find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Biwi Aur Shauhar ke Huqooq islam me kya kya hai? इस्लाम में पति पत्नी के अधिकार क्या क्या है?

خاوند کے حقوق سے متعلق آپ سے سوال ہے کہ ایک بیوی کو کن کن امور میں اپنے خاوند کی اطاعت کرنی لازمی ہے ورنہ وہ عنداللہ گناہ گار ہوگی۔۔۔۔۔۔

جواب تحریری  بیوی او۔ خاوند کے حقوق
الحمدللہ
دین اسلام نے خاوند پر بیوی کے کچھ حقوق رکھے ہيں ، اور اسی طرح بیوی پربھی اپنے خاوند کے کچھ حقوق مقرر کیے ہيں ، اورکچھ حقوق توخاوند اور بیوی دونوں پر مشترکہ طور پر واجب ہیں ۔
ذیل میں ہم ان شاء اللہ خاوند اور بیوی کے ایک دوسرے پر کتاب و سنت کی روشنی میں حقوق کا ذکر کریں جس کی شرح میں اہل علم کے اقوال کا بھی ذکر کیا جائے گا ۔
اول :
صرف بیوی کے خاص حقوق :
بیوی کے اپنے خاوند پر کچھ تو مالی حقوق ہیں جن میں مہر ، نفقہ ، اور رہائش شامل ہے ۔
اورکچھ حقوق غیر مالی ہیں جن میں بیویوں کے درمیان تقسیم میں عدل انصاف کرنا ، اچھے اور احسن انداز میں بود باش اور معاشرت کرنا ، بیوی کو تکلیف نہ دینا ۔
1 - مالی حقوق :
ا – مھر :
مہر وہ مال ہے جو بیوی کااپنے خاوند پر حق ہے جوعقد یا پھر دخول کی وجہ سے ثابت ہوتا ہے ، اوریہ بیوی کا خاوند پر اللہ تعالی کی طرف سے واجب کردہ حق ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورعورتوں کوان کے مہر راضی خوشی دے دوالنساء ( 4 ) ۔
اورمہر کی مشروعیت میں اس عقد کے خطرے اورمقام کا اظہار اورعورت کی عزت و تکریم اوراس کے لیے اعزاز ہے ۔
مہر عقد نکاح میں شرط نہیں اورنہ ہی جمہور فقھاء کے ہاں یہ عقد کا رکن ہے ، بلکہ یہ تواس کے آثار میں سے ایک اثر ہے جواس پر مرتب ہوا ہے ، اگر کوئي عقد نکاح بغیر مہر ذکر کیے ہوجائے توباتفاق جمہور علماء کے وہ عقد صحیح ہوگا ۔
اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اگر تم عورتوں کوبغیر ہاتھ لگائے اوربغیر مہر مقرر کیے طلاق دے دو توبھی تم پر کوئي گناہ نہیں البقرۃ ( 236 ) ۔
توہاتھ لگانے یعنی دخول سے قبل اورمہر مقرر کرنے سے قبل طلاق کی اباحت عقد نکاح میں مہر کے ذکر نہ کرنے پر دلالت کرتی ہے ۔
اوراگر عقدمیں مہر کا نام نہیں لیا گیا توخاوند پر مہر واجب ہوگا ، اوراگرعقد نکاح میں ذکر نہیں کیا جاتا توپھر خاوند پر مہر مثل واجب ہوگا ، یعنی اس جیسی دوسری عورتوں جتنا مہر دینا ہوگا ۔
ب – نان ونفقہ :
علماء اسلام کا اس پر اجماع ہے کہ بیویوں کا خاوند پر نان ونفقہ واجب ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اگرعورت اپنا آپ خاوند کے سپرد کردے توپھرنفقہ واجب ہوگا ، لیکن اگر بیوی اپنے خاوندکونفع حاصل کرنے سے منع کردیتی ہے یا پھر اس کی نافرمانی کرتی ہے تواسے نان ونفقہ کا حقدار نہیں سمجھا جائے گا ۔
بیوی کے نفقہ کے وجوب کی حکمت :
عقد نکاح کی وجہ سے عورت خاوند کے لیے محبوس ہے ، اورخاوند کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر نکلنا منع ہے ، تواس لیے خاوند پرواجب ہے کہ وہ اس کے بدلے میں اس پرخرچہ کرے ، اوراس کے ذمہ ہے کہ وہ اس کوکفائت کرنے والا خرچہ دے ، اوراسی طرح یہ خرچہ عورت کا اپنے آپ کوخاوند کے سپرد کرنے اوراس سے نفع حاصل کرنے کے بدلے میں ہے ۔
نان ونفقہ کا مقصد :
بیوی کی ضروریات پوری کرنا مثلا کھانا ، پینا ، رہائش وغیرہ ، یہ سب کچھ خاوند کے ذمہ ہے اگرچہ بیوی کے پاس اپنا مال ہو اوروہ غنی بھی ہوتوپھر بھی خاوند کے ذمہ نان ونفقہ واجب ہے ۔
اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
اورجن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان عورتوں کا روٹی کپڑا اوررہائش دستور کے مطابق ہے البقرۃ ( 233 )
اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا :
اورکشادگي والا اپنی کشادگي میں سے خرچ کرے اورجس پر رزق کی تنگی ہو اسے جو کچھ اللہ تعالی نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنا چاہيےالطلاق ( 7 ) ۔
سنت نبویہ میں سے دلائل :
ھند بنت عتبہ رضي اللہ تعالی عنہا جوکہ ابوسفیان رضي اللہ تعالی عنہ کی بیوی تھیں نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ ابوسفیان اس پر خرچہ نہیں کرتا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا تھا :
( آپ اپنے اوراپنی اولاد کے لیے جوکافی ہو اچھے انداز سے لے لیا کرو ) ۔
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ابوسفیان کی بیوی ھندبنت عتبہ رضي اللہ تعالی عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئي اورکہنے لگی :
اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان بہت حریص اور بخیل آدمی ہے مجھے وہ اتنا کچھ نہيں دیتا جوکہ مجھے اور میری اولاد کے لیے کافی ہو الا یہ کہ میں اس کا مال اس کے علم کے بغیر حاصل کرلوں ، توکیا ایسا کرنا میرے لیے کوئي گناہ تونہیں ؟
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
تواس کے مال سے اتنا اچھے انداز سے لے لیا کرجوتمہیں اورتمہاری اولاد کوکافی ہو ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5049 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1714 ) ۔
جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبۃ الوداع کے موقع پر فرمایا :
( تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے ، اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتےہووہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں توتم انہيں مار کی سزا دو جوزخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اوران کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اوررہائش دو ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔
ج – سکنی یعنی رہائش :
یہ بھی بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ خاوند اس کے لیے اپنی وسعت اورطاقت کے مطابق رہائش تیار کرے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہا ں انہيں بھی رہائش پذیر کرو الطلاق ( 6 ) ۔
2 – غیرمالی حقوق :
ا – بیویوں کے درمیان عدل وانصاف :
بیوی یا اپنے خاوند پر حق ہے کہ اگر اس کی اور بھی بیویاں ہوں تووہ ان کے درمیان رات گزارنے ، نان ونفقہ اورسکن وغیرہ میں عدل و انصاف کرے ۔
ب – حسن معاشرت :
خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھے اخلاق اورنرمی کا برتاؤ کرے ، اوراپنی وسعت کے مطابق اسے وہ اشیاء پیش کرے جواس کےلیے محبت والفت کا با‏عث ہوں ۔
اس لیے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اوران کے ساتھ حسن معاشرت اوراچھے انداز میں بود باش اختیار کرو النساء ( 19 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمايا :
اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے حق ہیں البقرۃ ( 228 ) ۔
سنت نبویہ میں ہے کہ :
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( عورتوں کے بارہ میں میری نصیحت قبول کرو اوران سے حسن معاشرت کا مظاہرہ کرو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3153 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1468 ) ۔
اب ہم ذيل میں چندایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی بیویوں کےساتھ حسن معاشرت کے نمونے پیش کرتے ہیں ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہمارے لیے قدوہ اوراسوہ اورآئڈیل ہيں :
1 - زينب بنت ابی سلمہ کہتی ہيں کہ ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چادرمیں تھی تومجھے ایام حیض شروع ہوگئے جس کی بنا پر میں اس چادر سے کھسک کر نکل گئي اورجا کر حیض والے کپڑے پہن لیے ، تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے کیا حیض آگیا ہے ؟
میں نے جواب دیا جی ہاں ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اوراپنے ساتھ چادر میں داخل کرلیا ۔
وہ کہتی ہے کہ ام سلمہ رضي اللہ تعالی عنہا نے مجھے حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں ان کا بوسہ لیا کرتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اور میں ایک ہی برتن سے اکٹھے غسل جنابت بھی کیا کرتے تھے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 316 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 296 ) ۔
2 – عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا نے فرمایا :
اللہ تعالی کی قسم میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے حجرہ کے دروازہ پر کھڑے دیکھا اورحبشی لوگ اپنے نیزوں سے مسجدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کھیلا کرتے تھے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر سے مجھے چھپایا کرتے تھے تا کہ میں ان کے کھیل کودیکھ سکوں ، پھر وہ میری وجہ سے وہاں ہی کھڑے رہتے حتی کہ میں خود ہی وہاں سے چلی جاتی ، تونوجوان لڑکی جوکہ کھیلنے پر حریص ہوتی ہے اس کی قدر کیا کرو ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 443 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 892 ) ۔
3 – ام المومنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کرنماز پڑھتے اورقرات بھی بیٹھ کرکرتے تھے جب تیس یا چالیس آیات کی قرات باقی رہتی توکھڑے ہوکر پڑھتے پھر رکوع کرنے کے بعد سجدہ کرتے پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے اورنماز سے فارغ ہوکر مجھے دیکھتے اگرمیں سوئی ہوئی نہ ہوتی تو مجھ سے باتيں کرتے ، اوراگرمیں سوچکی ہوتی توآپ بھی لیٹ جاتے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1068 ) ۔
ج – بیوی کوتکلیف سے دوچارنہ کرنا :
یہ اسلامی اصول بھی ہے ، اورجب کسی اجنبی اوردوسرے تیسرے شخص کونقصان اورتکلیف دینا حرام ہے توپھر بیوی کوتکلیف اورنقصان دینا تو بالاولی حرام ہوگا ۔
عبادہ بن صامت رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ :
( نہ تواپنے آپ کونقصان دو اورنہ ہی کسی دوسرے کو نقصان دو ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2340 ) اس حدیث کو امام احمد ، امام حاکم ، اورابن صلاح وغیرہ نے صحیح قرار دیا ہے ۔
دیکھیں کتاب : خلاصۃ البدر المنیر ( 2 / 438 ) ۔
اس مسئلہ میں شارع نے جس چيز پر تنبیہ کی ہے ان میں ایسی مار کی سزا دینا جوشدید اورسخت قسم کی ہو ۔
جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا :
( تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے ، اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتےہووہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں توتم انہيں مار کی سزا دو جوزخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اوران کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اوررہائش دو ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔
دوم :
بیوی پر خاوند کے حقوق :
بیوی پر خاوند کے حقوق بہت ہی عظیم حیثیت رکھتے ہیں بلکہ خاوند کے حقوق توبیوی کے حقوق سے بھی زيادہ عظیم ہیں اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
اوران عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہيں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائي کے ساتھ ، ہاں مردوں کوان عورتوں پر درجہ اورفضیلت حاصل ہے البقرۃ ( 228 ) ۔
جصاص رحمہ اللہ کا کہنا ہے :
اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ خاوند اوربیوی دونوں کے ایک دوسرے پر حق ہیں ، اورخاوند کوبیوی پر ایسے حق بھی ہیں جوبیوی کے خاوند پر نہیں ۔
اورابن العربی کا کہنا ہے :
یہ اس کی نص ہے کہ مرد کوعورت پر فضیلت حاصل ہے اورنکاح کے حقوق میں بھی اسے عورت پر فضیلت حاصل ہے ۔
اوران حقوق میں سے کچھ یہ ہیں :
ا – اطاعت کا وجوب :
اللہ تعالی نے مرد کوعورت پرحاکم مقررکیا ہے جواس کا خیال رکھے گا اوراس کی راہنمائی اوراسے حکم کرے گا جس طرح کہ حکمران اپنی رعایا پر کرتے ہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے مرد کوکچھ جسمانی اورعقلی خصائص سے نوازا ہے ، اوراس پر کچھ مالی امور بھی واجب کیے ہیں ۔
اللہ تعالی کافرمان ہے :
مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کودوسرے پر فضيلت دی ہے اوراس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیںالنساء ( 34 ) ۔
حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
علی بن ابی طلحہ نے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم ہیں یعنی وہ ان پر حاکم اورامیر ہیں ، یعنی ان کی اللہ تعالی کے حکم کے مطابق اطاعت کی جائے گی ، اوراس کی اطاعت اس کے اہل وعیال کے لیے احسان اوراس کے مال کی محافظ ہوگی ۔
مقاتل ، سدی ، اورضحاک رحمہم اللہ تعالی نے بھی ایسے ہی کہا ہے ۔ دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 1 / 492 ) ۔
ب – خاوند کے لیے استمتاع ممکن بنانا :
خاوند کا بیوی پر حق ہے کہ وہ بیوی سے نفع حاصل کرے ، جب عورت شادی کرلے اوروہ جماع کی اہل بھی ہو توعورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کوعقد نکاح کی بنا پر خاوند کے طلب کرنے پر خاوند کے سپرد کردے ۔
وہ اس طرح کہ اسے مہر ادا کرے اورعورت اگرمطالبہ کرے تواسے حسب عادت ایک یا دو دن کی مہلت دے کہ وہ رخصتی کےلیے اپنے آپ کوتیار کرلے کیونکہ یہ اس کی ضرورت ہے اوریہ بہت ہی آسان سی بات ہے جو کہ عادتا معروف بھی ہے ۔
اورجب بیوی جماع کرنے میں خاوند کی بات تسلیم نہ کرے تویہ ممنوع ہے اوروہ کبیرہ کی مرتکب ہوئي ہے ، لیکن اگر کوئي شرعی عذر ہوتو ایسا کرسکتی ہے مثلا حیض ، یا فرضی روزہ ، اور بیماری وغیرہ ہو ۔
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جب مرد اپنی بیوی کواپنے بستر پر بلائے اوربیوی انکار کردے توخاوند اس پر رات ناراضگي کی حالت میں بسر کرے توصبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں ) صحیح بخاری حديث نمبر ( 3065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1436 ) ۔
ج – خاوند جسے ناپسند کرتا ہواسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا :
خاوند کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اسے داخل نہ ہونے دے جسے اس کا خاوند ناپسند کرتا ہے ۔
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں ( نفلی ) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے ، اورکسی کوبھی اس کے گھرمیں داخل ہونے کی اجازت نہ لیکن اس کی اجازت ہو توپھر داخل کرے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4899 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1026 ) ۔
سلیمان بن عمرو بن احوص بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے والد رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث بیان کی کہ وہ حجۃ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہوئے تھے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کی اوروعظ ونصیحت کرنے کے بعد فرمایا :
( عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اورمیری نصیحت قبول کرو ، وہ تو تمہارے پاس قیدی اوراسیر ہيں ، تم ان سے کسی چيز کے مالک نہيں لیکن اگروہ کوئي فحش کام اورنافرمانی وغیرہ کریں توتم انہيں بستروں سے الگ کردو ، اورانہیں مار کی سزا دولیکن شدید اورسخت نہ مارو ، اگر تووہ تمہاری اطاعت کرلیں توتم ان پر کوئي راہ تلاش نہ کرو ، تمہارے تمہاری عورتوں پر حق ہیں اورتمہاری عورتوں کے بھی تم پر حق ہیں ، جسے تم ناپسند کرتے ہووہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو ، اورنہ ہی اسے اجازت دے جسے تم ناپسند کرتے ہو ، خبردار تم پر ان کے بھی حق ہيں کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اورانہیں کھانا پینا اوررہائش بھی اچھے طریقے سے دو ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1163 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1851 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے ۔
جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے ، اوران کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتےہووہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں توتم انہيں مار کی سزا دو جوزخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اوران کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اوررہائش دو ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔
د – خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا :
خاوند کا بیوی پر یہ حق ہے کہ وہ گھر سے خاوند کی اجازت کے بغیر نہ نکلے ۔
شافعیہ اورحنابلہ کا کہنا ہے کہ : عورت کے لیے اپنے بیمار والد کی عیادت کے لیے بھی خاوند کی اجازت کے بغیر نہیں جاسکتی ، اورخاوند کواس سے منع کرنے کا بھی حق ہے ۔۔۔ اس لیے کہ خاوند کی اطاعت واجب ہے توواجب کوترک کرکے غیرواجب کام کرنا جائز نہيں ۔
ھـ - تادیب : خاوند کوچاہیے کہ وہ بیوی کی نافرمانی کے وقت اسے اچھے اوراحسن انداز میں ادب سکھائے نہ کہ کسی برائي کے ساتھ ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے عورتوں کواطاعت نہ کرنے کی صورت میں علیحدگي اورہلکی سی مارکی سزا دے کرادب سکھانے کا حکم دیا ہے ۔
علماء احناف نے چارمواقع پر عورت کومار کے ساتھ تادیب جائز قرار دی ہے جو مندرجہ ذيل ہیں :
1- جب خاوند چاہے کہ بیوی بناؤ سنگار کرے اوربیوی اسے ترک کردے
2- جب بیوی طہر کی حالت میں ہواورخاوند اسے مباشرت کے لیے بلائے توبیوی انکار کردے ۔
3- نماز نہ پڑھے ۔
4- خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے ۔
تادیب کے جواز پر دلائل :
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اورجن عورتوں کی نافرمانی اوربددماغی کا تمہیں ڈر اورخدشہ ہوانہيں نصیحت کرو ، اورانہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو ، اورانہیں مار کی سزا دو النساء ( 34 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
اے ایمان والو ! اپنے آپ اوراپنےاہل وعیال کواس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اورپتھر ہیںالتحریم ( 6 ) ۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
قتادہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : آپ انہیں اللہ تعالی کی اطاعت کا حکم دیں ، اوراللہ تعالی کی معصیت ونافرمانی کرنے سے روکیں ، اوران پر اللہ تعالی کے احکام نافذ کریں ، انہیں ان کا حکم دیں ، اور اس پر عمل کرنے کے لیے ان کا تعاون کریں ، اورجب انہیں اللہ تعالی کی کوئی معصیت ونافرمانی کرتے ہوئے دیکھیں توانہیں اس سے روکیں اوراس پر انہیں ڈانٹیں ۔
ضحاک اورمقاتل رحمہم اللہ تعالی نے بھی اسی طرح کہا ہے :
مسلمان کا حق ہے کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں ، گھروالوں اوراپنے غلاموں اورلونڈیوں کواللہ تعالی کے فرائض کی تعلیم دے اورجس سے اللہ تعالی منع کیا ہے وہ انہیں سکھائے ۔
دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 4 / 392 ) ۔
و – بیوی کا اپنے خاوند کی خدمت کرنا :
اس پر بہت سے دلائل ہيں جن میں سے کچھ کا ذکر تو اوپربیان ہوچکاہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے:
بیوی پر اپنے خاوند کی اچھے اوراحسن انداز میں ایک دوسرے کی مثل خدمت کرنا واجب ہے ، اوریہ خدمت مختلف حالات کے مطابق ہوتی ہے ، توایک دیھاتی عورت کی خدمت شہرمیں بسنے والی عورت کی طرح نہیں ، اوراسی طرح ایک طاقتور عورت کی خدمت کمزوراورناتواں عورت کی طرح نہیں ہوسکتی ۔
دیکھیں الفتاوی الکبری ( 4 / 561 ) ۔
ز - عورت کا اپنا آپ خاوند کے سپرد کرنا :
جب عقدنکاح مکمل اورصحیح شروط کے ساتھ پورا اورصحیح ہو توعورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کوخاوند کے سپرد کردے اوراسے استمتاع ونفع اٹھانے دے ، اس لیے کہ عقد نکاح کی وجہ سے عوض خاوند کے سپرد ہونا چاہیے ، جو کہ استمتاع اورنفع کی صورت میں ہے ، اوراسی طرح عورت بھی عوض کی مستحق ہے جو کہ مہر کی صورت میں دیا جاتا ہے ۔
ح – بیوی کی اپنے خاوند سے حسن معاشرت :
اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائي کے ساتھ البقرۃ ( 228 ) ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے ہی روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : یعنی ان عورتوں کے لیے حسن صحبت ، اوراچھے اوراحسن انداز میں معاشرت بھی ان کے خاوندوں پراسی طرح ہے جس طرح ان پر اللہ تعالی نے خاوندوں کی اطاعت واجب کی ہے ۔
اوریہ بھی کہا گيا ہے :
ان عورتوں کے لیے یہ بھی ہے کہ ان کے خاوند انہيں تکلیف اورضرر نہ دیں جس طرح ان عورتوں پر خاوندوں کے لیے ہے ۔ یہ امام طبری کا قول ہے ۔
اورابن زید رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں :
تم ان عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو اوراس سے ڈرو ، جس طرح کہ ان عورتوں پربھی ہے کہ وہ بھی تمہارے بارہ میں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کريں اورڈريں ۔
اورمعنی قریب قریب سب ایک ہی ہے ، اورمندرجہ بالا آیت سب حقوق زوجیت کوعام ہے ۔
دیکھیں تفسیر القرطبی ( 3 / 123- 124 ) ۔
واللہ اعلم 

Share:

Kya Khula lene wali Aurat Par Iddat hogi aur wo apna Haque Mehar Chhor degi ya legi?

Khula Talab karne ke bad Aurat par iddat hogi?
خلع ، عدت
اگر عورت خود خلع طلب کرے تو کیا اس پر بھی عدت ہوگی ؟
جواب کا متن
الحمد للہ
1 - خلع اصل میں بیوی کے مطالبہ پر ہی ہوتا ہے اور بیوی کے مطالبہ کے بعد خاوند کا علیحدگی پر رضامند ہونے کو خلع کہتے ہے ۔
2 - خاوند سے علیحدگی اختیار کرنے والی ہر عورت پر عدت واجب ہے یا پھر اس کے خاوند نے اسے طلاق یا فسخ نکاح اوریا وفات کی وجہ سے چھوڑ ا ہو لیکن اگر دخول سے قبل طلاق ہوئي ہو تو پھر عورت پر کوئي عدت نہیں اس لیے کہ فرمان باری تعالی ہے :

اے مومنوں ! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کرو پھر ہاتھ لگانے سے قبل ہی طلاق دے دو تو ان پر تہمارا عدت کا کوئي حق نہیں جسے تم شمار کرو الاحزاب ( 49 ) ۔

3 - اور خلع کی عدت کے بارہ میں صحیح یہی ہے کہ وہ ایک حیض عدت گزارے گی اس کی دلیل سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے :

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ثابت بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ کی بیوی نے اپنے خاوند سے خلع کیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک حیض عدت گزارنے کا حکم دیا ۔

سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1185 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2229 ) اورامام نسائي رحمہ اللہ تعالی نے ربیع بنت عفراء سے حدیث بیان کی ہے سنن نسائي حدیث نمبر ( 3497 ) دونوں حدیثوں کو حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے صحیح قرار دیا ہے جس کا ذکر آگے آۓ گا ۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی عنہ کا کہنا ہے :
خلع حاصل کرنے والی عورت کو ایک حیض عدت گزارنے کا جو حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اس میں دو حکموں کی دلیل ہے :

پہلا:  یہ کہ اس عورت پر تین حيض عدت نہیں بلکہ اسے ایک حیض بطور عدت گزارنا ہی کافی ہے ، جس طرح کہ حدیث میں واضح اور صریح موجود ہے ۔

امیر المومنین عثمان بن عفان اور عبداللہ بن عمر بن خطاب اور  ربیع بنت معوذ اور ان کے چچا جو  کبار صحابہ کرام میں سے ہیں ان سب کا مسلک بھی یہی ہے ، اور ان کا کوئي بھی مخالف نہیں ۔

لیث بن سعد ابن عمررضي اللہ تعالی عنہ کے مولی نافع سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ربیع بنت معوذ بن عفراء رضي اللہ تعالی عنہ سے سنا کہ وہ عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہ کوبتا رہی تھیں کہ :

انہوں نے عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ کے دور میں اپنے خاوند سے خلع حاصل کیا تواس کے چچا عثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس آ کر کہنے لگے بنت معوذ نے آج اپنے خاوند سے خلع لے لیا ہے تو کیا وہ منتقل ہوجاۓ ؟ توعثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا جی ہاں وہ منتقل ہوجاۓ نہ تو ان دونوں کے درمیان کوئي وراثت ہے اورنہ ہی ایک حیض کے سوا کوئي عدت ہے ، صرف ایک حیض کے آنےتک وہ نکاح نہیں کرسکتی کہ کہيں اسے حمل ہی نہ ہو ، توعبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما کہنے لگے : عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ہم سے زيادہ علم والے اورہم سے بہتر تھے ۔

اسحاق بن راھویہ اورامام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کی ایک روایت میں جسے شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی نےبھی اختیار کیا ہے کا بھی یہی مسلک ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ : اس کی تائید قواعد شرعیہ کا مقتضی ہے کہ تین حیض عدت تواس لیے رکھی گئي ہے کہ رجوع کرنے کی مدت لمبی ہوسکے اورخاوند کواس مدت کے اندرغور وفکر کرنے کا موقع ملے اورعدت کے اندر رجوع کرنا ممکن ہوسکے ۔

اورجب بیوي کے لیے رجعت اور واپسی ہے ہی نہيں تو پھر عدت کا مقصد تو صرف استبراء رحم ہے جس کے لیے ایک حیض ہی کافی ہے ۔

ان کا کہنا ہے کہ : اس بارہ میں تین طلاق شدہ عورت کی عدت کےساتھ ہم پر کوئي عیب نہیں لگایا جاسکتا ، اس لیے کہ طلاق کے بارہ میں بائن اور رجعی کے بارہ میں عدت کا حکم ایک ہی رکھا گیا ہے ۔ دیکھیں زاد المعاد ( 5 / 196 / 197 ) ۔

اس کے ساتھ ساتھ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ خلع والی عورت کی عدت بھی مطلقہ کی طرح تین حیض ہی ہے ، امام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نےبڑے احسن انداز میں ان کا رد کرتے ہوۓ کہا ہے :

خلع طلاق نہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالی نے دخول کے بعد ہونے والی طلاق جواپنا عدد مکمل نہ کرسکے( یعنی تین طلاق نہ ہوں بلکہ تین سے کم ہوں ) اس پر تین احکام مرتب کیے ہیں جوکہ سب کے سب خلع میں نہيں پاۓ جاتے :

پہلا : یہ کہ خاوند کو اس سے رجوع کا حق حاصل ہوتا ہے ۔

دوسرا : اس کی تعداد تین ہے توتین کا عدد مکمل ہونے پر وہ اس کے لیے حلال نہیں مگرجب وہ کسی اورمرد سے شادی کرے اوردخول کے بعد اس سے بھی طلاق ہوتو پھر پہلے کے لیے حلال ہوسکتی ہے ۔

تیسرا : اس میں عدت تین حیض ہیں ۔
تویہ سب کچھ خلع میں نہیں ہے ، لھذا اس بنا پر ہم یہ کہيں گے کہ خلع لینے والی عورت کی عدت اتنی ہی رہے گی جس پرحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم دلالت کرتی ہے کہ اس کی عدت ایک حیض ہے ۔

واللہ اعلم .

Share:

Wo kaun kaun Si chijein hai jisse iddat Gujarne wali Aurat ko Bachna Chahiye?

Iddat Gujarne wali Aurat par kaunsi si chijen Mna kiya gya?
عدت گزارنے والی عورت پر ممنوع کردہ اشیاء
سوال :
میرا خاوند فوت ہوچکا ہے لھذا مجھے کیا کرنا چاہيۓ ، اور وہ کون کون سی اشیاء ہیں جن سے مجھے بچنا ضروری ہے ؟

جواب کا متن
الحمد للہ
عدت گزارنے والی عورت پر حدیث کی روشنی میں پانچ چيزوں سے رکنا ضروری ہے :

اول : جس گھر میں خاوند کی فوتگی کے وقت رہائش پزیر ہو وہیں عدت گزارنا ، اس کی عدت چار ماہ دس دن یا پھر حمل کی صورت میں وضع حمل ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :

اورحمل والیوں کی عدت وضع حمل ہے ۔

اوراس گھر سے بلاضرورت نہیں نکل سکتی مثلا بیماری کی حالت میں ہاسپٹل جانا یا اگر اس کے پاس کوئي اورنہیں ہے جو اس کے لیے کھانا خریدے توپھر بازار سے کھانا وغیرہ خریدنے کے لیے نکلنا وغیرہ ۔

اوراسی طرح اگر وہ گھر منھدم ہوجاۓ توکسی اورگھرمیں جاسکتی ہے ، یا پھراگر اسے مانوس رکھنے کےلیے کوئي نہ ہو اوروہ خطرہ محسوس کرے توپھر وہاں سے جانے میں کوئی حرج نہیں ۔

دوم :

اسے خوبصورت لباس وغیرہ زیب تن نہیں کرنا چاہیے نہ توسبزاورنہ ہی سرخ وغیرہ بلکہ اسے ایسا لباس زيب تن کرنا چاہیے جو خوبصورت نہ چاہے وہ سیاہ ہویا سبز یا پھر کسی اوررنگ کا یعنی وہ خوبصورت نہ ہو ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نےبھی اس طرح حکم دیا ہے ۔

سوم :

دوران عدت سونے اورچاندی الماس اورہیرے جواہرات کے زیورات نہ پہننا ، اوراسی طرح کے دوسری اشیاء جوزيورات میں شامل ہوتی ہیں چاہے وہ ہار ہوں یا پھر کنگن اورانگوٹھی وغیرہ ۔

چہارم :

خوشبوبھی استعمال نہیں کرسکتی ، بخور اورکسی قسم کی بھی دوسری خوشبوکا استعمال منع ہے ، لیکن جب وہ حیض سے فارغ ہوتو اس وقت جوخوشبو استعال کی جاتی ہے اس میں کوئي حرج نہيں کہ وہ اس بوکو دور کرنے کے لیے خوشبواستعمال کرلے ۔

پنجم :

سرمہ وغیرہ کے استعمال سے بھی پرہیز کرے ، اور اسی طرح چہرے کی زبیائش کے لیے پا‏ئي جانے والی اشیاء کا استعمال بھی ممنوع ہے ۔ لیکن صابون وغیرہ کے استعال میں کوئی حرج نہیں بلکہ سرمہ اورکاجل وغیرہ جو کہ عورتیں خوبصورتی کے لیے استعمال کرتی ہیں وہ ممنوع ہے ۔

جس کا خاوند فوت ہوجاۓ اسے مندرجہ بالا پانچ اشیاء کے استعمال سے پرہیز کرنی چاہیے ۔

لیکن بعض لوگ جو یہ خیال کرتے ہيں کہ وہ عورت کسی سے بات چـیت بھی نہ کرے اورنہ ہی ٹیلی فون اٹینڈ کرے ، اوراسے صرف ہفتہ میں ایک بار غسل کرنا چاہیے ، اوراسےگھرمیں ننگے پاؤں چلنا چاہیے ، اوراسی طرح وہ چاند کی روشنی میں بھی نہ نکلے اوراس طرح کی دوسری خرافات جس کے بارہ میں کوئی دلیل اوراصل نہیں ملتی ۔

بلکہ وہ اپنے گھرمیں ننگے پاؤں اورجوتے پہن کربھی چل سکتی ہے اوراپنے گھرکی ضروریات بھی پورا کرسکتی اورکھانا وغیرہ بھی پکا سکتی ہے اوراسی طرح مہمان نوازی بھی کرسکتی ہے ۔

اوراسی طرح چاند کی روشنی میں گھر کی چھت اور باغیچہ میں بھی چل پھر سکتی ہے ، جب چاہے غسل کرسکتی ہے جس سے چاہے ضروری بات چیت کرسکتی ہے ، عورتوں سے مصافح کرنے میں بھی کوئي حرج نہیں اوراسی طرح اپنے محرموں سے بھی ۔

لیکن غیرمحرموں کے ساتھ جائز نہیں ، جب اس کے پاس کوئي غیر محرم نہ ہوتووہ اپنے سر دوپٹہ اتار سکتی ہے ، زعفران اورخوشبونہ تو کپڑوں میں اورنہ ہی جسم میں استعمال کرسکتی ہے اورنہ ہی قھوہ میں اس لیے کہ زعفران ایک قسم کی خوشبو ہے ، اس کے لیے منگنی کرنا بھی جائز نہیں ، اوراسی طرح منگنی کی صریح باتیں کرنا بھی منع ہیں ، لیکن اگر وہ صراحت کے ساتھ بات نہ کرے بلکہ کنایہ وغیرہ کرتے ہوۓ کرے تواس میں کوئي حرج نہیں ۔

اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ، فتوی شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی دیکھیں فتاوی اسلامیۃ ( 3 / 315 - 316 ) ۔

اورمزید تفصیل کے لیے دیکھیں کتاب : الامداد باحکام الحداد تالیف فیحان المطیری ، اور کتاب احکام الاحداد تالیف خالد المصالح ۔

واللہ اعلم .

Share:

Biwi Par Shauhar ke Kya huqooq hai?

Biwi Par khawind ke kaun kaun se Huqooq hai?
بیوی پر خاوند کے حقوق
بیوی پر خاوند کے حقوق بہت ہی عظیم حیثیت رکھتے ہیں بلکہ خاوند کے حقوق تو بیوی کے حقوق سے بھی زيادہ عظیم ہیں اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :
اور ان عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہيں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائي کے ساتھ ، ہاں مردوں کو ان عورتوں پر درجہ اورفضیلت حاصل ہے البقرۃ ( 228 ) ۔
جصاص رحمہ اللہ کا کہنا ہے :
اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بیان کیا ہے کہ خاوند اور بیوی دونوں کے ایک دوسرے پر حق ہیں ، اورخاوند کو بیوی پر ایسے حق بھی ہیں جو بیوی کے خاوند پر نہیں ۔
اورابن العربی کا کہنا ہے :
یہ اس کی نص ہے کہ مرد کو عورت پر فضیلت حاصل ہے اور نکاح کے حقوق میں بھی اسے عورت پر فضیلت حاصل ہے ۔
اور ان حقوق میں سے کچھ یہ ہیں :
ا – اطاعت کا وجوب :
اللہ تعالی نے مرد کو عورت پر حاکم  مقرر کیا ہے جو اس کا خیال رکھے گا اور اس کی راہنمائی اور اسے حکم کرے گا جس طرح کہ حکمران اپنی رعایا پر کرتے ہیں ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے مرد کو کچھ جسمانی اور عقلی خصائص سے نوازا ہے ، اور اس پر کچھ مالی امور بھی واجب کیے ہیں ۔
اللہ تعالی کافرمان ہے :
مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کو دوسرے پر فضيلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیںالنساء ( 34 ) ۔
حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
علی بن ابی طلحہ نے ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے بیان کیا ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم ہیں یعنی وہ ان پر حاکم اور امیر ہیں ، یعنی ان کی اللہ تعالی کے حکم کے مطابق اطاعت کی جائے گی ، اور اس کی اطاعت اس کے اہل وعیال کے لیے احسان اور اس کے مال کی محافظ ہوگی ۔
مقاتل ، سدی ، اورضحاک رحمہم اللہ تعالی نے بھی ایسے ہی کہا ہے ۔ دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 1 / 492 ) ۔
ب – خاوند کے لیے استمتاع ممکن بنانا :
خاوند کا بیوی پر حق ہے کہ وہ بیوی سے نفع حاصل کرے ، جب عورت شادی کرلے اور وہ جماع کی اہل بھی ہو تو عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کو عقد نکاح کی بنا پر خاوند کے طلب کرنے پر خاوند کے سپرد کردے ۔
وہ اس طرح کہ اسے مہر ادا کرے اور عورت اگر مطالبہ کرے تو اسے حسب عادت ایک یا دو دن کی مہلت دے کہ وہ رخصتی کےلیے اپنے آپ کو تیار کر لے کیونکہ یہ اس کی ضرورت ہے اور یہ بہت ہی آسان سی بات ہے جو کہ عادتا معروف بھی ہے ۔
اور جب بیوی جماع کرنے میں خاوند کی بات تسلیم نہ کرے تویہ ممنوع ہے اور وہ کبیرہ کی مرتکب ہوئي ہے ، لیکن اگر کوئي شرعی عذر ہو تو ایسا کرسکتی ہے مثلا حیض ، یا فرضی روزہ ، اور بیماری وغیرہ ہو ۔
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( جب مرد اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور بیوی انکار کردے تو خاوند اس پر رات ناراضگي کی حالت میں بسر کرے توصبح ہونے تک فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں ) صحیح بخاری حديث نمبر ( 3065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1436 ) ۔
ج – خاوند جسے ناپسند کرتا ہواسے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دینا :
خاوند کا بیوی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اسے داخل نہ ہونے دے جسے اس کا خاوند ناپسند کرتا ہے ۔
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں ( نفلی ) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے ، اور کسی کو بھی اس کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ لیکن اس کی اجازت ہو توپھر داخل کرے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4899 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1026 ) ۔
سلیمان بن عمر و بن احوص بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے والد رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث بیان کی کہ وہ حجۃ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہوئے تھے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کی اور وعظ ونصیحت کرنے کے بعد فرمایا :
( عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور میری نصیحت قبول کرو ، وہ تو تمہارے پاس قیدی اور اسیر ہيں ، تم ان سے کسی چيز کے مالک نہيں لیکن اگر وہ کوئي فحش کام اور نافرمانی وغیرہ کریں تو تم انہيں بستروں سے الگ کردو ، اور انہیں مار کی سزا دو لیکن شدید اور سخت نہ مارو ، اگر تو وہ تمہاری اطاعت کرلیں توتم ان پر کوئي راہ تلاش نہ کرو ، تمہارے تمہاری عورتوں پر حق ہیں اور تمہاری عورتوں کے بھی تم پر حق ہیں ، جسے تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو ، اور نہ ہی اسے اجازت دے جسے تم نا پسند کرتے ہو ، خبردار تم پر ان کے بھی حق ہيں کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور انہیں کھانا پینا اور رہائش بھی اچھے طریقے سے دو ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1163 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1851 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے ۔
جابر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( تم عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی سے ڈرو ، بلاشبہ تم نے انہيں اللہ تعالی کی امان سے حاصل کیا ہے ، اور ان کی شرمگاہوں کواللہ تعالی کے کلمہ سے حلال کیا ہے ، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ جسے تم ناپسند کرتے ہو وہ تمہارے گھر میں داخل نہ ہو، اگر وہ ایسا کریں تو تم انہيں مار کی سزا دو جو زخمی نہ کرے اورشدید تکلیف دہ نہ ہو، اور ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم انہيں اچھے اور احسن انداز سے نان و نفقہ اور رہائش دو ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔
د – خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا :
خاوند کا بیوی پر یہ حق ہے کہ وہ گھر سے خاوند کی اجازت کے بغیر نہ نکلے ۔
شافعیہ اورحنابلہ کا کہنا ہے کہ : عورت کے لیے اپنے بیمار والد کی عیادت کے لیے بھی خاوند کی اجازت کے بغیر نہیں جاسکتی ، اور خاوند کو اس سے منع کرنے کا بھی حق ہے ۔۔۔ اس لیے کہ خاوند کی اطاعت واجب ہے تو واجب کو ترک کرکے غیر واجب کام کرنا جائز نہيں ۔
ھـ - تادیب : خاوند کو چاہیے کہ وہ بیوی کی نافرمانی کے وقت اسے اچھے اور احسن انداز میں ادب سکھائے نہ کہ کسی برائي کے ساتھ ، اس لیے کہ اللہ تعالی نے عورتوں کو اطاعت نہ کرنے کی صورت میں علیحدگي اور ہلکی سی مارکی سزا دے کر ادب سکھانے کا حکم دیا ہے ۔
علماء احناف نے چار مواقع پر عورت کو مار کے ساتھ تادیب جائز قرار دی ہے جو مندرجہ ذيل ہیں :
1- جب خاوند چاہے کہ بیوی بناؤ سنگار کرے اور بیوی اسے ترک کردے
2- جب بیوی طہر کی حالت میں ہو اور خاوند اسے مباشرت کے لیے بلائے تو بیوی انکار کر دے ۔
3- نماز نہ پڑھے ۔
4- خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے ۔
تادیب کے جواز پر دلائل :
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں ڈر اور خدشہ ہو انہيں نصیحت کرو ، اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو ، اور انہیں مار کی سزا دو النساء ( 34 ) ۔
اور ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
اے ایمان والو ! اپنے آپ اور اپنےاہل وعیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں التحریم ( 6 ) ۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
قتادہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں : آپ انہیں اللہ تعالی کی اطاعت کا حکم دیں ، اوراللہ تعالی کی معصیت و نافرمانی کرنے سے روکیں ، اور ان پر اللہ تعالی کے احکام نافذ کریں ، انہیں ان کا حکم دیں ، اور اس پر عمل کرنے کے لیے ان کا تعاون کریں ، اورجب انہیں اللہ تعالی کی کوئی معصیت و نافرمانی کرتے ہوئے دیکھیں تو انہیں اس سے روکیں اور اس پر انہیں ڈانٹیں ۔
ضحاک اورمقاتل رحمہم اللہ تعالی نے بھی اسی طرح کہا ہے :
مسلمان کا حق ہے کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں ، گھر والوں اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کو اللہ تعالی کے فرائض کی تعلیم دے اور جس سے اللہ تعالی منع کیا ہے وہ انہیں سکھائے ۔
دیکھیں تفسیر ابن کثیر ( 4 / 392 ) ۔
و – بیوی کا اپنے خاوند کی خدمت کرنا :
اس پر بہت سے دلائل ہيں جن میں سے کچھ کا ذکر تو اوپر بیان ہوچکا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے:
بیوی پر اپنے خاوند کی اچھے اور احسن انداز میں ایک دوسرے کی مثل خدمت کرنا واجب ہے ، اور یہ خدمت مختلف حالات کے مطابق ہوتی ہے ، تو ایک دیھاتی عورت کی خدمت شہر میں بسنے والی عورت کی طرح نہیں ، اور اسی طرح ایک طاقتور عورت کی خدمت کمزور اور  ناتواں عورت کی طرح نہیں ہو سکتی.
دیکھیں الفتاوی الکبری ( 4 / 561 ) ۔
ز - عورت کا اپنا آپ خاوند کے سپرد کرنا :
جب عقد نکاح مکمل اور صحیح شروط کے ساتھ پورا اور صحیح ہو تو عورت پر واجب ہے کہ وہ اپنے آپ کو خاوند کے سپرد کر دے اور اسے استمتاع ونفع اٹھانے دے ، اس لیے کہ عقد نکاح کی وجہ سے عوض خاوند کے سپرد ہونا چاہیے ، جو کہ استمتاع اور نفع کی صورت میں ہے ، اور اسی طرح عورت بھی عوض کی مستحق ہے جو کہ مہر کی صورت میں دیا جاتا ہے ۔
ح – بیوی کی اپنے خاوند سے حسن معاشرت :
اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :
اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان مردوں کے ہیں اچھائي کے ساتھ البقرۃ ( 228 ) ۔
امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما سے ہی روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا : یعنی ان عورتوں کے لیے حسن صحبت ، اور اچھے اور احسن انداز میں معاشرت بھی ان کے خاوندوں پر اسی طرح ہے جس طرح ان پر اللہ تعالی نے خاوندوں کی اطاعت واجب کی ہے ۔
اور یہ بھی کہا گيا ہے :
ان عورتوں کے لیے یہ بھی ہے کہ ان کے خاوند انہيں تکلیف اور ضرر نہ دیں جس طرح ان عورتوں پر خاوندوں کے لیے ہے ۔ یہ امام طبری کا قول ہے ۔
اور ابن زید رحمہ اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں :
تم ان عورتوں کے بارہ میں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرو اور اس سے ڈرو ، جس طرح کہ ان عورتوں پر بھی ہے کہ وہ بھی تمہارے بارہ میں اللہ تعالی کا تقوی اختیار کريں اور ڈريں ۔
اور معنی قریب قریب سب ایک ہی ہے ، اورمندرجہ بالا آیت سب حقوق زوجیت کوعام ہے ۔
دیکھیں تفسیر القرطبی ( 3 / 123- 124 )

Share:

Naye Chand ko dekhne ke Bad Padhi jane wali dua.

Naye Chand ko Dekhne Ki Dua.

  نئـے چـانـد کـی دعـا 
Chand Dekhne Ki Dua
سيدنا طلحہ بن عبیداللہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب چاند دیکھتے تھے تو کہتے تھے:
  اللَّهُمَّ أَهْلِلْهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ
”اے اللہ! مبارک کر ہمیں یہ چاند، برکت اور ایمان اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ، ( اے چاند! ) میرا اور تمہارا رب اللہ ہے“۔
|[ جامع ترمذي : ٣٤٥١ ]|
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS