Islam me Aurat ki Sarbarahi ke bare me kya kaha gaya hai?
Kya Aurat PM, CM, DM ban sakti hai?Kya Mulk ka Hakim Ek Aurat ban sakti hai?
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
️ : مسز انصاری ۔۔۔۔۔۔۔
بلا شبہ پاکستان کا طرزِ حکومت جمہوری ہے اور خود پاکستان کی عوام آمریت کی مخالف اور جمہوریت پسند عوام ہے، اور واضح رہے کہ مغربی جمہوریت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، جمہوریت میں تو حکمران کا مسلمان ہونا یا مرد ہونا ہی ضروری نہیں ، حاکمیت کے لیے مرد و زن کی بھی تخصیص نہیں ہوتی ۔
اگر جمہوریت کی تاریخ اور سفر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ یہ ہمیشہ جنگوں اور خانۂ جنگی کے بعد (Colonolization) اور اقتصادی بحرانوں کے نتیجے میں ہی نافذ ہوئی۔ جیسے جنگ عظیم اول کے بعد آسٹریا، ہنگری اور ترکی وغیرہ میں، جنگ عظیم دوم کے بعد جرمنی اور جاپان میں، ’’کلو نائیزیشن‘‘ کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں، اقتصادی بحرانوں کے بعد روس اور ایسٹ یورپ میں ۔ موجودہ دور میں ہم نے دیکھا کہ2001ء میں ڈیڑھ مہینے کی شدید بمباری کے بعد میں افغانستان اور پھر 2003ء میں اسی طرح عراق میں جمہوریت نافذ کی گئی اور یوں جمہوریت کے نفاذ کے لئے ہمیں دو خونریز جنگیں دیکھنی پڑیں اور اب مشرق وسطیٰ میں اسی جمہوریت کے نفاذ کے لئے بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ پس جان لیجئے کہ کہ موجودہ جمہوریت کبھی بھی جمہوری اصولوں پر رائج نہیں ہوئی(ابو معاذ القرنی)
لہٰذا مغربی جمہوری طرزِ حکومت میں عورت کی سربراہی کو اسلامی اصولوں کے خلاف قرار دینا اسلامی اصولوں کی تشریح و تعبیر نہیں بلکہ یہ اسلامی اوامر میں تحریف اور اسلامی اصولوں سے انحراف ہے ۔
لہٰذا عورت کی سربراہی کا عدم جواز اسلامی نظامِ حکومت سے مشروط ہے، اور یہ بھی ملحوظ رکھا جائے کہ اسلامی نظام کے لیے زندگی کے تمام شعبوں میں شریعت کی بالفعل بالادستی اولین شرط ہے ، پاکستان میں سربراہی محترمہ بےنظیر بھٹو صاحبہ کی ہو یا محترمہ مریم نواز صاحبہ کی، مغرب کے سیلیولر ڈیموکریسی سسٹم میں تو جائز ہوسکتی ہے مگر اسلامی نظام میں نہیں ۔
لیکن قطع نظر مغربی جمہوریت کی ان دفعات کے جب ہم پاکستان کے آئین کی طرف جاتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت مغربی جمہوریت سے یکسر جدا حیثیت رکھتی ہے، ان دستوری دفعات کا تجزیہ کیا جائے تو خود عورت کو حکمران بنانا آئین کی خلاف ورزی قرار پاتا ہے کیونکہ دستور میں کسی عورت کو صدر یا وزیراعظم بنائے جانے کا جواز صریحاً مذکور نہیں ہے ، کیونکہ پاکستان کے آئین کی کئی دفعات لبرل ڈیموکریسی کے منافی ہیں مثلاً
- پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا۔۔۔۔۔
- پاکستان کا مملکتی مذہب اسلام ہوگا ۔۔۔۔۔
- صدر کے عہدے کے لیے مسلمان صدر لازم ہے ۔۔۔۔
- صدر اور وزیرِ اعظم دونوں کے حلف نامے میں توحید، ختم نبوت اور قرآن و سنت کی جملہ تعلیمات پر ایمان رکھنا اور اسلامی نظریے کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔۔
- پارلیمنٹ کے مسلم اراکین کے لیے شرائط ہیں کہ وہ
1- اسلامی احکامات سے انحراف کرنے میں مشہور نا ہوں
2- اسلام کے فرائض کے پابند ہوں ۔
3- کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے والے ہوں ۔
4- فاسق نا ہوں ۔
5- اسلامی تعلیمات کا علم رکھتے ہوں ۔
اسی طرح دستور میں اسلامی احکام سے متعلق دفعات بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ آئینِ پاکستان میں جمہوریت کے مفہوم کو اختیار نہیں کیا گیا ۔ لہٰذا ایسی شخصی حکومت جس کے آئین کی خاص دفعات اسلامی ہوں، جس میں اقتدارِ اعلیٰ مسلمان ہو اور اسے کلی اختیارات حاصل ہوتے ہیں، ایسی حکومت کی سربراہ عورت کو بنانا عدمِ فلاح کا موجب ہے
کتاب وسنت اورجمہور علمائے امت کے فیصلوں کی روشنی میں عورت کی حکمرانی کو قطعاً حرام اور ناجائز سمجھتے ہیں اسلام میں عورت کی سر براہی کی قطعاًکوئی گنجائش نہیں ۔ خاتون کو ملک یا جماعت کا سربراہ بنانے کی اللہ تعالیٰ یا اس کے رسولﷺنے اجازت نہیں دی ہے , اسلامی قوانین کی رو سے بتقاضہ عورتوں کی کچھ فطرتی عقلی کمزوریوں اور شرعی حدود کے پیش نظر مسلمان عورت کسی ملک کی سربراہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور نہ ہی قاضی بن سکتی ہے، کیونکہ ان دونوں عہدوں کے فرائض کی ادائیگی کے لیے ، اور ان کے حقوق ادا کرنے کے لئے عورت کو کھلے عام عوام کے درمیان آنا پڑتا ہے تاکہ مسلم معاشرے اور عوام کے معاملات نمٹائے جائیں، جبکہ نا تو عورت مردوں کے شانہ بشانہ مجالس و تقاریب میں حاضر ہوسکتی ہے اور نہ ہی سکیورٹی اور پروٹوکول کی مجبوریوں کے پیش نظر ہمہ وقت اجنبی مردوں سے اختلاط کر سکتی ہے ، جبکہ سنن الترمذی میں ہے:
’’عَنْ عَبْدِ اللہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْمَرْاَۃُ عَوْرَۃٌ، فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ۔‘‘ (سنن الترمذی ، رقم الحدیث:۱۱۷۳)
ترجمہ: ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: عورت سراپا پردہ ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانکتا ہے۔‘‘
عورت کو پردے کا حکم ہے ، اور اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ عورت پردے میں رہے ، جتنا عورت پردے میں رہتی ہے اور جتنا زیادہ اپنے آپ کو نا محرم مردوں سے مخفی رکھتی ہے تو اتنا ہی اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے
یا ایھالناس !! اہل خرد جانتے ہیں کہ مسلم مملکت میں جب بحیثیت مسلمان کوئی حکمرانی قائم کرنا ہماری غرض وغایت اور فلاح وبہبود کے مقاصد ہوں تو اس فلاح وبہبود کا طریقہ وذریعہ ازروئے اسلام صرف دو ہی چیزیں ہیں ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب اور دوسری رسول اللہﷺ کی سنت وحدیث۔
اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں صراحت کر دی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی پیغمبر بھیجے گئے وہ سب مرد تھے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
- اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰەُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔
’’مرد حکمران ہیں عورتوں پر، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔‘‘
- وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ۔
’’اور ہم نے آپؐ سے قبل رسول بنا کر نہیں بھیجا مگر صرف مردوں کو جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔‘‘
عورت کی سربراہی احادیث کی نظر میں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب نبی صرف اور صرف مرد آئے ہیں تو ان کی نیابت بھی صرف مردوں میں ہی محدود رہے گی۔
اور شرع سے متصادم، عورت کو حکمران بنانے والے سب ہی گنہگار ہوں گے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:
لن یفلح قوم ولو امرھم امرأۃ۔
بعض روایت میں یہ الفاظ ہیں:
لن یفلح قوم اسند وامرھم الی امرأۃ۔
اور بعض روایت میں ہے:
لن یفلح قوم تملکھم امرأۃ۔
اور ایک روایت میں ہے:
مخرج قوم الا یفلحون قائدھم امرأۃ فی الجنۃ۔ (اعلاء السنن ص ۳۱ ج ۵)
رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے ارشادات میں اس امر کی صراحت کی ہے کہ عورت کی حکمرانی نہ صرف عدم فلاح اور ہلاکت کا موجب ہے بلکہ مردوں کے لیے موت سے بدتر ہے۔ ان میں سے چند احادیث ذیل میں درج کی جا رہی ہیں:
امام بخاریؒ کتاب المغازی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کی خبر دی گئی کہ فارس کے لوگوں نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا حکمران بنا لیا ہے تو آنحضرتﷺ نے فرمایا:
- لن يُفْلِحَ قومٌ ولَّوْا أمرَهَمُ امرأَةً
وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی، جس نے حکمرانی کسی عورت کے سپرد کی ہو"۔
الراوي : أبو بكرة نفيع بن الحارث | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الجامع | الصفحة أو الرقم : 5225 | خلاصة حكم المحدث : صحيح | التخريج : أخرجه البخاري (4425)
- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا كانت أمراؤكم خيارَكم وكان أغنياؤكم سمحاءَكم وكانت أموركُم شورى بينكم فظَهْرُ الأرضُ خيرٌ لكم من بطنها وإذا كانت أمراؤكم شرارُكم وكان أغنياؤكم بخلاءكم وكانت أمورُكم إلى نسائِكم فبطنُ الأرضِ خيرٌ لكم من ظهْرها
الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن جرير الطبري | المصدر : مسند عمر
الصفحة أو الرقم : 1/113 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
التخريج : أخرجه الترمذي (2266)، والبزار (9529)، وأبو نعيم في ((حلية الأولياء)) (6/176)
’’جب تمہارے حکمران تم میں سے اچھے لوگ ہوں، تمہارے مالدار سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشورہ سے طے پائیں تو تمہارے لیے زمین کی پشت اس کے پیٹ سے بہتر ہے۔ اور جب تمہارے حکمران تم میں سے برے لوگ ہوں، تمہارے مال دار بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہو جائیں تو تمہارے لیے زمین کا پیٹ اس کی پشت سے ہے۔‘‘
امام حاکمؒ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے اور اس کی سند کو امام ذہبی نے صحیح تسلیم کیا ہے کہ جناب رسول اکرمؐ کی خدمت میں مسلمانوں کا ایک لشکر فتح و نصرت حاصل کر کے آیا اور اپنی فتح کی رپورٹ پیش کی۔ آنحضرتؐ نے مجاہدین سے جنگ کے احوال اور ان کی فتح کے ظاہری اسباب دریافت کیے تو آپؐ کو بتایا گیا کہ کفار کے لشکر کی قیادت ایک خاتون کر رہی تھی۔ اس پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
- ھَلَکَتِ الـرِّجَالُ حِـیْنَ اَطَاعَتِ النِّسَآءَ۔
(مستدرک حاکم ج ۴ ص ۲۹۱)
مرد جب عورتوں کی اطاعت قبول کریں گے تو ہلاکت میں پڑیں گے۔
- علامہ ابن حجر الہتیمیؒ حضرت ابوبکرؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ کی مجلس میں ملکہ سبا بلقیسؓ کا ایک دفعہ ذکر ہوا تو آنحضرتؐ نے فرمایا:
لَا یُـقْدِسَ اللّٰەُ اُمَّـةً قَادَتْـھُمْ اِمْـرَاَۃٌ۔
(مجمع الزوائد ج ۵ ص ۲۱۰)
اللہ تعالیٰ اس قوم کو پاکیزگی عطا نہیں فرماتا جس کی قیادت عورت کر رہی ہو۔
- امام طبرانیؒ حضرت جابر بن سمرۃؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا:
لَنْ یُّـفْلِحَ قَوْمٌ یَمْلِکُ رَاْبَـھُمْ اِمْرَاَۃٌ۔ (مجمع الزوائد ج ۵ ص ۲۰۹)
وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جن کی رائے کی مالک عورت ہو۔
- امام ابوداؤد طیاسیؒ حضرت ابوبکرؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآبؐ نے فرمایا:
لَنْ یُّـفْلِحَ قَوْمٌ اَسْنَدُوْا اَمْرَھُمْ اِلٰی اِمْرَاَۃٍ۔ (طیاسی ص ۱۱۸)
وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جس نے اپنی حکمرانی عورت کے حوالہ کر دی۔
- امام ابن الاثیرؒ اس روایت کو ان الفاظ سے نقل کرتے ہیں:
مَا اَفْلَحَ قَوْمٌ قَیِّمُھُمْ اِمْرَاَۃٌ ۔ (النہایۃ ج ۴ ص ۱۳۵)
وہ قوم کامیاب نہیں ہوگی جس کی منتظم عورت ہو۔
- مسند احمد میں ہے:
لَنْ یُّـفْلِحَ قَوْمٌ تَمْلِکُھُمْ اِمْرَاَۃٌ۔ (مسند احمد ج ۵ ص ۴۳)
وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جس کی حکمران عورت ہو۔
اجماع امت :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قاضی ابوبکر ابن العربیؒ حدیث بخاری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وھذا نص فی ان الامراۃ لا تکون خلیفۃ ولا خلاف فیہ۔ (احکام القرآن ص ۱۴۴۵ ج ۳)
’’یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ عورت خلیفہ نہیں ہو سکتی اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘
ابن العربی کا یہ اقتباس علامہ قرطبی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل فرمایا ہے اور اس کی تاکید فرمائی ہے، ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ علماء کے درمیان اس میں اختلاف نہیں ہے۔
ان ہی اسباب و وجوہ کی بنا پر کسی اسلامی مملکت میں عورت کی حکمرانی و سربراہی موجب عدم فلاح اور علماء، محدثین و فقہائے کرام کے نزدیک بالاتفاق ناجائز ہے
علامہ بغویؒ جو مشہور مفسر و محدث گزرے ہیں وہ لکھتے ہیں:
اتفقوا علی ان المراۃ لا تصلح ان تکون امامًا لان الامام یحتاج الی الخروج لاقامۃ امر الجہاد والقیام بأمر المسلمین ۔۔۔ والمرأۃ عورۃ لا تصلح المبروز (شرح السنۃ للبغوی ص ۷۷ ج ۱۰ ۔ باب کراھیۃ تولیۃ النساء)
’’امت کا اس پر اتفاق ہے کہ عورت حکومت کی سربراہ نہیں بن سکتی کیونکہ امام کو جہاد کے معاملات انجام دینے اور مسلمانوں کے معاملات نمٹانے کے لیے باہر نکلنے کی ضرورت پڑتی ہے اور عورت پوشیدہ (پردہ میں) رہنی چاہیئے، مجمع عام میں اس کا جانا جائز نہیں۔‘‘
علامہ ابن حزمؒ نے اجماعی مسائل پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں وہ تحریر فرماتے ہیں:
واتفقوا ان الامامۃ لا تجوز لامراۃ۔ (مراتب الاجماع لابن تیمیہ ص ۱۲۶)
’’تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ حکومت کی سربراہی کسی عورت کے لیے جائز نہیں۔‘‘
نویں صدی ہجری کا ایک واقعہ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ مصر میں بنی ایوب خاندان کی ایک خاتون ’’شجرۃ الدر‘‘ حکمران بن گئی۔ اس وقت بغداد میں خلیفہ ابوجعفر مستنصر باللہؒ کی حکومت تھی، انہوں نے یہ واقعہ معلوم ہونے پر امراء کے نام تحریری پیغام بھیجا کہ
اعلمونا ان کان ما بقی عند کم فی مصر من الرجال من یصلح للسلطنۃ فنحن نرسل لکم من یصلح لھا اما سمعتم فی الحدیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لا افلح قوم ولوا امرھم امراۃ۔ (اعلام السناء ج ۲ ص ۲۸۶)
ہمیں بتاؤ اگر تمہارے پاس مصر میں حکمرانی کے اہل مرد باقی نہیں رہے تو ہم یہاں سے بھیج دیتے ہیں۔ کیا تم نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ وہ قوم کامیاب نہیں ہوگی جس نے اپنا حکمران عورت کو بنا لیا۔
خلیفہ وقت کے اس پیغام پر ’’شجرۃ الدر‘‘ منصب سے معزول ہوگئی اور اس کی جگہ سپہ سالار کو مصر کا حکمران بنا لیا گیا
امام بغویؒ (شرح السنۃ ج ۷۷) میں فرماتے ہیں کہ سب علماء کا اتفاق ہے کہ عورت حکمران نہیں بن سکتی۔
امام ابوبکر بن العربیؒ (احکام القرآن ج ۳ ص ۴۴۵) حضرت ابوبکرؓ والی حدیث نقل کر کے فرماتے ہیں:
وھذا نص فی الامراۃ لا تکون خلیفۃ ولا خلاف فیہ۔
یہ حدیث اس بارے میں نص ہے کہ عورت خلیفہ نہیں بن سکتی اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔
امام ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں:
اجمع المسلمون علیہ۔ (حجۃ اللہ البالغہ ج ۲ ص ۱۴۹)
مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے۔
امام الحرمین الجوینیؒ فرماتے ہیں:
واجمعوا ان المراۃ لایجوز ان تکونا اماما۔ (الارشاد فی اصول الاعتقاد ص ۲۵۹)
اور علماء کا اس پر اجماع ہے کہ عورت کا حکمران بننا جائز نہیں۔
حافظ ابن حزمؒ امت کے اجماعی مسائل کے بارے میں اپنی معروف کتاب ’’مراتب الاجماع‘‘ میں فرماتے ہیں:
واتفقوا ان الامامۃ لا تجوز لامراۃ۔ (مراتب الاجماع ص ۱۲۶)
اور علماء کا اتفاق ہے کہ حکمرانی عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔
دورِ حاضر کے معروف محقق ڈاکٹر منیر عجلانی لکھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں میں سے کسی عالم کو نہیں جانتے جس نے عورت کی حکمرانی کو جائز کہا ہو۔
فالاجماع فی ھذہ القضیۃ تام لم یشذ عنہ۔ (عبقریۃ الاسلام فی اصول الحکم ص ۷۰)
اس مسئلہ میں اجتماع اتنا مکمل ہے کہ اس سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔
پاکستان میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے ۱۹۵۱ء میں ۲۲ دستوری نکات پر اتفاق کیا اور ان میں حکومت کے سربراہ کے لیے مرد کی شرط کو لازمی قرار دیا۔(عورت کی حکمرانی کی شرعی حیثیت : ابوعمار زاھدالراشدی )
مختلف مذہبی طبقہ فکر :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقہ حنفی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقہ حنفی کی معروف و مستند کتاب ’’الدر المختار‘‘ اور اس کی شرح ’’رد المحتار‘‘ میں اس امر کی تصریح ہے کہ حکمران کے لیے دوسری شرائط کے ساتھ مرد ہونا بھی ضروری ہے اور
لا یصح تقریر المراۃ فی وظیفۃ الامامۃ۔ (شامی ج ۴ ص ۳۹۵، ج ۱ ص ۵۱۲)
عورت کو حکمرانی کے کام پر مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔
فقہ شافعی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقہ شافعیؒ کی مستند کتاب ’’المجموع شرح المہذب‘‘ میں لکھا ہے:
القضاء لایجوز لامراۃ۔
قضا کا منصب عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔
فقہ حنبلی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقہ حنبلیؒ کی مستند کتاب المغنی (ج ۱۱ ص ۳۸۰) میں ہے:
المراۃ لا تصلح للامامۃ ولا لتولیۃ البلد ان ولھذا لم یول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا احد من خلفاء ولا من بعدھم قضاء ولا ولایۃ ولو جاز ذلک لم تخل منہ جمیع الزمان غالباً۔
عورت نہ ملک کی حاکم بن سکتی ہے اور نہ شہروں کی حاکم بن سکتی ہے۔ اسی لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت کو مقرر نہیں کیا، نہ ان کے خلفاء نے کسی کو مقرر کیا اور نہ ہی ان کے بعد والوں نے قضا یا حکمرانی کے کسی منصب پر کسی عورت کو فائز کیا اور اگر اس کا کوئی جواز ہوتا تو یہ سارا زمانہ اس سے خالی نہ ہوتا۔
فقہ مالکی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقہ مالکیؒ کی مستند کتاب ’’منحۃ الجلیل‘‘ میں نماز کی امامت، لوگوں کے درمیان فیصلوں، اسلام کی حفاظت، حدود شرعیہ کے نفاذ اور جہاد جیسے احکام کی بجا آوری کے لیے شرائط بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
فیشترط فیہ العدالہ والذکورۃ والفطنۃ والعلم۔
پس اس کے لیے شرط ہے کہ عادل ہو، مرد ہو، سمجھدار ہو اور عالم ہو۔
فقہ ظاہری :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل ظاہر کے معروف امام حافظ ابن حزمؒ فرماتے ہیں:
ولا خلاف بین واحد فی انھا لاتجوز لامراۃ۔ (المحلی ج ۹ ص ۳۶۰۔ الملل ج ۴ ص ۱۶۷)
اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ حکمرانی عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔
اہل تشیع :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معروف شیعہ محقق الاستاذ الشیخ جعفر السبحانی لکھتے ہیں:
فقد اجمع علماء الامامیۃ کلھم علی عدم انعقاد القضاء للمراۃ وان استکملت جمیع الشرائط الاخریٰ۔ (معالم الحکومۃ الاسلامیۃ ص ۲۷۸)
امامیہ مکتب فکر کے تمام علماء کا اس امر پر اجماع ہے کہ قضاء کا منصب عورت کے سپرد کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ اس میں دوسری تمام شرائط پائی جاتی ہوں۔
اہل حدیث
معروف اہلحدیث عالم قاضی شوکانیؒ حضرت ابوبکرؓ والی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فیہ دلیل علی ان المراۃ لیست من اھل الولایات ولایحل لقوم تولیتھا۔ (نیل الاوطار ج ۸ ص ۲۷۴)
اس میں دلیل ہے کہ عورت حکمرانی کے امور کی اہل نہیں ہے اور کسی قوم کے لیے اس کو حکمران بنانا جائز نہیں ہے۔
الغرض قرآن کریم اور حدیث نبویؐ کی واضح نصوص، اجماع امت اور تمام مسلم مکاتب فکر کے فقہاء کے صریح ارشادات سے یہ بات بالکل بے غبار ہو جاتی ہے کہ کسی عورت کا مسلمان ملک میں حکمرانی کے منصب پر فائز ہونا شرعی طور پر بالکل ناجائز ہے۔
عورت کی سربراہی کے لیے جنگ جمل میں حضرت عائشہؓ کی شرکت سے استدلال :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض حضرات نے عورت کی سربراہی پر جنگِ جمل کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اس جنگ میں قیادت کی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو حضرت عائشہؓ نے کبھی قیادت کا دعوٰی کیا، نہ ان کے ساتھیوں نے آپ کو جنگ میں قائد و سربراہ بنایا، نہ ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت عائشہؓ کا مقصد نہ کوئی سیاست و حکومت تھی نہ ہی وہ جنگ کرنے کے ارادہ سے نکلی تھیں بلکہ روایات سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ محض حضرت عثمانؓ کے قصاص کے جائز مطالبے کی تقویت اور اس سلسلہ میں مسلمانوں کے درمیان مصالحت کرانے کے مقصد سے گئی تھیں۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
’’جب حضرت عائشہؓ بصرہ جا رہی تھیں تو راستہ میں ایک جگہ قیام کیا، رات میں وہاں کتے بھونکنے لگے۔ حضرت عائشہؓ نے لوگوں سے پوچھا یہ کون سا مقام ہے؟ لوگوں نے بتایا ’’حؤاب‘‘ نامی چشمہ ہے۔ حوأب کا نام سنتے ہی حضرت عائشہؓ چونک اٹھیں، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ہم ازواج مطہرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم میں سے ایک کا اس وقت کیا حال ہو گا جب اس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے؟‘‘ (مسند احمد ص ۵۲ ج ۱)
حضرت عائشہؓ نے حوأب کا نام سن کر آگے جانے سے انکار کر دیا اور اپنے ساتھیوں سے اصرار کیا کہ مجھے مدینہ واپس لوٹا دو لیکن بعض حضرات نے آپ کو چلنے کے لیے اصرار کیا اور کہا کہ آپ کی وجہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح ہو جائے گی۔ بہرحال حضرت عائشہؓ نے دوبارہ سفر شروع کیا اور بصرہ پہنچیں اور جو مقدّر تھا وہ پیش آیا۔ (البدایہ والنہایہ ص ۱۳۱ ج ۷)
عورت کی سربراہی پر ملکہ سبا بلقیس کے واقعہ سے استدلال :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس بارے میں مولانا مفتی حبیب الرحمٰن خیرآبادی لکھتے ہیں :
کچھ لوگ عورت کی سربراہی پر جواز کے لیے ملکۂ سبا یعنی بلقیس کی حکمرانی کا واقعہ پیش کرتے ہیں یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط لکھنے پر جب وہ مطیع اور فرمانبردار ہو کر آگئی اور اسلام قبول کر لیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی بادشاہت کو برقرار رکھا جیسا کہ بعض کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے، حالانکہ قرآن پاک کے الفاظ پر نظر ڈالنے سے معاملہ برعکس معلوم ہوتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کی حکومت تسلیم نہیں کی بلکہ اس کے نام جو خط لکھا اس کے الفاظ یہ ہیں:
انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ان لا تعلوا علیّ واتونی مسلمین۔ (نمل)
’’یعنی تم میرے مقابلہ میں سر نہ اٹھاؤ اور میرے پاس میری مطیع اور فرمانبردار بن کر آجاؤ۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی حکومت کو نہ صرف یہ کہ تسلیم نہیں فرمایا بلکہ اسے اپنا ماتحت بن کر آنے کا حکم دیا، نیز اس کا بھیجا ہوا تحفہ قبول نہیں فرمایا، اس کا تختہ بھی اٹھوا کر منگوا لیا، اس کی ہیئت بھی بدل ڈالی اور بلقیس جب حضرت سلیمانؑ کے محل میں آئی تو اس نے کہا:
’’پروردگار! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کے آگے جھک گئی۔‘‘ (نمل ۴۴)
قرآن پاک کے بیان سے دور تک بھی بلقیس کی سربراہی اور اس کی حکومت برقرار رکھنے کا شائبہ تک نظر نہیں آتا، بلکہ قرآن کے پڑھنے سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے اسلام کے بعد اس کی حکومت کو جائز نہیں رکھا نہ اسے تسلیم فرمایا بلکہ اس کی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔
فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
مزید مفصل مواد کے لیے درج ذیل پی ڈی ایف مطالعہ کیجیے :
https://kitabosunnat.com/kutub-library/oratkisarbrahikaislammekoitasawwarnahi
https://kitabosunnat.com/kutub-library/aourat-ki-sarbrahi-quran-w-sunnat-ki-roshni-me