find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Jihad. Show all posts
Showing posts with label Jihad. Show all posts

Jihad pe Jane ke liye Maa Baap ki ijazat.

Musalman kyu jihad karte hai?
Kya Jihad me jane ke liye Waldain ki ijazat jaruri hai?
Sawal: jihad ke liye Waldain (Maa Baap) ki Ijazat.
جہاد کے لئے والدین کی اجازت

جہاد میں شرکت کے لئے والدین کی اجازت کے متعلق دو طرح کی احادیث موجود ہیں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا وہ آپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہتا تھا۔ آپ نے فرمایا کیا تیرے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا ہاں،آپ نے فرمایا: پھر انہیں میں جہاد کرو۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد)
اسی طرح عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہی ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس نے پوچھا سب سے افضل عمل کیا ہے؟ آپ نے فرمایا نماز اس نے کہا پھر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جہاد کرنا تو اس نے کہا میرے والدین ہیں آپ نے فرمایا میں تجھے والدین کے ساتھ خیر کا حکم دیتا ہوں اس نے کہا " والذى بعثك بالحق لاجاهدن ولا تركنهما قال فأنت أعلم " اس ہستی کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میں ضرور جہاد کروں گا اور انہیں ضرور چھوڑ کر جاؤں گا آپ نے فرمایا پھر تو بہتر جانتا ہے۔ (ابن حبان 4/11)
اہل علم نے ان دونوں احادیث کے متعلق دو قسم کی توجیہ بیان کی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں دونوں احادیث میں موافقت کرتے ہوئے یہ صورت نکلتی ہے کہ فرض عین جہاد پر محمول ہے۔ یعنی جب جہاد فرض عین ہو تو والدین کی اجازت ضروری نہیں۔ (فتح الباری 6/141)
دوسری توجیہ یہ ہے کہ والدین کی اجازت والے مسئلہ کو امام یا شرع کے مکلف آدمی کے سپرد کر دیا جائے اب دونوں صورتوں میں مصلحت جس کا تقاضا کرے اسے مقدم کرنا واجب ہے۔ انصار و مہاجرین جہاد کرتے تھے اور ہم نے ذخیرہ احادیث میں سے کسی بھی حدیث میں نہیں دیکھا کہ وہ ہر غزوے میں والدین کی اجازت کا التزام کرتے ہوں۔ (کتاب الروضۃ الندیہ 2/333ط جدید محقق 2/719)
ہمارے نزدیک یہ دوسری توجیہ زیادہ وزنی ہے اس لئے کہ دونوں احادیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام نے اپنے آپ کو جہاد کے لئے اپنے امام اور قائد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں پیش کیا آپ نے ان کا فیصلہ کیا اور ابن حبان کی صحیح حدیث کے مطابق بات یہ ہے کہ جب مجاہد صحابی نے والدین کو چھوڑ کر جہاد میں جانے کا عزم کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ڈانٹا یا منع نہیں کیا بلکہ معاملہ اس کے سپرد کر دیا اور فرمایا تو اپنی حالت کو بہتر جانتا ہے۔ اسی لئے اگر کوئی شرع کا مکلف آدمی اپنے گھریلو حالات کو دیکھ کر خود فیصلہ کر لے کہ وہ جہاد پر جانا چاہتا ہے تو والدین کی اجازت کے بغیر بھی جا سکتا ہے۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب
تفہیمِ دین
کتاب الجہاد،صفحہ:281

Share:

Hazrat Khalid bin walid ke Maut ki khabar se Madine me kohram mach gaya tha.

Hazrat Khalid bin walid Ke Inteqal ki khabar jab madina me pahunchi to har ghar me kohram mach gaya.
Maut likhi na ho to maut khud Zindagi ki hifajat karti hai.
حضرت خالد بن ولیدؓ کے انتقال کی خبر جب مدینہ منورہ پہنچی تو ہر گھر میں کہرام مچ گیا ۔
جب حضرت خالد بن ولیدؓ کو قبر میں اتارا جارہا تھا تو لوگوں نے یہ دیکھا کہ آپؓ کا گھوڑا ’’اشکر‘‘ جس پر بیٹھ کے آپ نے تمام جنگیں لڑیں ، وہ بھی آنسو بہارہا تھا ۔
حضرت خالد بن ولیدؓ کے ترکے میں صرف ہتھیار ، تلواریں ، خنجر اور نیزے تھے ۔
ان ہتھیاروں کے علاوہ ایک غلام تھا جو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتا تھا ،،اللہﷻ کی یہ تلوار جس نے دو عظیم سلطنتوں (روم اور ایران) کے چراغ بجھائے ۔
وفات کے وقت ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا ، آپؓ نے جو کچھ بھی کمایا، وہ اللہﷻ کی راہ میں خرچ کردیا۔
ساری زندگی میدان جنگ میں گزار دی ۔
صحابہؓ نے گواہی دی کہ ان کی موجودگی میں ہم نے شام اور عراق میں کوئی بھی جمعہ ایسا نہیں پڑھا جس سے پہلے ہم ایک شہر فتح نہ کرچکے ہوں یعنی ہر دو جمعوں کے درمیانی دنوں میں ایک شہر ضرور فتح ہوتا تھا۔
بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ نے حضورؐ سے حضرت خالدؓ کے روحانی تعلق کی گواہی دی ۔

خالد بن ولیدؓ کا پیغام مسلم امت کے نام :

موت لکھی نہ ہو تو موت خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے ۔جب موت مقدر ہو تو زندگی دوڑتی ہوئی موت سے لپٹ جاتی ہے ، زندگی سے زیادہ کوئی نہیں جی سکتا اور موت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا ،،
دنیا کے بزدل کو میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ اگر میدانِ جہاد میں موت لکھی ہوتی تو اس خالد بن ولیدؓ کو موت بستر پر نہ آتی۔
           رضی اللہ تعالٰی عنہُ

اس پیغام کو اس دور میں ہر مسلمان کو ضرور پڑھانا چاہیے، اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے قول کو وقتآ فوقتآ دہراتے رہنا چاہیے۔

Share:

Salahuddin Ayyubi Ke bare me aap kya kya Jante hai?

Sultan Salahuddin Ayyubi ke bachpan ke waqyat. 

Aaj koi Salahuddin Ayyubi jaisa kyu nahi hota? 


مولانا سیف خالد اشرفی صاحب کے وال سے کاپی

سلطان محمد الفاتح کو ان کی والدہ  ان کے بچپن میں قسطنطنیہ کی فصیل دکھانے لے جاتی تھیں.
صلاح الدین ایوبی کو ان کے والد نے بچپن کے زمانہ میں لڑکوں  کے ساتھ کھیلتے ہوئے  دیکھا تو ان  کے بیچ سے لیا اور اور ہاتھ سے پکڑ کر اونچا اٹھا لیا۔ ان کے والد لمبے قد و قامت کے انسان تھے ،
ان سے کہا۔
“ میں نے تیری ماں سے اس لئے نکاح نہیں کیا اور تجھے اس لئے جنم نہیں دیا  کہ تو لڑکوں  کے ساتھ کھیلے گا میں نے تو اس لئے تیری ماں سے نکاح کیا اور تجھے جنم دیا کہ تو مسجدِ اقصی کو آزاد کراے گا۔ “
لمبے قد کے انسان اور بیٹے کو ہاتھ سے اوپر اٹھائے ہوئے، اوپر ہی سے چھوڑ دیا ، بچہ صلاح الدین زمین پر گر گیا۔
باپ نے بچے کی طرف نگاہ ڈالی تو درد کے آثار  بچے کے چہرے پر عیاں دیکھا۔ کہا۔
“ گرنے پر تجھے درد ہو رہا ہے؟”
صلاح الدین نے کہا۔
“ درد تو ہو رہا ہے۔ “
باپ نے کہا۔
“تو درد سے کیوں نہیں چیخا۔ “
بچے نے (یہ تاریخی جملہ) کہا۔
“ مسجدِ اقصی کو آزادی دلانے والے کیلئے مناسب نہیں کہ درد پر روئے چلائے۔ ؟
سیدہ صفیہ  بنت عبد المطلب رضی اللہ عنھا اپنے بیٹے زبیر (رضی اللہ عنہ) کے گھوڑے کی پیٹھ سے گر جانے کی کوئی پرواہ نہیں کرتی تھیں
عرب اپنے بچوں کو مہینوں سالوں جنگلوں کی طرف بھیج دیتے تھے اور ان کے دلوں کو اندیشہ و خوف نہیں کھاتا تھا۔
مکہ کی وادیوں میں بچے بکریوں کے ساتھ تنہا راتیں  گزار دیتے تھے ان کے باپ کو کوئی تکلیف نہیں  ہوتی تھی۔
عرب کے بانکے جوان جیسے حمزہ بن عبد المطلب (رضی اللہ عنہ) تجارت کیلئے، شکار کیلئے، اونچے اونچے پہاڑوں پر چڑھنے کیلئے ، شیروں کے شکار کیلئے نکلتے تھے مگر ان کی مائیں دہشت سے مرتی نہیں تھیں
یہی سبب ہے کہ جب اسلام آیا تو عرب کی جسمانی قوت کے ساتھ روحانی قوت مل گئی اور خالد ابن ولید ، زبیر بن العوام ، سعد بن ابی وقاص ، براء ابن مالک ، مثنی ، قعقاع ، عمرو بن معدی کرب ( رضی اللہ عنھم اجمعین)جیسے بہادر اور مردانِ کارزار  عرب کے ریگزار پر ظاہر ہوئے۔
اللہ کا نام لے کر نکلے اور قیصر و کسری کی عظیم سلطنتیں لے کر ہی واپس آئے۔
قوم کو صفیہ جیسی ماں کی ضرورت ہے جو زبیر جیسے بچے کی پرورش کرے۔
نجم الدین جیسے باپ کی حاجت ہے جو صلاح الدین جیسے شیر کو پال کر جوان کرے
امت تاریخ کے ایسے مرحلے میں داخل ہورہی ہے  جہاں مذکر و مونث نام والے کا کوئی فائدہ نہیں
قوموں کا مستقبل اس کے بچوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔
اپنے بچوں کو دور حاضر کے گندے حقائق کا شکار بننے کیلئے آزاد نہ چھوڑو
فلموں نے نسلوں کو برباد کرڈالا، گندے مناظر کے سوا کیا ہے وہاں دین اور اچھی تربیت سے دوری ہی دوری
ہر شخص رعیت والا( ذمہ دار )  ہے اور اپنی رعایا (ماتحت)کے متعلق پوچھا جائیگا۔
(عربی سے ترجمہ)
ابھی اور اسی وقت ہر طرح کی فلم ، ڈرامے اور بے حیائی اور مخربِ اخلاق مناظر کی طرف نگاہ ڈالنے سے ہم توبہ کریں اور اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کا عہد کریں ۔
پڑھو پڑھو اپنے ہیروز کی تاریخ پڑھو ۔ یہ فلموں میں ناچنے والے ہیرو نہیں زیرو ہیں۔ یہ تمہارے اعمال ہی کو خراب نہیں کرتے تمہارے ایمان کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں فلم اور سیریل کی کوئی ایکٹنگ جو اس کے باہر شرک و کفر پر مشتمل ہو اس کے اندر بھی شرک و کفر ہے
نکاح و طلاق و ایمان و کفر ایسی چیزیں ہیں جو مذاق و اداکاری میں بھی موثر ہوجاتی ہیں حکم کے معاملے میں۔

Share:

Wah Tarikh jisse Europe aaj bhi Karah raha hai, Istanbul pe Musalmanon ka hukumat.

Yaume Fatah Qustuntuniya.
Kaise Istanbul ko Musalmano ne fatah kiya tha?
Istanbul Shahar Musalmano ke Qabze me kaise aayi?
वह ऐतिहासिक दीन जिस से यूरोप आज भी कराह रहा है.
कुस्तुनतुनिया के विजय का दिन।
۲۹مئی: #یومِ_فتحِ_قسطنطنیہ
" وہ تاریخی دن جس سے یوروپ آج بھی کراہ رہاہے "
آج سے ۵ سو سال قبل یہی وہ گھڑی تھی یوروپ میں جس کی صبح,  عیسائیوں کی استعماری بزنطینی سلطنت کے غروب سے طلوع ہوئی تھی، یہی وہ تاریخی گھڑی تھی جب عظیم اسلامی سپہ سالار،  سلطنت عثمانیہ کے نامور خلیفۃ المسلمین،  سلطان محمد الفاتح نے قسطنطنیہ پر ہلالی پرچم لہرایا تھا، یہی وہ عہد ساز لمحات تھے جب صلیبیوں کے مقدسات میں سے ایک،  آرتھوڈکس عیسائیوں کا قلعہ اور صلیبیوں کی بزنطینی بادشاہت کے بے مثال دارالحکومت کو اسلامی افواج نے عثمانی خلافت کا غلام کرلیا تھا، قسطنطنیہ کا نام پہلے " باز نطین " تھا سلطان محمد الفاتح نے اسے فتح کرکے اس کا نام " اسلام بول " رکھ دیا، اور اب یہ شہر " استنبول کے نام سے جانا جاتا ہے_
عظیم عثمانی ترکوں نے قسطنطنیہ کو فتح کرکے نا صرف اسلام کی جھولی میں ڈال دیا بلکہ اسے تا قیامت یوروپ کی مسیحی دنیا کے لیے کچوکے لگانے کا سامان کر دیا ہے، استنبول یوروپ کے ان شہروں میں سے ایک ہے جو قدرتی ذخائر اور خزانوں سے لبالب ہیں، قسطنطنیہ یعنی کہ استنبول یوروپ کے خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک ہے جسے کبھی شہروں کی ملکہ بھی کہا جاتا تھا، یہ فتح کوئی معمولی فتح نہیں تھی ، یہی وجہ ہیکہ  بازنطینی سلطنت اور عیسائی دنیا کے لیے یہ فتح ایک سوگوار تاریخ چھوڑ گئی ہے، یوروپ کی دین بیزار اور اسلام دشمن  دنیا جس قسطنطنیہ یا بازنطین پر مغرور تھی اور جس خطے کو مسلمانوں سے چھینے رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی رہی اسے  ترکی نسل کے عظیم عثمانی سلطان، سلطان  محمد الفاتح نے اپنی عمر کے عہد شباب میں ہی زیر کر لیا تھا، دجال کی مسیحی دنیا، یوروپ پر اس شکست کا ایسا زبردست اثر ہے کہ اس سلسلے میں ماتمی محافل، اور انتقامی کتب و لٹریچر ہر دور میں تیار کیا جاتاہے۔

عثمانی ترکوں کے خلاف اشتعال انگیز نظمیں پڑھی جاتی ہیں، تحقیر آمیز پینٹنگز بنائی جاتی ہیں، حتیٰ کہ یونان میں آج بھی جمعرات کو منحوس دن قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ ۲۹ مئی 1453 کو جس دن قسطنطنیہ کو مسلمانوں نے فتح کرکے " استنبول " بنایا وہ دن جمعرات کا ہی دن تھا، یہی وجہ ہیکہ موجودہ ترکی سے پورا عالم کفر انتقامی جذبہ رکھتا ہے اور اس کی ترقیاتی راہ میں روڑے ڈالتا ہے_

امت اسلامیہ کے غیور نوجوانوں کے لیے اس تاریخ میں عظیم سبق ہے، ایک ۲۰ سے ۲۵ سالہ عثمانی سلطان کا یہ کارنامہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے، دشمنوں کے قلب و جگر سے ایک خطۂ زمین کو الله کی کبریائی کے خاطر اس طرح  حاصل کرلینا کہ رہتی دنیا تک وہ عظیم اسلامی ایمپائر دشمنوں کی آنکھوں کے لیے ہمیشہ سوزش کا سامان بن جائے یہ غیر معمولی تاریخ ساز کارنامہ ہے، امت کے نوجوانوں کو اس تاریخ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے، کروڑوں رحمتوں کی سوغات نازل ہو سلطان محمد الفاتح پر، عظیم ترکوں پر، اس لشکر کے ہر سپاہی اور ہر غیور عثمانی لشکری پر، آج بھی عظیم ترکی یوروپ کے لیے بھرپور انداز میں سوزش و جلن کا سامان پیدا کر رہاہے، ترکوں کی عظمت کو سلام، سنہری تاریخ کے عہد ساز عثمانی سلاطین کو بھی بار بار سلامِ شوق، تم ہماری تاریخ کا اٹوٹ حصہ اور عظمت اسلامی کا بحر بیکراں ہو، پوری امت اس عہد ساز تاریخ اور ایمان افروز لمحاتِ آفرینش پر فدا ہے_

Share:

Iran Iraq aur Syria pe Musalmanon ki Hukumat, Rom ka Badshah aur Islamic Mujahidin. (Part 12)

Roma ka Badshah aur Mujahidin-E-Islam

اورنیل بہتارہا
*قسط نمبر/12*
ہرقل نے اپنے ایک ہارے ہوئے محاذ سے بھاگے ہوئے جرنیل کی پوری بات سن تو لی لیکن اس نے کسی ردّ عمل کا اظہار نہ کیا، اس پر خاموشی سی طاری ہو گئی تھی لیکن اس کے چہرے کے تاثرات، اور اٹھنا، کمرے میں ٹہلنا، پھر بیٹھ جانا ،اور پھر اٹھ کر ٹہلنے لگنا ،ایسی علامت تھی جو اس بے چینی اور بے قراری کا پتہ دیتی تھی، جو اس کے اندر بپا تھی اس سے توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ وہ اسلامی اصولوں کی عظمت اور افادیت پر غور کرے گا اور اپنا رویہ بدلنے کی کوشش کرے گا۔
چوں کہ یہ داستان فتح مصر کی طرف بڑھ رہی ہے اس لئے ہم انطاکیہ کی فتح کا مزید ذکر نہیں کریں گے۔
البتہ اتنی سی بات ضروری معلوم ہوتی ہے کہ انطاکیہ کی فتح اسلام کے نظریے اور دین کے اصولوں کی فتح تھی۔
سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے شہریوں پر جزیہ عائد کردیا اور باقی تمام ٹیکس اور محصولات ختم کردیئے شہر میں بعض لوگ کٹر عیسائی تھے انہوں نے روم کی بادشاہی کو تو قبول کیا ہی نہیں تھا ،انہوں نے درپردہ لوگوں کو اکسانا شروع کردیا کہ وہ مسلمان فاتحین کو جزیہ نہ دیں اور خود مختار ہو جائیں ،کچھ لوگ ان کی باتوں میں آ گئے اور جزیہ دینے سے انکار کردیا ابوعبیدہ کے حکم سے ایسے لوگوں کو شہر بدر کر دیا گیا۔
مسلمان فاتحین کے سامنے صرف یہ کام نہیں تھا کہ وہ مفتوحہ شہروں کا نظم و نسق درست کرنے بیٹھ جاتے ۔
سالاروں کے سامنے اصل کام یہ تھا کہ پسپا ہوتی ہوئی رومی فوج کو کہیں بھی اکٹھا نہ ہونے دیا جائے ۔
جاسوسوں نے اطلاع دی کہ انطاکیہ سے بھاگی ہوئی رومی فوج حلب کے مقام پر اکٹھا ہو رہی ہے ابو عبیدہ نے کچھ لشکر اپنے ساتھ لیا اور روانہ ہوگئے، خالد بن ولید کو انھوں نے ایک اور سمت بھیج دیا جہاں رومی فوج تازہ دم ہونے کے لیے رک گئی تھی۔
مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ابوعبیدہ حلب پہنچے تو انطاکیہ سے ایک قاصد یہ پیغام لے کر ان تک پہنچا کہ انطاکیہ کے لوگوں نے نافرمانی شروع کردی ہے اور صورت بغاوت والی پیدا ہوتی جارہی ہے ۔
ابو عبیدہ نے ایک نائب سالار عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کو اس کام کے لیے بھیجا کہ وہ بغاوت پر قابو پائے لیکن یہ احتیاط کریں کہ کسی پر بلا وجہ اور غیر ضروری تشدد اور زیادتی نہ ہو۔
اس کے ساتھ ہی ابو عبیدہ نے ایک پیغام مدینہ امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کو بھیجا جس میں انہوں نے ایک تو انطاکیہ کی فتح کی خوشخبری سنائیں اور ساتھ یہ اطلاع دی کہ انطاکیہ کے لوگوں نے جزیہ کے معاملے میں بغاوت کردی ہے۔
امیرالمومنین نے یہ پیغام ملتے ہیں جواب بھیجا جس میں انھوں نے لکھا کہ لوگوں کو ہر وہ سہولت دو جو ان کا حق ہے، اگر کچھ لوگوں کے وظیفے مقرر کیے ہیں تو وہ انہیں بروقت ادا کیے جائیں، انہوں نے یہ بھی لکھا کہ شہر میں مجاہدین کے دو تین دستے موجود رہے۔ اور وہ نظم ونسق برقرار رکھیں، تا کہ لوگوں کو یہ تاثر نہ ملے کہ مسلمانوں کے پاس اتنی فوج ہے ہی نہیں کہ وہ مفتوحہ آبادیوں کو اپنے قابو میں رکھ سکیں۔
تدبر اور ہوشمندی سے اس بغاوت پر قابو پالیا گیا بغاوت تو کچھ اور علاقوں میں بھی ہوئی تھی ان سب پر قابو پالیا گیا تھا۔
ہم یہاں تفصیلات میں نہیں جا رہے یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ہرقل کس انجام کو پہنچا اور اسے اس انجام تک کس طرح پہنچایا گیا۔ پھر ہم یہ بیان کر رہے ہیں کہ مسلمانوں نے ہرقل کی اس چال کو اس طرح بے کار کیا کہ اس نے اپنی فوج کو مختلف مقامات پر تقسیم کردیا تھا ۔ اسے توقع تھی کہ مسلمان بھی اس کے مطابق تقسیم ہو جائیں گے لیکن اللہ کی راہ میں لڑنے والوں کو اللہ کی مدد اور رہنمائی حاصل تھی۔ ورنہ اتنی قلیل تعداد کو اتنے زیادہ حصوں میں بانٹ دینا مسلمانوں کے لئے بڑا ہی تباہ کن اقدام ہوتا۔
*=÷=÷=÷=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷*
ہرقل کا جرنیل راستین اسے انطاکیہ کی صحیح صورت حال بتا کر اور شکست کی وجوہات واضح کرکے پھر محاذ پر چلا گیا تھا. ہرقل اب دوسرے مقامات سے آنے والے قاصدوں کا انتظار کرنے لگا، لیکن کہیں سے کوئی قاصد نہیں آ رہا تھا ۔اس کی زندگی اب سراپا انتظار بن کے رہ گئی تھی، یہ تمام مقامات سرحدی تھے اس کا مطلب یہ تھا کہ روم کی فوج تمام تر شام سے نکل گئی ہے اور اب سرحد پر قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے ۔
معروف تاریخ دان الفریڈ بٹلر لکھتا ہے کہ ہرقل مایوسیوں میں ڈوب گیا تھا ،اور اپنے مشیروں اور مصائبو کے ساتھ جو باتیں کرتا تھا ان سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اس نے اس حقیقت کو قبول کرلیا تھا کہ اس کی شہنشاہی کا ستارہ جو شام پر چمکتا ہی رہتا تھا ٹوٹ کر شام کے افق میں ہی کہیں گم ہو گیا ہے۔
آخر ایک روز حلب سے اس کی فوج کا ایک افسر آیا جو کچھ زخمی بھی تھا، اس نے ہرقل کو ایسی ہی کہانی سنائی جیسی راستین انطاکیہ کی سنا چکا تھا۔ اس نے سنایا کہ اب بچی کچھی فوج ادھر ادھر سے حلب آ رہی تھی کہ مسلمانوں کا مختصر سا لشکر آن پہنچا ، رومیوں پر مسلمانوں کی ایسی دہشت طاری تھی کہ وہ جم کر لڑ ہی نہ سکے۔
وہاں کے لوگوں کا رویہ کیا تھا؟ ۔۔۔ہرقل نے پوچھا ؟۔۔۔ہمارے حق میں اچھا نہیں تھا اس افسر نے جواب دیا۔۔۔ مجھے شک ہے کہ بعض لوگوں نے مسلمانوں کی کسی نہ کسی طرح مدد بھی کی تھی ہمارے خلاف وہ مخبری تو ضرور ہی کرتے رہے۔کیا اس کی کوئی وجہ بتا سکتے ہو؟ ۔۔۔ہرقل نے پوچھا ۔۔۔
‏راستین جرنیل تھا اس لیے اس نے ہرقل کو بڑے صاف الفاظ میں جرات کے ساتھ وجہ بتا دی تھی، لیکن یہ رومی معمولی سا افسر تھا اس لیے اس نے سچ بولنے کی جرات نہیں کی، ہرقل نے پھر اپنا سوال دہرایا تو افسر بے چین سا ہو گیا اور ہرقل کے منہ کی طرف دیکھتا رہا۔ ہرقل نے اسے کہا کہ وہ ڈرے جھجکے بغیر وجہ بتا دیے تاکہ آئندہ ایسی وجہ پیدا نہ ہونے دی جائے۔
شہنشاہ معظم! ۔۔۔افسر آخر بولا۔۔۔ ہماری شکست کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ میدان جنگ میں لڑنے، زخمی ہونے اور اپنی جان قربان کرنے والا افسر اتنی جرات نہیں رکھتا کہ آپ نے شہنشاہ کے آگے سچ بول سکے ،آپ نے مجھے سچ بولنے کا حکم دیا ہے میں چند الفاظ میں بیان کر دیتا ہوں لوگ کہتے ہیں ،ہمیں بادشاہ کی نہیں بندے کی حکمرانی چاہیے ،ہم نے سنا ہے مسلمان ایسے مذہب کے پیروکار ہیں جس میں کسی کی بادشاہی کی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی بلکہ وہ خود کسی بندے کو حکمران بنا لیتے ہیں اور رعایا کا پیٹ کاٹتے نہیں بلکہ پیٹ بھرتے ہیں۔
ہرقل نے سر جھکالیا جیسے وہ بات کی تہ تک پہنچ گیا ہو، ہرقل سر جھکا لینے والا بادشاہ نہیں تھا اب جو اس کا سر جھکتا تھا اس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اس نے شکست تسلیم کرلی ہے۔
ایک دو دن ہی اور گزرے تھے کہ ایک اورمقام مرعش سے ایک رومی قاصد آ گیا۔
ہرقل نے اپنی فوج کا کچھ حصہ اس قلعہ بند اور بڑے مضبوط مقام پر بھیج دیا تھا قاصد نے بتایا کہ مسلمانوں کا ایک لشکر آیا اور مرعش کو محاصرے میں لینے لگا، لیکن وہاں کے جرنیل نے فوج کو حکم دیا کہ یہ بہت ہی کم تعداد لشکر ہے، اسے محاصرہ نہ کرنے دیا جائے ،بلکہ باہر نکل کر اسے گھیرے میں لے کر ختم کیا جائے، اس حکم کے تحت فوج باہر نکلی تو مسلمانوں نے ایسی چال چلی کہ وہ لڑتے لڑتے پیچھے بھی ہٹنے لگے اور دائیں بائیں پھیلنے بھی لگے پھر یوں ہوا کہ اس لشکر کو گھیرے میں لینے کے بجائے لشکر نے اپنے دونوں پہلو پھیلا کر رومی فوج کو گھیرے میں لے لیا اور جو مسلمان رومی فوج کے عقب میں چلے گئے تھے وہ قلعے میں داخل ہوگئے۔
قاصد نے بتایا کہ رومی فوج پیچھے ہٹنے لگی تو قلعے کے دیواروں سے اس پر تیر اور برچھیاں برسنے لگی، نفسا نفسی کا عالم طاری ہوا کہ رومی نہ باہر لڑنے کے قابل رہے نہ قلعے میں داخل ہو سکے جانی نقصان بےانداز ہوا ،اور زخمیوں کی تعداد بھی خاصی زیادہ تھی، اور وہی زندہ رہے جو اس معرکے سے نکل گئے تھے۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ نے مرعش پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا اور رومی فوج کی جو نفری وہاں موجود تھی اسے تباہ وبرباد کردیا۔
اس کے بعد رہاء میں ہرقل کو یہ اطلاع ملی کہ بیروت پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے ۔
اور اس تمام سرحدی علاقے سے مسلمانوں نے رومی فوج کو بے دخل کردیا ہے۔
اس سرحدی علاقے میں شام کے دفاع کیلئے کئی ایک قلعے بنائے گئے تھے ان سب پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا۔
یہ تھے یزید بن ابی سفیان جو اس وقت دمشق میں تھے سپہ سالار ابوعبیدہ کا حکم پہنچا تو وہ دمشق سے نکلے اور بیروت جاپہنچے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے یہ کارنامے معجزوں سے کم نہ تھے بیروت اور اس کے ملحقہ علاقوں پر قبضہ ہوجانے کا مطلب یہ تھا کہ سمندر کی طرف سے رومیوں کو کوئی مدد اور کوئی کمک نہیں مل سکتی تھی ۔
اس وقت مصر پر رومیوں کی ہی حکومت تھی ہرقل مصر سے کمک مانگوا سکتا تھا لیکن مسلمانوں نے راستے مسدود کردیئے تھے۔
*=÷=÷=÷=÷۔=÷=÷=÷=÷=÷*
ہرقل تو بڑا کایاں اور منجھا ہوا جرنیل تھا، لیکن اس نے مسلمانوں کے لشکر کو بکھیرنے کے لئے جو چال چلی تھی اس سے مسلمان سالاروں نے فائدہ اٹھا لیا اور اس کی فوج کو خون میں نہلا کر بچ جانے والے رومیوں کو تتربتر کردیا ۔ ہرقل اللہ کے اس قانون سے واقف نہیں تھا کہ اللہ جسے چاہتا ہے اسے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے ذلت میں پھینک دیتا ہے، لیکن اللہ کسی کو بلاوجہ عزت اور کسی کو ویسے ہی ذلت نہیں دے دیا کرتا، اس کی کچھ شرائط بھی اللہ نے مقرر کی ہے اللہ انہیں ہی چاہتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چاہتے ہیں اور اللہ کے احکام کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔
ہرقل نے اپنے مشیروں اور مصاحبوں کو بلایا اور انہیں صورتحال بتا کر کہا کہ وہ مشورہ دیں کہ اپنی بکھری ہوئی فوج کو کہاں یکجا کیا جائے، اور کیا فوج یکجا ہو جائے تو یہ لڑنے کے قابل ہوگی؟
ایک مشیر فوراً بول اٹھا اس نے سب سے پہلے ہرقل کی مداح سرائی کی پھر مسلمانوں کو برا بھلا کہا اور پھر اس قسم کے الفاظ کہے کہ روم کی فوج کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔
اٹھو!،،،، ہرقل نے اس مشیر سے کہا۔۔۔ باہر نکل جاؤ پھر مجھے کہیں نظر نہ آنا۔
ہرقل دوسرے مشیروں سے مخاطب ہوا مجھے صحیح مشورہ چاہیے صورتحال تم سب کے سامنے ہے۔
مشیروں اور مصائبو پر خاموشی طاری ہوگئی جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ تھے، یا مر ہی گئے تھے، ہرقل انہیں دیکھتا رہا سب کو غالبا توقع تھی کہ ہرقل گرج کر بولے گا اور حکم دے گا کہ اسے صحیح مشورہ دیا جائے ان میں سے کوئی بھی سچ بات کہنے کی جرات نہیں رکھتا تھا ،غالبا ہرقل نے محسوس کرلیا کہ یہ لوگ کسی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہیں اسے شاید یہ احساس بھی ہو گیا تھا کہ ان لوگوں کو مدح سرائی اور خوشامد کا عادی اس نے خود بنایا ہے اس کے سامنے بڑی ہی تلخ اور اذیت ناک حقییقت آ گئی تھی جو اسے مجبور کر رہی تھی کہ وہ سچ کا سامنا کریں۔
ہم اب کہیں بھی نہیں لڑسکتے۔۔۔ ہرقل نے خود ہی فیصلہ سنا کر مشیروں کو ذہنی اذیت سے نکالا۔۔۔ ایک ہی صورت رہ گئی ہے وہ یہ کہ ہم شام سے نکل جائیں اور مصر جا کر فوج کو منظم اور تیار کریں اور پھر شام پر حملہ آور ہوں۔
ہم پہلے اس تجربے سے گزر چکے ہیں۔۔۔ ایک بوڑھے مشیر نے کہا ۔۔۔ایرانیوں نے ہم سے صرف شام ہی نہیں مصر بھی چھین لیا تھا آپ اس وقت بادشاہ نہیں تھے خود مختار نہیں تھے لیکن آپ نے بادشاہ کو بے اختیار کر کے سلطنت کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لئے فوج کو تیار کیا، اور جب مصر اور شام پر حملہ کیا تو ایرانیوں کو فیصلہ کن شکست دے کر دونوں ملکوں سے نکال دیا تھا۔
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ملک شام پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے، مصر تو ہمارے پاس ہے فیصلہ بہتر یہی ہے کہ ہم یہاں سے نکل چلیں۔
اس کے بعد تمام مشیر باری باری بولنے لگے اور سب نے اسی فیصلے کی تائید کی کہ شام سے نکل جانا چاہیے اگر ہم اس توقع پر فوج کو لڑاتے رہے کہ مسلمانوں کو ایک زوردار حملے سے پسپا کر دیں گے تو حاصل کچھ بھی نہ ہوگا سوائے اس کے کہ جو فوج بچ گئی ہے وہ بھی کٹ جائے گی۔
ہرقل نے حکم جاری کر دیا کہ وہ قسطنطنیہ جانا چاہتا ہے ،اور جتنی جلدی ہوسکے روانگی کی تیاری شروع کر دی جائے، اس وقت قسطنطنیہ بھی رومیوں کی سلطنت کا ایک بڑا شہر تھا، اور جنگ سے محفوظ ۔
ہرقل کو اب وہی پناہ گاہ نظر آئی تھی اس کے کوچ کی تیاریاں زور و شور سے شروع ہو گئی۔
ہرقل تو اس دور کی سب سے بڑی اور ہیبت ناک جنگی طاقت کا سب سے بڑا جرنیل اور بادشاہ تھا۔
اس کے غرور اور تکبر نے اور انسانوں پر اس کے ظلم و تشدد نے اسے یہ روز عبرت دکھایا۔

جب اس کی ہیبت ناک جنگی طاقت ڈرے سہمے ہوئے سپاہیوں کی صورت میں بکھر گئی تھی،
اس کے نامور جرنیل مارے گئے تھے، ہر طرف اور ہر جگہ اس کے فوجیوں کی گلتی سڑتی ہوئی لاشیں بکھری ہوئی تھیں، اور زخمی فوجی اپنے آپ کو گھسیٹتے تھے، اس فوج کا سب سے بڑا جرنیل اور بادشاہ مجسم حسرت و یاس بنے اس منزل کو روانہ ہو رہا تھا جسے وہ سب سے زیادہ محفوظ پناہ سمجھتا تھا لیکن یقین نہیں تھا کہ اس منزل تک خیریت سے پہنچ بھی سکے گا یا نہیں؟
تاریخ میں صرف وہ واقعات ملتے ہیں جو عینی شاہدوں کے حوالے سے کبھی قلمبند کئے گئے تھے، ان واقعات میں انسان چلتے پھرتے بھاگتے دوڑتے ایک دوسرے کا خون بہاتے اور روئے زمین پر اچھی بری حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں ۔
کسی مؤرخ نے یہ نہیں لکھا کہ فلاں صورتحال میں فلاں کے دل میں کیا تھا اور اس کے اندر کا کیسے طوفان بپا ہو رہے تھے ،کسی نے لکھا بھی تو یہ قیاس آرائی تھی یا قافیہ شناسی ۔
ہرقل کے متعلق متعدد مؤرخوں نے لکھا ہے کہ وہ مایوسی اور نامرادی میں ڈوب گیا تھا، اور اس قدر بے چین اور بے قرار رہنے لگا تھا کہ اس کے لیے کوئی معمولی سا فیصلہ کرنا بھی دشوار ہو گیا تھا ۔
وہ فتوحات کا عادی ہو گیا تھا اور اس وہم میں مبتلا کے کوئی اسے شکست دے ہی نہیں سکتا اس خوش فہمی نے اسے رعایا کے لئے فرعون بنا دیا تھا۔
ہم تصور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں کہ اس وقت اس کے دل پر کیا گزر رہی تھی ۔اسے اپنا ایک بڑا ھی نامور جرنیل تذارق یاد آیا ہوگا یہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا واقعہ ہے۔ مجاہدین اسلام کے دو عظیم سالاروں مثنیٰ بن حارثہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنھا، کی قیادت میں زرتشت کے پجاری ایرانیوں کے خلاف ایران میں برسر پیکار تھے ،آتش پرست ایرانی پسپا ہوتے چلے جارہے تھے، شام سلطنت روم میں شامل تھا اور حکومت ہرقل کی تھی۔
اس وقت تک ہرقل مسلمانوں کو عرب کے بدو اور صحرائی لٹیرے کہا کرتا تھا۔
اس نے مسلمانوں کو یہ تاثر دینے کے لیے کہ وہ شام کی سرحدوں سے باہر رہیں ورنہ نیست و نابود کر دیے جائیں گے اپنا ایک بڑا زبردست کثیر تعداد لشکر یرموک کے مقام پر بھیج دیا، اور مسلمانوں کو للکارا اس لشکر کا جرنیل تاریخ کا ایک مشہور جنگجو تذارق تھا۔ ہرقل کو توقع تھی کہ وہ ایک ہی معرکے میں مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کردے گا۔ لیکن اس معرکے کا انجام یوں ہوا کہ تذارق مارا گیا ،اس کا تقریبا آدھا لشکر کٹ مرا، اور جو تعداد بچ گئی وہ بندہ بندہ ہوکر بکھری اور دہشت زدگی کے عالم میں واپس پہنچی۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ تذارق کے بعد ہرقل کو خود آگے بڑھنا چاہیے تھا تاکہ مسلمانوں پر اس کا دبدبہ قائم ہوجاتا لیکن وہ اس لیے باہر ہی نہ نکلا کہ اسے بھی شکست ہوگی اور اس کا وقار یرموک کی زمین میں ہی دفن ہو جائے گا ۔
اب جبکہ وہ شکست خوردگی کی حالت میں قسطنطنیہ جا رہا تھا اسے یرموک کا معرکہ یاد آیا ہوگا اور وہ پچھتایا بھی ہوگا کہ اس نے عبرت حاصل نہ کی اور مسلمانوں کو کمزور ہی سمجھتا رہا۔
پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خط یاد آیا ہوگا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اس واقعے کا مختصر سا پس منظر یوں ہے کہ جیسا پہلے بیان ہوچکا ہے، ایرانیوں نے رومیوں سے شام اور مصر چھین لیے تھے اس وقت روم کا بادشاہ فوکاس تھا ایرانیوں نے بیت المقدس فتح کیا تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام کی (فرضی) قبر سے صلیب اعظم اٹھا کر لے گئے تھے۔
ہرقل نے شاہ فوکاس کا تختہ الٹا خود شاہ روم ،یا قیصر روم بنا، اور ایرانیوں کو شکست دے کر ان سے صلیبی اعظم واپس لے لی تھی، وہ صلیب اعظم واپس حضرت عیسی علیہ السلام کی مفروضہ قبر پر رکھنے بیت المقدس جارہا تھا رسول اکرم صلی اللہ وسلم نے اس کے نام ایک خط بھیجا جس میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی۔
یہ خط ایک صحابی احیہ بن خلیفہ کلبی رضی اللہ عنہ لے جارہے تھے۔
ہرقل انہیں بیت المقدس کے راستے میں ملا۔
انہوں نے وہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط ہرقل کو دے دیا اور جواب کا انتظار کرنے لگے۔
آج جب شکشت خوردہ ہرقل مسلمانوں کے قہر و عتاب سے بھاگا ہوا شام کی سرحد سے نکل رہا تھا، اسے یقینا مسلمانوں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط یاد آیا ہوگا، اور یہ بھی اس نے کس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑایا تھا، وحیہ بن خلیفہ کلبی پر پھبتیاں کسی تھیں۔ اور پھر اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ جملے کے کہے تھے، اور خط آپ کے ان صحابی کے منہ پر دے مارا تھا اور بڑی بے ہودگی سے انہیں رخصت کیا تھا۔
عین ممکن ہے اب ہرقل دل ہی دل میں پستایا ہوگا کہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہو جاتا تو آج وہ بھی فاتحین میں شامل ہوتا، اور اس ذلت و رسوائی تک نہ پہنچتا ۔
تاریخ میں ہرقل کی اس وقت کی کیفیت اتنی سی ہی لکھی ملتی ہے ،کہ اس کا چہرہ مرجھایا ہوا ،سر جھکا ہوا ،اور کندھے سکڑے ہوئے تھے۔
اس کے دل کو اس خیال نے بھلایا ہوگا کہ ابھی پورے کے پورے مصر اس کے قبضے میں ہے اور وہاں جاکر فوج کو تیار کرے گا اور پھر شام پر حملہ کر کے مسلمانوں سے انتقام لے گا۔

جاری ہے
بقیہ قسط۔13۔میں پڑھیں۔
Mohammad Yahiya Sindhu

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS