find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Hajj ke Mashail.

Surah 2 Ayat  197

اَلۡحَجُّ اَشۡہُرٌ مَّعۡلُوۡمٰتٌ ۚ فَمَنۡ فَرَضَ فِیۡہِنَّ الۡحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوۡقَ  ۙ وَ لَا جِدَالَ فِی الۡحَجِّ ؕ وَ مَا تَفۡعَلُوۡا مِنۡ خَیۡرٍ  یَّعۡلَمۡہُ اللّٰہُ      ؕ    ؔ وَ تَزَوَّدُوۡا فَاِنَّ خَیۡرَ الزَّادِ التَّقۡوٰی  ۫  وَ اتَّقُوۡنِ یٰۤاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۱۹۷﴾

TARJUMA

حج کے مہینے مقرر ہیں اس لئے جو شخص ان میں حج لازم کرلے وہ اپنی بیوی سے میل ملاپ کرنے ، گناہ کرنے اور لڑائی جھگڑے کرنے سے بچتا رہے تم جو نیکی کرو گے اس سے اللہ تعالٰی باخبر ہے اور اپنے ساتھ سفر خرچ لے لیا کرو ، سب سے بہتر توشہ اللہ تعالٰی کا ڈر ہے اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہا کرو ۔

TAFSEER IBNE KASEER

احرام کے مسائل عربی دان حضرات نے کہا ہے کہ مطلب اگلے جملہ کا یہ ہے کہ حج حج ہے ان مہینوں کا جو معلوم اور مقرر ہیں ، پس حج کے مہینوں میں احرام باندھنا دوسرے مہینوں کے احرام سے زیادہ کامل ہے ، گو اور ماہ کا احرام بھی صحیح ہے ، امام مالک ، امام ابو حنیفہ ، امام احمد ، امام اسحق ، امام ابراہیم نخعی ، امام ثوری ، امام لیث ، اللہ تعالیٰ ان پر سب رحمتیں نازل فرمائے فرماتے ہیں کہ سال بھر میں جس مہینہ میں چاہے حج کا احرام باندھ سکتا ہے ان بزرگوں کی دلیل آیت ( يَسْــَٔـلُوْنَكَ عَنِ الْاَهِلَّةِ ) 2 ۔ البقرۃ:189 ) ہے ، دوسری دلیل یہ ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کو نسک کہا گیا ہے اور عمرے کا احرام حج کے مہینوں میں ہی باندھنا صحیح ہوگا بلکہ اگر اور ماہ میں حج کا احرام باندھا تو غیر صحیح ہے لیکن اس سے عمرہ بھی ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اس میں امام صاحب کے دو قول ہیں حضرت ابن عباس حضرت جابر ، حضرت عطا مجاہد رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں کے سوا باندھنا غیر صحیح ہے اور اس پر دلیل آیت ( اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ) 2 ۔ البقرۃ:197 ) ہے عربی دان حضرات کی ایک دوسری جماعت کہتی ہے کہ آیت کے ان الفاظ سے مطلب یہ ہے کہ حج کا وقت خاص خاص مقرر کردہ مہینے میں تو ثابت ہوا کہ ان مہینوں سے پہلے حج کا جو احرام باندھے گا وہ صحیح نہ ہوگا جس طرح نماز کے وقت سے پہلے کوئی نماز پڑھ لے ، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمیں مسلم بن خالد نے خبر دی انہوں نے ابن جریج سے سنا اور انہیں عمرو بن عطاء نے کہا ان سے عکرمہ نے ذکر کیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ کسی شخص کو لائق نہیں کہ حج کے مہینوں کے سوا بھی حج کا احرام باندھے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( اَلْحَجُّ اَشْهُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ ) 2 ۔ البقرۃ:197 ) اس روایت کی اور بھی بہت سی سندیں ہیں ایک سند میں ہے کہ سنت یہی ہے ، صحیح ابن خزیمہ میں بھی یہ روایت منقول ہے ، اصول کی کتابوں میں یہ مسئلہ طے شدہ ہے کہ صحابی کا فرمان حکم میں مرفوع حدیث کے مساوی ہوتا ہے پس یہ حکم رسول ہوگیا اور صحابی بھی یہاں وہ صحابی ہیں جو مفسر قرآن اور ترجمان القرآن ہیں ، علاوہ ازیں ابن مردویہ کی ایک مرفوع حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ حج کا احرام باندھنا کسی کو سوا حج کے مہینوں کے لائق نہیں ، اس کی اسناد بھی اچھی ہیں ، لیکن شافعی اور بیہقی نے روایت کی ہے کہ اس حدیث کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ حج کے مہینوں سے پہلے حج کا احرام باندھ لیا جائے تو آپ نے فرمایا نہیں ، یہ موقوف حدیث ہی زیادہ ثابت اور زیادہ صحیح ہے اور صحابی کے اس فتویٰ کی تقویت حضرت عبداللہ بن عباس کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ سنت یوں ہے واللہ اعلم ۔ اشہر معلومات سے مراد حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں شوال ذوالقعدہ اور دس دن ذوالحجہ کے ہیں ( بخاری ) یہ روایت ابن جریر میں بھی ہے ، مستدرک حکم میں بھی ہے اور امام حاکم اسے صحیح بتلاتے ہیں ، حضرت عمر ، حضرت عطا ، حضرت مجاہد ، حضرت ابراہیم نخعی ، حضرت شعبی ، حضرت حسن ، حضرت ابن سیرین ، حضرت مکحول ، حضرت قتادہ ، حضرت ضحاک بن مزاحم ، حضرت ربیع بن انس ، حضرت مقاتل بن حیان رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں ، حضرت امام شافعی ، امام ابو حنیفہ ، امام احمد بن حنبل ، ابو یوسف اور ابو ثور رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی مذہب ہے ، امام ابن جریر بھی اسی قول کو پسند فرماتے ہیں اشہر کا لفظ جمع ہے تو اس کا اطلاق دو پورے مہینوں اور تیسرے کے بعض حصے پر بھی ہوسکتا ہے ، جیسے عربی میں کہا جاتا ہے کہ میں نے اس سال یا آج کے دن اسے دیکھا ہے پس حقیقت میں سارا سال اور پورا دن تو دیکھتا نہیں رہتا بلکہ دیکھنے کا وقت تھوڑا ہی ہوتا ہے مگر اغلباً ( تقریبا ) ایسابول دیا کرتے ہیں اسی طرح یہاں بھی اغلبا تیسرے مہینہ کا ذکر ہے قرآن میں بھی ہے آیت ( فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ) 2 ۔ البقرۃ:203 ) حالانکہ وہ جلدی ڈیڑھ دن کی ہوتی ہے مگر گنتی میں دو دن کہے گئے ، امام مالک ، امام شافعی کا ایک پہلا قول یہ بھی ہے کہ شوال ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کا پورا مہینہ ہے ، ابن عمر سے بھی یہی مروی ہے ، ابن شہاب ، عطاء ، جابر بن عبداللہ سے بھی یہی مروی ہے طاؤس ، مجاہد ، عروہ ربیع اور قتادہ سے بھی یہی مروی ہے ایک مرفوع حدیث میں بھی یہ آیا ہے لیکن وہ موضوع ہے ، کیونکہ اس کا راوی حسین بن مخارق ہے جس پر احادیث کو وضع کرنے کی تہمت ہے ، بلکہ اس کا مرفوع ہونا ثابت نہیں واللہ اعلم ۔ امام مالک کے اس قول کو مان لینے کے بعد یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذوالحجہ کے مہینے میں عمرہ کرنا صحیح نہ ہوگا یہ مطلب نہیں کہ دس ذی الحجہ کے بعد بھی حج ہو سکتا ہے ، چنانچہ حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ درست نہیں ، امام ابن جریر بھی ان اقوال کا یہی مطلب بیان کرتے ہیں کہ حج کا زمانہ تو منیٰ کے دن گزرتے ہی جاتا رہا ، محمد بن سیرین کا بیان ہے کہ میرے علم میں تو کوئی اہل علم ایسا نہیں جو حج کے مہینوں کے علاوہ عمرہ کرنے کو ان مہینوں کے اندر عمرہ کرنے سے افضل ماننے شک کرتا ہو ، قاسم بن محمد سے ابن عون نے حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کے مسئلہ کو پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ اسے لوگ پورا عمرہ نہیں مانتے ، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما نے بھی حج کے مہینوں کے علاوہ عمرہ کرنا پسند فرماتے تھے بلکہ ان مہینوں میں عمرہ کرنے کو منع کرتے تھے واللہ اعلم ( اس سے اگلی آیت کی تفسیر میں گزر چکا ہے ) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذوالقعدہ میں چار عمرے ادا فرمائے ہیں اور ذوالقعدہ بھی حج کا مہینہ ہے پس حج کے مہینوں میں عمرہ ادا فرماتے ہیں اور ذوالقعدہ بھی حج کا مہینہ ہے پس حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا جائز ٹھہرا واللہ اعلم ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ جو شخص ان مہینوں میں حج مقرر کرے یعن حج کا احرام باندھ لے اس سے ثابت ہوا کہ حج کا احرام باندھنا اور اسے پورا کرنا لازم ہے ، فرض سے مراد یہاں واجب و لازم کر لینا ہے ، ابن عباس فرماتے ہیں حج اور عمرے کا احرام باندھنے والے سے مراد ہے ۔ عطاء فرماتے ہیں فرض سے مراد احرام ہے ، ابراہیم اور ضحاک کا بھی یہی قول ہے ، ابن عباس فرماتے ہیں احرام باندھ لینے اور لبیک پکار لینے کے بعد کہیں ٹھہرا رہنا ٹھیک نہیں اور بزرگوں کا بھی یہی قول ہے ، بعض بزرگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ فرض سے مراد لبیک پکارنا ہے ۔ ( رفث ) سے مراد جماع ہے جیسے اور جگہ قرآن میں ہے آیت ( اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ ) 2 ۔ البقرۃ:187 ) یعنی روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے جماع کرنا تمہارے لئے حلال کیا گیا ہے ، احرام کی حالت میں جماع اور اس کے تمام مقدمات بھی حرام ہیں جیسے مباشرت کرنا ، بوسہ لینا ، ان باتوں کا عورتوں کی موجودگی میں ذکر کرنا ۔ گویا بعض نے مردوں کی محفلوں میں بھی ایسی باتیں کرنے کو دریافت کرنے پر فرمایا کہ عورتوں کے سامنے اس قسم کی باتیں کرنا رفث ہے ۔ رفث کا ادنی درجہ یہ ہے کہ جماع وغیرہ کا ذکر کیا جائے ، فحش باتیں کرنا ، دبی زبان سے ایسے ذکر کرنا ، اشاروں کنایوں میں جماع کا ذکر ، اپنی بیوی سے کہنا کہ احرام کھل جائے تو جماع کریں گے ، چھیڑ چھاڑ کرنا ، مساس کرنا وغیرہ یہ سب رفث میں داخل ہے اور احرام کی حالت میں یہ سب باتیں حرام ہیں مختلف مفسروں کے مختلف اقوال کا مجموعہ یہ ہے ۔ فسوق کے معنی عصیان ونافرمانی شکار گالی گلوچ وغیرہ بد زبانی ہے جیسے حدیث میں ہے مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اسے قتل کرنا کفر ہے ، اللہ کے سوا دوسرے کے تقرب کے لئے جانوروں کو ذبح کرنا بھی فسق ہے جیسے قرآن کریم میں ہے آیت ( اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ) 6 ۔ الانعام:145 ) بد القاب سے یاد کرنا بھی فسق ہے قرآن فرماتا ہے آیت ( ولا تنابزو بالا لقاب ) مختصر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہرنافرمانی فسق میں داخل ہے گو یہ فسق ہر وقت حرام ہے لیکن حرمت والے مہینوں میں اس کی حرمت اور بڑھ جاتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت ( فَلَا تَظْلِمُوْا فِيْهِنَّ اَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَاۗفَّةً كَمَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ كَاۗفَّةً ) 9 ۔ التوبہ:136 ) ان حرمت والے مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو اس طرح حرم میں بھی یہ حرمت بڑھ جاتی ہے ارشاد ہے آیت ( وَمَنْ يُّرِدْ فِيْهِ بِاِلْحَادٍۢ بِظُلْمٍ نُّذِقْهُ مِنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ ) 22 ۔ الحج:25 ) یعنی حرم میں جو الحاد اور بےدینی کا ارادہ کرے اور اسے ہم المناک عذاب دیں گے ، امام ابن جریر فرماتے ہیں یہاں مراد فسق سے وہ کام ہیں جو احرام کی حالت میں منع ہیں جیسے شکار کھیلنا بال منڈوانا یا کتروانا یا ناخن لینا وغیرہ ، حضرت ابن عمر سے بھی یہی مروی ہے لیکن بہترین تفسیر وہی ہے جو ہم نے بیان کی یعنی ہر گناہ سے روکا گیا ہے واللہ اعلم ۔ بخاری ومسلم میں ہے جو شخص بیت اللہ کا حج کرے نہ رفث کرے نہ فسق تو وہ گناہوں سے ایسا نکل جاتا ہے جیسے اپنے پیدا ہونے کا دن تھا ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ حج میں جھگڑا نہیں یعنی حج کے وقت اور حج کے ارکان وغیرہ میں جھگڑا نہ کرو اور اس کا پورا بیان اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے ، حج کے مہینے مقرر ہو چکے ہیں ان میں کمی زیادتی نہ کرو ، موسم حج کو آگے پیچھے نہ کرو جیسا کہ مشرکین کا وطیرہ تھا جس کی مذمت قرآن کریم میں اور جگہ فرمادی گئی ہے اسی طرح قریش شعر حرام کے پاس مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے اور باقی عرب عرفات میں ٹھہرتے تھے پھر آپس میں جھگڑتے تھے اور ایک دوسرے سے کہتے تھے کہ ہم صحیح راہ پر اور طریق ابراہیمی پر ہیں جس سے یہاں ممانعت کی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں وقت حج ارکان حج اور ٹہرنے وغیرہ کی جگہیں بیان کر دی ہیں اب نہ کوئی ایک دوسرے پر فخر کرے نہ حج کے دن آگے پیچھے کرے بس یہ جھگڑے اب میٹا دو ۔ واللہ اعلم ۔ یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ حج کے سفر میں آپس میں نہ جھگڑو نہ ایک دوسرے کو غصہ دلاؤ نہ کسی کو گالیاں دو ، بہت سے مفسرین کا یہ قول بھی ہے اور بہت سے مفسرین کا پہلا قول بھی ہے ، حضرت عکرمہ فرماتے ہیں کہ کسی کا اپنے غلام کو ڈانٹ ڈپٹ کرنا یہ اس میں داخل نہیں ہاں مارے نہیں ، لیکن میں کہتا ہوں کہ غلام کو اگر مار بھی لے تو کوئی ڈر خوف نہیں ، مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر حج میں تھے ور عرج میں ٹھہرے ہوئے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں اور حضرت اسماء رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں حضرت ابو بکر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اونٹوں کا سامان حضرت ابو بکر کے خادم کے پاس تھا حضرت صدیق اس کا انتظار کر رہے تھے تھوڑی دیر میں وہ آگیا اس سے پوچھا کہ اونٹ کہاں ہے؟ اس نے کہا حضرت کل رات کو گم ہو گیا آپ ناراض ہوئے اور فرمانے لگے ایک اونٹ کو بھی تو سنبھال نہ سکا یہ کہہ کر آپ نے اسے مارا نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا رہے تھے اور فرماتے جا رہے تھے دیکھو احرام کی حالت میں کیا کر رہے ہیں؟ یہ حدیث ابو داود اور ابن ماجہ میں بھی ہے ، بعض سلف سے یہ بھی مروی ہے کہ حج کے تمام ہونے میں یہ بھی ہے لیکن یہ خیال رہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اس کام پر یہ فرمانا اس میں نہایت لطافت کے ساتھ ایک قسم کا انکار ہے پس مسئلہ یہ ہوا کہ اسے چھوڑ دینا ہی اولیٰ ہے واللہ اعلم ۔ مسند عبد بن حمید میں ہے کہ جو شخص اپنا حج پورا کرے اور مسلمان اس کی زبان اور ہاتھ سے ایذاء نہ پائیں اس کے تمام اگلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ پھر فرمایا تم جو بھلائی کرو اس کا علم اللہ تعالیٰ کو ہے ، چونکہ اوپر ہر برائی سے روکا تھا کہ نہ کوئی برا کام کرو نہ بری بات کہو تو یہاں نیکی کی رغبت دلائی جا رہی ہے کہ ہر نیکی کا پورا بدلہ قیامت کے دن پاؤ گے ۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ توشہ اور سفر خرچ لے لیا کرو حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لوگ بلا خرچ سفر کو نکل کھڑے ہوتے تھے پھر لوگوں سے مانگتے پھرتے جس پر یہ حکم ہوا ، حضرت عکرمہ ، حضرت عینیہ بھی یہی فرماتے ہیں ، بخاری نسائی وغیرہ میں یہ روایتیں مروی ہیں ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ عینی لوگ ایسا کرتے تھے اور اپنے تئیں متوکل کہتے تھے ، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے کہ جب احرام باندھتے تو جو کچھ توشہ بھنا ہوتا سب پھینک دیتے اور نئے سرے سے نیا سامان کرتے اس پر یہ حکم ہوا کہ ایسا نہ کرو آٹا ستو وغیرہ توشے ہیں ساتھ لے لو دیگر بہت سے معتبر مفسرین نے بھی اسی طرح کہا ہے بلکہ ابن عمر رضی اللہ عنہ تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ انسان کی عزت اسی میں ہے کہ وہ عمدہ سامان سفر ساتھ رکھے ، آپ اپنے ساتھیوں سے دل کھول کر خرچ کرنے کی شرط کر لیا کرتے تھے چونکہ دنیوی توشہ کا حکم دیا ہے تو ساتھ ہی فرمایا ہے کہ آخرت کے توشہ کی تیاری بھی کر لو یعنی اپنی قبر میں اپنے ساتھ خوف اللہ لے کر جاؤ جیسے اور جگہ لباس کا ذکر کر کے ارشاد فرمایا آیت ( ۭوَلِبَاسُ التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ ) 7 ۔ الاعراف:26 ) پرہیز گاری کا لباس بہتر ہے ، یعنی خشوع خضوع طاعت وتقویٰ کے باطنی لباس سے بھی خالی نہ رہو ، بلکہ یہ لباس اس ظاہری لباس سے کہیں زیادہ بہتر اور نفع دینے والا ہے ، ایک حدیث میں بھی ہے کہ دنیا میں اگر کچھ کھوؤ گے تو آخرت میں پاؤ گے یہاں کا توشہ وہاں فائدہ دے گا ( طبرانی ) اس حکم کو سن کر ایک مسکین صحابی رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں آپ نے فرمایا اتنا تو ہونا چاہئے جس سے کسی سے سوال نہ کرنا پڑے اور بہترین خزانہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہے ۔ ( ابن ابی حاتم ) پھر ارشاد ہوتا ہے کہ عقلمندو مجھ سے ڈرتے رہا کرو ، یعنی میرے عذابوں سے ، میری پکڑ دھکڑ سے ، میری گرفت سے ، میری سزاؤں سے ڈرو ، دب کر میرے احکام کی تعمیل کرو ، میرے ارشاد کے خلاف نہ کرو تاکہ نجات پاسکو یہ ہی عقلی امتیاز ہے ۔

Share:

Bargah-E-Risalat me saanp wali waqya....

*بارگاہ رسالت میں سانپ کی حاضری​ والے واقعہ کی تحقیق*

*سوال:* بارگاہ رسالت میں سانپ کی حاضری کے عنوان سے ایک ویڈیو کسی پیج پر شیئر کیا گیا تھا جس میں ایک عالم صاحب ایک حدیث بیان کر رہے ہیں کہ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ اچانک ایک سانپ آیا اور آپ ﷺ کے پہلوئے مبارک میں کھڑا ہو گیا پھر اس نے اپنا منہ پیارے آقا ﷺ کے مبارک کان کے قریب کر لیا گویا آپ سے کان میں کچھ عرض کرنے لگا تو نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں ٹھیک ہے پھر وہ سانپ واپس چلا گیا۔ میں نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا تو پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ جنات کا ایک فرد تھا اور وہ یہ کہ گیا ہے کہ آپ اپنی امت کو حکم فرما دیجئے کہ وہ گوبر اور پرانی ہڈی سے استنجا نہ کیا کریں۔ اس لئے کہ اللہ ﷻ نے اس میں ہمارا رزق بنا دیا ہے۔ (لقط المرجان)
*مجھے اس کی تحقیق مطلوب ہے!*

*جواب:* یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ مجھے باسند کہیں نہیں مل سکی اور جس کتاب کا حوالہ دیا گیا ہے یعنی ”لقط المرجان“ اس میں بھی یہ روایت باسند موجود نہیں۔ ”لقط المرجان“ کے الفاظ ہیں:
وروى ابن العربي بسنده عن جابر بن عبد الله قال: بينا أنا مع رسول الله ﷺ إذ جاءت حية فقامت إلى جنبه فأدنت فمها من أذنه وكأنها تناجيه، فقال النبي ﷺ: نعم، فانصرفت، فسألته، فأخبرني أنه رجل من الجن، وأنه قال: مر أمتك الا يستنجوا بالروث ولا بالرمة، فإن الله جعل لنا في ذلك رزقا
*(لقط المرجان فی احکام الجان للسیوطی ط مکتبۃ القرآن: 26)*

*اس کے علاوہ درج ذیل علماء نے بھی اس روایت کو ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے:*
*1) عبد الرحمن بن عبد اللہ بن احمد الخثعمی السہيلی:*
وروينا في حديث سمعته يقرأ على الشيخ الحافظ أبي بكر بن العربي بسنده إلى جابر بن عبد الله، قال بينا أنا مع رسول الله ﷺ نمشي إذ جاءت حية فقامت إلى جنبه وأدنت فاها من أذنه وكانت تناجيه أو نحو هذا، فقال النبي ﷺ "نعم" فانصرفت قال جابر فسألته، فأخبرني أنه رجل من الجن، وأنه قال له مر أمتك لا يستنجوا بالروث ولا بالرمة فإن الله جعل لنا في ذلك رزقا
*(الروض الانف للسہیلی ط دار احياء التراث العربی: 5/32)*

*2) محمد بن عبد اللہ الشبلی:*
وروى ابن العربي بسنده إلى جابر ابن عبد الله قال بينا أنا مع رسول الله ﷺ يمشى إذ جاءت حية فقامت إلى جنبه فأدنت فاها من أذنه وكأنها تناجيه أو نحو هذا فقال النبي ﷺ نعم فانصرفت قال جابر فسألته فأخبرني أنه رجل من الجن وأنه قال مر أمتك لايستنجوا بالروث ولا بالرمة فإن الله جعل لنا في ذلك رزقا
*(آکام المرجان فی احکام الجان للشبلی ط مکتبۃ القرآن: 56)*

*3) نور الدین الحلبی:*
وعن جابر بن عبد الله رضي الله تعالى عنهما قال «بينا أنا مع رسول الله ﷺ أمشي إذ جاءت حية فقامت إلى جنبه ﷺ وأدنت فاها من أذنه وكأنها تناجيه، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: نعم فانصرفت، قال جابر: فسألته، فأخبرني أنه رجل من الجن، وأنه قال له مر أمتك لا يستنجوا بالروث ولا بالرمة: أي العظم، لأن الله تعالى جعل لنا في ذلك رزقا
*(السیرۃ الحلبیہ: دار الكتب العلميۃ: 2/510)*

آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کسی نے بھی اس روایت کی سند ذکر نہیں کی ہے صرف ابن العربی کی طرف اس روایت کو منسوب کر دیا ہے حالانکہ ابن العربی کی کتب میں بھی یہ روایت مجھے نہیں مل سکی۔ گویا کہ یہ روایت بلا سند مروی ہے لہٰذا اس کی نسبت ان الفاظ کے ساتھ اللہ کے رسول ﷺ کی طرف کرنا درست نہیں۔ *البتہ یہ بات یاد رہے کہ جنوں کے وفد کا آپ ﷺ کے پاس آنا اور آپکا ہڈی اور گوبر سے استنجا کرنے سے منع کرنا دونوں باتیں ثابت ہیں۔* چنانچہ صحیح مسلم میں حدیث موجود ہے:
عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَلْقَمَةَ هَلْ كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ شَهِدَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ؟ قَالَ: فَقَالَ عَلْقَمَةُ، أَنَا سَأَلْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ فَقُلْتُ: هَلْ شَهِدَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْجِنِّ؟ قَالَ: لَا وَلَكِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَفَقَدْنَاهُ فَالْتَمَسْنَاهُ فِي الْأَوْدِيَةِ وَالشِّعَابِ. فَقُلْنَا: اسْتُطِيرَ أَوِ اغْتِيلَ. قَالَ: فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ بَاتَ بِهَا قَوْمٌ فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا هُوَ جَاءٍ مِنْ قِبَلَ حِرَاءٍ. قَالَ: فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ فَقَدْنَاكَ فَطَلَبْنَاكَ فَلَمْ نَجِدْكَ فَبِتْنَا بِشَرِّ لَيْلَةٍ بَاتَ بِهَا قَوْمٌ. فَقَالَ: «أَتَانِي دَاعِي الْجِنِّ فَذَهَبْتُ مَعَهُ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ» قَالَ: فَانْطَلَقَ بِنَا فَأَرَانَا آثَارَهُمْ وَآثَارَ نِيرَانِهِمْ وَسَأَلُوهُ الزَّادَ فَقَالَ: " لَكُمْ كُلُّ عَظْمٍ ذُكِرَ اسْمُ اللهِ عَلَيْهِ يَقَعُ فِي أَيْدِيكُمْ أَوْفَرَ مَا يَكُونُ لَحْمًا وَكُلُّ بَعْرَةٍ عَلَفٌ لِدَوَابِّكُمْ. فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَلَا تَسْتَنْجُوا بِهِمَا فَإِنَّهُمَا طَعَامُ إِخْوَانِكُمْ»
*ترجمہ (مترجم: پروفیسر محمد یحییٰ سلطان محمود جلالپوری):* عامر (بن شراحیل) سے روایت ہے، کہا: میں نے علقمہ سے پوچھا: کیا جنوں (سے ملاقات) کی رات عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے؟ کہا: علقمہ نے جواب دیا: میں نے خود ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا آپ لوگوں میں سے کوئی لیلۃ الجن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ موجود تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں، لیکن ایک رات ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے تو ہم نے آپ ﷺ کو گم پایا، ہم نے آپ کو وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا، (آپ نہ ملے) تو ہم نے کہا کہ آپ کو اڑا لیا گیا ہے یا آپ کو بے خبری میں قتل کر دیا گیا ہے، کہا: ہم نے بدترین رات گزاری جو کسی قوم نے (کبھی) گزاری ہوگی۔ جب ہم نے صبح کی تو اچانک دیکھا کہ آپ حراء کی طرف سے تشریف لا رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ کو گم پایا تو آپ کی تلاش شروع کر دی لیکن آپ نہ ملے، اس لئے ہم نے وہ بدترین رات گزاری جو کوئی قوم (کبھی) گزار سکتی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا: ”میرے پاس جنوں کی طرف سے دعوت دینے والا آیا تو میں اس کے ساتھ گیا اور میں نے ان کے سامنے قرآن کی قراءت کی۔‘‘ انہوں نے کہا: پھر آپ (ﷺ) ہمیں لے کر گئے اور ہمیں ان کے نقوش قدم اور ان کی آگ کے نشانات دکھائے۔ جنوں نے آپ سے زاد (خوراک) کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا: ’’تمہارے لیے ہر وہ ہڈی ہے جس (کے جانور) پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اور تمہارے ہاتھ لگ جائے، (اس پر لگا ہوا) گوشت جتنا زیادہ سے زیادہ ہو اور (ہر نرم قدموں والے اونٹ اور کٹے سموں والے) جانور کی لید تمہارے جانوروں کا چارہ ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے (انسانوں سے) فرمایا: ’’تم ان دونوں چیزوں سے استنجا نہ کیا کرو کیونکہ یہ دونوں (دین میں) تمہارے بھائیوں (جنوں اور ان کے جانوروں) کا کھانا ہیں۔‘‘
*(صحیح مسلم: 450)*

لہذا صحیح روایات کو بیان کیا جانا چاہئے بلا سند اور ضعیف روایات بیان کرنے سے بچنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب

*کتبہ: عمر اثری عاشق علی اثری*

Share:

Garam pani se wuzu aur gusal ka hukm..

Garam paani se wuzu aur ghusl ka hukm 

Thandi ke mausam mein garam paani aur garmi ke mausam mein thanda paani milna Allah ki ne'mat mein se hai, is par Allah ka shukr ada karna chahiye. Paani thanda ya garam hona yeh mausam ki tabi'at par hai, mausam thanda huwa to paani thanda ho jaayega aur garam mausam se paani garam ho jaayega. Allah ne bandon ko aisi sahulat ata farmaayi ke mausam ke thande paani ko mukhtalif tareeqon se garam kar lete hain aur tab'ee garam paani ko thanda bana kar Allah ki is besh qeemat ne'mat se mehzooz ho rahe hain.
Garam paani se wuzu ki baabat kuch logon ka kehna hai ke thande paani se wuzu ziyadah ajr ka baa'is hai is liye wuzu ki khaatir garam paani nahi istemaal karna chahiye. Yeh khayaal ghalat hai, Nabi Sallallahu Alaihi Wasallam ne achchi tarah se wuzu karne ka hukm diya hai aur thandi ke mausam mein kuch logon ko dekha jaata hai ke achchi tarah se wuzu nahi karte jabki garam paani kaamil wuzu par madadgaar hai, is se bandah mukammal taur par bila harj wuzu kar sakta hai.
Abu Hurairah Radhiallahu Anhu kehte hain ke Nabi e Akram Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya:
أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى مَا يَمْحُو اللَّهُ بِهِ الْخَطَايَا، وَيَرْفَعُ بِهِ الدَّرَجَاتِ ؟ قَالُوا : بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ عَلَى الْمَكَارِهِ
*Tarjumah:* Kya main tumhein aisi cheezein na bataaon jin se Allah gunaaho ko mitaata aur darjaat ko buland karta hai? Logon ne arz kiya: Aye Allah ke Rasool (Sallallahu Alaihi Wasallam)! Kiun nahi, Aap zaroor bataayein, Aap ne farmaaya: Nagawaari ke bawjood mukammal wuzu karna.
*(Sahih Muslim: 251)*
Sakht sardi mein garam paani na milne par thande paani se wuzu karna bila-shubha ziyadah ajr ka baa'is hai magar garam paani mil jaaye to woh achchi tarah wuzu ke liye ziyadah mu'aawin (madadgaar) hai aur is se ajr mein kami nahi hogi. Yeh Allah ki taraf se sahulat hai.
*Isi tarah kuch log yeh kehte hain ke Allah ne Quran mein paani na milne par ya beemaar ke liye paani nuqsaandeh hone par Tayammum ka hukm diya hai phir wuzu aur ghusl ke liye paani garam karne ki baat kahaan se paida hoti hai? Un ki nazar mein khaas taur se aise shakhs ka masla hota hai jo sakht thandi ke mausam mein raat ko junubi ya mohtalim ho gaya woh Fajr ke waqt kya kare jabki thanda paani us ko nuqsaan pahuncha raha ho? Is silsile mein ulama ki raaye yeh hai ke woh paani garam kar ke ghusl kare, agar paani garam karne ki sahulat na ho to Tayammum kar le. Is masle ki wajah se kuch logon ke zehan mein jo mazkoorah (upar zikr kiya gaya) ishkaal paida huwa hai us ke kayi jawaabaat hain:*
*Pehla jawaab:* Ulama ka is baat par Ijmaa hai ke jab tak paani ka rang, bu (smell) aur maza na badle us waqt tak paani paak hai jaisa ke Allama Nawawi Rahimahullah ne hadees «الْمَاءُ طَهُورٌ، لَا يُنَجِّسُهُ شَيْءٌ» (Paani paak hai, use koi cheez napaak nahi karti) ke tahat ijmaa par Ibn ul Munzir ka qaul naqal kiya hai:
أجمع العلماء على أن الماء القليل والكثير إذا وقعت فيه نجاسة فغيرت له طعما أو لونا أو ريحا فهو  نجس
*Tarjumah:* Ulama ka is baat pe ijmaa hai ke paani chaahe kam ho ya ziyadah agar us mein najasat gir gayi aur us ka mazah ya rang ya bu badal gaya to woh najis hai.
*(Nail ul Awtaar: 1/45)*
Is ka matlab yeh huwa ke agar paani garam karne se in teenon sifaat mein se koi sifat nahi paida ho to woh paak hai, us se wuzu aur ghusl kiya jaayega.
*Doosra jawaab:* Allah ka farmaan hai:
وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ  مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا
*Tarjumah:* Aur agar tum beemaar ho ya safar mein ho ya tum mein se koi qazaa e haajat se aaya ho ya tum ne aurton se mubaasharat ki ho aur tumhein paani na mile to paak mitti ka qasd karo aur apne munh aur apne haath mal lo, be-shak Allah Taala maaf karne waala, bakhshne waala hai.
*(Surah An-Nisa, Surah No: 4 Ayat No: 43)*
Is aayat mein Allah ne mutlaq paani ka zikr kiya hai jo thanda paani, garam paani aur aam paani sabhi ko shaamil hai. Aur yeh teenon tarah ke paani takhleeq e kayenaat se hi paaye jaate hain. Ek to qudrati taur par thand se paani thanda aur garmi se garam hota hai, doosre yeh ke shuru zamaane se log bhi apne taur par paani ko thanda aur garam karte rahe hain lekin us mein pehle diqqat rahi hogi taaham aaj science ki taraqqi se paani thanda aur garam karna nihayat hi aasaan ho gaya hai. Is liye aaj logon ka ma'mool yeh hai ke har kaam ke liye garmi mein thanda paani aur thandi mein garam paani istemaal karte hain. Jab aaj kal thandi mein garam paani ka istemaal ma'mool bana huwa hai to zahir si baat hai jise wuzu ya ghusl karne ki zaroorat ho aur us ke liye thanda paani nuqsaandeh ho to woh paani garam kar ke wuzu aur ghusl karega, bila nuqsaan ke bhi garam paani se wuzu aur ghusl mein koi harj nahi.
*Teesra jawaab:* Samandar, talaab, kunwaan (well) aur nehar waghera ka paani garmi mein dhoop ki wajah se garam hota hai aur us se wuzu aur ghusl kar sakte hain.
Abu Hurairah Radhiallahu Anhu kehte hain: Ek aadmi ne RasoolAllah Sallallahu Alaihi Wasallam se arz kiya: Allah ke Rasool (Sallallahu Alaihi Wasallam)! Hum samandar ka safar karte hain aur apne saath thoda paani le jaate hain, agar hum us se wuzu kar len to piyaase reh jaayenge, to kya aisi soorat mein hum samandar ke paani se wuzu kar sakte hain? RasoolAllah Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya:
هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ
*Tarjumah:* Samandar ka paani paak hai aur us ka murdaar halaal hai.
*(Tirmizi: 69)*
Is Hadees se pata chalta hai ke jab samandar ke thande aur garam paani se hum wuzu kar sakte hain to apne taur par paani garam kar ke bhi wuzu kar sakte hain, isi tarah ghusl bhi.
*Chautha jawaab:* Bandon par Allah ki taraf se yeh ek badi sahulat hai yani thandi ke mausam mein garam paani Allah ki taraf se badi sahulat aur badi ne'mat hai. Yahi nahi balki is tarah ki hazaaron ne'matein hain jinhein gin nahi sakte. Un ne'maton se faida utha kar Rabb ka shukriya ada karna chahiye:
وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
*Tarjumah:* Aur aasman o zameen ki har har cheez ko bhi us ne apni taraf se tumhaare liye tabe' kar diya, jo gaur karen yaqeenan woh us mein bahut si nishaaniyaan paa lenge.
*(Surah Al-Jathiyah, Surah No: 45 Ayat No: 13)*
*Thandi ke mausam mein heater, garam kapde, garam makaan, garam gaadiyaan aur istemaal ki garam garam deegar cheezein sab Allah ki ne'mat hain aur yeh is zamaane ki sahuliyaat mein shumaar hongi aur jab sahulat aa jaaye to use ikhtiyaar karna chahiye, is ke kayi dalaail hain kuch dalaail neeche darj kiye jaa rahe hain:*
*➊* Allah Taala ka farmaan hai:
يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ
*Tarjumah:* Allah Taala ka iradah tumhaare saath sahulat ka hai sakhti ka nahi.
*(Surah Al-Baqarah, Surah No: 2 Ayat No: 185)*
*➋* Allah Taala ka farmaan hai:
يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا
*Tarjumah:* Allah chahta hai ke tum se takhfeef kar de kiunki insaan kamzor paida kiya gaya hai.
*(Surah An-Nisa, Surah No: 4 Ayat No: 28)*
*➌* Hazrat Abu Hurairah Radhiallahu Anhu se riwayat hai ke Nabi Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya:
إِنَّ الدِّينَ يُسْرٌ، وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ، فَسَدِّدُوا، وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ، وَشَيْءٍ مِنَ الدُّلْجَةِ
*Tarjumah:* Be-shak deen aasaan hai aur jo shakhs deen mein sakhti ikhtiyaar karega to deen us par ghaalib aa jaayega (aur us ki sakhti na chal sakegi) pas (is liye) apne amal mein pukhtagi ikhtiyaar karo. Aur jahaan tak mumkin ho miyaana-rawi barto aur khush ho jaao aur subah aur dopahar aur shaam aur kisi qadar raat mein (ibadat se) madad haasil karo.
*(Sahih Bukhari: 39)*
*➍* Hazrat Aisha Radhiallahu Anha ne bayan kiya ke Rasool Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ، خُذُوا مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا
*Tarjumah:* Logo! Amal utne hi kiya karo jitni ke tum mein taaqat ho kiunki Allah Taala nahi thakta jab tak tum (amal se) na thak jaao.
*(Sahih Bukhari: 5861)*
*➎* Jabir bin Abdullah Radhiallahu Anhuma bayan karte hain:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يُظَلَّلُ عَلَيْهِ وَالزِّحَامُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ
*Tarjumah:* RasoolAllah Sallallahu Alaihi Wasallam ne dekha ek shakhs ko saaya kiya jaa raha hai aur log us par izdihaam (bheed) kiye huwe hain. (Roze aur garmi ke baa'is woh ghash khaa gaya tha) to Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya: Safar mein roza rakhna koi neki ka kaam nahi hai.
*(Abu Dawood: 2407)*
Is Hadees ki roshni mein jis tarah mashaqqat hone waale shakhs ke liye safar mein roza na rakhna afzal hai usi tarah thande paani se mashaqqat hone par garam paani se wuzu karna afzal hai.
Upar zikr kiye gaye tamaam dalaail se thandi mein wuzu aur ghusl ke liye garam paani ki sahulat ikhtiyaar karne ka pata chalta hai. Nabi Sallallahu Alaihi Wasallam aur Sahaba e Kiraam ki amali zindagi se bhi is qism ki sahulat ka pata chalta hai.
*Ek shuba ka izaalah:* Ek riwayat se ma’loom hota hai ke sooraj se garam huwe paani ka istemaal Baras ka sabab hai. Is silsile mein kuch Marfoo' riwayaat aur kuch aasaar bayan kiye jaate hain. Koi bhi riwayat sanadan saabit nahi hai. Masalan:
(1) عن عائشةَ قالت أسخنتُ لرسولِ اللَّهِ  صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ماءً في الشَّمسِ ليغتسِلَ به فقال لي يا حُمَيراءُ لا تفعلي فإنَّهُ يورِثُ البرَصَ
*Tarjumah:* Hazrat Aisha Radhiallahu Anha se riwayat hai unhon ne kaha ke main ne Nabi Sallallahu Alaihi Wasallam ke liye dhoop se paani garam kiya taaki Aap ghusl karen to Aap ne mujh se kaha aye Humairaa! Aisa mat karo, yeh Baras (ek beemari) ka sabab hai.
❗Is riwayat ko Ibn e Adi ne *Mauzoo' (manghadat)* kaha hai.
*(Al-Kamil fiz-Zu'aafaa: 3/475)* 
(2) قال عمرُ بنُ الخطابِ - رضيَ اللهُ عنهُ - : لا تغتسلوا بالماءِ المشمسِ، فإنَّهُ يُورثُ البرصَ۔
*Tarjumah:* Hazrat Umar bin Khattaab Radhiallahu Anhu ne farmaaya: Dhoop se garam kiye huwe paani se ghusl na karo kiunki yeh Baras ka sabab hai.
❗Imam Nawawi Rahimahullah ne kaha hai ke yeh asar *Za'eef* hai aur dhoop se garam paani ke mutalliq kuch bhi saabit nahi hai.
*(Al-Khulaasah: 1/69)* 
Aur bhi kayi dalaail hain lekin koi bhi saabit nahi hai is liye Imam Uqaili ne kaha hai ke dhoop se huwe garam paani ke mutalliq kuch bhi sanadan sahih saabit nahi hai.
*(Az-Zuaafaa: 2/176)
Is ka matlab yeh huwa ke dhoop se huwe garam paani ke istemaal mein koi harj nahi hai.
*Garam paani se wuzu aur ghusl aur Tibb: Aaj kal Atibba (doctors) Hazraat khud hi logon ko garam paani se nahaane ka mashwarah dete hain khaas taur se mareez ko, jo is baat ka suboot hai ke garam paani se nahaana sihat ke liye nuqsaandeh nahi hai balki sardi se mutassir hone waali jild (skin) ke liye faidamand hai. Haan musalsal ziyadah garam paani se ghusl tibbi (medically) aitbaar se nuqsaandeh batlaaya gaya hai is liye halke garam paani se nahaayen. Jab ghusl mein koi harj nahi to wuzu mein badarja e awla koi harj nahi.
Share:

Hayati aur Mamati kaun?

📮 *HAYATI (हयाती) AUR MAMATI (ममाती) Kaun ?*

BismillahirRahmanNirRaheem

🌀 *Deobandi aur Barelwi Muslim me 2 tarah ke Muslim hai jinko HAYATI aur MAMATI kaha jata hai.*

🌀 *HAYATI* yani Nabi (SallallahuA'laihiWaSallam) ko Hayat (zinda) mana'ne wale yani unka kahena hai ke Nabi (SallallahuA'laihiWaSallam) ki haqiqi maut nahi hui hai. Nabi (SallallahuA'laihiWaSallam) zinde hai lekin sirf *PARDA KAR GAYE.*

🌀 *MAMATI* yani Nabi (SallallahuA'laihiWaSallam) ki haqiqi maut ho chuki hai aisa mana'ne wale.

🔹🔹🔹 *Allahu Aalam Bis-Sawab.*

*🔴•┈•••••✦▪✿▪✦•••••┈•🔴*

🖌 *Published by :*

_*Roman-Urdu Islamic Blog*_

💫 *SIRF - _Salsabiil Islamic Research Foundation._*


*🔴•┈•••••✦▪✿▪✦•••••┈•🔴*

Share:

Aaj ki pyari hadeeth

*🔮💠🔮💠    ﷽    💠🔮💠🔮*

🌀🌀  *Aaj ki pyari Hadees !* 🌀🌀

  *♨♨♨ [31-01-2018] ♨♨♨*

*_🌺Muhammad Sallallahu álayhi wa sallam ne farmaya !🌺_*

*_🌺Suraj aur chaand dono Allah ki nishaniyan hain aur kisi ki maut wa hayaat se unme grahan nahi lagta- jab tum grahan laga howa deykho to Allah se dua karo takbeer (allahu akbar,Allah sab se bada hai) kaho aur namaz padho aur sadqa wa qairaat karo -🌺_*

*❗English❗*

*_Allah's Messenger (ﷺ) said, "🗣_*

*_🌺The sun and the moon are two signs against the signs of Allah; they do not eclipse on the death or life of anyone. So when you see the eclipse, remember Allah and say Takbir, pray and give Sadaqa.🌺_*

*[ Sahih al-Bukhari 1044 ]📚*

*📌 Girhen ki Namaaz ka tariqa agli hadees me, In shaa Allah*

*----------------------------------------*

💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫

Share:

Aaj ki pyari hadeeth

*♻💎♻💎    ﷽    💎♻💎♻*

♨♨  *Aaj ki pyari hadees !* ♨♨

*🍃🎋🍃🍃🎋🍃*

*_💫Jab nabi Kareem Sallallahu álayhi wa sallam ke dour me suraj ko girhan laga to elaan howa ke Namaz hone wali hai (iss namaz me) Nabi Kareem Sallallahu álayhi wa sallam ne Ek rakat me doo ruko kiye Aur phir dosri rakat me bhi doo ruko kiye iss ke baad Aap  Sallallahu álayhi wa sallam baythe rahe (qada me) yahan tak ke suraj saaf hogaya Abdullah ne kaha Ayesha raziyallahu anha ne farmaya ke mai ne Iss se zayda lamba sajda aur kabhi nahi Kiya -💫_*

*❗English❗*

*_Narrated `Abdullah bin `Amr :🗣_*

*_💫When the sun eclipsed in the lifetime of Allah's Messenger (ﷺ) and an announcement was made that the prayer was to be held in congregation. The Prophet (ﷺ) performed two bowing in one rak`a. Then he stood up and performed two bowing in one rak`a. Then he sat down and finished the prayer; and by then the (eclipse) had cleared `Aisha said, "I had never performed such a long prostration."💫_*

*[ Sahih Bukhari : 1051 ]📚*

*📌 Girhen ki namaaz me 2 Ruko hote hai Pehle ruko ke baad phir se qiraat karna chahiye !💫*

*----------------------------------------*

Share:

Aaj ki pyari Hadeeth

*🔮🌀🔮🌀    ﷽    🔮🌀🔮🌀*

🌹🌹 *Aaj ki pyari hadees !* 🌹🌹

  *🌴🌹🌴 🌴🌹🌴*

*_💫Ummul momineen hazrat ayesha raziyallahu anha ne kaha ke :Koch aarabi (dehaat ke loog) Nabi (ﷺ) ki khidmat me hazir hoye,aur kaha : kya aap loog apne bachon ka bosa lete hain ? Logo ne kaha : haan,to un aarabiyon ne kaha : lekin ham to Allah ki qasam ! (Apne bachon ka) bosa nahi lete,(ye sunkar) Nabi (ﷺ) ne farmaya : muhje kya ikhtiyaar hai jab ke Allah ne tumhare dilon se rehmat aur shafaaqat nikaal di hair -💫_*

*❗English❗*

*_It was narrated that Aisha, said :🗣_*

*_💫"Some Bedouin people came to the Prophet(ﷺ) and said: 'Do you kiss your children?' He said: 'Yes'. He said: 'But we, by Allah, never kiss (our children)'. The Prophet(ﷺ) said: 'What can I do if Allah has taken away mercy from you?'"_💫*

*Grade: Sahih (Darussalam)💫*

*[ Sunan Ibn Majah : 3665 ]📚*

*----------------------------------------*

🔮💫🔮💫🔮💫🔮💫🔮💫🔮

Share:

Aaj ki pyari Hadeeth..

🍃Bismillahirrahmanirrahim🍃

6 : سورة الأنعام 140

قَدۡ خَسِرَ الَّذِیۡنَ قَتَلُوۡۤا  اَوۡلَادَہُمۡ سَفَہًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ وَّ حَرَّمُوۡا مَا رَزَقَہُمُ اللّٰہُ افۡتِرَآءً  عَلَی اللّٰہِ ؕ قَدۡ ضَلُّوۡا وَ  مَا کَانُوۡا  مُہۡتَدِیۡنَ 

Be shak nuksan me pad gaye woh log jinho ne apni aulad ko bigher kisi ilm ke bewaqoofi se qatal kar dala aur jo cheez inn ko Allah ta"ala ne khaney peeney ko di thi unho ne Allah par jhoot bandhtey huye apne upar haram kar liya. Be shak yeh log gumrahi mein pad gaye aur kabhi seedhe raaste par chalne wale nahi hai.

💐 surah : al an"aam 💐
💐 aayat : 140 💐

🌹 please share with your family's & friends 🌹

🌹 Jazakallah khair 🌹

Share:

Nabi ko Huzur (S-W-H) kahna kaisa hai.

📮 *NABI KO HUZUR (SALLALLAHUA'LAIHIWASALLAM) kahena kaisa hai?*

📗15-05-1439 H.

🌀 Bahot sare Musalman Pyare Nabi Muhammad (SallallahuA'laihiWaSallam) ko *HUZUR (SallallahuA'laihiWaSallam)* kahte hai lekin iske pichhe bahot badi gumrahi ka ek Raaz chhupa huwa hai.

🌀Musalmano ki ek badi tatad Nabi (SallallahuA'laihiWaSallam) ki maut ko taslim nahi karte balke unka kahena hai ke Nabi (SallallahuA'laihiWaSallam) har jagah maujud hai.

🌀Isi Aqeede ke Mutabik ye log Nabi (SallallahuA'laihiWaSallam) ko *HUZUR (SallallahuA'laihiWaSallam) kahte hai.*

🌀 *Huzur* ka matlab hota hai *"HAAZIR","Maujud"*
Jisko English me  *"Present"* kaha jata hai.

🌀Yani jo log Nabi ko Huzur (SallallahuA'laihiWaSallam) kahte unka kahena hai ke Nabi (SallallahuA'laihiWaSallam) *"har Jagah Maujud hai"*.

🌀 Lekin Quran aur sahih Hadees kaheti hai ke Nabi (SallallahuA'laihiWaSallam) ko maut aani thi aur unki maut ho chuki hai.

🌀 Waise bhi Qabr me har Nabi zinda hota hai lekin qabr wali zindagi ko *"BARZAKH ki zindagi"* (unseen life) kaha jata hai. Duniya ki zindagi se Barzakh wali zindagi bilkul alag hoti hai. Ek baar jo Insan BARZAKH me chala jata hai uska RISHTA (connection) is Duniya se cut ho jata hai.

🔹🔹🔹 *Allahu Aalam Bis-Sawab.*

*🔴•┈•••••✦▪✿▪✦•••••┈•🔴*

🖌 *Published by :*

_*Roman-Urdu Islamic Blog*_

💫 *SIRF - _Salsabiil Islamic Research Foundation._

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS