Sharab Kab Haraam hui Aur kyu hui?
शराब कब और क्यू हराम हुई? इसे इस्तेमाल करने वालों की क्या सजा है?
سوال: شراب کب حرام ہوئی؟ اور اس کی شرعی سزا کیا ہے؟
جواب: زمانہ جاہلیت میں اکثر لوگ شراب کے رسیا اور نشے کے عادی تھے۔ اس لیے اسلام نے بعض دیگر احکام کی طرح شراب کی حرمت بھی تدریجاً بیان فرمائی۔ ذیل میں تفصیلاً احکامات اور آخر میں اس کی شرعی سزا بتائی جارہی ہے.
شراب کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر نے کہا یا اللہ تو اس کا واضح بیان فرما ان پر سورۃ بقرہ کی یہ آیت (یسئلونک عن الخمر) الخ، نازل ہوئی
حضرت عمر کو بلوایا گیا اور انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی لیکن حضرت عمر نے پھر بھی یہی دعا کی کہ یا اللہ اسے ہمارے لئے اور زیادہ صاف بیان فرما
اس پر سورۃ نساء کی آیت (یا ایھا الذین امنوا لاتقربوا الصلوۃ وانتم سکاری) الخ، نازل ہوئی اور ہر نماز کے وقت پکارا جانے لگا کہ نشے والے لوگ نماز کے قریب بھی نہ آئیں حضرت عمر کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس آیت کی بھی تلاوت کی گئی آپ نے پھر بھی یہی دعا کی یا اللہ ہمارے لئے اس کا بیان اور واضح کر
اس پر سورۃ مائدہ کی آیت (انما الخمر اتری)، جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو بلا کر یہ آیت بھی سنائی گئی اور جب ان کے کان میں آیت کے آخری الفاظ (فہل انتم منتہون) پڑے تو آپ بول اٹھے انتہینا انتہینا ہم رک گئے ہم باز آئے ملاحظہ ہو مسند احمد ، ترمذی اور نسائی وغیرہ ،
ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ میں بھی روایت ہے لیکن اس کا راوی ابو میسرہ ہے جن کا نام عمر بن شرحبیل ہمدانی کوفی ہے، ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ ان کا سماع حضرت عمر سے ثابت نہیں واللہ اعلم۔ امام علی بن مدینی فرماتے ہیں اس کی اسنا صالح اور صحیح ہے امام ترمذی بھی اسے صحیح کہتے ہیں ابن ابی حاتم میں حضرت عمر کے (انتہینا انتہینا) کے قول کے بعد یہ بھی ہے کہ شراب مال کو برباد کرنے والی اور عقل کو خبط کرنے والی چیز ہے
یہ روایت اور اسی کے ساتھ مسند کی حضرت ابوہریرہ والی اور روایتیں سورۃ مائدہ کی آیت (انما الخمر) کی تفسیر میں مفصل بیان ہوں گی انشاء اللہ تعالٰی ،
امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خمر ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانپ لے اس کا پورا بیان بھی سورۃ مائدہ میں ہی آئے گا انشاء اللہ تعالٰی ، میسر کہتے ہیں جوے بازی کو گناہ اس ان کا وبال اخروی ہے اور فائدہ صرف دنیاوی ہے کہ بدن کو کچھ نفع پہنچے یا غذا ہضم ہو یا فضلے برآمد ہوں یا بعض ذہن تیز ہو جائیں یا ایک طرح کا سرور حاصل ہو جیسے کہ حسان بن ثابت کا جاہلیت کے زمانہ کا شعر ہے شراب پی کر ہم بادشاہ اور دلیر بن جاتے ہیں، اسی طرح اس کی خرید وفروخت اور کشید میں بھی تجارتی نفع ممکن ہے ہو جائے۔ اسی طرح جوئے بازی میں ممکن ہے جیت ہو جائے،
لیکن ان فوائد کے مقابلہ میں نقصانات ان کے بکثرت ہیں کیونکہ اس سے عقل کا مارا جانا، ہوش و حواس کا بیکار ہونا ضروری ہے، ساتھ ہی دین کا برباد ہونا بھی ہے، یہ آیت گویا شراب کی حرمت کا پیش خیمہ تھی مگر اس میں صاف صاف حرمت بیان نہیں ہوئی تھی اسی لئے حضرت عمر کی چاہت تھی کہ کھلے لفظوں میں شراب کی حرمت نازل ہو، چنانچہ آخرکار سورۃ مائدہ کی آیت میں صاف فرما دیا گیا کہ شراب اور جوا اور پانسے اور تیر سے فال لینا سب حرام اور شیطانی کام ہیں، اے مسلمانو اگر نجات کے طالب ہو تو ان سب سے باز آجاؤ، شیطان کی تمنا ہے کہ شراب اور جوئے کے باعث تم میں آپس میں عداوت وبغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے کیا اب تم ان شیطانی کاموں سے رک جانے والے بن جاؤ گے؟ اس کا پورا بیان انشاء اللہ سورۃ مائدہ میں آئے گا، مفسرین تابعی فرماتے ہیں کہ شراب کے بارے میں پہلے یہی آیت نازل ہوئی، پھر سورۃ نساء کی آیت نازل ہوئی پھر سورۃ مائدہ کی آیت اتری اور شراب مکمل طور پر حرام ہو گئی۔
شراب نوش کی شرعی سزا:
1۔ کوڑوں کی سزا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب نوشی کرنے والے کیلئے ( اسی ) 80 کوڑوں کی سزا مقرر فرمائی ہے۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا شخص لایا گیا۔ قد شرب الخمر جس نے شراب پی رکھی تھی۔ (( فجلدہ بجریدتین نحو اربعین )) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو ٹہنیوں کے ساتھ چالیس مرتبہ مارا۔ ( صحیح مسلم، ص71 جلد ثانی کتاب الحدود )
2۔ جلاوطنی:
صحاح ستہ کی معتبر کتاب سنن نسائی ص 330 جلد ثانی کتاب الاشربہ میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں شراب نوشی کرنے والے ایک شخص کو جلاوطن کر دیا تھا۔
والله اعلم