہلو کی طرف چلائی جس طرح تلوار کا وار کیا جاتا ہے لیکن اس کے اپنے ہاتھ کو بڑی زور سے جھٹکا لگا اور تلوار پیچھے کو آ گئی ،اس آدمی کے بازو پھیلے رہے حسن اس سے ایک دو قدم ہی دور تھا ،اب جو بجلی چمکی تو حسن نے آگے بڑھ کر اس کو ہاتھ لگایا تب اسے پتہ چلا کہ یہ ایک ٹنڈ منڈ درخت ہے جو خشک ہو چکا ہے اور اس کے ٹوٹے ہوئے دو ٹہن دائیں اور بائیں پھیلے ہوئے ہیں۔
حسن کھوپڑی اور بازوؤں کی ہڈیوں کو مضبوطی سے پکڑے دوڑ پڑا ،قبرستان سے نکلتے نکلتے وہ دو تین بار پھسل کر گرا ،اور جب قبرستان سے نکل آیا تو ذرا  آرام سے چلنے لگا ،عبدالملک ابن عطاش نے اسے کہا تھا کہ وہ گھر میں اس کا منتظر ہو گا خواہ ساری رات گزر جائے۔
حسن اس کے گھر پہنچا تو وہ جاگ رہا تھا حسن کے کپڑوں سے پانی بہ رہا تھا، گھٹنوں تک کیچڑ تھا کچھ تو وہ بارش کی وجہ سے کانپ رہا تھا اور کچھ خوف سے، اس نے کھوپڑی اور ہڈیاں ابن عطاش کے آگے رکھ دیں، اس نے اسے شاباش دی پھر اس کے کپڑے تبدیل کرائے اور پوچھا کہ وہ ڈرا تو نہیں۔
میں بتا نہیں سکتا کہ میں کتنا زیادہ ڈر گیا تھا۔۔۔ حسن بن صباح نے جواب دیا چند لمحے سوچ کر کہنے لگا ۔۔۔محترم اتالیق!،،، کیا یہ بھی میری تربیت کے لئے ضروری ہے۔
اتنا ہی ضروری جتنا جسم کیلئے پانی اور ہوا کی ضرورت ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا ۔۔۔اب بتا یہ ہڈیاں قبر سے تو کیسے نکال لایا ؟
حسن نے تفصیل سے سنایا کہ اس پر کیا گزری ہے۔
محترم اتالیق!،،،، حسن نے کہا ۔۔۔میں نے آج رات سچ مان لیا ہے کہ کسی برگزیدہ شخصیت کی قبر اور اس کی ہڈیوں کے ساتھ یہ سلوک کرو جو میں نے کیا ہے تو اسی وقت عذاب نازل ہوتا ہے، اس نے ڈری ہوئی آواز میں پوچھا کیا مجھ پر مزید عتاب نازل ہوگا۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
نہیں !،،،،،ابن عطاش نے جواب دیا ۔۔۔جو ہونا تھا ہو چکا ہے، راز کی ایک بات ہے اسے دل اور دماغ میں محفوظ کر لے، تو مردے کی قبر میں اترا، تجھ پر بھیڑیے ٹوٹ پڑے، ہڈیوں کو ہاتھ لگایا تو بجلیاں چمکنے لگیں، کیا اس سے تو یہ نہیں سمجھا کہ مرے ہوئے انسان میں بھی طاقت ہوتی ہے؟،،، کیا تو نے کبھی روح یا بد روح نہیں سنی؟،،، میں نے تجھے کس علم میں ڈال دیا ہے، یہ علم تجھے روحوں اور بد روحوں سے ملاقات کرائے گا، اور یہ علم تجھے یہ بھی سکھائے گا کہ مرے ہوئے انسانوں میں جو طاقت ہوتی ہے وہ تیرے قابو میں آ جائے اور اسے تو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے، لیکن ابھی نہیں یہ طاقت تجھے کہیں اور سے حاصل ہوگی اور تو اپنی ہڈیاں تڑوا کر یہ طاقت حاصل کرے گا، جہنم کی آگ میں سے گزر کر تو جنت میں داخل ہو گا ،عبد الملک ابن عطاش نے اسے کھوپڑی اور ہڈیوں کے متعلق ایک سبق دیا اور اسے گھر بھیج دیا۔
<======۔==========>
جاری ہے بقیہ قسط۔3۔میں پڑھیں
<========۔========>


Share:

Husn Bin Saba aur Uski Banayi hui Dunyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. {Part 06 (i)}

Musalmanon ne jab bhi kisi saltanat pe Hukumat Ki to un Hukmranon ne Awam pe Hukumat nahi kiya balki Unke Dilo pe Hukumat kiya tha aur Tarikh iska Gawah hai.
Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan.
Kis Tarah Ahmad Bin Ataas ne Yah Saabit kar diya ke Shaitani Taqatein Khudai taqato ko Chalange kar sakti.
Duniya me Jin logo ne Nabi hone ka jhhoota Dawa kiya uska Anjam kaisa tha, Do Chhote Aur Jhoote Nabiyon ka Anjam.
محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم خدا سے پانچ نمازیں فرض کروا کے لائے تھے، اب میں خدا کا رسول ہوں میں تمہیں تمہارے پیروکاروں اور تمھارے لشکر کو وہ نماز صبح اور عشاء کی تمہارے مہر میں معاف کرتا ہوں، واپس جاکر منادی کرا دو کہ تم نے مہر میں دو نمازیں معاف کروائیں ہیں۔

حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت
۔
قسط نمبر/6 حصہ 1
۔
حسن بن صباح اس جگہ پہنچ گیا جہاں سے اس نے اپنے تاریخی سفر کا آغاز کرنا تھا ۔
ابلیس اس کا ہمسفر اور ابلیس ہی اس کا میر کارواں تھا۔
حسن بن صباح ایک انسان تھا،،،،،،تن تنہا،،،،اکیلا انسان،،،،، سلاطین سلجوقی سلطنت اسلامیہ کا ایک فرد جس کی حیثیت ایک عام اور گمنام آدمی سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں تھی وہ کسی قبیلے کا سردار نہیں تھا اس کے پاس کوئی لشکر نہیں کوئی فوج نہیں تھی، دو چار آدمی بھی اس کے ساتھ نہیں تھے، جو تیغ زن اور تیر انداز ہوتے، وہ خود بھی تو شمشیر زن اور شہسوار نہیں تھا ،اس کے پاس صرف ایک طاقت تھی اور وہ تھی ابلیسیت۔
اس ایک آدمی نے اسلام کی عمارت کو بھونچال کے جھٹکوں کی طرح ہلا ڈالا ،اور ثابت کر دیا تھا کہ ابلیسی طاقتیں خدائی طاقت کو چیلنج کر سکتی ہیں، یہ بعد کی بات ہے کہ خدائی طاقت کو چیلنج کرنے والے کیسے کیسے بھیانک انجام کو پہنچے۔
اسلام آج تک ابلیسی طاقتوں کے لیے چیلنج بنا ہوا ہے، ایک وقت تھا کہ مسلمانوں نے اس دور کے دو سپر پاور روم اور فارس کو ریت کے گھروندے کے مانند روند کر ان ملکوں میں اللہ کی حکومت قائم کر دی تھی، پھر مسلمان جدھر کا رخ کرتے ادھر بغیر لڑے قلعے ان کے حوالے کر دئیے جاتے تھے، مسلمانوں نے ملک نہیں لوگوں کے دل فتح کیے تھے، انہوں نے اپنی دہشت طاری نہیں کی دستگیری کی تھی، مظلوم اور مجبور رعایا کی دستگیری۔
آج مسلمان ابلیسی طاقتوں کے محاصرے میں آئے ہوئے ہیں، اور ان کا قتل عام ہو رہا ہے ،یہ اسلام کو ختم کرنے کے جتن ہیں لیکن ۔
۔
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
۔
قتل مسلمان ہو رہے ہیں اسلام زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔
پروانے جل رہے ہیں چراغ روشن ہے اور روشن رہے گا۔
۔
جس چراغ کو غار حرا کی تاریکی نے نور عطا کیا تھا وہ اسلام کے جاں نثاروں کے لہو سے جل رہا ہے۔
دنیا میں مسلمان کا نام و نشان نہیں رہے گا صرف ایک مسلمان حاملہ عورت زندہ رہے یہ اس کے بطن سے جو بچہ پیدا ہو گا وہ اسلام کو زندہ رکھے گا۔
داستان گو حسن بن صباح کی داستان سنا رہا ہے لیکن وہ محسوس کرتا ہے کہ مختصر سا قصہ تکذیب کے علمبرداروں کا بھی سنا دیں جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی رحلت کے ساتھ ہی نبوت کے دعوے کئے اور اپنے اپنے انجام کو پہنچے تھے۔
حسن بن صباح بھی اپنے ذہن اور دل میں نبوت کے عزائم کی پرورش کر رہا تھا، تکذیب اور ارتداد کا مقصد اسلام کی بیخ کنی تھا ،یہ سلسلہ بڑا ہی دراز ہے داستان گو اس کی جھلک پیش کرے گا تاکہ یہ اندازہ ہو جائے کہ دین کے دشمن اسی روز سے اسلام کے درپے ہیں جس روز پہلے آدمی نے اسلام قبول کیا اور اس شہادت کا اقرار کیا تھا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اللہ وحدہٗ لاشریک ہے محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
اسلام نے یہود و نصاریٰ  اور تکذیب و ارتداد کے بڑے تیز و تند طوفان دیکھے ہیں، لیکن اللہ کا سچا دین تاقیامت زندہ و پائندہ رہنے کے لئے آیا تھا۔
حسن بن صباح کی جنت اسی اسلام دشمن سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
آئیے ذرا ابلیس کا رقص دیکھ لیجیے پھر حسن بن صباح کو سمجھنا آسان ہو جائے گا ورنہ بے خبر لوگ جو اس کے صرف نام سے واقف ہیں ، اسے افسانوی کردار ہی سمجھتے رہیں گے۔
سجاح بنت حارث تمیمہ ہوازن کے قبیلہ بنو تمیم کی سرکردہ عورت تھی، عسائیت کی پیروکار تھی اور وہ دریائے دجلہ اور فرات کے اس درمیانی علاقے کی رہنے والی تھی جو الجزیرہ کہلاتا ہے، وہ عالم شباب میں تھی اور حسین بھی تھی۔
اس کے حسن کے متعلق مورخ لکھتے ہیں کہ بنو تمیم میں اس سے زیادہ حسین عورت بھی موجود تھی لیکن سجاح کی شکل و شباہت اور جسم کی ساخت میں کوئی ایسا تاثر تھا جو دیکھنے والوں کو مسحور کر لیتا تھا، اس کا زیر لب تبسم اپنا ایک اثر پیدا کرتا تھا، لیکن اس کا اصل حسن اس کے انداز دلربائی میں تھا، وہ جب بات کرتی تھی تو اس کے ہاتھوں کی حرکت آنکھوں کے بدلتے ہوئے زاویے اور گردن کے خم دوسروں کے دل موہ لیتے تھے۔
اس نے اپنے آپ میں یہ خوبی بھی پیدا کر رکھی تھی کہ اس کے پاس کوئی عبادت گزار اور پارسا آ بیٹھتا تو وہ ایسے انداز سے بات کرتی کہ پارسا اسے اپنے سے زیادہ پارسا سمجھ لیتے اور اس کے عقیدت مند ہوجاتے تھے، کوئی عیاش دولت مند اس کے پاس آتا تو وہ اس عورت کو اپنی جیسی سمجھ کر اس پر دولت نچھاور کرنے لگتا ،مگر اسے اپنے جسم سے دور ہی رکھتی تھی وہ شخص اس کا گرویدہ ہو جاتا اور اس کے اشاروں پر ناچتا تھا۔
کوئی امیر ہوتا یا غریب ،گنہگار ہوتا یا نیکوکار، وہ سجاح کو اپنا مونس وغمخوار سمجھتا تھا۔ مؤرخوں نے متفقہ طور پر لکھا ہے کہ سجاح کاہنہ تھی، اس زمانے میں وہ آدمی جو مذہبی پیشوا ہونے کے ساتھ ساتھ علم جوتش و نجوم کا بھی ماہر ہوتا اور آنے والے وقت کے متعلق پیشن گوئی کی اہلیت رکھتا وہ کاہن کہلاتا تھا، اور ایسی عورت کو کاہنہ کہتے تھے۔
وہ توہم پرستی اور پسماندگی کا دور تھا، لوگ جوتشوں اور نجومیوں کے آگے سجدے کرتے اور قسمت کا حال پوچھتے تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ کاہن بگڑی ہوئی قسمت کو سنوار سکتے ہیں۔
تاریخ نویس ابوالقاسم رفیق دلاوری، ابن اثیر بلاذری، اور "دبستان مذاہب" کے حوالوں سے لکھتے ہیں سجاح بنت حارث فصیح اور بلیغ اور بلند حوصلہ عورت تھی، اسے تقریر و گویائی میں ید طولٰی حاصل تھا ، جدۃ فہم ،جودت طبع، اور اصابت رائے میں اپنی نظیر نہیں رکھتی تھی، ایک تو عالم شباب تھا دوسرے انداز دلربائی تھا اور تیسری یہ کہ اس نے شادی نہیں کی تھی، دولت والے، جاگیروں والے، وہ تاجر جن کا مال سینکڑوں اونٹوں پر آتا اور جاتا تھا اس کی رفاقت کے امیدوار تھے، وہ اپنا دامن بچائے رکھتی اور کسی کو مایوس بھی نہیں کرتی تھی۔
انسانی فطرت کے عالم لکھتے ہیں کہ عربی عراق کی یہ عورت کاہنہ تھی یا نہیں ،البتہ اپنے ناز و انداز سے وہ جس طرح پتھروں کو بھی موم کر لیتی تھیں اس سے یہ یقینی تاثر ابھرتا تھا کہ وہ ساحرہ ہے ،وہ اپنے مذہب عیسائیت کی پیشوا بنی ہوئی تھی، یہ اس کا ظاہری روپ تھا جو دراصل بہروپ تھا اس نے اندرونی طور پر اپنے کردار میں ابلیسی اوصاف پیدا کر لیے تھے، اور وہ اس مقام پر پہنچ گئی تھی جہاں انسان مکمل ابلیس بن جاتا ہے ،اور اس میں مسحور کر لینے والے اوصاف پیدا ہو جاتے ہیں۔
        =÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم رحلت فرما گئے تو نبوت کے متعدد دعوے دار پیدا ہو گئے، ان میں جس نے سب سے زیادہ شہرت پائی وہ مسلیمہ تھا ،اس کا نام مسلیمہ بن کبیر تھا، رحمان یمامہ کے نام سے مشہور تھا۔
آخر وہ مسیلمہ کذاب اور کذاب یمامہ کے نام سے مشہور ہوا ،کیونکہ جھوٹ بولنے میں وہ یکتا تھا، جھوٹ بھی وہ ایسے انداز سے بولتا تھا کہ جو لوگ جانتے تھے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے وہ بھی اس کے جھوٹ کو سچ مان لیتے تھے۔
عجیب بات یہ ہے کہ مسلمہ کی عمر سو سال کے تقریباً تھی، جب اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا اس کی جسمانی صحت کا یہ عالم تھا کہ جسمانی طاقت کے مظاہروں میں جوان بھی اس کے مقابلے میں بعض اوقات پیچھے رہ جاتے تھے، بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ خوراک اچھی ہونے کے علاوہ وہ فطری طور پر متحمل مزاج تھا، کوئی اس کے منہ پر اس کے خلاف بری بات کہہ دیتا تو اسے بھی وہ خندہ پیشانی سے برداشت کرتا تھا ،اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی تھی، غصہ تو اسے آتا ہی نہیں تھا، اپنے دشمن سے بھی انتقام نہیں لیتا تھا ،بلکہ بردباری اور نرمی سے بات کرتا تھا کہ دشمن بھی اس کے قائل ہو جاتے تھے۔
ایسے کردار اور عادات کی بدولت ایک تو اسکی صحت ضعیف العمر میں بھی جوانوں جیسی رہی، اور دوسرے یہ اثرات دیکھنے میں آئے کہ اس نے نبوت کا دعویٰ کیا تو لوگ اس کے گرویدہ ہوگئے۔
مسلیمہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا ،لیکن اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اللہ کے رسول نہیں، بلکہ اس نے یہ دعوی کیا کہ وہ رسالت میں برابر کا شریک ہے اور اس پر بھی وحی نازل ہوتی ہے، اس نے رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں خط لکھا تھا کہ وہ نبوت میں آپ کا برابر کا شریک ہے، اور عرب کی سر زمین حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی اور نصف اس کی ہے۔
تاریخوں میں آیا ہے کہ جب یہ خط رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے قاصد سے کہا اگر قاصد کا قتل جائز ہوتا تو میں تجھے قتل کر دیتا۔
یہاں یہ بتانا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہ پہلا دن تھا جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ کہے تھے ،اس کے بعد آپ کے یہ الفاظ ایک قانونی ضابطے کی صورت اختیار کر گئے، کسی کا قاصد یا ایلچی مسلمانوں کے یہاں آتا اور خلیفہ کے سامنے کیسی ہی بدتمیزی کیوں نہ کرتا اسے معاف کر دیا جاتا تھا۔
مسلیمہ کے پیروکاروں میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچنے لگی، اس نے اپنی آیات لکھنے اور انہیں پھیلانا شروع کر دیا ،اس کا دعویٰ تھا کہ یہ آیات اس پر بذریعہ وحی آئی ہے، رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم رحلت فرما گئے تو مسلیمہ کھل کر سامنے آگیا ،اس نے معجزے دکھانے بھی شروع کر دیئے تھے۔
حیرت ہے کہ لوگ یہ دیکھتے تھے کہ مسلیمہ کوئی معجزہ دکھانے لگتا تو وہ بالکل الٹ ظاہر ہوتا پھر بھی لوگ بیعت کرتے چلے جا رہے تھے۔
داستان گو نے حسن بن صباح کی داستان شروع کی تھی لیکن بات سے بات نکلی تو بہت دور جا پہنچی، چونکہ مسلیمہ کے معجزات دلچسپی سے خالی نہیں اس لئے داستان گو چند ایک معجزات سناتا ہے۔
ایک روز مسلمہ کے پاس ایک عورت آئی اور بولی کے ان کے نخلستان میں ہریالی ختم ہو رہی ہے اور وہاں جو دو تین چشموں جیسے کنوئیں ہیں وہ خشک ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ یارسول!،،،،،، اس عورت نے کہا۔۔۔ ایک بار ہحزمان کا نخلستان خشک ہو گیا تھا، کیونکہ اس کے چشمے نے پانی چھوڑ دیا تھا، وہاں کے لوگ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس گئے اور عرض کی کہ ان کا نخلستان خشک ہو گیا ہے، محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے چلو بھر پانی اپنے منہ میں ڈالا اور چشمے میں اگل دیا ،دیکھتے ہی دیکھتے چشمہ اس طرح پھوٹ پڑا کے وہاں جھیل بن گئی، اور خرما کے درختوں کی جو شاخیں خشک ہوکر لٹک آئی تھیں وہ ہری بھری ہوگئیں۔
مورخوں نے لکھا ہے کہ مسلیمہ کذاب نے یہ سنا تو اسی وقت اٹھا اور اونٹ پر سوار ہوکر اس عورت کے ساتھ روانہ ہو گیا، جب اس نخلستان میں پہنچا تو دیکھا کہ کنوؤں میں بہت ہی تھوڑا پانی ہے، تو اس نے حکم دیا کہ ایک کنوئیں سے تھوڑا سا پانی نکالا جائے، پانی نکالا گیا مسلیمہ نے کچھ پانی اپنے منہ میں ڈالا اور کنوؤں میں تھوڑا تھوڑا اگل دیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ کنوؤں میں جو تھوڑا تھوڑا پانی رہ گیا تھا وہ بھی خشک ہو گیا ،اور خرما کے درختوں کے جو چند ایک ٹہنیاں بھی سبز تھی وہ بھی خشک ہوکر لٹک گئی ،اس کے بعد یہ نخلستان مکمل طور پر ریگستان بن گیا۔
اس کے ساتھیوں میں نہار نام کا ایک خاص ساتھی تھا، اس نے ایک روز مسلیمہ سے کہا کہ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جس کسی کے بچے کو دیکھتے ہیں اس بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا کرتے ہیں ،یہ دیکھا گیا تھا کہ جس بچے کے سر پر رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ہاتھ پھیرا اس بچے میں ایسی ذہانت پیدا ہوگئی کہ لڑکپن میں پہنچنے تک وہ بچہ نامور مجاہد یا دانشور بنا۔
مسلیمہ نے یہ بات سنی تو اس نے باہر نکل کر اپنے قبیلے بنو حنیفہ کے چند ایک بچوں کو بلایا اور ان کے سروں پر اور ان کی ٹھوڑیوں پر ہاتھ پھیرا، لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا تھا، انہوں نے دیکھا کہ ان بچوں کے سروں کے بال گرنے لگے اور سورج غروب ہونے تک یہ تمام بچے گنجے ہوگئے، ان کی ٹھوڑیوں پر ہاتھ پھیرنے کا یہ اثر ہوا کہ یہ تمام بچے زبان کی لکنت یعنی ہکلاہٹ میں مبتلا ہوگئے۔
مسلیمہ نے کسی سے سنا کہ کسی شخص کی آنکھیں خراب ہو جاتی اور وہ آشوب چشم کا مریض ہوجاتا تو رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگاتے تو آنکھوں کا جو بھی مرض ہوتا وہ رفع ہوجاتا تھا، مسلیمہ نے بھی ایک بار آنکھوں کے ایک مریض کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگا دیا اور وہ شخص بینائی سے ہی محروم ہو گیا۔
ایک عورت اس کے پاس یہ شکایت لے کر آئی کہ اس کی اچھی بھلی بکری نے دودھ دینا چھوڑ دیا ہے، مسلیمہ کے کہنے پر وہ عورت بکری کو لے آئے مسلیمہ نے بکری کی پیٹھ پر اور پھر تھنوں پر ہاتھ پھیرا ،نتیجہ یہ سامنے آیا کہ بکری جو چند قطرے دور دیتی تھی وہ بھی خشک ہوگئے ۔
تاریخوں میں ایک واقعے نے زیادہ شہرت پائی ہے، ایک بیوہ مسلیمہ کے پاس آئی اور کہا کہ وہ بیوہ ہے اور اس کا سہارا بیٹے تھے، لیکن زیادہ تر بیٹے مر گئے ہیں صرف دو زندہ ہیں، یا رسول !،،،دعا کریں کہ یہ دونوں بیٹے زندہ رہیں۔
مسلمان اپنے اوپر مراقبہ طاری کرکے اس بیوی کو مژدہ سنایا کہ تمہاری یہ دونوں بیٹے بڑی لمبی عمر پائیں گے، بیوہ خوشی خوشی وہاں سے گھر کو چلی، گھر پہنچتے ہی اسے اطلاع ملی کہ اس کا ایک بیٹا کنویں میں گر کر مر گیا ہے، اسی رات دوسرا اور آخری بیٹا تڑپنے لگا، کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ اسے کیا ہوا ہے، صبح طلوع ہونے تک وہ بھی مر گیا۔
یہ چند ایک واقعات ہیں ایسے بہت سے واقعات تاریخ کے دامن میں محفوظ ہیں، عجیب بات یہ ہے کہ الٹے اثرات کو بھی لوگ معجزہ ہی کہتے تھے ،جس کی وجہ یہ ہے کہ مسلیمہ ایسے انداز اور ایسے الفاظ میں ان کی تاویلیں پیش کرتا تھا کہ لوگ انھیں سچ مان لیتے تھے۔
پھر یہ کیا تھا ،یہ غیرت خداوندی تھی اللہ تبارک وتعالی نبوت کے ایک جھوٹے دعوے دار کو اپنے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برابری میں کھڑا نہیں کرسکتا تھا۔
بعض اوقات ایک عام انسان بھی کوئی معجزہ کر گزرتا ہے، لیکن اس آدمی کے کردار اور اسکی فطرت کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس شخص کی روحانی قوت بیدار ہے، اس کے قابو میں ہیں اور قابو میں اس لیے ہے کہ وہ شخص دین دار اور ایماندار ہے، مسلیمہ تو تھا ہی کذاب ،یعنی جھوٹ بولنے والا، جھوٹ ایک ایسی لعنت ہے جو بنے بنائے کام بھی بگاڑ دیتا ہے، اور وہ انسان اللہ کے حضور جو دعا کرتا ہے اس کا اثر الٹا ہوتا ہے۔
مسلیمہ کی مقبولیت رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی رحلت کے بعد اتنی بڑھی کے اس نے ایک لشکر تیار کرلیا، خلیفہ اول ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو مسلیمہ کی اس جنگی طاقت کی اطلاع ملی تو انہوں نے اس کے خلاف اعلان جہاد کیا، مسلیمہ کی لڑائیاں تین سالاروں سے ہوئی تھیں ایک تھے عکرمہ، دوسرے سے شرجیل بن حسنہ، اور تیسرے خالد بن ولید، آخر شکست تو مسلیمہ کو ہوئی تھی، لیکن اس کی جنگی طاقت کا یہ عالم تھا کہ اس نے تاریخ اسلام کے ان تین نامور سپہ سالاروں کو حیران و پریشان کر دیا تھا، کئی ایسے مواقع آئے جب یو پتہ چلتا تھا کہ فتح مسلیمہ کی ہوگی۔
یہ لڑائیاں ایک الگ اور بڑی ہی ولولہ انگیز داستان ہے، لیکن داستان گو اپنی داستان کی طرف لوٹتا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
بات سجاح بنت حارث کی ہورہی تھی، رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے وصال کے بعد اس حسین ساحرہ کے دماغ میں آئی کے مسلیمہ اس علاقے میں نبوت کا دعوی کر کے ایک لشکر جرار بھی تیار کرسکتا ہے تو کیوں نہ وہ بھی نبوت کا دعوی کرے، اسے اپنے ان اوصاف کا پوری طرح احساس تھا جو لوگوں کے دل موہ لیا کرتے تھے، اس وقت تک اس عورت میں ابلیسی اوصاف کوٹ کوٹ کر بھرے جا چکے تھے۔
ایک روز اس نے اپنے قبیلے کو اکٹھا کیا اور اعلان کیا کہ گزشتہ رات خدا نے اسے نبوت عطا کی ہے ،اس کے ساتھ ہی اس نے ایک وحی سنادی، وہ عیسائی مذہب کی عورت تھی لیکن نبوت کے اس جھوٹے دعوے کے ساتھ ہی عیسائی مذہب ترک کر دیا ،کیونکہ وہ حسین عورت تھی اس لیے لوگ اس سے متاثر ہو گئے۔
اس میں جو اوصاف تھے اور جو کشش تھی وہ پہلے بیان ہو چکی ہے، اس کے قبیلے کے سردار اس کے امیدوار بھی تھے، سب سے پہلے ان سرداروں نے اس کے ہاتھ پر بیعت کی، سب سے پہلے بنو تغلب نے اس کی نبوت کو تسلیم کیا، جس کی وجہ یہ تھی کہ اس قبیلے کا ایک سردار جو سب سے زیادہ اثر و رسوخ والا تھا سجاح کا گرویدہ ہو گیا تھا ،ایسا ہی ایک سردار ابن ہبیرہ بنو تمیم کا تھا وہ بھی سجاح کا مرید ہو گیا۔
اس وقت کا معاشرہ قبیلوں میں منقسم تھا قبیلوں پر سرداروں کا اثر و رسوخ تھا ،ایک سردار جس طرف جاتا پورا قبیلہ اس کے پیچھے جاتا تھا ،سجاح نے سب سے پہلے قبیلوں کے سرداروں کو زیر اثر لیا اور بہت تھوڑے سے عرصے میں کئی ایک قبیلوں نے اس کی نبوت کو تسلیم کر لیا یہاں تک کہ بہت سے ایسے لوگ جنہوں نے اسلام قبول کر لیا تھا اسلام سے منحرف ہو کر سجاح کے پیروکار بن گئے، سجاح نے مسلیمہ کی طرح ایک لشکر تیار کرلیا اور اس نے مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کر لیا۔
اس کے اپنے ایک مشیر مالک بن نمیرہ نے اسے مدینہ پر حملہ کرنے سے روک دیا، اور ان قبیلوں سے نمٹنے کا مشورہ دیا جو اس کی نبوت کو تسلیم نہیں کر رہے تھے، اس طرح سجاح نے اچھی خاصی لڑائیاں لڑیں۔
خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سجاح کی سرکوبی کے لیے خالد بن ولید کو بھیجا، شرجیل بن حسنہ اور عکرمہ بن ابی جہل بھی ساتھ تھے، خالد بن ولید کو اطلاع ملی کہ ان کا مقابلہ ایک نہیں بلکہ دو لشکروں کے ساتھ ہوگا ،چنانچہ انہوں نے پیشقدمی اس غرض سے روک لی کہ دشمن کی قوت کا اندازہ جاسوسوں سے کر لیا جائے۔
ادھر مسلیمہ نے محسوس کیا کہ وہ شکست کھا جائے گا، اس نے سجاح کو پیغام بھیجا کہ وہ اسے ملنا چاہتا ہے ،وہ دراصل سجاح کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا تھا، اور اس کا ارادہ یہ بھی تھا کہ سجاع پر حاوی ہوکر اسے اپنے زیر اثر کرلے، وہ سجاح کی نبوت کو ختم کرنا چاہتا تھا۔
سجاح نے مسلیمہ کو ملاقات کے لئے اپنے ہاں بلا لیا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
مسلیمہ اپنے ساتھ چالیس ایسے پیروکار لے گیا جو دماغی لحاظ سے بہت ہوشیار اور دانشمند تھے، اور تیغ زنی میں بھی مہارت رکھتے تھے، مسلیمہ سن چکا تھا کہ سجاح میں کیا کیا خوبیاں ہیں اور اس کا حسن کس قدر سحر انگیز ہے۔
مسلیمہ اپنے ساتھ بڑا ہی خوشنما اور بڑے سائز کا خیمہ لے گیا تھا، شراب و کباب کا انتظام بھی اس کے ساتھ تھا ،رنگارنگ روشنی دینے والے فانوس بھی تھے، مختصر یہ کہ عیش و عشرت اور زیب و زینت کا پورا سامان مسلیمہ کے ساتھ تھا، وہ ایسے عطر اپنے ساتھ لے گیا تھا جن کی مہک مخمور کر دیتی تھی۔
مسلیمہ اور سجاح کی ملاقات ایک نخلستان میں ہوئی، مسلیمہ نے یہ تو سن رکھا تھا کہ سجاح میں ایسے اوصاف موجود ہیں جو پتھر دل مرد کو بھی موم کر دیتے ہیں، لیکن وہ سجاح کے سامنے گیا تو اس نے محسوس کیا کہ سجاح کی شخصیت اس سے زیادہ سحرانگیز ہے جتنی اس نے سنی تھی، تب اس نے محسوس کیا کہ اس حسین ساحرہ کا میدان جنگ میں مقابلہ کرنا آسان نہیں، یہ خطرہ وہ پہلے ہی سوچ چکا تھا اسی لئے وہ اپنے ساتھ یہ سارا ساز و سامان لے گیا تھا، اس نے سجاح سے کہا کہ وہ اس کے خیمے میں چلے کیوں کہ یہ جگہ اس قابل نہیں کہ سجاح جیسی عورت کسی غیر سے بیٹھ کر بات کرے۔
مسلیمہ معمر اور تجربے کار آدمی تھا ،اس میں دانشمندی بھی تھی ،اس نے باتوں باتوں میں سجاح کو اتنا اونچا چڑھا دیا کہ وہ پھولی نہ سمائی اور مسلیمہ کی باتوں میں آ گئی، اسی وقت اٹھی اور مسلیمہ کے ساتھ اس کے خیمے میں چلی گئی ،اس نے جب خیمے کے اندر زیب و زینت اور آرام و آرائش کا سامان دیکھا تو اس پر کچھ اور ہی کیفیت طاری ہوگئی، اس نے محسوس کیا کہ اس کے دماغ پر کچھ اور ہی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
یہ اثرات جو اس کے دماغ پر مرتب ہو رہے تھے یہ اس عطر کی مہک کے اثرات تھے۔ یوروپی مؤرخوں میں سے دو نے لکھا ہے کہ یہ ایک خاص عطر تھا جس کی مہک ذہن میں رومانی خیالات پیدا کر دیتی تھی۔
مسلیمہ نے خیمے میں جو بستر لگوایا تھا اس پر ریشمی گدے اور پلنگ پوش تھے، اس نے سجاح کو اس بستر پر بٹھایا اور خود اس کے پاس بیٹھ گیا۔
میں تمہیں یہاں ایک خاص مقصد کے لیے لایا ہوں ۔۔۔مسلیمہ نے سجاح سے کہا ۔
اے نبی !،،،،،،سجاح نے کہا ۔۔۔اس خیمے میں آکر میں کچھ اور ہی محسوس کرنے لگی ہوں، یوں لگتا ہے جیسے میں یہاں سے نکلنا ہی نہیں چاہوں گی، کیا اب آپ مجھے بتائیں گے کہ آپ کا مقصد کیا ہے؟
ایک خواہش ہے ۔۔۔مسلیمہ نے ایسے انداز سے کہا جیسے وہ سجاح کا گرویدہ ہو گیا ہو۔۔۔ میں تمہاری باتیں سننا چاہتا ہوں، میں نے سنا ہے کہ تمہاری زبان میں ایسی شیرنی ہے کہ دشمن بھی تمہارے قدموں میں سر رکھ دیتا ہے ۔
نہیں !،،،،سجاح نے کہا ۔۔۔میں چاہتی ہوں کہ آپ کوئی بات کریں۔
تمہارے سامنے میں کیا بات کر سکتا ہوں۔۔۔ مسلیمہ نے کہا ۔
کوئی تازہ وحی نازل ہوئی ہو تو وہ سنا دیں۔۔۔ سجاح نے کہا۔
مسلیمہ نے اپنی دماغی قوتوں اور ابلیسی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے سجاح کے ساتھ کچھ باتیں کیں اور اس کے سامنے سے اٹھ کر بستر پر اس طرح بیٹھ گیا کہ اس کا جسم سجاح کے جسم کے ساتھ لگ گیا، اس نے ایک وحی سجاح کو سنائی۔
مشہور مؤرخ ابن اثیر نے لکھا ہے کہ یہ وحی عورتوں کے متعلق تھی، اور اس قدر فحش کے اس کا ترجمہ تحریر میں لایا ہی نہیں جا سکتا، اس کے ساتھ ہی مسلیمہ نے سجاح کے جسم کے ساتھ آہستہ آہستہ چھیڑ چھاڑ شروع کر دی۔
مسلیمہ نے سجاح کے چہرے پر ایک تبدیلی دیکھی اور اس کے ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ دیکھی جو پہلے اس کے ہونٹوں پر نہیں تھی، مسلیمہ کو معلوم تھا کہ اس عورت کا شباب جوبن کے انتہائی درجے پر پہنچا ہوا ہے، اور اس نے ابھی تک شادی نہیں کی، پھر اس نے یہ سوچا کہ اس عورت نے نبوت کا دعوی کر دیا ہے اس لئے کوئی مرد اس کے جسم کے ساتھ تعلق رکھنے کی جرات نہیں کرتا، اس کے تمام پیروکار اس کے جسم کو مقدس اور لائق عبادت سمجھتے ہیں، لیکن یہ جوان عورت ہے انسان ہے اور اس میں انسانی جذبات بھی ہیں جن میں حیوانی جذبات بھی شامل ہیں، مسلیمہ کی صرف ایک فحش بات سے ہی سجاح کا چہرہ تمتما اٹھا تھا۔
مسلیمہ نے ایک اور وحی سنا دی، جو پہلی وحی سے زیادہ فحش تھی اور حیوانی جذبات کے لیے اشتعال انگیز بھی تھی، اس کے بعد مسلیمہ نے ایسی ہی بلکہ اس سے زیادہ اشتعال انگیز اور بڑی ہی بے حیائی کی باتیں شروع کر دیں، اس کے ساتھ ساتھ وہ سجاح کے حسن کی تعریفیں کرتا جاتا تھا اور یہ بھی تسلیم کرتا تھا کہ سجاح سچی نبی ہے۔
سجاح کو عطر کی مہک نے اور ریشمی بستر کے گداز نے اور مسلیمہ کی باتوں اور اس کے انداز نے نبوت کے درجے سے ہٹا کر ایک ایسی جوان عورت کے درجے پر گرا دیا تھا جو جذبات کی تشنگی سے مری جا رہی تھی۔ مسلیمہ اس کے خیالوں کی یہ تبدیلی اس کے چہرے اور اس کی سانسوں سے محسوس کر رہا تھا جو اکھڑی جا رہی تھی، مسلیمہ معمر آدمی تھا لیکن اس کا انداز جوانوں والا تھا، اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کے اعضاء پر عمر کی طوالت نے ذرا سا بھی اثر نہیں کیا۔ سجاح نے بے قابو ہو کر مسلیمہ کا ایک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا اور اپنے سینے پر رکھ دیا۔
میرا ایک مشورہ مانو سجاح ۔۔۔مسلیمہ نے کہا۔۔۔ آؤ ہم شادی کر لیتے ہیں ۔
وہ کیوں ؟،،،،سجاح نے پوچھا ۔۔۔کیا آپ کو میرا جسم اتنا اچھا لگا ہے ۔
جسم کی بات نہ کرو۔۔۔ مسلیمہ نے کہا ۔۔۔نبی جسموں کے ساتھ تعلق نہیں رکھا کرتے، روح کی بات کرو، میں جانتا ہوں تمہارا جسم تشنہ ہے لیکن میرا مطلب یہ ہے کہ ہم دونوں نبی ہیں ،اگر ہماری فوج الگ الگ مسلمانوں کا مقابلہ کرتی رہیں تو دونوں شکست کھا جائیں گی ،اگر ہماری فوج مل کر ایک ہو جائیں تو ہم سارے عرب پر قبضہ کر لیں گے ،،صرف مسلمان ہیں جو ہماری نبوت کو قبول نہیں کرتے اور ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں، اس کا علاج یہ ہے کہ ہم دونوں مل کر مسلمانوں کو ختم کر دیں اور پورے عرب پر قابض ہو کر دوسرے ملکوں پر چڑھائی کریں، اور اپنی نبوت کو دور دور تک پھیلا دیں۔
اس وقت سجاح پر کچھ اور ہی کیفیت طاری تھی، اس پر ابلیسیت کا غلبہ تھا، اس نے اپنے آپ میں خاص طور پر ابلیسی اوصاف پیدا کیے تھے یہ اوصاف اس پر ایسے غالب آئے کہ اس نے مسلیمہ کے آگے ہتھیار ڈال دئیے اور کہا کہ وہ ابھی اس کی بیوی بننے کو تیار ہے۔
مسلیمہ کے ساتھ چالیس آدمی آئے تھے وہ خیمے سے کچھ دور چاک و چوبند کھڑے تھے کہ نہ جانے مسلیمہ کا کوئی حکم کس وقت آجائے تقریباً اتنی ہی آدمی برچھیوں اور تلواروں سے مسلح سجاح کے ساتھ آئے تھے وہ الگ تیار کھڑے تھے۔
دونوں طرف کے یہ مسلح آدمی یقینا یہ سوچ رہے ہونگے کہ خیمے کے اندر دو نبیوں میں جو مذاکرات ہو رہے ہیں ان کا نتیجہ نہ جانے کیا ہوگا، توقع یہ تھی کہ مذاکرات نا کام ہو جائیں گے، کیونکہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔
دونوں طرف یہ وہم و گمان بھی نہ تھا کہ خیمے کے اندر کوئی اور ہی کھیل کھیلا جا رہا ہے، بغیر کسی اعلان کے اور بغیر کوئی رسم ادا کیے مسلیمہ اور سجاح میاں بیوی بن چکے تھے، اور خیمہ حجلہء عروسی بنا ہوا تھا ،سجاح ہوش وحواس گم کر بیٹھی تھی اور اس نے اپنی نسائیت اور نبوت مسلیمہ کے حوالے کر دی تھی۔
مورخ لکھتے ہیں کہ مسلیمہ اور سجاح تین دن اور تین راتیں خیمے سے باہر نہ نکلے، خیمے میں صرف کھانا اور شراب جاتی تھی، باہر کے لوگ پریشان ہوتے رہے کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ آخر چوتھے روز وہ باہر نکلے، سجاح کے چہرے پر شرم و ندامت کے تاثرات آ گئے، یہ اس وقت آئے جب اس نے اپنے مسلح آدمیوں کو دیکھا ،وہ سر جھکائے ہوئے اپنے لشکر میں پہنچی۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=
سجاح کے مشیر اور خاص پیروکاروں نے اس سے پوچھا کہ بات چیت کس نتیجے پر پہنچی ہے۔
میں نے مسلیمہ کی نبوت کو تسلیم کر لیا ہے ۔۔۔سجاح نے کہا ۔۔۔اس کی نبوت برحق ہے میں نے اس کے ساتھ نکاح کر لیا ہے، اب نبوت میری ہو یا اس کی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
نکاح تو ہو گیا ۔۔۔سجاح سے پوچھا گیا ۔۔۔مہر کیا مقرر ہوا ؟
اوہ !،،،،،،سجاح نے کہا۔۔۔ یہ تو مجھے خیال ہی نہیں رہا کہ مہر بھی مقرر کرنا تھا۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یہ جواب دے کر سجاح کی آنکھیں جھک گئیں ،جیسے وہ نادم اور شرمسار ہو، اس کا نبوت والا انداز بالکل ہی بدل گیا تھا ۔
ان مشیروں نے اسے مشورہ دیا کہ جب کوئی عورت کسی مرد کی زوجیت میں جاتی ہے تو وہ نکاح میں اسے قبول کرنے سے پہلے اپنا مہر مقرر کرواتی ہے ،اسے مشورہ دیا گیا کہ وہ مسلیمہ کے پاس جائے اور مہر مقرر کروا کر آئے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اگر مسلیمہ نے اسے اپنی بیوی بنانا تھا تو اسے اپنے ساتھ لے جاتا، لیکن اسے نے اسے عصمت سے محروم کر کے اس کے لشکر میں بھیج دیا ،یہ معلوم نہیں کہ اس نے سجاح کو کیا کہہ کر اسے اس کے لشکر میں بھیجا تھا۔
اسکے مشیر سجاح کی اس حرکت پر پریشان سے ہوئے اور اسے بار بار یہی کہا کہ وہ مسلیمہ کے پاس جاکر مہر مقرر کروا لے۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
مسلیمہ سجاح کو اس کے لشکر میں بھیج کر خود بڑی تیزی سے وہاں سے کوچ کر گیا اور اپنے قلعہ میں جا پہنچا۔
تم سب کو چوکنا اور محتاط رہنا ہوگا۔۔۔ مسلیمہ نے قلعہ میں جاکر اپنے محافظوں اور مصاحبین سے کہا۔۔۔ میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ سجاح کے ساتھ میں نے کیا سلوک کیا ہے، ہوسکتا ہے اس کی پیروکار اور مصاحبین یہ سن کر بھڑک اٹھیں کہ اس نے میرے ساتھ شادی کرلی ہے، اگر ان کا ردعمل یہ ہوا تو وہ ہم پر حملہ کر سکتے ہیں ،یہ سوچ لو کہ ادھر مسلمانوں کا لشکر آ رہا ہے اگر سجاح کے لشکر نے بھی ہم پر حملہ کر دیا تو ہم پیس جائیں گے، قلعہ کے دروازے دن کے وقت بھی بند رکھو۔
یہ کوئی بڑا قلعہ نہیں تھا مسلیمہ کا اپنا مکان تھا جو قلعے کی طرح تھا، اس نے اندر سے دروازے بند کر لئے تھے، سجاح کو اپنے یہاں رکھنے کا اس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
اگلے روز سجاح مسلیمہ کے قلعہ نما گھر کے دروازے پر پہنچی دروازہ بند پا کر اس نے کہا کہ مسلیمہ کو اطلاع دی جائے کہ اس کی بیوی سجاح آئی ہے، مسلیمہ کو اطلاع پہنچی تو دوڑا گیا ،کیونکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی کہ وہ اگلے ہی روز اس کے پاس پہنچ جائے، مسلیمہ کو یہ بھی بتایا گیا کہ سجاح کے ساتھ اس کا محافظ دستہ بھی ہے۔
تاریخوں میں آیا ہے کہ مسلیمہ نے یہ نہ کہا کہ اسے اندر لے آؤ اور نہ وہ خود دروازے پر آیا ،وہ مکان کی چھت پر چلا گیا اور وہاں سے سجاح کو پکارا ۔
دروازہ کھلواؤ ۔۔۔سجاح نے کہا ۔۔۔میں اندر آنا چاہتی ہوں۔
اس وقت تمہارا اندر آنا ٹھیک نہیں ۔۔۔مسلیمہ نے کہا۔۔۔ یہ بتاؤ تم کیوں آئی ہو؟
اپنا مہر مقرر کروانے کے لئے۔۔۔ سجاح نے جواب دیا ۔۔۔نکاح اتنی عجلت میں ہوا ہے کہ مجھے مہر مقرر کروانے کا خیال ہی نہیں رہا۔
تو سن لو ۔۔۔۔مسلیمہ نے کہا۔۔۔ محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم خدا سے پانچ نمازیں فرض کروا کے لائے تھے، اب میں خدا کا رسول ہوں میں تمہیں تمہارے پیروکاروں اور تمھارے لشکر کو وہ نماز صبح اور عشاء کی تمہارے مہر میں معاف کرتا ہوں، واپس جاکر منادی کرا دو کہ تم نے مہر میں دو نمازیں معاف کروائیں ہیں۔
سجاح واپس چل پڑی اس کے ساتھ محافظ دستے کے علاوہ اس کا مؤذن شیث بن ربیع بھی تھا ،تقریبا تمام مسلمان مؤرخوں نے لکھا ہے کہ سجاح کے یہ مصاحب کچھ شرمسار سے تھے، وہ سمجھ گئے کہ مسلیمہ نے ان کے نبی کے ساتھ بڑی ہی شرمناک سلوک کیا ہے، وہ خود بھی شرمسار ہو رہے تھے ،سجاح کا ایک خاص مصاحب عطاء بن حاجب بھی تھا۔ ہماری نبی ایک عورت ہے، جسے ہم ساتھ لیے پھرتے ہیں۔۔۔۔۔عطاء بن حاجب نے کہا ۔۔۔لیکن لوگوں  کے نبی مرد ہوتے ہیں اور انہیں شرمسار نہیں ہونا پڑتا۔
تاریخوں میں یہ بھی لکھا ہے کہ مسلیمہ نے علاقہ یمامہ کے محصولات سجاح کو ایک سال کے لئے دے دیے تھے، لیکن مسلمانوں نے انہیں محصولات وصول کرنے کی مہلت نہ دی، خالد بن ولید اپنے لشکر کے ساتھ پہنچ گئے، مسلیمہ کے ساتھ نکاح کرنے سے سجاح کی قدر و منزلت اپنے پیروکاروں میں بڑی تیزی سے ختم ہو گئی تھی، بڑے اچھے اور قابل پیروکار اس کا ساتھ چھوڑ گئے۔
سجاح نے جب دیکھا کہ اس کے پاس لڑنے کی طاقت بھی نہیں رہی تو وہ بھاگ اٹھی اور بنو تغلب میں جا پہنچی، ابن اثیر اور ابن خلدون نے لکھا ہے کہ سجاح بالکل ہی بجھ کے رہ گئی اور اس نے ایک خاموش اور گمنام زندگی کا آغاز کیا، نہ اس میں انداز دلربائی رہا، نہ وہ جاہ و جلال رہا، یہاں تک کہ امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا زمانہ آ گیا۔
اسی سال ایسا خوفناک قحط پڑا کہ لوگ بھوکوں مرنے لگے ،سجاح کا قبیلہ بنو تغلب فاقہ کشی سے گھبرا کر بصرہ جا آباد ہوا، سجاح بھی ان کے ساتھ تھی، مسلمانوں کے سلوک اور اناج کی مساوی تقسیم سے متاثر ہو کر بنو تغلب کے تمام قبیلے نے اسلام قبول کر لیا، سجاح بھی مسلمان ہو گئی اور اس نے سچے دل سے اللہ کی عبادت شروع کر دی، اس کے کردار میں جو ابلیسی اوصاف پیدا ہو گئے تھے وہ عبادت الہی سے دُھلنے لگے، حتیٰ کہ وہ بالکل ہی متقی اور عبادت گزار بن گئی ،تھوڑے ہی عرصے بعد وہ بیمار پڑی اور مرگی ،ان دنوں ایک صحابی سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بصرہ کے حاکم تھے انہوں نے سجاح کی نماز جنازہ پڑھائی تھی۔
سجاح پر تو اللہ نے اپنا خاص کرم کیا کہ وہ دینداری کی حالت میں مری اور اس کی عاقبت محفوظ ہوگئی، لیکن مسلیمہ کا انجام کچھ اور ہوا ،اس نے مسلمانوں کے خلاف بڑی خونریز لڑائیاں لڑی تھی، معمر ہونے کے باوجود وہ جوانوں کی طرح لڑا تھا ۔
آخری لڑائی میں جب اس نے دیکھا کہ خالد بن ولید کا لشکر اس کے گھر تک آ پہنچا ہے تو وہ خود ذرہ اور آہنی خود پہن کر گھوڑے پر سوار ہوا اور باہر نکلا۔
پہلے وہ باغ میں گیا جہاں لڑائی ہو رہی تھی پھر وہ باغ سے نکلا جونہی وہ آگے گیا ایک پرچھی اس کے سینے میں دل کے مقام پر اتر گئی۔
برچھی مارنے والا عرب کا مشہور برچھی باز وحشی تھا، اس کا نام ہی وحشی تھا اس کی برچھی بازی کا ایک کمال تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے۔
ایک رقاصہ کے سر پر ایک کڑا جو عورت اپنے بازو میں ڈالتی ہیں سیدھا کھڑا کر کے بالوں کے ساتھ باندھ دیا گیا اور رقاصہ ناچنے لگی اس کا جسم تھرک رہا تھا اور وہ بار بار گھومتی اور ادھر ادھر ہوتی تھی، وحشی ہاتھ میں برچھی لیے رقاصہ کے بارہ چودہ قدم دور اس کی حرکت کے ساتھ حرکت کرتا کڑے کا نشانہ لینے کی کوشش کر رہا تھا، کچھ دیر بعد اس نے برچھی کو ہاتھ میں تولا اور تاک کر رقاصہ کے سر پر برچھی پھینکی تھی، رقاصہ اس سے بے نیاز رقص کی اداؤں میں محو تھی، وحشی کی پھینکی ہوئی برچھی رقاصہ کے سر پر بندھے ہوئے کھڑے میں سے اس طرح گزر گئی کے رقاصہ کو احساس تک نہ ہوا۔
جنگ احد میں وحشی اہل قریش کے ساتھ تھا، رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو اسی وحشی نے پیٹ میں برچھی مار کر شہید کیا تھا، اس کے بعد جب خالد بن ولید نے اسلام قبول کیا تو وحشی نے بھی اسلام قبول کر لیا اور اگلے معرکوں میں تاریخ میں نام پیدا کیا، یہ سعادت اسی کے نصیب میں لکھی تھی کہ مسلیمہ کذاب جیسے بڑے ہی طاقتور جھوٹے نبی کو جہنم واصل کیا۔
تاریخ میں یوں آیا ہے کہ مسلیمہ کو ہلاک کرنے والے دو مجاہد تھے، ایک تو وحشی تھا جس نے اسے برچھی ماری تو وہ گھوڑے سے گرا ،اس کے ساتھ ہی مدینہ کے ایک انصاری نے اس پر تلوار کا بھرپور وار کیا ،وحشی نے مسلیمہ کا سرتن سے کاٹا اور برچھی کی انی پر اڑس کر برچھی بلند کی۔
میں نے اُحد کا گناہ معاف کرا لیا ہے۔۔۔ وحشی مسلیمہ کا سر برچھی پر اٹھائے میدان جنگ میں دوڑتا اور اعلان کرتا پھر رہا تھا۔
بعد میں اس نے کئی بار کہا تھا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے قتل کا افسوس اسے ہمیشہ پریشان کرتا رہا ،مسلیمہ کو قتل کرکے اسے احد کے افسوس اور پچھتاوے سے نجات ملی ہے۔
یہ تھا انجام دو جھوٹے نبیوں کا ،یہ ابلیس کا رقص تھا ،انسان جب اپنے کردار میں ابلیسی اوصاف پیدا کر لیتا ہے تو اللہ تبارک و تعالی اسے نتائج سے بے خبر کر دیتا ہے، انہیں پکڑنے کے لئے اللہ آسمان سے فرشتے نہیں اتارا کرتا، یہ لوگ اپنے قدموں چل کر انجام کو پہنچ جایا کرتے ہیں ۔
کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا۔
=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷
ہمیں مصر کے عبیدیوں سے مدد لینی پڑے گی ۔۔۔۔قلعہ شاہ در میں احمد بن عطاش حسن بن صباح سے کہہ رہا تھا۔۔۔ لیکن کسی طرح یہ یقین کرلینا بہت ہی ضروری ہے کہ وہ ہماری مدد کریں گے بھی یا نہیں۔
کیوں نہیں کریں گے ؟،،،،حسن بن صباح نے پوچھا ۔۔۔اور کہا۔۔۔ وہ ہمارے ہی فرقے کے لوگ ہیں۔
کچھ شک والی بات ہے۔۔۔ ابن عطاش نے کہا۔۔۔ پہلے تو یہ جائزہ لینا ہے کہ وہ اسماعیلی ہیں یا نہیں، پتہ چلا ہے کہ ظاہری طور پر وہ اسماعیلی ہیں لیکن درپردہ کوئی اپنا ہی نظریہ رکھتے ہیں۔
اگر یہ جائزہ لینا ہے تو مجھے مصر جانا پڑے گا ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اور میں مصر چلا ہی جاؤں گا۔
ہاں حسن!،،،،،،ابن عطاش نے کہا ۔۔۔میں تمہیں مصر بھیجوں گا، ہمارا پہلا مقصد یہ ہے کہ اہل سنت کی حکومت کا تختہ الٹنا ہے، سلجوقیوں کا خاتمہ لازم ہے۔
محترم استاد!،،،،، حسن بن صباح نے پوچھا،،،،،،میں عبیدیوں کو نہیں جانتا، ان کی جڑیں کہاں ہیں؟
احمد بن عطاش نے حسن بن صباح کو اپنے رنگ اور اپنے انداز سے تفصیلات سنائیں کہ عبیدیوں کی جڑیں کہاں ہیں اور اس فرقے نے کہاں سے جنم لیا تھا ، مستند مؤرخوں اور اس دور کے علماء دین کی تحریروں سے عبیدیوں کا پس منظر واضح طور پر سامنے آجاتا ہے، یہ بھی اسلام پر فرقہ پرستوں کی ایک یلغار تھی۔
داستان گو نے پہلے کہا ہے کہ اسلام نے خصوصا اہلسنت والجماعت نے جو تیز و تند طوفان برداشت کیے ہیں وہ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں، ایک تو صہیونی اور صلیبی یلغار تھی جس نے اسلام کے تناور درخت کو جڑ سے اکھاڑنا چاہا تھا ،آج کے دور میں یہی یلغار ایک بار پھر شدت اختیار کر گئی ہے۔
یہ تو بیرونی یلغار ہے، اہل اسلام کے اندر سے جو حملہ آور اٹھے ان کا ہدف اہلسنت ہے، وہ اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے تھے لیکن ان کے عزائم اور سرگرمیاں نہ صرف غیر اسلامی یا اسلام کے منافی تھیں بلکہ اسلام کی بقا سلامتی اور فروغ کے لئے بے حد خطرناک تھیں، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
<========۔========>
جاری ہے بقیہ قسط۔6 حصہ 2۔ میں پڑھیں
*<=====۔===========>
Share:

Husn Bin Saba aur Uski Banayi hui Dunyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 08)

Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 08)

حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت
۔
قسط نمبر/8
۔
ملک شاہ نے اسی وقت فوج کے سپہ سالار اور کوتوال کو بلا کر انہیں وہ جگہ بتائی جہاں قافلہ لوٹا گیا اور قافلے والوں کا قتل عام ہوا تھا، اس نے حکم دیا کہ ہر طرف ہر شہر اور ہر آبادی میں جاسوس پھیلا دیئے جائیں۔
یہ کوئی بہت بڑا اور منظم گروہ ہے۔۔۔ سلطان ملک۔شاہ نے کہا ۔۔۔تم جاسوسوں اور مخبروں کے بغیر اس کا سراغ نہیں لگا سکتے، مجھے ان چھوٹے چھوٹے قلعوں کے مالکوں اور قلعہ داروں پر بھی شک ہے، ان کے ساتھ ہمیں مروت سے پیش آنا پڑتا ہے، تم جانتے ہو کہ وہ کسی بھی وقت خودمختاری کا اعلان کر سکتے ہیں ،میں ان پر فوج کشی نہیں کرنا چاہتا ،ورنہ یہ سرکش اور باغی ہو جائیں گے۔
سلطان عالی مقام!،،،،، سپہ سالار نے کہا۔۔۔ میری نظر قلعہ شاہ در کے والی احمد بن عطاش پر بار بار اٹھتی ہے، مجھے شک ہے کہ وہ کوئی زمین دوز کاروائیوں میں مصروف ہے، شاہ در ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں کی آبادی خاصی زیادہ ہے، احمد کو اس آبادی سے فوج مل سکتی ہے۔
اسے شاہ در کا والی میں نے ہی بنایا تھا۔۔۔ سلطان نے کہا ۔۔۔اور یہ شہر اس کے حوالے اسکی کچھ خوبیاں دیکھ کر کیا تھا، اس کی شہرت یہ ہے کہ وہ اہل سنت ہے اور وہ جب وعظ اور خطبہ دے رہا ہوتا ہے تو کفر کے پتھر بھی موم ہو جاتے ہیں، پہلے والی ذاکر نے وصیت کی تھی کہ شاہ در کا والی احمد بن عطاش کو مقرر کیا جائے۔
گستاخی معاف سلطان محترم !،،،،،کوتوال نے کہا ۔۔۔کسی کے خطابت سے متاثر ہونا اور بات ہے، لیکن ایسے خطیب کی نیت اور دل میں چھپے ہوئے عزائم کو سمجھنا بالکل ہی مختلف معاملہ ہے اور یہی ایک راز ہے جو جاننا ضروری ہوتا ہے ،مجھے کچھ ایسی اطلاعات ملتی رہی ہیں جن سے یہ شک پیدا ہوتا ہے کہ شاہ در میں اسماعیلی اکٹھے ہو رہے ہیں۔
یہ شک ایک اور وجہ سے بھی پختہ ہوتا ہے۔۔۔ سپہ سالار نے کہا ۔۔۔احمد نے قلعے کا والی بنتے ہی ان تمام اسماعیلیوں کو رہا کردیا تھا جنہیں سنی عقیدے کے خلاف کام کرتے پکڑا گیا تھا، لیکن اب ہم اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے کیونکہ تین سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے، اب ہم صرف یہ کر سکتے ہیں اور ہمیں یہ کرنا بھی چاہئے کہ کسی ایسے جاسوس کو شاہ در بھیج دیتے ہیں جو بہت ہی ذہین دانش مند اور ہر بات کی گہرائی میں اتر جانے والا ہو، وہ ذرا اونچی حیثیت کا آدمی ہونا چاہیے جو والی قلعہ کی محفلوں میں بیٹھنے کے قابل ہو۔
ایسا کوئی تمھاری نظر میں ہے؟،،،، سلطان نے پوچھا۔
میرے پاس دو ایسے آدمی ہیں۔۔۔ کوتوال نے کہا ۔۔۔ان دونوں میں جو بہتر ہے اگر آپ حکم دیں تو میں اسے شاہ در بھیج دوں گا، بھیجنے سے پہلے میں اسے کچھ دن تربیت دوں گا۔ بھیج دو !،،،،،ملک شاہ نے کہا ۔۔۔اگر فوج کشی کی ضرورت پڑی تو میں حیل و حجت نہیں کرونگا ،میں اپنی ذات کی توہین برداشت کر سکتا ہوں اپنے عقیدے کے خلاف ایک لفظ بھی گوارا نہیں کروں گا۔
اس شخص کا نام یحییٰ ابن الہادی تھا ،اس کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر تھی، عراقی عرب تھا ،خوبرو اتنا کے ہجوم میں ہوتا تو بھی دیکھنے والوں کی نظریں اس پر رک جاتی تھی، جسم گٹھا ہوا اور ساخت پرکشش، ایسا ہی حسن اس کی زبان میں تھا ،عربی اس کی مادری زبان تھی فارسی بھی بولتا اور سلجوقیوں کی زبان بھی سمجھ اور بول لیتا تھا یہ ترکی زبان تھی، شہسوار تھا، تیغ زنی اور تیراندازی میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ کوتوال نے اسے آٹھ دس دن اپنے ساتھ رکھا اور تربیت دیتا رہا ۔
ابن الہادی !،،،،کوتوال نے اسے شاہ در روانہ کرنے سے ایک روز پہلے کہا۔۔۔ یہ تو تم جان چکے ہو کہ شاہ در جاسوسی کے لیے جا رہے ہو، اور مجھے یقین ہے کہ تم کامیاب لوٹو گے، لیکن ایک بار پھر سن لو کہ تمہارا مقصد کیا ہے ،شک یہ ہے کہ احمد بن عطاش کی کچھ زمین دوز سرگرمیاں ہیں ،کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ اسماعیلیوں اور باغیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے، اگر ایسا نہیں تو یہ تم نے دیکھنا ہے کہ اس کے در پردہ عزائم کیا ہیں؟ کیا یہ عزائم سلطنت کے حق میں ہیں یا احمد سرکشی اور خودمختاری کی طرف بڑھ رہا ہے۔
میں آپ تک خبریں کس طرح پہنچایا کروں گا؟،،،، یحییٰ ابن الہادی نے پوچھا ۔
سنان تمہارے ساتھ جارہا ہے۔۔۔ کوتوال نے اسے بتایا۔۔۔ وہ تمہیں ملتا رہا کرے گا، میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں ابن الہادی !
اگلی صبح یحییٰ ابن الہادی اور سنان شاہ در کو روانہ ہو گئے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
احمد بن عطاش کو بتایا جاچکا تھا کہ قافلہ کامیابی سے لوٹ لیا گیا ہے، آٹھ دس دنوں بعد وہ تمام زروجواہرات جو قافلے سے ملے تھے احمد کے حوالے کردیئے گئے تھے، پھر باقی سامان بھی تھوڑا تھوڑا اس کو پہنچایا جاتا رہا، کسی کو شک تک نہ ہوا کہ قافلہ والی شاہ در کے کہنے پر لوٹا گیا تھا۔
محترم استاد !،،،،ایک روز حسن بن صباح نے احمد بن عطاش سے پرمسرت لہجے میں کہا۔۔۔ کیا اتنا مال ودولت اور اتنی حسین نوخیز لڑکیاں پہلے بھی آپ کو کسی قافلے سے ملی تھیں۔
نہیں حسن!،،،،، احمد نے کہا۔۔۔ میں نے اب تک جتنے قافلوں پر حملہ کروائے ہیں ان سب کا لوٹا ہوا مال اکٹھا کیا جائے تو اتنا نہیں بنتا جتنا اس قافلے سے حاصل ہوا ہے،۔۔۔۔،احمد خاموش ہو گیا اور حسن بن صباح کو غور سے دیکھ کر بولا ۔۔۔کیوں حسن آج تم کچھ زیادہ ہی خوش نظر آ رہے ہو؟
ہاں استاد !،،،،،حسن نے کہا۔۔۔میں اس لیے خوش نہیں کہ اس قافلے نے ہمیں مالامال کر دیا ہے، بلکہ میری خوشی کی وجہ یہ ہے کہ میری بتائی ہوئی ترکیب کامیاب رہی ہے،،،،،، میں کوئ اور بات کہنے لگا تھا،،،،، اس کامیابی کا جشن منانا چاہیے، اور اس جشن میں شہر کے لوگوں اور اردگرد کے لوگوں کو بھی شامل کیا جائے۔
کیا لوگوں کو کھانا کھلاؤ گے؟،،،،،، احمد بن عطاش نے پوچھا۔۔۔۔ ناچ گانا کراؤ گے ؟،،،جو کچھ بھی کرو گے وہ بعد کی بات ہے، پہلے تو سوچنے والی بات یہ ہے کہ لوگوں کو کیا بتاؤ گے کہ یہ کیسا جشن ہے؟
بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ جشن تو ہم منائیں گے، لوگوں کو کسی اور طریقے سے شامل کرنا ہے، وہ اس طرح کہ کم از کم دو دن گھوڑ دوڑ، نیزہ بازی، تیغ زنی، تیراندازی، کُشتی وغیرہ کے مقابلے کرائیں گے، اور جیتنے والوں کو انعام دیں گے، ہم نے جشن تو اپنا منانا ہے لیکن اس سے ایک فائدہ یہ حاصل ہوگا کہ لوگ خوش ہو جائیں گے، لوگوں کے ساتھ آپ کا رابطہ بہت ضروری ہے، لیکن یہ احتیاط ضروری ہوگی کہ میں لوگوں کے سامنے نہیں آؤں گا، یا انہیں اپنا چہرہ نہیں دیکھاؤ گا، کیونکہ میں نے بعد میں کسی اور روپ میں سامنے آنا ہے، جشن آپ کو ہر دلعزیز بنانے کے لئے ضروری ہے۔
احمد بن عطاش کو یہ تجویز اچھی لگی کہ اس نے اسی وقت جشن کی تفصیلات طے کرنی شروع کر دی ،پھر حکم دیا کہ شہر میں اور اردگرد کے علاقے میں ایک ہی دن میں یہ منادی کرا دی جائے کہ فلاں دن شاہ در میں گھوڑدوڑ، نیزہ بازی، تیغ زنی، کُشتی وغیرہ کے مقابلے ہوں گے، جن میں جو چاہے شریک ہو کر انعام حاصل کرسکتا ہے۔
اس منادی سے شاہ در کے ارد گرد کے علاقے میں نئی جان پڑ گئی ،لوگ ایک دو دن پہلے ہی شاہ در پہنچنا شروع ہو گئے، شہر کے ارد گرد خیموں کی ایک وسیع و عریض بستی آباد ہوگئی، گھوڑوں اور اونٹوں کا ہی کوئی شمار نہ تھا۔
مقابلے کے دن سے ایک دن پہلے خیموں کی بستی اتنی دور تک پھیل گئی تھی کہ اس کے درمیان شاہ در گاؤں سا لگتا تھا، سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے حسن بن صباح اپنے استاد اور پیرومرشد احمد بن عطاش کے ساتھ محل نما مکان کے بالا خانے کی کھڑکی میں کھڑا باہر سے آئے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہا تھا ،ان کی تعداد سینکڑوں نہیں ہزاروں تھی ۔
میرے مرشد !،،،،،حسن بن صباح نے احمد سے کہا۔۔۔ یہ ہے وہ مخلوق خدا جسے ہم نے اپنی مریدی میں لینا ہے، کیا یہ ممکن ہے؟
ناممکن بھی نہیں حسن !،،،،،احمد نے کہا۔۔۔ ہمارا کام آسان تو نہیں ،ہم نے ناممکن کو ممکن کر دکھانا ہے، تمہارے ساتھ یہ باتیں پہلے ہو چکی ہیں ،اگر حکومت ہماری ہوتی تو پھر کوئی مشکل نہیں تھی، ہمارے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ حکمران سلجوقی ہیں اور وہ اہلسنت ہیں، ہم تعداد میں تھوڑے ہیں ہم نے ان لوگوں کے دلوں پر قبضہ کرنا ہے، تم مجھ سے زیادہ عقلمند ہو اس ہجوم کو دیکھ کر مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہاری یہ تجویز کتنی قیمتی ہے۔
تفریح استاد محترم!،،،،، حسن نے کہا۔۔۔ انسان کی فطرت تفریح چاہتی ہے، انسان حقیقت کا مفرور ہے، لذت چاہتا ہے، آپ استاد ہیں، آفتاب ہیں آپ ، میں آپ کے سامنے چراغ سے بڑھ کر کیا حیثیت رکھتا ہوں، مجھے آپ کا سبق یاد ہے، ہر انسان کی ذات میں کمزوریاں ہیں اور ہر انسان اپنی کمزوریوں کا غلام ہے، اس ہجوم میں بڑے امیر لوگ بھی ہیں، زرپرستی اور برتری ان کی کمزوری ہے، اور جو غریب ہیں وہ ایسے خدا کی تلاش میں ہیں جو انہیں بھی امیر بنانے کی قدرت رکھتا ہے۔
انہیں یہ خدا ہم دیں گے۔۔۔ احمد نے کہا ۔۔۔انہیں ہم اپنے عقیدے میں لے آئیں گے۔
سورج غروب ہو گیا شاہ در اور اس کے اردگرد خیموں کی دنیا کی گہماگہمی رات کی تاریکی اور سکوت میں دم توڑتی چلی گئی، باہر کے لوگ نیند کی آغوش میں مدہوش ہو گئے تو احمد اور حسن کی دنیا کی رونق عروج پر پہنچ گئی، شراب کا دور چل رہا تھا نیک و بد کی تمیز ختم ہو چکی تھی۔
صبح طلوع ہوئی تو ہزارہا انسانوں کا انبوہ بے کراں اس میدان کے اردگرد جمع ہوگیا ،جس میدان میں مختلف مقابلے منعقد ہونے تھے، یہ بہت ہی وسیع و عریض میدان تھا مقابلے میں شرکت کرنے والوں کو منتظمین نے الگ جگہ دے دی تھی، اس طرف کسی تماشائی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔
احمد بن عطاش کے بیٹھنے کی جگہ ایک چبوترے پر تھی جو اسی مقصد کے لئے بنایا گیا تھا ،شاہی مہمانوں کے بیٹھنے کا انتظام بھی اسی چبوترے پر تھا ،اس پر بڑا ہی خوبصورت شامیانہ تنا ہوا تھا، برچھی بردار، سنتری اور چوب دار چمکیلے اور رنگ دار لباس میں چبوترے کے نیچے اور اوپر چاک و چوبند کھڑے تھے، ہر لحاظ سے یہ اہتمام شاہانہ لگتا تھا، روم کے شہنشاہوں کی یاد تازہ ہو رہی تھی۔
اچانک دو نقارے بجنے لگے ،ایک طرف سے احمد بن عطاش شاہی مہمانوں، اپنے خاندان کے افراد اور مصاحبوں کے جلوس میں شاہانہ چال چلتا آیا، اس کے ساتھ ایک باریش آدمی تھا جو سر تا پا ہلکے سبز رنگ کی عبا میں ملبوس تھا، اس کا چہرہ پوری طرح نظر نہیں آتا تھا، کیونکہ اس نے سر پر جو کپڑا لے رکھا تھا اس کپڑے نے اس کا آدھا چہرہ اس طرح ڈھکا ہوا تھا کہ اس کی آنکھیں اور ناک ہی نظر آتی تھیں، وہ حسن بن صباح تھا جس نے اپنے آپ کو لوگوں سے مستور رکھنا تھا۔
احمد بن عطاش حسن بن صباح کے ساتھ یوں چل رہا تھا جیسے حسن بن صباح کوئی بہت ہی معزز اور برگزیدہ بزرگ ہو، یہ سب لوگ چبوترے پر آکر اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کرسیوں پر بیٹھ گئے، احمد بن عطاش اٹھا اور چبوترے پر دو چار قدم آگے آیا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا۔۔۔ میں نے ان مقابلوں کا اہتمام اس لیے کرایا ہے کہ اسلام کی پاسبانی کے لئے قوم کے ہر فرد کا مجاہد بننا لازمی ہے، جہاد کے لیے تیاریاں کرتے رہنا ہر مسلمان کا فرض ہے، میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ ہم میں کتنے لوگ جہاد میں دشمن کو تہ تیغ کرنے کے قابل ہیں۔
اس نے ہاتھ بلند کرکے نیچے کیا جو اشارہ تھا کہ مقابلے شروع کردیئے جائیں، گھوڑ دوڑ شروع ہوگئ ۔
لوگوں نے داد و تحسین کا شور و غل بپا کردیا۔
اس کے بعد گھوڑ سواری کے کرتبوں کے مقابلے ہوئے اور اس کے بعد شترسوار میدان میں اترے ،جب اونٹوں کی دوڑ ختم ہو گئی تو اعلان ہوا کہ اب تیر اندازی کا مقابلہ ہوگا ،اس اعلان کے ساتھ ہی چار آدمی ایک بہت بڑا پنجرہ اٹھائے ہوئے میدان میں آئے، پنجرے میں ڈیڑھ دو سو کبوتر بند تھے، ایک آدمی نے اعلان کیا کہ ایک کبوتر اڑایا جائے گا اور ایک تیر انداز اس کبوتر کو تیر سے گرائے گا ،یہ بھی کہا گیا کہ کوئی تیرانداز پہلے تیر سے کبوتر کو نہ گرا سکے تو وہ دوسرا اور پھر تیسرا تیر بھی چلا سکتا ہے، اول انعام ان تیر اندازوں کو دیئے جائیں گے جو پہلے ہی تیر سے کبوتر کو نشانہ بنا لیں گے۔
کم و بیش ایک سو تیرانداز ایک طرف کھڑے تھے، پہلے تیر انداز کو بلایا گیا، پنجرے میں سے ایک کبوتر نکال کر اوپر کو پھینکا گیا، تیرانداز نے کمان میں تیر ڈالا اور جب کبوتر ذرا بلندی پر گیا تو اس نے تیر چلایا، لیکن کبوتر تیر کے راستے سے ہٹ گیا، تیرانداز نے بڑی پھرتی سے ترکش سے دوسرا تیر نکال کر کمان میں ڈالا اور کبوتر پر چلایا وہ بھی خطا گیا، تیسرا تیر بھی کبوتر کے دور سے گزر گیا۔
ایک اور تیر انداز کو بلایا گیا ،میدان کے وسط میں کھڑے ہو کر اس نے کمان میں تیر ڈالا اور تیار ہو گیا، پنجرے سے ایک کبوتر نکال کر اوپر کو چھوڑا گیا یہ تیر انداز بھی کبوتر کو نہ گرا سکا  ۔
دس بارہ تیرانداز آئے کوئی ایک بھی کبوتر کو نہ گرا سکا ،اگر پرندہ سیدھی اڑان میں اڑتا آئے تو ماہر تیر انداز اسے نشانہ بنا سکتا ہے، لیکن جو کبوتر پنجرے سے نکلتا تھا وہ اتنا ڈرا ہوا ہوتا تھا کہ بلندی پر بھی جاتا تھا اور بڑی تیزی سے دائیں اور بائیں بھی ہوتا تھا ،اس کی اڑان کا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ اب یہ کس طرف گھوم جائے گا ،ایسے پرندے کو تیر سے مارنا بہت ہی مشکل تھا۔
ایک اور تیرانداز آگے آیا اور ایک کبوتر اس کے لئے چھوڑا گیا، اس تیر انداز نے بھی یکے بعد دیگرے تین تیر چلائے مگر تینوں خطا گئے، لوگوں نے شور و غل بلند کیا ،تیر اوپر جاتے اور گرتے صاف نظر آتے تھے، یہ کبوتر تین تیروں سے بچ گیا اور تماشائیوں کے اوپر ایک چکر میں اڑتا بلند ہوتا جا رہا تھا ،ایک اور تیرانداز میدان میں آ رہا تھا۔
تماشائی ابھی اوپر اس کبوتر کو دیکھ رہے تھے جو تین تیروں سے بچ کر محو پرواز تھا، احمد بن عطاش کے چبوترے کے قریب جو تماشائی کھڑے تھے ان میں سے ایک کی کمان سے تیر نکلا جو کبوتر کے پیٹ میں اتر گیا ،اور کبوتر پھڑپھڑاتا ہوا نیچے آنے لگا۔ تماشائیوں پر سناٹا طاری ہو گیا ان کی حیرت قدرتی تھی، کبوتر زیادہ بلندی پر چلا گیا تھا اور ابھی تک گھبراہٹ کے عالم میں یوں اڑ رہا تھا جیسے پھڑپھڑا رہا ہو۔
یہ تیر انداز کون ہے؟،،،،، احمد بن عطاش نے اٹھ کر اور چبوترے پر آگے آکر کہا ۔۔۔سامنے آؤ۔۔۔ خدا کی قسم میں اس تیرانداز کو اپنے ساتھ رکھوں گا۔
ایک گھوڑسوار تماشائیوں میں سے نکلا اور چبوترے کے سامنے جا کھڑا ہوا ،اس کے ہاتھ میں کمان تھی اور کندھے کے پیچھے ترکش بندھی ہوئی تھی۔
کیا نام ہے تمہارا؟،،،، احمد بن عطاش نے اس سے پوچھا ۔۔۔ کہاں سے آئے ہو؟ کیا تم شاہ در کے رہنے والے ہو؟
میرا نام یحییٰ ابن الہادی ہے۔۔۔ تیر انداز نے جواب دیا۔۔۔ بہت دور سے آیا ہوں اور بہت دور جا رہا ہوں، یہاں کچھ دیر کے لیئے رکا تھا، لوگوں کا ہجوم دیکھا تو ادھر آ گیا، اگر اجازت ہو تو میں دوڑتے گھوڑے سے تیر اندازی کا مظاہرہ کر سکتا ہوں، میں دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن کوشش کروں گا کہ آپ کو کچھ بہتر تماشہ دکھا سکوں۔
اجازت ہے۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا۔
یحییٰ ابن الہادی نے گھوڑے کو دوڑایا اور میدان میں لے جاکر کہا کہ جب اس کا گھوڑا دوڑنے لگے تو ایک کبوتر چھوڑ دیا جائے، وہ گھوڑے کو ایک طرف لے گیا اور گھوڑا دوڑا دیا، پنجرے سے ایک کبوتر نکال کر چھوڑ دیا گیا ،یحییٰ نے دوڑتے گھوڑے پر ترکش سے ایک تیر کمان میں ڈالا اور کبوتر کو نشانے میں لینے لگا، آخر اس کی کمان سے تیر نکلا جو کبوتر کے ایک پر کو کاٹتا ہوا اوپر چلا گیا اور کبوتر پھڑپھڑاتا ہوا نیچے آ پڑا ۔
آفرین !،،،،،احمد بن عطاش نے اٹھ کر بے ساختہ کہا۔۔۔ میں تمہیں آگے نہیں جانے دوں گا، شاہ در ہی تمہاری منزل ہے۔
ایک خالی اونٹ میدان میں دوڑا دیا جائے، یحیٰی نے بلند آواز سے کہا،،،، اور اس نے گھوڑے کو روک لیا۔
ایک قوی ہیکل اونٹ کو میدان کے ایک سرے پر لا کر پیچھے سے مارا پیٹا گیا اونٹ ڈر کر دوڑ پڑا، تین چار آدمی اس کے پیچھے پیچھے دوڑے تاکہ اس کی رفتار تیز ہو جائے، یحییٰ نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور گھوڑے کو گھما پھرا کر اونٹ کے پہلو کے ساتھ کر لیا،
گھوڑے کو اپنے ساتھ دوڑتا دیکھ کر اونٹ اور تیز ہوگیا ،اونٹ کی پیٹھ پر کجاوہ کسا ہوا تھا جو ایک آدمی کی سواری کے لئے تھا ،اس کی مہار زین کے ساتھ بندھی ہوئی تھی، یحییٰ نے ریکاب میں سے پاؤں نکالے اور دوڑتے گھوڑے کی پیٹھ پر کھڑا ہو گیا، وہاں سے اچھلا اور اونٹ کی پیٹھ پر پہنچے گیا ،اس نے اونٹ کی مہار پکڑ لی، گھوڑا اونٹ سے الگ ہو گیا ،یحییٰ اونٹ کو گھوڑے کے پہلو میں لے گیا اور اونٹ کی پیٹھ سے کود کر گھوڑے کی پیٹھ پر آگیا ،اس نے یہ کرتب دکھانے سے پہلے اپنی کمان پھینک دی تھی، اس نے گھوڑے کو موڑا اور چبوترے کے سامنے جا رکا ۔
یہ وہی یحییٰ ابن الہادی تھا جسے سلطان ملک شاہ کے کوتوال نے جاسوسی کے لئے شاہ در بھیجا تھا ،وہ دو روز پہلے شاہ در پہنچا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اپنا کام کس طرح شروع کرے، انہیں دنوں مقابلوں کا ہنگامہ شروع ہوچکا تھا پھر مقابلے کا دن آگیا اور وہ تماشائیوں میں جا کھڑا ہوا ،اس نے جب اڑتے کبوتروں پر تیر چلتے اور خطا ہوتے دیکھے تو اس نے سامنے آئے بغیر ایک کبوتر پر تیر چلا دیا ،اس طرح اس کا رابطہ براہ راست احمد بن عطاش سے ہو گیا ،موقع بہتر جان کر اس نے گھوڑسواری کا کرتب بھی دکھا دیا۔
*=÷÷=÷=۔=÷=÷=÷=÷=÷*
ایک ایک تیر انداز آگے آتا رہا، اڑتے کبوتروں پر تیر چلتے رہے، کوئی ایک بھی تیرانداز کبوتر کو نشانہ نہ بنا سکا ،یحییٰ بن الھادی کی شکل و شباہت، قد، کانٹھ، جسم کی ساخت، ڈیل ڈول، اور انداز ایسا تھا کہ احمد بن عطاش نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے حسن بن صباح سے کہا کہ یہ جواں سال گھوڑسوار کوئی معمولی آدمی نہیں لگتا۔
اگر یہ مان جائے تو میں اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ احمد بن عطاش نے حسن سے کہا۔۔۔ ہمیں اس قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے۔
پوچھ لیں۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ لگتا تو مسلمان ہے، معلوم نہیں کون سے قبیلے اور کس فرقے کا آدمی ہے؟
احمد بن عطاش نے ایک چوبدار کو بھیج کر یحییٰ کو بلایا، یحییٰ آیا تو احمد نے اسے چبوترے پر بلا کر اپنے پاس بٹھا لیا ،یحییٰ کا گھوڑا ایک چوبدار نے پکڑ لیا، میدان میں مختلف مقابلے یک بعد دیگر ہو رہے تھے، لیکن احمد کی توجہ ادھر سے ہٹ گئی تھی، وہ یحییٰ کے ساتھ باتیں کررہا تھا، پہلا اور قدرتی سوال یہ تھا کہ وہ کون ہے اور کہا جارہا ہے؟
اپنی منزل کا مجھے کچھ پتہ نہیں ۔۔۔یحییٰ نے کہا ۔۔۔شاید میں بھٹک گیا ہوں۔
کیا تم صاف بات نہیں کرو گے؟،،،، احمد بن عطاش میں کہا ۔۔۔مجھے تمہاری بات میں دلچسپی پیدا ہوگئی ہے، کیا تم کچھ دن میرے مہمان رہنا پسند کرو گے ؟
رک جاؤں گا ۔۔۔یحییٰ نے جواب دیا۔۔۔ اگر میری روح کو یہاں تسکین مل گئی تو اس شہر کو اپنا ٹھکانہ بنا لوں گا ،لیکن آپ مجھے یہاں روک کر کریں گے کیا؟
میں چاہتا ہوں کہ لوگ تم سے تیراندازی سیکھیں ۔۔۔احمد نے کہا ۔۔۔اور تم یہاں ایک محافظ دستہ تیار کرو، یہ دستہ گھوڑسوار ہو گا ،تم نے ہر ایک محافظ کو شہسوار بنانا ہے ۔
کیا آپ اپنی فوج تیار کرنا چاہتے ہیں؟،،،، یحییٰ نے پوچھا۔
یحییٰ نے یہ سوال جاسوس کی حیثیت سے کیا تھا ،اسے پوری طرح اندازہ نہیں تھا کہ اس کا سامنا کس قدر گھاگ اور کایاں آدمی سے ہے۔
اپنی فوج!،،،،، احمد بن عطاش نے چونک کر کہا ۔۔۔میں اپنی فوج نہیں بناسکتا ،میں تو یہاں کا والی ہوں، فوج تیار کرنا سلطان کا کام ہے، میں یہاں لوگوں کو جہاد کے لئے تیار کرنا چاہتا ہوں، تم نے دیکھا ہے کہ یہاں ایک بھی ایسا تیر انداز نہیں جو اڑتے کبوتر کو نشانہ بنا سکے، گھوڑ سواری میں یہ لوگ اتنے ماہر نہیں جتنا انہیں ہونا چاہیے، اگر میں ایک دستے کی صورت میں کچھ لوگوں کو تیار کر لوں گا تو وہ سلطان کے ہی کام آئیں گے، تم یقینا اہلسنت والجماعت ہو۔
میں مسلمان ہوں!،،،، یحییٰ نے کہا۔۔۔ لیکن میں عقیدوں کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا ہوں، سوچ سوچ کر پاگل ہوا جارہا ہوں کہ کونسا عقیدہ خدا کا اتارا ہوا ہے اور کونسا انسانوں نے خود گڑھ لیا ہے، کبھی کہتا ہوں کے اسماعیلی صحیح راستے پر جا رہے ہیں اور پھر خیال آتا ہے کہ اہلسنت صراط مستقیم پر ہیں، میں تو مرد میدان تھا، آپ نے دیکھ ہی لیا، لیکن دماغ میں ان سوالوں نے سر اٹھایا اور مجھے منزل منزل کا بھٹکا ہوا مسافر بنا ڈالا ،میری روح تشنہ اور بے چین ہے۔
احمد نے حسن بن صباح کی طرف دیکھا جس کا آدھا چہرہ ڈھکا ہوا تھا، حسن بن صباح نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے کچھ کہہ دیا۔
ہم تمہیں بھٹکنے نہیں دیں گے یحییٰ!،،،،، احمد نے کہا۔۔۔ خدا نے ہم پر یہ کرم کیا ہے کہ یہ بزرگ ہستی ہمیں عنایت کی ہے، یہ دینی علوم کے بہت بڑے عالم ہیں، میں ان سے درخواست کروں گا کہ یہ تمہیں اپنی شاگردی میں بٹھا لیں، اور تمہارے شکوک و شبہات رفع کر دیں ،مجھے امید ہے کہ تمہاری روح کی تشنگی ختم ہو جائے گی۔
اے بھٹکے ہوئے مسافر !،،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ مرد میدان ہو، تمہیں علم اور خصوصا دینی علم کے جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہیے، اپنی صلاحیتیں ضائع نہ کرو ،ہم تمہیں اپنے پاس بٹھائیں گے، کچھ روشنی دکھائیں گے اور تمہاری تسکین کر دیں گے۔
تیغ زنی وغیرہ کے مقابلے ہو رہے تھے، تماشائیوں نے بے ہنگم شور و غوغا بپا کر رکھا تھا ،میدان سے اتنی گرد اڑ رہی تھی کہ مقابلہ کرنے والے اچھی طرح نظر بھی نہیں آتے تھے، دوپہر کے بعد کا وقت ہو گیا تھا، احمد بن عطاش نے اعلان کروایا کہ باقی مقابلے کل صبح ہوں گے، اور جو لوگ اس وقت تک مقابلوں میں کامیاب رہے ہیں انہیں مقابلے ختم ہونے کے بعد انعامات دیے جائیں گے۔
احمد بن عطاش اٹھ کھڑا ہوا ،شاہی مہمان وغیرہ بھی اٹھے اور وہ سب چلے گئے، احمد نے یحییٰ کو اپنے ساتھ رکھا، گھر لے جا کر اس کا منہ ہاتھ دھلوایا اور پھر وہ دسترخوان پر جا بیٹھے، کھانے کے دوران بھی ان کے درمیان باتیں ہوتی رہیں ،یحییٰ نے اپنے متعلق یہ تاثر دیا کہ وہ اپنے قبیلے کے سردار خاندان کا فرد ہے ،اور اس کا اثر و رسوخ اس وقت صرف اپنے قبیلے پر ہی نہیں بلکہ دوسرے قبیلے بھی اس کے خاندان کے رعب و دبدبے کو مانتے ہیں۔
یہ بڑا ہی اچھا اتفاق تھا کہ یحییٰ انہی لوگوں میں پہنچ گیا تھا جن کے متعلق اس نے معلوم کرنا تھا کہ ان کے اصل چہرے کیا ہیں ،اور کیا انہوں نے کوئی بہروپ تو نہیں چڑھا رکھا، اب یہ اس کی ذہانت اور تجربے کا امتحان تھا کہ وہ ان لوگوں سے کس طرح راز کی باتیں اگلوا سکتا ہے۔
چونکہ احمد بن عطاش حاکم تھا اس لئے اسے اپنے متعلق یہ بتانا ضروری تھا کہ وہ سرداری کی سطح کا آدمی ہے اور دوچار قبیلوں پر اس کا اثر اور رسوخ کام کرتا ہے، اس نے ان کے سامنے اپنی ایک مصنوعی کمزوری بھی رکھ دی تھی کہ وہ دینی علوم کے راز حاصل کرنے کے لئے بھٹکتا پھر رہا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
تم آج بہت تھکے ہوئے معلوم ہوتے ہو۔۔۔ احمد بن عطاش نے کھانے کے کچھ دیر بعد یحییٰ سے کہا ۔۔۔تمہارے لئے اسی مکان میں رہائش کا بندوبست کردیا گیا ہے ،شام کا کھانا وہیں پہنچ جائے گا، آج آرام کر لو کل کام کی باتیں ہونگی ۔
مسلسل سفر میں ہوں ۔۔۔۔یحییٰ نے کہا۔۔۔ آپ نے ٹھیک جانا ہے، میں بہت ہی تھکا ہوا ہوں، ایک درخواست ہے میرا ملازم بھی میرے ساتھ ہے، اگر اس کی رہائش کا بھی انتظام ہو جائے۔۔۔
ہوجائے گا ۔۔۔احمد نے کہا ۔۔۔اسے یہیں لے آؤ۔
جسے یحییٰ نے اپنا نوکر کہا تھا وہ سنان تھا، سنان کو اس کام کے لیے اپنے ساتھ لایا تھا کہ کوئی ضروری اطلاع وغیرہ ہوگی تو وہ سنان لے کر مرو جائے گا۔
ایک ملازم کو بلا کر یحییٰ کو اس کے ساتھ اس کے کمرے میں بھیج دیا گیا، یحییٰ کمرہ دیکھ کر حیران رہ گیا ،وہ تو شاہانہ کمرہ تھا، یحییٰ بہت خوش تھا کہ وہ ٹھیک ٹھکانے پر پہنچ گیا ہے اور وہ چند دنوں میں اپنا کام مکمل کر لے گا۔
اب بتاؤ حسن !،،،،احمد بن عطاش نے یحییٰ کے جانے کے بعد حسن بن صباح سے پوچھا۔۔۔ اس شخص کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے ،ایک تو ہم اس سے یہ فائدہ اٹھائیں گے کہ ہمیں تیر انداز اور شہسوار تیار کر دے گا، ہم نے قلعہ المُوت تک جتنے قلعہ نما شہر سامنے آتے ہیں انہیں اپنے قبضے میں لینا ہے، یہ ہمیں کر ہی  لینے پڑیں گے، اس کے لئے ہمیں جاں باز فوج کی ضرورت ہے، اس کی نفری چاہے تھوڑی ہی ہو ،یہ شخص خاصہ عقلمند لگتا ہے اور تین قبیلوں پر بھی اس کا اثر اور رسوخ ہے، اسے اگر ہم اپنے سانچے میں ڈھالیں تو یہ بڑے کام کا آدمی ثابت ہوگا۔
ہاں استاد محترم !،،،،حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ آدمی تو کام کا لگتا ہے ،لیکن ہمیں اس پر نظر رکھنی پڑے گی کہ یہ قابل اعتماد بھی ہے یا نہیں ،ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اسے راز کی باتیں بتانا شروع کردیں، جیسا کہ یہ کہتا ہے کہ یہ منزل منزل کا مسافر ہے، یوں بھی ہو سکتا ہے کہ کسی روز ہمیں بتائے بغیر غائب ہی ہو جائے، احتیاط لازمی ہے۔
صورت یہ پیدا ہو گئی کہ جو جاسوس بن کر آیا تھا اس کی بھی درپردہ جاسوسی ہونے لگی۔ اگلی صبح اسے کمرے میں ہی ناشتہ دیا گیا، اور ناشتے کے بعد ایک چوبدار اسے اپنے ساتھ لے گیا، ایک کمرے میں حسن بن صباح اس کے انتظار میں بیٹھا تھا، اس کے اشارے پر یحییٰ اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
اب بات کرو یحییٰ !،،،،حسن نے کہا۔۔۔ کیا وہم ہے، کیا مسئلہ ہے جو تم اپنے دماغ میں لیے پھرتے ہو؟
کیا میں خدا کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر جا رہا ہوں؟۔۔۔ یحییٰ نے پوچھا۔۔۔ کیا میرا عقیدہ صحیح ہے؟
یہ بات نہیں یحییٰ!،،،، حسن نے کہا۔۔۔ اصل سوال جو تمہارے دماغ میں تڑپ رہا ہے اور تمہارے لیے بے چینی کا باعث بنا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کیا خدا کا وجود ہے ،اگر ہے تو خدا کہاں ہے؟،،، خدا نظر ہی نہیں آتا تو یہ راستہ اور یہ عقیدہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے، حسن بن صباح یحییٰ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس طرح بات کر رہا تھا جیسے ندی کا شفاف پانی پتھروں پر آہستہ آہستہ جلترنگ بجاتا بہا جا رہا ہو، حسن کے ہونٹوں پر روح افزا مسکراہٹ تھی، یحییٰ کے ذہن میں ایسا کوئی سوال نہیں تھا وہ توان لوگوں کی اصلیت معلوم کرنے کی کوشش میں تھا ،اسے توقع تھی کہ احمد بن عطاش اسماعیلی ہوا تو اس کے سوال سن کر یہ لوگ اس کے ذہن میں اسماعیلیت ٹھوسنی شروع کر دیں گے، لیکن اس کی حالت ایسی ہو گئی تھی جیسے دشمن نے اسے تہہ تیغ کرکے نہتا کر دیا ہو ،حالانکہ حسن بن صباح نے اپنی بات ابھی شروع ہی کی تھی۔
خدا وہ ہے جو انسان کو نظر آتا ہے۔۔۔ حسن کہہ رہا تھا ۔۔۔نظر آنے والا خدا ایک نہیں کئی ایک ہے، اور یہ سب انسان کے ہاتھوں کے بنائے ہوئے خدا ہیں، کسی نے پتھر کو تراش کر خدا کو آدمی کی شکل دے دی ،کسی نے خدا کو عورت بنا دیا، کسی نے شیر ،کسی نے سانپ، اور کسی نے دھڑ جانور کا اور چہرہ انسان کا بنا دیا۔
بات یہ سمجھنے والی ہے یحییٰ!،،،، خدا انسان کی تخلیق نہیں بلکہ انسان خدا کی تخلیق ہے، اور انسان کا ہر قول اور فعل خدا کے حکم کا پابند ہے، یہ صراط مستقیم ہی ہے کہ تم یہاں پہنچ گئے ہو، یہاں تمہارے سارے شکوک صاف ہو جائیں گے، لیکن یہ ایک دن کا معاملہ نہیں کچھ دن لگیں گے، تم اپنے آپ کو میرے حوالے کر دو، انسان وہی کامل بنتا ہے جو اپنے آپ کو کسی کامل پیر و مرشد کے حوالے کردیتا ہے۔
قابل تعظیم بزرگ!،،،، یحییٰ نے التجا کی۔۔۔ مجھے اپنی مریدی اور شاگردی میں قبول فرما لیں۔
دین کی تبلیغ میرا فرض ہے۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ میں تمہیں تمہارے متعلق ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہوں، تم نے کہا تھا کہ تم مرد میدان ہو ،خدا تمہیں منزل پر لے آیا ہے، تم نے لوگوں کو اپنے جیسا تیرانداز اور شہسوار بنانا ہے، انہیں کفر کے خلاف جہاد کے لئے تیار کرنا ہے، میں عالم ہوں تم عامل ہو، خدا کی نگاہ میں تمہارا رتبہ مجھ سے زیادہ بلند ہے، یہاں سے جانے کی نہ سوچنا ۔
یحییٰ ابن الہادی تو چاہتا ہی یہی تھا، وہ دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اس کی ذات باری نے اس کا کام بہت ہی آسان کر دیا تھا ،اور اس کے آگے آگے راستہ صاف ہوتا چلا جا رہا تھا۔
اس کے ساتھی سنان کی رہائش وغیرہ کا انتظام کہیں اور کیا گیا تھا ،اس نے سنان کو بلاکر اچھی طرح ذہن نشین کرا دیا کہ اس سے کوئی پوچھے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں ؟،تو وہ کیا جواب دے، اور وہ سیدھا سادھا بلکہ بیوقوف سا نوکر بنا رہے، جو معمولی سی بات سمجھنے میں بھی بہت وقت لگاتا ہے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
کچھ دیر بعد یحییٰ احمد بن عطاش کے پاس بیٹھا ہوا تھا ،اسے احمد نے بلایا تھا ،وہاں چار لڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں، چاروں نوجوان تھیں اور ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت ،وہ بہت ہی شوخ اور چنچل تھیں، ایک دوسرے کے ساتھ اٹھکیلیاں کر رہی تھیں، یحییٰ کی موجودگی کا انہی جیسے احساس ہی نہیں تھا۔
یحییٰ !،،،،احمد بن عطاش یحییٰ سے کہہ رہا تھا ۔۔۔تم خوش قسمت ہو کہ اتنے بڑے عالم دین نے تم پر کرم کیا ہے کہ تمہیں اپنی مریدی میں قبول کر لیا ہے، اور تمہیں کہا ہے کہ یہیں رہو اور تیر اندازی اور شہسواری کا ہنر جو تم میں ہے وہ دوسروں کو بھی سکھا دو، یہ تو کسی کے ساتھ بات ہی نہیں کرتے، خدا کی یاد میں ڈوبے رہتے ہیں اور خدا سے ہی ہم کلام ہوتے ہیں۔
ہر حکم بجا لاؤں گا۔۔۔ یحییٰ نے کہا ۔۔۔ان آدمیوں کو میرے حوالے کر دیں جنہیں میں نے سکھلائی دینا ہے۔
بسم اللہ ان لڑکیوں سے کرو۔۔۔ احمد نے کہا۔۔۔ یہ میرے خاندان کی لڑکیاں ہیں، یہ جب تیر اندازی میں تم جیسی مہارت حاصل کرلیں گی تو دوسری لڑکیوں کی سکھلائی کریں گی، ہماری عورتوں کو تیر انداز ہونا چاہیے، پھر انہیں گھوڑ سواری کی مشق کرنی ہے، میں تمھاری باقاعدہ تنخواہ مقرر کر دوں گا۔
میں آج ہی یہ کام شروع کر دوں گا ۔۔۔یحییٰ نے کہا ۔۔۔مجھے تیراندازی کے لیے ایسی جگہ دکھا دیں جہاں سامنے تیروں کے لئے رکاوٹ ہو، ورنہ تیر ہر طرف اڑتے پھریں گے اور راہ جاتے لوگ زخمی ہونگے۔
احمد بن عطاش کے حکم سے سارے انتظامات کر دیے گئے، اور یحییٰ چاروں لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے گیا ،وہ کمانیں اور تیروں کا ایک ذخیرہ بھی ساتھ لے گیا تھا، یحییٰ نے لڑکیوں کی سکھلائی شروع کردی، پہلے دن وہ انہیں کمان کھینچنا اور بازوؤں کو سیدھا رکھنا سکھاتا رہا، کمانیں بہت سخت تھیں، لڑکیاں کمان کھینچتیں تھیں تو ان کے دونوں بازو کانپتے تھے، یحییٰ انہیں بتا رہا تھا کہ بازوؤں کو اپنے قابو میں کس طرح رکھنا ہے کہ ان میں لرزا پیدا نہ ہو۔
ادھر میدان میں کشتیوں اور دوڑوں وغیرہ کے مقابلے ہو رہے تھے، احمد بن عطاش اور حسن بن صباح وہاں چلے گئے تھے ،وہ دونوں بہت خوش تھے کہ انہوں نے اتنے زیادہ لوگ اکٹھا کر لیے تھے، وہ کھیل تماشوں میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہے تھے، بلکہ وہ اپنے اس منصوبے پر گفتگو کر رہے تھے کہ اس مخلوق خدا کو اپنے عزائم میں استعمال کرنا ہے۔
ان چار لڑکیوں میں جو یحییٰ ابن الہادی سے تیراندازی سیکھنے گئی تھیں داستان گو دو کا ذکر پہلے بھی کر چکا ہے، ایک تھی فرح، جو حسن بن صباح کی محبت سے مجبور ہوکر اس کے ساتھ گئی تھی، دوسری زرّیں تھی، جس نے شاہ در کے مرحوم والی ذاکر کو اپنے حسن و جوانی اور بھولے پن کے جال میں پھانسا اور اسے دھوکے سے شربت میں زہر پلا پلا کر ایسی بیماری میں مبتلا کردیا تھا کہ کچھ دنوں بعد ذاکر مر گیا ،طبیب سر پٹختے رہ گئے کہ ذاکر کی بیماری کیا تھی۔
زریں غیرمعمولی طورپر حسین اور نوجوان لڑکی تھی، احمد بن عطاش نے اس کی تربیت ایسی کی تھی کہ تجربے کار اور معمر استاد بھی اس کے ہاتھوں میں عقل و ہوش سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے، یحییٰ خاص طور پر خوبرو اور پرکشش جوان تھا ،اور اس نے تیر اندازی اور گھوڑ سواری کے جو کرتب دکھائے تھے ان سے اس نے لوگوں سے بے ساختہ داد و تحسین حاصل کی تھی، اور کچھ دلوں میں اس نے ہلچل برپا کردی تھی، اس زمانے میں مرد ایسے ہی اوصاف اور کمالات سے باعزت اور قابل محبت سمجھے جاتے تھے۔
زرین نے اپنے استاد سے فریب کاری سیکھی تھی، اور یہ مفروضہ اس کا عقیدہ بن گیا تھا کہ عورت کا حسن مردوں کو فریب دینے کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے، احمد نے اس کے دل سے جذبات نکال دیے تھے، وہ دانشمند تھا خوب جانتا تھا کہ عورت ہو یا مرد دونوں میں سے کوئی بھی جذبات میں الجھ جائے تو وہ کسی کام کا نہیں رہتا۔
صرف یہ راز اپنے دل میں بند کرلو زرّیں۔۔۔۔ احمد بن عطاش نے اسے کئی بار کہا تھا ۔۔۔تم ایک ایسا حسین بلکہ طلسماتی پھندہ ہو جس میں انتہائی زہریلا ناگ بھی آ جائے گا اور جانداروں کو چیر پھاڑ دینے والا درندہ بھی، تمہارے پھندے میں آ کر تمہارا غلام ہو جائے گا، تم نے اس کے لئے ایسا حسین فریب بنے رہنا ہے کہ وہ تمہاری فریب کاری کو بھی تمہارے حسن کا حصہ سمجھے گا، اسے یہ تاثر دیے رکھو کہ تم اس کی محبوبہ ہو اور تم اسے خدا کے بعد کا درجہ دیتی ہو، اور پھر عملی طور پر ایسے مظاہرے کرتی رہو جیسے تم اس کے بغیر ایک لمحہ بھی زندہ نہیں رہ سکتی ،اس کے جذبات کے ساتھ کھیلو اور ناز و انداز کے علاوہ اس کے قدموں میں یوں لوٹ پوٹ ہوتی رہو جیسے تم اس کی زر خرید لونڈی ہو، اس طرح اس پر اپنے حسن و جوانی اور فریب کاری کا نشہ طاری کرکے اس کی کھال اتارتی رہو، اور اس کا خون چوستی رہو۔
یہ ایک بنیادی سبق تھا جو احمد لڑکپن کے پہلے دن سے زرین کو دیتا چلا آیا تھا ،لیکن اس نے اسے یہ سبق وعظ کی صورت میں ہی نہیں دیا تھا ،بلکہ عملی طور پر بھی اسے سمجھایا تھا، اس کے پاس ذرا بڑی عمر کی تین چار عورتیں تھیں جنہوں نے زریں کو اس سبق کے عملی مظاہرے کرکے دکھائے تھے، ان عورتوں نے زریں کو بڑا ہی حسین اور روشنی میں رنگارنگ شعاعیں دینے والا پتھر یا ہیرا بنا دیا تھا ،اسے ایسا ہی ایک خوبصورت ہیرا دکھایا بھی گیا تھا۔
یہ ہیرا دیکھ رہی ہو زریں!،،،، اسے ہیرا دکھا کر کہا گیا تھا۔۔۔ کیا تم نہیں چاہوں گی کہ یہ ہیرا تمہارے گلے کی یا انگلی کی زینت بنے۔
کیوں نہیں چاہوں گی۔۔۔ زریں نے کہا تھا۔
اگر تمہیں اس کی قیمت بتائی جائے تو تمہارے ہوش اڑ جائیں ۔۔۔اسے کہا گیا تھا۔۔۔ ایسے ایک ایک ہیرے پر بادشاہوں کے تختے الٹے ہیں، لیکن اس اتنے دلکش اور قیمتی ہیرے کو تم نگلو تو مر جاؤ گی ،یہ اس ہیرے کے زہر کا اثر ہوگا ،،،،،،تم نے یہ ہیرا بننا ہے، تمہیں کوئی جنگجو اور جابر بادشاہ بھی دیکھے تو وہ تمہیں حاصل کرنے کے لئے اپنی بادشاہی کو بھی بازی پر لگا دے، لیکن جو تمہیں نگلنے یعنی تمہیں زیر کر کے تم پر قبضہ کرلے وہ زندہ نہ رہے۔
داستان گو آگے چل کر وہ واقعات سنائے گا جو ثابت کریں گے کہ عورت کتنی بڑی قوت، کتنا زبردست جادو اور طلسم ہے۔ حسن بن صباح کی کامیابی کا جو راز تھا اس راز کا نام عورت ہے، حسین عورت جسے چاہے قتل کروا سکتی ہے، اور جسے چاہے اسے زندہ لاش بنا سکتی ہے، عورت قاتل کو تختہ دار سے بھی اتروا سکتی ہے۔
زریں کی ذات میں یہ سارا زہر بھر دیا گیا تھا ،اس نے اپنا پہلا شکار بڑی کامیابی سے مار لیا تھا وہ ذاکر تھا ،کامیابی صرف یہی نہیں تھی کہ اس قلعہ نما شہر کا والی مر گیا تھا ،بلکہ زریں نے شاہ در جیسا شہر اپنے استاد احمد بن عطاش کی جھولی میں ڈال دیا، پھر یہ احمد کی فریب کاری کا کمال تھا کہ سلجوقی سلطان نے اسے قلعے کا والی مقرر کردیا تھا۔
زریں اس کامیابی پر بہت خوش تھی، وہ اگلے شکار کے انتظار میں تھی لیکن اس نے یحییٰ ابن الھادی کو دیکھا تو اس نے اپنے آپ میں کچھ ایسی ہلچل محسوس کی جسے وہ سمجھ نہ سکی، اس کا دل چاہنے لگا کہ وہ یحییٰ کے پاس بیٹھ کر اس سے پوچھے کہ اسے دیکھ کر اس کے اندر بھونچال کے جو ہلکے ہلکے اور لطیف سے جو جھٹکے محسوس ہوتے ہیں یہ کیا ہیں؟
یحییٰ میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ خوش طبع آدمی تھا، کسی بات میں تلخی ہوتی تو اس بات میں بھی وہ شگفتگی پیدا کر لیا کرتا تھا ،چاروں لڑکیاں اس کی اس زندہ مزاجی کو اتنا پسند کرتی تھیں کہ اسے اکساتی تھیں کہ وہ باتیں کرے، یحییٰ بھی ان لڑکیوں کو باتوں باتوں میں خوش رکھنے کی کوشش کرتا رہا تھا کہ لڑکیاں تیراندازی میں دلچسپی لیتی رہیں لیکن زریں کی جذباتی حالت کچھ اور ہی تھی ،کبھی تو وہ کچھ دور بیٹھ کر یحییٰ کو دیکھتی رہتی تھی، زریں بھی کچھ طبعاً اور کچھ خصوصی تربیت کے زیر اثر زندہ اور شگفتہ مزاج لڑکی تھی، لیکن یحییٰ کو دیکھ کر اس پر سنجیدگی سی طاری ہو جاتی تھی جسے وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
یحییٰ ان لڑکیوں کو تیراندازی اس طرح سیکھاتا تھا کہ کمان لڑکی کے ہاتھ میں دیتا اور خود اس کے پیچھے کھڑا ہوتا تھا، سکھانے کا طریقہ بھی یہی تھا ،وہ اپنا بازو لڑکی کے کندھے سے ذرا اوپر کرکے اس کے ہاتھوں میں کمان کو سیدھا کرتا تھا ،اس طرح اکثر یوں ہوتا تھا کہ لڑکی کی پیٹھ اسکے سینے کے ساتھ لگ جاتی تھی، باقی لڑکیوں کی توجہ تیراندازی میں ہوتی تھی وہ شاید محسوس بھی نہیں کرتی تھی کہ اس کا جسم  ایک جوان آدمی کے ساتھ لگ رہا ہے، لیکن زریں کا معاملہ کچھ اور تھا، وہ دانستہ اپنی پیٹھ یحییٰ کے ساتھ لگا لیتی تھی اور پھر اس کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ کچھ دیر یحییٰ کے ساتھ اسی حالت میں رہے۔
شاید یحییٰ بھی زریں کے ان جذبات کو سمجھنے لگا تھا۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
شام گہری ہو چکی تھی، یحییٰ سونے کی تیاری کررہا تھا ،اس کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی، یحییٰ نے دروازہ کھولا باہر زریں کھڑی تھی، جو دروازہ کھلتے ہی فوراً اندر آ گئی ،یحییٰ اسے یوں اندر آتے دیکھ کر ذرا سا بھی حیران یا پریشان نہ ہوا ،وہ جانتا تھا کہ یہ والی شہر کے خاندان کی لڑکی ہے، اسے اور دوسری لڑکیوں کو بھی وہ آزادی سے گھومتے پھرتے دیکھا کرتا تھا۔
میں یہاں کچھ دیر بیٹھنا چاہتی ہوں۔۔۔ زریں نے کہا ۔۔۔تم برا تو نہ جانو گے۔
برا کیوں جانوں گا زریں!،،،، یحییٰ نے کہا ۔۔۔نیت بری نہ ہو تو برا جاننے کی کوئی وجہ نہیں ہوتی،،،،،،،یحییٰ نے زریں کو غور سے دیکھا اور بولا،،،، تم کچھ بجھی بجھی سی اور اکھڑی سی لگ رہی ہو ،تم تو ان سب لڑکیوں سے زیادہ ہنس مکھ ہو۔
میرے پاس بیٹھ جاؤ ۔۔۔۔زرین نے سنجیدہ اور متین سے لہجے میں کہا۔۔۔ یہاں،،، میرے قریب بیٹھو۔
یحییٰ اس کے قریب بیٹھ گیا ،زریں نے اس کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا، یحییٰ بھی آخر جوان آدمی تھا اور اسے خدا نے ایسی عقل اور نظر دی تھی کہ وہ پردوں کے پیچھے کی بات بھی سمجھ جایا کرتا تھا۔
تم ٹھیک کہتے ہو یحییٰ!،،،،، زریں نے یحییٰ کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں آہستہ آہستہ مسلتے ہوئے کہا۔۔۔ میرے دل کی جو کیفیت ہے وہ میرے چہرے سے ظاہر ہو رہی ہے، میں اتنی سنجیدہ کبھی بھی نہیں ہوئی تھی ،میں تو سمجھتی تھی کہ میں دنیا میں ہنسنے کھیلنے کے لئے ہی آئی ہوں لیکن تم میرے سامنے آئے ہو تو میں نے اپنے اندر ایسا انقلاب محسوس کیا ہے کہ میرے لئے اپنے آپ کو پہچاننا مشکل ہو گیا ہے، بار بار یہی جی میں آتا ہے کہ تمہارے پاس آ بیٹھو اور تمہاری باتیں سنو ،کیا تم نے محسوس نہیں کیا کہ تم جب میرے ہاتھ میں کمان دیتے ہو اور میرے پیچھے کھڑے ہو کر کمان میں تیر سیدھا رکھنے کو کہتے ہو تو میں تمہارے ساتھ لگ جاتی ہوں اور دانستہ کمان کو دائیں بائیں یا اوپر نیچے کر دیتی ہوں تاکہ تم کچھ دیر اسی طرح میرے ساتھ لگے رہو اور بار بار میرے ہاتھ پکڑ کر کمان اور تیر سیدھا کرتے رہو۔
یحییٰ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی، جس ہاتھ میں زریں نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اس ہاتھ کو یحییٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا، یکلخت یحییٰ کے دل میں یہ احساس پیدا ہو گیا کہ ان چاروں لڑکیوں میں یہ لڑکی اسے زیادہ اچھی لگتی تھی اور کبھی کبھی وہ تیر اندازی کی سکھلائی دیتے ہوئے اس لڑکی کو اپنے کچھ زیادہ ہی قریب کر لیا کرتا تھا ،زریں نے جب اپنے جذبات کا اظہار کیا تو یحییٰ نے نمایاں طور پر محسوس کیا کہ زریں نے اپنی نہیں بلکہ اس کے جذبات کی ترجمانی کی ہے ۔
کیا تم میرے ان جذبات کی تسکین کر سکتے ہو۔۔۔ زریں نے کہا ۔۔میں تمہیں صاف بتا دوں کہ تم میری روح میں اتر گئے ہو، کیا تم میری محبت کو قبول کرو گے؟
سوچ لو زریں!،،،،، یحییٰ نے کہا ۔۔۔تم شہزادی ہو اور میں ایک مسافر ہوں، جسے یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کی منزل کیا ہے، کہاں ہے؟،،، ہوسکتا ہے ہماری محبت کوئی قربانی مانگ بیٹھے جو تم نہ دے سکو،،،،، میں تو اپنی جان بھی دے دوں گا۔
وہ تم دیکھ لوگے۔۔۔ زریں نے کہا ۔۔۔کوئی ایسا خطرہ ہوا تو جہاں کہو گے تمہارے ساتھ چل پڑوں گی۔
میں تمہیں یہ بتا دیتا ہوں زریں!،،،، یحییٰ نے کہا ۔۔۔تمہیں دیکھ کر میرے اندر بھی ایسے ہی جذبات امنڈے ہوئے تھے، لیکن میں خاموش رہا ،میرے دل کی بات تم نے کہہ دی ہے، صرف ایک بات کا خیال رکھنا کے اس محبت کا تعلق جسموں کے ساتھ نہ ہو۔
یہ میں نے پہلے ہی کہہ دیا ہے۔۔۔ زریں نے کہا۔۔۔ میں نے کہا ہے کہ تم میری روح میں اتر گئے ہو، میں یہاں آتی رہا کرو گی۔
اور میں تمہارا انتظار کیا کروں گا ۔۔۔یحییٰ نے کہا۔
<========۔========>
جاری ہے بقیہ قسط۔9۔میں پڑھیں
<=====۔===========>

Share:

Husn Bin Saba aur Uski Banayi hui Dunyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 07)

Husn Bin Sba aur Uski Masnui Jannat.

Husn Bin Sba aur Uski Bnayi hui Duniyawi Jannat ka Tarikhi Dastan. (Part 07)


حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت
۔
قسط نمبر/7

اسلام کا قافلہ ساڑھے چار صدیوں کی مسافت طے کرچکا تھا۔
اس قافلے نے لق و دق صحرا ،جسموں کا پانی چوس لینے والے ریگزار اور خون کے دریا پار کیے تھے۔
اس قافلے نے جوش میں آئی ہوئی جوئے کہستاں کی مانند چٹانوں کے جگر چاک کیے تھے۔
اس قافلے نے دشوار گزار جنگلوں کے سینے چیر دیے تھے۔
اس قافلے نے تیروں اور برچھیوں کی بوچھاڑوں میں بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑا دیے تھے۔
اور زرتشت کے پجاری اپنی سلطنت مجاہدین کے اس قافلے کے قدموں میں پھینک کر بھاگ گئے تھے۔
اس قافلے نے تیزوتند طوفانوں کے منہ موڑ دیے تھے۔
مگر کذب و ارتداد کی ایسی آندھی آئی کہ یہ قافلہ بکھرنے اور بھٹکنے لگا۔
حسن بن صباح بڑے ہی خوفناک طوفان کا ہراول تھا ،اس کا خطرہ روزبروز شدید ہوتا جارہا تھا ،کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ آنے والا وقت کس کے عروج اور کس کے زوال کی داستان سنائے گا۔
داستان گو نے خیر اور شر کی اس داستان کو قلعہ شاہ در تک پہنچایا تھا، اس قلعے پر ایک اسماعیلی احمد بن عطاش نے ایک بڑی حسین و جمیل دوشیزہ زرّین کے ذریعے قبضہ کیا تھا۔
قلعہ فوج فتح کیا کرتی ہے، قلعے کا محاصرہ کیا جاتا ہے، محاصرہ طول بھی پکڑ لیا کرتا ہے، قلعے میں داخل ہونے کے لیے کمند پھینکنے اور دروازے توڑنے کی کوششیں ہوتی ہیں، اوپر سے تیروں اور برچھیوں کا مینہ برستا ہے، محاصرہ کرنے والے لہولہان ہوتے ہیں تڑپتے ہیں اور مرتے ہیں اور خون کے دریا بہا کر ایک قلعہ سر ہوتا ہے۔
لیکن قلعہ شاہ در ایک نوخیز لڑکی نے بڑے ہی پیارے انداز سے قلعے کے والی کی چہیتی بیوی بن کر فتح کرلیا، اس والی  قلعہ کا نام ذاکر تھا ،جس کی تفصیلی داستانِ رومان پہلے سنائی جاچکی ہے، قلعہ احمد بن عطاش کے قبضے میں آگیا۔
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح اس قلعے میں کس طرح پہنچا تھا، اس کے ساتھ فرح نام کی ایک لڑکی بھی تھی ،حسن بن صباح اور فرح اس محبت کی زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے جس کا تعلق دلوں اور روحوں سے ہوتا ہے، احمد بن عطاش نے دونوں کی تربیت شروع کر دی تھی، یہ بھی بیان ہو چکا ہے کہ احمد بن عطاش نے ان تمام اسماعیلیوں کو جو قلعہ شاہ در کے قید خانے میں بند تھے رہا کردیا تھا اور پھر قافلے لوٹنے لگے، رہزنی کی وارداتوں میں اضافہ ہوگیا۔
تاریخ بتانے سے قاصر ہے کہ حسن بن صباح اس استاد کی شاگردی میں کتنا عرصہ گزار چکا تھا، غالباً دو اڑھائی سال گزر گئے تھے، ایک تو حسن بن صباح دنیا میں آیا تو شیطانی اوصاف اپنے ساتھ لایا تھا ،اس کے بعد اس نے انہیں اوصاف کو ابھارا اور پھر ابن عطاش اور احمد بن عطاش نے ان اوصاف کو پختہ تر کرکے اسے  پکا ابلیس بنا دیا تھا، اسے علم سحر بھی سکھا دیا اور غالباً اسے احمد بن عطاش کچھ ایسی تربیت بھی دے رہا تھا جو زمین دوز تخریب کاری کے لئے کارآمد ہوتی ہے۔ ان لوگوں کا اصل مقصد یہ تھا کہ اسلام کو اسلام ہی رہنے دیں لیکن اللہ کے اس دین کو اپنی نظریات اور اپنی نفسانی خواہشات کے سانچے میں ڈھال لیں۔ یہ ایک ایسی جنگ تھی جو ان لوگوں نے زمین کے نیچے جاکر لڑنی تھی۔
کسی عمارت کو گرانا ہو تو اسے اوپر سے نہیں توڑا جاسکتا وقت لگتا ہے، اور توڑنے والے منڈیر کی ایک دو اینٹیں ہی اکھاڑ پھینکے تو پکڑے جائیں گے، عمارت کی بنیادوں میں پانی چھوڑ دیا جائے تو عمارت ملبے کا ڈھیر بن جاتی ہے اور لوگ اس کے سوا کچھ نہیں کہتے کہ عمارت کی بنیادوں میں پانی چلا گیا تھا۔
اسلام کی فلک بوس عمارت کو مسمار کرنے کا یہی طریقہ اختیار کیا جارہا تھا، اس طریقہ جنگ کے لیے ہتھیاروں کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی مال و دولت کی ہوتی ہے، اس میں انسان خریدے جاتے ہیں، دینداروں کے دین و ایمان کی قیمت دی جاتی ہے، احمد بن عطاش نے زرو جواہرات کی فراہمی کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ قافلوں کو لوٹنا شروع کردیا۔
سلطنت اسلامیہ میں قافلوں کو لوٹنے کا سلسلہ کبھی کا ختم ہوچکا تھا، کوئی لٹیرا رہزنی کی بھی جرات نہیں کرتا تھا، قافلے کے ساتھ بے شمار لوگ ہوتے ہیں، اکیلا آدمی مال ودولت لیے پا پیادہ دشت و بیابان میں بے دھڑک سفر کرتا تھا۔
سلجوقی تو اس معاملے میں اور زیادہ سخت تھے، لیکن سلجوقی سلطان ملک شاہ کے دور میں آکر قافلے لوٹنے لگے، یہ سراغ نہیں ملتا تھا کہ اچانک لٹیروں کے یہ گروہ کہاں  سے آگئے ہیں، یہ تو تاریخ سے بھی پتا نہیں چلتا کہ سرکاری طور پر اس کا کیا سدباب ہوا تھا۔ البتہ یہ واضح ہے کہ قافلوں کی آمد ورفت تقریباً بند ہو گئی تھی۔
ایک روز احمد بن عطاش سے ملنے ایک آدمی آیا ،حسن بن صباح بھی اسکے پاس بیٹھا تھا، دربان نے جونہی احمد بن عطاش کو اس آدمی کی اطلاع دی تو احمد بن عطاش نے چونک کر کہا اسے جلدی اندر بھیجو۔
خوش آمدید میرے بھائی !،،،،، احمد بن عطاش نے اس آدمی کو دیکھتے ہی پرمسرت لہجے میں پوچھا ؟،،،،،بیٹھنے سے پہلے یہ سناؤ کہ کوئی خوشخبری لائے ہو؟
بہت بڑی خوشخبری۔۔۔ اس آدمی نے بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ ایک بہت بڑا قافلہ آ رہا ہے اور جوں جوں یہ آگے بڑھتا آ رہا ہے اس کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
اور مال و دولت میں اضافہ ہوتا آرہا ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے مسکراتے ہوئے کہا۔
اس شخص نے جو قافلے کی خبر لایا تھا یہ بتانا شروع کردیا کہ قافلہ کہاں ہے اور یہ کس راستے پر جا رہا ہے، یہ راستہ شاہ در سے بہت دور سے گزرتا تھا ،وہ علاقہ پہاڑی بھی تھا اور یہ پہاڑ اور وادیاں درختوں سے اٹی پڑی تھیں، اور جو علاقہ میدانی تھا وہ سب جنگلاتی تھا ،چونکہ قافلے جو پہلے لوٹے جا چکے تھے وہ شاہ در سے بہت دور لوٹے تھے اس لیے کسی کو ذرا سا بھی شبہ نہیں ہوتا تھا کہ یہ قافلے لوٹنے والے احمد بن عطاش کے آدمی ہیں اور یہ ساری دولت احمد بن عطاش کے قبضے میں جا رہی ہے۔
کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس قافلے میں کیا کچھ ہے؟،،،،، احمد بن عطاش نے پوچھا ۔
کیوں نہیں۔۔۔ اس شخص نے فاتحانہ انداز میں جواب دیا۔۔۔ میں نے اس قافلے کے ساتھ دو پڑاؤ سفر کیا ہے، اور پوری تفصیلات اپنی آنکھوں دیکھ کر اور کچھ قافلے والوں سے سن کر آیا ہوں۔
ہمیں تم جیسے آدمیوں کی ضرورت ہے ۔۔۔حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔اب بتاؤ کیا دیکھ آئے ہو ۔
زیادہ تر تاجر ہیں۔۔۔ اس شخص نے جواب دیا۔۔۔ ان میں بعض تو بہت ہی امیر کبیر لگتے ہیں ،بیس بیس تیس تیس اونٹوں پر ان کا مال جا رہا ہے ۔
مال کیا ہے؟
اناج بھی ہے۔۔۔ اس شخص نے جواب دیا۔۔۔کپڑا ہے، چمڑا ہے اور سونے چاندی کے زیورات بھی ہیں، چند ایک کُنبے بھی قافلے کے ساتھ ہیں۔
نوجوان لڑکیاں بھی ہونگی؟،،،، حسن بن صباح نے پوچھا۔
زیادہ تو نہیں۔۔۔ اس شخص نے جواب دیا۔۔۔ سات آٹھ اچھی خاصی خوبصورت اور نوخیز لڑکیاں ہیں ،چھوٹی عمر کی بچیاں بھی ہیں۔
یہ تو اور زیادہ اچھا ہے۔۔۔ احمد بن عطاش ۔۔۔نے کہا ۔۔۔ہمیں پنیری چاہیے جسے ہم اپنی مرضی سے جہاں چاہیں گے وہاں لگا دیں گے، اور اپنے انداز سے اس کی آبیاری کریں گے۔
سوچنے والی ایک بات ہے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا ۔۔۔کئی ایک قافلے لوٹے جا چکے ہیں پھر ان تاجروں وغیرہ نے یہ جرات کیسے کی ہے کہ وہ اتنا مال و دولت اور اتنا بڑا قافلہ لے کر چل پڑے ہیں، شاید ان لوگوں نے یہ سوچا ہوگا کہ کچھ عرصے سے قافلوں کو لوٹنے کا سلسلہ بند ہے اس لیے لٹیرے کسی اور علاقے میں چلے گئے ہونگے۔
میرا خیال کچھ اور ہے۔۔۔قافلے کی خبر لانے والے آدمی نے کہا ۔۔۔قافلے میں جو کوئی بھی شامل ہوتا ہے اسے کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس تلوار اور برچھی لازمی طور پر ہونی چاہیے، اور اس میں حملے کی صورت میں لڑنے کا جذبہ بھی ہونا چاہیے، میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ جہاں پڑاؤ ہوتا ہے وہاں کئی ایک نوجوان رضاکارانہ طور پر پورے پڑاؤ کے اردگرد گھوم پھر کر پہرے دیتے ہیں، قافلے میں نوجوان آدمیوں کی تعداد ذرا زیادہ ہے۔
میں یہی بات آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ قافلے کے ساتھ حفاظت کا انتظام بھی موجود ہے اس لئے ہمیں زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے ،اور سب سے بڑی ضرورت احتیاط کی ہے۔
ہاں یہ سوچنے والا معاملہ ہے ۔۔۔احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ اور گہری سوچ میں گم ہو گیا ۔
ہم اس قافلے کو محافظ دیں گے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا، اور قافلے کی خبر لانے والے سے مخاطب ہوا ۔۔۔تم کچھ دیر میرے پاس بیٹھنا،،،،، اور استاد محترم یہ کوئی پریشان کرنے والا معاملہ نہیں۔
اس شخص نے بتایا کہ اس وقت تک قافلہ کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے اور جس بستی اور شہر کے قریب سے یہ قافلہ گزرتا ہے اس میں لوگ شامل ہوتے جا رہے ہیں۔
میں اس کی وجہ سمجھتا ہوں۔۔۔ احمد بن عطاش نے کہا۔۔۔ ایک عرصے بعد لوگوں نے ایک قافلہ دیکھا ہے اس لیے لوگ اس قافلے کے ساتھ چل پڑے ہیں۔
یہ قافلہ منزل پر نہیں پہنچنا چاہیے۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔
اسی لیے تو میں اتنی دور سے آیا ہوں۔۔۔ اس شخص نے کہا ۔۔۔مجھے فوراً بتائیں کہ میں نے کیا کرنا ہے؟،،،، مجھے جلدی روانہ ہو جانا چاہیے۔
احمد بن عطاش اور حسن بن صباح نے اسے ہدایت دینی شروع کر دیں۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷*
یہ شخص گھوڑے پر سوار قلعے سے اس طرح نکلا کہ کسی نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں کہ یہ کون ہے اور کہاں جارہا ہے، شہر سے کچھ دور جاکر اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دیکھتے ہی دیکھتے سرسبز ٹیکریوں اور جنگل میں غائب ہو گیا۔
اس کے جانے کے فوراً بعد احمد بن عطاش نے اپنے دو خاص مصاحبین کو بلایا اور انہیں کچھ ہدایات دیں، دونوں بڑی تیزی سے چلے گئے، پہلے تو وہ شاہ در میں کچھ لوگوں سے ملے اور پھر دیہات میں نکل گئے۔
اسی شام کو سورج غروب ہونے کے بعد شاہ در سے سات آٹھ میل دور کم و بیش پچاس گھوڑسوار اکٹھے ہوگئے، انہوں نے احمد بن عطاش کی ہدایات کے مطابق اپنا ایک امیر یا کمانڈر مقرر کر لیا اور اس طرف چل پڑے جس طرف سے قافلہ نے گزرنا تھا ،انھیں راستہ وغیرہ سمجھا دیا گیا تھا ان کے سامنے دو اڑھائی دنوں کی مسافت تھی۔
قافلے کا راستہ وہاں سے تقریباً ساٹھ میل دور تھا ،اس وقت تک قافلے کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے تجاوز کرگئی تھی، اس میں بوڑھے آدمی بھی تھے بوڑھی عورتیں بھی تھیں، جوان اور نوجوان لڑکے زیادہ تھے، نوجوان لڑکیاں اور بچے بھی تھے، اونٹ بے شمار تھے، تجارتی مال اور گھریلو سامان سے لدی ہوئی چار پانچ بیل گاڑیاں اور مال بردار گھوڑا گاڑیاں بھی تھیں ،قافلے کے زیادہ تر آدمی گھوڑوں پر سوار تھے۔
ایک پڑاؤ سے علی الصبح قافلہ چلا ،ابھی چند میل ہی طے کیے ہوں گے کہ قافلے کے آگے آگے جانے والے رک گئے۔
ڈاکو۔۔۔ ڈاکو۔۔۔ قافلے کے آگے سے بڑی بلند آواز سے اعلان ہوا ۔۔۔ھوشیار ہوجاؤ جوانو!،،،، ڈاکو آ گئے ہیں۔۔۔ تیار ہو جاؤ۔
قافلے کی لمبائی ایک میل سے کہیں زیادہ تھی، اعلان کئی بار دہرایا گیا، اس کے جواب میں قافلے میں جتنے بھی نوجوان لڑکے جوان اور ادھیڑ عمر آدمی تھے تلواریں اور برچھیاں تان کر ایسی ترتیب میں ہو گئے کے قافلے کو محاصرے میں لے لیا، تب پتہ چلا کہ قافلے میں کئی ایک ایسے لوگ ہیں جن کے پاس کمانیں اور تیروں سے بھری ہوئی ترکشیں ہیں۔
لڑکیوں اور بچیوں کو درمیان میں کرلو ۔۔۔اعلان ہوا۔۔۔ کچھ آدمی لڑکیوں کے ساتھ رہیں۔
ایک طرف سے کم و بیش پچاس گھوڑسوار قافلے کی طرف آ رہے تھے، ان کے آنے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ حملہ کرنے نہیں آ رہے، ان کے پاس تلواریں تھیں لیکن تلواریں نیاموں میں تھیں، بعض کے پاس برچھیاں تھیں اور کچھ ایسے تھے جن کے پاس جنگی کلہاڑے تھے، گھوڑوں کی رفتار حملے والی یا ہلہ بولنے والی نہیں تھی، وہ جب قریب آئے تو ان کے آگے آگے جو دو سوار تھے ان دونوں نے ہاتھ اوپر کر کے لہرائے جو ایک پرامن اشارہ تھا۔
قافلہ میں جو تیر انداز تھے وہ ایک صف میں کھڑے ہوگئے اور کمانوں میں ایک ایک تیر ڈال لیا۔
ہم دوست ہیں۔۔۔ آنے والے ایک سوار نے کہا۔۔۔ ہمیں دشمن نہ سمجھو۔
پھر وہیں رک جاؤ۔۔۔ قافلے میں سے ایک آدمی نے کہا ۔۔۔۔صرف ایک آدمی آگے آکر بتاؤ کہ تم کیا چاہتے ہو ،ہمارے تیر اندازوں کو تیغ زنوں اور برچھی بازوں کو دیکھ لو ،تم اتنے تھوڑے ہو کہ تھوڑی سی دیر میں تم اپنے خون میں ڈوب جاؤ گے اور تمہارے گھوڑے اور ہتھیار ہمارے پاس ہوں گے۔
مشکوک گھوڑ سواروں کے آگے آگے آنے والے دونوں سواروں نے پیچھے مڑ کر اپنے ہاتھ اٹھائے جو اشارہ تھا کہ باقی سوار پیچھے ہی رک جائیں، تمام سوار رک گئے اور یہ دونوں سوار قافلے کے قریب آ گئے ۔
اب بتاؤ تمہارا ارادہ کیا ہے ؟،،،،،،قافلے کے اس معزز آدمی نے کہا جس نے اپنے آپ کو خود ہی میر کارواں بنا لیا تھا۔
ڈرو نہیں دوستو !،،،،،،ایک سوار نے کہا۔۔۔ ہم پیشہ ور لوگ ہیں ،ہمارا پیشہ امیر لوگوں کی حفاظت کرنا ہے، ہم میں اتنی جرات اور طاقت نہیں کہ اتنے بڑے قافلے پر حملہ کریں، ہمیں پتہ چلا کہ ایک قافلہ جا رہا ہے اور ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ قافلوں کو لوٹنے والے بھی موجود ہیں، تو ہم نے اپنے ان دوستوں کو اکٹھا کیا اور کہا کہ چلو اس قافلے کے پیچھے جاتے ہیں اور امیر لوگوں کو حفاظت مہیا کریں گے اور حلال کی روزی کمائیں گے، تمہارا سفر ابھی بہت لمبا باقی ہے قافلے پر کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ حملہ ہو سکتا ہے، ہماری التجا ہے کہ ہمیں قافلے کی حفاظت کے لیے اپنے ساتھ لے چلو ،ہم راتوں کو پہرہ بھی دیں گے۔
کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ہمارے ساتھ کتنے آدمی ہیں ؟،،،،،،میر کارواں نے کہا ۔۔۔کیا تم انہیں اپنی حفاظت خود کرنے کے قابل نہیں سمجھتے؟
نہیں!،،،، ایک سوار نے جواب دیا۔۔۔ ان میں ہمیں ایک بھی ایسا نظر نہیں آرہا جس نے کبھی لڑائی لڑی ہو، کیا آپ نہیں جانتے کہ قافلوں کو لوٹنے والے لڑنے اور مارنے کی مہارت رکھتے ہیں؟ تمہارے یہ آدمی جب اپنے ساتھیوں کے جسموں سے خون کے فوارے پھوٹتے دیکھیں گے تو یہ سب بھاگ جائیں گے، ہمیں اپنا محافظ بنا کر اپنے ساتھ لے چلیں، ہم اتنی زیادہ اجرت نہیں مانگیں گے جو تم دے ہی نہ سکو، تم میں بڑے بڑے امیر تاجر بھی ہیں، جوان لڑکیوں کے باپ بھی ہیں اور پھر آپ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے بھی ہیں، آپ سب مل جل کر ہمیں اتنی سی اجرت تو دے ہی سکتے ہو جس سے کچھ دن ہمارے بچے بھی روٹی کھا لیں گے۔
ایک بات میں بھی کہوں گا ۔۔۔دوسرے سوار نے کہا ۔۔۔اگر آپ ہمیں حلال روزی مہیا نہیں کریں گے، اور ہمیں کہیں سے بھی روزی نہیں ملے گی تو ایک روز ہم بھی رہزنی شروع کر دیں گے اور قافلوں کو لوٹنے کا گروہ بنا لیں گے۔
روزی دینے والا خدا ہے۔۔۔ ایک بزرگ نے آگے آکر کہا۔۔۔ میرے ہم سفرو معلوم ہوتا ہے خدا نے ان کی روزی ہمارے ذمے کردی ہے، نہ جانے یہ بیچارے کتنی دور سے ہمارے پیچھے آئے ہیں، اور یہ حلال کی روزی کے پیچھے آئے ہیں ،انہیں مایوس نہ کرو اور ان کے ساتھ اجرت طے کر لو، انہیں ساتھ لے لینے سے ہماری حفاظتی طاقت میں اضافہ ہو جائے گا، ان سے بات کر لو۔
ان سے اجرت پوچھی گئی جو انہوں نے بتائی اور انکے ساتھ سودا طے کر لیا گیا، ان محافظ سواروں نے دو شرطیں پیش کیں ایک یہ کہ انھیں اجرت پیشگی دے دی جائے، اور دوسری یہ کہ ان کا کھانا پینا قافلہ کے ذمے ہو گا ۔
ان کی دونوں شرائط مان لی گئیں، قافلے کے ہر فرد نے اتنی رقم دے دی جو حساب کے مطابق ہر ایک کے ذمے آتی تھی۔
قافلہ چل پڑا ان پچاس محافظوں نے اپنے آپ کو اس طرح تقسیم کرلیا کہ کچھ قافلے کے آگے ہو گئے، کچھ قافلے کے پیچھے اور باقی کچھ دائیں اور کچھ بائیں ہو گئے، ان کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ محنت مزدوری کرنے والے لوگ ہیں، اور وہ پیشہ ور چوکیدار اور محافظ ہیں۔
پہلا پڑاؤ آیا تو ان میں سے بہت سے آدمیوں نے رات بھر دو دو ہوکر پڑاؤ کے چاروں طرف پہرہ دیا، اس سے قافلے والے ان سے مطمئن اور متاثر ہو گئے، اگلی رات بھی انہوں نے اسی طرح پہرہ دیا۔
تیسرے پڑاؤ تک پہنچتے قافلے میں ڈیڑھ دو سو مزید افراد کا اضافہ ہو چکا تھا۔
قافلہ ایک اور پڑاؤ کے لئے رک گیا، سورج غروب ہو چکا تھا لوگ رات بسر کرنے کے لیے اپنے اپنے انتظامات میں مصروف ہوگئے، عورتیں کھانا تیار کرنے لگیں، پانی کی وہاں کوئی قلت نہیں تھی، علاقہ سرسبز اور پہاڑی تھا ،پہاڑیاں ذرا پیچھے ہٹی ہوئی تھیں، اور ان کے درمیان ہری بھری گھاس کا میدان تھا، قریب ہی سے شفاف پانی کی ندی گذرتی تھی، پڑاؤ کے لیے یہی جگہ موزوں تھی۔
قافلے والے دن بھر کے تھکے ہوئے تھے کھانا کھا کر لیٹے، اور لیٹتے ہی سو گئے ،محافظ سوار پہرے پر کھڑے ہوگئے اور ہر رات کی طرح پڑاؤ کے اردگرد گھوم پھر کر پہرہ دینے لگے، آدھی رات سے کچھ پہلے تھوڑی دور سے اُلّو کے بولنے کی آواز آئی، ایک اُلّو پڑاؤ کے بالکل قریب سے بولا، ایک بار پھر دور کے اُلّو کی آواز آئی۔
قافلے والے گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ پچاس ساٹھ گھوڑسوار قافلے کے پڑاؤ کی طرف آرہے تھے، جب پہاڑوں میں پہنچے اور پڑاؤ انہیں اپنے سامنے نظر آنے لگا تو وہ وہیں رک گئے، گھوڑوں سے اترے اور آہستہ آہستہ چلتے پڑاؤ کی طرف بڑھنے لگے، ان کے ہاتھوں میں تلواریں تھیں چند ایک کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں، وہ جو پچاس محافظ تھے ان میں سے کچھ پہرے پر کھڑے تھے اور باقی سوئے ہوئے تھے، ان کے جو ساتھی پہرے پر کھڑے تھے ان میں سے کچھ آہستہ آہستہ آئے اور انہیں جگایا۔
تمام سوئے ہوئے محافظ آہستہ آہستہ اٹھے، انہوں نے تلوار نکالی پھر یہ سب ایک جگہ اکٹھا ہوئے، ادھر سے وہ بھی آگئے جنہوں نے گھوڑے پہاڑیوں کے پیچھے کھڑے کیے تھے، یہ سب یعنی محافظ بھی اور ادھر سے آنے والے بھی ایک جگہ آپس میں ملے ،محافظوں میں سے ایک نے نئے آنے والوں کو بتانا شروع کردیا کہ کون کہاں ہے، یعنی فلاں جگہ امیرکبیر تاجر ہیں، اور فلاں جگہ نوجوان لڑکیاں ہیں وغیرہ وغیرہ ،یہ سب محافظ بھی اور ادھر سے آنے والے بھی تعداد میں ایک سو سے زیادہ ہو گئے، محافظ دراصل لٹیرے ہی تھے جنھوں نے دھوکہ دے کر قافلے کے ساتھ رہنا تھا اور ان کے پچاس ساٹھ ساتھیوں نے راستے میں آ کر ان سے ملنا تھا، یہ محافظ اس لیے قافلے میں شامل ہوئے تھے کہ انہوں نے پیچھے دیکھ لیا تھا کہ قافلے میں لڑنے والے جوانوں کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔
جو آدمی احمد بن عطاش کو اس قافلے کی اطلاع دینے گیا تھا اس نے بتایا تھا کہ اس قافلے پر حملہ ناکام بھی ہو سکتا ہے، کیوں کہ اس میں لڑنے والے آدمیوں کی تعداد زیادہ ہے ،احمد بن عطاش یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا تھا، لیکن حسن بن صباح کے دماغ نے فوراً یہ ترکیب سوچی تھی کہ لٹیرے گروہ کے آدھے آدمی پیشہ ور محافظ بن کر قافلے میں شامل ہو جائیں گے، تاکہ قافلے والے راتوں کو خود پہرا نہ دیں، اور وہ اپنی حفاظت سے بے فکر ہو جائیں، حسن بن صباح نے اطلاع لانے والے کو یہ ترکیب بڑی اچھی طرح سمجھا دی تھی۔
یہ شخص بڑی تیزی سے لٹیروں کو اکٹھا کرتا پھرا اور ان کا جو لیڈر تھا اسے اس نے یہ ترکیب سمجھا دی ،لیڈر نے بڑی خوش اسلوبی سے اس ترکیب پر عمل کیا ۔
قافلے والے سمجھ ہی نہ سکے کہ جنہیں وہ محافظ سمجھ بیٹھے ہیں وہ رہزن ہیں ،ان رہزنوں نے قافلے کے بچے بچے پر اپنا اعتماد قائم کر لیا تھا۔
ان ایک سو سے زیادہ رہزنوں نے پڑاؤ کے ایک طرف سے قتل عام شروع کیا ،انہیں بتایا گیا تھا کہ نوجوان لڑکیوں، کمسن بچیوں اور بچوں کو زندہ لانا ہے، جب قافلے والوں کا قتل عام شروع ہوا تو دوسروں کی آنکھ کھل گئی لیکن رہزنوں نے انہیں سنبھلنے کی مہلت نہ دی، اس کے بعد ایک ہڑبونگ قیامت کا سما تھا ،جو کوئی ہڑبڑا کر اٹھتا تھا اس کے جسم میں برچھی اتر جاتی یا تلوار اس کی گردن صاف کاٹ دیتی، وہاں ان کی چیخ و پکار سننے والا اور سن کر مدد کو پہنچنے والا کوئی نہ تھا، لڑکیوں اور بچوں کی دلدوز چیخیں تھیں، جو رہزنوں اور قاتلوں کے دلوں کو موم نہیں کر سکتی تھیں۔
کچھ زیادہ دیر نہ لگی کہ قافلے کا صفایا ہوگیا، لٹیروں نے سامان سمیٹنا شروع کر دیا، پھر انہوں نے یہ سامان اونٹوں بیل گاڑیوں اور گھوڑا گاڑیوں پر لاد لیا، نوجوان لڑکیوں، بچیوں، اور بچوں کو ہانک کر ایک طرف لے جانے لگے۔
قیامت کی اس خون ریزی میں ایک دو اونٹ اور ایک دو گھوڑے کھل کر ادھر ادھر ہو گئے تھے، شاید چند انسان بھی زندہ بچ گئے ہوں، رہزن بڑی جلدی میں تھے انہوں نے لڑکیوں اور بچوں کو ایک گھوڑا گاڑی پر سوار کر لیا اور چار پانچ آدمی ان کے ساتھ سوار ہوگئے اور وہ پہاڑیوں کے پیچھے غائب ہو گئے۔
*=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷*
صبح کا اجالا سفید ہوا تو آسمان نے اس میدان میں لاشوں پر لاشیں پڑی دیکھیں، لاشوں کے سوا وہاں کچھ بھی نہ تھا، قریب کی ایک ٹیکری کے اوپر ایک بوڑھا آدمی لیٹا ہوا تھا ،اس نے آہستہ آہستہ سر اٹھایا اور میدان کی طرف دیکھا اس نے اپنی اتنی لمبی عمر میں ایسے منظر پہلے بھی دیکھے ہونگے، وہ کوئی تجربے کار آدمی تھا، وہ اسی قافلے کا ایک فرد تھا، رات کو جب قتل عام شروع ہوا تو وہ کسی طرح وہاں سے بھاگ نکلا اور ٹیکری پر چڑھ کر اونچی گھاس میں چھپ گیا ،وہ رات بھر اپنے ہم سفروں اور ان کے بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار سنتا رہا ،وہ آہستہ آہستہ اٹھا اور ٹیکری سے اترا ،اسے ایسا کوئی ڈر نہ تھا کہ ڈاکو پھر آجائیں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔
وہ آہستہ آہستہ ان لاشوں کو دیکھتا گیا، وہ یوں محسوس کررہا تھا جیسے خواب میں چل رہا ہو، وہ اپنے کنبے کو ڈھونڈ رہا تھا ،وہاں تو کوئی کہاں، اور کوئی کہاں پڑا تھا ،اسے بہت ہی چھوٹے سے ایک بچے کی لاش پڑی نظر آئی، بچے کی عمر چند مہینے ہی ہوگی وہ کچھ دیر اس غنچے کو دیکھتا رہا جو بن کھلے مرجھا گیا تھا، بچے سے نظر ہٹا کر اس نے ہر طرف دیکھا اسے کچھ دور ایک اونٹ نظر آیا جو بڑی بے پرواہی سے اس خونیں منظر سے بے نیاز گھاس چر رہا تھا۔
بوڑھے نے آسمان کی طرف دیکھا جیسے خدا کو ڈھونڈ رہا ہو، اچانک اسے ایک خیال آیا وہ بڑی تیزی سے اونٹ کی طرف چل پڑا، اونٹ کے پاس جا کر اس کی مہار پکڑی اور وہیں بٹھا دیا، پھر وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا اسے ایک کجاوا ایک جگہ پڑا دکھائی دیا ،وہ گیا اور کجاوا اٹھا کر اونٹ کے پاس لے گیا، اونٹ کی پیٹھ پر رکھ کر اس نے کجاوا کس دیا، دودھ پیتے بچے کی خون آلود لاش اٹھا کر لے گیا لاش کو کجاوے میں رکھا اور خود بھی اونٹ پر سوار ہو گیا، اور اونٹ کو اٹھایا ،اس نے اونٹ کا رخ مَرو کی طرف کردیا ،اس وقت مرو سلجوقی سلطنت کا دارالحکومت تھا ،سلطان ملک شاہ وہیں ہوتا تھا۔
ملک شاہ روایتی بادشاہوں جیسا بادشاہ نہیں تھا ،لیکن جہاں وہ رہتا تھا وہ محل سے کم نہ تھا ،ایک روز وہ اپنے مصاحبوں وغیرہ میں بیٹھا ہوا تھا۔
میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔۔۔ ملک شاہ نے کہا اور کچھ دیر سوچ کر بولا۔۔۔ قافلوں کے لوٹنے کا خطرناک سلسلہ ختم ہو گیا ہے، ہم کسی کو پکڑ تو نہیں سکے لیکن پکڑنے اور سزا دینے والا اللہ ہے، یہ اللہ ہی ہے جس نے میری مدد کی اور قافلے محفوظ ہوگئے۔
سلطان محترم !،،،،دربان نے اندر آ کر کہا۔۔۔ ایک ضعیف العمر شخص سوار آیا ہے، آپ سے ملنا چاہتا ہے۔
کہاں سے آیا ہے؟،،،، سلطان نے پوچھا ۔۔۔کیا چاہتا ہے؟،،، کچھ پوچھا تم نے؟
نہیں سلطان عالی مقام!،،،، دربان نے جواب دیا۔۔۔ اس کی حالت اچھی نہیں ،معلوم ہوتا ہے بڑی لمبی مسافت طے کرکے آیا ہے، اس نے بہت چھوٹے سے بچے کی لاش اٹھا رکھی ہے، لاش کو جیسے خون سے نہلایا گیا ہے ۔
لاش !،،،،،ملک شاہ نے چونک کر کہا۔۔۔ چھوٹے سے بچے کی لاش، اسے فوراً اندر بھیجو ،یہ فریادی معلوم ہوتا ہے۔
ضعیف العمر ہانپتا کانپتا جھکا جھکا بازوؤں پر چند ماہ عمر کے بچے کی خون آلود لاش اٹھائے ملک شاہ کے سامنے آیا ،اس کے ہونٹ کانپ رہے تھے اس کی آنکھوں کا نور بجھ چکا تھا ۔
او میرے بزرگ!،،،، ملک شاہ اٹھ کھڑا ہوا اور پوچھا ۔۔۔کیا مشکل تمہیں یہاں لے آئی ہے؟
ایک بچے کی لاش لایا ہوں ،ائے سلطان !،،،،بوڑھے نے کہا۔۔۔ یہ آپ کا بچہ ہے، اس نے آگے بڑھ کر لاش سلطان کے قدموں میں رکھ دی، اونٹ کی پیٹھ پر تین دن اور تین رات سفر کیا ہے، نہ اونٹ نے کچھ کھایا ہے نہ میں نے، یہ اللہ کی امانت تھی جس میں سلجوقی سلطان نے خیانت کی، دیکھ،،،، سلطان،،،، دیکھ ،،،،اس بِن کھلی کلی کو دیکھ، اس ننھے سے بچے میں ابھی یہ احساس بھی پیدا نہیں ہوا تھا کہ یہ زندہ ہے، اور مرتے وقت اسے یہ احساس نہیں ہوا ہوگا کہ موت نے اسے ماں کی آغوش سے اٹھا کر اپنی گود میں لے لیا ہے ۔
سلطان ملک شاہ نے دربان کو بلوایا اور کہا کہ وہ بچے کی لاش لے جائے اور اسے غسل دے کر کفن پہنایا جائے۔
اے بزرگ انسان!،،،، سلطان نے بوڑھے سے کہا ۔۔۔کیا یہ اچھا نہیں ہوگا کہ شکوہ اور شکایت سے پہلے یہ بتا دو کہ یہ بچہ کس کا ہے ؟،،،اور اسے کس نے قتل کیا ہے؟
یہ میرے کسی ہمسفر کا بچہ تھا ۔۔۔بوڑھے نے کہا ۔۔۔میں اس کے باپ کو نہیں جانتا ،اس کی ماں کو نہیں جانتا ،انہیں میں کبھی بھی نہیں جان سکوں گا، وہ بھی قتل ہو گئے ہیں، وہ کون تھے؟ کہاں سے آئے تھے ؟کہاں جا رہے تھے؟ میں نہیں جانتا ،میں اتنا جانتا ہوں کہ وہ ہمارے قافلے کے ساتھ تھے، قافلے پر ڈاکوؤں کا حملہ ہو گیا۔
بوڑھے نے تفصیل سے سنایا کہ قافلہ کہاں سے چلا تھا کس طرح اس میں مسافروں کا اضافہ ہوتا گیا اور پھر کس طرح اور کہاں قافلے پر اس وقت حملہ ہوا جب سب گہری نیند سو رہے تھے۔
سلطان غصےکےعالم میں کمرے میں ٹہلنے لگا ،وہ بار بار ایک ہاتھ کا گھونسہ دوسرے کی ہتھیلی پر مارتا تھا ،اس کے چہرے پر قہر اور عتاب کے آثار گہرے ہوتے جا رہے تھے۔
کچھ عرصہ پہلے قافلوں پر حملے شروع ہوئے تھے۔۔۔ بوڑھے نے کہا ۔۔۔پھر یہ حملے خود ہی ختم ہوگئے، ان کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ نے ڈاکوؤں کی سرکوبی کا کوئی بندوبست کر دیا تھا ،بلکہ لوگوں نے سفر کرنا چھوڑ دیا تھا ،ہم بدقسمت اس خوش فہمی میں نکل کھڑے ہوئے کہ منزل پر پہنچ جائیں گے۔
اس بچے کی لاش یہاں کیوں لے آئے ہو؟،،،،، سلطان ملک شاہ نے پوچھا ۔
سلطان کو یہ دکھانے کے لئے کہ سلطانوں کے گناہوں کی سزا رعایا کو ملا کرتی ہے۔۔۔ بوڑھے نے کہا۔۔۔ میں عقیدے کا سنی ہوں، آپ مجھے معاف کریں یا نہ کریں مجھے اس کا کوئی ڈر نہیں، میں خلفاء راشدین کی بات کروں گا جن کے دور میں ہر طرف مسلمانوں کی ہی نہیں بلکہ ہر مذہب کے لوگوں کی عزت محفوظ ہو گئی تھی، جان محفوظ ہو گئی تھی، اور لوگوں کے مال و اموال محفوظ ہوگئے تھے، رعایا کو اور رعایا کے بچوں کو اللہ کی امانت سمجھتے تھے، میں بچے کی لاش اس لیے یہاں لایا ہوں کہ سلطان اس معصوم کی کھلی اور ٹھہری ہوئی آنکھوں میں اپنے گناہوں کا عکس دیکھ لیں۔
دیکھ لیا ہے میرے بزرگ!،،،، سلطان نے کہا۔۔۔ ہم ان قزاقوں کو پکڑیں گے۔
ہمارے قافلے سے تمام نوجوان لڑکیوں اور بچوں کو قزاق اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔۔۔ بوڑھے نے کہا۔۔۔ انہیں وہ قتل نہیں کریں گے، انھیں امراء کے گھروں میں فروخت کیا جائے گا ،انھیں عیش و عشرت کا ذریعہ بنایا جائے گا، امت رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بچیاں رقاصہ بنیں گی، عصمت فروش بنیں گی، اور ساری عمر اپنے سلطان کے اس گناہ کی سزا بھگتتی رہیں گی کہ سلطان نے اپنے فرائض سے نظر پھیر لی تھیں، سلطان کی نیندیں حرام ہو جانی چاہیے، میں قافلے والوں کی روحوں کا یہ پیغام لے کر آیا ہوں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ سلجوقی سلطان اسلام کے سچے پیروکار تھے ،ان میں روایتی بادشاہوں والی خو نہیں تھی ،اس بوڑھے نے ایسی سخت باتیں بھی کہہ ڈالی تھیں جو کوئی معمولی سا حاکم بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا ،لیکن سلطان ملک شاہ نے نہ صرف یہ کہ بوڑھے کا غصہ بھی برداشت کیا ،اور طنز بھی، بلکہ حکم دیا کہ اسے مہمان خانے میں رکھا جائے ،اور جب تک یہاں قیام کرنا چاہے اسے سلطان کے ذاتی مہمان کی حیثیت سے رکھا جائے۔
<=======۔=========>
جاری ہے بقیہ قسط۔8۔میں پڑھیں
<=======۔=========>


Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS