find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Imam ke pichhe agar Namaj me kami ya ijafa ho jaye to kya karna chahiye?

Imam ke pichhe Namaj agar kami ya jyada hone ki surat me Muktadi ko kya karna chahiye?
Imam ke janib se agar koi khalal paida ho to Muktadi ko kya karna chahiye?
امام کے پیچھے نماز میں کمی یا بیشی ہونے کی صورت میں مقتدی کیلیے ممکنہ صورتیں*

الحمد للہ:
اگر نماز میں امام کی جانب سے کوئی خلل واقع نہ ہو تو مقتدی کیلیے نماز کے تمام افعال میں امام کی اقتدا کرنا واجب ہے؛ کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ  صحیح بخاری: (689) اور امام مسلم رحمہ اللہ  صحیح مسلم : (411)  میں روایت کرتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (امام کو مقرر ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے ، چنانچہ اگر امام کھڑے ہو کر نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اور جب رکوع کر لے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ، جب امام "سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ" کہے تو تم  "رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ" کہو، جب امام کھڑے ہو کر نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اور جس وقت امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو)

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں تکبیر، قیام، قعدہ، رکوع اور سجدے ہر حالت میں مقتدی کیلیے امام کی اقتدا کو واجب قرار دیا گیا ہے، مقتدی یہ سب کام امام کے پیچھے  کرے گا چنانچہ تکبیرِ تحریمہ امام کے فارغ ہونے کے بعد کہے گا، اور اگر مقتدی نے امام کے تکبیرِ تحریمہ سے فارغ ہونے سے پہلے تکبیر تحریمہ کہہ دی تو اس کی نماز با جماعت شروع ہی نہیں ہو گی، مقتدی امام کے رکوع شروع کرنے کے بعد اور امام کے رکوع سے اٹھنے سے پہلے رکوع کریگا، اگر امام کے ساتھ ساتھ یہ اعمال کرے یا آگے بڑھے تو یہ برا عمل ہے، بالکل اسی طرح سجدہ کرنا ہے، اور ایسے ہی جب امام نماز کا سلام پھیر کر فارغ ہو جائے تو پھر سلام پھیرےگا ، چنانچہ اگر امام سے پہلے سلام پھیر لیا تو اس کی نماز باطل ہو جائے گی، البتہ جماعت سے الگ ہونے کیلیے امام سے پہلے سلام  پھیر دے تو اس صورت کے متعلق اختلاف مشہور ہے، اور اگر امام کے ساتھ سلام پھیرے، پہلے یا بعد میں نہیں تو یہ برا عمل ہے" انتہی

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"رکوع، سجدہ کرتے ہوئے اور ان سے اٹھتے ہوئے اور اسی طرح قیام  میں مقتدی پر واجب  ہے کہ امام کی اقتدا کرے،  امام کے رکوع اور سجدہ کرنے کے بعد ہی رکوع اور سجدے میں جائے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسی طرح کرنے کا حکم دیا ہے اور امام سے آگے بڑھنے یا ساتھ ساتھ نماز کے ارکان ادا کرنے سے منع فرمایا ہے" انتہی
"فتاوى اللجنة الدائمة" (7 /315)

اگر امام نماز کا کوئی رکن چھوڑ دے تو اس کی کئی صورتیں ہیں:

1- اگر امام تکبیرِ تحریمہ جان بوجھ کر ترک کر دے یا بھول جائے تو ایسی صورت میں امام کی اقتدا کرنا درست نہیں ہے ؛ کیونکہ اس کی نماز ہی شروع نہیں ہوئی، اس کی دلیل ابو داود: (61) ترمذی: (3) میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نماز کی کنجی وضو ہے ،علاوہ ازیں  حرمت ِنماز تکبیرِ تحریمہ سے شروع ہوتی ہے اور سلام   حرمت نماز کی منتہا ہے) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح کہا ہے۔

ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر نماز پڑھنے والا شخص عمداً یا سہواً تکبیرِ تحریمہ چھوڑ دے تو اس کی نماز شروع ہی نہیں ہوتی؛ کیونکہ  نماز شروع ہونے کیلیے تکبیرِ تحریمہ کا ہونا ضروری ہے" انتہی
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (13 /320)

2- اگر امام کوئی ایسا رکن ترک کر دے جس کی کمی پوری نہیں ہو سکتی ، مثال کے طور پر: سورہ فاتحہ کی تلاوت میں خلل پیدا  ہو ، یا رکوع اور سجدے میں اطمینان مفقود ہو  تو مقتدی الگ سے نماز پڑھنے کی نیت کر لے اور اپنی نماز اکیلے ہی ادا کرے۔

اس بارے میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر امام نماز پڑھاتے ہوئے جلد بازی سے کام لے، اطمینان کا فقدان ہو یا  اپنے مقتدیوں کو ہی اطمینان سے ارکانِ نماز ادا نہ کرنے دے تو یہاں پر ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، ایسے امام کی اقتدا سے نکلنا واجب ہے اور مقتدی اپنی نماز اکیلے ہی پوری کر لے؛ کیونکہ اگر امام کی نماز اتنی لمبی ہو کہ سنت کی مخالفت لازم آئے تو ایسی صورت میں مقتدی کیلیے اکیلے نماز ادا کرنے کی اجازت ہے ، تو بالکل اسی طرح اگر امام نماز میں اطمینان کے ساتھ جماعت نہیں کروا رہا تو اس سے مقتدی کیلیے الگ نماز پڑھنے کی اجازت نکلتی ہے، چنانچہ اگر امام اتنی جلدی اور تیزی کے ساتھ نماز پڑھائے کہ مقتدی کو اطمینان کا موقعہ ہی نہ ملے اور یہ واجب رہ جائے تو اس حالت میں مقتدی پر لازمی ہے کہ وہ امام کی اقتدا سے نکل جائے اور اکیلے نماز پڑھے؛ کیونکہ نماز میں اطمینان یقینی بنانا نماز کا رکن ہے" انتہی
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (13 /634)

3- اور اگر امام ایسا رکن بھول کر چھوڑ دیتا ہے جس کا تدارک ممکن ہے ، مثال کے طور پر: رکوع یا سجدہ  وغیرہ تو پھر مقتدیوں پر واجب ہے کہ وہ سبحان اللہ کہیں، اور امام کی ذمہ داری ہے کہ چھوٹنے والا رکن ادا کرے، چنانچہ امام کے بھول جانے کی صورت میں مقتدیوں کیلیے  امام کی اقتدا چھوڑ دینا جائز نہیں ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"جب امام نماز پڑھاتے ہوئے دو سجدوں کے درمیان جلسہ بھول کر کھڑا ہو جائے اور مقتدی سبحان اللہ کہیں تو ایسی صورت میں امام واپس  ہو کر سجدہ کرے گا یا پوری رکعت دوبارہ پڑھے گا؟"
اس پر انہوں نے جواب دیا:
"اس شخص نے جلسہ اور دوسرا سجدہ نہیں کیا تو اس پر لازمی ہے کہ واپس ہو اور سجدہ کرے چاہے اگلی رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھ چکا ہو، حتی کہ رکوع ہی کیوں نہ کر لیا ہو، یعنی: مقتدیوں نے امام کو اسی وقت متنبہ کیا کہ امام اگلی رکعت  کے رکوع سے سر اٹھا رہا ہے تو امام پر واجب ہے کہ واپس جلسہ میں بیٹھے اور سجدہ کرے، پھر کھڑے ہو کر اپنی نماز مکمل کرے، لیکن اگر امام اگلی رکعت کے دو سجدوں کے درمیان جلسے تک پہنچ جاتا ہے تو پھر یہ رکعت سابقہ رکعت  کا متبادل ہو جائے گی؛ کیونکہ اگر ہم نے اب اسے کہا جلسہ اور سجدہ کرو تو وہ اب جلسہ اور دوسرا سجدہ کر چکا ہے۔
الغرض یہ اصول اور قاعدہ یاد رکھیں: جب انسان کسی بھی رکعت میں  رکن بھول جائے تو یاد آنے پر فوری  رکن کو ادا کرنا ضروری ہے، الا کہ آئندہ رکعت میں بھولے ہوئے رکن کی جگہ تک پہنچ جائے؛ ایسی صورت میں پہلی رکعت کالعدم ہو جائے گی اور دوسری رکعت اس کے قائم ہو گی ، لہذا جب بھولے ہوئے رکن کی جگہ تک پہنچے تو پھر نمازی یہ نیت کرے کہ یہ سابقہ رکعت ہے ۔" انتہی
" لقاء الباب المفتوح" (180 /25)

4- اگر امام ایسا رکن چھوڑ دے جسے مقتدی رکن سمجھے لیکن امام اسے رکن نہ سمجھے، یا کوئی کام مقتدی کے ہاں حرام ہو امام کے ہاں نہ ہو، تو ایسی صورت میں اس کے پیچھے نماز صحیح ہو گی۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر امام کوئی ایسا رکن چھوڑ دے جو مقتدی کے ہاں رکن ہو امام کے ہاں رکن نہ ہو  تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے، یہ امام احمد کے دو موقفوں میں سے ایک ہے یہی امام مالک اور مقدسی رحمہما اللہ کا مذہب ہے۔"

انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ:
"اگر امام کوئی ایسا کام کر لے جو مقتدی کے ہاں حرام ہو، امام کے ہاں حرام نہ ہو اور اس کام کے متعلق اجتہادی گنجائش بھی نکلتی ہو تو اس کے پیچھے نماز ادا کرنا صحیح ہے، امام احمد سے یہی موقف مشہور ہے۔" انتہی
"الاختيارات الفقهية" (70)

مقتدی کو چاہیے کہ جن امور میں اجتہادی گنجائش نکلتی ہے  ان میں اپنے امام کی اقتدا کرے چاہے دونوں کا اس کام کے حکم میں اختلاف ہو، مثلاً: قنوت، سجدہ تلاوت وغیرہ اور اسی طرح اگر بارش کی صورت میں امام نمازیں جمع کر لے اور مقتدی اسے جائز نہ سمجھے ، تو بھی امام کی اقتدا کرے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مقتدی کو چاہیے کہ جن امور میں اجتہاد کی گنجائش ہے ان میں امام کی اقتدا کرے، اگر امام قنوت کرے تو مقتدی بھی ساتھ قنوت کرے اور اگر امام قنوت نہ کرے تو مقتدی بھی قنوت نہ کرے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (امام اقتدا کیلیے ہی بنایا جاتا  ہے) اور اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ: (اپنے امام کی مخالفت مت کرو) اور اسی طرح صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (وہ تمہیں نمازیں پڑھائیں  اور درست انداز میں پڑھائیں تو ان کی بھی ہو جائے گی اور تمہاری بھی اور اگر غلط پڑھائیں تو تمہاری ہو جائے گی ان کی نہیں ہو گی)" انتہی
" مجموع الفتاوى " ( 23 / 115 ، 116 )

اس صورت کا بیان کہ جب  امام رکن زیادہ کر دیتا ہے تو:

اگر امام بھول کر کسی رکن کا اضافہ کر دیتا ہے، مثلاً:  چار رکعت والی نماز میں پانچویں رکعت کیلیے کھڑا ہو جاتا ہے، یا سجدے کا اضافہ کر دیتا ہے تو مقتدی پر امام کو متنبہ کرنا واجب ہے، اگر امام اضافی عمل سے نہیں ہٹتا تو مقتدی کیلیے اس اضافی عمل میں امام کی اقتدا جائز نہیں ہے، اس لیے مقتدی بیٹھا رہے تشہد پڑھے اور سلام پھیر دے، لہذا اگر مقتدی کو علم ہو کہ یہ پانچویں رکعت ہے اور وہ امام کی اقتدا جاری رکھے تو مقتدی کی نماز باطل ہو جائے گی، لیکن اگر لا علمی یا بھول جانے کی وجہ سے امام کی اقتدا جاری رکھے تو مقتدی کی نماز صحیح ہو گی۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (87853) کا مطالعہ کریں۔

- اگر امام نماز کے واجبات میں سے کسی واجب کو بھول کر ترک کر دے ، مثلاً: پہلا تشہد، تکبیرات انتقال، یا "سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ" نہ کہے تو مقتدی کیلیے امام کی اقتدا ترک کرنا جائز نہیں ہے، مقتدی کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امام کو بھول جانے پر سبحان اللہ کہہ کر یاد دلوائے، چنانچہ اگر امام کو  واجب عمل کی جگہ سے اگلے عمل کی جگہ تک پہنچنے سے پہلے پہلے یاد آ جائے تو اس واجب عمل کو بجا لائے، اس صورت میں اس پر کچھ نہیں ہو گا۔

- اگر بھولے ہوئے عمل سے منتقل ہونے کے بعد اور آئندہ عمل کو شروع کرنے سے قبل یاد آ جائے تو واپس لوٹ کر اس واجب کو ادا کرے گا اور آخر میں سجدہ سھو بھی کریگا۔

- اور اگر  آئندہ عمل شروع  ہونے کے بعد یاد آئے  تو پھر وہ واجب ساقط ہو جائے گا اور امام اپنی نماز جاری رکھے گا، لیکن سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کرے گا۔

سنت ترک کرنے کی صورت میں:

- اگر امام نماز کی سنتوں میں سے کوئی سنت ترک کر دے ، مثلاً: دعائے استفتاح، تعوذ، رکوع جاتے اور اٹھتے ہوئے رفع الیدین نہ کرے یا کسی اور سنت پر عمل عمداً یا سہواً نہ کرے  تو امام پر کچھ نہیں ہے اور نہ ہی مقتدی پر کچھ ہے۔

- کوئی بھی ایسا عمل جو امام کی مخالفت شمار ہو مقتدی ایسا عمل مت کرے، بشرطیکہ امام کی نماز صحیح ہو۔

نماز کا وہ مسنون عمل جسے امام بجا نہیں لاتا اور اگر مقتدی وہ عمل بجا لاتا ہے تو اس سے امام کی مخالفت لازم نہیں آتی تو مقتدی کیلیے ایسا عمل کرنا مستحب ہے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مستحب عمل اگر امام نہ کرے تو وہ ساقط ہو جاتا ہے، مثلاً: جلسہ استراحت کو امام مستحب نہیں سمجھتا تو مقتدی کو بھی چاہیے کہ امام کی اقتدا کرتے ہوئے جلسہ استراحت نہ بیٹھے، چاہے مقتدی جلسہ استراحت کو مستحب سمجھتا ہو۔

اگر آپ یہ کہیں کہ: کیا یہی حکم رفع الیدین کے بارے میں بھی ہے؟ کہ امام رکوع جاتے ہوئے رکوع سے اٹھتے ہوئے اور پہلے تشہد سے کھڑے ہوتے ہوئے  رفع الیدین کا قائل نہیں ہے ، لیکن مقتدی ان کا قائل ہے  تو ایسی صورت میں ہم مقتدی کو یہ کہیں گے کہ تم بھی امام کی طرح رفع الیدین مت کرو؟
تو اس کا جواب ہے کہ: نہیں، بلکہ آپ رفع الیدین کریں؛ کیونکہ رفع الیدین کرنے سے امام کی مخالفت لازم نہیں آتی، آپ امام کے ساتھ ہی اٹھیں گے اور اسی کے ساتھ سجدہ کریں گے اور اس کے ساتھ ہی کھڑے ہوں گے، بخلاف ان امور کے جن میں مخالفت لازم آتی ہے" انتہی
"مجموع فتاوى و رسائل ابن عثیمین" (13 /632)

Share:

Balo ka joora Bandh kar Namaj padhna kaisa hai?

Balo ka joora Bandh kar Namaj padhna.
Kya Joora bandh kar namaj padhi ja sakti hai?
بالوں کو جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا*

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جوڑا باندھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ:

’ وَلَا یَکُفُّ ثَوبَهٗ، وَ لَا شَعرَهٗ  ‘صحیح البخاری، بَابُ لاَ یَکُفُّ شَعَرًا،رقم:۸۱۵
’’ کوئی آدمی اپنے کپڑے اور بالوں کو اکٹھا نہ کرے۔‘‘

’’سنن ابی داؤد‘‘ میں بسند جید مروی ہے، کہ ابو رافعt نے حسن بن علی کو دیکھا کہ وہ اپنی گدی پر بال باندھ کر نماز پڑھ رہے تھے ، تو انہوں نے کھول دیئے، اور کہا کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم   سے سنا ہے، کہ ’’ یہ شیطان کے بیٹھنے کی جگہ ہے:’ بَابٌ : اَلرَّجُلُ لَا یُصَلِّی عَاقِصًا شَعرَهٗ۔‘ فتح الباری:۲/۲۹۹

اس واقعے کا تعلق اگرچہ مَرد سے ہے، لیکن اصلاً شرعی احکام و مسائل میں مرد و زن سب برابر ہیں،اِلَّایہ کہ تخصیص کی کوئی دلیل ہو، جو یہاں نہیں ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:کہ اس فعل کی ممانعت پر علماء کا اتفاق ہے۔مگر یہ کراہت تنزیہی ہے۔ اگر کوئی شخص اس حالت میں نماز پڑھ لے۔ تو نماز درست ہو گی۔ البتہ یہ کام ہے مکروہ(ناپسندیدہ) عون المعبود: ۱/۲۴۶

’’فتح الباری‘‘میں ہے کہ ’ وَاتَّفَقُوا عَلٰی أَنَّهٗ لَا یُفسِدُ الصَّلَاةَ ‘ (۲/۲۹۶) ’’علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فعل ہذا سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔‘‘

  ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

Share:

Kya Allah ke nabi 11 shadiyan ki thi?

Kya Allah ke nabi ne 11 shadiyan ki thi?
Aap Sallahu Alaihe Wasallam ne kitni shadiyan ki thi?
سوال: کیا نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے 11 شادیاں کی تھی؟

جواب تحریری

نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم  ایک شوہر کی حثییت

از قلم خادم علم العلماء حافظ عامر سہیل عثمانی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں 11 نکاح کیے جن کی تفصیل درج ذیل ہے

1️⃣ سب سے پہلے آپ نے حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمر 25 سال تھی اور حضرت خدیجة الکبری عمر 40سال تھی (طبقات ابن سعد 1/129 )

2️⃣دوسرا نکاح سودہ رضی اللہ عنہا سے ہو انکے والد کا نام زمعہ ہے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمر 50 سال تھی اور سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کی عمر بھی 50سال تھی یہ نکاح حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد ہوا (طبقات ابن سعد 8/58 'الاصابة 4/338

3️⃣تیسرا نکاح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہوا جو من جانب اللہ تھا تفصیل درج ذیل ہے عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :    أُرِيتُكِ قَبْلَ أَنْ أَتَزَوَّجَكِ مَرَّتَيْنِ ، رَأَيْتُ الْمَلَكَ يَحْمِلُكِ فِي سَرَقَةٍ مِنْ حَرِيرٍ ، فَقُلْتُ لَهُ : اكْشِفْ ، فَكَشَفَ ، فَإِذَا هِيَ أَنْتِ ، فَقُلْتُ : إِنْ يَكُنْ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ يُمْضِهِ ، ثُمَّ أُرِيتُكِ يَحْمِلُكِ فِي سَرَقَةٍ مِنْ حَرِيرٍ ، فَقُلْتُ : اكْشِفْ ، فَكَشَفَ فَإِذَا هِيَ أَنْتِ ، فَقُلْتُ : إِنْ يَكُ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ يُمْضِهِ    .

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم سے شادی کرنے سے پہلے مجھے تم دو مرتبہ دیکھائی گئیں، میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ تمہیں ریشم کے ایک ٹکڑے میں اٹھائے ہوئے ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ کھولو اس نے کھولا تو وہ تم تھیں۔ میں نے کہا کہ اگر یہ اللہ کے پاس سے ہے تو وہ خود ہی اسے انجام تک پہنچائے گا۔ پھر میں نے تمہیں دیکھا کہ فرشتہ تمہیں ریشم کے ایک ٹکڑے میں اٹھائے ہوئے ہے۔ میں نے کہا کہ کھولو! اس نے کھولا تو اس میں تم تھیں، پھر میں نے کہا کہ یہ تو اللہ کی طرف سے ہے جو ضرور پورا ہو گا۔“ ( صحیح البخاری 7012)

4️⃣چوتھا نکاح آپ کا حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہ سے ہوا جو بیوہ ہو کر آپ کے نکاح میں آئیں
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ حِينَ تَأَيَّمَتْ حَفْصَةُ بِنْتُ عُمَرَ مِنْ خُنَيْسِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَتُوُفِّيَ بِالْمَدِينَةِ ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : أَتَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ حَفْصَةَ ، فَقَالَ : سَأَنْظُرُ فِي أَمْرِي ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ ثُمَّ لَقِيَنِي ، فَقَالَ : قَدْ بَدَا لِي أَنْ لَا أَتَزَوَّجَ يَوْمِي هَذَا ، قَالَ عُمَرُ : فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ ، فَقُلْتُ : إِنْ شِئْتَ زَوَّجْتُكَ حَفْصَةَ بِنْتَ عُمَرَ ، فَصَمَتَ أَبُو بَكْرٍ فَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيَّ شَيْئًا وَكُنْتُ أَوْجَدَ عَلَيْهِ مِنِّي عَلَى عُثْمَانَ ، فَلَبِثْتُ لَيَالِيَ ثُمَّ خَطَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَنْكَحْتُهَا إِيَّاهُ ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ : لَعَلَّكَ وَجَدْتَ عَلَيَّ حِينَ عَرَضْتَ عَلَيَّ حَفْصَةَ فَلَمْ أَرْجِعْ إِلَيْكَ شَيْئًا ، قَالَ عُمَرُ : قُلْتُ : نَعَمْ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : فَإِنَّهُ لَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَرْجِعَ إِلَيْكَ فِيمَا عَرَضْتَ عَلَيَّ إِلَّا أَنِّي كُنْتُ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ ذَكَرَهَا ، فَلَمْ أَكُنْ لِأُفْشِيَ سِرَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَلَوْ تَرَكَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَبِلْتُهَا    .
جب ( ان کی صاحبزادی ) حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا ( اپنے شوہر ) خنیس بن حذافہ سہمی کی وفات کی وجہ سے بیوہ ہو گئیں اور خنیس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے اور ان کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئی تھی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان کے لیے حفصہ رضی اللہ عنہا کو پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس معاملہ میں غور کروں گا۔ میں نے کچھ دنوں تک انتظار کیا۔ پھر مجھ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ملاقات کی اور میں نے کہا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں آپ کی شادی حفصہ رضی اللہ عنہا سے کر دوں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ خاموش رہے اور مجھے کوئی جواب نہیں دیا۔ ان کی اس بےرخی سے مجھے عثمان رضی اللہ عنہ کے معاملہ سے بھی زیادہ رنج ہوا۔ کچھ دنوں تک میں خاموش رہا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حفصہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا پیغام بھیجا اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شادی کر دی۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور کہا کہ جب تم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کا معاملہ میرے سامنے پیش کیا تھا تو میرے اس پر میرے خاموش رہنے سے تمہیں تکلیف ہوئی ہو گی کہ میں نے تمہیں اس کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے کہا کہ واقعی ہوئی تھی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے جو کچھ میرے سامنے رکھا تھا، اس کا جواب میں نے صرف اس وجہ سے نہیں دیا تھا کہ میرے علم میں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حفصہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا ہے اور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راز کو ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ دیتے تو میں حفصہ کو اپنے نکاح میں لے آتا۔  (صحیح مسلم 2438)
5️⃣ پانچواں نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت زینب بنت خزیمہ سے ہو جو بعد نکاح میں ماہ تک زندہ رہی (الاصابة 4/315,316)
6️⃣ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ہو یہ بھی بیوہ تھی یہ قدیم الاسلام تھی
7️⃣پانچواں نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ام حبیبہ بنت ابی سفیان سے ہو انکے شوہر کا نام عبد اللہ بن جحش تھا جو مرتد ہو گیا تھا یہ بھی  (الاصابہ 4/305)
8️⃣آٹھواں نکاح آپ کا زینب بنت جحش سے ہوا جو مطلقہ ہو کر آپ کے نکاح میں آئیں جب آپ کا ان سے نکاح ہو تو حضرت زینب کی عمر 36سال تھی
9️⃣آپ کا نکاح حضرت جویرہ سے ہوا اس وقت حضرت جویرہ کی عمر 20سال تھی یہ بھی بیوہ تھی( الاصابة 4/26)
🔟دسواں نکاح آپ کا حضرت صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سےے ہوا یہ بھی بیوہ تھی جب آپ سے نکاح ہو انکی عمر 17سال تھی حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ ،    أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ ، فَصَلَّيْنَا عِنْدَهَا صَلَاةَ الْغَدَاةِ بِغَلَسٍ ، فَرَكِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكِبَ أَبُو طَلْحَةَ وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ ، فَأَجْرَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقِ خَيْبَرَ ، وَإِنَّ رُكْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ حَسَرَ الْإِزَارَ عَنْ فَخِذِهِ حَتَّى إِنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْيَةَ ، قَالَ : اللَّهُ أَكْبَرُ ، خَرِبَتْ خَيْبَرُ إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ ، قَالَهَا ثَلَاثًا ، قَالَ : وَخَرَجَ الْقَوْمُ إِلَى أَعْمَالِهِمْ ، فَقَالُوا : مُحَمَّدٌ ، قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ : وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا وَالْخَمِيسُ يَعْنِي الْجَيْشَ ، قَالَ : فَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً فَجُمِعَ السَّبْيُ فَجَاءَ دِحْيَةُ ، فَقَالَ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، أَعْطِنِي جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ ، قَالَ : اذْهَبْ ، فَخُذْ جَارِيَةً ، فَأَخَذَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا نَبِيَّ اللَّهِ ، أَعْطَيْتَ دِحْيَةَ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ سَيِّدَةَ قُرَيْظَةَ وَالنَّضِيرِ لَا تَصْلُحُ إِلَّا لَكَ ، قَالَ : ادْعُوهُ بِهَا ، فَجَاءَ بِهَا ، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : خُذْ جَارِيَةً مِنَ السَّبْيِ غَيْرَهَا ، قَالَ : فَأَعْتَقَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَزَوَّجَهَا ، فَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ : يَا أَبَا حَمْزَةَ ، مَا أَصْدَقَهَا ؟ قَالَ : نَفْسَهَا ، أَعْتَقَهَا وَتَزَوَّجَهَا حَتَّى إِذَا كَانَ بِالطَّرِيقِ جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ فَأَهْدَتْهَا لَهُ مِنَ اللَّيْلِ ، فَأَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرُوسًا ، فَقَالَ : مَنْ كَانَ عِنْدَهُ شَيْءٌ فَلْيَجِئْ بِهِ ، وَبَسَطَ نِطَعًا فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالتَّمْرِ وَجَعَلَ الرَّجُلُ يَجِيءُ بِالسَّمْنِ ، قَالَ : وَأَحْسِبُهُ قَدْ ذَكَرَ السَّوِيقَ ، قَالَ : فَحَاسُوا حَيْسًا ، فَكَانَتْ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ    .
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خیبر میں تشریف لے گئے۔ ہم نے وہاں فجر کی نماز اندھیرے ہی میں پڑھی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے۔ اور ابوطلحہ بھی سوار ہوئے۔ میں ابوطلحہ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کا رخ خیبر کی گلیوں کی طرف کر دیا۔ میرا گھٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چھو جاتا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ران سے تہبند کو ہٹایا۔ یہاں تک کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاف اور سفید رانوں کی سفیدی اور چمک دیکھنے لگا۔ جب آپ خیبر کی بستی میں داخل ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «الله اكبر» اللہ سب سے بڑا ہے، خیبر برباد ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے آنگن میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہو جاتی ہے۔ آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا، اس نے کہا کہ خیبر کے یہودی لوگ اپنے کاموں کے لیے باہر نکلے ہی تھے کہ وہ چلا اٹھے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آن پہنچے۔ اور عبدالعزیز راوی نے کہا کہ بعض انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے ہمارے ساتھیوں نے «والخميس‏» کا لفظ بھی نقل کیا ہے ( یعنی وہ چلا اٹھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر لے کر پہنچ گئے ) پس ہم نے خیبر لڑ کر فتح کر لیا اور قیدی جمع کئے گئے۔ پھر دحیہ رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! قیدیوں میں سے کوئی باندی مجھے عنایت کیجیئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ کوئی باندی لے لو۔ انہوں نے صفیہ بنت حیی کو لے لیا۔ پھر ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! صفیہ جو قریظہ اور نضیر کے سردار کی بیٹی ہیں، انہیں آپ نے دحیہ کو دے دیا۔ وہ تو صرف آپ ہی کے لیے مناسب تھیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دحیہ کو صفیہ کے ساتھ بلاؤ، وہ لائے گئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو فرمایا کہ قیدیوں میں سے کوئی اور باندی لے لو۔ راوی نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو آزاد کر دیا اور انہیں اپنے نکاح میں لے لیا۔ ثابت بنانی نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ابوحمزہ! ان کا مہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا رکھا تھا؟ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خود انہیں کی آزادی ان کا مہر تھا اور اسی پر آپ نے نکاح کیا۔ پھر راستے ہی میں ام سلیم رضی اللہ عنہا ( انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ) نے انہیں دلہن بنایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رات کے وقت بھیجا۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دولہا تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس بھی کچھ کھانے کی چیز ہو تو یہاں لائے۔ آپ نے ایک چمڑے کا دستر خوان بچھایا۔ بعض صحابہ کھجور لائے، بعض گھی، عبدالعزیز نے کہا کہ میرا خیال ہے انس رضی اللہ عنہ نے ستو کا بھی ذکر کیا۔ پھر لوگوں نے ان کا حلوہ بنا لیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔  (صحیح بخاری 371)

(11) آپ کا نکاح حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے ہوا یہ بھی بیوہ تھی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری نکاح تھا جو ذیقعدہ 7ہجری کو ہو جب آپ صلی اللہ علیہ پکی عمر 59سال تھی (صحیح بخاری مختصرا 1837  الااصابہ 4/404 )


آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو کنیزہ(لونڈیاں ) بھی تھی  جنکے نام حسب ذیل ہیں
1 حضرت ماریہ قبطیہ رضی اللہ عنہا

(نوٹ )

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کثرت ازدواج کے اسباب ❓

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سارے نکاح کسی نفسانی خواہش کی بنا پر نہیں کیے تھے بلکہ مشئت الہی اور مامور من اللہ ہونے کی حثییت سے کیے  عالم شباب یعنی 25سال سے50سال کی عمر تو ایک بیوی کے ساتھ بسر کی بیوی بھی وہ جو بیوہ ہونے کے ساتھ عمر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے 15سال بڑی تھی

کثرت ازدواج کی وجوہات

1️⃣  بیوگان کے نکاح میں خواہ مخواہ کی رکاوٹ کو دور کر کے انھیں اذیت ناک زندگی سے نجات دلانا تھا
2️⃣  عورتوں کو ممتاز مقام عطا کرنے کی کوشش تھی
3️⃣  امت کو بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا عملی نمونہ پیش کرنا تھا

4️⃣ عورتوں میں اسلام کی تبلیغ وأشاره مطلوب تھی
5️⃣  عرب میں بیواؤں کو منحوس سمجھا جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان رسومات کا خاتمہ کرنا

2حضرت ریحانہ بنت شمعون رضی اللہ عنہا

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS