Agar Koi Ladki Zina kar le aur hamila (Pregnant) ho jaye to kya Hamal giraya ja sakta hai?
Kuwari Ladki agar zina kar le to uski Sza kya hai?
#liv_in_relationship
#one_night_stand
लड़की जीना कर ली है, कुंवारी है जीना कर ली अब हामिला है गई है क्या इज़्ज़त बचाने के लिए यह हमल जाया कर सकते है।
لڑکی سے غلطی ہو گئی ہے کنواری ہے زنا کر لیا اب حاملہ ہو گئی ہے کیا عزت بچانے کی خاطر یہ حمل ضائع کروا سکتے ہیں ؟
*جواب تحریری
فقھاء کرام کی عمومی طور پر اسقاط حمل اور اس کے حکم اوراس سے پیدا ہونے والے مسائل میں بہت ساری جھود و اجتھادات پاۓ جاتےہیں ، لیکن انہوں نےغیرشرعی حمل میں تفاصیل کا اہتمام نہیں کیا ۔
اورہوسکتا ہے انہوں نے اسے نکاح صحیح سے ہونے والے حمل کے اسقاط کے تابع اوراس میں شریک ہی سمجھا ہو ، تواگر نکاح صحیح سے ہونے والے حمل کا اسقاط عمومی حالت میں حرام ہے توغیرشرعی طریقے سے ہونے والےحمل کی حرمت توبالاولی زیادہ اورشدید ہوگی ۔
اس لیے کہ غیرشرعی طریقے سے ہونے والے حمل کے اسقاط کومباح کرنے سے فحاشی اوررذیل کام کرنے کی تشجیع ہوگی اوراس کا راستہ کھلے گا ، اورشریعت اسلامیہ کے قواعد میں یہ شامل ہے کہ اسلام ہراس وسیلہ اورسبب کوبھی حرام کرتا ہے جوفحاشی اورگناہ کا باعث ہو مثلا بے پردگی اور مرد وعورت کا آپس میں اختلاط و میل جول وغیرہ ۔
اوراس پر مستزاد یہ کہ ایک ایسے پیدا ہونے والے بے گناہ بچے کوکسی دوسرے کے گناہ پر ذبح نہیں کیا جاۓ گا ۔
اورپھر اللہ سبحانہ وتعالی کا بھی فرمان ہے :
کوئی بھی کسی دوسرے کا بوجھـ نہیں اٹھاۓ گا الاسراء ( 15 ) ۔
اوریہ بھی معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےغامدی قبیلہ کی زنا سے حاملہ عورت کوواپس کردیا تھا کہ وہ ولادت کے بعد آۓ اورجب وہ ولادت کے بعد آئي تونبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے پھر دوبارہ واپس کردیا کہ اس بچے کودودھ پلاؤ حتی کہ یہ کھانے پینے کے قابل ہوجاۓ اوردودھ چھوڑ دے ۔
جب وہ تیسری مرتبہ آئي تو بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا لھذا اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کوایک صحابی کے سپرد کردیا اورپھر اسے رجم کا حکم دیا گیا تواس کے سینہ تک ایک گڑھا کھود کر لوگوں اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے بارہ میں کہتے ہیں :
حاملہ عورت کو وضع حمل سے قبل سنگسار نہیں کیا جاۓ گا چاہے وہ حمل زنا کا ہو یا زنا کے بغیر ۔ اسی پر علماء کا اتفاق ہے تا کہ اس کا بچہ قتل نہ ہو ، اور اسی طرح اگر اس کی حد کوڑے ہيں تو حمل کی حالت میں بھی اسےبالاجماع وضع حمل سے قبل کوڑے نہیں لگاۓ جائيں گے ۔
دیکھیں صحیح مسلم شرح نووی ( 11 / 202 ) ۔
اس واقعہ سے ہمیں شریعت اسلامیہ کا بچے کے بارہ میں اہتمام ظاہر ہوتا ہے اگرچہ وہ بچہ زنا سے ہی کیوں نہ ہو ، جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کی حفاظت کے لیے اس کی ماں سے حد کو مؤخر کردیا تا کہ بچے کی زندگی کو خطرہ نہ پیدا ہو ۔
توکیا اس کے بعد بھی یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ شارع لوگوں کی خواہشات و شھوات اور غلط رغبات کو پورا کرنے کے لیے اسقاط حمل کے ساتھ بچوں کے قتل کو جائز قرار دے سکتا ہے ؟
اس پر ہم یہ اضافہ کرتے جائيں کہ جن لوگوں نے صحیح نکاح کی حالت میں ہونے والے حمل کے پہلے چالیس روز کے اندر اندر حمل کے اسقاط کی اجازت دی ہے انہوں نے مشروع رخصت کولیتے ہوۓ اس پر اجتھاد کیا ہے مثلا رمضان المبارک میں شرعی عذر والے کورخصت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے ، اوراسی طرح مسافر کے لیے رخصت ہے کہ وہ چار رکعتی نماز کوقصر کرے ۔
لیکن یہ بات تو شریعت میں مقرر شدہ ہے کہ معاصی اور گناہ کے لیے رخصتوں کا سہارا نہیں لیا جاسکتا ۔
امام قرافی رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے :
معاصی اور گناہ رخصتوں کے لیے سبب نہيں بن سکتیں ، اسی لیے گناہ کرنے کے لیے جانے والا مسافر نماز قصر نہيں کرے گا اورنہ ہی وہ روزہ افطار کرے گا اس لیے کہ اس صورت میں سبب معصیت ہے لھذا رخصت پر عمل کرنا مناسب نہيں ۔
کیونکہ مکلف کواس کی رخصت دینا اس معصیت کی زیادتی اورتکثیر کا باعث بنے گی اوراس میں وسعت کی کوشش ہے ۔ الفروق ( 2 / 33 ) ۔
تواس طرح شریعت اسلامیہ کے قواعد زنا سے حاملہ عورت کو وہی رخصت نہيں دیتے جوکہ نکاح صحیح سے حاملہ عورت کوملتی ہیں تا کہ وہ اس معصیت اورگناہ پر معاون و ممد ثابت نہ ہو ، اورنہ ہی اس شنیع اور قبیح کام سےخلاصی حاصل کرنے کے راستے ہی آسان کرتی ہے ۔
اس حالت میں بچہ والدین کی ولایت بھی کھو بیٹھے گا اوراس کا کوئی ولی نہيں اس لیے کہ شریعت میں والد کا اطلاق اس پر ہوتا ہے جس کا عورت کے ساتھ صحیح اورشرعی نکاح ہونےکی بنا پر بچہ پیدا ہو اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا بھی یہی معنی ہے :
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
( بچہ بستر والے کے لیے ہے اورزانی کے لیے پتھر ہیں ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔
تواس حالت میں اس بچے کا ولی حکمران ہوگا کیونکہ جس کا کوئی ولی نہ ہو اس کا ولی حکمران ہوتا ہے ، اورحکمران کا تصرف مصلحت کے ساتھ منسلق ہے ، والدہ کی مصلحت کی حفاظت کی بنا پر بچے کی روح کوختم کرنے میں کوئی بھی مصلحت نہیں پائي جاتی ، اس لیے کہ اس میں اس قبیح اورشنیع فعل کرنے والی عورت کواس فعل کے کرنے پر ابھارنا ہے جوکہ صحیح نہیں ۔
اور زانی عورت جوکہ اس قبیح اور شنیع فعل کی مرتکب ہوئي ہے اس کا اسقاط حمل اس وقت کروانا ممکن ہے جب وہ صحیح اور سچی توبہ کرنے کا ارادہ کرے اور اسے بہت ہی شدید قسم کا خوف ہو جوکہ شریعیت اسلامیہ کا ایک بہت ہی سنہرا اصول اور قاعدہ ہے ۔
زنا اور لواطت