find all Islamic posts in English Roman urdu and Hindi related to Quran,Namz,Hadith,Ramadan,Haz,Zakat,Tauhid,Iman,Shirk,daily hadith,Islamic fatwa on various topics,Ramzan ke masail,namaz ka sahi tareeqa

Showing posts sorted by date for query Qurbani. Sort by relevance Show all posts
Showing posts sorted by date for query Qurbani. Sort by relevance Show all posts

Qurbani ka Mazak banane wale, Show-off karne wale kya Apne bete Zibah kar sakte hai?

Kya koi Musalman Apne bete ko Zibah kar payega.

Aaj Jis tarah se Sunnat-E-Ibrahimi ka mazak kiya ja raha hai, Showoff ho raha hai, Dikhawa kiya ja raha hai..... Kya kisi ko apne ki Qurbani deni Padegi to de payega?




Qurbani ka Ghost kitne dino tak rakhna chahiye? 

کیا تم اپنے بیٹے ذبح کرسکتے ہو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

️: مسز انصاری

یہ ہمارے نہایت مہربان اور رحم کرنے والے رب کا ہم پر احسان عظیم ہے کہ اس نے ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے کی قربانی کرنے کے واقعہ کی یاد میں ہمیں جانور ذبح کرنے کا حکم دیا ، اگر تو اللہ تعالیٰ خلیل اللہ کے اس عظیم واقعے کی یاد میں قربانی کی سنت کے لیے جانور کے بجائے بیٹے ہی ذبح کرنے کا حکم دے دیتا تو بھلا بتاؤ کہ تم ابراہیم خلیل اللہ جیسا وہ جگر کہاں سے لاتے کہ اپنے ہاتھوں سے بیٹوں کو ذبح کرتے ، پھر بھی تم اس عظیم سنت کے ساتھ مذاق کرتے ہو اور اسے ریاکاری کی نظر کردیتے ہو ......

قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ .....{الملک آية ۲۳}
تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو
۔

Share:

Qurbani ka Janwar kaisa hona chahiye, Qurbani Ke liye kaisi Shartein hai?

Qurbani ke Liye wah 6 Sharayet jo lajimi hai.


السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

قربانی کی شرائط


قربانی کے لیے چھ شرائط کا ہونا ضروری ہے :

❶ پہلی شرط :

وہ قربانی "بھیمۃ الانعام" [یعنی گھریلو پالتو جانوروں]میں سے ہو جو کہ اونٹ ، گائے ، بھیڑ بکری ہیں ؛فرمانِ باری تعالی ہے:
( وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ )
ترجمہ:  اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کا طریقہ مقرر فرما دیا ہے تا کہ وہ اللہ کے عطا کردہ [بھیمۃ الانعام یعنی]پالتو جانوروں پر اللہ کا نام لیں۔[الحج:34]
اور "بھیمۃ الانعام" سے مراد اونٹ گائے بھیڑ اور بکری ہیں عرب کے ہاں یہی معروف ہے نیز حسن  اور قتادہ سمیت دیگر اہل علم کا بھی یہی موقف ہے ۔

❷ دوسری شرط :

قربانی کا جانور شرعی طور پر معین عمر کا ہونا ضروری ہے ، وہ اس طرح کہ بھیڑ کی نسل میں جذعہ [چھ ماہ کا بچہ ] قربانی کیلیے ذبح ہو سکتا ہے جبکہ دیگر جانوروں میں سے ان کے اگلے دو دانت گرنے کے بعد قربانی ہو گی کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( مسنہ [یعنی جس کے اگلے دو دانت گر گئے ہیں اس ] کے علاوہ کوئی جانور ذبح نہ کرو، تاہم اگر تمہیں ایسا جانور نہ ملے تو بھیڑ کا جذعہ[یعنی چھ ماہ کا بچہ ] ذبح کر لو ) صحیح مسلم ۔
حدیث میں مذکور : "مسنہ"  کا لفظ  ایسے جانور پر بولا جاتا ہے جس کے اگلے دو دانت گر چکے ہوں یا اس سے بھی بڑے جانور کو "مسنہ" کہتے ہیں جبکہ "جذعہ" اس سے کم عمر کا  ہوتا ہے۔
لہذا اونٹ پورے پانچ برس کا ہو تو  اس کے اگلے دو دانت گرتے ہیں۔
گائے کی عمر دو برس ہو تو اس کے اگلے دو دانت گرتے ہیں۔
جبکہ بکری ایک برس کی ہو تو وہ تو اس کے اگلے دانت گرتے ہیں۔
اور جذعہ چھ ماہ کے جانور کو کہتے ہیں ، لہذا اونٹ گائے اور بکری میں سے آگے والے دو دانت گرنے سے کم عمر کے جانور کی قربانی نہیں ہوگی ، اور اسی طرح بھیڑ میں سے جذعہ سے کم عمر [یعنی چھ ماہ سے کم ] کی قربانی صحیح نہیں ہوگی ۔

❸ تیسری شرط :

قربانی کا جانور چار ایسے عیوب سے پاک ہونا چاہیے  جو قربانی ہونے میں رکاوٹ ہیں:
⓵-  آنکھ میں واضح طور پر عیب : مثلاً: جس کی آنکھ بہہ کر دھنس چکی ہو یا پھر بٹن کی طرح ابھری ہوئی ہو ، یا پھر آنکھ مکمل سفید ہو کر کانے پن کی واضح دلیل ہو۔
⓶-  واضح طور بیمار جانور : اس سے بیمار جانور مراد ہیں مثلاً: جانور کو بخار ہو جس کی بنا پر جانور گھاس نہ کھائے اور اسے بھوک نہ لگے، اسی طرح جانور کی بہت زیادہ خارش جس سے گوشت متاثر ہو جائے، یا خارش جانور کی صحت پر اثر انداز ہو ، ایسے ہی گہرا زخم اور اسی طرح کی دیگر بیماریاں ہیں جو جانور کی صحت پر اثر انداز ہوں۔
⓷-  واضح طور پر پایا جانے والا لنگڑا پن : ایسا لنگڑا پن جو صحیح سالم جانوروں کے ہمراہ چلنے میں رکاوٹ بنے۔
⓸- اتنا لاغر  کہ ہڈیوں میں گودا باقی نہ رہے: کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جب یہ پوچھا گیا کہ قربانی کا جانور کن عیوب سے پاک ہونا چاہیے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا چار عیوب سے : ( وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن واضح ہو ، اور آنکھ کے عیب والا جانور جس کی آنکھ کا عیب واضح ہو ، اور بیمار جانور جس کی بیماری واضح ہو، اور وہ کمزور جانور جس کی ہڈیوں میں گودا ہی نہ ہو)  ۔اسے امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ۔
اور سنن میں برا‏ء بن عازب رضی اللہ عنہ ہی سے ایک روایت مروی ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ( چار قسم کے جانور قربانی میں جائز نہیں ) اور پھر آگے یہی حدیث ذکر کی ہے ۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے ارواء الغلیل (1148)میں اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
لہذا یہ چار عیب ایسے ہیں جن کے پائے جانے کی بنا پر قربانی نہیں ہوگی ، اور ان چار عیوب کے ساتھ دیگر عیوب بھی شامل ہیں جو ان جیسے یا ان سے بھی شدید ہوں تو ان کے پائے جانے سے بھی قربانی نہیں ہوگی ، جیسے کہ درج ذیل عیوب ہیں:
⓵-  نابینا  جانور جس کو آنکھوں سے نظر ہی نہ آتا ہو ۔
⓶-  وہ جانور جس نے اپنی طاقت سے زیادہ چر لیا ہو؛ اس کی قربانی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک وہ صحیح نہ  ہو جائے  اور اس سے خطرہ ٹل نہ جائے۔
⓷-  وہ جانور جسے بچہ جننے میں کوئی مشکل در پیش ہو جب تک اس سے خطرہ زائل نہ ہو جائے ۔
⓸-  زخم وغیرہ لگا ہوا جانور جس سے اس کی موت واقع ہونے کا خدشہ ہو ،  گلا گھٹ کر یا بلندی سے نیچے گر کریا اسی طرح کسی اور وجہ سے ؛ اس وقت تک ایسے جانور کی قربانی نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس سے یہ خطرہ زائل نہیں ہو جاتا ۔
⓹- دائمی بیمار، یعنی ایسا جانور جو کسی بیماری کی وجہ سے چل پھر نہ سکتا ہو۔
⓺-  اگلی یا پچھلی ٹانگوں میں سے کوئی ایک ٹانگ کٹی ہوئی ہو ۔
جب ان چھ عیوب کو حدیث میں بیان چار عیوب کے ساتھ ملایا جائے تو ان کی تعداد دس ہو جائے گی  ؛ چنانچہ ان کی قربانی نہیں کی جائے گی۔

❹ چوتھی شرط :

وہ جانور قربانی کرنے والے کی ملکیت میں ہو یا پھر اسے شریعت یا مالک کی جانب سے اجازت ملی ہو۔
لہذا جو جانور ملکیت میں  نہ ہو اس کی قربانی صحیح نہیں ، مثلاً غصب یا چوری کردہ جانور اور اسی طرح باطل اور غلط دعوے سے ہتھیایا  گیا جانور ، کیونکہ اللہ تعالی کی معصیت و نافرمانی کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا ۔
اور یتیم کا سر پرست یتیم کی جانب سے ایسی صورت میں قربانی کر سکتا ہے جب یتیم  اپنے مال سے قربانی نہ ہونے پر مایوس ہو جائے اور عرف عام میں یتیم کی طرف سے قربانی کرنے کا رواج بھی ہو۔
اسی طرح موکل کی جانب سے اجازت کے بعد وکیل کا قربانی کرنا بھی صحیح ہے ۔
❺ پانچویں شرط :

کہ جانور کا کسی دوسرے کے ساتھ تعلق نہ ہو ، لہذا رہن رکھے گئے جانور کی قربانی نہیں ہو سکتی ۔

❻ چھٹی شرط :

قربانی کو شرعاً محدود وقت کے اندر اندر ذبح کیا جائے ، اور یہ وقت دس ذوالحجہ کو نماز عید کے بعد سے شروع ہو کر ایام تشریق کے آخری دن سورج غروب ہونے تک باقی رہتا ہے ، ایام تشریق کا آخری دن ذوالحجہ کی تیرہ تاریخ بنتا ہے ، تو اس طرح ذبح کرنے کے چار دن ہیں  یعنی: عید کے دن نماز عید کے بعد ، اور اس کے بعد تین دن یعنی گیارہ ، بارہ اور تیرہ ذوالحجہ کے ایام  قربانی کے دن ہیں۔
لہذا جس نے بھی نماز عید سے قبل قربانی ذبح کر لی یا پھر تیرہ ذوالحجہ کو غروب شمس کے بعد کوئی شخص قربانی کرتا ہے تو اس کی یہ قربانی صحیح نہیں ہوگی ۔
جیسے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جس نے نماز [عید ]سے قبل ذبح کر لیا وہ صرف گوشت ہے جو وہ اپنے اہل عیال کو پیش کر رہا ہے اور اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں ) ۔
اور جندب بن سفیان بَجَلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ حاضر تھا تو آپ نے فرمایا : ( جس نے نماز عید سے قبل ذبح کر لیا وہ اس کے بدلے میں دوسرا جانور ذبح کرے ) ۔
اسی طرح نبیشہ ھذیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (ایام تشریق کھانے پینے اور ذکر الہی کے ایام ہیں ) اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے ۔
لیکن اگر ایام تشریق سے قربانی کو مؤخر کرنے کا کوئی عذر پیش آ جائے مثلاً قربانی کا جانور بھاگ جائے، اور اس کے بھاگنے میں مالک کی کوئی کوتاہی نہ ہو اور وہ جانور ایام تشریق کے بعد ہی واپس ملے ، یا اس نے کسی کو قربانی ذبح کرنے کا وکیل بنایا تو وکیل ذبح کرنا ہی بھول گیا اور وقت گزر گیا ، تو اس عذر کی بنا پر وقت گزرنے کے بعد ذبح کرنے میں کوئی حرج نہیں ، اور [اس کی دلیل یہ ہے کہ جس طرح]نماز کے وقت میں سویا ہوا یا بھول جانے والا شخص جب سو کر اٹھے یا اسے یاد آئے تو نماز ادا کرے گا [بالکل اسی طرح یہ بھی قربانی ذبح کرے گا]۔
اور مقررہ وقت کے اندر دن یا رات میں کسی بھی وقت قربانی کی جاسکتی ہے ، قربانی دن کے وقت ذبح کرنا اولی اور بہتر ہے ، اور عید والے دن نماز عید کے خطبہ کے بعد ذبح کرنا زیادہ افضل اور اولی ہے ، اور ہر آنے والا دن گزشتہ دن سے کم تر ہو گا، کیونکہ جلد از جلد قربانی کرنے میں خیر و بھلائی کیلیے سبقت ہے " 

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
[ ماخذ: ماخوذ از : "احکام الاضحیۃ والذکاۃ " از شیخ محمد بن عثیمین رحمہ اللہ ]
[الاسلام سوال و جواب]

Share:

Kya Aurat Qurbani Ka Janwar Zibah Kar Sakti hai? Khawateen ke liye Janwar Zibah karna kaisa hai?

Kya Aurat Qurbani Ka Janwar Zibah kar sakti hai?

Kya Auraten Gaye, Bhainse, Bakra aur Oont (Camel) Zibah kar sakti hai?

عورت بھی قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے۔

نافع نے (عبد الرحمٰن یا عبد اللہ ) بن کعب بن مالک سے سنا وہ عبد اللہ بن عمرؓ سے کہہ رہے تھے کہ ان کے والد نے ان کو خبر دی ان کی ایک لونڈی سلع پہاڑ پر (جو مدینہ میں ہے) بکریاں چرایا کرتی تھی ایک دن اس نے ایک بکری کو دیکھا وہ مر رہی ہے اس نے کیا کیا ایک پتھر توڑ کر اس سے وہ بکری ذبح کر ڈالی کعب نے اپنے لوگوں سے کہا اس کا گوشت ابھی نہ کھاؤ میں نبیﷺ کے پاس جاتا ہوں آپ سے پوچھ لوں یا میں ایک شخص کو نبی ﷺ کے پاس بھج کر پچھوا لوں (یہ راوی کی شک ہے) غرض کعب خود نبی ﷺ کے پاس آئے یا کسی کو بھیج کر پچھوا بھیجا آپ نے فرمایا اس بکری کو کھاؤ۔
(بخاری/کتاب الذبائح:۲۲)

سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ اپنی بیٹیوں کو قربانی کا حکم دیا کرتے تھے۔

(صحیح بخاری ،الاضاحی تعلیقاً،باب:۱۰)

       
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"لابأس بذبيحةالصبي والمرأة من المسلمين وأهل الكتاب"
(السنن الكبرى للبيهقي 9/475)
"مسلمان اوراہل کتاب میں سےبچہ اورعورت کےذبیحہ میں کوئی حرج نہیں ہے "

امام نووی رحمہ اللہ فرماتےہیں:
"کعب بن مالک کی حدیث کی بنیادپر بلا اختلاف عورت کا ذبیحہ جائزہے"۔

(المجموع شرح المھذب 9/87)
نیز فرماتےہیں :

" ابن المنذرنے عورت اورصاحب تمییز بچہ کےذبیحہ کی حلّت پراجماع نقل کیاہے۔"

المجموع شرح المھذب 9/89)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں :
" عورت اورمردکاذبیحہ جائز ہے،  عورت حالت حیض میں بھی ذبح کرسکتی ہے۔"

علامہ ابن بازرحمہ اللہ ایک سوال کےجواب میں فرماتےہیں :

" مرد کی طرح عورت بھی قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے ، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔ عورت اگر مسلمان یاکتابیہ ہےاور اس نے شرعی طریقہ پر جانور ذبح کیا ہےتو اس کا گوشت کھانا جائز ہے۔ مرد کی موجودگی میں بھی عورت ذبح کر سکتی ہے، اس کے لئے مرد کاہونا شرط نہیں ہے"

علامہ عبد اللہ بن عبدالرحمن الجبرین ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں :

" اگر عورت عاقلہ ،مکلفہ ہو اور اس نےبسم اللہ پڑھ کر ناخن ،دانت اور ہڈی کے علاوہ کسی تیز دھاردار آلہ سے ذبح کیا ہےتو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔"

Share:

Apne Qurbani ke Janwaro ko Khula na chhore taki dusro ko taklif pahuche.

Qurbani ke Janwaro ka khyal rakhe, kahi isse dusro ko taklif nahi pahuche.

Qurbani ka Gosht kitne dino tak rakh sakte hai?
Qurbani (Eid-UL-Azaha) ke Ahkaam o Masail. ....
Jo log Qurbani karne ki taqat nahi rakhte wah kya kare?
Qurbani ke liye kaisa janwar jayez hai?

Qurbani se Jude Ahem Sawalo ke jawab janane ke liye yaha click kare.

Qurbani se jude Masail aur Unka Hal.

السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ

️: مسز انصاری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قربانی کریں مگر ..............

- اپنے قربانی کے جانور کو لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث نا بنائیں ۔
- اپنے جانوروں کی گندگی سے آنے جانے والوں کو تکلیف نا دیں ۔
- جانور باندھنے کی وہ جگہ منتخب نا کیجیے جہاں ہرروز کسی کی گاڑی پارک ہوتی ہے ۔
- جس جگہ جانور باندھیں اسے صاف کرتے رہیں تاکہ ناگوار بدبو لوگوں کو تکلیف نا پہنچائے۔
- اپنے جانوروں کو اس طرح کھلا نا چھوڑیے کہ وہ کسی کی محنت سے مرتب کیا گیا گارڈن خراب کر ڈالیں ۔

کامل ایمان رکھنے والے مؤمن اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی آرام و راحت پسند کرتے ہیں جو وہ اپنے لیے پسند کرتے ہیں ۔ یعنی وہ اپنے دینی اور دنیاوی امور میں اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ ان کا کوئی عمل یا رویہ کسی مسلمان کے لیے تنگی قلب کا باعث نا بنے ۔

لَا يُؤْمِنُ أحَدُكُمْ، حتَّى يُحِبَّ لأخِيهِ ما يُحِبُّ لِنَفْسِهِ.
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا، جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند نہ کرے، جو اپنے لیے کرتا ہے“۔ 

الراوي : أنس بن مالك | المحدث : البخاري | المصدر : صحيح البخاري
الصفحة أو الرقم : 13 | خلاصة حكم المحدث : [صحيح]

فقط واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

Share:

Eid (Eid Ul Fitar aur Eid Ul Azaha) ki Namaj agar Qaza ho jaye to Use kaise Ada kiya ja sakta hai?

Eid ki Namaj ke Qaza ka kya hukm hai?

Sawal: Eid (Eid Ul Fitar ya Eid Ul Azaha) ki Namaj e Qaza ka kya hukm hai? Agar koi Mard aur Aurat kisi wajah se Eidgaah nahi pahuch saken, ya koi Shakhs takhir se pahuche ke uski ek ya dono Rakat qaza ho jaye aur Khutba shuru ho to wah Eid ki Namaj kaise Ada karega?

Kya Aeibdar Janwaro ki Qurbani jayez hai?

Gaye aur Oont me Kitne Baccho ka Aqeeqa ho sakta hai?

Eid ki Namaj Padhne ka sahi tarika?

" मै इतने पैसे लगाकर कुर्बानी नही करूँगा बल्कि इसी पैसे से किसी गरीब की मदद कर दूंगा "

سلسلہ سوال و جواب  نمبر-250
سوال_ عید کی نماز کی قضاء کا کیا حکم ہے؟ اگر کوئی مرد و عورت کسی عذر کی بنا پر  عیدگاہ نا پہنچ سکیں، یا کوئی شخص تاخیر سے پہنچے کہ اسکی ایک یا دونوں رکعت قضاء ہو جائیں اور خطبہ شروع ہو تو وہ عید کی نماز کیسے ادا کرے گا؟

Published Date: 11-8-2019

جواب:
الحمدللہ:

*کسی وجہ سے عیدین کی نماز قضاء ہو جائے تو اسکو چاہیے کہ باقی نمازوں کی طرح اسکی بھی قضا دے،یعنی عید کی دو رکعت نماز زائد تکبیرات کے ساتھ ادا کرے، اگر ایک سے زائد لوگ ہوں تو وہ جماعت کروا لیں،کہ پہلے جماعت سے نماز پڑھیں اور پھر خطبہ دے ایک شخص،اور اگر کوئی اکیلا شخص آئے اور خطبہ شروع ہو تو پہلے وہ خطبہ سنے اور پھر بعد میں عید کی نماز کی قضاء دے*

*یعنی جس کی نماز عید جماعت کے ساتھ فوت ہو جائے تو وہ اسکی قضائی دے گا، اور علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ وہ قضاء کیسے دے گا،اور کہا گیا ہے کہ وہ چار رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھے گا یا دو سلام کے ساتھ اور راجح وہ ہے جسکی طرف جمہور علماء گئے ہیں وہ یہ ہے کہ عید کی نماز کی قضاء بھی اسی طریقے پر ادا کرے گا جس طریقے پر عید کی نماز ادا کرتے ہیں، پس وہ دو رکعت پڑھے گا پہلی رکعت سات تکبیرات کے ساتھ اور دوسری رکعت پانچ زائد تکبیرات کے ساتھ اور اسکے لیے جائز ہے کہ وہ تنہا قضاء پڑھے یا کچھ لوگ مل کر جماعت کے ساتھ قضاء پڑھ لیں،*
 
دلائل درج ذیل ہیں:

📚 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ :    إِذَا سَمِعْتُمُ الْإِقَامَةَ فَامْشُوا إِلَى الصَّلَاةِ وَعَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ وَالْوَقَارِ وَلَا تُسْرِعُوا ، فَمَا أَدْرَكْتُمْ فَصَلُّوا ، وَمَا فَاتَكُمْ فَأَتِمُّوا،
ابو ھریرہ رض سے مروی ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ تکبیر کی آواز سن لو تو نماز کے لیے ( معمولی چال سے ) چل پڑو۔ سکون اور وقار کو ( بہرحال ) پکڑے رکھو اور دوڑ کے مت آؤ۔ پھر نماز کا جو حصہ ملے اسے پڑھ لو، اور جو نہ مل سکے اسے بعد میں پورا کر لو۔
(صحیح بخاری حدیث نمبر-636)

یہ حدیث دلیل ہے ہر ایک نماز کے لیے،
کہ جب بھی کوئی شخص نماز باجماعت سے لیٹ ہو جائے تو جتنی نماز جماعت سے مل جائے وہ پڑھ لے اور جو رہ جائے وہ بعد میں پوری کر لے، یعنی جو شخص  عید کی نماز میں تاخیر سے پہنچے کہ ایک رکعت نکل ہو گئی تو جو وہ امام کے ساتھ پڑھے گا وہ اس کی پہلی رکعت ہو گی اور جب امام سلام پھیر دے تو وہ کھڑا ہو کر دوسری رکعت پڑھے گا، کیوں کہ یہہ صحیح ترتیب ہے اگر وہ پہلے دوسری رکعت پڑھ لے اور پھر پہلی رکعت پڑھے تو یی ترتیب غلط اور نماز نبوی کے خلاف ہو گی، اور  اگر کسی کی دونوں رکعتیں فوت ہو جائیں تو وہ بعد میں اکیلا یا با جماعت عید کی دونوں رکعت زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھے گا،

📚قال الإمام البخاري في صحيحه
:[ باب إذا فاتته صلاة العيد يصلي ركعتين ، وكذلك النساء ومن كان في البيوت والقرى لقول النبي صلى الله عليه وسلم : هذا عيدنا أهل الإسلام وأمر أنس بن مالك
مولاه ابن أبي عتبة بالزاوية فجمع أهله وبنيه وصلى كصلاة أهل المصر وتكبيرهم . وقال عكرمة : أهل السواد يجتمعون في العيد يصلون ركعتين كما يصنع الإمام .
وقال عطاء : إذا فاته العيد صلى ركعتين]

ترجمہ:
امام بخاری صحیح بخاری میں فرماتے ہیں،
صحیح بخاری /کتاب:
عیدین کے مسائل کے بیان میں
بَابُ إِذَا فَاتَهُ الْعِيدُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ۔۔۔۔۔!
باب: اگر کسی کو جماعت سے عید کی نماز نہ ملے تو پھر دو رکعت پڑھ لے،اور عورتیں بھی ایسا ہی کریں اور وہ لوگ بھی جو گھروں اور دیہاتوں وغیرہ میں ہوں اور جماعت میں نہ آ سکیں (وہ بھی ایسا ہی کریں) کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اسلام والو! یہ ہماری عید ہے۔

📚 انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے غلام ابن ابی عتبہ زاویہ نامی گاؤں میں رہتے تھے۔ انہیں آپ نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں اور بچوں کو جمع کر کے شہر والوں کی طرح نماز عید پڑھیں اور تکبیر کہیں۔ عکرمہ نے شہر کے قرب و جوار میں آباد لوگوں کے لیے فرمایا کہ جس طرح امام کرتا ہے یہ لوگ بھی عید کے دن جمع ہو کر دو رکعت نماز پڑھیں۔ عطاء نے کہا کہ اگر کسی کی عید کی نماز(جماعت) چھوٹ جائے تو دو رکعت (تنہا) پڑھ لے۔
(صحیح بخاری قبل الحدیث-987)
 

📚وذكر الحافظ ابن حجر أن أثر أنس المذكور قد وصله ابن أبي شيبة في المصنف وقوله الزاوية اسم موضع بالقرب من البصرة كان به لأنس قصر وأرض وكان يقيم هناك كثيراً . وقول عكرمة وعطاء وصلهما
ابن أبي شيبة أيضاً ]
(صحيح البخاري مع شرحه فتح الباري 3/127-128 )
ترجمہ:
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ  انس رض کا اثر جو مذکور ہے بخاری میں اسکو ابن ابی شیبہ نے متصل بیان کیا ہے اپنی مصنف کے ساتھ، اور جو زاویہ کا بیان آیا یے وہ ایک جگہ کا نام ہے جو بصرہ کے قریب واقع ہے، اور وہاں انس رض کا محل تھا اور زمین تھی انکی،وہ اکثر وہاں رہا کرتے تھے اور عکرمہ اور عطاء کا جو قول ہے ان دونوں کو ابن ابی شیبہ نے متصل بیان کیا ہے اپنی مصنف میں،

 

📚وروى البيهقي بإسناده عن عبيد الله بن أبي بكر بن أنس بن مالك خادم رسول الله صلى الله عليه وسلم قال :[ كان أنس إذا فاتته صلاة العيد مع الإمام ، جمع أهله فصلى بهم مثل صلاة الإمام في العيد ]. ثم قال البيهقي :[ ويذكر عن أنس بن مالك أنه كان بمنزله بالزاوية فلم يشهد العيد بالبصرة جمع مواليه وولده ثم يأمر مولاه عبد الله بن أبي عتبة فيصلي بهم كصلاة أهل المصر ركعتين ويكبربهم كتكبيرهم].
ترجمہ:
اور بیھقی میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم انس بن مالک رض کی جب عید کی نماز فوت ہو جاتی تو وہ اپنے گھر والوں کو جمع کرتے اور امام(جماعت) کی طرح انکے ساتھ نماز عید کی نماز پڑھتے،
بیھقی کہتے ہیں کہ انس رض اپنے گھر زاویہ نامی جگہ میں رہتے تھے جب وہ عید کی نماز کے لیے بصرہ نا جا پاتے تو اپنے غلاموں اور بچوں کو جمع کرتے اور اپنے غلام عبداللہ بن ابی عتبہ کو حکم دیتے کہ وہ انکو شہر والوں کی طرح دو رکعت عید کی نماز پڑھاتے اور انکی طرح ہی ان  میں تکبیرات کہتے
( سنن البيهقي3/305)

📚وذكر البيهقي أن عكرمة قال :
[ أهل السواد – أهل الريف – يجتمعون في العيد يصلون ركعتين كما يصنع الإمام
بیھقی نے ذکر کیا کہ عکرمہ کہتے ہیں اھل السواد سے مراد اھل الریف ہیں (کسی بستی کا نام) وہ عید کے دن جمع ہوتے اور امام کی طرح دو رکعت پڑھتے،
( سنن البيهقي3/305)

 
📚وعن محمد بن سيرين قال :
كانوا يستحبون إذا فات الرجل الصلاة في العيدين أن يمضي إلى الجبان فيصنع كما يصنع الإمام . وعن عطاء إذا فاته العيد صلى ركعتين ليس فيهما تكبيرة ]
محمد بن سیرین کہتے ہیں وہ پسند کرتے ہیں کہ جسں آدمی کی عید کی  نماز  فوت ہو جائے تو وہ کھلی جگہ کی طرف نکلے اور اسی طرح کرے جیسے امام کرتا ہے (یعنی ویسے عید کی نماز پڑھے) اور عطا کہتے ہیں کہ جب عید کی نماز فوت ہو جائے تو وہ دو رکعت پڑھے گا اور ان میں تکبیرات نہیں کہے گا،
( سنن البيهقي3/305)

📚وروى عبد الرزاق بإسناده عن قتادة قال :[ من فاتته صلاة يوم الفطر صلى كما يصلي الإمام . قال معمر : إن فاتـت إنساناً الخطبة أو الصلاة يوم فطر أو أضحى ثم حضر بعد ذلك فإنه يصلي ركعتين ]
قتادہ کہتے ہیں جسکی عید کی نماز فوت ہو جائے وہ اسی طرح نماز پڑھے جیسے امام پڑھتا ہے، معمر کہتے ہیں اگر انسان کا خطبہ فوت ہو جائے یا عیدالفطر کی نماز یا عید الاضحی کی نماز اور وہ بعد میں حاضر ہو تو وہ دو رکعت ادا کرے گا
(مصنف عبد الرزاق 3/300-301 )

📚وروى ابن أبي شيبة أيضاً بإسناده عن الحسن البصري قال :[ فيمن فاته العيد يصلي مثل صلاة الإمام.
اور ابن ابی شیبہ نے حسن بصری رحمہ اللہ سے اسی طرح نقل کیا ہے کہ جسکی عید کی نماز فوت ہو جائے تو وہ امام کی طرح نماز پڑھے گا،

 

📚وروى أيضاً عن إبراهيم النخعي قال : إذا فاتتك الصلاة مع الإمام فصل مثل صلاته ]. قال إبراهيم :[ وإذا استقبل الناس راجعين فلتدخل أدنى مسجد ثم فلتصل صلاة الإمام ومن لا يخرج إلى العيد فليصل مثل صلاة الإمام ]. وروى عن حماد في من لم يدرك الصلاة يوم العيد قال :[ يصلي مثل صلاته ويكبر مثل تكبيره ] مصنف ابن أبي شيبة 2/183-184 .
اور اسی طرح یہ روائیت کی گئی ہے امام  ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے کہ وہ فرماتے ہیں،جب تیری نماز امام کے ساتھ فوت ہو جائے تو تو نماز پڑھ امام کی طرح ہی، (یعنی اتنی ہی) اور ابرہیم کہتے ہیں جب وہ لوگوں کو واپس آتے دیکھتے تو وہ کہتے کہ تو قریبی مسجد میں داخل ہو اور امام کی طرح (دو رکعت عید کی) نماز پڑھ، اور جو عیدگاہ کی طرف نا جانے وہ بھی امام کی طرح عید کی نماز پڑھ لے،
اور حماد سے روایت ہے اس بارے کہ جو عید کی نماز نا پا سکے،
وہ کہتے ہیں کہ وہ انہی (امام) کی طرح نماز پڑھے اور انہیں کی طرح زائد تکبیرات کہے (عید کی نماز میں)
 

📚وبمقتضى هذه الآثار قال جمهور أهل العلم أن من فاتته صلاة العيد صلى ركعتين كما صلى الإمام مع التكبيرات الزوائد . ومن العلماء من قال : يصليها أربعاً واحتج بأثر وارد عن عبد الله بن مسعود رضي
الله عنه أنه قال : من فاته العيد فليصل أربعاً ] ولكنه منقطع كما قال الشيخ الألباني في إرواء الغليل 3/121 .
اور ان تمام آثار کا تقاضا ہے کہ جمہور اہل علم نے کہا ہے کہ جسکی عید کی نماز فوت ہو جائے تو وہ دو رکعت عید کی نماز پڑھے گا جس طرح امام زائد تکبیرات کے ساتھ دو رکعت پڑھتا ہے،
اور بعض علماء نے جو یہ کہا ہے کہ وہ چار رکعت پڑھے گا تو وہ اس دلیل کی بنا پر کہتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جسکی عید کی نماز فوت ہو جائے تو وہ چار رکعت ادا کرے،
 لیکن اس روایت کی سند منقطع ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے إرواء الغليل میں کہا ہے،

 
📚قال الشيخ ابن قدامة المقدسي:
[وإن شاء صلاها على صفة صلاة العيد بتكبير ، نقل ذلك عن أحمد إسماعيل بن سعد واختاره الجوزجاني وهذا قول النخعي ومالك والشافعي وأبي ثور وابن المنذر لما
روي عن أنس : أنه كان إذا لم يشهد العيد مع الإمام بالبصرة جمع أهله ومواليه ثم قام عبد الله بن أبي عتبة مولاه فصلى بهم ركعتين يكبر فيهما ولأنه قضاء صلاة فكان على صفتها كسائر الصلوات وهو
إن شاء صلاها وحده وإن شاء في جماعة . قيل لأبي عبد الله : أين يصلي ؟ قال : إن شاء مضى إلى المصلى وإن شاء حيث شاء ] المغني 2/290.
شیخ ابن قدامہ مقدسی کہتے ہیں
اور اگر وہ چاہتا ہے کہ وہ عید کی طرح زائد تکبیرات کے ساتھ نماز پڑھے تو وہ اسی طرح سے پڑھ لے،
نقل کیا ہے اس قول کو احمد اسماعیل بن سعد سے، اور اس قول کو اختیار کیا ہے جوزجانی نے، اور یہی امام نخعی کا قول  ہے، اور یہی قول مالک، شافعی، ابی ثور اور  ابن منذر رحمھما اللھم کا ہے،
اور انس رض سے مروی ہے کہ جب وہ بصرہ میں امام کے ساتھ عید کی نماز میں حاضر نا ہو پاتے تو وہ اپنے اہل وعیال اور غلاموں کو جمع کرتے اور پھر عبداللہ بن ابی عتبہ جو انکا غلام تھا وہ کھڑا ہوا اور انکو دو رکعتیں نماز پڑھائی، اور انکے اندر تکبیرات بھی کہیں،
اور کیونکہ یہ نماز کی قضائی ہے تو یہ اسی طریقے پر ہو گی جس طرح اصل نماز پڑھی جاتی ہے، اور اگر وہ اکیلا پڑھنا چاہے تو اکیلا پڑھ لے اور اگر چاہے تو جماعت سے پڑھ لے،
اور ابی عبداللہ کے لیے کہا گیا کہ وہ کہاں پر عید کی (قضا) نماز پڑھے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ چاہے تو عیدگاہ میں چلا جائے اور چاہے تو جہاں مرضی پڑھ لے،
 
📚ونقل القرافي أن مذهب الإمام مالك كما في المدونة أنه يستحب لمن فاتته صلاة العيد مع الإمام أن يصليها على هيئتها .
(الذخيرة 2/423 )
اور اسی طرح قرافی نے نقل کیا ہے کہ امام مالک کا مذھب یہ ہے جیسے کہ مدونہ میں ہے  کہ جس کی عید کی نماز امام کے ساتھ پڑھنے سے رہ جائے تو وہ اسی طرح اس کی اصل پر نماز پڑھے جیسے عید کی نماز پڑھی جاتی ہے

 
📚وقال الإمام الشافعي:
[ونحن نقول: إذا صلاها أحد صلاها كما يفعل الإمام يكبر في الأولى سبعاً وفي الآخرة خمساً قبل القراءة ]
(معرفة السنن والآثار 5/103)
ترجمہ:
اور امام شافعی کہتے ہیں کہ ہمارا قول یہ ہے کہ جب وہ اکیلا ( عید کی قضاء) نماز پڑھے گا تو تو وہ اسی طرح نماز پڑھے گا جس طرح امام پڑھتا ہے، پہلی رکعت میں سات تکبیرات کہے گا اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہے گا قرآت سے پہلے،

📚وذكر المرداوي الحنبلي أن المذهب عند الحنابلة هو أنها تقضى على صفتها . (الإنصاف 2/433 )
ترجمہ:
اور مرداوی حنبلی نے بھی  ذکر کیا ہے کہ حنبلی مسلک بھی یہ ہے کہ وہ عید کی نماز اسی طریقے پر قضا پڑھے گا،

📒بارش کی شدت کے باعث علامہ البانی رحمہ اللہ کااپنےگھر والوں کو جمع کرکے عید پڑھتے تھے،

صلاة العلامة الألباني العيد في منزله لتعذّر الوصول إلى المصلّى.
ذكرت إحدى زوجات العلامة الألباني رحمه الله: أنه في يوم عيد كانت السماء تمطر مطراً شديداً، ولا سبيل للوصول إلى المصلّى إلا بمشقة.
*فجمع الشيخ الألباني أهلَه في البيت وصلّى ركعتين مع التكبيرات، ثم خطب بهم خطبة.*
( كناشة البيروتي (4/1943)

________&________

*سعودی فتاویٰ کمیٹی کا فتویٰ*

📚واختارت هذا القول اللجنة الدائمة للإفتاء بالسعودية برئاسة العلامة الشيخ عبد العزيز بن باز – رحمه الله –
فقد جاء في فتواها:
[ومن فاتته وأحب قضاءها استحب له ذلك فيصليها على صفتها من دون خطبة بعدها وبهذا قال الإمام مالك والشافعي وأحمد والنخعي وغيرهم من أهل العلم،
والأصل في ذلك قوله صلى الله عليه وسلم : ( إذا أتيتم الصلاة فامشوا وعليكم السكينة والوقار فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فاقضوا ) وما روي عن أنس رضي الله عنه أنه كان إذا فاتته صلاة العيد مع الإمام جمع أهله ومواليه ثم قام عبد الله بن أبي عتبة مولاه فيصلي بهم ركعتين يكبر فيهما . ولمن حضر يوم العيد والإمام يخطب أن يسـتمع الخطبة ثم يقضي الصلاة بعد ذلك حتى يجمع بين المصلحتين ] (فتاوى اللجنة الدائمة 8/306 )
ترجمہ:
سعودی فتاویٰ کمیٹی الجنة دائمہ نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے جس  کے سرپرست شیخ عبداللہ بن باز رحمہ اللہ ہیں، وہ اپنے فتویٰ میں کہتے ہیں کہ جسکی عید کی نماز رہ جائے تو وہ اسی طریقے پر پڑھے گا جس طرح عید کی نماز پڑھی جاتی ہے لیکن(تنہا کیلے) اس میں خطبہ نہیں ہو گا ، اور امام مالک، شافعی، احمد اور نخعی اور دوسروں کا قول ہے اور علماء میں سے دیگر اہل علم کا بھی یہی قول ہے،
اور اصل میں یہ قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے جب تم نماز كے ليے آؤ تو تم وقار اور سكون سے آؤ جو تمہيں مل جائے اسے ادا كرو، اور جو رہ جائے اس كى قضاء كرو "
اور انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:" جب ان كى امام كے ساتھ نماز عيد رہ جاتى تو وہ اپنے اہل و عيال اور غلاموں كو جمع كيا پھر ان كے غلام عبد اللہ بن ابى عتبہ اٹھ كر انہيں دو ركعت پڑھاتے اور ان ميں تكبريں كہتے.
جو شخص عيد كے روز آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو وہ خطبہ سنے اور پھر اس كے بعد نماز ادا كرے تا كہ دونوں مصلحتوں كو جمع كر سكے"

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.
اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے. انتہى

مستقل فتوى اينڈ علمى ريسرچ كميٹى.
الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز.
الشيخ عبد الرزاق عفيفى.
الشيخ عبد اللہ بن غديان.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 306 )

*ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ ویسے تو عیدگاہ جا کر تمام مرد و عورت اجتماعی نماز ادا کریں، لیکن کسی عذر بارش،یا خوف وغیرہ یا کسی وجہ سے عیدگاہ نا جا سکیں یا تاخیر سے پہنچیں تو اپنے گاؤں محلے کی مسجد یا کسی کھلی جگہ یا گھر میں بھی کچھ افراد اکٹھے ہو کر عید کی نماز پڑھ سکتے ہیں، طریقہ وہی ہو گا پہلے نماز اور پھر خطبہ،اور اگر کوئی اکیلا شخص عیدگاہ نہیں پہنچ پایا یا کسی جگہ کوئی خطبہ دینے والا نہیں تو وہ بغیر خطبہ کے جماعت ساتھ یا تنہا ہی عید کی نماز دو رکعت زائد تکبیرات کے ساتھ پڑھ لیں،اور اگر کوئی اس وقت عیدگاہ پہنچے کہ نماز کی جماعت ہو رہی ہو تو وہ اسی وقت شامل ہو جائے نماز میں اور جتنی نماز رہ جائے اسکو امام کے سلام کے پھیرنے کے بعد پوری کر لے،*

((( واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب )))

📚قضائے عمری کا کیا حکم ہے؟ جس شخص کی بھول سے یا جان بوجھ کر بہت سی نمازیں رہ جائیں تو وہ انکی قضا کیسے دے گا؟
((دیکھیں سلسلہ نمبر-122))

📚(عیدین کی نماز عیدگاہ یا مسجد اور گھر میں بھی پڑھ سکتے ؟ نیز نماز عید کا مسنون طریقہ کیا ہے؟دیکھیں، سلسلہ نمبر-124)

📚(قربانی کے مسائل کے بارے مزید جاننے کیلئے دیکھیں سلسلہ نمبر-59 تا 77)

📚رمضان کے مسائل کے لیے دیکھیں سلسلہ نمبر-108 سے لیکر 126 تک)

📲اپنے موبائل پر خالص قرآن و حدیث کی روشنی میں مسائل حاصل کرنے کے لیے "ADD" لکھ کر نیچے دیئے گئے نمبر پر سینڈ کر دیں،

📩آپ اپنے سوالات نیچے دیئے گئے نمبر پر واٹس ایپ کر سکتے ہیں جنکا جواب آپ کو صرف قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا جائیگا,
ان شاءاللہ۔۔!!

⁦  سلسلہ کے باقی سوال جواب پڑھنے۔ 📑
     کیلیئے ہماری آفیشل ویب سائٹ وزٹ کریں

یا ہمارا فیسبک پیج دیکھیں::

یا سلسلہ نمبر بتا کر ہم سے طلب کریں۔۔!!

*الفرقان اسلامک میسج سروس*

آفیشل واٹس ایپ نمبر
                   +923036501765

آفیشل ویب سائٹ
http://alfurqan.info/

آفیشل فیسبک پیج//
https://www.facebook.com/Alfurqan.sms.service2/

Share:

Translate

youtube

Recent Posts

Labels

Blog Archive

Please share these articles for Sadqa E Jaria
Jazak Allah Shukran

Most Readable

POPULAR POSTS