find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Maatam ki Ibtda aur iska Sharai Hukm Kya Hai?

📚📖🇵🇰✒   ؟؟؟
*ماتم کی ابتداء اور اس کا شرعی حکم*

ماتم کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟
مصیبت پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔اپنی مصیبت یا مصائب اہل بیت کو یاد کرکے ماتم کرنا یعنی ہائے ہائے، واویلا کرنا، چہرے یا سینے پر طمانچے مارنا، کپڑے پھاڑنا، بدن کو زخمی کرنا، نوحہ و جزع فزع کرنا، یہ باتیں خلاف صبر اور ناجائز و حرام ہیں۔ جب خود بخود دل پر رقت طاری ہوکر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلیں اور گریہ آجائے تو یہ رونا نہ صرف جائز بلکہ موجب رحمت و ثواب ہوگا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات بل احیاء ولٰکن لاتشعرون
اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں (سورۃ البقرہ آیت 154)
ماتم تو ہے ہی حرام، تین دن سے زیادہ
سوگ کی بھی اجازت نہیں ہے
حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اﷲﷺ کو فرماتے ہوئے سنا۔ جو عورت اﷲ اور آخرت پر ایمان لائی ہو، اس کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ سوگ کرے۔ البتہ اپنے خاوند کی (موت پر) چار ماہ دس دن سوگ کرے (بخاری حدیث 299، الکتاب الجنائز، مسلم، حدیث 935، مشکوٰۃ حدیث 3471 کتاب الجنائز)
امام حضرت امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
لیس لاحد ان یعداً اکثر من ثلاثۃ ایام الا المراۃ علی زوجہا حتی تنقضی عدتہا
کسی مسلمان کو کسی کی موت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنا سوائے عورت کے کہ وہ عدت کے ختم ہونے تک اپنے خاوند کی موت پر سوگ کرسکتی ہے
(من لایحضرہ الفقیہ ج 1)
اس حدیث سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہئے جو ہر سال حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کا سوگ مناتے ہیں اور دس دن سینہ کوبی کرتی ہیں۔ چارپائی پر نہیں سوتے، اچھا لباس نہیں پہنتے اور کالے کپڑے پہنتے ہیں۔ ہاں ایصال ثواب کرنا ان کی یاد منانا اور ذکر اذکار جائز ہے، یہ سوگ نہیں ہے۔
مسلمانوں کا شرف یہ ہے کہ صابر اور شاکر ہو
خیال و فعل میں حق ہی کا شاغل اور ذاکر ہو
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ زینب بنت رسول  اﷲﷺ فوت ہوئیں تو عورتیں رونے لگیں تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے انہیں کوڑے سے مارنے کا ارادہ کیا تو انہیں حضورﷺ نے اپنے ہاتھ سے ہٹایا اور فرمایا: اے عمر چھوڑو بھی پھر فرمایا: اے عورتوں شیطانی آواز سے پرہیز کرنا پھر فرمایا:
مہما یکن من القلب والعین فمن اﷲ عزوجل ومن الرحمۃ ومہما کان من الید واللسان فمن الشیطان
جس غم کا اظہار آنکھ اور دل سے ہو، وہ اﷲ کی طرف سے ہے اور رحمت ہے اور جو ہاتھ اور زبان سے ہو، وہ شیطان کی طرف سے ہے (مشکوٰۃ کتاب الجنائز باب البکاء علی المیت 1748) احمد حدیث 3093
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
لیس منا من ضرب الخد وشق الحیوب ودعا بدعوی الجاہلیۃ
وہ ہم میں سے نہیں جو منہ پیٹے، گریبان پھاڑے اور ایام جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرے (بخاری حدیث 1297، مسلم حدیث 103، مشکوٰۃ حدیث 1725، کتاب الجنائز باب البکائ)
یعنی میت وغیرہ پر منہ پیٹنے، کپڑے پھاڑنے، رب تعالیٰ کی شکایت، بے صبر کی بکواس کرنے والی ہماری جماعت یا ہمارے طریقہ والوں سے نہیں ہے۔ یہ کام حرام ہیں۔ ان کاکرنے والا سخت مجرم۔ یہ عام میت کا حکم ہے لیکن  شہید تو بحکم قرآن زندہ ہیں، انہیں پیٹنا تو اور زیادہ جہالت ہے۔
حضرت ابو مالک اشعری رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
میری امت میں زمانہ جاہلیت کی چار چیزیں ہیں جن کولوگ نہیں چھوڑیں گے، حسب و نسب پر فخر کرنا، دوسرے شخص کو نسب کا طعنہ دینا، ستاروں کو بارش کا سبب جاننا اور نوحہ کرنا اور نوحہ کرنے والی اگر مرنے سے پہلے توبہ نہ کرے تو اسے قیامت کے دن گندھک اور جرب کی قمیص پہنائی جائے گی (مسلم حدیث 934، مشکوٰۃ حدیث 1727، کتاب الجنائز باب البکائ) (شیعوں کی معتبر کتاب، حیات القلوب، ملا باقر مجلسی جلد 2، ص 677)
میت کے سچے اوصاف بیان کرنا ندبہ ہے اور اس کے جھوٹے بیان کرنا نوحہ ہے۔ ندبہ جائز ہے نوحہ حرام ہے۔ گندھک میں آگ بہت جلد لگتی ہے اور سخت گرم بھی ہوتی ہے اور جرب وہ کپڑا ہے جو سخت خارش میں پہنایا جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے نائحہ پر اس دن خارش کا عذاب مسلط ہوگا کیونکہ وہ نوحہ کرکے لوگوں کے دل مجروح کرتی تھی تو قیامت کے دن اسے خارش سے زخمی کیا جائے گا (مراۃ جلد 2، ص 503)
دو کفریہ کام
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
اثنتان فی الناس ہما بہم کفر: الطعن فی النسب والنیاحۃ علی المیت
لوگوں میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ کفر میں مبتلا ہیں، کسی کے نسب میں طعن کرنا اور میت پر نوحہ کرنا (مسلم حدیث 67، کتاب الایمان)
اس حدیث میں میت پر نوحہ کرنے کو کفر قرار دیا گیا ہے اور اس کی توجیہ یہ ہے کہ حلال سمجھ کر میت پر نوحہ کرنا کفر ہے اور اگر اس کام کو برا سمجھ کر کیا جائے تو یہ حرام ہے۔
دو ملعون آوازیں
حضرت انس رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا:
صوتان ملعونان فی الدنیا والاخرۃ مزمار عند نعمۃ ورنۃ عند مصیبۃ
دو آوازوں پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی ہے۔ نعمت کے وقت گانا بجانا اور مصیبت کیوقت چلا کر آواز بلند کرنا یعنی نوحہ اور ماتم وغیرہ (بزار حدیث 795، ترغیب امام منذری کتاب الجنائز حدیث 5179)
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: نوحہ کرنے والی عورتوں کی جہنم میں دو صفیں بنائی جائیں گی۔ ایک صف ان کے دائیں طرف اور ایک صف ان کے بائیں طرف تو وہ عورتیں دوزخیوں پر کتوں کی طرح بھونکیں گی (طبرانی فی الاوسط ترغیب امام منذری کتاب الجنائز حدیث 5182)
ماتم کی ابتداء کس نے کی تھی؟
سب سے پہلے ابلیس نے ماتم کیا تھا: علامہ شفیع بن صالح شیعی عالم لکھتے ہیں کہ شیطان کو بہشت سے نکالا گیا تو اس نے نوحہ (ماتم) کیا۔ حدیث پاک میں ہے کہ غناء ابلیس کا نوحہ ہے۔ یہ ماتم اس نے بہشت کی جدائی میں کیا۔ اور رسول اﷲﷺ نے فرمایا: ماتم کرنے والا کل قیامت کے دن کتے کی طرح آئے گا اور آپ نے یہ بھی فرمایا: کہ ماتم اور مرثیہ خوانی زنا کا منتر ہے۔ (شیعہ کی معتبر کتاب مجمع المعارف حاشیہ حلیۃ المتقین، ص 142، ص 162، اور حرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید)
امام حسین رضی اﷲ عنہ کا پہلا باقاعدہ ماتم کوفہ میں آپ کے قاتلوں نے کیا (جلاء الیون ص 424-426 مطبوعہ ایران)
پھر دمشق میں یزید نے اپنے گھر کی عورتوں سے تین روزہ ماتم کرایا (جلاء العیون ص 445 مطبوعہ ایران)
ابن زیاد نے آپ کے سر مبارک کو کوفہ کے بازاروں میں پھرایا۔ کوفہ کے شیعوں نے رو رو کر کہرام برپا کردیا۔ شیعوں کی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ کوفہ والوں کو روتا دیکھ کر سیدنا امام زین العابدین نے فرمایا:
ان ہولاء یبکون علینا فمن قتلنا غیرہم
یہ سب خود ہی ہمارے قاتل ہیں اور خود ہی ہم پر رو رہے ہیں ۔
(احتجاج طبرسی، جلد 2، ص 29)
حضرت سیدہ طاہرہ زینب نے فرمایا: کہ تم لوگ میرے بھائی کو روتے ہو؟ ایسا ہی سہی۔ روتے رہو، تمہیں روتے رہنے کی کھلی چھٹی ہے۔ کثرت سے رونا اور کم ہنسنا۔ یقینا تم رو کر اپنا کانا پن چھپا رہے ہو۔ جبکہ یہ بے عزتی تمہارا مقدر بن چکی ہے۔ تم آخری نبی کے لخت جگر کے قتل کا داغ آنسوئوں سے کیسے دھو سکتے ہو جو رسالت کا خزانہ ہے اور جنتی نوجوانوں کا سردار ہے (احتجاج طبرسی ج 2، ص 30)
اسی طرح شیعہ کی کتاب مجالس المومنین میں لکھا ہے کہ کوفہ کے لوگ شیعہ تھے (مجالس المومنین ج 1، ص 56)
کیا شیعوں نے امام حسین کو چھوڑ دیا تھا؟
امام حسین رضی ﷲ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو جمع کرکے فرمایا: کہ مجھے خبر ملی ہے کہ مسلم بن عقیل کو شہید کردیا گیا ہے اور شیعوں نے ہماری مدد سے ہاتھ اٹھالیا ہے جو چاہتا ہے ہم سے الگ ہوجائے، اس پر کوئی اعتراض نہیں (جلاء العیون ص 421، مصنفہ ملا باقر مجلسی، منتہی الاعمال مصنفہ شیخ عباس قمی ص 238)
مذکورہ بالا خطبہ سے معلوم ہوگیا کہ قاتلان حسین شیعہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ علمائے شیعہ نے خود اس بات کو تسلیم کیا ہے۔ ملا خلیل قدوینی لکھتا ہے: ان کے (یعنی شہدائے کربلا کے) قتل ہونے کا باعث شیعہ امامیہ کا قصور ہے تقیہ سے (صافی شرح اصول کافی)
کیا امام حسین رضی اﷲ عنہ کے قاتل شیعہ تھے؟
ملا باقر مجلسی 150 خطوط کا مضمون بایں الفاظ تحریر کرتا ہے۔ ایں عریضہ ایست بخدمت جناب حسین بن علی از شیعان وفدویان و مخلصان آنحضرت)
ترجمہ: یہ عریضہ شیعوں فدیوں اور مخلصوں کی طرف سے بخدمت امام حسین بن علی رضی اﷲ عنہا (جلاء العیون ص 358)
ان تمام بیانات سے معلوم ہوا کہ امام حسین کے قاتل بھی شیعہ تھے اور ماتم کی ابتداء کرنے والے بھی شیعہ تھے اور ان ماتم کرنے والوں میں یزید بھی شامل تھا۔ اب اگر امام حسین کے غم میں رونے یا ماتم کرنے سے بخشش ہوجاتی ہے تو بخشش کا سرٹیفکیٹ کوفیوں کو بھی مل جائے گا اور یزیدیوں کو بھی مل جائے گا۔
بارہ اماموں کے عہد تک موجودہ طرز ماتم کا یہ انداز روئے زمین پر کہیں موجود نہ تھا۔ چوتھی صدی ہجری 352ھ میں المطیع اﷲ عباسی حکمران کے ایک مشہور امیر معزالدولہ نے یہ طریق ماتم و بدعات عاشورہ ایجاد کیں۔ اور دس محرم کو بازار بند کرکے ماتم کرنے اور منہ پر طمانچے مارنے کا حکم دیا اور شیعہ کی خواتین کو چہرہ پر کالک ملنے، سینہ کوبی اور نوحہ کرنے کا حکم دیا۔ اہل سنت ان کو منع کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے، اس لئے کہ حکمران شیعہ تھا۔ (شیعوں کی کتاب منتہی الاعمال، ج 1، ص 452، اور اہلسنت کی کتاب، البدایہ والنہایہ، ج 11، ص 243، تاریخ الخلفاء ص 378)
بے صبری کا انجام کیا ہوتا ہے؟
کتب شیعہ کی روشنی میں بیان کریں
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا:
ینزل الصبر علی قدر المصیبۃ ومن ضرب یدہ علی فخذیہ عند مصیبۃ حبط عملہ
صبر کا نزول مصیبت کی مقدار پر ہوتا ہے (یعنی جتنی بڑی مصیبت اتنا بڑا صبر درکار ہوتا ہے) جس نے بوقت مصیبت اپنے رانوں پر ہاتھ مارے تو اس کے تمام اچھے اعمال ضائع ہوگئے (شیعوں کی معتبر کتاب، نہج البلاغہ، ص 495، باب المختار من حکم امیر المومنین حکم 144) (شرح نہج البلاغہ لابن میثم ج 5، ص 588)
بے صبر کے پاس ایمان نہیں
امام زین العابدین رضی اﷲ عنہ نے فرمایا
الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد ولاایمان لمن لا صبر لہ
صبر کا مقام ایمان میں ایساہے جیسا کہ سر کاآدمی کے جسم میں، اس کے پاس ایمان نہیں جس کے ہاں صبر نہیں ۔
(جامع الاخبار مصنفہ شیخ صدوق، ص 132 الفصل 71، فی الصبر)
فرمان امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ
الصبر من الایمان بمنزلۃ الراس من الحسد فاذا ذہب الراس ذہب الجسد کذالک اذا ذہب الصبر ذہب الایمان
صبر کا ایمان سے ایسا تعلق ہے جیسا کہ جسم انسانی کے ساتھ سر کا، جب سر نہ رہے، جسم نہیں رہتا، اسی طرح جب صبر نہ رہے، ایمان نہیں رہتا (اصول کافی جلد 2، ص 87، کتاب الایمان والکفر باب الصبر)
عن ابی عبداﷲ علیہ السلام قال قال رسول اﷲﷺ ضرب المسلم یدہ علی فخذہ عند المصیبۃ احباط لاجرہ
امام جعفر صادق رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: مصیبت کے وقت مسلمان کا اپنے ہاتھ رانوں پر مارنا اس کے اجر وثواب کو ضائع کردیتا ہے۔ یعنی ماتم سے نیکیاں برباد ہوتی ہیں (فروع کافی جلد سوم، کتاب الجنائز باب الصبر والجزع)
کیا پیغمبر، امام یا شہید کا ماتم کرنا جائز ہے؟
جواب: کسی کا بھی ماتم جائز نہیں۔
نبی کریمﷺ نے اپنی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کو فرمایا۔
اذا انامت فلا تخمشی علی وجہا ولاتنشری علی شعراً ولا تنادی بالویل والعویل ولاتقیمی علی نائحۃ
بیٹی جب میں انتقال کرجائوں تو میری وفات پر اپنا منہ نہ پیٹنا، اپنے بال نہ کھولنا اور ویل عویل نہ کرنا اور نہ ہی مجھ پر نوحہ کرنا (فروع کافی، جلد 5، ص 527، کتاب النکاح باب صفۃ مبایعۃ النبیﷺ، حیات القلوب، ج 2،ص 687، جلاء العیون ص 65)
نبی کریمﷺ کی وفات پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا
لولا انک امرت بالصبر ونہیت عن الجزع لانفدنا علیک ماء الشئون
یارسول اﷲ! اگر آپ نے ہمیں صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور ماتم کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو ہم آپ کا ماتم کرکے آنکھوں اور دماغ کا پانی خشک کردیتے۔ (شرح نہج البلاغہ لابن میثم شیعہ، ج 4، ص 409، مطبوعہ قدیم ایران)
کربلا میں امام حسین رضی اﷲ عنہ کی اپنی بہن کو وصیت
یااختاہ اتقی اﷲ وتعزی بعزاء اﷲ واعلمی ان اہل الارض یموتون واہل السماء لایبقون جدی خیر منی وابی خیر منی وامی خیر منی واخی خیر منی ولی ولکل مسلم برسول اﷲﷺ اسوۃ فعزاً مابہذا ونحوہ وقال لہا یا اخیۃ انی اقسمت علیک فابری قسمی لاتشقی علی جیباً ولا تخمشی علی وجہا ولاتدعی علی بالویل والثبور اذا اناہلکت
حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ نے کربلا میں اپنی بہن سیدہ زینب کو وصیت کی فرمایا۔ اے پیاری بہن! اﷲ سے ڈرنا اور اﷲ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق تعزیت کرنا، خوب سمجھ لو۔ تمام اہل زمین مرجائیں گے اہل آسمان باقی نہ رہیں گے، میرے نانا، میرے بابا، میری والدہ اور میرے بھائی سب مجھ سے بہتر تھے۔ میرے اور ہر مسلمان کے لئے رسول اﷲﷺ کی زندگی اورآپ کی ہدایات بہترین نمونہ ہیں۔ تو انہی کے طریقہ کے مطابق تعزیت کرنا اور فرمایا: اے ماں جائی میں تجھے قسم دلاتا ہوں۔ میری قسم کی لاج رکھتے ہوئے اسے پورا کر دکھانا۔ میرے مرنے پر اپنا گریبان نہ پھاڑنا اور میری موت پر اپنے چہرہ کو نہ خراشنا اور نہ ہی ہلاکت اور بربادی کے الفاظ بولنا۔ (الارشاد للشیخ مفید ص 232، فی مکالمۃ الحسین مع اختہ زینب، اعلام الوریٰ ص 236 امرالامام اختہ زینب بالصبر، جلاء العیون جلد 2، ص 553 فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران، اخبار ماتم ص 399)
ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں: کہ امام حسین نے میدان کربلا میں جانے سے پہلے اپنی بہن زینب کو وصیت فرمائی، اے میری معزز! بہن میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ جب میں اہل جفا کی تلوار سے عالم بقاء میں رحلت کرجائوں تو گریبان چاک نہ کرنا، چہرے پر خراشیں نہ ڈالنا اور واویلا نہ کرنا (جلاء العیون جلد 2، ص 553، فارسی مطبوعہ کتاب فروشے اسلامیہ ایران)
شاعر نے حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی وصیت کو اپنے انداز میں پیش کیا
اﷲ کو سونپا تمہیں اے زینب و کلثوم
لگ جائو گلے تم سے بچھڑتا ہے یہ مظلوم
اب جاتے ہی خنجر سے کٹے گا میرا یہ حلقوم
ہے صبر کا اماں کے طریقہ تمہیں معلوم
مجبور ہیں ناچار ہیں مرضی خدا سے
بھائی تو نہیں جی اٹھنے کا فریاد وبکاء سے
جس وقت مجھے ذبح کرے فرقہ ناری
رونا نہ آئے نہ آواز تمہاری
بے صبروں کا شیوہ ہے بہت گریہ و زاری
جو کرتے ہیں صبر ان کی خدا کرتا ہے یاری
ہو لاکھ ستم رکھیو نظر اپنے خدا پر
اس ظلم کا انصاف ہے اب روز جزاء پر
قبر میں ماتمی کا انجام کیا ہوگا؟
قبر میں ماتمی کا منہ قبلہ کی سمت سے پھیر دیا جائے گا:
ایک روایت میں ہے رسول اﷲﷺ نے فرمایا: کہ سات آدمیوں کا قبر میں منہ قبلہ کی طرف سے پھیر دیا جاتا ہے۔
(۱) شراب بیچنے والا
(۲) شراب لگاتار پینے والا
(۳) ناحق گواہی دینے والا
(۴) جوا باز
(۵) سود خور
(۶) والدین کا نافرمان
(۷) ماتم کرنے والا (شیعہ کی معتبر کتاب، مجمع المعارف حاشیہ برحلیۃ المتقین ص 168، درحرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید)
گانا گانے والے اور مرثیہ خواں کو قبر سے
اندھا اور گونگا کرکے اٹھایا جائے گا
رسول اﷲﷺ سے منقول ہے کہ غنا کرنے والا اور مرثیہ خواں کو قبر سے زانی کی طرح اندھا اور گونگا کرکے اٹھایا جائے گا۔ اور کوئی گانے والا جب مرثیہ خوانی کے لئے آواز بلند کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ دو شیطان اس کی طرف بھیج دیتا ہے جو اس کے کندھے پر سوار ہوجاتے ہیں۔ وہ دونوں اپنے پائوں کی ایڑھیاں اس کی چھاتی اور پشت پر اس وقت تک مارتے رہتے ہیں۔ جب تک وہ نوحہ خوانی ترک نہ کرے (شیعہ کی معتبر کتاب: مجمع المعارف حاشیہ برحلیۃ المتقین ص 163، درحرمت غنا مطبوعہ تہران طبع جدید)
حضورﷺ نے فرمایا: میں نے ایک عورت کتے کی شکل میں دیکھی۔ کہ فرشتے اس کی دبر (پاخانے کی جگہ) سے آگ داخل کرتے ہیں اور منہ سے آگ باہر آجاتی ہے۔ اور فرشتے گرزوں کے ساتھ اس کے سر اور بدن کو مارتے ہیں۔ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا نے پوچھا۔ میرے بزرگوار ابا جان مجھے بتلایئے کہ ان عورتوں کا دنیا میں کیا عمل اور عادت تھی کہ اﷲ تعالیٰ نے ان پر اس قسم کا عذاب مسلط کردیا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: کہ وہ عورت جو کتے کی شکل میں تھی اور فرشتے اس کی دبر میں آگ جھونک رہے تھے۔ وہ مرثیہ خواں، نوحہ کرنے والی اور حسد کرنے والی تھی (شیعہ کی معتبر کتاب، حیات القلوب جلد 2، ص 543، باب بست و چہارم در معراج آنحضرت، عیون اخبار الرضا جلد 2، ص 11، انوار نعمانیہ جلد 1، ص 216)
کیا ماتم سننے کی بھی ممانعت ہے؟
نہ صرف ماتم کرنے بلکہ سننے کی بھی ممانعت ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ
لعن رسول اﷲﷺ النائحۃ والمستمعۃ
رسول اﷲﷺ نے نوحہ کرنے والی اور سننے والی پر لعنت فرمائی (ابو دائود حدیث 3128، مشکوٰۃ حدیث 732، کتاب الجنائز باب البکائ)
کیونکہ اکثر عورتیں ہی نوحہ کرتی ہیں اس لئے مونث کا صیغہ استعمال فرمایا تو جو مرد ہوکر نوحہ کرے تو وہ مرد نہیں زنانہ ہے۔
شیعہ حضرات کے شیخ صدوق نقل کرتے ہیں۔
نہی رسول اﷲ عن الرنۃ عند المصیبۃ ونہی عن النیاحۃ والاستماع الیہا
رسول اﷲﷺ نے بوقت مصیبت بلند آواز سے چلانے، نوحہ و ماتم کرنے اور سننے سے منع فرمایا (من لایحضرہ الفقیہ ج 4، ص 3)
ایک شبہ: فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی بشارت دی۔
فاقبلت امراتہ فی صرۃ فصکت وجہہا
آپ کی بیوی چلانے لگیں، پس اپنا منہ پیٹ لیا (شیعہ ترجمہ) معلوم ہوا کہ ماتم کرنا حضرت سارہ کی سنت ہے۔
جواب: کوئی شیعہ اس آیت سے حضرت سارہ کا ماتم کے لئے پیٹنا ہرگز ثابت نہیں کرسکتا کیونکہ قدیم ترین شیعہ مفسر علامہ قمی کے مطابق مصکت پیٹنے کے معنی میں نہیں ہے۔ غطت ڈھانپنے کے معنی میں ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ حضرت سارہ عورتوں کی جماعت میں آئیں اور حیا سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا کیونکہ جبریل علیہ السلام نے انہیں اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری سنائی تھی (تفسیر قمی ج 2، ص 330)
اگر اب بھی تسلی نہ ہوئی تو شیعہ صاحبان کو چاہئے کہ ماتم شہداء کی بجائے بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری سن کر کرنا چاہئے تاکہ اپنے خیال کے مطابق سنت سارہ پر عمل پیرا ہوسکیں۔ اہل بیت کرام نے رسول اﷲﷺ کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے صبر کا مظاہرہ فرمایا۔ نہ خود ماتم کیا اور نہ کرنے کا حکم دیا اور ہم محب اہل بیت ہیں اور ان کے قول و فعل کو اپناتے ہوئے صبر کا اظہار کرتے ہیں اور جو رسول اﷲﷺ اور ائمہ کرام کے فرمان کو نہ مانے اور بے صبری کا مظاہرہ کرے وہ محب اہل بیت نہیں ہوسکتا۔
عشرہ محرم میں سیاہ لباس پہننا اور مہندی، پنجہ، گھوڑا
اور تعزیہ نکالنے کا کیا حکم ہے
مہندی، پنجہ، گھوڑا ار تعزیہ نکالنا یزیدیوں کے کرتوتوں کی نقل ہے
کہا جاتا ہے کہ کربلا میں قاسم بن حسن رضی اﷲ عنہ کی شادی ہوئی تو حضرت قاسم نے مہندی لگائی مروجہ رسم مہندی نکالنے کی اسی کی نقل ہے۔ حالانکہ یہ حقیقت مخفی نہیں کہ کربلا کا معرکہ خونی شادی کا موقع ہرگز نہ ہوسکتا تھا۔ نیز مہندی پانی میں ملا کر لگائی جاتی ہے اور اہل بیت کے لئے تو پانی بند تھا۔ یونہی پنجہ و گھوڑا نکالنا اور مروجہ تعزیہ بنانا یہ سب بدعت باطلہ اور انصاب میں داخل ہیں۔ ائمہ اہل بیت سے ان چیزوں کی قطعا کوئی سند نہیں ملتی۔ فی الحقیقت یزیدیوں نے صرف ایک دفعہ اہل بیت پر مظالم ڈھا کر کوفہ و دمشق کے بازاروں میں گھمایا تھا لیکن یہ لوگ ہر سال یزیدیوں کے کرتوتوں کی نقل بناکے گلی کوچوں میں گھماتے پھرتے ہیں۔ پھر اس پر دعوت محبت بھی۔ اﷲ ہدایت دے۔
عشرہ محرم میں سیاہ لباس پہننا ممنوع ہے
مذہب مہذب اہل سنت و جماعت میں علی العموم سیاہ لباس پہننا محض مباح ہے۔ نہ تو اس پر کسی قسم کا ثواب مرتب ہوتا ہے، نہ گناہ۔ البتہ ماتم کی غرض سے سیاہ کپڑے پہننا شرعا ضرور ممنوع ہے۔ شیعہ اثناء عشریہ کے مذہب میں ماتم کا موقع ہو یا نہ، ہر حال میں سیاہ لباس سخت گناہ و ممنوع و حرام ہے۔ پھر اسے ثواب جاننا بالکل الٹی گنگا بہانا اور شیعہ مذہب کے مطابق ڈبل گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ چنانچہ شیعہ لٹریچر کی انتہائی مستند کتب سے دلائل ملاحظہ ہوں۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا
لا تلبسوا لباس اعدائی
میرے دشمنوں کا لباس مت پہنو اور میرے دشمنوں کے کھانے مت کھائو اور میرے دشمنوں کی راہوں پر مت چلو، کیونکہ پھر تم بھی میرے دشمن بن جائو گے جیسا کہ وہ میرے دشمن ہیں۔ اس کتاب کا مصنف (شیخ صدوق شیعی) کہتا ہے کہ رسول اﷲﷺ کے دشمنوں کا لباس، سیاہ لباس ہے۔
(عیون اخبار الرضا، شیخ صدوق باب 30، الاخبار المنشور حدیث 51)
شیعہ حضرات کے یہی صدوق رقم طراز ہیں:
حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
لا تلبسوا السواد فانہ لباس فرعون
سیاہ لباس نہ پہنا کرو کیونکہ سیاہ لباس فرعون کا لباس ہے۔ (من لایحضرہ الفقیہ، شیخ صدوق باب یصلی فیہ من الثیلب حدیث 17)
مشہور شیعہ محدث جعفر محمد بن یعقوب کلینی اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق نے فرمایا۔
انہ لباس اہل النار
بے شک وہ (سیاہ لباس) جہنمیوں کا لباس ہے (الکافی کلینی کتاب الزی والتجمیل باب لباس السواد)
شیعوں کے مشہور محدث شیخ صدوق لکھتے ہیں کہ امام جعفر صادق سے سیاہ ٹوپی پہن کر نماز پڑھنے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے جواب میں فرمایا:
لاتصل فیہا فانہا لباس اہل النار
سیاہ ٹوپی میں نماز مت پڑھو بے شک وہ (سیاہ لباس) جہنمیوں کا لباس ہے۔ (من لایحضرہ الفقیہ باب ما یصلی فیہ حدیث 19765، حلیۃ المتقین ملا باقر مجلسی باب اول در لباس پوشیدن فصل چہارم در بیان رنگہائے)
کربلا جانے والے اہل بیت کی تعداد کیا تھی؟
حضرت امام حسین کے تین صاحبزادے (۱) علی اوسط امام زین العابدین (۲) علی اکبر (۳) علی اصغر رضی اﷲ عنہم اور ایک بیٹی حصرت سکینہ جن کی عمر سات سال تھی۔ دو بیویاں بھی ہمراہ تھیں حضرت شہربانو اور علی اصغر کی والدہ
حضرت امام حسن کے چار صاحبزادے (۱) حضرت قاسم (۲) حضرت عبداﷲ (۳) حضرت ابوبکر (۴) حضرت عمر رضی اﷲ عنہم کربلا میں شہید ہوئے۔
حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے پانچ (۱) حضرت عباس (۲) حضرت عثمان (۳) حضرت عبداﷲ (۴) حضرت جعفر (۵) حضرت محمد اصغر (ابوبکر) رضی اﷲ عنہم
حضرت علی کی کل اولاد (۲۷) ہیں، ان میں سے پانچ کربلا میں شہید ہوئے ۔
(کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ 440/1)
حضرت عقیل کے (۴) فرزندوں سے حضرت امام مسلم پہلے ہی شہید ہوچکے تھے اور تین کربلا میں شہید ہوئے (۲) حضرت عبداﷲ (۳) حضرت عبدالرحمن (۴) حضرت جعفر رضی اﷲ عنہم
حضرت زینب امام حسین کی بہن کے دو بیٹے عون اور محمد رضی اﷲ عنہم
ان کے والد کا نام حضرت عبداﷲ بن جعفر رضی اﷲ عنہ کربلا میں شہید ہوئے۔ اہل بیت کرام میں سے کل سترہ افراد آپ کی ساتھ کربلا میں شہید ہوئے (سوانح کربلا، طبری خطبات محرم جلال الدین امجدی، ص 378)
شیعہ نہ اہل بیت کو مانتے ہیں اور نہ شہداء کربلا کو، حضرت امام حسن کے صرف ایک بیٹے حضرت قاسم کا نام لیتے ہیں۔ حضرت عبداﷲ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہم تین کا نام نہیں لیتے۔ اگر وہ شہداء کربلا کا نام لے لیں تو ان کا عقیدہ ختم ہوجاتا ہے کہ اہل بیت کا صحابہ کرام سے پیار تھا۔ اس لئے انہوں نے اپنی اولاد کے نام خلفائے راشدین کے نام پر رکھے۔ اہل سنت چاروں کا نام لیتے تو حقیقت میں شہداء کربلا کو ماننے والے سنی ہیں، شیعہ ان کے منکر ہیں۔
شیعہ حضرت علی کی اولاد کے بھی منکر ہیں۔ پانچ شہداء کربلا میں صرف ایک کا نام لیتے ہیں۔ حضرت عباس کا، ان کا علم بھی لگاتے ہیں، باقی چار کا نام تک نہیں لیتے حالانکہ حضرت عباس کے حضرت عثمان، حضرت عبداﷲ اور حضرت جعفر کے سگے بھائی ہیں۔ ان کی والدہ کا نام ام البنین بنت حرام ہے اور حضرت محمد اصغر (ابوبکر) بن علی کا نام بھی نہیں لیتے ان کی والدہ کا نام لیلی بنت مسعود تھا تو شہداء کربلا اور اہل بیت کا منکر کون اور محب کون؟
شیعہ حضرت امام حسین کی اولاد کو امام مانتے ہیں جو کربلا میں شہید بھی نہیں ہوئے اور آپ کے سگے بھائی حضرت امام حسن کی اولاد کو امام نہیں مانتے جو کربلا میں شہید ہوئے ہیں۔ کتنی ناانصافی ہے اور حضرت علی کی اولاد کو بھی امام نہیں مانتے جو کربلا میں شہید ہوئے ہیں۔
اہل بیت کی تین قسمیں ہیں (۱) اہل بیت سکونت یعنی ازواج (۲) اہل بیت ولادت (۳) اہل بیت نسب پہلی قسم اہل بیت سکونت یعنی (۱۱) ازواج میں سے صرف ایک زوجہ حضرت خدیجہ کو مانتے ہیں۔ باقی سب کا انکار کرتے ہیں بلکہ ان کو گالیاں دیتے ہیں حالانکہ قرآن نے ان کو اہل بیت اور مومنوں کی ماں فرمایا ہے۔ اہل سنت سب کو مانتے ہیں۔
دوسری قسم اہل بیت ولادت چار بیٹیوں میں سے صرف ایک بیٹی کو مانتے ہیں لہذا اہل بیت کے منکر ہوئے بلکہ یہ حضرت علی کی بیویوں کے بھی منکر ہیں۔ حضرت علی کی ایک بیوی کا نام امامہ تھا۔ یہ نبی کریمﷺ کی نواسی تھیں۔ حضرت زینب کی بیٹی اگر نبی کریمﷺ کی صرف ایک ہی بیٹی تھی۔ حضرت فاطمہ تو پھر حضرت علی کی بیوی حضرت امامہ بنت زینب بنت رسول اﷲ کہاں سے آگئیں۔ معلوم ہوا کہ اہل سنت ہی اہل بیت اور شہداء کربلا کے محب ہیں ۔
اہل بیت کے سچے محب کون ہیں؟
اہل بیت کے سچے محب سنی ہیں، شیعہ منکر اہل بیت ہیں کیونکہ یہ نبی کریمﷺ کی چاربیٹیوں میں سے ایک کو اور تمام زواج میں سے صرف ایک زوجہ کو مانتے ہیں۔ اس لئے یہ منکر اہل بیت ہیں نیزاس واقعہ سے بھی اہل سنت کی حقانیت واضح ہے۔
ضلع شیخوپورہ میں موٹر وے پر خانقاہ ڈوگراں انٹرچینج کے قریب ڈیرہ سروٹھ میں صحیح العقیدہ سنی بریلوی نوجوان محمد سرفرازپر آگ گلزار ہوگئی جبکہ منکر صحابہ شاہد نامی آگ میں جل گیا۔ تفصیلات کے مطابق ۱۰ محرم الحرام ۱۴۳۱ھ بمطابق ۲۸ دسمبر ۲۰۰۹ بروز پیر ڈیرہ سروٹھ میں شاہد نامی نوجوان (جوکہ شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے) اپنے خود ساختہ عقیدہ کے مطابق عمل کرکے بوقت عصر اپنے ڈیرے پر پہنچا تو بعض سنی حضرات نے اسے کہا ’’الحمدﷲ ہم بھی اہل بیت کے غلام ہیں اور ہم بڑے ادب کے ساتھ قرآن خوانی اور فضائل و شہادت کا بیان سن سنا کر امام حسین کی یاد مناتے ہیں۔ تم بھی اسی طریقہ سے امام حسین کی یاد منایا کرو، خود ساختہ نظریات چھوڑ دو، اس پر شاہد ولد اشرف خان نے کہا کہ ’’ہمارا طریقہ ٹھیک ہے اور جنت کی ٹکٹیں ہمارے پاس ہیں، ہمارے علاوہ باقی سب دوزخی ہیں اور میرا چیلنج ہے کہ پورے ملک میں سے کوئی سنی آگ میں چھلانگ لگائے جو سچا ہوگا بچ جائے گا جو جھوٹا ہوگا جل جائے گا۔ یہ بات سن کر محمد سرفراز ولد محمد انور بھٹی نمبردار نے شاہد سے کہا ’’مجھے تیرا چیلنج منظور ہے‘‘ چنانچہ اسی وقت آگ لگائی گئی اور محمد سرفراز شاہدکا بازو پکڑکر آگ میں داخل ہوگیا۔ محمد سرفراز نے آگ میں داخل ہوتے ہی شاہد کا بازو چھوڑ دیا تو شاہد کے کپڑوں کو فوری طور پر آگ لگ گئی اور محمد سرفراز تین منٹ تک آگ کے شعلوں میں کھڑا ہوکر کلمہ طیبہ الصلوۃ والسلام علیک یارسول اﷲ وعلی الک واصحابک یا حبیب اﷲ کا ورد کرتا رہا۔ اس منظر کو موقع پر موجود بیس پچیس افراد نے اپنی آنکھوں سے دیکھا (ماہنامہ رضائے مصطفے گوجرانوالہ ربیع الاول ۱۴۳۱ھ)
دیوبندی مکتبہ فکر کے روزنامہ اسلام کی ۱۵ جنوری ۲۰۱۰ء کی اشاعت میں بھی یہ واقعہ شائع ہوا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ ۱۹۹۸ء میں لاڑکانہ میں بھی ہوا تھا جس میں ایک وہابی اور ایک عاشق رسول محمد پناہ ٹوٹانی کا نبی کریمﷺ کا حاضر و ناظر اور اختیار پر مباہلہ ہوا تھا جس پر دونوں نے آگ میں چھلانگ لگائی تھی وہابی جل گیا اور سنی کا ایک بال بھی نہ جلا، کپڑے بھی محفوظ رہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حق و باطل دنیا میں ہی دکھا دیا۔
ہو اگر آج بھی ابراہیم کا ایمان پیدا
آگ کرسکتی ہے انداز گلستاں پیدا۔۔
📚📖

Share:

Muharram Me Matam karna Islam me Biddat Hai.

اسلام علیکم و رحمتلہ و براکاتہ

ناظرین حضرات  ہمارے ایشیا کے ممالک ہندوستان اور پاکستان بنگلادیش میں جو محرم کے آخر میں ماتم منائے جاتے ہیں وہ طریقہ کار  دین اسلام میں بہت بڑی بدعات ہے اور  یہ  بدعات  ایران کے رافضیوں کی ایجاد کردا  بے بنیادی  عمل ہے  جس کی وجہ سے ہمارے سنجیدہ حضرات بھی اس بدعات کا شکار ہوتے جا رہیں  ہیں
ناظرین  حضرات ہر مسلمان بخوبی اس بات سے واقف ہے کہ  اللہ تعالہ کا فرمان  قران کریم ہے اور  جناب نبی اکرم صلے اللہ علیہ وسلم کا  طریقہ  (سنتیں ) الحدیثات ہیں
لہزا  ہر مسلمان کو قران اور حدیثات  پے ہی عمل کرنا چاہیے اس کے علاوہ کسی بھی  نئی بدعات پے عمل نہ کریں
فقہ رافضی  صحابہ کرام کو گندی گندی گالیاں دیتے ہیں اور  معاذ اللہ  لعنتیں بھی بھجتے  ہیں افسوس کی بات  یہ ہے کہ ہمارے قران و سُنت کا عقیدہ رکھنے والے حضرات بھی شیعہ رافضیوں کے اس بے بنیادی عقیدے پے عمل کرتے ہیں اور صحابہ کرام و  محدثین کو بُرا  بھلہ کہتے ہیں  اور  دعواہ  کرتے ہیں کہ ہم سُنی مسلمان ہیں اللہ تعالہ ہم سب کو دین اسلام کی سمجھ عطا کرے
ناظرین حضرات  تاریخ گواہ ہے جو  صحابہ کرام کے بیچ میں  خانہ جنگیں ہوئی  وہ اُن کا آپس کا مسلہ تھا  وہ کوئی  اسلام اور کافر کی جنگ نہیں تھی اور سبھی صحابہ کرام حق پے تھے  لیکن آج کل کے مفتی مولانا صاحبان  صحابہ کرام کی اولادوں سے بغض رکھتے ہیں اور  دعواہ  کرتے ہیں ہم عاشقانٰ رسول ہیں
فقہ شیعہ  کی ہی کتابوں میں لکھا ہے کہ  واقعیہ کربلہ  میں امام حُسین رضی اللہ عنہ اور اُن کے ساتھی پانچ وقت وضوع کرکے نماز آدا کرتے تھے اور دوسری طرف یہی شیعہ رافضی ڈھونگ  کرتے ہیں کہ کربلہ میں امام حُسین رضی اللہ عنہ  اور اُن کے ساتھیوں کو  کئی دنوں تک پیاسا رکھا گیا اور پانی دیکھا کر گِرایا جاتا تھا  تو اگر  کوئی ان جاہلوں سے پوچھے جب اُن کو پانچ وقت وضوع کے لئے پانی ملتا تھا تو  پینے کے لیے کیوں نہیں ملتا
ناظرین حضرات  تاریخ گواہ ہے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تھا تب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل آپ کی فوج میں  وابستہ  ہیں یا  آپ اُن کو سزا دو  یا ہمارے حوالے کر دو  تو میں آپ کے ہاتھ پے بعیت کر لوں گا لیکن حضرت علی رضی الللہ عنہ نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ یہ خانہ جنگ تھی
اور پھر چوتھے خلیفہ کا بٹوارہ  ہوا  مدینہ منورہ طائف وغیرہ  کے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بن گئے  اور  ملک شام اور  جورڈن  وغیرہ کے  خلیفہ  امیر  معاویہ  رضی اللہ عنہ  بن  گئے   پھر تیسری تنظیم خوارجیوں کی نمودار  ہوئی یہ نہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ سے متفق تھے نہ  امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ  سے  یہی وہ  تنظیم ہے  جو آج بھی شیعہ رافضی کی تنظیم ہے  پھر  اُن خوارجیوں نے  حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی شہید  کر دیا  اور امیر  معاویہ رضی اللہ عنہ   پے  قاتلانہ  حملہ کیا  مگر وہ بچ گے پھر امام حُسین رضی اللہ عنہ کو  حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جگہ خلیفہ بنادیا گیا  اور جب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا انقال ہوگیا تو ان کے بیٹے یزید  کو  وہاں کی خلافت ملی اور پھر  ملک شام کے اُن رافضی خوارجیوں نے امام حُسین  کو  یزید کی طرف سے جھوٹا پیغام بھجا کہ آپ ملک شام  آو  اپنے احباب ساتھوں ہمرہ  یزید آپ کے ہاتھ پے بعیت کرنا چاہتا ہے  اور جب امام حُسین رضی اللہ عنہ نے وہ  پیغام دیکھا تو وہ اپنے ساتھوں کے ہمرہ ملک شام کی طرف روانہ  ہوئے اور  ابھی  یزید  کے پاس پہنچنے  میں  کبہت وقفہ تھا  کہ وہاں کے گورنر  نے  جو خوارج  کی تنظیم کا تھا  اُس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ
کو  کہا کہ آپ میرے ہاتھ پے بعیت کر لیں  اور امام حُسین رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے تو پیغام ملا تھا کہ یزید میرے ہاتھ پے بعیت کرنے والے ہیں اور آپ مجھکو ہی بعیت کے لیے کہتے ہو  پھر جب  کچھ دنوں تک اُس گورنر  نے ان کو اپنی قید میں رکھا اور جب امام حُسین رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ مجھے دھوکہ دیا گیا ہے تب اُنہوں نے اُس گورنر سے کہا کہ اگر مجھے بعیت ہی کرنی ہے تو پھر سیدھا یزید کے ہاتھ پے ہی کرتا ہوں لیکن اُس گورنر نے ان کی ایک بھی بات نہ مانی آخر کر ان کو شہید  کر دیا 
ناظرین حضرات  یہ ایک خانہ جنگ تھی  نہ کہ اسلام  اور کافر کی جنگ تھی  اس لیے ہم کسی بھی صحابہ کرام کو  یا  اُن کی کسی اولاد  کو بُرا بھلہ  نہیں کہے سکتے ہیں  نا  تو  ہم یزید کو رضی اللہ عنہ   کہے سکتے ہیں  نہ  برا بھلہ کہے سکتے ہیں  یہ  کام  اللہ تعالہ کا ہے  وہ ہی روز محشر  حق  اور  باطل کے بیچ انصاف کرے گا
اللہ تعالہ  ہر مسلمان کو دین اسلام کی  سمجھ عطا فرمائے
( الحاج نزیر احمد بٹ )

If I have  any  mistake ,please  forgive  me

Share:

Hm Musalman Hone ke Bawjood Fir Ahlehadees Kyu Hai?

Ahle Hadees Kaun Hai, who is Ahlehadees (Salfi, wahabi, Ashahabul  Hadees)

Hm Ahlehadees kyu Hai?
Kya Koi Sahabi Ahlehadees The?
Ya Unhone Apna Ahlehadees Rakha Ho.
ہم اہلحدیث کیوں ہیں؟
دلائل سے واضح کریں ہم اہلحدیث کیوں ہیں؟
(جزا کم اللہ خیرا)
یہ سوال ’’جماعت المسلمین‘‘ (فرقہ مسعودیہ) کی طرف سے ہے اور بخاری کی حدیث بھی پیش کی ہے کہ جماعت المسلمین اور اس کے امام کو لازم پکڑو۔
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
’’مسلمین‘‘ مسلم کی جمع ہے اور بالاجماع مسلم مسلمان و مطیع و فرمان برادر کو کہتے ہیں۔ مسلمانوں کے بہت سے نام اور القاب ہیں۔ مثلاً مہاجرین، انصار، صحابہ و تابعین وغیرہ، ایک صحیح حدیث میں آیا ہے:
«فادعوا بدعوی الله الذی سما کم المسلمین المؤمنین عباد الله»
پس پکارو، اللہ کی پکار کے ساتھ جس نے تمھارے نام مسلمین، مومنین (اور) عباد اللہ رکھے ہیں۔ (سنن ترمذی (۲۸۶۳) وقال: ’’حسن صحیح غریب‘‘ و صححہ ابن حبان (موارد ۱۵۵۰-۱۲۲۲) و الحاکم (۱۱۷/۱، ۱۱۸، ۲۳۶، ۴۲۱، ۴۲۲) ودافقہ الذہبی)
اس کی سند صحیح ہے۔ یحییٰ بن ابی کثیر نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔
موسیٰ بن خلف ابو خلف عن یحییٰ بن ابی کثیر …… الخ کی روایت میں آیا ہے:
«فادعوا المسلمین باسمائهم بما سما هم الله عزوجل المسلمین المؤمنین عباد الله عزوجل»
مسلمانوں کو ان کے ناموں مسلمین، مومنین (اور) عباد اللہ عزوجل سے پکارو جو کہ اللہ عزوجل نے ان کے نام رکھے ہیں۔ (مسند احمد ۱۳۰/۴ ح۱۷۳۰۲ و اللفظ لہ ۲۰۲/۴ ح۱۷۹۵۳، وسندہ حسن)
اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے۔ اس کے ایک راوی ابو خلف موسیٰ بن خلف ہیں جو جمہور محدثین کے نزدیک موثق ہیں لہٰذا صدوق حسن الحدیث ہیں۔
مسند احمد (۲۴۴/۵ ح۲۳۲۹۸) میں اس کا ایک صحیح شاہد یعنی تائید والی روایت بھی ہے، لہٰذا روایت مذکورہ بالکل صحیح ہے۔ والحمدللہ
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے اور بھی نام ہیں لہٰذا بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ ’’ہمارا نام صرف ایک: مسلم‘‘ ہے، غلط اور باطل ہے۔
صحیح مسلم کے مقدمے میں مشہور تابعی محمد بن سیرین رحمہ اللہ کا قول لکھا ہوا ہے کہ
فینظر الی اهل السنة فیؤخذ حدیثهم‘‘
پس اہل سنت کی طرف دیکھا جاتا تھا اور ان کی حدیث قبول کی جاتی تھی۔ (باب ۵ حدیث نمبر ۲۷ ترقیم دارالسلام)
اس قوت کے راویوں اور امام مسلم کی رضا مندی سے یہ قول موجود ہے۔ صحیح مسلم ہزاروں لاکھوں علماء نے پڑھی ہے مگر کسی نے اس قول پر اعتراض نہیں کیا کہ مسلمانوں کا نام اہل سنت غلط ہے۔ معلوم ہوا کہ اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اہل سنت نام صحیح ہے۔
ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ طائفۂ منصورہ ہمیشہ غالب رہے گا۔ اس کی تشریح میں امام بخاری فرماتے ہیں: ’’یعنی اھل الحدیث‘‘
یعنی اس سے مراد اہل الحدیث ہیں۔ (مسألۃ الاحتجاج بالشافعی للخطیب ص۴۷ و سندہ صحیح)
امام بخاری کے استاد علی بن عبداللہ االمدینی ایسی ردایت کی تشریح میں فرماتے ہیں:’’هم اهل الحدیث‘‘ وہ اہل الحدیث ہیں۔ (سنن الترمذی، ابواب الفتن باب ماجاء فی الائمۃ المصلین ح۲۲۲۹ نسخہ عارضۃ الاحوذی: ۷۴/۹ و سندہ صحیح)
امام قتیبہ بن سعید نے فرمایا:
’’اذا رایت الرجل یحب اهل الحدیث ……… فانه علی السنة‘‘ الخ
اگر تو کسی آدمی کو دیکھے کہ وہ اہل الحدیث سے محبت کرتا ہے تو (سمجھ لے کہ) وہ شخص سنت پر (چل رہا) ہے۔ (شرف اصحاب الحدیث للخطیب ص۱۳۴ ح۱۴۳ و سندہ صحیح)
احد بن سنان الواسطی نے فرمایا:
لیس فی الدنیا مبتدع الاوهو یبغض اهل الحدیث‘‘
دنیا میں کوئی بھی ایسا بدعتی نہیں ہے جو کہ اہل الحدیث سے بغض نہیں رکھتا۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ص۴ و سندہ صحیح)
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں:
ان لم تکن هذه الطائفة المنصورة اصحاب الحدیث فلا ادری من هم‘‘
اگر اس طائفۂ منصورہ سے مراد اصحاب الحدیث نہیں ہیں تو پھر میں نہیں جانتا کہ وہ کون ہیں۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ص۲ و صححہ ابن حجر فی فتح الباری ۲۵۰/۱۳)
حص بن غیاث نے اصحاب لاحدیث کے بارے میں کہا:
’’هم خیر اهل الدنیا‘‘ یہ دنیا میں بہترین لوگ ہیں۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ص۳ و سندہ صحیح)
امام شافعی فرماتے ہیں:
’’اذا رأیت رجلا من اصحاب الحدیث فکاني رأیت النبی صلی الله علیه وسلم حیاً‘‘
جب میں اصحاب الحدیث میں سے کسی شخص کو دیکھتا ہوں، تو گویا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ دیکھتا ہوں۔ (شرف اصحاب الحدیث للخطیب ص۹۴ ح۸۵ و سندہ صحیح)
المحدث الصدوق امام ابن قتیبہ الدینوری (متوفی ۲۷۶ھ) نے ایک کتاب لکھی ہے:
’’تاویل مختلف الحدیث فی الرد علی أعداء أهل الحدیث‘‘
اس کتاب میں انھوں نے ’’اہل الحدیث‘‘ کے اعداء (دشمنوں) کا زبردسترد کیا ہے۔ یہ تمام اقوال محدثین کے درمیان بلا انکار بلا اعتراض شائع و ذرائع اور مشہور ہیں۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ ’’اہل الحدیث‘‘ کے نام کے جائز و صحیح ہونے پر ائمہ مسلمین کا اجماع ہے۔ اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امت مسلمہ گمراہی پر اجماع نہیں کرسکتی۔
قل رسول الله صلی الله علیه وسلم: «لا یجمع الله امتی اوقال: هذا الامة علی الضلالة ابداً وید الله علی الجماعة»
اللہ میری امت کو – یا فرمایا اس امت کو گمراہی پر کبھی جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت (اجماع) پر ہے۔ (المستدرک ۱۱۶/۱ ح۳۹۸، ۳۹۹و سندہ صحیح)
ان چند دلائل مذکورہ سے معلوم ہوا کہ مسلمین کا صفاتی نام اور لقب اہل الحدیث و اہل السنۃ بھی ہے اور یہی گروہ طائفۂ منصورہ ہے۔
اہل الحدیث کے دو ہی مفہوم ممکن ہیں:
(۱)          صحیح العقیدہ محدثین کرام
(۲)         صحیح القعیدہ عوام جو محدثین کے منہج پر ان کی اقتداء بالدلیل کرتے ہیں۔
دیکھئے: مقدمۃ الفرقۃ الجدیدہ (ص۱۹) و مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ (۹۵/۴)
یہ بات ثابت شدہ ہے کہ طائفہ منصورہ جنت میں جائے گا کیونکہ یہ اہل حق ہیں تو کیا صرف محدثین کرام ہی جنت میں جائیں گے اور ان کے عوام باہر دروازے پر ہی رہ جائیں گے؟
معلوم ہوا کہ طائفۂ منصورہ میں محدثین اور ان کے عوام دونوں ہی شامل ہیں۔ قرآن و حدیث کو اپنی عقل سے سمجھنے والے اور منکرِ اجماع مسعود احمد بی ایس سی تکفیری نے لکھا ہے:
’’ہم بھی محدثین کو اہل الحدیث کہتے ہیں۔ زبیر صاحب کا مذکورہ بالاقول ہماری تائید ہے نہ کہ تردید۔‘‘ (الجماعۃ المقدیمۃ بجواب الفرقۃ الجدیدہ ص۵)
حدیث بیان کرنے والوں کو محدثین کہتے ہیں۔ یہ عوام المسلمین کو بھی معلوم ہے صحابہ و تابعین نے احادیث بیان کی ہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ صحابہ و تابعین سب محدثین (اہل الحدیث) تے۔
مسعود صاحب پر ایک نئی ’’وحی‘‘ نازل ہوئی ہے، وہ متکبرانہ اعلان کرتے ہیں کہ
’’محدثین تو گزر گئے اب تو وہ لوگ رہ گئے ہیں جو ان کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں۔‘‘ (الجماعۃ القدیمہ ص۲۹)
اس پر تبصرہ کرتے ہوئے برادر محترم ڈاکٹر ابو جابر الدامانوی فرماتے ہیں:
’’گویا موصوف کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے اسی طرح محدثین کا سلسلہ بھی کسی خاص محدث پر ختم ہوچکا ہے اور اب قیامت تک کوئی محدث پیدا نہیں ہوگا اور اب جو بھی آئے گا وہ صرف ناقل ہی ہوگا۔ جس طرح لوگوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا۔ کسی نے بارہ کے بعد ائمہ کا سلسلہ ختم کر دیا۔ موصوف کا خیال ہوگا کہ اسی طرح محدثین کی آمد کا سلسلہ بھی اب ختم ہوچکا ہے لیکن اس سلسلہ میں انھوں نے کسی دلیل کا ذکر نہیں کیا، اقوال الرجال تو ویسے ہی موصوف کی نگاہ میں قابل التفات نہیں ہیں البتہ اپنے ہی قول کو انھوں نے اس سلسلہ میں حجت مانا ہے۔ حالانکہ جو لوگ بھی فن حدیث کے ساتھ شغف رکھتے ہیں ان کا شمار محدثین کے زمرے میں ہوتا ہے۔‘‘ (خلاصۃ الفرقۃ الجدیدہ ص۵۵)
صحیح بخاری (۷۰۸۴) والی حدیث: ’’تلزم جماعة المسلمین و امامهم‘‘
جماعت المسلمین اور اس کے امام کو لازم پکڑو۔
اس حدیث پر امام بخاری کے لکھے ہوئے باب ’’کیف الأمر إذا لم تکن جماعة‘‘ کی تشریح میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
’’والمعنی ما الذي یفعل المسلم في حال الإختلاف من قبل أن یقع الإجماع علی خلیفة‘‘ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ ایک خلیفہ پر اجماع ہونے سے پہلے حالتِ اختلاف میں مسلمان کیا کرے؟ (فتح الباری ۳۵/۱۳ ح۷۰۸۴)
عینی حنفی لکھتے ہیں:
’’وحاصل معنی الترجمة أنه إذا وقع اختلاف ولم یکن خلیفة فکیف یفعل المسلم من قبل أن یقع الإجتماع علی خلیفة‘‘ اس باب کا خلاصہ یہ ہے کہ جب اختلاف ہو جائے اور خلیفہ نہ ہو تو خلیفہ پر اجماع سے پہلے مسلمان کیا کرے گا؟ (عمدۃ القاری ج۲۴ ص۱۹۳ کتاب الفتن)
’’جماعۃ‘‘ کی تشریح میں قسطلانی لکھتے ہیں:
’’مجتمعون علی خلیفة‘‘ ایک خلیفہ پر جمع ہونے والے۔ (ارشاد الساری ج۱۰ ص۱۸۳)
ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی (متوفی ۶۵۶ھ) لکھتے ہیں:
’’یعني: أنه متی اجتمع المسلمون علی إمام فلا یخرج علیه و إن جار کما تقدم و کما فی الروایة الأخری: فاسمع وأطع، وعلی هذا فتشهد مع أئمة الجور الصلوات و الجماعات و الجهاد و الحج و تجتنب معاصیهم ولا یطاعنون فیها‘‘ یعنی: جب بھی تمام مسلمان کسی امام (خلیفہ) پر جمع ہو جائیں تو اس کے خلاف خروج نہیں کیا جائے گا اگرچہ وہ ظالم ہو، جیسا کہ گزر چکا ہے اور جیسا کہ دوسری روایت میں آیا ہے: پس نو اور اطاعت کرو (اگرچہ وہ تمھاری پیٹھ پر مارے) اس حدیث کی رو سے نمازیں، جماعتیں، جہاد اور حج (وغیرہ) ظالم حکمرانوں کے ساتھ مل کر ادا کی جاتی ہیں۔ اُن کے گناہوں سے اجتناب کیا جاتا ہے اور ان پر طعن نہیں کیا جاتا۔ (المفہم لما اشکل من تخلیص کتاب مسلم ج۴ ص۵۷)
قرطبی مزید فرماتے ہیں:
’’فلو بایع أهل الحل و العقد لواحد موصوف بشروط الإمامة لا نعقدت له الخلافة و حرمت علی کل أحد المخالفة‘‘
پس اگر (تمام) اہلِ حل و عقد امامت کے کسی مستحق کی بیعت کرلیں تو اس کی خلافت قائم ہو جاتی ہے اور ہر ایک پر اس کی مخالت حرام ہو جاتی ہے۔ (المفہم ج۴ ص۵۷، ۵۸)
شارحینِ حدیث کی ان تشریحات سے معلوم ہوا کہ جماعت المسلمین اور ان کے امام سے مراد خلافت اور خلیفہ ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«فإن لم تجد یومئذ خلیفة فاهرب حتی تموت» الخ
پس اگر تو اس دن خلیفہ نہ پائے تو موت تک کے لئے بھاگ جا۔ (سنن ابی داود: ۴۲۴۷ و صحیح ابی عوانہ ۴۷۶/۴ و سندہ حسن، صخر بن بدروثقہ ابن حبان و ابو عوانہ وسبیع بن خالد و ثقہ العجلی و ابن حبان وللحدیث شواہد)
ایک اہم فائدہ:
ابن بطال القرطبی (المتوفی ۴۴۹ھ) نے کہا:
’’فیاذا لم یکن لهم إممام فافترق أهل الإسلام أحزاباً فواجب اعتزال تلک الفرق کلها‘‘
پس جب ان لوگوں کا امام (خلیفہ) نہ ہو اور اہلِ اسلام احزاب (پارٹیوں) میں بٹ جائیں تو ان تمام فرقوں سے دور ہو جانا واجب (فرض) ہے۔ (شرح صحیح البخاری لابن بطال ۳۲/۱۰)
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ اس حدیث سے دو قسم کے لوگوں نے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے:
۱)            وہ لوگ جنھوں نے ’’جماعت المسلمین‘‘ کے نام سے ایک کاغذی پارٹی (حزب) بنائی اور ایک عام آدمی اس کا امام بن گیا حالانکہ یہ پارٹی خلافت مسلمین نہیں ہے اور اس کا نام نہاد امام خلیفہ نہیں ہے۔
۲)           وہ لوگ جنھوں نے ایک کاغذی خلیفہ بنایا جس کے پاس نہ فوج ہے اور نہ کوئی طاقت اس کاغذی خلیفہ کا ایک انچ زمین پر قبضہ نہیں ہے۔ اس خلیفہ نے نہ کفار سے جہاد کیا، نہ شرعی حدود کا نفاذ کیا، اسے خلیفہ کہنا خلافت کے ساتھ مذاق ہے۔
سورۂ بقرہ کی آیت: ۳۰ کی تشریح میں حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
’’وقد استدال القرطبي وغیرہ بهذه الآیة علی وجوب نصب الخلیفة لیفصل بین الناس فیما یختلفون فیه و یقطع تنازعهم و ینتصر لمظلومهم من ظالمهم و یقیم الحدود و یزجر عن تعاطی الفواحش‘‘
قرطبی وغیرہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ خلیفہ قائم کرنا واجب ہے تاکہ لوگوں کے درمیان اختلافات میں فیصلہ کرے اور جھگڑے ختم کر دے۔ ظالم کے مقابلے میں مظلوم کی مدد کرے، حدود کا نفاذ کرے اور بے حیائی، فحاشی کے کاموں سے روکے۔ (تفسیر ابن کثیر ۲۰۴/۱)
قاضی ابو یعلیٰ محمد بن الحسین الفراء اور قاضی علی بن محمد حبیب المادردی نے بھی خلیفہ کے لئے جہاد، سیاست اور اقامتِ حدود کو شرط قرار دیا ہے۔ دیکھئے الاحکام السلطانیہ (ص۲۲)
والاحکام السلطانیہ للماوردی (ص۶) اور ماہنامہ الحدیث: ۲۲ ص۳۹
ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں: ’’ولأن المسلمین لا بدلهم من إمام یقوم بتنفیذ أحکامهم وإقامة حدود هم و سد ثغورهم و تجهیز جیوشهم وأخذ صدقاتهم……‘‘ مسلمانوں  کا ایسا امام (خلیفہ) ہونا ضروری ہے جو احکام نافذ کرے، حدود قائم کرے، سرحدوں کی حفاظت کرے، لشکر تیار کرے اور لوگوں سے صدقات (قوت کے ساتھ) وصول کرے۔ (شرح الفقہ الاکبر ص۱۴۶)
علمائے کرام کی ان تشریحات کے سراسر خلاف ایک کاغذی خلیفہ بنانا جو اپنے گھر میں شرعی حدود قائم کرنے سے عاجز ہو اور اپنے گھر کی دیواروں کی حفاظت نہ کرسکتا ہو (وغیرہ) ان لوگوں کا کام ہے جو امت مسلمہ میں فرقہ پرستی اور باطل نظریات کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔
ایک حدیث میں آیا ہے: «من مات ولیس له إمام مات میتة جاهلیة»
جو شخص فوت ہو جائے اور اس کی گردن میں امام (خلیفہ) کی بیعت نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔ (السنہ لابن ابی عاصم ۱۰۵۷، و سندہ حسن، نیز دیکھئے صحیح مسلم: ۱۸۵۱)
اس کی تشریح میں امام احمد فرماتے ہیں: ’’تدري ما الإمام؟ الذي یجتمع المسلمون علیہ، کلھم یقول: ھذا إمام، فھذا معناہ‘‘
تجھے پتا ہے کہ (اس حدیث میں) امام کسے کہتے ہیں؟ جس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہو جائے۔ ہر آدمی یہی کہے کہ یہ امام (خلیفہ) ہے، یہ ہے اس حدیث کا معنی۔ (سوالات ابن ہانی ص۱۸۵ فقرہ: ۲۰۱۱، السنۃ للخلال ص۸۱ فقرہ: ۱۰، المسند من مسائل الامام احمد، ق:۱، بحوالہ الامامۃ العظمی عند اہل السنۃ و الجماعۃ ص۲۱۷)
متصر یہ کہ امام اور جماعت المسلمین والی احادیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض الناس کا کاغذی جماعتیں اور کاغذی امیر بنانا بالکل غلط ہے اور سلف صالحین کے فہم کے سراسر خلاف ہے۔
بعض لوگ ’’اہلِ حدیث‘‘ نام سے بہت چڑتے ہیں اور عوام الناس میں یہ مشہور کرنے کی سعی نامراد کرتے ہیں کہ ’’یہ نام فرقہ وارانہ ہے چونکہ ہم مسلمان ہیں لہٰذا ہمیں مسلمان ہی کہلانا چاہیے‘‘ لہٰذا ہم نے اپنے اسلاف، محدثین اورائمۂ کرام سے متعدد دلائل پیش کئے ہیں کہ اہلِ حدیث کہلانا نہ صرف جائز ہے بلکہ پسندیدہ بھی ہے اور یہی طائفۂ منصورہ ہے۔ (دیکھئے علمی مقالات ج۱ ص۱۷۴-۱۶۱) [الحدیث: ۲۹]
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)
Share:

Har Haal me Allah Ka Shukr Ada Karna Chahiye.

*▂▂▂▂▂▂▂▂▂●﷽●▂▂▂▂▂▂▂▂*
□■□■□■□■□■□■□■□■□■□■
╭─┅━┅━┅━┅━┅━┅━┅━┅━┅━┅╮
  *Bayan Ibrahim Alaihay Salam Ka*
╰─┅━┅━┅━┅━─╮
               🕋┣ *•℘αʀт-25* ┫🕋
╨────────────────────❥

_*🏵 Har Haal Aℓℓαн Suβнα'ηαнu Wa Tα'αLα Ka Shukr Adaa Karna Chahiye.*_

⚀ Mere Aziz Dosto, Hame Har Haal Me _*Aℓℓαн Suβнα'ηαнu Wa Tα'αLα*_ Ka Shukar Ada Karna Chahiye. Uski Neymato Ki Na-Shukri Nahi Karna Chahiye. Hazrat Ibrahim (Alaihay Salam) Ki Paheli Bahu Ne _*Aℓℓαн Suβнα'ηαнu Wa Tα'αLα*_ Ki Na-Shukri Ki Thi, Isi Liye Aap Ne Apne Bete Ko Use Talaak Dene Ke Liye Kaha Tha. Jab Ki Dusri Bahu Ne _*Aℓℓαн Suβнα'ηαнu Wa Tα'αLα*_ Ka Shukar Ada Kiya To Aap Ne Apne Bete Ko Uss Se Pyar Mohabbat Aur Ahetraam Se Pesh Aane Ke Liye Kaha.

⚀ Dosto Na Shukri Karne Wale Ko _*Aℓℓαн Suβнα'ηαнu Wa Tα'αLα*_ Pasand Nahi Farmaata, Isiliye Apne Rab Ke Shukr Guzaar Bande Bano, Aur Uss Ki Neymato Ka Har Waqt Shukriya Adaa Karte Raho, Jis Se Tumhaari Rozi Roti, Kaam-Dhande, Aulaad Aur Maal-O-Zaar Me Barqat Rahegi. _*Aℓℓαн Suβнα'ηαнu Wa Tα'αLα*_ Ham Sab Ko Apna Shukr Guzaar Banda Banaaye. !!!!! Aameen !!!!! Ya Rabbul Alameen !!

_*Alhamdulillah Yeh Post Mukammal Huyi*_

┵━━━━━━❀━━━━━━━━━━━━╯
_*Rҽƒҽʀҽηcҽ -↴*_
                      _📓 Qasas-Ul-Ambiya._
━━━━━━━••●❀●••━━━━━━━━╯

●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─┄●•●
        🌺🌿"

Share:

Koi Nagma Fir Se Gungunana Parega, (Naat)

       Asslamualikum Warhmatuallahi Wabarakathu*

*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*


*تخیُّل تلّفظ میں لانا پڑے گا.!!!*
*کوئ نغمہ پھر گنگنانا پڑے گا.!!!*

*تغافل ، تَجاہُل ، تساہُل ، تامُّل.!!!*
*ہر اِک ناز اُن کا اُٹھانا پڑے گا.!!!*

*تفاخرُ ، تکبّر ، تنا فسُ ، تعصّب.!!!*
*یہ ناسُور ھیں، جاں سے جانا پڑےگا.!!!*

*صداقت،عدالت،سخاوت،شجاعت.!!!*
*ُنقوش ِ خلافت پہ آنا پڑے گا.!!!*

*مُحبّت ، مُرَوّت ، مَؤدّتّ، ُاخوّت.!!!*
*یہ آئیں تو ُظلمت کوجانا پڑے گا.!!!*

*وہ تلقین ِ آخِر 'نماز اور اَخلاق.!!!*
*ہے فرمانِ نبوی ، نبھانا پڑے گا.!!!*

*تصَدُّق ہوَ حق پرَ ،اور اُمّت کی وحدت.!!!*
*َمِزاج ِ شہیداں پہ آنا پڑے گا.!!!*

*مُحمدّ کہ احمد کہ نعُماں کہ مالِک.!!!*
*کسی ایک رستے پر آنا پڑے گا.!!!*

*تکبّر سے نَفرت، ترحُّم سے اُلفت.!!!*
*محبّت کو دل میں بسانا پڑے گا.!!!*


         Jazakallah Hu Khair*


 

 

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS