find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts with label Maa-Baap. Show all posts
Showing posts with label Maa-Baap. Show all posts

Tumhari maa ke sath mai nahi rah sakti kyu ke wah ek Jahil aurat hai.

Mai Tumhari maa ke sath nahi rah sakti kyu ke wah ek jahil aurat hai.
Mai Ab is kabil ho chuka ammi ke aap ke tamam ehsanat ka badala chuka sakoo.
Aisa karo tum apne maa ko kahi aur shift kar do.
اب وہ بظاہر ایک کامیاب آدمی بن چکا تھا ۔ گاڑی بنگلہ بہترین نوکری اور وہ سب کچھ تھا اس کے پاس جو آج کل ایک کامیاب شخص کہلانے کے لیے ضروری شمار کیا جاتا ہے اس نے اپنے آبائی علاقے کو چھوڑ کر مہنگی سوسائٹی میں گھر لے لیا تھا شادی بھی اونچے خاندان کی لڑکی سے کر لی تھی ۔
.
کچھ عرصہ گزرا ،تو اس کی بیوی اس سے کہنے لگی کہ میں تمہاری ماں کے ساتھ نہیں رہ سکتی کیونکہ وہ ایک اَن پڑھ عورت ہیں ، مجھے کسی کو بتاتے ہوئے شرم آتی ہے کہ یہ میری ساس ہیں لہذا مجھے ایک علیحدہ گھر لیکر دو یا اپنی ماں کو کہیں اور چھوڑ آؤ ۔ اور فی الحال میں اپنی امی کے گھر جارہی ہوں وہ کافی حیران ہوا اور بولا میں اپنی ماں کو کیسے چھوڑ سکتا ہوں ۔ لیکن اس کی روز روز کی ضد اور لڑائی سے تنگ آ کر آخر ایک دن اس نے ہتھیار ڈال دیئے اور اپنی ماں سے اس بارے میں بات کرنے پر آمادہ ہو گیا ۔
.
آج رات جب وہ گھرآیا تو اپنے کمرے میں جانے کے بجائے سیدھا ماں کے کمرے میں چلا گیا ۔ ماں اپنے لخت جگر کوآ ج اپنے کمرے میں دیکھ کر خوش ہوئی اور بیٹھنے کا بولا ۔
.
حال احوال پوچھنے کے بعد ماں نے آج اس طرح بجائے اپنے کمرے میں جانے کے سیدھا اس کے کمرے میں آنے کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا کہ ماں میں اب اس قابل ہو گیا ہوں کہ آپ کے تمام احسانات کا بدلہ چار گناہ کر کے آپ کو واپس کر دوں یہ حساب چکتا کر کے میں اپنی بیوی کو لیکر کہیں اور گھر لے لوں گا ۔ میں اور میری بیوی وہاں رہیں گے اور آپ آرام سے یہاں رہیے گا ۔
.
ماں نے جواب دیا کہ بیٹا حساب ذرا لمبا ہے اس لیے تھوڑا وقت درکار ہوگا ۔ وہ بولا کوئی جلدی نہیں ہے آپ آرام سے کر لیجئے ۔ اتنا بول کر وہ واپس اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ۔
.
رات جب کچھ گہری ہونے لگی تو ماں نے ایک جگ میں پانی بھرا اور بیٹے کےکمرے میں جا کر اس کے بستر کے ایک طرف ڈال دیا بیٹے نے جب اس طرف کروٹ لی پانی کی وجہ سے اسکی آنکھ کھل گئی جب دیکھا کہ ماں ہاتھ میں جگ لئے کھڑی ہے اور بستر پر پانی بھی اس نے ہی ڈالا ہے تو چلانے لگا کہ یہ آپ کیا کر رہی ہیں ؟
.
ماں بولی کہ بیٹا اپنے بچپن میں پتا نہیں کتنی دفعہ تو نے میرا، بستر اسی طرح گیلا کیا تھا اور میں نے غصہ کرنے کے بجائے تمہیں خشک جگہ پر ڈالا اور خود گیلی جگہ لیٹ گئی بلکہ بعض اوقات اپنے پیٹ پر بھی سلایا تھا، سوچا تمہیں بتادوں حساب چکانا بہت مشکل ہوجائے گا تم اسی گھر میں رہو مجھے کہیں بھی ایک کمرے کا گھر دے دو یا تمہارے گھر کے پچھلی طرف کا کمرہ ہی مجھے دے دو میں وہیں رہ لوں گی۔
.
وہ اٹھ کر بیٹھ چکا تھا اور اداس آنکھوں سے ماں کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ماں کو کیا جواب دے ۔ماں کچھ دیر رک کر اپنے کمرے میں جاچکی تھی ۔ یہ کافی دیر تک جاگتا رہا اور پھر اچانک اس نے ایک فیصلہ کیا اور سکون کی نیند سوگیا۔
.
صبح ہوئی بیوی کو گھر بلایا، اس کی پسند کی کچھ چیز مہیا کی اور کہا :یہ بتائو کہ تمہاری امی کہاں رہتی ہیں.
.
یہ کیسی بات کر رہے ہیں آپ ،آپ کو معلوم تو ہے کہ وہ میرے بھائی کے گھر رہتے ،بیوی نے جواب دیا
.
تو ایک کام کرتے ہیں ہم اچھا سا ایک گھر لیتے ہیں جس میں تمہاری اور میری امی رہیں گی۔
.
نہیں ایسا نہیں ہوسکتا میری امی اپنے بیٹے کے بغیر کیسے رہیں گی وہاں ان کا کون خیال رکھے گا۔
بیوی نے بجھے بجھے لہجے میں جواب دیا۔
.
جس طرح آپ کو اپنی امی کا خیال ہے اور ہونا بھی چاہئے ،بلکہ جو اپنی والدہ کا خیرخواہ نہ ہو، وہ اچھا انسان نہیں تو آپ مجھے بتاو کہ میں اچھا انسان بنوں یا کیا؟
.
اس آدمی کی حکمت بھری گفتگو سے بیوی کو بات سمجھ آچکی تھی ،اور ۔۔۔پھر جب رات آئی تو گھر کا منظر بھی عجیب سماں پیش کررہا تھا ، رات دسترخوان پر ایک ماں اس کا بیٹا بہو اور اس کے پوتے پوتیاں مل کر کھانا کھا رہے تھے خوشیاں بکھر رہی تھیں ،رات میاں بیوی کی آنکھوں میں آنسوں اور زباں پر ایک ہی جملہ تھا کہ یقیناً جو سکون آج ملا وہ سکون ساری زندگی میں نہ مل سکا.
.
جی ہاں والدین کی خدمت ان کی خیرخواہی میں دونوں جہاں کی بھلائیاں پوشیدہ ہیں
.
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے ماں باپ سے محبت کرنے والا اور ان کا فرمانبردار بنائے، اللہ ہر ماں باپ کو ایسا فرمابردار اولاد عطا کر جو اپنے اولاد، بیوی کے ساتھ ساتھ اپنے والدین کا خیال رکھے، اللہ تو ہر مسلم مرد کو ایسی بیوی، ہر مسلم عورت کو ایسا شوہر عطا کر جو اپنے ماں باپ اور ساس سسر کا خیال رکھے اور اُنکا خدمت کرے۔ آمین ثمہ آمین

Share:

Maa apne bacho ko peshab karne ka tarika kaise bataye?

Maa apne bacho ko peshab kaise karaye?
Bacho ke peshab ka hukm islam me.

بچوں کے پیشاب کا حکم

بہت ساری مسلمان عورتیں نمازنہ پڑھنے کے لئے بچوں کے پیشاب کا بہانہ بناتی ہیں جبکہ بچوں کے پیشاب کا معاملہ بہت آسان ہے ۔ دودھ پیتے لڑکے کے پیشاب پرچھینٹا مارنا کافی ہے اورشیرخوار بچی کا پیشاب دھونا ہے۔ یہ کوئی مشکل نہیں بلکہ بہت آسان ہے ۔ ہم اپنے گھر کی عورتوں کی اصلاح کریں۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی حدیث کے الفاظ ہیں :
إن رسول اﷲ ﷺ کان یُـؤتٰی بالصبیان فیبرک علیھم ویحنکھم فأُتي بصبي فبال علیہ فدعا بماء فأتبعہ بولہ ولم یغسلہ). (صحیح مسلم:286)
''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچے لائے جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبارکباد دیتے اور گھٹی دیتے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک بچہ لایا گیا تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیشاب کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوایا، اس پر ڈال ؍ چھڑک دیا لیکن اسے دھویا نہیں ۔''
اُمّ قیس ؓ کی حدیث میں لفظ فأتبعہ کی بجائے فنضحَہ مذکور ہے۔ (صحیح بخاری :223)
حضرت علی ؓ کی روایت جس کو موضوع قرار دیا گیا ہے یہ ہے :
یغسل من بول الجاریة ویُنَضَح من بول الغلام ما لم یَطعم (صحیح بخاری :223)
حضرت اُمّ فضل ؓ کی روایت میں مذکر و مؤنث ہر دو بچوں کا تذکرہ ہے :
إنما یُنضح من بول الذکر ویغسل من بول الأنـثٰی (سنن ابن ماجہ :522)
اس موضوع پر یہ اور دیگر متعدد احادیث اس امر پر متفق ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شیر خوار بچے کے پیشاب کو محض چھینٹے مارتے تھے اور شیر خوار بچی کے پیشاب کو دھویا کرتے تھے۔
روایات میں یہ صراحت سے موجود ہے کہ ایسا فرق صرف عرصۂ رضاعت میں روا رکھا جاتا ہے۔ یہاں (لم یطعم طعامًا) سے مراد دودھ ،کھجور اور شہد __ جس سے گھٹی دی جاتی ہے__ کے علاوہ دیگر غذائیں ہیں ۔( فتح الباری:4312)

ظاہری بات ہے کہ ان غذاؤں کا استعمال عرصۂ رضاعت کے ابتدائی چند ماہ میں ہی ہوتا ہے۔
آخر میں اللہ تعالی سے دعاہے کہ ہمارے گھر کی عورتوں کو صحیح سمجھ دے تاکہ وہ نماز کے لئے پیشاب کا بہانہ نہ بنائے ۔ آمین مستفاد از محدث فورم

Share:

Apne Bache ko Likhna padhna kaise sikhaye?

Apne bache ko likhna padhna kaise sikhaye?
اپنے بچے کو لکھنا کیسے سکھائیں..؟

ایک خاتون کہتی ہیں: میرے بچے جب بھی آپس میں لڑتے بِھڑتے اور معاملے میں مداخلت کیلئے اپنے باپ کے پاس جاتے تو وہ ان سے بڑی ہی عجیب فرمائش کر ڈالتا۔

کہتا: بیٹے ، یہ جو آپ دونوں میں معاملہ ہوا ہے، اسے کاپی پر لکھ کر مجھے لا دیجیئے، میں اسے بغور پڑھ کر تمہارا فیصلہ کرونگا۔

"وہ کہتی ہیں اور کچھ ہوتا نہ ہوتا، میرے بچوں کا طرز بیان، فصاحت، بلاغت اور لکھائی کمال پکڑتی گئی۔"

اور آج میرے بچے کسی بھی موضوع پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کیلئے، اپنے موقف پر ڈٹ جانے کیلئے، جاذب اور جاندار دلائل پیش کرنے کیلئے، یا کسی کو قائل کرنے، حمایت لینے اور آگہی دینے یا لینے کیلئے شاندار مہارت، بلاغت اور عبور رکھتے ہیں۔
︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗︗

Share:

Ek Baap (Father) ka Apne Bete ko Nasihat.

Jaha Bhi raho lekin Apne Maa Baap ke Nam ko Nicha mat karo
Kisi Bhi Kam me Jaldbaji nahi karo...  Ek Baap ka apne Bete ko Nasihat
ایک باپ کی اپنے بیٹے کو نصیحت ___!!

1- سگریٹ نوشی سے بچو. 
2- بیوی کے انتخاب ميں بہت دور اندیشی سے کام لو کیونکہ تمہاری خوشی یا غمی کا دارو مدار 90% اسی پر ہوتا ہے.
3- بہت سستی چیزیں مت خریدو.
4- بچوں کو اپنے مزاج اور پسند کے مطابق جینے دو، انهیں بالکل اپنے جیسا بنانے کی کوشش مت کرو.
5- تنقید کرنے والوں کے پیچھے پڑ کر اپنا وقت برباد مت کرو
6- کسی سیاست دان پر کبھی اعتماد مت کرو.
7- جب کسی سے گاڑی ادھار لو تو پورا تیل بھر کر ہی واپس کرو.
8- موبائل کہیں تمہاری زندگی کے خوبصورت لمحات ميں خلل انداز نہ ہو کیونکہ موبائل تمہاری اپنی راحت و سکون کے لئے ہے نہ کہ دوسرے کی.
9- کام مکمل کرنے سے پہلے مزدوری نہ دو.
10- جو تم سے زيادہ مالدار یا غریب ہو اس کے سامنے اپنی دولت کا تذکرہ نہ کرو.
11- دوستوں کو قرض دینے ميں محتاط رہو کیونکہ ممکن ہے قرض اور دوستی دونوں سے ہاتهہ دھو بیٹھو.
12- مخاطب سے اس کی تنخواہ کے متعلق مت پوچھو.
13- ہرچیز لکھ لیا کرو. اپنے دماغ پر ہمیشہ بھروسہ مت کرو.
14- بچے کو سزا اس کے جرم کے مطابق دو.
15- قرض اسے دو جو بغیر مانگے واپس کر دے.
16- ہر کوئی تعریف پسند ہوتا ہے اس لئے کسی کی تعریف کرنے ميں بخیلی نہ کرو.
17- کسی سے اختلاف یا بحث و مباحثے کے وقت اپنے اخلاق اور سلیقہ مندی کا دامن نہ چهوڑو.
18- اپنے علم کو پھیلاؤ اور لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچاو کیونکہ ہمیشہ زندہ رہنے کا یہی واحد راستہ ہے.
19- اپنی ذاتی یا مالی تفصیلات کا اظہار بقدر ضرورت ہی کرو.
20- اگر کوئی تمہارے دوست کی تعریف کرے تو اپنے دوست سے ضرور اس کا ذکر کرو. 
21- اگر کوئی تمہارے ساتھ بدسلوکی کرے تو تم اس کے بچے کے ساتھ احسان کر کے اسے سبق سکھاؤ.
22- شادی اس سے کرو جو مال و دولت میں تمہارے برابر یا تم سے کمتر ہو.
23- کوئی چیز جب تمہیں دو بار ادھار لینے کی ضرورت پڑے تو وہ چیز بازار سے خرید لو.
24- روزانہ آدھا گهنٹہ چہل قدمی کرو.
25- تمہاری گهڑی وقت سے پانچ منٹ آگے رہنی چاہیے.
26- تصنع اور بناوٹ سے دور رہو.
27- معمولی چیزوں میں بحث و تکرار مت کرو.
28- جہاں بھی رہو وہاں اپنا اچھا اثر چهوڑنے کی کوشش کرو.

عربی سے منقول

Share:

Maa Baap ki Baat Manne ke Bad bhi Wo Hmse Khafa Kyu Rahte Hai?

Unke Khawahish Ke Mutabik Har Chij Dene ke bawjood bhi Mujh Se naaraz rahte hai aakhir kyu?

Mere Maa Baap mujh se jo kuchh maangte hai mai unhe Wo saman Hajir kar deta hoo Tab bhi wah Mujh se Khafa Rahte hai.
एक आलिम दिन से एक नौजवान शख्स ने सवाल किया के मेरे मां बाप जईफ हो चुके है और अक्सर व बेस्तर वह मुझसे खफा रहते है जबकि मै उनको हर वह चीज मुहैया कराता हूं जिसका वह मुतालबा करते है।


ایک عالم دین سے ایک نوجوان شخص نے شکایت کی کہ میرے والدین اڈھیر عمر ھیں اور اکثر و بیشتر وہ مجھ سے خفا رہتے ھیں حالانکہ میں انکو ہر وہ چیز مہیا کرتا ھوں جسکا وہ مطالبہ کرتے ھیں ۔۔
۔۔
عالم دین نے نوجوان شخص کو سر سے پیروں تک دیکھا اور فرمانے لگے کہ بیٹا یہی تو انکی ناراضگی کا سبب ھے کہ جو وہ مانگتے ھیں تم انکو لا کر دیتے ھو ۔۔
نوجوان کہنے لگا کہ میں آپکی بات نہی سمجھ پایا تھوڑی سی وضاحت کر دیں ۔۔
۔۔
عالم دین فرمانے لگے ۔۔۔۔بیٹا کیا کبھی تم نے غور کیا ھے کہ
جب تم دنیا میں نہی آے تھے تو تمہارے آنے سے پہلےھی تمھارے والدین نے تمھارے لئے ہر چیز تیار کر رکھی تھی ۔
تمھارے لئے کپڑے ۔
تمھاری خوراک کا انتظام
تمھاری حفاظت کا انتظام
تمہیں سردی نہ لگے اگر گرمی ھے تو گرمی نہ لگے ۔
تمہھارے آرام کا بندوبست
تمھاری قضاے حاجت تک کا انتظام تمھارے والدین نے تمھاری دنیا میں آنے سے پہلے ھی کر رکھا تھا ۔۔
۔۔۔۔
۔۔۔۔پھر آگے چلو ۔۔۔
کیا تمھارے والدین نے کبھی تم سے پوچھا تھا کہ بیٹا تم کو سکول میں داخل کروائیں یا نہ ۔
اسیطرح کالج یا یونیورسٹی میں داخلے کیلئے تم سے کبھی پوچھا ھو ۔۔بلکہ تمھارے بہتر مستقبل کیلئے تم سے پہلے ھی سکول اور کالج میں داخلے کا۔بندوبست کر۔دیا ھو گا ۔۔
اسی طرح تمھاری پہلی نوکری کیلئے تمھارے سکول کی ٹرانسپورٹ کیلئے تمھارے یونیفارم کیلئے تمھارے والد صاحب نے کبھی تم سے نہی پوچھا ھو گا بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق بہتر سے بہتر چیز تمھارے مانگنے سے پہلے ھی تمہیں لاکر دی ھو گی ۔۔
تمہہں تو شاید اسکا بھی احساس نہ ھو کہ جب تم نے جوانی میں قدم رکھا تھا تو تمھارے والدین نے تمھارے لئے ایک۔اچھی لڑکی بھی دھونڈنی شروع کر دی ھو گی جو اچھی طرح تمھاری خدمت کر سکے اور تمھارا خیال رکھ سکے ۔۔۔
لڑکی تلاش کرتے ھوے بھی انکی اولین ترجیح تمھاری خدمت ھی ھوگی بلکہ انکے تو ذھین میں کبھی یہ۔خیال بھی نہی آیا ھو گا کہ ھم ایسی دلہن بیٹے کیلئے لائیں جو ھماری خدمت بھی کرے اور ھمارے بیٹے کی بھی ۔۔۔
تمھارے لئے کپڑے ۔تمھاری پہلی سائکل۔تمھارا پہلا موٹر سائکل ۔تمھارا پہلا سکول ۔تمھارے کھلونے ۔تمھاری بول چال ۔تمھاری تربیت ۔تمھارا رھن سہن چال چلن رنگ دھنگ گفتگو کا انداز ۔۔۔۔۔یہاں تک کے تمھارے منہ سے نکلنے والا پہلا لفظ تک تمکو تمھارے ماں باپ نے مفت میں سیکھایا ھے اور تمھارے مطالبے کے بغیر سیکھایا ھے ۔۔۔
اور آج تم کہتے ھو کہ۔ جو کچھ وہ مجھ سے مانگتے ھیں میں انکو لا کر دیتا ھوں اسکے باوجود وہ۔خفا رھتے ھیں ۔۔۔
جاو والدین کو بن مانگے دینا شروع کرو ۔
انکی ضروریات کا خیال اپنے بچوں کی ضروریات کیطرح کرنا شروع کرو ۔۔
اگر انکی۔مالی مدد نہی کر سکتے تو انکو اپنا قیمتی وقت دو ۔انکی خدمت کرو ۔گھر کی۔زمہ داریاں خود لو ۔۔جیسے اپنے بچوں کے باپ بنے ھو ویسے ھی اپنے والدین کی نیک اولاد بنو ۔۔اور انکو بن مانگے دینا شروع کرو ۔۔
اپنے آپ کو اس قابل بنا لو کہ انکو تم سے مانگنے کی یا مطالبے کی ضرورت ھی نہ پڑے ۔۔یا انکو کبھی تمھاری کمی محسوس ھی نہ ھو کم سے کم۔اتنا وقت تو انکو عطا کر دو ۔۔۔۔انکو مسائل پوچھو ۔۔
اگر انکی۔مالی مدد نہی کر سکتے تو انکی۔خدمت کرو
کیا کبھی ماں یا باپ کے پاوں کی پھٹی ھوئی ایڑیاں دیکھیں ھیں تم نے ؟؟
کیا کبھی ان پھٹی ھوئی ایڑیوں میں کوئی کریم یا تیل لگایا ھے جیسے وہ تمکو چھوٹے ھوتے وقت لگاتے تھے ؟؟
کیا کبھی ماں یا باپ کے سر میں تیل لگایا ھو کیونکہ جب تم بچے تھے تو وہ باقاعدہ تمھارے سر میں تیل لگا کر کنگھی بھی کرتے تھے ۔۔تمھای ماں تمھارے بال سنوارتی تھی کبھی ماں کے بال سنوار کر تو دیکھو ۔۔۔
کیا کبھی باپ کے پاوں دبائیں ھیں حالانکہ تمھارے باپ نے تمہیں بہت دفعہ۔دبایا ھو گا ۔۔۔
کیا کبھی ماں یا۔باپ کیلئے ہاتھ میں پانی یا تولیہ لے کر کھڑے ھوے ھو ۔جیسے وہ تمھارا منہ بچپن میں نیم گرم پانی سے دھویا کرتے تھے ۔۔۔۔
کچھ کرو تو سہی
۔۔۔۔۔ انکو بغیر مانگے لا کر دو
۔۔۔۔۔۔انکی۔زمہ داریاں اٹھا کر دیکھو ۔
۔۔۔۔۔۔۔انکو وقت دے کر دیکھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔انکی خدمت کر کے دیکھو ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انکو اپنے ساتھ رکھو ھمیشہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انکو اپنے آپ۔پر۔بوجھ مت سمجھو نعمت سمجھ کر دیکھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس طرح انہوں نے تم کو بوجھ نہی سمجھا بغیر کسی معاوضہ کے تمھاری دن رات پرورش کر کے معاشرے کا ایک کامیاب انسان بنایا ھے ۔کم سے کم انکی وھی خدمات کا صلہ سمجھتے ھوے ان سے حسن سلوک کا رویہ اختیار کرو ۔۔پھر دیکھنا وہ بھی خوش اور اللہ بھی خوش ۔۔
عالم دین کی یہ باتیں سن کر نوجوان اشک بار ھوگیا اور باقی کے حاضرین کی آنکھیں بھی۔نم ھو گئیں ۔۔
۔۔واقعی۔یہ حقیقت ھے کہ ایسے نصیحت آموز باتیں دنیا کی کسی بھی یونیورسٹی میں نہی مل۔سکتی صرف اور صرف دینی علماء ھی ایسی تربیت کر سکتے ھیں ۔۔۔
اللہ۔ایسے علماء کا سایہ ھمیشہ۔قائم رکھے ۔۔
اور ھر انسان کو یہ۔توفیق اور خوش نصیبی عطا کرے کہ۔وہ۔اپنے والدین کی۔ڈیمانڈ سے پہلے ھی انکی۔ضروریات کو جانتے ھوے پایہ تکمیل تک پہنچا دے ۔۔
آمین یا رب العالمین ۔۔۔۔۔
Share:

Aulad ki Tarbiyat ke liye Kuchh Waqyat Quran Se.

Aulad ki Achi Tarbiyat ke Liye Quran Ke kuchh waqyat.
औलाद को शिष्टाचार और संस्कारी कैसे बनाए?
اولاد کی تربیت کے لیے قرآن حکیم سے تین بہترین مکالمے جو باپ بیٹوں کے درمیان ہوئے ، اس بات جیت کی مدد سے آج ہم اپنے بچوں کی تربیت کے لیے انتہائی آسان ،  بہترین اور موٹیویشنل نصاب بنا سکتے ہیں -

✳پہلا مکالمہ حضرت لقمان اور انکے بیٹے کے درمیان ہے -
جناب لقمان فرماتے ہیں ،

اے میرے بیٹے ! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا ، یقین جانو شرک بڑا بھاری ظلم ہے -

اے میرے بیٹے ! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو ، اور وہ کسی چٹان میں ہو ، یا آسمانوں میں یا زمین میں ، تب بھی اللہ اسے حاضر کردے گا ۔

اے میرے بیٹے ! نماز قائم کرو ، اور لوگوں کو نیکی کی تلقین کرو ، اور برائی سے روکو ، اور تمہیں جو تکلیف پیش آئے ، اس پر صبر کرو ۔ بیشک یہ بڑی ہمت کا کام ہے اور لوگوں کے سامنے ( غرور سے ) اپنے گال مت پھلاؤ ، اور زمین پر اتراتے ہوئے مت چلو ۔ یقین جانو اللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا ۔ اور اپنی چال میں اعتدال اختیار کرو ، اور اپنی آواز آہستہ رکھو بیشک سب سے بری آواز گدھوں کی آواز ہے ۔

🔗اس مکالمے میں میرے لیے سمجھنے کی چیزیں

* اللہ کی لا شریک و لا زوال واحدنیت 
یعنی میرے پاس موجود تمام تر دنیاوی طاقت کے باوجود طاقت کا لازوال سرچشمہ صرف اللہ کی ذات ہے اور میں اس کی کن کا محتاج ہوں -

* کسی بدی کو چھوٹا نہ سمجھنا اور نہ ہی کسی نیکی کو بڑا سمجھنا ، دنیاوی معاملات میں گناہ کر کے بھول نہ جانا -

* اچھائی اور برائی کی تمیز کرنا ، مشکل حالات میں ہمت سے کام لینا اور اپنی حدود سے تجاوز نہ کرنا -

✳دوسرا مکالمہ سید نا ابرھیم علیہ السلام اور انکے بیٹے سید نا اسماعیل علیہ السلام کے درمیان ہے -
قرآن حکیم میں دیکھایا گیا سناریو محسوس کریں "پھر جب وہ لڑکا ابراہیم کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگیا " یعنی وہ وقت ہے جب باپ بیٹے میں محبت کا جذبہ اپنی انتہاؤں پر ہوتا ہے -

اب باپ بیٹا محو گفتگو ہیں

جناب ابراہیم فرماتے ہیں ،  بیٹے ! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں ، اب سوچ کر بتاؤ ، تمہاری کیا رائے ہے؟

جناب اسماعیل جواب دیتے ہیں ، ابا جان ! آپ وہی کیجیے جس کا آپ کو حکم دیا جارہا ہے ۔  انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے ۔ 

🔗اس مکالمے میں میرے لیے سمجھنے کی چیزیں

* والدین کی اطاعت

* قوت فیصلہ

* خواہشات کی قربانی

* ہمت و حوصلہ

✳تیسرا مکالمہ سید نا نوح علیہ السلام اور انکے بیٹے کے درمیان ہے -
قرآن حکیم میں مکالمے سے پہلے جو وہاں کا  ماحول ، باپ کا کرب اور جوان اولاد سے محبت محسوس کریں "  وہ کشتی پہاڑوں جیسی موجوں کے درمیان چلی جاتی تھی " آہ !

اس دوران باپ بیٹے کی جو بات جیت ہوتی ہے
نوح نے اپنے اس بیٹے کو جو سب سے الگ تھا ، آواز دی کہ : بیٹے ! ہمارے ساتھ سوار ہوجاؤ ، اور کافروں کے ساتھ نہ رہو ۔

بیٹے نے جواب دیا
   میں ابھی کسی پہاڑ کی پناہ لے لوں گا جو مجھے پانی سے بچا لے گا -

یہ سن کر نوح فرمانے لگے 
آج اللہ کے حکم سے کوئی کسی کو بچانے والا نہیں ہے ، سوائے اس کے جس پر وہ ہی رحم فرمادے ۔

اس کے بعد ان کے درمیان موج حائل ہوگئی ، اور ڈوبنے والوں میں وہ بھی شامل ہوا ۔

🔗میرے لیے اس مکالمے میں قابل غور چیزیں

*  برائی کو نہ صرف برا سمجھ کر اجتناب کرنا بلکہ برائی کرنے والوں کی صحبت سے بھی دوری اختیار کرنا

* ہٹ دھرمی سے پرہیز اور رویوں میں لچک

* خود پرستی ، انا اور میں کا خاتمہ -

✔آپ کے لیے ان مکالموں میں کیا قابل غور ہے ؟؟

Share:

Ek Hasti Aeisi hai Jo Bagair Shakal Dekhe Mohabbat karti Hai.

Jiske Pairo Ke Niche Allah Ne Jannat Rakh di Hai?

Duniya To hme Dekhne ke Bad Hmse Mohabbat Karti hai Mager ek Aeisi Bhi Hasti Hai jo Hme Bagair Dekhe Hmse Be Pnah Mohabbat karti Hai
ﻭہ9 ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺬﺍﺏ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺗﯽ ﮬﮯ ،ﮔﺮﺗﯽ ﮬﮯ ﺗﻮ ﭘﯿﭧ ﮐﮯ ﺑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺮﺗﯽ ﭘﮩﻠﻮ ﮐﮯ ﺑﻞ ﮔﺮ ﮐﺮ ﮬﮉﯼ ﺗﮍﻭﺍ ﻟﯿﺘﯽ ﮬﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﺑﭽﺎ ﻟﯿﺘﯽ ﮬﮯ ،
ﺿﺮﻭﺭ ﭘﮍﮬﺌﮯ ﮔﺎ .
ﺍﻟﺴَّـــــــﻼَﻡُ ﻋَﻠَﻴــْــﻜُﻢ ﻭَﺭَﺣْﻤَﺔُ ﺍﻟﻠﻪِ ﻭَﺑَﺮَﻛـَـﺎﺗُﻪ
ﺳﺎﺭﮮ ﺭﺷﺘﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺑﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ،، ﺍﺱ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﻭﺍﺣﺪ ﺍﯾﺴﺎ ﺭﺷﺘﮧ ﮬﮯ ﺟﻮ ﮬﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﻧﻮ ﻣﺎﮦ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ،،
ﻭﮦ ﺑﺲ ﻭﮬﯽ ﮐﮭﺎﺗﯽ ﮬﮯ ﺟﺲ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﻧﮧ ﮬﻮ ،، ﻭﮦ ﺑﮍﮮ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺩﺭﺩ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻋﺬﺍﺏ برداشت ﻟﯿﺘﯽ ﮬﮯ ﻣﮕﺮ ﺩﺭﺩ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻭﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﯽ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﻭﮦ ﺩﻭﺍ ﮬﻢ ﮐﻮ ﻧﮧ ﻣﺎﺭ ﺩﮮ ،، ﮬﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭼﮭﮍﺍ ﺩﯾﺘﮯ ﮬﯿﮟ ،،ﮬﻢ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻧﯿﻨﺪ ﺣﺮﺍﻡ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮬﯿﮟ ،، ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﮬﻮ ﮐﺮ ﭼﯿﻦ ﺳﮯ ﺳﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ ، ﻭﮦ ﺳﻮﺗﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺟﺎﮔﺘﯽ ﺭﮬﺘﯽ ﮬﮯ ، 9 ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺬﺍﺏ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺗﯽ ﮬﮯ ،ﮔﺮﺗﯽ ﮬﮯ ﺗﻮ ﭘﯿﭧ ﮐﮯ ﺑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺮﺗﯽ ﭘﮩﻠﻮ ﮐﮯ ﺑﻞ ﮔﺮ ﮐﺮ ﮬﮉﯼ ﺗﮍﻭﺍ ﻟﯿﺘﯽ ﮬﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﺑﭽﺎ ﻟﯿﺘﯽ ﮬﮯ ،
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﯿﺮﯼ ﺷﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﯽ ،، ﻟﻮﮒ ﺷﮑﻞ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﯿﮟ ﻭﮦ ﻏﺎﺋﺒﺎﻧﮧ ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﯽ ﮬﮯ ،، ﻟﻮﮒ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻣﺎﻧﮓ ﮐﺮ ﺳﻠﯿﮑﭧ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﯿﮟ ،،، ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﺍﺱ ﺧﻠﻮﺹ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﭘﯿﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ،، ﺧﺪﺍ ﮐﻮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺍﺗﻨﺎ ﺍﻋﺘﺒﺎﺭ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﭘﯿﻤﺎﻧﮧ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ،، ﺍﻭﺭ ﺟﻨﺘﯽ ﮬﮯ ﺗﻮ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﺟﻨﺘﯽ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﮬﻮﺵ ﺁﺗﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ ﭘﮩﻼ ﺳﻮﺍﻝ ﺗﯿﺮﯼ ﺧﯿﺮﯾﺖ ﮐﺎ ﮨﯽ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ،،،
ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﻭﺍﺣﺪ ﮨﺴﺘﯽ ﮬﮯ ﺟﻮ ﻋﯿﺐ ﭼﮭﭙﺎ ﭼﮭﭙﺎ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮬﮯ ، ﺗﯿﺮﯼ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﻋﺬﺭ ﺗﺮﺍﺷﺘﯽ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺎﭖ ﮐﻮ ﻣﻄﻤﺌﻦ ﺍﻭﺭ ﺗﺠﮭﮯ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ،، ﺑﺎﭖ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﻨﺪ ﮐﺮﮮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﺼﮯ ﮐﺎ ﮐﮭﻼ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ ، ﺑﺎﭖ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﮮ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﭼﻮﺭﯼ ﺳﮯ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺘﯽ ﮬﮯ،،
ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﯿﺮﺍ ﺍﺗﻨﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﺟﺘﻨﺎ ﻣﺎﮞ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮬﮯ ،،، ﺧﺪﺍ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﺖ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ،،
ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﺳﺐ ﮐﮯ ﻣﺎﺋﻮﮞ ﮐﻮ ﻟﻤﺒﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺩﮮ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﻓﻮﺕ ﮬﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﭘﺎﮎ ﺟﻨﺖ ﻓﺮﺩﻭﺱ ﻋﻄﺎ ﮐﺮﯾﮟ
ﺁﻣﯿﻦ ﺛﻢ ﺁﻣﯿﻦ
ﺟﺰﺍﻙ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻟﺨﯿﺮ۔
Share:

Waldain (Maa-Baap) Ki Maujoodgi Me Kya Kare Aur Kya Nahi Kare?

Apne walidain ke Sath Kaise Pesh Aaye?

والدین کو عزّت دینے کے 35 طریقے ضرور پڑھئیے
1 والدین کی موجودگی میں اپنے فون کو دور رکھئیے۔
2 انُ کی باتوں کو توجہ سے سنئیے۔
3 انُ کی رائے کو مقدم رکھئیے۔
4 انُ کی گفتگو میں شامل رہئیے۔
5 انُ کو عزّت سے دیکھئے۔
6 انُ کی ہمیشہ تعظیم کیجئیے۔
7 انُ کے ساتھ اچھی خبر شیئر کیجئے۔
8ان کو بُری خبر بتانے سے پرہیز کیجئے۔
9 ان کے دوستوں کے بارے میں اچھی باتیں کیجئے،اور ان سے محبت رکھئیے۔
10 انُکی کی گئی اچھی چیزوں کو اکثر یاد کرتے رہیں۔
11 انُ کی دہرائ ہوئ باتوں کو اس طرح سنئیے کہ گویا پہلی بار سنُ رہے ہوں۔
12 ماضی کی تلخ یادوں کو ان ساتھ کبھی نہ کیجئے.
13 ان کی موجودگی میں کسی دوسری گفتگو سے پرہیز کیجئے۔
14 ان کے سامنے ادب سے بیٹیھئے.
15 انُ کی رائے اور سوچ کے متعلق معمولی سا اختلاف بھی نہ کیجئے۔
16 جب وہ گفتگو کریں تو انُکی بات کو مت کاٹئیے.
17 انُ کی عمر کا احترام کیجئے۔
18 انُ کی موجودگی میں اپنے بچّوں کو ڈانٹنے اور مارنے سے گریز کیجئے۔
19 انُ کے حکم اور مشورے کو قبول کیجئے۔
20 انُ کی موجودگی میں صرف ان سے ہی راہنمائ لیجئے۔
21 انُ کے سامنے اپنی آواز کو ہرگز اونچا نہ ہونے دیجئے۔
22 انُ کے ساتھ چلتے ہوئے انُ سے آگے بڑھنے یا ان کے سامنے چلنے سے پرہیز کیجئیے۔
23 ان سے پہلے کھانا شروع مت کیجئے۔
24 انُ کے سامنے خود کو نمایاں مت کیجئے۔
25 جب وہ خود کو کسی قابل نہ سمجھیں تو ان کو بتائیے کہ وہ آپکے لئے قیمتی اور قابل احترام ہیں.
26 انُ کے سامنے بیٹھتے ہوئے اپنے پیر انُ کے سامنے مت کیجئے اور نہ ہی انُ کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھیں.
27 انُ کے ساتھ بداخلاقی سے بات مت کیجئے.
28 کوشش کیجئے کہ انُ کو ہمیشہ اپنی دعاؤں میں شامل رکھئیے.
29 انُ کی موجودگی میں خود کو ہرگز بوُر اور تھکا ہوا ظاہر نہ کیجئے.
30 انُ کی غلطیوں اور بھول پر کبھی مت مسکُرائیے.
31 انُ کی زیارت برابر کرتے رہئیے۔
32 انُ سے بات کرتے وقت بہترین الفاظ کا چناؤ کیجئیے.
33 انُ کو محبت بھرے ناموں سے پکاریے جو وہ پسند کرتے ہیں۔
34 انُ کو ہر چیز پر مقدّم رکھئیے اور ترجیح دیجئے.
35 والدین اس کرۂ ارض پر خزانہ ہیں۔سوچئیے اس سے پہلے کہ یہ خزانہ دفن ہو جائے۔اپنے والدین کو عزّت دیجئیے جب تک وہ ہمارے پاس ہیں.
آئیے آج ہی اپنے قابلِ احترام و محبت والدین کے لئے ڈھیروں دعائیں کرتے ہیں.
جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء
Share:

Maa Ki Khidmat Karne wala Jihad Karne wala Hai?

Waldain Ki Khidmat Karne wala Kaisa Hai?
   ﺑِﺴْـــــــــــــﻢِﷲِﺍﻟﺮَّﺣْﻤَﻦِﺍلرَّﺣِﻴﻢ 
 السَّلاَمُ عَلَيكُم وَرَحمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ
   Mafhum-e-Hadith: Maa Baap ki khidmat karne ki ahmiyat
  Abdullah bin Umar Radi Allahu Anhu se rivayat hai ki Ek Shakhs Rasool-Allah Sal-Allahu Alaihi wasallam ke khidmat mein Hazir hau Aur jihad Mein jaane ki Ejazat Maangi to Aap Sal-Allahu Alaihi wasallam ne pucha ki kya tumhare Maa-Baap Zinda hain to usne kaha ji haan, Aap Sal-Allahu Alaihi wasallam ne farmaya Phir tum unki khidmat karo. Sahih Bukhari, Jild 4, 3004

  Mu'awiyah bin Jahimah Radi Allahu Anhu se rivayat hai ki Jahima Radi Allahu Anhu Rasool-Allah Sal-Allahu Alaihi wasallam ke paas aaye aur arz ki Ya Rasool-Allah Sal-Allahu Alaihi wasallam maine Jihad mein Shamil hone ka irada kar liya hai aur iske liye main aapka Mashwera chahta hu Aap Sal-Allahu Alaihi wasallam ne farmaya kya Tumhari Maa (Mother) zinda hai unhone Araz ki Ji haan to Aap Sal-Allahu Alaihi wasallam ne farmaya to phir tum unki khidmat karo kyunki Jannat Maa ke qadmo ke neeche hai.  Sunan Nasaii, Jild 2, 1016-Sahih

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے سنا ، آپ بیان کرتے تھے کہ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں شرکت کی اجازت چاہی ۔ آپ نے ان سے دریافت فرمایا ، کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تم ان کی خدمات کرو
٣٠٠٤ صحیح بخاری

جاہمہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میں جہاد کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اور آپ کے پاس آپ سے مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان سے) پوچھا: کیا تمہاری ماں موجود ہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: ”انہیں کی خدمت میں لگے رہو، کیونکہ جنت ان کے دونوں قدموں کے نیچے ہے“
سنن نسائی جلد ٢ ١٠١٥ -صحیح
----------
✦ अब्दुल्लाह बिन उमर रदी अल्लाहू अन्हु से रिवायत है की एक शख्स रसूल-अल्लाह सल-अल्लाहू अलैही वसल्लम की खिदमत में हाज़िर हुआ और आप सल-अल्लाहू अलैही वसल्लम से जिहाद में जाने की इजाज़त मांगी तो आप सल-अल्लाहू अलैही वसल्लम ने पूछा की क्या तुम्हारे माँ-बाप ज़िंदा हैं तो उसने कहा जी हाँ, तो आप सल-अल्लाहू अलैही वासल्लं ने फरमाया फिर तुम उनकी खिदमत करो
सही बुखारी, जिल्द 4, 3004

✦ मुआविया बिन जहिमाह रदी अल्लाहू अन्हु से रिवायत है की जहीमा रदी अल्लाहू अन्हु रसूल-अल्लाह सल-अल्लाहू अलैही वसल्लम के पास आए और अर्ज़ की या रसूल-अल्लाह सल-अल्लाहू अलैही वसल्लम मैने जिहाद में शामिल होने का इरादा कर लिया है और इसके लिए मैं आपका मशवरा चाहता हू आप सल-अल्लाहू अलैही वसल्लम ने फरमाया क्या तुम्हारी माँ ज़िंदा है उन्होने अर्ज़ की जी हाँ तो आप सल-अल्लाहू अलैही वसल्लम ने फरमाया तो फिर तुम उनकी खिदमत करो क्यूंकी जन्नत मा के क़दमो के नीचे है
सुनन नसाई, जिल्द 2, 1016-सही
----------
   Narrated Abdullah bin Amr Radi Allahu Anhu A man came to the Prophet (ﷺ) asking his permission to take part in Jihad. The Prophet (ﷺ) asked him, "Are your parents alive?" He replied in the affirmative. The Prophet (ﷺ) said to him, Then strive yourself in their service.
Sahih Bukhari, Book 52, Hadith 248

  It was narrated from Mu'awiyah bin Jahimah As-Sulami, that Jahimah came to the Prophet (ﷺ) and said: "O Messenger of Allah Sal-Allahu Alaihi wasallam, I want to go out and fight (in Jihad) and I have come to ask your advice." He said: "Do you have a mother?" He said: "Yes." He said: "Then stay with her, for Paradise is beneath her feet."
Sunan Nasaii, Book 25, Hadith 3106-Sahih.
     ☆▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬☆
  Aye imaan waalo Allah ki itaat karo aur uske Rasool ki itaat karo aur apne Amalo ko Baatil na karo
Jo Bhi Hadis Aapko Kam Samjh Me Aaye Aap Kisi  Hadis Talibe Aaalim Se Rabta Kare
    JazakAllah  Khaira Kaseera
   ☆▬▬▬▬ஜ۩۞۩ஜ▬▬▬▬☆

Share:

Maa Apne Bacche ko Kab Tak Doodh Pilayegi.

Raza'at Ke Masail Quran-O-Sunnat aur Charo imamo Ke Yha.
وَ الۡوَالِدٰتُ یُرۡضِعۡنَ اَوۡلَادَہُنَّ حَوۡلَیۡنِ کَامِلَیۡنِ لِمَنۡ اَرَادَ اَنۡ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ ؕ وَ عَلَی الۡمَوۡلُوۡدِ لَہٗ رِزۡقُہُنَّ وَ کِسۡوَتُہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ لَا تُکَلَّفُ نَفۡسٌ اِلَّا وُسۡعَہَا ۚ لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِہَا وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ ٭ وَ عَلَی الۡوَارِثِ مِثۡلُ ذٰلِکَ ۚ فَاِنۡ اَرَادَا فِصَالًا عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡہُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِمَا ؕ وَ اِنۡ اَرَدۡتُّمۡ اَنۡ تَسۡتَرۡضِعُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا سَلَّمۡتُمۡ مَّاۤ اٰتَیۡتُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۲۳۳﴾
‏ اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اس شخص کے لئے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (تو یاد رکھو کہ) نہ تو ماں کو اس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح (نان نفقہ) بچے کے وارث کے ذمے ہے اور اگر دونوں (یعنی ماں باپ) آپس کی رضامندی اور صلاح سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دودھ پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہےتفسیر ابن كثیر
مسئلہ رضاعت:
یہاں اللہ تعالٰی بچوں والیوں کو اشاد فرماتا ہے کہ پوری پوری مدت دودھ پلانے کی دو سال ہے۔ اس کے بعد دودھ پلانے کا کوئی اعتبار نہیں۔ اس سے دودھ بھائی پنا ثابت نہیں ہوتا اور نہ حرمت ہوتی ہے۔ اکثر ائمہ کرام کا یہی مذہب ہے۔ ترمذی میں باب ہے کہ رضاعت جو حرمت ثابت کرتی ہے وہ وہی ہے جو دو سال پہلے کی ہو۔ پھر حدیث لائے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں وہی رضاعت حرام کرتی ہے جو آنتوں کو پر کر دے اور دودھ چھوٹھنے سے پہلے ہو۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اکثر اہل علم صحابہ وغیرہ کا اسی پر عمل ہے کہ دو سال سے پہلے کی رضاعت تو معتبر ہے، اس کے بعد کی نہیں۔ اس حدیث کے راوی شرط بخاری و مسلم پر ہیں۔ حدیث میں فی الثدی کا جو لفظ ہے اس کے معنی بھی محل رضاعت کے یعنی دو سال سے پہلے کے ہیں، یہی لفظ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بھی فرمایا تھا جب آپ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تھا کہ وہ دودھ پلائی کی مدت میں انتقال کر گئے ہیں اور انہیں دودھ پانے والی جنت میں مقرر ہے۔ حضرت ابراہیم کی عمر اس وقت ایک سال اور دس مہینے کی تھی۔ دار قطنی میں بھی ایک حدیث دو سال کی مدت کے بعد کی رضاعت کے متعبر نہ ہونے کی ہے۔ ابن عباس بھی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد کوئی چیز نہیں۔ ابوداؤد طیالسی کی روایت میں ہے کہ دودھ چھوٹ جانے کے بعد رضاعت نہیں اور بلوغت کے بعد یتیمی کا حکم نہیں۔ خود قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت (وفصالہ فی عامین) الخ، دودھ چھٹنے کی مدت دو سال میں ہے۔ اور جگہ ہے آیت (وحملہ وفصالہ ثلثون شھرا) یعنی حمل اور دودھ (دونوں کی مدت)تین ماہ ہیں۔ یہ قول کہ دو سال کے بعد دودھ پلانے اور پینے سے رضاعت کی حرمت ثابت نہیں ہوتی، ان تمام حضرات کا ہے۔ حضرت علی، حضرت ابن عباس، حضرت ابن مسعود، حضرت جابر، حضرت ابوہریرہ، حضرت ابن عمر، حضرت اُم سلمہ رضوان اللہ علیھم اجمعین، حضرت سعید بن المسیب، حضرت عطاء اور جمہور کا یہی مذہب ہے۔ امام شافعی، امام احمد، امام اسحق، امام ثوری، امام ابویوسف، امام محمد، امام مالک رحمھم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ گو ایک روایت میں امام مالک سے دو سال دو ماہ بھی مروی ہیں اور ایک روایت میں دو سال تین ماہ بھی مروی ہیں۔ امام ابوحنیفہ ڈھائی سال کی مدت بتلاتے ہیں۔ زفر کہتے ہیں جب تک دودھ نہیں چھٹا تو تین سالوں تک کی مدت ہے، امام اوزاعی سے بھی یہ روایت ہے۔ اگر کسی بچہ کا دو سال سے پہلے دودھ چھڑوا لیا جائے پھر اس کے بعد کسی عورت کا دودھ وہ پئے تو بھی حرمت ثابت نہ ہوگی اس لئے کہ اب قائم مقام خوراک کے ہو گیا۔ امام اوزاعی سے ایک روایت ہی بھی ہے کہ حضرت عمر ، حضرت علی سے مروی ہے کہ دودھ چھڑوا لینے کے بعد رضاعت نہیں۔ اس قول کے دونوں مطلب ہو سکتے ہیں یعنی یا تو یہ کہ دو سال کے بعد یا یہ کہ جب بھی اس سے پہلے دودھ چھٹ گیا۔ اس کے بعد جیسے امام مالک کا فرمان ہے، واللہ اعلم، ہاں صحیح بخاری، صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ وہ اس کے بعد کہ، بلکہ بڑے آدمی کی رضاعت کو حرمت میں مؤثر جانتی ہیں۔ عطاء اور لیث کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت عائشہ جس شخص کا کسی کے گھر زیادہ آنا جانا جانتیں تو وہاں حکم دیتیں کہ وہ عورتیں اسے اپنا دودھ پلائیں اور اس حدیث سے دلیل پکڑتی تھیں کہ حضرت سالم کو جو حضرت ابوحذیفہ کے مولیٰ تھےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ وہ ان کی بیوی صاحبہ کا دودھ پی لیں، حالانکہ وہ بڑی عمر کے تھے اور اس رضاعت کی وجہ سے پھر وہ برابر آتے جاتے رہتے تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری ازواج مطہرات اس کا انکار کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ یہ واقعہ خاص ان ہی کیلئے تھا ہر شخص کیلئے یہ حکم نہیں، یہی مذہب جمہور کا ہے یعنی چاروں اماموں، ساتوں فقیہوں، کل کے کل بڑے صحابہ کرام او تمام امہات المومنین کا سوائے حضرت عائشہ کے اور ان کی دلیل وہ حدیث ہے جو بخاری و مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھ لیا کرو کہ تمہارے بھائی کون ہیں، رضاعت اس وقت ہے جب دودھ بھوک مٹا سکتا ہو، باقی رضاعت کا پورا مسئلہ آیت (وامھا تکم اللاتی ارضعنکم) کی تفسیر میں آئے گا انشاء اللہ، پھر فرمان ہے کہ بچوں کی ماں کا نان نفقہ بچوں کے والد پر ہے۔ اپنے اپنے شہروں کی عادت اور دستور کے مطابق ادا کریں، نہ تو زیادہ ہو نہ کم بلکہ حسب طاقت و وسعت درمیانی خرچ دے دیا کرو جیسے فرمایا آیت (لینفق ذوسعۃ من سعتیہ) یعنی کشادگی والے اپنی کشادگی کے مطابق اور تنگی والے اپنی طاقت کے مطابق دیں، اللہ تعالٰی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، عنقریب اللہ تعالٰی سختی کے بعد آسانی کر دے گا۔ ضحاک فرماتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دی اور اس کے ساتھ بچہ بھی ہے تو اس کی دودھ پلائی کے زمانہ تک کا خرچ اس مرد پر واجب ہے۔ پھر ارشاد باری ہے کہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلانے سے انکار کر کے اس کے والد کو تنگی میں نہ ڈال دے بلکہ بچے کو دودھ پلاتی رہے اس لئے کہ یہی اس کی گزارن کا سبب ہے۔ دودھ سے جب بچہ بےنیاز ہو جائے تو بیشک بچہ کو دے دے لیکن پھر بھی نقصان رسانی کا ارادہ نہ ہو۔ اسی طرح خاوند اس سے جبراً بچے کو الگ نہ کرے جس سے غریب دُکھ میں پڑےوارث کو بھی یہی چاہئے کہ بچے کی والدہ کو خرچ سے تنگ نہ کرے، اس کے حقوق کی نگہداشت کرے اور اسے ضرر نہ پہنچائے۔ حنفیہ اور حنبلیہ میں سے جو لوگ اس کے قائل ہیں کہ رشتہ داروں میں سے بعض کا نفقہ بعض پر واجب ہے انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے۔ حضرت عمر بن خطاب اور جمہور سلف صالحین سے یہی مروی ہے۔ سمرہ والی مرفوع حدیث سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے جس میں ہے کہ جو شخص اپنے کسی محرم رشتہ دار کا مالک ہو جائے تو وہ آزاد ہو جائے گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ دو سال کے بعد دودھ پلانا عموماً بچہ کو نقصان دیتا ہے ، یا تو جسمانی یا دماغی۔ حضرت علقمہ نے ایک عورت کو دو سال سے بڑے بچے کو دودھ پلاتے ہوئے دیکھ کر منع فرمایا۔ پھر فرمایا گیا ہے اگر یہ رضامندی اور مشورہ سے دو سال کے اندر اندر جب کبھی دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر کوئی حرج نہیں ہاں ایک کی چاہت دوسرے کی رضامندی کے بغیر ناکافی ہوگی اور یہ بچے کے بچاؤ کی اور اس کی نگرانی کی ترکیب ہے۔ خیال فرمائیے کہ اللہ تعالٰی اپنے بندوں پر کس قدر رحیم و کریم ہے کہ چھوٹے بچوں کے والدین کو ان کاموں سے روک دیا جس میں بچے کی بربادی کا خوف تھا، اور وہ حکم دیا جس سے ایک طرف بچے کا بچاؤ ہے دوسری جانب ماں باپ کی اصلاح ہے۔ سورۃ طلاق میں فرمایا آیت (فان ارضعن لکم فاتوھن اجورھن) الخ، اگر عورتیں بچے کو دودھ پلایا کریں تو تم ان کی اجرت بھی دیا کرو اور آپس میں عمدگی کے ساتھ معاملہ رکھو۔ یہ اور بات ہے کہ تنگی کے وقت کسی اور سے دودھ پلوا دو، چنانچہ یہاں بھی فرمایا اگر والدہ اور والد متفق ہو کر کسی عذر کی بنا پر کسی اور سے دودھ شروع کرائیں اور پہلے کی اجازت کامل طور پر والد والدہ کو دے دے تو بھی دونوں پر کوئی گناہ نہیں، اب دوسری کسی دایہ سے اُجرت چکا کر دودھ پلوا دیں۔ لوگو اللہ تعالٰی سے ہر امر میں ڈرتے رہا کرو اور یاد رکھو کہ تمہارے اقوال و افعال کو وہ بخوبی جانتا ہے۔

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS