find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya Khudkushi (Suicide) Kar lene se Sare Problemes door ho jayenge?

Suicide karne se koi masala (Problem) hal nahi ho jata.
Islam kya Kahta hai Suicide ke bare me?
Agar Ham Maal - Daulat, Ghar gaari ke jagah Deendari dekh kar Shadi kare to fir aise halat hi paida nahi honge?

ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِالرَّحْمٰنِﺍلرَّﺣِﻴﻢ

नबी अकरम ﷺ ने फरमाया: बेवाओं और मिस्कीनों के लिए कोशिश करने वाला अल्लाह के रास्ते में जिहाद करने वाले की तरह है या उस शख़्स की तरह है जो दिन में रोज़े रखता है और रात को इबादत करता है।
Sahih Bukhari: jild-8, kitab Al-Adab 78, hadith no 6006

طلاق لینے اور دینے میں اتنی جلدبازی نا کرے۔

کیا اسلام میں زبردستی شادی جائز ہے، کیا کسی لڑکی کی زبردستی شادی (نکاح) کی جا سکتی ہے اگر وہ راضی نہ ہو تو؟
دوسروں کی بہن کو گرل فرینڈ بنانے والے کی بہن بھی کسی اور کی گرل فرینڈ ہوگی۔

خود کشی مسائل کا حل نہیں ہے*

*تحریر: حافظ عبدالرشید عمری*

الذي خلق الموت و الحياة ليبلوكم أيكم أحسن عملا و هو العزيز الغفور (الملك: ٢)
اللہ تعالٰی نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے، اور وہ غالب(اور) بخشنے والا ہے۔
روح ایک ایسی غیر مرئی (نظر نہ آنے والی) چیز ہے کہ جس بدن سے اس کا تعلق و اتصال ہو جائے، وہ زندہ کہلاتا ہے اور جس بدن سے اس کا تعلق مقطع ہو جائے،وہ موت سے ہم کنار ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالٰی یہ عارضی زندگی کا سلسلہ، جس کے بعد موت ہے،
اس لئے قائم کیا ہے تاکہ وہ آزمائے کہ اس زندگی کا صحیح استعمال کون کرتا ہے ۔
جو اس زندگی کو ایمان و اطاعت کے لئے استعمال کرے گا،
اس کے لئے بہترین اجر و ثواب ہے
اور دوسروں کے لئے عذاب و عقاب ہے۔ (تفسیر احسن البیان)

مذکورہ آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ موت و حیات کا خالق و مالک اللہ تعالٰی ہی ہے،
اس لئے کسی بھی انسان کو اللہ تعالٰی کی دی ہوئی حیات کو اپنی طرف سے ختم کرنے کا حق نہیں ہے۔

اسلام میں بعض سخت جرائم کے ارتکاب کی وجہ سے ایک انسان کو بطور حد قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے،
اس کے علاوہ کوئی بھی انسان دوسرے انسان کو یا خود اپنے آپ کو قتل نہیں کر سکتا ہے،
دونوں صورتوں میں ناحق قتل کی سزا جہنم ہے۔
خود کشی کبیرہ گناہوں میں سے ہے جس کی سزا احادیث میں جہنم بیان کی گئی ہے،
لیکن ہم اسلام کا عمومی حکم بیان کریں گے ،
کسی معین شخص کے بارے میں یہ نہیں کہیں گے کہ یہ خود کشی کرنے والا جہنمی ہے۔
کیوں کہ کفر شرک اکبر اور اعتقادی نفاق کے علاوہ باقی کبیرہ گناہوں کی سزا اگر چہ قرآن و سنت میں جہنم بیان ہوئی ہے۔
لیکن قرآن و سنت کے دوسرے نصوص ہی سے یہ بات ثابت ہے کہ شرک کے علاوہ بقیہ کبیرہ گناہوں کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے،
جس کو چاہے معاف کرے اور جس کو سزا دے۔

انسانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی حیات (زندگی) کے شب و روز کو اس مقصد کی تکمیل کے لئے  گزارنے کی کوشش کریں،
جس مقصد کے لئے اللہ تعالٰی انہیں پیدا کیا ہے،
اللہ تعالٰی نے انسانوں اور جنوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے،
جیسا کہ سورہء ذاریات میں اللہ تعالٰی نے فرمایا:
و ما خلقت الجن و الإنس إلا ليعبدون
(الذاريات: ٥٦)
میں نے جنوں اور انسانوں محض اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔

اس لئے ایک مسلمان کو اپنی زندگی
مصیبت و نعمت میں خوش حالی و تنگدستی میں خوشی و غم میں، امیری و فقیری میں، غرض ہر حال میں اللہ تعالٰی کی عبادت کرتے ہوئے گزارنا چاہئے،
اور ہر انسان کی ولادت سے اس کی موت تک اللہ کی عبادت کا تعلق اس کی زندگی میں برقرار رہنا چاہئے،
انسان کی ولادت سے لے کر انسان کے سن شعور اور بلوغت کی عمر کو پہنچنے تک اللہ تعالٰی کی عبادت کے مطابق زندگی گزارنے کی تربیت دینا والدین اور سرپرست حضرات کی دینی ذمہ داری ہے،
اسی لئے شیرخوار بچے کے لئے بھی سونے کی انگوٹھی اور ریشم کا لباس بالغ انسانوں کی طرح حرام ہے،
اور چھوٹے بچوں اور بچیوں کو بچپن ہی سے حرام سے بچنے کی ترغیب دینا اور حلال کو اختیار کرنے کی ترغیب دینا اور اولاد کی خالص اسلامی تربیت کرنا والدین اور سرپرست حضرات کی دینی ذمہ داری ہے،
اور بچپن ہی سے بچوں اور بچیوں کی خالص اسلامی تربیت کرتے ہوئے صحابہ کرام جیسے ایمانی اوصاف کا حامل بنانا والدین اور سرپرست حضرات کی ذمہ داری ہے،
اس نوخیز اور نوجوان نسل کی اسلامی تربیت میں مساجد کے ائمہ کرام کو بھی اپنا کردار بخوبی نبھانے کی ضرورت ہے۔

*جب بچے اور بچیاں بالغ ہو جائیں تو ان کی شادی مالدارری اور خوبصورتی کے بجائے دینداری کی بنیادوں پر کرنی چاہئے۔*
*دینداری کو پیش نظر رکھ کر کی جانے والی شادیاں سکون و اطمینان، مودت و رحمت، خیر و برکت، محبت و الفت اور مسرت و فرحت کا آئینہ دار ہوتی ہیں۔*

*اگر شادی کے بعد کچھ ظاہری و معنوی اور دینی و دنیاوی لاینحل (نہ سلجھنے والے) مسائل جنم لیں،*
*اور دونوں میاں بیوی میں نباہ مشکل ہوجائے تو مرد کے لئے طلاق کا دروازہ کھلا ہے،*
*اور عورت کے لئے خلع کا دروازہ کھلا ہے،*
*دونوں کے لئے یہ آخری صورت ہے،*
*ورنہ دینی نقصان کے بغیر صرف کچھ دنیاوی نعمتوں اور لذتوں کے پیش نظر مسلمان مرد و عورت کو اپنی ازدواجی زندگی کو ختم کرنے کے بارے میں سوچنا درحقیقت شیطان کا ایک زوردار حملہ ہے،*
*اور اسلام میں دینی نقصان کے بغیر یا کسی معقول دنیاوی سبب کے بغیر طلاق دینا یا خلع لینا بڑا گناہ شمار ہوتا ہے۔*

*اور ازدواجی زندگی کی معمولی اور چھوٹی موٹی مصیبتوں اور مسئلوں کی وجہ سے آگر بعض مسلمان مرد و عورت خود کشی کو مسائل کا حل سمجھتے ہیں،*
*تو یہ ان کی لاعلمی اور نادانی ہے،*
*خود کشی کی وجہ سے ایک مسلمان اپنے آپ کو جہنم کا مستحق بناتا ہے،*
*احادیث میں خود کشی کرنے والے کو جہنم میں خودکشی کے لئے استعمال ہونے والی چیز جیسے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے،*
خودکشی کرنے والے کی سزا جہنّم میں۔کیسی ہوگی

خودکشی کرنے سے اسلام منہ کرتا ہے، اگر کوئی شخص اللہ کے حکم کے خلاف کام کرتا ہے تو اسکا انجام جہنّم ہے۔

Share:

Mera Jism Meri Marji aur uska Natija.

Fahashi hamare muashare ko kis tarah barbad kar rahi hai?
Mera jism meri marji ke naare aur uska anjaam.

जबतक हम खुद को नही पहचानेंगे तब तक कोई हमे अहमियत नहीं देगा.
आज इश्तहार और advertisement का दौर है, बड़े बड़े स्टार, सेलिब्रेटि जानते है की उसकी आमदनी कंपनी के प्रोडक्ट का प्रचार करने और फिल्म की टिकटों से होती है, अब जिसके पास ज्यादा फॉलोवर्स रहेगा उसीको कंपनिया प्रचार करने के लिए कहेगी, फिल्म भी उसी का चलेगा जिसे ज्यादा लोग चाहते हो और फिल्म तभी चलेगी जब उसमे ( मसाला) गंदे विडियोज, कामुक दृश्य, शहवत उभारने वाले सीन न दिए जाए, स्टार्स इस बात को अच्छी तरह से जानते है के लोग नंगी तस्वीरें, विडियोज और आइकन्स से बहुत जल्द मुताशिर ( इंप्रेस) होते है चाहे वह लाख इस बात से इंकार क्यों न करे?
समाज में जहीन और दानिश्वर लोग बहुत कम ही होते है ज्यादातर नए उमर के नौजवान होते है जिसे अपने फ्यूचर की कोई परवाह नही बस कॉलेज में गए जहां को एजुकेशन सिस्टम है फिर उनका सबसे ज्यादा फोकस अपने से अपोजिट जेंडर के तरफ होता, गार्डियन को मालूम है के बच्चा कॉलेज पढ़ने गया है मगर आज कल के बच्चे अपने मां बाप से कहीं ज्यादा डिजिटल और मॉडर्न है, गार्डियन से पैसे भी लेते है और पीछे में यह बोलते भी है "आज कल के बूढ़े क्या जानने गए"
सेलिब्रेटीज को ज्यादा से ज्यादा शोहरत ( पॉपुलैरिटी) चाहिए होती है ताकि फ़िल्मों में और advertisement में डिमांड बनी रहे  इसलिए वे मन में जोश पैदा करने वाले और नंगी तस्वीरें का इस्तेमाल करते है जो के नौजवानों के लिए किसी जादू से कम नहीं है, मगर इन्हे मालूम नही के यह खुद अपने पैरो पर कुल्हाड़ी मार रहे है।
अब जैसे इनके फॉलोवर्स वैसे ही इनकी सोच, सेलिब्रेटी अपनी पॉपुलैरिटी पे ज्यादा ध्यान देते है ना के अपनी कंटेंट की क्वालिटी पे।
आप कभी भी किसी स्कॉलर, फिलॉस्फर, शायर, साइंस दान, रिलीजियस स्कॉलर के स्टेटस पे कॉमेंट देखे तो मालूम होगा, इनके फॉलोवर्स और कमेंट्स भी उतने ही कम।
कहने का मकसद जिन लोगो के पास खाने के लिए दो वक्त की रोटी नहीं दिन रात मेहनत करके, खून पसीना बहाते है तब जाकर घर चलता है और इस पैसे को इतना मामूली समझना कैसी मॉडर्न सोच है?
इतने सारे लोग बेरोजगार है, काम नहीं मिल रहा है, गरीबी की वजह से लोग भूखे मर रहे है लेकिन जिन लोगो को हमसब करोड़पति बनाते है उन्हे हमारी कितनी फिक्र है?
जो लोग हमसे टिकट बेचकर, advertise दिखा कर अरबपति बने हुए है क्या उनलोगो के सामने हमारी कोई पहचान है?, वह लोग हमे जानते भी है या नहीं?
उन करोड़ों ऑडियंस में से किसी एक को भी यह सेलिब्रेटी लोग पहचानते होंगे नही ना? मगर हम सब?

میرا جسم میری مرضی والی آنٹیاں بھی آج اس کے جسم کو سنبھالا دینے سے کترا رہی ہیں کیوں کہ انکا مقصد دنیا میں لڑکی کو ننگا کرنا ہے جو صرف اور صرف آزادی اور آزاد خیال کے ناموں پر ہی ہو سکتا ہے۔

جو لڑکی اپنی حیا کی چادر صرف اس لیے اتار گئی کہ دنیا میں واہ واہ ہوگی وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوگئی

لیکن اس کے مٹکتے کولہوں پر صدقےواری جانے والے 20 لاکھ فالورز میں سے آج صرف 2 بندے بھی ایسے نہیں جو آکر سرد خانے میں تین دن سے اسکی سڑتی ڈیڈ باڈی ہی اٹھا کر دفنا دیں..

خاندان بھی ان کرتوتوں کی وجہ سے بہت پہلے اس سے اظہار لاتعلقی کر چکا ہے..

میرا جسم میری مرضی والی آنٹیاں بھی آج اس کے جسم کو سنبھالا دینے سے کترا رہی ہیں..
کیوں کہ انکا مقصد دنیا میں لڑکی کو ننگا کرنا ہے۔
کفن تو ڈھانپنے کا نام ہے

سب سے گزارش ہے کہ  کہ سنیپ چیٹ، انسٹاگرام کے تصاویر اور لائکی کی نامناسب ویڈیو پر لعنت بیھجو اس کو اپنے اپنے موبائل سے ڈیلیٹ اور توبہ کیجئے تاکہ قبر کے عذاب سے نجات ملے۔
اللہ تو مسلمانوں کو فحش ویڈیوز، تصاویر اور پیغامات سے دور رکھ، مسلم خواتین کو ان بے حیا، ہے شرم لوگو سے جو اپنے جسم کی نمائش کی تجارت کرتے ہیں ایسے لوگو سے محفوظ رکھ، میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگانے والوں، جسم دیکھا کر پیسے کمانے والوں کو اسکی برائی کے ساتھ اسے نیست ونابود کر دے۔ آمین ثمہ آمین

Share:

Jahaiz Lena Haram hai magar Paise wala ladka dekhna Apni Marji.

Kya Shadiyan Nakam hone me Sirf Ladke wale hi zimmedar hai?

کیا جہیز ہی لینا لعنت ہے اور حرام ہے یا لڑکے کی آمدنی دیکھ کر شادی کرنا، گھر گاڑی عالیشان عمارت دیکھنا وہ بھی دلہن کے لیے الگ بالکل الگ ماں باپ سے بھی الگ، لڑکا آزاد خیال والا ہو یعنی مغربی تہذیب پر چلنے والا ہو، پردے کرنا ہے يا نہیں یہ لڑکی کی مرضی، کہا جانا ہے اسکی مرضی... اسکے بارے میں لڑکا کچھ بھی نہیں بولے گا اسکے بعد بھی اگر ذرا سا کچھ ہوا تو اس سارے معاملات کا ذمےدار لڑکا اور اسکا گھر والا ہوگا، فر اسکے بعد پولیس، عدالت اور میڈیا، سوشل میڈیا یہ سب کی نظروں میں لڑکے والے ہی ذمے دار ہوتے، عدالت اور مہیلا آیوگ، فیمینسٹ گروپ لڑکا اور اسکے گھر والے کو سزا دلانے کے لیے دین رات ایک کر دیتے ہیں۔

آج کل جو شادیاں ناکام ہورہی ہے کیا صرف اسکی وجہ جہیز ہی ہے؟
جہیز کے ساتھ ساتھ اور کون سی رسم و رواج بدت ہے؟
خاک سے دور کہیں اور مکاں مانگتی ہے
روح تخلیق سے پہلے کا جہاں مانگتی ہے

بے شک جہیز ایک لعنت ضرور ہے جسکا رد ضروری ہے۔ لیکن آج ہم جہیز ہی نہیں بلکہ برصغیر ہند و پاک میں رائج دیگر شادی بیاہ کی لعنتیں وغیرہ بھی ڈسکس کر لیتے ہیں۔
قارئین کرام! جہیز بلاشبہ ایک لعنت ہے سو فیصد تسلیم۔۔۔۔۔۔ لیکن کوئی صاحب یا صاحبہ بری (با کے فتحہ کے ساتھ) کی تشریح کریں گے۔۔۔۔۔۔؟
حق مہر کے نام پر سکہ رائج الوقت (طے شدہ رقوم) پا کر اضافی سونا لکھوانا۔۔۔۔۔۔
گھر کا مطالبہ کرنا۔۔۔۔۔۔
چار پانچ لاکھ  نقد لکھوانا۔۔۔۔۔۔
دلہا کی حیثیت سے  بڑھ کر جیب خرچ لکھوانا
اور جملہ رشتے داروں کے مہنگے لباس مہنگا  ولیمہ اور بعد از شادی مہنگا ہنیمون پیکج لڑکی کی ڈیمانڈ پر کہاں فٹ آتا ہے۔۔۔۔۔۔؟ اور طلاق کی شرائط کا شرعی اور قانونی جواز کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟
جیسے لڑکا  اگر کسی گھریلو ناچاقی کی وجہ سے طلاق دے تو تین تولہ سونا یا تین چار یا پانچ لاکھ روپیے کیش دے ور نہ جیل میں بیٹھے۔۔۔۔۔۔ اور آج کل یہ چلن عام مشاہدے میں ہے۔۔۔۔۔۔یعنی شادی جیسے مقدس رشتے میں اول روز سے فساد کی داغ بیل ڈال دی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ پھر ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ معاشرہ اتنا غیر متوازن کیوں ہے۔۔۔۔۔۔؟

محترم قارئین!  جہیز چونکہ ایک ٹھوس اور محدود خرچ ہے،  اس لیے صدیوں تک نظر اور ذکر میں رہتا ہے، لیکن جو خرچہ لڑکوں سے کروایا جاتا ہے وہ ہوائی مگر جہیز  دوگنا ہوتا ہے لیکن اس کا  نہ ذکر ہوتا ہے نہ وہ نظر آتا ہے، کیا یہ کھلا تضاد نہیں۔۔۔۔۔۔؟

پھر رسموں کے نام پر سسرالی جو پیسہ بٹورتے ہیں وہ تو کہیں گنتی میں شمار ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ دوستو! اگر جوان غریب لڑکیاں گھر بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہے یا بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے تو جو جوان غریب لڑکے گھر بیٹھے بوڑھے ہو رہے ہیں یا بے حیائی کا شکار ہو رہے ہیں ان کا ذمہ دار کون ہے۔۔۔۔۔۔؟

  کیا ہمارا اسلام کسی طرح بھی ان مہنگی اور فضول جملہ رسوم  و رواج کی ہلکی سی بھی اجازت دیتا ہے، جنہیں ہم مہندی جہیز مایوں  مکلاوہ بینڈ باجا ،آتشبازی بارات، جیسا کہ مروجہ رائج ہے جیسے بری اور بید اور شادی کی رسمیں جیسے جوتا چھپائی، راستہ رکوائی، دودھ پلائی، شیشہ دکھائی، پھر سلامی، اور بھاری بھر کم حق مہر۔۔۔۔۔۔ حق مہر کے علاوہ اضافی مال و زر کی ضمانت لکھوانا،
طلاق کی شرائط میں مال و زر لکھوانا، منھ  دکھائی، پرتکلف اور مہنگا ولیمہ، مہنگے مہنگے لہینگے ور شیروانی اور نہ جانے کیا کیا ہے جو دونوں طرف برابر اخراجات کا موجب بنتا ہے۔۔۔۔۔۔  لیکن جب بھی اعتراض اٹھتا ہے یا بات کی جاتی ہے تو یکطرفہ۔۔۔۔۔۔؟

صرف لڑکی اور جہیز کی۔۔۔۔۔۔؟
سیدھی سی بات ہے کہ اول تو دونوں طرف رائج رسوم و رواج اور اخراجات اسراف  کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن اگر دونوں فریقین ایک دوسرے کی کھال اتارنے میں کسر نہیں چھوڑتے  تو صرف لڑکا اور اس کے گھر کے افراد ہی کیوں زمانے کی لعنتوں کے حقدار ٹھہرے۔۔۔۔۔۔؟
اور کیوں کر لڑکے کی غیرت کو للکارا جائے وہ بھی ایسے سوال کرکے کہ سسر کے دئیے بیڈ پر لیٹ کر غیرت کیسی۔۔۔۔۔۔؟
اگر یہ سوال درست ہے تو پھر لڑکی سے تو ایک ایک منٹ پر سوال پوچھے جائیں گے۔۔۔۔۔۔ مثلا سناو  یہ سونا لاد کر شرم و غیرت اور خودداری کیسی۔۔۔۔۔۔؟ یہ لاکھوں کا لہنگا کس مد میں۔۔۔۔۔۔؟
یہ گھر میں مالکن بننے کا شوق کیسا۔۔۔۔۔۔؟
  یہ ہنی مون پر ڈھیروں خرچہ کروانے کی جسارت کیسی۔۔۔۔۔۔؟
یہ عید پر تحفے تحائف کی مد میں اپنے گھر والوں پر خرچےکرنے کی ضرورت کیوں۔۔۔۔۔۔؟
اور یہ الگ گھر کی ڈیمانڈ کیسی۔۔۔۔۔۔؟
اور پھر  یہ کہ ماں باپ کی خدمت نہیں کروں گی کیونکہ یہ فرض نہیں جیسی ہٹ دھرمی کیسی۔۔۔۔۔۔؟  دوسری شادی سے روکنے کی غیر اسلامی جرات کیوں کر۔۔۔۔۔۔؟
  دیکھیں بھائی! میں لڑکوں کا وکیل صفائی نہیں، لیکن بطور ذمہ دار شہری اور ان سب مرحلوں کے شکار عام مسلمان ہندوستانیوں  کی جانب سے یہ سوال اٹھا کر عام لوگوں کو دعوت فکر دے رہا ہوں کہ وہ بغور  جائزہ لے کر سوچیں کہ وہ کیسے اسلام کا مذاق اڑا کر خود مذاق بن جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ان رسوم و رواج، نام نہاد معیارات اور فضول اخراجات نے نکاح جیسے مقدس فریضے کو انتہائی مہنگا بلکہ لگژری  بنا کر رکھ دیا ہے، پھر دوسری تیسری چوتھی شادی اور بیوہ مطلقہ سے نکاح کو شجر ممنوعہ طرح بنا کر رکھ دیا گیا ہے اور رہی سہی کسر ہمارے معاشرتی بگاڑ فیشن اور روشن خیالی نے پوری کر دی۔۔۔۔۔
۔ ان حالات میں جب کہ  معاشرہ جنسی بے راہ روی نہیں بلکہ حیوانی کلچر کی طرف گامزن ہے تو کیسے سکون امن اتحاد اور محبت کی فضا قائم ہو۔۔۔۔۔۔؟کیسے زنا بالجبر اور زنا بالرضا کی روک تھام ممکن ہو۔۔۔۔۔۔؟
جب کہ ہم نے حلال کام کو مشکل اور نا ممکن بنا کر معاشرے کا توازن خود بگاڑا ہے۔۔۔۔۔۔
کیا جہیز ایک لعنت ہے کہہ دینے یا اس کی روک تھام کی بعد جو شادیاں رکی  ہوئی ہیں وہ ہو جائیں گی۔۔۔۔۔؟۔ یا رشتے نہیں ملتے جیسے مسائل  یکدم ختم ہو جائیں گے۔۔۔۔۔۔؟
کیا ہندوانہ رسوم و رواج کے رہتے ہوئے ہم مسلمان نکاح جیسی سنت سے بغیر پریشانی فیضیاب ہو سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟

ذرا سوچئے!  کیا شادی یا خانہ آبادی میں رکاوٹ واحد جہیز ہی ہے۔۔۔۔۔۔؟
کیاصرف لڑکے والے ہی اس زمانے میں  لالچی ہیں۔۔۔۔۔ ؟
چلیں! یہ نکاح، شادی، جہیز اور بری کا ٹن ٹا تو بجتا ہی بعد میں ہے۔۔۔۔۔۔
مگر آپ رشتہ تلاش کرتے وقت کون سی خوبیاں تلاش کرتے ہیں زوجین کی۔۔۔۔۔۔؟ 
اگر لڑکی ہو تو کمسن ہو، حسین و جمیل ہو، سلیقہ شعار ہو، ہنرمند ہو تو کیا کہنے۔۔۔۔۔۔ نوکری پیشہ ہے تو کمال است۔۔۔۔۔۔ بااثر اور طاقتور خاندان کی ہو تو مزے ہی مزے۔۔۔۔۔۔ مالدار ہو تو سونے پہ سہاگہ وغیرہ وغیرہ۔
لڑکا ہوتو وجیہ و  شاندار ہو۔۔۔۔۔۔ 20سے 30 سال کے درمیان۔۔۔۔۔۔ لمبا چوڑا مضبوط جسم رکھتا ہو۔۔۔۔۔۔ اعلی تعلیم یافتہ ہو۔۔۔۔۔۔ لاکھوں  میں تنخواہ لیتا ہو۔۔۔۔۔۔ یا کامیاب کاروباری ہو۔۔۔۔۔۔ خوب مالدار ہو۔۔۔۔۔۔ذاتی بنگلہ و گاڑی کا مالک ہو۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔ قارئین کرام ! اب ذرا خود انصاف کریں کہ ہمارے رشتے کی تلاش سے لے کر شادی تک کون سا مرحلہ ایسا ہوتا ہے جو خالص سنت نبوی اور شرعی احکامات کے مطابق ہو۔۔۔۔۔۔ ہم من حیث القوم کس طرف نکل گئے ہیں۔۔۔۔۔۔؟
دوستو! بلاشبہ جہیز کی ڈیمانڈ ایک لعنت ہے مگر بری وغیرہ کی چاہت بھی کوئی نیکی اور ثواب کا کام نہیں۔۔۔ اور دیگر رسوم و رواج اور اخراجات کو توجواز ہی نہیں بنتا۔ یہاں میں یہ بات بھی واضح کر دوں کہ یہ سب جملہ رسوم و رواج کی بندشیں نا تو شریعت ہیں اور نہ ہی مشرقیت اور نہ ہی اخلاقیات
۔۔۔۔۔ اور قانون کا تو کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ لہذا  باقی رہ جاتا ہے ہندو ازم۔۔۔۔۔۔جس کی بدولت ہم اس بدعت بلکہ لعنت کا بری طرح شکار ہوکر حلال کو حرام کر بیٹھے ہیں اور اپنے ہاتھ سے زنا جیسی برائی کا بیج بو رہے ہیں۔ پھرجب ان  حرکتوں کی وجہ سے معصوم بچیوں اور بچوں کی زندگی کے چراغ درندوں کے ہاتھوں غل ہوتے ہیں تو پھر دکھ و تکلیف کے بعد الزام تراشیاں۔۔۔۔۔۔ کیا فائدہ۔۔۔۔۔۔؟

قارئین ! میرا خیال ہے کہ جہیز ایک لعنت نامی تحریک کی بجائے سادہ نکاح کو عام کرو جیسی تحریک کی اشد ضرورت ہے جس میں معیار رشتہ دنیا داری نہیں بلکہ دینداری ہو اور دونوں طرفین کی جانب سے ہوں۔ تھوڑا نہیں پورا سوچیے ہمہ جہت متفکر بن یے۔
(محمد ابراہیم السیف حلیمی بنارسی)

Share:

Aaj kal ki Shadiyan nakam kyu ho rahi hai?

Kya Shadi barbadi hai?
Hamari Shadiyan barbadiya kyu ban rahi hai?
Aaj kal Shadiyon itni jald talaq ke muamlat kyu pesh aarahe hai?
Shadi Aabadi ya Barbadi?
🔥 ہماری شادیاں بربادیاں کیوں بن رہی ہیں؟

1 عورتوں کا خوشبو لگا کرشادی ہالز میں آنا:
رسول ﷺ نے تو ایسی عورت کو زانیہ کہا ھے جو خوشبو لگا کر مسجد تک بھی جائے اور اس کی خوشبو دوسرے پا لیں۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ ایسی عورتیں شاید انگلیوں پہ گنی جاسکیں جو شادی بیاہ کی تقریبات میں خوشبو لگا کر نا جاتیں ہوں ۔ایسے میں برکت کیونکر نازل ہو گی؟

2 مرد و زن کا اختلاط:
ایک دفعہ مسجد سے نکلتے ہوئے صحابہ و صحابیات کا اختلاط ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو تنبیہ کی کہ وہ رستے کے درمیان میں نہ چلیں بلکہ سائڈ پر ہو کر چلیں۔صحابیات یہ تنبیہ سن کر اس طرح کنارے کنارے چلا کرتی تھیں کہ انکے کپڑے رستے کی جھاڑیوں سے اٹک جاتے تھے۔آج حال یہ کہ نکاح وولیمہ کی کونسی ایسی تقریب ہے جس میں اختلاط نہ ہوتا ہو؟ کیا ایسے میں ہم نکاح کی برکات سمیٹ سکتے ہیں؟

3 لباس پہن کر بھی ننگی ھونا:
رسول ﷺ نے فرمایا تھا کہ بعض عورتیں لباس پہن کر بھی ننگی ہوں گی۔ آج دیکھا جائے تو ٹائٹس، شارٹ شرٹس، جالی دار کپڑے  کی صورت میں ایسے لباس عام ہیں جن کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا ھے کہ یہ عورتیں لباس پہننے کے باوجود ننگی ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات پر تو کاسیات، عاریات کے ساتھ ساتھ اور  زیادہ بن سنور کر ممیلات  یعنی دوسروں کوما‏ئل کرنے والیاں بن کر ہوبہو رسول اللہ ﷺ کی وعید کی مستحق بن جاتیں ہیں۔ ایسی عورتوں کےبارے میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکیں گی۔ کیا ایسا نکاح اجر کا سبب بنے گا یا گناہ کا؟

4 موسیقی:
اب خوشی کا موقع ہے، دوست احباب جمع ہیں، ایسے میں گانا بجانا تو لازمی ہے۔ جب کہ سلف کے اقوال میں یہ ملتا ھے کہ گانا زنا کی سیڑھی ہے۔ بینڈ باجے کے بغیر شادی کو اب "سوگ" سے تشبیہ دی جاتی۔

5 دلہا میاں کا عورتوں کی سائیڈ پہ جانا:
ایک انتہائی فضول اور گھٹیا رسم یہ ھے کہ دلہا میاں نے بیوی تو ایک بنائی ھے لیکن ہمارے جاہلی رسم و رواج نے اب سب راستے کلیئر کردیئے ھیں۔ دلہا میاں دودھ پلائی و سلامی کے لیے خواتین والی سائیڈ پہ جاتے ھیں۔ بنی سنوری عورتیں ہیں، آج محرم نامحرم کی ساری تقسیم مٹ گئی ہے۔ھنسی مذاق ہے۔ ایسے ایسے تبصرے ہیں جنہیں ہمارے آبا و اجداد سنتے تو شاید موقعے پر بے ہوش ہو جاتے لیکن ہم تو اسے خوشیاں منانا کہتے ھیں (شاید صحابہ و صحابیات کو تو خوشیاں منانا ہی نہیں آتی تھیں ؟َ!) نعوذبااللہ من ذالک

6 مکلاوا:
شادی سے اگلے دن دلہا میاں سسرال پہنچتے ہیں جہاں سالیاں ہیں، سالوں کی بیگمات ہیں، کسی کے قد پر کسی کے رنگ پر چٹکلے ہیں۔ دلہا میاں بلا روک ٹوک گھر میں گھوم رھے ہیں۔ شریعت کی حدوں سے آج چھٹی کا دن ہے۔ اس "چھٹی" کے ختم ہوتے ہی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جنہیں نہ نگل سکتے ہیں نہ اگل سکتے ہیں...!
اللہ ہم مسلمانوں پر رحم فرمائے آمین۔

Share:

Talaq lene aur dene me Itni Jaldbaji nahi kare.

Talaq lene aur talaq dene se pahle ek bar jarur soche.
Hame apne Sharik hayat se jyada behan aur bhabhiyon ki bato me nahi aana chahiye .

کسی خاتون نے اپنی زندگی کی حقیقت کو ظاہر کیا ہے آپ سب اس سے سبق حاصل کرے۔
خاتون لکھتی ہیں؛

میں یہ تحریر صرف اس لیے لکھ رہی ہوں تاکہ کوئی میرے جیسی حالات سے گزر رہی ہے تو اسے کوئی راستہ دیکھ جائے یا رہنمائی ملے۔

میری عمر چھتیس سال  (36) ہے. میری لو میرج ہوئی تھی. ہم کلاس فیلوز تھے اور ایک دوسرے کو چھ سال سے جانتے تھے. ہم بہترین دوست تھے. دورانِ تعلیم ہی ہم نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میرے شوہر کے جاب میں سیٹل ہونے کے بعد گھر والوں کی رضامندی سے ہم شادی کرلیں گے. میرے شوہر کی جاب کے بعد ہمارے گھر والے ملے اور ہماری شادی ہوگئی. اللہ نے ہمیں ایک بیٹے سے نوازا.

مجھے کالج کے زمانے سے ہی اندازہ تھا کہ میرے شوہر مزاج کے تیز ہیں. انہیں غصہ جلدی آتا ہے. لیکن ساتھ رہنے پر اندازہ ہوا کہ جب بھی انہیں غصہ آتا ہے ہمارا ہمیشہ جھگڑا ہوتا ہے. مجھے ہمیشہ یہ فیل ہوتا تھا کہ وہ مجھے کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں. جب بھی جھگڑا زیادہ ہوتا میں اپنے بچے کو لے کر میکے چلی جاتی. میرے میکے والے مجھے سہارا دیتے، تسلیاں دیتے کہ اس نے تمہیں کیا لاوارث سمجھ رکھا ہے. میری بہنیں فون پہ میرے شوہر کو بے نقط سناتیں. بہرحال صلح صفائی ہوجاتی اور میں گھر آجاتی. لیکن یہ بات ہم دونوں جانتے تھے کہ ہم دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور میں اپنے شوہر کو کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہتی. لیکن ہر جھگڑے کے دوران انہیں یہ ضرور کہتی کہ اگر مجھے چھوڑنا ہے تو چھوڑ دیں. مجھے علم ہے کہ یہ سب میں صرف اپنی انا کو بلند رکھنے کے لیے کہتی تھی.

ایک بار ہمارا جھگڑا اتنا بڑھا کہ انہوں نے پہلی بار مجھ پہ ہاتھ اٹھایا اور گھر سے باہر نکال دیا. میں سیدھا اپنے میکے گئی. میرے گھر والے مجھے لے کر سیدھا پولیس اسٹیشن گئے. میرے شوہر اریسٹ ہوگئے. سسرال والوں نے مجھے کیس واپس لینے کے لیے کہا. میرے شوہر نے مجھ سے معافی مانگی اور کہا کہ آئندہ یہ سب نہیں ہوگا. میں نے کیس واپس لے لیا اور واپس اپنے گھر چلی گئی.

تین ماہ بعد ہمارا پھر سے جھگڑا ہوا اور میں ہمیشہ کی طرح بچہ اٹھا کر اپنے میکے چلی آئی. دو دن بعد مجھے خبر ملی کہ میرے شوہر اسپتال میں ہیں. میرے گھر والوں نے مشورہ دیا کہ مجھے انہیں دیکھنے جانے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ میری بہنوں کا کہنا تھا کہ یہ سب ڈرامہ ہے تمہیں ایموشنلی بلیک میل کرنے کے لیے. وہ ایک ہفتہ اسپتال میں رہے. نہ میں ملنے گئی اور نہ ہی کال کی.

کچھ دنوں بعد مجھے طلاق کا سمن ملا. مجھے طلاق نہیں چاہیے تھی. مجھے اپنے شوہر سے محبت تھی. میں اپنا گھر خراب نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن میری انا آڑے آ رہی تھی. مجھے لگا کہ طلاق کا منع کر کے میں نیچی ہوجاؤں گی. میں نے انہیں کال کی کہ جب چاہیں طلاق لے لیں. میں بھی اس جہنم میں نہیں رہنا چاہتی.

کورٹ میں ہمارا کیس آسانی سے نمٹ گیا. میرے شوہر نے میری ساری ڈیمانڈز، بچے کی کسٹدی اور خرچہ دینا قبول کرلیا. ان کا کہنا تھا کہ وہ میری سب باتیں ماننے کے لیے تیار ہیں انہیں صرف طلاق چاہیے. اس طرح جولائی دو ہزار نو میں میری طلاق ہوگئی.

میرے شوہر نے کچھ عرصے بعد دوسری شادی کرلی. ان کے بچے بھی ہوگئے لیکن میرے بچے سے ملنے اکثر آتے ہیں. اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتے ہیں. بچے کا خرچہ مجھے پابندی سے ملتا ہے بلکہ میرا گزارا بھی انہی پیسوں سے ہوتا ہے.

میں اپنے بچے کے ساتھ میکے میں رہتی ہوں. میرے تمام بہن بھائی اپنی اپنی زندگی میں خوش ہیں. میری وہ بہنیں جو خود فون کر کے میرے شوہر کو باتیں سنایا کرتی تھیں وہ اب مجھے موردِ الزام ٹہراتی ہیں. مجھے اب احساس ہوتا ہے کہ میں اپنی شادی بچا سکتی تھی اگر میں نے ہر بات میں دوسروں کو نہ شامل کیا ہوتا.
کسی دوسرے پر اتنا یقین نہ کی ہوتی جس سے میرے معاملات طلاق تک پہنچتے
اگر میں اپنے شوہر کے ساتھ ہوتی اور انکی ہی بن کر رہتی تو شاید ایسا نہیں ہوتا ، میں نے اپنے شریک حیات سے زیادہ اپنے بہنوں اور  بھابھیوں پر یقین نہ کی ہوتی تو ایسا نہیں ہوتا ۔
کبھی کبھی ہمارے خیرخواہ ہی ہمیں ڈبوتے ہیں. میں ابھی بھی یہ نہیں کہہ رہی کہ میرے شوہر یا میری غلطی نہیں تھی لیکن ہمارے جھگڑے اتنے بڑے نہیں تھے جن کی وجہ سے طلاق لی جاتی.
یہ میری درخواست ہے سارے میاں بیوی سے کہ جہاں تک ہوسکے اپنے معاملے خود نمٹائیں. آپ کا خود سے بڑھ کر کوئی خیرخواہ نہیں.

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS