find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Social Media. Show all posts
Showing posts with label Social Media. Show all posts

Maa Baap na mobile ke khilaf they aur na hai?

Ammi aap log kya janane gaye is mobile me hai kya?
Pahle apne gharwalo ko jo waqt diya karte they wah ab Mobile ko diya karte hai.
hamare maa baap aaj daur ke mutabik jahil hai to ham bhi 20 saal ke bad jahil ho jayenge.

*اماں موباٸل کے خلاف نہ تھی اور نہ آج ہے*

*اماں

*اماں تمھیں نہیں معلوم یہ موباٸل کتنا قیمتی ہے۔*

تمہارے دور میں تو لوگ خط لکھتے تھے جو مہینے بعد ملتا تھا ۔ یہ ہمارا زمانہ ہے اس لیے میرے حال پر مہربانی کرو مجھے آٸیندہ اس بارے میں کچھ نہیں کہنا ۔

بیٹے کی یہ بات سن کر اماں نے خاموشی اختیار کی اور کہا *ادھر آ میرا بیٹا میرے پاس بیٹھ جا  ۔*
اچھا بیٹا تم نے ٹھیک کہا واقعی تمہاری اماں کو اس بجلی بھری ڈبی کے بارے میں نہیں پتہ یہ کیا ہے اور وہ جو تم بیگ میں بڑا سا بجلی کا ٹی وی لے کر جاتا ہے اس کا بھی نہیں پتہ ۔ یہ عجیب چیزیں ہیں ۔
لیکن ایک سوال پوچھوں میرا بیٹا کیا تمہیں اپنی ان پڑھ اماں کے ہاتھ کا بنا ساگ اور مکھن کھانا  پسند ہے ؟

جی جی اماں بہت پسند ہے ۔

*اچھا وہ جو پچھلی سردیوں میں تیری ان پڑھ اماں نے تیرے لیے سویٹر بنایا تھا وہ پسند آیا ؟*

ہاں ہاں اماں لیکن تو یہ کیوں پوچھ رہی ہے ۔

اور بیٹا ایسے ہی ذرا دیکھ لوں ہم ان پڑھ لوگوں کے کوٸی کام چنگے بھی ہیں کہ نہیں ۔
اچھا بیٹا یہ بتا تو نے کبھی چرخہ چلایا ہے وہ سامنے جو مشین ہے جس سے دھگا بنتا ہے،

۔نہیں اماں ۔

اچھا جب تو باہر جاتا ہے تو لوگوں نے کبھی کہا کہ تیرے کپڑے صحیح دھلے نہیں یا تیری اماں کو کپڑے دھونے نہیں آتے ۔

نہیں اماں لوگ بھلا ایسا کیوں کہیں گے تو تو بہت اچھے کپڑے دھوتی ہے ۔

اچھا مطلب کہ تیرے بچپن سے لے کر اب تک تجھے اپنی ان پڑھ اماں کی وجہ سے شرمندگی نہیں اٹھانی پڑتی ۔

ہاں اماں یہ بات تو ہے

لیکن بیٹا مجھے ہر لمحہ تیری وجہ سے شرمندگی اٹھانی پڑی لیکن میں نے ہمیشہ ایک ہی بات کہی وقت کے ساتھ ساتھ میرا بیٹا سیکھ جاۓ گا ۔
پتہ ہے بچپن میں جب تو لڑ کر آتا تھا  تو لوگوں کے سامنے ۔
جب تیرے کلاس میں نمبر تھوڑے آتے تو بھی خاندان میں ۔
جب تو کپڑے گندے کرتا تو بھی ۔
پھر جب تو بڑا ہوا تو تو اونچا بولنے لگا اپنی اماں کو بہرا بنا دیا تو بھی
اور
آج جب تو نوکری کرتا ہے تو بھی ۔ کہتا ہے اماں تو ان پڑھ ہے ۔
دوستوں میں بیٹھ کر تو اور تیرا دوست اپنے ماں باپ کو جاہل کہتے ہیں۔
بیٹا تجھے وہ کام نہیں آتے جو مجھے آتے ہیں اور مجھے وہ کام نہیں آتے جو تم کرتے ہو ۔
ہر زمانے کی اپنی ساٸنس اور اپنا علم ہے ۔ علم تو وہ کافی ہے جس سے پرسکون زندگی گزار سکتے ہیں اور تیری اماں کے پاس ساگ پکانے کا مکھن بنانے کا سلاٸی کڑھاٸی کا علم تھا تیری اماں کے پاس کپڑے اچھے دھونے کا علم ہے، جس دن میں مر گٸی اس دن تجھے سمجھ آۓ گی اماں کی ساٸنس کیا تھی ۔

لیکن بیٹا علی اگر کوٸی علم تمہیں دوسروں کو جاہل کہنے اور سمجھنے پر مجبور کرتا ہے کوٸی علم تمہیں دوسروں کو حقیر سمجھاتا ہے تو وہ علم نوری نہیں ابلیسی ہوا۔

بیٹا زندگی میں تیری وجہ سے اگر کسی کو شرمندہ ہونا پڑے تو یاد رکھ ایسے علم سے تیری اماں کے چولہے کی سوا بہتر ہے۔

علی کو تو اماں کی ساٸنس بہت دیر بعد سمجھ آٸی جب اماں گزر گٸی ۔ روز روٹی کپڑا اور پیار ہر وقت کون دیتا؟
اب باہر جانے سے پہلے دعاٸیں دینے والا کوٸی نہیں تھا اب گھر داخل ہوتے ہی پورا دن علی پر کیا بیتا اس کیمسٹری کو پڑھنے والا کوٸی نہیں تھا

کہاں سے لاۓ سر چومنے والی اماں۔ 

آج ہمارے اردگرد کتنے ہی لوگ ہیں جو ماں باپ کو ان پڑھ سمجھتے ہیں کٸی طلبا تو بحث و مباحثہ میں جاہل کا لفظ تک استعمال کر دیتے ہیں ۔ لیکن یاد رکھیں اماں نے درست کہا تھا ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں انہیں پچھلے دور سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔ نہ ہی کرنا چاہیے۔

آپ کے اور میرے ماں باپ نے اپنے دور کی ساٸنس کے مطابق زندگی گزاری اور ہمیں پڑھایا لکھایا ہمیں اپنے دور کی ساٸنس کے مطابق جینا اور اپنی اولاد کو سکھانا ہے ۔

*اماں موباٸل کے خلاف نہ تھی اور نہ آج ہے ۔اماں کو اس کلموۓ کے زیادہ استعمال کے خلاف ہے جس نے اس سے اس کا علی چھین لیا۔*
اب وہ بڑا ہو گیا ۔پہلے اماں کو سکول سے آکر سکول کی ساری باتیں سناتا تھا اب اس کے پاس آفس کے بعد وقت ہی نہیں ۔ساری دنیا کو گروپ بنا کر تحریری پیغام بھیجتا ہے لیکن اماں سے بات نہیں کرتا ۔

اماں تو آج بھی اس کو تیار کرتی ہے اپنی ڈیوٹی کرتی ہے لیکن وہ جو اماں کا وقت تھا وہ یہ موباٸل کھا گیا اماں کے حقوق موباٸل نے کھا لیے ۔اس لیے اماں غصہ ہوتی ہے

کہیں آپ بھی ایسا تو نہیں کر رہے سوچئے گا۔ لمحہ فکریہ ہے۔

ماں ہماری جنت ہے اور جنت ناراض ہو گٸی تو زندگی بے سکون ہو جاۓ گی ۔
یاد رکھیے گا ماں باپ کبھی ان پڑھ نہیں ہوتے ۔
گھر میں بیٹھی بوڑھی اماں میرے کچھ بولے بنا میرا دل پڑھ لیتی ہے۔

اپنے ماں باپ کو وقت دیجیے ورنہ آپ کی اولاد کے دور میں تو ٹیکنالوجی اس سے بھی فاسٹ ہو گی پھر آج کی تمہاری لکھی کہانی تم پر دہراٸی جاۓ گی شکوہ نہ کرنا۔

کاش کہ  یہ بات تیرے دل میں اتر جائیں
خواہش صرف اتنی ہے کہ کچھ الفاظ لکھوں جس سے کوئی گمراہی کے راستے پر جاتے جاتے رک جائے نہ بھی رکے تو سوچ میں ضرور پَڑ جائے۔

ہزار خواہشیں ایسی ہے کے ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان پھر بھی کم نکلے۔

Share:

Na Mehram se Social media pe chat karna.

Na Mehram aur Social media.
kya Auraten Social media use kar sakti hai?
Kya Na Mehram se Facebook, Twitter, quora, instagram pe Chat kar sakte hai?
Kya mangani (ingagement) ke bad Ladka Larki social media pe bat chit kar sakte hai?

السلام علیکم رحمۃاللہ وبرکاتہ
نا محرم اور سوشل میڈیا :
غیر محرم مرد وزن کی بات چیت آمنے سامنے ہو, موبائل پیغامات (massaging) کے ذریعہ ہو, یا سوشل میڈیا چَیٹ ہو, سب کے لیے اللہ سبحانہ وتعالى نے ایک ہی اصول وضابطہ مقرر فرمایا ہے۔

اللہ تعالیٰ کافرمان ذی شان ہے:
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعاً فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ
اور جب تم ان سے کسی چیز کے بارہ میں پوچھو, تو پردے کی اوٹ میں بات کرو۔ یہ تمہارے دلوں اور انکے دلوں کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے۔ [الأحزاب : 53]

اس سے معلوم ہوتاہے کہ غیر محرم مرد اور عورت آپس میں کام کی بات کر سکتے ہیں۔ اور بات کرنے کا طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ عورت پردے کی اوٹ میں ہو۔
موبائل , یا میسنجرز پہ کال کرتے ہوئے, یا چیٹ کے دوران "پردہ کی اوٹ" تو موجود ہی ہوتی ہے۔ الا کہ کوئی ویڈیو کال کرکے اس "اوٹ" کو ختم کر دے۔ لیکن دوسرا اہم نقطہ جو اس آیت میں بیان ہوا ہے وہ ہے "کام کی بات" ! جسے عموما پس پشت پھینک دیا جاتا ہے, اور اسکا لحاظ رکھے بغیر بات چیت کی جاتی ہے۔ اس آیت کریمہ میں حجاب کا ذکر کرنے سے پہلے اس اہم نقطہ کو بیان کیا گیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ غیر محرم مرد وزن کی آپس میں بات چیت صرف "ضروری اور اہم کام" سے متعلق ہونی چاہیے۔ محض "گپ شپ" لگانے کی اجازت شریعت میں انکے لیے نہیں ہے!  خوب سمجھ لیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ
بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفاً
اے نبی کی بیویو! بتم عام عورتوں جیسی نہیں ہو, اگر تم اللہ سے ڈرتی ہو, تو
پرکشش لہجہ میں گفتگو نہ کرو, وگرنہ جسکے دل میں مرض ہے وہ طمع لگا
بیٹھے گا۔ اور معروف بات کہو۔ [الأحزاب : 32]
اس آیت میں اللہ سبحانہ وتعالى نے غیر محرموں سے گفتگو کرنے کے لیے مزید دو ا صول بیان فرمائے ہیں:

۱۔ لہجہ پرکشش نہ ہو۔
۲۔ معروف بات ہو۔

 یعنی اگر کوئی عورت گفتگو کے دوران ایسے لہجہ میں بات کرے جس سے مردوں کے دل میں "عشق" کا مرض جنم لے سکتا ہو, تو وہ لہجہ شرعا حرام ہے۔
 تحریری گفتگو میں بھی اس بات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ ایسے الفاظ سے اجتناب کیا جائے جو صنفی کشش کا باعث بنتے ہوں۔

 جو گفتگو مرد و عورت کر رہے ہیں وہ معروف یعنی اچھائی اور بھلائی اور نیکی کی گفتگو ہو جسے شریعت اسلامیہ منع نہیں کرتی۔

درج بالا قواعد وضوابط کو ملحوظ رکھ کر غیر محرم مرد و عورت آپس میں بات چیت کر سکتے ہیں ۔ اس امت کی سب سے پاکیزہ خواتین یعنی امام الانبیاء جناب محمد مصطفى ﷺ کی ازواج مطہرات بھی غیر محرم مردوں سے انہی اصولوں کو مد نظر رکھ کر گفتگو کرتیں اور اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی براہ راست شاگردات یعنی صحابیات بھی انہی ضابطوں کی پابند رہ کر بات چیت کیا کرتی تھیں۔ سو آج بھی اگر کوئی ان ضابطوں کی پابندی کرے تو انکی گفتگو میں کوئی حرج نہیں ہے۔
یعنی بات ایسی ہو جو کہ مرد کو اس عورت سے یا عورت کو اس مرد سے "خود" کرنا ضروری ہو, گفتگو کا انداز پرکشش نہ ہو, معروف بات ہو, اور حجاب کے احکامات ملحوظ خاطر ہوں, تو کوئی حرج نہیں ہے۔
شادی سے قبل منگیتر بھی "نامحرم" ہی شمار ہوتے ہیں۔ لہذا ان سے بھی گفتگو انہی ضوابط کی پابند ہے۔
یہاں ایک ہم بات سمجھنا بہت ضروری ہے , خصوصا خواتین کے لیے کہ * انکی سوشل میڈیا آئی ڈی انکے ولی امر (محرم مرد رشتہ دار جو عورت کا سرپرست ہے) کے علم میں ہونی چاہیے۔ اور اگر خواتین سوشل میڈیا مثلا فیس بک , ٹویٹر, واٹس ایپ , ٹیلی گرام وغیرہ کا استعمال کرتی ہیں تو انہیں بہت زیادہ محتاط رہنا ہوگا۔ اور درج ذیل غلطیوں سے مکمل اجتناب کرنا ہوگا:

1- لڑکوں کو ایڈ کرنا: کسی بھی ایسی آئی ڈی جو مردوں یا لڑکوں کے ناموں سے ہوں ان کو ایڈ نہ کریں اور اگر اپ کو لڑکی کے نام سے فرینڈ ریکویسٹ آئی ہے تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ واقعی کسی بہن کی آئی ڈی ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ لڑکی کے نام سے فیک آئی ڈی بناکر لڑکے آپ کو فرینڈ ریکویسٹ بھیج رہے ہیں ۔ جن پر لڑکیوں کی تصاویر لگی ہوتی ہیں تاکہ ایسے لڑکیوں کی پروفائل میں گھسا جا سکے۔ الغرض آپ صرف اور صرف لڑکیوں کو ہی اپنی فرینڈ لسٹ میں ایڈ کریں اور وہ بھی ایسی لڑکیاں جنہیں آپ جانتی ہوں کہ واقعی یہ لڑکیاں ہی ہیں اور پابند شریعت بھی! اگر آپکو دینی معلومات درکار ہیں, تو آپ فیس بک پر ایسے پیجز کو لائک کر لیں جو اسلامی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ ان سے ہی آپکی علمی ضرورت پوری ہو جائے گی۔

2- لڑکوں سے چَیٹ: لڑکوں سے چیٹ کرنے کی قطعا کوئی ضرورت نہیں, جیسا کہ اوپر دلائل سے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ "گپ شپ "لگانے یا پھر محض "سلام دعاء, حال احوال" کی غرض سے نامحرموں سے چَیٹ یا گفتگو کرنے کی شریعت میں ہرگز اجازت نہیں ہے۔ ہاں بوقت ضرورت بقدر ضرورت جتنی شریعت نے اجازت دی ہے اسکے مطابق کوئی بات کی جاسکتی ہے, لیکن یہ ذہن میں رہے کہ یہ اجازت محض رخصت ہے, لہذا اسکا کم ازکم استعمال کریں۔

3- ضرورت اور بلا وجہ کی گفتگو کے باریک فرق کو سمجھیں: اگر آپ کو کسی عالم دین سے معلومات درکار ہیں تو تین سے چار سطروں میں اپنا سوال لکھ کر سینڈ کریں، ورنہ گفتگو طول پکڑے گی اور کہیں جا کر بھی نہیں رکے گی جس سے فتنے کا اندیشہ ہے۔ خواتین عموما مرد کو دیندار, متقی, عالم دین, یا مجاہد سمجھ کر "گپ شپ" کرنا شروع کر دیتی ہیں جو کہ شریعت میں حرام ہے۔ اس سے اجتناب کریں۔ ٹو دی پوائنٹ یعنی جامع ومانع بات کریں۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ آپ جب بھی کسی غیر محرم مرد سے چیٹ کریں تو اپنے کسی محرم کی موجودگی میں کریں, فتنہ سے محفوظ رہنے کا یہ بہت مؤثر ذریعہ ہے۔

4- دوسروں کی پوسٹوں پہ کمنٹ کرنا: کسی بھی دینی یا فلاحی تنظیم یا جماعت کے پیج پہ موجود پوسٹوں پر اپنی آئی ڈی سے کمنٹ نہ کریں, وگرنہ اسکے نتیجہ میں آپکی آئی ڈی ہزاروں بلکہ لاکھوں مردوں تک پہنچ جائے گی اور یہ فتنہ کا سبب بن جائے گی!

5- پروفائل پکچر: اپنی پروفائل پہ اپنی تصویر نہ لگائیں , خواہ نقاب والی ہی ہو۔ کچھ لڑکیاں اپنے ہاتھوں, پاؤں,آدھے جسم اور لباس وغیرہ کی تصاویر کو اپنی پروفائل پہ لگا دیتی ہیں جبکہ شریعت نےان سب کو چھپانے کا حکم دیا ہے۔

6- پوسٹ کرنے میں احتیاط برتیں: اپنے دکھ اور غم مثلا : میں پریشان ہوں ڈپریشن میں ہوں میں بہت مصیبت میں ہوں وغیرہ انٹر نیٹ پہ اجنبیوں سے ہر گز نہ شئیر کریں, اور نہ ہی اپنی جاننے والی لڑکیوں سے۔ یہ وہ غلطی ہے جو ہر لڑکی انٹر نیٹ پہ کرتی ہے اور بعد ازاں نقصان اٹھاتی ہے۔ اسی طرح اپنے رویے اور پسند ناپسند ، رنگ کیسا پسند ہے ، کھانے میں کیا پسند ہے ، جوتے کون سے پسند ہیں ، یہ معلومات اگر آپ انٹر نیٹ پہ ڈالیں گی تو وہ کسی نہ کسی تک تو پہنچیں گی جس سے نقصان کا اندیشہ ہے ۔

أبو عبد الرحمن محمد رفیق طاہر عفا اللہ عنہ
 نامحرم کا ایک دوسرے سے گفتگو کرنا :
اگر فتنے کا ڈر نہ ہو تو بامر مجبوری پردے میں غیر محرم عورت کے ساتھ گفتگو کی جا سکتی ہے۔ صحابہ کرام سیدہ عائشہ سے پردے میں مسائل پوچھ لیا کرتے تھے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس گفتگو میں کوئی غیر شرعی معاملہ نہ ہو اور نہ ہی لہجے میں نرمی ہو۔ کیونکہ نرم لہجے میں گفتگو سے اللہ نے منع فرمایا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
اے نبیﷺ کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے میں بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو۔ الاحزاب:32
اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :
“واذا سالتموهن متاعا فاسئلوهن من وراء حجاب“
اور جب تم کسی ضرورت اور حاجت کی وجہ سے عورتوں سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ سنو پھر عورت کا غیر محرم مرد سے گفتگو کرنا صرف ضرورت کی حد تک جائز ہوگا
اللہ تعالی نے جس طرح عورت کے وجود کے اندر مرد کے لیے جنسی کشش رکھی ہے (جس کی حفاظت کے لیے بھی خصوصی ہدایات دی گئی ہیں تاکہ عورت مرد کے لیے فتنے کا باعث نہ بنے) اسی طرح اللہ تعالی نے عورتوں کی آواز میں بھی فطری طور پر دلکشی، نرمی اور نزاکت رکھی ہے جو مرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ بنابریں اس آواز کے لیے بھی یہ ہدایت دی گئی ہے کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصدا ایسا لب و لہجہ اختیار کرو کہ نرمی اور لطافت کی جگہ قدرے سختی اور روکھاپن ہو- تاکہ کوئی بدباطن لہجے کی نرمی سے تمہاری طرف مائل نہ ہو اور اس کے دل میں برا خیال پیدا نہ ہو-
یہ روکھا پن ، صرف لہجے کی حد تک ہی ہو، زبان سے ایسا لفظ نہ نکالنا جو معروف قاعدے اور اخلاق کے منافی ہو- ان اتقیتن کہہ کر اشارہ کر دیا کہ یا بات اور دیگر ہدایات قرآن و حدیث میں ہیں وہ متقی عورتوں کے لیے ہیں، کیونکہ انہیں ہی یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کی آخرت برباد نہ ہو جائے- جن کے دل خوف الہی سے عاری ہیں، انہیں ان ہدایات سے کیا تعلق؟ اور وہ کب ان ہدایات کی پرواہ کرتی ہیں؟
فتاویٰ علمائے حدیث/کتاب الصلاۃ/جلد 1
ھذا, واللہ تعالى أعلم, وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم , وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وسلم وکتبہ:
وٙالسَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه :
تحریر۔ 
Mrz A Ansari

Share:

Aapka Mobile Password aapki maut ka paigham hai kaise?

Aapka Mobile Password kahi aapke jan ka khatra to nahi hai?
📱موبائل پاس ورڈ 📱

ایک حاملہ خاتون سیڑھیوں سے گری اور گرتے ہی بےہوش ہو گئی. اس وقت گھر میں اسکی دس سالہ بیٹی کے سوا کوئی بھی نہیں تھا. بچی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کرے. پھر اس نے اپنی امی کا موبائل اٹھایا. تاکہ ابو کو کال کرے. لیکن موبائل پہ پاسورڈ لگا ہوا تھا. بچی کچھ نہ کر سکی. بالآخر ماں اپنی زندگی سے ہار گئی
.
اسی طرح تین دوستوں کو دوران سفر کار حادثہ پیش آیا۔ایک اجنبی نے سارا معاملہ دیکھا. اور وہ انکی مدد کرنا چاہتا تھا۔مگر اس کے پاس کوئی موبائل فون نہیں تھا۔جس کار کو حادثہ پیش آیا. اس میں چھ موبائل تھے. مگر ہر ایک کے موبائل پہ پاس ورڈ لگا ہوا تھا
نتیجتاً وہ بروقت اسپتال نہ پہنچ سکے.
غلطی کس کی ہے؟
آپ اپنی معلومات کے بارے میں بہت حساس ہیں. جبھی موبائل پہ پاس ورڈ لگاتے ہیں
یہ اچھی بات ہے پاس ورڈ ضـــــرور لگائیں. لیکـــــــن صرف واٹس ایپ، پیغامات، فیس بک اور دوسری اہم فائیلز پر ہی لگائیں.
صرف کال کرنے والے آپشن کو کھلا چھوڑ دیں.
ہو سکتا ہے. کہ آپ ایک دن اپنی یا اپنے کسی چاہنے والے کی زندگی بچا سکیں
آپ کے موبائل کا پاس ورڈ آپ کے لیے موت کا پیغام بھی ہو سکتا ہے.
#MobilePassword
#CopyPaste

Share:

Cartoon ek Khatarnak Jehar (Poison) hai kaise?

Cartoon/ Game ek khatarnak jehar (poison) hai kaise?
Kya Cartoons Dekhna Hamare Daily life ka ek hissa nahi ban chuka hai?
Cartoon me kya gandi tasweerein, music, porn videos, fahashi, nangi tasweerein nahi hoti?
kya cartoon hamare bacho ke jehan ko Nahi bigadte gai?
kya Cartoon se hamare Muashare me Burai nahi failati hai?
" کارٹونز ایک خطرناک زہر  ""

*ان والدین کے لئے جو بچوں کا کارٹون دیکھنا برائی نہیں سمجھتے*

کارٹون ۔۔۔کارٹون ۔۔۔کارٹون

پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ ’’ فرح خالد ‘‘ اپنے نوٹس لینے دوسرے کمرے میں جاتی ہے، دروازہ کھولتی اور دھک سے رہ جاتی ہے...!!!
قدم وہیں گڑ جاتے ہیں، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں ...!!!
ننھی بچی ’’ فاطمہ ایوب ‘‘ ہیٹر کے آگے خشوع خضوع سے بیٹھی ہے، دونوں ہاتھوں سے رام رام کر رہی ہے ...!!!
جی ہاں! وہ آگ کی پوجا کر رہی ہے ...!!!

فاطمہ 🗣!!!

فرح کی آواز گہرے کنوے سے برآمد ہوتی ہے ۔
یہ فرح کی اوپر کی منزل میں رہنے والے مالک مکان کی بیٹی ہے ۔وہ ہولے سے پیچھے دیکھتی ہے ...!!!

یہ کیا کر رہی ہو ؟؟؟
آپی !
وہ بھی تو ایسا ہی کرتا ہے نا!!!

ہاں وہ فلاں کارٹون میں فلاں بھی تو ایسا ہی کرتا ہے نا!!!

اور اس کا دل چاھتا ہے لوگوں کو چیخ چیخ کر کہہ دے کہ یا بچوں کو مسلمان بنا لیں، یا بچوں کو کارٹونز دکھا لیں ...!!!

۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے یہاں بہت نامی گرامی تعلیمی ادارے ہیں۔ دین دار لوگ بھی ان کو پریفر کرتے ہیں کہ ان کا ماحول نسبتا بہتر ہے ..!!!
یہاں کا واقعہ ہے :
ایک ننھی بچی رات کو سونے سے قبل ’’کارٹون ‘‘ ہیرو"‍ کو ’’خدا ئی مقام ‘‘ دے رہی ہے اور اپنے ’’بابا ‘‘ سے اس کی شان بیان کررہی ہے ...!!!

انتہائی ملحدانہ نظریہ، الحاد کی کی بدبو میں لپٹا جملہ اس معصوم بچی کی زبان سے وارد ہوتا ہے ...!!!
اور بابا کے تن بدن میں آگ لگا دیتا ہے ...!!!
بابا دینی مزاج کے حامل ہیں...!!!
ان کی رات کروٹیں بدلتے گزرتی ہے ...!!!

اگلے دن
فورا اس تعلیمی ادارے کا رخ کرتے ہیں ...!!!
وہاں جا کر معلوم ہوتا ہے یہاں باقاعدہ ’’ کارٹون کلاس ‘‘ ہوتی ہے ...!!!
اسی کا اثر ہے کہ بچی اپنے بنانے والے کریم رب کو نہیں جانتی، اپنے کارٹونی ہیرو کو خدا مانتی ہے جو سب کچھ کر لیتا ہے، جو ہر چیز پر قدرت رکھتا دکھائی دیتا ہے ...!!!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے چند دن قبل کلاس میں اس حوالے سے بات کی،
ایک خاتوں کہنے لگیں، کہ کبھی ذہن میں ہی نہ آیا تھا
کہ بچوں کو اس سے بھی روکنا چاہیے ...!!!
یہ بھی کوئی روکنے ٹوکنے والی بات ہے؟؟؟

کیا ہر کارٹون میں میوزک نہیں ہوتا؟؟؟
کیا وہ ننھے معصوموں کے شفاف دلوں میں ’’نفاق‘‘ نہیں بھرتے ؟؟؟

رسول اللہ نے فرمایا:
کہ غنا (گانا وغیرہ ) دلوں میں نفاق اگاتا ہے "

کیا کارٹونز میں بے حیائی و عدم لباسی کا ایک سیلاب نہیں ہوتا؟؟؟
کیا وہ ایسے حیا باختہ مناظر نہیں ہوتے جو ایک شریف انسان کی بساط سے باہر ہوتے ہیں...؟؟؟
کیا یہ بچوں کو بے حیائی کا عادی نہیں بنا رہے؟؟؟

اکثر بچے کہتے ہیں:

کارٹونز تو گندے نہیں ہوتے !!!

دھیان دلایا جائے تو کہتے ہیں:
ہاں ہاں ۔ لیکن فلاں گندے نہیں !!!
اور وہ ’’فلاں‘‘ بھی بہت خراب ہوتے ہیں ۔..!!!

کیا کارٹونز میں بدتمیزی، ماؤں سے چیخ و پکار کی ادائیں نہیں سکھائی جاتیں ؟؟؟
کیا بچے اونچی آواز میں بولنا، دھاڑ دھاڑ کر بولنا ایک فیشن نہیں سمجھتے ؟؟؟
کہ ان کے ہیرو بھی ایسے ہی ہوتے ہیں !!!
کیا یہ کارٹونز بچوں سے ان کے اصل ہیرو نہیں چھین لیتے ؟؟؟

وہ بچوں کے نبی کریم ﷺ، وہ ننھے صحابہ وہ ننھے کمانڈوز !!!

امت محمدی کے یہ ہیرو ہیں.

اور کارٹونز
کبھی ڈورے مون کو ہیرو بنائیں گے، کبھی شن چین کو!!!
کیا ڈورے مون جادو کا سبق نہیں دیتے ؟؟؟
کیا جادو کفر نہیں ہے؟؟؟
کیا کارٹونز ’’ہیرو‘‘
کو خدا بنانے پر تلے نظر نہیں آتے ؟؟؟
کیا کارٹونز غیر حقیقت پسندانہ رویہ نہیں سکھاتے ؟؟؟

کیا شن چین یہ نہیں سکھلاتا کہ ماں سے بدتمیزی کرو، ناراض رہو، اس بات پر کہ وہ تمہیں ’’ڈھیروں ڈھیر ‘‘ اور ’’من چاہی ‘‘ شاپنگ نہیں کرواتی یا کروا سکتی ؟؟؟

اسلام کی پاکباز بیٹیوں کو کارٹونز یہ نہیں سکھلاتے:

کہ شن چین کی ماں کی مانند ہو تو ایسی نہ رہو!!!
اس کی ہمسائی جو بے حیائی کا مرقع ہے، اس کی تلقین پر شن چین کی ماں کی مانند ہمسائی کی مان لو ...!!!
ویسے ہی حیا کے جنازے نکالو!!!
اور کوئی برائی کی تلقین کرے تو فورا مان جاؤ ؟؟؟
کیا کارٹونز ڈانس نہیں سکھاتے ؟؟؟

کیا کارٹونز بچوں کی معصومیت سلب نہیں کر لیتے...؟؟؟
کہ وہ اپنی ماں، خالہ، پھپھو کی جانب اشارہ کرکے ہنستے ہیں...!!!

اور ان کی توجہ ان چیزوں پر ہوتی ہے جن کو کارٹون اجاگر کرتے ہیں !!!

اور پھر جب

جب سر سے پانی گذر جاتا ہے، تب ہم کہتے ہیں:
ہائے! آج کل کے بچے توبہ!!!

ہائے! یہ اتنا بدتمیز کیوں ہو گیا ہے!!!

اس نے تو جینا دو بھر کر دیا ہے۔...!!!

ہائے ایسے کالے کرتوت!!!

ہائے ہم نے تو ایسا سوچا تک نہ تھا!!!

ہائے اس نے ماں باپ کی عزت کا بھی بھرم نہ رکھا!!!

پھر فقط
’’ہائے ہائے ‘‘ ہی رہ جاتی ہے، آہیں ہی دلوں کے پردے تار تار کرتی ہیں۔..!!!

مگر مگر مگر!

تب پانی سر سے گذر چکا ہوتا ہے۔...!!!

اللہ رب العزت ہمیں سننے, سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین الہی آمین.

Share:

Dr Zakir Naik Ne Pakistan me Banne wali nayi Mandir ki Mukhalifat ki hai.

Dr Zakir Naik me Pakistan me banne wali mandir (temple) ki mukhalifat ki hai?
Kya Islami Riyasat me Gair Muslim Ka Ibadat gah banaya ja sakta hai?
Pakistan ke islamabad me banne wali nayi mandir ke bare me Shariyat-E-Islamia kya kahta hai?
डॉक्टर ज़ाकिर नायक ने पाकिस्तान के इस्लामवाद में बनने वाली नई मंदिर की तामीर (निर्माण) की आलोचना करने वाले पाकिस्तानी उलेमा की मुकम्मल हिमायत का ऐलान किया है।
पाकिस्तान में मंदिर बनाने के फैसले का ज़ाकिर नायक ने आलोचना किया है।

ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللّٰہ نے اسلام آباد میں نئے مندر کی تعمیر کی مخالفت کرنے والے پاکستانی علماء کرام کی مکمل حمایت کا اعلان کر دیا.

اُن کا مؤقف ہے کہ اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی نئی عبادت گاہیں بنا کر دینا بالکل حرام ہے.

مندر اور چرچ میں غیر اللّٰہ کی عبادت ہوتی ہے، غیر اللّٰہ کی عبادت کرنا شرک ہے اور شرک عظیم گناہ ہے، سورۃ المائدہ میں کہا گیا ہے کہ گناہ کے کاموں میں تعاون نہیں کرنا چاہیے*

*اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی تعمیر پر کوئی مسلمان اپنا روپیہ خرچ نہیں کر سکتا. اس کے متعلق امام مالک، امام شافعی  امام احمد بن حنبل و دیگر آئمہ کے فتاویٰ موجود ہیں*

*صرف ایک شرط پر اسلامی ریاست ان کو عبادت گاہیں بنا کر دے گی وہ یہ کہ جب غیر مسلم اسلامی ریاست میں آتے وقت ریاست سے معاہدہ کر لیں کہ آپ ہمیں نئی عبادت گاہیں بنا کر دیں گے*

*مزید ان کا یہ کہنا تھا کہ سعودی عرب بھی ایک اسلامی ریاست ہے وہاں غیر مسلموں کے عبادت گاہیں نہیں بنائی جاتی اسی طرح پاکستان بھی ایک اسلامی ریاست ہے اس میں بھی غیر مسلموں کو نئی عبادت گاہیں بنا کر دینا جائز نہیں*ما شاء اللہ ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک حفظہ اللہ تعالی کی ہر حفاظت فرمائیں اور انہیں دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھیں ۔۔۔ آمین یا رب العالمین

Share:

Coronavirus: Bimari se jyada Khatarnak Bimari ka darr hai.

Samaj ki Jehani Sehat (Mental Health) ki fikr kijiye.
Bimari Se jyada Khatarnak Bimari ka dar hai.
#Social Media pe Paise ke liye kitna fake news failayi ja rahi hai?

#سماج کی ذہنی صحت (مینٹل ہیلتھ) کی فکر کیجئے۔
حافظ عبدالحسيب عمرى مدنى


کہتے ہیں کہ بسا اوقات بیماری سے زیادہ خطرناک بیماری کا ڈر ہوتا ہے ۔۔ 
کورونا اور لاک ڈاون کے موجودہ حالات میں اس پہلو پر بہت کم توجہ دی جارہی ہے ۔۔

کورونا کی اس صورت حال میں سماج کے افراد کی مینٹل ہیلتھ ایک بڑا مسئلہ ہے ۔۔
ڈپریشن یا ذہنی دباو، ذہنی تناو،مسلسل خوف کے احساس میں جینا، مسلسل بے اطمینانی کی کیفیت سے گزرنا، ذہنی تھکان،اور نہ جانے کیا کیا مسائل ہیں جو انسان کی ذہنی صحت کو درپیش سنگین خطرات کی حیثیت رکھتے ہیں ۔
ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے سماج میں  *"مینٹل ہیلتھ"* سے جڑے مسائل کو ایک بیماری کی حیثیت سے دیکھنے کا رواج بہت ہی کم ہے حالانکہ موجودہ حالات میں بہت سارے لوگ غیر شعوری طور پر ان کا شکار ہیں ۔۔
اس طرف بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق ذہنی صحت *(مینٹل ہیلتھ)* کے تحفظ کی کئی بنیادیں ہیں ۔جن میں سے اہم چند ایک درج ذیل ہیں:
أ. ایمان کی مضبوطی- بالخصوص تقدیر پر ایمان- ( وَاعْلَمْ أَنَّ الأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ ، وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيْءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ ، رُفِعَتِ الأَقْلَامُ وَجَفَّتْ الصُّحُفُ )* ،
قال الترمذي: "هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ " 

ب۔ تعلق باللہ ۔ کیونکہ اللہ سے مضبوط رشتہ ایسے خطرات کے احساس کو پوری طرح گھٹا دیتا ہے ۔۔ (الذين آمنوا و تطمئن قلوبهم بذكر الله ألا بذكر الله تطمئن القلوب )*
ج. ساتھ ہی اسلام ایک مسلمان کو درج ذیل تعلیمات کا بھی پابند کرتا ہے ۔۔
1۔ تجسس انسان کی طبیعت میں ہے مگر ہر خبر کا جاننا انسان کے لئے ضروری نہیں ۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کے ذریعے طرح طرح کی خبروں کی بھرمار خود اپنے آپ میں ذہنی بیماریوں ایک بڑا سبب ہے۔ *(من حسن إسلام المرء تركه مالا يعنيه )*
حديث حسن رواه الترمذي.

2۔ بہت ساری خبریں افواہ ہوتی ہیں لہذا ہر خبر آگے فارورڈ کرنے کی نہیں ہوتی  ۔ *(كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع )*
مسلم.

3۔ بہت ساری خبریں صحیح خبر ہوکر بھی صرف خواص کے جاننے کی ہوتی ہیں ۔ عوام میں ان کا عام ہونا خوف و دہشت کے پھیلانے کے سوا کوئی فائدہ نہیں دیتا ۔ *(وَإِذَا جَاۤءَهُمۡ أَمۡرࣱ مِّنَ ٱلۡأَمۡنِ أَوِ ٱلۡخَوۡفِ أَذَاعُوا۟ بِهِۦۖ وَلَوۡ رَدُّوهُ إِلَى ٱلرَّسُولِ وَإِلَىٰۤ أُو۟لِی ٱلۡأَمۡرِ مِنۡهُمۡ لَعَلِمَهُ ٱلَّذِینَ یَسۡتَنۢبِطُونَهُۥ مِنۡهُمۡۗ وَلَوۡلَا فَضۡلُ ٱللَّهِ عَلَیۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهُۥ لَٱتَّبَعۡتُمُ ٱلشَّیۡطَـٰنَ إِلَّا قَلِیلࣰا)*
(النساء :٨٣)

4۔ بہت ساری خبریں عوام کے حق میں مفید ہوتی ہیں مگر ان خبروں کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہوتے ہیں ۔
عصر حاضر میں ایک طرف ایمان کی کمزوری اور دوسری طرف شرعی اعتبار سے غیر تربیت یافتہ لوگوں کی سوشل میڈیا کے متعدد ذرائع تک رسائی نے ان اصولوں کو پامال کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں مختلف و متنوع نقصانات کے ساتھ ساتھ سماج کے مختلف طبقات کی ذہنی صحت کو لاحق خطرات بھی بڑھ گئے ہیں ۔ 
لہذا دھیان رہے۔۔۔۔!
آپ کم از کم اپنا مثبت کردار ادا کریں ۔

*یادرکھیں ۔۔!*
آپ کے با مقصد فارورڈ بھی اگر کسی کی ذہنی صحت (مینٹل ہیلتھ) کو نقصان پہونچا سکتے ہیں تو پھر آپ اس کے ذمہ دار ہیں 
*(المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده)*
متفق عليه ۔

           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Share:

Ertugrul Gaji Drama Ki Sharai Haisiyat, Iska wah Sach jo Shayad aap nahi jante ho.

Ertugrul Gaji Drama Ki Sharai haisiyat.
Kya Is drame ko dekhne se Hamara iman aur Mazboot ho jata hai?
Is Serial Ka Islam se kya talluk hai?
Is Drame se ham Behayayi, be pardagi, Fahasi, Ishq o maushiqi, Zina, Na Jayez talluqat qayem karna sikh sakte aur Dusro ko bhi is Haram Kam me Shamil kar sakte, Isse na Hamare Iman me Ijafa Hota hai balke Aur Kamjor ho jata hai aur Zina Ke raste pe Chale jate hai, Nafsiyati Khawishat (Sexually desire) Yani apne Nafs ki pairawi karne lagate hai.

*ارطغل ڈرامہ کی شرعی حیثیت : ایک تحقیقی جائزہ*
*⁦✍️⁩ : م ۔ ع ۔ اسعد
متعلم : کلیة الحدیث ، بینگلور*

”ارطغل“ ؛ شاید یہ نام اب محتاج تعارف نہیں ، ترکی سے نشر ہونے والا یہ ایک ڈرامہ ہے جس میں سلطنت عثمانیہ کے قیام کے اسباب و دوافع کو ارطغل نامی غازی کی سوانح حیات اور اور جنگ میں اس کے کارناموں کے ذریعے فلمایا گیا ہے ۔
     لوگ اس کے اتنے گرویدہ ہو گئے ہیں کہ اس کی تعریف کا راگ الاپ رہے ہیں حتی کہ پڑھا لکھا طبقہ بھی اس میں اس قدر محو ہو چکا ہے کہ اس کی تشہیر کرتے نہیں تھکتا ، بلکہ ان کی دیوانگی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ تشہیر کرتے وقت ساتھ میں صنف نازک کی بعض تصاویر کو بھی بصد شوق شیئر کر رہے ہیں ، اور اگر انہیں کوئی سمجھانے کی کوشش کرے تو بجائے نصیحت قبول کرنے کے الٹا ان پر چڑھ دوڑتے ہیں اور طعن و تشنیع کے تیر برساتے اور سطحی قسم کے جملے کستے نظر آتے ہیں اور ”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ والے محاورے کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں
بات اگر صرف یہیں تک ہوتی تو شاید قلم اٹھانے کی ضرورت پیش نہ آتی ، لیکن معاملہ حد سے کافی آگے نکل چکا تھا یہاں تک کہ لوگوں نے اس منکر کو بھی جواز کی صف میں لا کھڑا کیا ، پس میں نے ضروری سمجھا کہ چونکہ ہم ہر حال میں ، آخری سانس تک شریعت کے مکلف ہیں اس لئے اس ڈرامہ کا شرعی جائزہ لیا جائے تاکہ بات بالکل واضح ہو جائے ، اور جواز کے قائلین کے یہاں کوئی اشکال باقی نہ رہے

    ذیل میں کچھ قباحتیں بیان کی جا رہی ہیں کہ جو اس ڈرامہ کے عدم جواز کی واضح دلیل ہیں
1 : اس ڈرامہ میں پہلی قباحت یہ ہے کہ اس میں بے پردگی موجود ہے ، جبکہ اسلام میں بے پردگی قطعاً جائز نہیں ، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے امت محمدیہ کو پردے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔

﴿یَـٰۤأَیُّهَا ٱلنَّبِیُّ قُل لِّأَزۡوَ ٰ⁠جِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاۤءِ ٱلۡمُؤۡمِنِینَ یُدۡنِینَ عَلَیۡهِنَّ مِن جَلَـٰبِیبِهِنَّۚ ذَ ٰ⁠لِكَ أَدۡنَىٰۤ أَن یُعۡرَفۡنَ فَلَا یُؤۡذَیۡنَۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورࣰا رَّحِیمࣰا﴾ [الأحزاب ٥٩]
ترجمہ:
اے نبی ! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں۔  اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہوجایا کرے گی پھر نہ ستائی جائیں گی  اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا ، اور فرمایا
﴿قُل لِّلۡمُؤۡمِنِینَ یَغُضُّوا۟ مِنۡ أَبۡصَـٰرِهِمۡ وَیَحۡفَظُوا۟ فُرُوجَهُمۡۚ ذَ ٰ⁠لِكَ أَزۡكَىٰ لَهُمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِیرُۢ بِمَا یَصۡنَعُونَ﴾ [النور ٣٠]
ترجمہ:
مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں  اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت رکھیں  یہ ان کے لئے پاکیزگی ہے، لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ سب سے خبردار ہے۔
اور اگلی آیت میں یہی حکم مومنہ عورتوں کو ( باپردہ ہونے کے باوجود ) دیا اور فرمایا
﴿وَقُل لِّلۡمُؤۡمِنَـٰتِ یَغۡضُضۡنَ مِنۡ أَبۡصَـٰرِهِنَّ وَیَحۡفَظۡنَ فُرُوجَهُنَّ﴾
ترجمہ:
مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں ۔

بلکہ ایک حدیث میں تو غیر محرم کی طرف دیکھنے کو بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھوں کا زنا قرار دیا ، چنانچہ آپ نے فرمایا
عن أَبي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قال : ( إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا، أَدْرَكَ ذَلِكَ لاَ مَحَالَةَ ، فَزِنَا العَيْنِ النَّظَرُ، وَزِنَا اللِّسَانِ المَنْطِقُ ، )
روى البخاري (6243) ، ومسلم (2657)

پس اس ڈرامہ کو جب ہم شریعت کے اس زاویے سے دیکھتے ہیں تو پاتے ہیں کہ تقریباً پورا ڈرامہ اس بے پردگی سے بھرا پڑا ہے ،

2 : دوسری قباحت یہ ہے کہ معاملہ صرف بے پردگی تک ہی محدود نہیں بلکہ اس ڈرامہ میں بے حیائی و فحاشی کے ایسے مناظر بھی ہیں جنہیں دیکھ کر کسی متقی انسان کے بھی جذبات برانگیختہ ہو جائیں اور شہوت نسوانی بھڑک جائے چہ جائیکہ عام انسان ۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فواحش کے قریب جانے سے بھی منع فرما دیا
﴿وَلا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ﴾ [الانعام : 151 ]
ترجمہ:
اور بےحیائی کے جتنے طریقے ہیں ان کے پاس مت جاؤ خواہ وہ اعلانیہ ہوں یا پوشیدہ ۔

یہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے فحاشی پھیلانے والوں کے لئے سخت وعید بھی سنائی ہے اور دردناک عذاب کی دھمکی دی ہے
ارشاد باری ہے ﴿إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ ﴾ [النور : ١٩]
ترجمہ:
جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں  اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔

پس جب آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ آیت میں جہاں فحاشی پھیلانے والوں کے لئے سخت وعید ہے وہیں مابین السطور ( بند الفاظ میں ) ہر قسم کی فحاشی سے اجتناب کرنے کا حکم بھی مضمر ہے ، کیونکہ آیت میں اگر فحاشی سے بچنے کا حکم نہ ہوتا تو یقیناً فحاشی پھیلانے والوں کے لئے وعید بھی نہ ہوتی
    اس کو سہل انداز میں یوں سمجھیں کہ کوئی باپ اپنے بڑے بیٹے کو اس لئے ڈانٹتا اور مارتا ہے کیونکہ وہ اپنے چھوٹے بھائی کو سنیما ہال فلم دکھانے لے گیا تھا ،
پس کوئی بھی عقلمند اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالے گا کہ باپ اپنے چھوٹے بیٹے کو فلم بینی کی اجازت دے رہا ہے ، بلکہ ہر سلیم العقل شخص یہی کہے گا کہ بڑے بیٹے کو مارنے کے ساتھ ساتھ باپ چھوٹے بیٹے کو بھی زبان حال سے یہ نصیحت کر رہا ہے کہ تم کبھی ایسا نہ کرنا

3 : جیسا کہ ماقبل میں بیان کیا جا چکا ہے کہ اس میں ایسے فحش مناظر موجود ہیں کہ جو انسان کے محرمات میں واقع ہونے کا سبب بنتے ہیں ، اور اصول فقہ کا ایک بہت ہی معروف قاعدہ ہے کہ *ما أدى إلى الحرام فهو حرام* یعنی : جو عمل حرام کی طرف لے جائے تو وہ ( لے جانے والا ) عمل بھی حرام ہوتا ہے ۔
اسی لئے اللہ رب العالمین نے ہر حرام کام کی طرف لے جانے والے تمام راستوں کو ہی بند کرتے ہوئے یہ اعلان کر دیا
﴿وَلَا تَقۡرَبُوا۟ ٱلزِّنَىٰۤۖ إِنَّهُۥ كَانَ فَـٰحِشَةࣰ وَسَاۤءَ سَبِیلࣰا﴾ [الإسراء ٣٢]
ترجمہ:
خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ وہ بڑی بےحیائی ہے اور بہت ہی بری راہ ہے  ۔

4 : اس ڈرامہ میں عشق و عاشقی ، حرام محبت اور ناجائز تعلقات کے ذریعہ بے حیائی کو فروغ دیا گیا ہے ، یہاں تک کہ بعض ذرائع سے مجھے یہاں تک خبر ملی کہ اس ڈرامہ میں بھائی ، بہن کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کرتا ہے اور باپ کچھ بھی نہیں کہتا نیز بعض باوثوق ذرائع سے یہ بھی خبر ملی کہ ایک عورت ، دو مردوں کے رابطہ میں رہتی ہے ( نعوذ باللہ من ذلک )
آخر یہ بے حیائی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے ؟ مگر حیرت ہوتی ہے ان لوگوں پر جو ان تمام منکرات اور محظورات کے باوجود نہ یہ کہ صرف اس ڈرامہ کو جائز سمجھ کر دیکھتے ہیں بلکہ فخریہ انداز میں غیروں کو بھی اس کے دیکھنے کی تلقین کرتے ہیں ،
حیراں ہوں کہ دل کو روؤں یا پیٹوں جگر کو میں
مقدور  ہو  تو  ساتھ  رکھوں ، نوحہ  گر  کو میں
غالب

5 : اس ڈرامہ میں ایک قباحت یہ بھی ہے کہ اس میں وقت کا ضیاع ہے ، وہ وقت کہ جو انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے اور جس کی عظمت و اہمیت کا عالم یہ ہے کہ خود رب العالمین نے ”و العصر“ کہہ کر قرآن میں اس کی قسم کھائی ہے ، مگر افسوس اس بیش قیمت وقت کو انسان ان لا یعنی اور بے کار کی چیزوں میں صرف کر رہا ہے ،
اور اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے پڑوسی ملک میں اس سال ٹیوی چینل پر ، پہلے روزے سے روزانہ اس ڈرامہ کو نشر کیا جا رہا ہے ! العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ
یعنی مذکورہ ظلم کیا کم تھا ؟ کہ اس ماہ مقدس کو بھی ہم اس بیہودگی کی نذر کر دیں اور اس با برکت مہینے کی برکات کو اپنے دامن میں سمیٹنے کی بجائے گناہوں سے اپنی جھولیاں بھر لیں ۔۔۔

       بہرحال یہ چند باتیں تھیں جو میں نے ان کے سوال ” اس ڈرامہ میں حرج کیا ہے ؟ “ کے جواب میں مع دلائل ان کے گوش گزار کیں ۔
     اب آئیے ہم آپ کو اُن بعض شبہات کی طرف لے کر چلتے ہیں کہ جن کی بناء پر لوگ اسے نہ کہ صرف جائز ٹھہرا رہے ہیں بلکہ اس کی نشر و اشاعت میں بھی ایک اہم رول ادا کر رہے ہیں ۔

پہلا شبہ : *[ چونکہ زمانہ ترقی کر رہا ہے اور دین کی نشر و اشاعت کے لئے نئے نئے پلیٹ فارم سامنے آ رہے ہیں ، پس جس طرح غیر قومیں اپنی تاریخ کو ڈراموں اور فلموں کی شکل دیکر غیروں کو اس کی طرف مائل کر رہی ہیں ، اسی طرح دورِ جدید کے تقاضے کو پورا کرتے ہوئے ہمیں بھی اپنی تاریخ کو ڈراموں کی شکل دیکر عوام کے سامنے پیش کرنا چاہئے تاکہ لوگ انٹرٹینمنٹ کے طور پر اسے دیکھ بھی لیں اور اسی بہانے اپنی بھولی ہوئی تاریخ کے متعلق کچھ آشنائی بھی ہو جائے۔ ]*

جواب : میں اس کے جواب میں صرف دو باتیں عرض کروں گا
پہلی بات : یہ کہ اسلام جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کے اختیار سے ہمیں نہیں روکتا بلکہ وہ تو ہر زمان و مکان اور ہر عصر و مصر کے لئے ہے لہذا ضرورت بھی اس بات کی متقاضی ہے کہ ہر دور کے تقاضوں کو پورا اور خالی جگہوں کو ُپر کیا جائے ، مگر اس کے ساتھ ساتھ اسلام کچھ اصول و ضوابط بھی مقرر کرتا ہے کہ جن کی پاسداری ہم ہر واجب ہے ،
پس جدید ٹیکنالوجی اور وسائل کو اختیار کرنا اسی وقت تک جائز ہوگا جب تک اسلام کے اصول و ضوابط کا پاس و لحاظ رکھا جائے گا ، جبکہ یہاں مذکورہ منکرات کے سبب شریعت کے حدود سے واضح تجاوز کیا جا رہا ہے لہٰذا یہ شبہہ باطل اور بے بنیاد ٹہرا ۔
دوسری بات : یہ کہ بالفرض دو منٹ کے لئے اگر ہم آپ کی بات مان بھی لیں تو میں آپ سے پوچھنا چاہوں گا کہ اس ڈرامہ کی شکل میں آپ کس تاریخ کو دکھانے اور سکھانے کی بات کر رہے ہیں ، اُس تاریخ کو جو تقریباً مکمل جھوٹ کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے یا اُس تاریخ کو جس کا اکثر و بیشتر حصہ موضوع و منگھڑت ہے کہ جسے خود ڈرامہ ساز نے گدی دار مسند کے اوپر بیٹھ کر گڑھ لیا ہے ، یقین نہیں آتا تو خود جاکر اس ڈرامہ کی ویکیپیڈیا پر ہسٹری تلاش کریں اور خود ان کی زبانی اس کا اعتراف سنیں ، ورنہ اگر ہم کہیں گے تو شکایت ہوگی
تنبیہ : میں یہاں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ اگر آپ اس ڈرامہ کو تاریخی حقائق کے ذریعے ثابت کرنے میں کامیاب بھی ہو جائیں پھر بھی دیگر منکرات کے سبب کسی طور پر بھی اس کے جواز کی کوئی صورت نہیں نکلتی ۔

دوسرا شبہ : *[ اس ڈرامہ کے جواز کے قائلین کی طرف سے ایک دلیل یہ بھی دی جا رہی ہے کہ اس میں جرات و شجاعت کو دکھلایا گیا ہے ، جہاد ہوتا ہے ، ملک کی فتوحات دکھائی جاتی ہیں ، کہ جسے دیکھ کر ایمان میں تازگی آتی ہے اور اس میں اضافہ ہوتا ہے ۔]*
جواب : آہ کیا زمانہ آ گیا ہے کہ لوگ فحش ڈرامے اور بے حیائی سے لبریز سیریل کو دیکھ کر اپنا ایمان تازہ کر رہے ہیں ، سمجھ نہیں آتا کہ پہلے ان کی عقلوں کا ماتم کروں یا ان کے ایمان کا جنازہ پڑھوں ؟ آخر لوگوں نے اس دین کو سمجھ کیا رکھا ہے !؟
خیر ۔۔۔۔ ان کی یہ دلیل ، ذیل میں بیان کی جانے والی وجوہات کے پیش نظر بے بنیاد ہے ،
1 : جسے آپ ایمان کی تازگی اور زیادتی تصور کر رہے ہیں وہ ایمان کا اضافہ نہیں بلکہ درحقیقت ایک شیطانی چال اور ابلیسی حربہ یے ، جنگ و جدال میں ایسی بے مثال بہادری کو دیکھ کر جذبات کا برانگیختہ ہونا اور دل میں جرات و شجاعت سے ملی جلی ایک ہیجانی کیفیت کا پیدا ہونا یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ایک طبعی اور فطری امر ہے ،
اور یہ چیز صرف یہاں نہیں بلکہ جرات و شجاعت والی کوئی بھی ہالی وڈ یا بالی وڈ فلم دیکھیں تو یہی کیفیت آپ وہاں بھی پائیں گے ، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس ڈرامہ کو آپ الگ نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں جبکہ دیگر فلموں کو الگ نظر سے ،
    پس کیا آپ یہ کہنے کی جرات کر سکتے ہیں کہ شجاعت و بہادری پر مبنی دیگر فلموں سے بھی ایمان تازہ ہوتا ہے لہذا انہیں دیکھنا بھی جائز ہے ؟
2 : چلئے تھوڑی دیر کے لئے ، جذبات کی دو پل کی اس برانگختگی کو اگر ایمان میں اضافہ کا نام دے بھی دیا جائے تب بھی ایمان میں اضافہ کے لئے یہ راہ اختیار کرنا ہرگز صحیح نہیں ، کیونکہ ایمان کو بڑھانے کے لئے مختلف اسباب و ذرائع ، قرآن و حدیث میں بیان کئے گئے ہیں ، کہ جن میں ہمارے لئے غنیمت ہے ،
پس ایمان کی تازگی کے لئے ایسا راستہ اختیار کرنا جو شریعت کے اصول و ضوابط سے ٹکرا رہا ہو اور شرعی حدود سے تجاوز کر رہا ہو تو وہ ایمان کی کمی کا سبب تو ضرور ہو سکتا ہے مگر اس کی زیادتی کا سبب کبھی نہیں ہو سکتا ۔
3 : بالفرض اگر ہم دو منٹ کے لئے آپ کی دونوں باتیں مان بھی لیں کہ جذبات کی ان مذکورہ کیفیات کا نام دراصل ایمان ہی ہے اور ایمان میں اضافے کے لئے اس راہ کو اختیار کرنا بھی جائز ہے اور اس کو دیکھ کر آپ کا ایمان تازہ بھی ہو جاتا ہے تو محترم ذرا یہ بھی تو بتائیں کہ اس ڈرامہ میں جنگ و جدال والا سین دیکھ کر جب آپ کا ایمان ( بزعم خویش ) بڑھتا ہے تو اسی میں موجود بے پردگی و بے حیائی اور فحاشی و رومانس والے سین کو دیکھتے وقت آپ کا آسمان کی بلندیوں کو چھونے والا ایمان کہاں چلا جاتا ہے ، ؟ یا آپ اس وقت اپنی آنکھیں موند لیتے ہیں ؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ ”میں اس وقت اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہوں“ یا ”اپنا چہرہ کسی اور جانب پھیر لیتا ہوں“ تو یہ سراسر جھوٹ ہے ، کیونکہ بعض جگہ پر تو ایسا ممکن ہے پر ہر جگہ نہیں ، کیونکہ پورا ڈرامہ ہی اس گندگی سے بھرا ہوا ہے ۔ اور اگر آپ کہتے ہیں کہ ”میں ان مناظر کا بھی بخوبی مشاہدہ کرتا ہوں“ تب تو آپ کا ایمان محفوظ ہی نہیں رہا کیونکہ اگر محفوظ رہتا تو آپ ان بے حیائی اور فحاشی والے مناظر کا مشاہدہ ہی نہیں کرتے ، کیونکہ جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اس کا ایمان کم ہو جاتا ہے اور بندہ جس قدر اس کا ارتکاب کرتا ہے اسی قدر اس کا ایمان بھی کم ہوتا جاتا ہے  جیسا کہ حدیث میں ہے :
{ عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يزني الزاني حين يزني وهو مؤمن .... } ( متفق عليه )
حضرت ابو ہریرہ رضی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : زنا کار جب زنا کرتا ہے تو وہ بحالت زنا ، مومن نہیں ہوتا ۔
اور دوسری حدیث میں مزید وضاحت کے ساتھ ہے کہ
{ عن أبي هُرَيرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذَا أذنَبَ العَبْدُ نُكِتَ فِي قَلْبِهِ نُكْتَة سَوْدَاءُ، فإنْ تابَ صُقِلَ مِنْها، فإنْ عادَ عادَتْ حتى تَعْظُمَ فِي قَلْبِهِ }
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ رکھ دیا جاتا ہے ، پس اگر وہ اس سے توبہ کر لے تو اس کا دل دھو دیا جاتا ہے ، اور اگر وہ دوبارہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ نکتہ بھی بڑھتا جاتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر چھا جاتا یے .
پس شریعت کے اس ترازو پر ذرا اپنے ایمان کو تولیں اور اندازہ لگائیں کہ اس ڈرامہ میں ( بزعم خویش ) ایمان بڑھانے کا سامان ( جہاد و قتال اور اس میں دکھائی گئی جرآت و شجاعت ) زیادہ موجود ہے یا پھر اس کو کم کرنے اور گھٹانے کا سامان ( بے پردگی و بے حیائی اور فحاشی وغیرہ ) زیادہ موجود یے ۔
میں یہ بات دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ اس میں ثانی الذکر چیز یعنی ایمان کو گھٹانے کا متاع زیادہ موجود ہے ،
پس مکمل تجزیہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس ڈرامہ سے ایمان بڑھتا تو دور بلکہ کم ہوتا ہے اور اس میں مزید نقص آتا ہے.
*خلاصہ* : لہٰذا پوری تحریر کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس ڈرامہ کو دیکھنا کسی طور پر بھی جائز نہیں ، چہ جائیکہ اس کی تشہیر کی جائے اور لوگوں کو اس کی طرف رغبت دلائی جائے

و اللہ اعلم بالصواب

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS