find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 15 Maulvi Syed Maqbool Ahmad Samdani Ke Naam Question Answer | Bihar Board Urdu Sawal Jawab

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 15 Maulvi Syed Maqbool Ahmad Samdani Ke Naam | Mehdi Afaadi | Question Answer | Bihar Board Urdu Question Answer | Class 10 Urdu Question Answer  | Bihar Board Urdu Sawal Jawab

Maulvi Syed Maqbool Ahmad Samdani Ke Naam | Bihar Board 10th Urdu Question Answer Chapter 15

#BSEB #10th #Urdu #GuessPaper #UrduGuide #BiharBoard #SawalkaJawab #اردو #مختصر_سوالات 

BSEB 10th Urdu Darakhshan Chapter 15 , bihar board urdu Swal Jawab, Urdu question Answer, Matric Urdu Question Answer, Darakhshan Swal Jawab, Urdu gue
B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 15 Maulvi Syed Maqbool Ahmad Samdani Ke Naam

15 مولوی سید مقبول احمد صمدانی کے نام 
مہدی افادی

مختصر ترین  سوالات

(1) مہدی افادی کب اور کہاں پیدا ہوئے؟
جواب - مہدی افادی کی پیدائش  1828 میں گورکھپور میں ہوئی ۔

(2) مہدی افادي نے کتنی شادیاں کی تھی؟
جواب - تین

(3) مہدی آفادی کو اردو کے علاوہ کن کن زبانوں میں مہارت حاصل تھی؟
جواب - انگریزی اور فارسی میں

(4) مہدی افادی کا اصل نام کیا تھا ؟
جواب - مہدی حسن

(5) مہدی افادی کی بیگم کا نام کیا تھا اور وہ کس نام سے مشہور تھی؟
جواب - مہدی افادی کی تیسری بیگم کا نام عظیم النسا تھی جو بیگم مہدی کے نام سے معروف تھی۔

(6) مہدی افادی کیسے گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے؟
جواب - اُن کا تعلق معزز شیوخ گھرانہ سے تھا۔

(7) مہدی حسن کے والد کیسے شخص تھے؟
جواب - اُن کے والد انتہائی مذہبی آدمی تھے۔ وہ پیشے (Perofessional)  کے اعتبار سے کورٹ انسپکٹر تھے۔

(8) مہدی حسن کیسے شخص تھے؟
جواب - مہدی حسن کے مضامین روشن خیالی کا تصوّر فراہم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اُن میں جذبات اور احساسات کی کیفیات بھی بے پناہ ہیں۔ ان کے مضامین دلکشی بہت زیادہ ہے۔  مہدی کی نظر حسن و عشق کے معاملات پر رہی تھی۔ چناچہ اُنہونے ایک مضمون بعنوان فلسفہ حسن و عشق  یونانیوں کی نظر سے مرتب کیا ہے۔

مختصر سوالات۔

(1) مکتوب کی تعریف کیجئے۔
جواب - مکتوب یا خطوط نگاری خیریت اور ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کا ایک روایتی ذریعہ ہے۔ مکاتب یا خطوط بلکل ذاتی نوعیت کے ہوتے ہے کیونکہ اس میں لکھنے والا اکثر اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور اپنے جذبات کو خطوط کی بیساکھی کے سہارے مخاطب تک پہچانے کی کوشش کرتا ہے۔ مکتوب نگار اپنے احوال و کوائف کے ساتھ ساتھ اپنی روایات، اپنی معاشرتی اور عصری حسیات تک اس میں مقید کر لیتا ہے، جو بعد میں ایک دستاویز کی شکل بن کر محفوظ ہو جاتے ہیں۔

(2)  مہدی افادی کے بارے میں پانچ جملے لکھیے۔
جواب - مہدی افادی کا اصل نام مہدی حسن ہے۔ اُن کی پیدائش 1828 میں گورکھپور میں ہوئی۔ اُن کا تعلق معجز شیوخ گھرانہ سے تھا۔ اُن کے والد انتہائی مذہبی شخص تھے۔ اُن کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ اردو کے علاوہ انگریزی اور فارسی زبان  میں بھی مہارت حاصل رکھتے تھے۔

(3) مہدی نے اپنے خط میں کس کو مخاطب کیا ہے اور وہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
جواب - مہدی افادی اس خط میں اپنے دوست مولوی سید مقبول احمد صمدانی کو مخاطب کیا ہے۔
اس خط میں وہ اپنے دوست سے کہنا چاہتے ہیں کے ہم دونوں حاجی ہوئے جاتے ہیں آپ کے انداز سے ادبی حیثیت سے میری کوششوں کا ، اگر وہ لائق اعتراف ہوں۔ ایک ایسا قیمتی صلہ ہے جس سے دنیا کا سب سے بڑا سے بڑا مصنف بھی مستغنی نہیں ہو سکتا۔ یاد ایّام سے آپ نے میرے دل پر چوٹ لگائی۔ اب پہلے جیسا جوانی کہاں؟ ساتھ ہی انہونے اس خط میں اپنے بڑھاپے کا بھی اظہار کیا ہے اور اپنے دوست کے بڑھاپے میں ملنے والوں کی کمی نہیں ہونے سے خوش ہوئے ہیں اور بعد کے دنوں میں آکر ملنے کی بات بھی کہی ہے۔

Share:

BSEB 10th Urdu Darakhashan Question Answer. (Chapter 14)

BSEB 10th urdu Darakhashan Sawal o Jawab.

Bihar Matric Urdu question answer lesson 14
Objective Question Answer 10th Urdu.

14   اپنی بیٹی صغریٰ کے نام -  شہباز

معروضی سوالات

(1) شہباز کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟
جواب - شہباز کی پیدائش 1860 میں "موضع سر میرا بارہ" میں ہوئی۔

(2) شہباز کی کتنی شادیاں ہوئے اور اُنکی بیویوں کے نام لکھیئے۔
جواب - اُنکی دو شادیاں ہوئی۔
پہلی بیوی کا نام شمس النسا خاتون اور دوسری بیوی کا نام اشرف النسا تھا۔

(3) شہباز کی دو کتابوں کے نام لکھے۔
جواب - مقالات جمالیا
   مقدمہ خیالات آزاد

(4) شہباز نے شاعری میں کن شعراء کی تقلید کی ہے؟
جواب - نظیر اکبر آبادی، الطاف حسین حالی اور اکبر وغیرہ۔

(5) شہباز نے شامل نصاب مکتوب میں جس بچی کو مخاطب کیا ہے اس کا نام لکھیے۔
جواب - صغریٰ

مختصر سوالات

(1) شہباز کی تصنیفات پر روشنی ڈالیے۔
جواب - شہباز نے مختلف اصناف پر طبع آزمائی ہے۔
اُن کے کلام میں رباعیات، خیالات شہباز ، سالگرہ مبارک حضور نظام الدین ، خدا کی رحمت وغیرہ جیسی نظمیں ہے۔ اس کے علاوہ کلیات نظیر اکبر آبادی، مصفہ ڈاکٹر نذیر احمد، مقدمہ خیالات آزاد وغیرہ اُن کی تصنیفات و تالیفات میں شامل ہے۔ شہباز بیرونی مغربی کی دعوت عام دیتے تھے۔

(2) شہباز کے بارے میں پانچ جملے لکھیے۔
جواب - شہباز کا پورا نام محمد عبدالغفور اور شہباز تخلص ہے۔ شہباز موضع سر میرا بارہ کے رہنے والے تھے۔ اُنہونے بہت کم سنی میں لکھنا شروع کیا۔
20 سال کی عمر میں ان کی شادی شمس النسا سے ہوئی۔ ان کی بیگم دس سالوں کی رفاقت ہی دے پائی۔ اس کے بعد انہوں نے اشرف النسا سے 1898 میں کیا۔ ان کی وفات 30 نومبر 1908 کو ہوئی۔

(4) شامل نصاب خط کیا شہباز کا ذاتی خط ہے؟
جواب -  شامل نصاب خط شہباز کا ذاتی خط ہے۔ انہونے یہ خط اپنی بیٹی صغریٰ کے نام لکھا ہے۔ انہونے اس خط میں بشریٰ کو پڑھانے کے لیے صغریٰ کو کہا ہے۔ اس خط میں شہباز اپنی بچوں کی تعلیم و تربیت پر زور دیتے ہوئے یہ بھی بتایا ہے کہ میں نے تمہاری ماں کو پڑھایا اور  وہ اب تمہیں پڑھا رہی ہے۔ تم بھی بشریٰ کو پڑھاؤ تو کیا مضایقہ۔ ساتھ ہی انہونے یہ بھی کہا ہے حقوق اولاد جب تم تمام کر لو گی تو میں تمہیں انعام دوں گا۔ راہ نجات کے تمام ہونے میں ابھی بہت دیر ہے اس کے انعام کا وعدہ ابھی سے کرنا فضول ہے۔

(5) شہباز نے اپنی بیٹی کو جس بات کی تلقین کی ہے اسے اجاگر کیجئے۔
جواب - شہباز نے اپنی بیٹی کو درج ذیل باتوں کی تلقین کی ہے۔
بشریٰ کو تم روز مرۃاللوم پڑھاتی رہو تو اچھی بات ہے۔ میں نے تمہاری ماں کو پڑھایا اور وہ اب ما شاء اللہ تم کو پڑھاتی ہے، تم بھی اگر بشریٰ کو پڑھاؤ تو کیا مضائقہ ہے؟ خدا نے چاہا تو میں محرم میں ضرور آؤنگا اس وقت کہیں ایسا نہ ہو کے تم میرے سامنے ٹھیک سے کتاب نہ پڑھ سکو۔ اخلاق ہندی تم روز نہیں پڑھتی یہ بات اچھی نہیں اگر چھوڑ دو گی تو بھول جاؤ گی اور کی کرائی محنت برباد ہوگی۔

Share:

Islam Aane se Pahle Saudi Arabia me Ladkiyo ko Zinda Dafan kar diya jata hai?

  Islam ke aane se pahle Ladkiyo ko kis tarah Zinda Dafan kar diya jata tha?
Allah ke Nabi ke Aane se pahle Ladkiyo ko Kaise Dafan kar diya jata tha?
अल्लाह के रसूल के आने से पहले महिलाओं को स्थिति कैसी थी?
इस्लाम के आने से पहले औरतों की क्या दुर्दशा थी?

😑 ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺟﮩﺎلت ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ۔
ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺑﭽﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﭨﮑﮍﺍ ﺗﮭﻤﺎ ﺩﯾﺘﮯ یا ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮔﮍﯾﺎ ﺗﮭﻤﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎﺩﯾﺘﮯ ۔
ﺑﭽﯽ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﮭﯿﻞ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﮍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﭨﮑﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻠﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺗﺐ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺘﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺑﭽﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﯿﻞ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﻣﭩﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯾﺘﯽ ﭼﯿﺨﺘﯽ ﭼﻼﺗﯽ ﻣﻨﺘﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﻇﺎﻟﻢ ﺑﺎﭖ ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﺩﯾﺘﺎ ۔ﺍﺱ ﻗﺒﯿﺢ ﻓﻌﻞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺁﺗﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﮐﯽﭼﯿﺨﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺗﮏ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﺮﺗﯽ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﻇﺎﻟﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﺎﻟﮯ ﭘﮍے ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻧﺮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ.
ﺑﻌﺾ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﮔﻨﺎﮦ ﺳﺮﺯد ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﻨﺎﯾﺎ کہ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻟﮯ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﭘﮑﮍ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﻟﻤﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻭﮦ ﺳﺎﺭا ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽﺗﻮﺗﻠﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ۔
ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭا ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋشوں ﮐﻮ ﺑﮩﻼﺗﺎ ﺭﮨﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﺍسے ﻟﮯ ﮐﺮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﯽ ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﯿﭽﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﯾﺖ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ. ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ۔
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻨﮭﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﭩﯽ ﮐﮭﻮﺩﻧﮯ ﻟﮕﯽ ۔ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﺎﭖ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﯾﺖ ﮐﮭﻮﺩﺗﮯ ﺭﮨﮯ ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯﺍﺱ ﺩﻥ ﺻﺎﻑ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻦ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺭﯾﺖ ﮐﮭﻮﺩﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﭙﮍﮮ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺌﮯ ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻗﺒﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﭙﮍﮮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﻗﺒﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﭩﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯼ ۔
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻨﮭﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﻟﮕﯽ ۔
ﻭﮦ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﺘﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﮩﻘﮩﮧ ﻟﮕﺎﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﮐﺮﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮨﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﮭﻮﭨﮯ ﺧﺪﺍﻭں ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﯿﭩﺎ ﺩﯾﮟ۔
ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮨﻮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ
" ﺍﺑﺎ ﺁﭖ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ بهی قربان ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ"؟
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﭘﺘﮭﺮ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﭘﮭﯿﻨﮑﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﻭﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﭼﯿﺨﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﺩﮨﺎئیاں ﺩﯾﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﺩﯾﺎ. ﯾﮧ ﻭﮦ ﻧﻘﻄﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺭﺣﻤﺖ للعالمین ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺿﺒﻂ
ﺑﮭﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ وسلم کی ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ ﺑﻨﺪﮪ ﮔﺌﯽ۔
ﺩﺍﮌﮬﯽ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﺳﮯ ﺗﺮ ﮨﻮﮔﺌﯽ ۔
ﺍﻭﺭ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺣﻠﻖ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻻ ﺑﻦ ﮐﺮ ﭘﮭﻨﺴﻨﮯ ﻟﮕﯽ ۔
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺩﮬﺎﮌﯾﮟ ﻣﺎﺭ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺻﻠﯽﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ ﻟﮯ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ.

Share:

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 13 Syed Shah Karaamat Hussain Hamdani Ke Naam Question Answer | Bihar Board Urdu Sawal Jawab

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 13 Syed Shah Karaamat Hussain Hamdani Ke Naam | Mirza Ghalib | Question Answer | Bihar Board Urdu Question Answer | Class 10 Urdu Question Answer  | Bihar Board Urdu Sawal Jawab | Syed Shah Karaamat Hussain Hamdani Ke Naam | Bihar Board 10th Urdu Question Answer Chapter 13

BSEB 10th Urdu Darakhshan Chapter 13
B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 13

#BSEB #10th #Urdu #GuessPaper #UrduGuide #BiharBoard #SawakJawab #اردو #مختصر_سوالات #معروضی_سوالات #بہار#  Syed ShahKaramatHussanHamdaniKeNam# اردو_سوال_جواب | Bihar Board  #MirzaGhalib 10th Urdu question Answer, 

13  سیّد شاہ کرامت حسین کرامت ہمدانی کے نام

مرزا غالب

معروضی سوالات

(1) غالب کی پیدائش کب ہوئی؟
جواب - 1797 میں
(2) غالب کہاں پیدا ہوئے؟
جواب - اپنے نا نہال آگرہ میں

(3) غالب کے خطوط کے کسی ایک مجموعہ کا نام لکھیے۔
جواب - عود ہند

(4) غالب نے کتنے خطوط لکھیں؟
جواب - 900

مختصر سوالات

(1) مکتوب نگاری کے فن سے اپنی واقفیت کا اظہار کیجئے۔
جواب - مکتوب یا خطوط نگاری خیریت اور ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کا ایک مو ثر اور روایتی ذریعہ ہے۔ دور حاضر میں یہ ایک مقام پر اس لیے بھی مستحکم ہوا کے اسے اور ذاتی طور پر اعتبار بخشا گیا۔ عہد مغل میں فارسی میں مکتوب نویسی کا رواج تھا۔ مکاتب یہ خطوط بلکل ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں کیونکہ اس میں لکھنے والا اکثر اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔

(2) غالب نے اپنے خطوط میں کن باتوں کا اظہار کیا ہے؟
جواب - غالب اپنے خطوط میں اپنے ضعیفی اور دوستوں کی خدمت گذاری میں قاصر نہیں رہنے کی بات کہیں ہے۔

(3) غالب نے اپنے خط میں دوستی اور محبت کا اظہار کن لفظوں میں کیا ہے؟
جواب - غالب اپنے خط میں دوستی اور محبت کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے۔ میں دوستوں کی خدمت گذاری میں کبھی قاصر نہیں رہتا۔ اسے تکلیف کی کیا ضرورت تھی - میں یونہی خدمت گذاری کو حاضر ہوں۔ جب چاہو اپنا کلام بھیجو۔

(5) غالب کے خطوط کی زبان پر پانچ جملے لکھیے۔
جواب - غالب نے اپنے مکتوب کے ذریعے اردو کو بیش بہا دولت سے نوازا ہے۔ اُن کے مکتوب میں بے تکلف اور سادگی سے لبریز ماحول ملتا ہے۔ لہجے کی تندی اور ظریفانہ رنگ سے اُن کے خطوط میں ایک خاص انداز نظر پیدا ہو گیا ہے۔ اُن کے خطوط بلکل مکالمہ انداز کی ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کے میں مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے۔

Share:

School fee maf karane ke liye Headmaster ko letter kaise likhein?

School fee maaf karane ke liye Headmaster ko Application kaise likhe?
स्कूल फीस माफ कराने के लिए अपने प्रधानाध्यापक को चिट्ठी कैसे लिखें उर्दू में?
उर्दू में अपने हेड मास्टर को कैसे चिट्ठी लिखे ?

اپنے ہیڈ ماسٹر کے نام فیس معاف کرنے کی ایک درخواست لکھیے

جنابِ عالی! 
                                                               
گزارش ہےکہ میں آپ کی توجہ اس امر کی اور راغب کروانا چاہتا ہوں میں آپ کے اسکول میں کلاس دسویں جماعت کا ایک طالب علم ہوں میرے والد صاحب کی آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے.
کثیر گھریلوں اخراجات ہونے کی وجہ سے میرا باپ اس سال کی میری سالانہ فیس ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے اس لئے آپ صاحب سے التجا کی جاتی ہے کہ اس سال کی میری سالانہ فیس انسانی ہمدردی کے ناطے معاف فرمائی جائیں تاکہ میں اپنی مزید تعلیمی سرگمیاں بنا کسی رکاوٹ کے جاری و ساری رکھ سکوں.
آپکا فرماں بردار شاگرد

نام۔۔۔
رول نمبر۔۔۔
درجہ۔۔۔
مورخہ۔۔۔

Share:

Hijab aur Parda Auraton ka Jewar hai kaise?

Islam Ke Dushman kaise Hijab ko badnam karne ke liye paropganda chala rahi hai?
Hijab auraton ka jewar hai kaise?

اسلامی دشمن طاقتیں کس طرح حجاب کے خلاف پروپگنڈا کر رہی ہے؟

حجاب عورت کا زیور

ہر سال 4/ ستمبر کو دنیا بھر میں ’’عالمی یوم حجاب‘‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن فرانس میں حجاب پر پابندی کے بعد لندن میں ایک کانفرنس کے موقع پر عالم اسلام کے ممتاز راہنماؤں نے طے کیا تھا۔

2004 سے پوری دنیا میں اس دن کو منایا جاتا ہے۔بظاہر حجاب مسلمان عورتوں کے لیے ضروری ہے کیونکہ پردے کا حکم صرف اسلا م نے دیا ہے۔ لیکن اب تو مسلمان خواتین کو دیکھ کر بہت سے غیر مسلم خواتین بھی حجاب کا استعمال کرتی ہیں۔

اس دن عورت اس بات کا  نہ صرف اعلان کرتی ہے بلکہ عہد کرتی ہے کہ حجاب مسلمانوں کی نشانی ہے اس کا مکمل پاس کرے گی۔
حجاب مسلمان عورت کا فخر بھی ہے اور حق بھی۔ یہ حجاب ہمارا وقار بھی ہے جو ہمیں کردار کی مضبوطی عطا کرتا ہے۔

سورۃ الاحزاب ارشاد ہے :
ترجمہ: اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور جاہلیت کی پہلی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔

دنیا کا کوئی مذہب خواتین کو وہ مقام عطا نہیں کرتا جو اسلام کرتا ہے ہمیں بطور مسلمان فخر کرنا چاہیے کہ ہم نبی کی امت میں سے ہیں۔
اسلام میں جتنے حقوق خواتین کو دیے ہیں اتنے حقوق کسی مذہب میں نہیں۔

ہندوتو اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔ یہ اسلام ہی ہے جو عورت کو اس جائز اور اصل مقام دیتا ہے۔
جتنی عزت اسلام عورت کو دیتا اتنا عزت کوئی اور نہیں دے سکتا جس کی مثال سب کے سامنے ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جنت بھی ماں (عورت) کے قدموں تلے رکھ دی۔

اس وقت دنیا میں حجاب مخالفت تحریکیں زور و شور سے چل رہی ہیں اس لئے مسلمانوں کو اس مسئلے کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے۔

حجاب عورت کا پردہ نہیں بلکہ مسلمان خواتین کی حیا کا دوسرا نام ہے۔
آج کل کے دور میں مغربی عورت کو دیکھ کر ہمارے ہاں بہت سی خواتین رشک کرتی دکھائی دیتی ہیں حالانکہ وہاں کی عورت اس وقت سب سے زیادہ پریشانی کا شکار ہے کیونکہ ان کو اپنے معاشرے میں اتنا مقام حاصل نہیں ہوتا جتنا مسلم خواتین کو حاصل ہے۔

وہاں کی عورتوں کو جب اسلام میں خواتین کے حقوق کا علم ہوتا ہے تو وہ اسلام کی جانب مائل ہوتی ہے جب وہ اسلام قبول کرتی ہے تو سب سے پہلے وہ برقعہ اوڑھتی ہے یا حجاب /اسکارف پہنتی ہے اور یوں وہ خود کو محفوظ تصور کرتی ہے۔

اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ حجاب عورت کا گہنا ہے۔
صرف برقعہ پہن لینا ہی حجاب نہیں ہے نظر کا آنکھوں کا، آواز کا بھی حجاب ہوتا ہے۔
نقاب، عبایا، برقعہ پر زرق برق کام کروانا، لیسیں لگوانا کہاں کا حجاب ہے؟
حجاب اوڑھنا ہے تو اسلام کے تقاضوں کے مطابق اوڑھیں۔

آج کل مسلم ممالک میں اسکارف کو فیشن اور ٹرینڈ بنایا جا رہا ہے کچھ لڑکیاں اسکارف یا حجاب اس قسم کا لے رہی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی سب سے پہلے نظر ان پر پڑتی ہے۔
پردہ فیشن نہیں بلکہ اپنے آپ کو غیر محرم کی نظر سے بچانا مقصد ہوتا ہے۔
آج کل چوری اور ڈاکے ڈالنے کیلئے بھی حجاب کا استعمال ہو رہا ہے جو کہ اسلام کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے۔

اسلام نے زندگی گزارنے کے جو اصول و ضوابط دیے ان ہی میں حجاب بھی ہے۔
اسلام عورت کو مرد کے ساتھ ضرورت کے مطابق معروفبات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

عورت کی اصل جگہ اس کا گھر ہے۔ گھر سے باہر ضرورت کے تحت جا سکتی ہیں لیکن یہ عارضی حالت ہوگی۔
عورت اپنی فطرت کے مطابق گھر میں رہنا پسند کرتی ہے۔ گھر میں رہ کر عورت فطری زندگی گزارتی ہے۔
گھر میں رہنے سے عورت غلط کاموں میں مصروف نہیں ہوتی۔
گھر میں رہنے سے عورت معاش کی مشقتوں سے بچتی ہے کیونکہ اسلام نے اسے عورت کا فرض قرار نہیں دیا۔
یہ عورت پر غیر ضروری بوجھ ہے۔
گھر میں عورت وہ کام کرتی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا یعنی بچوں کی پرورش اور تربیت کا کام۔
گھر میں عورت شوہر اور بچوں کی خوشیوں کے لیے کوشش کرتی ہے۔ یوں گھر  پر سکون بنتے ہیں۔

اسلام نے عورت کو نا محرموں سے حجاب کرنے کا حکم دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
ترجمہ:اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنہ عورتوں سے آپ کہہ دیں اپنے اوپر اپنی چادر کا کچھ حصّہ لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں، چنانچہ ستائی نہ جائیں۔اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

آج کل بہت سے ممالک میں حجاب پر پابندی لگائی جارہی ہے اس کی اصل وجہ اسلام دشمنی ہے لیکن ہم ان کو تو بعد میں کچھ کہیں گے پہلے اپنے گھر میں ہی دیکھ لیں یہاں پر بھی حجاب پر تنقید اور اعتراض کیا جارہا ہے۔
اسلام دشمن عناصر لبرل مسلمان کے نام پر مسلم ممالک میں بے حیائی کا پھیلانا چاہتے ہیں۔

دعا ہے کہ دنیا بھر میں مسلم خواتین اپنے اسلام کے مطابق پردے کو فروغ دیں اور اسلام دشمن طاقتوں کو بے حیائی پھیلانے میں شکست دیں.

Share:

Tafseer Surah Baqarah Verse 151-152 | Surah Baqarah explanation in English | Surah Baqarah explained | Surah Baqarah Ayat 151 to 152

Tafseer Surah Baqarah Verse 151-152 | Surah Baqarah explanation in English | Surah Baqarah explained | Surah Baqarah Ayat 151 to 152

Tafseer Surah Baqarah Verse 151-152| Surah Baqarah explanation in English | Surah Baqarah explained | Surah Baqarah Ayat 151 to 152 Translation

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful

Prophet Muhammad’s Prophecy is a Great Bounty from Allah

Tafseer Surah Baqarah, Surah Baqarah explanation in English, Surah Baqarah 151-152, Surah Baqarah in English Translation, Tafseer Quran, baqarah
Surah Baqarah Verse 151-152

Allah subhanahu wa ta’ala reminds His believing servants with what He has endowed them by sending Muhammad salAllahu ‘alayhi wa sallam as a Messenger to them, reciting to them His clear ayaat and purifying and cleansing them from the worst types of behavior, the ills of the souls and the acts of jahiliyah [pre-Islamic era]. The Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam also takes them away from the darkness (of disbelief) to the light (of faith) and teaches them the Book, the Qur’an, and the Hikmah [wisdom], which is his Sunnah. He also teaches them what they knew not. During the time of jahiliyah, they used to utter foolish statements. Later on, with the blessing of the Prophet’s Message and the goodness of his prophecy, they were elevated to the status of the Awliya [loyal friends of Allah] and the rank of the scholars. Hence, they acquired the deepest knowledge amongst the people, the most pious hearts, and the most truthful tongues.

In ayah 164 of Surah Aal-Imran, Allah subhanahu wa ta’alaa tells that the sending of the Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam was a great favor on the believers:

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ ءَايَـتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ
“Indeed, Allah conferred a great favor on the believers when He sent among them a Messenger (Muhammad) from among themselves, reciting unto them His ayaat (the Qur’an), and purifying them (from sins).” (3:164)

A similar ayah also appears in Surah Al-Baqarah ayah 129.

Allah subhanahu wa ta’ala has criticized those who do not give this bounty its due consideration, as we read in Surah Ibraheem ayah 28,

“Have you not seen those who have changed the Blessings of Allah into disbelief (by denying Prophet Muhammad and his Message of Islam), and caused their people to dwell in the house of destruction?” (14: 28).

Ibn ‘Abbas radhiAllahu ‘anhu commented, “Allah’s favor means Muhammad (salAllahu ‘alayhi wa sallam).” Therefore, Allah subhanahu wa ta’ala has commanded the believers to affirm this favor and to appreciate it by thanking and remembering Him.

فَاذْكُرُونِى أَذْكُرْكُمْ

“Therefore remember Me. I will remember you.”

Hasan Al-Basri commented that it means: Remember Me regarding what I have commanded you and I will remember you regarding what I have compelled Myself to do for your benefit (i.e., His rewards and forgiveness).

An authentic hadeeth states:

يَقُولُ اللهُ تَعَالَى: مَنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي وَمَنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَأٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَأٍ خَيْرٍ مِنْه

“Allah the Exalted said, ‘Whoever mentions Me to himself, then I will mention him to Myself; and whoever mentions Me in a gathering, I will mention him in a better gathering.’”

Imam Ahmad reported that Anas radhiAllahu ‘anhu narrated that Allah’s Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam said:

قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَا ابْنَ آدَمَ، إِنْ ذَكَرْتَنِي فِي نَفْسِكَ ذَكَرْتُك فِي نَفْسِي، إِنْ ذَكَرْتَنِي فِي مَلَإٍ ذكَرْتُكَ فِي مَلَإٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ أَوْ قَالَ: فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُ وَإِنْ دَنَوْتَ مِنِّي شِبْرًا دَنَوْتُ مِنْكَ ذِرَاعًا، وَإِنْ دَنَوْتَ مِنِّي ذِرَاعًا دَنَوْتُ مِنْكَ بَاعًا، وَإنْ أَتَيْتَنِي تَمْشِي أَتَيْتُكَ هَرْوَلَة
“Allah the Exalted said, ‘O son of Adam! If you mention Me to yourself, I will mention you to Myself. If you mention Me in a gathering, I will mention you in a gathering of the angels (or said in a better gathering). If you draw closer to Me by a hand span, I will draw closer to you by forearm’s length. If you draw closer to Me by a forearm’s length, I will draw closer to you by an arm’s length. And if you come to Me walking, I will come to you running.” [Saheeh Bukhari].

وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ

“…and be grateful to Me (for My countless favors on you) and never be ungrateful to Me.”

In this ayah, Allah subhanahu wa ta’ala commands that He be thanked and appreciated, and promises even more rewards for thanking Him. In another ayah, He says: “If you give thanks (by accepting faith and worshiping none but Allah), I will give you more (of My blessings); but if you are thankless, verily, My punishment is indeed severe.” [Ibraheem 14: 7]

Abu Raja’ Al-`Utaridi said: `Imran bin Husayn came by us once wearing a nice silk garment that we never saw him wear before or afterwards. He said, “Allah’s Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam said:

مَنْ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِ نِعْمَةً فَإِنَّ اللهَ يُحِبُّ أَنْ يَرَى أَثَرَ نِعْمَتِهِ عَلَى خَلْقِه «عَلَى عَبْدِه»

“Those whom Allah has favored with a bounty, then Allah likes to see the effect of His bounty on His creation),” or he said, “on His servant” – according to Ruh (one of the narrators of the hadeeth).
Share:

Tafseer Surah Baqarah Verse 148-150 | Surah Baqarah explanation in English | Surah Baqarah explained | Surah Baqarah Ayat 148 to 150

Tafseer Surah Baqarah Verse 148-150 | Surah Baqarah explanation in English | Surah Baqarah explained | Surah Baqarah Ayat 148 to 150

Tafseer Surah Baqarah Verse 148-150 | Surah Baqarah explanation in English | Surah Baqarah explained | Surah Baqarah Ayat 148 to 150 Translation

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful

Every Nation has a Qiblah

Tafseer Surah Baqarah, Surah Baqarah explanation in English, Surah Baqarah 148-150, Surah Baqarah in English Translation, Tafseer Quran, baqarah
Surah Baqarah Verse 148-150

Ibn ‘Abbas radhiAllahu ‘anhu commented that every nation and tribe has its own Qiblah that they choose while Allah’s appointed Qiblah is what the believers face. Abul-‘Aliyah said, “The Jew has a direction to which he faces (in the prayer). The Christian has a direction to which he faces. Allah has guided you, O (Muslim) Ummah, to a Qiblah which is the true Qiblah.” This is similar to what Allah subhanahu wa ta’ala says in Surah Al-Ma’idah ayah 48,

لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَـجاً وَلَوْ شَآءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَحِدَةً وَلَـكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِى مَآ ءَاتَـكُم فَاسْتَبِقُوا الخَيْرَاتِ إِلَى الله مَرْجِعُكُمْ جَمِيعاً
“To each among you, We have prescribed a law and a clear way. If Allah had willed, He would have made you one nation, but that (He) may test you in what He has given you; so compete in good deeds. The return of you (all) is to Allah.” (5:48)

Lessons:

Everyone has a direction and goal in their life. For a Muslim, the goal should be seeking the pleasure of Allah subhanahu wa ta’ala; in happiness and sorrow we should turn to Him. Some women get married and make their husbands and children, the main focus of their lives. The family takes priority over Allah subhanahu wa ta’ala and His worship. In Ramadan too, we will not stop getting involved in worldly matters and exert ourselves in finding summer clubs and activities for our children because the school is off. If Allah subhanahu wa ta’ala was really the main goal of our lives, we would avail every opportunity to connect them to Allah subhanahu wa ta’ala. We would use every vacant moment of our lives in learning and teaching His Deen, and improving our worship.

Many single sisters looking at the married ones feel they have no purpose in life. Because they don’t have a family of their own, for them their life is meaningless. But didn’t we have Sahaabiyat who never got married or had children, yet exerted themselves in worshiping Allah subhanahu wa ta’ala? When Imam Ibn Taimiyyah was imprisoned, he thanked Allah subhanahu wa ta’ala for giving him the free time to worship Him. When Ibraheem ‘alayhi salaam was exiled by his father and community, he did not grieve over losing his family,rather He turned to Allah subhanahu wa ta’ala and fulfilled his duties to Him.

Why do we compare ourselves with the people of this world? Why can’t we look at and take inspiration from the lives of the prophets ‘alayhim salaam and follow their footsteps? Why is dunya our goal and not the Hereafter? Why do we consider ourselves unlucky when we don’t have something of the dunya? Why don’t we strive and cry for the pleasures of the Hereafter, as we yearn for the temporary delights of this world?

Allah subhanahu wa ta’ala says, “So hasten towards all that is good.” Why don’t we chase what is actually going to benefit us in the Hereafter? Will our jobs, degrees, spouses, children, cooking skills, and other unnecessary stresses of this world save us in the Hereafter? Allah subhanahu wa ta’ala says, “Wheresoever you may be, Allah will bring you together (on the Day of Resurrection). Truly, Allah is able to do all things.” He is able to gather us from the earth even if our bodies and flesh are disintegrated and scattered. What will we show Him: our degrees, our well-decorated homes, our cooking and makeup skills, our crafts,or our clothes?

Lesson:

The ayaat repeatedly talk about the Qiblah because it is the direction in which the Muslims pray. It is not just the direction of our prayer, but it is a reminder of who we are and what our purpose on this earth is. If one forgets their purpose in life and gets distracted where is their life going to go? For a Muslim, the purpose of his life is worshiping Allah subhanahu wa ta’ala which is what we were created for. Everything else is secondary, just a mean to survive this earthly life not ‘the purpose’. If Allah subhanahu wa ta’ala is not the priority of our life then we have indeed lost our way.  

Why was changing the Qiblah mentioned thrice?

This is a third command from Allah subhanahu wa ta’ala to face Al-Masjid Al-Haram (the Sacred Mosque) from every part of the world (during prayer). It was said that Allah mentioned this ruling again here because it is connected to whatever is before and whatever is after it. First, Allah subhanahu wa ta’ala said:

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَآءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا

“Verily, We have seen the turning of your (Muhammad’s) face towards the heaven. Surely, We shall turn you to a Qiblah (prayer direction) that shall please you,” (2:144), Allah subhanahu wa ta’ala mentioned in these ayaat His fulfillment of the Prophet’s wish and ordered him to face the Qiblah that he liked and is pleased with. In the second command, Allah subhanahu wa ta’ala said:

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّهُ لَلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَمَا اللَّهُ بِغَـفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ

“And from wheresoever you start forth (for prayers), turn your face in the direction of Al-Masid Al-Haram that is indeed the truth from your Lord. And Allah is not unaware of what you do.”

Here, Allah subhanahu wa ta’ala states that changing the Qiblah is also the truth from Him, thus upgrading the subject more than in the first ayah, in which He agreed to what His Prophet had wished for. Thus, Allah subhanahu wa ta’ala states that this is also the truth from Him that He likes and is pleased with. In the third command, Allah subhanahu wa ta’ala refutes the Jewish assertion that the Prophet salAllahu ‘alayhi wa sallam faced their Qiblah. It was already present in their Books that the Prophet will later on be commanded to face the Qiblah of Ibraheem ‘alayhi salaam, the Ka’abah. The Arab disbelievers had no more argument concerning the Prophet’s Qiblah. He was now praying in the direction of the Qiblah of Ibraheem ‘alayhi salaam, which is more respected and honored, rather than the Qiblah of the Jews.

Allah subhanahu wa ta’ala said,

فَلاَ تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِى

“…so fear them not, but fear Me!” meaning do not fear the doubts that the unjust, stubborn people raise and fear Me Alone. Indeed, Allah Alone deserves to be feared. He says, “…so that I may complete My blessings on you and that you may be guided.”

Lesson:

When we have understood the purpose of our life, we will not fall for what people say. Our purpose in life becomes seeking the pleasure of Allah subhanahu wa ta’ala solely. He becomes the main focus of our lives and it is Him that we should fear the most. If we are sincere in obeying Allah subhanahu wa ta’ala and stand firm in His path, He will take care of us and support us against our enemies. Why do we fear the people? Why do we gain the wrath of Allah subhanahu wa ta’ala while pleasing other people?

If people do not appreciate us or what we do, then let it be it! They lack understanding of the Deen, but if the truth has reached us we must become strong. In the Hereafter, when Allah subhanahu wa ta’ala will resurrect all of us no one will support us. But if we have been steadfast and lived by the truth and lived our life as it pleased Allah subhanahu wa ta’ala we will be saved, in shaa Allah.  
Share:

Aalmi Media Me Saudi Arabia Se Bada Kahtra Kyun | Global media against Saudi Arabia | Islam Ke Liye Saudi Arab Ki khidmat

Aalmi Media Me Saudi Arbaia Se Bada Kahtra Kyun | Global media against Saudi Arabia | Islam Ke Liye Saudi Arab Ki Khidmaat

Saudi Arabia services for Islam

[عالمی میڈیا میں سعودی عرب سب سے بڑا خطرہ کیوں؟]

✍️: فضیلۃ الشیخ ابو رضوان محمدیؔ حفظہ اللہ

━═════﷽════━

[شیخ ابو رضوان محمدی صاحب کی ایک طویل تحریر کا چھوٹا سا اقتباس جو کہ سعودی عرب کی عالم اسلام کے تئیں خدمات کو نمایاں کرتا ہے]

✺ «عالمی طاقتوں اور ذرائع ابلاغ کی مانیں تو دنیا میں سب سے بڑا خطرہ کون ہے؟

☜ سعودی عرب، فی الحال مسلمانوں کا وہ طبقہ جو سلفی اور بقول عالمی میڈیا کے وہابی کہلاتا ہے۔

❂ سعودی عرب سب سے بڑا خطرہ کیوں ہے؟

◈ اس لئے کہ اس کا دستور قرآن اور حدیث ہے۔ 

◈ اسلئے کہ وہ پوری دنیا میں اسلام کی دعوت اور اسلام کے دفاع کی انفرادی اور اجتماعی کوششوں میں حصہ دار و معاون ہے۔ 

◈ اس لئے کہ سعودی عرب میں ہر سال دوسرے ممالک کے ہزاروں افراد وہاں کے دعوتی نیٹ ورک (توعیتہ الجالیات) کے ذریعہ اسلام قبول کرتے ہیں۔

◈ تنہا سعودی عرب نے ملک کی بیشتر زبانوں میں قرآن کے تراجم کرکے، لاکھوں کروڑوں قرآنی نسخے متعلقہ زبان جاننے والوں میں تقسیم کروایا اور کررہا ہے۔ 

◈ 24 گھنٹے مدینہ منورہ کے مجمع فہد میں قرآن کی اشاعت کا اعلی معیاری کام جاری رہتا ہے۔

◈ سعودی عرب اور کویت ہی ہیں جنہوں نے افریقی ممالک میں نصرانی بنانے کے مضبوط نیٹ ورک اور منصوبے کا بھرپور مقابلہ کیا اور اسلامک سینٹرز قائم کرکے اپنے تربیت یافتہ دعاة کے ذریعے نا صرف نصرانی مبصرین (مبلغین) کو ناکام کیا بلکہ بہت سے پادریوں اور نصرانیوں کو اسلام قبول کرایا۔

◈ یورپ اور امریکہ میں جابجا اسلامک سینٹرز قائم کرکے وہاں دعوت اسلامی کا جال بچھایا۔

◈ حتی کہ کیتھولک نصرانیوں کے مرکز وٹیکن سٹی میں مسجد لائبریری اور دیگر لوازمات سے آراستہ اسلامک سینٹر تعمیر و قائم کردیا۔

◈ یہودیوں کے جاری کردہ نوبل اور بکر ایوارڈ خدمات کے اعتراف اور اظہار کے ساتھ کئی فکری مقاصد اور اہداف کے حامل ہیں۔ سعودی حکومت نے ان کے مقابل اسلامی، تعلیمی اور انسانی خدمات کے لئے فیصل ایوارڈ کا اجراء کیا، جو لوگ مسلمانوں کی پسماندگی کا اظہار کرتے ہوئے نوبل انعام سے ان کی محرومی کا رونا روتے ہیں، وہ بتائیں کہ فیصل ایوارڈ کتنے مسلمانوں کو ملا؟ مدرٹریسا کی خدمات کی تو خوب تشہیر ہوئی، پاکستان کے ایدھی امین کو دنیا کتنا جانتی ہے؟ حالانکہ ان کی خدمات کم نہیں ہیں۔

◈ فلسطین اور فلسطینیوں کی مدد تمام سنی ممالک کرتے رہے ہیں لیکن ان میں سب سے بڑا کردار سعودی عرب کا رہا ہے۔ جس نے اسرائیل عرب کے درمیان ہونے والی جنگوں میں براہ راست حصہ بھی لیا۔

◈ افغانستان میں روس کے خلاف جہادی جنگ میں پاکستان کے شانہ بشانہ سعودی عرب کی سب سے بڑی امداد شامل رہی، مالی بھی مادی اور انفرادی بھی۔

◈ دنیا کے گوشے گوشے میں خلیجی ممالک کی حکومتوں اور افراد کی جانب سے؛

⇚ مساجد کی تعمیر،

⇚ اسلامی تعلیم کے فروغ

⇚ علوم اسلامیہ پر مشتمل کتابوں کی تقسیم مسلسل ہوتی رہی اس شعبے میں بھی سعودی عرب سرفہرست ہے۔

◈ سعودی عرب کے جامعات (یونیورسٹیز) پوری دنیا کے مسلمان طلبہ اعلی تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کے تعلیمی اخراجات و لوازمات ہی نہیں، معاوضے کا انتظام بھی سعودی حکومت برداشت کرتی ہے۔

⇚ بنگلہ دیش، پاکستان، ہندوستان، سری لنکا، برما، صومالیہ، گھانا، مصر، سوڈان، چیچنیا، چین، روس، اور اس سے آزاد ہونے والی مسلم ریاستیں اور عالمی نقشے کا کوئی مسلم ملک نہیں ہےجہاں خلیجی سنی ممالک اور بطور خاص سعودی عرب اور کویت کی امداد و تعاون نا پہنچتا ہو، قدرتی آفات ہوں یا دیگر انسانی ضروریات ، یہ عربی مسلمان اپنی اخوت دینی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ 

◈ اس وقت سعودی عرب میں شام کے کم و بیش لاکھوں پناہ گزین آسرا پائے ہوئے ہیں، سعودی فرمان یہ جاری ہوا ہے کہ یہ لوگ پناہ گزین نہیں ہمارے بھائی ہیں، ان کے ساتھ اخوت اور ہمدردی کا برتاو کیا جائے اور کیا جارہا ہے۔

✪ نوٹ: یہ ہیں سعودی عرب کی وہ خدمات جو جھوٹا عالمی میڈیا نہیں دکھاتا ہے»۔

Share:

Tafseer Surah Baqarah Verse 144-147 | Surah Baqarah explanation in English | Surah Baqarah explained | Surah Baqarah Ayat 144 to 147

Tafseer Surah Baqarah Verse 144-147 | Surah Baqarah explanation in English | Surah Baqarah explained | Surah Baqarah Ayat 144 to 147

Tafseer Surah Baqarah Verse 144-147 | Surah Baqarah explanation in English | Surah Baqarah explained | Surah Baqarah Ayat 144 to 147 Translation

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful

While facing the Bayt Al-Maqdis in prayers, the Prophet salAllahu ‘alayhi wa sallam would keep looking at the sky awaiting Allah’s command to change the Qiblah. Allah subhanahu wa ta’ala comforted His beloved and revealed the following:

Tafseer Surah Baqarah, Surah Baqarah explanation in English, Surah Baqarah 144-147, Surah Baqarah in English Translation, Tafseer Quran, baqarah
Surah Baqarah Verse 144
The command to turn the faces in the direction of Al-Masjid al-Haram came while the Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam and his Companions were offering the prayers. Upon hearing the command, the Prophet salAllahu ‘alayhi wa sallam turned his direction and so did the followers. None of them created a noise or raised questions, they obediently followed their leader.

Lessons:

How do we behave in the Masjid or in a religious gathering? How disciplined are we? How much respect do we give to our leaders? Most importantly how submissive are we to the commands of Allah subhanahu wa ta’ala? What do we do with the Sunnah? When someone is informed of a Sunnah he asks the logic or a benefit behind following it. If we are looking for logic and benefit then this is not called following the Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam. Following the commands of Allah subhanahu wa ta’ala and the Sunnah should come from our heart, and not because of benefits or fear of other people.

Allah subhanahu wa ta’ala says, “…wheresoever you people are, turn your faces (in prayer) in that direction (Al-Masjid al-Haram).” It is a command from Allah to face the Ka’abah from wherever one is on the earth: the east, west, north or south. The exception is of the voluntary prayer [Nafl] while one is traveling, for one is allowed to offer it in any direction his body is facing, while his heart is intending the Ka’abah. Also, when the battle is raging, one is allowed to offer prayer, however, he is able. Ibn Katheer writes: also, included are those who are not sure of the direction and offer prayer in the wrong direction, thinking that it is the direction of the Qiblah, because Allah subhanahu wa ta’ala does not burden a soul beyond what it can bear.

There is no excuse for leaving the prayer; wherever we might be in the world we are to offer the prayers at their appointed time in the direction of the Ka’abah. Now, alhumdulillah, as there are Apps available there is no difficulty in finding the direction of Ka’abah or the prayer time. Download one on your device and don’t miss your prayers.

“Certainly, the people who were given the Scripture know well that, that is the truth from their Lord,” meaning the Jews, who did not like that you change your Qiblah from Bayt Al-Maqdis, already knew that Allah subhanahu wa ta’ala will send this command to face the Ka`bah. They read in their Books their Prophets’ description of Allah’s Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam and his Ummah, and that Allah subhanahu wa ta’ala has endowed and honored him with the complete and honorable legislation. Yet, the People of the Book deny these facts because of their envy, disbelief and rebellion. This is why Allah subhanahu wa ta’ala threatened them when He said:

وَمَا اللَّهُ بِغَـفِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ

“And Allah is not unaware of what they do.”

Despite knowing the truth, they started arguments and criticism as a mean to spread confusion and make Muslims disobey their messenger. They had previously done this in many instances. Allah subhanahu wa ta’ala tells us that they ‘know’ this change of the direction is the truth, and warns them to not go against what they already know.

Lesson:

When you begin following the commands of Allah subhanahu wa ta’ala and the Sunnah of the Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam, you can face intense criticism. The non-practicing ones will make fun of you that how you dress up, call you names, shame and disrespect you and try all the ways by which they can make you revert to your past life. Through this ayah, Allah subhanahu wa ta’ala reminds us that we should not have the fear of people in our hearts. We should be strong Muslims who only fear Allah subhanahu wa ta’ala and no one else. We should also not fall for Fitnah or propaganda. Learn your Deen and be firm on the Straight Path.

Ayah 145 – the Stubbornness and Disbelief of the Jews

Allah subhanahu wa ta’ala describes the Jews’ disbelief, stubbornness and defiance of what they know of the truth of Allah’s Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam. Even if the Prophet salAllahu ‘alayhi wa sallam brought forward every proof to the truth of what he was sent with, the Jews will never obey him or abandon following their desires, as was said in Surah At-Tawbah ayaat 96-97.

Tafseer Surah Baqarah, Surah Baqarah explanation in English, Surah Baqarah 144-147, Surah Baqarah in English Translation, Tafseer Quran, baqarah
Surah Baqarah Verse 145

Allah subhanahu wa ta’ala tells us that we should neither fear other people, nor exert ourselves in convincing the People of the Book that Ka’abah is their Qiblah as well. They do not agree on the direction of prayer among themselves, so why do you listen to their criticisms about your religion? One group among the People of the Book faces one side of Bayt Al-Maqdis, the other group faces another side. Don’t follow their desires especially when Allah subhanahu wa ta’ala has guided you.

“…nor are you going to follow their Qiblah,” indicates the vigor with which Allah’s Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam implements what Allah subhanahu wa ta’ala commanded him. It also indicates that as much as the Jews adhere to their opinions and desires, the Prophet salAllahu ‘alayhi wa sallam adheres by Allah’s commands, obeying Him and following what pleases Him, and that he would never adhere to their desires in any case. Hence, praying towards Bayt Al-Maqdis was not because it was the Qiblah of the Jews, but because Allah subhanahu wa ta’ala had commanded it. Allah subhanahu wa ta’ala then warns those who knowingly defy the truth, because the proof against those who know is stronger than against other people. This is why Allah subhanahu wa ta’ala said to His Messenger and his Ummah, “Verily, if you follow their desires after that which you have received of knowledge, then indeed you will be one of the wrongdoers.”

Lesson:

Allah subhanahu wa ta’ala has given us the Qur’an, this is our guideline. If after being guided, we follow the path of the misguided ones then we will be accountable in the Hereafter. 

Ayaat 146 – 147 – the Jews knew the Truth about Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam yet chose to hide it

Allah subhanahu wa ta’ala states that the scholars of the People of the Scripture know the truth of what Allah’s Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam was sent with, just as one of them knows his own child, which is a parable that the Arabs use to describe what is apparent.

Tafseer Surah Baqarah, Surah Baqarah explanation in English, Surah Baqarah 144-147, Surah Baqarah in English Translation, Tafseer Quran, baqarah
Surah Baqarah Verse 146-147
According to Al-Qurtubi, it was narrated that ‘Umar radhiAllahu ‘anhu said to ‘Abdullah bin Salam (an Israelite scholar who became a Muslim) radhiAllahu ‘anhu, “Do you recognize Muhammad salAllahu ‘alayhi wa sallam as you recognize your own son?” He replied, “Yes, and even more. The Honest One descended from heaven on the Honest One on the earth with his (i.e., Muhammad’s) description and I recognized him, although I do not know anything about his mother’s story.”

If you are a parent, you know how to find your child even if he gets lost in a crowd. If you have identical twins, while other people might have a problem in identifying the two children, you being a parent (esp. mother) would know who is who.

Allah subhanahu wa ta’ala states next that although they had knowledge and certainty in the Prophet salAllahu ‘alayhi wa sallam, they still conceal the truth. It means that he who is true in his faith will accept the truth. He will not look at what other people say or do, but rather accept the truth when it reaches him.

Allah subhanahu wa ta’ala then strengthens the resolve of His Prophet salAllahu ‘alayhi wa sallam and the believers and affirms that what the Prophet salAllahu ‘alayhi wa sallam came with is the truth without doubt.

الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ

“(This is) the truth from your Lord. So be you not one of those who doubt,” a similar statement was said in Surah Al-Anaam ayah 114.

May He make us strong Muslims, and not allow us to be deceived by what people do or say, ameen.

Dua to make last in Tashahud
Dua to make in last Tashahhud

Share:

Tafseer Surah Baqarah Verse 143 | Surah Baqarah explanation in English | Surah Baqarah explained | Surah Baqarah Ayat 143

Tafseer Surah Baqarah Verse 143 | Surah Baqarah explanation in English | Surah Baqarah explained | Surah Baqarah Ayat 143

Tafseer Surah Baqarah Verse 143 | Surah Baqarah explanation in English | Surah Baqarah explained | Surah Baqarah Ayat 143 Translation

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful

In this ayah, Allah subhanahu wa ta’ala tells us why the change of Qiblah was instructed.

Tafseer Surah Baqarah, Surah Baqarah explanation in English, Surah Baqarah 143, Surah Baqarah in English Translation, Tafseer Quran, baqarah
Surah Baqarah Verse 143

Allah subhanahu wa ta’ala tells us that He changed our Qiblah to the Qiblah of Ibraheem ‘alayhi salaam so that He makes us the best nation ever. Hence, we will be the witnesses over the nations on the Day of Resurrection, for all of them will then agree concerning our virtue. The word Wasat in the ayah means ‘the best and the most honored’. It also means ‘middle’ such as the ‘Asr prayer is called Salat Al-Wusta (or the middle prayer). By making this Ummah the Wasat Allah subhanahu wa ta’ala endowed her with the most complete legislation, the best Manhaj [way, method, etc.] and the clearest Madhhab [methodology, mannerism, etc.].

This has also been mentioned in the Qur’an, Allah subhanahu wa ta’ala says,

هُوَ اجْتَبَـكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكمْ فِى الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَهِيمَ هُوَ سَمَّـكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِى هَـذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيداً عَلَيْكُمْ وَتَكُونُواْ شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ

“He has chosen you (to convey His Message of Islamic Monotheism to mankind), and has not laid upon you in religion any hardship: it is the religion of your father Ibraheem. It is He (Allah) Who has named you Muslims both before and in this (the Qur’an), that the Messenger may be a witness over you and you be witnesses over mankind!” [Al-Hajj 22: 78]

If we see on the map, the Ka’abah is geographically the center of this world. It is the place of guidance for the mankind as has been stated in Surah Aal-Imran ayah 96. This points to the fact that the Muslims (i.e. the new chosen nation) will be the source of guidance for all other mankind.

Previously, the messengers and prophets were sent to guide people and call them to the Oneness of Allah subhanahu wa ta’ala. After Muhammad salAllahu ‘alayhi wa sallam was sent as the Last Messenger, the Prophethood came to an end. No new prophet will come after him; therefore, it is the responsibility of the Muslim Ummah to rise and warn others. It is the legacy of the prophets that we have to carry forward.

It is a great favor of Allah subhanahu wa ta’ala that He chose Islam for us. He chose us to be the best and the most honored. He assigned us a responsibility and if we do everything in our life, get educated, get married, get jobs, have children and so on, but do not fulfill one main responsibility that Allah subhanahu wa ta’ala assigned us then what are we doing on this earth?

We say we have our jobs to attend to, our families to look after, children to raise and miscellaneous chores to perform, we don’t have time for da’wah. We want Allah subhanahu wa ta’ala to keep bestowing, but we won’t perform the one main task for which we were chosen. Does that make any sense?

Why were we chosen as the best nation? It was because when the Children of Israel – the previous chosen nation – failed to honor their responsibility and indulged in unnecessary activities the title was snatched from them. Today, we are busy in raising our families and chasing the worldly charms. The profiteers are busy alluring the general public by building fancier malls and monuments. The countries are competing in building skyscrapers and high-rise buildings. Many people are suffering either due to atrocities or due to being lost. And we have turned a blind eye to our one main responsibility? Then, what do we expect from Allah subhanahu wa ta’ala? Why do we ask Him to be Kind and Generous with us?

In the Bible, Haggai Chapter 1 verses 1-10, it appears:

In the second year of King Darius, on the first day of the sixth month, the word of the Lord came through the prophet Haggai to Zerubbabel son of Shealtiel, governor of Judah, and to Joshua son of Jozadaka the high priest:

This is what the Lord Almighty says: “These people say, ‘The time has not yet come to rebuild the Lord’s house.’”

Then the word of the Lord came through the prophet Haggai: “Is it a time for you yourselves to be living in your paneled houses, while this house remains a ruin?”

Now this is what the Lord Almighty says: “Give careful thought to your ways. You have planted much, but harvested little. You eat, but never have enough. You drink, but never have your fill. You put on clothes, but are not warm. You earn wages, only to put them in a purse with holes in it.”

This is what the Lord Almighty says: “Give careful thought to your ways. Go up into the mountains and bring down timber and build my house, so that I may take pleasure in it and be honored,” says the Lord. “You expected much, but see, it turned out to be little. What you brought home, I blew away. Why?” declares the Lord Almighty. “Because of my house, which remains a ruin, while each of you is busy with your own house.  Therefore, because of you the heavens have withheld their dew and the earth its crops.

Often, we complain about lack of barakah (blessing) in our provision; we complain about lack of rains or rain that brings benefit to the earth and not destruction, we pray for peace and honor, but have we wondered why Allah subhanahu wa ta’ala is not answering our prayers? Does your father continue to give you pocket money, if you don’t listen to him? Do spouses continue being kind and nice to one another, if they don’t honor their responsibilities? Does your employer continue paying you salary whether you show up at work or not?

If we do not perform our duty, we taste the displeasure of Allah subhanahu wa ta’ala in this world, and we will be held accountable in the Hereafter, as well. Everybody is busy in his life and has many excuses for not striving in the way of Allah subhanahu wa ta’ala. Some make the excuse of lack of time; others make the excuse of lack of skills. If you don’t have the time, then organize it. Check your time wasters. If you find yourself not capable enough then learn the religion and acquire the required skills. Each one of us should think and plan, how we can work in the cause of Allah subhanahu wa ta’ala.

In the prayer, we ask Allah subhanahu wa ta’ala to guide us to the Straight Path. The path of those that He has favored and not of those that angered Him or those that lost their way. The moment we say tasleem we forget what we have prayed for and go on following the path of those that angered Him and those that went astray.

We cannot be favored if we do not follow the path of the prophets and their Companions. When a person owns his responsibility, such as learning and teaching the Qur’an, then his entire life changes. He is no more selfish, he thinks about the entire world. He yearns to help people come out of their sweet slumber and get connected to Allah subhanahu wa ta’ala.

Today, we have many engineers, doctors and so-called talented people among us, but do we have respect and dignity in this world? Wherever you look the Muslim is being oppressed or mocked. Because, we placed the Book of Allah behind our backs (we do not give it the importance that it deserves), Allah subhanahu wa ta’ala too has left us to be humiliated and oppressed by others.

We say: Others are not giving us our rights. Are we giving the Book of Allah, its rights? Are we giving other people their rights? Taking the message of the Qur’an to them is a right that they have and we are not honoring it. We say: They are mistreating us because of misunderstandings. They don’t know who we are or what we do. Have we taken the Message to them? How are we eradicating this misunderstanding?

The solution that some of us have identified is: assimilation. They said: If you change the way you dress up, the way you look, the way you talk, and the way you pray the misunderstanding will be removed. Does changing your skin color, your hair color, your dressing, the food that you eat, what you consider halal and haram, make you one of them?

Some chose assimilation as the solution while others chose isolation. Has that solved the issues? Do they accept us now? What about the responsibility that Allah subhanahu wa ta’ala assigned us?

We have exerted ourselves in chasing the world, it’s time to rise up and warn ourselves and others, as it was said in Surah Al-Mudaththir.

In the ayah, Allah subhanahu wa ta’ala tells us, “…you be witnesses over mankind and the Messenger be a witness over you.” A similar ayah appears in Surah An-Nisa (4:41), when ‘Abdullah ibn Mas’oud radhiAllahu ‘anhu recited the ayah the Prophet salAllahu ‘alayhi wa sallam cried profusely.

Imam Ahmad reported that Abu Sa’eed radhiAllahu ‘anhu narrated: Allah’s Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam said:

“Nuh will be called on the Day of Resurrection and will be asked, ‘Have you conveyed (the Message)?’ He will say, ‘Yes.’ His people will be summoned and asked, ‘Has Nuh conveyed (the Message) to you?’ They will say, ‘No warner came to us and no one (Prophet) was sent to us.’ Nuh will be asked, ‘Who testifies for you?’ He will say, ‘Muhammad and his Ummah.’

This is why Allah subhanahu wa ta’ala said:

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَـكُمْ أُمَّةً وَسَطًا

“‘Thus We have made you a Wasat nation.’”

The Prophet said: The Wasat means ‘Adl [just]. You will be summoned to testify that Nuh has conveyed (his Message), and I will attest to your testimony. [It was also recorded by Al-Bukhari, At-Tirmidhi, An-Nasa’i and Ibn Majah.]

Then Allah subhanahu wa ta’ala says, “…And We made the Qiblah which you used to face, only to test those who followed the Messenger from those who would turn on their heels…” It means that Allah subhanahu wa ta’ala legislated the facing of Bayt Al-Maqdis at first and then changed it to the Ka’abah so as to find who will follow and obey Muhammad salAllahu ‘alayhi wa sallam and face whatever he faced and who “…turn on their heels…” meaning revert from Prophet’s religion.

LESSON:

Claiming to love the Prophet salAllahu ‘alayhi wa sallam and associating ourselves to him, and then not obeying or following him is hypocrisy. We have to leave what we love, what our forefathers did, what our people love, and follow only that which the Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam taught us.

Allah subhanahu wa ta’ala acknowledges that: “Indeed it was great (heavy) except for those whom Allah guided,” meaning while it was a test He knew those who are guided and are honest in their intention of following the Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam, they will honor the command and submit. They are those that believe in the truth of the Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam with certainty and whatever he was sent with without any doubts in their hearts. It is they who believe that Allah subhanahu wa ta’ala does what He wills, decides what He wills, commands His servants what He wills, abrogates any of His commands that He wills, and that He has the perfect wisdom and the unequivocal proof in all this. The attitude of the believers in this respect is unlike those who have a disease in their hearts, to whom whenever a matter occurs, it causes doubts, just as this same matter adds faith and certainty to the believers. In Surah Al-Isra ayah 17 Allah subhanahu wa ta’ala said,

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْءَانِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ وَلاَ يَزِيدُ الظَّـلِمِينَ إَلاَّ خَسَارًا

“And We send down of the Qur’an that which is a healing and a mercy to those who believe, and it increases the wrongdoers in nothing but loss,” (17:82).

Certainly, those who remained faithful to the Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam, obeyed him and faced whatever Allah subhanahu wa ta’ala commanded them, without doubt or hesitation, were the leaders of the Companions. Some scholars stated that the Early Migrants (who migrated with the Prophet from Makkah to Madina) and Ansar (the residents of Madinah who gave aid and refuge to both the Prophet and the Migrants) were those who offered prayers towards the two Qiblah (Bayt Al-Maqdis and then the Ka`bah).

LESSON:

If there is a command or a Sunnah that we are unable to submit to then we must check our heart. We must take ourselves into account and determine what’s stopping us from following it. Not being able to submit shows there is a flaw in our intention to follow the Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam. We are not being honest in our claim that we love him and we are his Ummah.

The next issue was about the Muslims who had passed away before the coming of this command. The Companions asked if their prayers have been wasted. Allah subhanahu wa ta’ala responds, “Allah would never make your faith (prayers) to be lost,” meaning, the reward of your prayers towards Bayt Al-Maqdis before would not be lost with Allah. Ibn Ishaq reported that Ibn `Abbas radhiAllahu ‘anhu narrated that this entails: Your (prayer towards) the first Qiblah and your believing your prophet and obeying him by facing the second Qiblah; He will grant you the rewards for all these acts.

إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
“Truly, Allah is full of kindness, the Most Merciful towards mankind.”

It is reported in the Saheeh that Allah’s Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam saw a woman among the captives who was separated from her child. Whenever she found a boy (infant) among the captives, she would hold him close to her chest, as she was looking for her boy. When she found her child, she embraced him and gave him her breast to nurse. Allah’s Messenger said:

أَتُرَوْنَ هذِهِ طَارِحَةً وَلَدَهَا فِي النَّارِ وَهِي تَقْدِرُ عَلى أَنْ لَا تَطْرَحَه

“Do you think that this woman would willingly throw her son in the fire?” The Companions responded: “No.” The Prophet salAllahu ‘alayhi wa sallam said,

فَوَاللهِ للهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هذِهِ بِوَلَدِهَا

“By Allah! Allah is more merciful with His servants than this woman with her son.”

If Allah subhanahu wa ta’ala is so Kind with us then we must certainly ask ourselves what are we doing with His Book and the ‘duty’ that He assigned us? All of us must play our part in spreading the Message of Allah subhanahu wa ta’ala through our conduct as well as through proper ‘taleem’ [teaching others].

We ask Allah subhanahu wa ta’ala for His Mercy and guidance.
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS