find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Biwi ko Kis ki Baat manani Chahiye Shauhar ki ya Maa Baap ki?

Kisi Aurat par Sabse Jyada Haque kiska hai Shauhar ka ya Waldain ka?
Kya Khawind ki Itaaat Behan aur bhaiyo ki Itaaat par Muqdam hai?
Biwi ko Kis ki Baat manani Chahiye shauhar ki ya Maa Baap ki?



بِسْـــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــلاَم عَلَيـــــكُم وَرَحْمَـــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــاتُه

خاوند كى اطاعت والدين اور بھائيوں كى اطاعت پر مقدم ہے :
﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌﹌

كتاب و سنت كے دلائل سے ثابت ہوتا ہے كہ خاوند كو اپنى بيوى پر بہت زيادہ حق حاصل ہے، اور بيوى كو خاوند كى اطاعت كرنے اور خاوند كے ساتھ حسن معاشرت كا حكم ديا گيا ہے، بيوى كو اپنے والدين اور بہن بھائيوں سے بھى اپنے خاوند كو مقدم ركھنے كا حكم ہے، بلكہ خاوند تو بيوى كى جنت اور جہنم ہے، ان دلائل ميں درج ذيل فرمان بارى تعالى شامل ہے:

{ مرد عورتوں پر نگران و حكمران ہيں، اس ليے كہ اللہ تعالى نے ايك كو دوسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس ليے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں }
   النساء ( 34 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كسى بھى عورت كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنے خاوند كى موجودگى ميں ( نفلى ) روزہ ركھے، اور وہ خاوند كى اجازت كے بغير خاوند كے گھر ميں كسى كو ( آنے كى ) اجازت نہ دے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 4899 ).

علامہ البانى رحمہ اللہ اس حديث پر تعليقا رقمطراز ہيں:
" جب عورت پر قضائے شہوت ميں اپنى خاوند كى اطاعت كرنا واجب ہے كہ وہ خاوند كى شہوت پورى كرے تو پھر بالاولى يہ واجب ہے كہ اس سے بھى اہم چيز يعنى خاوند كى اولاد كى تربيت ميں خاوند كى اطاعت كرے، اور اپنے گھر كى اصلاح ميں خاوند كى بات مانے، اور اس طرح دوسرے حقوق اور واجبات ميں بھى خاوند كى اطاعت كرے "
ماخوذ از: آداب الزفاف ( 282 ).

ابن حبان نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب عورت اپنى پانچ نمازيں ادا كرے، اور رمضان كے روزے ركھے اور اپنى شرمگاہ كى حفاظت كرے، اور اپنے خاوند كى اطاعت كرتى ہو تو اسے كہا جائيگا: تم جنت كے جس دروازے سے بھى چاہو جنت ميں داخل ہو جاؤ "
علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 660 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ابن ماجہ رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن ابى اوفى سے بيان كيا ہے كہ جب معاذ رضى اللہ تعالى عنہ شام سے واپس آئے تو انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سجدہ كيا چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا:

معاذ يہ كيا ؟ تو انہوں نے جواب ديا: ميں جب شام گيا تو انہيں ديكھا كہ وہ اپنے پادريوں اور بشپ كو سجدہ كرتے ہيں تو ميرے دل ميں آيا كہ ہميں تو ايسا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ كرنا چاہيے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تم ايسا مت كرو، اگر ميں كسى كو حكم ديتا كہ وہ غير اللہ كو سجدہ كرے تو عورت كو حكم ديتا كہ وہ اپنے خاوند كو سجدہ كيا كرے، اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) كى جان ہے عورت اس وقت تك اپنے پروردگار كا حق ادا نہيں كر سكتى جب تك كہ وہ اپنے خاوند كا حق ادا نہ كر دے، اگر خاوند اسے بلائے اور بيوى پالان پر بھى ہو تو اسے انكار نہيں كرنا چاہيے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1853 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مسند احمد اور مستدرك حاكم ميں حصين بن محصن ؓ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ان كى پھوپھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس كسى ضرورت كے تحت گئى جب اپنے كام اور ضرورت سے فارغ ہوئيں  تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان سے دريافت كيا:

كيا تمہارا خاوند ہے ؟

تو انہوں نے جواب ديا: جى ہاں، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم اس كے ليے كيسى ہو ؟

تو انہوں نے عرض كيا: ميں اس كے حق ميں كوئى كمى و كوتاہى نہيں كرتى، مگر يہ كہ ميں اس سے عاجز آ جاؤں اور نہ كر سكوں.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم خيال كرو كہ تم اپنے خاوند كے متعلق كہاں ہو، كيونكہ وہ تمہارى جنت اور جہنم ہے "

مسند احمد حديث نمبر ( 19025 ) امام منذرى رحمہ اللہ نے الترغيب و الترھيب ميں اس كى سند كو جيد قرار ديا ہے اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى صحيح الترغيب و الترھيب حديث نمبر ( 1933 ) ميں اسے جيد كہا ہے.

اس حديث كا معنى يہ ہے كہ: بيوى اگر خاوند كا حق ادا كرتى ہے تو خاوند بيوى كے جنت ميں داخل ہونے كا سبب ہوگا اور اگر خاوند كے حقوق ميں كوتاہى كرے گى تو خاوند اس كے ليے آگ ميں جانے كا سبب ہوگا.

جب خاوند كى اطاعت والدين كى اطاعت سے معارض ہو تو اس صورت ميں خاوند كى اطاعت مقدم ہوگى، امام احمد رحمہ اللہ نے ايسى عورت جس كى والدہ بيمار تھى كے متعلق كہا:
اس پر ماں كى بجائے اپنے خاوند كى اطاعت زيادہ واجب ہے، ليكن اگر خاوند اسے اجازت ديتا ہے تو پھر نہيں "
ديكھيں: منتہى الارادات ( 3/ 47 ).

اور الانصاف ميں مذكور ہے كہ:
" خاوند سے طلاق لینے کے حکم ميں عورت پر اپنے والدين كى اطاعت لازم نہيں، اور نہ ہى ملاقات وغيرہ، بلكہ خاوند كى اطاعت زيادہ حق ركھتى ہے "
ديكھيں: الانصاف ( 8 / 362 ).

اس سلسلہ ميں مستدرك حاكم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے ايك حديث بھى مروى ہے:

سیدہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا:
عورت كے ليے لوگوں ميں حق كے اعتبار سے كون زيادہ حقدار ہے ؟
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" اس كى والدہ "
ليكن يہ حديث ضعيف ہے علامہ البانى رحمہ اللہ نے الترغيب و الترھيب ( 1212 ) ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے اور امام منذرى رحمہ اللہ نے بھى.
الاسلام سوال و جواب

ھذا, واللہ تعالى أعلم, وعلمہ أکمل وأتم ورد العلم إلیہ أسلم والشکر والدعاء لمن نبہ وأرشد وقوم , وصلى اللہ على نبینا محمد وآلہ وسلم
وَالسَّــــلاَم عَلَيــْــكُم وَرَحْمَــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــاتُه

Share:

Kya Aurat apne Shauhar ke Bagair Apni Behan ke Ghar rat gujar sakti hai?

Kya Shauhar Apni Biwi ko uske Maike ya Behan ke Ghar jane se Rok sakta hai?

                  Rehman Ali
Sawal: Agar Shauhar apni Biwi par pabandi Lagaye ke wah apni Behan ke Ghar raat nahi Gujar sakti , kya yah Pabandi Sharan Jayez hai?

Kya Aurat ka apne Shauhar ke Bagair apni Behan aur Bahnoi ki Maujudgi me Bagair kisi Majburi ke un ke Ghar Rat gujarna Munasib hai?

السلام عليكم

اگر شوھر اپنی بیوی پر پابندی لگائے کہ وہ اپنی بہن کے گھر رات نہیں گذار سکتی کیا یہ پابندی شرعاً جائز ھے۔
کیا عورت کا اپنے شوھر کے بغیر اپنی بہن اور بہنوئی کی موجودگی میں بغیر کسی مجبوری کے ان کے گھر رات گذارنا مناسب ھے ؟
رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ

۔--------------------------------

وَعَلَيْكُمُ السَّلاَمُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

: مسز انصاری

جی ہاں شرعًا یہ جائز ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو اس کی بہن کے گھر رات گزارنے سے روک دے ، بلکہ ماں باپ کے گھر سے بھی روکنے کا شوہر کو شرعًا حق حاصل ہے ۔ وہ اس لیے کیونکہ مرد کی اطاعت عورت پر واجب ہے ، اور اس لیے کہ مرد کو عورت پر زیادہ فضیلت حاصل ہے ، گو کہ عورتوں اور مردوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے مرد کے عورت پر حقوق زیادہ رکھے ہیں ، لیکن مردوں کو عورتوں پر بلند مرتبہ اور فضیلت حاصل ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :

﴿وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذى عَلَيهِنَّ بِالمَعر‌وفِ ۚ وَلِلرِّ‌جالِ عَلَيهِنَّ دَرَ‌جَةٌ
﴿سورة البقرة/ ٢٢٨﴾

اور ان عورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہيں جیسے ان مردوں کے ہیں معروف طریقے پر ، ہاں مردوں کو ان عورتوں پر درجہ اور فضیلت حاصل ہے ۔

مرد عورتوں پر قوام ہیں ، کیونکہ مرد اپنے اہل و عیال پر مال خرچ کرتے ہیں اور ان کے رہنما ہوتے ہیں ،
جس طرح حکمران اپنی رعایا پر حکمرانی کرتے ہیں اسی طرح مرد کی اپنے اہل و عیال پر حاکمیت ہوتی ہے اور حاکم کا حکم ماننا واجب ہے ، اسی لیے اللہ تعالی نے مرد کو کچھ جسمانی اور عقلی خصائص سے بھی نوازا ہے ، اور اس پر مالی امور بھی واجب کیے ہیں ۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے :

﴿الرِّ‌جالُ قَوّ‌ٰمونَ عَلَى النِّساءِ بِما فَضَّلَ اللَّهُ بَعضَهُم عَلىٰ بَعضٍ وَبِما أَنفَقوا مِن أَمو‌ٰلِهِم ۚ
﴿سورة النساء/ ٣٤﴾

مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالی نے ایک کو دوسرے پر فضيلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں .

بلا شبہ خاوند کا بیوی پر یہ حق ہے کہ وہ گھر سے خاوند کی اجازت کے بغیر نہ نکلے ، بلکہ شافعیہ اورحنابلہ کے مطابق عورت اپنے بیمار والد کی عیادت کے لیے بھی خاوند کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتی ، اور خاوند کو اسے روکنے اور منع کرنے کا مکمل حق حاصل ہے ۔ اس لیے کیونکہ خاوند کی اطاعت بیوی پر واجب ہے تو واجب کو ترک کرکے غیر واجب کام کرنا جائز نہيں ۔

بیوی پر اس کے شوہر کا یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کے گھر میں اس شخص کو داخل نہ ہونے دے جسے اس کا شوہر ناپسند کرتا ہے ۔ ابو ھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( کسی بھی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ خاوند کی موجودگی میں ( نفلی ) روزہ رکھے لیکن اس کی اجازت سے رکھ سکتی ہے ، اور کسی کو بھی اس کے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں لیکن اس کی اجازت ہو تو پھر داخل کرے )
[ صحیح البخاری حدیث : ۴٨٩٩/ صحیح المسلم حدیث : ١٠٢٦ ]

لہٰذا اے سائل بھائی ، خوب جان لیجیے کہ عورت اپنے شوہر کے حکم سے اپنے عزیز و اقارب کے ہاں جانے سے رک جائے گی ، ہر اس حکم کو ماننا اس پر واجب ہوگا جس میں معصیت کا حکم نا دیا گیا ہو ۔جب اللہ تعالیٰ نے عورت کے لیے اس کے شوہر کی فرمانبرداری اس کے والدین کی فرمانبرداری پر مقدم کر دی تو اب شوہر کی اطاعت سے سرکشی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی ، اگر عورت شوہر کی حکم عدولی کرے گی تو وہ گناہ کا کام کرے گی ۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :

کسی آدمی کیلئے درست نہیں ہے کہ وہ کسی آدمی کو سجدہ کرے ، اگر کسی آدمی کا کسی آدمی کیلئے سجدہ کرنا درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ، اسلئے کہ اسکا حق بہت بڑا ہے ۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شوہر کے سر سے پیر تک زخم ہو جس سے خون و پیپ بہہ رہا ہو ، پھر عورت آگے بڑھکر اسے اپنی زبان سے صاف کرے تو بھی اسکے حق کو ادا نہ کر پائے گی.

(صحيح الجامع : ٧٧٢۵)

فقط اللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 16 Bedi Se Interview Question Answer | Bihar Board Urdu Sawal Jawab

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 16 Bedi Se Interview | |Question Answer | Bihar Board Urdu Question Answer | Class 10 Urdu Question Answer  | Bihar Board Urdu Sawal Jawab | Bedi Se Interview | Bihar Board 10th Urdu Question Answer Chapter 16

#BSEB #10th #Urdu #GuessPaper #UrduGuide #BiharBoard #SawalkaJawab #اردو #مختصر_سوالات #معروضی_سوالات #بہار#  بیدی# اردو_سوال_جواب | Bihar Board 10th Urdu question Answer, 

Bihar 10th ka Math kaise banaye?

Matrice ka OMR Sheet kaise Bharein exam me?

BSEB 10th urdu Darakhashan Sawal o Jawab lesson 16.
BSEB 10th urdu Darakhashan Sawal o Jawab lesson 16.

بہار بورڈ درخشاں اردو سوال و جواب
بیدی سے انٹرویو 16

مختصر ترین سوالات۔

(1) انٹرویو لینے والوں کے نام بتائیے۔
جواب - عصمت چغتائی اور فیاض رفعت

(2) کس کا انٹرویو لیا گیا ہے؟
جواب - راجندرا سنگھ بیدی کا

(3) راجندرا سنگھ بیدی کس شہر میں پیدا ہوئے؟
جواب - لاہور

(4) بیدی کے پہلے افسانہ کا نام کیا ہے؟
جواب - مہارانی کا تحفہ

(5) بیدی کی موت کب ہوئی؟
جواب - 11 نومبر 1984 کو

(6) راجیندر سنگھ بیدی کی پیدائش کہاں ہوئی؟
جواب - ایک ستمبر 1915 کو لاہور میں

مختصر سوالات۔

(1) راجیندر سنگھ بیدی کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟
جواب - راجیندر سنگھ بیدی کی پیدائش یکم ستمبر 1915 کو لاہور میں ہوئی۔

(2) بیدی نے کن کن دفاتر میں کام کیے ؟
جواب - راجیندر سنگھ بیدی درج ذیل دفاتر میں کام کیے۔
آل انڈیا ریڈیو
اسٹیشن ڈائریکٹر
پوسٹ آفس

(3) بیدی لاہور کے کس محکمہ میں کام کرتے تھے؟
جواب - پوسٹ آفس

(4) عصمت آپا کی شخصیت پر پانچ جملے لکھیے۔
جواب - عصمت چغتائی اردو ادب کی مشہور و ممتاز افسانہ نگار اور ناول نگار ہے۔ وہ مشہور مزاح نگار عظیم بیگ چغتائی کی بہن تھی۔ اُن کی شاہکار کہانیوں اور ناولوں نے اردو ادب کے سرمایہ میں کافی اضافہ کیا ہے۔ دونوں اصناف میں فنی اعتبار سے اُن کا مرتبہ و مقام خاصا بلند ہے۔

(5) بیدی اور کرشن چندر میں پہلی ملاقات کہاں ہوئی تھی؟
جواب - پنجاب پبلک لائبریری میں

نوٹ۔ دسویں  جماعت کے اردو ( درخشاں ) کا سوال و جواب پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں۔ یہاں ہر مضمون پر تحریر پوسٹ کی جاتی ہے۔

Aashiyana-E-Haqeeqat

Share:

Tum is Nakab me Kitni Gandi Najar aarahi ho?

Ek Ba haya khatoon ke Parde par jab ek Modern Aurat ne Galat Comment dala.

जब एक गैर मुस्लिम लड़की ने बुरके पर उठाया सवाल?
बुरखा क्यों पहनती है मुस्लिम महिलाएं इसपर क्या कहता है इस्लाम?
आखिर क्या है मुस्लिम महिलाओं के बुर्का पहनने का राज? बुरके पर क्या कहता है इस्लाम, मुस्लिम औरतें बुरक़ा क्यों पहनती हैं, मुस्लिम महिलाएं बुरखा क्यों पहनती हैं?

ایک باحجاب خاتون میٹرو میں سوار ہوئی دروازے سے گزرتے ہوۓ اسکی چادر ایک جگہ اٹک گئی جس سے خاتون لڑکھڑائی۔

ایک خاتون جس نے نامناسب اور تنگ لباس پہنا ہوا تھا چيخ کر بولی يہ کيا کررہی ہو اور کیسا لباس پہنا ہوا ہے اس گرمی میں؟

میٹرو میں بيٹھے بقیہ افراد بھی متوجہ ہوۓ لیکن اس باحجاب خاتون نے جلدی سے خود کو سمیٹا اور اسی خاتون کے ساتھ جا کر بيٹھ گئی۔

جب میٹرو چل پڑی تو اس باحجاب خاتون نے اس خاتون کو کان میں کہا کہ يہ چادر میں نے تمہاری خاطر پہن رکھی ہے.

يہ سن کر اس خاتون نے کہا کہ ميری خاطر؟ میں نے تمہیں کب کہا کہ میری خاطر تم چادر پہنو اور اس گرمی میں پسینے سے شرابور ہو؟ اس نے کہا بالکل!

میں نے يہ لباس تمہاری خاطر پہنا ہے تاکہ اگر ایک دن تمہارا شوہر کہ جس نے تم سے نکاح کیا ہے اور عہد کیا ہے کہ وہ تمہارے علاوہ کسی اور خاتون کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھے گا کبھی تم سے بے وفائی نہ کرے اور میری طرف متوجہ نہ ہو۔ کبھی میرے حسن کی طرف مائل ہوکر اسکا دل تم سے اچاٹ نہ ہو اور تمہاری ازدواجی زندگی خراب نہ ہو، اسکی توجہ فقط تمہاری ذات تک محدود رہے اس لئے ميں نے اپنے اوپر سختی کرکے تمہارے گھر کو محفوظ کیا ہوا ہے میں گرمی کی شدت میں بھی اپنے جسم کی نمائش نہیں کرتی، تاکہ کوئی مرد اپنے گھر کی خواتین سے خیانت نہ کرے۔

اور يہ مت بھولو کہ میں بھی تمہاری طرح عورت ہوں میرا بھی دل کرتا ہے کہ لوگ میری تعریف کریں اور جب تک میں نظروں سے اوجھل نہ ہو جاؤں لوگ میرے حسن کی مدح کریں لیکن میرا بھی ایک شوہر ہے جس سے میں خیانت نہيں کرنا چاہتی کیونکہ میری نظر میں مجھ پر فقط میرے شوہر کا حق ہے اور میں اس حق میں خیانت نہیں کروں گی اگر اس عہد میں وفا کرتی ہوں تو میرا شوہر بھی مجھ سے کبھی خیانت نہیں کرے گا اور کسی خاتون کی جانب نظریں اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔
.........لیکن تم جیسی عورتوں نے جنکے گھروں کی حفاظت ہم اپنے حجاب سے کرتی ہیں، اپنے جسموں کی نمائش کر کے مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں اور اپنے حسن کی طرف لبھاتی ہیں، مردوں کی ایک ایک نظر کی بھیک مانگتی ہیں اب تم بتاؤ اعتراض مجھ پر کرنا چاہئے يا مجھے تم پر؟

يہ سن کر وہ خاتون شرمندہ ہوئی اور اس نے کہا کہ کبھی میں نے اس معاملے کو اس زاویے سے نہیں ديکھا تھا۔

اس حقیقت کو مغربی خاتون سمجھ چکی ہے اور وہ حجاب جیسی نعمت کو درک کر کے اسلام کی طرف مائل ہورہی ہے، مغرب میں خاندانی نظام تباہ و برباد ہوچکا ہے مرد کو عورت پر اعتماد نہیں اور عورت کو مرد پر اعتبار نہیں۔

آخر میں یہ کہنا بھی ضروری ہوگا کہ دین اسلام نے فقط عورت کو ہی حجاب کا پابند نہیں کیا بلکہ مرد کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نظریں جھکا کر رہیں۔

آجکل یہ ہمارے لیئے بہت بڑا المیہ ہے جس پہ سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کی ضرورت ہے۔۔

Share:

Jab Ek Modern Arab Muslim Ladki Ne England me Aadhi Raat ko Qurani Aayaton ki tilawat ki.

Ek Arab Muslim Ladki ka waqya
Ek Modern, liberal Arab Ladki ki kahani.

ایک عرب مسلمان لڑکی لندن میں زیرِ تعلیم تھی، ایک دن وہ اپنی سہیلی کے کسی تقریب میں گئی ، کوشش کے باوجود وہ وہاں سے جلدی نہ نکل سکی، جب وہ اس فنگشن سے فارغ ہوکر نکلی تو رات کافی دیر ہوچکی تھی..

اس کا گھر دور تھا، گھر جلدی پہنچنے کا ذریعہ زیرِ زمین چلنے والی ٹرین تھی، لیکن وہ ٹرین سے سفر کرنے سے کچھ خوف محسوس کرہی تھی کیونکہ برطانیہ میں اکثر رات کے وقت ٹرینوں اور اسٹیشنوں پر بہت سے جرائم پیشہ اور نشہ میں دھت افراد ہوتے ہیں، آئے روز ٹی وی چینلز اور اخبارات میں یہاں ہونے والی وارداتوں کا تذکرہ موجود ہوتا ہے...

چونکہ اس لڑکی کو زیادہ دیر ہوچکی تھی اور بس کافی وقت لے سکتی تھی ، اس لئے اس نے بہت سے خدشات و خطرات کے باوجود ٹرین میں جانے کا فیصلہ کر لیا، یہ بات پیشِ نظر رہے کہ یہ لڑکی دیندار نہیں تھی بلکہ بہت زیادہ آزاد خیال اور لبرل تھی...

جب وہ اسٹیشن پر پہنچی تو یہ دیکھ کر اس کے جسم میں خوف کی ایک سرد لہر دوڑ گئی کہ اسٹیشن بالکل سنسان ہے، صرف ایک شخص کھڑا ہے جو حلیہ سے ہی جرائم پیشہ لگتا تھا، وہ انتہائی خوفزدہ ہوگئی، پھر اس نے ہمت کی خود کو سنبھالا، قرآنی آیت کا ورد کرنا شروع کر دیا، اسے جو کچھ زبانی یاد تھا جسے ایک عرصے سے وہ بھولی ہوئی تھی ، سب کچھ پڑھ ڈالا... اتنے میں ٹرین آئی اور وہ اس میں سوار ہو کر بخیریت اپنے گھر پہنچ گئی ...

اگلے دن کا اخبار دیکھ کر وہ چونک اٹھی، اسی اسٹیشن پر اس کے روانہ ہونے کے تھوڑی دیر بعد ایک نوجوان لڑکی کا قتل ہوا اور قاتل گرفتار بھی ہوگیا...

وہ پولیس اٹیشن گئی ، پولیس والوں کو بتایا کہ قتل سے کچھ دیر پہلے وہ اس اسٹیشن پر موجود تھی، میں قاتل کو پہچانتی ہوں ، اس سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں، جب وہ مجرم کے سیل کے سامنے پہنچی تو اس سے پوچھا:" کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟"
اس نے جواب دیا:" ہاں پہچانتا ہوں" رات کو تم بھی اس اسٹیشن پر آئی تھیں..

لڑکی نے پوچھا:" پھر تم نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟"
وہ کہنے لگا:" میں تمہیں کیسے نقصان پہنچاتا؟ ! تمہارے پیچھے تو دو انتہائی صحتمند اور قدآور باڈی گارڈ تھے"

یہ سن کر لڑکی حیران ہوگئ، اسے یقین ہوگیا کہ قرآن کی آیتوں کا ورد کرنے کی وجہ سے اللّٰہ کی طرف سے اسکی حفاظت کی گئی.. وہ وآپسی پر اللّٰہ کے تشکر اور احسان مندی کے جذبات سے مغلوب تھی، اللّٰہ کی مدد اور نصرت پر اس کا بھروسہ مزید بڑھ گیا تھا..

"اگر ہم اپنے دل کی گہرائیوں سے اللّٰہ کو پکاریں اور اللّٰہ کی تائید و نصرت پر بھروسہ رکھیں تو ہم اللّٰہ کی رحمت سے کبھی محروم نہیں رہیں گے۔".

Allah is the greatest only believe on Allah..

Share:

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 15 Maulvi Syed Maqbool Ahmad Samdani Ke Naam Question Answer | Bihar Board Urdu Sawal Jawab

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 15 Maulvi Syed Maqbool Ahmad Samdani Ke Naam | Mehdi Afaadi | Question Answer | Bihar Board Urdu Question Answer | Class 10 Urdu Question Answer  | Bihar Board Urdu Sawal Jawab

Maulvi Syed Maqbool Ahmad Samdani Ke Naam | Bihar Board 10th Urdu Question Answer Chapter 15

#BSEB #10th #Urdu #GuessPaper #UrduGuide #BiharBoard #SawalkaJawab #اردو #مختصر_سوالات 

BSEB 10th Urdu Darakhshan Chapter 15 , bihar board urdu Swal Jawab, Urdu question Answer, Matric Urdu Question Answer, Darakhshan Swal Jawab, Urdu gue
B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 15 Maulvi Syed Maqbool Ahmad Samdani Ke Naam

15 مولوی سید مقبول احمد صمدانی کے نام 
مہدی افادی

مختصر ترین  سوالات

(1) مہدی افادی کب اور کہاں پیدا ہوئے؟
جواب - مہدی افادی کی پیدائش  1828 میں گورکھپور میں ہوئی ۔

(2) مہدی افادي نے کتنی شادیاں کی تھی؟
جواب - تین

(3) مہدی آفادی کو اردو کے علاوہ کن کن زبانوں میں مہارت حاصل تھی؟
جواب - انگریزی اور فارسی میں

(4) مہدی افادی کا اصل نام کیا تھا ؟
جواب - مہدی حسن

(5) مہدی افادی کی بیگم کا نام کیا تھا اور وہ کس نام سے مشہور تھی؟
جواب - مہدی افادی کی تیسری بیگم کا نام عظیم النسا تھی جو بیگم مہدی کے نام سے معروف تھی۔

(6) مہدی افادی کیسے گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے؟
جواب - اُن کا تعلق معزز شیوخ گھرانہ سے تھا۔

(7) مہدی حسن کے والد کیسے شخص تھے؟
جواب - اُن کے والد انتہائی مذہبی آدمی تھے۔ وہ پیشے (Perofessional)  کے اعتبار سے کورٹ انسپکٹر تھے۔

(8) مہدی حسن کیسے شخص تھے؟
جواب - مہدی حسن کے مضامین روشن خیالی کا تصوّر فراہم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اُن میں جذبات اور احساسات کی کیفیات بھی بے پناہ ہیں۔ ان کے مضامین دلکشی بہت زیادہ ہے۔  مہدی کی نظر حسن و عشق کے معاملات پر رہی تھی۔ چناچہ اُنہونے ایک مضمون بعنوان فلسفہ حسن و عشق  یونانیوں کی نظر سے مرتب کیا ہے۔

مختصر سوالات۔

(1) مکتوب کی تعریف کیجئے۔
جواب - مکتوب یا خطوط نگاری خیریت اور ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کا ایک روایتی ذریعہ ہے۔ مکاتب یا خطوط بلکل ذاتی نوعیت کے ہوتے ہے کیونکہ اس میں لکھنے والا اکثر اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور اپنے جذبات کو خطوط کی بیساکھی کے سہارے مخاطب تک پہچانے کی کوشش کرتا ہے۔ مکتوب نگار اپنے احوال و کوائف کے ساتھ ساتھ اپنی روایات، اپنی معاشرتی اور عصری حسیات تک اس میں مقید کر لیتا ہے، جو بعد میں ایک دستاویز کی شکل بن کر محفوظ ہو جاتے ہیں۔

(2)  مہدی افادی کے بارے میں پانچ جملے لکھیے۔
جواب - مہدی افادی کا اصل نام مہدی حسن ہے۔ اُن کی پیدائش 1828 میں گورکھپور میں ہوئی۔ اُن کا تعلق معجز شیوخ گھرانہ سے تھا۔ اُن کے والد انتہائی مذہبی شخص تھے۔ اُن کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ اردو کے علاوہ انگریزی اور فارسی زبان  میں بھی مہارت حاصل رکھتے تھے۔

(3) مہدی نے اپنے خط میں کس کو مخاطب کیا ہے اور وہ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
جواب - مہدی افادی اس خط میں اپنے دوست مولوی سید مقبول احمد صمدانی کو مخاطب کیا ہے۔
اس خط میں وہ اپنے دوست سے کہنا چاہتے ہیں کے ہم دونوں حاجی ہوئے جاتے ہیں آپ کے انداز سے ادبی حیثیت سے میری کوششوں کا ، اگر وہ لائق اعتراف ہوں۔ ایک ایسا قیمتی صلہ ہے جس سے دنیا کا سب سے بڑا سے بڑا مصنف بھی مستغنی نہیں ہو سکتا۔ یاد ایّام سے آپ نے میرے دل پر چوٹ لگائی۔ اب پہلے جیسا جوانی کہاں؟ ساتھ ہی انہونے اس خط میں اپنے بڑھاپے کا بھی اظہار کیا ہے اور اپنے دوست کے بڑھاپے میں ملنے والوں کی کمی نہیں ہونے سے خوش ہوئے ہیں اور بعد کے دنوں میں آکر ملنے کی بات بھی کہی ہے۔

Share:

BSEB 10th Urdu Darakhashan Question Answer. (Chapter 14)

BSEB 10th urdu Darakhashan Sawal o Jawab.

Bihar Matric Urdu question answer lesson 14
Objective Question Answer 10th Urdu.

14   اپنی بیٹی صغریٰ کے نام -  شہباز

معروضی سوالات

(1) شہباز کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟
جواب - شہباز کی پیدائش 1860 میں "موضع سر میرا بارہ" میں ہوئی۔

(2) شہباز کی کتنی شادیاں ہوئے اور اُنکی بیویوں کے نام لکھیئے۔
جواب - اُنکی دو شادیاں ہوئی۔
پہلی بیوی کا نام شمس النسا خاتون اور دوسری بیوی کا نام اشرف النسا تھا۔

(3) شہباز کی دو کتابوں کے نام لکھے۔
جواب - مقالات جمالیا
   مقدمہ خیالات آزاد

(4) شہباز نے شاعری میں کن شعراء کی تقلید کی ہے؟
جواب - نظیر اکبر آبادی، الطاف حسین حالی اور اکبر وغیرہ۔

(5) شہباز نے شامل نصاب مکتوب میں جس بچی کو مخاطب کیا ہے اس کا نام لکھیے۔
جواب - صغریٰ

مختصر سوالات

(1) شہباز کی تصنیفات پر روشنی ڈالیے۔
جواب - شہباز نے مختلف اصناف پر طبع آزمائی ہے۔
اُن کے کلام میں رباعیات، خیالات شہباز ، سالگرہ مبارک حضور نظام الدین ، خدا کی رحمت وغیرہ جیسی نظمیں ہے۔ اس کے علاوہ کلیات نظیر اکبر آبادی، مصفہ ڈاکٹر نذیر احمد، مقدمہ خیالات آزاد وغیرہ اُن کی تصنیفات و تالیفات میں شامل ہے۔ شہباز بیرونی مغربی کی دعوت عام دیتے تھے۔

(2) شہباز کے بارے میں پانچ جملے لکھیے۔
جواب - شہباز کا پورا نام محمد عبدالغفور اور شہباز تخلص ہے۔ شہباز موضع سر میرا بارہ کے رہنے والے تھے۔ اُنہونے بہت کم سنی میں لکھنا شروع کیا۔
20 سال کی عمر میں ان کی شادی شمس النسا سے ہوئی۔ ان کی بیگم دس سالوں کی رفاقت ہی دے پائی۔ اس کے بعد انہوں نے اشرف النسا سے 1898 میں کیا۔ ان کی وفات 30 نومبر 1908 کو ہوئی۔

(4) شامل نصاب خط کیا شہباز کا ذاتی خط ہے؟
جواب -  شامل نصاب خط شہباز کا ذاتی خط ہے۔ انہونے یہ خط اپنی بیٹی صغریٰ کے نام لکھا ہے۔ انہونے اس خط میں بشریٰ کو پڑھانے کے لیے صغریٰ کو کہا ہے۔ اس خط میں شہباز اپنی بچوں کی تعلیم و تربیت پر زور دیتے ہوئے یہ بھی بتایا ہے کہ میں نے تمہاری ماں کو پڑھایا اور  وہ اب تمہیں پڑھا رہی ہے۔ تم بھی بشریٰ کو پڑھاؤ تو کیا مضایقہ۔ ساتھ ہی انہونے یہ بھی کہا ہے حقوق اولاد جب تم تمام کر لو گی تو میں تمہیں انعام دوں گا۔ راہ نجات کے تمام ہونے میں ابھی بہت دیر ہے اس کے انعام کا وعدہ ابھی سے کرنا فضول ہے۔

(5) شہباز نے اپنی بیٹی کو جس بات کی تلقین کی ہے اسے اجاگر کیجئے۔
جواب - شہباز نے اپنی بیٹی کو درج ذیل باتوں کی تلقین کی ہے۔
بشریٰ کو تم روز مرۃاللوم پڑھاتی رہو تو اچھی بات ہے۔ میں نے تمہاری ماں کو پڑھایا اور وہ اب ما شاء اللہ تم کو پڑھاتی ہے، تم بھی اگر بشریٰ کو پڑھاؤ تو کیا مضائقہ ہے؟ خدا نے چاہا تو میں محرم میں ضرور آؤنگا اس وقت کہیں ایسا نہ ہو کے تم میرے سامنے ٹھیک سے کتاب نہ پڑھ سکو۔ اخلاق ہندی تم روز نہیں پڑھتی یہ بات اچھی نہیں اگر چھوڑ دو گی تو بھول جاؤ گی اور کی کرائی محنت برباد ہوگی۔

Share:

Islam Aane se Pahle Saudi Arabia me Ladkiyo ko Zinda Dafan kar diya jata hai?

  Islam ke aane se pahle Ladkiyo ko kis tarah Zinda Dafan kar diya jata tha?
Allah ke Nabi ke Aane se pahle Ladkiyo ko Kaise Dafan kar diya jata tha?
अल्लाह के रसूल के आने से पहले महिलाओं को स्थिति कैसी थी?
इस्लाम के आने से पहले औरतों की क्या दुर्दशा थी?

😑 ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺟﮩﺎلت ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮒ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ۔
ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺑﭽﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ ﭨﮑﮍﺍ ﺗﮭﻤﺎ ﺩﯾﺘﮯ یا ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮔﮍﯾﺎ ﺗﮭﻤﺎ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎﺩﯾﺘﮯ ۔
ﺑﭽﯽ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﮭﯿﻞ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﮍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﭨﮑﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﮭﯿﻠﻨﮯ ﻟﮕﺘﯽ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺗﺐ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺘﮯ۔
ﺍﻭﺭ ﺑﭽﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﯿﻞ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﻣﭩﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯾﺘﯽ ﭼﯿﺨﺘﯽ ﭼﻼﺗﯽ ﻣﻨﺘﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﻇﺎﻟﻢ ﺑﺎﭖ ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﺩﯾﺘﺎ ۔ﺍﺱ ﻗﺒﯿﺢ ﻓﻌﻞ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺟﺐ ﻭﮦ ﮔﮭﺮ ﺁﺗﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺑﭽﯽ ﮐﯽﭼﯿﺨﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺗﮏ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﺮﺗﯽ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﻇﺎﻟﻤﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﺗﺎﻟﮯ ﭘﮍے ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﻧﺮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﮭﮯ.
ﺑﻌﺾ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﺳﮯ ﺍﺳﻼﻡ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﯾﮧ ﮔﻨﺎﮦ ﺳﺮﺯد ﮨﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺻﺤﺎﺑﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺳﻨﺎﯾﺎ کہ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﻟﮯ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﻧﮕﻠﯽ ﭘﮑﮍ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﻟﻤﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻭﮦ ﺳﺎﺭا ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽﺗﻮﺗﻠﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ۔
ﻣﯿﮟ ﺳﺎﺭا ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﺋشوں ﮐﻮ ﺑﮩﻼﺗﺎ ﺭﮨﺎ۔
ﻣﯿﮟ ﺍسے ﻟﮯ ﮐﺮ ﻗﺒﺮﺳﺘﺎﻥ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﯽ ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﯿﭽﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺭﯾﺖ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ. ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﮐﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ۔
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻨﮭﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﭩﯽ ﮐﮭﻮﺩﻧﮯ ﻟﮕﯽ ۔ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﺎﭖ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﯾﺖ ﮐﮭﻮﺩﺗﮯ ﺭﮨﮯ ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯﺍﺱ ﺩﻥ ﺻﺎﻑ ﮐﭙﮍﮮ ﭘﮩﻦ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺭﯾﺖ ﮐﮭﻮﺩﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ ۔ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﭽﯽ ﻧﮯ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﭙﮍﮮ ﺻﺎﻑ ﮐﯿﺌﮯ ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﺌﮯ ﻗﺒﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﭙﮍﮮ ﺻﺎﻑ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ
ﻗﺒﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﭩﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯼ ۔
ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﻨﮭﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﮯ ﻟﮕﯽ ۔
ﻭﮦ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﺘﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻗﮩﻘﮩﮧ ﻟﮕﺎﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﮐﺮﺗﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮨﯽ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﮭﻮﭨﮯ ﺧﺪﺍﻭں ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﯿﭩﺎ ﺩﯾﮟ۔
ﻣﯿﮟ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮨﻮﺗﯽ ﺭﮨﯽ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﮈﺍﻟﻨﯽ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﻮﻓﺰﺩﮦ ﻧﻈﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ
" ﺍﺑﺎ ﺁﭖ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻥ بهی قربان ﺁﭖ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ"؟
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻝ ﮐﻮ ﭘﺘﮭﺮ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﻣﭩﯽ ﭘﮭﯿﻨﮑﻨﮯ ﻟﮕﺎ۔
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﭩﯽ ﺭﻭﺗﯽ ﺭﮨﯽ ﭼﯿﺨﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﺩﮨﺎئیاں ﺩﯾﺘﯽ ﺭﮨﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺯﻧﺪﮦ ﺩﻓﻦ ﮐﺮﺩﯾﺎ. ﯾﮧ ﻭﮦ ﻧﻘﻄﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺭﺣﻤﺖ للعالمین ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﺿﺒﻂ
ﺑﮭﯽ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﮮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ صلی اللہ علیہ وسلم کی ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ ﺑﻨﺪﮪ ﮔﺌﯽ۔
ﺩﺍﮌﮬﯽ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﺳﮯ ﺗﺮ ﮨﻮﮔﺌﯽ ۔
ﺍﻭﺭ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺣﻠﻖ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻻ ﺑﻦ ﮐﺮ ﭘﮭﻨﺴﻨﮯ ﻟﮕﯽ ۔
ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺩﮬﺎﮌﯾﮟ ﻣﺎﺭ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺻﻠﯽﺍﻟﻠﻪ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮨﭽﮑﯿﺎﮞ ﻟﮯ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ.

Share:

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 13 Syed Shah Karaamat Hussain Hamdani Ke Naam Question Answer | Bihar Board Urdu Sawal Jawab

B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 13 Syed Shah Karaamat Hussain Hamdani Ke Naam | Mirza Ghalib | Question Answer | Bihar Board Urdu Question Answer | Class 10 Urdu Question Answer  | Bihar Board Urdu Sawal Jawab | Syed Shah Karaamat Hussain Hamdani Ke Naam | Bihar Board 10th Urdu Question Answer Chapter 13

BSEB 10th Urdu Darakhshan Chapter 13
B. S. E. B. 10th Urdu Darakhshan Chapter 13

#BSEB #10th #Urdu #GuessPaper #UrduGuide #BiharBoard #SawakJawab #اردو #مختصر_سوالات #معروضی_سوالات #بہار#  Syed ShahKaramatHussanHamdaniKeNam# اردو_سوال_جواب | Bihar Board  #MirzaGhalib 10th Urdu question Answer, 

13  سیّد شاہ کرامت حسین کرامت ہمدانی کے نام

مرزا غالب

معروضی سوالات

(1) غالب کی پیدائش کب ہوئی؟
جواب - 1797 میں
(2) غالب کہاں پیدا ہوئے؟
جواب - اپنے نا نہال آگرہ میں

(3) غالب کے خطوط کے کسی ایک مجموعہ کا نام لکھیے۔
جواب - عود ہند

(4) غالب نے کتنے خطوط لکھیں؟
جواب - 900

مختصر سوالات

(1) مکتوب نگاری کے فن سے اپنی واقفیت کا اظہار کیجئے۔
جواب - مکتوب یا خطوط نگاری خیریت اور ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کا ایک مو ثر اور روایتی ذریعہ ہے۔ دور حاضر میں یہ ایک مقام پر اس لیے بھی مستحکم ہوا کے اسے اور ذاتی طور پر اعتبار بخشا گیا۔ عہد مغل میں فارسی میں مکتوب نویسی کا رواج تھا۔ مکاتب یہ خطوط بلکل ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں کیونکہ اس میں لکھنے والا اکثر اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔

(2) غالب نے اپنے خطوط میں کن باتوں کا اظہار کیا ہے؟
جواب - غالب اپنے خطوط میں اپنے ضعیفی اور دوستوں کی خدمت گذاری میں قاصر نہیں رہنے کی بات کہیں ہے۔

(3) غالب نے اپنے خط میں دوستی اور محبت کا اظہار کن لفظوں میں کیا ہے؟
جواب - غالب اپنے خط میں دوستی اور محبت کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے۔ میں دوستوں کی خدمت گذاری میں کبھی قاصر نہیں رہتا۔ اسے تکلیف کی کیا ضرورت تھی - میں یونہی خدمت گذاری کو حاضر ہوں۔ جب چاہو اپنا کلام بھیجو۔

(5) غالب کے خطوط کی زبان پر پانچ جملے لکھیے۔
جواب - غالب نے اپنے مکتوب کے ذریعے اردو کو بیش بہا دولت سے نوازا ہے۔ اُن کے مکتوب میں بے تکلف اور سادگی سے لبریز ماحول ملتا ہے۔ لہجے کی تندی اور ظریفانہ رنگ سے اُن کے خطوط میں ایک خاص انداز نظر پیدا ہو گیا ہے۔ اُن کے خطوط بلکل مکالمہ انداز کی ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کے میں مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا ہے۔

Share:

School fee maf karane ke liye Headmaster ko letter kaise likhein?

School fee maaf karane ke liye Headmaster ko Application kaise likhe?
स्कूल फीस माफ कराने के लिए अपने प्रधानाध्यापक को चिट्ठी कैसे लिखें उर्दू में?
उर्दू में अपने हेड मास्टर को कैसे चिट्ठी लिखे ?

اپنے ہیڈ ماسٹر کے نام فیس معاف کرنے کی ایک درخواست لکھیے

جنابِ عالی! 
                                                               
گزارش ہےکہ میں آپ کی توجہ اس امر کی اور راغب کروانا چاہتا ہوں میں آپ کے اسکول میں کلاس دسویں جماعت کا ایک طالب علم ہوں میرے والد صاحب کی آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے.
کثیر گھریلوں اخراجات ہونے کی وجہ سے میرا باپ اس سال کی میری سالانہ فیس ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے اس لئے آپ صاحب سے التجا کی جاتی ہے کہ اس سال کی میری سالانہ فیس انسانی ہمدردی کے ناطے معاف فرمائی جائیں تاکہ میں اپنی مزید تعلیمی سرگمیاں بنا کسی رکاوٹ کے جاری و ساری رکھ سکوں.
آپکا فرماں بردار شاگرد

نام۔۔۔
رول نمبر۔۔۔
درجہ۔۔۔
مورخہ۔۔۔

Share:

Hijab aur Parda Auraton ka Jewar hai kaise?

Islam Ke Dushman kaise Hijab ko badnam karne ke liye paropganda chala rahi hai?
Hijab auraton ka jewar hai kaise?

اسلامی دشمن طاقتیں کس طرح حجاب کے خلاف پروپگنڈا کر رہی ہے؟

حجاب عورت کا زیور

ہر سال 4/ ستمبر کو دنیا بھر میں ’’عالمی یوم حجاب‘‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن فرانس میں حجاب پر پابندی کے بعد لندن میں ایک کانفرنس کے موقع پر عالم اسلام کے ممتاز راہنماؤں نے طے کیا تھا۔

2004 سے پوری دنیا میں اس دن کو منایا جاتا ہے۔بظاہر حجاب مسلمان عورتوں کے لیے ضروری ہے کیونکہ پردے کا حکم صرف اسلا م نے دیا ہے۔ لیکن اب تو مسلمان خواتین کو دیکھ کر بہت سے غیر مسلم خواتین بھی حجاب کا استعمال کرتی ہیں۔

اس دن عورت اس بات کا  نہ صرف اعلان کرتی ہے بلکہ عہد کرتی ہے کہ حجاب مسلمانوں کی نشانی ہے اس کا مکمل پاس کرے گی۔
حجاب مسلمان عورت کا فخر بھی ہے اور حق بھی۔ یہ حجاب ہمارا وقار بھی ہے جو ہمیں کردار کی مضبوطی عطا کرتا ہے۔

سورۃ الاحزاب ارشاد ہے :
ترجمہ: اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور جاہلیت کی پہلی سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔

دنیا کا کوئی مذہب خواتین کو وہ مقام عطا نہیں کرتا جو اسلام کرتا ہے ہمیں بطور مسلمان فخر کرنا چاہیے کہ ہم نبی کی امت میں سے ہیں۔
اسلام میں جتنے حقوق خواتین کو دیے ہیں اتنے حقوق کسی مذہب میں نہیں۔

ہندوتو اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کردیا کرتے تھے۔ یہ اسلام ہی ہے جو عورت کو اس جائز اور اصل مقام دیتا ہے۔
جتنی عزت اسلام عورت کو دیتا اتنا عزت کوئی اور نہیں دے سکتا جس کی مثال سب کے سامنے ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جنت بھی ماں (عورت) کے قدموں تلے رکھ دی۔

اس وقت دنیا میں حجاب مخالفت تحریکیں زور و شور سے چل رہی ہیں اس لئے مسلمانوں کو اس مسئلے کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے۔

حجاب عورت کا پردہ نہیں بلکہ مسلمان خواتین کی حیا کا دوسرا نام ہے۔
آج کل کے دور میں مغربی عورت کو دیکھ کر ہمارے ہاں بہت سی خواتین رشک کرتی دکھائی دیتی ہیں حالانکہ وہاں کی عورت اس وقت سب سے زیادہ پریشانی کا شکار ہے کیونکہ ان کو اپنے معاشرے میں اتنا مقام حاصل نہیں ہوتا جتنا مسلم خواتین کو حاصل ہے۔

وہاں کی عورتوں کو جب اسلام میں خواتین کے حقوق کا علم ہوتا ہے تو وہ اسلام کی جانب مائل ہوتی ہے جب وہ اسلام قبول کرتی ہے تو سب سے پہلے وہ برقعہ اوڑھتی ہے یا حجاب /اسکارف پہنتی ہے اور یوں وہ خود کو محفوظ تصور کرتی ہے۔

اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ہے کہ حجاب عورت کا گہنا ہے۔
صرف برقعہ پہن لینا ہی حجاب نہیں ہے نظر کا آنکھوں کا، آواز کا بھی حجاب ہوتا ہے۔
نقاب، عبایا، برقعہ پر زرق برق کام کروانا، لیسیں لگوانا کہاں کا حجاب ہے؟
حجاب اوڑھنا ہے تو اسلام کے تقاضوں کے مطابق اوڑھیں۔

آج کل مسلم ممالک میں اسکارف کو فیشن اور ٹرینڈ بنایا جا رہا ہے کچھ لڑکیاں اسکارف یا حجاب اس قسم کا لے رہی ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی سب سے پہلے نظر ان پر پڑتی ہے۔
پردہ فیشن نہیں بلکہ اپنے آپ کو غیر محرم کی نظر سے بچانا مقصد ہوتا ہے۔
آج کل چوری اور ڈاکے ڈالنے کیلئے بھی حجاب کا استعمال ہو رہا ہے جو کہ اسلام کو بدنام کرنے کی ایک سازش ہے۔

اسلام نے زندگی گزارنے کے جو اصول و ضوابط دیے ان ہی میں حجاب بھی ہے۔
اسلام عورت کو مرد کے ساتھ ضرورت کے مطابق معروفبات کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

عورت کی اصل جگہ اس کا گھر ہے۔ گھر سے باہر ضرورت کے تحت جا سکتی ہیں لیکن یہ عارضی حالت ہوگی۔
عورت اپنی فطرت کے مطابق گھر میں رہنا پسند کرتی ہے۔ گھر میں رہ کر عورت فطری زندگی گزارتی ہے۔
گھر میں رہنے سے عورت غلط کاموں میں مصروف نہیں ہوتی۔
گھر میں رہنے سے عورت معاش کی مشقتوں سے بچتی ہے کیونکہ اسلام نے اسے عورت کا فرض قرار نہیں دیا۔
یہ عورت پر غیر ضروری بوجھ ہے۔
گھر میں عورت وہ کام کرتی ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیا یعنی بچوں کی پرورش اور تربیت کا کام۔
گھر میں عورت شوہر اور بچوں کی خوشیوں کے لیے کوشش کرتی ہے۔ یوں گھر  پر سکون بنتے ہیں۔

اسلام نے عورت کو نا محرموں سے حجاب کرنے کا حکم دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
ترجمہ:اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنہ عورتوں سے آپ کہہ دیں اپنے اوپر اپنی چادر کا کچھ حصّہ لٹکا لیا کریں۔ یہ زیادہ قریب ہے کہ وہ پہچان لی جائیں، چنانچہ ستائی نہ جائیں۔اور اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔

آج کل بہت سے ممالک میں حجاب پر پابندی لگائی جارہی ہے اس کی اصل وجہ اسلام دشمنی ہے لیکن ہم ان کو تو بعد میں کچھ کہیں گے پہلے اپنے گھر میں ہی دیکھ لیں یہاں پر بھی حجاب پر تنقید اور اعتراض کیا جارہا ہے۔
اسلام دشمن عناصر لبرل مسلمان کے نام پر مسلم ممالک میں بے حیائی کا پھیلانا چاہتے ہیں۔

دعا ہے کہ دنیا بھر میں مسلم خواتین اپنے اسلام کے مطابق پردے کو فروغ دیں اور اسلام دشمن طاقتوں کو بے حیائی پھیلانے میں شکست دیں.

Share:

Tafseer Surah Baqarah Verse 151-152 | Surah Baqarah explanation in English | Surah Baqarah explained | Surah Baqarah Ayat 151 to 152

Tafseer Surah Baqarah Verse 151-152 | Surah Baqarah explanation in English | Surah Baqarah explained | Surah Baqarah Ayat 151 to 152

Tafseer Surah Baqarah Verse 151-152| Surah Baqarah explanation in English | Surah Baqarah explained | Surah Baqarah Ayat 151 to 152 Translation

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَـنِ الرَّحِيمِ
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful

Prophet Muhammad’s Prophecy is a Great Bounty from Allah

Tafseer Surah Baqarah, Surah Baqarah explanation in English, Surah Baqarah 151-152, Surah Baqarah in English Translation, Tafseer Quran, baqarah
Surah Baqarah Verse 151-152

Allah subhanahu wa ta’ala reminds His believing servants with what He has endowed them by sending Muhammad salAllahu ‘alayhi wa sallam as a Messenger to them, reciting to them His clear ayaat and purifying and cleansing them from the worst types of behavior, the ills of the souls and the acts of jahiliyah [pre-Islamic era]. The Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam also takes them away from the darkness (of disbelief) to the light (of faith) and teaches them the Book, the Qur’an, and the Hikmah [wisdom], which is his Sunnah. He also teaches them what they knew not. During the time of jahiliyah, they used to utter foolish statements. Later on, with the blessing of the Prophet’s Message and the goodness of his prophecy, they were elevated to the status of the Awliya [loyal friends of Allah] and the rank of the scholars. Hence, they acquired the deepest knowledge amongst the people, the most pious hearts, and the most truthful tongues.

In ayah 164 of Surah Aal-Imran, Allah subhanahu wa ta’alaa tells that the sending of the Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam was a great favor on the believers:

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ ءَايَـتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ
“Indeed, Allah conferred a great favor on the believers when He sent among them a Messenger (Muhammad) from among themselves, reciting unto them His ayaat (the Qur’an), and purifying them (from sins).” (3:164)

A similar ayah also appears in Surah Al-Baqarah ayah 129.

Allah subhanahu wa ta’ala has criticized those who do not give this bounty its due consideration, as we read in Surah Ibraheem ayah 28,

“Have you not seen those who have changed the Blessings of Allah into disbelief (by denying Prophet Muhammad and his Message of Islam), and caused their people to dwell in the house of destruction?” (14: 28).

Ibn ‘Abbas radhiAllahu ‘anhu commented, “Allah’s favor means Muhammad (salAllahu ‘alayhi wa sallam).” Therefore, Allah subhanahu wa ta’ala has commanded the believers to affirm this favor and to appreciate it by thanking and remembering Him.

فَاذْكُرُونِى أَذْكُرْكُمْ

“Therefore remember Me. I will remember you.”

Hasan Al-Basri commented that it means: Remember Me regarding what I have commanded you and I will remember you regarding what I have compelled Myself to do for your benefit (i.e., His rewards and forgiveness).

An authentic hadeeth states:

يَقُولُ اللهُ تَعَالَى: مَنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي وَمَنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَأٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَأٍ خَيْرٍ مِنْه

“Allah the Exalted said, ‘Whoever mentions Me to himself, then I will mention him to Myself; and whoever mentions Me in a gathering, I will mention him in a better gathering.’”

Imam Ahmad reported that Anas radhiAllahu ‘anhu narrated that Allah’s Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam said:

قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَا ابْنَ آدَمَ، إِنْ ذَكَرْتَنِي فِي نَفْسِكَ ذَكَرْتُك فِي نَفْسِي، إِنْ ذَكَرْتَنِي فِي مَلَإٍ ذكَرْتُكَ فِي مَلَإٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ أَوْ قَالَ: فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُ وَإِنْ دَنَوْتَ مِنِّي شِبْرًا دَنَوْتُ مِنْكَ ذِرَاعًا، وَإِنْ دَنَوْتَ مِنِّي ذِرَاعًا دَنَوْتُ مِنْكَ بَاعًا، وَإنْ أَتَيْتَنِي تَمْشِي أَتَيْتُكَ هَرْوَلَة
“Allah the Exalted said, ‘O son of Adam! If you mention Me to yourself, I will mention you to Myself. If you mention Me in a gathering, I will mention you in a gathering of the angels (or said in a better gathering). If you draw closer to Me by a hand span, I will draw closer to you by forearm’s length. If you draw closer to Me by a forearm’s length, I will draw closer to you by an arm’s length. And if you come to Me walking, I will come to you running.” [Saheeh Bukhari].

وَاشْكُرُواْ لِي وَلاَ تَكْفُرُونِ

“…and be grateful to Me (for My countless favors on you) and never be ungrateful to Me.”

In this ayah, Allah subhanahu wa ta’ala commands that He be thanked and appreciated, and promises even more rewards for thanking Him. In another ayah, He says: “If you give thanks (by accepting faith and worshiping none but Allah), I will give you more (of My blessings); but if you are thankless, verily, My punishment is indeed severe.” [Ibraheem 14: 7]

Abu Raja’ Al-`Utaridi said: `Imran bin Husayn came by us once wearing a nice silk garment that we never saw him wear before or afterwards. He said, “Allah’s Messenger salAllahu ‘alayhi wa sallam said:

مَنْ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِ نِعْمَةً فَإِنَّ اللهَ يُحِبُّ أَنْ يَرَى أَثَرَ نِعْمَتِهِ عَلَى خَلْقِه «عَلَى عَبْدِه»

“Those whom Allah has favored with a bounty, then Allah likes to see the effect of His bounty on His creation),” or he said, “on His servant” – according to Ruh (one of the narrators of the hadeeth).
Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS