find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Kya Ek Aurat Kisi Riyasat, Mulk ka Hakim Ban Sakti hai? Can a women be a PM, cM and Head of State in Islam?

Islam me Aurat ki Sarbarahi ke bare me kya kaha gaya hai?

Kya Aurat PM, CM, DM ban sakti hai?
Kya Mulk ka Hakim Ek Aurat ban sakti hai?


اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️ : مسز انصاری ۔۔۔۔۔۔۔

بلا شبہ پاکستان کا طرزِ حکومت جمہوری ہے اور خود پاکستان کی عوام آمریت کی مخالف اور جمہوریت پسند عوام ہے، اور واضح رہے کہ مغربی جمہوریت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، جمہوریت میں تو حکمران کا مسلمان ہونا یا مرد ہونا ہی ضروری نہیں ،  حاکمیت کے لیے مرد و زن کی بھی تخصیص نہیں ہوتی  ۔
اگر جمہوریت کی تاریخ اور سفر کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ یہ ہمیشہ جنگوں اور خانۂ جنگی کے بعد (Colonolization) اور اقتصادی بحرانوں کے نتیجے میں ہی نافذ ہوئی۔ جیسے جنگ عظیم اول کے بعد آسٹریا، ہنگری اور ترکی وغیرہ میں، جنگ عظیم دوم کے بعد جرمنی اور جاپان میں، ’’کلو نائیزیشن‘‘ کے بعد ہندوستان اور پاکستان میں، اقتصادی بحرانوں کے بعد روس اور ایسٹ یورپ میں ۔ موجودہ دور میں ہم نے دیکھا کہ2001ء میں ڈیڑھ مہینے کی شدید بمباری کے بعد میں افغانستان اور پھر 2003ء میں اسی طرح عراق میں جمہوریت نافذ کی گئی اور یوں جمہوریت کے نفاذ کے لئے ہمیں دو خونریز جنگیں دیکھنی پڑیں اور اب مشرق وسطیٰ میں اسی جمہوریت کے نفاذ کے لئے بھی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ پس جان لیجئے کہ کہ موجودہ جمہوریت کبھی بھی جمہوری اصولوں پر رائج نہیں ہوئی(ابو معاذ القرنی)

لہٰذا مغربی جمہوری طرزِ حکومت میں عورت کی سربراہی کو اسلامی اصولوں کے خلاف قرار دینا اسلامی اصولوں کی تشریح و تعبیر نہیں بلکہ یہ اسلامی اوامر میں تحریف اور اسلامی اصولوں سے انحراف ہے ۔
لہٰذا عورت کی سربراہی کا عدم جواز اسلامی نظامِ حکومت سے مشروط ہے، اور یہ بھی ملحوظ رکھا جائے کہ اسلامی نظام کے لیے زندگی کے تمام شعبوں میں شریعت کی بالفعل بالادستی اولین شرط ہے ، پاکستان میں سربراہی محترمہ بےنظیر بھٹو صاحبہ کی ہو یا محترمہ مریم نواز صاحبہ کی، مغرب کے سیلیولر ڈیموکریسی سسٹم میں تو جائز ہوسکتی ہے مگر اسلامی نظام میں نہیں ۔

لیکن قطع نظر مغربی جمہوریت کی ان دفعات کے جب ہم پاکستان کے آئین کی طرف جاتے ہیں تو ہمیں واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی جمہوریت مغربی جمہوریت سے یکسر جدا حیثیت رکھتی ہے، ان دستوری دفعات کا تجزیہ کیا جائے تو خود عورت کو حکمران بنانا آئین کی خلاف ورزی قرار پاتا ہے کیونکہ دستور میں کسی عورت کو صدر یا وزیراعظم بنائے جانے کا جواز صریحاً‌ مذکور نہیں ہے ، کیونکہ پاکستان کے آئین کی کئی دفعات لبرل ڈیموکریسی کے منافی ہیں مثلاً
- پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا۔۔۔۔۔
- پاکستان کا مملکتی مذہب اسلام ہوگا ۔۔۔۔۔
- صدر کے عہدے کے لیے مسلمان صدر لازم ہے ۔۔۔۔
- صدر اور وزیرِ اعظم دونوں کے حلف نامے میں توحید، ختم نبوت اور قرآن و سنت کی جملہ تعلیمات پر ایمان رکھنا اور اسلامی نظریے کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔۔
- پارلیمنٹ کے مسلم اراکین کے لیے شرائط ہیں کہ وہ

1- اسلامی احکامات سے انحراف کرنے میں مشہور نا ہوں
2- اسلام کے فرائض کے پابند ہوں ۔
3- کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے والے ہوں ۔
4- فاسق نا ہوں ۔
5- اسلامی تعلیمات کا علم رکھتے ہوں ۔

اسی طرح دستور میں اسلامی احکام سے متعلق دفعات بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ آئینِ پاکستان میں جمہوریت کے مفہوم کو اختیار نہیں کیا گیا ۔ لہٰذا ایسی شخصی حکومت جس کے آئین کی خاص دفعات اسلامی ہوں، جس میں اقتدارِ اعلیٰ مسلمان ہو اور اسے کلی اختیارات حاصل ہوتے ہیں، ایسی حکومت کی سربراہ عورت کو بنانا عدمِ فلاح کا موجب ہے

کتاب وسنت اورجمہور علمائے امت کے فیصلوں کی روشنی میں عورت کی حکمرانی کو قطعاً حرام اور ناجائز سمجھتے ہیں اسلام میں عورت کی سر براہی کی قطعاًکوئی گنجائش نہیں ۔ خاتون کو ملک یا جماعت کا سربراہ بنانے کی اللہ تعالیٰ یا اس کے رسولﷺنے اجازت نہیں دی ہے , اسلامی قوانین کی رو سے بتقاضہ عورتوں کی کچھ فطرتی عقلی کمزوریوں اور شرعی حدود کے پیش نظر مسلمان عورت کسی ملک کی سربراہ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی اور نہ ہی قاضی بن سکتی ہے، کیونکہ ان دونوں عہدوں کے فرائض کی ادائیگی کے لیے ، اور ان کے حقوق ادا کرنے کے لئے عورت کو کھلے عام عوام کے درمیان آنا پڑتا ہے تاکہ مسلم معاشرے اور عوام کے معاملات نمٹائے جائیں، جبکہ نا تو عورت مردوں کے شانہ بشانہ مجالس و تقاریب میں حاضر ہوسکتی ہے اور نہ ہی سکیورٹی اور پروٹوکول کی مجبوریوں کے پیش نظر ہمہ وقت اجنبی مردوں سے اختلاط کر سکتی ہے ، جبکہ سنن الترمذی میں ہے:
’’عَنْ عَبْدِ اللہِ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْمَرْاَۃُ عَوْرَۃٌ، فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَہَا الشَّیْطَانُ۔‘‘                              (سنن الترمذی ، رقم الحدیث:۱۱۷۳)
ترجمہ: ’’حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: عورت سراپا پردہ ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانکتا ہے۔‘‘
عورت کو پردے کا حکم ہے ، اور اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ عورت پردے میں رہے ، جتنا عورت پردے میں رہتی ہے اور جتنا زیادہ اپنے آپ کو نا محرم مردوں سے مخفی رکھتی ہے تو اتنا ہی اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہوتا ہے
یا ایھالناس !! اہل خرد جانتے ہیں کہ مسلم مملکت میں جب بحیثیت مسلمان کوئی حکمرانی قائم کرنا ہماری غرض وغایت اور فلاح وبہبود کے مقاصد ہوں تو اس فلاح وبہبود کا طریقہ وذریعہ ازروئے اسلام صرف دو ہی چیزیں ہیں ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب اور دوسری رسول اللہﷺ کی سنت وحدیث۔

اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں صراحت کر دی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی پیغمبر بھیجے گئے وہ سب مرد تھے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

- اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰەُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ۔
’’مرد حکمران ہیں عورتوں پر، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔‘‘

- وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْ اِلَیْھِمْ۔
’’اور ہم نے آپؐ سے قبل رسول بنا کر نہیں بھیجا مگر صرف مردوں کو جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔‘‘

عورت کی سربراہی احادیث کی نظر میں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب نبی صرف اور صرف مرد آئے ہیں تو ان کی نیابت بھی صرف مردوں میں ہی محدود رہے گی۔
اور شرع سے متصادم، عورت کو حکمران بنانے والے سب ہی گنہگار ہوں گے جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:

لن یفلح قوم ولو امرھم امرأۃ۔

بعض روایت میں یہ الفاظ ہیں:

لن یفلح قوم اسند وامرھم الی امرأۃ۔

اور بعض روایت میں ہے:

لن یفلح قوم تملکھم امرأۃ۔

اور ایک روایت میں ہے:

مخرج قوم الا یفلحون قائدھم امرأۃ فی الجنۃ۔ (اعلاء السنن ص ۳۱ ج ۵)

رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے ارشادات میں اس امر کی صراحت کی ہے کہ عورت کی حکمرانی نہ صرف عدم فلاح اور ہلاکت کا موجب ہے بلکہ مردوں کے لیے موت سے بدتر ہے۔ ان میں سے چند احادیث ذیل میں درج کی جا رہی ہیں:

امام بخاریؒ کتاب المغازی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس بات کی خبر دی گئی کہ فارس کے لوگوں نے کسریٰ کی بیٹی کو اپنا حکمران بنا لیا ہے تو آنحضرتﷺ نے فرمایا:

- لن يُفْلِحَ قومٌ ولَّوْا أمرَهَمُ امرأَةً
وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی، جس نے حکمرانی کسی عورت کے سپرد کی ہو"۔

الراوي : أبو بكرة نفيع بن الحارث | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الجامع | الصفحة أو الرقم : 5225 | خلاصة حكم المحدث : صحيح | التخريج : أخرجه البخاري (4425)

- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا كانت أمراؤكم خيارَكم وكان أغنياؤكم سمحاءَكم وكانت أموركُم شورى بينكم فظَهْرُ الأرضُ خيرٌ لكم من بطنها وإذا كانت أمراؤكم شرارُكم وكان أغنياؤكم بخلاءكم وكانت أمورُكم إلى نسائِكم فبطنُ الأرضِ خيرٌ لكم من ظهْرها
الراوي : أبو هريرة | المحدث : ابن جرير الطبري | المصدر : مسند عمر
الصفحة أو الرقم : 1/113 | خلاصة حكم المحدث : إسناده صحيح
التخريج : أخرجه الترمذي (2266)، والبزار (9529)، وأبو نعيم في ((حلية الأولياء)) (6/176)

’’جب تمہارے حکمران تم میں سے اچھے لوگ ہوں، تمہارے مالدار سخی ہوں اور تمہارے معاملات باہمی مشورہ سے طے پائیں تو تمہارے لیے زمین کی پشت اس کے پیٹ سے بہتر ہے۔ اور جب تمہارے حکمران تم میں سے برے لوگ ہوں، تمہارے مال دار بخیل ہوں اور تمہارے معاملات عورتوں کے سپرد ہو جائیں تو تمہارے لیے زمین کا پیٹ اس کی پشت سے ہے۔‘‘

امام حاکمؒ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے اور اس کی سند کو امام ذہبی نے صحیح تسلیم کیا ہے کہ جناب رسول اکرمؐ کی خدمت میں مسلمانوں کا ایک لشکر فتح و نصرت حاصل کر کے آیا اور اپنی فتح کی رپورٹ پیش کی۔ آنحضرتؐ نے مجاہدین سے جنگ کے احوال اور ان کی فتح کے ظاہری اسباب دریافت کیے تو آپؐ کو بتایا گیا کہ کفار کے لشکر کی قیادت ایک خاتون کر رہی تھی۔ اس پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

- ھَلَکَتِ الـرِّجَالُ حِـیْنَ اَطَاعَتِ النِّسَآءَ۔
(مستدرک حاکم ج ۴ ص ۲۹۱)
مرد جب عورتوں کی اطاعت قبول کریں گے تو ہلاکت میں پڑیں گے۔

- علامہ ابن حجر الہتیمیؒ حضرت ابوبکرؓ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ کی مجلس میں ملکہ سبا بلقیسؓ کا ایک دفعہ ذکر ہوا تو آنحضرتؐ نے فرمایا:

لَا یُـقْدِسَ اللّٰەُ اُمَّـةً قَادَتْـھُمْ اِمْـرَاَۃٌ۔
(مجمع الزوائد ج ۵ ص ۲۱۰)
اللہ تعالیٰ اس قوم کو پاکیزگی عطا نہیں فرماتا جس کی قیادت عورت کر رہی ہو۔

- امام طبرانیؒ حضرت جابر بن سمرۃؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا:

لَنْ یُّـفْلِحَ قَوْمٌ یَمْلِکُ رَاْبَـھُمْ اِمْرَاَۃٌ۔ (مجمع الزوائد ج ۵ ص ۲۰۹)
وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جن کی رائے کی مالک عورت ہو۔

- امام ابوداؤد طیاسیؒ حضرت ابوبکرؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جناب رسالت مآبؐ نے فرمایا:

لَنْ یُّـفْلِحَ قَوْمٌ اَسْنَدُوْا اَمْرَھُمْ اِلٰی اِمْرَاَۃٍ۔ (طیاسی ص ۱۱۸)
وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جس نے اپنی حکمرانی عورت کے حوالہ کر دی۔

- امام ابن الاثیرؒ اس روایت کو ان الفاظ سے نقل کرتے ہیں:

مَا اَفْلَحَ قَوْمٌ قَیِّمُھُمْ اِمْرَاَۃٌ ۔ (النہایۃ ج ۴ ص ۱۳۵)
وہ قوم کامیاب نہیں ہوگی جس کی منتظم عورت ہو۔

- مسند احمد میں ہے:

لَنْ یُّـفْلِحَ قَوْمٌ تَمْلِکُھُمْ اِمْرَاَۃٌ۔ (مسند احمد ج ۵ ص ۴۳)
وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جس کی حکمران عورت ہو۔

اجماع امت :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قاضی ابوبکر ابن العربیؒ حدیث بخاری کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وھذا نص فی ان الامراۃ لا تکون خلیفۃ ولا خلاف فیہ۔ (احکام القرآن ص ۱۴۴۵ ج ۳)
’’یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ عورت خلیفہ نہیں ہو سکتی اور اس میں کوئی اختلاف نہیں۔‘‘

ابن العربی کا یہ اقتباس علامہ قرطبی نے بھی اپنی تفسیر میں نقل فرمایا ہے اور اس کی تاکید فرمائی ہے، ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ علماء کے درمیان اس میں اختلاف نہیں ہے۔
ان ہی اسباب و وجوہ کی بنا پر کسی اسلامی مملکت میں عورت کی حکمرانی و سربراہی موجب عدم فلاح اور علماء، محدثین و فقہائے کرام کے نزدیک بالاتفاق ناجائز ہے

علامہ بغویؒ جو مشہور مفسر و محدث گزرے ہیں وہ لکھتے ہیں:

اتفقوا علی ان المراۃ لا تصلح ان تکون امامًا لان الامام یحتاج الی الخروج لاقامۃ امر الجہاد والقیام بأمر المسلمین ۔۔۔ والمرأۃ عورۃ لا تصلح المبروز (شرح السنۃ للبغوی ص ۷۷ ج ۱۰ ۔ باب کراھیۃ تولیۃ النساء)

’’امت کا اس پر اتفاق ہے کہ عورت حکومت کی سربراہ نہیں بن سکتی کیونکہ امام کو جہاد کے معاملات انجام دینے اور مسلمانوں کے معاملات نمٹانے کے لیے باہر نکلنے کی ضرورت پڑتی ہے اور عورت پوشیدہ (پردہ میں) رہنی چاہیئے، مجمع عام میں اس کا جانا جائز نہیں۔‘‘

علامہ ابن حزمؒ نے اجماعی مسائل پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے اس میں وہ تحریر فرماتے ہیں:

واتفقوا ان الامامۃ لا تجوز لامراۃ۔ (مراتب الاجماع لابن تیمیہ ص ۱۲۶)
’’تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ حکومت کی سربراہی کسی عورت کے لیے جائز نہیں۔‘‘

نویں صدی ہجری کا ایک واقعہ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ مصر میں بنی ایوب خاندان کی ایک خاتون ’’شجرۃ الدر‘‘ حکمران بن گئی۔ اس وقت بغداد میں خلیفہ ابوجعفر مستنصر باللہؒ کی حکومت تھی، انہوں نے یہ واقعہ معلوم ہونے پر امراء کے نام تحریری پیغام بھیجا کہ

اعلمونا ان کان ما بقی عند کم فی مصر من الرجال من یصلح للسلطنۃ فنحن نرسل لکم من یصلح لھا اما سمعتم فی الحدیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال لا افلح قوم ولوا امرھم امراۃ۔ (اعلام السناء ج ۲ ص ۲۸۶)
ہمیں بتاؤ اگر تمہارے پاس مصر میں حکمرانی کے اہل مرد باقی نہیں رہے تو ہم یہاں سے بھیج دیتے ہیں۔ کیا تم نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نہیں سنا کہ وہ قوم کامیاب نہیں ہوگی جس نے اپنا حکمران عورت کو بنا لیا۔

خلیفہ وقت کے اس پیغام پر ’’شجرۃ الدر‘‘ منصب سے معزول ہوگئی اور اس کی جگہ سپہ سالار کو مصر کا حکمران بنا لیا گیا

امام بغویؒ (شرح السنۃ ج ۷۷) میں فرماتے ہیں کہ سب علماء کا اتفاق ہے کہ عورت حکمران نہیں بن سکتی۔

امام ابوبکر بن العربیؒ (احکام القرآن ج ۳ ص ۴۴۵) حضرت ابوبکرؓ والی حدیث نقل کر کے فرماتے ہیں:

وھذا نص فی الامراۃ لا تکون خلیفۃ ولا خلاف فیہ۔
یہ حدیث اس بارے میں نص ہے کہ عورت خلیفہ نہیں بن سکتی اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

امام ولی اللہ دہلویؒ فرماتے ہیں:

اجمع المسلمون علیہ۔ (حجۃ اللہ البالغہ ج ۲ ص ۱۴۹)
مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے۔

امام الحرمین الجوینیؒ فرماتے ہیں:

واجمعوا ان المراۃ لایجوز ان تکونا اماما۔ (الارشاد فی اصول الاعتقاد ص ۲۵۹)
اور علماء کا اس پر اجماع ہے کہ عورت کا حکمران بننا جائز نہیں۔

حافظ ابن حزمؒ امت کے اجماعی مسائل کے بارے میں اپنی معروف کتاب ’’مراتب الاجماع‘‘ میں فرماتے ہیں:

واتفقوا ان الامامۃ لا تجوز لامراۃ۔ (مراتب الاجماع ص ۱۲۶)
اور علماء کا اتفاق ہے کہ حکمرانی عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔

دورِ حاضر کے معروف محقق ڈاکٹر منیر عجلانی لکھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں میں سے کسی عالم کو نہیں جانتے جس نے عورت کی حکمرانی کو جائز کہا ہو۔

فالاجماع فی ھذہ القضیۃ تام لم یشذ عنہ۔ (عبقریۃ الاسلام فی اصول الحکم ص ۷۰)
اس مسئلہ میں اجتماع اتنا مکمل ہے کہ اس سے کوئی بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔

پاکستان میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے ۱۹۵۱ء میں ۲۲ دستوری نکات پر اتفاق کیا اور ان میں حکومت کے سربراہ کے لیے مرد کی شرط کو لازمی قرار دیا۔(عورت کی حکمرانی کی شرعی حیثیت : ابوعمار زاھدالراشدی )

مختلف مذہبی طبقہ فکر :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقہ حنفی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقہ حنفی کی معروف و مستند کتاب ’’الدر المختار‘‘ اور اس کی شرح ’’رد المحتار‘‘ میں اس امر کی تصریح ہے کہ حکمران کے لیے دوسری شرائط کے ساتھ مرد ہونا بھی ضروری ہے اور

لا یصح تقریر المراۃ فی وظیفۃ الامامۃ۔ (شامی ج ۴ ص ۳۹۵، ج ۱ ص ۵۱۲)
عورت کو حکمرانی کے کام پر مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔

فقہ شافعی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فقہ شافعیؒ کی مستند کتاب ’’المجموع شرح المہذب‘‘ میں لکھا ہے:

القضاء لایجوز لامراۃ۔
قضا کا منصب عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔

فقہ حنبلی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقہ حنبلیؒ کی مستند کتاب المغنی (ج ۱۱ ص ۳۸۰) میں ہے:

المراۃ لا تصلح للامامۃ ولا لتولیۃ البلد ان ولھذا لم یول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ولا احد من خلفاء ولا من بعدھم قضاء ولا ولایۃ ولو جاز ذلک لم تخل منہ جمیع الزمان غالباً۔
عورت نہ ملک کی حاکم بن سکتی ہے اور نہ شہروں کی حاکم بن سکتی ہے۔ اسی لیے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عورت کو مقرر نہیں کیا، نہ ان کے خلفاء نے کسی کو مقرر کیا اور نہ ہی ان کے بعد والوں نے قضا یا حکمرانی کے کسی منصب پر کسی عورت کو فائز کیا اور اگر اس کا کوئی جواز ہوتا تو یہ سارا زمانہ اس سے خالی نہ ہوتا۔

فقہ مالکی :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فقہ مالکیؒ کی مستند کتاب ’’منحۃ الجلیل‘‘ میں نماز کی امامت، لوگوں کے درمیان فیصلوں، اسلام کی حفاظت، حدود شرعیہ کے نفاذ اور جہاد جیسے احکام کی بجا آوری کے لیے شرائط بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:

فیشترط فیہ العدالہ والذکورۃ والفطنۃ والعلم۔
پس اس کے لیے شرط ہے کہ عادل ہو، مرد ہو، سمجھدار ہو اور عالم ہو۔

فقہ ظاہری :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہل ظاہر کے معروف امام حافظ ابن حزمؒ فرماتے ہیں:

ولا خلاف بین واحد فی انھا لاتجوز لامراۃ۔ (المحلی ج ۹ ص ۳۶۰۔ الملل ج ۴ ص ۱۶۷)
اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ حکمرانی عورت کے لیے جائز نہیں ہے۔

اہل تشیع :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معروف شیعہ محقق الاستاذ الشیخ جعفر السبحانی لکھتے ہیں:

فقد اجمع علماء الامامیۃ کلھم علی عدم انعقاد القضاء للمراۃ وان استکملت جمیع الشرائط الاخریٰ۔ (معالم الحکومۃ الاسلامیۃ ص ۲۷۸)
امامیہ مکتب فکر کے تمام علماء کا اس امر پر اجماع ہے کہ قضاء کا منصب عورت کے سپرد کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ اس میں دوسری تمام شرائط پائی جاتی ہوں۔

اہل حدیث

معروف اہلحدیث عالم قاضی شوکانیؒ حضرت ابوبکرؓ والی روایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فیہ دلیل علی ان المراۃ لیست من اھل الولایات ولایحل لقوم تولیتھا۔ (نیل الاوطار ج ۸ ص ۲۷۴)
اس میں دلیل ہے کہ عورت حکمرانی کے امور کی اہل نہیں ہے اور کسی قوم کے لیے اس کو حکمران بنانا جائز نہیں ہے۔

الغرض قرآن کریم اور حدیث نبویؐ کی واضح نصوص، اجماع امت اور تمام مسلم مکاتب فکر کے فقہاء کے صریح ارشادات سے یہ بات بالکل بے غبار ہو جاتی ہے کہ کسی عورت کا مسلمان ملک میں حکمرانی کے منصب پر فائز ہونا شرعی طور پر بالکل ناجائز ہے۔

عورت کی سربراہی کے لیے جنگ جمل میں حضرت عائشہؓ کی شرکت سے استدلال :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض حضرات نے عورت کی سربراہی پر جنگِ جمل کے واقعہ سے استدلال کیا ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے اس جنگ میں قیادت کی تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ تو حضرت عائشہؓ نے کبھی قیادت کا دعوٰی کیا، نہ ان کے ساتھیوں نے آپ کو جنگ میں قائد و سربراہ بنایا، نہ ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔ حضرت عائشہؓ کا مقصد نہ کوئی سیاست و حکومت تھی نہ ہی وہ جنگ کرنے کے ارادہ سے نکلی تھیں بلکہ روایات سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ وہ محض حضرت عثمانؓ کے قصاص کے جائز مطالبے کی تقویت اور اس سلسلہ میں مسلمانوں کے درمیان مصالحت کرانے کے مقصد سے گئی تھیں۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:

’’جب حضرت عائشہؓ بصرہ جا رہی تھیں تو راستہ میں ایک جگہ قیام کیا، رات میں وہاں کتے بھونکنے لگے۔ حضرت عائشہؓ نے لوگوں سے پوچھا یہ کون سا مقام ہے؟ لوگوں نے بتایا ’’حؤاب‘‘ نامی چشمہ ہے۔ حوأب کا نام سنتے ہی حضرت عائشہؓ چونک اٹھیں، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ہم ازواج مطہرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ تم میں سے ایک کا اس وقت کیا حال ہو گا جب اس پر حوأب کے کتے بھونکیں گے؟‘‘ (مسند احمد ص ۵۲ ج ۱)

حضرت عائشہؓ نے حوأب کا نام سن کر آگے جانے سے انکار کر دیا اور اپنے ساتھیوں سے اصرار کیا کہ مجھے مدینہ واپس لوٹا دو لیکن بعض حضرات نے آپ کو چلنے کے لیے اصرار کیا اور کہا کہ آپ کی وجہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح ہو جائے گی۔ بہرحال حضرت عائشہؓ نے دوبارہ سفر شروع کیا اور بصرہ پہنچیں اور جو مقدّر تھا وہ پیش آیا۔ (البدایہ والنہایہ ص ۱۳۱ ج ۷)

عورت کی سربراہی پر ملکہ سبا بلقیس کے واقعہ سے استدلال :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بارے میں مولانا مفتی حبیب الرحمٰن خیرآبادی لکھتے ہیں :

کچھ لوگ عورت کی سربراہی پر جواز کے لیے ملکۂ سبا یعنی بلقیس کی حکمرانی کا واقعہ پیش کرتے ہیں یعنی حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط لکھنے پر جب وہ مطیع اور فرمانبردار ہو کر آگئی اور اسلام قبول کر لیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی بادشاہت کو برقرار رکھا جیسا کہ بعض کتابوں میں اس کا ذکر ملتا ہے، حالانکہ قرآن پاک کے الفاظ پر نظر ڈالنے سے معاملہ برعکس معلوم ہوتا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کی حکومت تسلیم نہیں کی بلکہ اس کے نام جو خط لکھا اس کے الفاظ یہ ہیں:

انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ان لا تعلوا علیّ واتونی مسلمین۔ (نمل)

’’یعنی تم میرے مقابلہ میں سر نہ اٹھاؤ اور میرے پاس میری مطیع اور فرمانبردار بن کر آجاؤ۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کی حکومت کو نہ صرف یہ کہ تسلیم نہیں فرمایا بلکہ اسے اپنا ماتحت بن کر آنے کا حکم دیا، نیز اس کا بھیجا ہوا تحفہ قبول نہیں فرمایا، اس کا تختہ بھی اٹھوا کر منگوا لیا، اس کی ہیئت بھی بدل ڈالی اور بلقیس جب حضرت سلیمانؑ کے محل میں آئی تو اس نے کہا:

’’پروردگار! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کے آگے جھک گئی۔‘‘ (نمل ۴۴)

قرآن پاک کے بیان سے دور تک بھی بلقیس کی سربراہی اور اس کی حکومت برقرار رکھنے کا شائبہ تک نظر نہیں آتا، بلکہ قرآن کے پڑھنے سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے اسلام کے بعد اس کی حکومت کو جائز نہیں رکھا نہ اسے تسلیم فرمایا بلکہ اس کی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

مزید مفصل مواد کے لیے درج ذیل پی ڈی ایف مطالعہ کیجیے :

https://kitabosunnat.com/kutub-library/oratkisarbrahikaislammekoitasawwarnahi

https://kitabosunnat.com/kutub-library/aourat-ki-sarbrahi-quran-w-sunnat-ki-roshni-me

Share:

Kya Namaj me Kalin par Sajda karna jaruri hai? Kya Zamin par Namaz padhna Jaruri hai?

Kya Namaz me Zamin par Sajda karna jaruri hai ya kalin par Namaj padh sakte hai?
Kya Lakri ke bane mej, rooui ke bane gadde ya kalin wagairah par Namaj padh sakte hai?
Aajkal bahut sare Masajid me aur Gharo me aeise Kaleen ya Gadde rakhe hote hai jo mote aur Narm (Soft) hote hai kya unpar Namaj padhna Durust hai.?

"سلسلہ سوال و جواب نمبر -384"
سوال_  کیا نماز میں زمین پر سجدہ کرنا ضروری ہے؟ اور لکڑی کے تختے/ روئی کے گدے یا قالین وغیرہ پر نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟ آجکل بہت سی مساجد اور گھروں میں ایسے قالین یا گدے بچھائے ہوتے ہیں جو موٹے اور نرم ہوتے ہیں کیا ان پر نماز پڑھنا درست ہے؟ برائے مہربانی مدلل جواب دیں.!

Published Date: 6-1-2024

جواب .!
الحمدللہ..!

*رسول اللہﷺ سے لکڑی کے تختے ، روئی کی چٹائیوں، بستروں اور کھجوروں کے پتوں کی صفوں پر نماز پڑھنا صحیح احادیث سے ثابت ہے،*

*چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں ان کے جواز پر الگ الگ باب باندھے ہیں، اور ان میں احادیث لائے ہیں،*

احادیث ملاحظہ فرمائیں..!

📚صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
18. بَابُ الصَّلاَةِ فِي السُّطُوحِ وَالْمِنْبَرِ وَالْخَشَبِ:
18. باب: چھت، منبر اور لکڑی پر نماز پڑھنے کے بارے میں۔

قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَلَمْ يَرَ الْحَسَنُ بَأْسًا أَنْ يُصَلَّى عَلَى الْجُمْدِ وَالْقَنَاطِرِ وَإِنْ جَرَى تَحْتَهَا بَوْلٌ أَوْ فَوْقَهَا أَوْ أَمَامَهَا إِذَا كَانَ بَيْنَهُمَا سُتْرَةٌ، وَصَلَّى أَبُو هُرَيْرَةَ عَلَى سَقْفِ الْمَسْجِدِ بِصَلَاةِ الْإِمَامِ، وَصَلَّى ابْنُ عُمَرَ عَلَى الثَّلْجِ.
‏‏‏‏ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا کہ امام حسن بصری برف پر اور پلوں پر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ خواہ اس کے نیچے، اوپر، سامنے پیشاب ہی کیوں نہ بہہ رہا ہو بشرطیکہ نمازی اور اس کے بیچ میں کوئی آڑ ہو اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر امام کی اقتداء میں نماز پڑھی (اور وہ نیچے تھا) اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے برف پر نماز پڑھی۔ 
[صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/قبل الحدیث:377]

📚حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، قَالَ: سَأَلُوا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، مِنْ أَيِّ شَيْءٍ الْمِنْبَرُ؟ فَقَالَ: مَا بَقِيَ بِالنَّاسِ أَعْلَمُ مِنِّي، هُوَ مِنْ أَثْلِ الْغَابَةِ، عَمِلَهُ فُلَانٌ مَوْلَى فُلَانَةَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" وَقَامَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عُمِلَ وَوُضِعَ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ كَبَّرَ وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ، فَقَرَأَ وَرَكَعَ وَرَكَعَ النَّاسُ خَلْفَهُ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى فَسَجَدَ عَلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ عَادَ إِلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالْأَرْضِ، فَهَذَا شَأْنُهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: سَأَلَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ رَحِمَهُ اللَّهُ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَإِنَّمَا أَرَدْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَكُونَ الْإِمَامُ أَعْلَى مِنَ النَّاسِ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ كَانَ يُسْأَلُ عَنْ هَذَا كَثِيرًا فَلَمْ تَسْمَعْهُ مِنْهُ، قَالَ: لَا.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا۔ کہا کہ لوگوں نے سہل بن سعد ساعدی سے پوچھا کہ منبرنبوی کس چیز کا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اب (دنیائے اسلام میں) اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا ہے۔ منبر غابہ کے جھاؤ سے بنا تھا۔ فلاں عورت کے غلام فلاں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا تھا۔ جب وہ تیار کر کے (مسجد میں) رکھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے اور آپ نے قبلہ کی طرف اپنا منہ کیا اور تکبیر کہی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ نے قرآن مجید کی آیتیں پڑھیں اور رکوع کیا۔ آپ کے پیچھے تمام لوگ بھی رکوع میں چلے گئے۔ پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر اسی حالت میں آپ الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ پھر زمین پر سجدہ کیا۔ پھر منبر پر دوبارہ تشریف لائے اور قرآت رکوع کی، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور قبلہ ہی کی طرف رخ کئے ہوئے پیچھے لوٹے اور زمین پر سجدہ کیا۔ یہ ہے منبر کا قصہ۔
[صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 377]

*منبر پر سجدہ کی جگہ نہیں تھی لہذا آپ نے نیچے اتر کر سجدہ کیا،*

📚حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَقَطَ عَنْ فَرَسِهِ، فَجُحِشَتْ سَاقُهُ أَوْ كَتِفُهُ وَآلَى مِنْ نِسَائِهِ شَهْرًا، فَجَلَسَ فِي مَشْرُبَةٍ لَهُ دَرَجَتُهَا مِنْ جُذُوعٍ، فَأَتَاهُ أَصْحَابُهُ يَعُودُونَهُ، فَصَلَّى بِهِمْ جَالِسًا وَهُمْ قِيَامٌ، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِيُؤْتَمَّ بِهِ، فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا، وَإِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا، وَنَزَلَ لِتِسْعٍ وَعِشْرِينَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ آلَيْتَ شَهْرًا، فَقَالَ: إِنَّ الشَّهْرَ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ"

ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا کہ کہا ہم سے یزید بن ہارون نے، کہا ہم کو حمید طویل نے خبر دی انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (5 ھ میں) اپنے گھوڑے سے گر گئے تھے۔ جس سے آپ کی پنڈلی یا کندھا زخمی ہو گئے اور آپ نے ایک مہینے تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی۔ آپ اپنے بالاخانہ پر بیٹھ گئے۔ جس کے زینے کھجور کے تنوں سے بنائے گئے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم مزاج پرسی کو آئے۔ آپ نے انہیں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور وہ کھڑے تھے۔۔۔۔۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انتیس دن بعد نیچے تشریف لائے، تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! آپ نے تو ایک مہینہ کے لیے قسم کھائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مہینہ انتیس دن کا ہے۔
(صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 378)

*یہاں ثابت ہوا کہ لکڑی کے تختے یا درختوں جھاڑیوں کی چھت وغیرہ پر نماز پڑھ سکتے،*

📚صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
22. بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الْفِرَاشِ:
22. باب: بچھونے پر نماز پڑھنا (جائز ہے)۔

وَصَلَّى أَنَسٌ عَلَى فِرَاشِهِ، وَقَالَ أَنَسٌ: كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَسْجُدُ أَحَدُنَا عَلَى ثَوْبِهِ.
‏‏‏‏ اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے بچھونے پر نماز پڑھی اور فرمایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے پھر ہم میں سے کوئی اپنے کپڑے پر سجدہ کر لیتا تھا۔ 
[صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/قبل الحدیث382]

📚حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ عِرَاكٍ، عَنْ عُرْوَةَ،" أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَعَائِشَةُ مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ عَلَى الْفِرَاشِ الَّذِي يَنَامَانِ عَلَيْهِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا ہم سے لیث بن سعد نے حدیث بیان کی یزید سے، انہوں نے عراک سے، انہوں نے عروہ بن زبیر سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بچھونے پر نماز پڑھتے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور عائشہ رضی اللہ عنہا سوتے اور عائشہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلہ کے درمیان اس بستر پر لیٹی رہتیں۔
 [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 384]

*اس حدیث سے ثابت ہوا کہ روئی دھاگے وغیرہ کے بستر پر نماز پڑھ سکتے ہیں*

📚صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
23. بَابُ السُّجُودِ عَلَى الثَّوْبِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ:
23. باب: سخت گرمی میں کپڑے پر سجدہ کرنا (جائز ہے)۔

وَقَالَ الْحَسَنُ: كَانَ الْقَوْمُ يَسْجُدُونَ عَلَى الْعِمَامَةِ وَالْقَلَنْسُوَةِ وَيَدَاهُ فِي كُمِّهِ.
‏‏‏‏ اور حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ لوگ عمامہ اور کنٹوپ پر سجدہ کیا کرتے تھے اور ان کے دونوں ہاتھ آستینوں میں ہوتے۔
 [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: قبل الحدیث 385]

📚حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنِي غَالِبٌ الْقَطَّانُ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّةِ الْحَرِّ فِي مَكَانِ السُّجُودِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ،
کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ پھر سخت گرمی کی وجہ سے کوئی کوئی ہم میں سے اپنے کپڑے کا کنارہ سجدے کی جگہ رکھ لیتا۔
 [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 385]

*اس سے پتہ چلا کہ کپڑے ،چادر وغیرہ پر سجدہ کر سکتے ہیں کوئی حرج نہیں*

📚صحيح البخاري
كِتَاب الصَّلَاةِ
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
20. بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى الْحَصِيرِ:
20. باب: بورئیے پر نماز پڑھنے کا بیان۔
چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَدَّتَهُ مُلَيْكَةَ دَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِطَعَامٍ صَنَعَتْهُ لَهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ، ثُمَّ قَالَ: «قُومُوا فَلِأُصَلِّ لَكُمْ» قَالَ أَنَسٌ: فَقُمْتُ إِلَى حَصِيرٍ لَنَا، قَدِ اسْوَدَّ مِنْ طُولِ مَا لُبِسَ، فَنَضَحْتُهُ بِمَاءٍ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَصَفَفْتُ وَاليَتِيمَ وَرَاءَهُ، وَالعَجُوزُ مِنْ وَرَائِنَا، فَصَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفَ۔

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری نانی ملیکہ نے نبیﷺ کو کھانے کی دعوت پر بلایا۔ آپ جب کھانا تناول فرما چکے تو فرمایا چلو میں تم کو نفل نماز پڑھا دوں۔ ہمارا بوریہ (چٹائی) کثرت استعمال کی وجہ سے میلی ہوچکی تھی، میں نے اسے پانی کے چھینٹے لگا دیے۔ آپ اس پر کھڑے ہو گئے، میں اور یتیم (ضمیرہ بن ابی ضمیرہ) آپﷺ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور بڑی بی (ملیکہ رضی اللہ عنہا) ہمارے پیچھے کھڑی ہو گئیں اور یوں آپ نے ہم کو دو رکعت نماز پڑھائی۔‘‘
(صحیح بخاری _380)

*امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح مسلم میں اس حدیث نمبر 658 اور 660 پر باب باندھا ہے کہ  نفلی نماز کی جماعت کا جواز اور چٹائی پر نماز کے جائز ہونے کا بیان،*

📙امام نووی ؒ اس حدیث سے مسائل کی تخریج کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فِيهِ جَوَازُ الصَّلَاةِ عَلَى الْحَصِيرِ وَسَائِرِ مَا تُنْبِتُهُ الْأَرْضُ وَهَذَا مُجْمَعٌ عَلَيْهِ وَمَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ خِلَافِ هَذَا مَحْمُولٌ عَلَى اسْتِحْبَابِ التَّوَاضُعِ بِمُبَاشَرَةِ نَفْسِ الْأَرْضِ۔ (نووی: ص۲۳۴ج۱)
’’اس حدیث میں چٹائی پر اور ہر اس چیز پر نماز پڑھنے کا جواز ہے جسے زمین اگاتی ہے اور اس پر علماء کا اجماع بھی ہے اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے مٹی پر سجدہ کو ضروری قرار دینے کی بات تواضع اور عاجزی پر محمول ہے۔‘‘

*شریعت کے ماہرین پر یہ بات مخفی نہیں کہ گدا روئی اور کپڑے کے مجموعہ سے بنتا ہے۔
تاہم دونوں اپنی اصلیت کے لحاظ سے زمین ہی کی پیداوار ہیں۔ جب زمین سے اگنے والی دوسری تمام چیزوں پر نماز جائز ہے تو پھر گدے پرکیوں نماز جائز نہ ہوگی۔*

📚عَن عبداللہ بن شداد عَن میمونة قالت کان النبیﷺ یصلی علی الخمرة۔
(صحیح بخاری:381)
’’ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کھجور کی چٹائی پر نماز پڑھتے تھے۔‘‘

📔حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَالْخُمْرَةُ بِضَمِّ الْخَاءِ الْمُعْجَمَةِ وَسُكُونِ الْمِيمِ قَالَ الطَّبَرِيُّ هُوَ مُصَلًّى صَغِيرٌ يُعْمَلُ مِنْ سَعَفِ النَّخْلِ سُمِّيَتْ بِذَلِكَ لِسَتْرِهَا الْوَجْهَ وَالْكَفَّيْنِ مِنْ حَرِّ الْأَرْضِ وَبَرْدِهَا فَإِنْ كَانَتْ كَبِيرَةً سُمِّيَتْ حَصِيرًا۔
(تحفة الاحوذی: ص۲۷۲ج۱، فتح الباری: ص۳۲۴ج۱)
’’خمرہ خا پر پیش اور میم ساکن کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔ طبری لکھتے ہیں یہ کھجور کے پتوں سے بنائی جاتی ہے، چونکہ یہ چہرے اور ہتھیلیوں کو زمین کی گرمی اور سردی سے ڈھانپتی اور بچاتی ہے۔ اس لیے اس کو خمرہ (کڑی) کہتے ہیں۔ اگر یہ بڑی ہو تو حصیر کہلاتی ہے۔‘‘

حافظ ابن حجر کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ چٹائی پر نماز پڑھنے کی علت زمین کی گرمی اور سردی سے بچاؤ ہے اور مسجدوں میں سردیوں کے موسم میں گرم قالین اور گدے صرف اس لیے بچھائے جاتے ہیں کہ زمین کی سردی سے بچا جائے، لہٰزا ان پر نماز جائز ہے کیونکہ کھجور کی چٹائی اور گدے کی علت غائی ایک ہی ہے۔

*اگرچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابراہیم نخعی، امام اسود اور ان کے اصحاب، طنافس (روئی دار چٹائیوں جو کہ فلالین اور تولیہ جیسی ہوتی ہیں) پر نماز پڑھنے کو مکروہ جانتے ہیں اور حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ بھی ان کے ہمنوا ہیں*

*تاہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے نہ صرف کپڑوں پر سجدہ کرنا ثابت ہے بلکہ ان سے عمامہ پگڑیوں اور ٹوپیوں پر بھی سجدہ کرنا ثابت ہے*

📚جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے:
باب السجود علی الثوب وقال الحسن کان القوم یسجدون عَلَی الْعَمَامَةِ وَالْقَلَنسوة وَیَدَاہُ فِی کُمه (ص۵۶ج۱)
کپڑے پر سجدہ کرنے کا بیان اور حسن بصریؒ کہتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پگڑی اور ٹوپی پر سجدہ کر لیتے تھے اور ہاتھ آستین میں ہوتے۔
اسکے بعد امام بخاری یہ حدیث لائے ہیں:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:
«كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَضَعُ أَحَدُنَا طَرَفَ الثَّوْبِ مِنْ شِدَّة الحَرِّ فِي مَكَانِ السُّجُودِ» (صحیح بخاری_385)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تو ہم میں سے ہر آدمی گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کپڑے کے دامن پر سجدہ کرتا۔‘‘

📔حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَفِي الْحَدِيثِ جَوَازُ اسْتِعْمَالِ الثِّيَابِ وَكَذَا غَيْرُهَا فِي الْحَيْلُولَةِ بَيْنَ الْمُصَلِّي وَبَيْنَ الْأَرْضِ لِاتِّقَاءِ حَرِّهَا وَكَذَا بَرْدُهَا وَفِيهِ إِشَارَةٌ إِلَى أَنَّ مُبَاشَرَةَ الْأَرْضِ عِنْد السُّجُود هُوَ الأَصْل لِأَنَّهُ عَلَّقَ بَسْطَ الثَّوْبِ بِعَدَمِ الِاسْتِطَاعَةِ۔ (فتح الباری: ص۴۱۴ج۱، طبع جدید ص۶۵۰ج۱)
’’اس حدیث کے مطابق زمین کی گرمی اور سردی سے بچنے کے لیے کپڑے اور اسی طرح کسی اور چیز پر سجدہ کرنا جائز ہے، تاہم اس حدیث میں یہ بھی اشارہ ہے کہ سجدے کا اصل حکم یہ ہے کہ بلا کسی حائل کے زمین کی دھوڑی پر سجدہ کیا جائے ورنہ جملہ (من شدۃ الحر یعنی گرمی کیوجہ سے) کا کوئی مفاد نہیں رہتا۔

📚 وعن أبی الدرداء قال أبالی لوصلیت علی خمس طنافس۔
رواہ البخاری فی تاریخه و رواہ ابن ابی شیبة عنه بلفظ ست طنافس بعضھا فوق بعض۔
(نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲)
’’حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر میں پانچ یا چھ روئیں وار (فلالین اور تولیہ کی قسم کی) چادروں کے تھان پر نماز پڑھ لوں تو میری نماز پھر بھی ادا ہوجائے گی۔

📚وَرَوَی ابن ابی شیبه عَن ابن عباس أَنه صَلّیٰ عَلیٰ طَنْفُسة۔ (نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے روئی دار چادر پر نماز پڑھی تھی۔ اسی طرح حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ، حسن بصریؒ، مرۃ الہمدانیؒ اور قیس بن عبادہ وغیرہ سے مروی ہے۔ ((نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲))

📔امام شوکانی فرماتے ہیں:
وَإِلَى جَوَازِ الصَّلَاةِ عَلَى الطَّنَافِسِ ذَهَبَ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ وَالْفُقَهَاءُ كَمَا تَقَدَّمَ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْبُسُطِ۔(نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۱)
’’جمہور علماء اور فقہاء طنافس (روئی دار چادروں) پر نماز کے جواز کی طرف گئے ہیں۔‘‘

*جب حضرت انس رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث اور حضرت ابوالدرداء، حضرت ابن عباس، حضرت ابو وائل اور حضرت حسن بصریؒ کے فتویٰ کے مطابق کپڑوں، فلالین اور تولیہ کی قبیل کی چادروں اور پھر مرہ ہمدانی اور قیس بن عباد کے مطابق روئی کے نمدوں پر نماز جائز ہے تو روئی کے گدے پر بھی جائز ہوگی۔ کیونکہ روئی دار گدا اپنی علت غائی کے لحاظ سے روئی دار چادروں کے تھان کے حکم میں ہے،*
*یعنی جس طرح روئیں دار چادروں کا تھان نرم اور آرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ زمین کی سردی سے بچاتا ہے، روئی کا گدا بھی نرم اور آرام دہ ہونے کے ساتھ ساتھ سردی سے بچاتا ہے۔ اور روئی کے نمدے اور گدے کا تو یکجان دو قالب والا معاملہ ہے۔ لہٰذا ان آثار کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ روئی کے گدے پر بھی نماز جائز ہے۔*

_____&______

*رہی بات جامع ترمذی میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے:*

📚جامع ترمذی
کتاب: نماز کا بیان
باب: نماز میں پھونکیں مارنا مکروہ ہے
حدیث نمبر: 381
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، أَخْبَرَنَا مَيْمُونٌ أَبُو حَمْزَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامًا لَنَا يُقَالُ لَهُ أَفْلَحُ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا سَجَدَ نَفَخَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏  يَا أَفْلَحُ تَرِّبْ وَجْهَكَ 
ترجمہ:
ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  نے ہمارے  (گھر کے)  ایک لڑکے کو دیکھا جسے افلح کہا جاتا تھا کہ جب وہ سجدہ کرتا تو پھونک مارتا ہے، تو آپ نے فرمایا:  افلح! اپنے چہرے کو گرد آلودہ کر،
(یعنی زمین پر سجدہ کرو،)

🚫تو اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ اس کا راوی میمون ابو حمزہ الاعور ہے جسے امام بخاری نے لیس بالقوی، امام احمد بن حنبلؒ نے متروک، امام نسائی نے لیس بثقۃ اور امام دار قطنی نے ضعیف کہا ہے۔ کذا فی المیزان والتقریب، ص۳۵۴
(تحفة الاحوذی: ص۲۹۷جلد۱)
اور دوسرا راوی ابو صالح ہے جو متکلم فیہ ہے۔
لہٰذا یہ روائیت ہی ضعیف ہے،
قال الشيخ الألباني:  ضعيف، التعليق الرغيب (1 / 193)، المشکاة (1002)، الضعيفة (5485) // ضعيف الجامع الصغير (6378)

📔دوسرا جواب یہ ہے:
قَالَ الْعِرَاقِيُّ: وَالْجَوَابُ عَنْهُ أَنَّهُ لَمْ يَأْمُرْهُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى التُّرَابِ وَإِنَّمَا أَرَادَ بِهِ تَمْكِينَ الْجَبْهَةِ مِنْ الْأَرْضِ، وَكَأَنَّهُ رَآهُ يُصَلِّي وَلَا يُمَكِّنُ جَبْهَتَهُ مِنْ الْأَرْضِ فَأَمَرَهُ بِذَلِكَ، لَا أَنَّهُ رَآهُ يُصَلِّي عَلَى شَيْءٍ يَسْتُرُهُ مِنْ الْأَرْضِ فَأَمَرَهُ بِنَزْعِهِ۔ (نیل الاوطار: ص۱۴۴ج۲)
’’اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ نبیﷺ نے اس کو مٹی پر سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا بلکہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ پیشانی کو اچھی طرح زمین پر رکھو۔ گویا آپ نے دیکھا کہ وہ اپنی پیشانی کو اچھی طرح زمین پر نہیں رکھتا تھا، تو آپﷺ نے اس کو یہ ہدایت فرمائی تھی، آپ کا یہ مطلب نہ تھا کہ وہ جس چیز پر نماز پڑھ رہا ہے اسے نیچے سے نکال دے۔‘‘

*خلاصہ کلام یہ کہ اگرچہ تواضع کے طور پر زمین کی دھوڑی پر سجدہ کرنا افضل ہے، تاہم سردی سے بچنے کے لیے روئی کے ہلکے پھلکے گدے پر نماز پڑھنا اور اس پر سجدہ کرنا جائز ہے۔*

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
(مآخذ فتاویٰ محمدیہ/ج1ص387)
محدث فتویٰ

__________&________

ایک اور فتویٰ ملاحظہ فرمائیں!

📔سوال-
میں نے ایک حدیث میں پڑھا تھا کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک دفعہ کسی صحابی کی تیمارداری کے لئے اس کے گھر تشریف لے گئے تودیکھا کہ وہ تکیے پرسجدہ کررہے تھے آپ نے تکیہ دورپھینک دیا فرمایا: ’’سجدہ زمین پر کرنا چاہیے‘‘ اس حدیث کی روشنی میں میرا سوال ہے کہ تخت پوش پرنماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

📚الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام بخاری رحمہ اللہ  نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ میں قائم کیاہے ’’چھت ،منبر اور لکڑی پرنماز پڑھنے کا بیان‘‘  اس عنوان کے تحت امام بخاری  رحمہ اللہ نے بہت سے اہم مسائل کی طرف اشارات کئے ہیں ،چنانچہ چھت اور منبر کے ذکر سے اونچی جگہ پرنماز پڑھنے اور پڑھانے کاجواز ثابت کیا ہے، یعنی اگر امام یا مقتدی عام لوگوں سے اونچا ہو تو ان کی نماز ہوجائے گی اسی طرح لکڑی پرنماز پڑھنے کی وضاحت سے یہ ثابت کیا ہے کہ جس طرح مٹی پرنماز پڑھی جاتی ہے اورسجدہ کیا جاتاہے ،اسی طرح لکڑی (تخت پوش) وغیرہ پر بھی نماز ہوسکتی ہیں اور ان پرسجد ہ بھی کیاجاسکتا ہے ۔امام بخاری  رحمہ اللہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بیان کیا  ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ برف پرنماز پڑھی تھی ،اس سے معلوم ہوا کہ ہر اس چیز پرسجدہ کیاجاسکتا ہے جہاں پیشانی اچھی طرح ٹک جائے اور اس کی سختی محسوس ہو کیونکہ سجدہ میں پوری طرح سر کو جائے سجدہ پرڈال دینا شرط ہے ،ہمارے نزدیک فوم کے گدے پربھی نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔اسی طرح مسجد میں کارپٹ پرنماز پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، ہاں ایسی جگہ جس پر پیشانی اچھی طرح نہ جم سکے اور اس کی سختی محسوس نہ ہو، اس پرسجدہ کرناصحیح نہیں ہے ۔امام بخاری  رحمہ اللہ نے بستر پرنماز پڑھنے کاعنوان بھی قائم کیا ہے اورحضرت انس  رضی اللہ عنہ  کے متعلق روایت ذکر کی ہے کہ وہ اپنے بچھونے پرنماز پڑھ لیا کرتے تھے۔سخت گرمی کے دنوں میں اپنے کپڑوں پرسجدہ کرنے کاذکر بھی احادیث میں ملتا ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول  اللہ   صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہمراہ نمازپڑھتے تھے ہم میں سے کچھ لوگ گرمی کی شدت کی بنا پر سجدہ کی جگہ پراپنے کپڑے بچھالیتے تھے ۔[صحیح بخاری ،حدیث نمبر:۳۸۵]

سوال میں ذکر کردہ حدیث کامطلب یہ ہے کہ بیمار آدمی تکیہ اٹھاکر اپنے سر کے قریب کرتااور اس پر سر رکھ کرسجدہ کرتا تھا، اس لئے آپ   نے اسے منع فرمایا اور زمین پرسجدہ کرنے کی تلقین فرمائی ۔     [و اللہ اعلم]
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب
(فتاویٰ اصحاب الحدیث جلد:2 صفحہ:118)

__________&________

*اوپر فتویٰ میں جس حدیث کے متعلق پوچھا گیا ہے ہم اسکو یہاں مکمل بیان کرتے ہیں،*

📚عاد ﷺ مريضًا فرآه يصلي على وسادةٍ، فأخذها فرمى بها، فأخذ عودًا ليصلي عليه، فأخذه فرمى به، وقال: صلِّ على الأرضِ إن استطعت، وإلا فأوم إيماءً، واجعل سجودَك أخفضَ من ركوعِك،
أخرجه البزار كما في ((مجمع الزوائد)) للهيثمي (٢/١٥١)، وأبو يعلى (١٨١١)، والبيهقي (٣٨١٩) 
( الألباني، صفة الصلاة (٧٨) • إسناده صحيح)

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک مریض کی عیادت کے لیے آئے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ وہ تکیے پر نماز پڑھ رہا ہے، آپﷺ نے وہ تکیہ لیا اور اس کو پھینک دیا، اس نے لکڑی پکڑی تاکہ اس پر نماز پڑھے۔ آپ ﷺ نے اس کو بھی لیا اور پھینک دیا اور فرمایا: اگر استطاعت ہے تو زمین پر نماز پڑھو ورنہ اشارے سے پڑھ لو اور سجدے میں رکوع کی نسبت زیادہ جھکو۔ 

وضاحت:
اس حدیث میں مریض کی نماز کی ادائیگی کی کیفیت بیان کی جا رہی ہے کہ مریض شخص زمین پر جھک نہیں سکتا تھا تو وہ سجدے رکوع میں خود جھکنے کی بجائے تکیہ اٹھا کر اسکو پیشانی پر لگا لیتا کہ سجدہ ہو گیا، جب آپ نے تکیہ پھینک دیا تو اس نے سوچا شائید یہ نرم چیز ہے اس لیے آپ نے پھینکا تو اس نے لکڑی اٹھا کہ اسکو پیشانی پر لگا لیا کہ سجدہ ہو جائیگا تو آپ نے وہ بھی پھینک دی، اور فرمایا کہ اگر کوئی پیشانی کو زمین پر رکھنے کی طاقت نہیں رکھتا جو کہ نماز میں حسبِ استطاعت زمین پر رکھنی واجب ہے تو وہ رکوع اور سجود میں اشارے سے کام لے، نا کہ کوئی چیز اٹھا کر پیشانی پر لگائے،
اور جب سجدہ میں جائے تو رکوع کی نسبت جھکاؤ زیادہ ہونا چاہیے،

اس مکمل حدیث سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اس روایت میں نرم چیز پر سجدہ کرنے کی ممانعت نہیں ہے، بلکہ مریض کیلئے طریقہ بتلانا مقصود تھا کہ وہ اگر زمین پر مکمل جھک کر سجدہ زمین پر نہیں کر سکتا تو بس اشارے سے تھوڑا جھک جائے ، کوئی چیز اٹھا کر پیشانی پر لگانے کی ضرورت نہیں ،

*لہٰذا اوپر ذکر کردہ تمام دلائل سے یہ بات ثابت ہوئی کہ مساجد کے قالین , صاف بستر،  روئی کے گدے ، موٹے قالین، یا لکڑی کے تختے وغیرہ پر نماز پڑھنا جائز ہے،*

(( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ))

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

📓سلسلہ کے باقی تمام سوال جواب پڑھنے کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں، آفیشل واٹس ایپ چینل جوائن کریں،
یا ہمارا آفیشل فیسبک پیج دیکھیں::
یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

آفیشل واٹس ایپ چینل//
https://whatsapp.com/channel/0029VaDnmps7T8bQ5k02LT0e

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS