find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya Kharab Qabar pe fir se Mitti dal Sakte hai?

Kya Purane Qabar ko fir se Marammat kar sakte hai?
Ager Qabar kharab ho jaye to uspar aur mitti dal kar thik kar sakte hai take Majeed Qabar kharab na ho aur uspe Nam Likh sakte hai taki Pahchana Ja sake.
اسلام علیکم
قبر اگر خراب ھو جاے تو اس پر اور مٹی ڈال کر ٹیھک کر سکتے تاکہ مزید قبر خراب نہ ھو.       ۔۔۔۔۔اور اس پر نام لکھ سکتے ہیں کہ نشانی رہے

جواب تحریری
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر قبر گرنے سے آئندہ اس کے معدوم ہونے کا اندیشہ ہو تو اسے مرمت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ قبر کو برقرار رکھنا اور اس کی شناخت کے لیے اس پر پتھر وغیرہ رکھنا مشروع ہے، اس بناء پر مسمار شدہ قبروں کو درست کیا جاسکتا ہے، ضرورت پڑنے پر میت کو بھی قبر سے نکالا جاتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے"کیا کسی ضرورت کے پیش نظر میت کو قبر یالحد سے نکالا جا سکتا ہے؟پھر آپ نے وہ حدیث ذکر کی ہے کہ عبداللہ بن ابی منافق کو قبر میں داخل کرنے کے بعد دوبارہ نکالا گیا اور آپ نے اپنی قمیص پہنائی پھر اسے دفن کیا گیا۔[1]نیز حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنے والد گرامی کو دفن کرنے کے چھ ماہ بعد قبر سے نکالا اور دوسری جگہ پر دفن کیا تھا، ان کے صرف کان کا تھوڑا سا حصہ متاثر ہوا تھا، باقی جسم اسی طرح تھا گویا ابھی دفن کیا گیا ہو، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کی اجازت لی ہوگی، کیونکہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  زندہ تھے، پھر چھیالیس سال بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے عہد حکومت میں ان کی دوبارہ قبر کشائی کی گئی اور انہیں نکال کر کسی دوسری جگہ دفن  کیا گیا، کیونکہ سیلاب کی وجہ سے قبریں مسمار ہوچکی تھیں نیز حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وہاں پانی کا ایک چشمہ جاری کرنا چاہتے تھے۔[2]

بہرحال اگر میت کو دفن کیے ہوئے زیادہ عرصہ بیت گیا ہوتو میت کو نکالنے کے بجائے قبر کو ہی درست کر دیا جائے، عام طور پر دفن کے چھ ماہ بعد زمین میت پر اثر انداز ہونے کا آغاز کرتی ہے، اگر میت کے خراب ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو اسے نکال کر کفن سے مٹی وغیرہ دور کردی جائے پھر اسے  دفن کر دیا جائے، ایسا کرنا صرف جائز ہے ضروری نہیں، اس گنجائش کے باوجود ہمارا ذاتی رجحان یہ ہے کہ میت کو ا پنی جگہ پر رہنے دیا جائے اور صرف قبر پر مٹی ڈال کر اسے درست کر دیا جائے ،کیونکہ معلوم نہیں میت کس حالت میں ہو؟ ایسا نہ ہوکہ اسے نکال کر کسی دیگر پریشانی میں مبتلا ہوجائیں۔ (واللہ اعلم)

[1]۔ صحیح بخاری حدیث نمبر:1351۔

[2]۔موطا امام مالک،کتاب الجھاد۔

ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

Share:

Quran ki Talim dene wale kya uske badle Paise le sakte hai?

kya Quran padhane Wale Aalim uske badle paise le sakte hai?
امور پر اجرت لینا جائز نہیں بلکہ حرام ہے ۔۔۔۔؟

جواب تحریری
الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام علي سيد المرسلين اما بعد فاقول و بالله التوفيق

واضح ہو کہ مسئلہ مذکورہ بالا میں اہل حدیث اور حنفی حضرات کا اختلاف ہے۔ اہل حدیث اور جمہور علماء قرآن و حدیث اور دینیات کی تعلیم پر اجرت و مشاہرہ لینا جائز سمجھتے ہیں۔اور کہتے ہیں۔اور معتقد میں احناف اس کو نا جائز کہتے ہیں۔اور متاخرین حنفیہ اہل حدیث کے متفق ہوگئے ہیں۔تفصیل اس کی فتاویٰ نزیریہ جلد دوم کتاب الاجارۃ

اب تو مدت مذید سے اس کے جواز  پر قریباً تمام امت محمدیہ ﷺ کا اجماع ہو رہا ہے۔ عرب و عجم کے تمام علماء تعلیم و تبلیغ بلکہ آذان و اقامت نماز  پر تنخواہیں۔ کھا رہے ہیں۔کسی کی تنخواہ سرکاری بیت المال سے مقرر ہے۔اور کسی کی انجمن یا کسی جماعت  کی طرف سے معین ہے۔ کسی کو کوئی ایک ہی مالدار شخص تنخواہ دے رہا ہے۔ رمضان شریف میں نماز تراویح میں حفاظ قرآن مجید سناتے ہیں۔جب آخر رمضان میں ختم کرتے ہیں۔تواُن کو بہت کچھ دیا جاتا ہے۔اہل حدیث اور حنفیہ کا اس پر تعامل ہے۔کوئی کسی کو حرام خور نہیں کہتا اسی طرح مدارس عرب و عجم میں تعلیم و تبلیغ پر مشاہرے لئے جا رہے ہیں۔اور دئیے جا رہے ہیں۔کسی ۔عالم ۔محدث ۔فقیہ۔نےحرام کا فتویٰ دے کر اس کے انسداد کی کوشش نہیں کی۔فرقہ ناجیہ اہل حدیث کا بھی یہی تعامل چلا آرہا ہے۔

اب مولوی صاحب مذکور کو کونسی وحی نازل ہوگئی۔جس کی بناء پر وہ اس  تمام سلسلہ کو حرام قرار دے رہے ہیں۔نہ ان کو اتنی علمیت ہے۔کہ وہ تحقیقی مسائل میں محدثین سابقین سے سبقت لے گئے ہوں۔ اور نہ ان کا اتنا تقویٰ ہے۔ کہ وہ ہر قسم کے مسائل مختلف میں احتیاٖط سےکام لے کر شبہات سے بچنے لگے ہوں۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ وہ اپنی شہرت کرانے کےلئے تمام علماء دین کو حرام خور کہنے لگے ہوں۔ ورنہ یہ مسئلہ اجماعی اور اتفاقی بن رہا ہے۔اور جو اسکے خلاف ہے شاز ہے۔

اب اس کی مختصر تحقیق سنیے!بلوغ المرام میں حدیث ہے۔

عن ابن عباس ان رسول لله صلي الله عليه وسلم قال ان احق ما اخذ تم عليه اجراكتاب الله  (اخرجہ بخاری)

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! تحقیق بہت ہی لائق چیز جس پر تم مذدوری حاصل کرو۔اللہ کی کتاب ہے۔
(رواہ البخاری)

یہ حدیث نہایت درجہ کی صحیح ہے۔اور اس کتاب کی ہے جس کو کتاب اللہ کے بعد تمام روئے زمین کی کتابوں پر فوقیت حاصل ہے۔ لہذا یہ حدیث اس مسئلے میں حجت قوی ہے۔کہ تعلیم قرآن وغیرہ  پر اجرت لینی جائز ہے۔ بلکہ اور ذریعے سے اجرت لینے اور تنخواہ  وغیرہ حاصل کرنے سے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تعلیم پر اجرت لینا زیادہ لائق ہے۔

امام نووی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں۔

هذا تصريح لجواز اخذ الاجرة علي الرقيةبالفاتحة والذنر وانه حلال لا كراهية فيها وكذا الاجرةعلي تعليم القران وهذا مذهب الشافعي وما لك واحمد واسحاق وابي ثور واخرين من السلف ومن بعدهم ومنعها ابوحنيفةفي تعليم القران واجازها في الرقية

یعنی اس حدیث میں صاف صراحت ہے۔کہ فاتحہ اور دم جھاڑ کر کے اجرت لینا جائز ہے۔اور وہ حلال ہے۔جس میں کوئی کراہت نہیں۔اور اسی طرح تعلیم قرآن پر اجرت لینا حلال ہے۔ یہی مذہب آئمہ دین۔شافعی۔مالک۔احمد۔اسحاق۔ابو ثور۔اور دیگر علماء سلف وخلف کا ہے۔اور تعلیم قرآن پر امام ابو حنیفہ منع کرتے ہیں۔ اور دم کرنے پر جائز کہتے ہیں۔اس تصریح سے واضح ہوا کہ اہل حق کا سواد اعظم اس اجرت کے جواز کا قائل ہے۔

علامہ ابن حزم محلی ج8 ص193 میں  فرماتے ہیں!

والاجارة جائزة علي تعليم القران وعلي تعليم العلم مشاهرةوجملةوكل ذالك جائزة وعلي الرقي وعلي نسخ المصاحف ونسخ كتب العلم لانه لم يات في النهي عن ذلك نص بل قد جاء ت الا باحة كما روينا من طريق البخاري الخ

یعنی تعلیم القرآن اور دیگر علوم کی تعلیم پر اجرت لین جائز ہے۔ ماہوار ہو یا اکٹھی سب جائز ہے۔سروم کرنے اور قرآن اور آسمانی کتب تفسیر حدیث کی کتابوں کی کتابت  پر مزدوری لینا بھی درست ہے کیونکہ اس کی ممانعت کی کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔(تو اصل اشیاء میں اباحت) بلکہ اس کے درست ہونے کے متعلق بخاری کی حدیث ہے جس کو ہم نے روایت کیا۔

پھر علامہ ابن حزم نے حدیث بخاری کو بروایت ابن عباس نقل کر کے اس سےاستدلال کیا  ہے۔ پھر دوسری یہ دلیل پیش کی ہے۔

والخبر المشهور ان رسول الله صلي الله عليه وسلم زوج امراة من رجل بما معه من القران اي يعلمها اياه

یعنی یہ حدیث مشہور ہے۔کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن کی تعلیم کے عوض میں ایک مرد سے ایک عورت کا نکاح کرایا تھا۔

میں کہتا ہوں کہ مسلم شریف کے باب الصدق وجوازكونه تعليم القران میں وہ حدیثیں جن میں تعلیم قرآن کے عوض عورت کے نکاح کر دینے کا زکر ہے۔وارد ہے ان میں یہ الفاظ موجود ہیں۔

فقد زوجتلها فعلمها من القران

کہ  تجھے یہ عورت نکاح کر دی۔تو اسے قرآن کی تعلیم دے۔نیز یہ الفاظ ہیں۔

فقد ملكتلها بها معك من القران

کہ اس عورت کو تیرے قرآن کی تعلیم کے عوض تیری ملک میں کیا جو تجھے یاد ہے۔

ابو دائود میں ہے۔

علمها عشرين ايةوهيامراتك

تو اس کوبیس آیات پڑھا دے۔یہ تیری عورت ہے۔

اب مولوی صاحبان معلوم کریں کہ نکاح ہوگیا تھا یا نہیں۔؟ اور زوجین نے اس پر عمل کیا تھا کہ نہیں؟
اگر جواب اثبات میں ہے۔تو مدعا ہمارا ثابت ہوا۔کہ تعلیم قرآن پر اجرت لینی اور عورت سے نکاح کرنا اور دیگر منافع حاصل کرنے جائز ہیں۔اگر یہ نکاح ناجائز ہے۔کیونکہ اجرت اور مہر ناجائز چیز کا باندھ دیا گیا۔پھر یہ اللہ کے رسول ﷺ اور شریعت مطہرہ پر حملہ ہے۔اور مولوی صاحب کے نزدیک سب حرام کار بنتے ہیں۔تو ان کو اسلام کا دعویٰ چھوڑ دینا چاہیے۔ اورکوئی دوسرا مذہب پسند کر لینا چاہیے۔

نعوز بالله من ذالك

اب اس حدیث پر امام نووی ؒ کا فرمان سنیے! وہ فرماتے ہیں کہ

وفي هذا الحديث دليل لجواز كون الصداق فعليم القران وجوازالاستيجار التعليم ال قران وكلاهما جائز عند ا لشافيي به قال عطاء والحسن بن صالحو مالك و اسحاق وغيرهم و منعه جماعة منهم الزهري وابو حنيفة وهذا الحديث مع الحديث الصحيح ان احق ما اخذتم عليه اجرا كتاب الله يرد ان قول من منع ذلك ونقل القاضي عياض جواز الاستحبار لتعليم القران عن العلماء كافة سوي ابي حنيفة انتهي  (مسلم ج 1 ص 458)

یعنی اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ تعلیم قرآن کا مہر ہونا جائز ہے۔اور تعلیم قرآن پر اجرت لینا بھی جائز ہے۔امام شافعی۔اور عطا  اور حسن بن صالح اورامام مالک اور امام اسحاق وغیرہ کا  یہی مذہب ہے۔ایک شر زمہ قلیل اس سے روکتا ہے جن میں سے زہری اور امام ابو حنیفہ ہیں۔یہ حدیث بمع حدیث ابن عباس مذکور منع کرنے والوں کا رد کرتی  ہے۔

اور قاضی عیاض نے تعلیم قرآن پر اجرت لینے والوں کا جواز تمام علماء سے نقل کیا ہے۔سوائے امام ابو حنیفہ کے محلی ابن حزم میں ہے۔

عن الوضين ابن عطاء قال مكان بالمدينةثلاثة معلمين يعلمون الصبيان فكان عمر بن خطاب يرزق كل واحد خمسة عشر كل شهر (محلی ابن حزم ج8 ص190)

یعنی وضین بن عطاءسے روایت ہے کہ مدینہ میں  تین معلم تھے۔ جو بچوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر مدرس کو پندرہ (درہم یا دینار) دیا کرتے تھے۔

نیز لکھا ہے۔

وصح عن عطاء وابي قلابة ابا حة اجر المعلم

یعنی عطا۔ابو قلابہ سے بھی معلم کی اجرت جائز منقول ہے ۔نیل الاوطار میں ہے۔

ذهب الجمهور الي انها تحل علي تعليم القران

یعنی جمہور علماء اس  طرف گئے ہیں کہ تعلیم قرآن پر اجرت یا مزدوری حلال ہے۔تنقیح الرواہ تخریج مشکواۃ میں ہے۔

استدل به الجمهور علي جواز اخذ الاجرةعلي تعليم القران

یعنی حدیث ابن عباس سے جمہور علماء نے استدلال کیاہے۔کہ تعلیم قرآن پراجرت لینی روا ہے۔

الٖغرض بخاری ومسلم کی صحیح احادیث سے تعلیم قرآن وغیرہ پراجرت لینا جائز ثابت  ہوا چنانچہ الفاظ صاف ہیں کہ اللہ کی کتاب سب سے  زیادہ حق دار ہے کہ تم اس پر مذدوری حاصل کرو۔

بخاری اور مسلم صحیحین کہلاتی ہیں۔جو طبقہ اولیٰ کی کتابیں کہلاتی ہیں۔ا ن کی حدیث سب کتابوں پرمقدم ہے۔ان کے خلاف اگر طبقہ ثانیہ (ابو داو۔ترمذی۔نسائی)یا طبقہ ثالثہ (سنن دارقطنی بیہقی) کی حدیثیں کی جایئں تو ان کے در یہاں تطبیق دی جائے گی۔ورنہ توقف ہوگا۔حضرت شاہ ولی اللہ  محدث دہلوی فرماتے ہیں۔''ک صحیحین کی شان یہ ہے کہ تمام محدثین کا اتفا ق ہے۔کہ ان میں جو حدیثیں مرفوع متصل ہیں وہ سب یقیناً صحیح ہیں۔یہ کتابیں اپنے اپنے مصنفوں تک متواتر نہیں۔''

(حجۃ البالغہ)

دیگر قاعدہ یہ ہے کہ احکام یعنی فرض واجب۔حلال حرام میں صحیح حدیث قابل استدلال ہے اور ضعیف حدیث قابل حجت نہیں ہے۔ہاں فضائل اعمال میں حجت ہے۔چنانچہ صحیح مسلم جلد اول ص21 کی شرح میں امام نووی فرماتے ہیں۔

ان كان يعرف ضعفه لم يحل له ان يحتج به فانهم متفقون علي انه لا نحتج بالضعيف في الاحمام

یعنی روایت کا اگر ضعف معلوم ہے تو اس سے حجت پکڑنا حلال نہیں ہے۔کیونکہ اکثر آئمہ اس بات پر متفق ہیں کہ ضعیف حدیث احکام میں حجت نہیں ہے۔ پس ان دو قاعدوں کو ایک یہ کہ طبقہ اولیٰ کی حدیثیں دیگر طبقوں پر راحج  ہیں دوم ضعیف حدیث  احکام میں حجت نہیں ذہن نشین فرما کر اب تعلیم قرآن پر اجرت لینی حرام کہنے والوں کے دلائل کے جوابات سنئے ایک حدیث وہ ہے جو سائل نے لکھی ہے۔

عن عباده بن صامت قال قلت يا رسول الله صلي الله عليه وسلم رجل اهدي الي  قوسا ممن كنت اعلمه الكتب والقران وليست بمال ارمي عليها في سبيل الله قال ان كنت تحب ان تطوق طموقا من نار فاقبلها

(ابو دائود۔ابن ماجہ)

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔کہ میں نے کہا یا رسول اللہﷺ ایک شخص نے کمان ہدیہ بھیجی ہے۔اور یہ اُن شخصوں میں سے ہے۔کہ جن کو میں قرآن و حدیث کی تعلیم دیا کرتا ہوں۔اور کمان کوئی حال نہیں ہے۔ میں اس کے ساتھ اللہ کی راہ میں تیر اندازی کروں گا۔آپ ﷺ نے فرمایا! کہ اگر تو یہ دوست رکھتا ہے۔ کہ تجھ کو آگ کا طوق پہنایا جائے۔ تو اس کو قبول کرے۔اس حدیث کو ابن دائود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

مانعین اجرت تعلیم اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں۔ پس اس حدیث کے تین جواب ہیں۔

1۔یہ حدیث طبقہ ثانیہ کی ہے۔اور حدیث ابن عباس صحیحین طبقہ روئی کی ہے۔ لہذا اس کے مقابلہ میں مقدم نہ ہوگی۔

2۔حدیث ابن عباس صحیح بلکہ اصح ہے اور حدیث عبادہ ضعیف ہے ۔چنانچہ تنقیح الرواۃ تخریج المشکواۃ ص196 جلد 2 میں ہے۔

وفي اسناد الحديث مغيرة ابن زياد مختلف فيه وثقه وكيع ويحيي ابن معين وتكلم فيه جماعة والستنكر احمد حديثه وقال ابوزرعة لا يحتبح بحديثه وناقض الحاكم فصح حديثه في المتدرك واتهمه في موضع اخر فقال يقال انه حد عن عبادة ابن نسي بحديث موضوع

یعنی اس حدیث کی سند  میں ایک راوی مغیر ابن زیاد ہے۔ جو مختلف فیہ ہے۔وکیع اور یحییٰ ن اسے ثقہ کہا ہے۔ایک جماعت نے اس میں کلام کیا ہے۔یعنی جرح کی ہے۔چنانچہ امام احمد نے اس کی حدیث کو منکر کہا ہے۔اور ابو زرعہ نے کہا ہے کہ اس کی حدیث سے دلیل نہیں  لی جاسکتی۔حاکم نے اس  پر مناقصہ ہے۔ مستدرک میں کہا ہے کہ اس کی حدیث صحیح ہے مگر دوسری جگہ اس کو مہتم کیا ہے۔کہ وہ عبادہ س موضوع حدیث بیان کرتا ہے۔بہر کیف مغیرہ مختلف فیہ ہے۔اورجرح تعدیل پر مقدم ہے۔لہذا مغیرہ ضعیف ہے۔دوسرا راوی  اس حدیث میں اسود بن ثعلبہ ہے۔ اس کے متعلق محلی ابن حزم میں لکھا ہے۔

وهو مجهول لا يدري قاله علي ابن المديني وغيره

یعنی اسود بن ثعلبہ مجہول ہے۔اس کا حال معلوم نہیں ہوا۔علی بن مدینی نے کہا  ہے۔مجہول راوی جس روایت میں ہو وہ ضعیف ہوتی ہے۔تیسرا راوی بقیہ بن ولید ہے۔جس کے متعلق محلی میں ہے۔کہ وھواضعیف وہ ضعیف ہے۔پس جس حدیث میں تین راوی ضعیف ہوں وہ قابل استدللال نہیں ہوسکتی۔

امام ابن حزم نے امام ابو حنیفہ کا مذہب نقل کر کے پھر لکھا ہے کہ

واحتج له مقلدوه بخبر  روينا

یعنی امام ابو حنیفہ کے مقلد اس کی حمایت کےلئے اس حدیث سے صحبت لیتے ہیں جو ہم نےروایت  کی ہے پھر حدیث قوس وغیرہ لکھ کر ان کی تضعیف کی ہے ابی ابن کعب سے ایک روایت نقل کی ہے اس  کے متعلق لکھاہے کہ اس میں ابو ادریس خولانی ہے جو ابی بن کعب سے رویات کرتا ہے لیکن اس کا سماع ثابت نہیں  لہذا یہ روایت منقطع ہے۔

لايعرف لابي  ادريس سماع من ابي

ابی ابن کعب کا ایک اور طریق ہے جس کے متعلق نیل الاوطار میں ہے۔

اما حديث ابي بن كعب فاخرجه ايضا والبيهقي  والرويا في في مسنده قال  البيهقي وابنعبد البر هو منقطع

یعنی حدیث ابی اببن کعب جس کو بیہقی اور رویانی نے مسند میں روایت  کیاہے۔اس کے متعلق بیہقی اور  ابن عبد البر نے کہا کہ وہ منقطع ہے۔

اس میں عطیہ کلائی اورابن ابی کعب کے درمیان انقطاع ہے پھر اس میں عبد الرحمٰن بن مسلم نے عطیہ سے روایت کیا ہے۔اس کے متعلق لکھا ہے۔

واعله ابن القطان بحال عبد الرحمان بن مسلم الراوي عن عطية

یعنی ابن القطان نے عبد الرحمٰن کی وجہ سے جو عطیہ سے راوی ہے اس حدیث کو معلول کیاہے۔پھر ابی کی حدیث کے کئی طرق ہیں۔نیل الاوطار میں ہے۔ابی کی حدیث کے کئی طرق ہیں اور ابن قطان نے کہا کہ ان میں کوئی بھی ثابت نہیں۔

ایک حدیث عمران بن حصین کی ترمذی  میں ہے۔جس سے دلیل پکڑی جاتی ہے۔امام ترمذی اس کے آخر میں فرماتے ہیں۔

ليس اسناده بذالك

کہ اس کی اسناد صحیح نہیں ہے۔عبادہ والی حدیث کا ایک طریق اسماعیل بن عباس سے ہے اس کے متعلق محلی میں  ہے۔

وهو ضعيف  ثم هو منقطع

یہ راوی  ضعیف بھی ہے۔اور منقطع بھی ہے۔یعنی اس طریق میں دو راوی ضعیف ہیں۔

اسی  طرح ابی ابن کعب کا ایک طریق علی ابن رباح سے آیا ہے۔اس کے متعلق محلی میں ہے۔

والاخر ايضا منقطع لان علي بن رباح لميدرك ابي بن كعب

یہ روایت بھی منقطع ہے۔کیونکہ علی بن رباح نے ابی بن کعب کو نہیں پایا۔

اسی طرح بیہقی اور ابو نعیم نے ابو درداء سے ایک روایت زکر کی ہے۔تنقیح الرواۃ میں ہے۔

فی اسنادہ مقال کہ اس کی سند میں جرح  ہے۔پھر دارمی میں ابو درداء سے ایک روایت ہے تنقیح الرواۃ میں ہے۔

قال وحيم حديث ابي درداء هذا ليس له اصل

یعنی وحیم نے کہا حدیث ابودرداء کی کوئی اصل  نہیں۔

الغرض اجرت منع ہونے کے بارہ میں جس قدر روایتیں ہیں سب کی سب ضعیف ہیں کوئی منکر ہے کوئی منقطع کسی کے راوی ضعیف ہیں کسی میں کوئی علت ہے کسی میں کوئی علت ہے۔لہذا مانعین کادوعویٰ در بارہ اجرت تعلیم القرآن و حدیث کئی وجوہ سے قابل قبول نہیں۔

1۔یہ حدیث طبقہ ثانیہ یا ثالثہ کی ہیں۔جو طبقہ اولیٰ کی احادیث کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔طبقہ اولیٰ کو ترجیح ہے۔

2۔یہ احادیث ٖضعیف ہیں۔اور جواز اجرت کی احادیث نہایت صحیح ہیں ۔ضعیف سے صحیح کا مقابلہ ٹھیک نہیں۔

3۔احادیث جواز اجرت مثبت ہیں۔اور احادیث منع اجرت نافی ہیں ۔قاعدہ یہ ہے کہ اثبات نفی پر مقدم ہے۔

4۔احادیث منع کی موول ہیں۔مثلاً حدیث عبادہ وغیرہ جس میں زکر قوس ہے اس کا مقصد ہے۔

ان النبي صلي الله عليه وسلم علم انهما فعلا ذالك خالصا لله ذكره اخذ العوض عنه (نیل الاوطار)

یعنی  عبادہ اورابی کا حال نبی ﷺ نے معلوم کر لیا تھا۔کہ انہوں نے یہ کام خالص لوجہہ للہ کیا ہے۔اب اس کا بدلہ لینا مکروہ ہے۔پس اب بھی یہی صورت مراد ہے۔

ایک حدیث تحریم سوال بالقرآن پر دلالت کرتی ہے۔اس کو مسئلہ ما بہ النزاع سے کچھ تعلق نہیں ۔ (نیل الاوطار)

ایک اور حدیث میں تاکل بالقرآن کا زکر ہے۔اس کے متعلق نیل میں ہے۔

فهو اخص من يحل  المغزاع لان المنع من التاكل بالقران لايستلزم المنع من قبول ما دفعه المعلمبطيبة من نفسه

یہ حدیث دعویٰ اور مسئلہ متنازع سے  بہت ہی خاص ہے کیونکہ سنیے! تاکل بالقرآن سے طالب علم کااپنی خوشی سے کوئی چیز دینے اور اس کے قبول کرنے سے منع ہوتا۔یا منع کرنا لازم نہیں آتا۔ہر دو مسئلہ علیحدہ علیحدہ میں دعویٰ اور دلیل میں تقریب تمام کا ہونا لازم ہے اجرت آذان کی ممانعت سے استدلال کرنا بھی صحیح نہیں ہے۔کیونکہ یہ قیاس ہے۔اور قیاس بھی فاسد الاعتبار اس لیے صحت نہیں نیل الاوطار میں ہے۔

پھر یہ قیاس بمقابلہ نص ہے جو مردود ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ حدیث بخاری و مسلم سے مسئلہ جواز اجرت تعلیم کا صحیح ثابت ہوا۔

والعمل عليه اكثر اهل العلم

باقی تاویلات مانعین کی ناقابل قبول ہیں۔کیونکہ سب تاویلات بے دلیل ہیں۔مثلاً یہ کہ حدیث

ان اجق ما اخذ تم عليه اجرا كتاب الله

کی تاویل بعض مقلدین نے یہ کی ہے کہ اس اجر اخروی یعنی ثواب آخرت مراد ہے۔چنانچہ تعلیق صحیح شرح مشکواۃ میں مولوی ادریس کاندھلوی نے لکھا ہے کہ

قلنا اراد به الاجرالاخرة

یہ تاویل مردود ہے۔اور یہ تاویل

بما لا برضي به القائل

کی مصداق ہے کیونکہ مورد کے خلاف ہے۔اور سیاق وسباق کے خلاف ہے۔کیونکہ مذدوری موجود ہے اور سوال اس کے متعلق ہے۔اگر جواب اجر آخرت ہو توسائل کے سوال کا اجر کہاں گیا۔اور اس چیز کا حکم کیا ہوا۔یہ تو سوال از آسمان جواب از رثیمان کی مثل ہوگا۔ جو شان نبوت کے خلاف ہوگا۔دوم  یہ کہا جاتا ہے۔اس سے مراد صرف رقیہ   پر اجرت لینا ہے تعلیم پرنہیں میں کہتا ہوں یہ تاول بھی مردو ہے۔کیونکہ مورد اگرچہ خاص ہے۔لیکن جواب عام ہے۔لفظ ما عموم کے لئے ہے۔اور یہ قاعدہ مسلم ہے  کہ

ان العبرة لعموماللفظ لا لخصوص السبب

یعنی لفظوں کے عموم کا اعتبار ہے۔مورد اور سبب کا اعتبار نہیں اگر صرف رقیہ مراد ہو توحدیث میں خاص ہی لفظ بولا جاتا۔

سوم یہ کہا جاتا ہے کہ حدیث ابن عباس عام ہے۔اور حدیث عبادہ خاص ہے۔عام اور خاص کا مقابلہ ہو تو عام کی تخصیص کی جائے گی۔پس حدیث عبادہ حدیث ابن عباس کی مخصص ہے۔چنانچہ علامہ شوکانی نے یہی کہا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ یہ تاویل بھی مردود ہے۔جس کی کئی وجوہات ہیں۔

1۔یہ کہ عام اور خاص کا مقابلہ اس وقت صحیح ہوتا ہے۔(جس سے تخصیص کرنی پڑتی ہے۔) جس وقت دونوں یکساں قوی ہوں۔اگر خاص ضعیف و کمزور ہو تو مخصص نہیں ہوسکتا۔جب دس مردے ایک زندہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔دس بیمار ایک قوی صحیح وسالم کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو ضعیف حدیث صحیح حدیث کا مقابلہ کیسےکر سکتی ہے۔

2۔دوم حدیث نکاح بعض تعلیم قرآن اس تخصیص کی تردید کرتی ہے۔

3۔امت محمدیہ کی اکثریت کا تعامل اور اکابر محدثین کا اس سے استدلال کرنا اس تاویل کو باطل کرتاہے۔

4۔چہارم۔تعامل خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے خلاف ہے۔كما مر سابقا

5۔پنجم ۔یہ کہا جاتا ہے کہ حدیث عبادہ وغیرہ کی منفردات روایتیں تو بے شک ضعیف ہیں۔لیکن تعدادطرق سے  جو مجموعہ تیار ہو جاتا ہے۔وہ حسن لغیرہ کے درجہ کو پہنچ جاتا ہے۔اس کا جواب یہ ہے کہ

ان الحوق الضعيف بالضعيف لا يفيد قوة

یعنی ضعیف کو ضعیف سے ملانا قوت کو مفید نہیں۔یہ اس وقت مفید ہے۔ جب ضعف کم ہو۔اگر زیادہ ہو تو مفید نہیں۔یہاں یہی معاملہ ہے۔

(کتبہ۔عبد القادر المہاجر الحصاری ۔فتاویٰ ستاریہ جلد سوم ص73)

Share:

Shadi (Nikah) Se Pahle Bahut Sare Na Mehram Se Mohabbat karne wale ki Zindagi.

Shadi Se Pahle bahut sare larke Larkiyo se bat karna wale.

Disadvantages of  "Live in relationship"
Na Mehram se dosti rakhna aur Usse Sharik-E-Hyat jaisa talluk bnane wale ka Shadi ke Bad ki Zindagi.
शादी से पहले बहुत सारे लड़के और लड़कियों से मोहब्बत का इजहार करने वाले का शादी के बाद की ज़िन्दगी कैसी हो जाती है?
जब एक इंसान बहुत सारे ना मेहरम से बातें करने का आदी हो जाता है और ना मेहरम से दोस्ती लगा लेता तो फिर शादी के बाद उसे अपना शरीक - ए- हयात सिर्फ चंद दिन ही अच्छा लगता है, आखिर क्यों और उसका कैफियत कैसा  हो जाता है?
No Couple Before Nikah because it's forbidden in Islam.
ना मेहरम की बेवफ़ाई अल्लाह की तरफ से सजा है तुम जिसके लिए रोती हो बिनते हव्वा वह तन्हाई में तुम पर हंसता होगा।
نا محرم کی محبت کیا حلال ہے شادی سے پہلے؟
نا محرم کی بے وفائی اللہ کی طرف سے سزا ہے تم جس کے لیے روتی ہو بنت حوّا وہ تنہائی میں تم پر ہنستا ہوگا۔
جب ایک انسان بہت سارے نامحرم سے باتیں کرنے کا عادی ہو جاتا ہے اور نامحرم سے دوستی لگا لیتا ہے تو پھر شادی کے بعد اسے اپنا ہمسفر صرف چند دن ہی اچھا لگتا ہے ۔۔۔۔۔
پھر اس انسان کو اپنے ہمسفر سے بوریت محسوس ہونے لگتی ہے اور پھر انسان کو اپنی پرانی نامحرم سے دوستیاں یاد آتی ہیں اور وہ پھر آپنے ہمسفر کو دھوکہ دے کر ان ہی پرانی دوستیاں میں مصروف ہوجاتا ہے ۔۔۔
یہ بلکل حقیقت ہے کہ جو بھی شخص شادی سے پہلے بہت ساری دوستیاں لگا لیتا ہے تو پھر شادی کے بعد اسے صرف اپنے ہی شوہر یا اپنی ہی بیوی کے ساتھ ٹائم پاس کرنا ، باتیں کرنا اچھا نہیں لگتا۔۔
زیادہ تر یہ بیماری مردوں میں لگی ہوئی ہوتی ہے لیکن اگر اس بیماری میں کوئی خاتون لگی ہوئی ہو تو اسے شادی کے بعد اپنا شوہر بلکل بھی اچھا نہیں لگتا ، کیونکہ شادی کے بعد بیوی شوہر کے ماتحت رہتی ہے اور شوہر بیوی پر غلط بات پر غصہ بھی کرتا ہے اور شوہر بیوی کے وہ نخرے نہیں اٹھاتے جو نا محرم دوست مزے لینے کے لیے اٹھا رہے ہوتے ہیں
تو بیوی اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے اپنے پرانے نامحرم دوست کو شوہر کی باتیں بتاتی ہیں
اور یہ نامحرم شخص اس خاتون سے بہت ہی زیادہ ہمدرد بن کر نرم اور اچھے مزاج کے ساتھ باتیں کرتا ہے ۔۔۔۔ ایسی ایسی میٹھی میٹھی باتیں کرتا کہ کہ عورت اسے اپنے شوہر زیادہ سے اپنے لیے ہمدرد سمجھ لیتی ہے ۔۔۔۔
حالانکہ یہ نامحرم مرد صرف مزے حاصل کرنے کے لیے اس شادی شدہ خاتون سے میٹھی میٹھی باتیں کررہا ہوتا ہے اور اشارۃ یہ بھی کہہ دیتا ہے کہ میں تم سے پیار کرتا ہوں وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔حالانکہ یہ پیار نہیں ہوتا ۔۔۔صرف گناہ کا مزا ہوتا ہے جسے شیطان پیار کی صورت میں عورت کو دیکھا رہا ہوتا ہے ۔۔۔۔
اور پھر اس گناہ کی نحوست سے بیوی کو اپنا شوہر بلکل بھی اچھا نہیں لگتا ۔۔۔شوہر کی ہر بات بیوی کو زہر لگنے لگتی ہے ۔۔۔اور پھر بیوی بس یہی چاہتی ہے کہ شوہر گھر سے باہر زیادہ رہا کریں تاکہ میں اپنے ہمدرد آشنا سے باتیں کر سکو۔۔۔۔
میں نے یہ بات آج تبھی لکھی ہے جب سے میرے پاس ایسے کیسس آج کل بہت ہی زیادہ آنے لگے ہیں شاید میری اس تحریر پر خواتین کو مجھ سے شدید اختلاف ہو لیکن میں یہ بات وضاحت کر دوں کہ میری یہ باتیں سب خواتین کے لیے نہیں ہے بلکہ وہ خواتین جو غلط کرتی ہیں ۔۔۔
خلاصہ یہ ہے کہ جب انسان حلال رشتے کی قدر نہیں کرتا اور حلال رشتے پر اکتفا نہیں کرتا اور حرام لذتوں میں لگ جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ حلال لذت کو چھین لیتے ہیں۔۔۔
اور پھر انسان کو گناہ کرکے وقتی سکون تو مل جاتا ہے لیکن دائمی سکون ہمیشہ کے لیے زندگی کا برباد ہوجاتا ہے ۔۔۔۔۔
Share:

Koi Shakhs Shadi Se Pahle Miya Biwi jaisa talluk rakhta ho to Shadi ke bad us gunah ka kaffara kya hoga?

Kya Nikah se Pahle Shauhar aur Biwi Aapas me mil sakte hai?
Koi Shakhs Shadi Se Pahle Miya-Biwi jaisa talluk rakhta ho to Shadi ke bad uske gunah ka kaffara kya hoga?
Ager Koi Shakhs Shadi se Pahle Shauhar aur Biwi jaisa talluk rakhta ho aur bad me shadi kar liya to uska Kaffara kya hoga?
क्या इसलाम शादी से पहले लड़के और लड़की को आपस में मिलने की इजाजत देता है?
सवाल: शौहर और बीवी ने शरई तौर पर निकाह किया जिस तरह अल्लाह ताला ने हुक्म दिया है, मगर निकाह (शादी) से पहले वह आपस मै मिलते और खाविंद (शौहर) और बीवी जैसे ताल्लुकात रखते थे, क्या उन की यह शादी सही है या बातिल?
और निकाह से पहले जो कुछ वह करते रहे उसका कफ्फारा क्या है?
کیا شادی سے پہلے لڑکا اور لڑکی آپس نے میل سکتا ہی اور تنہائی اختیار کر سکتا ہے جس طرح شوہر اور بیوی آپس میں گفتگو کرتے ہے اور تعلّق قائم کرتے ہیں؟
سوال: خاوند اور بيوى نے شرعى طور پر نكاح كيا جس طرح اللہ تعالى نے حكم ديا ہے، ليكن نكاح سے قبل وہ آپس ميں ملتے اور خاوند اور بيوى جيسے تعلقات ركھتے تھے، كيا ان كى يہ شادى صحيح ہے يا باطل ؟
اور جو كچھ وہ كرتے رہے ہيں اس كا كفارہ كيا ہے ؟
جواب کا متن
️الحمد للہ:
اول: پہلى بات تو يہ ہے كہ زنا ايك عظيم جرم اور كبيرہ گناہ ہے جس كى بنا پر زانى سے ايمان سلب ہو جاتا ہے، اور وہ عذاب و ذلت اور رسوائى سے دوچار ہوتا ہے، الا يہ كہ وہ توبہ و استغفار كر لے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
 اور تم زناكارى كے قريب بھى نہ جاؤ، يقينا يہ بہت فحش كام اور برا راہ ہے الاسراء ( 32 ).
اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب زانى زنا كرتا ہے تو وہ اس وقت مومن نہيں ہوتا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2475 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 57 ).
اور ايك دوسرى حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جب مرد زنا كرتا ہے تو اس سے ايمان خارج ہو جاتا ہے وہ اس پر سائبان كى طرح ہوتا ہے، اور جب وہ زنا ختم كرتا ہے تو ايمان اس ميں واپس آ جاتا ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 4690 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2625 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں بتايا ہے كہ زانيوں كو قيامت سے قبل ان كى قبروں ميں آگ كا عذاب ديا جائيگا.
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1320 ).
اور پھر اس جرم كى قباحت كى بنا پر اللہ عزوجل نے اس كى سزا رجم ركھى ہے كہ اگر زانى شادى شدہ ہے تو اس كو موت تك پتھر مارے جائيں، اور اگر شادى شدہ نہيں تو اسے ايك سو كوڑے مارے جائيں.
❤️اور جو شخص بھى اس ميں مبتلا ہو اسے اس كام سے جتنى جلدى ہو سكے توبہ كرنى چاہيے، اور اس اميد سے كثرت كے ساتھ اعمال صالحہ كرے كہ اللہ عزوجل اسے معاف كر ديگا.
فرمان بارى تعالى ہے:
 اور وہ لوگ جو اللہ كے ساتھ كسى اور كو معبود نہيں بناتے اور نہ ہى وہ اس نفس كو قتل كرتے ہيں جسے قتل كرنا اللہ نے حرام كيا ہے، مگر حق كے ساتھ، اور نہ ہى وہ زنا كا ارتكاب كرتے ہيں، اور جو كوئى يہ كام كرے اسے گناہ ہو گا، اور روز قيامت اسے دگنا عذاب ديا جائيگا، اور وہ ذلت و خوارى كے ساتھ ہميشہ اس ميں رہے گا، سوائے ان لوگوں كے جو توبہ كر ليں اور ايمان لے آئيں، اور نيك كام كريں، اللہ تعالى ايسے لوگوں كے گناہوں كو نيكيوں ميں بدل ديتا ہے، اللہ تعالى بخشنے والا مہربانى كرنے والا ہے الفرقان ( 67 - 70 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
 اور يقينا ميں اس شخص كو بہت زيادہ بخشنے والا ہوں جو توبہ كرتا اور ايمان لاتا اور نيك و صالح اعمال كرتا اور پھر ہدايت پر رہتا ہے طہ ( 82 ).
اور ان دونوں كو چاہيے كہ اگر اللہ عزوجل نے ان كے اس گناہ پر پردہ ڈالا ہوا ہے تو وہ اس پردہ ميں ہى رہيں اور اس كى خبر كسى دوسرے كو مت ديں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ان گندى اشياء سے اجتناب كرو جن سے اللہ سبحانہ و تعالى نے منع كر ركھا ہے، اور اگر كوئى شخص اس كا شكار ہو جائے تو اسے اللہ كے پردہ سے پردہ اختيار كرنا چاہيے "
اسے بيہقى نے روايت كيا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے احاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 663 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
دوم:
زانى مرد اور زانى عورت كا آپس ميں اس وقت تك نكاح جائز نہيں جب تك كہ وہ اس گناہ سے سچى اور پكى توبہ نہ كر ليں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
زانى مرد سوائے زانى يا مشركہ عورت كے كسى اور سے نكاح نہيں كرتا، اور زانيہ عورت سوائے زانى يا مشرك مرد كے كسى اور سے نكاح نہيں كرتى، اور ايمان والوں پر يہ حرام كر ديا گيا ہے النور ( 3 ).
يعنى زانى مرد اور عورت كا نكاح حرام ہے.
اس ليے اگر تو دونوں نے شادى سے قبل اس حرام كام سے توبہ كر لى تھى تو ان كا نكاح صحيح ہے، ليكن اگر انہوں نے توبہ سے قبل عقد نكاح كرايا تھا تو ان كا نكاح صحيح نہيں، اور انہيں اپنے كيے پر نادم ہو كر اس سے توبہ كرنى چاہيے اور آئندہ پختہ عزم كرنا چاہيے كہ وہ اس كام كو دوبارہ نہيں كريں گے، پھر وہ اپنا نكاح دوبارہ كرائيں،
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS