find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya Aadam Alaihe Salam ki Dua Mohammad Sallahu Alaihe wasallam ke waseele se Qubool hui?

Kya Aadam Alaihe Salam ki tauba Allah ke aakhiri Nabi Ke waseele se Qubool hui thi?

سلسلہ سوال و جواب -185″
سوال_کیا آدم علیہ السلام کی توبہ محمد ﷺ کے وسیلے سے قبول ہوئی تھی؟

Published Date:8-1-2019
جواب:
الحمدللہ:

*کچھ جھوٹ لوگوں نے ایسے گھڑ رکھیں ہیں اور ان جھوٹوں کو اس قدر گھڑ گھڑ کے سچ بنا کے بیان کیا جاتا ہے کہ وہ جھوٹ لوگوں میں سچ بن کر سرائیت کر جاتا ہے،یہی کچھ حال آدم علیہ السلام کی توبہ والے قصے کا ہے،کہ نام نہاد کم علم لوگوں نے من گھڑت اور جھوٹے قصے مشہور کر کر کے یہ بات لوگوں میں سچ بنا کر مشہور کر دی ہے کہ آدم علیہ السلام کی توبہ محمدﷺ کے وسیلے سے قبول ہوئی تھی،جب کہ یہ بات سفید جھوٹ اور سرا سر قرآن کے خلاف ہے*

*آدم علیہ السلام کی توبہ کیسے قبول ہوئی*

سیدنا آدم و حواء علیہا السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کے ایک درخت کا پھل کھانے سے منع کیا گیا تھا۔ شیطان کے بہکاوے میں آ کر دونوں نے وہ پھل کھا لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا اور انہیں جنت سے نکال دیا۔ دونوں اپنے اس کیے پر بہت نادم ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کو ان پر ترس آیا اور انہیں وہ کلمات سکھا دیے جنہیں پڑھنے پر ان کی توبہ قبول ہوئی،

*اس قصے کی تفصیل قرآن خود بیان کرتا ہے،ملاحظہ فرمائیں سورہ البقرہ آئیت نمبر 34 سے 37 تک!!*

أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

🌹وَاِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓٮِٕكَةِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡٓا اِلَّاۤ اِبۡلِيۡسَؕ اَبٰى وَاسۡتَكۡبَرَ وَكَانَ مِنَ الۡكٰفِرِيۡنَ،(34)
ترجمہ:
اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں سے ہوگیا۔

🌹وَقُلۡنَا يٰٓـاٰدَمُ اسۡكُنۡ اَنۡتَ وَزَوۡجُكَ الۡجَـنَّةَ وَكُلَا مِنۡهَا رَغَدًا حَيۡثُ شِئۡتُمَا وَلَا تَقۡرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِيۡنَ(35)
ترجمہ:
اور ہم نے کہا اے آدم ! تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور دونوں اس میں سے کھلا کھاؤ جہاں چاہو اور تم دونوں اس درخت کے قریب نہ جانا، ورنہ تم دونوں ظالموں سے ہوجاؤ گے۔

🌹فَاَزَلَّهُمَا الشَّيۡطٰنُ عَنۡهَا فَاَخۡرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيۡهِ‌ وَقُلۡنَا اهۡبِطُوۡا بَعۡضُكُمۡ لِبَعۡضٍ عَدُوٌّ ۚ وَلَـكُمۡ فِى الۡاَرۡضِ مُسۡتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰى حِيۡنٍ(36)
ترجمہ:
تو شیطان نے دونوں کو اس سے پھسلا دیا، پس انھیں اس سے نکال دیا جس میں وہ دونوں تھے اور ہم نے کہا اتر جاؤ، تمہارا بعض بعض کا دشمن ہے اور تمہارے لیے زمین میں ایک وقت تک ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے

🌹فَتَلَقّٰٓى اٰدَمُ مِنۡ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيۡهِ‌ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيۡمُ‏(37)
ترجمہ:
پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ لیے، تو اس نے اس کی توبہ قبول کرلی، یقینا وہی ہے جو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ “
یہ کلمات کیا تھے؟

🌹اس آئیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں،

اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معافی نامہ کا متن جو کلمات حضرت آدم نے سیکھے تھے ان کا بیان خود قرآن میں موجود ہے ۔
( قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ )
( الاعراف:23 )
یعنی ان دونوں نے کہا اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو یقینا ہم نقصان والے ہو جائیں گے،

امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اکثر بزرگوں کا یہی قول ہے،
(تفسیر ابن کثیر)

🌹نیز مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے باسند صحیح یوں ثابت ہے :
﴿فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ﴾ قال : أي رب ! ألم تخلقني بيدك ؟ قال : بلى، قال : أي رب ! ألم تنفخ في من روحك ؟ قال : بلى , قال : أي رب ! ألم تسكني جنتك ؟ قال : بلى، قال : أي رب ! ألم تسبق رحمتك غضبك ؟ قال : بلى، قال : أرأيت إن أنا تبت وأصلحت، أراجعي أنت إلى الجنة ؟ قال : بلى، قال : فهو قوله : ﴿فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ﴾ (سورة البقرة أية 37)
”آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر لی“۔ آدم علیہ السلام نے عرض کیا : اے میرے رب ! کیا تو نے مجھے اپنے ہاتھ سے پیدا نہیں کیا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کیوں نہیں۔ عرض کیا : میرے رب ! کیا تو نے مجھ میں اپنی طرف سے روح نہیں پھونکی ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔ عرض کیا : اے رب ! کیا تو نے مجھے جنت میں نہیں بسایا تھا ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔ عرض کیا : میرے رب ! کیا تیری رحمت تیرے غضب پر غالب نہیں ہے ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔ عرض کیا : اگر میں توبہ کروں اور نیک بن جاؤں تو کیا تو مجھے دوبارہ جنت میں جگہ دے گا ؟ فرمایا : کیوں نہیں۔۔۔ پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : یہی اس آیت کی تفسیر ہے۔“ . (المستدرك علي الصحيحين للحاكم: 594/2، ح:4002 وسنده صحيح)

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھذا حديث صحيح الإسناد. ’’ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔“

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو ’’صحیح“ قرار دیا ہے۔

🌹اس آیت کریمہ کی یہی تفسیر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد، مشہور تابعی امام اسماعیل بن عبدالرحمٰن سدی (م : ۱۲۷ھ) نے بھی کی ہے۔
(التفسير من سنن سعيد بن منصور:186، وسنده صحيح)

*صحابی رسول کی اس صحیح و ثابت تفسیر کو چھوڑ کر من گھڑت، باطل اور ضعیف روایات سے آیت کریمہ کی تفسیر کرنا قرآن کریم کی معنوی تحریف کے مترادف ہے*

*یعنی آدم و حواء علیہا السلام نے اللہ تعالیٰ کو اس کی صفت مغفرت و رحمت کا واسطہ دیا جس سے انکی توبہ قبول ہوئی یہ تو تھا قرآن کریم کا بیان،*

________&_______

*لیکن بعض لوگ اس قرآنی بیان کے خلاف جھوٹی اور نامعلوم و مجہول لوگوں کی بیان کردہ نامعقول اور باہم متصادم داستانیں بیان کرتے اور ان پر اپنے عقیدے کی بنیاد رکھتے نظر آتے ہیں۔ کسی داستان میں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دیا، کسی میں ہے کہ انہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آل محمد کا واسطہ دیا اور کسی میں مذکور ہے کہ ان کو سیدنا علی و سیدہ فاطمہ، سیدنا حسن اور سیدنا حسین رضی اللہ عنہم کے طفیل معافی ملی*

یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اہل بیت کی شان میں غلوّ ہے، جو کہ سخت منع ہے۔

یہی بات نصاریٰ، سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں۔ ان کا نظریہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی غلطی عیسیٰ علیہ السلام کے طفیل معاف ہوئی۔

🚫علامہ ابوالفتح محمد بن عبدالکریم شہرستانی (م : ۵۴۸ھ) نصاریٰ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
والمسيح عليه السلام درجته فوق ذلك، لأنه الإبن الوحيد، فلا نظير له، ولا قياس له إلی غيره من الأنبياء، وھو الذي به غفرت زلة آدم عليه السلام.
’’مسیح علیہ السلام کا مقام و مرتبہ اس سے بہت بلند ہے، کیونکہ وہ اکلوتے بیٹے ہیں۔ ان کی کوئی مثال نہیں، نہ انہیں دیگر انبیائے کرام پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ انہی کی بدولت آدم علیہ السلام کی خطا معاف ہوئی تھی۔ “ (الملل والنحل:62/2، وفي نسخة:524/1)

*آدم علیہ السلام کے وسیلے پر بہت سی من گھڑت روایات پیش کی جاتی ہیں،اختصار کے باعث ان میں سے مشہور ایک دو روایات کا ہم جائزہ یہاں پہش کرتے ہیں،*

تجزیہ دلیل _1

🚫سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’جب آدم علیہ السلام سے خطا سرزد ہوئی تو انہوں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور عرض گزار ہوئے : (اے اللہ !) میں بحق محمد تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے معاف کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی : محمد کون ہیں ؟ سیدنا آدم نے عرض کی : (اے اللہ !) تیرا نام پاک ہے۔ جب تو نے مجھے پیدا کیا تھا تو میں نے اپنا سر تیرے عرش کی طرف اٹھایا تھا۔ وہاں میں نے لا إله الا الله محمد رسول الله لکھا ہوا دیکھا، لہٰذا میں جان گیا کہ یہ ضرور کوئی بڑی ہستی ہے، جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے وحی کی کہ اے آدم ! وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) تیری نسل میں سے آخری نبی ہیں اور ان کی امت بھی تیری نسل میں سے آخری امت ہو گی اور اگر وہ نہ ہوتے تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا۔ “
(المعجم الصغير للطبراني:182/2، ح:992، وفي نسخة:82/2، المعجم الأوسط للطبراني:6502)

تبصرہ: اگر یہ روایت ثابت ہوتی تو واقعی نیک لوگوں کی ذات اور شخصیت کے وسیلے پر دلیل بنتی اور فوت شدگان اولیا و صالحین کا وسیلہ بالکل مشروع ہو جاتا لیکن کیا کریں کہ یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے، اسی لیے بعض لوگوں کے حصے میں آ گئی ہے۔

(۱) اس میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم راوی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف و متروک“ ہے،
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ کہتے ہیں :
قال الذھبي: ضعفه الجمھور. ’’علامہ ذہبی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (البدرالمنير:449/1)

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
والأكثر علي تضعيفه. ’’جمہور اس کو ضعیف کہتے ہیں۔ “ (مجمع الزوائد:21/2)

حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه الجمھور. ’’اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ “ (خلاصة البدر المنير:11/1)

اسے امام احمد بن حنبل، امام علی بن المدینی، امام بخاری، امام یحییٰ بن معین، امام نسائی، امام دارقطنی، امام ابوحاتم الرازی، امام ابوزرعہ الرازی، امام ابن سعد، امام ابن خزیمہ، امام ترمذی، امام ابن حبان، امام ساجی، امام طحاوی حنفی، امام جوزجانی رحمہم اللہ وغیرہم نے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔

امام بزار رحمہ اللہ (م : ۲۹۲ھ) فرماتے ہیں :
وعبدالرحمن بن زيد قد أجمع أھل العلم بالنقل علي تضعيف أخباره التي رواھا…
’’فن حدیث کے ماہر ائمہ کا عبدالرحمٰن بن زید کی بیان کردہ روایات کو ضعیف قرار دینے پر اتفاق ہے۔ “ (مسند البزار:8763)

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
أجمعوا على ضعفه. ’’اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے۔ “ (تھذيب التھذيب لابن حجر:178،179/6)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م : ۷۲۸ھ) فرماتے ہیں :
ضعيف باتفاقھم، يغلط كثيرا. ’’باتفاقِ محدثین ضعیف ہے، بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔ “ (التوسل والوسيلة:167)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
عبدالرحمن، متفق على تضعيفه. ’’عبدالرحمٰن بن زید کو ضعیف قرار دینے پر اہل علم کا اجماع ہے۔ “ (اتحاف المھرة: 97/12، ح15163)

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
روي عن أبيه أحاديث موضوعة. ’’اس نے اپنے باپ سے منسوب کر کے موضوع (من گھڑت) احادیث روایت کی ہیں۔
(المدخل الي كتاب الا كليل:154)

امام ابونعیم الاصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدث عن أبيه، لا شيىء. ’’اس نے اپنے والد سے روایات بیان کی ہیں۔ یہ چنداں قابل اعتبار نہیں۔ “ (الضعفاء:122)

عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے یہ حدیث بھی چونکہ اپنے باپ ہی سے روایت کی ہے، لہٰذا یہ بھی موضوع (من گھڑت) ہے۔

(۲) امام طبرانی رحمہ اللہ کے استاذ محمد بن داود بن عثمان صدفی مصری کی توثیق مطلوب ہے۔
(۳) اس کے راوی احمد بن سعید مدنی فہری کی بھی توثیق چاہیے۔

آدم علیہ السلام کے وسیلے پر دلائل:
تجزیہ دلیل _2

🚫سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دعائیہ کلمات کے بارے میں پوچھا، جو سیدنا آدم علیہ السلام کو ربّ تعالیٰ نے عطا فرمائے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
سأل بحق محمد وعلي و فاطمة والحسن والحسين، إلا تبت علي، فتاب عليه.
’’آدم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور علی، فاطمہ، حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے وسیلے سے دعا کر کے اللہ سے عرض کی کہ میری توبہ قبول کر لے۔ اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کر لی۔ “
(الموضوعات لابن الجوزي:398/1، الفوائد المجموعة في الأحاديث الموضوعة للشوكاني، ص:395،394)

تبصره: یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے اور عمرو بن ثابت بن ہرمز ابوثابت کوفی راوی کی گھڑنت ہے۔ یہ راوی کسی صورت میں قابل اعتبار نہیں ہو سکتا، جیسا کہ :

(۱) علی بن شقیق کہتے ہیں :
سمعت عبدالله بن المبارك، يقول على رؤوس الناس: دعوا حديث عمرو بن ثابت، فإنه كان يسب السلف.
’’میں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو سرعام یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عمرو بن ثابت کی بیان کردہ روایات کو چھوڑ دو، کیونکہ وہ اسلاف امت کو گالیاں بکتا تھا۔ “ (مقدمة صحيح مسلم، ص:11، طبع دارالسلام)

(۲) امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بثقة ولا مأمون. ’’یہ قابل اعتبار راوی نہیں۔ “ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:223/6، وسنده حسن)

نیز انہوں نے اسے ’’ضعیف“ بھی کہا ہے۔ (تاريخ يحيی بن معين:1624)

(۳) امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بالقوي عندھم. ’’یہ راوی محدثین کرام کے نزدیک قابل اعتبار نہیں۔ “ (كتاب الضعفاء والمتروكين، ص:87)

(۴) امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف و متروک راویوں میں شمار کیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:401)

(۵) امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف الحديث، يكتب حديثه، كان رديىء الرأي، شديد التشيع.
’’اس کی حدیث ضعیف ہے، اسے (متابعات و شواہد میں) لکھا جا سکتا ہے۔ یہ برے عقائد کا حامل کٹر شیعہ تھا۔ “ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:233/6)

(۶) امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعيف الحديث. ’’اس کی حدیث ضعیف ہے۔ “ (الجرح و التعديل:323/6)

(۷) امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک الحدیث“ قرار دیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:45)

(۸) امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان ممن يروي الموضوعات، لا يحل ذكره إلا علي سبيل الاعتبار.
’’یہ من گھڑت روایات بیان کرتا تھا۔ اس کی حدیث کو صرف (متابعات و شواہد) میں ذکر کرنا جائز ہے۔ “ (كتاب المجروحين:76/2)

(۹) امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والضعف علي رواياته بين. ’’اس کی روایات میں کمزوری واضح ہے۔ “ (الكامل في ضعفاء الرجال:132/5)
_________&______

*یہ دونوں جھوٹی روایتیں قرآن کریم کے بھی خلاف ہے۔ ديكھيں :
(سورة الاعراف:23)

*ان روایات کی حقیقت ملاحظہ فرمائیں اور پھر فیصلہ کریں کہ کیا قرآن کریم کے خلاف ان من گھڑت روایات پر اعتماد کرنا کسی مسلمان کو زیب دیتا ہے؟*

اللہ تعالیٰ صحیح معنوں میں دین اسلام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے،
آمین

(مآخذ:  توحید ڈاٹ کام)
(از ابو عبداللہ صارم)

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
https://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

Share:

Khana khane se pahle kaun si Dua Padhe, Sirf Bismillah padhe ya pura Bismillah padhe.

Khana khane se pahle Kaun Si Dua Padhe?
Khane se pahle "Bismilla" kahe ya "Bismillah hi Rahman i raheem" Padhe?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-209"
سوال_کھانے کھاتے ہوئے پوری تسمیہ پڑھیں یا صرف "بسم اللہ" کہنی چاہیے؟ اور بسم اللہ پڑھنے کی فضیلت کیا ہے؟ نیز جب کوئی بچہ وغیرہ گرنے لگے تو بسم اللہ کہنا چاہیے یا کچھ اور..؟؟

Published Date:17-2-2019

جواب:
الحمدللہ:

*کھانا کھائیں یا پانی پیئیں کپڑے پہنیں یا جوتا پہنیں، حتیٰ کہ کوئی بھی اچھا اور جائز کام کرنے لگیں تو اسکے شروع میں اللہ کا نام لیں اس میں بہت برکت اور خیر ہے*

*کھانا کھاتے ہوئے تسمیہ کے مسنون الفاظ*

کھانا کھاتے ہوئے تسمیہ پڑھنے کے شرعی الفاظ: "بسم اللہ" ہیں؛

📚عمر بن ابی سلمہ رض سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں میں بچہ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش میں تھا اور ( کھاتے وقت ) میرا ہاتھ برتن میں چاروں طرف گھوما کرتا۔

اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹے! "بسم اللہ" پڑھ لیا کرو، داہنے ہاتھ سے کھایا کرو اور برتن میں وہاں سے کھایا کرو جو جگہ تجھ سے نزدیک ہو۔ چنانچہ اس کے بعد میں ہمیشہ اسی ہدایت کے مطابق کھاتا رہا.

(صحیح بخاری حدیث نمبر-5376)
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1857)

📚 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ طَعَامًا فَلْيَقُلْ بِسْمِ اللَّهِ فَإِنْ نَسِيَ فِي أَوَّلِهِ فَلْيَقُلْ بِسْمِ اللَّهِ فِي أَوَّلِهِ وَآخِرِهِ

جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو
"بسم اللہ" کہے اور اگر شروع میں کہنا بھول جائے تو (جب کھانے کے درمیان میں یاد آئے) پھر کہے:  بِسْمِ اللَّهِ فِي أَوَّلِهِ وَآخِرِهِ [میں اللہ کا نام لیتا ہوں ابتدا اور انتہا میں ]
(سنن ترمذی حدیث نمبر-1858)

البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

ان احادیث سے پتا چلا کہ کھانا وغیرہ کھانے سے پہلے "بسم اللہ " کے الفاظ کہنا سنت طریقہ ہے،

*اور اگر کوئی شخص "بسم اللہ الرحمن الرحیم" پورا پڑھ دے تو اس بارے میں علمائے کرام کی مختلف آرا ہیں، تاہم اکثر اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے*

📚چنانچہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کھانا کھاتے ہوئے "بسم اللہ الرحمن الرحیم"  پورا پڑھ لے تو یہ اچھا ہے؛ کیونکہ اس میں زیادہ کمال [کے ساتھ توصیف الہی بیان ہوئی ]ہے"
(الفتاوى الكبرى" (5/480)

📚اسی طرح : "الموسوعة الفقهية" (8/92) میں ہے کہ:
"فقہائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ کھانا کھاتے وقت تسمیہ پڑھنا سنت ہے، اور اس کے الفاظ: "بسم اللہ " اور اسی طرح "بسم اللہ الرحمن الرحیم"  ہیں۔۔۔"

📚اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تسمیہ کے الفاظ کے متعلق معرفت بہت اہمیت کی حامل ہے۔۔۔ بہتر اور افضل یہ ہے کہ : "بسم اللہ الرحمن الرحیم" کہے تاہم اگر کوئی "بسم اللہ " پر اکتفا کرے تو کافی ہے، اس سے سنت پر عمل ہو جاتا ہے"
("الأذكار" (1/231)

📚تاہم امام نووی کی اس بات پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"مجھے امام نووی کے دعوائے افضلیت کی کوئی خاص دلیل  نہیں ملی"
(ماخوذ از: فتح الباری)

📚شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"میرے نزدیک یہ ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے، کیونکہ سب سے بہترین طریقہ  سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ ہے، لہذا اگر کھانا کھاتے وقت تسمیہ کے لیے صرف "بسم اللہ" پڑھنا ہی ثابت ہے تو اس لیے اس سے زیادہ پڑھنا جائز نہیں ہے؛ چہ جائیکہ زیادہ پڑھنے کو افضل کہہ دیا جائے؛ کیونکہ افضلیت کا دعوی  ہماری ذکر کردہ حدیث سے متصادم ہے، اور یہ بات مسلمہ ہے کہ بہترین طریقہ کار سیدنا محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ ہے۔"
(دیکھیں: سلسلہ صحیحہ: (1/343)

📚اپنی فتاویٰ کی ویبسائٹ پر سعودی مفتی شیخ صالح المنجد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ دلائل کی بنا پر افضل یہی ہے کہ کھانا کھاتے وقت صرف "بسم اللہ " پڑھنے پر ہی اکتفا کیا جائے، اور اس سے زیادہ مت پڑھیں، تاہم اگر کوئی زیادہ پڑھتے ہوئے "بسم اللہ الرحمن الرحیم" پوری پڑھ لیتا ہے تو اکثر علمائے کرام کے ہاں اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے،
(الاسلام سوال جواب/نمبر_163573)

___________&_______

*بسم اللہ پڑھنے کی فضیلت​ میں بہت ساری احادیث موجود ہیں ان میں سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں*

*بسم اللہ پڑھنے سے کھانے میں برکت*

📚حضرت وحشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا '' یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم کھانا کھاتے ہیں لیکن سیر نہیں ہوتے ۔ ''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا '' شائد تم لوگ الگ الگ کھانا کھاتے ہو ؟ '' انہوں نے عرض کیا '' ہاں ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !''
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا '' کھانا اکھٹے کھایا کرو اور اس پر (بسم اللہ)
اللہ کا نام لے لیا کرو اللہ تعالی تمھارے کھانے میں برکت ڈال دیں گے ۔'
(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-3286)
(الألباني صحيح ابن ماجه ٢٦٧٤• حسن)
إسناده ضعيف[ثم تراجع الشيخ وحسنه في"صحيح الترغيب والترهيب"رقم :2128 ]

📚حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا''
جس کھانے پر بسم اللہ نہ پڑھی جائے شیطان اس کھانے میں شریک یا داخل ہو جاتا ہے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3766)

*بسم اللہ پڑھنے سے شیطان گھر سے بھاگ جاتا ہے*

📚جابر بن عبداللہ رض بیان کرتے ہیں،
انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب کوئی آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے اور گھر میں داخل ہوتے اور کھانا شروع کرتے وقت اللہ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان ( اپنے چیلوں سے ) کہتا ہے: نہ یہاں تمہارے لیے سونے کی کوئی جگہ رہی، اور نہ کھانے کی کوئی چیز رہی، اور جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہیں کرتا تو شیطان کہتا ہے: چلو تمہیں سونے کا ٹھکانہ مل گیا، اور جب کھانا شروع کرتے وقت اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے: تمہیں سونے کی جگہ اور کھانا دونوں مل گیا
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3765)

*بسم اللہ پڑھ کر بند کیا دروزاہ شیطان نہیں کھولتا*

📚حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا''( رات سونے سے قبل ) بسم اللہ پڑھ کر دروازے بند کیا کرو کیونکہ بسم اللہ پڑھ کر بند کیے گئے دروازے شیطان کھول نہیں سکتا ۔''
(صحیح بخاری حدیث نمبر-3304)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3731)

📚سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اپنا دروازہ بند کر اور(بسم اللہ کہو) اللہ کا نام لے ، بلاشبہ شیطان بند دروازہ نہیں کھول سکتا ۔ اپنا چراغ بجھا اور (بسم اللہ کہو) اللہ کا نام لو ۔ اپنا برتن ڈھانپ کر رکھ خواہ اس میں کوئی لکڑی آڑے طور پر رکھ دے اور (بسم اللہ کہہ) اللہ کا نام لے ۔ اور اپنے مشکیزے کا تسمہ باندھ کر رکھ اور (بسم اللہ کہہ) اللہ کا نام لے،
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-3731)

*جب سواری سے گرنے لگیں یا کوئی بچہ گر جائے تو بسم اللہ کہنی چاہیے*

📚ابو الملیح ایک شخص سے روائیت کرتے  ہیں، اس نے کہا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا، کہ آپ کی سواری پھسل گئی، میں نے کہا: شیطان مرے، تو آپ نے فرمایا: یوں نہ کہو کہ شیطان مرے اس لیے کہ جب تم ایسا کہو گے تو وہ پھول کر گھر کے برابر ہو جائے گا، اور کہے گا: میرے زور و قوت کا اس نے اعتراف کر لیا، بلکہ یوں کہو:
(بسم اللہ ) اللہ کے نام سے
اس لیے کہ جب تم یہ کہو گے تو وہ پچک کر اتنا چھوٹا ہو جائے گا جیسے مکھی،
(سنن ابو داؤد ،حدیث نمبر-4982)
حدیث صحیح

*بسم اللہ کہنا پردے کا باعث ہے*

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنوں کی آنکھوں اور انسان کی شرمگاہوں کے درمیان کا پردہ یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی لباس اتارے تو وہ بسم اللہ کہے
(المعجم الاوسط للطبراني :7066)
صححه الالباني

*بسم اللہ کے بغیر وضو بھی نہیں ہوتا*

📚رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی نماز نہیں جس کا وضو نہیں، اور اس شخص کا وضو نہیں جس نے وضو کے شروع میں «بسم الله»نہیں کہا“۔
( سنن ابن ماجہ حدیث نمبر-399)
(سنن ابو داؤد حدیث نمبر-101)

*یعنی کہ ہر اچھے کام سے پہلے بِسْمِ اللہِ پڑھنا باعث برکت ورحمت ہے۔کہ اس سے اُخروی ثواب کے ساتھ ساتھ دنیوی برکتیں بھی حاصل ہوتی ہیں۔لیکن اس کے برعکس اچھے کام سے پہلے بِسْمِ اللہ نہ پڑھنا بے برکتی و محرومی کا سبب ہو سکتا ہے*

🚫جیسا کہ”
حضورصلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر اہم کام جو اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع نہ کیا جائے وہ ادھورا یا ناقص رہتا ہے۔
( مسند أحمد حدیث نمبر-8712)
( أخرجه أبو داود (4840)
( السنن الكبرى» (10328)
(ابن ماجه (1894)
(کنز العمال ،2491)
*سند کے لحاظ سے یہ حدیث ضعیف ہے،اگرچہ کچھ علماء نے حسن لغیرہ بھی کہا ہے*
(واللفظ لهوضعفه الزيلعي في " تخريج الكشاف " (1/24)
وضعفه الشيخ الألباني في إرواء الغليل (1/29-32)
(كما ضعفه المحققون في طبعة مؤسسة الرسالة)

العلة الأول:
ضعف قرة بن عبد الرحمن ، قال أحمد بن حنبل : منكر الحديث جدا . وقال يحيى بن معين : ضعيف الحديث . وقال أبو زرعة : الأحاديث التى يرويها مناكير 
(تهذيب التهذيب" (8/373)

العلة الثانية :
أنه قد رجح بعض أهل العلم أن الصواب فيه : عن الزهري مرسلا ، ـ والمرسل من أقسام الحديث الضعيف ـ .

*لہذا کھانے، کھلانے،پینے پلانے،رکھنے اُٹھانے، دھونے پکانے ، پڑھنے پڑھانے، چلنے (گاڑی وغیرہ) چلانے ، اُٹھنے، اٹھانے، بیٹھنے بٹھانے۔۔۔۔۔الغرض ہر جائز کام کے شروع میں بِسْمِ اللہِ کہنے کی عادت بنا لیں*

(واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب)

🌷اپنے موبائل پر خالص قران و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،
🌷آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!
🌷سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کے لئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*
                      +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS