find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Shaaban ke mahine me Naflee (Nafil) roze rakhna kaisa hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-50"
سوال_شعبان کے مہینے میں نفلی روزے رکھنا کیسا ہے؟

Published Date:19-4-2018
جواب.!!
الحمدللہ.!!

*شعبان کے مہینہ میں زیادہ سے زيادہ روزے رکھنا مستحب اور مسنون عمل ہے،اس مہینے کے نفلی روزوں کی بہت زیادہ فضیلت ہے،*

بعض احادیث مبارکہ میں ہے کہ رسول کریمﷺ مکمل شعبان کے روزے رکھا کرتے  تھے۔

📚سنن نسائی
کتاب: روزوں سے متعلقہ احادیث
باب: اس سلسلہ میں حضرت ابوسلمہ کی حدیث
حدیث نمبر: 2177
أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،‏‏‏‏ وَاللَّفْظُ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْمَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنَّهُ كَانَ يَصِلُ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ.
ترجمہ:
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں:  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو کبھی لگاتار دو مہینہ روزے رکھتے نہیں دیکھا، البتہ آپ شعبان کو رمضان سے ملا دیتے تھے  ١ ؎۔  
تخریج دارالدعوہ:
وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصوم ١١ (٢٣٣٦)، سنن الترمذی/الصوم ٣٧ (٧٣٦)، سنن ابن ماجہ/الصوم ٤ (١٦٤٨)، (تحفة الأشراف: ١٨٢٣٢)، مسند احمد ٦/٢٩٣، ٣٠٠، ٣١١، سنن الدارمی/الصوم ٣٣ (١٧٨٠)، ویأتی عند المؤلف برقم: ٢٣٥٤ (صحیح  )  
وضاحت:  ١ ؎:
یعنی آپ شعبان میں برابر روزے رکھتے کہ وہ رمضان کے روزوں سے مل جاتا تھا، چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے روزے آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتا تھا، لیکن امت کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ شعبان کے نصف ثانی میں روزہ نہ رکھیں، تاکہ ان کی قوت و توانائی رمضان کے فرض روزوں کے لیے برقرار رہے۔  
قال الشيخ الألباني:  صحيح  
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 2175

دوسری احادیث میں وارد ہے کہ نبی کریمﷺشعبان کے اکثر ایام کا روزہ رکھتے تھے۔

📚صحیح مسلم
کتاب: روزوں کا بیان
باب: رمضان کے علاوہ دوسر مہینوں میں نبی ﷺ کے روزوں اور ان کے استحباب کے بیان میں
انٹرنیشنل حدیث نمبر-1156
اسلام360 حدیث نمبر: 2721

حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ يَحْيَی قَالَ قَرَأْتُ عَلَی مَالِکٍ عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَی عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّی نَقُولَ لَا يُفْطِرُ وَيُفْطِرُ حَتَّی نَقُولَ لَا يَصُومُ وَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَکْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ قَطُّ إِلَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَکْثَرَ مِنْهُ صِيَامًا فِي شَعْبَانَ
ترجمہ:
یحییٰ بن یحیی، مالک، ابی نضر، مولیٰ عمر بن عبیداللہ، ابی سلمہ بن عبدالرحمن، ام المومنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ روزے رکھتے رہتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے کہ آپ ﷺ افطار نہیں کریں گے اور آپ ﷺ افطار کرتے تو ہم کہتے کہ آپ ﷺ روزے نہیں رکھیں گے اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو رمضان کے مہینہ کے علاوہ کسی اور مہینہ میں پورا مہینہ روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی میں نے آپ ﷺ کو شعبان کے مہینہ کے علاوہ کسی اور مہینہ میں اتنی کثرت سے روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا۔

📚سنن نسائی
کتاب: روزوں سے متعلقہ احادیث
باب: رسول کریم ﷺ کا روزہ! میرے والدین آپ ﷺ پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
حدیث نمبر: 2356
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَمِّي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِشَهْرٍ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ لِشَعْبَانَ كَانَ يَصُومُهُ أَوْ عَامَّتَهُ.
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  کسی بھی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزہ نہیں رکھتے تھے، آپ شعبان کے پورے یا اکثر دن روزہ رہتے تھے۔  
تخریج دارالدعوہ:  تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ١٧٧٥٠) (صحیح  )  
قال الشيخ الألباني:  حسن صحيح  
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 2354

تطبیق
*بعض محدثین کی رائے یہ ہے کہ نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے علاوہ کسی اور مہینہ میں مکمل مہینہ کے روزے نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے سیدہ ام سلمہ والی حدیث کو اکثر پر محمول کیا ہے، کیونکہ اگر کوئی مہینہ کے اکثر ایام میں روزے رکھے تو لغت میں بطور مبالغہ یہ کہنا جائز ہے کہ وہ مکمل مہینہ کے روزے رکھتا ہے،جبکہ دیگر محدثین کی رائے یہ ہے کہ یہ مختلف اوقات میں تھا، کچھ سالوں میں تو آپ سارا شعبان ہی روزہ رکھا کرتے اور بعض سالوں میں شعبان کے اکثر ایام کا روزہ رکھتے۔پہلی رائے بہتر محسوس ہوتی ہے، کیونکہ،*

📚 سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
وَلَا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلَا صَلَّى لَيْلَةً إِلَى الصُّبْحِ، وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ.
میرے علم میں نہيں کہ اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ نے کبھی بھی ایک ہی رات میں پورا قرآن مجید ختم کیا ہو،اور صبح تک ساری رات ہی نماز پڑھتے رہے ہوں،اور رمضان کے علاوہ کسی اور  مہینہ کے مکمل روزے رکھے ہوں،
(صحیح مسلم،حدیث نمبر_746)

اسی طرح صحیحین میں،
📚سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے بھی مروی ہے:
مَا صَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا كَامِلًا قَطُّ غَيْرَ رَمَضَانَ،
نبی ﷺ نے رمضان کے علاوہ کسی اورمہینہ کےمکمل روزے نہيں رکھے۔
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_1971)
(صحیح مسلم،حدیث نمبر__1157)

*شعبان میں کثرتِ صیام کی حکمت*

📚سنن نسائی
کتاب: روزوں سے متعلقہ احادیث
باب: رسول کریم ﷺ کا روزہ! میرے والدین آپ ﷺ پر قربان۔ اور اس خبر کے ناقلین کا اختلاف
حدیث نمبر: 2359
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ قَيْسٍ أَبُو الْغُصْنِ شَيْخٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! لَمْ أَرَكَ تَصُومُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ ذَلِكَ شَهْرٌ يَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَيْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِيهِ الْأَعْمَالُ إِلَى رَبِّ الْعَالَمِينَ، ‏‏‏‏‏‏فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ.
ترجمہ:
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ  میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جتنا میں آپ کو شعبان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھتا ہوں اتنا کسی اور مہینے میں نہیں دیکھتا، آپ نے فرمایا:  رجب و رمضان کے درمیان یہ ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غفلت برتتے ہیں، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال رب العالمین کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، تو میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل پیش ہو تو میں روزہ سے رہوں ۔  
تخریج دارالدعوہ:
تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ١٢٠)،
مسند احمد ٥/٢٠١ (حسن  )  
قال الشيخ الألباني:  حسن  
صحيح وضعيف سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 2357

*اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائیں!*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📚نصف شعبان کے بعد نفلی روزہ رکھنے کے بارے شرعی حکم کیا ہے؟ کیا 15 شعبان کے بعد روزہ رکھنا منع ہے؟
()تفصیل کیلیے دیکھیں سلسلہ نمبر-331))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦         سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Kya Janabat ki Halat me Koi Musalman Roza rakh sakta hai aur Dusre kam kar sakta hai?

Kya Janabat ki halat me Roza rakh sakte hai?
Sawal: Kya Mard aur Aurat ke liye Janabat ki halat me ghusal ke bagair sona ya roza rakhna jayez hai? Kya Junbi aurat ke liye Ghusl ke bagair ghar ke kam kaj karna aur bacche ko doodh wagairah pilana gunah hai?

“سلسلہ سوال و جواب نمبر-55″

سوال_ کیا مرد و خواتین کے لیے جنابت کی حالت میں غسل کے  بنا سونا یا روزہ رکھنا جائز ہے؟اور کیا جنبی عورت کے لیے غسل کے بغیر گھر کے کام کاج کرنا اور بچے کو دودھ وغیرہ پلانا گناہ ہے..؟؟

Published Date:12-5-2018

جواب..!!
الحمدللہ..!!

*کم علمی کی وجہ سے لوگ جنبی حالت میں خود کو، اپنے کپڑوں کو ، اپنے بستر کو  ناپاک سمجھتے ہیں،اور کھانے کو ،کام کاج کو ہاتھ نہیں لگاتے,جب تک کہ غسل نا کر لیں، اور خواتین بھی بچوں وغیرہ کو دودھ پلانا، کھانے کو ہاتھ لگانا گناہ سمجھتی ہیں یہ سوچ کر کہ وہ ناپاک ہیں، اور کچھ عورتیں سمجھتی کہ غسل کے بنا آٹا گوندھنے سے بے برکتی ہو گی۔۔وغیرہ، حالانکہ شریعتِ محمدی اس جہالت کا رد کرتی ہے،*

*جنبی مرد یا عورت کے لیے صرف  نماز ، طواف ، اور مسجد میں ٹھہرنا حرام ہے ، لیکن اس کے علاوہ باقی تمام کام کرنے جائز ہيں*

*لہذا مرد و عورت پر کوئي حرج نہيں کہ وہ جنبی حالت میں عام روٹین کے کام کاج کریں,روزہ رکھنے کے لیے سحری کھائیں، کھانا تیار کرلے یا پھر گھر کے دوسرے کام کاج نپٹانے بھی جائز ہيں، اوراسی طرح ماں بچوں کو دودھ پلا سکتی اور انکی دیکھ بھال بھی کرسکتی ہے اس پر کئی ایک دلائل موجود ہیں*

📚حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملے تو آپ ( مصافحہ کے لیے ) ہاتھ پھیلاتے ہوئے ان کی طرف بڑھے، حذیفہ نے کہا: میں جنبی ہوں،
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مسلمان نجس نہیں ہوتا،
(سنن ابو داؤد،حدث نمبر_230)

📚ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے ایک راستے میں مجھے ملے تو میں جنبی حالت میں تھا،
اس لیے وہاں سے کھسک گیا اورجاکر غسل کیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا،
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
اے ابوھریرہ کہاں تھے ؟
ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ کہتے ہيں میں نے کہا : میں جنبی تھا اس لیے میں نے ناپسند کیا کہ ناپاکی کی حالت میں آپ کے ساتھ بیٹھوں ،
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے :
سُبْحَانَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ الْمُسْلِمَ لَا يَنْجُسُ””.
سبحان اللہ ،  مسلمان ہرگز ناپاک نہيں ہوتا ۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر_ 283)
(صحیح مسلم حدیث نمبر_ 371 )
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_231)

یعنی حالت جنابت کی نجاست( ناپاکی ) حکمی ہوتی ہے ، حسی نہیں ،
لہذا جنبی حالت میں بیٹھنے سے جگہ نجس نہیں ہوتی ، نہ ہی مصافحہ کرنے سے دوسرے کا ہاتھ ناپاک ہوتا ہے، نہ کھانا پکانے سے کھانا پلید ہوتا ہے۔

📒حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں کہتے ہیں :اس حدیث میں اس بات کا جواز پایا جاتا ہے کہ غسل جنابت کو اس کے واجب ہونے کے اول وقت میں تاخیر کی جاسکتی ہے ۔۔۔ اوراس کا بھی جواز ہے کہ جنبی شخص اپنی ضروریات پوری کرسکتا ہے ۔
(دیکھیں فتح الباری لابن حجر_ 1 / 391)

📚ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  جنبی ہوتے،
اور پانی چھوئے بغیر سو جاتے، پھر اس کے بعد اٹھتے اور غسل فرماتے۔
(سنن الترمذی،حدیث نمبر_118)
( سنن ابی داود٬حدیث نمبر_228)
(مسند احمد،حدیث نمبر_24161)
شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے،
اور یہ حدیث غسل اور وضو کے بنا سونے کے جواز کے لیے ہے،
یعنی اگر کوئی غسل اور وضو کے بغیر ہی سونا چاہے تو سو سکتا ہے،وہ گناہ گار نہیں ہو گا..!

📚ابو بکر بن عبد الرحمن کہتے ہیں ،
میرے باپ عبدالرحمٰن مجھے ساتھ لے کر
عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے،
عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح جنبی ہونے کی حالت میں کرتے ،
احتلام کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی  (بیویوں ساتھ) جماع کی وجہ سے!
پھر آپ روزے سے رہتے ( یعنی غسل فجر کی نماز سے پہلے سحری کا وقت نکل جانے کے بعد کرتے )
(صحیح بخاری،حدیث نمبر_1931)
(مسند احمد،حدیث نمبر_24062)

📚نافع کہتے ہیں میں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے اس شخص کے بارے میں پوچھا جو جنابت کی حالت میں صبح کرے، اور وہ روزہ رکھنا چاہتا ہو؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنبی ہونے کی حالت میں صبح کرتے تھے،
اور آپ کی جنابت جماع سے ہوتی نہ کہ احتلام سے، پھر غسل کرتے اور اپنا روزہ پورا کرتے
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_1704)
( یعنی روزہ جنبی حالت میں رکھا ہوتا پھر بھی اس روزے کو مکمل کرتے)

📚حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مروان نے ان کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف ایک آدمی کے بارے میں پوچھنے کے لئے بھیجا کہ وہ جنبی حالت میں صبح اٹھتا ہے کیا وہ روزہ رکھ سکتا ہے؟تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماع کی وجہ سے جنبی حالت میں بغیر احتلام کے صبح اٹھتے پھر آپ افطار نہ کرتے اور نہ ہی اس کی قضا کرتے،
(صحیح مسلم،حدیث نمبر_1109)

📚عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی  ہیں،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کی حالت میں رات گزارتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بلال رضی اللہ عنہ آتے، اور آپ کو نماز کی اطلاع دیتے تو آپ اٹھتے اور غسل فرماتے، میں آپ کے سر سے پانی ٹپکتے ہوئے دیکھتی تھی، پھر آپ نکلتے تو میں نماز فجر میں آپ کی آواز سنتی۔ مطرف کہتے ہیں: میں نے عامر سے پوچھا: کیا ایسا رمضان میں ہوتا؟ انہوں نے کہا کہ رمضان اور غیر رمضان سب برابر تھا۔
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر_1703)

📚ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ،
( ایک مرتبہ ) نماز کے لیے اقامت ہو گئی اور لوگوں نے صفیں باندھیں،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، یہاں تک کہ جب آپ  اپنی جگہ (مصلہ)پر ( آ کر ) کھڑے ہو گئے، تو آپ کو یاد آیا کہ آپ نے غسل نہیں کیا ہے، آپ نے لوگوں سے کہا: تم سب اپنی جگہ پر رہو ، پھر آپ گھر واپس گئے اور ہمارے پاس ( واپس ) آئے، تو آپ کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا اور حال یہ تھا کہ آپ نے غسل کر رکھا تھا اور ہم صف باندھے کھڑے تھے۔
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_235،234,233)

*یعنی جنابت کے بعد اور نماز سے پہلے تک آپ غسل کے بنا ہی اپنے روز مرہ کے کام کرتے رہے،*

*ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ جنبی حالت میں روزہ رکھنا، سونا، کھانا پینا، کام کاج کرنے سب کچھ جائز ہے*

*یہاں کچھ لوگ اعتراض کریں گے کہ یہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے خاص تھا٬*

وہ یہ حدیث ملاحظہ فرمائیں..!!

📚 عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں،  ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کوئی مسئلہ پوچھنے کے لئے آیا اور وہ دروازہ کے پیچھے سے سن رہی تھیں ۔
اس آدمی نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم،
میں جنبی حالت میں ہوتا ہوں کہ نماز کا وقت ہوجاتاہے تو کیا میں اس وقت روزہ رکھ سکتا ہوں؟
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں بھی تو نماز کے وقت جنبی حالت میں اٹھتا ہوں،
تو میں بھی تو روزہ رکھتا ہوں ۔
تو اس آدمی نے کہا،
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !
آپ ہماری طرح تو نہیں ہیں آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ اللہ نے معاف فرما دیئے ہیں ۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،
اللہ کی قسم مجھے امید ہے کہ میں تم میں سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں اور میں تم میں سب سے زیادہ جانتا ہوں ان چیزوں کو جن سے بچنا چاہیے
(صحیح مسلم،کتاب الصیام،حدیث نمبر_1110)

📚ایک روایت میں ہے کہ اس شخص کی اس بات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے اور فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے امید ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے تم سب میں سے زیادہ ڈرنے والا ہوں، اور مجھے کیا کرنا ہے اس بات کو میں تم سے بھی زیادہ جانتا ہوں ۔
(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر_2389)

*لیکن افضل یہ ہے کہ جنبی شخص کو غسل جنابت میں جلدی کرنی چاہیے کہ کہیں وہ غسل کرنا بھول ہی نہ جائے ، اور اس لیے بھی کہ جنبی کے قریب رحمت کے فرشتے نہیں آتے،اور اگر کھانے پینے اور سونے سے قبل وہ جنابت کی حالت میں وضو کرلے تویہ بہتر اور افضل ہے ، لیکن یہ یاد رہے کہ یہ وضو کرنا واجب نہیں بلکہ یہ جنابت میں کمی کے لیے ہے،یعنی وہ وضو کریگا تو ہاتھ اور شرمگاہ کو بھی دھو لے گا،*

*اور وضو کرنا مستحب ہے ، اس کے بارہ میں کچھ احاديث مروی ہيں*

📚عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر جنبی حالت میں کھانا یا سونا چاہتے تونماز کے وضو کی طرح وضو کرتے تھے ۔
(صحیح مسلم،حدیث نمبر_ 305 )

📚ایک روایت میں ہے..!
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمایا..!
” تين قسم كے اشخاص كے قريب فرشتے نہيں آتے، كافر كى نعش، اور خلوق خوشبو لگانے والا، اور جنبى شخص جب تك وہ وضو نہ كر لے ”
(سنن ابو داود حديث نمبر _4180 )
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 3522 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

📚 ابن عمر رضي اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم میں سے کوئي ایک جنابت کی حالت میں سونا چاہے تو جنبی حالت میں ہی سو سکتا ہے ؟
تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا :
جب تم میں سے کوئي وضو کرلے تو وہ جنبی حالت میں سوسکتا ہے ۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر_ 287)
(صحیح مسلم حدیث نمبر_306 )

📒امام نووی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
اس حدیث میں اس بات کا استحباب پایا جاتا ہے کہ جنبی شخص ان سب کاموں کے لیے اپنی شرمگاہ کو دھوئے اور وضوء کرے ، اورخاص کرجب وہ اپنی دوسری بیوی سے جماع کرنا چاہے جس سے جماع نہيں کیا اس کے لیے اپنے عضو تناسل کو دھونا یقینا مستحب ہے ۔
ہمارے ہاں اس وضوء کے واجب نہ ہونے میں کوئي اختلاف نہیں ، امام مالک اورجمہورعلماء کرام کا بھی یہی کہنا ہے ۔
(دیکھیں : شرح مسلم للنووی_ 3 / 217 )

*ان تمام احادیث مبارکہ سے پتا چلا کہ غسل کے بغیر سونا،کھانا، سحری کرنا،  سب جائز ہے،مگر غسل کر لے تو زیادہ بہتر ہے یا کم از کم جب تک غسل نہیں کرنا تب تک وضو کر لے،یہ وضو کرنا بہتر ہے واجب نہیں ہے*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

موضوع سے ملتے جلتے سوال جواب..!

📒کیا بے وضو، حائضہ اور جنبی آدمی کیلئے قرآن کو چھونا اور پڑھنا جائز ہے؟
(دیکھیے سلسلہ نمبر_94)

📒مذی اور منی خارج ہونے سے جسم اور کپڑوں کی طہارت کا کیا حکم ہو گا؟
تفصیلی جواب کے لیے دیکھیں
(سلسلہ نمبر_37)

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!


📖 سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Kya Masjid me Namaj ke liye Dusri Jamat khadi karna jayez hai?

Kya Namaj ke liye Masjid me Dusri Jamat khadi kar sakte hai?

Sawal: Masjid me Namaj ke liye Dusri jamat ka kya hukm hai? Yani jab ek masjid me Namaj jamaat ke sath ada ho jaye, fir uske bad kuchh aur log aa jaye to kya dubara jamat karwa sakte hai? Jo log dusri jamat se mana karte hai kya unki dalail jayez hai?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر-371"

سوال_ مسجد میں نماز کیلئے جماعت ثانی کا کیا حکم ہے؟ یعنی جب ایک مسجد میں نماز با جماعت ادا ہو جائے ، پھر اس کے بعد کچھ اور لوگ آجائیں تو کیا دوبارہ جماعت کروا سکتے ہیں کتاب و سنت کی رو سے واضح کریں؟ نیز  جو لوگ دوسری جماعت سے منع کرتے ہیں انکے دلائل کا جائزہ؟

Published Date: 25-2-2022

جواب..!
الحمدللہ..!

*آجکل بہت سی مساجد میں یہ یہ نوٹ لکھا دیکھنے کو ملتا ہے کہ یہاں جماعت ثانی کروانا منع ہے، بحکم انتظامیہ۔۔۔بڑے افسوس سے کہنا پڑتا کہ یہ لوگوں کو نا صرف جماعت کے ثواب سے محروم کرتے ہیں بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام کے عمل کو ترک کرنے کا حکم دیتے ہیں، کیونکہ بوقت ضرورت مسجد میں دوسری، تیسری یا چوتھی جماعت کروائی جا سکتی ہے کوئی قباحت نہیں اس میں، یہ بات ٹھیک ہے کہ جان بوجھ کر پیچھے رہنا یا فتنے کیلئے اپنے فرقے کی الگ جماعت کروانا غلط ہے، لیکن اگر کچھ لوگ کسی عذر کیوجہ سے جماعت سے پیچھے رہ جائیں، یا کوئی مسافر ہے جو لیٹ جماعت کے بعد تاخیر سے مسجد پہنچا ہے تو اسی مسجد میں دوبارہ جماعت کرانے کا جواز صحیح احادیث میں موجود ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم ، تابعین عظام اور فقہاء محدثین رحمہم اللہ کا اس پر عمل رہا ہے، اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ باجماعت نماز کی فضیلت تنہا نماز پڑھنے سے زیادہ ہے۔۔۔مسجد ہو یا گھر یا سفر کی حالت ہو یا جنگ کا ماحول نماز جماعت سے پڑھنے کی فضیلت ہے، تو جہاں جماعت کو اتنی زیادہ فضیلت و اہمیت دی گئی ہو کہ اگر کوئی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو دوسرا آ کر اسکے ساتھ مل جائے اور وہ دونوں جماعت شروع کر لیں۔۔!  اسی طرح اگر کوئی شخص جماعت کے ساتھ نماز پڑھ چکا ہے تو دوسرے آنے والے شخص کو جماعت کا ثواب دلانے کیلئے اسکے ساتھ پھر نماز پڑھ لے۔۔۔! اور اگر کوئی جماعت کیلئے ساتھی نا ملے تو گھر بیوی، بچوں کو جماعت کیلئے ساتھ کھڑا کر لے، ۔۔۔! حتی کہ حدیث میں آتا ہے اللہ اس شخص سے بہت راضی ہوتا ہے جو تنہا جنگل میں اذان و اقامت کہہ کر نماز پڑھتا ہے، اور بعض صحیح موقوف روایات میں ہے کہ فرشتے اس کے ساتھ مل جاتے ہیں جو تنہا ہونے کے باوجود جماعت کی نیت سے نماز شروع کر لے۔۔۔! بیسیوں نہیں سینکڑوں احادیث اور واقعات ایسے ملتے ہیں جن میں جماعت سے نماز پڑھنے کے فضائل و احکام بیان ہوئے ہیں، پھر بھی لوگوں کو مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے کیلئے روکنا سمجھ سے بالاتر ہے،*

*گو کہ اس مسئلہ میں بھی علمائے کرام کا اختلاف پایا جاتا ہے ۔ جیسے کہ بعض ائمہ مثلا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ اس بات کی طرف گئے ہیں کہ دوسری جماعت کرانا جائز ہے،  جبکہ امام مالک رحمہ اللہ ، امام شافعی رحمہ اللہ ، اور اصحاب الرائے وغیرہ کا موقف یہ ہے کہ دوسری جماعت مکروہ ہے۔ امام شافعی کا کہنا ہے کہ جس مسجد میں امام اور موذن مقرر ہوں وہاں دوسری جماعت کرانا مکروہ ہے ۔ اگر جماعت کرا لیں تو کفایت کرتی ہے، ملاحظہ ہو (کتاب الام للشافعی_۱/۱۳۶،۱۳۷٣) جبکہ اصحاب الرائے احناف کا کہنا ہے کہ مکروہ تحریمی ہے جیسا کہ فتاویٰ شامی وغیرہ میں مذکور ہے،*

*یہاں ہم دونوں فریقین کے دلائل کا جائزہ لیتے ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ کونسی بات قرآن و حدیث کے مطابق ہے!*
_______________&_______

*فریق اول یعنی مسجد میں جماعت ثانی کے جواز کے دلائل درج ذیل ہیں* ​

*پہلی دلیل*

جامع ترمذی
کتاب: نماز کا بیان
باب: اس مسجد میں دوسری جماعت جس میں ایک مرتبہ جماعت ہوچکی ہو
حدیث نمبر: 220
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ النَّاجِيِّ الْبَصْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ وَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏  أَيُّكُمْ يَتَّجِرُ عَلَى هَذَا ، ‏‏‏‏‏‏فَقَامَ رَجُلٌ فَصَلَّى مَعَهُ. قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي أُمَامَةَ،‏‏‏‏ وَأَبِي مُوسَى،‏‏‏‏ وَالْحَكَمِ بْنِ عُمَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ مِنَ التَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ لَا بَأْسَ أَنْ يُصَلِّيَ الْقَوْمُ جَمَاعَةً فِي مَسْجِدٍ قَدْ صَلَّى فِيهِ جَمَاعَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ أَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق وقَالَ آخَرُونَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ يُصَلُّونَ فُرَادَى، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ سُفْيَانُ،‏‏‏‏ وَابْنُ الْمُبَارَكِ،‏‏‏‏ وَمَالِكٌ،‏‏‏‏ وَالشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ يَخْتَارُونَ الصَّلَاةَ فُرَادَى، ‏‏‏‏‏‏وَسُلَيْمَانُ النَّاجِيُّ بَصْرِيٌّ وَيُقَالُ:‏‏‏‏ سُلَيْمَانُ بْنُ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو الْمُتَوَكِّلِ اسْمُهُ:‏‏‏‏ عَلِيُّ بْنُ دَاوُدَ.
ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ  ایک شخص  (مسجد)  آیا رسول اللہ  ﷺ  نماز پڑھ چکے تھے تو آپ نے فرمایا:  تم میں سے کون اس کے ساتھ تجارت کرے گا؟ ایک شخص کھڑا ہو اور اس نے اس کے ساتھ نماز پڑھی ۔  
امام ترمذی کہتے ہیں:
  ١- ابو سعید خدری ؓ کی حدیث حسن ہے، 
٢- اس باب میں ابوامامہ، ابوموسیٰ اور حکم بن عمیر ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں،
٣- صحابہ اور تابعین میں سے کئی اہل علم کا یہی قول ہے کہ جس مسجد میں لوگ جماعت سے نماز پڑھ چکے ہوں اس میں  (دوسری)  جماعت سے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں، 
٤- اور بعض دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ وہ تنہا تنہا نماز پڑھیں، یہی سفیان، ابن مبارک، مالک، شافعی کا قول ہے، یہ لوگ تنہا تنہا نماز پڑھنے کو پسند کرتے ہیں۔  
تخریج دارالدعوہ:  سنن ابی داود/ الصلاة ٥٦ (٥٧٤)،  ( تحفة الأشراف: ٤٢٥٦)، مسند احمد (٣/٦٤، ٨٥)، سنن الدارمی/الصلاة ٩٨ (١٤٠٨) (صحیح)  
قال الشيخ الألباني:  صحيح، المشکاة (1146)، الإرواء (535)، الروض النضير (979) 

سنن ابو داؤد میں یہ الفاظ ہیں!

سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: مسجد میں دو مرتبہ جماعت کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 574
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْصَرَ رَجُلًا يُصَلِّي وَحْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَا رَجُلٌ يَتَصَدَّقُ عَلَى هَذَا فَيُصَلِّيَ مَعَهُ.
ترجمہ:
ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے ایک شخص کو اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا:  کیا کوئی نہیں ہے جو اس پر صدقہ کرے، یعنی اس کے ساتھ نماز پڑھے ۔  
تخریج دارالدعوہ:  سنن الترمذی/الصلاة ٥٠ (٢٢٠)، (تحفة الأشراف: ٤٢٥٦)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٣/٦٤، ٨٥)، سنن الدارمی/الصلاة ٩٨ (١٤٠٨) (صحیح  )''

یہی حدیث انس بن مالک سے سنن دار قطنی ۱١/۲۷۷ میں مروی ہے جس کے بارے میں علامی نیومی حنفی نے آثار السنن ١۱/ ۲۶۷٢ لکھا '' اسنادہ، صحیح ''علامہ زیلعی نے نصب الرایہ میں ٢۲/ ۵۸٨ پر لکھا ( وسندہ جیدا )
اسی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس کی سند کو جید قرار دیا ہے

یہ روایت کئی طرق سے مروی ہے،
امام حاکم نے مستدرک حاکم میں اس روایت کو صحیح کہا ہے اور تلخیص میں امام ذہبی نے حاکم کی موافقت کی ہے ۔
بیہقی میں ہے کہ ابو بکر نے اس کے ساتھ نماز ادا کی ۔ علامہ زیلعی حنفی نے نصب الرایہ میں اور علامہ سیوطی نے فوت المغتذی میں لکھا ہے کہ جس آدمی نے ساتھ کھڑے ہو کر نماز ادا کی تھی وہ ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ تھے۔

تخریج الحدیث!
ملاحظہ ہو!
( المنتقی لا بن جا رود (۳۳۰)
ابو داؤد، (۵۷۴) ترمذی (۲۲۰) (دارمی ١۱/ ۲۵۸،) (مسند احمد ۳٣/۶۴،٨۸۵٥،۵/ ۴۵٥) (مسند ابی یعلی ٢۲/ ۳۲۱) (ابن حبان _٤۴۳۶٣، ۴۳۷، ۴۳۸) ، (طبرانی صغیر ١۱/ ۲۱۸٢٨،۲۳۸٣) (بہیقی ۳٣/۶۹)،( المحلی ۴٤/ ۲۳۸٢٨)، (حاکم ١۱/ ۲۰۹)،( شرح السنۃ ۳٣/۴۳۶ ٣) (ابن ابی شیبہ ۲٢/۳۲۲٢٢،)
(ابن خزیمہ (١۱۶۳۲٢)،  (نصب الرایۃ ۲٢/ ۵۷) (التدوین فی اخبار قوین للرافعی ٢۲/ ۲۵۸)

*اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جماعت ثانیہ مسجد میں جائز ہے اور اگر کوئی شخص اس وقت مسجد میں آجائے جب جماعت ہو چکی ہو تو وہ دوبارہ کسی کے ساتھ مل کر جماعت کی صورت میں نماز ادا کرے تو یہ صحیح مشروع اور جائز ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ( ایکم یتجر علی ھذا الا رجل یتصدق علی ھذا )اس پر شاہد ہیں۔*
*اس حدیث میں صراحۃً یہ بات موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جماعت سے نماز پسند فرمائی، اس کے لیے جماعت سے نماز پڑھ چکے آدمی کو ترغیب دی کہ جا کر ساتھ پڑھ لے تاکہ پیچھے آنے والے کی نماز جماعت سے ہوجائے، تو جب پیچھے رہ جانے والے ہی کئی لوگ ہوں تو کیوں نہ وہ دوسری جماعت کروا کے نماز پڑھیں،*
«فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الأَبْصَارِ» (سورة الحشر: 2 )
  اور یاد رہے فرض نماز کی طبیعت ہی اصلاً جماعت ہ,،

امام بغوی رحمہ اللہ شرح السنہ میں اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں :
" و فيه دليل على أنه يجوز لمن صلى فى جماعة أن يصليها ثانيا مع جماعة  آخرين و أنه  يجوز أقامة  الجماعة فى مسجد مرتين  وهو  قول غير واحد من الصحابة و التابعين"
'' یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جس آدمی نے ایک دفعہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھ لی ہو ، اس کیلئے جائز ہے کہ وہ دوسری مرتبہ دوسرے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کر لے ۔ اسی طرح مسجد میں دوبارہ جماعت قائم کرنا بھی جائز ہے۔ یہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ کا قول ہے''

امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
" و لا يكره إعادة الجماعة فى المسجد و معناه فى المسجد  ومعناه  أنه إذا صلى إمام الحى وحضرها  جماعة وهذا قول ابن مسعود و عطاء و الحسن والنخعى و قتادة و إسحاق"
'' ایک مسجد میں دوسری کرانا مکروہ نہیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب محلے کے امام نے نماز پڑھ لی اور دوسری جماعت حاضر ہو گی تو اس کیلئے مستحب ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھیں ۔ یہ قول عبداللہ بن مسعود، عطاء ، نخعی، حسن، قتادہ، اور اسحاق بن راھویہ رحمہ اللہ کا ہے ''۔ ( المغنی ٣۳/۱۰)
پھر امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے اس کے بعد حدیث ابی سعید بھی ذکری کی :

*دوسری دلیل*

حضرت انس رضی اللہ عنہ بھی دوسری جماعت کے قائل تھے،

[عن الجعد أبي عثمان:] مَرَّ بِنا أَنَسُ بْنُ مالِكٍ رضيَ اللهُ عنهُ في مسجدِ بَنِي ثَعْلَبَةَ فقال: أَصَلَّيْتُمْ؟ قُلْنا: نَعَمْ، وذلكَ في صلاةِ الصُّبْحِ، فأمرَ رجلًا فَأَذَّنَ وأقامَ، ثُمَّ صلّى بِأصحابِهِ.
(ابن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢)، المطالب العالية ١‏/١٩٦  •  صحيح موقوف  )
(ابن حجر العسقلاني (ت ٨٥٢)، تغليق التعليق ٢‏/٢٧٦  •  إسناده صحيح موقوف)
( أخرجه مطولا بنحوه عبد الرزاق (٣٤١٧)،
وابن أبي شيبة (٧١٦٩) بنحوه، وأبو يعلى (٤٣٥٥) باختلاف يسير
'' ابو عثمان الجعد سے مروی ہے کی بنو ثعلبہ کی مسجد میں انس بن مالک ہمارے پاس سے گزرے تو کہا کیا تم نے نماز پڑھ لی ہے ؟ تو کہتے ہیں کہ میں نے کہا ہاں اور وہ صبح کی نماز تھی ۔ آپ نے ایک آدمی کو حکم کیا، اس نے اذان و اقامت کہی ، پھر آپ نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی، ''
( یہ روایت بخاری میں تعلقیاً ۲٢/ ۱۳۱١٣١ مع فتح الباری اور مسند ابی یعلی(٤٣۴۳۵۵٥٥) ٨۷/ ۳۱۵، ابن ابی شیبہ ۲٢/۳۲۱٢١، بیہقی ٣۳/ ۷۰، مجمع الزوائد٢۲/۴ ٤، المطالب العالیہ ١۱/ ۱۱۸(٤۴۲۶٢٦) تغلیق التعلیق ٢۲/۲۷۶ ٦، عبدالرزاق ۲٢/۲۹۱ ٢٩١ طبقات المحدثین لابی الشیخ ١۱/۴۰۲٠٢ ، ۴۰۳٣ میں موصولاً مروی ہے۔ )

*تیسری دلیل*
ابن ابی شیبہ میں ہے کہ :
( إبن مسعود دخل المسجد و قد صلوا فجمع بعلقمة و مسروق و الأسود))
'' عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگوں نے نماز پڑھ لی تھی تو آپ نے علقمہ ، مسروق اور اسود کو جماعت کرائی ''۔
(ابکار المنن ص ٢۲۵۳٣، اس کی سند صحیح ہے ۔ (مرعاۃ شرح مشکوۃ ٤/ ١٠٤)

*چوتھی دلیل*

صحیح بخاری
کتاب: اذان کا بیان
باب: باب: نماز باجماعت کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 647
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي الْجَمَاعَةِ تُضَعَّفُ عَلَى صَلَاتِهِ فِي بَيْتِهِ وَفِي سُوقِهِ خَمْسًا وَعِشْرِينَ ضِعْفًا، ‏‏‏‏‏‏وَذَلِكَ أَنَّهُ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الْمَسْجِدِ لَا يُخْرِجُهُ إِلَّا الصَّلَاةُ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَخْطُ خَطْوَةً إِلَّا رُفِعَتْ لَهُ بِهَا دَرَجَةٌ وَحُطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا صَلَّى لَمْ تَزَلِ الْمَلَائِكَةُ تُصَلِّي عَلَيْهِ مَا دَامَ فِي مُصَلَّاهُ، ‏‏‏‏‏‏اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَزَالُ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاةٍ مَا انْتَظَرَ الصَّلَاةَ.
ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوصالح سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ ؓ سے سنا کہ  نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا کہ آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز گھر میں یا بازار میں پڑھنے سے پچیس درجہ زیادہ بہتر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص وضو کرتا ہے اور اس کے تمام آداب کو ملحوظ رکھ کر اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر مسجد کا راستہ پکڑتا ہے اور سوا نماز کے اور کوئی دوسرا ارادہ اس کا نہیں ہوتا، تو ہر قدم پر اس کا ایک درجہ بڑھتا ہے اور ایک گناہ معاف کیا جاتا ہے اور جب نماز سے فارغ ہوجاتا ہے تو فرشتے اس وقت تک اس کے لیے برابر دعائیں کرتے رہتے ہیں جب تک وہ اپنے مصلے پر بیٹھا رہے۔ کہتے ہیں اللهم صل عليه،‏‏‏‏ اللهم ارحمه‏ اے اللہ! اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ اے اللہ! اس پر رحم کر اور جب تک تم نماز کا انتظار کرتے رہو گویا تم نماز ہی میں مشغول ہو۔۔

اسی طرح ایک جگہ ہے کہ!

صحیح بخاری
کتاب: اذان کا بیان
باب: باب: نماز باجماعت کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 645
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً.
ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہوں نے نافع سے، انہوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا کہ جماعت کے ساتھ نماز اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔

*یہ حدیث اپنے عموم کے اعتبار سے پہلی اور دوسری دونوں جماعتوں کو شامل ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی آدمی کی پہلی جماعت فوت ہو جائے تو وہ دوسری جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے تو مذکورہ فضیلت پا لے گا*

*مذکورہ بالا احادیث و آثار صریحہ سے معلوم ہوا کہ مسجد میں دوسری جماعت کرا لینا بلا کراہت جائز و درست ہے اور یہ موقف اکابر صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کا تھا*۔

_______&_______
_______&_______

*فریق ثانی یعنی دوسری جماعت کو مکروہ سمجھنے والوں کے دلائل​ اور انکا جائزہ*

پہلی دلیل:
١- [عن أبي بكرة نفيع بن الحارث:] أنَّ رسولَ اللهِ صلّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ أقبلَ من بعضِ نواحي المدينةِ يريدُ الصلاةَ فوجد الناسَ قد صلوا فانصرفَ إلى منزلِه فجمع أهلَه ثم صلى بهم
ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ :
'' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے اطرف سے آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کرانا چاہتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر چلے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر والوں کو جمع کیا، پھر ان کے ساتھ نماز پڑھی ''
(الکامل لا بن عدی ٦۶/ ۳۲۹۸، مجمع الزوائد٢۲/۴۸٨، طبرانی اوسط (٤۴۷۳۹٣٩) علامہ البانی نے اس سند کو حسن قرار دیا ہے تمام المنہ ۱١/۱۵۵٥)
اور علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس کو طبرانی نے معجم کبیر و اوسط میں بیان کیا ہے۔ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔
اس سے یہ دلیل کی جاتی ہے کہ اگر دوسری جماعت بلا کر اہت جائز ہوتی ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کی فضیلت کو ترک نہ کرتے یعنی مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے کی فضیلت عام مسجد میں نماز ادا کرنے سے بہت زیادہ ہے۔

*دلیل کا جائزہ*
اول:
مولانا عبید اللہ مبارک پوری رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں ' اس حدیث سے دوسری جماعت کی مکروہیت پر دلیل پکڑنا محل نظر ہے۔ اسلئے کہ یہ حدیث اس بارے میں نص نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر میں نماز پڑھائی ہو بلکہ اس بات کا بھی احتمال موجود ہے کہ آپ نے انہیں نماز مسجد میں پڑھائی ہو ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر کی طرف جانا گھر والوں کو جمع کرنے کیلئے تھا، نہ کہ گھر میں جماعت کروانے کیلئے ، توا س صورت میں حدیث اس مسجد میں جس کا موذن و امام متعین ہو، دوسری جماعت کے استحباب کی دلیل ہو گی....!
بہر حال اس کیلئے مسجد میں دوسری جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کو مکروہ کہنا اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ یہ حدیث کے بعد میں آنے والے اکیلے آدمی کی اس مسجد میں نماز کی کراہت پر دلالت نہیں کرتی ۔ اگر اس حدیث سے مسجد میں دوبارہ جماعت کے مکروہ ہونے پر دلیل کی جائے تو پھر اس سے یہ بھی ثابت ہو گا کہ اکیلے بھی اس مسجد میں نماز نہ پڑھے ۔
( مرعاۃ ۴٤/۱۰۵ ٥)

دوم!
اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کو گھر میں ہی جماعت کرائی تو اس سے مسجد میں دوبارہ جماعت کی کراہت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اتنہائی آخری بات جو ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک آدمی ایسی مسجد میں آئے جس میں جماعت ہو چکی ہو اور اسکو مسجد میں کوئی دوسرا شخص نا ملے جسکی نماز رہتی ہو تو جماعت کا ثواب حاصل کرنے کیلئے اپنے گھر والوں کے ساتھ گھر میں جماعت کروا کے نماز پڑھ سکتا ہے،

سوم:
اگرچہ علامہ البانی نے اس کی سند کو حسن کہا ہے مگر یہ محل نظر ہے کیونکہ اس کی سند میں بقیہ بن الولید مدلس راوی ہیں اور یہ تدلیس التسویہ کرتا ہے جو کہ انتہائی بڑی تدلیس ہے اور اس کی تصریح بالسماع مسلسل نہیں ہے۔

دیکھیں!
ابن عدي (ت ٣٦٥)، الكامل في الضعفاء ٨‏/١٤٢  •  [فيه] معاوية الأطرابلسي في بعض رواياته ما لا يتابع عليه

المعلمي (ت ١٣٨٦)، تراجم منتخبة من التهذيب ١٤‏/١٩٣  •  [فيه] الوليد بن مسلم مدلس

*دوسری دلیل*
( عن إبراهيم أن علقمة و الأسود أقبلا مع ابن مسعود إلى مسجد فاستقبلهم الناس قد صلوا فرجع بهم إلى البيت فجعل أحدهما عن يمينه والأخر عن شماله ثم صلى بهما .))
'' ابراہیم نخفی سے مروی ہے کہ علقمہ اور اسود عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ مسجد کی طر ف آئے تو لوگ انہیں اس حالت میں ملے کہ انہوں نے نماز پڑھ لی تھی توابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ان دونوں کے ساتھ گھر کی طرف چلے گئے، انہوں نے ایک کو دائیں جانب اور دوسری کو بائیں جانب کیا پھر ان کو نماز پڑھائی ''(عبدالرزاق ٣٨۳۸۸۳٨٣)٢۲/ ۴۰۹، طبرانی کبیر(٩۹۳۸۰٣٨٠)

*جائزہ*
اس روایت کی سند میں حماد بن ابی سلیمان ہیں جو مختلط اور مدلس تھے۔
(ملاحظہ ہو طبقات المدلسین ٣٠)

 اور یہ روایت معنعن ہے اور مدلس کی عن عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے۔
نیز حماد کے اختلاف سے قبل تین راویوں کی روایت حجت ہوتی ہے۔

علامہ ہیثمی فرماتے ہیں:
ولا يقبل من حديث حماد  إلا ما رواه عنه القدماء شعبة وسفيان  الثورى والدستوائى ومن عدا هؤلاء رووا عنه بعد الإختلاط( مجمع الزوائد 1/125)
 '' حماد بن ابی سلیمان کی وہ روایت قبول کی جائے جو اس سے قدماء یعنی اختلاط سے پہلے والے راویوں کی رویات ہوگی جیسے شعبہ ، سفیان ثوری اور ہشام دستوائی اور جو ان کے علاوہ اس سے روایت کریں وہ بعد از ختلاف ہے ۔''
 تقریباً یہی بات امام احمد بن جنبل  رحمہ اللہ  سے منقول ہے۔
(ملا حظہ ہو شرح علل  ترمذی لابن رجب ص ۳۲۶ وغیرہ )
اور یہ روایت حماد سے معمر نے بیان کی ہے لہٰذا یہ بھی قابل حجت نہیں ۔

دوسری بات یہ ہے کہ اوپر ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مسجد میں دوبارہ جماعت کروانا صحیح سند کے ساتھ نقل ہوا ہے۔

________&_____________

*لہٰذا مذکورہ بالا توضیحات سے معلوم ہوا کہ دوسری جماعت میں کراہت کے بارے میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں بلکہ صحیح روایت سے دوسری جماعت کا جواز نکلتا ہے اور یہی جواز والا مذہب اقرب الی الصواب ہے*

مولانا عبیداللہ رحمان  رحمہ اللہ  فرماتے ہیں ۔
" فأرجع الأقوال عندنا هو أنه يجوز و يباح من اتى مسجدا قد صلى فيه بإمام راتب وهو لم يكن صلاها وقد  فاتته الجماعة  لعذر أن يصلى بالجماعة  والله أعلم "
( مرعاة شرح مشكوة 4/107)
'' ہمارے نزدیک راحج قول یہ ہے کہ جو آدمی مسجد میں اس حال میں پہنچا کہ امام معین کے ساتھ نماز ادا ہو چکی ہو اور اس نے وہ نماز نہیں پڑھی اور عذر کی بناء پر اس کی جماعت فوت ہو گئی تو اس کیلئے جائز و مباح ہے کہ وہ جماعت ثانیہ کے ساتھ نماز ادا کر لے ''۔

*بہر صورت یہ یاد رہے کہ بغیر عزر کے جماعت سے پیچھے رہنا اور خواہ مخواہ سستی اور کاہلی کا شکار ہو کر دوسری جماعت کا رواج ڈالنا درست نہیں کیونکہ دوسری جانب جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  پسند کرتے تھے کہ مومنوں کی نماز اکھٹی ہو*

جیسا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے :
(( لقد أعجبنى أن تكون صلاة المؤمنين واحدة حتى لقد هممت أن أبث رجالا فى الدور فيوذنون الناس بحين الصلوة ))(ابن خزيمه 1/199 . ابو داؤد (506) 1/138)
    '' مجھ یہ پسند ہے کہ مومنوں کی نماز ایک ہو یہاں تک کہ میں نےا رادہ کیا ہے کہ کچھ آدمیوں کو محلوں میں پھیلا دوں اور وہ لوگوں کو نماز کے وقت کی اطلاع دیں ۔''

اس کے علاوہ بھی جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی تاکید میں کئی ایک احادیث صحیحہ صریحہ وارد ہوئی ہیں جن سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہمیں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ سوائے عذر شرعی کے جماعت سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے کیونکہ اگر ہم گھر سے نماز با جامعت کے ادارے سے نکلتے ہیں اور ہمارے آتے آتے نماز فوت ہو جاتی ہےتومسجد میں آکر ادا کرنے سے جماعت کاثواب مل جائے گا، جیسا کہ حدیث صحیحہ میں وار دہے کہ،

 سنن ابوداؤد
کتاب: نماز کا بیان
باب: آدمی نماز کے ارادہ سے مسجد کے لئے نکلا مگر جماعت ہوگئی تو بھی ثواب ملے گا
حدیث نمبر: 564
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ طَحْلَاءَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحْصِنِ بْنِ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَوْفِ بْنِ الْحَارِثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ ثُمَّ رَاحَ فَوَجَدَ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا، ‏‏‏‏‏‏أَعْطَاهُ اللَّهُ جَلَّ وَعَزَّ مِثْلَ أَجْرِ مَنْ صَلَّاهَا وَحَضَرَهَا لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَجْرِهِمْ شَيْئًا.
ترجمہ:
ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  جس نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا، پھر مسجد کی طرف چلا تو دیکھا کہ لوگ نماز پڑھ چکے ہیں تو اسے بھی اللہ تعالیٰ جماعت میں شریک ہونے والوں کی طرح ثواب دے گا، اس سے جماعت سے نماز ادا کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی ۔  
تخریج دارالدعوہ:  سنن النسائی/الإمامة ٥٢ (٨٥٦)، (تحفة الأشراف: ١٤٢٨١)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٢/٣٨٠) (صحیح  )

*لہٰذا بغیر عذر شرعی کے جماعت سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے اور اگر کسی عذر کی بنا پر جماعت سے رہ گیا اور پھر دیگر افراد کے ساتھ مل کر دوسری جماعت کرا لی تو بلا کراہت جائز ہے*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

مآخذ:
(آپکے مسائل اور انکا حل، جلد -1
محدث فتویٰ )
کچھ کمی بیشی کے ساتھ
_______&______

سوال- کیا باجماعت نماز ادا کرنا فرض ہے؟اور کیا اذان کی آواز سن کر بغیر کسی شرعی عذر کے گھر میں نماز پڑھنا جائز ہے؟
(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-7)

سوال: گھر میں عورتوں کی جماعت کا کیا حکم ہے؟کیا خواتین کا مسجد میں تراویح پڑھنا افضل ہے یا گھر میں؟ اور کیا خواتین گھر میں نماز باجماعت ادا کر سکتی ہیں؟ اور اسکا طریقہ کیا ہو گا؟ کیا عورتیں بھی جماعت کے لیے اذان اور اقامت کہیں گی؟ نیز کیا امامت کے لیے عورت کا حافظہِ قرآن ہونا ضروری ہے؟
(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-244)

سوال_نماز میں صف بندی کے مراتب کیا ہیں؟یعنی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والے مقتدی اپنی صفیں کس ترتیب سے بنائیں گے؟ کیا بچے پہلی صف میں کھڑے ہو سکتے؟ نیز اگر کوئی شخص اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گھر میں جماعت کروائے تو وہ کس ترتیب سے کھڑے ہونگے؟ نیز کسی غیر محرم مرد ساتھ تنہا عورت کی جماعت ہو جائے گی؟
(جواب کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-329)

اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے “ADD” لکھ کر نیچے دیئے گئے پر سینڈ کر دیں،
آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!
سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے
کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں
یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ
+923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

الفرقان اسلامک میسج سروس کی آفیشل اینڈرائیڈ ایپ کا پلے سٹور لنک 

https://play.google.com/store/apps/details?id=com.alfurqan

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS