find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Joyland: Transgender Movies par Pakistani Leader Kyu khamosh hai, unke Is rawaiyye ki wazah.

Pakistan me Transgender Par bni movies kyu ban nahi hua?

जम्हूरियत वह अज़्दाहा है जिसने मुसलमानो के खून के रिश्तों को भी तार तार कर दिया, आपसी भाई चारे और मुहब्बत को सियासी जमातो के बोझ ने निगल गया। 
बेहयाई, बे पर्दगी और हमजिंसीयत का नंगा नाच हो रहा है, यूरोप के चंदे पर बने हमजिंसीयत फिलम जॉयलैंड, अमेरिकी चंदे पर पल रहे मुल्क पाकिस्तान मे रिलीज़ कर दिया गया है। 
जॉयलैंड मूवी और पाकिस्तानी रहनुमाओ का रवैय्या.... यूरोप के लोकतंत्र जाल मे फंसा पाकिस्तान की मजबूरी।

Transgender act, Transgender Movies pe pakistani rahnumao ka rawaiyya.
Pakistan me Transgender act kyu pass kiya gaya hai? 

اس جموریت نے سارا خانہ خراب کر رکھا ہے, سب مسلمان اتحاد کر کے خلافت کا اعلان کریں تب ہی انگریز سے جان چوٹے گی ورنہ حرام انگریز کے کتے سیاست دان ہم سے اسلامی کلچر چھیں لیں گے اور بے حیا اور بے غیرت کر کے ہمیں ختم کر دیں گے.

غیرت ہے بڑی چیز ۔۔۔
ہم جنس پرستی اور سود پر ڈرامہ بازی اور LGBT ایجنڈا

#ذرا_سی_بات_محمد_عاصم_حفیظ

پاکستان میں ہم جنس پرستی کے موضوع پر بنی فلم جوائے لینڈ پر پہلے پابندی لگی اور اب اجازت دے دی گئی ہے ۔

اقوام متحدہ کی فنڈنگ سے بنی فلم کو کون روک سکتا تھا ۔؟
جب آپ کی قسط آئی ایم ایف اور جان ایف اے ٹی ایف کے شکنجے میں جکڑی ہو ۔ دوسری طرف قطر کے سکیورٹی چیف کا بیان ہے کہ یہاں فٹ بال ورلڈ کپ کے موقعے پر ہم جنس پرستی کے ایجنڈے کے فروغ کی ہرگز اجازت نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک ماہ کے ورلڈ کپ کی خاطر اپنا دین نہیں بدل سکتے ۔

اپنے معاشرے کی تذلیل کی اجازت نہیں دیں گے ۔۔

دوسری طرف ہم ہیں ۔ قرض لیکر عیاشی کرنے والے اور سامراج کے غلام ۔۔

" جوائے لینڈ" فلم ایک چیز ہے ۔ یہ ایک سلسلہ ہے جو کب سے چل رہا ہے اور آئیندہ بھی چلتا رہے گا ۔

سود ۔ ایل جی بی ٹی ۔ وقف املاک ۔ ایف اے ٹی ایف سمیت کئی ایشوز ایسے ہیں جن معاملات پر آپ کا ملک مکمل طور پر عالمی سامراج کے شکنجے میں ہے ۔

آپ گالیاں دے سکتے ہیں ۔ برا بھلا کہہ سکتے ہیں ۔ احتجاج کر سکتے ہیں ۔ جلاؤ گھیراؤ کر سکتے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر مہم چلا سکتے ہیں ۔ جو دل میں آئے کر سکتے ہیں لیکن یہ ایجنڈا نہیں بدل سکتے ۔

کسی کی بھی حکومت ہو ۔ آپ کو آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنا ہوں گیں ۔ آپ کی قسطیں ۔ ایف اے ٹی ایف کی لسٹ اس کی مرہون منت ہے ۔

ایک پارٹی اپوزیشن میں ہو تو وہ دوسری پر تنقید کر سکتی ہے۔
جب خود اقتدار میں آئے تو وہی اس ایجنڈے کی محافظ بن جاتی ہے۔

آپ کے پاس مکمل اختیار ہے کہ جب آپ کا ناپسندیدہ حکمران ہو تو بھرپور تنقید کر لیں ۔

اس کو کٹہرے میں کھڑا کر لیں ۔
اگر بات آپ کے پسندیدہ لیڈر پر آ رہی ہو تو خاموش رہ لیں ۔۔ لیکن دراصل یہ معاملہ ان کے بس کا ہے ہی نہیں ۔

وہ سب بھی آپ کی ہی صف میں کھڑے ہیں ۔

بیک وقت مجبور اور مجرم ۔۔
آپ ذرا یاد کریں کہ مشرف دور میں حدود آرڈیننس سے سلسلہ شروع ہوا ۔
کئی حکومتیں آئیں ۔ چہرے بدلے ۔ پارٹیاں بدلیں ۔ لیکن معاشرتی تبدیلی ۔ قوانین بدلنے کا سلسلہ جاری ہے ۔
یہ سب ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت چلنے والا ایجنڈا ہے ۔
یہاں انکار کی گنجائش نہیں ہے ۔ کیونکہ اس سے معیشت جڑیں ہے ۔
مملکت خداد ۔ ارض پاک کے تمام تر طاقتور حلقوں کی تنخواہیں ۔ مراعات ۔ عیاشیاں ۔ بیرونی تعلقات ۔ وہاں موجود خاندانوں کا تحفظ ۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات ۔ عالمی معاہدے اور بہت کچھ ۔۔

جس فلم کی پروموشن نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کرے اور فنانسر اقوام متحدہ ہو ۔۔ اسے کون روک پائے گا ۔۔ وقتی روک بھی لیا تو ایجنڈے کو کون روک پائے گا ۔

صرف اس صورت نکل سکتے ہیں کہ معاشی خود کفیل ہوں ۔ آپ قطر ہوں ۔ کویت ہوں ۔ سعودی عرب ہوں ۔ انڈونیشیا ہوں ۔ ملائیشیا ہوں ۔۔ پھر گنجائش نکلتی ہے کہ آپ کہہ سکیں کہ ہم "نہیں مانتے" ۔۔

ورنہ حکومتیں بدل جائیں گیں ۔ چہرے بدل جائیں گے ۔ بدل دئیے جائیں گے ۔ حکومتیں الٹا دی جائیں گیں ۔ سب کچھ بدل سکتا ہے لیکن ایجنڈا وہی رہے گا جو عالمی طاقتوں کی جانب سے نافذ کیا جانا ہے ۔۔

" جوائے لینڈ" ایک فلم ہے ۔ اسے نمائش سے روکنا چاہیے ۔ اجازت دینے والے بے شرم اور گھٹیا ترین ہیں ۔ ایسی حرکتوں پر ردعمل دینا چاہیے ۔

لیکن سوال پھر وہی ہے کہ جب آئی ایم ایف کی قسط پر بھنگڑے ڈالے جاتے ہیں ۔ ایف اے ٹی ایف کی لسٹ میں بہتری کو ملکی سلامتی کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے ۔

اس کی خاطر پورے معاشرے کو داؤ پر لگا دیا جاتا ہے ۔ تو پھر ایک جوائے لینڈ فلم پر احتجاج محض دل کو تسلی دینے کی ہی بات ہے ۔

حدود آرڈیننس ۔ شادی کی عمر ۔ خواتین و ٹرانس جینڈر کوٹے ۔ ڈومیسٹک وائیلنس ایکٹ ۔ سمیت ان گنت قوانین اور اقدامات ہو چکے ہیں ۔ ایجنڈا جاری ہے ۔ نافذ ہو رہا ہے ۔ تو اسی کا تسلسل جوائے لینڈ فلم کو بھی سمجھ لیں ۔۔

ہر صاحب شعور کو اس پر سراپہ احتجاج ہونا چاہیے ۔

جو بھی صاحب اختیار ہے وہ مجرم بھی ہے ۔ جس کے ہاتھوں کوئی بھی شرمناک حرکت سرزد ہو اسے شرم سے ڈوب مرنا چاہیے ۔
جو اس معاشرے میں بے راہ روی کا باعث بنے ۔ سماجی روایات کو پامال کرکے رکھ دے ۔ جو صاحب اقتدار ہیں وہ مجرم ہیں ۔
لیکن انتہائی ادب کے ساتھ دینی طبقے اور اس معاشرے کے باشعور احباب سے گزارش ہے کہ یہ دو تین روز کے احتجاج ۔ کسی وقتی آہ و بکا اور جذباتی نعروں کا معاملہ نہیں ہے ۔

اگر واقعی اپنا معاشرہ اور اپنی دینی روایات بچانی ہیں ۔ معاشرے کو ۔ ملک کو ایل جی بی ٹی ایجنڈے سے بچانا ہے تو پھر سب مل بیٹھیں ۔

اصل وجوہات پر بات کریں ۔ متحد ہوں اور قوم کو اس بارے میں شعور دیں ۔ ایسا نہیں کہ چند دن کا احتجاج ہوا ۔ شور ہوا ۔ ایک معاملے کو وقتی دبایا گیا اور پھر کسی نئی شکل میں خفیہ طور پر اس سے بھی بدتر انداز میں نافذ بھی کر دیا گیا ۔

ابھی تک تو یہی ہو رہا ہے ۔ ذرا یاد کریں کب کب احتجاج ہوئے تھے ۔
سود ۔ بنکنگ سسٹم ۔ حدود آرڈیننس ۔ آسیہ بی بی کیس ۔ رمشہ ۔ ریمنڈ ڈیوس ۔ وومن پروٹیکشن بل ۔ عورت مارچ ۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ ۔ فرانس کی گستاخی ۔ سمیت ان گنت مواقعے ہوں گے جب بھرپور احتجاج ہوئے ۔ بڑی بڑی ریلیاں ہوئیں ۔ کمال تو یہ کہ اس وقت کی اپوزیشن نے خود احتجاج میں شرکت کی ۔ اور پھر جیسے ہی انہیں حکومت ملی تو ان کے ہاتھوں وہی کام لیا گیا ۔

یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔ جب تک ایجنڈے کے نفاذ کو روکنے کا بندوبست نہیں ہو جاتا ۔

ایک بار پھر یاد دہانی کرا دیں کہ ایل جی بی ٹی اقوام متحدہ کا ایجنڈا ہے ۔ عورت مارچ ۔ ٹرانس جینڈر اس کے تحت ہوتے ہیں ۔ فنڈنگ انٹرنیشنل این جی اوز کرتی ہیں ۔ یہ سب کچھ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف سے جڑے معاملات ہیں ۔ جب تک وہ شکنجہ نہیں توڑا جاتا ۔ اس پر احتجاج ۔ ریلیاں اور جذباتی نعرے محض نعرے ہیں ۔ وقتی جوش و خروش ہے اور انتہائی معذرت کے ساتھ ۔۔ انتہائی معذرت کے ساتھ ایک " لاحاصل" مشق ہے ۔۔

اگر واقعی سب بدلنا ہے تو معاشی استحکام کے لیے جدوجہد کریں ۔ عالمی شکنجے سے نکلیں ۔ قوم کو متحد کریں ۔
عوامی طاقت کا اظہار کریں ۔ جذبات کے ساتھ ساتھ مستقل اور سنجیدہ کوشش کے لیے ادارے بنائیں ۔

ایسے امور پر نظر رکھنے کے لیے تھنک ٹینک ہوں ۔

عوامی رہنمائی اور آگاہی کے لئے پلیٹ فارم ہوں ۔

یہ چند دن کا احتجاج ۔ چند ریلیاں ۔ چند جذباتی تقاریر اور محض سوشل میڈیا کمپین نہ ہو بلکہ مستقل بنیادوں پر مضبوط پلاننگ کے ساتھ ایک مربوط لائحہ عمل ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم اس ایجنڈے کے نفاذ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں اور
ان شاءاللہ روک بھی سکتے ہیں ۔

Share:

Jannat me Mardo ko Hooren milegi to Auraton ko kya milega, Duniya me Koi Khawateen Agar Ek se Jyada Mardo se Shadi ki hogi to wah Jannat me kis ke sath rahegi?

Agar Jannat me Mard ko Hooorein milegi to Aurato ko kya milega?

Sawal: Quran me Jagah Mardo Mardo ke liye Hooron ka Zikr hai, magar Auraton ke liye Zikr nahi, to Jannat me Auraton ko kya Milega? Jis aurat ki Shadi nahi hui ya Duniya me ek se jyada mardo se Shadi hui ya uska Shauhar Jahannum me hoga to wah Jannat me kis ke sath rahegi?


"سلسلہ سوال و جواب نمبر-196"
سوال_قرآن میں جگہ جگہ مردوں کے لیے حوروں کا ذکر ہے، مگر عورتوں کے لیے ذکر نہیں، تو جنت میں عورتوں کو کیا ملے گا؟ اور جس عورت کی شادی نہیں ہوئی یا دنیا میں ایک سے زائد مردوں سے شادی ہوئی یا اسکا شوہر دوزخ میں گیا تو وہ جنت میں کس کے ساتھ رہے گی؟

Published Date: 23-1-2019

جواب:
الحمدللہ:

*انسانی ذہن تجسس و سوالات کی آماجگاہ ہے سوالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اگر انکے جوابات نہ دیے جائیں تو شکوک وشبہات اپنی جگہ لینے لگتے ہیں،یہ سوال بہت سے لوگ پوچھ چکے ہیں کہ جنت میں مردوں کو تو حوریں ملیں گی تو جو عورتیں ہوں گی انکو کیا ملے گا ؟ یہ ناانصافی نہ ہوگی کہ انکے لیے کوئی نہیں تو اس سوال کا مختصر پیرائے میں جواب قرآن و حدیث کے مطابق دینے کی کوشش کرتے ہیں،*

اسلام ایک مکمل دین ہے اس قدر مکمل کہ انسانوں کے حقوق سے لے کر جانوروں کے حقوق بھی اس دین نے ہمارے سامنے رکھ دیے ہیں عورت کو جو مقام و مرتبہ اسلام نے دیا ہے وہ کوئی مذہب نہ دے سکا،

اگر تو آپ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ مرد کو بہت سی عورتیں اور حوریں ملیں گی اور عورتوں کو کتنے مرد ؟

تو یہ انتہائی واہیات بات ہے اور میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے کسی کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا،لیکن اس بات کی بھی وضاحت کرتے چلیں،
*کیا دنیا میں کسی بھی مہذب معاشرے میں یہ قابل قبول ہے کہ ایک عورت کے متعدد شوہر ہوں .اگرچہ یہ عادت یعنی پولی گیمی افریقہ کے بہت پرانے معاشروں میں اور ہندو مت میں بھی کسی صورت میں موجود رہی ہے،مگر ایک ذرا سا بھی سمجھ دار اور غیرت مند شخص اس کے جواز کے لیئے کوئی رائے قائم کر سکتا ہے کیا.؟؟؟.......ہرگز نہیں ہرگز نہیں...
پھر اللہ سے بڑا غیرت مند کون ہے،
اللہ سے بڑا عزت دار کون ہے ...
کیا اللہ کے ہاں ایسی بات کو گوارا کیا جا سکتا ہے؟؟؟

*دوسری بات کہ*
قرآن میں جگہ جگہ حوروں کا ذکر نہیں نہیں،بلکہ جنت کی نعمتوں کا تذکرہ ہے جو ہر مومن مرد و عورت کو یکساں طور پر ملیں گی، حوروں کا تذکرہ قرآن میں تقریباً صرف چار مقامات پر ہے,اب رہا آپ کا سوال کہ عورتوں کو جنت میں کیا ملے گا، تو واضح رہے کہ قرآن نے اس حوالے سے بالکل صراحت کے ساتھ جو لفظ استعمال کیا ہے وہ زوج (ازواج) کا ہے ۔جس کے معنی جوڑا یعنی Spouseکے ہیں ۔ یعنی مرد و عورت دونوں کے لیے جوڑے ہوں گے،

*لفظ حور جو قرآن کریم میں چار مختلف مقامات پراستعمال ہوا ہے*

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

كَذٰلِكَ  وَزَوَّجۡنٰهُمۡ بِحُوۡرٍ عِيۡنٍؕ
’’یوں ہی ہوگا اور ہم ان کا نکاح کردیں گے بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے۔‘‘
(الدخان :54)

مُتَّكِـــِٕيۡنَ عَلٰى سُرُرٍ مَّصۡفُوۡفَةٍ‌ ۚ وَزَوَّجۡنٰهُمۡ بِحُوۡرٍ عِيۡنٍ
ایسے تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے جو قطاروں میں بچھائے ہوئے ہیں اور ہم نے ان کا نکاح سفید جسم، سیاہ آنکھوں والی عورتوں سے کردیا، جو بڑی بڑی آنکھوں والی ہیں۔‘‘
(الطور : 20)

حُوۡرٌ مَّقۡصُوۡرٰتٌ فِى الۡخِيَامِ‌
سفید جسم، سیاہ آنکھوں والی عورتیں، جو خیموں میں روکی ہوئی ہیں۔۔‘‘
(الرحمٰن :72)

وَحُوۡرٌ عِيۡنٌۙ
كَاَمۡثَالِ اللُّـؤۡلُـوٴِالۡمَكۡنُوۡنِ‌ۚ
’’اوران کے لیے خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوگی، ایسی حسین جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی۔‘‘
(الواقعۃ : 23,22)

*حور کا مطلب*
قرآن کریم کے بہت سے مترجمین نے لفظ حور کا ترجمہ خصوصاً اردو تراجم میں خوبصورت دوشیزائیں یا لڑکیاں کیا ہے۔ اس صورت میں وہ صرف مردوں کے لیے ہوں گی۔ تب جنت میں جانے والی عورتوں کے لیے کیا ہوگا؟

لفظ ’’حُوْر‘‘ فی الواقع اَحْوَرْ (مردوں کے لیے قابل اطلاق) اور حَوْرَاء ( عورتوں کے لیے قابل اطلاق) دونوں کا صیغہ ٔ جمع ہے اور یہ ایک ایسے شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی آنکھیں حَوْرَ سے متصف ہوں، جو جنت میں جانے والے مردوں اورخواتین کی صالح ارواح کو بخشی جانے والی خصوصی صفت ہے اور یہ روحانی آنکھ کے سفید حصے کی انتہائی اجلی رنگت کو ظاہر کرتی ہے،

دوسری کئی آیات میں قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ جنت میں تمھارے ازواج، یعنی جوڑے ہوں گے۔ اور تمھیں تمھارا جوڑا یا پاکیزہ ساتھی عطاکیا جائے گا۔ 

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَبَشِّرِ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ‌ؕ ڪُلَّمَا رُزِقُوۡا مِنۡهَا مِنۡ ثَمَرَةٍ رِّزۡقًا ‌ۙ قَالُوۡا هٰذَا الَّذِىۡ رُزِقۡنَا مِنۡ قَبۡلُ وَاُتُوۡا بِهٖ مُتَشَابِهًا ‌ؕ وَلَهُمۡ فِيۡهَآ اَزۡوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ‌ۙ وَّهُمۡ فِيۡهَا خٰلِدُوۡنَ
ترجمہ:
اور ان لوگوں کو خوش خبری دے دے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے کہ بیشک ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، جب کبھی ان سے کوئی پھل انھیں کھانے کے لیے دیا جائے گا، کہیں گے یہ تو وہی ہے جو اس سے پہلے ہمیں دیا گیا تھا اور وہ انھیں ایک دوسرے سے ملتا جلتا دیا جائے گا، اور ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
(سورہ البقرۃ : 25)

وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا‌ ؕ لَـهُمۡ فِيۡهَاۤ اَزۡوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ  وَّنُدۡخِلُهُمۡ ظِلًّا ظَلِيۡلًا
ترجمہ:
اور جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ہم انھیں عنقریب ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں ہمیشہ، ان کے لیے ان میں نہایت پاک صاف بیویاں ہوں گی اور ہم انھیں بہت گھنے سائے میں داخل کریں گے۔۔‘‘
(النساء :57)

لہٰذا لفظ ’’ حُور‘ ‘ کسی خاص جنس یا صنف کے لیے مخصوص نہیں۔ علامہ محمد اسد نے لفظ حور کا ترجمہ خاوند یا بیوی (Spouse)کیا ہے ،
جبکہ علامہ عبداللہ یوسف علی نے اس کا ترجمہ ساتھی (Companion)کیا ہے،

*چنانچہ بعض علماء کے نزدیک جنت میں کسی مرد کو جو حور ملے گی وہ ایک بڑی بڑی چمکتی ہوئی آنکھوں والی خوبصورت دوشیزہ ہوگی جبکہ جنت میں داخل ہونے والی عورت کو جو ساتھی ملے گا وہ بھی بڑی بڑی روشن آنکھوں والا ہوگا*

علماء کا خیال ہے کہ قرآن میں جو لفظ ’’حور‘‘ استعمال ہوا ہے اس سے مراد صرف خواتین ہیں کیونکہ اس کے بارے میں خطاب مردوں سے کیا گیا ہے۔ اس کا وہ جواب جو سب قسم کے لوگوں کے لیے لازماً قابل قبول ہو، حدیث مبارک میں دیا گیا ہے۔

صحیح بخاری میں حدیث ہے : 
قَالَ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالی: اَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِینَ مَا لَا عَیْنٌ رَاَتْ، وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَی قَلْبِ بَشَرٍ ’’
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جسے ان کی آنکھوں نے دیکھا ہے نہ ان کے کانوں نے سنا ہے اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے ۔‘‘
(صحیح البخاری ، التفسیر ، حدیث: 4779) 

حدیث کے لفظ عِبَاد میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں،لہذا مردوں کا جوڑا عورتوں کے ساتھ اور عورتوں کا مردوں کے ساتھ بنایا جائے گا۔

*اور قرآن میں زوج کا لفظ اس لیے استعمال کیا گیا کہ یہ کہنا کہ عورتوں کو مرد دیے جائیں گے، حیا کے منافی تھا،*

رہا سوال حوروں کے خصوصی تذکرے کا تو انسانی نفسیات کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ اس معاملے میں مردوں کی نفسیات عورتوں سے ذرا مختلف رہی ہے۔ اس نفسیات کی تفصیل یہاں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔

البتہ اس کی ایک جھلک دیکھنی ہے تو موجودہ دور کے میڈیا میں اشتہارات کی صنعت اور ان میں عورتوں کے استعمال کودیکھ لیجیے یا تاریخ کے اوراق میں طاقتور لوگوں کے حرم کی داستانوں کی تفصیلات پڑ ھ لیجیے،
اسی نفسیات کی بنا پر قرآن بھی بعض مقامات پر حوروں کا ذکر کر دیتا ہے، وگرنہ اس کا اصولی موقف جنت کی ان نعمتوں کے بارے میں جن کی طلب فطرتِ انسانی میں پائی جاتی ہے ،

اللہ پاک فرماتے ہیں:

اور تم کو اس (جنت) میں ہر وہ چیز ملے گی جس کو تمہارا دل چاہے گا اور تمہارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کرو گے ،
(سورہ فصلت:آئیت نمبر_31)

*جنت کی نعمتوں کے حوالے سے جب کوئی سوال پیدا ہو تو قرآن کی اس آیت کو پڑھ لیا کریں ہر سوال کا جواب اس مختصر آیت میں پوشیدہ ہے*

اور آپ کے علم میں ہونا ضروری ہے کہ،
 اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا ہے:آپ کا رب کسی پر ظلم نہیں کرے گا (الکھف _49)

اور دوسرے مقام پر فرمایا :
( بے شک اللہ تعالی ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی نیکی ہو تو اسے دگنی کر دیتا ہے اور اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب دیتا ہے )
(سورہ النساء / 40)

اللہ تعالی نے اس شریعت کو مردوں اور عورتوں کے لۓ برابر نازل کیا ہے قرآن کریم میں جہاں بھی مردوں کو خطاب ہے وہی عورتوں کو بھی ہے اور جہاں پر حکم میں مردوں کو خطاب کیا گیا ہے اس میں عورتیں بھی داخل ہیں الا یہ کہ کوئی ایسی دلیل ہو جہاں پر مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق کیا گیا ہو مثلا جہاد اور حیض اور ولی کے احکام میں فرق ہے وغیرہ ۔

*اور اس بات کی دلیل کہ جہاں پر مذکر کا صیغہ استعمال ہوا اور اس میں مونث یعنی عورتیں بھی داخل ہیں*

 عائشہ رضی اللہ عنہا کی مندرجہ ذیل حدیث ہے :
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ :
< رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا کہ جو ( اپنے کپڑوں میں ) گیلا پن (تری) پاتا ہے لیکن اسے احتلام کا یاد نہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ غسل کرے اور اس شخص کے متعلق جسے احتلام ہوا لیکن گیلا پن نہیں پاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اس پر غسل نہیں ہے تو ام سلیم رضی اللہ عنہا کہنے لگیں عورت دیکھے تو کیا اس پر بھی غسل ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس پر بھی اس لیۓ کہ عورتیں مردوں کی طرح ہیں )
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-236)

اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ
آپ نے فرمایا:
عورتیں بھی ( شرعی احکام میں ) مردوں ہی کی طرح ہیں
(سنن ترمذی حدیث نمبر 113)
( صحیح الجامع حدیث نمبر 2333)

________&_______

*اور یہ کہ آخرت میں عورت کو جنت میں کیا بدلہ ملے گا تو اس کے متعلق ذیل میں کچھ آیات اور احادیث پیش کی جاتی ہیں*

ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نے ہجرت کے معاملہ میں اللہ تعالی کو عورتوں کا ذکر کرتے ہوئےنہیں سنا تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی :

( تو ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی کہ بیشک میں تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہر گز ضائع نہیں کرتا تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو تو وہ لوگ جنہوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکال دیۓ گۓ اور جنہیں میری راہ میں ایذا اور تکلیف دی گئي اور جنہوں نے جہاد کیا اور شہید کر دۓ گۓ میں ضرور اور لازمی ان کی برائیاں ان سے معاف کر دوں گا اور یقینا انہیں ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے سے نہریں جاری ہیں یہ اللہ تعالی کی طرف سے ثواب اور اجر ہے اور اللہ تعالی کے پاس ہی بہترین ثواب ہے )
(سورہ آل عمران آئیت نمبر_ 195)

(سنن ترمذی حدیث نمبر 3023)

ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
( اللہ تعالی کا فرمان ہے ( ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی) یعنی ان کے رب نے قبول فرما لیا اور اللہ تعالی کا یہ فرمان ( بیشک میں تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہرگز ضائع نہیں کرتا )

تو یہ اس قبولیت کی تفسیر ہے یعنی اللہ تعالی نے انہیں خبر دیتے ہوئےیہ کہا کہ وہ تم میں سے کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ ہر عمل کرنے والے کو چاہے وہ مرد ہو یا عورت اسے انصاف کے ساتھ پورا پورا بدلہ دے گا ،اور اللہ تعالی کا یہ قول کہ :( تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو ) یعنی تم سب ثواب میں برابر ہو،

اور اللہ تعالی کا فرمان :
( اور جو مرد اور عورت بھی ایمان کی حالت میں نیک اعمال کرے تو یہی لوگ جنت میں جائیں گے اور ان پر کھجور کی گٹھلی کے سوراخ کے برابر بھی ان پر ظلم نہیں ہو گا )
(سورہ  النساء ،آئیت نمبر_ 124)

ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے :
اس آیت میں اللہ تعالی کا اپنے بندوں چاہے وہ مرد ہو یا عورت ان کے اعمال کو قبول کرنے میں اللہ کا احسان اور اس کا کرم اور اس کی رحمت کا بیان ہے لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ بندے مومن ہوں اور انہیں اللہ تعالی یقینا جنت میں داخل کرے گا اور ان کی نیکیوں کے بارہ میں کسی ایک پر نقیر کے برابر بھی ظلم نہیں ہو گا اور نقیر کھجور کی گٹھلی کے سوراخ کو کہتے ہیں،

اور فرمان ربانی ہے :
( جو بھی اعمال صالحہ کرے اگرچہ وہ مرد ہو یا عورت لیکن ہو مومن تو ہم اسے یقینا نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گے اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور اور یقنی طور پر دیں گے )
(سورہ النحل_ 97)

ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
( اللہ تعالی کی طرف سے اس شخص کے لۓ یہ وعدہ ہے جو نیک اعمال کرے اور وہ عمل کتاب اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہونے ضروری ہیں اگرچہ یہ عمل مرد یا پھر عورت کے ہوں اور اس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان ہونا ضروری ہے اور پھر یہ عمل جس کا اسے حکم دیا گیا ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے مشروع ہے اس کی بنا پر اللہ تعالی اسے دنیا میں اچھی زندگی مہیا اور اسے اس کی عمل کا آخرت میں اچھا بدل دے گا اور اچھی زندگی ہر اعتبار سے راحت پر مشتمل ہے )

ارشاد باری تعالی ہے :
( جس نے گناہ کیا اسے تو اس کے برابر ہی سزا ملے گی اور جس نے نیکی کی چاہے وہ مرد ہو یا عورت لیکن ہو مومن تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے اور وہاں بغیر حساب کے روزی پائیں گے )
(سورہ غافر ،آئیت نمبر_ 40)

* آپ کے سامنے یہ حدیث پیش کی جاتی ہے جو کہ اللہ تعالی کے حکم سے آپ کے سینے میں عورتوں کے ذکر کے متعلق تمام وسوسوں کا قلع قمع کر دے گی*

ام عمارہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ :وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا کہ میں جو کچھ بھی دیکھتی ہوں وہ سب کچھ مردوں کے لۓ ہی ہے اور مجھے عورتوں کے متعلق کچھ ذکر نہیں ملتا تو یہ آیت نازل ہوئی :
( بیشک مسمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومنہ عورتیں )
(سورہ الاحزاب،35)
(سنن ترمذی حدیث نمبر 3211 )

اور مسند احمد میں ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے حدیث مروی ہے :
( ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا بات ہے کہ ہمارا ذکر قرآن کریم میں اس طرح نہیں جس طرح کہ مردوں کا ہے تو وہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے کسی چیز نے بھی کسی دن خوفزدہ نہیں کیا مگر ان کی منبر پر آواز نے آپ یہ فرما رہے تھے کہ اے لوگو ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں اپنے سر کو سنوار رہی تھی تو میں نے اپنے بالوں کو لپیٹا اور دروازے کے قریب آئی اور کان دہلیز کے ساتھ لگا دیۓ تو میں نے انہیں یہ کہتے ہوئےسنا بیشک اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
( بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں مومن مرد اور مومنہ عورتیں اطاعت کرنے والے مرد اور اطاعت کرنے والی عورتیں سچے مرد اور سچی عورتیں صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں صدقہ کرنے والے مرد اور صدقہ کرنے والی عورتیں روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں ان سب کے لۓ اللہ تعالی نے وسیع مغفرت اور بہت زیادہ ثواب تیار کر رکھا ہے )
( سورہ الاحزاب آئیت نمبر 35)

*جنت میں داخل ہونے والی خواتین کو اللہ تعالی نئے سرے سے پیدا فرمائیں گے اور وہ کنواری حالت میں جنت میں داخل ہوں گی اور ہمشیہ کنواری رہیں گی، انکے خاوند جب بھی ان سے ملاپ کریں گے تو ہر دفعہ انہو کنوارا پائیں گے اور اپنے شوہروں کی ہم عمر ہوں گی اور جنتی خواتین اپنے شوہروں سے ٹوٹ کر پیار کرنے والی ہوں گی،*

قرآن مجید میں ان تمام باتوں کو اس طرح بیان کیا ہے

اِنَّاۤ اَنۡشَاۡنٰهُنَّ اِنۡشَآءًۙ @ فَجَعَلۡنٰهُنَّ اَبۡكَارًاۙ‏ @ عُرُبًا اَتۡرَابًاۙ
اہل جنت کی بیویوں کو ہم نئے سرے سے پیدا کریں گے اور انہیں باکرہ بنا دیں گے اپنے شوہروں سے محبت کرنے والیاں اور انکی ہم عمر
(سورہ الواقعہ ،آئیت نمبر_35٫36٫37)

*اہل ایمان میں مردوں کے ساتھ کوئی خاص معاملہ نہ ہوگا بلکہ ہر نفس کو اسکے اعمال کے بدولت نعمتیں عطا کی جائیں گی اور ان میں مرد و عورت کی کوئی تخصیص نہ ہوگی اور جنت کی خوشیوں کی تکمیل خواتین کی رفاقت میں ہو گی*

اللہ پاک فرماتے ہیں:
اُدۡخُلُوا الۡجَنَّةَ اَنۡتُمۡ وَاَزۡوَاجُكُمۡ تُحۡبَرُوۡنَ‌
جنت میں داخل ہوجاؤ تم اور تمہاری بیویاں، تم خوش کیے جاؤ گے۔
(سورہ زخرف ائیت نمبر-70)
تفسیر:
اسکی تفسیر میں دو وجہیں ہیں، ایک یہ کہ اس سے مراد ایسے لوگ ہیں جو دنیا میں ان کے ہم مشرب اورساتھی رہے۔ دوسری یہ کہ مراد ان کی بیویاں ہیں جنہوں نے نیک اعمال میں ان کا ساتھ دیا تھا۔ دونوں بیک وقت بھی مراد ہوسکتے ہیں، مگر بیویاں مراد لینا زیادہ قریب ہے، کیونکہ قرآن مجید میں ان کا بار بار ذکر ہے اور ان کے ساتھ مل کر جانے میں جو لذت اور خوشی ہے وہ دوسرے ہم مشرب ساتھیوں کے ساتھ نہیں۔
(مزید دیکھیے سورة یٰسین (٥٥، ٥٦)
دخان (٥٤) ، واقعہ (٢٢، ٢٣) ،
رحمان (٧٠ تا ٧٢) ، صافات (٤٨)
اور سورة ص (٥٢)

*جنت میں حوروں سے افضل مقام نیک صالح عورت کو حاصل ہوگا مرد کو حوریں ملیں گی تو نیک مرد کی نیک بیوی ان حوروں کی سردار ہوگی*

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے میں نے عرض کیا " اے اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم !
یہ فرمائیے کہ دنیا کی خاتوں افضل ہے یا جنت کی حور ؟ "
آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " دنیا کی خاتون کو جنت کی حور پر وہی فضیلت حاصل ہو گی جو ابرے (باہر والا کپڑا) کو استر (اندر والا کپڑا ) پر حاصل ہوتی ہے (طبرانی مجمع الزوائد الجز ء العاشر ،رقم الصفحہ (418-417 )

*یہ ان انعامات کو مختصر سے بھی مختصر حصہ ہے جو جنت میں عورتوں کو عطا کیے جائیں گے،جنتی عورتیں حسن وجمال اور حسن سیرت کے اعتبار سے بے مثال ہوں گی،عورت کے اندر فطری طور پر حیا کا مادہ مرد کی نسبت زیادہ ہے اور وفاداری و محبت بھی خالص ایک کے لیے رکھتی ہے اور حسن و جمال اور زینت کو پسند کرتی ہے ان تمام باتوں کی مناسبت سے جنت میں یہ عیش کریں گی اور نیک عورتیں حوروں پر افضل ہوں گی*

__________&________

*رہی یہ بات کہ جس عورت کے دنیا میں ایک سے زیادہ خاوند ہوں گے وہ عورت جنت میں کس خاوند کے ساتھ ہوگی؟*

اس مسئلہ کے بارے میں اہل علم کے تین اقوال ہیں:

1- ایسی خاتون اپنے ساتھ سب سے  اچھے سلوک کرنے والے  خاوند کے ساتھ ہوگی۔

2- ایسی خاتون کو وہاں پر خاوند  اختیار کرنے کا موقع دیا جائے گا۔

3- وہ سب سے آخری خاوند کی بیوی  ہوگی،

*اس بارے میں قریب ترین، اور صحیح ترین قول  آخری قول ہی ہے، کہ جنتی عورت دنیا کے آخری شوہر کی بیوی ہو گی اور  اسی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوع حدیث بھی ملتی ہے*

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس کسی خاتون کا خاوند فوت ہو جائے، اور وہ اس کے بعد آگے شادی کر لے تو وہ [آخرت میں] آخری خاوند کیلئے ہوگی)
اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے
(صحیح الجامع: (2704)
اور "سلسلہ صحیحہ_1281)
میں  صحیح قرار دیا ہے۔

یہ تو ہے مختصر جواب، جبکہ  تفصیلی اور مذکورہ بالا تینوں اقوال  کے دلائل درج ذیل ہیں:

*پہلے قول کی دلائل:*

قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابو بکر بن نجاد نے ذکر کیا ہے کہ  ہمیں جعفر بن محمد بن شاکر نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں  عبید بن  اسحاق عطار نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں ہمیں  سنان بن ہارون نے حمید سے اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام حبیبہ نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! ایک عورت کے دنیا میں دو خاوند ہو، اور پھر وہ فوت ہو کر تمام جنت میں اکٹھے   ہو جائیں تو ان دونوں میں سے کس کے پاس جائے گی؟ پہلے خاوند کے پاس یا دوسرے کے پاس ؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (ام حبیبہ! جو اس خاتون کیساتھ  اچھے سلوک کے ساتھ رہتا ہو گا اسی کے پاس جائے گی، حسن خلق دنیا و آخرت کی بھلائیاں سمیٹ لیتا ہے)
(التذكرة في أحوال الموتى والآخرة2 / 278 )
(طبرانی النھایہ لابن کثیرفی الفتن والملاحم الجز الثانی رقم الصفحہ 387 )

یہ حدیث سخت ضعیف ہے، اور اس  کے ضعیف ہونے کی وجہ دو راوی ہیں،
1_عبید بن اسحاق عطار: جو کہ سخت ترین ضعیف راوی ہے،
2_جبکہ سنان بن ہارون: ضعیف ہے۔

چنانچہ اس حدیث سے استدلال کرنا بالکل درست نہیں ہے، کیونکہ یہ حدیث سخت ضعیف ہے، اسلیے پہلا قول (کہ عورت سب سے اچھے اخلاق والے شوہر ساتھ جنت میں ہوگی) ساقط ہو گیا،

*دوسرے قول کی دلیل:*
یعنی: ایسی خاتون کو وہاں پر خاوند  اختیار کرنے کا موقع دیا جائے گا۔

مجھے اس قول کے قائلین کی کوئی دلیل نہیں ملی۔

تاہم  " التذكرة في أحوال الموتى والآخرة " ( 2 / 278 ) میں صاحب کتاب نے یہی مسئلہ ذکر کرنے کے بعد کہا:  "یہ بھی کہا گیا ہےکہ : اگر اسکا [دوسرا] خاوند ہو اتو ایسی خاتون کو اختیار دیا جائے گا" انتہی

عجلونی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"۔۔۔۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسی خاتون زیادہ اچھے  اخلاق والے خاوند کیساتھ ہوگی! اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ :  خاتون کو ہر دو میں سے کسی ایک کے ساتھ رہنے کا اختیار دیا جائے گا"
" كشف الخفاء " (2 / 392)

البتہ اسی موقف کو ابن عثیمین حفظہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے، جیسے کہ آپ کے فتاوی: (2/53) میں یہ بات موجود ہے۔

*تیسرے اور درست قول کی دلیل*

امام ابو الشیخ اصبہانی  رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہمیں  احمد بن اسحاق جوہری نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اسماعیل بن زرارہ نے حدیث بیان کی ، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابو ملیح  رقی نے حدیث بیان کی، انہوں نے میمون بن مہران سے اور انہوں نے ام درداء رضی اللہ عنہا سے حدیث بیان کی کہ
ابو درداء رضی اللہ عنہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ:
([قیامت کے دن]عورت اپنے آخری خاوند  کیلئے ہوگی)"
" طبقات المحدثين بأصبهان " ( 4 / 36 )

اس حدیث کے رواۃ مشہور  ثقہ راوی ہیں، صرف احمد بن اسحاق جوہری  کے حالات زندگی نہیں ملے، تاہم  ابو الشیخ [مؤلف] نے خود ہی اس حدیث کو انکی حسن احادیث میں شمار کیا ہے
اور اگر حقیقت بھی ایسے ہی ہے تو یہ سند اس مسئلہ کے بارے میں اعلی ترین  سند ہوگی۔ (واللہ اعلم)

اس پر ایک اثر بھی ہے جسے ابن عساکر نے
( 19 / 193 / 1 ) عکرمہ سے بیان کیا ہے کہ:
"اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا زبیر بن عوام  کے عقد میں تھیں،  زبیر آپ  پر  بہت گراں تھے، تو انہوں نے آکر اپنے والد [ابو بکر] سے اس بات کی شکایت کی، تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: "بیٹی  صبر کرو! کیونکہ  جب عورت کا خاوند اچھا ہو، اور  وہ فوت ہو جائے، پھر عورت بھی اس کے بعد کہیں اور شادی نہ کرے تو انہیں جنت میں بھی اکٹھا کر دیا جائے گا"

شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" اس اثر کے تمام راوی ثقہ ہیں، تاہم اس میں انقطاع ہے، کیونکہ عکرمہ نے ابو بکر کا زمانہ نہیں پایا، تاہم یہ ہو سکتا ہے کہ عکرمہ نے یہ بات اسماء بنت ابی بکر سے سنی ہو۔ واللہ اعلم"
"سلسلہ صحیحہ" (3/276)

*خلاصہ یہ ہوا کہ:*
یہ کہنا کہ: ایسی خاتون اپنے ساتھ سب سے  اچھے سلوک کرنے والے  خاوند کے ساتھ ہوگی، اس بارے میں کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔اور  یہ کہنا کہ: ایسی خاتون کو وہاں پر خاوند  اختیار کرنے کا موقع دیا جائے گا، جس کے ساتھ مرضی رہے، یہ بے بنیاد اور بے دلیل بات ہے اور یہ کہنا کہ عورت اپنے دنیاوی آخری خاوند کے ساتھ  ہوگی، یہی موقف درست حق  کے قریب ہے، کیونکہ ام درداء رضی اللہ عنہا کی مرفوع روایت حسن درجے کی ہوسکتی ہے، مزید برآں  اس حدیث کو حذیفہ اور اسماء کی موقوف روایات کی تائید بھی حاصل ہے، جو کہ دونوں ہی مرفوع روایت کو تقویت بخشنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اور ان دونوں آثار سے  یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ  اس موقف  کیلئے معتبر دلیل کا وجود  پایا جاتا ہے،  ویسے بھی علامہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے مرفوع حدیث کو "سلسلہ صحیحہ" (1281) میں صحیح قرار دیا ہے،

___________&________

*اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں شادی شدہ عورت جنت میں بھی اپنے خاوند ہی کے ساتھ ہوگی،لیکن جنت میں جس طرح عورت جوان خوبصورت اور دلکش ہوگی اسی طرح اسکا جنتی شوہر بھی ہر طرح کے عیب سے پاک،خوبصوت ،جوان ہو گا، اور جسکے خاوند دنیا میں زیادہ رہے ہونگے اسکو اسکے آخری خاوند کے ساتھ رکھا جائے گا البتہ جن کی شادی نہ ہوئی یا جن کے خاوند کافر رہے یا جنکے خاوند جنت میں نا گئے ان کو جنت میں انکی خواہش اور پسند کے  مَردوں کے ساتھ بیاہ دیا جائے گا اسکی دلیل اوپر ذکر کردہ وہ آیات ہیں جن میں جنت کے اندر من پسند انعامات کے ملنے کا ذکر ہے،*

ماخوذ:  از محدث فورم

واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )

اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
                      +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

Share:

Sharab (Alcohol) ya kisi aur haram chij ko Dawa ke liye istemal Jayez hai, Homepathic dawa khana ya use bechne ka Sharai Hukm.

Aise Dawao ke bare me kya Hukm hai jisme Sharab (Alcohol) mila hota hai?
Kya Dawa ki dukan (Medical Store) pe kam karna Jayez hai? Aesi dawao ke bare me kya hukm hai jisme Sharab milayi jati hai , kya Homeopath ki dawa kha sakte hai?
Sawal: kya Sharab ya kisi Aur Haram chij ko Dawa ke taur par istemal kar sakte hai? Haram Chijo se Dawa banana aur use bechne ka Sharai Hukm kya hai? Jaise Alcohol mile Homeopathic wagairah Dawa. Kuchh log falij/Laqwa wagairah ki bimari ke ilaaj ke liye kabooter ka Khoon istemal karna.

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-274"
سوال : کیا شراب یا کسی اور حرام چیز کو دوا کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں؟ اور حرام چیزوں سے ادویات بنانے اور انکو بیچنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ جیسے الکوحل ملے ہومیوپیتھک وغیرہ کے قطرے..؟ نیز کچھ لوگ فالج/لقوہ وغیرہ کی مرض کے لیے کبوتر کا خون بغرض شفاء لگاتے ہیں کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

Published Date: 25-8-2019

جواب :
الحمدللہ:

*اللہ تعالی نے انسانوں کی تخلیق کی ہے اور اس نے ہی ہر بیماری کو پیدا کیا ہے اور اسی نے ہر بیماری کا علاج بھی نازل کیا ہے*

📚نبی ﷺ کا فرمان ہے :
ما أنزَلَ اللَّهُ داءً إلَّا أنزلَ لَه شفاءً
(صحيح البخاري: حدیث نمبر-5678)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا بھی نازل نہ کی ہو۔

*یہاں علاج سے مراد حلال اور پاک چیزوں سے علاج ہے،دنیا میں علاج کے ہزاروں طریقے موجود ہیں ، ایک مسلمان کے لئے علاج کے سلسلے میں اسلامی اصول کو مدنظر رکھنا ضروری ہے،اور علاج کی بابت اسلام کا ایک اصول یہ ہے کہ جو چیز حرام ہو اس سے علاج نہیں کر سکتے ہیں*

📚 نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ اللهَ لم يجعلْ شفاءَكم فيما حرَّم عليكُم
( السلسلة الصحيحة: 4/175)

ترجمہ: بے شک اللہ تعالی نے تمہارے لئے اس چیز میں شفا نہیں رکھی جس کو تمہارے اوپر حرام قرار دیا ہے ۔ 

*یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے شراب حرام ہونے کی بنا پر ایک صحابی کو اس سے دوا بنانا منع فرما دیا*
 
حدیث میں آتا ہے کہ

📚أنَّ طارقَ ابنَ سويدٍ الجُعَفيَّ سأل النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عن الخمرِ ؟ فنهاه ، أو كره أن يصنعَها . فقال : إنما أصنعها للدواءِ . فقال: إنه ليس بدواءٍ . ولكنه داءٌ
.(صحيح مسلم: 1984)
ترجمہ: حضرت طارق بن سوید جعفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب(بنانے) کےمتعلق سوال کیا،آپ نے اس سے منع فرمایا یا اس کے بنانے کو نا پسند فرمایا،انھوں نےکہا:میں اس کو دوا کے لئے بناتا ہوں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ دوا نہیں ہے،بلکہ خود بیماری ہے۔

*اس حدیث کی روشنی میں معلوم یہ ہوا کہ جو چیز حرام ہے اس سے دوا نہیں بنا سکتے ، نہ ہی اس حرام چیز کو بطور علاج استعمال کرسکتے ہیں*

📚ایک دوسری حدیث میں نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّ اللهَ تعالى خلق الدَّاءَ و الدَّواءَ ، فتداووْا ، و لا تتداووْا بحَرامٍ
(صحيح الجامع:1662)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی نے بیماری اور علاج دونوں پیدا کیا ہے پس تم لوگ علاج کرو اور حرام چیزوں سے علاج نہ کرو۔ 

📚بلکہ آپ ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ جو حرام چیزوں سے علاج کرتا ہے اللہ تعالی اسے شفا نصیب نہیں فرمائے گا۔ 
من تداوى بحرامٍ لم يجعلِ اللهُ له فيه شفاءً
(السلسلة الصحيحة:2881)
ترجمہ: جس نے حرام نے علاج کیا اللہ اس کو شفا نہیں دے گا۔ 

*علاج کے سلسلے میں اسلام کا ایک دوسرا اصول یہ ہے کہ پاک چیزوں سے علاج کرنا ہے اور ناپاک وخبیث چیزوں سے بچنا ہے*

📚عن أبي هريرةَ قالَ :
نهى رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّه عليه وسلم، عنِ الدَّواءِ الخبيثِ
(صحيح أبي داود:3870)
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبیث دواؤں کے استعمال سے منع فرمایا ہے،

*حرام چیزوں کو بطور ادویات استعمال کرنے سے ممانعت کی حکمت*

📚اس بارے میں ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حرام چیزوں کے ذریعے علاج عقلی اور شرعی ہر دو اعتبار سے قبیح ہے:

شرعی اعتبار سے اس لیے کہ ہم پہلے اس بارے میں احادیث  وغیرہ ذکر کر چکے ہیں، جبکہ عقل کے اعتبار سے اس لیے کہ اللہ تعالی نے اس چیز کو حرام اسی لیے کیا ہے کہ وہ چیز خبیث ہے، اللہ تعالی نے اس امت کو سزا دینے کیلیے کوئی بھی اچھی چیز حرام نہیں کی ، جیسے کہ بنی اسرائیل کو سزا دینے کیلیے کچھ چیزیں ان پر حرام کی گئیں تھیں،

📚جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبَاتٍ أُحِلَّتْ لَهُمْ
ترجمہ: یہودیوں کے ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر پاکیزہ چیزیں [بطورِ سزا ] حرام کر دیں جو ان کیلیے حلال قرار دی گئیں تھیں۔[النساء: 160]

لہذا اس امت کیلیے کوئی بھی چیز حرام کی گئی ہے تو اس کی وجہ اس چیز کا خبیث ہونا ہے۔

نیز اللہ تعالی نے ان چیزوں کو حرام قرار دے کر اس امت کو مزید تحفظ اور  بچاؤ فراہم کیا ہے؛ اس لیے یہ بالکل بھی مناسب نہیں ہے کہ بیماریوں اور امراض سے شفا حرام چیزوں میں تلاش کی جائیں؛ کیونکہ اگرچہ حرام چیز بیماری کے خاتمے کیلیے مؤثر ہو سکتی ہے لیکن اس کے مضر اثرات دل میں موجودہ بیماری سے بڑی بیماری پیدا کر دیں گے؛ اس لیے کہ اس میں خباثت انتہائی طاقتور ہوتی ہے، گویا کہ حرام چیز سے علاج کرنے والا قلبی بیماری کے عوض میں جسم کو تندرستی دینے کا سودا کرتا ہے۔

اسی طرح کسی چیز کو حرام قرار دینے کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس چیز سے دور رہیں، اس سے بچنے کیلیے تمام وسائل بروئے کار لائیں، لیکن اگر حرام چیزوں سے دوا بنائی جائے گی تو اس سے ان حرام چیزوں کے بارے میں ترغیب ملے گی اور استعمال میں بھی آئیں گے جو کہ شرعی مقاصد سے عین متصادم بات ہے۔

اسی طرح : حرام چیز اس لیے حرام ہے کہ وہ بذات خود بیماری ہے جیسے کہ صاحب شریعت نے واضح لفظوں میں یہ بات بیان فرمائی ہے، اس لیے ان چیزوں کو بطور دوا بھی اپنانا جائز نہیں ۔

یہ بات بھی اس میں شامل کریں کہ: حرام چیز کا استعمال انسانی روح  اور طبیعت میں خباثت پیدا کر دیتا ہے؛ کیونکہ انسانی مزاج دوا کے مزاج کو بہت جلدی اور واضح انداز میں قبول کرتا ہے، اس لیے اگر حرام چیز کا مزاج خباثت سے بھر پور ہوا تو استعمال کنندہ کا مزاج بھی ویسا ہی ہو جائے گا!

اسی لیے اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر ایسی غذائیں، مشروب اور لباس حرام قرار دئیے ہیں جو خبیث ہیں؛ کیونکہ اس سے انسانی نفس خباثت حاصل کرتا ہے۔" انتہی
("زاد المعاد"_4ج/ص141)

_________&__________

*لہٰذا اوپر ذکر کردہ تمام احادیث سے یہ بات سمجھ آئی کہ شراب یا کسی بھی دوسری حرام چیز کو بطور دوا استعمال کرنا جائز نہیں،لیکن شراب سے بنے ایسے کیمیکل وغیرہ جنہیں ادویات کو محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے نشہ وغیرہ بھی نہیں ہوتا ، یا با امر مجبوری کسی دوسری حرام اشیاء کی اتنی معمولی مقدار استعمال کی جائے کہ انکی ماہیت تبدیل ہو جائے تو وہ ادویات استعمال کرنا جائز ہیں*

📚سعودی فتاویٰ کمیٹی سے سوال کیا گیا کہ
"الکحل یا شراب کو کھانے پینے کے علاوہ دیگر استعمال میں لانے کا کیا حکم ہے؟

مثلاً: انہیں گھر کے سامان، علاج، بطور ایندھن، صفائی، خوشبو، اور سرکہ وغیرہ بنانے کیلیے استعمال کیا جائے"

جواب:
جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو تو وہ شراب ہے، اور شراب چاہے تھوڑی ہو یا زیادہ ، اسے الکحل کا نام  دیا جائے یا کوئی اور ہر حالت میں اسے انڈیل کر ضائع کر دینا واجب ہے، نیز اسے کسی بھی استعمال کیلیے رکھنا چاہے صفائی کیلیے ہو یا چیزوں کو پاک کرنے کیلیے یا بطور ایندھن استعمال  کیلیے یا خوشبو میں ڈالنے کیلیے یا اسے سرکہ بنانے کیلیے یا کسی بھی اور استعمال کیلیے  رکھنا حرام ہے۔

البتہ جس کی زیادہ مقدار بھی نشہ آور نہ ہو  تو وہ شراب کے زمرے میں نہیں آتی، اسے صفائی ستھرائی، خوشبو، علاج، اور زخموں کو صاف کرنے اور  دیگر کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔

عبد الله بن قعود ۔۔۔ عبد الله بن غديان ۔۔۔عبد الرزاق عفیفی۔۔۔ عبد العزيز بن عبد الله بن باز " انتہی

("فتاوى اللجنة الدائمة"/22ج/ص106)

________&_________

سعودی فتاویٰ کمیٹی کی ویبسائٹ پر ایک اور سوال کے جواب میں شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ اس طرح سے جواب دیتے ہیں،

سوال: ایسی ادویات کا کیا حکم ہے جس میں الکحل کی کچھ مقدار پائی جاتی ہے؟

جواب:

اول:

ادویات کو الکحل  یعنی شراب  کیساتھ ملانا جائز نہیں ہے، کیونکہ  شراب کو بہا کر ضائع کر دینا ضروری ہے،

📚 چنانچہ ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے  ہیں:

"ہمارے پاس ایک یتیم بچے کی شراب تھی، اور جس وقت سورہ مائدہ کی آیت [شراب کی حرمت کے بارے میں]نازل ہوئی، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے استفسار کیا، اور یہ بھی بتلایا کہ وہ کسی یتیم کی ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے بھی انڈیل دو)" 

ترمذی: (1263) البانی نے اسے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

دوم:
اگر دوا کو الکحل  میں ملا دیا گیا ہو، اور اس الکحل کی مقدار اتنی زیادہ ہو کہ دوا نشہ آور بن جائے تو یہ شراب ہے، جسے پینا حرام ہے، اور اگر الکحل کی مقدار بہت ہی تھوڑی ہے کہ اس سے  نشہ  نہ چڑھے تو پھر اس دوا کا استعمال  جائز ہے۔
چنانچہ

📚 "فتاوى اللجنة الدائمة" (22/110)
میں ہے کہ:
"نشہ آور الکحل  کو ادویات میں شامل کرنا جائز نہیں ہے، اور اگر ادویات میں الکحل کو شامل کر دیا گیا ہے ، اور زیادہ مقدار میں یہ ادویات استعمال کرنے سے  نشہ  آتا ہو تو ایسی ادویات کا نسخہ لکھ کر دینا اور انہیں استعمال کرنا دونوں ناجائز ہیں، چاہے اس کی مقدار  تھوڑی ہو یا زیادہ، اور اگر بہت زیادہ مقدار میں  ان ادویات کے استعمال پر  بھی نشہ نہیں آتا تو ایسی ادویات  کا نسخہ لکھ کر دینا اور استعمال کرنا  جائز ہے۔" انتہی

📚شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"کچھ ادویات میں الکحل پایا جاتا ہے،  تو اگر اس دوا کے استعمال سے انسان کو نشہ چڑھے تو  اس دوا کا استعمال حرام ہوگا، اور اگر اس کا اثر واضح نہ ہو ، بلکہ الکحل کو دوا محفوظ بنانے کیلئے استعمال کیا جائے تو ایسی صورت میں کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ الکحل کا اس میں کوئی اثر نہیں ہے" انتہی
("لقاءات الباب المفتوح"_3/231)

______&______

*فارمیسی میں کام کرنے اور ایسی ادویات بنانے یا بیچنے کا حکم جن میں الکحل یا جیلاٹین (Gelatine) شامل ہوتی ہے.

📚حضرت عبداللہ بن عمر رضی تعالیٰ عنھما
بیان کرتے ہیں کہ

لَعَنَ اللَّهُ الْخَمْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَشَارِبَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَسَاقِيَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَبَائِعَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمُبْتَاعَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَعَاصِرَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمُعْتَصِرَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَحَامِلَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَحْمُولَةَ إِلَيْهِ  .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شراب کے پینے اور پلانے والے، اس کے بیچنے اور خریدنے والے، اس کے نچوڑنے اور نچوڑوانے والے، اسے لے جانے والے اور جس کے لیے لے جائی جائے سب پر اللہ کی لعنت ہو
(سنن ابو حدیث نمبر-3674)

*لہذا جس طرح شراب بنانا ،پینا حرام ہے اسی طرح شراب کو بیچنا بھی حرام ہے چاہے وہ شراب بطور جام استعمال کی جائے یا خالص شراب بطور دوا استعمال کی جائے*

سعودی فتاویٰ کمیٹی الاسلام سوال و جواب  پر اسی طرح کا ایک سوال کیا گیا،

سوال
میں دواخانے پر کام کرنے والا فارماسسٹ ہوں، میں اس وقت جرمنی میں مقیم ہوں اور جرمنی میں کام کے ساتھ تعلیم مکمل کرنے کیلیے اپنی ڈگری کا مساوی سرٹیفکیٹ لینے کے مرحلے میں ہوں۔ میں اس ملک میں فارمیسی پر کام کرنے کے متعلق سوال کرنا چاہتا ہوں، کیونکہ میں مجھے ایسی دوا بنانا یا فروخت کرنا پڑتی ہے جس میں سور سے ماخوذ جیلاٹین (Gelatine) یا الکحل شامل ہوتی ہے، واضح رہے کہ اگر جیلاٹین (Gelatine) کا متبادل موجود ہو تو میں یہ ادویات مسلمانوں کو فروخت نہ کرنے کی پوری کوشش کروں گا،

متعلقہ جوابات

اول:

الکحل یا خنزیر سے حاصل شدہ جیلاٹین (Gelatine) پر مشتمل ادویات بنانے  کی ملازمت کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ الکحل شراب ہے اور شراب تناول کرنا جائز نہیں ہے نہ ہی اس سے علاج کرنا جائز ہے، نیز شراب کو کھانے  یا کسی مشروب کے ساتھ ملانا بھی جائز نہیں ہے، بلکہ واجب یہ ہے کہ شراب کو تلف کر دیا جائے۔

اسی طرح جو چیز خنزیر سے حاصل کی جائے تو وہ نجس ہے اس سے اجتناب لازمی ہے بلکہ جس چیز کو لگ جائے اسے پاک کرنا بھی ضروری ہے، اس لیے کسی دوائی، کھانے یا مشروب میں اسے شامل کرنا جائز نہیں ہے۔

دوم:

اگر کوئی ادارہ دوا میں الکحل یا حرام جیلاٹین شامل کر دیتا ہے تو وہی گناہ گار ہوں گے،

پھر اس کے بعد ملاوٹ شدہ دوا کو دیکھیں گے:

اگر اس میں شامل کی جانے والی حرام چیز معمولی مقدار میں ہے  کہ اس کی بہت زیادہ مقدار بھی استعمال کی جائے تو نشہ آور نہیں ہوتی ، یا اتنی معمولی مقدار ہے کہ وہ دوا میں تحلیل ہو گئی ہے اور اس کا اپنا کوئی وجود باقی نہیں رہا کہ اس کا ذائقہ، رنگ اور بو کچھ بھی باقی نہ ہو تو پھر اسے استعمال کرنا اور اس سے علاج کرنا جائز ہے۔

📚جیسے کہ فتاوى اللجنة الدائمة (22/ 297) میں ہے کہ:
"بازار میں کچھ ادویات  یا ٹافیاں پائی جاتی ہیں جن میں انتہائی معمولی مقدار میں الکحل شامل ہے، تو کیا انہیں کھانا جائز ہے؟ واضح رہے کہ اگر کوئی شخص انہیں پیٹ بھر کر بھی کھا لے تو کبھی بھی نشے کی حد تک نہیں پہنچے گا۔

جواب: اگر ٹافی یا ادویات میں الکحل کی مقدار انتہائی معمولی ہو کہ ان کی بہت زیادہ مقدار کھانے پر بھی نشہ نہیں آتا تو پھر انہیں کھانا یا فروخت کرنا جائز ہے؛ کیونکہ اس میں الکحل کا ذائقے ، رنگت، یا بو میں سے کسی پر کوئی بھی اثر رونما نہیں ہوگا، اس لیے الکحل اس میں اپنا وجود کھو چکی ہے اور طاہر و مباح شے میں تبدیل ہو چکی ہے، لیکن ایک مسلمان کو چاہیے کہ ایسی کوئی چیز خود مت بنائے اور نہ ہی مسلمانوں کے کھانے میں اسے شامل کرے اور نہ ہی ایسا کھانا بنانے کیلیے تعاون کرے" انتہی

سوم:

ایسی ادویات فروخت کرنا جائز ہے جن میں الکحل یا حرام جیلاٹین انتہائی معمولی مقدار میں  موجود ہو یا اپنی اصلی ماہیت کھو چکی ہو۔

چنانچہ جن ادویات میں الکحل انتہائی معمولی مقدار میں  ہے ان کے جائز ہونے کے متعلق متعدد فقہی اکادمیوں ، فتوی کمیٹیوں اور عالم اسلام کے متعدد دار الافتاء کی جانب سے فتاوی صادر ہو چکے ہیں، اور سب  کے سب اس بات کو افضل  اور مستحب قرار دیتے ہیں کہ الکحل کو ادویات سے دور رکھا جائے تا کہ کسی قسم کا شبہ ہی پیدا نہ ہو۔

📚چنانچہ اسلامی کانفرنس تنظیم کے ماتحت اسلامی فقہ اکیڈمی کے اعلامیہ نمبر: 23 (11/3)  جو کہ عالمی انسٹیٹیوٹ برائے اسلامی فکر (IIIT) واشنگٹن کے سوالات کے متعلق ہے، اس میں ہے کہ:
"بارہواں سوال:

بہت سی ایسی ادویات ہیں جن میں الکحل کی مختلف مقدار پائی جاتی ہے جو کہ ایک فیصد سے لیکر 25 فیصد کے درمیان ہوتی ہے، ان ادویات میں سے اکثر ایسی دوائیاں ہیں جو کہ زکام، گلہ بند ہونے، اور کھانسی جیسی عام و معروف بیماریوں  کیلیے استعمال ہوتی ہیں، نیز ان بیماریوں کیلیے موجود ادویات میں 95 فیصد ادویات میں الکحل پائی جاتی ہے، جس کی وجہ سے الکحل سے خالی ادویات کی تلاش بہت مشکل ہو جاتی ہے، تو ایسی ادویات کھانے کا کیا حکم ہے؟

جواب:
  اگر الکحل سے پاک ادویات مسلمان کیلیے میسر نہ ہوں تو پھر الکحل ملی ہوئی ادویات مسلمان استعمال کر سکتا ہے، بشرطیکہ کہ کوئی اس پیشے کا ماہر طبیب اس کیلیے یہ دوا تجویز کرے" انتہی
("مجلۃ المجمع" شمارہ نمبر:  3، جلد نمبر:   3، صفحہ:  1087)

📚اسی طرح رابطہ عالم اسلامی کے تحت فقہی اکیڈمی  کے اعلامیہ میں ہے کہ:

"ایسی ادویات کو استعمال کرنا جائز ہے جن میں الکحل اتنی معمولی مقدار میں ہو جو اپنا وجود باقی نہ رکھ سکے، نیز الکحل ایسی صورت میں دوا میں شامل کی جائے جب دوا کی تیاری کے مراحل کیلیے کوئی دوسرا متبادل میسر نہ ہو، لیکن یہ شرط ہے کہ کوئی عادل طبیب اس دوا کو  بطور نسخہ تجویز کرے" انتہی

("قرارات المجمع الفقهي الإسلامي بمكة المكرمة" صفحہ: 341)

چہارم:

اگر کوئی ایسی دوا یا لوشن پائی جائے جس کی زیادہ مقدار استعمال کرنے پر نشہ ہونے لگے، یا اس دوائی میں خنزیر  کی چربی اس انداز سے شامل ہو کہ وہ اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہو، تو ایسی صورت میں وہ دوا استعمال کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اسے فروخت کرنا جائز ہے۔

خلاصہ کلام:

یہ ہے کہ دوا خانے اور فارمیسی میں کام کرنا اصلاً جائز ہے، نیز عام طور پر ادویات مباح چیزوں سے  بنائی جاتی ہیں ۔

اگر کسی ایسی دوا کا علم ہو کہ اس کا استعمال حرام ہے تو پھر اسے فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے، تاہم آپ فارمیسی میں اپنی ملازمت جاری رکھ سکتے ہیں لیکن حرام چیز فروخت کرنے سے اجتناب کریں گے،
(ماخذ: الاسلام سوال و جواب)

https://islamqa.info/ar/answers/271192/

_______&_________

سوال:
میں ہومیوپیتھی کے طریقہ علاج کو اپنانے کا حکم جاننا چاہتا ہوں، یہ معلوم ہو  کہ اس طریقہ علاج میں جن قطروں کو استعمال کیا جاتا ہے، انکی حفاظت کیلئے الکحل شامل کیا جاتا ہے، تو کیا ان دواؤں کا استعمال کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن

ہومیو پیتھی کیلئے استعمال ہونی والی ادویہ کے مرکبات کے بارے میں انکی اصل ماہیت کی طرف دیکھا جائے گا، اور پھر ہر ایک کے بارے میں کتاب و سنت کی روشنی میں فیصلہ ہوگا۔ مثلا

1- زہریلے مادوں کے شامل ہونے کے بارے میں یہ ہے کہ: 

"کچھ علمائے کرام  نے زہریلا مادہ  تناول کرنے سے منع کیا ہے، چاہے اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ، نقصان دہ ہو یا فائدے کی توقع ہو ہر صورت میں منع قرار دیا ہے۔

جبکہ کچھ علمائے کرام نے زہریلا مادہ تناول کرنا جائز قرار دیا ہے، تاہم انہوں نے اس کیلئے کچھ شرائط و ضوابط  بیان کیے ہیں، جائز قرار دینے والے علمائے کرام کے ہاں اس زہریلے مادے کے اثرات کو دیکھا جائے گا کہ مریض کے بدن کیلئے کس حد تک سود مند ہے، افادے کی مقدار جاننے کیلئے متعدد تجربات کئے  جائیں، تا کہ زہریلے مادے کے نتائج کے متعلق  دل بالکل مطمئن ہو، اور یہ بھی  کہ اس  زہریلے مادے کا اثر لاحق بیماری کے اثرات سے زیادہ نہ ہو۔

📚چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"جن ادویات میں زہریلا مادہ پایا جاتا ہے، ان کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ: اگر اسے کھانے کی وجہ سے موت یا دماغی توازن  خراب ہونے کا خدشہ ہو تو زہریلا مادہ  کھانا جائز نہیں ہوگا، اور اگر ظنِ غالب یہ ہو کہ  اس سے نقصان نہیں ہوگا، بلکہ فائدہ کی امید ہو،  تو اس بنا پر زہریلا مادہ تناول کرنا بہتر ہے، کیونکہ اس سے بڑی بیماری ٹل جائے گی،  یہی صورت حال دیگر ادویات کی ہے۔

تا ہم یہاں اس بات کا احتمال بھی ہے کہ زہریلا مادہ نگلنا ناجائزقرار دیا جائے ؛ کیونکہ یہ اپنے آپ کو موت کے دہانے پر ڈالنے کے مترادف ہے، لیکن صحیح بات پہلا موقف ہی ہے، کیونکہ بہت سی ادویات ایسی ہیں جن کے مضر اثرات کا خدشہ رہتا ہے، اس کے باوجود  ان کو  بڑی بیماری سے بچنے کیلئے تناول کیا جاتا ہے، اور یہ مباح ہے" انتہی مختصراً
"المغنی" (1/447)

2- ایسی ادویات کا استعمال جن میں الکحل استعمال کیا جاتا ہے، ان کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ الکحل کے بارے میں یہاں دو مسئلے ہیں:

[1] کیا الکحل نجس ہے یا پاک؟

[2] کیا الکحل کو دوائی وغیرہ  یا کسی اور چیز میں ملانے سے اس کے اثرات متنقل ہوتے ہیں، یا نہیں؟

پہلی چیز: جمہور اہل علم شراب  [الکحل] کو حسی طور پر نجس  کہتے ہیں،  جبکہ بعض  دیگر علمائے کرام  شراب کی نجاست کو معنوی نجاست کہتے ہیں۔

دوسری چیز: الکحل کو جب دیگر ادویہ کیساتھ ملایا جائے تو اسکی  تاثیر یا تو بالکل واضح، قوی اور مؤثر ہوگی،  یا نہیں ہوگی، چنانچہ اگر تو تاثیر بالکل واضح ہے تو الکحل سے بنا ہوا مرکب حرام ہوگا، اور ان ادویات کو استعمال کرنا بھی حرام ہوگا۔

اور اگر الکحل کی ذاتی تاثیر ان ادویہ میں نہ ہو تو انہیں استعمال کرنا درست ہوگا، کیونکہ الکحل کو براہِ راست پینے اور دیگر کسی چیز میں ملا کر استعمال کرنے میں فرق ہے، اس لئے کہ خالص الکحل تھوڑی مقدار میں ہو یا زیادہ ہر حالت میں ناجائز ہے، اور اگر الکحل کو کسی دوسری چیز میں ملا دیا جائے تو مندرجہ بالا تفصیل  کے مطابق حکم ہوگا۔
واللہ تعالیٰ اعلم

https://islamqa.info/ur/answers/111004/

____&_____________

آخر پر سوال میں پوچھا گیا ہے کہ فالج کی بیماری میں کبوتر کا خون بطور علاج لگانا کیسا ہے ؟

📚قرآن میں خون سے متعلق ایک آیت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خون حرام ہے ۔ فرمان الہی ہے :
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيرِ(المائدة: 3)
ترجمہ:
اور تمہارے اوپر مردار، خون اور سور کا گوشت حرام قرار دیا گیا ہے،

یہاں خون سے بہنے والا خون مراد ہے جیساکہ دوسری آیت سے اس کی وضاحت ہوتی ہے،

📚قُلْ لا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّماً عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَماً مَسْفُوحاً أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ(الانعام :ا45)

ترجمہ: کہہ دو کہ میں اس وحی میں جو مجھے پہنچی ہے کسی چیز کو کھانے والے پر حرام نہیں پاتا جو اسے کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون یا سور کا گوشت کہ وہ ناپاک ہے،

ان دونوں آیات کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے لئے کسی قسم کا بہنے والا خون حلال نہیں ہے اس لئے کبوتر کے خون سے فالج کی بیماری کا علاج کرنا جائز نہیں ہے،

کیونکہ اوپر ہم نے پڑھا ہے کی اللہ تعالیٰ نے حرام اشیاء میں شفا نہیں رکھی، اور نا ہی حرام اشیاء کو بطور دوا استعمال کرنا جائز ہے،

حالانکہ کبوتر کا گوشت اپنی جگہ کھانا حلال ہے مگر اس کا بہتا ہوا خون حلال نہ ہونے کی وجہ سے اس سے علاج کرنا جائز نہیں ہے خواہ علاج کا طریقہ کھانے یا پینے یا ملنے (لگانے) جیسا ہو۔
ہاں مچھلی کا خون ، کلیجی اور دل کا خون اور حلال جانور کو اسلامی طریقہ پر ذبح کرنے کے بعد اس کے اندرون جسم میں لگا ہوا خون حلال ہے۔۔۔۔۔۔!

((واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)))

ا📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS