find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Sharab Kab Aur Kyu Haraam Hui ise Pine walo ki sza kya Hai?

Sharab Kab Haraam hui Aur kyu hui?
शराब कब और क्यू हराम हुई? इसे इस्तेमाल करने वालों की क्या सजा है?
سوال: شراب کب حرام ہوئی؟ اور اس کی شرعی سزا کیا ہے؟
جواب: زمانہ جاہلیت میں اکثر لوگ شراب کے رسیا اور نشے کے عادی تھے۔ اس لیے اسلام نے بعض دیگر احکام کی طرح شراب کی حرمت بھی تدریجاً بیان فرمائی۔ ذیل میں تفصیلاً احکامات اور آخر میں اس کی شرعی سزا بتائی جارہی ہے.

شراب کی حرمت کی آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر نے کہا یا اللہ تو اس کا واضح بیان فرما ان پر سورۃ بقرہ کی یہ آیت (یسئلونک عن الخمر) الخ، نازل ہوئی
حضرت عمر کو بلوایا گیا اور انہیں یہ آیت پڑھ کر سنائی گئی لیکن حضرت عمر نے پھر بھی یہی دعا کی کہ یا اللہ اسے ہمارے لئے اور زیادہ صاف بیان فرما
اس پر سورۃ نساء کی آیت (یا ایھا الذین امنوا لاتقربوا الصلوۃ وانتم سکاری) الخ، نازل ہوئی اور ہر نماز کے وقت پکارا جانے لگا کہ نشے والے لوگ نماز کے قریب بھی نہ آئیں حضرت عمر کو بلوایا گیا اور ان کے سامنے اس آیت کی بھی تلاوت کی گئی آپ نے پھر بھی یہی دعا کی یا اللہ ہمارے لئے اس کا بیان اور واضح کر
اس پر سورۃ مائدہ کی آیت (انما الخمر اتری)، جب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو بلا کر یہ آیت بھی سنائی گئی اور جب ان کے کان میں آیت کے آخری الفاظ (فہل انتم منتہون) پڑے تو آپ بول اٹھے انتہینا انتہینا ہم رک گئے ہم باز آئے ملاحظہ ہو مسند احمد ، ترمذی اور نسائی وغیرہ ،
ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ میں بھی روایت ہے لیکن اس کا راوی ابو میسرہ ہے جن کا نام عمر بن شرحبیل ہمدانی کوفی ہے، ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ ان کا سماع حضرت عمر سے ثابت نہیں واللہ اعلم۔ امام علی بن مدینی فرماتے ہیں اس کی اسنا صالح اور صحیح ہے امام ترمذی بھی اسے صحیح کہتے ہیں ابن ابی حاتم میں حضرت عمر کے (انتہینا انتہینا) کے قول کے بعد یہ بھی ہے کہ شراب مال کو برباد کرنے والی اور عقل کو خبط کرنے والی چیز ہے
یہ روایت اور اسی کے ساتھ مسند کی حضرت ابوہریرہ والی اور روایتیں سورۃ مائدہ کی آیت (انما الخمر) کی تفسیر میں مفصل بیان ہوں گی انشاء اللہ تعالٰی ،
امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خمر ہر وہ چیز ہے جو عقل کو ڈھانپ لے اس کا پورا بیان بھی سورۃ مائدہ میں ہی آئے گا انشاء اللہ تعالٰی ، میسر کہتے ہیں جوے بازی کو گناہ اس ان کا وبال اخروی ہے اور فائدہ صرف دنیاوی ہے کہ بدن کو کچھ نفع پہنچے یا غذا ہضم ہو یا فضلے برآمد ہوں یا بعض ذہن تیز ہو جائیں یا ایک طرح کا سرور حاصل ہو جیسے کہ حسان بن ثابت کا جاہلیت کے زمانہ کا شعر ہے شراب پی کر ہم بادشاہ اور دلیر بن جاتے ہیں، اسی طرح اس کی خرید وفروخت اور کشید میں بھی تجارتی نفع ممکن ہے ہو جائے۔ اسی طرح جوئے بازی میں ممکن ہے جیت ہو جائے،
لیکن ان فوائد کے مقابلہ میں نقصانات ان کے بکثرت ہیں کیونکہ اس سے عقل کا مارا جانا، ہوش و حواس کا بیکار ہونا ضروری ہے، ساتھ ہی دین کا برباد ہونا بھی ہے، یہ آیت گویا شراب کی حرمت کا پیش خیمہ تھی مگر اس میں صاف صاف حرمت بیان نہیں ہوئی تھی اسی لئے حضرت عمر کی چاہت تھی کہ کھلے لفظوں میں شراب کی حرمت نازل ہو، چنانچہ آخرکار سورۃ مائدہ کی آیت میں صاف فرما دیا گیا کہ شراب اور جوا اور پانسے اور تیر سے فال لینا سب حرام اور شیطانی کام ہیں، اے مسلمانو اگر نجات کے طالب ہو تو ان سب سے باز آجاؤ، شیطان کی تمنا ہے کہ شراب اور جوئے کے باعث تم میں آپس میں عداوت وبغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روک دے کیا اب تم ان شیطانی کاموں سے رک جانے والے بن جاؤ گے؟ اس کا پورا بیان انشاء اللہ سورۃ مائدہ میں آئے گا، مفسرین تابعی فرماتے ہیں کہ شراب کے بارے میں پہلے یہی آیت نازل ہوئی، پھر سورۃ نساء کی آیت نازل ہوئی پھر سورۃ مائدہ کی آیت اتری اور شراب مکمل طور پر حرام ہو گئی۔

شراب نوش کی شرعی سزا:

1۔ کوڑوں کی سزا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب نوشی کرنے والے کیلئے ( اسی ) 80 کوڑوں کی سزا مقرر فرمائی ہے۔ جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا شخص لایا گیا۔ قد شرب الخمر جس نے شراب پی رکھی تھی۔ (( فجلدہ بجریدتین نحو اربعین )) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دو ٹہنیوں کے ساتھ چالیس مرتبہ مارا۔ ( صحیح مسلم، ص71 جلد ثانی کتاب الحدود )

2۔ جلاوطنی:
صحاح ستہ کی معتبر کتاب سنن نسائی ص 330 جلد ثانی کتاب الاشربہ میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں شراب نوشی کرنے والے ایک شخص کو جلاوطن کر دیا تھا۔
والله اعلم

Share:

Qabar Kaisi Honi Chahiye?

Qabr kaisi bnayi Jani Chahiye iski wazahat.
قبر کے احکامات
الحمد للہ:
اول:
سنت تو يہ ہے كہ قبر زمين سے صرف ايك بالشت اونچى كى جائے اور اسے كوہان كى طرح بنائى جائے نہ كہ ہموار سطح ميں جمہور كا قول يہى ہے.
اس كى دليل صحيح بخارى كى درج ذيل روايت ہے:
سفيان التمار بيان كرتے ہيں كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر كو كوہان كى شكل ميں بنى ہوئى ديكھا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1390 ).
اور جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر لحد بنائى گئى اور اس كے دھانے پر كچى اينٹوں كو كھڑا كيا گيا، اور ان كى قبر زمين سے تقريبا ايك بالشت اونچى كى گئى "
صحيح ابن حبان حديث نمبر ( 6635 ) سنن البيھقى حديث نمبر ( 6527 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار ديا ہے.
زاد المستقنع ميں ہے:
" قبر زمين سے ايك بالشت اونچى اور كوہان كى شكل ميں بنائى جائيگى "
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يعنى سنت يہ ہے كہ: قبر زمين سے اونچى كى جائے، اور جس طرح ايسا كرنا سنت ہے اور پھر واقعہ بھى اس كا متقاضى ہے؛ كيونكہ قبر سے نكلى ہوئى مٹى قبر پر ہى ڈالى جائيگى، اور يہ معلوم ہى كہ مٹى كھودنے سے قبل اچھى طرح ساتھ مل كر جمى ہوتى ہے، ليكن كھودى جائے تو پھول جاتى ہے، اس ليے مٹى كا زيادہ ہونا ضرورى ہے.
اور اس ليے بھى ميت والى جگہ مٹى كے ليے اولى ہے، اور اب وہ كھلى ہو گئى ہے، تو وہ مٹى جو ميت والى جگہ تھى وہ اس كے اوپر ہو گى ....
علماء نے اس سے ايك مسئلہ مستثنى كيا ہے: جب انسان دار حرب، يعنى: لڑائى كرنے والے كفار كے علاقے ميں فوت ہو تو اس كى قبر اونچى نہيں كرنى چاہيے، بلكہ اسے زمين كے ساتھ برابر كيا جائے، تا كہ دشمن اس كى قبر كو اكھاڑ نہ ديں، اور ميت نكال كر اس كا مثلہ وغيرہ نہ كريں.
قولہ: " كوہان كى شكل ميں " يعنى كوہان كى طرح بنائى جائے، وہ اس طرح كہ قبر كے درميان والا حصہ اونچا اور دونوں سائڈ نيچى ہوں، اور كوہان كى ضد اور خلاف مسطح ہے كہ بالكل برابر سطح ہو.
اس كى دليل يہ ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے دونوں صحابيوں ابو بكر اور عمر فاروق رضى اللہ عنہما كى قبريں ايسى ہى ہيں " انتہى.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 5 / 364 ).
اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ ميں قبريں اونچى كرنا شامل نہيں، اور نہ ہى اسے پكى انيٹوں اور پتھروں وغيرہ سے بنانا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ ہے، اور نہ ہى اسے پكى كرنا اور اس پر ليپ كرنا، اور نہ ہى اس پر قبہ اور گنبد تعمير كرنا؛ يہ سب كچھ مكروہ بدعت اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ كے مخالف ہے..... ، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كى قبريں نہ تو اونچى اور نہ ہى بالكل نيچى تھيں، اور اسى طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كے دونوں خليفوں كى قبريں بھى؛ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر كوہان كى شكل ميں تھى جہاں چمكدار سرخ سنگريزى بچھى ہوئى تھى، نہ تو اس پر كچھ بنا ہوا تھا اور نہ ہى مٹى كا ليپ كيا گيا، اور اسى طرح دونوں خليفوں كى قبريں بھي، اور جو شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى قبر كو معلوم كرنا چاہتا تو ايك پتھر كى نشانى سے معلوم كرتا " انتہى.
ماخوذ از: زاد المعاد ( 1 / 524 ).
دوم:
اور مسلم شريف كى درج ذيل روايت جو ابو الھياج الاسدى بيان كرتے ہيں كہ مجھے على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ نے كہا:
" كيا ميں تجھے اس كام كے ليے روانہ نہ كروں جس كے ليے مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھيجا تھا ؟
كہ تمہيں جو مجسمہ بھى ملے اسے مٹا ڈالو، اور جو قبر اونچى ہو اسے برابر كر دو "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 969 ).
اس حديث ميں برابر سے مراد يہ ہے كہ اسے باقى سب قبروں كے برابر كر دو، اور يہ بيان ہو چكا ہے كہ اس كى اونچائى ايك بالشت كے اندر ہونى چاہيے.
مسلم كى شرح ميں امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس ميں يہ بيان ہوا ہے كہ: قبر زمين سے زيادہ اونچى نہيں كى جائيگى، اور نہ ہى كوہان كى شكل ميں بنائى جائيگى، بلكہ ايك بالشت اونچى اور برابر بنائى جائيگى، امام شافعى اور اس كى موافقت كرنے والوں كا مسلك يہى ہے، اور قاضى عياض نے اكثر علماء سے نقل كيا ہے كہ: ان كے ہاں افضل يہى ہے كہ قبر كوہان جيسى بنائى جائے، جو كہ امام مالك رحمہ اللہ كا مسلك ہے " انتہى.
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ " القول المفيد شرح كتاب التوحيد " ميں كہتے ہيں:
" قولہ: " اور نہ ہى كوئى اونچى قبر " يعنى بلند قبر.
قولہ " مگر اسے برابر كر دو " اس كے دو معنى ہيں:
پہلا:
اسے اس كے ارد گرد والى قبروں كے برابر كر دو.
دوسرا:
تو اسے اس طرح صحيح سالم كر دے جو شريعت كا تقاضا ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:
 وہ جس نے پيدا فرمايا اور اسے صحيح سالم بنايا الاعلى ( 2 ).
يعنى: اس كى خلقت كو اچھى اور صحيح سالم شكل ميں بنايا، اور يہ ا حسن ہے، اور يہ دونوں معنے متقارب اور ايك دوسرے كے قريب ہيں.
اور اشراف يعنى بلند اور اونچى ہونے كے دو معنے ہيں:
پہلا: قبر پر ركھى ہوئى بڑى علامت كى بنا پر اونچى ہو، اور يہ لوگوں كے ہاں نصائل يا نصائب ( كھڑے پتھر ) سے معروف ہيں، اور نصائل سے صحيح لغت نصائب كھڑے پتھر كى علامت ہے.
دوسرا:
اس پر كچھ تعمير كي جائے، يہ كبيرہ گناہ ميں شمار ہوتا ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قبروں پر مسجد بنانے اور وہاں چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائى ہے "
تيسرا:
اسے رنگ كے ساتھ اونچا كيا جائے، وہ اس طرح كہ اس پر رنگ برنگى علامتيں ركھى جائيں.
چوتھا:
قبر كى مٹى باقى ارد گرد والى قبروں سے اونچى ہو تا كہ دوسرى قبروں سے ظاہر اور عليحدہ لگے.
تو يہ سب اونچى اور بلند ميں شامل ہوتى ہيں، جو كسى دوسرى پر ظاہر اور اس سے امتيازى حيثيت ركھے اسے باقى سب كے ساتھ برابر كرنا ضرورى ہے، تا كہ يہ چيز قبروں كے ساتھ شرك اور غلو كا باعث نہ بنے " انتہى.
سوم:
مندرجہ بالا سطور سے يہ واضح ہوا كہ قبروں پر قبے اور گنبد اور مزار تعمير كرنا ممنوع ہے، اور يہ قبروں كى تعظيم اور شرك كا ذريعہ ہيں اور اسى طرح تقريبا ايك بالشت سے قبر اونچى كرنا بھى ممنوع ہے.
شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور قبروں پر قبے اور گنبد اور مزار بنانا بھى اس حديث ( مندرجہ بالا حديث ) كے تحت بالاولى شامل ہوتے ہيں، اور قبروں كو مساجد بنانا بھى يہى ہے، اور ايسا كرنے والے پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے لعنت فرمائى ہے ....
قبروں كو پكا كرنا اور انہيں اچھى اور بناسنوار كر تعمير كرنے سے كتنى ہى خرابياں پيدا ہو چكى ہيں اور سرايت كر چكى ہيں جس سے آج اسلام رو رہا ہے؛ ان خرابيوں ميں جاہل قسم كے افراد كا وہى اعتقاد ہے جو كفار اپنے بتوں سے ركھتے ہيں، اور يہ اتنى عظمت اختيار كر گيا ہے كہ لوگ يہ گمان كرنے لگے ہيں كہ يہ قبر نفع دينے اور نقصان دور كرنے پر قادر ہے، تو اس طرح انہوں نے ان قبروں كو اپنى حاجات و ضروريات پورى كرنے اور نجات و كاميابى اور مطلب پورے ہونے كى جگہ بنا ليا ہے، اور وہاں سے وہ كچھ مانگنے لگے ہيں جو انہيں اپنے رب اور پروردگار سے مانگنا چاہيے، اور ان قبروں كى طرف سفر كر كے جانے لگے ہيں، اور انہيں تبركا چھو كر اس سے مدد مانگتے ہيں؛ اجمالى طور پر يہ كہ انہوں نے كوئى ايسا كام نہيں چھوڑا جو جاہليت ميں بتوں كے ساتھ نہ ہوتا ہو آج يہ بھى اس پر عمل پيرا ہيں، انا للہ و انا اليہ راجعون!!
اس شنيع اور قبيح برائى اور فظيع كفر كے باوجود ہم كوئى ايسا شخص نہيں پاتے جو اللہ كے ليے غصہ ركھے اور دين حنيف كى حميت ميں غيرت كھائے، نہ تو كوئى عالم دين، اور نہ ہى كوئى طالب علم، اور نہ ہى كوئى افسر اور حكمران اور نہ ہى كوئى وزير و مشير اور نہ ہى كوئى بادشاہ ؟!!
ہميں بہت سى ايسى خبريں ملى ہيں جن ميں كوئى شك وشبہ كى گنجائش ہى نہيں كہ بہت سے قبر پرست لوگ يا پھر ان ميں سے اكثر كو جب اپنے مخالف كى جانب سے قسم اٹھانے كا كہا جائے تو وہ جھوٹى قسم اٹھا ليتے ہيں، ليكن جب اس كے بعد انہيں يہ كہا جائے كہ تم اپنے پير اور اعتقاد، يا فلاں ولى كى قسم اٹھاؤ تو وہ ہكلانا شروع كر ديتا ہے، اور ليت و لعل سے كام ليتا اور انكار كرتا ہوا حق كا اعتراف كر ليتا ہے؟!!
يہ ان كے شرك كى سب سے بڑى اور واضح دليل ہے كہ ان كا شرك تو ان لوگوں سے بھى بڑھ چكا ہے جو اللہ تعالى كو دو ميں دوسرا، يا پھر تين ميں تيسرا مانتے ہيں؛ تو اے علماء دين، اور اے مسلمان حكمرانو اسلام كے ليے كفر سے زيادہ بڑى مصيبت اور كيا ہے، اور اس دين اسلام كے ليے غير اللہ كى عبادت سے زيادہ كونسى آزمائش و ابتلاء ہے، اور مسلمانوں كو كونسى ايسى مصيبت پہنچى ہے جو اس مصيبت كے برابر ہو، اور كونسى ايسى برائى ہے جس كا انكار واجب ہو اگر اس واضح اور واجب شرك كا انكار كرنا واجب نہيں ؟:
اگر تم كسى زندہ كو آواز دو تو تم اسے سنا سكتے ہو، ليكن جسے تم پكار ر ہے اس ميں تو زندگى كى رمق ہى نہيں.
اور اگر كسى آگ ميں پھونك مارو تو روشنى بھى ہو، ليكن تم تو راكھ ميں پھونكيں مار رہے ہو" انتہى.
ماخوذ از: نيل الاوطار ( 4 / 83 - 84 ).
اس سے آپ كو يہ معلوم ہو گيا ہوگا كہ آپ نے جو سنگ مرمر اكھاڑے اور منہدم كيے ہيں اور قبر كا اوپر والا حصہ گرايا ہے ايك اچھا عمل تھا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كے موافق بھى ہے جس كا آپ نے حكم بھى ديا تھا، اور اس ميں قبر يا قبر والے كى اہانت و توہين نہيں، بلكہ اس ميں قبر اور قبر والے كى عزت و اكرام ہے كہ وہ سنت كے مطابق ہو.
آپ نے جو يہ بيان كيا ہے كہ جو كچھ آپ نے كيا ہے اس پر آپ كو بڑے اور بوڑھے لعنت ملامت كرنے لگے ہيں تو يہ ان كى زيادتى اور آپ پر ظلم ہے آپ اس پر صبر كريں كيونكہ آپ نے ايك اطاعت و فرمانبردارى كا كام كيا ہے، اور پھر جو كوئى بھى لوگوں كو نيكى اور بھلائى كا حكم ديتا ہے يا پھر انہيں برائى سے منع كرتا ہے اس كے ساتھ يہى كچھ ہوتا ہے.
سورۃ لقمان ميں لقمان كى وصيت ميں اللہ تعالى نے ہميں يہ بيان كيا ہے كہ:
 اے ميرے بيٹے نماز كى پابندى كرتے رہنا، اور نيكى و بھلائى كا حكم ديتے رہو، اور برائى سے روكتے رہو، اور جو كچھ تجھے پہنچے اس پر صبر كرو، يقينا يہ پرعزم اور تاكيدى امور ميں سے ہے لقمان ( 17 ).
ليكن اس ميں عظيم خرابى پيدا نہ ہونے كا خيال ركھنا ضرورى ہے؛ كيونكہ برائى كو روكنے كى شرط ميں يہ شامل ہے كہ اسے روكنے سے اس سے بھى بڑى برائى اور خرابى پيدا نہ ہوتى ہو.
اسى ليے جب كسى انسان كے گمان ميں يہ غالب ہو كہ اگر اس نے قبر كو منہدم كر كے برابر كر ديا تو اس سے اس كے علاقے يا اس كى قوم ميں فتنہ و فساد بپا ہو جائيگا، يا پھر اسے اس كى بنا پر جيل جانا پڑيگا يا پھر اسے زدكوب كيا جائيگا، تو پھر اس حالت ميں اسے خاموشى اختيار كر لينى چاہيے، اور جب خرابى بڑھ جائے يا پھر اس كے بھائى يا كسى قريبى عزيز كو گزند پہنچنے كا خدشہ ہو تو پھر برائى ہاتھ سے روكنا حرام بھى ہو سكتا ہے.
واللہ اعلم .

Share:

Mastrubation karne Ke Nuksanat Aur iske ilaaj.

Mastrubation Karne ka hukm Aur iska Ilaaj ka Tarika.
مشت زنی کا حکم اور اس کے علاج کا طریقہ
الحمد للہ:
کتاب و سنت کے دلائل کے مطابق مشت زنی اور خود لذتی حرام ہے۔

اول: قرآن مجید سے دلائل:
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ: امام شافعی  اور ان کی موافقت کرنے والے علمائے کرام نے ہاتھ سے منی خارج کرنے کے عمل کو اس آیت سے حرام قرار دیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (5) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ اور وہ لوگ جو اپنے شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں [5] ما سوائے اپنی بیویوں  کے یا لونڈیوں کے جن کے وہ مالک ہیں۔[المؤمنون: 5، 6]

امام شافعی کتاب النکاح میں لکھتے ہیں: "جب  مومنوں کی صفت یہ بیان کر دی گئی کہ وہ اپنی شرمگاہوں کو اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے سوا کہیں  استعمال نہیں کرتے، اس سے ان کے علاوہ کہیں بھی شرمگاہ کا استعمال حرام ہوگا۔۔۔ پھر اللہ تعالی نے اسی بات کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا: فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَچنانچہ جو شخص ان کے علاوہ کوئی اور راستہ تلاش کرے تو وہی لوگ زیادتی کرنے والے ہیں۔ [المؤمنون: 7]  اس لیے مردانہ عضوِ خاص کو صرف بیوی اور لونڈی  میں ہی استعمال کیا جا سکتا ہے ، اس لیے مشت زنی حلال نہیں  ہے، واللہ اعلم" ماخوذ از امام شافعی کی "کتاب الام "

کچھ اہل علم نے اللہ تعالی کے اس فرمان سے بھی خود لذتی کو حرام قرار دیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِاور جو لوگ نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے تو وہ اس وقت تک عفت اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ تعالی انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے[النور: 33] لہذا عفت اختیار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شادی کے علاوہ ہر قسم کی جنسی تسکین سے صبر کریں۔

دوم: احادیث نبویہ سے خود لذتی کے دلائل:

علمائے کرام نے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ  کی روایت کو دلیل بنایا کہ جس میں ہے کہ: "ہم نوجوان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  تھے اور ہمارے پلے کچھ نہیں تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نوجوانوں کی جماعت! جو تم میں سے شادی  کی ضروریات [شادی کے اخراجات اور جماع کی قوت] رکھتا ہے وہ شادی کر لے؛ کیونکہ یہ نظروں کو جھکانے والی ہے  اور شرمگاہ کو تحفظ دینے والی ہے، اور جس کے پاس استطاعت نہ ہو تو وہ روزے لازمی رکھے، یہ اس کیلیے توڑ ہے [یعنی حرام میں واقع ہونے سے رکاوٹ بن جائے گا])" بخاری: (5066)

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی استطاعت نہ رکھنے کی صورت میں  روزہ رکھنے کی تلقین فرمائی حالانکہ روزہ رکھنا مشکل کام ہے، لیکن آپ نے خود لذتی کی اجازت نہیں دی، حالانکہ خود لذتی روزے کی بہ نسبت ممکنہ آسان حل ہے اور ایسی صورت میں فوری حل بھی ہے، لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی۔

اس مسئلے کے بارے میں مزید دلائل بھی ہیں لیکن ہم انہی پہ اکتفا کرتے ہیں۔ واللہ اعلم

رہا یہ مسئلہ کہ جو شخص اس گناہ میں ملوث ہو  تو اس کیلیے اس بیماری سے بچنے کیلیے متعدد مشورے اور عملی اقدامات ہیں :

1- اس گناہ سے بچنے کا محرک یہ ہو کہ میں نے اللہ کے حکم کی پاسداری کرنی ہے اور اللہ کی ناراضی سے بچنا ہے۔

2- اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلیے  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پہ عمل کرے اور شادی کر لے۔

3- مشت زنی اور خود لذتی کی طرف لے جانے والے خیالات اور وسوسوں سے  دور رہے، اپنے ذہن اور فکر کو دینی اور دنیاوی  مفید سر گرمیوں میں مشغول رکھے؛ کیونکہ وسوسوں میں پڑ کر انہی میں گھِرتے چلے جانے سے  وسوسوں کا انسان پر تسلط قائم ہو جاتا ہے اور پھر بیماری عادت بن جاتی ہے اور اس سے خلاصی پانا مشکل ہو جاتا ہے۔

4- نظروں کی حفاظت کریں؛ کیونکہ ہیجان انگیز تصاویر یا ویڈیوز دیکھنے  سے شہوت بھڑکتی ہے اور انسان حرام کام پر آمادہ ہو جاتا ہے، اسی لیے اللہ تعالی کا فرمان ہے:قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْآپ کہہ دیں مومنوں کو وہ اپنی نظریں جھکا کر رکھیں۔ [النور: 30]، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (ایک نظر کے بعد دوسری مرتبہ نظر مت دوڑاؤ) ترمذی: (2777) اور صحیح الجامع (7953)میں [البانی نے] اسے  حسن قرار دیا ہے۔ لہذا پہلی نظر وہ ہے جو اچانک پڑ جائے، تو اچانک پڑنے والی نظر میں کوئی گناہ نہیں ہے؛ لیکن دوسری نظر حرام ہے، اسی طرح ایسی جگہوں سے بھی دور رہیں جہاں پر ہیجان انگیز صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔

5- مختلف قسم کی عبادات میں مصروف عمل رہیں اور گناہ کیلیے فرصت ہی نہ چھوڑیں۔

6- مشت زنی اور خود لذتی سے جسمانی صحت پر رونما ہونے والے طبی نقصانات  کو ذہن میں اجاگر رکھیں کہ اس سے نظر کمزور ہوتی ہے، اعصاب ڈھیلے پڑتے ہیں اور عضو خاص بھی کمزور ہو جاتا ہے، اسی طرح کمر کا درد شروع ہو جاتا ہے، یا اسی طرح کے دیگر نقصانات اہل طب بیان کرتے ہیں ان سب کو ذہن نشین رکھیں۔ ایسی ہی نفسیاتی نقصانات مثلاً: ذہنی تناؤ اور ضمیر کی ملامت، ان سب نقصانات میں سے سب سے بڑھ کر یہ کہ نمازیں ضائع ہو جائیں گی کیونکہ بار بار غسل کرنا پڑے گا یا غسل کرنے کو دل نہیں چاہے خصوصا جب سردیوں کا موسم ہو، اسی طرح روزہ خراب ہو جائے گا۔

7- اپنے آپ کی دی گئی غلط تسلیوں سے دور کریں؛ کیونکہ کچھ نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ  اپنے آپ کو زنا یا لواط سے بچانے کیلیے  خود لذتی جائز ہے، حالانکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ انسان زنا یا لواط کے قریب جا ہی نہ سکتا ہو۔

8- ارادی قوت اور عزم مصمم  ہر وقت ساتھ ہو، اور یہ کہ اپنے آپ کو شیطان کے سامنے ڈھیر مت کرے، تنہائی سے  بچے ، مثلاً رات کو اکیلے مت سوئے، اور ویسے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: (کوئی بھی شخص اکیلے رات مت گزارے) اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور صحیح الجامع  (6919) میں بھی موجود ہے۔

9- نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تجویز کردہ کار گر علاج اپنائے ، یعنی روزے رکھے، کیونکہ روزہ شہوانیت کو ماند کر دیتا ہے اور جنسی خواہش کو معتدل بنا دیتا ہے، تاہم غیر مناسب طریقے مت اپنائے کہ قسم اٹھا لے کہ آئندہ ایسا نہیں کروں گا ، یا نذر مان لے؛ کیونکہ اگر اس نے دوبارہ یہی کام کر لیا تو یہ قسم توڑنے کی بنا پہ ایمان میں کمی کا باعث ہو گا ، اسی طرح ایسی ادویات مت استعمال کرے جو شہوت کو ٹھنڈا کر دیں؛ کیونکہ ان سے طبی اور جسمانی نقصانات رونما ہو سکتے ہیں، کیونکہ صحیح احادیث میں یہ بھی  منع ہے کہ انسان ایسی چیزیں کھائے جن سے شہوت کلی طور پر ختم ہو جائے۔

10- سوتے وقت سونے کے اذکار کی پابندی کرے، دائیں کروٹ پہ سوئے اور منہ کے بل اوندھا مت لیٹے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح لیٹنے سے منع فرمایا ہے۔

11- گناہوں سے دوری اور پاکدامنی کا دامن کبھی نہ چھوٹے؛ کیونکہ حرام کاموں سے رکے رہنا  ہمارے لیے لازمی ہے؛ اگرچہ نفس چاہتا ہے کہ گناہ کرے۔ اور ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ  جب نفس عفت اور پاکدامنی کا عادی ہو جائے تو پھر یہ انسان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص عفت چاہے اللہ تعالی اسے پاکدامنی عطا کر دیتا ہے اور جو اللہ تعالی سے تونگری چاہے تو اللہ تعالی اسے غنی فرما دیتا ہے اور جو صبر چاہے اللہ تعالی اسے صبر عطا کر دیتا ہے، اور کوئی شخص صبر جیسی نعمت عطا نہیں کیا گیا) بخاری مع الفتح: (9/146)

12- اگر انسان اس گناہ میں ملوث ہو بھی جائے تو فوری توبہ استغفار کر لے، نیکی کرے ، مایوسی اور اداسی کا شکار نہ ہو؛ کیونکہ یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
13- آخر میں یہ ہے کہ اللہ تعالی سے صدق دل کے ساتھ گڑگڑا کر دعا کر کے اس قبیح عادت سے  خلاصی کا علاج ہو سکتا ہےی سب سے مؤثر علاج ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی دعا کرنے والے کی دعا سنتا ہے جب بھی وہ اللہ کو پکارتا ہے۔
واللہ اعلم.

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS